لاہور
پاکستانی شہر اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
پاکستانی شہر اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
لاہور (پنجابی: لہور، شاہ مکھی: ਲਹੌਰ؛ عربی: لاهور؛ فارسی: لاهور ؛ انگریزی: Lahore) صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور فہرست پاکستان کے گنجان آباد شہر سب سے بڑا شہر ہے۔ [9] اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔ [10]
لاہور رابجان برابر خریدہ ایم | جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم |
لہور Lahore | |
---|---|
میٹروپولس | |
سرکاری نام | |
گھڑی وار اوپر سے: قلعہ لاہور، شالامار باغ، عجائب گھر، لاہور، بادشاہی مسجد، قائداعظم لائبریری، مینار پاکستان۔ | |
پاکستان میں مقام | |
متناسقات: 31°32′59″N 74°20′37″E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب |
ضلع | ضلع لاہور |
میٹروپولیٹن کارپوریشن | 2013 |
وجہ تسمیہ | لو [1][2][3] |
سٹی کونسل | لاہور |
ٹاؤن | 10 |
حکومت | |
• ناظم لاہور | مبشر جاوید |
• نائب ناظم لاہور | 9 زونل میئر |
رقبہ[4] | |
• کل | 550 کلومیٹر2 (210 میل مربع) |
بلندی | 217 میل (712 فٹ) |
آبادی (خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء)[5] | |
• کل | 11,126,285 (صوبائی) |
• کثافت | 20,205/کلومیٹر2 (52,418/میل مربع) |
نام آبادی | لاہوری ،لاہوریے |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
ڈاک رمز | 54000 |
ڈائلنگ کوڈ | 042[6] |
خام ملکی پیداوار | $58.14 بلین (2014)[7] |
انسانی ترقیاتی اشاریہ | 0.71 (2012 کے اعداد و شمار کے مطابق)[8] |
انسانی ترقیاتی اشاریہ زمرہ | اعلیٰ |
لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجا لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ [11][12][13] دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعد ازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ 1290ء میں خلجی خاندان، 1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔ [14]
ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دی جس کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت وجود میں آئی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں عظیم الشان عمارات تعمیر کروائیں اور کئی باغات لگوائے۔ اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ [15] 1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔ [16] 1673ء میںاورنگزیب عالمگیر نے شاہی قلعہ کے سامنے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔ [17][18]
1739ء میں نادر شاہ اور 1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا۔ بعد ازاں 1765ء میں سکھوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ سکھ دور میں مغلیہ دور کی کئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔ انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا۔ [14]
لاہور کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کے زیر صدارت قرارداد پاکستان منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک پاکستان حاصل ہوا۔ [19] فروری 1974ء میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی بھی کی۔ [20]
قدیم لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے جسے اندرون لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جو سکھوں کے دور تک غروب آفتاب کے ساتھ بند کر دیے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ دروازے اب بھی موجود ہیں۔ تیرہ دروازوں کے نام بھاٹی دروازہ، لوہاری دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، موچی دروازہ، اکبری دروازہ، یکی دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، کشمیری دروازہ، مستی دروازہ، دہلی دروازہ، روشنائی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، موری دروازہ ہیں۔ [21][22]
بیسویں صدی میں قدیم لاہور کے مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ اردو کے نامور مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنے مضمون لاہور کا جغرافیہ میں اس کا حدود اربعہ یوں بیان کیا ہے۔ [23]
” | کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدوداربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبہ کی سہولت کے ليے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔ | “ |
لاہور کے قریب شہر امرتسر، صرف 31 میل دور واقع ہے جو سکھوں کی مقدس ترین جگہ ہے۔ اس کے شمال اور مغرب میں ضلع شیخوپورہ، مشرق میں واہگہ اور جنوب میں ضلع قصور واقع ہیں۔ دریائے راوی لاہور کے شمال مغرب میں بہتا ہے۔ [24]
اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے لو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ لیکن یہ روایت صرف سجان سنگھ نے خلاصتہ التواریخ میں درج کی کے اور باقی اب نے اسی سے نقل کی اور یہ معروف ہوگی. جبکہ صاحب تحفتہ الواصلین شیح احمد زنجانی نے اس روایت کا رد کیا ہے۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ [11][12][13] راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ [25][26]
مختلف کتب میں لاہور کے درج ذیل نام ملتے ہیں.
-اس موضوع پر تفصیلی بحث ڈاکٹر محمد باقر صاحب نے کی اہل ذوق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں.
لاہور کی ابتدائی تاریخ کا کوئی حتمی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور لاہور کے مبہم تاریخی پس منظر نے اس کے قیام اور تاریخ کے بارے میں مختلف نظریات کو جنم دیا ہے۔ ہندو روایات کے مطابق کینیکسن، سوریا ونش کا بانی، شہر سے ہجرت کر گیا تھا۔ [27] لاہور کے ابتدائی ریکارڈ بہت کم ہیں، لیکن سکندر اعظم کے مورخین نے 326 قبل مسیح میں اس کے حملے کے دوران میں لاہور کے محل وقوع کے قریب کسی شہر کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک شہر کی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی یا یہ غیر قابل ذکر تھا۔ [28]
زبانی روایات پر مبنی ایک افسانوی روایات کے مطابق لاہور ، جو قدیم زمانے میں لاواپوری ( سنسکرت میں لاوا کا شہر) کے نام سے جانا جاتا تھا ، [29] کی بنیاد شہزادہ لاوا ، [30] سیتا اور رام کے بیٹے نے رکھی تھی۔ قصور کی بنیاد ان کے جڑواں بھائی شہزادہ کوشا نے رکھی تھی۔ [31] آج تک ، لاہور قلعے میں ایک خالی لاوا مندر ہے جو لاوا کے لیے وقف ہے (جسے لوہ بھی کہا جاتا ہے ، لہذا لوہ آوار یا "لوہ کا قلعہ")۔ [32]
بطلیموس نے اپنے جغرافیہ میں دریائے چناب اور دریائے راوی کے قریب واقع لبوکلا کے نام سے ایک شہر کا ذکر کیا ہے جو قدیم لاہور کے حوالے سے ہو سکتا ہے یا اس شہر کا ایک ترک شدہ پیشرو تھا۔ [33] چینی زائر ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے ہیون سانگ کا سفرنامہ ہند میں ایک بڑے اور خوش حال بے نام شہر کی واضح وضاحت کی جو لاہور ہو سکتا ہے جب اس نے 630 عیسوی میں ہندوستان کے دورے کے دوران میں اس خطے کا دورہ کیا تھا۔ [34] ہیون سانگ نے شہر کو، پھر تانک کے دور حکومت میں، ایک عظیم براہمن شہر کے طور پر بیان کیا۔
پہلی دستاویز جس میں لاہور کا نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے وہ حدود العالم ("دنیا کے خطے") ہے، جو 982 عیسوی میں لکھی گئی، [35] جس میں لاہور کا ذکر ایک ایسے قصبے کے طور پر کیا گیا ہے جو "متاثر کن" تھا، جہاں مندر، بڑے بازار اور بڑے باغات" موجود تھے۔ [36][37]
لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گذرا۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر واقع ہونا جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتوح البلدان" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔
علامہ احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری اپنی کتاب فتوح البلدان میں تحریر کرتے ہیں:
” | ثم غزا ذلك الثغر المهلب بن أبي صفرة في أيام معاوية أربع وأربعين۔فأتى بنة وألاهور وهما بين الملتان وكابل" فتوح البلدان (عربی)
ترجمہ: پھر سن 42ھ میں کہ معاویہ بن ابی سفیان کا عہد تھا مہلب بن ابی صفرہ نے اس سرحد (ہند) پر حملہ کیا اور بنّہ و الاہور تک جا پہنچے۔ یہ دونوں شہر ملتان و کابل کے درمیان میں ہیں۔ (فتوح البلدان۔ البلاذری ـ ترجمہ سید ابو الخیر مودودی ـ نفیس اکیڈمی کراچی۔ صفحہ 613) |
“ |
ساتویں صدی عیسوی کے اواخر میں لاہور ایک گجر چوہان بادشاہ کا پایہ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق 682ء میں کرمان اور پشاور کے مسلم پٹھان قبائل راجا پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجا سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔
نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لیے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔ دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دار سبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجا جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لیے آیا۔ ایک بھٹی راجا کے مشورے پر راجا جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجا جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجا جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لیے ہرکارے راجا کے ہمرکاب کیے۔ لاہور پہنچ کر راجا نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیظ و غضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دل برداشتہ ہو کر راجا جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجا کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور 1008 عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لیے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاً کچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔
آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022ء تک برقرار رہی حتٰی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر میں پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لیے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نے شہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر معروف ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں (1098ء ۔ 1114ء) دار الحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186ء میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلامان کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397ء میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاہور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکھڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436ء میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لیے مغل شہزادے بابر کو پکارا۔
تاریخ گواہ ہے کہ لاہور کو پہلے عروس البلد لاہور بھی کہتے تھے۔ اور یہ علاقہ ملتان کی عظیم سلطنت کا حصہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت ملتان کی سرحدیں ساحل سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔
بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ ہوا جس میں بابر فتحیاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسے دولت خان لودھی کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاہور کی جانب بڑھا اور مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِ انتظام کرکے کابل واپس ہوا۔
اگلے برس لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاہور ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لیے سامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاہور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتدا لاہور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔
1540ء میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ نومبر 1556ء میں ہمایوں کے بیٹے اکبر کی افواج نے پانی پت کے میدان میں سوری افواج کو شکست دی اور پھر جلد ہی دہلی اور پھر آگرہ پر قبضہ کر لیا۔ [38][39]
1575ء میں اکبر کے قلعہ لاہور کی از سر نو تعمیر کی اور لاہور کو سلطنت کا دار الحکومت بنایا۔ [40] اس کے بعد شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر نے بھی اپنے ادوار میں قلعے میں توسیع اور عمارات تعمیر کیں۔ [41][42] 1641ء میں شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا۔ 1673ء اورنگزیب عالمگیر نے قلعہ لاہور کے سامنے عظیم الشان بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔ اس کے علاوہ مغل دور میں کئی عالی شان عمارات اور باغات لگوائے گئے۔
اندرون لاہور جسے قدیم لاہور بھی کہا جاتا ہے کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے۔ انگریزوں کے دور میں شہر اور قلعہ لاہور کے حفاظتی حصار کو ناکارہ بنا دیا گیا۔
سترہویں صدی کے دوران میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ لاہور پر اکثر پر حملہ کیا جاتا رہا،حکومتی عملداری کا فقدان رہا۔ 1761ء تک احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کی باقیات سے پنجاب اور کشمیر چھین لیا۔ [43] پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے اسی مناسبت سے کہا
” | کھادا پیتا وادے دا باقی احمد شاہے دا | “ |
بعد ازاں سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری حکمران خطے کے مختلف حصوں کے حکمران رہے۔ صوفیاء کی آمد کی وجہ سے لاہور کا علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ بن گیا۔ [44] 1740ء کی دہائی افراتفری کی رہی۔ 1745ء سے 1756ء کے درمیان میں شہر کے نو گورنر رہے۔ 1756ء سے پانی پت کی تیسری لڑائی تک جو احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں درمیان میں ہوئی لاہور اور پشاور مرہٹوں کے قبضے میں رہے۔ تاہم مرہٹوں کو شکست دہنے کے بعد احمد شاہ ابدالی واپس افغانستان چلا گیا جس سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ 1801ء میں رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں کے بارہ مثل متحد ہو کر ایک نئی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ [45]
افغان درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ درانی نے جنوری 1748ء میں لاہور پر قبضہ کیا تھا۔ [34] احمد شاہ درانی کی فوری پسپائی کے بعد، مغلوں نے لاہور کو معین الملک میر منوں کے حوالے کر دیا۔ [34] احمد شاہ درانی نے 1751ء میں دوبارہ حملہ کیا، میر منوں کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس نے لاہور کو افغان حکمرانی کے حوالے کر دیا۔ [34] مغل وزیر غازی دین عماد الملک نے 1756ء میں لاہور پر قبضہ کر لیا، احمد شاہ درانی کو 1757ء میں دوبارہ حملہ کرنے پر اکسایا، جس کے بعد اس نے شہر کو اپنے بیٹے تیمور شاہ درانی کے ماتحت کر دیا۔ [34]
درانی حکمرانی میں اس وقت خلل پڑا جب 1758ء میں مرہٹوں نے افغانوں کے خلاف اپنی مہمات کے دوران رگھوناتھ راؤ کے تحت لاہور پر مختصر طور پر قبضہ کر لیا جس نے افغانوں کو بھگا دیا تھا۔ [46] اگلے سال، ایک مشترکہ سکھ-مرہٹہ فورس نے جنگ لاہور (1759ء) میں ایک افغان حملے کو شکست دی۔ [47] پانی پت کی تیسری جنگ کے بعد، احمد شاہ درانی نے مرہٹوں کو شکست دی اور لاہور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ 1765ء میں درانیوں کے شہر سے دستبردار ہونے کے بعد، سکھ افواج نے جلدی سے شہر پر قبضہ کر لیا۔ [34] درانیوں نے شاہ زمان خان کے دور میں 1797ء اور 1798ء میں مزید دو بار حملہ کیا، لیکن دونوں حملوں کے بعد سکھوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ [34]
شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں بھی سکھ مت اتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائے پنجاب یعنی لاہور کی بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے [48]۔ سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر ادی گرنتھ میں ترامیم سے گرو ارجن کے انکار پر ، اس نے خسرو کو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا [49] اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء تا 1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کر دیا تھا جس کے رد عمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر آزاد کر دیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دیکر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کر دیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا۔ شاہجہان کے دور (1628ء تا 1658ء) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اور ہرگوبند نے امرتسر سے بھاگ کر کرتار پور میں سکونت اختیار کی۔ اورنگزیب کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خود مختاری سے جوڑ دیا گیا۔ تیغ بہادر کے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے [50]۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی۔ درانی سلطنت اور مراٹھا سلطنت کی طرف سے بار بار حملے پنجاب میں اقتدار کے خلا کا باعث بنے۔ سکھ مثلوں کی درانی سلطنت سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور آخر کار بھنگی مثل لاہور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1799ء میں زمان شاہ درانی کے حملے کے بعد خطہ مزید غیر مستحکم ہو گیا جس کے نتیجے میں رنجیت سنگھ کو اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ رنجیت سنگھ کا زمان شاہ درانی کے ساتھ جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں رنجیت سنگھ بھنگی مثل اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے کامیاب ہوا اور خطہ سکھوں کے زیر انتظام آ گیا۔ [51] لاہور قبضہ کرنے کے بعد سکھ فوج نے فوری طور پر شہر میں لوٹ مار شروع کر دی جو رنجیت سنگھ کے باشاہ بننے کے اعلان تک رہی۔ [52] اس کے بعد سے لاہور سکھ سلطنت کا دار الحکومت بنا۔
مغلیہ دور کے لاہور کی عالی شان عمارات اٹھارویں صدی اواخر میں کھنڈر بن گئیں۔ سکھ حکمرانوں نے لاہور کی قیمتی مغل یادگاروں کو لوٹا اور قیمتی مرصع پتھر اور سفید سنگ مرمر اتار کر سکھ سلطنت کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔ [53] اس لوٹ مار کا شکار اہم یادگاروں میں مقبرہ آصف خان، مقبرہ انارکلی اور مقبرہ نور جہاں شامل ہیں۔ [54] شالامار باغ کا تمام سنگ مرمر اتار کر امرتسر میں رنجیت سنگھ کے رام باغ محل کی تعمیر کے لیے بجھوا دیا گیا۔ باغات کا عقیق دروازہ لہنا سنگھ مجیٹھا جو سکھ دور کے لاہور کے گورنروں میں سے ایک تھا نے فروخت کر دیا۔ [55] رنجیت سنگھ کی فوج نے لاہور میں سب سے اہم مغل مساجد کی بے حرمتی بھی کی۔ بادشاہی مسجد کو ایک اسلحہ ڈپو اور رنجیت سنگھ کے گھوڑے کے اصطبل میں تبدیل کر دیا گیا۔ [56] اندرون لاہور کی سنہری مسجد کو ایک مدت کے لیے گردوارہ میں تبدیل کر دیا گیا،[57] جبکہ مریم زمانی بیگم مسجد کو ایک بارود فیکٹری بنا دیا گیا۔ [58]
سکھ سلطنت کے تحت تعمیر نو کا کام مغلوں سے متاثر ہو کر کیا گیا، رنجیت سنگھ خود لاہور قلعہ میں منتقل ہو گیا اور سکھ سلطنت کے انتظام کے لیے اسے مرکز بنایا۔ [59] 1812ء تک سکھوں نے اکبر کے زمانے کی اصل دیواروں کے ارد گرد بیرونی دیواریں بنا کر شہر کا دفاع مضبوط بنایا۔ اس کے علاقہ شاہجہان کے تنزل پزیر شالامار باغ کو بھی جزوی طور پر بحال کیا۔
سید احمد بریلوی نے 1821ء میں سکھ سلطنت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں تحریک مجاہدین وجود میں آئی۔ سکھوں سے حاصل کردہ مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر 1831ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی افواج سے لڑتے ہوئے بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور ان کے بعض رفقا نے جامِ شہادت نوش کیا۔ [60]
برطانوی راج کے آغاز میں لاہور کی آبادی کا تخمینہ 120،000 تھا۔ [61] برطانوی قبضہ سے لاہور بنیادی طور پر شہر کے فصیل کے اندر اور کچھ نواحی میدانی علاقے کے بستیوں جس میں باغبانپورہ، بیگم پورہ، مزنگ اور قلعہ گجر سنگھ پر مشتمل تھا۔ برطانوی دور میں اندرون لاہور پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی او ان کی تمام تر توجہ لاہور کے مضافاتی علاقوں اور خطۂ پنجاب کے زرخیز دیہی علاقوں پرمرکوز رہی۔ [62] انگریزوں نے اندرون شہر کی بجائے شہر کے جنوب میں ایک علاقے کو اپنا مرکز بنایا جسے "سول اسٹیشن" کہا جاتا تھا۔ [63] اس کے علاوہ شہر کی فصیل اور قلعہ لاہور کی فصیل کو غیر موثر کر دیا تا کہ کوئی قلعہ بندی ممکن نہ رہے۔
ابتدائی برطانوی دور میں "سول اسٹیشن" میں واقع ممتاز مغل دور کی یادگاروں کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور کبھی کبھی ان کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ مقبرہ انارکلی کو ابتدائی طور پر دفاتر کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ 1851ء میں اسے ایک گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ [64] اسی دور میںدائی انگہ مسجد کو ریلوے انتظامیہ کے دفاتر میں تبدیل کیا گیا۔ مقبرہ نواب بہادر خان کو ایک گودام میں اور مقبرہ میر مانو کو ایک شراب کی دکان میں تبدیل کر دیا گیا۔ [65] اس کے علاوہ انگریزوں نے کئی دیگر عمارتوں کو سول سیکرٹریٹ، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے لیے استعمال کیا۔ [66]
1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر قرار دیتے ہیں کے بعد شہر سے باہر لاہور ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا۔ اس کے ڈھانچے قلعے کے انداز میں موٹی دیواروں میں توپیں داغنے کے سوراخوں کے ساتھ دفاع حکمت عملی کے تحت تعمیر کیا۔ تا کہ مستقبل میں ممکنہ بغاوت کی صورت میں ایک محفوظ حصار کے طور پر کام آ سکے۔ [67] برطانوی دور کے اہم سرکاری ادارے اور تجارتی مراکز سول اسٹیشن کے ڈیڑھ میل کے علاقے میں مرکوز رہے اور اسی کے پہلو میں مال روڈ بنائی گئی جہاں لاہور کے فوجی علاقوں کے برعکس برطانوی اور مقامی لوگوں کے اختلاط کی اجازت دی گئی۔ [68] مال روڈ لاہور کی شہری انتظامیہ کے مرکز کے ساتھ جدید تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔
برطانوی راج کے دوران میں مال روڈ پر کئی قابل ذکر ڈھانچے تعمیر کیے گئے جن میں منٹگمری ہال جو موجودہ دور میں قائداعظم لائبریری ہے اور لارنس گارڈنز اہم ہیں۔ [69] باغات میںلندن کے رائل بوٹینک گارڈنز سے بھیجے گئے 600 سے زیادہ اقسام کے درخت اور پودے اگائے گئے۔ [70] اس کے علاوہ انگریزوں نے وسیع علاقے پر لاہور کنٹونمنٹ کی بنیاد بھی رکھی۔ [71]
1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کئی اہم عمارات تعمیر کی گئیں جن میں لاہور عجائب گھر اور میو اسکول آف آرٹس سب سے اہم ہیں۔ [72] دیگر اہم عمارات میں ایچیسن کالج، لاہور ہائی کورٹ اور یونیورسٹی آف پنجاب قابل ذکر ہیں۔ لاہور میں اس دور کی اہم عمارت کا ڈیزائن سر گنگا رام نے بنایا۔ [73]
1901ء میں انگریزوں نے لاہور میں مردم شماری کروائی جس کے مطابق فصیل دار شہر میں 20،691 گھرتھے [74] اور ایک اندازے کے مطابق 200،000 افراد لاہور میں مقیم تھے۔ [61] تحریک آزادی ہند میں لاہور کا بہت اہم کردار رہا۔ 1940ء میں محمد علی جناح کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہو جس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ [75]
لاہور کا کردار تحریک پاکستان اور تحریک آزادی ہند میں نمایاں رہا۔ 1929ء میں جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں "مکمل آزادی" کی قرارداد پیش کی گئی جسے 31 دسمبر 1929ء کی آدھی رات کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ [76] اسی موقع پر ترنگا (درمیان میں چکرا سمیت) کو بھارت کے معاصر قومی پرچم کے طور پر لہرا گیا جسے ہزاروں لوگوں نے سلامی دی۔ لاہور جیل آزادی کے لیے لڑنے والوں کو حراست میں رکھنے کی ایک جگہ تھی۔ انقلابی بھگت سنگھ کو بھی لاہور جیل میں پھانسی دی گئی۔ [77]
قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 1940ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں پہلی مرتبہ دو قومی نظریہ پیش کیا گیا اور قرارداد لاہور منظور کی گئی۔
23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ء/1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔
کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔
پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔
غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔
اس دوران میں کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریسکے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی۔
اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔
اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہو گئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ' کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔
اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی بر سر اقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔
موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انھوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علاحدہ مملکتیں ہوں۔
دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انھیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل سنہ 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشان دہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علاحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
برطانوی راج سے آزادی کے بعد نئی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور لاہور اس کے صوبے پنجاب کا دار الحکومت بنا۔ آزادی کے موقع پر ہونے والے فسادات کی زد میں کئی لاہور کی کئی عمارات بھی آئیں۔ [78]
تقسیم ہند نے لاہور کی معیشت کو بہت کمزور کر دیا اور سماجی اور ثقافتی منظر نامے کو جو اس سے پہلے شہر کے ہندوؤں اور سکھوں نے تقویت بخشی تھی کافی حد تک معدوم کر دیا۔ [79] 1940ء کی دہائی کے آخر تک صنعتی پیداوار تقسیم سے پہلے کی سطح کے ایک تہائی تک گر گئی اور 1950ء تک اس کے صرف 27 فیصد مینوفیکچرنگ یونٹ کام کر رہے تھے اور عام طور پر صلاحیت سے بھی کم تھی۔ [79] کیپٹل فلائٹ نے شہر کی معیشت کو مزید کمزور کر دیا جبکہ کراچی صنعتی اور خوش حال ہو گیا۔
شہر کی کمزور معیشت اور بھارتی سرحد سے قربت کا مطلب یہ تھا کہ یہ شہر آزادی کے بعد پاکستانی دار الحکومت کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے کراچی کو تقسیم کے دور میں نسبتاً پر سکون، مضبوط معیشت اور بہتر انفراسٹرکچر کی وجہ سے دار الحکومت کے لیے منتخب کیا گیا۔ [79]
آزادی کے بعد، لاہور نے آہستہ آہستہ مغربی پنجاب کے معاشی اور ثقافتی مرکز کے طور پر اپنی اہمیت دوبارہ حاصل کی۔ شاہ عالمی بازار کی تعمیر نو کا آغاز 1949ء میں ہوا، جو اندرون لاہور کا سابقہ تجارتی مرکز تھا، یہاں تک کہ یہ 1947ء کے فسادات میں تباہ ہو گیا۔ [79] علامہ اقبال کا مقبرہ 1951ء میں اس فلسفی شاعر کے اعزاز کے لیے بنایا گیا تھا جنھوں نے تحریک پاکستان کو روحانی تحریک فراہم کی۔ [79]
1955ء میں لاہور کو تمام مغربی پاکستان کا دار الحکومت بنانے کے لیے منتخب کیا گیا جو 1970ء تک جاری رہنے والی واحد اکائی کی مدت میں تھا۔ اس کے فوراً بعد، لاہور کا مشہور مینار پاکستان 1968ء میں اس جگہ کو نشان زد کرنے کے لیے مکمل ہوا جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ [79] اقوام متحدہ کی حمایت سے، حکومت پاکستان لاہور کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کامیاب رہی اور تقسیم کے فرقہ وارانہ تشدد کے زیادہ تر داغوں کو دور کر دیا گیا۔
تنظیم تعاون اسلامی کے تحت دوسری سمٹ کانفرنس 1974ء کو لاہور میں منعقد ہوئی۔ [80]
1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میں لاہور بھی میدان جنگ بنا۔ 1996ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ہونے والے کرکٹ عالمی کپ کا فائنل میچ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا گیا۔ [81]
فصیل کے اندر شہر جسے اندرون لاہور کہا جاتا ہے لاہور کا قدیم ترین اور تاریخی حصہ ہے۔ 2009ء میں عالمی بنک کی مدد کے ساتھ اندرون لاہور کی اصل صورت میں بحالی کے لیے کام شروع کیا گیا۔ [82] 2012ء میں پائلٹ اربن کنزرویشن اینڈ انفراسٹرکچر امپروومنٹ پراجیکٹ — شاہی گزرگاہ پراجیکٹ حکومت پنجاب اور آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے شروع کیا جس نے شاہی گزرگاہ کے ایک حصے کو بحال کیا۔ والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے زیر انتظام وزیر خان مسجد اور دہلی دروازہ کے درمیان بحالی کا کام ہوا۔ یہ منصوبہ 2015ء میں ناروے اور ریاستہائے متحدہ کی حکومتوں کے تعاون سے مکمل ہوا تھا۔ [83]
لاہور اعلامیہ، ایک دو طرفہ معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین 21 فروری 1999ء کو طے پایا، اس معا یدے پر بھارت کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جبکہ پاکستان کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ لاہور میں تاریخی مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ [84] لاہور اعلامیہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، گو کہ اس معاہدے کی اہمیت مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں [85] کے تناظر میں نہایت واضع تھی لیکن مئی 1999ء میں شروع ہونے کارگل جنگ نے امن کے عمل کو دھچکا لگایا اور یہ اعلامیہ غیر موثر ہو کر رہ گیا۔
لاہور شہر کے شمال اور مغرب میں شیخوپورہ،مشرق میں واہگہ اور جنوب میں ضلع قصور واقع ہے۔دریائے راوی شہر کے شمال میں بہتا ہے اور شہر کا کُل رقبہ 404 مربع کلومیٹر (156 مربع میل) ہے۔ [24]
واہگہ (انگریزی: Wahgah – ہندی : वाघा - مشرقی پنجابی : ਵਾਘਾ) بھارت اور پاکستان کے امرتسر ، بھارت اور لاہور ، پاکستان کے درمیان میں پار سڑک ہے۔ ہر شام یہاں پرچم اتارنے کے تقریب ہوتی ہے جسے واہگہ بارڈر تقریب کہا جاتا ہے۔ [86]
دریائے راوی کی اہمیت لاہور کے لیے اس لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ شہر اسی کے کنارے آباد کیا گیا۔ قدیم وقتوں میں یہ شہر کے بیت قریب تھا اور شاہی قلعہ کے ساتھ بہتا تھا۔ جبکہ اب یہ اپنا رخ تبدیل کرنے کے بعد قدیم شہر کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔ [87][87][88]
بمباںوالی-راوی-بیدیاں نہر سے نکلتی ہے اور لاہور کے مشرق میں بہتی ہے۔ یہ 37 میل (60 کلومیٹر) طویل ہے۔ طویل آبی گذر گاہ ابتدائی طور پر مغلوں نے بنائی تھی جسے 1861ء میں انگریزیوں نے بہتر بنایا۔ [89]
لاہور | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
آب و ہوا چارٹ (وضاحت) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
لاہور کا موسم زیادہ تر نیم خشک ہوتا ہے، پورے سال گرم ترین مہینہ جون ہے جس میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر جاتی ہے۔ مون سون کا آغاز جون کے آخری ایام میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے پھر جولائی کے مہینے میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ سال کا سب سے ٹھنڈا مہینہ جنوری کا مہینہ ہوتا ہے۔ شہر میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 48 ڈگری 30 مئی 1944 کو اور 10 جون 2007 کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ [91][92]لاہور میں عام طور پر کبھی درجہ حرارت 0 ڈگری تک نہیں پہنچا لیکن 17 جنوری 1935 کے دن اس شہر کا درجہ حرارت منفی 2.2 ڈگری تک چلا گیا اور یہ لاہور کا اب تک کا سب سے کم درجہ حرارت ہے جو ریکارڈ کیا گیا۔
آب ہوا معلومات برائے لاہور (1961–1990) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 27.8 (82) |
33.3 (91.9) |
37.8 (100) |
46.1 (115) |
48.3 (118.9) |
47.2 (117) |
46.1 (115) |
42.8 (109) |
41.7 (107.1) |
40.6 (105.1) |
35.0 (95) |
30.0 (86) |
48.3 (118.9) |
اوسط بلند °س (°ف) | 19.8 (67.6) |
22.0 (71.6) |
27.1 (80.8) |
33.9 (93) |
38.6 (101.5) |
40.4 (104.7) |
36.1 (97) |
35.0 (95) |
35.0 (95) |
32.9 (91.2) |
27.4 (81.3) |
21.6 (70.9) |
30.8 (87.4) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 12.8 (55) |
15.4 (59.7) |
20.5 (68.9) |
26.8 (80.2) |
31.2 (88.2) |
33.9 (93) |
31.5 (88.7) |
30.7 (87.3) |
29.7 (85.5) |
25.6 (78.1) |
19.5 (67.1) |
14.2 (57.6) |
24.32 (75.78) |
اوسط کم °س (°ف) | 5.9 (42.6) |
8.9 (48) |
14.0 (57.2) |
19.6 (67.3) |
23.7 (74.7) |
27.4 (81.3) |
26.9 (80.4) |
26.4 (79.5) |
24.4 (75.9) |
18.2 (64.8) |
11.6 (52.9) |
6.8 (44.2) |
17.8 (64) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −2.2 (28) |
0.0 (32) |
2.8 (37) |
10.0 (50) |
14.0 (57.2) |
18.0 (64.4) |
20.0 (68) |
19.0 (66.2) |
16.7 (62.1) |
8.3 (46.9) |
1.7 (35.1) |
−1.1 (30) |
−2.2 (28) |
اوسط بارش مم (انچ) | 23.0 (0.906) |
28.6 (1.126) |
41.2 (1.622) |
19.7 (0.776) |
22.4 (0.882) |
36.3 (1.429) |
202.1 (7.957) |
163.9 (6.453) |
61.1 (2.406) |
12.4 (0.488) |
4.2 (0.165) |
13.9 (0.547) |
628.8 (24.757) |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 218.8 | 215.0 | 245.8 | 276.6 | 308.3 | 269.0 | 227.5 | 234.9 | 265.6 | 290.0 | 259.6 | 222.9 | 3,034 |
ماخذ#1: NOAA (1961–1990) [93] | |||||||||||||
ماخذ #2: PMD[94] |
لاہور، ورجینیا – ریاستہائے متحدہ امریکا میں اورنج کاؤنٹی، ورجینیا میں ایک چھوٹا شہر ہے۔ اس کا نام پاکستان کے صوبہ پنجاب کے قدیم تاریخی شہر لاہور کے نام ہر ہے جو 1850ء کی دہائی میں رکھا گیا۔ لاہور کے طول بلد 38.198N اور عرض بلد -77.969W ہے۔ یہ مشرقی معیاری منطقہ وقت میں ہے۔ اس کی بلندی 364 فٹ (111 میٹر) ہے۔ [95]
لوپ بوری تھائی لینڈ کے صوبے لوپ بوری کا دار الحکومت ہے۔ اس کا اصل نام لوو یا لوپوری تھا جو جس کے معنی لو کا شہر ہے جو قدیم جنوب ایشیائی شہر لو پورہ کے حوالے سے ہے جس کا موجودہ نام لاہور ہے۔ [96]
اندازوں کے مطابق، 1700ء میں لاہور کی آبادی 400,000 سے زیادہ تھی، [97] جب یہ مغلیہ سلطنت کا درجہ اول کا شاہی شہر تھا۔ یہ 1931ء تک دوبارہ اس سطح پر نہیں پہنچا۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی 6،318،745 تھی۔ ایک اندازے کے مطابق جنوری 2015ء میں لاہور کی آبادی 10،052،000ہو گی۔ [99] خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے نتائج نے لاہور کی آبادی کا تعین 11,126,285، [5] کیا جس میں 1998ء سے 4.07 فیصد کی سالانہ شرح نمو ہے۔ [100] صنفی لحاظ سے، آبادی کا 52.35% مرد، 47.64% خواتین اور 0.01% مخنث ہیں۔ [100] لاہور آبادی کے لحاظ سے ایک نوجوان شہر ہے، اس کے 40% سے زیادہ باشندوں کی عمریں 15 سال سے کم ہیں۔ [101]
خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق، لاہور کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں (94.7%) پر مشتمل ہے، جو تقریباً 1998ء کی مردم شماری کے برابر ہے اور 1941ء میں 60% سے زیادہ ہے۔ دیگر مذاہب میں مسیحی (5.14) شامل ہیں۔ 1998ء میں 5.80 فیصد سے تھوڑا کم اگرچہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق، وہ دیہی آبادی کا تقریباً 9.0 فیصد بنتے ہیں۔) [104]، پارسی، سکھ، احمدی، بہائی اور ہندو بھی قلیل تعداد میں موجود ہیں۔ یہاں ایک چھوٹی لیکن دیرینہ زرتشتی کمیونٹی بھی ہے۔
چونکہ لاہور سکھ مت کے کچھ مقدس مقامات پر مشتمل ہے، یہ سکھوں کے لیے ایک اہم یاتری مقام ہے۔ [105] لاہور کا پہلا چرچ شہنشاہ اکبر کے دور میں سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کیا گیا تھا، لیکن پھر اسے 1632ء میں شاہ جہاں نے مسمار کر دیا تھا۔ [106] لاہور میں رہنے والے ہندوؤں کی چند تعداد کی وجہ سے، شہر میں صرف دو فعال ہندو مندر ہیں شری کرشن مندر اور والمیکی مندر۔ [107]
مذہب گروہ |
1891[109]:68 | 1901[110]:44 | 1911[111]:20 | 1921[112]:23 | 1931[113]:26 | 1941[108]:32 | 2017[114] | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
آبادی | % | آبادی | % | آبادی | % | آبادی | % | آبادی | % | آبادی | % | آبادی | % | |
اسلام | 102,280 | 57.83% | 119,601 | 58.93% | 129,801 | 56.76% | 149,044 | 52.89% | 249,315 | 58.01% | 433,170 | 64.49% | 10,530,816 | 94.7% |
ہندو مت | 62,077 | 35.1% | 70,196 | 34.59% | 77,267 | 33.79% | 107,783 | 38.25% | 139,125[lower-alpha 2] | 32.37% | 179,422[lower-alpha 2] | 26.71% | 2,670 | 0.02% |
سکھ مت | 7,306 | 4.13% | 7,023 | 3.46% | 12,877 | 5.63% | 12,833 | 4.55% | 23,477 | 5.46% | 34,021 | 5.07% | — | — |
مسیحیت | 4,697 | 2.66% | 5,558 | 2.74% | 8,436 | 3.69% | 11,287 | 4.01% | 16,875 | 3.93% | 21,495 | 3.2% | 571,365 | 5.14% |
جین مت | 339 | 0.19% | 420 | 0.21% | 467 | 0.2% | 474 | 0.17% | 791 | 0.18% | 1,094 | 0.16% | — | — |
زرتشتیت | 132 | 0.02% | 166 | 0.08% | 198 | 0.09% | 177 | 0.06% | 150 | 0.03% | — | — | — | — |
یہودیت | 14 | 0% | — | — | 13 | 0.01% | 13 | 0% | 0 | 0% | — | — | — | — |
بدھ مت | 0 | 0% | 0 | 0% | 128 | 0.06% | 170 | 0.06% | 14 | 0% | — | — | — | — |
احمدیہ | — | — | — | — | — | — | — | — | — | — | — | — | 13,433 | 0.12% |
دیگر | 9 | 0.01% | 0 | 0% | 0 | 0% | 0 | 0% | 0 | 0% | 2,457 | 0.37% | 1,701 | 0.02% |
کل آبادی | 176,854 | 100% | 202,964 | 100% | 228,687 | 100% | 281,781 | 100% | 429,747 | 100% | 671,659 | 100% | 11,119,985 | 100% |
پنجابی زبان لاہور میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان ہے، خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق 80% لاہور اسے اپنی پہلی زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں۔ [116] لاہور دنیا کا سب سے بڑا پنجابی بولنے والا شہر ہے۔
اردو اور انگریزی کو سرکاری زبانوں اور ذریعہ تعلیم اور میڈیا انتظامیہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، پنجابی گریجویشن کی سطح پر بھی پڑھائی جاتی ہے اور لاہور کے تھیٹروں، فلموں اور اخبارات میں استعمال ہوتی ہے۔ [117][118] لاہور سے تعلق رکھنے والے کئی ممتاز تعلیمی رہنماؤں، محققین اور سماجی مبصرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجابی زبان کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے اور پنجاب صوبائی اسمبلی لاہور میں سرکاری طور پر استعمال کیا جائے۔ [119][120]
لاہور کو انتظامی حوالہ سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں تحصلیں۔ ٹاؤنز۔ یونین کونسلز اور دیگر انتظامی معاملات شامل ہیں۔ 1976سے پہلے لاہور تین تحصیلوں پر مشتمل تھا 1۔ تحصیل لاہور 2۔ تحصیل قصور 3۔ تحصیل چونیاں 1976ء میں جب قصور کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو چونیاں قصور کی تحصیل بن گیا اب لاہور شہر آبادی کے اعتبار سے پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے 1۔ تحصیل چھاؤنی 2۔ تحصیل شہر لاہور 3۔ تحصیل ماڈل ٹاؤن 4۔ تحصیل شالامار 5۔ تحصیل رائے ونڈ
اس کے علاوہ لاہور کو مزید انتظامی اعتبار سے دس یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں ٹاؤنز کہاجاتا ہے 1۔ راوی ٹاؤن 2۔ شالامار ٹاؤن 3۔ عزیز بھٹی ٹاؤن 4۔ داتا گنج بخش ٹاؤن 5۔ سمن آباد ٹاؤن 6۔ گلبرگ ٹاؤن 7۔ واہگہ ٹاؤن 8۔ علامہ اقبال ٹاؤن 9۔ نشتر ٹاؤن 10۔ چھاؤنی
ان دس ٹاؤنز کو مزید انتظامی سیاسی یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں یونین کونسلز کہا جاتا ہے۔ لاہور میں 2015کے بعد سے 274یونین کونسلز ہیں [121]
1۔ راوی ٹاؤن ضلعی حکومت نے جو دس ٹاؤن بنائے ہیں ان میں سب سے پہلا ٹاؤن راوی ٹاؤن ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ ٹاؤن زیادہ بڑا نہیں ہے راوی ٹاؤن میں 39 یونین کونسلز ہیں 1۔ بیگم کوٹ شاہدرہ 2۔ یوسف پارک 3۔ کوٹ کمبوہ 4۔ شمس آباد۔ شاہدرہ 5۔ چاہ چھبے والا 6۔ عزیز کالونی شاہدرہ 7۔ لاجپت 8۔ فیصل پارک 9۔ جاوید پارک 10۔ قیصر ٹاؤن 11۔ مجید پارک 12۔ قاضی پارک 13۔ راوی کلفٹن کالونی 14۔ لدھے شاہ 15۔ قلعہ لکشن سنگھ 16۔ اوقاف کالونی 17۔ فاروق گنج 18۔ حنیف پارک 19۔ صدیق پورہ 20۔ لاریکس پارک 21۔ بدر کالونی 22۔ داتا نگر 23۔ صدیقیہ کالونی 24۔ بھگت پورہ 25۔ جھگیاں 26۔ اکرم پارک 27۔ فضل پارک 28۔ جہانگیر پارک 29۔ عثمان گنج 30۔ منظور آباد 31۔ فیض باغ 32موچی دروازہ 33۔ اعظم مارکیٹ 34۔ شاہ عالم مارکیٹ 35۔ رنگ محل 36۔ لوہاری دروازہ 37۔ بھاٹی دروازہ 38۔ شاہی قلعہ 39۔ سوتر منڈی
لاہور پاکستان کے ان دو تین شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات باآسانی میسر ہیں کوئی بھی شخص 24 گھنٹے ٹرانسپورٹ کا انتظام آسانی سے کر سکتا ہے، جبکہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں اس طرح کی ٹرانسپورٹ سہولیات نہیں پائے جاتے۔
لاہور میں نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) کے بیشتر ذریعے موجود ہیں جن میں بس،رکشہ اور ٹیکسی شامل ہیں۔تقریباََ 75 فیصد شہریوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس اپنی گاڑیاں موجود ہیں۔لاہور میں زیادہ تر سڑکوں کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا اور ٹریفک کے لیے بھی انتظامات موجود ہیں۔
لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو 1984ء میں قائم کیا گیا تاکہ لوگوں کی ٹریفک مسائل کو حل کیا جاسکے۔ 2013ء میں لاہور میٹرو بس کا نظام بھی متعارف کرایا گیا جس کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے سہولیات فراہم کیے گئے،اور جس سے سفر میں بہت آسانی پیدا ہوئی۔ لاہور میں آنے والے سیاحوں بھی اس سے مستفید ہوئے۔میٹروبس کا پہلا ٹریک 27 کلومیٹر طویل ہے اور یہ جاگوماتا سے شروع ہوکر شاہ درہ پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔عموماََ یہ 27 کلومیٹر کا سفر تقریباََ 55 منٹ میں طے کیا جاتا ہے۔
معروف طویل سڑک گرینڈ ٹرنک روڈ جو مشرق میں چٹاگانگ (بنگلہ دیش) سے شروع ہوکر مغرب میں کابل (افغانستان) پر ختم ہوتا ہے وہ بھی لاہور سے گزرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اب موٹروے بھی بنایا گیا ہے جو لاہور کو پاکستان کے تمام بڑے شہروں (بشمول پشاور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، اسلام آباد) وغیرہ) سے ملاتا ہے۔ اسی لاہور سے سیالکوٹ تک ایک اور موٹروے زیر تعمیر ہے۔اس کے علاوہ لاہور میں مختلف انڈر پاس بنائے گئے ہیں تاکہ ٹریفک جام کے مسائل نہ ہو اور مسافروں کو سفر میں آسانی ہو۔ایک سرکاری ذرائع پاکستانی شہروں میں سب سے زیادہ انڈر پاس لاہور میں موجود ہیں۔ [122]
ایم 2 موٹروے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک موٹروے ہے۔ یہ 367 کلومیٹر طویل ہے اور یہ لاہور سے شروع ہوتی ہے۔ پھر یہ شیخوپورہ، پنڈی بھٹیاں، کوٹ مومن، سالم، لِلہ، کلر کہار، بلکسار اور چکری سے گزرنے کے بعد جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باہر ختم ہو جاتی ہے۔ [123]
رنگ روڈ لاہور کے گرد ایک 85 کلومیٹر طویل 6 رویہ تیز رفتار محدود یا کنٹرول رسائی موٹروے ہے۔ یہ ایم 2 موٹروے اور این 5 نیشنل ہائی وے سے مربوط ہے۔ [124]
لاہور میٹرو یا لاہور ریپڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم ایک ہلکی ریل نقل و حمل کا لاہور کے لیے نظام تھا۔ نظام پہلے 1991ء میں تجویز کیا گیا اور 1993ء میں اسے اپ ڈیٹ کیا گیا۔ منصوبے بعد ازاں 2005ء میں ترک کر دیا کیا۔ 2012ء میں حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میٹرو منصوبہ کو ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ لاہور میٹرو بس جس میں نسبتا کم سومایہ کاری درکار تھی اپنایا گیا۔
2015ء میں حکومت پنجاب نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چینی معاونت سے 1.6 ارب ڈالر کا منصوبہ کے طور پر لاہور میٹرو کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اورنج لائن (لاہور میٹرو) 27.1 کلومیٹر (16.8 میل) طویل ہو گی جس میں اس کا 25.4 کلومیٹر (15.8 میل) حصہ مرتفع ہو گا۔ [125]
اورنج لائن لاہور میں ایک خودکار عاجلانہ نقل و حمل کا نظام ہے۔ [126][127] اورنج لائن لاہور میٹرو کے لیے مجوزہ تین مجوزہ ریل لائنوں میں سے پہلی ہے۔ 2020ء تک یہ شہر کی بنیادی میٹرو ریل لائن ہے۔ یہ لائن 27.1 کلومیٹر (16.8 میل) تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں 25.4 کلومیٹر (15.8 میل) بلندی اور 1.72 کلومیٹر (1.1 میل) زیر زمین ہے، [128] اور اس کی لاگت 251.06 بلین پاکستانی روپیہ (1.6 بلین امریکی ڈالر) تھی۔ یہ لائن 26 سب وے اسٹیشنوں (علی ٹاؤن اسٹیشن سے ڈیرہ گجراں اسٹیشن) پر مشتمل ہے اور اسے روزانہ 250,000 مسافروں کو لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سی آر آر سی ژوژو لوکوموٹیو نے 16 مئی 2017ء کو میٹرو کے لیے 27 میں سے پہلی ٹرینیں چلائیں۔ [129] ٹرین کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹہ) ہے۔ بہتر پائیداری کے لیے، اس کی بوگیاں گرمی کے خلاف مزاحم ہیں، غیر مستحکم وولٹیج کا انتظام کر سکتی ہیں اور توانائی بچانے والی ایئر کنڈیشننگ کی خصوصیت رکھتی ہیں۔ [130] کامیاب ابتدائی ٹیسٹ ٹرائلز 2018ء کے وسط میں چلائے گئے، [131] اور تجارتی آپریشنز 25 اکتوبر 2020ء کو شروع ہوئے۔ [132]
بلیو لائن چو برجی سے کالج روڈ ٹاؤن شپ تک 24 کلومیٹر (15 میل) کی مجوزہ لائن ہے۔ راستے میں یہ مزنگ چونگی، شادمان چوک، جیل روڈ، میاں بلیوارڈ گلبرگ، میاں بلیوارڈ گارڈن ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن جیسے مقامات کو آپس میں جوڑے گا۔ [133]
پرپل لائن بھاٹی چوک سے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک 19 کلومیٹر (12 میل) کی مجوزہ لائن ہے۔ راستے میں، یہ برانڈریتھ روڈ، ریلوے اسٹیشن، علامہ اقبال روڈ، دھرم پورہ اور غازی روڈ جیسے مقامات کو جوڑے گا۔ [133]
لاہور میٹرو بس پاکستان کے شہر لاہور میں تیز نقل و حمل کا ایک نظام ہے۔ ترکی فرم اولاسم اور نیسپاک منصوبے کے مشیر ہیں۔ میٹرو بس سروس 27 کلومیٹر طویل سڑک پر مشتمل ہے، جو گجومتہ سے شاہدرہ تک ہے۔ اس سے 27 کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں سمٹ آیا ہے۔۔ اس پر 27 بس اسٹیشن ہیں۔[134]
جسے عام طور اس کے مخفف ایل ٹی سی کے نام سے جانا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان میں ایک منظم بس نظام ہے۔ [135]
ڈائیوو پاکستان ایکسپریس بس سروس لمیٹڈ یا ڈائیوو ایکسپریس شہروں کے مابین مسافر بس خدمت ہے۔ یہ پاکستان میں 30 سے زیادہ مقامات کی خدمت فراہم کرتی ہے اور اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ یہ کوریائی کمپنی ڈائیوو کے زیر انتظام ہے۔ [136]
نیازی ایکسپریس شہروں کے مابین مسافر بس خدمت ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ [137]
لاہور کا لاری اڈا مینار پاکستان کے قریب واقع ہے۔ یہاں سے پنجاب کے تقریباً تمام شہروں اور اس کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بیشتر شہروں کے لیے انٹرسٹی بسوں کے سفر کی سہولت موجود ہے۔ یہ برطانوی راج میں قائم ہوا۔ فی اوقت یہ بادامی باغ میں واقع ہے۔
لاہور ڈرائی پورٹ لاہور کی پہلی ڈرائی پورٹ تھی جو مغلپورہ میں قائم کی گئی۔ یہ 1973ء سے پاکستان ریلویز کے زیر انتظام تھی۔ 2008ء میں لاہور سے 48 کلومیٹر جنوب میں پریم نگر میں ایک نجی ڈرائی پورٹ کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ [138]
لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن پاکستان کے صوبہ پنجاب، لاہور میں واقع ہے، جو برطانوی دور میں تعمیر کیا گیا۔ یہ جنوبی ایشیا میں برطانوی طرز تعمیر کی ایک مثال ہے جو برطانوی راج کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ [139]
لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن لاہور کنٹونمنٹ، لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
اس کے علاوہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان ریلویز کا صدر دفتر لاہور میں ہے اور یہ وزارت ریلوے کے تحت کام کرتا ہے۔ پاکستان ریلویز پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمد و رفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔ [140]
لاہور میں پہلے ایک ہوائی اڈا موجود تھا لیکن وہ مسافروں کے لیے ناکافی تھا، لوگ زیادہ ہوتے اور ایئرپورت کا حجم اتنا نہ تھا اس لیے حکومتِ وقت نے لاہور میں 2003ء میں علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا تعمیر کیا، نئے ہوائی اڈے کو جدید طرز پر بنایا گیا اور جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔ ایئرپورٹ کا نام پاکستان کے قومی شاعر جناب علامہ محمد اقبال کے نام پر رکھا گیا۔ علامہ اقبال ایئرپورٹ لوکل اور بین الاقوامی دونوں سفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاہم اس سے پرانا ہوائی اڈا حج و عمرے کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں افراد حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ [141]
علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا، لاہور کو دنیا بھر کے بہت سے شہروں سے مسافروں اور کارگو پروازوں کے ذریعے جوڑتا ہے۔ مندرجہ ذیل ہوائی اڈے، علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا، لاہور سے براہ راست مربوط ہیں۔ راس الخیمہ بین الاقوامی ہوائی اڈا، گوانگژو بایئون بین الاقوامی ہوائی اڈا (آغاز 28 اگست 2018ء)، [142] ارومچی دیوپو بین الاقوامی ہوائی اڈا، [143] ابوظبی بین الاقوامی ہوائی اڈا، بارسلونا-ایل پرات ہوائی اڈا، [144] بیجنگ دار الحکومت بین الاقوامی ہوائی اڈا، کوپن ہیگن ہوائی اڈا، شاہ فہد بین الاقوامی ہوائی اڈا، ڈیرہ غازی خان بین الاقوامی ہوائی اڈا، حمد بین الاقوامی ہوائی اڈا، دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا، اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈا، شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا، جناح بین الاقوامی ہوائی اڈا، کوالالمپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ، ہیتھرو ایئرپورٹ، مانچسٹر ایئرپورٹ، شہزادہ محمد بن عبدالعزیز ہوائی اڈا، میلان مالپینسا ہوائی اڈا، ملتان بین الاقوامی ہوائی اڈا، مسقط بین الاقوامی ہوائی اڈا، اوسلو ہوائی اڈا، گاردرمون، شارل دے گول ہوائی اڈا، باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا، کوئٹہ بین الاقوامی ہوائی اڈا، شیخ زاید بین الاقوامی ہوائی اڈا، شاہ خالد بین الاقوامی ہوائی اڈا، صلالہ بین الاقوامی ہوائی اڈا، [145] ناریتا بین الاقوامی ہوائی اڈا، ٹورانٹو پیئرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ، شہید ہاشمی نژاد مشہد بین الاقوامی ہوائی اڈا، سوورن بھومی بین الاقوامی ہوائی اڈا اور اسلام کریموف تاشقند بین الاقوامی ہوائی اڈا۔[146]
والٹن ہوائی اڈا ماڈل ٹاؤن میں واقع تھا۔ یہ ہوائی اڈا لاہور، پنجاب، پاکستان سے 10 کلومیٹر (6 میل) کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ ہوائی اڈا ہوابازی کے لیے استعمال ہوتا تھا اور کئی فلائینگ کلبوں کے زیر استعمال تھا، تاہم اب اسے مسمار کر کے لاہور کا مرکزی کاروباری ضلع بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ [147] جبکہ والٹن ہوائی اڈا کو اسمارٹ سٹی لاہور کے قریب منتقل کر دیا گیا ہے۔ [148]
لاہور میں مغلیہ سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کے دور کے متعدد یادگاریں موجود ہیں۔ اندرون لاہور میں مغلیہ طرز تعمیر کا گہرا اثر نظر آتا ہے جس میں بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور سب سے زیادہ اہم ہیں۔ مغلیہ دور کی دیگر یادگاروں میں شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں انتہائی اہم ہیں۔ [149] برطانوی دور کی عمارات میں لاہور عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، جامعہ پنجاب وکٹورین فن تعمیر اور مسلم فن تعمیر کا حسین امتزاج ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت بنا اور قیام پاکستان کے بعد کئی عمارتیں تعمیر ہوئی جو جدید فن تعمیر اور اسلامی فن تعمیر کا امتزاج ہیں۔
رنجیت سنگھ کی سمادھی سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مقبرہ ہے۔ یہ لاہور، پاکستان میں قلعہ لاہور اور بادشاہی مسجد کے قریب واقع ہے۔اس کی تعمیر ان کے بیٹے، کھڑک سنگھ نے اس جگہ پر شروع کی تھی جہاں ان کی تدفین کی گئی تھی اور اسے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے، دلیپ سنگھ نے 1848ء میں مکمل کیا تھا۔ یہ مقبرہ سکھ فن تعمیر کی مثال دیتا ہے، یہ سنہری بانسری والے گنبد اورچوٹی کے گرد ایک آرائشی بیلسٹریڈ ہے۔ رنجیت سنگھ کی راکھ کمل کی شکل میں سنگ مرمر کے کلش میں رکھی گئی ہے، جسے مقبرے کے بیچ میں پیٹرا دورا کے ساتھ جڑے ہوئے سنگ مرمر کے منڈپ کے نیچے پناہ دی گئی ہے۔ مرکزی مقبرے کے مغرب میں دو چھوٹی یادگاریں رنجیت سنگھ کے بیٹے کھڑک سنگھ اور پوتے نونہال سنگھ اور ان کی بیویوں کی یادگار ہیں۔ مذہبی ڈھانچہ گرودوارہ ہے۔ گردوارہ نہ صرف عقیدے کی سب سے اہم عمارت ہے، جیسا کہ اسلامی عقیدے کی مسجد اور ہندو مذہب کے مندر، بلکہ یہ اپنے اسلامی اور ہندو ہم منصبوں کی طرح، سکھ فن تعمیر کا کلیدی نشان بھی ہے۔
مغلوں نے غیر مسلموں کی اکثریت پر حکومت کی۔ مغل حکمرانوں نے مقامی مذاہب اور روایات کو برداشت کیا اور ان کا احترام کیا۔ انھیں مغل خاندان کے فنون، ادب، موسیقی اور فن تعمیر میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ مغلوں کے 300 سالہ دور حکومت میں مقامی ثقافتوں کے تئیں ان کا رویہ مختلف تھا۔ اکبر کی آمد کے ساتھ، ہندو اور مسلم طرزوں کا امتزاج ہوا اور ان کی مختلف تعمیراتی اختراعات میں تصویر کشی کی گئی۔
مغل فن تعمیر ہندوستانی، اسلامی، تیموری اور یہاں تک کہ یورپی طرز کی پیداوار تھا۔ مغل فنکاروں نے ان مستعار شکلوں کو علامت اور انداز کے لحاظ سے استعمال کیا تاکہ وہ اپنے مخصوص طرز تعمیر میں فٹ بیٹھ سکیں۔ ابوالفضل، درباری تاریخ ساز، کے مطابق، مغل قلعے اور محلات شاہی رہائش گاہوں سے کہیں زیادہ تھے، وہ طاقت اور دولت کے نشانات کے طور پر کام کرتے تھے، جو اپنے شہنشاہ کے درباروں میں حاضر ہونے والے مقامی راجاؤں کو حیران کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ مغل شہنشاہوں نے اکثر نئی عمارتوں کے لیے جگہ بنانے کے لیے پرانی تعمیرات کو منہدم کر دیا۔ اگرچہ انھیں اپنے ورثے پر فخر تھا، لیکن ہر ایک نے عدالت کو اپنے انداز میں ڈھالنے اور اپنے دور کو ایک منفرد کردار دینے کی کوشش کی۔ قلعوں اور محلات کے علاوہ مغل عمارات کی دو دیگر اہم ترین اقسام میں مساجد اور مقبرے تھے۔ دونوں کو مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
عظیم الشان اسلامی مقبرے مغلوں کے زمانے میں مشہور ہو چکے تھے۔ ان مقبروں میں عام طور پر بغیر دروازوں کے داخلی راستے ہوتے تھے، تاکہ اندرونی حصہ باہر کی ہوا کے لیے کھلا رہے اور یہ تجویز کیا گیا تھا کہ یہ انتظام قانون کے حقیقی معنی سے بچنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ فنکارانہ صلاحیتوں کو مذہبی روایت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی اس طرح کی کوششیں اسلام کو فنکارانہ خواہشات سے عاری کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ تعمیراتی نقطہ نظر سے، لہٰذا، لاہور بنیادی طور پر ایک مغل شہر ہے، اس کا سنہرا دور مغلیہ دور حکومت کا دور ہے۔ شہنشاہوں نے لاہور شہر میں بہت کچھ شامل کر کے اسے ایک خوبصورت اور تہذیب یافتہ شہر بنا دیا۔
برطانوی حکمرانی (1849–1947) کے تحت، لاہور میں نوآبادیاتی فن تعمیر نے مغل، گوتھک اور وکٹورین طرز کو یکجا کیا۔ برطانوی دور حکومت میں سر گنگا رام نے جنرل پوسٹ آفس، لاہور میوزیم، ایچی سن کالج، میواسکول آف آرٹس (اب این سی اے)، گنگا رام ہسپتال، لیڈی میکلاگن گرلز ہائیاسکول، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری، کو ڈیزائن اور تعمیر کیا۔ میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ، سر گنگا رام ہائیاسکول (اب لاہور کالج برائے خواتین) ہیلی کالج آف کامرس، راوی روڈ ہاؤس برائے معذور افراد، شاہراہ قائد اعظم پر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ اور لیڈی مینارڈ انڈسٹریلاسکول تعمیر کیے۔ [150] اس نے ماڈل ٹاؤن بھی تعمیر کیا، جو ایک مضافاتی علاقہ ہے جو حال ہی میں لاہور کی بڑھتی ہوئی سماجی اقتصادی اشرافیہ کے لیے ثقافتی مرکز کے طور پر ہے۔
لاہور میں جنرل پوسٹ آفس اور وائی ایم سی اے کی عمارتوں نے ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد منائی، یہ واقعہ پورے برٹش انڈیا میں کلاک ٹاورز اور یادگاروں کی تعمیر ہے۔ دیگر اہم برطانوی عمارتوں میں ہائی کورٹ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، میوزیم، سینٹ انتھونی کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، منٹگمری ہال، ٹولنٹن مارکیٹ، پنجاب یونیورسٹی (اولڈ کیمپس) اور صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔ آج بھی مال روڈ برطانوی راج کے دوران میں تعمیر کی گئی گوتھک اور وکٹورین طرز کی متعدد عمارتوں کو برقرار رکھتا ہے۔
دی مال کے ایک سرے پر یونیورسٹی ہے، جو پاکستان کی سب سے باوقار یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ انگریزوں نے 1924ء میں شہر کا پہلا گھڑ دوڑ کلب شروع کیا، اس روایت کا آغاز آج بھی لاہور ریس کلب میں جاری ہے۔ دیگر مشہور عمارتوں میں پنجاب اسمبلی ہال، لاہور ہائی کورٹ، جنرل پوسٹ آفس (جی پی او)، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنٹن مارکیٹ اور لاہور ریلوے اسٹیشن شامل ہیں۔
لاہور شروع ہی سے اپنے خوبصورت باغات اور پارکوں کے لیے مشہور رہا ہے۔ راوی کے کنارے پر واقع اس کے مثالی مقام نے حکمرانوں اور حسن سے محبت کرنے والوں کو اپنے جمالیاتی ذائقے کو پورا کرنے کے لیے باغات کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مغل دور میں، زیادہ تر باغات کی منصوبہ بندی حکمرانوں یا سنتوں کے مقبروں کے ارد گرد کی گئی تھی یا شاہی درباریوں نے رکھی تھی۔ باغات کو بعض صورتوں میں فارم ہاؤسز یا موسم گرما کے سیرگاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بہت سے شہنشاہ ان باغات میں ڈیرے ڈالتے تھے جب وہ لاہور جاتے تھے یا جب وہ آمدورفت میں ہوتے تھے۔ ہمیں یقین نہیں ہے کہ آیا یہ باغات بھی اس وقت عوام کے زیر استعمال تھے یا نہیں۔ مغل دور میں لگائے گئے کچھ باغات جن میں دلکش باغ ، شالیمار باغ ، چوبزری باغ ، حضوری باغ اور گلابی باغ شامل ہیں-
لارنس گارڈن (باغ جناح) 1862ء میں قائم کیا گیا تھا اور اصل میں اس کا نام سر جان لارنس کے نام پر رکھا گیا تھا، جو انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان کے برطانوی وائسرائے تھے۔ سرکلر گارڈن، جو تین اطراف سے دیوار والے شہر کو گھیرے ہوئے ہے، 1892ء میں قائم کیا گیا تھا۔ بادشاہی مسجد سے متصل سابقہ پریڈ گراؤنڈ کا نام بھی انگریزوں کے دور میں منٹو پارک (اقبال پارک) رکھ دیا گیا، جس کی بحالی کے بعد اسے اقبال پارک کے نام سے دوبارہ قائم کیا گیا۔ [151]
لاہور کی مسجدیں، مزارات، مدرسے و اسلامی علوم کی درسگاہیں مشہور ہیں۔ ابتداسے ہی لاہور علم اور عمل کا مرکز رہا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی بڑے بڑے علما اور مشایخ نے لاہور میں تبلیغ دین کے لیے سفر کیے۔ سید اسسرور بخاری، مثلاً سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزار داتا دربار بہت مشہور ہے۔
اسلامی علوم کی درسگاہیں و جامعات بھی موجود ہیں مثلاً:
اندرون لاہور کو پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے برصغیر میں مغلیہ دور حکومت کے دوران میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ اور شہر لاہور کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد دیوار تعمیر کر دی گئی تھی۔ اس دیوار میں 13 دروازے بنائے گئے۔ بسا اوقات موری دروازہ کو دروازہ تسلیم نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ لاہور کے دراصل 12 دروازے ہیں۔
ان کے علاوہ چٹا دروازہ (لغوی معنی سفید دروازہ) اندرون لاہور، پاکستان میں وزیر خان چوک پو ایک دروازہ ہے جو 1650ء میں تعمیر ہوا۔[152] یہ دروازہ لاہور کا اصل دہلی دروازہ [153] اور شہر کی مرکزی داخلی دروازہ تھا۔[153]
نام | تصویر | تفصیل |
---|---|---|
بھاٹی دروازہ | قدیم لاہور کے گرد قائم فصیل میں متعدد مقامات پر شہر میں داخلے کے لیے رکہے گئے دروازوں میں سے ایک اہم بھاٹی دروازہ، جو سید علی ہجویری کے مزار کی سمت واقع ہے۔ | |
دہلی دروازہ | دہلی دروازہ لاہور، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ دہلی دروازہ مغلیہ دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ مسجد وزیر خان بھی اسی درواز ے کے قریب واقع ہے | |
کشمیری دروازہ | کشمیری دروازہ، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کا قدیم کشمیری بازار ادھر واقع ہے۔ مشہور سنہری مسجد بھی یہاں واقع ہے۔ | |
لوہاری دروازہ | لوہاری دروازہ لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جو اصلی حالت میں محفوظ ہے۔ | |
روشنائی دروازہ | روشنائی دروازہ، اندرون شہر لاہور کی فصیل پر بنائے گئے تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحقہ حضوری باغ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ | |
شیرانوالہ دروازہ | پاکستان کے شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہے۔ یہ فصیل شہر کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ | |
مستی دروازہ | اکبری دروازہ جسے مستی دروازہ بھی کہا جاتا ہے لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ | |
جب سے اس وقت کے وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پاکستان میں فری میسنری پر پابندی عائد کی تو اس کے بعد سے اس عمارت کو میسونک مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔[154]
کنہیالال لکھتا ہے کہ پرانی عمارات کے مندر اور ہندوءوں کی عبادت گاہیں بہت ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ چھوٹے چھوٹے شوالے و ٹھاکر دوارے و دیوی دوارے بے شمار ہیس۔ان میں سے و جدید دونوں قسم کے ہیں۔ مگر سکھی عہد میں پرانی عمارات کے مندر بھی ازسر نو نباءے گءے تھے جن کی عمارات تازہ نظرآتی ہیں۔بعض مندر جو اُن سے نامی گرامی ہیں اورخاص و عام وہاں جا کر پوجا کرتے ہیں اس قسم میں لکہے جاتے ہیں۔ مگریاد رہے کہ یہ کنہیالال نے 1882ء میں اپنی کتاب تاریخ لاہور میں لکھا تھا۔اور آج بہت سہ مقامات ختم ہو چکے ہیں۔
لاہور میں اولیا اکرام کے بے شمار مزارات ہیں۔
لاہور کے ہر علاقے میں مقامی قبرستان موجود ہیں، تاہم مندرجہ ذیل قبرستان خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
2008ء تک مساوی قوت خرید کے ذریعے شہر کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تخمینہ 40 بلین امریکی ڈالر تھا جس کی متوقع اوسط شرح نمو 5.6 فیصد تھی۔ یہ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی کے برابر ہے، لاہور (جس کی نصف آبادی ہے) ایک ایسی معیشت کو فروغ دے رہا ہے جو کراچی کے حجم کا 51 فیصد ہے۔ [155] ایک اندازے کے مطابق لاہور قومی معیشت میں 11.5% اور پنجاب کی صوبائی معیشت میں 19% حصہ ڈالتا ہے۔ [156] مجموعی طور پر، پنجاب کی معیشت 115 بلین امریکی ڈالر ہے، یہ پہلا (اور آج تک، صرف) پاکستانی سب ڈویژن ہے جس کی معیشت 100 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، کراچی کی 5.5% کے مقابلے میں 5.6% سالانہ کی قدرے زیادہ شرح نمو کے ساتھ، جو 144 ویں نمبر پر ہے۔ [155][157]
تقریباً 9,000 صنعتی اکائیوں کے ساتھ ایک بڑا صنعتی مجموعہ، لاہور حالیہ دہائیوں میں مینوفیکچرنگ سے سروس انڈسٹریز کی طرف منتقل ہوا ہے۔ [158] اس کی تقریباً 42% افرادی قوت فنانس، بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، کمیونٹی، ثقافتی اور سماجی خدمات میں کام کرتی ہے۔ [158] یہ شہر پاکستان کا سب سے بڑا سافٹ ویئر اور ہارڈویئر بنانے کا مرکز ہے، [158] اور کمپیوٹر اسمبلی کی بڑھتی ہوئی صنعت کی میزبانی کرتا ہے۔ [158] شہر ہمیشہ اشاعتوں کا مرکز رہا ہے۔ پاکستان کی 80% کتابیں لاہور میں شائع ہوتی ہیں اور یہ پاکستان میں ادبی، تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
ایکسپو سینٹر لاہور شہر کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے اور اس کا افتتاح 22 مئی 2010ء کو کیا گیا تھا۔[159] ڈیفنس رایا گالف ریزورٹ، جو زیر تعمیر ہے، پاکستان اور ایشیا کا سب سے بڑا گالف کورس ہوگا۔ یہ منصوبہ ڈی ایچ اے لاہور اور بی آر ڈی بی ملائیشیا کے درمیان شراکت داری کا نتیجہ ہے۔ شہر میں اس طرح کے بڑے منصوبوں کی تیز رفتار ترقی سے ملک کی معیشت کو فروغ دینے کی امید ہے۔ [160] لاہور کے مرکزی کاروباری ضلع کی فیروز پور روڈ میں کیرے انٹرنیشنل ہوٹل اور ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک سمیت بلند و بالا عمارتیں اور فلک بوس عمارتیں ہیں۔
لاہور سٹاک ایکسچینج (گارنٹی) لمیٹڈ اکتوبر 1970ء کو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آرڈینینس 1969 کے تحت وجود میں آئی۔ آغاز میں اس کے ارکان کی تعداد 63 تھی جو اب بڑھ کر 650 ہو چکی ہے۔ لاہور سٹاک ایکسچینج نے فیصل آباد اور سیالکوٹ میں تجارت کے لیے اپنی برانچیں کھول رکھی ہیں۔ [161]
لاہور کامیابی سے بہت سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے جن میں 1990ء کا ہاکی عالمی کپ اور 1996ء کا کرکٹ عالمی کپ کا فائنل شامل ہیں۔ اکثر بڑے کھیلوں کے ہیڈ کوارٹر مثلا کرکٹ، ہاکی، رگبی، فٹ بال وغیرہ لاہور میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا صدر دفتر بھی لاہور میں واقع ہے۔
لاہور میراتھن ایک سالانہ سڑک میراتھن ہے جو 2005ء کے بعد لاہور، پاکستان میں منعقد ہونا شروع ہوئی۔ میراتھن کی اصل طوالت 42،195 کلومیٹر ہے تاہم اس میں دیگر دوڑیں جن میں 10 کلومیٹر ریس، 5 کلومیٹر "فیمیلی فن رن" اور جسمانی اور بصری خرابی والے لوگوں کے لیے 3 کلومیٹر ریس بھی شامل ہوتی ہے۔ 2007ء میں تقریباً 26،000 لوگوں نے لاہور میراتھن میں حصہ لیا، جس سے اس کا شمار دنیا کے بڑے میراتھن میں کیا جاتا ہے۔
لاہور میں واقع کھیلوں کے اہم میدانوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور ، پاکستان میں واقع سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں کرکٹ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم اور لاہور کی مقامی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی ہیں۔ [162][163]
یہ اسٹیڈیم 1959ء میں تعمیر ہوا اور اس کا ڈیزائن نصر الدین مراد خان نے مکمل کیا۔ اس میدان پر پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین سنہ انیس سو انسٹھ میں اکیس سے چھبیس نومبر کے دوران میں کھیلا گیا ۔ اور اس میں 60 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی بدولت یہ ملک کا سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ اس کا نام لیبیا کے صدر معمر قذافی کے نام پر رکھا گبا۔
لاہور جمخانہ کلب لاہور، پاکستان میں ایک سماجی اور کھیلوں کا کلب ہے۔ یہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ [164] یہ 1 مئی، 1878ء کو قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 117،03 ایکڑ (0.4736 کلومیٹر) ہے۔
نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور، پاکستان میں ایک ہاکی اسٹیڈیم ہے۔ اسٹیڈیم میں 45،000 تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ [165]
فورٹریس اسٹیڈیم جسے مقامی طور پر فورٹریس بھی کہا جاتا ہے ایک کھلی جگہ پر مقبول خریداری مراکز، ریستوران، کیفے اور تفریحی پارک اور ایک اسپورٹس اسٹیڈیم پر مشتمل ہے۔ یہ لاہور کنٹونمنٹ، لاہور میں واقع ہے۔ فورٹریس اسٹیڈیم شہر کے سب سے زیادہ مصروف تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ اسٹیڈیم لاہور کے مشہور تہوار قومی میلہ موشیاں (نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شو) کا مقام بھی ہے۔
جیلانی پارک سے ملحقہ ریس کورس گھڑ ڈور اور پولو کا میدان ہے۔ جیلانی پارک جسے عام طور پر ریس کورس پارک کہا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان میں ایک تفریحی پارک ہے۔ [166] یہ جیل روڈ پر سروسز ہسپتال کے سامنے واقع ہے۔ پارک میں ایک جھیل بھی موجود ہے۔ [167]
لاہور رگبی فٹ بال کلب لاہور، پاکستان میں واقع ایک رگبی کلب ہے۔ [168]
لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ (پرانا نام: پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ) لاہور، پاکستان کے مشہور اسٹیڈیم قذافی اسٹیڈیم کے بالمقابل ایک گراؤنڈ ہے۔ اس گراؤنڈ میں فرسٹ کلاس کرکٹ، لسٹ اے کرکٹ اور ٹوئنٹی/20 کرکٹ میچ کھیلے جاتے ہیں۔ یہ گراؤنڈ علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشن لاہور کی زیر نگرانی ہے۔ علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشن لاہور کے موجودہ صدر ایزد حسین سید ہیں۔ 1980ء سے نومبر 2012ء تک اس گراؤنڈ میں 265 فرسٹ کلاس کرکٹ میچ، 105 لسٹ اے کرکٹ میچ اور 12 ٹوئنٹی/20 کرکٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں۔
لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ میں ایک پاکستانی ٹوئنٹی/20 کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم پنجاب کے دار الحکومت لاہور پر مبنی ہے۔ یہ ٹیم پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے قیام کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ ٹیم کے کپتان اظہر علی ہیں۔یہ قطر لبریکنٹس کی ملکیت ہے۔[169]
لاہور لائینز لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک کرکٹ ٹیم ہے۔ اس ٹیم کی تاسیس لاہور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 2004/05 میں عمل میں آئی۔ اس ٹیم کا گھر میدان لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ ہے۔ مقامی سطح پر یہ ٹیم قومی ٹی/20 کپ میں حصہ لیتی ہے۔ اس ٹیم نے اپنا پہلا اعزاز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے گئے میچ میں کراچی ڈولفنز کو 37 سکور سے ہرا کر حاصل کیا۔[170]
لاہور ایگلز لاہور، پنجاب، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک کرکٹ ٹیم ہے۔ یہ ٹیم قومی ٹی/20 کپ میں شرکت کرتی ہے۔ اس ٹیم نے کھیل کا آغاز 2006ء میں کیا اور اس کا گھر میدان قذافی اسٹیڈیم لاہور ہے۔ اس ٹیم کے منتظم نواب منصور حیات خان ہیں۔ [171]
واپڈا ایف سی یا واپڈا فٹ بال کلب ایک پاکستانی فٹ بال کلب ہے جو پاکستان پریمیئر لیگ میں حصہ لیتا ہے۔ واپڈا 7 مرتبہ پاکستانی چیمپئن بن چکی ہے۔ [172]
لاہور بادشاہز انڈین کرکٹ لیگ کے 2008 اور 2008-09 کے کرکٹ سیزن میں کرکٹ کھیلنے والی ایک ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کپتان پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق تھے۔ [173][174] اس ٹیم نے اپنا پہلا آئی سی ایل میچ 11 مارچ 2008 کو سابقہ ٹورنامنٹ کی چیمپئن چنائی سپر سٹارز کے خلاف کھیلا۔
کلب | لیگ | کھیل | مقام | قائم |
---|---|---|---|---|
لاہور قلندرز | ابوظہبی ٹی ٹوئنٹی ٹرافی | کرکٹ | شیخ زاید کرکٹ اسٹیڈیم | 2018 |
لاہور قلندرز | پاکستان سپر لیگ | کرکٹ | قذافی اسٹیڈیم | 2015 |
لاہور لائینز | قومی ٹی/20 کپ/قومی ایک روزہ چیمپئن شپ | کرکٹ | قذافی اسٹیڈیم | 2004 |
لاہور ایگلز | قومی ٹی/20 کپ/قومی ایک روزہ چیمپئن شپ | کرکٹ | قذافی اسٹیڈیم | 2006 |
واپڈا ایف سی | پاکستان پریمیئر لیگ | ایسوسی ایشن فٹ بال | پنجاب سٹیڈیم | 1983 |
ایس این جی پی ایل ایف سی | پاکستان پریمیئر لیگ | ایسوسی ایشن فٹ بال | پنجاب سٹیڈیم | 2014 |
لاہور چونکہ ابتدا سے ہی پنجاب کا دار الحکومت اور مرکز رہا ہے اس لیے دیگر سہولیات کی طرح یہاں صحت عامہ کی اعلیٰ سہولیات مسیر ہیں۔ درج ذیل لاہور کے اہم ہسپتالوں اور طبی درس گاہوں کی ایک فہرست ہے۔
درج ذیل لاہور کے بڑے اور قابل ذکر اور ہسپتال ہیں۔
لاہور برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور ابتدا ہی سے اہم تجارتی گذر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے، جس کا ماضی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں کی تعمیرات برصغیر کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔ پنے باغات اور قدرتی حسن کے باعث اسے عروس البلاد کہا جاتا رہا ہے۔مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔
لاہور رابجان برابر خریدہ ایم | جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم |
لاہور کے بارے میں دو کہاوتیں بہت مشہور ہیں۔
"جنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں" (پنجابی)
جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔
"لہور لہور اے" (پنجابی)
لاہور لاہور ہے۔ یعنی لاہور لاثانی ہے۔
لاہور خاص طور پر اپنے پکوانوں اور وہاں کے لوگ کھانے کے لیے مشہور ہیں۔ لاہوری کھانے یا جنہیں مقامی طور پر لاہوری کھابے بھی کہا جاتا ہے، سے مراد پاکستان کے شہر لاہور کے کھانے اور پکوان ہیں۔ یہ علاقہ پنجابی کھانوں کی وجہ سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جو خوش خوراکی ثقافت سے مالا مال ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے لوگ کھانے سے پیار کرنے کے لیے پورے ملک میں مشہور ہیں.[189] جنوبی ایشیا کے اندر اسلام کی آمد نے مقامی کھانوں کو کافی حد تک متاثر کیا کیونکہ مسلمانوں کو دوسرے نافذ کردہ اسلامی غذائی قوانین کے ساتھ سور کا گوشت کھانے یا شراب پینے سے منع کیا گیا ہے۔ پاکستانی کھانے کے دیگر شعبوں جیسے گائے کا گوشت ، بھیڑ ، چکن ، مچھلی ، دال اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ روایتی پھل اور دودھ پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ پاکستانی کھانے میں وسطی ایشیائی ، شمالی ہندوستان اور مشرق وسطی کے کھانے کا اثر ہر جگہ موجود ہے۔ لاہور کا زیادہ تر کھانا مقامی پنجابی اور مغلائی کھانوں سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ روایتی مقامی کھانے کے ساتھ ساتھ ، چینی ، مغربی اور غیر ملکی کھانے پوری شہر میں مشہور ہیں اور بہتر ذائقہ پیدا کرنے کے لیے اکثر مقامی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں۔ پاکستانی چینی کھانے بھی بڑی حد تک دستیاب ہے۔ ذیل میں کچھ کھانے کی فہرست ہے جن میں سے لاہور منفرد ذوق رکھنے کے لیے مشہور ہے۔
لولی وڈ پاکستانی فلمی صنعت کے مرکز کو کہا جاتا ہے۔ اس میں لولی - پاکستان کے شہر لاہور سے لیا گیا ہے جہاں یہ صنعت قائم ہے۔
یہ لاہور کے پس منظر میں بننے والی اہم فلموں کی فہرست ہے۔
بسنت پتنگ کا تہوار بھارت اور پاکستان دونوں جانب کی پنجاب ریاستوں میں مقبول ہے۔ یہ تہوار تاریخی طور پر راجا رنجیت سنگھ کے دور میں بہار کا خیرمقدم کرنے کے لیے منائی جاتی تھی۔ تہوار کی تقریبات پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ مہاراجا کا میلے میں باقاعدہ گرنتھ صاحب سننا اور گرنتھی کو تحائف دینا مذہبی رسومات کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندو برہمنوں کو نذرانے دیتے ہیں تو سکھ گرنتھیوں کو تحائف دیتے ہیں۔ سکھ مذہب میں بسنتی یا زرد رنگ کو بھی ایک خاص تقدس کا مرتبہ حاصل ہے۔[190]
لاہور میں بسنت کا تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ ایک زمانہ میں بسنت لاہور میں اس طرح منایا جاتا تھا کہ پاکستان کے دور دراز سے دوست احباب و رشتہ دار صرف بسنت منانے لاہور آتے تھے۔دنیا کے مختلف حصوں سے بھی منچلے بسنت کی نیرنگیوں سے لظف اندوز ہونے کے لیے لاہور کھنچے آتے تھے۔شہر کے ہوٹل اس موقع پر خاص طور پر بک ہوتے تھے۔ شہر کی تمام بلڈنگوں کی چھتوں پر بسنت پاٹیوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ لاہور شہر کا آسمان دہنک و رنگ و نور کا منظر پیش کرتا تھا اور ہر سو نغموں کی گونج ہوتی اور چھوٹے بڑے مختلف رنگوں کے پتنگ آسمان پر تیرتے نظر آتے تھے۔ پورا شہر رات کو جاگتا تھا موسیقی کی محفلوں اور بو کاٹا کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔بڑے بڑے لاوڈ سپیکروں کی مدد سے وہ اودہم مچتا کہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ منچلے چھتوں پر ڈہولچیوں کا بھی بنوبست کرتے اور بو کاٹا کے ساتھ رقص کرتے۔
تاہم کئی ہوئی پتنگوں کی ڈور سے راہگیروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے نتیجے میں حکومت پنجاب نے بسنت کے تہوار پر پتنگ بازی کی ممانعت کر دی۔ [191][192]
سید ابو الحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش کا لاہور کی تاریخ میں اہم مقام ہے۔ لاہور کو اسی مناسبت سے داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔ عرس داتا گنج بخش لاہور کا سب سے بڑا ثقافتی تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ اتا صاحب کا عرس صفر کی اٹھارہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ روایتی میلہ داتا گنج بخش کے مزار اور قریبی مینار پاکستان کے تمام علاقے پر محیط ہوتاہے۔ عقیدت مند مزار پر فاتحہ خوانی اور دعا اور میلہ میں خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود تفریحی سہولتوں اور سرکس وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ داتا گنج بخش کی تین روزہ تقریبات ہوتی ہیں اور ان کے دوران میں مزار پر چادر پوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زائرین فاتحہ خوانی کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور ساتھ ہی مزار سے متصل مسجد کے احاطے میں تینوں دن مجالسِ مذاکرہ منعقد ہوتی ہیں جن میں دین ِ اسلام اور تصوف کے موضوعات کے ساتھ ساتھ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے سیرت وکردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مزار پر دودھ کی سبیل لگتی ہے اور تینوں دن سماع کی محفلیں ہوتی ہیں جن میں شرکت کرنا ہر قوال پارٹی اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ [193][194]
میر محمد المعروف میاں میر پیر لاہوری ایک مسلم صوفی جو لاہور (موجودہ پاکستان) کے علاقے دھرم پورہ میں مقیم رہے۔ ملک کے طول و عرض سے بڑی تعداد میں زائرین عرس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں زائرین دیے روشن کرتے ہیں۔ عرس کے موقع پر قریبی علاقے میں کھانوں اور دیگر دکانیں سجائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ارد گرد کے علاقے میں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ [195][196][197][198]
میلہ چراغاں یا میلہ شالامار دراصل پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے عرس کی تین روزہ تقاریب کا نام ہے۔ یہ تقاریب شاہ حسین کے مزار، جو لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں واقع کے قریبی علاقوں میں منعقد ہوتی ہیں۔ باغبانپورہ کا علاقہ لاہور شہر کے باہر شالیمار باغ کے قریب واقع ہے۔ یہ تقاریب پہلے شالامار باغ کے اندر منعقد ہوا کرتی تھیں مگر صدر ایوب خان کے صدارتی حکم 1958ء کے بعد سے شالیمار باغ میں ان تقاریب کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی۔
پہلے پہل یہ عرس پنجاب میں سب سے بڑی تقریب سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ بسنت کے بعد دوسرا بڑا ثقافتی تہوار ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا ثقافتی میلہ گردانا جاتا تھا۔[199]۔ اب بسنت پر پابندی کے باعٹ یہ پھر بڑی تقریبات میں شمار ہوتا ہے۔ [200][201][202][203][204][205]
شاه جمال درگاه لاہور، پنجاب، پاکستان میں واقع صوفی بزرگ بابا شاه جمال کا مقبرہ ہے۔ یہ فورمن کرسچین کالج کے بالمقابل مسلم ٹاؤن میں واقع ہے۔ مقبرے کے گرد ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اسلامی تقویم کے مہینے ربیع الثانی کی 3، 4 اور 5 تاریخ کو سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔ 2006ء میں 300،000 افراد نے 366 ویں سالانہ عرس میں حصہ لیا۔ [206]
قومی میلہ مویشیاں یا ہارس اینڈ کیٹل شو فورٹریس اسٹیڈیم میں نومبر کے آخری ہفتے میں پانچ دنوں کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ میلے کی سرگرمیاں میں مویشیوں کی دوڑیں، مویشی رقص، نیزہ بازی، ٹیٹو شو، لوک موسیقی، ، رقص، بینڈ، ثقافتی فلوٹ ور لوک کھیل میں شامل ہوتے ہیں۔ [207][208]
ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول الحمرا آرٹس کونسل میں ہر موسم خزاں (عام طور پر نومبر میں) منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ دس روزہ میلہ گانے کے پروگرام، تھیٹر، محافل موسیقی، رقص ور کٹھ پتلی شو پر مشتمل ہوتا ہے۔ [209] تہوار میں بین الاقوامی اداکاروں کی طرف سے کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران میں اوسط 15-20 مختلف شوز میں فنکار اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ [210][211][212]
فیض بین الاقوامی میلہ موسیقی، فن اور ادب کا ایک سالانہ میلہ ہے جو فیض احمد فیض کی یاد میں ہر سال لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کو دورانیہ تین روز ہوتا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی مایہ ناز فنکار اور ادیب شرکت کرتے ہیں۔ [213]
لاہور محفل موسیقی ایک سالانہ دو روزہ میلہ ہے۔ ایل ایم ایم کا مقصد موسیقی کی صنعت سے متعلقہ افراد اور موسیقی کے تعلیمی ماہرین کو ایک جگہ جمع کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
لاہور ادبی میلہ یا لاہور لٹریری فیٹوللاہور، پنجاب، پاکستان میں سالانہ منعقد کیا جانے والا ایک بین الاقوامی ادبی میلہ ہے۔ [214][215]
لاہور انٹرنیشنل بک فیئر لاہور، پاکستان میں منعقد ہوانے والا ایک بڑا سالانہ بین الاقوامی کتاب میلہ ہے۔ [216] یہ پانچ دن کے لیے ایکسپو سینٹر، [217] جوہر ٹاؤن، لاہور میں منعقد ہوتا ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ [218]
اس کے علاوہ پورے ملک کی طرح مذہبی اور قومی تہوار بھی جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ درج ذیل چند اہم تہواروں کی ایک فہرست ہے۔
مغل دور میں ہیرا منڈی رقص اور موسیقی کے لیے مشہور تھی۔ یہ شہر کے طوائفی ثقافت کا مرکز تھا۔ لوگ بصری تفریح اور موسیقی کے لیے یہاں جاتے تھے۔بعض روایات کے مطابق یہاں سکھ حکومت کے ہندو ڈوگرہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی تھی ہیرا سنگھ مہاراجا رنجیت کا منہ بولا بیٹا بناہوا تھا۔اپنے باپ دھیان سنگھ کی موت کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوا۔اس کی حویلی اور نام کی مناسبت سے لاہورشہر کا یہ حصہ ہیرا منڈی کہلاتا ہے۔
برطانوی راج کے دوران میں برطانوی فوجیوں کی تفریح کے لیے پرانی انارکلی بازار میں کوٹہے تیار کیے گئے۔ اس کے بعد انھیں لوہاری دروازہ اور پھر ٹکسالی دروازہ پر منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازیں انھیں موجودہ ہیرا منڈی کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
لاہور کا تعلیمی نظام مخصوص جدید، مذہبی، ثقافتی، سماجی، نفسیاتی، تجارتی اور سائنسی احکام کے ساتھ وضع کیا گیا ہے۔ لاہور پاکستان میں سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، انجینئرنگ، طب، نیوکلیئر سائنسز، فارماکولوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، بائیو ٹیکنالوجی اور مائیکرو الیکٹرانکس کے شعبوں میں پیشہ ور افراد کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔ [219] زیادہ تر معروف یونیورسٹیاں سرکاری ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں نجی یونیورسٹیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی موجودہ شرح خواندگی 64% ہے۔ [220] معیاری قومی نظام تعلیم بنیادی طور پر برطانوی نظام سے متاثر ہے۔ اس نظام کا مقصد طلباء میں پاکستان کے بھرپور ثقافتی ورثے سے آگاہی کے ساتھ ایک سیکولر نقطہ نظر کو ابھارنا بھی ہے۔ لاہور میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ایک وسیع رینج ہے جو متنوع ندیوں کو پورا کرتی ہے۔
نظام کو پانچ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ابتدائی (گریڈ ایک سے پانچ تک)؛ درمیانی (گریڈ چھ سے آٹھ)؛ ثانوی (گریڈ نو اور دس، سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ کی طرف جاتا ہے)؛ انٹرمیڈیٹ (گیارہویں اور بارہویں جماعت، ہائیر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ)؛ اور یونیورسٹی کے پروگرام جو گریجویٹ اور اعلی درجے کی ڈگریوں کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر شہروں کی طرح لاہور میں بھی پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک سرکاری اور نجی دونوں طرح کے تعلیمی ادارے ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی ادارے پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک صنفی بنیادوں پر ہیں۔ تمام تعلیمی تعلیمی ادارے صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی ترقی، ایکریڈیٹیشن اور تحقیق کی کچھ مالی امداد میں مدد کرتی ہے۔
لاہور کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل لاہور کے اہم تعلیمی اداروں کی ایک فہرست ہے۔
قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ لاہور سے قومی اسمبلی کی 13 نشستیں ہیں۔ جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [221]
حکومت پنجاب حکومت پاکستان کی ایک اکائی جس کی عملداری صوبہ پنجاب میں محدود ہے۔ اس کے سرکاری دفاتر لاہور میں واقع ہیں جو صوبہ پنجاب کا صدر مقام بھی ہے۔ [222]
پنجاب صوبائی اسمبلی پاکستان میں پنجاب کا قانون ساز ایوان ہے کو کہ لاہور میں واقع ہے۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی۔ اس ایوان کی 371 نشستیں ہیں جن میں سے 305 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 66 نشستیں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ لاہور سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے پچیس حلقے ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [225]
لاہور ڈویژن پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔ 2000 کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اس کے آٹھ ڈویژنوں کو بحال کر دیا۔ [226]
لاہور ڈویژن کے چار اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔
ضلع لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر لاہور ہے جو پنجاب کا دار الحکومت ہے۔ 1998ء کے میں کی آبادی کا تخمینہ 63٫18٫745 تھا۔ ضلع لاہور میں عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 1772 مربع کلومیٹر ہے۔ لاہور کی سطح سمندر سے اوسط بلندی 217 میٹر (711.94 فٹ) ہے۔
اسے انتظامی طور پر دو بڑی تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
[227] |
2017ء کے مطابق لاہور میں 274 یونین کونسل موجود ہیں۔[228]
لاہور چونکہ ابتدا ہی سے خطے کا انتظامی مرکز رہا ہے اس لیے ادبی اور صحافتی سرگرمیوں میں اس کا ایک منفرد مقام رہا ہے۔ تحریک آزادی ہند اس کا کردار بطور صحافت انتہائی اہم رہا۔
کوہِ نور برطانوی ہندوستان کا اردو زبان کا سرکاری سرپرستی میں نکلنے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا جسے 1850ء میں منشی ہرسکھ رائے[229] نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ یہ اردو زبان کا پہلا اخبار ہے جو پنجاب سے جاری کیا گیا۔
رفیق ہند برطانوی راج میں اردو زبان کا ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبار 5 جنوری 1884ء کو منشی محرم علی چشتی نے لاہور سے جاری کیا[230][231]۔ منشی محرم علی چشتی نے ہفت روزہ کوہِ نور کی ادارت سے اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا۔
پیسہ اخبار ایک اردو روزنامہ تھا، جسے منشی محبوب عالم نے جنوری 1887ء میں فیروزوالا سے جاری کیا۔ یہ ہفتہ وار اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل تھا۔ قیمت فی پرچہ ایک پیسہ تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لاہور منتقل ہو گیا جہاں بالاخر روزنامہ ہو گیا۔ مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار‘‘ جاری کرنے پر اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ 1900ء میں منشی محبوب عالم نے یورپ کا سفر کیا جس کی سرگزشت اخبار میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہی۔ بعد میں یہ حالات کتابی صورت میں شائع ہوئے جس پر حکومت نے چار سو روپے انعام دیا۔ [232]
زمیندار اردو زبان میں ایک ہندوستانی مسلم اخبار تھا۔ اس کے بانی ایڈیٹر شاعر،مصنف اور مسلم قوم پرست ظفر علی خان تھے۔ ظفر علی خان تحریک پاکستان کے سرکردہ کارکنوں میں سے ایک اور آل انڈیا مسلم لیگ کے حامی تھے۔ [233]
زمیندار اخبار 1920ء کی دہائی سے 1940ء کی دہائی تک ہندوستانی مسلمان، مسلمان قوم پرستوں اور تحریک پاکستان کا ترجمان تھا۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ مقبول اخبار تھا اور پاکستان کی صحافتی روایات اور اردو زبان کی صحافت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ [234][235] مولانا ظفر علی خان کو پاکستان میں بابائے صحافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ [234] اخبار کا صدر دفتر لاہور میں تھا اور 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد بھی شائع ہوتا رہا۔
اَلْاِصْلاح تحریک خاکسار کی جانب سے چھپنے والا ہفتہ وار اخبار تھا۔ اس کا آغاز تحریک کے بانی عنایت اللہ خاں مشرقی نے 1934ء میں کیا تھا۔ یہ اس زمانے میں لاہور سے چھپتا تھا اور مشرقی کی تقاریر اور تحریک خاکسار کے افکار اور پیامات کی نمائندگی کرتا تھا۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں اس اخبار نے نمایاں کردار نبھایا۔
روزنامہ نوائے وقت، پاکستان کے شہروں اسلام آباد،لاہور، کراچی اور ملتان سے شائع ہونے والا اردو زبان کا ایک اہم روزنامہ ہے۔ نوائے وقت کا آغاز 23 مارچ 1940ء کو ہوا۔ پہلے یہ ہفت روزہ تھا بعد میں روزنامہ میں تبدیل ہو گیا۔ اخبار کی بنیاد حمید نظامی نے رکھی۔ تحریک پاکستان میں بھی روزنامہ نوائے وقت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ [236]
لاہور پریس کلب بنیادی طور پر یہ صحافیوں کی ایک تنظیم ہے لیکن اس میں لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، کاروباری افراد اور عوامی خدمت کے ارکان شامل ہیں۔ [237]
لاہور سے متعدد اخبار اور جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ذیل میں صرف ان اہم اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلوں کی فہرست ہے جن کے صدر دفاتر لاہور میں واقع ہیں۔
|
لاہور میں کئی ممالک کے قونصل خانے موجود ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [244]
لاہور میں سینکڑوں لائبریریز موجود ہیں۔ ان میں کچھ عوامی لائبریریز ہیں ادارہ جاتی لائبریریز ہیں نجی لائبریریز ہیں۔ حکومتی لائبریریز ہیں۔ تنظیمی لائبریریز ہیں۔ تعلیمی اداروں کی لائبریریز ہیں عوامی لائبریریز کی مختلف اقسام ہیں۔ ان میں سے کچھ لائبریریز میں مطالعہ کرنے کے لیے رکنیت کا ہونا لازمی ہے۔ لیکن کچھ ایسی ہیں جن میں آپ بغیر رکنیت کے استفادہ کرسکتے ہیں لاہور پاکستان کے ان شہروں میں شامل ہے جن میں مطالعہ کرنے والوں کی تعداد نسبتاً بہتر ہے۔ پچھلے چند برسوں میں مطالعہ کی طرف راغب ہونے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں ان سطور میں لاہور کے ان کتب خانوں یعنی لائبریریز کا ذکر کیا جائے گا جہاں ایک عام شہری آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اپنی علمی پیاس بجھا سکتا ہے۔ ان کتب خانوں میں عوامی یعنی پبلک لائبریریز۔ ادارہ جاتی کتب خانے اور تعلیمی کتب خانے شامل ہیں چند عوامی کتب خانے یہ ہیں:
1. City of Sin and Splendour: Writings on Lahore by Bapsi Sidhwa
2. Illustrated Views of the 19th Century by F.S. Aijazuddin
3. Lahore: Portrait of a Lost City by Som Anand
4. Lahore: A Memoir by Muhammad Saeed
5. Lahore: A Sentimental Journey by Pran Neville
6. Old Lahore by H.R. Goulding
7. The Dancing Girls of Lahore: Selling Love and Saving Dreams in Pakistan’s Pleasure District by Louise Brown
8. Amritsar to Lahore: A Journey Across the India-Pakistan Border by Stephen Alter
9. Lahore District Flora by Shiv Ram Kashyap
10. Beloved City Writings on Lahore by Bapsi Sidhwa
لاہور کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
لغت و مخزن ویکی لغت سے | |
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے | |
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے | |
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے | |
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.