From Wikipedia, the free encyclopedia
منیر نیازی (9 اپریل 1923ء - 26 دسمبر 2006ء) کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم تر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری قیام ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال) میں انھوں نے ۔۔سات رنگ۔۔۔کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔ منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔ منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر محمد افتخارشفیع اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
منیر نیازی | |
---|---|
پیدائش | منیر احمد نیازی 9 اپریل 1923 ہوشیار پور، پنجاب، برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے |
وفات | 26 دسمبر 2006 83 سال) لاہور، پنجاب، پاکستان | (عمر
پیشہ | پنجابی زبان کے شعرا کی فہرست، اردو شاعری |
قومیت | پاکستانi |
مادر علمی | گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور ديال سنگھ کالج، لاہور |
دور | 1960ء - 2006ء (فعالیت کے سال) |
اصناف | اردو و پنجابی شاعری |
اہم اعزازات | ستارۂ امتیاز اعزاز 2005ء تمغائے حسن کارکردگی اعزاز 1992ء |
منیر نیازی بیسویں صدی کی اردوشاعری کی اہم ترین آواز ہیں۔ ان کا شعری لب ولہجہ اپنی انفرادیت کے ساتھ ہمیشہ انھیں نمایاں مقام عطا کرے گا۔
اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب۔ 9 اپریل، 1923ء کو ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔[1][2] انھوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے۔
منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انھوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔
اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد نے منیر نیازی کی ایک کتاب میں ان پر مضمون میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کا ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ ذہن کے پردے سے ٹکراتاہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان میں شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔
پنجابی کے بہت سے مشہور کلام میں سے شائد سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کلام
رہندا اے پہرا خوف دا قدماں دے نال نال
چلدا اے دشت دشت نورداں دے نال نال
ہتھاں تے لُکیاں حرفاں دا قصہ عجیب اے
ہلدے نیں ہتھ وی پردے دی گلاں دے نال نال
ظاہر ہویا اے چند محبت دی رات وچ
جیویں سفید روشنی بدلاں دے نال نال
رولا پیا اے غم دا نگر دے اخیر تے
گلیاں دی چُپ قدیم مکاناں دے نال نال
آیا ہاں میں منیر کسے کم دے واسطے
رہندا اے ایہہ خیال وی خواباں دے نال نال[3]
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.