وزیر اعظم پاکستان 2018ء تا 2022ء اور سابق کرکٹ کھلاڑی From Wikipedia, the free encyclopedia
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان, سابق کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2013ء تا 2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انھوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔[10][11] عمران خان کی پیدائش لاہور میں اونچے درمیانے طبقے کے نیازی پشتون خاندان میں ہوئی، ان کے والد انجینئر اکرام اللہ خان نیازی تھے، عمران خان نے ابتدائی تعلیم ایچیسن کالج لاہور پھر رائل گرائمر اسکول ویلسٹڑ انگلینڈ اور بعد میں کیبل کالج آکسفورڈ سے حاصل کی۔ انھوں نے 13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی۔[12]
عمران خان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
قائدِ جماعت | |||||||
برسر عہدہ 25 اپریل 1996 – 2 دسمبر 2023 | |||||||
در | پاکستان تحریک انصاف | ||||||
| |||||||
رکن قومی اسمبلی | |||||||
رکن مدت 10 اکتوبر 2002 – 3 نومبر 2007 | |||||||
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے۔71 | ||||||
| |||||||
چانسلر | |||||||
برسر عہدہ 7 دسمبر 2005 – 2014 | |||||||
در | بریڈفورڈ یونیورسٹی | ||||||
| |||||||
رکن چودہویں قومی اسمبلی پاکستان | |||||||
رکن مدت 11 مئی 2013 – 31 مئی 2018 | |||||||
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے۔56 | ||||||
پارلیمانی مدت | چودہویں قومی اسمبلی | ||||||
| |||||||
رکن پندرہویں قومی اسمبلی پاکستان | |||||||
رکن مدت 13 اگست 2018 – 11 اپریل 2022 | |||||||
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے-95 (میانوالی-1) | ||||||
پارلیمانی مدت | پندرہویں قومی اسمبلی | ||||||
وفاقی وزیر داخلہ [1] | |||||||
برسر عہدہ 18 اگست 2018 – 18 اپریل 2019 | |||||||
وزیر اعظم پاکستان (22 ) | |||||||
برسر عہدہ 18 اگست 2018 – 10 اپریل 2022 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 5 اکتوبر 1952ء (72 سال)[2][3] لاہور | ||||||
رہائش | اسلام آباد | ||||||
شہریت | پاکستان | ||||||
نسل | پشتون [4] | ||||||
آنکھوں کا رنگ | بھورا | ||||||
مذہب | اسلام [5] | ||||||
جماعت | پاکستان تحریک انصاف | ||||||
زوجہ | جمائما گولڈ سمتھ (16 مئی 1995–22 جون 2004) ریحام خان (8 جنوری 2015–30 اکتوبر 2015) بشریٰ بی بی (18 فروری 2018–) | ||||||
ساتھی | سیتا وائٹ (1987–1991) ایما سارجنٹ (1982–1986) | ||||||
اولاد | سلیمان عیسی خان [6]، قاسم خان [6] | ||||||
تعداد اولاد | 2 | ||||||
والد | اکرام اللہ خان نيازى [6] | ||||||
والدہ | شوکت خانم | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | کیبل کالج ایچی سن کالج رائل گرائمر اسکول ووسٹر جامعہ اوکسفرڈ | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، کرکٹ کھلاڑی ، آپ بیتی نگار ، سرمایہ کار [7] | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو [8][9]، انگریزی [9] | ||||||
کھیل | کرکٹ | ||||||
کھیل کا ملک | پاکستان | ||||||
اعزازات | |||||||
دستخط | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی طور پر اپنے کالج کے لیے کھیلا اور بعد میں ویلکیسشائر کے لیے، عمران خان نے 18 سال کی عمر میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز برمنگھم میں انگلینڈ کے خلاف 1971ء سیریز سے کیا۔ آکسفورڈ سے گریجویشن کے بعد، انھوں نے 1976ء میں پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا اور 1992ء تک کھیلا۔ انھوں نے 1982ء اور 1992ء کے درمیان میں ٹیم کے کپتان کے فرائض بھی سر انجام دیے۔[13] خاص طور پر ان کی قیادت میں 1992ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1992ء کے ورلڈ کپ میں فتح یاب رہی۔[14]
عمران کی پیدائش 25 نومبر، 1952ء کو لاہور پاکستان میں ہوئی۔[15] وہ پشتونوں کے مشہور قبیلے نیازی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کی والدہ شوکت خانم صاحبہ زیادہ تر میانوالی میں سکونت پزیر رہیں۔ وہ اکرام اللہ خان نیازی کے اکلوتے بیٹے ہیں۔[16] سولہویں صدی میں ان کے آبا و اجداد میں ہیبت خان نیازی، شیر شاہ سوری کے معزز جنرل اور پنجاب کے گورنر رہے۔[17] ان کی والدہ پشتون قبیلے برکی سے تعلق رکھتی ہیں[18] اس قبیلے نے پاکستان کی تاریخ میں جاوید برکی اور ماجد خان جیسے کامیاب کرکٹ کھلاڑیوں کو پیدا کیا۔[19]
جوانی میں عمران خان ایک خاموش طبیعت اور شرمیلے انسان تھے، [20] ابتدائی تعلیم لاہور میں کیتھیڈرل اسکول اور ایچیسن کالج، لاہور سے حاصل کی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔[21] وہاں رائل گرائمر اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر اوکسفرڈ یونیورسٹی سے سیاسیات، فلسفہ اور معاشیات کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی۔ وہ 1974ء میں اوکسفرڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔[22]
کرکٹ کی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
بلے بازی | دائیں ہاتھ سے بلے بازی (RHB) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں باوو سے تیز گیند بازی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | آل راؤنڈر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 88) | 3 جون 1971 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 2 جنوری 1992 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 175) | 31 اگست 1974 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 25 مارچ 1992 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرکٹ انفو، 5 نومبر 2014 |
عمران خان نے کرکٹ کے جہان میں بھی اپنا ایک اعلیٰ مقام بنایا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ماضی میں وہ سیاست کی بجائے کرکٹ کے حوالے سے زیادہ مشہور رہے ہیں۔ ان ہی کی قیادت میں پاکستان نے 1992 کرکٹ عالمی کپ جیتا تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز 1969ء - 1970ء میں لاہور کی طرف سے سرگودھا کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا۔ 1971ء میں انگلستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔
انھوں نے 88 ٹیسٹ میچ کھیل کر 362 وکٹیں 22.81 کی اوسط سے حاصل کیں۔ 1981ء-1982ء میں لاہور میں سری لنکا کے 8 کھلاڑی صرف 58 رنز دے کر آؤٹ کیے۔ اور 23 مرتبہ ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے 36.69 کی اوسط سے 3807 رنز بنائے جن میں سے 5 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور ایڈی لینڈ میں 1991ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 132 رنز رہا۔ ان کا شمار پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کو بھارت اور انگلستان کو انگریزی سرزمیں میں ہرایا۔ بطور کپتان انھوں نے 48 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 14 جیتے اور 8 ہارے اور 26 برابر یا بغیر کسی نتیجے سے ختم ہوئے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 1992ء میں ان کی قیادت میں کھیلتے ہوئے پانچواں کرکٹ عالمی کپ جیتا۔ یہ اعزاز ابھی تک پاکستان صرف ایک دفعہ ہی حاصل کر سکا ہے۔ انھوں نے 175 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ اور 182 وکٹیں حاصل کیں۔ 3709 رنز 33.41 کی اوسط سے بنائے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 102 ناٹ آؤٹ تھا جو انھوں نے سری لنکا کے خلاف 1983ء میں کھیلتے ہوئے بنائے۔ ان کی قیادت میں 139 ایک روزہ میچ کھیلے گئے جن میں سے 77 جیتے 57 ہارے، چار بے نتیجہ رہے جبکہ 1 میچ برابر رہا۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان مختلف برطانوی اور ایشیائی اخباروں میں خاص طور پر پاکستان کی قومی ٹیم کے بارے میں آرٹیکل تحریر کرتے رہے ہیں۔[23] بی بی سی اردو اور اسٹار ٹی وی نیٹ ورک سمیت ایشیائی اور برطانوی کھیلوں کے نیٹ ورک پر کرکٹ مبصر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔[24] 2004ء میں جب بھارتی کرکٹ ٹیم نے 14 سال کے بعد پاکستان کا دورہ کیا تو، وہ ٹین اسپورٹس چینل کے خصوصی براہ راست پروگرام میں مبصر تھے، [25] 1992ء کے بعد ہر کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران میں وہ مختلف چینلوں پر ٹیم کارکردگی اور میچز کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرتے رہے ہیں۔[26]ان کو بطور کپتان ْسب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ ٹیسٹ میچ میں بہترین بولنگ اوسط اور بہترین گیند باز ریکارڈ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔[27][28]
نومبر 2005ء کو عمران خان کو بیرونس لاک ووڈ کے بعد بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا تھا، [29] 26 فروری کو یونیورسٹی یونین نے ہر گریجویشن تقریب سے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے انھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد پیش کی تھی [30] تاہم خان صاحب نے اعلان کیا کہ بوجہ سیاسی مصروفیات اس عہدے کی ذمہ داریاں سر انجام دینے سے قاصر ہیں لہذا وہ 30 نومبر 2014ء کو یہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔[31] یونیورسٹی کے وائس چانسلر برائن کینٹرن نے عمران خان کو طالب علموں کے لیے ایک شاندار رول ماڈل قرار دیا۔[32]
1990ء کی دہائی کے دوران میں عمران خان نے کھیلوں کے لیے یونیسیف کے خاص نمائندہ کے طور پر بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں صحت اور امیجریشن پروگراموں کو فروغ دیا۔[33] لندن میں کرکٹ کے فلاحی ادارے لارڈ ٹیورنرز کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔[34] عالمی کرکٹ کپ منعقدہ 1992ء کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی، اس کے بعد سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم میوریل ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، ٹرسٹ کی پہلی کوشش کے طور پر پاکستان کے پہلے اور واحد کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی۔[35] اس کی تعمیر کے لیے پوری دنیا سے 25 ملین ڈالر سے زائد عطیہ اور فنڈز کا استعمال کرتے ہوئی جبکہ ہسپتال کی زمین اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے عطیہ کی تھی۔
27 اپریل 2008ء کو عمران خان نے ضلع میانوالی میں نمل کالج نامی تکنیکی کالج کا قیام کیا۔[36] یہ کالج میانوالی ترقیاتی ٹرسٹ کی جانب سے کیا گیا اور دسمبر 2005ء سے اسے بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے ایسو سی ایٹ کالج کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی ایک اور فلاحی تنظیم عمران خان فاؤنڈیشن ہے جس کا مقصد پاکستان بھر میں محتاج لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ اس تنظیم نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کو مدد فراہم کی ہے۔ بخش فاؤنڈیشن نے عمران خان فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں روشن گاؤں کی مہم چلائی ہے، اس مہم کے ذریعے منتخب کردہ گاؤں میں شمسی توانائی کے کئی اسٹیشنوں کا قیام کیا جائے گا اور گاؤں والوں کو شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹین فراہم کی جائے گی۔[37]
انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے صدراتی ایوارڈ بھی ملا۔ علاوہ ازیں 1992ء میں انسانی حقوق کا ایشیا ایوارڈ اور ہلال امتیاز (1992ء) میں عطا ہوئے۔ آپ بریڈفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ کے چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
1995ء میں عمران خان نے مرحوم برطانوی ارب پتی تاجر سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی، جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی۔ جمائما گولڈ سمتھ نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام جمائما خان ہے۔ اس شادی کا شہرہ پوری دنیا میں ہوا اور عالمی میڈیا نے اس کو خصوصی اہمیت دی۔ 22 جون، 2004ء کو انھوں نے طلاق کا اعلان کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مصروف زندگی کی وجہ سے انھیں وقت نہیں دے پاتے تھے۔
8 جنوری، 2015ء کو عمران خان برطانوی و پاکستانی صحافی ریحام خان کے ساتھ رشتہِ ازدواج میں بندھ گئے۔ 30 اکتوبر، 2015ء کو دونوں نے طلاق کی کارروائی شروع کرنے کی تصدیق کر دی۔[38] اور عمران خان کی یہ شادی بھی ناکام رہی۔
2017ء کے اواخر اور 2018ء کے آغاز میں کئی خبریں آئیں کہ عمران خان نے اپنی روحانی پیشوا بشری بی بی سے شادی کر لی ہے۔ تاہم عمران خان[39][40] تحریک انصاف کے دیگر افراد[41][42][43] اور مانیکا خاندان نے اس افواہ کی نفی کی۔[44][45][46] 7 جنوری 2018ء کو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ نے ایک بیان جاری کیا کہ عمران خان نے بشری بی بی کو شادی کے لیے پیغام دیا ہے تاہم ابھی اسے قبول نہیں کیا گیا۔[47] 18 فروری 2018ء کو، پی ٹی آئی نے تصدیق کی کہ عمران خان نے بشری بی بی سے شادی کر لی ہے۔[48][49]
کرکٹ کیریئر کے دوران میں عمران خان کو کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش کی گئی۔ 1987ء میں صدرپاکستان محمد ضیاء الحق نے انھیں مسلم لیگ میں سیاسی عہدے کی پیش کش کی جسے انھوں نے انکار کر دیا۔[50] نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا تھا۔[51] ضیاء الحق کے ساتھ عمران خان کے اچھے تعلقات تھے، انھوں نے کرکٹ چھوڑ دی تھی لیکن جنرل ضیاء ان کو دوبارہ کرکٹ میں واپس لے کر آئے 1992ء کا ورلڈ کپ بھی جنرل ضیاءکے کہنے پر کھیلا۔[52]
1994ء کے آخر میں انھوں نے انٹیلی اجنسی (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان نامی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور اسی انھوں نے سیاست میں باقاعدہ شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی۔[53]۔
25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف قائم کر کے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انھیں کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہ اپنی جدوجہد اور اصول پرستی کی بدولت پاکستانی عوام، خصوصاً نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی سیاسی جماعت کو پاکستان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 32، ایوان بالا میں 7، صوبائی اسمبلی سندھ میں 4، صوبائی سمبلی پنجاب میں 30 اور صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا میں 59 نشستیں حاصل ہیں۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے نعرے کرپشن اور سیاسی مافیا کا خاتمےٗ کی وجہ سے مشرف کی فوجی آمریت کی حمایت کی۔ عمران خان کے مطابق مشرف انھیں 2002ء میں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔[54] 2002ء کے ریفرنڈم میں عمران خان نے فوجی آمر کے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ تمام بڑی جماعتوں نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔[55] 2002ء میں عام انتخابات میں وہ میانوالی کی سیٹ سے قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔انھوں نے قومی اسمبلی کی کشمیر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں میں بھی خدمات سر انجام دیں ہیں۔[56]
2 اکتوبر، 2007 کو جنرل مشرف نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفٰی دیے بغیر صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے خلاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے دیگر 85 اسمبلی ارکان کے ساتھ مل کر عمران خان نے تحریک چلائی۔[57] 3 نومبر، 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد آپ کو نظربند کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔[58] 14 نومبر کو پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامی حالت کے خلاف طلبہ احتجاج کے دوران میں عمران خان عوامی حلقوں میں نظر آئے۔ اس ریلی کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان کو زد و کوب کیا۔[59] اس احتجاج کے بعد ان کو گرفتار کر کے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھجوا دیا گیا جہاں یہ چند دن قید رہے۔[60] انتظامیہ کے مطابق ان پر "دہشت گردی" قانون کے تحت مقدمہ بنایا جائے گا۔دنیا بھر کی اخبارات نے عمران کی فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کو سراہا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف سے وزارت عظمی کا منصب طلب کر رہے تھے اور جب انھیں انکار کر دیا گیا تو وہ پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے۔[61] 18 نومبر کو عمران خان نے ڈیرہ غازی خان جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔[62] 22 نومبر کو اچانک رہا کر دیا گیا۔
عمران نے کہا ہے کہ ان کی زندگی اور کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ برطانوی حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم سربراہ الطاف حسین کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا جس سے یہ لوگ شیر ہو کر تشدد کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ عمران خان متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین کے خلاف الزامات تو لگاتے رہے اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ الطاف حسین کے خلاف ثبوت لے کر لندن جائیں گے۔ وہ گئے بھی لیکن اپنے الزامات کو کسی عدالت میں کبھی ثابت نہ کر سکے۔
30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان نے لاہور میں 100،000 سے زائد حامیوں کو خطاب کیا، حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی تبدیلیاں حکمران جماعتوں کے خلاف "سونامی" ہیں۔25 دسمبر 2011 ءکو کراچی میں ہزاروں حامیوں پر مشتمل کامیاب عوامی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس وقت سے عمران خان حکمران جماعتوں اور پاکستان میں مستقبل کے سیاسی امکانات کا حقیقی خطرہ بن گیا۔۔ بین الاقوامی ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف دونوں قومی اور صوبائی سطح پر پاکستان میں مقبول جماعتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ 6 اکتوبر 2012 کو عمران خان نے پاکستان کے جنوبی وزیرستان کے علاقے میں کوٹائی کے گاؤں پر ڈرون حملے کے خلاف مظاہرین کے ایک کاروان میں شامل ہوئے، 23 مارچ 2013 کو، خان نے اپنے انتخابی مہم کے آغاز پرنیا پاکستان قرارداد متعارف کروائی۔ 29 اپریل کو آبزور جریدے نے عمران خان اور ان کی جماعت کو حکمران مسلم لیگ کے لیے اہم اپوزیشن قرار دیا۔ 2011ء اور 2013 کے درمیان، عمران خان اور نواز شریف کے مابین تلخ جملوں اور الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ رہا۔ اپریل 2013 سے انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے ایک دوسرے پر تنقید کی۔اس انتخابی مہم کے دوران میں عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو امریکا کی جنگ سے باہر نکالتے ہوئے قبائلی علاقوں میں امن لے کر آئے گا۔ انھوں نے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور ملک کے دوسرے حصوں میں مختلف عوامی اجلاسوں کو خطاب کیا جہاں انھوں نے اعلان کیا کہ تحریک انصاف یکساںتعلیمی نظام متعارف کروائے گی جس میں امیر اور غریب بچوں کو مساوات ملے گی۔ انتخابات سے صرف چار دن قبل 7 مئی، 2013ء کو ایک فورک لفٹ سے گرنے کے بعد عمران خان کو لاہور میں شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا۔ طبی معائنے کے بعد بتایا گیا کہ عمران خان بخیریت ہیں کوئی تشویش ناک بات نہیں۔ اس سانحے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے منسوخ کر دیے گئے۔[63] عمران خان نے لاہور کے ہسپتال میں لیٹ کر ویڈیو لنک کے ذریعے نے اسلام آباد میں حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر کے مہم کا اختتام کیا۔
2018ء کے عام انتخابات میں ان کی جماعت پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی۔
17 اگست 2018ء کو عمران خان 176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے جب کہ ان کے مد مقابل اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 96 ووٹ حاصل کیے۔[64] انھوں نے 18 اگست 2018ء کو حلف لیا۔[65] 18 اگست، کو انھوں نے بیس رکنی کابینہ کا اعلان کیا اور وزیر داخلہ اور وزیر پاور کا قلمدان خود کے لیے منتخب کیا۔[66] بعد ازاں کابینہ میں توسیع کی گئی اور انھوں نے وزیر پاور کا قلمدان عمر ایوب خان کو سونپ دیا۔
عمران خان نے حلف لینے کے بعد اپنی کابینہ کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کے زیادہ تر مقرر کردہ وزرا پہلے بھی مشرف کے دور میں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔[67][68]
اسلام آباد کی ضلعی اور سیشن عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری کے نتیجے میں، اسلام آباد پولیس اور لاہور پولیس نے 14 مارچ 2023ء کو خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن شروع کیا۔ [69] [70] 9 مئی کو، عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیم فوجی دستوں نے گرفتار کیا تھا۔ [71] [72] یہ القادر ٹرسٹ کیس میں ان کے مبینہ کردار پر تھا، [73] [73] [74] جس کے بعد پی ٹی آئی پارٹی کے اراکین نے ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔ [75] [76] ان کی گرفتاری سے مظاہرے ہوئے اور 9 مئی کے فسادات ہوئے ۔ [77] بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ [78] 9 مئی کے فسادات کے بعد، پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین نے خان کا ساتھ چھوڑ دیا اور جہانگیر ترین کی قیادت میںاستحکام پاکستان پارٹی بنیاد رکھی۔ [79] 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ عمران خان کو محفوظ ضمانت دے دی گئی اور اسی دن رہا کر دیا گیا۔[80]
5 اگست 2023ء کو، عمران خان کو دوسری بار گرفتار کیا گیا اور 2018ء سے 2022ء تک اپنی وزارت عظمیٰ کا غلط استعمال کرتے ہوئے سرکاری قبضے میں ایسے تحائف کی خرید و فروخت کرنے کا الزام ثابت ہونے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی جو بیرون ملک دوروں کے دوران وصول کیے گئے تھے اور ان کی مالیت 140 ملین روپے سے زیادہ تھی۔ [81] 29 اگست 2023ء کو، ایک اپیل کورٹ نے خان کی بدعنوانی کی سزا اور تین سال قید کی سزا معطل کر دی اور ضمانت منظور کر لی۔[82][83][84] بدعنوانی کے مقدمے میں معطل سزا کے باوجود، اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے حکم دیا کہ وہ "سائفر کیس" کے سلسلے میں جیل میں ہی رہیں گے۔ خان نے بارہا الزام لگایا ہے کہ انھیں ایک سائفر یا سفارتی کیبل موصول ہوئی ہے، جس میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ وہاں ایک امریکی شہری نے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اسے عہدے سے ہٹانے کی سازش کی۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے خان کے خلاف مبینہ سائفر پر معلومات شیئر کرنے اور ریاستی راز افشا کرنے اور اس طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر مقدمہ درج کیا۔ [85] [86]
30 جنوری 2024ء کو، خان کو اس کیس میں مجرم قرار دیا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عمران خان نے 8 فروری کو ہونے والے 2024ءکے پاکستانی عام انتخابات میں ووٹروں سے "اپنے ووٹ سے ہر ناانصافی کا بدلہ لینے" پر زور دیتے ہوئے رد عمل کا اظہار کیا۔ ان کے وکیل نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا اور ان کی قانونی ٹیم نے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بہت سے مبصرین نے الزام لگایا کہ یہ سزا 2024 ءکے انتخابات سے قبل خان اور پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کرنے کی مہم کا حصہ تھی۔ [87] خان نے خود اپنے خلاف تمام الزامات کو "سیاسی طور پر محرک" قرار دیا۔[88] ان کے اس وقت کے وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے نائب شاہ محمود قریشی کو بھی اس کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ خان کی بہن علیمہ نے کہا کہ استغاثہ نے ان کے بھائی کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔[89] اگلے دن، خان کو توشہ خانہ کیس کے لیے مجرم قرار دیا گیا اور اسے 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ [90] جس میں اسے اور اس کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دیے گئے سرکاری تحائف کی غیر قانونی فروخت شامل تھی، جب وہ وزیر اعظم تھے۔ اگست میں اپنی گرفتاری کے بعد سے، خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کا ٹرائل بھی ہوا۔ [91]
عمران خان کی جدو جہد پر 2013ء میں ایک فلم کپتان ریلیز ہوئی، جس میں عمران خان کے 1992ء سے لے کر 2013ء تک کے عوامی تبدیلی تک کے ادوار کو دکھایا گیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے واضح کیا گیا کہ مذکورہ فلم کی سرمایہ کاری و پیش کاری کا عمران خان اور اس کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ایک قطعی غیر وابستہ منصوبہ ہے جو فلم اور میڈيا سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے بنائی گئی ہے۔
عمران خان نے مندرجہ ذیل کتابیں لکھیں:
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.