اعجاز احمد (پیدائش: 20 ستمبر 1968ءسیالکوٹ،پنجاب) پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک سابق کھلاڑی ہیں جنھوں نے 60 ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔جبکہ 250 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیلے ان کے برادر نسبتی سلیم ملک سابق کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھی پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچوں اور ایک روزہ مقابلوں میں شرکت کی ہے وہ دائیں ہاتھ کے بلے باز اور بائیں ہاتھ کے میڈیم پیسر باولر تھے پاکستان کے علاوہ انھوں نے درہم کاونٹی،گوجرانوالہ کرکٹ ایسوسی ایشن ، حبیب بینک لمیٹڈ,اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن ،لاہور،ہاکستان آٹو موبیلیز کارپوریشن اور راولپنڈی کی طرف سے کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی۔

اجمالی معلومات ذاتی معلومات, مکمل نام ...
اعجاز احمدٹیسٹ کیپ نمبر 107
Thumb
ذاتی معلومات
مکمل ناماعجاز احمد
پیدائش (1968-09-20) 20 ستمبر 1968 (عمر 56 برس)
سیالکوٹ، پنجاب، پاکستان، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیبائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز
تعلقاتسلیم ملک (ہم زلف)[1]
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 107)3 فروری 1987  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ27 مارچ 2001  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
پہلا ایک روزہ (کیپ 60)14 نومبر 1986  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ایک روزہ11 اکتوبر 2000  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 60 250
رنز بنائے 3315 6564
بیٹنگ اوسط 37.67 32.33
100s/50s 12/12 10/37
ٹاپ اسکور 211 139*
گیندیں کرائیں 180 637
وکٹ 2 5
بولنگ اوسط 38.50 95.20
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ n/a
بہترین بولنگ 1/9 2/31
کیچ/سٹمپ 45/- 90/-
ماخذ: کرک انفو، 4 فروری 2006
بند کریں

ٹیسٹ کرکٹ

اعجاز احمد کو 1987ء میں بھارت کے خلاف چنئی میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا موقع دیا گیا تھا جس میں وہ صرف 3 رنز ہی بنا پائے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو اعجاز احمد ٹیم کا حصہ تھے۔ لارڈز کے پہلے ٹیسٹ میں تو ان کی باری نہ آئی مگر لیڈز کے ٹیسٹ میں انھوں نے اپنی پہلی نصف سنچری سکور کی۔ برمنگھم کے اگلے ٹیسٹ میں وہ 20 اور 11 رنز ہی بنا سکے۔لیکن اوول کے ٹیسٹ میں انھوں نے ایک بار پھر 69 رنز کی اننگ کے ساتھ سیریز کا شاندار اختتام کیا۔ 1987ء کے آخر میں انگلستان کے جوابی دورے میں وہ صرف لاہور کے ٹیسٹ میں 41 رنز بنا سکے، جبکہ فیصل آباد اور کراچی کے بقیہ 2 ٹیسٹوں میں ان کی کارکردگی نمایاں نہ تھی۔ 1988ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا۔ تو اعجاز احمد نے جارج ٹائون کے ٹیسٹ میں 31 اور پورٹ آف سپین کے دوسرے ٹیسٹ میں 43 رنز سکور کیے۔ آسٹریلیا کی ٹیم کے دورئہ پاکستان 1988ء میں وہ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں صرف 12 رنز پر ہی کریز چھوڑ گئے تاہم فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ ایک بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب رہے۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 316 رنز بنائے جس میں 221 گیندوں پر 297 منٹ میں 17 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 122 رنز اس کے کھاتے میں درج ہوئے۔ سلیم یوسف 62 اور جاوید میانداد 43 کے ساتھ بھی اس اننگ کو تعمیر کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ آسٹریلیا کی ٹیم نے 321 رنز بنائے۔ دوسری اننگ میں بدقسمتی سے اعجاز بغیر کوئی رن بنائے آئوٹ ہوئے۔ لاہور میں 23 اور 15 رنز ان کے حصے میں آئے۔2 سال کے بعد 1990ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کا جوابی دورہ کیا۔ میلبورن کے پہلے ٹیسٹ میں اعجاز احمد نے آسٹریلیا میں اپنی پہلی سنچری سکور کی۔ یہ ٹیسٹ اگرچہ آسٹریلیا نے 92 رنز سے جیت لیا تھا تاہم وسیم اکرم 11 وکٹیں لے کر اس ٹیسٹ کے مرد میدان رہے تھے۔ آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 223 رنز بنائے تھے جس میں وسیم اکرم نے 6/62 کے ساتھ ان کی خوب خبر لی تھی۔ پاکستان کی ٹیم صرف 107 پر ہی آئوٹ ہو گئی تھی۔ اعجاز احمد نے اس میں صرف 19 رنز کا حصہ ڈالا تھا۔ اس کا سبب آسٹریلوی بولرز کی تباہ کن بولنگ تھی۔ ٹیری آلڈرمین، کارل ریکمین اور مرو ہیوز نے 3,3 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگ میں 312 رنز سکور کیے۔ وسیم اکرم نے 98/5 کے ساتھ اپنی شاندار بولنگ کا کرشمہ پیش کیا تھا۔ اعجاز احمد 121، جاوید میانداد 65، عمران خان 45 اور سلیم یوسف 38 کے ساتھ پاکستان نے اپنی دوسری اننگ میں 36 رنز بنائے تھے۔ تاہم انھیں جیتنے کے لیے 429 رنز کا ہدف ملا تھا جس کے لیے قومی ٹیم کو پورا وقت نہیں ملا تھا۔ایڈیلیڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں اعجاز احمد 28 اور 4 جبکہ سڈنی کے تیسرے ٹیسٹ میں صرف 8 رنز بنا سکے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کراچی کے مقام پر ان کے حصے میں صرف 9 رنز آئے لیکن اس کے باوجود انھیں ٹیم میں شامل رکھا گیا اور لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ ایک اور نصف سنچری کے ساتھ سامنے آئے۔ اس بار انھوں نے 86 رنز سکور کیے تاہم فیصل آباد کے تیسرے ٹیسٹ میں وہ 5 اور 6 کی باریاں ہی ٹیم کو دے سکے۔

1994ء کا کرکٹ سیزن

1994ء میں انھیں دوبارہ پاکستان ٹیم میں طلب کیا گیا جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ انھوں نے لاہور کے ٹیسٹ میں 48 اور 6 کی کارکردگی دکھائی۔ اگلے سال انھیں سائوتھ افریقہ کے دورے پر لے جایا گیا مگر انھیں ایک ہی ٹیسٹ میں شرکت کا موقع ملا جس میں وہ جوہانسبرگ کے مقام پر 19 اور 1 تک ہی محدود رہے۔ اس دورے کے بعد پاکستان کی ٹیم زمبابوے کے دورے پر تھی جہاں اعجاز احمد نے ہرارے کے ٹیسٹ میں 65 ، بلاویو کے ٹیسٹ میں 76 اور ہرارے کے تیسرے ٹیسٹ میں 41 اور 55 کی نسبتاً بہتر کارکردگی پیش کی۔اسی سال کے آخر میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک موقع پر پھر آسٹریلیا کے دورے پر تھی۔ ہوبارٹ کے ٹیسٹ میں اعجاز احمد 34 ناٹ آئوٹ اور 4 رنز بنا سکے جبکہ سڈنی کے ٹیسٹ میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی فتح میں اہم رول ادا کیا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 299 رنز بنائے تھے۔ اعجاز احمد 137 کے ساتھ اننگ کے ٹاپ سکورر تھے۔ انھوں نے یہ سنچری 332 گیندوں پر 442 منٹ میں مکمل کی۔ جبکہ دوسری اننگ میں وہ 15 رنز یہ بنا سکے۔ مشتاق احمد نے پہلی اننگ میں 95/5 اور دوسری باری میں 91/4 کے ساتھ ٹیم کی مدد کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں اعجاز احمد کی ایک اور سنچری سامنے آئی جب انھوں نے پہلی اننگ میں 30 رنز بنانے کے علاوہ دوسری اننگ میں 103 رنز کی باری مکمل کی۔

1996-97ء کا ٹیسٹ سیزن

اس سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ لارڈز کے ٹیسٹ میں اعجاز احمد 76 رنز کی خوبصورت باری ٹیم کو دینے میں کامیاب رہے جبکہ لیڈز کے ٹیسٹ میں ان کے بلے سے ایک اور سنچری نے جنم لیا۔ پاکستان نے اپنی پہلی اننگ میں 448 رنز بنائے تھے۔ 201 گیندوں پر 279 منٹ میں اعجاز احمد نے 141 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا جس میں 20 چوکے اور 2 چھکے بھی شامل تھے۔ معین خان نے بھی 105، سلیم ملک 55 اور آصف مجتبیٰ نے 51 رنز کے ساتھ سکور میں اضافہ کیا تھا۔ اعجاز احمد نے دوسری اننگ میں بھی 52 رنز سکور کیے۔ یہی نہیں بلکہ اوول کے آخری ٹیسٹ میں انھوں نے 61 رنز کی ایک اور باری ٹیم کو منتقل کی۔تاہم حیرت انگیز طور پر وہ زمبابوے کے دورہ پاکستان کے موقع پر بیٹنگ میں ناکام رہے۔ شیخوپورہ میں 9 اور فیصل آباد ٹیسٹ میں وہ محض 2 رنز ہی بنا سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں بھی ان کی رسائی 3 اور 8 تک ہی ہو سکی جس پر ان کے انتخاب پر گہرے سوالات نمودار ہوئے جس کا انھوں نے موثر جواب راولپنڈی کے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 125 رنز سے خوب دیا۔ انھوں نے 198 گیندوں پر 273 منٹ میں 19 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 125 کی اننگ کھیل ڈالی۔ جبکہ سعید انور جو اس میچ میں پاکستان کے کپتان تھے نے بھی 149 رنز، سلیم ملک نے 78 رنز کا حصہ ڈالا۔ اس کے بعد پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا تو اعجاز احمد نے کولمبو کے پریما داسا اسٹیڈیم میں 113 رنز کی ایک اور سنچری کا جادو جگایا تاہم اگلے ٹیسٹ میں وہ 4 اور 47 تک ہی کامیاب دکھائی دیے۔

1997-98ء کا ٹیسٹ سیزن

اس سیزن میں اس کا پہلا سامنا جنوبی افریقہ کی مہمان ٹیم سے ہوا۔ راولپنڈی کے ٹیسٹ میں 11 اور 16 جبکہ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں صرف 16 رنز نے اس کے مداحوں کو تشویش میں مبتلا کیا۔ شیخوپورہ کے ٹیسٹ میں اس کی باری نہیں آ سکی تھی۔ اعجاز احمد کی اگلی آزمائش ویسٹ انڈیز کے خلاف تھی جس نے نومبر 1997ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پشاور کے ٹیسٹ میں اعجاز احمد نے 65 اور راولپنڈی میں 10 رنز سکور کیے۔ لیکن اس سیریز میں کراچی کے مقام پر اس کی 151 رنز کی اننگ قابل دید تھی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف 10 وکٹوں سے جیتے جانے والا یہ ٹیسٹ ثقلین مشتاق کی 9 وکٹوں کی مرہون منت تھا۔ تاہم بیٹنگ میں عامر سہیل 160 اور اعجاز احمد 151 رنز کے ساتھ رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے میں کامیاب رہے۔ اعجاز احمد نے اپنی سنچری کے لیے 337 گیندوں کا سامنا کیا جس کے لیے انھیں 485 منٹ کریز پر گزارنے پڑے۔ 1998ء کے اوائل میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر گئی مگر حیرت انگیز طور پر اعجاز احمد 34 رنز کی ایک بڑی اننگ کھیلنے کے علاوہ متاثر نہ کرسکے۔اسی سیزن میں اسے زمبابوے کے خلاف بلائیو کے ایک ٹیسٹ میں شرکت کا موقع دیا گیا مگر وہ 23 اور 15 ہی بنا سکے۔ لیکن آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کے 2 ٹیسٹ اس کے لیے اطمینان کا باعث تھے کیونکہ اس نے پشاور کے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کی اننگ 580 میں 155 رنز کا حصہ ڈالا تھا۔ جبکہ سعید انور کے 126 رنز بھی قابل دید تھے۔ انضمام الحق بدقسمتی سے 3 رنز کی کمی سے اپنی ٹیسٹ سنچری سے محروم رہے لیکن اس میچ کی خاص بات آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر کی ٹرپل سنچری تھی جنھوں نے 564 گیندوں پر 720 منٹ میں ناقابل شکست 334 رنز بنائے۔ ان کی یہ سنچری کی نسبت آسٹریلیا 4 وکٹوں پر 599 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ اعجاز احمد کے لیے کراچی کا تیسرا ٹیسٹ بھی خوش قسمت ثابت ہوا کیونکہ اس نے پہلی اننگ میں تو صرف 5 رنز تک ہی رسائی حاصل کی مگر دوسری اننگ میں 120 ناٹ آئوٹ کے ساتھ اس نے اپنی سنچریوں میں ایک اور تیسرے ہندسے کا اضافہ کیا۔زمبابوے کے دورہ پاکستان میں بھی پشاور میں اس نے 87 رنز کی ایک خوبصورت باری تخلیق کی۔ البتہ لاہور میں وہ صرف 16 رنز ہی بنا سکے۔ اب اس کے سامنے دورئہ بھارت موجود تھا لیکن یہ دورہ ہمیں اس طرح نظر آیا کہ اعجاز احمد مسلسل رنز بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ چنئی میں 13 اور 11، دہلی میں 17 اور کولکتہ میں 1 اور 11 پر ہی اس کا ہمت ہارنا سمجھ سے باہر تھا۔

1999-2000ء کا کرکٹ سیزن

گذشتہ ٹیسٹ سیریز کا اختتام ان کی ناکامی سے ہوا تھا تاہم اس نے سری لنکا کے خلاف ڈھاکہ میں ایک بڑی اننگ کھیل ڈالی جب اس نے اپنی پہلی ڈبل سنچری سکور کی۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ ایک اننگ اور 75 رنز سے جیتا تھا۔ سری لنکا کی پہلی اننگ کا سکور 231 کے جواب میں پاکستان نے اعجاز احمد کے 211 اور انضمام الحق کے 200 رنز کی بدولت 594 رنز کا بڑا سکور تخلیق کیا تھا۔ سری لنکا کی ٹیم دوسری اننگ میں بھی 188 پر ڈھیر ہو گئی۔ اعجاز احمد کی یہ باری اس کے ٹیسٹ کیریئر کا سب سے بڑا انفرادی سکور بھی تھا اور اس کی اکلوتی ڈبل سنچری بھی۔ اسی سیزن میں اس کے کامیاب دورئہ آسٹریلیا کی بھی روداد پر نظر دوڑاتے ہیں۔ نومبر میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تو پہلے ٹیسٹ میں برسبین کے مقام پر وہ صرف 5 رنز ہی بنا سکے۔لیکن ہوبارٹ کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے دوسری اننگ میں 82 رنز سکور کیے اور پرتھ کے آخری ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں وہ ایک اور سنچری 115 بنانے میں سبقت لے گئے۔ مارچ 2000ء میں سری لنکا کے خلاف اپنی سرزمین پر ان کی 7 اور 3 رنز تک ہی رسائی ہو سکی۔

2001ء آخری ٹیسٹ سیریز

یہ ان کی آخری ٹیسٹ سیریز میں جس میں انھیں نیوزی لینڈ کے خلاف 2 ٹیسٹ کھیلنے کو ملے۔ کرائسٹ چرچ کے ٹیسٹ میں وہ صرف 11 رنز بنا کر کرس ڈرم کی گیند پر ہی ہٹ وکٹ ہو گئے۔ جبکہ ہملٹن کے دوسرے ٹیسٹ میں جو ان کے کیریئر کا آخری ٹیسٹ تھا وہ صرف 5 رنز ہی بنا سکے اور کرس مارٹن کی گیند پر وکٹ کیپر ایڈم پرورے کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہوئے۔ اس طرح 1986-87ء سے 2000-2001ء تک ان کا ٹیسٹ کیریئر اختتام کو پہنچا۔

ون ڈے کیریئر

اعجاز احمد کو ایک روزہ مقابلوں کے لیے اپنے ہوم گرائونڈ سیالکوٹ پر 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلنے کا موقع دیا گیا مگر وہ صرف 19 رنز ہی بنا سکے۔ انھیں ویسٹ انڈیز کے خلاف اگلے مسلسل 3 میچوں میں بھی کوئی بڑی اننگ کھیلنے کو نہیں ملی۔ اس طرح 1986ء میں ہی شارجہ اور پرتھ کے میدانوں پر بھی وہ کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ایک روزہ مقابلوں میں ان کی پہلی بڑی اننگ 1987ء کے دورئہ بھارت میں جمشید پور کے مقام پر 72 رنز کی صورت میں نظر آئے۔ بھارت کے 265 رنز کے جواب میں پاکستان نے 5 وکٹوں پر ہدف عبور کر لیا تھا جس میں 83 گیندوں پر 72 رنز کی باری کے ذریعے اعجاز پاکستان کی فتح کے نمایاں کردار رہے تاہم جاوید میانداد کے 78 رنز بھی معاون ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اگلے 5 میچوں میں بھی وہ کوئی بڑی اننگ نہ کھیل سکے تاوقتیکہ 1987ء کے عالمی کپ میں انگلستان کے خلاف راولپنڈی میں اس کے بلے سے 59 رنز کی باری نے جنم لیا جو 59 ہی گیندوں پر 4 چوکوں کی مدد سے بنائے گئے تھے۔1988ء میں سری لنکا کے خلاف ڈھاکہ کے میدان پر اس نے ایشیا کپ میں ایک ایسے مرحلے پر جب ٹیم مشکلات سے دوچار تھی، 58 گیندوں پر 54 رنز بنائے تاہم کوئی اور دوسرا کھلاڑی اس کا ساتھ دینے سے قاصر رہا اور پاکستان کی ٹیم 194 رنز بنانے کے بعد سری لنکا سے یہ میچ 5 وکٹوں سے ہار گئی۔ اگلے میچ میں اس نے بنگلہ دیش کے خلاف 124 ناقابل شکست رنز بنا کر اپنا غصہ نکالا۔ پاکستان نے 3 وکٹوں پر 284 رنز بنائے۔ اعجاز کے علاوہ معین العتیق نے بھی 105 رنز بنا کر ٹیم کے سکور کو بڑھاوا دیا تھا۔ بنگلہ دیش کی ٹیم مقررہ 45 اوورز میں صرف 111 رنز ہی بنا سکی تھی اور یوں پاکستان نے 173 رنز کے بڑے مارجن سے اس میچ میں کامیابی کو اپنا مقدر بنایا۔ 1988ء کے سیزن میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں 37، برسبین میں 41 اور نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں 42 ناقابل شکست رنز کے ساتھ اس کی کامیابی کے گواہ تھے۔1989ء میں اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف شارجہ میں 50 اور ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف کولکتہ میں 56 رنز کی 2 باریاں اپنی ریکارڈ بک میں درج کروائیں لیکن سری لنکا کے خلاف 1990ء میں آسٹریلیا میں منعقدہ ورلڈ سیریز کے میچ میں اس نے پاکستان کی 5 وکٹوں سے فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سری لنکا کی ٹیم 5 وکٹوں پر 253 رنز بنا سکی۔ پاکستان نے مقررہ ہدف 47 اوورز میں ہی مکمل کر لیا تھا۔ اعجاز احمد 100 گیندوں پر 102 رنز اور سلیم یوسف 69 گیندوں پر 52 رنز کے ساتھ پاکستان کی فتح کے معاون کار تھے۔ اعجاز احمد کو میچ کا بہترین قرار دیا گیا تھا۔ 1990ء میں شارجہ کے میدان پر سری لنکا کے خلاف آسٹریلیشیا کپ میں اس کے 64 گیندوں پر 89 رنز جس میں 3 چھکے بھی شامل تھے، ایک بار پھر پاکستان کو فتح دلانے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان نے 8 وکٹوں پر 311 رنز بنائے تھے جس میں جاوید میانداد کے 75، سلیم یوسف کے 46 اور سعید انور کے 40 رنز کا بھی کردار تھا۔ سری لنکا کی ٹیم 221 رنز تک ہی محدود رہی جس کا سبب وقار یونس کی تباہ کن بولنگ تھی جس نے 26 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو اپنا شکار کیا تھا مگر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز اعجاز احمد کے ہی حصے میں آیا۔ سری لنکا کے خلاف ہی 1990ء میں اعجاز احمد نے 54 ناقابل شکست رنز کی ایک باری کھیلی تھی۔ 1994ء میں اعجاز احمد نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کے خلاف سہہ ملکی سیریز کے ایک میچ میں فیصل آباد کے مقام پر 98 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کے پہلے کھیلتے ہوئے 4 وکٹوں پر 222 رنز کا ہدف طے کیا تھا جسے پاکستان نے 44.3 اوورز میں ہی 4 وکٹوں پر عبور کر لیا تھا۔ اعجاز احمد کی اننگ جس میں وہ صرف 2 رنز کی کمی سے سنچری مکمل نہیں کر سکے تھے 87 گیندوں پر 99 منٹ میں مکمل ہوئی تھی۔جنوبی افریقہ کے خلاف 1994ء میں جوہانسبرگ کے مقام پر 73 رنز اور ڈربن میں 114 ناقابل شکست رنز کے ساتھ بھی اس نے خود کو ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں کا ایک بڑا کھلاڑی ثابت کیا۔ 1995ء میں زمبابوے کے خلاف ہرارے میں 54، نیوزی لینڈ کے خلاف ولنگٹن میں 42 اور یو اے ای کے خلاف گوجرانوالہ میں 50 ناقابل شکست رنز بھی اس کی کھیل پر گرفت کا آئینہ دار تھے۔

1996ء کا سیزن اور آگے

1996ء میں اس نے نیدر لینڈ کے خلاف 39، انگلینڈ کے خلاف کراچی میں 70 اور سری لنکا کے خلاف سنگاپور میں 51 رنز کی باریاں بھی تخلیق کیں۔ شارجہ میں بھارت کے خلاف ناقابل شکست 43 رنز کے علاوہ اس نے بھارت ہی کے خلاف 42، مانچسٹر میں انگلستان کے خلاف 48، برمنگھم میں 79 اور نوٹنگھم میں 59 رنز کی اننگز کے ساتھ اپنے ایک روزہ بین الاقوامی کیریئر کے وقار میں اضافہ کیا۔ اسی سیزن میں ٹورنٹو میں بھارت کے خلاف 90 اور نیروبی میں جنوبی افریقہ کے خلاف 88 اور 47 کی باریاں بھی قابل دید تھیں۔ 1996ء میں زمبابوے کے خلاف پشاور میں اعجاز احمد نے 117 رنز کی ایک اور سنچری داغ ڈالی۔ سری لنکا کے خلاف شارجہ میں 49 اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیالکوٹ میں 59 رنز کے ساتھ وہ ٹیم کی مدد آ ملے تھے جبکہ کراچی کے ایک روزہ میچ میں انھوں نے ناقابل شکست 73 رنز کا بھی جادو جگایا تھا۔سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف 58 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف برسبین میں 59 رنز کے بعد اس نے 1997ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پرتھ کے مقام پر 94 رنز، سڈنی میں ناقابل شکست 43، سڈنی میں ہی 60 اور میلبورن میں 45 رنز سکور کیے۔ ایک روزہ مقابلوں میں ایک سنچری 1997ء میں نظر آئی جب اس نے لاہور کے مقام پر روایتی حریف بھارت کے خلاف ناقابل شکست 139 رنز بنائے تھے۔ بھارت ہی کے خلاف اعجاز احمد نے ڈھاکہ میں 117 بھی سکور کیے تھے۔ جبکہ آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں 111 اور زمبابوے کے خلاف راولپنڈی میں 132 رنز پر مشتمل اننگ بھی اس کے ریکارڈ بک کا حصہ ہے۔ 1999ء میں موہالی کے میدان پر بھارت کے خلاف ناقابل شکست 89 اور انگلستان کے خلاف شارجہ میں 137 رنز اس کی اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ تھی۔ 2000ء میں انڈیا کے خلاف ہوبارٹ میں 67 اور آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں 85 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد اس نے ایڈیلیڈ میں بھارت کے خلاف ہی 54 رنز پر مشتمل ایک اور نصف سنچری سکور کر ڈالی جبکہ اسی سال سنگاپور میں جنوبی افریقہ کے خلاف اس کے 56 رنز بھی قابل تحسین تھے تاہم 11 اکتوبر 2000ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف نیروبی جم خانہ گرائونڈ میں اس نے اپنے کیریئر کا آخری ایک روزہ میچ کھیلا تھا جس میں وہ صرف 3 رنز ہی بنا سکے۔

اعداد و شمار

اعجاز احمد نے 60 ٹیسٹ میچوں کی 92 اننگز میں 4 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 3315 رنز سکور کیے۔ 37.67 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعے میں 211 ان کا کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ اعجاز احمد نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 12 سنچریاں اور 12 ہی نصف سنچریاں سکور کیں جبکہ 45 کیچ بھی پکڑے۔ اعجاز احمد کے ایک روزہ بین الاقوامی کیریئر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے 250 میچوں کی 232 اننگز میں 29 دفعہ بغیر آئوٹ ہوئے 6564 رنز جوڑے۔ 32.33 کی اوسط سے تکمیل شدہ ان رنزوں میں 139 ناٹ آئوٹ اس کا سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا جبکہ اس نے 10 سنچریاں اور 37 نصف سنچریاں 90 کیچز کے ساتھ ریکارڈ کے ساتھ میں درج کروائیں۔ اعجاز احمد نے 169 فرسٹ کلاس میچوں میں 9889 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا۔ 271 اننگز میں 14 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر اس نے 38.47 کی اوسط سے 211 کے سب سے زیادہ بہترین انفرادی سکور کے ساتھ اپنی اس کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اعجاز احمد نے ٹیسٹ میچوں میں 2، ایک روزہ مقابلوں میں 5 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 34 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ اعجاز احمد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کسی ایک میچ میں 0 پر آئوٹ ہونے کے علاوہ دوسری اننگ میں سنچری بھی سکور کی ہوئی۔ انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف 1988ء میں فیصل آباد کے مقام پر پہلی اننگ میں 122 رنز بنائے مگر دوسری اننگ میں وہ بغیر رنز بنائے پویلین لوٹ گئے۔ اعجاز احمد نے انضمام الحق کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ کے لیے 1999ء میں ڈھاکہ کے مقام پر سری لنکا کے خلاف 352 ناقابل شکست رنز کی شراکت قائم کی۔ تیسری وکٹ کے لیے عالمی ریکارڈ کی فہرست میں یہ شراکت نویں نمبر پر ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں تیسری وکٹ کے لیے سری لنکا کے کھلاڑی سنگاکارا اور جے وردھنے نے 2006ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف کولمبو کے مقام پر 624 رنز بنائے تھے۔ اعجاز احمد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ایک سیریز میں سب سے زیادہ مرتبہ صفر پر آئوٹ ہونے کا ریکارڈ بھی بنایا۔ وہ 10 میچوں کی سیریز میں 10 اننگز میں 3 دفعہ صفر پر آئوٹ ہوئے۔ ان کے ساتھ یہ بدقسمتی 1999-2000ء میں کالٹن اینڈ یونائیٹڈ سیریز میں آسٹریلیا اور انڈیا کے خلاف انجام پائی۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.