پاکستان کے ٤تھے صدر اور ٩ویں وزیرِ اعظم (١٩٢٨-١٩٧٩) From Wikipedia, the free encyclopedia
پاکستان کے سابق وزیر اعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔[11] آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(اردو میں: ذُوالفِقار عَلی بُھٹّو)،(سندھی میں: ذوالفقار علي ڀٽو) | |||||||
مناصب | |||||||
وزیر خارجہ پاکستان [1] | |||||||
برسر عہدہ 24 جنوری 1963 – 30 جون 1966 | |||||||
وزیر خارجہ پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 15 جون 1963 – 31 اگست 1966 | |||||||
| |||||||
وزیر خارجہ پاکستان [1] | |||||||
برسر عہدہ 20 دسمبر 1971 – 28 مارچ 1977 | |||||||
صدر پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 20 دسمبر 1971 – 13 اگست 1973 | |||||||
| |||||||
وزیر دفاع پاکستان [2] | |||||||
برسر عہدہ 24 دسمبر 1971 – 5 جولائی 1977 | |||||||
وفاقی وزیر داخلہ [3] | |||||||
برسر عہدہ 24 دسمبر 1971 – 1 مئی 1972 | |||||||
مکلم ایوان زیریں پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 14 اپریل 1972 – 15 اگست 1972 | |||||||
| |||||||
وزیر اعظم پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 14 اگست 1973 – 5 جولائی 1977 | |||||||
| |||||||
وفاقی وزیر داخلہ [3] | |||||||
برسر عہدہ 13 جنوری 1977 – 28 مارچ 1977 | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 5 جنوری 1928ء [4][5][6][7][8] لاڑکانہ | ||||||
وفات | 4 اپریل 1979ء (51 سال)[4][5][6][7][8] راولپنڈی | ||||||
وجہ وفات | پھانسی | ||||||
مدفن | مزار قائد عوام | ||||||
طرز وفات | سزائے موت | ||||||
مقام نظر بندی | ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی | ||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند | ||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
زوجہ | نصرت بھٹو | ||||||
اولاد | بینظیر بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو ، صنم بھٹو ، شاہنواز بھٹو | ||||||
والد | شاہ نواز بھٹو | ||||||
خاندان | بھٹو خاندان | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ جنوبی کیلیفونیا کرائسٹ چرچ جامعہ کیلیفورنیا، برکلے سٹی لا کالج کیتھڈرل اینڈ جان کینون اسکول جامعہ کیلیفورنیا جامعہ اوکسفرڈ | ||||||
پیشہ | سیاست دان [9]، سفارت کار ، وکیل | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی [10] | ||||||
الزام و سزا | |||||||
جرم | قتل | ||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ذو الفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔
پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔
بھٹو جمہوری حکومت میں صدر پاکستان سکندر مرزا کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔ ایوب خان بھی 1954 سے وزیر دفاع کے منصب پر فائز تھے۔1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔ دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔
ستمبر 1977ء میں مسٹر بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔
18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ سندھ میں 4 اپریل ، ان کی شہادت کے دن صوبہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے،
زیڈ اے بھٹو کی وراثت آئین پاکستان پاکستان کے دولخت ہوجانے کے بعد استحکام پاکستان میں بھٹو کی اہمیت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے پہلوتہی ممکن نہیں۔ بھٹو پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ہیں۔
یکم جنوری 1974ء کو ذو الفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو قومیا لیا۔[12] جسے عالمی بینکار کنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی کے پھندے پر اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ "پھر ہم تمھیں ایک دہشت ناک مثال بنا دیں گے" ہنری کسنجر "Then we will make a horrible example of you!" (Henry Kissinger-1976)[13]
پاکستان میں جاگیرداروں کا مخصوص سیاسی کلچر رہا ہے۔ ستر کے عشرے اور اس سے قبل بھی اکثرسیاست دان جاگیردار تھے۔ خود کو بڑا سمجھنا، حکومت یا حکومتی اہلکار کے سامنے جھک جانا۔ اپنے مخالفین اور ماتحتوں سے ظالمانہ طریقے سے نمٹنا ان کا مخصوص طرزِ حیات تھا۔لہٰذا سیاست اور اقتدار میں بھی دھونس اور نوکرشاہی یا حکومت کی پشت پناہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ یہی لوگ اسمبلیوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں پر حاوی ہوتے تھے۔ باقی لوگ زمیندار تو نہ تھے لیکن ان کے سیاسی کلچر پر ہی چلتے تھے۔سیاسی جاگیردار کلچرکیا تھا؟ بھٹو نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں اس کو بیان کیا تھا۔
’جب جاگیردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں توعوام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ترقی نہیں ہوتی، کوئی کارخانہ نہیں لگتا، کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوتی۔ بدترین اندھیرا اورغربت چھائی رہتی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ترقی کرتے ہیں یا خوش حال ہوتے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، عام آدمی کا استحصال، معاشی اور سماجی ترقی سے بیگانگی ہے‘
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی آمرانہ و نیم آمرانہ تسلط کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی رہی۔ حکومت میں بھی آئی، لیکن کرپشن اور خراب حکمرانی کی لپیٹ میں آ گئی۔ سیاسی مصلحت کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی لائن اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنی۔ بینظیر بھٹو اور بھٹو کے عدالتی قتل کے معمے عشروں بعد بھی حل نہیں ہو سکے۔تاریخ میں بھٹو مزاحمت اور مقبول لیڈرشپ کی علامت کے طور پر رہیں گے۔ پیپلزپارٹی اب بھٹو کی بجائے بینظیر بھٹو کے ورثے کو مانتی ہے۔ بھٹو دور کے جیالے مر کھپ گئے یا بوڑھے ہو گئے یا حالات نے انھیں لاتعلق بنا دیا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی کا عوامی رنگ تھا۔ ہفتے دس دن میں وہ عوام سے رجوع کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ رنگ پھیکا پڑتا چلا گیا۔ بھٹوکی پارٹی میں جاگیردار کارکنوں اور پارٹی سے ڈرتے تھے۔ اب یہ طبقہ پارٹی کو ڈراتا ہے۔پیپلز پارٹی اب بھی ملکی سطح پر سیاسی قوت ہے لیکن پالیسیوں سے لگتا ہے وہ اپنی بقا کی ہی جنگ لڑ رہی ہے۔
دیا تھا صبح مسرت نے اک چراغ ہمیں | ||
اسی کو تم نے سر شام کھو دیا لوگو | [14] |
ناموس مصطفٰی کے نگہہ دار زندہ باد | ||
میر اُمم کے غاثیہ بردار زندہ باد! | ||
نوے برس کا ایک قضیہ کیا ہے طے | ||
بادہ گسار احمد مختار زندہ باد | ||
سرکر لیا ہے ختم نبوت کا معرکہ | ||
زندہ دلان لشکر احرار زندہ بار | ||
جھکتا نہیں ہے پرچم دین ہدیٰ کبھی | ||
رکتی نہیں ہے دین کی للکار زندہ باد | ||
ازبسکہ ذوالفقار علی بے نیام ہے | ||
خنجر ہوا ہے قافلہ سالار زندہ باد | ||
اہل وفا کے دل میں پیمبر کی ہے لگن | ||
اہل وفا کے عشق کی رفتار زندہ باد | ||
برطانوی نژاد نبوت کا ارتحال | ||
نرغے میں آ گئے ہیں سیہ کار زندہ باد | ||
بھٹو کا نام زندہ جاوید ہوگیا | ||
شورش شکست کھا گئے اشرار زندہ باد | [15] |
علی کی ذوالفقار تھا، وطن کا افتخار تھا | ||
وہ زندگی کے گلستان میں بے خزاں بہار تھا | ||
وہ راہنمائے مملکت، وطن کا تاجدار تھا | ||
سر عدو کے واسطے وہ تیغ بے نیام تھا | ||
وہ قائد عوام تھا، وہ قائد عوام تھا | ||
وہ ہنس پڑا تو کھل اٹھی کلی کلی، کرن کرن | ||
کہ اس کے دم سے بن گئی گلی گلی چمن چمن | ||
بنا رہا تھا دیس کو ارم ارم، عدن، عدن | ||
وہ شیر دل جوان تھا، وہ مرد نیک نام تھا | ||
وہ قائد عوام تھا، وہ قائد عوام تھا | ||
وہ ولولوں کا تاجور وہ حوصلوں کا ترجماں | ||
وہ دشمنوں کے واسطے تھا اک برق بے اناں | ||
وہ منزلوں کی جستجو میں ہر گھڑی رواں دواں | ||
کہ اس کے فکر آہنی کی زد میں صبح و شام تھا | ||
وہ قائد عوام تھا، وہ قائد عوام تھا | ||
جگر میں درد قوم کا نظر میں مسکراہٹیں | ||
وہ سن رہا ہے روح زندگی کی سرسراہٹیں | ||
وہ گن رہا ہے وقت کے ہر وقت کی آہٹیں | ||
کہ اس کے دل میں قوم کا عجیب احترام تھا | ||
وہ قائد عوام تھا، وہ قائد عوام تھا |
[مردہ ربط] بھٹو کی پھانسی کے 32 سال بعد پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے ریفرنس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت شروع کرتے ہوئے لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.