سندھ صوبے کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
کراچی (سندھی: ڪراچي) (انگریزی: Karachi) پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔[4] کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔ پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔
ڪراچي | |
---|---|
شہری ضلع | |
سرکاری نام | |
کراچی لوگو | |
سندھ (پاکستان) میں کراچی کا مقام۔ | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | سندھ |
بلدیہ پنچایت | 1853 |
شرکۂ بلدیہ | 1933 |
شرکۂ ام البلاد | 1976 |
شہری ضلعی حکومت | 14 اگست 2001ء |
مجلسِ شہر | مختلطِ شہر، گلشن قصبہ |
قصبات | |
حکومت[1] | |
• قسم | شہری ضلع |
• ناظمِ شہر | کوئی نہیں (خالی) |
• نائب ناظم | کوئی نہیں (خالی) |
رقبہ[2] | |
• کل | 3,530 کلومیٹر2 (1,360 میل مربع) |
بلندی | 8 میل (26 فٹ) |
آبادی (2009)[3] | |
• کل | 18,000,000 |
• کثافت | 5,099/کلومیٹر2 (13,210/میل مربع) |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
ڈاک رمز | 74000-75600 |
ٹیلی فون کوڈ | 21 |
ویب سائٹ | http://www.karachicity.gov.pk |
پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
کراچی دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہے۔ شہر ایک قدرتی بندرگاہ کے گرد وجود پایا۔ کراچی 52´ 24° شمال اور 03´ 67° مشرق پر واقع ہے۔
قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونتوبارا (Morontobara)، (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس(نیارخوس) واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور بربیریکون(بارباریکون)، جو ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ، عرب اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔
موجودہ نام کراچی سے پہلے کراچی کو مکران (بلوچستان) کے علاقے کولانچ کی ایک بلوچ مائی جو کولانچ سے ھجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی کی نسبت سے مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی تمام تر آبادی بلوچ تھی مائی کولاچی سے بعد میں کولاچی اور بگڑ کر انگریزوں کے دور میں کراچی ھو گئی 1772ء کو مائی کولاچی کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یوں مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے (بلوچی میں در گیٹ کو کہتے ہیں) ایک در (گیٹ) کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں کھارادر (سندھی میں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے در (گیٹ) کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں میٹھادر (سندھی میں مٹھودر) کہا جاتا تھا۔
1795ء تک کراچی (کولاچی) خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔
انگریزوں نے 3 فروری 1839ء کو کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو دریائے سندھ کی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے لیے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔ برطانوی راج کے دوران میں کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں کراچی میں 21 ویں نیٹِو انفنٹری نے 10 ستمبر کو مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر سے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور "بغاوت" کا سر کچل دیا۔
1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔
کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دار الحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ 1947 میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دار الحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ موجودہ دہائی میں کراچی میں امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں بہت ترقی ہوئی۔
ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔
کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کا رقبہ 3،527 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔ شہر کے درمیان میں سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں، ملیر ندی اور لیاری ندی۔ (سیلابی ند یاں) اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں)( اور برساتی نالے)گزرتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چونکہ بندرگاہ ہر طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس ليے اس کو ایک بہت خوبصورت قدرتی بندرگاہ سمجھا جاتا ہے۔
ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے۔ شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطا 250 ملی میٹر، جن کا زیادہ تر حصہ مون سون میں ہوتا ہے۔ کراچی میں گرمیاں اپریل سے اگست تک باقی رہتی ہیں اور اس دوران میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ رہتا ہے۔ نومبر سے فروری شہر میں موسم سرما مانا جاتا ہے۔ دسمبر اور جنوری شہر میں سب سے زیادہ آرام دہ موسم کے مہینے ہیں اور اس وجہ سے شہر میں انھی دنوں میں سب سے زیادہ تقاریب اورسیاحت ہوتی ہے۔
اس شہر کا عام طور موسم سرما سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اور یہاں کا موسم گرم مرطوب ہی رہتا ہے لیکن 21 جنوری 1934 میں کراچی والوں نے ایک ایسا دن دیکھا جب کراچی کا درجہ حرارت 0 ڈگری ہو گیا۔
کراچی درجہ حرارت | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر |
زیادہ سے زیادہ (اوسط) (سینٹی گریڈ میں) |
25 | 26 | 29 | 32 | 34 | 44 | 43 | 31 | 31 | 33 | 31 | 27 |
کم سے کم (اوسط) (سینٹی گریڈ میں) |
13 | 14 | 19 | 23 | 26 | 28 | 27 | 26 | 25 | 22 | 18 | 14 |
آب ہوا معلومات برائے کراچی | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 32.8 (91) |
36.1 (97) |
41.5 (106.7) |
44.4 (111.9) |
47.8 (118) |
47.0 (116.6) |
42.2 (108) |
41.7 (107.1) |
42.8 (109) |
43.3 (109.9) |
38.5 (101.3) |
34.5 (94.1) |
47.8 (118) |
اوسط بلند °س (°ف) | 25.6 (78.1) |
26.4 (79.5) |
28.8 (83.8) |
30.6 (87.1) |
32.3 (90.1) |
33.3 (91.9) |
32.2 (90) |
30.8 (87.4) |
30.7 (87.3) |
31.6 (88.9) |
30.5 (86.9) |
27.3 (81.1) |
30.0 (86) |
اوسط کم °س (°ف) | 14.1 (57.4) |
15.9 (60.6) |
20.3 (68.5) |
23.7 (74.7) |
26.1 (79) |
27.9 (82.2) |
27.4 (81.3) |
26.2 (79.2) |
25.3 (77.5) |
23.5 (74.3) |
20.0 (68) |
15.7 (60.3) |
22.2 (72) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | 0.0 (32) |
3.3 (37.9) |
7.0 (44.6) |
12.2 (54) |
17.7 (63.9) |
22.1 (71.8) |
22.2 (72) |
20.0 (68) |
18.0 (64.4) |
10.0 (50) |
6.1 (43) |
1.3 (34.3) |
0.0 (32) |
اوسط بارش مم (انچ) | 3.6 (0.142) |
6.4 (0.252) |
8.3 (0.327) |
4.9 (0.193) |
0 (0) |
3.9 (0.154) |
66.4 (2.614) |
44.8 (1.764) |
22.8 (0.898) |
0.3 (0.012) |
1.7 (0.067) |
4.5 (0.177) |
167.6 (6.6) |
ماخذ#1: HKO (normals, 1962–1987)[5] | |||||||||||||
ماخذ #2: PakMet (extremes, 1931–2008)[6] |
کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمی کراچی بنا دیا گیا۔ سن 2000ء میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد 2001ء میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن، کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع، ضلع کراچی جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی، ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔
سن 2001ء میں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔
ضلع کراچی کو 18 ٹاؤن(بلدیات) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل (حمل و نقل کی ہم آہنگی) اور چند دیگر زمرے آتے ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔
یہ ٹاؤنز(بلدیات) مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔
2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سید مصطفیٰ کمال نے کامیابی حاصل کی اور نعمت اللہ خان کی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہ نسرین جلیل شہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔ مصطفیٰ کمال ناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیا کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفیٰ کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھتے ہوئے شہر میں ترقی میں کافی تیزی سے کام کیا۔ لیکن 2010 کے بعد کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے کراچی شہر کی ترقی کافی حد تک رک سی گئی تھی لیکن 2015 میں عام انتخابات کے بعد سے نئی حکومتوں کے بعد شہر کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ سے آغاز ہو چکا ہے۔
کراچی شہر مندرجہ ذیل قصبات میں تقسیم ہے[7]:
کراچی شہر کے قصبات
|
واضح رہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔
|
گذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947ء کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند (1947) کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔[8] شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 94 اعشاریہ 04 فیصد آبادی شہر میں قیام پزیر ہے۔ اس طرح وہ صوبہ سندھ کا سب سے جدید علاقہ ہے۔
کراچی میں سب سے زیادہ آبادی اردو بولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔ انڈیا سے آنے والے مہاجرین میں دہلی، یوپی، حیدرآباد دکن سے آنے والوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور راجپوتانہ سے آنے والی ماڑواڑی، میمن، ملباری، باہری اور بعد میں مشرقی پاکستان سے آنے والی بہاری کمیونٹی قابل ذکر ہیں-
شہر کے دیگر باسیوں میں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، گجراتی، کشمیری، سرائیکی اور 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین شامل ہیں جو 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد پہنچے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔ ان مہاجرین میں پختون، تاجک، ہزارہ، ازبک اور ترکمان شامل تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں بنگالی، عرب، ایرانی، اراکانی کے مسلم مہاجرین (برما کی راکھائن ریاست کے ) اور افریقی مہاجرین بھی کراچی میں قیام پزیر ہیں۔ آتش پرست پارسیوں کی بڑی تعداد بھی تقسیم ہند سے قبل سے کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ کراچی کے پارسیوں نے شہر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم سرکاری عہدوں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ان کی اکثریت مغربی ممالک کو ہجرت کرگئی تاہم اب بھی شہر میں 5 ہزار پارسی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں گوا سے تعلق رکھنے والے کیتھولک مسیحیوں کی بھی بڑی تعداد آبادی ہے جو برطانوی راج کے زمانے میں یہاں پہنچی تھی۔
سال | 1856 | 1872 | 1881 | 1891 | 1901 | 1911 | 1921 | 1931 | 1941 | 1951 | 1961 | 1972 | 1981 | 1998 | 2006 |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
آبادی | 56,875 | 56,753 | 73,560 | 105,199 | 136,297 | 186,771 | 244,162 | 300,799 | 435,887 | 1,068,459 | 1,912,598 | 3,426,310 | 5,208,132 | 9,269,265 | 11,969,284 |
1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے:
زبانیں | مردم شماری کینساس 1981 | ربانیں بولنے والے | مردم شمادی کینساس 1998 | زبانیں بولنے والے |
---|---|---|---|---|
اردو | 48.52% | 4,497,747 | 54.34% | 2,830,098 |
پنچابی | 13.06% | 7,097,446 | 10.99% | ،389,736 |
سرائیکی | 2.11% | 195,581 | 3.99% | 529,624 |
پشتو | 11.42% | 2,158,650 | 8.71% | 453,628 |
سندھی | 7.22% | 669,340 | 6.29% | 327,591 |
بلوچی | 4.34% | 402,386 | 4.39% | 228,636 |
دیگر | 12.44% | 1,153,126 | 12.27% | 639,560 |
تمام | 100% | 9,269,265 | 100% | 5,208,132 |
کراچی پاکستان کا تجارتی دار الحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریباً تمام کے دفاتر پاکستان کی وال اسٹریٹ "آئی آئی چندریگر روڈ"(سابق میکلیوڈ روڈ) پر قائم ہیں۔
دبئی کا معروف تعمیراتی ادارہ ایمار پراپرٹیز کراچی کے دو جزائر بنڈل اور بڈو پر 43 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیراتی کام کا آغاز کر رہا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ 20 ارب روپے کے ایک منصوبے پورٹ ٹاور کمپلیکس کا آغاز کر رہی ہے جو ایک ہزار 947 فٹ بلندی کے ساتھ پاکستان کی سب سے بلند عمارت ہوگی۔ اس میں ایک ہوٹل، ایک شاپنگ سینٹر اور ایک نمائشی مرکز شامل ہوگا۔ عمارت کی اہم ترین خوبی اس کا گھومتا ہوا ریستوران ہوگا جس کی گیلری سے بدولت کراچی بھر کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ مذکورہ ٹاور کلفٹن کے ساحل پر تعمیر کیا جائے گا۔
بینکنگ اور تجارتی دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمامبین الاقوامی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصص کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی موجود ہے جو اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج بن چکا ہے۔ اس نے 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی)، الیکٹرانک میڈیا اور کال سینٹرز کا نیا رحجان بھی شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں (شرکتوں)کے کال سینٹرز کو ترقی کے ليے بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے اور حکومت نے آئی ٹی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ليے محصولات میں 80 فیصد تک کمی کے ليے کام کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی پاکستان کا سافٹ ویئر مرکز بھی ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں جن میں سے جیو،اے آروائی ،ڈان، ہم، ایکسپرس اور آج ٹی وی مشہور ہیں۔ مقامی سندھی چینل کے ٹی این، سندھ ٹی وی اور کشش ٹی وی بھی معروف چینل ہیں۔
کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں کراچی میں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ ٹویوٹا اور سوزوکی موٹرز کے کارخانے بھی کراچی میں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میں ملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اور ہینو پاک کے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی تیاری کا شعبہ پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوا صنعتی شعبہ ہے جس کا مرکز کراچی ہے۔
کراچی بندرگاہ اورمحمد بن قاسم بندرگاہ پاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں جبکہ جناح بین الاقوامی ہوائی اڈا ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا ہے۔
1960ء کی دہائی میں کراچی کو ترقی پزیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی کوریا نے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء نقل کیا۔
پورٹ ٹاور کمپلیکس (مجوزہ)
کریسنٹ بے (منظور شدہ)
کراچی کریک مرینا (زیر تعمیر)
ڈولمین ٹاورز (زیر تعمیر)
آئی ٹی ٹاور (منظور شدہ)
بنڈل جزیرہ (منظور شدہ)
بڈو جزیرہ (منظور شدہ)(اب کام رک چکا ہے)
اسکوائر ون ٹاورز (زیر تعمیر)
کراچی ماس ٹرانزٹ نظام
انشاء ٹاورز (منظور شدہ)
ایف پی سی سی آئی ٹاور (مجوزہ)
کراچی پاکستان کے چند اہم ترین ثقافتی اداروں کا گھر ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد ہندو جیم خانہ میں قائم کردہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کلاسیکی موسیقی اور جدید تھیٹر سمیت دیگر شعبہ جات میں دو سالہ ڈپلوما کورس پیش کرتا ہے۔ آل پاکستان میوزیکل کانفرنس 2004ء میں اپنے قیام کے بعد سالانہ میوزک فیسٹیول منعقد کر رہا ہے۔ یہ فیسٹیول شہری زندگی کے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں۔
کوچہ ثقافت میں مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ کراچی میں قائم چند عجائب گھروں میں معمول کی بنیادوں پر نمائشیں منعقد ہوتی ہیں جن میں موہٹہ پیلس اور قومی عجائب گھر شامل ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر منعقدہ کارا فلم فیسٹیول میں پاکستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ کراچی کی ثقافت مشرق وسطی، جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پزیر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالیجز قائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔
کراچی کے اہم تعلیمی ادارے درج ذیل ہیں؛
کراچی کے مشہور کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، مکے بازی، فٹ بال اور گھڑ دوڑ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مرکز نیشنل اسٹیڈيم کے علاوہ کرکٹ کے میچز(مقابلے) یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس، اے او کرکٹ اسٹیڈیم، کے سی سی اے کرکٹ گراؤنڈ، کراچی جیم خانہ گراؤنڈ اور ڈی ایچ اے کرکٹ اسٹیڈیم پر منعقد ہوتے ہیں۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اور فٹبال کے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، کراچی جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔ 2005ء میں شہر کے پیپلز فٹ بال اسٹیڈيم میں ساف کپ فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ کشتی رانی بھی کراچی کی کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔
کراچی جیم خانہ، سندھ کلب، کراچی کلب، مسلم جیم خانہ، کریک کلب اور ڈی ایچ اے کلب سمیت دیگر کھیلوں کے کلب اپنے ارکان کو ٹینس، بیڈمنٹن، اسکواش، تیراکی، دوڑ، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں دو عالمی معیار کے گالف کلب ڈي ایچ اے اور اور کارساز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں چھوٹے پیمانے پر کھیلوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں سب سے مشہور نائٹ کرکٹ ہے جس میں ہر اختتام ہفتہ پر چھوٹے موٹے میدانوں اور گلیوں میں برقی قمقموں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔
کراچی میں بین الاقوامی معیار کی تقریبا تمام طبی سہولیات موجود ہیں- کراچی کے طبی اداروں میں جگر کی پیوندکاری، گردوں کی پیوندکاری، آنکھوں کی پیوندکاری سمیت دل کے بائی پاس اور انجیوگرافی کی سہولیات موجود ہیں- کراچی میں مندرجہ ذیل اہم طبی ادارے ہیں؛
یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)
علاوہ ازیں کلفٹن، ڈي ایچ اے، شارع فیصل، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ میں بھی کئی مراکز ہیں۔
حسین آباد کو کو دوسرا برنس روڈ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی بے شمار فوڈ اینڈ ڈرنکس کے مراکز ہیں۔
کلفٹن کا ساحل ماضی قریب میں دو مرتبہ تیل کی رسائی کے باعث متاثر ہو چکا ہے جس کے بعد ساحل کی صفائی کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رات کے وقت تفریح کے ليے ساحل پر برقی قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کراچی کی ساحلی پٹی کی خوبصورتی کے ليے کلفٹن میں بیچ پارک قائم کیا ہے جو جہانگیر کوٹھاری پیریڈ اور باغ ابن قاسم سے منسلک ہے۔ شہر کے قریب دیگر ساحلی تفریحی مقامات بھی ہیں جن میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، فرنچ بیچ، رشین بیچ اور پیراڈائز پوائنٹ معروف ہیں۔
اس کے علاقوں کے کچھ عجیب و غریب اور دلچسپ نام۔
کراچی پاکستان میں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ صدر، گلف شاپنگ مال، بہادر آباد، طارق روڈ، زمزمہ، زیب النساء اسٹریٹ اور حیدری اس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جا سکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر دنیا میں چوری شدہ سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کو لیاقت آباد میں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔
کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس وقت زیر تعمیر ایٹریم مال، جمیرہ مال، آئی ٹی ٹاور اور ڈولمین سٹی مال بھی تعمیرات کے شاہکار ہیں۔
اس کے علاوہ ٹائون اور اضلاع کی سطح پر بھی ملبوسات، زیورات اور اشیائے صرف کی خریداری کے مراکز ہیں-
جوڑیا بازار اور اس سے متصل صرافہ بازار اور کاغذی بازار بالترتیب اشیائے خورد، زیورات اور ملبوسات کے مرکزی بازار ہیں جہاں سے یہ شہر کے دوسرے بازاروں تک ان اشیاء کے پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں-
لانڈھی کی بابر مارکیٹ، ملیر کی لیاقت مارکیٹ، واٹر پمپ مارکیٹ، ناظم آباد گول مارکیٹ، لیاقت آباد مارکیٹ، نیو کراچی کی کالی مارکیٹ، شاہ فیصل مارکیٹ، سولر بازار، رنچھوڑلین مارکیٹ، اورنگی میں پاکستان بازار اور کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ اہم مقامی بازار ہیں-
کراچی ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈے جناح انٹرنیشنل کا حامل ہے جو پاکستان کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ شہر کا قدیم ایئرپورٹ ٹرمینل اب حج پروازوں، کارگو اور سربراہان مملکت کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ نیا ہوائی اڈا 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔
ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں بھی کراچی میں قائم ہیں جو کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کہلاتی ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید سہولیات سے مزین ہیں اور نہ صرف پاکستان کی تمام تجارتی ضروریات کے مطابق کام کرتی ہیں بلکہ افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی سمندری تجارت بھی انہی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔
کراچی پاکستان ریلویز کے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشن سٹی اور کینٹ ریلوے اسٹیشن ہیں۔ ریلوے کا نظام کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ملک بھر کو سامان پہنچانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑا اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔
کراچی شہر کو دنیا کے اور ممالک کی طرح نقل و حمل کے نئے طرز کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ٹرام گاڑی چلانے کی تجویز پیش کی گئی، نتیجتاً اکتوبر 1884 میں اس پر کام شروع ہو گیا- ٹرامیں(1885–1975) سڑکوں پر باقائدگی سے یہ خدمت انجام دیتی رہی- لیکن سیاسی گٹھ جوڑکی وجہ سے اس سہولت کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر نہ بنایا جا سکا- جیسا کہ دنیا بھر کے اور شہروں میں ہوا ہے۔
کراچی ساحل کے ساتھ نیم صحرائی علاقے پر قائم ہیں جہاں صرف دو ندیوں ملیر اور لیاری کے ساتھ ساتھ موجود علاقے کی زمین ہی زراعت کے قابل ہے۔ آزادی سے قبل کراچی کی اکثر آبادی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی اور بیشتر زمین سرکاری ملکیت تھی۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیر انتظام آ گئے۔ 1988ء میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریباً 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔
کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔
اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹریفک کے ان مسائل سے نمٹنے کے ليے شہر میں نعمت اللہ خان کے دور میں کئی منصوبے شروع کیے گئے جن میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز شامل ہیں۔
بڑھتے ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے ليے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے اور موجود درختوں کی کٹائی پر ماحولیاتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس پر شہری حکومت نے ستمبر 2006ء سے تین ماہ کے ليے شجرکاری مہم کا اعلان کیا۔
پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔[9]
ان کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں خصوصا 2006 کے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عالمی شہرت حاصل کی۔
شہری حکومت کی آفیشل ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ karachicity.gov.pk (Error: unknown archive URL) کراچی اسٹاک ایکسچینجآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kse.com.pk (Error: unknown archive URL)
کراچی آپ ڈیٹس کراچی کی تازہ ترین صورت حال
کراچی کی تاریخ، شہر کی پرانی تصاویر کے ساتھآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ historickarachi.com (Error: unknown archive URL)
کراچی کی تصویری البم از علی عدنان قزلباش
کارا فلم فیسٹیولآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ karafilmfest.com (Error: unknown archive URL)
کراچی میں ٹرامیںآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ historyrecall.blogspot.se (Error: unknown archive URL)
پاکستان کے شہر
درجہ | شہر | آبادی (1998 مردم شماری) | آبادی (2017 مردم شماری) | اضافہ | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 9,856,318 | 16,051,521 [15] | 62.86% | سندھ |
2 | لاہور | 5,143,495 | 11,126,285 | 116.32% | پنجاب |
3 | فیصل آباد | 2,008,861 | 3,203,846 | 59.49% | پنجاب |
4 | راولپنڈی | 1,409,768 | 2,098,231 | 48.84% | پنجاب |
5 | گوجرانوالہ | 1,132,509 | 2,027,001 | 78.98% | پنجاب |
6 | پشاور | 982,816 | 1,970,042 | 100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,197,384 | 1,871,843 | 56.33% | پنجاب |
8 | حیدرآباد، سندھ | 1,166,894 | 1,732,693 | 48.49% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 529,180 | 1,014,825 | 91.77% | اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ |
10 | کوئٹہ | 565,137 | 1,001,205 | 77.16% | بلوچستان |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.