شہر گوجرانوالہ کی مشہور سوغاتوں میں بھُنے ہوئے چڑے بٹیر ہیں ۔ یہاں کی صنعتوں میں پنکھا، کپڑے دھلائی کی مشین، کپڑا سازی، اور برتنوں کے کارخان From Wikipedia, the free encyclopedia
گوجرانوالہ (پنجابی: گجرانوالا) پاکستان میں واقع گوجرانوالہ ڈویژن کا ایک شہر اور دارالحکومت ہے۔ اسے "پہلوانوں کا شہر" بھی کہا جاتا ہے اور یہ اپنے کھانے کے لیے کافی مشہور ہے۔ یہ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی کے بعد بالترتیب 5 واں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ 18ویں صدی میں قائم ہونے والا، گوجرانوالہ شمالی پنجاب کے کئی قریبی ہزاروں سال پرانے شہروں کے مقابلے نسبتاً جدید شہر ہے۔ یہ شہر 1763 اور 1799 کے درمیان شُکر چکیا مثل کا دارالحکومت کے رہا، اور یہ سکھ سلطنت کے بانی مہاراجہ رنجيت سنگھ کی جائے پیدائش ہے۔
گوجرانوالہ | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1][2] |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | ضلع گوجرانوالہ |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 32°09′00″N 74°11′00″E |
رقبہ | 240 مربع کلومیٹر |
بلندی | 231 میٹر |
آبادی | |
کل آبادی | 2027001 (مردم شماری ) (2017) |
مزید معلومات | |
اوقات | متناسق عالمی وقت+05:00 |
رمزِ ڈاک | 52250 |
فون کوڈ | 055 |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1177662 |
درستی - ترمیم |
گوجرانوالہ کے نام کا مطلب پنجابی میں "گجروں کا گھر" ہے، اور اس کا نام شمالی پنجاب میں رہنے والے گجر قبیلے کے نام پر رکھا گیا ہے۔[3][4][5] شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس شہر کا نام "سرائے گجراں" سے اخذ کیا گیا ہے، یہ ایک گاؤں جو کبھی گوجرانوالہ کے کھیالی گیٹ کے قریب واقع تھا۔[6]
امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گوجرانوالہ کو گوجروں نے آباد کیا جو کشمیر کے پہاڑوں پر آباد تھے اور بعد میں ایران کے شیرازی قبیلے نے اس شہر کا نام خان پور سانسی رکھا تاہم بعد میں اس کا پرانا نام بحال ہو کر گوجرانوالہ ہو گیا۔
منشی گوپال داس اور عطا محمد تاریخ گوجرانوالہ میں اور عزت اللہ تاریخ ہمارا پنجاب میں اپنی تحقیقات کے ثمرات یوں سامنے لاتے ہیں۔ ’’کسی مستند تاریخ سے آبادی اس کی صحیح معلوم نہیں ہوئی۔ روایت ہے کہ پانچ سو برس گذرے جب اس کو مسمی خان جاٹ عرف ساہنسی نے بصورت گاؤں آباد کر کے اس کا نام خان پور ساہنسی رکھا۔‘‘ صدیوں پیشتر اس شہر کی بنیاد خان جان ساہنسی نے رکھی تو اس وقت یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ خان ساہنسی کے نام پر ہی یہ قصبہ مدت تک خان پور ساہنسی کہلاتا رہا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ نواحی دیہات کے گوجروں اور خان جان ساہنسی کے تعلقات میں کشیدگی پید ا ہو گئی۔ خان ساہنسی نے اپنی ریاست کو وسعت دینے کے لیے اردگرد کے گوجروں کے دیہات کو برباد کرنا شروع دیا۔ گوجر سرداروں نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے جتھہ بندی کی اور مختلف گروہوں اور جتھوں میں تقسیم ہو کر خان جان کا مقابلہ شروع کر دیا۔ خان جان ساہنسی کی فوج اور گوجر گروہوں میں جگہ جگہ تصادم ہونے لگے ۔ گوجروں نے آئے دن خان پور پر شب خون مارنے شروع کر دیے۔ گوجروں اور ساہنسیوں کے درمیان قریباً پانچ سال تک یہ خونریز تصادم جاری رہے۔ جن کی وجہ سے ساہنسی سردار کی شہر پر گرفت کمزور پڑ گئی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر گوجروں نے خان پور ساہنسی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک روایت کے مطابق چھچھرانوالی(چھچھریالی موجودہ فریدٹاؤن) کے نواح میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں خان ساہنسی کو شکست ہوئی اور وہ خان پور کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ گوجروں نے خان پور پر قابض ہونے کے بعد اس کا نام تبدیل کر دیا۔ خان پور سے یہ شہرگوجرانوالہ بن گیا ۔ گوجروں نے ساہنسیوں کی زمینداریوں کو بھی قائم رہنے دیا۔ گوجر راج میں ا گرچہ ساہنسی کافی تعداد میں آباد تھے مگر پھر کبھی ان کے گوجروں سے تصادم کی نوبت نہ آئی۔ مغل دورِ حکومت میں گوجرانوالہ ایک گوجر ریاست کی حیثیت سے مغل سلطنت میں شامل رہا اور گوجر سردار باقاعدہ طور پر مغل صوبیدار کو خراج ادا کرتا رہا۔مغل سلطنت کمزور ہوئی اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو گوجر سردار خواہش کے باوجود اپنی ناچاقیوں کی بنا پر گوجرانوالہ میں کوئی مضبوط ریاست قائم نہ کر سکے۔ گوجروں میں باہمی اختلافات دیکھ کر کوٹ باز خان کے سردارباز خان نے ایک زبردست لشکر تیار کیا اور گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں اور دیہات کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیا۔ سردار باز خاں نے درجنوں دیہات کو تباہ و برباد کر دیا او رلوٹ لیا۔ بعد میں سردار باز خان نے اپنی تباہ کاری کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے گوجرانوالہ پر قبضہ کرنے کے لیے موضع کھیالی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن کھیالی کے سکھوں اور آرائیوں نے مل کر اس کو موضع کھیالی سے دوڑا دیا۔ گوجرانوالہ اور اس کے گرد و نواح میں طوائف الملوکی اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ کوئی بھی سردار طاقتور نہ رہا اور ہر محلہ میں الگ الگ حکومت قائم ہو گئی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے داد چڑت سنگھ کے آبا و اجداد کی موضع کھیالی میں کچھ جائداد تھی لیکن چڑت سنگھ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے طاقتور رشتہ داروں سے تنگ آکر اپنے ننہال موضع راجا سانسی ضلع امرتسر میں چلا گیا۔ اس نے وہیں پرورش پائی۔ ہوش سنبھالا تو اسے جائداد واپس لینے کا خیال آیا۔ چڑت سنگھ ان پڑھ مگر ذہین تھا۔ اس نے پنجاب میں طوائف الملوکی دیکھی تو اسے ایک سکھ ریاست قائم کرنے کا خیال آیا۔ اس نے راجا سانسی میں ڈاکوؤں ‘ قزاقوں اور لوٹ مار کرنے والوں کا ایک منظم جتھا بنا لیا۔ وہ ضلع امرتسر اور گجرات کے دیہات میں دور دور تک اس جتھہ کے ذریعے لوٹ مار کر تا رہا اور اپنی طاقت بڑھاتا رہا۔ جب وہ کافی طاقتور ہو گیا تو اس نے اپنی جائداد واپس لینے کے لیے راجا سانسی سے موضع کھیالی کا رخ کیا۔ موضع کھیالی پہنچ کر اس نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ وہ اس کی جائداد واپس کر دیں ورنہ وہ اسے طاقت کے ذریعہ حاصل کر لے گا۔ بات بڑھ گئی اور نوبت خون خرابا تک پہنچ گئی۔ ایک روایت کے مطابق چڑت سنگھ کے رشتہ دار موضع کھیالی کے ایک درویش حضرت شاہ جمال نوریؒ کے معتقد تھے انھوں نے حضرت شاہ جمالؒ سے تمام صورتِ حال بیان کی اور امداد کے طالب ہوئے ۔ حضرت نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ چڑت سنگھ کی جائداد اسے واپس کر دیں کیونکہ چڑت سنگھ کی نسل سے ایک لڑکا ہو جو اس ملک کا بادشاہ ہو گا اور سکھوں کی ایک مضبوط حکومت قائم کرے گا ۔ چنانچہ اس مسلمان بزرگ کی مداخلت سے خون خرابا رک گیااور چڑت سنگھ کو اس کی جائداد واپس مل گئی۔ چڑت سنگھ نے موضع کھیالی میں اڈا قائم کرنے کے بعد اردگرد کے علاقوں میں تاخت و تاراج شروع کر دی اس کی قیادت میں سکھوں کی ایک مضبوط جمعیت قائم ہو گئی۔ چڑت سنگھ نے گوجرانوالہ کے شمال میں ایک قلعہ نما حویلی تیار کی اور اس میں اپنے ساتھیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ اس نے موضع کھیالی میں باقاعدہ طور پر کچہری بنا لی۔ بعد میں منڈی میں ایک پختہ کچہری بنوائی اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ چڑت سنگھ نے ضلع گوجرانوالہ میں دور دور تک حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ گوجرانوالہ میں گوجروں کی اکثریت سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ اسے ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ گوجر گوجرانوالہ میں بغاوت کر کے داخلی طور پر اس کے لیے شدید مشکلات نہ پیدا کر دیں۔ اس دوران میں زمینداران گوت بازی خان نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر کے ارد گرد کے دیہات کو لوٹنا شروع کر دیا تو موضع کھیالی اور کئی دوسرے دیہات کے سکھ سرداروں نے چڑت سنگھ سے فیصلہ کن اقدام کی اپیل کی۔سکھ قبائل اور جتھوں کی حمایت حاصل ہوتے ہی اس نے گوجروں کے محلوں اور گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ معاملہ صرف لوٹ مار تک ہی محدود نہ رہا۔ بلکہ اس کے سپاہی گوجروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے۔ گوجر چڑت سنگھ کی ان کارروائیوں سے سخت پریشان اور سراسیمہ ہو گئے اور انھوں نے گوجرانوالہ سے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ گوجروں کے سینکڑوں خاندان گجرات میں جا آباد ہوئے ۔ گوجروں کی ہجرت کے بعد چڑت سنگھ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ کھل کھیلے۔ اس نے پورے ضلع گوجرانوالہ پر حملہ کرنے کے لیے چٹھہ بھٹی اور تارڑریاستوں کے خلاف معرکہ آرائی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں سب سے مضبوط چٹھوں کی ریاست تھی۔ چڑت سنگھ نے چٹھوں پر کئی حملے کیے لیکن وہ چٹھوں کو کمزور اور ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ چڑت سنگھ نے سکھ ریاست قائم کرنے کے لیے جو زبردست منصوبہ تیار کیا تھا۔وہ اس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن اس نے اپنی اولا دکے لیے ایک زبردست منصوبہ چھوڑا جسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس کے بیٹے مہاں سنگھ نے زبردست کردار ادا کیا۔سردار مہاں سنگھ کے زمانے میں گوجرانوالہ میں مقیم گوجروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اور وہ ایک ایک کر کے ہمیشہ کے لیے اس قصبہ کو چھوڑ گئے جس کو بنانے اور بسانے کے سلسلہ میں ان کے آبا و اجداد نے بہت محنت کی تھی۔ سکھوں نے جہاں بہت سے قصبات اور دیہات کے نام تبدیل کر دیے تھے۔ ممکن ہے انھیں اس قصبہ کے نام کی تبدیلی کا خیال بھی آیا ہو مگر گوجرنوالہ کا نام تاریخی حقیقت بن کر جگمگاتا رہا۔ سید نگر اس دور میں گوجرانوالہ کا امیر ترین قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں اسلحہ سازی کی صنعت زوروں پر تھی۔ سید نگر شمشیر سازی اور بندوقیں تیار کرنے کا اہم مرکز تھا۔ اس کے باشندے بہت امیر تھے۔ سید نگر میں مسلمانوں کی پختہ حویلیاں اور مساجد تھیں۔ سکھوں نے سید نگر پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا۔ سید نگر کے باشندے مہاں سنگھ کے حکم سے اپنا آبائی قصبہ چھوڑ کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں انھوں نے ایک الگ محلہ آباد کیا جس کا نام انھوں نے سید نگری رکھا۔ سیدنگر کی لوٹ مار کے دوران میں سکھوں کے ہاتھ بہت سا اسلحہ اور جنگی سازوسامان لگا جس سے ان کی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ چڑت سنگھ کی موت پر اس کی رانی ویساں نے اپنے نوعمر بیٹے مہاں سنگھ کی طرف سے ریاست پر خود قابض ہو کر حکومت خود سنبھال لی۔ مہاں سنگھ کی عمر اس وقت سات یا دس برس کی تھی۔ جب مہاں سنگھ جوان ہوا اور اپنا نیک و بد پہچاننے لگا تو اس نے کچھ بُری اور مشکوک باتوں کی بنا پر اپنی ماں کو قتل کر کے ایک طرف کیا۔اور حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب وہ اپنے ہمراہی سکھ سرداروں کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے اپنی دانائی اور حسن انتظام سے اس حد تک اپنا اثرورسوخ بڑھایا کہ تمام سکھ سرداروں نے اسے اپنا سربراہ تسلیم کر لیا۔ گردو پیش میں اس کی قوت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اب وہ جس طرف بھی رُخ کرتا ۔ کامیابی اس کا ساتھ دیتی۔ مہاں سنگھ نے اپنے باپ چڑت سنگھ کے خواب کوشرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ اس کا باپ چڑت سنگھ گوجرانوالہ تحصیل کے شمالی حصہ کا نصف علاقہ فتح کر چکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سکرچکیہ سردار کبھی ساہنسی اور گوجروں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکے۔ بارے خان کے فوت ہو جانے کے بعد وڑائچ قبیلے نے جو ساہنسی جاٹوں کا جانی دشمن تھا۔ گوجرانوالہ کے قریب آخری مقابلہ کیا۔ اس مقابلہ میں وڑائچ قبیلہ کو شکست ہوئی مگر سانسی جاٹوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ قبیلہ اس گھوڑے کی مانند ہے جس پر سوار کا ہونا شرط اول و آخر ہے۔ کیونکہ وڑائچ قبیلہ نے اس وقت تک اپنے حریف کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ ایک تیسری طاقت یعنی سکھ ضلع میں حکمرانی کرنے لگے۔ راجا مہاں سنگھ نے ایک زبردست فوج تیار کی۔ اس فوج کی کئی رجمنٹیں تھیں۔ اس نے باقاعدہ فوج کے علاوہ قزاقوں اور ڈاکوؤں کے جتھے بھی منظم کیے اور انھیں کھلی چھٹی دی کہ وہ جس گاؤں کو چاہے لوٹ لیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا مہاںسنگھ نے سکھ فوج کی تربیت کے لیے بعض فرانسیسی فوجی افسروں کو بھی اپنے ہاں ملازم رکھا۔ اس نے باقاعدہ طور پر سکھ سلطنت کی داغ بیل ڈال دی اور اسے چٹھوں ‘ بھٹیوں‘ تارڑوں کے علاوہ اپنے بعض سکھ حریفوں سے بھی لڑنا پڑا۔ مہاں سنگھ کو بعض ایسے سکھ اور ہندو سرداروں کی تائیدو حمایت بھی حاصل ہو گئی جو فوجی اعتبار سے بڑے مضبوط اور اچھی قوت کے حامل تھے۔ ان میں سندھو کھتری۔ ویسا سنگھ اور ہری سنگھ نلوہ جیسے جابر و ظالم سکھ سردار بھی شامل تھے۔جنھوں نے اپنی فتوحات سے سکھ سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ مہاں سنگھ کے حملوں نے بھٹیوں اور چٹھوں کو کمزور بنا دیا۔ چڑت سنگھ سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام سکھ سردار جن مسلم قبائل سے بر سر پیکار رہے ان میں چٹھے خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ چٹھوں کی استقامت و عزیمت کا ناقابل فراموش داستان علاحدہ باب کی صور ت میں شامل تاریخ ہے۔ مہاں سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا جانشین مقرر ہوا۔ اس وقت رنجیت سنگھ کی عمر دس سال کی تھی۔ رنجیت سنگھ جوان ہوا تو اس نے گوجرانوالہ کو دار الحکومت قرار دیتے ہوئے سکھ سلطنت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شروع کا کچھ عرصہ اس نے مہاراجا کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں ہی گزارا اور پھرلاہور کو اپنا دار السلطنت قرار دیتے ہوئے وہاں منتقل ہو گیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ میں اپنے قیام کے دوران اس شہر کو خوبصورت بنانے کے کئی احکام جاری کیے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے اس جگہ جس کو کچی کہتے ہیں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ اس قلعہ کی ڈیوڑھی اس جگہ تھی جہاں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا صدر دروازہ ہے۔ اس قلعہ کی بنیادوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر کچی کے علاقہ کی کھدائی کی جائے تو بہت سے تاریخی نوادرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اور بہت سی تاریخی معلومات منظر عام پر آسکتی ہیں۔ مورخین نے گوجرانوالہ کے محل وقوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ پرانا گوجرانوالہ کچی کے علاقے میں آباد تھا اور شمالاً جنوباً پھیلا ہوا تھا۔ سکھ دوراقتدار میں کچی کو سول لائن کی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ بہت سے سکھ افسروں اور سرداروں کی حویلیاں اسی علاقہ میں تعمیر تھیں۔ لیکن اب کچی کے نشیب میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بعد جب مہاراجا کھڑک سنگھ نے سکھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت ہری سنگھ نلوہ مر چکا تھا۔ اس کے بیٹوں ارجن سنگھ اور جواہر سنگھ کے مابین قلعہ پر قبضہ کرنے کے لیے زبردست جھڑپیں ہوئی۔ہری سنگھ نلوہ کی بیوہ ویساں اپنے بیٹے ارجن سنگھ کو لے کر اس قلعہ میں قلعہ بند ہو گئی۔ ہری سنگھ نلوہ کے دوسرے بیٹے جواہر سنگھ نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے لیے مہاراجا کھڑک سنگھ سے مدد مانگی۔ مہاراجا کے حکم سے سکھ فوجوں نے نلوہ کے قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ ویساں اور ارجن سنگھ نے شاہی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن ویساں کو شکست ہوئی اور جواہر سنگھ نے شاہی فوجوں کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ مہاراجا کھڑک سنگھ کے حکم سے ویساں اور ارجن سنگھ کو گرفتار کر کے ضلع سیالکوٹ کے قصبہ ستراہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مہاراجا کھڑک سنگھ کے حکم سے یہ قلعہ مسمار کر دیا گیا۔ دیگاں والا بازار میں جواہر سنگھ کی ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ اس حویلی میں عدالت بھی لگتی رہی اب وہ حویلی تو موجود نہیں۔ البتہ گلی جواہرسنگھ موجودہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ بہت با تدبیر حکمران تھا۔ اس کی حدود سلطنت کشمیر سے پشاور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ افغانستان کی سیاست و حکومت پر بھی اثر اندازہوتا رہا اور اس نے برطانوی حکومت سے بھی برابر کی سطح پر تعلقات خوشگوار رکھے۔ اس نے چٹھوں کے علاوہ حافظ آباد کے بھٹی قبائل کی قوت کا بھی خاتمہ کیا۔ اس نے اپنے حریف سکھ سرداروں کا زور بھی ختم کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ تمام قوتوں نے اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کر لیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ گوجرانوالہ میں پیدا ہو ا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ کچھ نہ کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھے۔ وہ نہ صرف یہاں پیدا ہوا بلکہ ڈپٹی کمشنر مسٹر ہنسن کے بقول اس نے اپنیج وانی کا بیشتر وقت بھی یہیں گزارا تھا۔ رنجیت سنگھ لاہور میں قبضہ کرنے تک گوجرانوالہ میں ہی رہا اور یہیں سے اپنی حکومت کا انتظام چلاتا رہا۔ لاہور کی فتح اور وہاں منتقلی تک گوجرانوالہ سکھ حکومت کے دار الحکومت کے طور پر معروف رہا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت باغ میں اپنے والد راجا مہاں سنگھ کی سمادھی بنوائی۔ اس باغ کے اردگرد چار دیواری تھی۔ سمادھی کا ارتفاع 90 فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس باغ میں رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت بارہ دری بھی بنوائی۔جو اب تک موجود ہے۔ 1874ء میں انگریزوں نے اس بارہ دری میں شفاخانہ قائم کر دیا جو کافی عرصہ تک اس عمارت میں موجود رہا۔ پھر انقلابات زمانہ اور ضروریات کے مطابق اس بارہ دری میں مختلف محکموں کے دفاتر بھی قائم رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس عمارت میںمیونسپل لائبریری تھی۔لیکن اب میونسپل کارپوریشن نے اس لائبریری کے لیے علاحدہ عمارت بنا دی ہے اور بارہ دری اور سمادھی محکمہ اوقاف کی تحویل میں چلی گئی ہیں۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بعد اس کے وارث اس کے استحکام اور عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے اور انگریزی اقتدار نے سکھ حکومت کو ہڑپ کر لیا۔ حکومت برطانیہ نے بعد میں پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھے۔ انھوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے۔ کرنل کلارک نے حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا دیا۔ اور اس جگہ ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھا۔ یہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔ مہاں سنگھ کی حویلی ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ اس میں سکھوں کا شاہی خاندان آباد تھا اور اس حویلی کے قریب ہی سبزی منڈی کی طرف ایک قلعہ نما باغ تھا جسے حضوری باغ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ اس باغ میں سکھ رانیاں اور شہزادیاں آکر ٹھہرا کرتی تھیں۔ کرنل کلارک نے اس حویلی کو مسمار کرا دیا اور اس جگہ مربع بازار بنوا دیا۔ گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں۔ انھوں نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ‘ لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے۔ ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس کے محض آثار ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں افغان دورِ اقتدار کی یادگار ایک مسجد بھی ہے۔ اسے شیر شاہ سوری کی مسجد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے رہتاس کی طرف جاتے ہوئے جب گوجرانوالہ میں قیام کیا تو اپنی قیام گاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد افغان طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے اور کراؤں فونڈری کے عقب میں واقع ہے۔ گو زمانہ کی دست برد سے اس مسجد کی خوبصورتی تو قائم نہیں رہی لیکن مسجد اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ اس مسجد کی تعمیر خاص کر کشادہ اور وسیع گنبد مینار وغیرہ اس گمان کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ مسجد شیر شاہ سوری کے احکام کی مرہونِ منت ہے لیکن شیر شاہ کے عہد کے مورخ اس معاملہ میں بالکل خاموش ہیں۔علاوہ ازیں اس مسجد کے واضح نقوش مرمت کی وجہ سے مٹتے جار ہے ہیں اور اس کے عقب میں جو کنواں تھا وہ بھی بھرا جا چکا ہے ورنہ اس میں سے تختی کا مطالعہ کرنے کے بعد آسانی سے نتیجہ برآمد کیا جا سکتا تھا کہ یہ کس عہد میں تعمیر ہوئی۔ جغرافیہ ضلع گوجرانوالہ مرتبہ ڈائریکٹر تعلیمات پنجاب (1904ء) گوجرانوالہ سے متعلق یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں ۔ گوجرانوالہ ضلع کا صدر مقام ہے۔ اس میں 26785 آدمی رہتے ہیں۔ شہر کسی قدر بلندی پر بنا ہوا ہے۔ اس کے گرد ایک دیوار ہے جس میں گیارہ دروازے ہیں۔کئی باغ ہیں ۔ اور قرب و جوار کا علاقہ دور دور تک درختوں سے پُر ہے۔ بازار پختہ ‘ صاف ستھرے اور رونق دار ہیں۔ صفائی کا انتظام میونسپل کمیٹی کے ماتحت ہے۔ میونسپل بوڑد اسکول کے پاس مہاراجا رنجیت سنگھ کے دادا سردار چرٹ سنگھ کی سمادھی ہے۔ دیوار کے اندرسردار مہاں سنگھ کا باغ ہے اس میں ایک بارہ دری ہے جہاں اب کتب خانہ ہے اور جلسے بھی یہیں ہوتے ہیں ۔ کتب خانے کے متعلق ایک اور پاس کے مکان میں چھوٹا سا عجائب گھر ہے ۔ گوجرانوالہ کے قریب ہی ایک بڑا خوبصورت اونچا مینار تھا۔ یہ عمارت سب عمارتوں سے مشہور اور دلکش ہے۔ مہاں سنگھ کی سمادھی اس میں ہے۔ برانڈرتھ صاحب نے جو اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے اس پر سونے کا کلس چڑھایا تھا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ لاہور میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی سمادھی بنائی گئی مگر گوجرانوالہ ان کا وطن ہونے کے باعث اس راکھ کا کچھ تھوڑا سا حصہ یہاں بھیجا گیا جو مہاں سنگھ کی سمادھی کے پاس دبایا گیا۔ کہتے ہیں جس عمارت میں اب بورڈ اسکول کی ایک شاخ ہے وہاں مہاراجا رنجیت سنگھ پیدا ہوئے تھے۔ [7]
٭ جامعہ تعلیم القرآن الحقانیہ گوجرانوالہ
٭ جامعہ دار التوحید و السنہ منڈیالہ تیگہ
گوجرانوالہ میں زیادہ تر گجر قوم آباد ہے۔بعض دیگر قومیں مثلاََ بھٹہ باجوہ وغیرہ بھی موجود ہیں۔تاریخی طور پر گوجرانوالہ ,گجرات اور گجرخان وغیرہ علاقے گجر قوم سے منسوب رہے ہیں۔ اس لیے گجر قوم نے صوبہ گجرستان یا صوبہ گجرات یا صوبہ گوجرانوالہ کی ایک تحریک اٹھا رکھی ہے۔
درجہ | شہر | آبادی (1998 مردم شماری) | آبادی (2017 مردم شماری) | اضافہ | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 9,856,318 | 16,051,521 [8] | 62.86% | سندھ |
2 | لاہور | 5,143,495 | 11,126,285 | 116.32% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 2,008,861 | 3,203,846 | 59.49% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 1,409,768 | 2,098,231 | 48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 1,132,509 | 2,027,001 | 78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 982,816 | 1,970,042 | 100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,197,384 | 1,871,843 | 56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد، سندھ | 1,166,894 | 1,732,693 | 48.49% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 529,180 | 1,014,825 | 91.77% | اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ |
10 | کوئٹہ | 565,137 | 1,001,205 | 77.16% | بلوچستان |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.