پشاور
خیبر پختونخواہ صوبے کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
خیبر پختونخواہ صوبے کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
پشاور (پشتو: پېښور; (hnd: پشور); انگریزی: Peshawar) پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔
| |
---|---|
صوبائی دارالحکومت | |
عرفیت: پھولوں کا شہر مردوں کا شہر ایشیا کا ایمسٹرڈیم | |
پاکستان میں مقام | |
متناسقات: 34°01′N 71°35′E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | خیبر پختونخوا |
ضلع | ضلع پشاور |
پاکستان کی یونین کونسلیں | 92 |
حکومت | |
• قسم | میٹروپولیٹن شہر |
• میئر | ارباب عاصم |
• نائب میئر | سید قاسم علی شاہ |
• ڈپٹی کمیشنر | ثاقب رضا اسلم[1] |
• اسسٹنٹ کمشنر پشاور | محمد مغیث ثناء اللہ[2] |
رقبہ | |
• کل | 1,257 کلومیٹر2 (485 میل مربع) |
بلندی | 359 میل (1,178 فٹ) |
بلند ترین پیمائش | 450 میل (1,480 فٹ) |
آبادی (2017)[3] | |
• کل | 1,970,042 |
• درجہ | اول، خیبر پختونخوا پاکستان میں چھٹا |
• کثافت | 1,600/کلومیٹر2 (4,100/میل مربع) |
پشاور شہری ہم بستگی | |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
ٹیلی فون کوڈ | 091 |
زبانیں | ہندکو، پشتو زبان |
انسانی ترقیاتی اشاریہ | 0.55 (data for 2012–2013) [4] |
انسانی ترقیاتی اشاریہ زمرہ | اوسط |
ویب سائٹ | City District Government of Peshawar |
پشاور پاکستان کے نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ [5] اس کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجوہات اردگرد کے دیہات اور خیبرپختونخوا کے دوسرے چھوٹے شہروں کی مقامی آبادی کا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہر کو منتقلی، تعلیم اور دیگر خدمات شامل ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں فوجی کارروائیوں اور افغان مہاجرین کی آمد سے بھی یہاں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تعلیمی، سیاسی اور کاروباری اعتبار سے پشاور سب سے آگے ہے اور علاقے کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں طب اور تعلیم کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں میں سے کئی پشاور میں قائم ہیں۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور کی آبادی 1،970،042 ہے جو اسے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر بناتی ہے۔ [6]
ایک مفروضے کے مطابق علاقے کی ابتدائی آبادی کے وقت اس کا نام سنسکرت میں پرش پورہ (مردوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور ہو گیا۔ [7]
دوسرے مفروضے کے مطابق یہ فارسی نام پیش شہر کا بگاڑ ہے۔ [8] اکبر کے کتابیات نگار اور مورخ نے اس کے دو نام پَرَشاوَر [9] اور پشاور [10] دونوں تحریر کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نام پشاور اکبر نے خود نام دیا تھا۔ [8]
500 ق م میں میلٹس کے جغرافیہ دان ہیکائتس نے اس کا کسپاپوروس تحریر کیا ہے۔[11]
486 ق م میں یونانی مورخ ہیرودوت نے اس کا نام کسپاتوروس تحریر کیا ہے۔ [11]
شکاگو اورینٹلٹل انسٹی ٹیوٹ کو نقش رستم کس ملنے والے کتبے کے مطابق اس کا نام پشکبور ہے۔ [11]
ابو ریحان البیرونی نے اسے پرشاور لکھا ہے۔ [11]
پروفیسر دانی کے مطابق اس کا نام پارس پور ، کشان پور، پرشاپور، باگرام اور پارو پاراستہ بھی تھا۔ [11]
پشاور کو جنوبی ایشیا کے چند سب سے پرانے شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 7 ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔
وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔ قدیم تعلیمی مرکز ہونے کی وجہ سے دوسری صدی قبل مسیح میں بکھشالی طرزِ تحریر پر مشتمل ایک ریاضی کلیہ (جذر معلوم کرنا) اس کے نزدیک سے برآمد ہوئی ہے۔
وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو "پشکلاوتی" کے نام سے جانا جاتا ہے جو "راماین" کے بادشاہ "بھارت" کے بیٹے "پشکل" کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پرش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیا کے توچاری قبیلے "کشان" نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔
اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 1،20،000 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کیے رکھا۔
کشان حکمران "کنیشکا" 127 عیسوی کے لگ بھگ بادشاہ بنا، نے اپنا دارلحکومت پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے منتقل کر کے پرش پورہ (موجودہ پشاور) قائم کیا۔ دوسری صدی عیسوی سے بدھ بھکشو، زرتشت، ہندو اور روحیت کے پشاور زرتشت مذہب کے کشان حکمرانوں سے مشاورت کر نے آتے رہے تھے۔ کشان حکمرانوں نے ان کی تعلیمات سے متائثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا اور بدھ مت کو شہر میں سرکاری درجہ مل گیا۔ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جبکہ آبادی کی اکثریت زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی۔
بدھ مت کے مخلص پجاری ہونے کی حیثیت سے کنشک نے اس دور کی دنیا کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا سٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کیے گئے تھے۔ یہ سٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنا ہوا تھا۔ اس سٹوپا کے بارے قدیم ترین روایت چینی سیاح اور بھکشو فاہیان کی تحریر سے ملتی ہے جو یہاں 400 عیسوی میں آیا تھا۔ اس کے مطابق سٹوپا کی بلندی 40 چانگ سے زیادہ یعنی اندازہً 120 میٹر تھی اور اس پر ہر طرح کے قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ فاہیان کے مطابق اس نے آج تک جتنے مندر اور سٹوپا دیکھے تھے، کنشک سٹوپا ان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور مضبوط تر تھا۔ آسمانی بجلی گرنے سے سٹوپا تباہ ہوا اور کئی بار اس کی مرمت کی گئی۔ ہیون سانگ کی 634 عیسوی میں آمد تک سٹوپا کا ذکر ملتا ہے۔ بدھا سے منسوب تبرکات جو ایک جواہرات جڑی ٹوکری میں رکھے تھے، کو 1909ء میں سٹوپا کے عین وسط میں ایک زیر زمین کمرے سے کھدائی کر کے ڈاکٹر ڈی بی سپونر نے نکالا۔
خراسان پر عرب قبضے کے بعد پشتون اسلام لانے لگے۔ 1001 عیسوی میں ترک بادشاہ محمود غزنوی نے اپنی غزنوی سلطنت کو افغانستان سے آگے برصغیر تک پھیلایا۔ 997ء میں سبگتگین کی وفات کے بعد خراساں کا گورنر ان کا بیٹا محمود بنا جس نے بعد ازاں دولت سامانیہ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سلطنت قائم کی اور 999 عیسوی میں سلطان کا لقب اختیار کیا۔
ابتدائی دور میں پشاور کے علاقے میں کئی خونریز جنگیں ہوئیں جن کا آغاز محمود اور ہندو بادشاہ جے پال کے درمیان میں جنگ سے ہوا۔ جے پال کی مستقل خواہش تھی کہ سبگتگین کے ہاتھوں چھینی گئی سلطنت کو واپس لیا جائے۔ جے پال کی مدد کے لیے کچھ پٹھان تو تھے لیکن ان کی حمایت زیادہ دیر تک نہ چل سکی۔
نومبر 1001ء میں جے پال کی شروع کی ہوئی جنگ میں اسے شکست ہوئی اور اس سمیت اس کی فوج قیدی بنی۔ آزاد ہونے پر اس نے اپنے بیٹے آنند پال کو بادشاہ بنایا۔ محمود نے پٹھانوں کو سزا دی اور مسلمان ہونے کے بعد وہ محمود کے ساتھ وفادار ہو گئے۔
افغان (پشتون) شہنشاہ شیر شاہ سوری نے پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی اور اس نے اپنی دہلی سے کابل کی شاہراہ درہ خیبر کے راستے سولہویں صدی میں بنوائی اور بعد میں مغلوں نے پشاور پرقبضہ کر لیا۔ مغل بادشاہت کا بانی بابر جب موجودہ دور کے ازبکستان سے پشاور پہنچا اور بگرام کا شہر آباد کرایا اور 1530ء میں قلعہ دوبارہ بنوایا۔ بابر کے پوتے اکبر نے اس کا نام بدل کر پشاوا کر دیا جس کا مطلب ہے "سرحد پر واقع جگہ"۔ دنیا بھر سے مسلمان صوفیا، مشائخ، استاد، معمار، سائنس دان، تاجر، سپاہی، افسرِ شاہی، ٹیکنو کریٹ وغیرہ غول در غول جنوبی ایشیا کی اسلامی سلطنت کو آن پہنچے۔ مغربی ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری اور باغات اگانے سے پشاور شہر "پھولوں کا شہر" بن گیا۔
خوشحال خان خٹک جو مشہور افغان/پشتون شاعر تھے، پشاور کے نزدیک پیدا ہوئے اور ان کی زندگی پشاور سے وابستہ رہی۔ افغان آزادی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ مغل بادشاہوں بالخصوص اورنگزیب کے لیے مستقل سر درد بنے رہے۔ اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔
1747ء میں لوئیہ جرگہ نے پشاور کو افغان درانی سلطنت کا حصہ بنا دیا جس پر اس وقت احمد شاہ درانی کی حکومت تھی۔ 1776ء میں احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارلحکومت بنایا اور بالا حصار کا قلعہ افغان بادشاہوں کی قیام گاہ بن گیا۔ درانی دورِ حکومت میں پشتونوں نے جنوبی ایشیا پر حملوں میں حصہ لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر سکھوں کے قبضے تک پشاور درانیوں کے سرمائی دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
پشاور پر مختصر عرصے کے لیے مرہٹوں کا قبضہ بھی رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انھوں نے 8 مئی 1758ء کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759ء میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
1802ء میں پشاور پر دوباره افغانستان کا قبضہ ہوا اس وقت کشمیر، سندھ، ملتان اور بلوچستان بھی افغانستان کے حدود میں شامل تھی۔ لیکن 1833ء میں سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ برطانوی مہم جو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ایجنٹ ولیم مور کرافٹ کی سربراہی میں ایک مہم پہنچی تو اسے کابل کی حکومت اور لاہور کے سکھ حکمرانوں سے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ مور کرافٹ کو پشاور کی گورنر کا عہدہ بھی پیش کیا گیا اور علاقے کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری پیش کی گئی جسے اس نے رد کر کے اپنا سفر پشاوری فوجیوں کے ساتھ ہندوکش کا سفر جاری رکھا اور کابل جا پہنچا۔ 1818ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہو گیا۔ مغل دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کر دیے گئے۔ سکھوں کے نمائندے کے طور پر اطالوی باشندے پاولو آویتابائل نے حکمرانی کی اور اس کے دور کو پھانسیوں اور سولیوں کا دور کہا جاتا ہے۔ پشاور کی مشہور مسجد مہابت خان جو 1630ء میں بنائی گئی تھی، کو سکھوں کے دور میں تباہ کر دیا گیا۔
سکھ مت کو قائم رکھنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ بنوائے۔ اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔
1835ء میں دوست محمد خان کو شہر پر قبضے میں اس وقت ناکامی ہوئی جب اس کی فوج نے دل خالصہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوست محمد خان کا بیٹا محمد اکبر خان 1837ء کی جمرود کی جنگ میں پشاور پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا لیکن پھر اسے ناکامی ہوئی۔ سکھوں کی حکمرانی 1849ء میں اس وقت ختم ہوئی جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ جیت لی۔
1849ء میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعد پشاور انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1857ء کی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد مقامی فوجیوں کے 4000 افراد کو بغیر خون بہائے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس طرح 1857ء کی بغاوت کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے خون خرابے سے پشاور بچ نکلا۔ مقامی سرداروں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا۔ شہر کے باہر کے پہاڑوں کے نقشے 1893ء میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے بنائے جو اس وقت برٹش انڈیا حکومت کا خارجہ سیکریٹری تھا۔ اس نے افغان حکمران عبدالرحمان خان کے ساتھ مل کر افغان سرحد کا نقشہ بنایا۔
1868ء میں شہر کے مغرب میں برطانیہ نے ایک بڑی چھاؤنی قائم کی اور پشاور کو اپنا سرحدی مرکزی مقام بنا دیا۔ مزید برآں پشاور میں انھوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن میں شہر کو بذریعہ ریل ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور مسجد مہابت خان کی تعمیر و تزئین شامل ہے۔ برطانیوں نے کننگہیم کلاک ٹاور بھی بنایا جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریباًت کے سلسلے میں بنایا گیا تھا۔ 1906ء میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں وکٹوریہ ہال بنایا جہاں اب پشاور کا عجائب گھر قائم ہے۔ مغربی تعلیم دینے کے لیے برطانیہ نے ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 1901ء اور 1913ء میں بالترتیب بنائے اور بہت سارے اسکولز بھی بنائے جن کو اینجلیکن چرچ چلاتا ہے۔
پشاور پشتون اور ہندکو مشاہرین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندکو بولنے والے افراد برطانوی راج میں یہاں کی ثقافت پر غالب اثر رکھتے تھے۔
پشاور میں ہی غفار خان کی چلائی ہوئی عدم تشدد کی تحریک سامنے آئی جو موہن داس گاندھی سے متائثر تھی۔ اپریل 1930ء میں مقامی افراد کے بڑے گروہ نے قصہ خوانی بازار میں پرامن مظاہرہ کیا کہ ان کے خلاف برطانیہ نے امتیازی قوانین بنائے ہیں۔ برطانوی افواج کی فائرنگ سے 400 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے اور ان 400 شہیدوں کی یاد میں ایک یادگار بھی یہاں موجود ہے جسے یادگار شہیداں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1947ء میں پشاور ڈومنین پاکستان کا حصہ بن گیا کہ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دی۔ اگرچہ اکثریت اس الحاق کے حق میں تھی لیکن خان عبدالغفار خان کی قیادت میں ایک چھوٹے گروہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کنفیڈریشن بہتر ہوتی اور انھوں نے متحدہ ہندوستان کو بہتر سمجھا۔ تاہم عوام کی بھاری اکثریت متحدہ ہندوستان اور خود کو ہندوستانی کہلوانے کے سخت مخالف تھے۔ انتہائی قلیل تعداد پشاور کو افغانستان میں شامل دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی خیال بعد ازاں پشتونستان کی بنیاد بنا جو پاکستان اور افغانستان، دونوں سے آزاد ریاست ہوتی۔
نئے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے افغانستان نے دو رخہ حکمت عملی تیار کی تاکہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو عدم استحکام کا شکار بنا سکے۔ ایک طرف تو اس نے پاکستان کے مخالف بھارت سے دوستی کی تو دوسری طرف روس کے ساتھ بھی دوستی شروع کر دی جو بالآخر افغانستان پر روسی حملے پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف اس نے 1960ء کی دہائی میں اپنی مرضی کے سیاست دانوں کو معاشی امداد مہیا کی۔ 1960ء کی دہائی سے 1970ء کی دہائی تک اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ رہا تاہم بعد میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کو قبول کر لیا، تاہم پنجابی طبقہ اشرافیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ پشتونوں کو پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاست اور قومی افسرِ شاہی میں بھی آنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں ایوب خان جو ایک پشتون تھے، پاکستان کے صدر بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کا حصہ بننے کو قبول کر لیا اور ایک انتہائی چھوٹی اور غیر اہم سیاسی جماعت پختونخوا ملت پارٹی نے پاکستان اور افغانستان سے علیحدگی کی باتیں جاری رکھیں۔ اگرچہ علیحدگی کی تحریک بہت کمزور تھی لیکن پاک افغان تعلقات میں اس کی وجہ سے مستقل دراڑ پڑ گئی۔ آج پشاور کے پشتون خود کو فخریہ پاکستان کے رکھوالے اور پاکستانی کہلاتے ہیں۔
1950ء کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012ء میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ "وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیے جائیں گے"۔
شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر برے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضا مزید آلودہ ہو رہی ہے۔
گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔
1980ء میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ مجاہدین گروپوں کے سیاسی مرکز اور افغان مہاجر کیمپوں کا مرکز رہا۔ اکثر روسی جاسوس ان گروہوں میں گھس کر تشدد کو ہوا دیتے رہے اور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدانِ جنگ پشاور میں بن گیا۔
1988ء کے انتخابات کے دوران میں تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر رجسٹر شدہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بہت سارے نسلی پشتون افغان آسانی سے پشاور میں مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
2012ء میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان میں رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔ طالبان شدت پسندوں کا نشانہ ہونے کی وجہ سے یہاں پشتون تعمیرات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ پشتون شاعر رحمان بابا کے مزار کو 2009ء میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
خیبر پختونخوا کی طرح درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع پشاور سطح مرتفع ایران کا حصہ ہے۔
حالیہ جغرافیائی دوروں میں وادئ پشاور میں سلٹ، ریت اور پتھر جمع ہوتے رہے ہیں۔ دریائے کابل اور بدنی نالا کے درمیان میں سیلابی میدان ہیں جو شمال مغرب میں وارسک تک جاتے ہیں۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہوئے دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں دو زیادہ بڑی ہیں۔ مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی دریا کہلاتی ہے جو چارسدہ کو جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔
پشاور کا موسم نیم بنجر ہے اور گرمیاں بہت سخت جبکہ سردیاں نسبتاً سرد ہوتی ہیں۔ سردیوں کا موسم نومبر سے شروع ہو کر مارچ کے اواخر تک اور کبھی کبھار اپریل کے وسط تک چلا جاتا ہے۔ گرمیاں وسط مئی سے وسط ستمبر تک جاتی ہیں۔ گرمیوں میں گرم ترین مہینوں کا اوسط درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے اور کم سے کم اوسط 25 ڈگری ہے۔ سردیوں کا اوسط کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 15.35 ڈگری رہتا ہے۔ سردیوں میں اکثر یہاں درجہ حرارت 0 ڈگری کے قریب چلا جاتا ہے مگر 7 جنوری 1970 کے دن پشاور میں آج تک کی سب سے زیادہ سردی ریکارڈ کی گئی اور درجہ حرارت منفی 3.9 ڈگری تک چلا گیا۔
پشاور مون سون علاقے میں نہیں آتا تاہم بارش سردیوں اور گرمیوں میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ مغربی اثرات کی وجہ سے فروری اور اپریل میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ بارش کی مقدار فروری 2007ء میں ریکارڈ کی گئی جو 236 ملی میٹر تھی۔ گرمیوں کی سب سے زیادہ بارش جولائی 2010ء میں 402 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اسی دوران میں 29 جولائی 2010ء کو چوبیس گھنٹے میں بارش کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جو 274 ملی میٹر تھا۔ سردیوں میں ہونے والی بارش گرمیوں کی نسبت زیادہ رہتی ہے۔ 30 سال کے ریکارڈ کے مطابق سالانہ بارش کی اوسط مقدار 400 ملی میٹر ہے اور سب سے زیادہ ایک سال میں 904.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے جو 2003ء میں ہوئی تھی۔ ہوا کی رفتار دسمبر میں 5 ناٹ جبکہ جون میں 24 ناٹ تک ریکارڈ ہوئی ہے۔ جون میں ہوا میں اوسط نمی کا تناسب جون میں 46 فیصد جبکہ اگست میں 76 فیصد ہے۔ 18 جون 1995ء کو سب سے زیادہ 50 ڈگری جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 7 جنوری 1970ء میں منفی 3.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا ہے۔
آب ہوا معلومات برائے پشاور (1961–1990) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 27.0 (80.6) |
30.0 (86) |
36.0 (96.8) |
42.2 (108) |
45.2 (113.4) |
48.0 (118.4) |
46.6 (115.9) |
46.0 (114.8) |
42.0 (107.6) |
38.5 (101.3) |
35.0 (95) |
29.0 (84.2) |
48 (118.4) |
اوسط بلند °س (°ف) | 18.3 (64.9) |
19.5 (67.1) |
23.7 (74.7) |
30.0 (86) |
35.9 (96.6) |
40.4 (104.7) |
37.7 (99.9) |
35.7 (96.3) |
35.0 (95) |
31.2 (88.2) |
25.6 (78.1) |
20.1 (68.2) |
29.4 (84.9) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 11.2 (52.2) |
12.9 (55.2) |
17.4 (63.3) |
23.2 (73.8) |
28.6 (83.5) |
33.1 (91.6) |
32.2 (90) |
30.7 (87.3) |
28.9 (84) |
23.7 (74.7) |
17.6 (63.7) |
12.5 (54.5) |
22.7 (72.9) |
اوسط کم °س (°ف) | 4.0 (39.2) |
6.3 (43.3) |
11.2 (52.2) |
16.4 (61.5) |
21.3 (70.3) |
25.7 (78.3) |
26.6 (79.9) |
25.7 (78.3) |
22.7 (72.9) |
16.1 (61) |
7.6 (45.7) |
4.9 (40.8) |
15.9 (60.6) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −3.9 (25) |
−1.0 (30.2) |
1.7 (35.1) |
6.7 (44.1) |
11.7 (53.1) |
13.3 (55.9) |
18.0 (64.4) |
19.4 (66.9) |
12.0 (53.6) |
8.3 (46.9) |
1.1 (34) |
−1.3 (29.7) |
−3.9 (25) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 26.0 (1.024) |
42.7 (1.681) |
78.4 (3.087) |
48.9 (1.925) |
27.0 (1.063) |
7.7 (0.303) |
42.3 (1.665) |
67.7 (2.665) |
17.9 (0.705) |
9.7 (0.382) |
12.3 (0.484) |
23.3 (0.917) |
403.9 (15.901) |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 195.5 | 189.5 | 194.5 | 231.3 | 297.1 | 299.5 | 273.8 | 263.2 | 257.3 | 266.1 | 234.8 | 184.4 | 2,887 |
ماخذ#1: NOAA (1961–1990) [12] | |||||||||||||
ماخذ #2: PMD[13] |
پشاور کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 1998ء میں آبادی 982,816 تھی۔ آبادی میں اضافے کی شرح 3.29 فیصد ہے جو پاکستان کے دیگر شہروں کی اوسط سے زیادہ ہے۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور شہر کی آبادی 1,970,042 نفوس پر مشتمل ہے۔ [14]
2002ء میں آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کی وجہ سے آبادی 20 سال میں دو گنا ہو گئی ہے۔ ضلع پشاورشمالاً جنوباً 50 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 30 کلومیٹر ہے۔ شہر سطح سمندر سے 359 میٹر بلند ہے۔ وادئ پشاور تقریباً گول ہے اور دریائے سندھ سے خیبر کی پہاڑیوں تک پھیلی ہے۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں پہاڑی سلسلہ ہے جو پشاور کو وادئ سوات سے الگ کرتا ہے۔ شمال مغرب میں خیبر کے سنگلاخ پہاڑ واقع ہیں اور جنوب میں سفید کوہ کی شاخ شروع ہو جاتی ہے اور یہی شاخ پشاور کو کوہاٹ سے جدا کرتی ہے۔ کوہ لقا کی بلندی 6600 فٹ ہے اور خیبر ایجنسی میں واقع ہے جو شہر کے وسط سے 25 کلومیٹر جبکہ حیات آباد سے 15 کلومیٹر دور ہے۔
پشاور کی آبادی کا 98.5 فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے جن کی اکثریت سنی ہے۔ شیعہ بھی اہم اقلیت ہیں۔ [15] موجودہ دو رکا پشاور اگرچہ مسلمان اکثریت پر مشتمل ہے تاہم ماضی میں یہاں ہندو، سکھ، یہودی، زرتشت اور بہائی مذہب کے لوگ بھی یہاں آباد تھے۔ موجودہ دور میں سکھوں کی آبادی کے علاوہ یہاں ہندو اور مسیحی بھی آباد ہیں۔
مسیحی شہر کا دوسرا بڑا نسلی گروہ ہیں جس کے پیروکار تقریباً 20,000 کی تعداد میں ہیں، جبکہ احمدیہ برادری کے 7,000 افراد بھی پشاور میں مقیم ہیں۔ [15]
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی۔ [16] 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔ [17][18]
1940ء کی دہائی کے اواخر تک یہاں ایک چھوٹی مگر فروغ پزیر یہودی برادری بھی موجود تھی، تاہم تقسیم ہند اور ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد وہ بھارت اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ [19]
پشاور 1978ء میں افغان خانہ جنگی کے دور سے ہی افغان مہاجرین کا میزبان رہا ہے، تاہم 1979ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 1980ء تک 100،000 پناہ گزینوں فی ماہ صوبہ داخل ہو رہے تھے [20] جن میں سے 25 فیصد پناہ گزینوں ضلع پشاور مقیم ہوئے۔ [20]
افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے پشاور میں مقیم ہونے کی وجہ سے شہر کے بنیادی ڈھانچے پر زور پڑا، [21] اور شہر کی آبادیات میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ [21] 1988ء کے قومی انتخابات کے دوران میں پشاور میں ووٹ ڈالنے کے لیے تقریباً 100،000 افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر مندرج تھے۔ [22]
افغان پناہ گزینوں پر اکثر انتہاپسند اسلامی گروہوں کے خلاف پاکستان کی جنگ کے دوران میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا۔ [23] 2015ء میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے لیے ایک پالیسی منظور کی، جن میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان میں گزاری تھی۔[23] افغانستان کی حکومت نے بھی وطن واپسی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی، تاہم بہت سے مہاجرین نے پاکستان میں خود کو مندرج نہیں کروایا تھا۔ غیر مندرج افغان مہاجرین جن کے پاس رانی افغان شناختی دستاویزات بھی نہیں تھیں ان کی اب افغانستان میں کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ [24]
قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ پشاور سے قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
حکومت خیبر پختونخوا حکومت پاکستان کی ایک اکائی جس کی عملداری صوبہ خیبر پختونخوا میں محدود ہے۔ اس کے سرکاری دفاتر پشاور میں واقع ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام بھی ہے۔ [25]
صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی پاکستان میں خیبر پختونخوا کا قانون ساز ایوان ہے۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی۔ اس ایوان کی 124 نشستیں ہیں جن میں سے 99 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 22 نشستیں خواتین اور 3 نشستیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔[28]
ضلع پشاور سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے گیارہ حلقے ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [29]
پشاور ڈویژن پاکستان کی انتظامی تقسیم میں خیبر پختونخوا کا ایک جز ہے۔ گو کہ مقامی حکومتوں کے 2000ء میں آئی اصلاحات میں اس کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کو دو ڈویژن میں تقسیم کر دیا گیا تھا، یہ دو ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور پشاور ڈویژن تھے۔ 1976ء تک پشاور ڈویژن میں ہزارہ اور کوہاٹ کے اضلاع بھی شامل تھے جو بعد میں ڈویژن قرار دے دیے گئے۔
پشاور ڈویژن کے تین اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔ [30]
ضلع پشاور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر پشاور ہے جو خیبر پختونخوا کا دار الحکومت ہے۔ 2017ء کے میں کی آبادی کا تخمینہ 4,269,079 ہے۔ [31] ضلع پشاور میں عمومی طور پر پشتو، ہندکو اور اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 1,257 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی کثافتِ آبادی 3,400 افراد فی مربع کلو میڑ ہے۔
پشاور کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی ثقافت طویل عرصے تک گندھارا ثقافت، پختون ثقافت اور ہندکو ثقافت سے متائثر ہوتی آئی ہے۔ پشاور جس صوبے میں ہے، اس کی اکثریت آبادی پختون ہے جبکہ پشاور میں 1980ء کی دہائی کے اوائل تک آبادی کی اکثریت ہندکو تھی جو یہاں کے مقامی ہیں۔ پختون اور ہندکو ثقافتوں میں کافی چیزیں مماثل ہیں اور جغرافیائی اعتبار سے کچھ اختلافات بھی ہیں۔ ہندکو افراد زیادہ تر شہری جبکہ پختون افراد کی اکثریت دیہاتی پس منظر رکھتی ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ اور رہن سہن میں بھی واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
پشاوری چپل ایک قسم کی چپل ہے جو زیادہ تر پاکستان کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ چپل شلوار قمیض کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ شروع میں یہ چپل چمڑے کی مددسے صرف کالے اور براؤن رنگ میں تیارکی جاتی تھی، اب یہ کئی دوسرے رنگوں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لوگ چپل سازوں سے اپنے پسندیدہ رنگ کی پشاوری چپل بنواتے ہیں۔
مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات میں بھی پشاوری چپل پہنی جاتی ہے۔ ہر تہوار اور تقریب میں اسے کافی مقبول سمجھا جاتا ہے۔ ان ڈیزائنز میں ڈبل تلوے والی پشاوری چپل تیار کی جاتی ہے۔ مختلف تہواروں کے موقع پر نئے پشاوری چپل پہنا روایت کا حصہ رہتا ہے تاہم عیدین میں اسی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ پشاوری چپل پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی تیزی سے مقبول ہو چکی ہے [32] خاص کر نوجوانوں میں اسے جینز کے ساتھ پہننے کا رجحان بن گیا ہے۔ [33]
2014ء میں پشاوری چپل عالمی سطح پر فیشن کی ایک علامت بنی۔ برطانوی فیشن ڈیزائنر پاول سمتھ نے پشاوری چپل کی نقل کر کے چپل بنائے اور 300 پاؤنڈز (50 ہزار پاکستانی روپیہ) پر ایک جوڑہ فروخت کیا، پاول سمتھ نے لوگوں کے سامنے اسے اس انداز میں پیش کیا کہ یہ ڈیزائن اسی نے تیار کیا ہے، اس پر ایک تعداد میں لوگوں نے مختلف جگہوں پر اس کے خلاف شکایت کی کہ پاکستانی ڈیزائنرز کی محنت کو ضائع کراکر سمتھ نے فنکاروں کے اس محنت پر اپنا نام لگایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے برطانوی برینڈز مالکان اور برطانوی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ یہ چپل پاکستان کی ثقافت کا اہم جز ہے، ان کو اپنے اصلی نام سے ہی پکارا جائے اور جو لوگ فنکاروں کے محنت کو ضائع کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاراجوئی کی جائے۔ اس احتجاج کے بعد پاول سمتھ نے اپنی ویب سائٹ پر چپلوں کی ڈسکرپشن تبدیل کر کے یہ ٹیگ لگا لیا کہ "یہ چپل پشاوری چپل سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے"۔"[34][35][36][37]
پشاوری پگڑی ایک پگڑی کی قسم ہے جو تربن کے انداز میں ہوتی ہے یہ پشاور میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اس لیے نسبت سے یہ نام پڑا۔
ماضی میں پشاور کے گرد دیوار بنی ہوئی تھی جس کے اب آثار ہی باقی بچ گئے ہیں۔ زیادہ تر گھر کچی اینٹوں سے بنے ہیں اور اس میں لکڑی استعمال ہوئی ہے تاکہ زلزلے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ شہر کی پرانی عمارات سیٹھی محلہ، مسجد مہابت خان، کوٹلہ محسن خان، چوک یادگار اور قصہ خوانی بازار وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلسل تعمیر و ترقی کی وجہ سے پرانی عمارات کے تحفظ کی فوری ضرورت ہے۔ پشاور کے گرد دیوار میں آٹھ دروازے تھے جہاں سے مختلف علاقوں کو راستے جاتے تھے مثلاً ھشتنگری دروازہ، یہاں سے ھثتنگر (چارسدہ) کو سڑک جاتی تھی، لاھوری دروازہ، یہاں سے لاہور کو سڑک جاتی تھی۔ ان دروازوں کے آثار زمانے کی بے رحمی سے مٹ گئے تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ان کو از سر نو علامتی طور پر بنا دیا ہے۔
قصہ خوانی بازار پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور کا ایک مشہور تاریخی بازار ہے۔ قصہ خوانی بازار تاریخی لحاظ سے ادبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیاں کرتے۔ یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے۔ یہاں تاجروں کے علاوہ قافلوں کا بھی پڑاؤ ہوتا اور فوجی مہمات کا آغاز اور پھر اختتام جو تفصیلاً ہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا۔ [38] یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے اور یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیاں کیا کرتے تھے۔ ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے گزئٹیر کے سیاح لوئل تھامس اور پشاور کے برطانوی کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو وسط ایشیا کا پکاڈلی قرار دیا ہے۔[39][40][41]
سیٹھی محلہ قدیم پشاور کے اندروں دیوار شہر کے مرکز میں ایک علاقہ ہے جو وسط ایشیائی طرز تعمیر کے گھروں کے لیے مشہور ہے۔ محلہ میں سیٹھی خاندان کے سات مکانات موجود ہیں جو فن کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ [42]
افغان جنگ کی وجہ سے افغان مہاجرین پاکستان پہنچے اور پشاور میں افغان موسیقار اور فنکار بھی آن بسے۔ اس کے علاوہ پشتو موسیقی اور سینما، دری موسیقی جو تاجک افراد کی پسند ہے اور فارسی میں کتب کی چھپائی بھی پشاور میں اب جڑ پکڑ چکی ہیں۔ پشاور سے شیعہ مذہبی کتب قصہ خوانی بازار سے چھپتی ہیں۔
2002 میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی کے بعد عوامی سطح پر موسیقی کی نمائش اور پبلک ٹرانسپورٹ پر موسیقی پر پابندی لگ گئی۔ تاہم زیر زمین استعمال بڑھ گیا۔ 2008 میں نسبتاً آزاد خیال عوامی نیشنل پارٹی کی جیت کے بعد ثقافتی سرگرمیوں کو جِلا ملی ہے لیکن طالبان کی وجہ سے ثقافت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
پشاور عجائب گھر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخی شہر پشاور میں ایک عجائب گھر ہے۔ ایک کی خصوصیت گندھارا تہذیب کے نوادرات ہے۔
شہر کی اکثر آبادی ایک یا ایک سے زیادہ زبانیں بولتی ہے:
دیگر زبانوں میں گوجری، کشمیری، شینا، رومانی، برشسکی، واخی، بلتی، بلوچی، براہوی، سندھی اور انگریزی (سرکاری سطح پر اور سیاحت سے متعلق) بھی استعمال ہوتی ہیں۔
تحریری طور پر اردو اور انگریزی ہی پشاور میں استعمال ہوتی ہیں جبکہ پشتو اور فارسی انتہائی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔
پشاور کی معاشی اہمیت تاریخی طور پر درہ خيبر داخلے پر ہونے کی وجہ سے امتیازی حیثیت رہی ہے۔ یہ وسط ایشیا اور برصغیر کے درمیان میں تجارت کا سب سے اہم راستہ رہا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط سے پشاور کی معیشت کو ہپی راہ میں ہونے کی وجہ سے بھی بہت فائدہ ہوا۔ پشاور کی متوقع ماہانہ فی کس آمدنی اسلام آباد 117،924 اور کراچی 66،2359 کے مقابلے میں 2015ء میں 55،246 تھی۔ [43]
جمرود روڈ پر واقع پشاور کی صنعتی اسٹیٹ 868 ایکڑ پر محیط ہے جو 1960ء میں قائم کیا گیا ایک صنعتی زون ہے۔ [44] حیات آباد صنعتی اسٹیٹ پشاور کے مغرب کے مضافات میں واقع ہے جہاں 646 صنعتی یونٹس موجود ہیں۔ تاہم کئی یونٹس اب استعمال میں نہیں ہیں۔[45] پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 4 خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے، سڑکوں، بجلی، گیس، پانی اور سیکورٹی حکومت کی طرف سے فراہم کی جائے گی۔[45]
شہر میں پناہ گزین افراد کی بڑی تعداد میں ہونے کے نتیجے میں، پشاور کے رہائشیوں کا صرف 12 فیصد 2012ء میں رسمی معیشت میں روزگار حاصل کر سکا۔[46] 2012ء میں تقریباً 41 فیصد باشندوں کو ذاتی خدمات میں برسر روزگار ہوئے، [46] جبکہ 2012ء میں شہر میں 55 فیصد افغان مہاجرین روزانہ اجرت حاصل کرنے والے تھے۔ [46]
باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا یا پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ (کوڈ: PEW|OPPS) پاکستان کے صوبہ سرحد میں پشاور کے مقام پر واقع بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ پشاور شہر کے مرکز سے تقریباً 10 منٹ کی مسافت پر واقع ہے اور پاکستان میں چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا شمار ہوتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس کے رن وے کے ایک حصے پر ریل کی پٹری گزرتی ہے جو خیبر ٹرین سفاری کے استعمال میں ہے جو لنڈی کوتل تک سفر کرتی ہے۔
یہ ہوائی اڈا ایک لحاظ سے وادی پشاور کے مرکز میں واقع ہے۔ پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر یہ سفر تقریباً 2 گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی تاریخی اہمیت ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی نسبت ممتاز ہے۔ چونکہ پشاور صوبہ سرحد کا مرکز ہے اس لیے یہ ملک کے شمال مغربی حصے میں دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے جو عالمی معیار پر پورا اترتا ہے۔
پشاور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں کراچی - پشاور مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ پشاور شہر کا مرکزی اور پاکستان ریلویز کا ایک اہم ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہاں عوام ایکسپریس، خوشحال خان خٹک ایکسپریس اور خیبر میل ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس اسٹیشن سے ریل گاڑیاں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، سکھر، جیکب آباد، لاڑکانہ، کوئٹہ اور کوٹری شامل ہیں۔
جبکہ پشاور میں دوسرا ریلوے اسٹیشن پشاور شہر ریلوے اسٹیشن ہے۔
پشاور تاریخی طور پر بہت اہمیت کا حامل رہا ہے جو مختلف راستوں سے وسط ایشیا، جنوبی ایشیا سے مربوط رہا ہے۔ شہر میں عمومی نقل و حمل کے لیے سڑکوں کا جال موجود ہے۔ مندرجہ ذیل بین صوبائی یا بین الاقوامی شاہراہوں کا ذکر ہے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ یا جسے مختصرًا جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں دراصل ایشیا کی طویل ترین اور قدیم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عمر 2000 سال ہے۔ یہ شاہراہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملاتی ہے جو بنگلہ دیش سے شروع ہوکر بھارتی علاقوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی پنجاب پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں افغان شہر کابل تک جاتی ہے۔
شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔
قومی شاہراہ 55 یا این-55، جسے عام طور پر انڈس ہائی وے کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ، پنجاب اور سرحد کو منسلک کرنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ اسے دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر واقع این-5 پر دباؤ کو کم کرنے اور کراچی اور پشاور کے درمیان میں ایک مختصر اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس شاہراہ کی تجویز 1980ء میں دی گئی اور کام کا آغاز 1981ء میں کراچی سے ہوا اور 7 سال کے بعد پشاور میں مکمل ہوئی۔
پشاور رنگ روڈ یا خیبر پختونخوا ہائی وے ایس-13 پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں واقع 35 کلومیٹر (22 میل) طویل ایک مداری شاہراہ ہے۔ [47]
ایم 1 موٹروے (M1) پاکستان میں موٹروے ہے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب کو ملاتی ہے۔ یہ 155 کلومیٹر طویل ہے، 88 کلومیٹر خیبر پختونخوا میں اور 67 کلومیٹر پنجاب میں واقع ہے۔یہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک اہم رابطہ سڑک بن چکی ہے۔ یہ پاکستان موٹروے کا حصہ ہے۔[48]۔
درۂ خیبر پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے 33 میل طویل اونچے اونچے خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک درہ ہے۔ چوڑائی ایک جگہ صرف دس فٹ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے۔ اسی راستے سے آئے۔ انگریزوں نے 1879ء میں اس پر قبضہ کیا۔ درہ خیبر جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم تک چلا گیا ہے۔ جو پاک افغان سرحد کی آخری چوکی ہے۔باب خیبر اور قلعہ جمرود پاس ہی واقع ہیں۔
پشاور میں بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں جن میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے پشاور یونیورسٹی اکتوبر 1950ء میں قائم کی۔ ایڈورڈز کالج 1900ء میں ہربرٹ ایڈورڈز نے بنایا اور اسے صوبے کا قدیم ترین کالج مانا جاتا ہے۔
ذیل میں پشاور کے سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں سے کچھ کے نام ہیں:
ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور میں ٹیسٹ کرکٹ کا اسٹیڈیم ہے، دیگر اسٹیڈیموں میں پشاور کلب گراؤنڈ اور قیوم اسٹیڈیم شامل ہیں۔[49] پشاور کی مقامی کرکٹ ٹیم پشاور پینتھرز ہے۔ جبکہ پاکستان سپر لیگ میں پشاور کی کرکٹ ٹیم پشاور زلمی ہے۔ [50] فیلڈ ہاکی اور اسکواش بھی پشاور میں بہت مقبول ہیں۔ پشاور گالف کورس پشاور، خیبر پختونخوا، پاکستان میں ایک بڑا گالف کورس ہے۔ یہ شہر کے مرکز میں گرینڈ ٹرنک روڈ اور شامی روڈ کے ساتھ واقع ہے۔ یہ برطانوی راج کے نو آبادی دور میں تعمیر گیا۔ [51][52] موجودہ دور میں یہ پاک فضائیہ کے زیر انتظام ہے۔ [53]
پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ میں ایک پاکستانی ٹوئنٹی/20 کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم خیبرپختونخوا کے دار الحکومت پشاور پر مبنی ہے۔ یہ ٹیم پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے قیام کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی ہیں۔ یہ ٹیم ہائیر پاکستان کی ملکیت ہے۔[54] پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی 2017ء کی موجودہ فاتح ہے۔ [55]
ضلع کا کُل رقبہ 1257 مربع کلوميٹر ہے۔
یہاں فی مربع کلومیٹر 2040 افراد آباد ہيں
سال 2004-05 ميں ضلع کی آبادی 2564000 تھی
دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔
کُل قابِل کاشت رقبہ78930 ہيکٹر ہے
پاکستان کے شہر
درجہ | شہر | آبادی (1998 مردم شماری) | آبادی (2017 مردم شماری) | اضافہ | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 9,856,318 | 16,051,521 [57] | 62.86% | سندھ |
2 | لاہور | 5,143,495 | 11,126,285 | 116.32% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 2,008,861 | 3,203,846 | 59.49% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 1,409,768 | 2,098,231 | 48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 1,132,509 | 2,027,001 | 78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 982,816 | 1,970,042 | 100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,197,384 | 1,871,843 | 56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد، سندھ | 1,166,894 | 1,732,693 | 48.49% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 529,180 | 1,014,825 | 91.77% | اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ |
10 | کوئٹہ | 565,137 | 1,001,205 | 77.16% | بلوچستان |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.