مذہبی تحریک From Wikipedia, the free encyclopedia
احمدیہ جماعت 1889ء میں مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمدؐ کے تابع نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو ان کا پہلا خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ، 1914ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کہلاتا ہے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
رہنما | مرزا غلام احمد | |||
بانی | مرزا غلام احمد | |||
مقام ابتدا | برصغیر | |||
تاریخ ابتدا | 23 مارچ 1889ء | |||
درستی - ترمیم |
مرزا غلام احمد نے اس تحریک کو 23 مارچ 1889 میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی اور اب یہ جماعت 200 ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے خلیفہ کا نام مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک سے دو کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
احمدیہ جماعت ایک منظم اور مربوط جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔مرزا غلام احمد کی نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختلافات کے سبب لاہوری احمدیہ جماعت اصل دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسلامی عقائد کے برخلاف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔بہت سے سخت گیر اسلامی گروہ اس جماعت کو کافر خیال کرتے ہیں۔
1882 میں مرزا غلام احمد، جن کا تعلق متحدہ ہندوستان کے گاوں قادیان سے تھا، نے دعویٰ کیا کہ انہیں بذریعہ الہام اس زمانہ کے لئے اسلام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔23 مارچ 1889ء کو انہوں نے لدھیانہ میں بیعت لے کر ایک باقاعدہ جماعت کی داغ بیل ڈالی۔
تاریخ احمدیت کے چند اہم واقعات:
جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے۔ چنانچہ تبلیغی مراکز کا قیام شروع ہی سے اس جماعت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ غیر مسلم مذاہب میں بھی تبلیغ پر زور دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرزا غلام احمد کے وقت سے ہی غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ خود مرزا غلام احمد نے مختلف ممالک میں اپنی کتب، اشتہارات اور رسائل نیز خطوط کے ذریعہ اپنے دعاوی کا پرچار کیا۔
مزرا غلام احمد کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ کے زمانہ میں انگلستان میں تبلیغی کام کا آغاز ہوا۔ چنانچہ پہلے باقاعدہ مبلغ کے طور پر چوہدری فتح محمد سیال نے لندن تبلیغی مرکز قائم کیا۔ ابتدائی مبلغین اکثر مرزا غلام احمد کے وہ ساتھی تھے جنہوں نے خود ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔اس وقت احمدیہ مسلم جماعت ۲۰۰ سے زائد ممالک میں قائم ہے اور اکثر ممالک میں اپنے تبلیغی مراکز رکھتی ہے۔ چند قدیم اور مشہور مراکز یہ ہیں[2]:
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور بھی بعض ممالک میں اپنے تبلیغی مراکز رکھتی ہے۔
احمدیہ مسلم جماعت کا عالمی سربراہ خلیفہ المسیح کہلاتا ہے۔ خلیفہ المسیح تمام معاملات میں آخری صاحب اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام معاملات میں اس کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے۔خلیفہ المسیح کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ کے نام سے ایک ادارہ کام کرتا ہے جو کہ مختلف معاملات کی دیکھ بھال کے لئے متعدد صیغہ جات میں منقسم ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ممالک تحریک جدید نامی ادارہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ تحریک جدید بھی متعدد صیغہ جات میں منقسم ہے۔
مرکزی تنظیم کے علاوہ احمدیہ مسلم جماعت کے افراد مندرجہ ذیل تنظیموں کے بھی رکن ہوتے ہیں۔
احمدیہ مسلم جماعت میں مجلس شوریٰ کے نام سے مشاورت کا ایک وسیع نظام رائج ہے 1922 میں دوسرے خلیفہ المسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جاری کیا۔ یہ نظام جماعت کی مرکزی تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام کاموں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مجلس شوریٰ میں مقامی اکائیوں کے نمائندگان اپنی اکائی میں موجود اراکین کی تعداد کے موافق منتخب ہو کر شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ مرکزی عہدیداران پر مشتمل مجلس عاملہ اور بعض دیگر صیغہ جات کے سربراہ بھی اس کے رکن ہیں۔ مجلس شوریٰ میں جن تجاویز پر بحث ہوتی ہے وہ پہلے مرکزی مجلس عاملہ کی سفارش کے ساتھ خلیفہ المسیح کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور منظور شدہ تجاویز پر ہی شوریٰ میں بحث کی جاتی ہے۔ بحث کے بعد رائے شماری کر کے نتائج خلیفہ المسیح کو بھجوا دیے جاتے ہیں۔ صرف خلیفہ المسیح سے منظور ی کے بعد ہی کوئی تجویز فیصلہ کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔
تمام مجالس شوریٰ کا ایک اہم کام ہر سال بجٹ کا بنانا ہے۔ اسی طرح مجالس شوریٰ ہی میں مقرر وقت پر ملکی سطح کے عہدیداران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
احمدیہ مسلم جماعت کی تمام تنظیموں کی ہر سطح پر ایک مجلس عاملہ تنظیم کے تمام کاموں کو منظم کرتی ہے۔ مجلس عاملہ میں مختلف کاموں کے لئے الگ الگ صیغہ جات موجود ہیں۔ مرکزی تنظیم کی ہر سطح کی مجلس عاملہ کے تمام اراکین جبکہ ذیلی تنظیموں میں ہر سطح کی مجلس عاملہ کا صدر منتخب ہوتے ہیں۔ ملکی سطح پر یہ انتخاب مجلس شوریٰ جبکہ مقامی سطح پر تمام مقامی اراکین کے نمائندوں کے ذریعہ سر انجام پاتا ہے۔
جامعہ احمدیہ احمدیہ مسلم جماعت کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا مقصد احمدی عقائد کی اشاعت و ترویج اور احمدی افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے علماء تیار کرنا ہے۔ جامعہ احمدیہ میں اپنی زندگی جماعت احمدیہ کے لئے وقف کرنے والے نوجوانوں کو سات سال تعلیم دی جاتی ہے جس میں عربی، اردو کے علاوہ دوسری زبانوں اسی طرح قرآن، حدیث، فقہ، علم الکلام وغیرہ مختلف علوم کی ابتدائی تعلیم شامل ہیں۔ جامعہ احمدیہ کا ادارہ ہندوستان، پاکستان، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، گھانا، تنزانیہ وغیرہ مختلف ممالک میں قائم ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے شاہد کی سند حاصل کر کے مربی سلسلہ کہلاتے ہیں۔
مرزا غلام احمد نے 1891 میں اپنے پیروکاروں کے لئے ایک تین روزہ اجتماع کا آغاز کیا جس کا مقصد افراد جماعت احمدیہ کی تربیت، تعلیم اور آپس کے تعارف اور بھائی چارہ کو بڑھانا تھا۔ اس اجتماع کو جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف علمی اور تربیتی موضوعات پر تقاریر کی جاتی ہیں۔ اسی طرح عبادت کے لئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
احمدیہ عقائد کا اسلامی عقائد سے تقابل (مضمون) = وضاحت کے لیے متن سے رجوع | ||
اکثریتی اسلامی عقیدہ | احمدیہ مسلم جماعت کا عقیدہ[3] | احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا عقیدہ[4] |
|
| |
یہ ایک مختصر جائزہ ہے۔ تفصیل کے لئے متعلقہ صفحات سے رجوع کریں۔ اکثریتی اسلامی عقائد کے لئے دیکھیں اجزاۓ ایمان اور ارکانِ اسلام ۔ مرزا غلام احمد کے عقائد کے لئے دیکھیں مرزا غلام احمد کے عقائد و تعلیمات۔
ختمِ نبوت کا احمدیہ تصور
جماعت احمدیہ کے مطابق بانی اسلام محمدؐ ہی خاتم النبیین ہیں۔ اکثریتی مسلمان علماء کے برخلاف احمدیہ تشریح کے مطابق خاتم النبیین سے سب سے ارفع اور عالی نبی مراد ہے جو کہ مدارج کی انتہا پر فائز ہو۔ اس نظریہ کے مطابق محمدؐ کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ آپ ؐ کی کامل پیروی سے کوئی انسان نبی کے مقام تک بھی فائز ہو سکتا ہے۔
مسیح، مہدی اور وفات عیسیٰ ؑ
مرزا غلام احمد، بانی جماعت احمدیہ، احمدیہ عقیدہ کے مطابق مسیح موعود اور مہدی ہیں۔ وہ اسلامی شریعت اور قرآن کے پابند اور بانی اسلام کے پیروکار اور ان کے ماتحت ہیں۔ اس ضمن میں اکثریتی علماء کے نزدیک مہدی اور مسیح دو مختلف شخصیات ہیں۔ اسی طرح مرز غلام احمد کے نذدیک عیسیٰ ؑ ابن مریم بانی عیسائیت طبعی طور پر وفات پا چکے ہیں اور آنے والے شخص کو، جس کا انتظار مسلمان کر رہے ہیں، مسیح کا نام حالات اور مزاج میں اشتراک کی وجہ سے بطور تمثیل دیا گیا تھا جیسا کہ کسی سورما کو رستم کہہ دیا جاتا ہے۔ اکثریتی مسلمان علماء کے نزدیک عیسیٰ ؑ اب تک فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے جسم سمیت زندہ ہی آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے اور آخری زمانہ میں وہی دوبارہ نازل ہوں گے۔
جہاد
مرزا غلام احمد نے متعدد بار یہ واضح کیا ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے کسی قسم کا جبر اور جنگ جائز نہیں۔ حضرت محمد ؐ کا تلوار اٹھانا محض اپنے دفاع کے لئے تھا یا قیام امن کے لئے۔ جبکہ اس سے پہلے تیرہ سال تک مکہ میں مظالم سہنے اور حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کرنے کے باوجود مسلمانوں پر حملہ کیا گیا۔ اس زمانہ میں جبکہ مذہبی آزادی حاصل ہے اور اسلام پر حملہ تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے ہو رہا ہے، قلم کا جہاد ضروری ہے۔
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا مخصوص نظریہ
احمدیہ مسلم جماعت کے برعکس احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور مرزا غلام احمد کو مکمل نبی نہیں سمجھتی بلکہ ان کو ایک مجدد خیال کرتی ہے۔ چنانچہ خاتم النبیین کے معاملہ میں ان کی تشریح اکثریتی مسلمان تشریح کے مطابق ہے۔ البتہ وفات عیسیٰ ؑ کے معاملہ پر ان کا بھی وہی خیال ہے جو احمدیہ مسلم جماعت کا ہے۔
جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لئے مرزا غلام احمد نے دس شرائط مقرر کی ہیں جن پر ہر احمدی کو کاربند ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ ان شرائط پر عمل پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد باقاعدہ بیعت کرنا بھی ضروری ہے جو کہ احمدیہ مسلم جماعت میں خلیفہ المسیح کے ہاتھ پر کی جاتی ہے۔ شرائط بیعت یہ ہیں[6]:
ان شرائط پر آمادگی کے بعد بیعت کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں[7]:
” | اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔ | “ |
” | آج میں مسرور کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل ہوتا/ہوتی ہوں۔ میرا پختہ اور کامل ایمان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرتا/کرتی ہوں جس کی خوشخبری حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ میں وعدہ کرتا/کرتی ہوں کہ مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت کا پابند رہنے کی کوشش کروں گا/گی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا/گی۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وفا کا تعلق رکھوں گا/گی۔ اور بحیثیت خلیفہ المسیح آپ کی تمام معروف ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا/گی۔ | “ |
” | استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ رب انی ظلمت نفسی و اعترافت بذنبی فغفرلی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا/کرتی ہوں۔ تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔ آمین۔ | “ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.