جنوبی ایشیا کا ایک دھرمی نظام From Wikipedia, the free encyclopedia
ہندو مت ایک ہندوستانی مذہب یا دھرم ہے، ایک مذہبی اور آفاقی حکم یا طرز زندگی ہے جس کے پیروکار مانتے ہیں۔ 1.2–1.35 بلین پیروکاروں کے ساتھ یا عالمی آبادی کا 15–16%، جسے ہندو کہا جاتا ہے۔ اور جب کہ ہندو مذہب کو دنیا کا قدیم ترین مذہب کہا جاتا ہے، [نوٹ 4] بہت سے پریکٹیشنرز اپنے مذہب کو سناتن دھرم (سنسکرت: सनातन धर्म, lit.The Eternal Dharma) کہتے ہیں جو اس خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی ابتدا انسانی تاریخ سے ماورا جھوٹ، جیسا کہ ہندو متون میں انکشاف کیا گیا ہے۔ ویدوں سے متعلق دھرم۔
ہندو مت ایک متنوع نظام فکر ہے جس میں مختلف فلسفوں اور مشترکہ تصورات، رسومات، کائناتی نظاموں، زیارت گاہوں اور مشترکہ متنی ذرائع شامل ہیں جو الہیات، مابعدالطبیعیات، افسانہ، ویدک یجنا، یوگا، اگمک رسومات اور مندر کی تعمیر پر بحث کرتے ہیں۔ دوسرے موضوعات۔[15] گیون فلڈ کے ذریعہ ایک مذہبی 'زمرہ' کے طور پر بیان کیا گیا ہے، [16] ہندو عقائد میں نمایاں موضوعات میں چار پروشارت، انسانی زندگی کے مناسب اہداف یا مقاصد شامل ہیں۔ یعنی، دھرم (اخلاقیات/فرائض)، ارتھ (خوش حالی/کام)، کام (خواہشیں/جذبے) اور موکش (جذبات سے آزادی/آزادی اور موت اور پنر جنم کے چکر)، [17][18] نیز کرما (عمل، ارادہ اور نتائج) اور سنسارا (موت اور پنر جنم کا چکر)۔[19][20] ہندو مت ابدی فرائض کا تعین کرتا ہے، جیسے ایمانداری، جانداروں کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کرنا (احساس)، صبر، تحمل، ضبط نفس، نیکی اور ہمدردی اور دیگر کے علاوہ۔ آگ کی رسومات (ہوما/ہون)، عقیدت (بھکتی)، روزہ (ورات)، منتر (جاپ)، مراقبہ (دھیان)، قربانی (یاجنا)، خیرات (دانہ)، بے لوث خدمت (سیوا)، سیکھنے اور علم (جنا) ، صحیفوں کی تلاوت اور نمائش (پرواچنا)، اپنے آبا و اجداد کو خراج عقیدت (شرادھا)، گزرنے کی خاندانی رسومات، سالانہ تہوار اور کبھی کبھار یاترا (یاترا)۔ یوگا سے جڑے مختلف طریقوں کے ساتھ ساتھ، کچھ ہندو اپنی سماجی دنیا اور مادی اثاثوں کو چھوڑ کر زندگی بھر سنیاس (رہبانیت) میں مشغول رہتے ہیں تاکہ موکش کو حاصل کیا جا سکے۔[22]
ہندو متون کی درجہ بندی شروتی ("سنا") اور سمرتی ("یاد رکھی گئی") میں کی گئی ہے، جن کے بڑے صحیفے وید، اپنشد، پران، مہابھارت، رامائن اور اگماس ہیں۔[19][23] ہندو فلسفہ کے چھ آستیک مکاتب ہیں، جو ویدوں کی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہیں، یعنی سانکھیا، یوگا، نیا، ویشیشیکا، میمسا اور ویدانت۔[24][25][26] جبکہ پرانک تاریخ ہزاروں سالوں کا شجرہ نسب پیش کرتی ہے، جس کا آغاز ویدک رشیوں سے ہوتا ہے، اسکالرز ہندومت کو مختلف ہندوستانی ثقافتوں کے ساتھ برہمنی آرتھوپراکسی [نوٹ 8] کے فیوژن [نوٹ 6] یا ترکیب [27][نوٹ 7] کے طور پر مانتے ہیں۔ 28 [نوٹ 9] متنوع جڑوں کا حامل ہے[29][نوٹ 10] اور کوئی مخصوص بانی نہیں ہے۔ یہ ہندو ترکیب ویدک دور کے بعد، c کے درمیان ابھری۔ 500[31]–200[32] BCE اور c. 300 عیسوی، [31] دوسری شہری کاری کے دور اور ہندو مت کے ابتدائی کلاسیکی دور میں، جب مہاکاوی اور پہلے پرانوں کی تشکیل کی گئی تھی۔[31][32] ہندوستان میں بدھ مت کے زوال کے ساتھ یہ قرون وسطیٰ میں پروان چڑھا۔[33]
فی الحال، ہندو مت کے چار بڑے فرقے وشنو مت، شیو مت، شکت مت اور سمارتا روایت ہیں۔[34][35][36][37] ہندو متون میں اتھارٹی کے ذرائع اور ابدی سچائیاں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ان سچائیوں کی تفہیم کو گہرا کرنے اور روایت کو مزید ترقی دینے کے لیے اتھارٹی پر سوال کرنے کی ایک مضبوط ہندو روایت بھی موجود ہے۔[38] ہندوستان، نیپال، ماریشس اور بالی، انڈونیشیا میں ہندو مذہب سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر عقیدہ ہے۔[39] ہندو کمیونٹیز کی نمایاں تعداد جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک، جنوب مشرقی ایشیا، کیریبین، خلیجی ریاستوں، شمالی امریکا، یورپ، اوشیانا، افریقہ اور دیگر خطوں میں پائی جاتی ہے۔
ہندو مت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں ہے، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدہ وحدۃ الوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لیے گئے ہیں۔ دہریت، بت پرستی، شجر پرستی، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں۔
مندر میں جانے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے جانے سے مندر ناپاک ہوجاتا ہے۔ وید کا سننے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ اگر وید سن لے تو اس کے کانوں میں پگلاہوا سیسہ ڈالاجائے۔ غرض کہ ہندو مت ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظام ہے، جس کے اندر عقائد رسوم اور تصورات کی بہتات ہے۔ اسے ویدی مذہب کی ترقی یافتہ، توسیع یافتہ اور تبدیل شدہ شکل بھی کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ وہ مقام جہاں سے یہ پھیلا ہے وہ بہر حال ویدی مذہب ہی ہے۔
برصغیر آنے کے بعد آریا چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی خصوصیات کھوتے چلے گئے۔ انھوں نے یہاں کی مختلف قوموں کے تمدنی اثرات، عقائد اور رسوم کو قبول کر لیا اور ان دیوتاؤں کو بھی اپنے دیوتاؤں میں شامل کر لیا۔ جن کی عبادت غیر آریا کیا کرتے تھے، مگر وہ اپنی انفرادیت اور نسلی برتری کو کھونے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف ہر اس جماعت اور مذہب سے ٹکر لینے کی ٹھانی جس نے ان کی عظمت سے انکار کر دیا اور دوسری طرف ذاتوں کی بندش کو سخت کرکے ایسے عقائد و رسوم کا جال پھیلا دیا کہ لوگوں کے لیے اس سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ انھوں نے ویدی عہد کی مذہبی کتابوں اور دیوتاؤں کو احترام کے دائرے میں محدود کر دیا اور نئی کتابوں کی تصنیف اور نئے دیوتاؤں کی شمولیت سے مذہبی نظام قائم کیا اور اس پر نئی کتابوں میں اس نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ دھرم شاشتر اور پران میں کو سب سے اہمیت حاصل ہوئی۔ خرافات، ضمیات، عقائد اور رسوم کے لیے پران نے ان کو مواد فراہم کیا اور عملی زندگی کے مطالبات کو دھرم شاشتر نے پورا کیا۔ برھما، شیو اور وشنو کو تسلیم کر لیا گیا اور الوہیت کی ان تینوں شکلوں کو تری مورتی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ برھما کو پہلے افضل مانا گیا اور سرسوتی کو جس کی سواری مور ہے اس کی بیوی بتایا گیا، نیز اسے علم اور دانائی کی دیوی بتایا گیا۔ پھر برھما کی عظمت کم کر کے اس کی پرستش روک دی گئی اور وشنو اور شیو کو اس پر فوقیت دے کر اس کی کمتری کا اعلان کر دیا گیا۔
مورخین نے بالعموم آریائی دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
آریائی دور اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جب وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے اور یہاں کے باشندوں سے بر سرِ پیکار تھے.
آریوں کی مذہبی کتابوں کی تعداد چار ہیں جو چار ویدوں کے نام سے مشہور ہیں:
وید کا لفظ ود سے نکلا ہے، جس کے معنی جاننے اور علم ہیں۔ اس لیے وید کا اطلاق عام علوم یا مخزن علوم کے ہیں، جسے سنہیتا (संहिता) کہتے تھے۔ یہ مخزن علوم شروع میں تین مجموعوں پر مشتمل تھا۔ رگ وید سنہیتا (ऋग्वेद संहिता)، سام وید سنہیتا (सामवेद संहिता) اور یجر وید سنہیتا (यजुर्वेद संहिता)، بعد میں اس میں اتھروا وید سنہیتا (अथर्ववेद संहिता) کا اضافہ ہو گیا، جو مضمون کے لحاظ سے ایک ہی ہے۔ یہ سنہیتا منتروں یا بھجنوں کا مجموعہ ہیں، اس لیے یہ منتر بھی کہلاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ تمام وید الہامی ہیں اور پرمیشور کے خاص بندوں کے ذریعہ ہم تک پہنچائے گئے ہیں اور برہما نے انھیں خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔
ویدوں کے مضامین سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ منتروں کو چھوڑ کر بقیہ برصغیر کی سرزمین پر لکھے گئے ہیں۔ جب آریا یہاں آئے تھے تو انھیں کچھ مذہبی بھجن زبانی یاد تھے اور انھیں زبانی منتقل کرتے گئے اور جب وہ فن تحریر سے آگاہ ہوئے، تو ان کی ابتدائی تحریریں یہی بھجن اور منتر ہوئے، جو اب رگ وید کا حصہ ہیں اور تکرار اور حذف و اضافے کے ساتھ دوسرے ویدوں میں شامل کیے گئے ہیں اور ان کے بہت سے مضامین بہت بعد کے حالات پر مشتمل ہیں۔ اس طرح ویدوں کا زمانہ 1000 ق م سے 600 ق م تک متعین ہوتا ہے، جو قرین قیاس ہے۔
اس وید کا زیادہ تر حصہ ابھی تک نا قابل فہم ہے اور یہ منتر، مناجات اور حمد پر مشتمل ہے۔ ان میں جگہ جگہ رنگین باتیں بھی ملتی ہیں۔ ان منتروں سے ان کی ارتقائی حالت، مقاصد، سیاسی تنظیم،سماجی تہذیب اور دشمنوں کے تمدنی مدارج پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ ان میں بہت سے معبودوں کا نام لے کر دولت و شہرت طلب کی گئی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنی فتح اور کامرانی کی دعا کی گئی ہے۔
قدامت کے لحاظ سے رگ وید کے بعد سام وید کا نام آتا ہے۔ اس کے تمام منتر سوائے 571 منتروں کے رگ وید سے ماخوذ ہیں جنھیں اس میں خاص طور پر اکھٹا کیا گیا ہے، تاکہ رسموں کو ادا کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے تمام منتر بلند آواز میں پڑھے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے اس کا نام سام یعنی ترنم ہے۔
یجُروید سنسکریت کے لفظ "یجُرویدا" سے ماخوُز ہے۔ "یجُوس" کا مطلب منتر اور "ویدا" کا مطلب علم ہے یعنی علم کے منتر۔ یہ ان منتروں کا مجموعہ ہے جو پنڈِت مذہبی رسوم ،جیسے "یجنا" کے دوران پڑھتے ہیں۔ سام وید کی طرح اس کے منتر بھی رگ وید سے ماخوذ ہیں۔ اس میں منتروں کے درمیان پوجا کے لیے ہدایتیں بھی ہیں۔يجروید کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، کرشنا یجروید اور شکلہ یجروید۔ اوّل الزکر میں غیر واضح اور غیر ترتیب یافتہ آیات جبکہ موخر الزکر میں ترتیب کے ساتھ واضح آیات ہیں۔ کرشنا یجروید کے چار ایڈیشن جبکہ شُکلا یجروید کے دو ایڈیشن موجود ہیں۔
اس کی تصنیف بہت بعد میں ہوئی ہے، مگر اس کے بعض حصے رگ وید سے بھی قدیم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ مذکورہ بقیہ تین ویدوں سے مختلف ہیں۔ اس کے منتر زیادہ تر جادو ٹونے اور جھاڑ پھونک پر مشتمل ہیں اور بھوتوں کی پرستش کا ذکر بھی ہے۔
آریا اس ملک میں آنے کے بعد جلد اپنی زبان بھول گئے، اس لیے ویدوں کی تفسیریں لکھی گئیں اور انھوں نے ان منتروں کو جنھیں سمجھ سکتے تھے، کچھ نہ کچھ تفسیریں لکھ لیں اور بقیہ حصہ کو چھوڑ دیا، لہذا بقیہ حصہ ناقابل فہم بن گیا۔ یہ تفسیریں براہمن کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ سب کے سب منتر ہیں، مگر زیادہ تر اساطیری واقعات خرافاتی قصوں اور قربانی کے متعلق ہدایتیں ہیں۔ یہ براہمن بہت سارے لکھے گئے تھے، مگر اب صرف سات باقی بچے ہیں۔
براہمنوں کے بعد آرن یک کا نام آتا ہے، جو بطور ضمیمہ براہمنوں میں شامل ہیں، ان کو جنگلوں کی بیاض بھی کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اس قدر پاک ہیں کہ ان کو صرف جنگلوں میں ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ ان میں آریاؤں کے لیے ہدایتیں درج ہیں۔ یہ براہمن کی طرح ہیں، مگر ان میں رسومات کے برخلاف معنوں سے سروکار کیا گیا ہے۔
یہ ویدی دور کا آخری ضخیم حصہ ہے، جسے معنویت اور فلسفیانہ گہرائی کی وجہ سے بڑی اہمت حاصل ہے۔ اپنیشد کے معنی کسی کے آگے بیٹھنے کے ہیں اور اصلاحی معنی اسرار کے ہیں۔ یہ بہت سے ہیں، کچھ نظم میں اور کچھ نثر میں۔ انھیں عام طور پر ویدانت کہتے ہیں، جس کے معنی وید کا تتمہ ہے۔ بعض لوگوں نے بھگوت گیتا اور سوتروں کو بھی ودیانت میں شمار کیا ہے۔
ہندو مت کی تدوین نو رزمیہ نظموں کے عہد میں شروع ہوئی ۔ برہما ، وشنو اور مہیش جنہیں تر مورتی کہا جاتا ہے کے ساتھ دیوی ماں منظر عام پر آکر غیر معمولی مقبولیت کا باعث بنیں ۔ ہندو مت برہمنی مت کی توسیع کا نام ہے ۔ نئے عظیم دیوتاؤں کا وجود میں آنا اور عوام کی مقبولیت کی سند حاصل کرنے میں ایک زمانہ لگا ۔ عہد وسطی کی تاریخ انہی کے عروج کی داستان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
قدیم برہمنی اور ویدک دھرم میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ ویدک رسومات میں یگیہ (قربانی) کو مرکزیت حاصل تھی ۔ جب کہ نئے ہندو دھرم میں یگیہ کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے ۔ قدیم ویدک دھرم میں یگیہ صرف برہمنوں کے ذریعے ادا کی جا سکتا تھا اور دیوتا یگیہ کے مقابلے میں تمام عبادتیں اہمیت حقیقت نہیں دیتے تھے اور عوام یگیہ کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ مگر ہندو مت کی تنظم نو میں یگیہ کو ختم کرکے پوجا پاٹ کو اہمیت دی گئی برہمنی مت میں جب غیر آریائی قبائل کو جگہ دینا شروع کی تو برہمنی مت کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل کے مذہبی عقائد و رسومات بھی جگہ پانے لگے ، پھر بھی ان ان سب میں برہمنی مت اور اس کے عقائد کو اولیت حاصل رہی ۔ مہابھارت اور رامائن عہد کے تمام مذہبی عقائد اور سماجی روایات کی برہمنی عالموں نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی اور ان کے ذریعے برہمنی مت کی تائید اور سند کی قبولیت بخشی اس طرح برہمنوں کو کلیدی حثیت حاصل ہو گئی اور یہی دھرم کے اصول و ضوابط کی ترتیب و ترمین یا تنسیخ کے ذمہ دار تھے ۔ یعنی کوئی بھی عمل جس کا تعلق مذہب و زندگی کے کسی شعبے سے ہو ۔ ان کے عمل و دخل کے بغیر تکممیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا ۔
نئے مذہب کی خصوصیت یہ ہے یہ اپنے اندر تمام رسومات و روایات کو سمو لینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی اس کی مقبولیت کی ضامن بنی ۔ ہندو مت میں شمولیت کے لیے کسی طرح کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی قبیلے ، کسی ذات ، کسی مذہب و نسل سے تعلق رکھتا ہو اپنے مذہبی عقائد و رسومات کے ساتھ اس نئے مذہب میں شامل ہو سکتا تھا ۔ اس طرح ہندو مت میں تمام طبقات کے لوگ شامل ہونے لگے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو پہلے اس مذہب سے مستفید ہو نہیں سکتے تھے اور نہ برہمنی مذہب کو ان سے دلچسپی تھی ۔ سماجی کی وہ ذاتیں جو پہلے حقیر سمجھی جاتی تھیں وہ ہمشہ مذہبی معملات سے دور رکھے گئے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو مت کا برہمنی مت کو عوامی رنگ اختیار کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
ہندو مت نے تمام نسلی ، قبائلی و مقامی عقائد کو جگہ دے کر اپنے دائرے کو پھیلایا کہ ہندو مت میں متضاد خیالات و افکار رکھنے والے سبھی اپنے اپنے دیوتاؤں سے عقیدت رکھنے کے ساتھ دوسرے دیوتاؤں کا بھی احترام کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اپنی ضرورتوں کے لیے ہر فرقہ اپنے دیوتا کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی کو خالق کائنات سمجھتا ہے ۔ شیو کے بھگت وشنو اور دیوی ماں کو اس کا اوتار یا شیو کی ہی مختلف صفات کا مظہر سمجھتے ہیں ۔ اس طرح وشنو کے بھگت شیو اور دیوی ماں کو وشنو کی مختلف صفات کا مظہر سمجھتے ہیں ۔
ہندو مذہب کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ مختلف دیوتا جو مخصوص نسلی اور تہذیبی روایتوں کی دین ہیں اور ان کے اتحاد سے کسی ایک دیوتا کی تخلیق ممکن نہیں تھی اور بعض اوقات کسی ایک دیوتا کی مختلف صفات یا اس کے مختلف مظاہر میں ان دیوتاؤں کی تکمیل سے اس دیوتا کی تکمیل ممکن تھی ۔
مہا بھارت، رامائن سے زیادہ ضخیم ہے، اس کے اندر ایک لاکھ اشعار ہیں، جو بیس ہزار قطعات میں منقسم ہیں۔ ان کے علاوہ نظموں کا ایک اور مجموعہ بھی ہے، جو چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا مصنف ویاس بتایا جاتا ہے۔ یہ کتاب بھی کسی ایک مضمون کے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس میں قصے بھی ہیں، پند و نصائح بھی، رزمیہ کارنامے بھی، فلسفیانہ بحثیں اور یوگ کے دروس بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بھگوت گیتا ہے۔
یہ حقیقتاََ نئے مذہب کی کتاب ہے، جس کے اکثر تصورات گو اپنشد سے ماخوذ ہیں، تاہم نتیجے کے لحاظ سے ان سے مختلف ہیں۔ اس میں دوسرے دیوتاؤں پر وشنو کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وشنو کو برھما مانا گیا ہے۔ نیز تناسخ کے فلسفہ پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ خود کرشن نرائن، واسدیو، وشنو اور برہما ہیں، دوسرے الفاظ میں وہی معبود اور روح کل بھی ہے۔ ہندوؤں کے خیال میں اس میں ایک ہستی کو تسلیم کر کے وحدت الوجود کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس میں قدیم دیوتاؤں کو نظر انداز کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی گئی ہے، جس میں کرشن ہی کو سب کچھ بتایا گیا ہے۔ اس تعلیم نے کچھ عرصہ کے بعد ایک بڑے فرقے کی صورت اختیار کرلی۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے بھگوت گیتا میں تین طریقے بتائے گئے ہیں۔ (1) جنان مارگ یعنی علم کے ذریعے (2) کرم مارگ یعنی عمل کے ذریعے (3) بھکتی مارگ یعنی گیان و یوگ کے ذریعے۔ یہاں بھی اپنشد کی طرح آرواگون سے رہائی پا جانے یا مکتی یٰا نجات بتایا گیا ہے۔
رامائن لطیفوں اور فلسفیانہ بحث سے خالی ہے۔ اس میں جو کچھ قابل تذکرہ ہے، وہ رام چندر اور سیتا کی سیرتیں ہیں، جنہیں ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعد میں چوں کہ رام چندر اور سیتا کو وشنو اور لکشمی کا اوتار مانا گیا ہے، اس لیے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ وشنو کے ماننے والوں کی سب سے اہم کتاب بن گئی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ویدی معبودوں کے ساتھ نئے دیوتاؤں کا نام بھی آتا ہے، جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ آریائی مذہب ہندو مذہب میں تبدیل ہو رہا تھا۔ گو انھیں برتری نہیں ہوئی تھی، نیز تناسخ کا عقیدہ پختہ ہو چکا تھا اور عام انسانوں کو اوتار سمجھنے کی بدعت جاری ہو چکی تھی۔
اس کتاب کا مصنف والمیکی بتایا جاتا ہے اور اس کو رام چندر کا ہم عصر قرار دیا گیا۔ اس کتاب کے مختلف مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ 600 ق م سے پہلے کی نہیں ہے۔[1]
چونکہ آریا اس ملک میں آنے کے بعد چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے۔ اس وقت انھوں نے ویدوں کی تفسیر لکھنی شروع کی، جو براہمن کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مگر یہ بھی ناقابل فہم ہوتی گئیں اور تشفی بخش ثابت نہیں ہوئیں تو انھوں نے ایک نیم مذہبی ادب ویدانگ کی بنیاد رکھی۔ اور کلپا کے زمرہ میں چار رسالے سروثہ ستر، سلو ستر، گریہ ستر اور دھرم ستر تصنیف کیے۔
ہندو مت کی بنیاد جن کتابوں پر رکھی گئی، ان میں پہلا نام دھرم سترہ کا آتا ہے۔ اس کو ہندو قانون میں ماخذ کی حثیت حاصل ہے۔ دھرم کے معنی مذہب، فرائض اور اعمال کے ہیں اور ستر کے معنی دھاگہ کے۔ مگر اصطلاحی معنوں میں مقدس کتابوں کی طرف رہنمائی کرنے والے کے ہیں۔
اس نوع کے متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ جن میں چار دھرم ستر، جو گوتم، بودھیان، وششت اور آپس تمب کی طرف منسوب ہیں اور زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تصنیف چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کی ہیں۔ ہندو دور کے اوائل میں یہی دھرم ستر قانون کا ماخذ رہی ہیں اور اجتماعی زندگی میں ان پر عمل در آمد ہوتا رہا ہے۔
دھرم سترہ جو نثر میں تھیں یہ ان کے برعکس نظم میں ہیں، ان میں سب سے اہم منو ہے۔ اس کے بعد یجن والکی، وشنو اور ناردا کی طرح غیر الہامی ہیں۔ اس لیے ان کو سمرتی کہا جاتا ہے اور اسی نام سے یہ کتابیں زیادہ مشہور ہوئیں۔ اس لیے عام طور پر سمرتی کہا جاتا ہے۔ دھرم شاشتر کی تصنیف غالباً پہلی صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔
کچھ دنوں کے بعد جب ان آریوں نے جو اپنی خصوصیت کھو کر ہندو بن چکے تھے اور غیر آریائی بن چکے تھے۔ یہ محسوس کیا کہ ایک طرف بدھ مت ان کی مذہبی عالم گیریت سے متصادم ہے اور دوسری طرف شودر ان کی نسلی برتری سے نبرد آزمائی۔ انھوں نے اپنی نسلی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھایا۔ انھیں پورا یقین تھا کہ دھرم سترہ وقت کے مطالبہ کو پورا نہیں کرسکتے اور ایسے پرخطر موقع پر اگر کوئی شے انھیں فنا ہونے بچاسکتی ہے، تو معاشرہ کی نئی تشکیل ہے جو ذاتوں کی تفریق کی بنا پر کی جائے۔ چنانچہ انھوں نے دھرم شاشترہ رکھا۔
اس کے بعد یہی کتابیں ہندو قانون کا ماخذ قرار پائیں اور ان کی تعلیم کے تحت پورے معاشرے کا چلانے کی کوشش کی گئی۔ عنلی زندگی میں منو سمرتی کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے۔ عدالتوں کے اندر اس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں۔ دھرم شاشترہ کی بنیاد ذات پر رکھی گئی تھی اور مقدمہ کے طور پر اس اصول کو تسلیم کیا گیا کہ انسانی آبادی چار ذاتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ برہمن، کشتری، ویش اور شودر۔ ان میں اول الذکر تین دوئج ہیں، یعنی مرنے کے بعد پھر جنم لیتے ہیں۔ لیکن شودر کا صرف ایک ہی جنم ہے۔ دوم ذاتوں میں برہمن کی ذات سب سے اعلیٰ ہے۔ کیوں کہ برہمانے اسے سر سے پیدا کیا ہے۔ برہمن بحثیت دیوتا کہ ہیں، گو وہ انسانی شکل میں ہیں۔ ان کے حقوق سب سے زیادہ ہیں، وہ علم و دھرم کا محافظ ہے۔ اس کے وسیلہ کے بغیر فلاح نہیں ہے۔
برہموں کے بعد کشتری ہے جس کو برہماکے بازو سے پیدا ہوئے ہیں شجاعت ان کا لازمی صفت ہے، اس لیے حکومت کرنے کا ان کو پیدائیشی حق حاصل ہے۔ اس کے بعد ویش کی ذات ہے، برہما نے ران سے پیدا کیا ہے اور تجارت و صنعت کے لیے انھیں منتخب کیا ہے۔ شودر کا درجہ سب سے آخر ہے۔ انھیں تینوں ذاتوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا، کیوں کہ انھیں برہمانے پیر سے پیدا کیا ہے۔
اس کے بعد پران کا درجہ ہے، جو تعداد میں اٹھارہ ہیں ان کے علاوہ دو اور پران ہیں، اس طرح یہ تعداد میں بیس ہو جاتے ہیں۔ ان کتابوں کے عنوانات یہ ہیں:
ہندو مت کے چھ اہم فرقے ہیں۔
یہ فرقہ وشنو کو رب اعلیٰ کائنات کا محافظ اور رزاق مانتا ہے۔ وشنوکو چار بازوؤں کے ساتھ مقدس جوہرات کوس تھ پہنے تخت پر بیٹھے دیکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک عقاب گروڈ پر سوار ہے، جس کو بھی انسانی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی بیوی لکشمی ہے، جو دولت کی دیوی ہے، جو مودبانہ اس کی خدمت میں رہتی ہے۔ لکشمی کی سواری مور ہے۔ وشنو کے ماننے والے لکشنی، گروڈ، مور اور ہنومان کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ وشنو سمندر کی گہرائی میں ہزار سر والے سانپ شیش پر سویا رہتا ہے۔ جب کوئی کائنات کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے تو بھر جاگتا ہے۔ چنانچہ کائنات کو بچانے اور برائیوں سے بچانے کے لیے مختلف مواقع پر اس نے نو بار جنم لیا ہے اور ایک بار جنم لینے والا ہے۔ جوحسب ذیل ہیں۔
یہ فرقہ مزید ذیلی فرقوں میں بٹا ہوا ہے، اس کی اہم کتابیں ہری ونش اور وشنو پران ہیں اور یہ بھگتی کو مکتی کو اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔
یہ فرقہ شیو کو رب اعلیٰ مانتا ہے اور اسے تخریب و تعمیر کا دیوتا سمجھتا ہے، اسے مہا یوگ اور مہادیو بھی کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غیر آریائی دیوتا ہے، جس کی پوجا وادی سندھ میں ہوتی تھی۔ اس کی بیوی پاروتی ہے، جو مختلف روپ کی وجہ سے درگا، کالی اور اُما پاروتی کے ناموں سے مشہور ہے۔ پاروتی سے شیو کے دو بیٹے پیدا ہوئے، ایک گنیش اور دوسرا کارتیکے جو جنگ کا دیوتا مانا جاتا ہے اور اس کا نام سکند بھی بتایا جاتا ہے۔
شیو کے پجاری شیو کے علاوہ پاروتی اور اس کے بیٹوں خاص کر گنیش جو ہاتھی کا سر رکھتا ہے، کے علاوہ نندی (شیو کی سواری کا بیل) کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندوؤں میں جو لنگ اور یونی پوجا ہوتی ہے، وہ بھی شیو اور کالی کے متعلق ہیں۔ اس فرقہ کی اہم کتاب وایو پران ہے۔ یہ علم کو نجات کا ذریعہ مانتا ہے۔ یہ فرقہ بھی بہت سے ذیلی فرقوں میں بٹا ہوا ہے۔
یہ فرقہ شکتی کی پوجا کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ شکتی مونث ہے اور وہ ایک عورت کی حثیت سے تشخیص کی جا سکتی ہے اور وہ نسوانی شکل رب اعلیٰ ہے اور وہ اسے درگا، کالی اور بھوانی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے شیو کی بیوی مانتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق شیو کی بیوی بنے سے کالی یادرگاہ کے قادر مطلق ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ شکتی مزکورہ کی مختلف شکلوں میں کالی بہت مشہور ہے۔ اس کو سیاہ رو ہاتھی جیسے دانت نکالے اور منہ کو خون سے سرخ کیے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا روپ بھوانی اب ٹھگوں کی دیوی ہے۔
اس کے دو بڑے فرقے ہیں، ’دکشن مارگی‘ یعنی دائیں بازو کے پوجنے والے اور ’واما مارگی‘ یعنی بائیں بازو کے پوجنے والے۔ یہ ایک خفیہ فرقہ ہے جو ان کے نزدیک پانچ ’م‘ نجات کا ذریعہ ہیں، یعنی مادیہ (شراب)، متسیا (مچھلی)، مانس (گوشت)، مدرا (اناج)، میتھن (جنسی اتحاد)۔ ان لوگوں میں ایک مذہبی رسم ہے جسے یہ چکر پوجا کہتے ہیں، اس پوجا میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے اختلاط کرنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس کی رومانی بیوی بن جاتی ہے۔ اس فرقہ کی اہم کتابیں تنتر ہے۔ یہ ہری ونش اور مارکنڈیہ پران کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔
یہ فرقہ گنیش کو رب اعلیٰ مانتا ہے اور اس کو فہم و تدبر کا دیوتا سمجھتا ہے۔ گنیش کو ہاتھی کے سر کے ساتھ دیکھایا جاتا ہے۔
یہ سورج کو دیوتا مانتا ہے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت اس کی پوجا کرتا ہے۔
یہ وسیع النظر فرقہ ہے اور ہر دیوتا پر اعتقاد رکھتا ہے اور اپنی خواہش اور ضرورت کے تحت اس کی پوجا کرتاہے۔
پرستش کے لیے ہندو تین دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ پہلا گرام دیوتا، یعنی بستی کا دیوتا، دوسرا کُل دیوی/دیوتا یعنی خاندان کا دیوتا، تیسرا اِشٹ دیوتا، یعنی محبوب دیوتا۔ اس طرح ایک ہندو کا گرام دیوتا گنیش، کُل دیوی لکشمی اور محبوب دیوتا نندی ہو سکتا ہے۔ گرام دیوتا مندروں میں خاندانی اور محبوب دیوتا گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان تین دیوتاؤں کے علاوہ ہر ہندو دوسرے بہت سے دیوتاؤں کو حسب مواقع پر پوجتا ہے۔ درگاہ پوجا کے موقع پر درگا کو، گنیش چترتھی کے موقع پر گنیش کو، کرشن کے جنم اشٹمی کے زمانے میں کرشن کی، دیوالی کے موقع پر لکشمی کو اور شیواتری میں شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔
ہند مت کے یہ اہم دیوتا ہیں، مگر ان کی فہرست بہت لمبی ہے اور ان کی تعداد پانچ کڑور بتائی جاتی ہے، اس لیے ان سب کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ تمام اہم اور غیر اہم بے شمار دیوتاؤں کے علاوہ بے شمار جانور مثلاً ہاتھی، سانپ، گھڑیال، شیر، مور، ہنس، طوطا، چوہا وغیرہ مختلف دیوتاؤں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ جانوروں میں سب سے اہم گائے ہے۔ ان کے علاوہ درختوں میں پیپل، انجیر، تلسی اور ببول اور دریاؤں میں گنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندووَں میں پہلے مورتیوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی ۔ اس کا رواج بہت میں بعد پڑا ہے ۔ سب سے پرانی شہادت وہ 200 ق م میں نگری کے کتبہ میں سن کرشن اور باسو دیو کی پوجا کے لیے مندر بنانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ بت پرستی کی سب سے پرانی اور مستند شہادت ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رواج اس وقت تک پڑ چکا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس میں بہت سے نئے اور پرانے فرقوں میں مورتی پوجا کا رواج ہو گیا ۔ کتبوں ، تانبے کی منقوش تختیوں اور قدیم کتب میں وشنو کی مورتیوں کی پوجا کا ذکر سب سے پہلے ملا ہے ۔
رام جو وشنو کا اہم اتار ہے اور اس کی پوجا کا ہندووَں میں اب بہت زیادہ رواج ہے ۔ مگر دسویں صدی عیسویں تک رام کے نہ مندر تھے نہ مورتیاں تھیں ۔ بہت بعد میں رام کی پوجا اور رام دسرہ کے تہوار منائے جانے لگے ۔ ان کی پوجا پر سب سے پہلے رامانج نے بارہویں صدی سیتا کی پرستش پر زور دیا اور ان کی مورتیوں کی پوجا کی جانے لگیں ۔
البتہ کرشن کی پوجا قدیم زمانے ہورہی تھی ۔ چوتھی ق م میں میگاس تھینیز نے متھرا کے شور سینی جادووَں کے متعلق لکھا کہ وہ ہیرکلوس (ہری کرشن یا باسیودیو) کی پوجا کرتے ہیں ۔ پاننی نے بھی اپنے سوتروں میں باسو دیو کے نام کا تذکرہ کیا ہے ۔ غالباً پاننی کے زمانے میں باسو دیو کی پوجا شروع چکی تھی ۔ اس لیے بھاگوت (ویشنو) فرقہ کی مورتی پوجا اس سے بھی قدیم ہوگی ۔ ویشنوئی پنچ گانہ مراسم کے پیرو تھے ۔ جس میں مندروں میں جانا ، پوجا کے لوازم جمع کرنا ، پوجا منتروں کا پڑھنا اور یوگ سے ایشور کا درشن ہونا مانتے تھے ۔ دکن میں بھگوت فرقے کا آغاز نویں صدی میں ہوا تھا ۔ وہاں کے راجے کرشن کے بھگت تھے ۔
وشنو کی مورتی بھی پانچویں صدی سے قبل کی کوئی مورتی نہیں ملی ہے ۔ اس نہیں کہا جا سکتا ہے اس کے دو ہاتھ تھے یا چار ہاتھ ۔ تاہم بدھ اور سورج کی جو مورتیاں ملیں ہیں وہ دو ہاتھوں والی ہیں ۔ البتہ کشان فرمانروا کڈفسس کے سکوں پر پہلی صدی میں شیو کی مورتی بنی ہوئی ہے ۔ دلجسپ بات یہ ہے جو آج ہندو دیوتاؤں کی مورتیوں میں دو سے زیادہ سے زیادہ ہاتھ دیکھائے جاتے ہیں پہلے اس کا رواج نہیں ۔ پہلے پہل بدھ کی مورتی میں چتر بھیج (چار ہاتھوں والی) بنائی گئی تھی ۔ بعد میں وشنو اور شیو کی مورتیاں کو بھی چتر بھیج بنانے لگے ۔ یہاں تک وشنو کی مورتیوں 41 اور 42 ہاتھوں والی بھی مورتیاں بھی بنائی جانے لگیں اور ان ہاتھوں میں مختلف طرح کے اسلحے تھما دیے گئے ۔ وشنو کی تین منہ والی موتیاں بھی ملی ہیں ۔ ان میں مکھٹ (تاج) کے ساتھ تین چہرے بنائے گئے ہیں یا بیچ میں وشنو کا تاجدار سر ہے اور دونوں طرد براہ اور نرسنگھ کی موتیاں بنی ہوئی ہیں ۔ غالباً یہ مورتیاں بھی شیو کی تثلیث کی نقل ہیں ۔
شیو فرقے کے لوگ شیو کی مختلف شکلوں میں مورتیاں بناتے اور پوجنے لگے ۔ عموماً یہ ایک چھوتے گول ستوں کی صورت کی ہوتی تھیں یا اوپر کے حصہ گول کر کے چاروں طرف چار منہ بنا دیے جاتے تھے ۔ اوپر کے گول حصے برہمانڈ (کائناتٌ) اور چاروں منہ میں پورپ والے سورج ، پچھم والے سے وشنو ، اتر والے سے برہما اور دکھن والے سے رودر مراد ہوتے تھے ۔ کچھ مورتیں ایسی ملی ہیں جن کے چاروں طرف منہ ہیں ۔ ان چاروں دیوتاؤں کی مورتیاں ہی بنی ہیں ۔ ان چاروں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بنانے کا منشا یہ تھا کہ کونین کا خالق شیو ہے اور چاروں طرف دیوتا اس کی صفات کی مختلف صورتین ہیں ۔ شیو کی عظیم الجثہ تری مورتی (تثلیث) کہیں کہیں پائی گئی ہیں ۔ اس کے چھ ہاتھ تین منہ بڑی بڑی چٹاؤں سے مزیں تین سر ہوتے ہیں ۔ ایک منہ روتا ہوا جو شیو کو رودر کہلانے کی دیلیل ہے ۔ اس کے وسط کے دو ہاتھوں میں ایک میں بجورا اور دوسرے میں مالا ہے ۔ داہنی طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں سانپ اور دوسرے میں پیالہ ۔ بائیں طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں پتلی چھڑی اور دوسرے میں ڈھال یا آئینہ کی شکل کی کوئی گول چیز ہوتی ہے ۔ تثلیث مورتی جپوترے کے اوپر اس میں صرف جسم کا بالائی دیوار سے ملا ہوتا ہے ۔ اس کے سامنے زمین پر اکثر شیو لنگ ہوتا ہے ۔ ایسی تری مورتیان بمبئی سے چھ میل دور ایلنٹٹا ، چتور کے قلعے ، سررہی راج وغیرہ کئی مقامات پر دیکھنے میں آئی ہیں ۔ جن میں سب سے پرانی ایلفنٹا والی ۔ شیو کی رقص کرتی موریتان دھات یا پتھر کی کئی سے جگہ ملی ہیں ۔
اس طرح لکولیش یا نکولیش فرقہ کی مورتیاں راجپوتانہ ، گجرات ، کاٹھیاوار ، دکھن ، بنگال اور اڑیسہ ملی ہیں ۔ ام مورتیوں میں شیوں کے سر پر اکثر لمبے بال ہوتے تھے ۔ دو پاتھ ہوتے تھے جس میں دائین ہاتھ میں ہیجورا اور بائیں ہاتھ میں ڈنڈا یعنی لکولیش ہوتا تھا ۔ اس کی نشست پدماسن ہوتی تھی ۔
برہما کی یگیوں (قربانی) کا بانی اور وشنو کا اوتار مانا جاتا ہے ۔ برہما کی جو مورتی دیوار سے ملی ہوتی تھی اس کے تین منہ ہوتے اور جس مورتی کے چاروں طرف طواف کیا تھا اس کے چار منہ دیکھائے جاتے ہیں ۔ ایسی چومکھی مورتیاں بہت کم ہیں ۔ برہما کے ایک ہاتھ میں سرود ہوتا ہے جو یگیہ کرانے کی علامت ہے ۔ شیو اور پارپتی ک مشترک مورتیوں میں جو کئی جگہ ملی ہیں ان میں برہما پروہت بنایا گیا ہے ۔ مورتیوں کے تخیل میں برہما ، وشنو اور شیو تینوں ایک پرماتما کی مختلف صورتیں مانی گئی ہیں ۔ برہما کی کئی مورتیں ایسی ملی ہیں جن کے کنارے پر وشنو اور دوسرے پر شیو کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں ہیں ۔ اس طرح وشنو کی مورتیوں پر شیو اور برہما کی مورتیں اور شیو کی مورتیون پر وشنو اور برہما کی مورتیاں ہوتی ہیں ۔ بعد میں ان تینوں دیوتاؤں کی الگ الگ مورتیاں بنبے لگیں ۔ شیو اور پاربتیوں کی بعض مورتیوں میں آدھا جسم شیو کا اور آدھا پاربتی کا ۔ ایسی تینوں کی مجموعی مورتی بھی ملتی ہیں ۔ شیو اور وشنو کی مشترک مورتی کی ہر ہر اور تینوں کی مشترک مورتی کو ہری پتامہ کہتے ہیں ۔
ابتدا میں پرتما کے دیوتاؤں کی الگ الگ پوجا نہیں ہوتی تھی ۔ الگ الگ پوجا بعد کی پیداوار ہیں ۔ بلکہ ایشور کی مختلف شکتیوں اور دیوتاؤں کی بیویوں کی بھی مورتیاں بنادی گئیں اور ان کی بھی پوجا ہونے لگی ۔ قدیم ادبیات میں ایسی کتنی دیویوں کے نام ملتے ہیں ۔ ان میں براہمی ، ماہیشوری ، کوماری ، ویشنوی ، باراہی ، نارسنگھی اور ایندری کی ان سات شکتیوں کو ماترکا کہتے ہیں ۔ کچھ خوفناک اور غضبناک شکتیاں بھی ایجاد کی گئیں ۔ ان میں کالی ، کرالی ، کاپانی ، چامنڈٓ اور چنڈی ، بھوانی زیادہ مشہور ہیں اور ان کا تعلق کاپالکوں اور کالامکھوں سے ہے ۔ کچھ ایسی شکتیوں کی بھی ایجاد ہوئیں جو نفس پروری کی طرف لے جانے والی ہیں ۔ ان دیویوں میں انند بھیروی ، تری پور سندری اور للتا وغیرہ زیادہ مشہور ہیں ۔ ان کے ماننے والوں کے خیال میں شیو اور تری پور سندری کے اختلات سے دنیا وجود میں آئی ہے ۔ ان کے مطابق ناگری رسم الخط کے پہلے حرووف سے شیو اور آخری حروف سے تری پور سندری مراد ہیں ۔ اس طرح دو حروفوں مل کر اختلات کا اشارہ کرتے ہیں ۔
گنیش اور اس کی ماں امیکا کی پوجا کا تذکرہ ملتا ہے مگر چوتھی صدی سے پہلے کی گنیش کی کوئی مورتی ملی ہے اور نہ کوئی کتبہ ملا ہے ۔ ایلورا کے غاروں میں دوسرء دیوتاؤں کے ساتھ گنیش کی مورتیاں ملیں وہ بعد کی ہیں ۔ نویں صدی کے گھٹیالا کے ستون میں گنیش کی چار مورتیاں ملی ہیں ۔ گنیش کے منہ پر سونڈ کب لگائی گئی اس بارے معلومات نہیں ہیں ۔ مگر ایلورا اور گھتیالے کی کی موتیوں پر سونڈ بنی ملی ہے ۔ مالتی مادھو ناٹک میں گنیش کی سونڈ کا ذکر ہے ۔
اسکند یا کارتکیہ کی پوجا بھی قدیم زمانے سے پوجا جاری ہے ۔ رامائن میں اسے کنگا کا پیٹا کہا گیا ہے اور بعد میں یہ شیو اور پاربتی کا بیٹا مشہور ہو گیا ۔ یہ دیوتاؤں کی فوج کا سپہ سالار ہے ۔ پتنجای نے مہابھاشیہ میں شو اور اسکندر کی مورتیوں کا زکر کیا ہے ۔ کنشک کے سکوں پر اسکند ، مہاسین آدی کمار کے نام ملتے ۔ ہیمادری کے ورت کھنڈ میں اسکند کی پوجا کا حال ملتا ہے اور یہ پوجا آج بھی جاری ہے ۔
برصغیر میں سورج کی پوجا کا رواج بھی رہا ہے ۔ سورج کو ایشور کا روپ مانا جاتا تھا اور اس کا درجہ بہت اونچا ہے ۔ سورج کی مورتی دو ہاتھوں والی اور دونوں ہاتھوں میں کنول ، سر پر تاج ، سینہ پر زرہ اور پیروں میں گھٹنے سے کچھ نیچے لمبے بوٹ ہوتے ہیں ۔ ہندووَں کی پوجنے والی مورتیوں میں صرف سورج کی مورتی کے بوٹ ہوتے ہیں ۔ شاید یہ ایران سے آئی ہو ، جہاں بوٹوں کا رواج تھا اور اس کے پجاری مگ ایرانی ہوتے ہیں ۔ پھوشیہ پران میں لکھا ہے کہ سورج کے پیر کھلے نہیں ہونے چاہیے ۔ اس پران میں ہے کہ راجا سانب جو کرشن اور جامونتی کا بیٹا تھا سورج کی وجہ سے بیماری سے شفا پائی ۔ اس نے سورج کا مندر بنانا چاہا مگر برہمنوں نے نہیں مانا ۔ اس نے ایران سے مگ قوم کے برہمنوں بلوایا ۔ یہ لوگ اپنی پیدائش برہمن کنیا اور سورج سے مانتے تھے اور سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ سورج پوجا برصغیر مین کب سے راءج ہے یہ کہنا مشکل ہے ۔ براہ مہر نے لکھا ہے سورج کی مورتیوں کی پوجا مگ قوم کے لوگوں نے راءج کی ہے ۔ البیرونی لکھتا ہے ہندوستان کے تمام سورج مندروں کے پجاری ایرانی مگ ہوتے ہیں ۔ راجپوتانہ میں سورج کے ہزاروں مندر بنے ہوئے ہیں اور ان کے پجاریوں کو سیوک اور بھوجک کہتے ہیں ۔ شیو مندر میں بیل ، وشنو مندر میں گروڑ ان کی سواری ہوتے ہیں ۔ اس طرح سورج مندر میں سرکے سامنے چوکور کھمبے کے اوپر ایک کنول کی شکل کا پیہہ ہوتا ہے ، یہی سورج کی سواری ۔ سورج کے رتھ کو ساتھ گھوڑے گھنچتے ہیں ۔ اسے سپتاشو (سات گھوڑون کا سوار) کہتے ہیں اور کئی مندرون میں سورج کے نیچے سات گھوڑے بھی بنے ہوتے ہیں ۔ ایک مندر میں نیچے سورج بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اوپر برہما ، وشنو اور شیو بنے ہوئے ہیں ۔ سورج کا سب سے پرانا مندر منڈسور میں پانچویں صدی کا بنا ہوا ہے ۔ ملتان کا سورج کا مندر مشہور ہے ۔ اسے مہر کلا نے بنوایا تھا ۔ ہن سورج کی پوجا کرتے ۔ ہرش کے بزرگ بھی سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ سورج کے بیٹے ریونٹ کی بھی گھوڑے پر بیٹھی موتیاں ملتی ہیں اور وہ گھوڑوں کا دیوتا ماتا جاتا اور اس کے پیروں میں بھی لمبے لمبے بوٹ ہوتے ہیں ۔
آٹھ دگپالیں اندر ، اگنی ، یم نیرت ، برن ، مرت ، کبیر اور ایش (شیو) کی بھی مورتیں ملتی ہیں ۔ یہ آٹھ سمتوں کے نام ہیں ۔ یہ مندروں میں پوجی جاتی ہیں اور اکثر مندر میں اپنی ترتیب سے لگی ہوئیں ہیں ان سمتوں کی پوجا قدیم ہے ۔ پتنجلی نے اپنے مہابھاشہ میں دھن پتی (کبیر) کے مندر میں مردنگ ، سنکھ اور بانسری بجانے کا زکر کیا ہے ۔
اس کے دیوتاؤں کے بعد گرہ ، نچھتر ، صبح ، دوپہر ، شام ، ہتھیارو ، کلی ، یوگوں کی ، راگوں کی بھی موتیاں بنائی گئیں ہیں ۔ آخر میں ہندووَں کے پانچ پوجنے والے دیوتا سورج ، وشنو ، دیبی ، رودر اور شیور رہ گئے اور ان کی مشترک مورتیاں پنچاءتن کہلاتی ہیں ۔ ایسے پنچاتین مندروں میں بھی ملتے ہیں اور گھروں میں بھی ان کی پوجا ہوتی ہے ۔ جس دیوتا کا مندر ہوتا ہے اس کی مورتی وسط میں اور باقی چاروں کی مورتیاں کونوں پر بنی ہوتی ہیں ۔
ہندو مت کا پہلا عقیدہ مخلوق پرستی ہے جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ اس کے علاہ کرم و تناسخ کا عقیدہ ہے جنہیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ کرم کے عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا بڑا، اچھا برُا انسانی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اپنے عمل (کرم) کے لحاظ سے سزا اور جزا کا عمل مستحق ہوتا ہے۔ یعنی کرم کے مطابق اچھا یا برُا جنم لیتا ہے۔
ان کا دوسرا عقیدہ تناسخ (آوا گون) کے متعلق ہے، جو ویدی عہد میں کچھ مبہم تھا۔ پھر بھگود گیتا میں کرشن نے متعدد جنم کی تعلیم نے اس کے لیے مواد فراہم کیا کہ یہاں تک ہندو عہد میں پوری طرح مستحکم ہو گیا۔ اس عقیدے کے مطابق انسان کو صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے، چنانچہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ یم یعنی موت کے دیوتا کے سامنے پیش ہوتا ہے، جو اسے جانچتا ہے اور روح کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔ جب یہ میعاد ختم ہوجاتی ہے، تو اسے دوبارہ جنم لینے کے لیے بھیج دیتا ہے اور یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اچھے اور معقول اعمال کا ذخیرہ کرلیتا ہے، تو اس کی مکتی نہیں ہوجاتی ہے۔ مگر مکتی (نجات) کیا ہے، معلوم نہیں ہے۔
ہندو رسوم میں یجن یا یگیہ یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ آریاؤں کی رسم تھی، جو ہندو عہد تک جاری رہی۔ مختلف راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی۔ جانوروں کی قربانی کو اہمیت حاصل ہے، آج بھی کالی کو سیکڑوں بھنسوں چڑھائے جاتے ہیں۔ ہون ہردیگیہ کا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ستی بھی مذہبی رسم تھی، ہندو عہد میں رائج رہی۔ اس کے علاوہ روزانہ غسل کرنا، صبح شام سورج کی پوجا کرنا، مقدس مقامات کی زیارت کرنا اور دیوتاؤں کے سامنے ناچنا گانا اہم مذہبی رسوم ہیں۔
قدیم زمانے میں شادی و بیاہ اور کھانے پینے کے متعلق ہر قوم میں کچھ نہ کچھ بندشیں تھیں اور اب بھی ہ میں مختلف بندشیں ملتی ہیں جنہیں رواج کا نام دیا جاتا ہے ۔ ان ان کی بعض دعوتوں کے کھانے میں اجنبیوں کو بالکل نہیں اور مخصوص لوگوں کو شریک نہیں کیا جاتا ہے ۔ بعض جگہ دعوت کے موقع پر غیروں کو ذات یا رشتہ کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ ہر برادری و قبیلہ اگرچہ مختلف طریقہ کار رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ طریقہ کار ایک زمانے میں پوری دنیا میں جاری تھا ۔
ویدوں میں ذات کے لیے ورن کا کلمہ استعمال آیا ہے ۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ رنگ ہی ذات کی بنیاد بنا ۔ مگر ویدی زمانے میں ذاتوں کا بندھن بہت ڈھیلا ڈھالا تھا اور کوئی پیشہ کسی ذات کے لیے مخصوص نہیں تھا ۔ ہر شخص آزاد تھا کہ وہ کسی بھی پیشہ کو اختیار کرسکتا تھا ۔ ویدوں میں ایسے بہت سے اشلوک ایسے ملتے ہیں جن میں بڑھی اور کمھار جیسے پیشوں کو جو بعد میں حقیر اور ان کی ذات کو پست بتایا گیا ہے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا ہے ۔ ساتویں صدی قبل مسیح تک کچھ ایسا ہی دستور ہندوستان میں بھی راءج تھیں ۔ برصغیر کی آبادی میں بڑے نسلی گروہ آریا ، دراوڑی اور کولاری شامل تھے ۔ اس لیے ان کا آپس میں اختلاف رکھنا قدرتی امر تھا ۔
ویدی دور میں ذاتوں ماخذ ملتے ہیں صرف برہمنی ہیں ۔ جس کے مطابق آریا بار بار اپنی گوری رنگت پر نازاں تھے اور چار طبقات یعنی کشتری جو امرا تھے اور اپنی شرافت کا نسب کا جو سات پشتوں تک شمار ہوتا تھا خیال رکھتے تھے ۔ یہ رنگ کے گورے ، چہرے مہرے پاکیزہ ، دیکھنے میں وجیہ اور شاندار ۔ اس کے بعد برہمن تھے جو بھینٹ چڑھانے والے پرہتوں کی نسل سے تھے ۔ یہ بھی کشتریوں کی طرح شرافت و نسب اور گورے چٹے ہونے کی وجہ سے عوام میں ممتاز تھے ۔ تیسرے اہل زراعت کا ویش طبقہ تھا اور سب سے نچلا طبقہ شوردوں کا تھا ۔ جن میں بڑا حصہ غیر آریا نسل کا تھا جو مزدوری ، دستکاری اور ملازمت کرتا تھا اور ان کا رنگ سانولا تھا ۔ لیکن ان چاروں طبقات میں بھی اندونی مراتب تھے ۔ جو قدر مبہم اور قدر تغیر پیزیر اور غیر متعین تھے ۔
آبادی کی یہ تقسیم مکمل نہ تھی اور شودروں سے بھی زیادہ پست ، نیچ اور ذلیل ذاتیں (ہنا جاتیو اور ہتا سپتانی) تھیں ۔ جن میں چڑی مار ، گھسیارے ، رتھ ساز کمھار ، جلاہے اور چمڑہ ساز شامل تھے ۔ بدھ اور جینوں کی کتابوں میں ان قوموں کو چنڈال اور پکس اقوام بتایا گیا ہے جو نہایت حقیر اور پست سمجھے جاتے تھے ۔ ہ میں غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو نہایت قلیل تھے جو مختلف وجوہ کی بنا پر غلام بنائے جاتے تھے اور ان کی اولاد بھی غلام ہوتی تھی ۔ مگر ان پر یونانیوں ، رومیوں یا عیسائیوں کی طرح ظلم و ستم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا ۔ یہ عموماً گھروں میں کام کرتے تھے ۔
پہلے تین طبقات جو اعلیٰ طبقہ تھے اور یہ اپنا مقام بدل کر دوسرے طبقہ میں شامل ہو سکتے تھے ۔ ایسی بہت سی مثالیں جو کسی نہ کسی وجہ سے محفوظ رہ گئیں ہیں ۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ رنگوں اور طبقوں کے درمیاں کوئی حد فاضل نہیں تھی ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ قدیم قبائل مثلاً دراوڑی ، کولاری اور دوسری قوموں کے امرا اور دوسرے لوگ بھی کسی نہ کسی وجہ سے یا سیاسی اہمت حاصل کرکے ان ذاتوں میں شامل ہو گئے تھے ۔ ان ذاتوں کے بارے میں ہمارے پاس اس کا سب سے بہتر ماخذ بدھ جاتکا (بدھوں کے قصے) ہیں ۔ جس میں بدھوں سے پہلے کی ذاتوں اور پیشوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں ۔
ان جاتکاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کے لوگوں کو پوری آزادی تھی کہ وہ چاہے ذلیل پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار کر لیں اور ان کے نسب پر کوئی حروف نہیں آتا تھا ۔ چنانچہ ایک بدھ جاتکا میں ہے کہ ایک کشتری عاشق اپنی معشوقہ کے لیے پہلے کمھار ، پھر ٹوکری ساز ، پھر دھوبی اور اس کے بعد مالی اور باوچی کا پیشہ اختیار کرتا ہے ۔ ایک اور جاتکہ میں ایک امیر شخص پہلے درزی ، پھر کمھار کا کام کرتا ہے ، لیکن اس سے ان کے نسب کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔
ان جاتکاؤں سے ہی ہ میں معلوم ہوتا ہے کہ برہمن زراعت ، گوالے اور گڈریے کی خدمات اجرت پر انجام دیتے تھے ۔ اس طرح آپس میں شادی بیاہ کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ پست ذاتوں کے ساتھ کھانے یا نہ کھانے بارے میں بھی مثالیں ملتی ہیں ۔ مثلاً ایک برہمن نے کشتری کے ساتھ کھانا کھایا اور ایک دوسری جاٹکا میں ایک چنڈال کے ساتھ ہم پیالہ ہوتا ہے اور بعد میں افسوس کرتا ہے ۔ پسے ندی کے خاندان ساکیہ کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کے قصہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کشتری اپنی بیٹی جو لونڈی سے پیدا ہو کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ اس طرح ہ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ذاتوں کی خلاف ورزی پر سزا بھی دی جاتی تھی ۔ ایک جاٹکا میں ایک برہمن کو اس کے برہمن بھائیوں نے اس بات پر برہمنوں کی حثیت سے محروم کر دیا کہ اس نے پانی کے ساتھ اس پیچ کو جسے استعمال کیا تھا پی لیا تھا اور اسے مار بیٹ کر شہر سے نکال دیا تھا ۔
ایک جاتکہ میں ایک برہمن نے ایک کشتری کی متعلقہ سے شادی کرلی ۔ مگر اس کی شادی پر اعتراض نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس برہمن کی بدصورتی کا مزاق اڑاتا ہے اور لگتا یہ کہ یہ ایک عام بات ہے ۔ بدھ جاتکاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذات کی عورتوں اور مردوں کے درمیان شادی ہوا کرتی تھیں ۔ ان میں اعلیٰ ذات کی عورتیں ادنی درجہ کے مردوں سے بھی شادیاں کرلیتی تھیں ۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ ذاتوں کی بندش پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا تھا جو بعد میں راءج ہو گئی تھی ۔ اگرچہ بڑی تعداد میں ان شادیوں کا واقع ہونا مشتبہ ہے ۔ لیکن مغرور کشتری ذلیل چنڈال کے درمیان کو خلیج واضح نہ تھی ۔ اس طرح شمالی ہند میں آریا ، کولاری اور دراڑی اقوام کے درمیان بدھ مت کے ظہور تک کوئی امتیازت یا تفریق کے واضح شواہد نہیں ملے ہیں ۔ یعنی ذاتوں کی تفریق سے پہلے ان کے درمیان میل جو و اختلاط قائم تھا اور یہ اختلافات اور اجتناب و پرہیز بعد کے دور میں وجود میں آئے ہیں ۔
شادیاں و کھانے کے متعلق جو بندشیں اس وقت شمالی ہند میں راءج تھیں وہ اس وقت دنیا کی ہر مہذب اقوام میں موجود تھی ۔ اگرچہ یہیں بندشیں بعد میں ہندوستان کی ذات پات کے نظام کی بنیاد بنیں ۔ لیکن یہ کہنا کہ بدھ نے ذات پات کے امتیاز کو ختم کیا درست نہیں ہے ۔ حقیقت میں صحیح معنوں میں ذاتوں کی تفریق بدھ مت کے زوال اور مسلمانوں کی آمد کے بعد میں نہیں آئی تھی اور بدھ مذہب نے اس ضمن میں کوئی عظیم انقلاب برپا نہیں کیا تھا ۔ بدھ مذہب کے دور تک ذاتوں کی بندشیں وہیں تھیں جو بدھ مت سے پہلے تھیں ۔
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان ہندو مذہب کو تیزی سے ترقی ہوئی اور پھیلنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یہ پورے برصغیر کا مذہب بن گیا ۔ وسط ایشیا سے آئے ہوئے قبائل نے برہمنی مذہب قبول کر لیا ۔ ان غیر ملکی قبائل نے ہندو مذب قبول کرنے کے ساتھ برہمنوں کی برتری کو بھی تسلیم کر لیا ۔ اس کے صلے میں انھیں گوتریں دیں اور ان کا شجرہ نسب دیومالائی شخصیتوں سے جوڑ دیا اور یہ راجپوت کہلائے ۔ اس طرح برہمنوں کو ایک بڑے طاقت ور طبقہ کی حمایت حاصل ہو گئی ۔ اس کے ساتھ ہی برہمنوں نے حقیقی فتح حاصل کرنے کے لیے عوام کی طرف توجہ دی ۔ انھوں نے عوام کے دیوتاؤں کو قبول کرتے ہوئے ویدی کو ایک طرف کرکے عوام کے دیوتاؤں کی پوجا شروع کی ۔ پرانے قصوں میں نئے سرے سے لکھ کر انھیں مقامی روایتوں کے مطابق ڈھالیا گیا ۔ اس طرح انھوں نے اپنے آپ کو اب نئے دیوتاؤں کو دیوتاؤں کو پوجنے کی وجہ سے عوام میں ان کا تقدس اور برتری کو قائم ہقبول کر لیا ۔ یہی وجہ ہے ان نئے دیوتاؤں کا پرچار کمارل بھٹ اور شنکر اچاریہ (700 تا 839ء) نے کیا تو انھیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور مقامی لوگوں نے بدھ مت اور جین مت ترک کرکے برہمنی مذہب قبول کر لیا ۔
برہمنوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ دیوتا بھی ان کو ماتے ہیں اور ان کے سامنے ایسی روایتیں پیش کیں کہ برہمنوں کے شراب کے آگے دیوتا مجبور اور بے بس ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح اپنے تقدس کو بڑھا کر قانون ، معاشرتی اداروں میں ان کا حکم ، ذات پات کے اصول کو تسلیم کر لیا گیا اور ۔ درس و تدیس اور ادب پر اپنا حق مقدم رکھا ۔ ذاتوں کی سختی سے انھوں نے حدودیں قائم کیں ۔ جس میں بیٹی اور روٹی کے اصول قائم کیا کہ کوئی ذات کو کس ذات سے رشتہ اور روٹی کھانا کا تعلق رکھ سکتی ہے ۔ اس طرح ذاتوں کے درجات کے وہ اصول متعارف کرائے گئے ۔ جس سے معاشرے میں انچ نیچ قائم ہو گئی اور چھوت چھات قئم ہو گئی ۔ ان اصولوں کو اتنی سختی سے نافذ کیا کہ معاشرہ بری طرح ذاتوں کے شکنجہ میں جکڑگیا ۔ جو ان اصولوں کو نہیں مانتا ہے وہ ذات اور برادری سے باہر کر دیا جاتا تھا ۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.