From Wikipedia, the free encyclopedia
نادر شاہ افشار (فارسی:نادر شاہ افشار، نادر قلی بیگ اور طہماسپ علی خان بھی کہا جاتا ہے) (ولادت:22 اکتوبر 1688ء، وفات:19 جون 1747ء) 1736ء سے 1747ء تک ایران کا بادشاہ رہا اور خاندان افشار کی حکومت کا بانی تھا۔ اپنی عسکری صلاحیتوں کے باعث مورخین اسے ایشیا کا نپولین اور سکندر ثانی کہتے ہیں۔
شاہ شاہان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
نادر شاہ | |||||||
(فارسی میں: نادرشاه) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 22 اکتوبر 1688ء [1][2] | ||||||
وفات | 19 جون 1747ء (59 سال)[3] قوچان | ||||||
مدفن | مقبرہ نادر شاہ | ||||||
شہریت | سلطنت صفویہ افشاری ایران | ||||||
زوجہ | راضیہ بیگم صفوی | ||||||
اولاد | رضا قلی میرزا افشار ، مرتضیٰ میرزا افشار | ||||||
بہن/بھائی | ابراہیم خان | ||||||
خاندان | خاندان افشار | ||||||
مناصب | |||||||
شاہ | |||||||
برسر عہدہ 8 مارچ 1736 – 19 جون 1747 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، سیاست دان ، گورنر | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | سلطنت صفویہ | ||||||
عہدہ | جرنیل | ||||||
دستخط | |||||||
درستی - ترمیم |
نادر قلی خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔
افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیے لیکن اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میں رکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کر دیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔ نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خود مختار ہو چکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہو گیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔ باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر سے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کیے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کر دیا۔
ان فتوحات نے نادر کی شہرت کو چار چاند لگادیے۔ ایرانی اس کو ایران کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے تخت ایران پیش کر دیا لیکن نادر نے ایرانیوں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے وہ بادشاہت قبول نہیں کر سکتا۔ ۔[4] ایرانیوں نے اس کا یہ مطالبہ منظور کر لیا اور نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان میں صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہو گئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔
اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کر لیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کر لیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہو چکا تھا اس لیے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت کی بد انتظامی اور اندرونی خلفشار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نادر تو کابل سے 600 میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا لیکن محمد شاہ المعروف محمد شاہ رنگیلا اپنی پوری فوج 70 میل دور کرنال تک میں جمع نہ کرسکا اور توپ خانے کے پہنچنے سے پہلے ہی لڑائی شروع ہو گئی۔ نتیجہ ظاہر تھا، نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پزیر رہا۔
اس دوران میں دہلی کے اوباشوں نے شہر میں گھومنے پھرنے والے ایرانی فوجیوں پر حملے شروع کردیے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر دیا۔ نادر کے روکنے کے باوجود حملے بند نہیں ہوئے تو اس نے قتل عام کا حکم دے دیا جس میں تقریباً 20 ہزار افراد مارے گئے۔ نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارا اور خیوہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔
اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان میں نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہو گیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔ ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہو گئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ آخر کار 1747ء میں اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کر دیا۔
نادر کو بجا طور پر ایشیا کا آخری فاتح کہا جا سکتا ہے۔ ایک ماہر سپہ سالار کی حیثيت سے اس کی جنگی صلاحیت بے مثال تھی اور اس میدان میں اسلامی دنیا میں اس کے بعد ابراہیم پاشا مصری اور مصطفیٰ کمال کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کا مد مقابل پیدا نہیں ہوا۔ اپنی جنگی صلاحیت اور فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے اس کو بجا طور پر ایشیا کا نپولین کہا جا سکتا ہے۔
نادر شاہ نے شیعہ سنی اتحاد کے لیے قابل تعریف کوششیں کی۔ اس نے ایرانی شیعوں کو تبرا سے روک کر فقہ جعفریہ کو اہل سنت و الجماعت کے پانچویں مذہب کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی کوشش کی لیکن عثمانی ترکوں کے سخت موقف کی وجہ سے اس کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
نادر شاہ جس میں فوجی صلاحیت غیر معمولی تھی انتظامی صلاحیت اس پائے کی نہیں تھی۔ دہلی کے قتل عام کا تو اس پر زیادہ الزام نہيں آتا لیکن آخر میں وہ بہت ظالم ہو گیا تھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ اگر نادر شاہ بخارا اور خیوہ کی فتح کے بعد مرجاتا تو ایران کا انتہائی نیک نام حکمران ہوتا۔ نادر شاہ کے بعد ایران ایک بار پھر انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا۔ نادر کے بعد اس کا بھتیجا علی قلی، عادل شاہ کے نام سے خراسان میں تخت نشین ہوا لیکن ایک سال حکومت کرپایا تھا کہ نادر کے اندھے لڑکے رضا قلی کا بیٹا شاہ رخ 15 سال کی عمر میں 1748ء میں مشہد میں تخت نشین ہو گیا لیکن ایک شیعہ سردار نے اس کو معزول کرکے اندھا کر دیا۔ نادر کے ایک افغان سردار احمد شاہ ابدالی نے افغانستان میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی اور شاہ رخ کو 1749ء میں دوبارہ تخت دلادیا اور اس کو اپنی حمایت میں لے لیا۔ افشار خاندان کی یہ حکومت افغانوں کی زیر سرپرستی 1796ء تک قائم رہی۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی مجموعۂ کلام بال جبریل میں نادر شاہ کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔ اس نظم کا عنون نادر شاہ افغان ہے
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.