مکہ
سعودی عرب کا ایک شہر اور ضلع مکہ کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
سعودی عرب کا ایک شہر اور ضلع مکہ کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
مکہ (عربی: مكَّة المُكرَّمَة انگریزی: Makkah / Mecca)، باضابطہ طور پر مکہ المکرمہ [a] عام طور پر صرف مکہ [b] کہا جاتا ہے، مغربی سعودی عرب کے تاریخی علاقہ حجاز میں المکہ علاقہ کا دار الحکومت ہے, اور یہ اسلام کے مقدس ترین مقام ہے۔ [4] یہ بحیرہ احمر پر واقع جدہ سے 70 کلومیٹر (43 میل) کے فاصلے پر ہے، یہ ایک تنگ وادی میں جو سطح سمندر سے 277 میٹر (909 فٹ) بلند ہے۔ 2022ء میں اس کی میٹروپولیٹن آبادی 2.4 ملین تھی، جو اسے ملکی دار الحکومت ریاض اور جدہ کے بعد سعودی عرب کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتا ہے۔ آبادی کا تقریباً 44.5% سعودی شہری اور تقریباً 55.5% مسلمان غیر ملکی دوسرے ممالک سے ہیں۔ [5] اسلامی تقویم کے مہینے ذوالحجہ میں ہر سال حج کے دوران حجاج کی تعداد مقامی آبادی سے اندازا تین گنا سے زیادہ ہوتی ہے۔ [6] 2023ء میں 10.8 ملین بین الاقوامی زائرین کے ساتھ، مکہ دنیا کے دس سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شہروں میں سے ایک تھا۔ [7]
مکہ مكة
| |
---|---|
سعودی عرب کے شہر | |
مکہ المکرمہ (مكة المكرمة) | |
محافظہ مکہ (سبز) المکہ علاقہ علاقہ میں | |
محافظہ مکہ (سبز) المکہ علاقہ علاقہ میں | |
متناسقات: 21°25′21″N 39°49′24″E | |
ملک | سعودی عرب |
علاقہ | المکہ علاقہ |
محافظہ | محافظہ مقدس دار الحکومت |
قیام | ت اٹھارہویں صدی ق م (اسلامی روایت کے مطابق) |
قائم از | ابراہیم (اسلام) اور اسماعیل (اسلام) (روایتی طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا ہے۔)[1] |
حکومت | |
• میئر | صالح الترکی |
• صوبائی گورنر | خالد بن فیصل آل سعود |
رقبہ | |
• سعودی عرب کے شہر | 1,200 کلومیٹر2 (500 میل مربع) |
• زمینی | 760 کلومیٹر2 (290 میل مربع) |
بلندی | 277 میل (909 فٹ) |
آبادی (2022 مردم شماری)[2] | |
• سعودی عرب کے شہر | 2,385,509 |
• درجہ | سعودی عرب میں تیسرا |
• کثافت | 2,000/کلومیٹر2 (5,100/میل مربع) |
• میٹرو | 2,427,924 (مخافظہ مکہ) |
نام آبادی | Makki (مكي) |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+03:00 (UTC+3) |
ٹیلی فون کوڈ | +966-12 |
ویب سائٹ | hmm |
مکہ کو عام طور پر "اسلام کا سر چشمہ اور گہوارہ" سمجھا جاتا ہے۔ [8][9] مکہ کو اسلام میں آخری پیغمبر محمد بن عبد اللہ کی جائے پیدائش کے طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ جبل نور پر واقع غار حرا، جو شہر سے بالکل باہر ہے، جہاں مسلمانوں کا ماننا ہے کہ قرآن کی سب سے پہلی وحی محمد پر اسی مقام پعنازل ہوئی تھی۔ [10] حج کے لیے مکہ جانا تمام صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ مکہ کی عظیم مسجد، جسے مسجد الحرام کے نام سے جانا جاتا ہے، خانہ کعبہ کا گھر ہے، جسے مسلمانوں کے مطابق ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل نے تعمیر کیا تھا۔ یہ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے، اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لیے نماز کی سمت (قبلہ) ہے۔ [11]
علاقے کے اندر اور اس کے آس پاس کے مسلم حکمرانوں نے طویل عرصے سے شہر پر قبضہ کرنے اور اسے اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کی، اور اس طرح، حجاز کے بیشتر علاقے کی طرح، اس شہر نے کئی حکومتی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ اس شہر کو حال ہی میں 1925ء میں عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود اور اس کے اتحادیوں کے ذریعہ حجاز کی سعودی فتح میں فتح کیا گیا تھا۔
مکہ (مکہ المکرمہ) اسلام میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس شہر ہے۔ یہ پیغمبر اسلام حضرت محمد کی جائے پیدائش ہے اور کعبہ، جو اسلام میں سب سے مقدس مقام ہے، یہیں واقع ہے۔ مکہ کی اہمیت کی چند کلیدی وجوہات درج ذیل ہیں:
خلاصہ یہ کہ مکہ اسلام کے عقیدے، تاریخ اور عبادات کا مرکز ہے، جو اسلام کی روحانی اور اجتماعی اساس کو ظاہر کرتا ہے۔
مسجد الحرام، جسے مقدس مسجد یا مکہ کی عظیم مسجد بھی کہا جاتا ہے، اسلام میں سب سے اہم مسجد سمجھی جاتی ہے۔ یہ مسجد سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں کعبہ کے احاطے کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہ حج سے متعلق اہم زیارتی مقامات میں سے ایک ہے، جو ہر مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار فرض ہے اگر وہ اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ یہ عمرہ کی ادائیگی کا بھی مرکزی مقام ہے، جو سال کے کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ حج اور عمرہ دونوں کی رسومات میں مسجد الحرام کے اندر کعبہ کا طواف کرنا شامل ہے۔
عظیم مسجد میں دیگر اہم مقدس مقامات بھی شامل ہیں، جیسے:
مسجد الحرام نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان، تاریخ اور روحانیت کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کی گئی عبادتیں اور دعائیں بے حد فضیلت رکھتی ہیں، اور یہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔
اسلام کے مطابق، کعبہ کو تاریخ میں متعدد بار تعمیر کیا گیا ہے، جن میں سب سے مشہور تعمیر حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کے ذریعے کی گئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب حضرت ابراہیم اللہ کے حکم پر اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کو مکہ کی وادی میں چھوڑنے کے کئی سال بعد وہاں واپس آئے۔
حج اور عمرہ کے دوران کعبہ کے گرد سات چکر لگانا، جسے طواف کہا جاتا ہے، ایک فرض (لازمی) رسم ہے۔ یہ چکر گھڑی کی مخالف سمت میں لگائے جاتے ہیں۔ طواف کرنے والے حاجیوں کے چلنے کے لیے کعبہ کے اردگرد کا علاقہ "مطاف" کہلاتا ہے۔
طواف حج اور عمرہ دونوں کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ عمل مسلمانوں کے لیے اللہ کی عبادت اور اطاعت کی علامت ہے۔ کعبہ کے گرد چکر لگانے کا یہ عمل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی سنت کو زندہ رکھتا ہے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے۔
مطاف کا علاقہ مسجد الحرام کا ایک اہم حصہ ہے، جہاں لاکھوں مسلمان حج اور عمرہ کے دوران ایک ساتھ طواف کرتے ہیں۔ یہ جگہ نہ صرف روحانی اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس اور بابرکت مقام بھی ہے۔
حجر اسود کعبہ کے مشرقی کونے میں نصب ایک پتھر ہے، جو مکہ، سعودی عرب میں مسجد الحرام کے مرکز میں قدیم عمارت ہے۔ مسلمان اس کی ایک اسلامی آثار کے طور پر تعظیم کرتے ہیں جو مسلم روایت کے مطابق آدم اور حوا کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔
حجر اسود، جو کعبہ کی دیوار میں نصب ہے، اسلام سے پہلے کے زمانے میں بھی ایک مقدس پتھر کے طور پر پوجا جاتا تھا۔ اسلامی روایات کے مطابق، 605 عیسوی میں پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبد اللہ نے اسے کعبہ کی دیوار میں نصب کیا تھا، جو آپ کی پہلی وحی سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت یہ پتھر ایک ٹکڑے کی شکل میں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ پتھر ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا، اور اب یہ ٹکڑے چاندی کے ایک فریم میں جڑے ہوئے ہیں، جو کعبہ کی دیوار میں نصب ہے۔
حجر اسود کی جسمانی شکل ایک ٹوٹے ہوئے سیاہ پتھر کی ہے، جو حاجیوں کے ہاتھوں چمکدار ہو گیا ہے۔ اسے اکثر ایک شہابیہ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ اس بارے میں کوئی قطعی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
حجر اسود کی اسلامی تعلیمات میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ طواف کے دوران بوسہ دینے یا اشارہ کرنے کی جگہ ہے، اور یہ حج اور عمرہ کی رسومات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگرچہ یہ پتھر خود کوئی عبادت کا شے نہیں ہے، لیکن یہ مسلمانوں کے لیے ایک علامتی اہمیت رکھتا ہے، جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی سنت سے جڑا ہوا ہے۔ حجر اسود کو مسلمان احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ کعبہ کی تقدیس اور تاریخ کا ایک اہم نشان ہے۔
مقام ابراہیم ایک چھوٹا مربع شکل کا پتھر ہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل سے منسوب ہے، جو اب سعودی عرب کے حجاز خطے میں واقع مسجد الحرام کے اندر موجود ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق، اس پتھر پر حضرت ابراہیم کے قدموں کے نشانات ہیں، جو انہوں نے کعبہ کی تعمیر کے دوران بنائے تھے۔
مقام ابراہیم کعبہ کے قریب واقع ہے اور یہ طواف (کعبہ کے گرد چکر لگانا) کے دوران ایک اہم علامت کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ پتھر اس جگہ کی نشاندہی کرتا ہے جہاں حضرت ابراہیم کھڑے ہوئے تھے جب وہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے یا لوگوں کو حج کی دعوت دے رہے تھے۔
مقام ابراہیم مطاف (طواف کی جگہ) کے علاقے میں کھڑا واحد تاریخی ڈھانچہ ہے، جبکہ کم از کم چھ دیگر قدیم ڈھانچوں کو طواف کے لیے جگہ صاف کرنے کے لیے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس پتھر کو ایک شیشے کے محافظ میں رکھا گیا ہے تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے۔
مقام ابراہیم مسلمانوں کے لیے ایک مقدس اور تاریخی نشان ہے، جو حضرت ابراہیم کی قربانیوں اور اللہ کے ساتھ ان کے گہرے تعلق کی یاد دلاتا ہے۔ یہ حج اور عمرہ کے دوران ایک اہم زیارتی مقام ہے، جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
مطاف، یا کعبہ کا صحن، مسجد الحرام میں کعبہ مشرفہ کے اردگرد کھلی ہوئی جگہ کو کہا جاتا ہے۔ اسے مطاف اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ مسلمان اس میں طواف کرتے ہیں، یعنی کعبہ کے گرد گھومتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے۔ کعبہ کے گرد طواف کرنا حج اور عمرہ کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جہاں حجاج اور معتمرین حجر اسود سے شروع ہو کر کعبہ کے گرد سات چکر لگاتے ہیں۔
مطاف مسجد الحرام کا ایک اہم حصہ ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے حجاج اور معتمرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے وسیع اور بہتر کیا گیا ہے۔ مطاف عبادت اور خشوع کا مقام ہے، جہاں مسلمان طواف کی ادائیگی کرتے ہیں، جو اتحاد، توحید اور اللہ کے احکامات کی پیروی کی علامت ہے۔
مطاف میں کئی اہم مقامات بھی شامل ہیں، جیسے مقام ابراہیم اور حجر اسماعیل، جو اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روحانی اور تاریخی اہمیت کا حامل بناتے ہیں۔
صفا اور مروہ دو چھوٹی پہاڑیاں ہیں، جو بالترتیب بڑے پہاڑوں جبل ابی قبيس اور جبل قعیقعان سے جڑی ہوئی ہیں، مکہ، سعودی عرب میں، اب مسجد الحرام کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ مسلمان ان کے درمیان سات بار آگے پیچھے چلتے ہیں جسے حج اور عمرہ کی سعی کہا جاتا ہے۔
مسلمان دو پہاڑیوں، صفا و مروہ، کے درمیان دوڑتے ہیں، جو ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت ہاجرہ کی اس کوشش کی یاد میں ایک رسم بنایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے پیاس سے بلکتے بچے حضرت اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں کی تھی۔ یہ تلاش اس وقت تک جاری رہی جب تک انہیں زمزم کے کنویں میں پانی کا ذریعہ نہیں مل گیا۔ حجاج اور معتمرین صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگاتے ہیں، جو "سعی" کہلاتا ہے۔
صفا اور مروہ کے درمیان وہ جگہ جہاں حجاج دوڑتے ہیں، "مسعی" کہلاتی ہے۔ یہ مسجد الحرام کا ایک اہم حصہ ہے اور حج اور عمرہ کے ارکان کا لازمی جزو ہے۔ سعی کا یہ عمل حضرت ہاجرہ کی قربانی، صبر اور اللہ پر بھروسے کی یاد دلاتا ہے۔
مسعی کو جدید دور میں وسیع اور آرام دہ بنایا گیا ہے تاکہ حجاج اور معتمرین کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ یہ جگہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایمان اور ثابت قدمی کی علامت بھی ہے۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔[12][13] حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے،[14] جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ »[15] مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں،[16] وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔[17] اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔
حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی،[18] مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ،۔[19] حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔[18][20] ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا،[21][22] محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔[23] نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔
عمرہ ایک اسلامی عبادات کا رکن ہے جو مسلمانوں کے لیے مقدس شہر مکہ مکرمہ، سعودی عرب کے حجاز خطے میں واقع، میں کی طرف کی جاتی ہے۔ عمرہ سال کے کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، جبکہ حج کے لیے اسلامی تقویم کے مطابق مخصوص تاریخوں (ذوالحجہ کے مہینے میں)میں ہوتا ہے۔
عمرہ کے ارکان میں شامل مندرجہ ذیل ہیں:
عمرہ کو "چھوٹا حج" بھی کہا جاتا ہے، اور یہ ایک اختیاری عبادت ہے جبکہ حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ عمرہ کرنے والے افراد روحانی طاقت اور اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں، اور یہ عمل گناہوں کی معافی کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کرنا اور وہاں کے مقدس مقامات کی زیارت کرنا مسلمانوں کے لیے بہت بڑی سعادت اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔
مسجد الحرام مکہ اور اسلام کی سب سے اہم مسجد ہے۔ شہر بھر میں ہر علاقے میں مقامی مساجد موجود ہیں۔ یہاں ان مساجد کا ذکر ہے جس کی تاریخی اور اسلامی اہمیت ہے۔
خانہ کعبہ سے محض پانچ میل دور واقع مسجد عائشہ جو پیغمبر محمد کی زوجہ عائشہ بنت ابی بکر کے نام سے منسوب۔ یہ مسجد شہر مکہ سے قریب تنعیم میں واقع ہے۔ اس مقام سے حرم کی حد ظاہر کی جاتی ہے اور مکہ میں موجود زائرین عمرہ اور حج کے لیے احرام باندھے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مسجد الجن مکہ المکرمہ، سعودی عرب میں واقع ایک مسجد ہے جہاں رسول اللہ نے جنوں کے ایک گروہ کو دین اور توحید کی دعوت دی ،اور وہ قرآن پاک پر ایمان لائے۔آج کل وہاں ایک مسجد "مسجد الجن" کے نام سے تعمیر کی گئی یہ نام اسی مناسبت سے ہے۔ [24] [25] اس واقعہ کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ الجن میں ہے۔ [26] [27] مسجد کو مکہ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ شہر کی سب سے اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ [27][28]
مسجد البیعہ (بیعت کی مسجد)، جسے مسجد عقبہ بھی کہا جاتا ہے، ایک مسجد ہے جسے ابو جعفر منصور نے سنہ 144ھ میں اس جگہ تعمیر کیا تھا جہاں نبی اکرم محمد بن عبد اللہ نے انصار سے ملاقات کی تھی، جہاں انہوں نے آپ سے عقبہ کی بیعت کی تھی۔ [29] مسجد ایک کھلے صحن پر مشتمل ہے۔جس کے سامنے ایک سائبان بنا ہوا ہے مسجد جمرات عقبہ سے 300 میٹر کے فاصلے پر پل کے دائیں جانب واقع ہے۔ [30]
مکہ شہر ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے جہاں بہت سے پہاڑ موجود ہیں۔ یہاں ان پہاڑوں کو ذکر ہے جن کی تاریخی یا اسلامی لحاظ سے کوئی اہمیت ہے۔
مکہ سطح سمندر سے 277 میٹر (909 فٹ) کی بلندی پر ہے اور بحیرہ احمر سے تقریباً 70 کلومیٹر (44 میل) کے فاصلے پر ہے۔ یہ حجاز کے علاقے میں سب سے نچلی چوٹیوں میں سے ایک ہے، حالانکہ مکہ میں کچھ پہاڑی چوٹیاں 1,000 میٹر (3,300 فٹ) اونچائی تک پہنچ جاتی ہیں۔
جبل نور مکہ مکرمہ کے مشرق میں ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک پہاڑ جس کے ایک غار (غار حرا) میں حضرت محمد نبوت کے درجے پر فائز ہونے سے قبل عبادت کیا کرتے تھے۔ اور قرآن مجید کی پہلی وحی بھی اسی پہاڑ پر نازل ہوئی۔ یہ پہاڑ مکہ سے طائف جانے والے راستے پر سڑک سے تقریباً میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس پہاڑی کی بلندی 639 میٹر ہے۔ جبل نور دامن میں کچھ پھیلاؤ رکھتا ہے اور پھر اس کے بعد قریباً سیدھا اوپر کو اٹھتا چلا گیا ہے تاہم اس کی چوٹی نوکیلی نہیں۔ پہاڑ کے دامن میں نصف کلومیٹر تک راستہ ہموار ہے اور آگے چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ اوپر چڑھنے کا راستہ مشرقی سمت سے ہے اور چکر کھاتے ہوئے اوپر جاتا ہے۔
غار حرا مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ جبل نور میں واقع ایک غار، یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے ساٹھ ستر میٹر نیچے مغرب کی سمت جانا پڑتا ہے۔ نشیب میں اتر کر راستہ پھر بلندی کی طرف جاتا ہے جہاں غار حرا واقع ہے۔ غار پہاڑ کے اندر نہیں بلکہ اس کے پہلو میں تقریباً خیمے کی شکل میں اور ذرا باہر کو ہٹ کر ہے۔ کم و بیش نصف میٹر موٹے اور پونے دو میٹر تک چوڑے اور تین چار میٹر لمبے چٹانی تختے پہاڑ کے ساتھ اس طرح ٹکے ہوئے ہیں کہ متساوی الساقین مثلث جیسے منہ والا غار بن گیا ہے جس کا ہر ضلع اڑھائی میٹر لمبا اور قاعدہ تقریباً ایک میٹر ہے۔ غار کی لمبائی سوا دو میٹر ہے اور اس کی اونچائی آگے کو بتدریج کم ہوتی گئی ہے۔ غار کا رخ ایسا ہے کہ سارے دن میں سورج اندر نہیں جھانک سکتا۔
جبل ثور مکہ مکرمہ سے ساڑھے چار کلومیٹر جنوب میں واقع ایک پہاڑ جس کے ایک غار میں حضرت محمد اور حضرت ابو بکر صدیق نے ہجرت مدینہ کے دوران تین دن اور تین راتیں قیام کیا تھا۔ جبل ثور کی بلندی 759 میٹر ہے یعنی یہ پہاڑ جبل نور سے 120 میٹر زیادہ اونچا ہے۔ ثور کی چوٹی کا رقبہ تقریباً 30 مربع میٹر ہے۔ غار ثور جس میں آپ نے حضرت ابو بکر کے ہمراہ تین روز قیام کیا تقریب ایک میٹر چوڑا ہے جبکہ اس کا طول 18 بالشت اور عرض 11 بالشت ہے۔ اس کا چھوٹا دہانہ تقریباً نصف میٹر کھلا ہے جبکہ غار میں سیدھے کھڑے ہوں تو سر چھت سے لگتا ہے۔
غار ثور مکہ معظمہ کی دائیں جانب تین میل کے فاصلے پر ثور پہاڑ میں واقع ہے۔ خضرت محمد نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو تین دن تک یہاں قیام کیا۔ قرآن میں ہجرت کا بیان کرتے ہوئے جس غار کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے۔ آپ کے ساتھ جناب حضرت ابوبکر صدیق بھی تھے۔ اسی لیے انھیں یار غار کہتے ہیں۔ اس غار کا دہانہ اتنا تنگ ہے کہ لیٹ کر بمشکل انسان اس میں داخل ہو سکتا ہے
ابوبکر صدیق نے اول غار کو صاف کیا بعد ازاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار میں تشریف لے گئے۔ اور باذن الہیٰ غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تنا، ۔[31] جب مشرکین مکہ نشان شناسوں کی مدد سے غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئے اور نشان شناس نے کہہ دیا کہ قدموں کے نشان یہیں تک ہیں، اسی غار میں ہوں گے، تلاش کرنے والی پارٹی نے جب غار ثور کے دہانے پر مکڑی کا جالا دیکھا تو نشان شناس کو بیوقوف گردانا اور کہا اگر اس غار میں کوئی داخل ہوا ہوتا تو کیا یہ مکڑی کا جالا باقی رہ سکتا تھا۔
"فَرَأوا علی بابہ نسیج العنکبوت فقالوا لو دخل ھنا لم یکن نسیج العنکبوت علی بابہ۔" تو غار کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھ کر کہا کہ اگر کوئی اس میں جاتا تو غار کے دہانہ پر مکڑی کا جالا باقی نہ رہتا۔[32][33]
جبل عمر کا نام عمر بن خطاب کے نام پر رکھا گیا ہے جو روایتی طور پر مکہ کے جنوبی مضافات میں کھڑی تھی اور اس وقت پرانے رہائشی یونٹوں کے ایک گروپ پر مشتمل ہے جو سالوں کے دوران تصادفی طور پر بنائے گئے تھے۔ جبل عمر کے علاقے میں فی الحال کوئی سہولیات نہیں ہیں، خاص طور پر صفائی کی سہولیات۔ تاہم، 2006ء کے اواخر میں جبل عمر پراجیکٹ کے قیام کے لیے ضروری جگہ فراہم کرنے کے لیے جبل عمر میں کلیئرنس پروگرام شروع کیا گیا۔ جبل عمر اجیاد کی ذیلی بلدیہ ہے۔
جبل عمر پراجیکٹ جبل عمر میں ایک ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں رہائش گاہوں، ہوٹلوں اور تجارتی عمارتوں کا مرکب شامل ہے جو اس علاقے میں حج پر آنے والے لوگوں کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اس کا آغاز 2006ء میں ہوا تھا، جب سعودی حکومت نے 1.6 بلین امریکی ڈالر کے ابتدائی بجٹ کے ساتھ جبل عمر ڈویلپمنٹ کمپنی قائم کی، اور 90 سے زیادہ عمارتیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ [34]
سلسلہ کوہ ثبیر مکہ المکرمہ میں واقع پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے، اور ان میں ثبیر الاطبارہ بھی ہے، جس سے مراد وہ پہاڑ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارک قرار دیا تھا۔ حضرت جبرائیل کے ساتھ چڑھتے ہوئے اسے مکہ مکرمہ کے لوگ جبل الرخم کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبل از اسلام کے زمانے میں عربوں کے لیے مزدلفہ سے واپس آنے کا وقت تھا جو کہ ثبیر غینہ کے اوپر طلوع ہونے کے وقت تھا۔ [35]
جبل خندمہ مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک ہے، جو سعودی عرب کے شہر مکہ میں واقع مسجد الحرام کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یہ شمال سے جنوب تک طول بلد کی سمت میں پھیلی ہوئی ہے جس کی لمبائی تین کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ [36] یہ خطہ شمال میں الملاوی اور شعب عامر، جنوب میں جبل بخش، مشرق میں بلند پہاڑی علاقوں اور مغرب میں اجیاد الساد، اجیاد، بیر بلیلا اور ریع بخش سے متصل ہے۔ [37]
جبل رحمت میدان عرفات میں واقع ایک پہاڑ جسے جبل عرفات بھی کہا جاتا ہے۔ عرفہ عربی میں اونچی اور نمایاں جگہ کو کہتے ہیں اس لیے اس پہاڑی کا نام یہی پڑ گیا۔ جبل رحمت کا قطر تقریباً 100میٹر ہے اور یہ 60 میٹر بلند ہے۔ یہ پہاڑی ہلکے سبزی مائل چھوٹے بڑے پتھروں اور بھربھری مٹی سے بنی ہے۔ جبل رحمت پر سفید لوح عین اس جگہ ایستادہ کی گئی ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی قصواء حجۃ الوداع کے روز کھڑی تھی۔ جبل رحمت کے چاروں جانب میدان عرفات ہے۔
جبل ابی قبيس ایک شرف و بزرگی والا پہاڑ جو صفا کے سامنے واقع ہے اس کا نام قبیلہ مذحج کے ایک شخص کے نام پر ہے جس کی کنیت بوقبیس تھی کیونکہ قبیلہ مذحج کا پہلا شخص تھا جو طوفان نوح کے بعد یہی بوقبیس پہلے یہاں آیا تھا اس پہاڑ کو جاہلیت میں الامین بھی کہا جاتا تھا سلسلہ اخشبان میں سے ایک پہاڑ ہے[38] معجزۂ شق القمرجب کفار نے کہااگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیں، اس کا نصف ابوقبیس (مکہ کا ایک پہاڑ جو مغرب کی سمت ہے) پر ہو اور اس کا نصف جبل قعیقعان (مکہ کا دوسرا پہاڑ جو مشرق کی سمت ہے) پر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان نے پوچھا : اگر میں نے ایسا کر دیا تو تم اس پر ایمان لے آؤ گے؟ انھوں نے کہا : ہاں۔ اور وہ چاند کی چودھویں رات تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ تو چاند کے اسی طرح دو ٹکڑے ہو گئے، ایک ٹکڑا ابو قبیس پر تھا اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نداء فرما رہے تھے : اے ابو سلمہ بن عبد الاسد اور اے الارقم بن ابی الارقم : گواہ ہو جاؤ۔[39] اماں حوا کی قبر جبل ابو قبیس کے پاس ہے
جبل قعیقعان مکہ کے مغربی حصے میں واقع ہے، اس کی اونچائی 430 میٹر ہے اور اسے آج جبل قرن کہا جاتا ہے، اور اس کی سرحدیں حرت الباب سے القررہ تک پھیلی ہوئی ہیں، اور اس کو جبل قعیقعان اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ اس تصادم کی وجہ سے جرہم اور قطورہ کے درمیان جنگ میں جو اس وقت اہل مکہ تھے، اس لیے جرہم مکہ اور قعیقعان کی چوٹی پر تھا اور ان کا بادشاہ معاذ بن عمرو تھا اور قطورا مکہ اور اجیادین کے نیچے تھا۔ ان کا بادشاہ السمیدہ تھا اور جبل قعیقعان ایک عظیم، لمبا، پھیلا ہوا پہاڑ ہے اور اس کی بنیاد پر مسجد الحرام کے شمال مشرق میں المداء کے پہلو میں مروہ ہے۔
جبل الطارقی ایک پہاڑ ہے اگر آپ مکہ سے نخل الیمانیہ سے گزرتے ہیں اور آپ صفا میں یا حرم کی سرحدوں پر ہیں، تو آپ اسے سڑک کے بائیں طرف دیکھیں گے، جو بلند ترین پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس کے مشرق میں صلا ہے اور اس کے مغرب میں ثقبہ ہے جو کہ ثبیر العزم کی چوٹیوں میں سے ایک ہے، یہ مکہ المکرمہ کے مشرقی حصے میں واقع ہے، اور اس کی چوٹی تک پہنچتی ہے۔ 900 میٹر کی اونچائی اور یہ مکہ کے پہاڑوں اور مقدس مقامات میں سب سے اونچی چوٹی ہے۔ جبل ترقی ہرمل پودے کی کثرت کی وجہ سے ہرمل نامی علاقے میں واقع ہے جو کہ قریش کے قبیلہ عجرہ کے گھروں میں سے ایک ہے۔
جبل الکعبہ یا جبل کعبہ کعبہ مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک ہے، جو ضلع باب میں مسجد الحرام کے شمال مغرب میں واقع ہے، اس کی تاریخی اور مذہبی اہمیت اس حقیقت سے حاصل ہوتی ہے کہ کعبہ کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر اصل میں اس کی چٹانوں سے کاٹے گئے تھے۔ اسی لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ [40]
جبل السیدہ یا جبل سیدہ مکہ المکرمہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے جو مسجد الحجون کے شمال میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس میں ، نبی کی بیوی، سیدہ خدیجہ بنت خویلد کی قبر ہے۔ اس کا نام ان کے نام پر رکھا گیا تھا، اس کی اونچائی 400 میٹر تک پہنچ گئی ہے، اور یہ پہاڑ اب الحجون اور العتیبیہ کے پڑوس میں، الجمیزہ اور المعبدہ کی سڑک پر واقع ہے۔ اور یہ راستہ مکہ المکرمہ کی سڑک پر جانا ہے۔ [41][42]
جنت المعلیٰ جو "الحجون" کے نام سے بھی مشہور ہے مکہ معظمہ کا خاص قبرستان ہے جوجنت البقیع کے بعدجَنَّتُ المعلیٰ دنیا کا سب سے افضل ترین قبرستان ہے[43]جو کعبہ سے جنوب مشرقی جانب قریب ہی واقع ہے۔ اس قبرستان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ،صحابہ وتابعین اور اولیاء وصالحین کے مزارات مقدسہ ہیں۔ یہ قبرستان بیت اللہ شریف کے مغربی جانب تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہاں پر عام حجاج کرام اور مقامی لوگوں کو بھی دفن کرنے کی اجازت ہے
مکہ مکرمہ حجاز کے خطے میں واقع ہے، جو ایک 200 کلومیٹر (124 میل) چوڑا پہاڑی سلسلہ ہے جو صحرائے نفود کو بحیرہ احمر سے الگ کرتا ہے۔ یہ شہر ایک وادی میں واقع ہے جو اسی نام سے موسوم ہے اور یہ بندرگاہی شہر جدہ سے تقریباً 70 کلومیٹر (44 میل) مشرق میں ہے۔ مکہ مکرمہ حجاز کے خطے میں بلندی کے لحاظ سے سب سے کم بلند شہروں میں سے ایک ہے، جو سطح سمندر سے 277 میٹر (909 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے، جس کا محل وقوع 21º23' شمالی عرض بلد اور 39º51' مشرقی طول بلد پر ہے۔
مکہ مکرمہ انتظامی طور پر 34 اضلاع میں تقسیم ہے۔ یہ شہر نہ صرف اپنی مذہبی اہمیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ مکہ کی وادی اور اس کے اردگرد کے پہاڑی سلسلے اسے ایک منفرد جغرافیائی اور ماحولیاتی خصوصیت دیتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کی آب و ہوا گرم اور خشک ہے، اور یہ شہر اپنے مقدس مقامات، جیسے کعبہ، مسجد الحرام، صفا اور مروہ، اور زمزم کے کنویں کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مرکزِ توجہ ہے۔ یہ شہر ہر سال لاکھوں حجاج اور معتمرین کی میزبانی کرتا ہے، جو یہاں روحانی سکون اور اللہ کی قربت حاصل کرنے آتے ہیں۔
شہر کا مرکز الحرام کے علاقے پر ہے جس میں مسجد الحرام ہے۔ مسجد کے آس پاس کا علاقہ پرانا شہر ہے اور یہ مکہ کا سب سے مشہور ضلع اجیاد پر مشتمل ہے۔ مرکزی گلی جو الحرام کو جاتی ہے وہ شارع ابراہیم الخلیل ہے جس کا نام ابراہیم کے نام پر رکھا گیا ہے۔ روایتی، تاریخی مکانات جو مقامی چٹان سے بنے ہیں، دو سے تین منزلہ طویل شہر کے مرکزی علاقے میں، جدید ہوٹلوں اور شاپنگ کمپلیکس کے پیش نظر اب بھی موجود ہیں۔ جدید مکہ کا کل رقبہ 1,200 کلومیٹر 2 (460 مربع میل) سے زیادہ ہے۔ [44]
مکہ مکرمہ ایک وادی میں واقع ہے اور اس کی عمومی بلندی تقریباً 277 میٹر (909 فٹ) سطح سمندر سے بلند ہے۔ تاہم، یہ شہر پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں بلندی میں فرق پایا جاتا ہے۔
شہر کے گرد بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں، جو بلندی میں فرق کا باعث بنتے ہیں۔
مکہ کا جدہ (مغرب میں، جو سطح سمندر پر واقع ہے) اور طائف (مشرق میں، جو تقریباً 1,879 میٹر (6,165 فٹ) بلندی پر واقع ہے) سے رابطہ ہے۔
مکہ مکرمہ مغربی سعودی عرب میں ایک وادی میں واقع ہے، جو بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس شہر کا جغرافیہ پتھریلے علاقوں، کھڑی پہاڑیوں اور تنگ وادیوں پر مشتمل ہے، جس کا اس کی تاریخی ترقی اور شہری منصوبہ بندی پر گہرا اثر پڑا ہے۔ [45][46] مکہ مکرمہ کے پہاڑی جغرافیے کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے جس میں محدود زمین، ہموار زمین کی کمی کے باعث اونچی عمارتیں اور سرنگیں بنانا ضروری ہے۔ بنیادی ڈھانچہ شہر کو جوڑنے کے لیے سڑکیں، پل، اور سرنگیں ناگزیر ہیں۔ سیلابی خطرہ، وادیوں کی موجودگی کی وجہ سے اچانک سیلاب آنے کا خطرہ رہتا ہے، جس کے لیے جدید نکاسی آب کا نظام ضروری ہے۔ مکہ مکرمہ کی پہاڑی زمین اس کے موسم کو متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کا موسم گرما خشک رہتا ہے، البتہ بلند علاقوں میں قدرے ٹھنڈک محسوس کی جا سکتی ہے۔ اردگرد کے پہاڑ نمی کو روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مکہ میں بارش کی مقدار بہت کم رہتی ہے۔ مکہ مکرمہ کی چٹانی پہاڑیاں، گہری وادیاں، اور محدود ہموار زمین اس کے شہری ڈھانچے اور ترقی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان چیلنجز کے باوجود جدید انجینئرنگ کی مدد سے شہر کو لاکھوں زائرین کے لیے قابلِ رہائش اور آسان بنایا گیا ہے۔
مکہ کے موسمی حالات کی وجہ سے پانی کی کمی پوری تاریخ میں ایک مسئلہ رہی ہے۔ ماقبل جدید مکہ میں، شہر پانی کے چند اہم ذرائع استعمال کرتا تھا۔ ان میں مقامی کنویں، جیسے زمزم کا کنواں، جو عام طور پر کھارا پانی پیدا کرتا تھا۔ مکہ کی مستقل آبادی اور سالانہ عازمین کی بڑی تعداد کی فراہمی کے لیے پانی کے پائیدار ذرائع کی تلاش ایک ایسا کام تھا جو خلافت عباسیہ دور میں خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ زبیدہ بنت جعفر کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا۔ زمزم کے کنویں کو گہرا کرنے اور ایک بڑے تعمیراتی منصوبے کی مالی اعانت فراہم کی گئی جس پر 1.75 ملین طلائی دینار کی لاگت آئی۔ اس منصوبے میں مکہ کے علاقے میں پانی کے چھوٹے ذرائع سے زیر زمین آب راہ کی تعمیر کے علاوہ کوہ عرفات پر ایک آبی ذخیرہ کی تعمیر بھی شامل ہے جسے نہر زبیدہ کہا جاتا ہے، (عربی: "عين زبيدة") مکہ اور مسجد الحرام سے جوڑنے کے لیے ایک الگ آب راہ کا استعمال کرتی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظام بگڑتا گیا اور اپنے کام کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح 1245 عیسوی، 1361 عیسوی، 1400 عیسوی، 1474 عیسوی، اور 1510 عیسوی میں مختلف حکمرانوں نے نظام کی وسیع پیمانے پر مرمت میں سرمایہ کاری کی۔ 1525 عیسوی میں نظام کی مشکلات برقرار رہنے کی وجہ سے تاہم عثمانی سلطان سلیمان اول نے پانی کی مکمل تعمیر نو کے لیے ایک تعمیراتی منصوبہ شروع کیا، اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 1571 عیسوی تک کا وقت لگا۔ انیسویں صدی کے دوران عثمان پاشا کی طرف سے بحالی اور صفائی کا منصوبہ شروع ہونے تک اس کے پانی کے معیار میں بہت کمی تھی۔ [47]
ایک اور ذریعہ جو کہ وقفے وقفے سے پانی فراہم کرتا تھا وہ بارش تھی جسے لوگوں نے چھوٹے آبی ذخائر یا حوضوں میں ذخیرہ کیا تھا۔ الکردی کے مطابق 1965ء تک 89 سیلاب آ چکے تھے۔ پچھلی صدی میں سب سے زیادہ شدید سیلاب 1942ء کا تھا۔ تب سے اب تک اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ [46] جدید دور میں، پانی کی صفائی کے پلانٹ اور صاف کرنے کی سہولیات تعمیر کی گئی ہیں اور شہر کو انسانی استعمال کے لیے مناسب مقدار میں پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ [48][49]
مکہ مکرمہ میں گرم صحرائی آب و ہوا (کوپن موسمی زمرہ بندی: بی ڈبلیو ایچ) پائی جاتی ہے، جو تین مختلف پودوں کی سختی کے زون: 10، 11 اور 12 میں تقسیم ہے۔ [50] زیادہ تر سعودی شہروں کی طرح، مکہ میں بھی سردیوں کے موسم میں درجہ حرارت گرم سے زیادہ گرم رہتا ہے، جو رات میں 19 °س (66 °ف) سے لے کر دوپہر میں 30 °س (86 °ف) تک ہو سکتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت انتہائی گرم ہوتا ہے اور دوپہر میں 40 °س (104 °ف) سے تجاوز کر جاتا ہے، جبکہ شام میں یہ 30 °س (86 °ف) تک گر جاتا ہے۔ تاہم، نمی کی شرح نسبتاً کم رہتی ہے، جو **30–40%** کے درمیان ہوتی ہے۔
مکہ میں بارش عام طور پر نومبر سے جنوری کے درمیان تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے، جبکہ موسم سرما میں شدید گرج چمک کے ساتھ بارش بھی عام ہوتی ہے۔ کبھی کبھار گرمیوں میں بارش ہوتی ہے، جو انٹرٹراپیکل کنورجنس زون کے شمالی حرکت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مکہ کی آب و ہوا اس کے صحرائی ماحول کی عکاس ہے، جہاں گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں معتدل موسم پایا جاتا ہے۔ یہاں بارش کم ہوتی ہے، لیکن جب ہوتی ہے تو یہ موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہے۔
آب ہوا معلومات برائے مکہ (1991-2020) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 39.0 (102.2) |
40.0 (104) |
42.4 (108.3) |
44.7 (112.5) |
49.4 (120.9) |
51.8 (125.2) |
51.0 (123.8) |
50.0 (122) |
49.8 (121.6) |
47.0 (116.6) |
41.2 (106.2) |
39.4 (102.9) |
51.8 (125.2) |
اوسط بلند °س (°ف) | 30.9 (87.6) |
32.6 (90.7) |
35.4 (95.7) |
39.0 (102.2) |
42.4 (108.3) |
43.9 (111) |
43.2 (109.8) |
42.9 (109.2) |
42.9 (109.2) |
40.4 (104.7) |
35.6 (96.1) |
32.5 (90.5) |
38.48 (101.25) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 24.3 (75.7) |
25.4 (77.7) |
27.8 (82) |
31.3 (88.3) |
34.6 (94.3) |
36.2 (97.2) |
36.2 (97.2) |
35.9 (96.6) |
35.2 (95.4) |
32.5 (90.5) |
28.7 (83.7) |
25.9 (78.6) |
31.17 (88.1) |
اوسط کم °س (°ف) | 19.2 (66.6) |
19.9 (67.8) |
21.8 (71.2) |
25.1 (77.2) |
28.1 (82.6) |
29.3 (84.7) |
29.8 (85.6) |
30.1 (86.2) |
29.2 (84.6) |
26.5 (79.7) |
23.4 (74.1) |
20.7 (69.3) |
25.26 (77.47) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | 11.0 (51.8) |
10.0 (50) |
13.0 (55.4) |
15.6 (60.1) |
20.3 (68.5) |
22.0 (71.6) |
23.4 (74.1) |
23.4 (74.1) |
22.0 (71.6) |
18.0 (64.4) |
16.4 (61.5) |
12.4 (54.3) |
10.0 (50) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 20.7 (0.815) |
2.5 (0.098) |
5.2 (0.205) |
8.3 (0.327) |
2.6 (0.102) |
0.0 (0) |
1.4 (0.055) |
5.8 (0.228) |
6.3 (0.248) |
14.1 (0.555) |
23.2 (0.913) |
24.7 (0.972) |
104.6 (4.118) |
اوسط عمل ترسیب ایام (≥ 1.0 mm) | 1.8 | 0.3 | 0.6 | 0.7 | 0.3 | 0.0 | 0.1 | 0.8 | 0.7 | 1.1 | 1.7 | 1.3 | 9.6 |
اوسط اضافی رطوبت (%) (daily average) | 58 | 54 | 48 | 43 | 36 | 33 | 34 | 39 | 45 | 50 | 58 | 59 | 46 |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 260.4 | 245.8 | 282.1 | 282.0 | 303.8 | 321.0 | 313.1 | 297.6 | 282.0 | 300.7 | 264.0 | 248.0 | 3,400.5 |
اوسط روزانہ دھوپ ساعات | 8.4 | 8.7 | 9.1 | 9.4 | 9.8 | 10.7 | 10.1 | 9.6 | 9.4 | 9.7 | 8.8 | 8.0 | 9.3 |
ماخذ#1: | |||||||||||||
ماخذ #2: [جرمن موسمی خدمت (sunshine hours, 1986–2000)[51] |
سعودی عرب کے صوبے، جنہیں علاقہ جات کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مملکت سعودی عرب کی 13 پہلے درجہ اول کی انتظامی تقسیم ہیں۔ [52][53][54] ہر صوبے پر ایک امیر (صوبائی گورنر) کی حکومت ہوتی ہے، جس کی مدد نائب امیر کرتا ہے۔ ان عہدوں پر فائز افراد کو سعودی عرب کا بادشاہ مقرر کرتا ہے۔ امیر کو وزیر کا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ نائب امیر کو فضیلت کا درجہ دیا جاتا ہے۔
مکہ، المکہ علاقہ میں واقع ہے۔ المکہ علاقہ کا دار الحکومت مکہ ہے، جو اسلام کا مقدس ترین شہر ہے، اور اس کا سب سے بڑا شہر جدہ ہے، جو سعودی عرب کا اہم بندرگاہی شہر ہے۔ یہ صوبہ سعودی عرب کی آبادی کا 26.29% ہے [3] اور اس کا نام اسلامی مقدس شہر مکہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ [55] [56] المکہ علاقہ میں 17 محافظات ہیں، جن میں سے 5، جدہ، ربیع، طائف، قنفودہ اور لیث کو درجہ اے میں رکھا گیا ہے، جبکہ باقی کو درجہ بی میں رکھا گیا ہے۔
محافظہ مکہ یا محافظہ مقدس دار الحکومت سعودی عرب کے محافظات میں سے ایک ہے جو المکہ علاقہ میں واقع ہے۔ [54] یہ زیادہ تر شہر مکہ کے ساتھ جاری ہے، جو اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ محافظہ مکہ کی آبادی 2022ء کی مردم شماری کے مطابق 2,427,924 افراد پر مشتمل ہے، جو ہر سال تقریباً 3.1 فیصد بڑھ رہی ہے۔ [54]
محافظہ مکہ درج ذیل محلوں میں تقسیم ہے۔
مکہ مکرمہ میں نقل و حمل کے لیے جدید اور وسیع نظام موجود ہے، جو لاکھوں حجاج اور زائرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مکہ میں نقل و حمل کے اہم ذرائع درج ذیل ہیں:
مکہ میں کوئی ہوائی اڈا نہیں ہے، بین الاقوامی فضائی سفر کے لیے جدہ جبکہ اندون ملک پرواز کے لیے طائف کے ہوائی اڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا مکہ کا قریبی ہوائی اڈا جدہ میں واقع ہے، جو دنیا بھر سے آنے والے حجاج اور زائرین کے لیے مرکزی گزرگاہ ہے۔ یہ ہوائی اڈا مکہ سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ حج ٹرمینل دنیا کا سب سے بڑا ہوائی ٹرمینل ہے، یہ ٹرمینل حجاج اور عمرہ زائرین کے لیے مخصوص ہے۔ حج کے دنوں میں کئی خصوصی پروازیں چلائی جاتی ہیں جن کے مسافر یہاں اترتے ہیں۔ دیگر بین الاقوامی پروازوں پر سے حجاج اور عمرہ زائرین کو یہاں اتار لیا جاتا ہے جبکہ باقی مسافروں کو جنوبی یا شمالی ٹرمینل کے جایا جاتا ہے۔
طائف علاقائی ہوائی اڈا سعودی عرب کا ایک ہوائی اڈا و داخلی ہوائی اڈا جو المکہ علاقہ میں واقع ہے۔[62] ہوائی اڈا طائف کے مشرق میں 30 کلومیٹر اور مکہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہوائی اڈے کو سعودی ایوی ایشن کی تاریخ میں اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس نے مملکت کے بانی عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے طیارے کی پہلی لینڈنگ کا مشاہدہ کیا تھا۔
مکہ ساحل سمندر سے کافی دور واقع ہے اور حجاج تاریخی طور پر دیگر ممالک سے یہاں آنے کے لیے جدہ کی بندرگاہ استعمال کر رہے ہیں۔
جدہ اسلامی بندرگاہ بین الاقوامی شپنگ کے وسط میں واقع ایک اہم بندرگاہ ہے۔ یہ عرب ممالک کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندر گاہ ہے۔ جدہ کی بندرگاہ کو تاریخی شہرت حاصل ہے، کیونکہ یہ بندرگاہ 646 عیسوی میں راشدین خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں قائم کی گئی تھی اور شاہ عبد العزیز کے دور میں یہ بندرگاہ مملکت کی برآمدات اور درآمدات کے لیے پہلی بندرگاہ بن گیا اور بحیرہ احمر میں پہلا برآمدی مقام بن گیا، جس کے ذریعے اب 75 فیصد سمندری تجارت اور منتقلی سعودی بندرگاہوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور یہ بحیرہ احمر کی بندرگاہوں میں پہلے نمبر پر ہے۔
مکہ، مدینہ کی طرح، سعودی عرب کی دو اہم ترین شاہراہوں، ہائی وے 40 کے سنگم پر واقع ہے، جو اسے مغرب میں اہم بندرگاہی شہر جدہ اور دوسرے بڑے بندرگاہ والا شہر، دمام، اور مشرق میں۔ دارالحکومت ریاض سے جوڑتا ہے۔ دوسری ہائی وے 15، مکہ کو دوسرے مقدس اسلامی شہر مدینہ سے تقریباً 400 کلومیٹر (250 میل) شمال میں اور آگے تبوک، سعودی عرب اور اردن سے جوڑتی ہے۔ جب کہ جنوب میں، یہ مکہ کو ابھا اور جازان سے جوڑتا ہے۔ [63][64] مکہ میں چار رنگ روڈز ہیں، اور یہ مدینہ کی تین رنگ سڑکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بھیڑ والی ہیں۔ مکہ میں بھی کئی سرنگیں ہیں۔ [65]
مکہ جدید شاہراہوں سے جڑا ہوا ہے، جو اسے سعودی عرب کے دیگر اہم شہروں سے منسلک کرتی ہیں۔ شہر کے اندر بھی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ مکہ میں پبلک بسوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے، جو شہر کے اندر اور باہر نقل و حمل کو آسان بناتا ہے۔ حج کے موسم میں خصوصی بسیں حجاج کو مختلف مقدس مقامات تک لے جاتی ہیں۔
مکہ میں روایتی ٹیکسی سروسز دستیاب ہیں۔ جدید ایپس جیسے اوبر اور کریم بھی مکہ میں فعال ہیں، جو زائرین کو آسانی سے سفر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ حج کے موقع پر خصوصی ٹرانسپورٹ سروسز فراہم کی جاتی ہیں، جو حجاج کو منیٰ، عرفات، اور مزدلفہ جیسے مقدس مقامات تک لے جاتی ہیں۔ مسجد الحرام کے اردگرد پیدل چلنے کے لیے وسیع راستے بنائے گئے ہیں، جو حجاج کو طواف اور سعی کے دوران آسانی فراہم کرتے ہیں۔
المشاعر المقدسہ میٹرو لائن سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں ایک میٹرو لائن ہے۔ دنیا کی تمام میٹرو کے مقابلے میں یہ سب سے زیادہ گنجائش رکھتا ہے، یہ سال میں صرف 7 دن کام کرتا ہے اور مکہ، جبل رحمت، مزدلفہ اور منیٰ کے مقدس مقامات کے درمیان زائرین کے لیے خصوصی شٹل ٹرین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ حج کے دوران بسوں اور کاروں کے ذریعہ وجہ سے ہونے والی بھیڑ کو کم کیا جا سکے۔
لائن (قطار) کا افتتاح 13 نومبر 2010ء میں ہوا[66] جب 25 سے 29 نومبر کے درمیان 1431ھ حج کا موقع تھا۔[67] یہ لائن مستقبل کے مکہ میٹرو سے الگ بنائی گئی اور مکہ میٹرو سے اس کو جوڑنے کے کوئی امکان نہیں۔
مکہ میٹرو سعودی عرب کے شہر مکہ میں چار منصوبہ بند لائنوں کے ساتھ ایک میٹرو سسٹم ہے۔ میٹرو کی تعمیر چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن [68] نے کی تھی اور اسے مکہ ماس ریل ٹرانزٹ کمپنی چلاتی ہے۔ میٹرو 62 بلین ریال کے مکہ پبلک ٹرانسپورٹ پروگرام کا حصہ ہے، جس میں مربوط بس خدمات شامل ہوں گی۔ [69][70][71]
اگست 2012ء میں، یہ اعلان کیا گیا کہ سعودی حکومت نے سسٹم کی چار میٹرو لائنوں (182-کلومیٹر (113 میل) لمبی) کی تعمیر کے لیے 16.5 بلین امریکی ڈالر کا بجٹ منظور کر لیا ہے۔ اس اعلان نے 10 سال مکمل ہونے کا تخمینہ وقت دیا ہے۔ ٹینڈرز کے دعوت نامے جنوری 2013ء میں جاری کیے جانے تھے۔
چار نئی لائنیں تعمیر کی جانی ہیں۔ 2015ء میں تعمیراتی کام شروع ہونے کی توقع تھی:
لائن اے: مکہ کو مغرب سے جنوب تک بڑی کثیر سطحی پارکنگ سہولیات سے جوڑ دے گی۔ لائن بی: منیٰ اور مکہ کے درمیان سیدھا رابطہ ہے۔ لائن سی: منیٰ کو مکہ کے مغرب کی طرف شمال کی طرف ایک بڑے لوپ کے ذریعے جوڑ دے گی۔ لائن ڈی: مکہ کو شمال کی طرف سیدھی توسیع کے ساتھ دائرہ بناتا ہے۔
188 کلومیٹر (117 میل) طویل میٹرو نیٹ ورک پر کام اب 2016ء میں شروع ہونے کی امید ہے۔
2018ء میں، ایک تیز رفتار انٹرسٹی ریل لائن، حرمین ہائی اسپیڈ ریل پروجیکٹ کا ایک حصہ، جس کا نام حرمین تیز رفتار ریلوے ہے جو کہ مکہ اور مدینہ منورہ کے مقدس شہر کو ملاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ہوائی اڈا اور شاہ عبداللہ اقتصادی شہر جو کہ رابغ میں ہے کو بھی ملاتی ہے۔ [72][73] ریلوے 35 برقی ریلوے انجنوں پر مشتمل ہے اور سالانہ 60 ملین مسافروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہر ٹرین 300 کلومیٹر فی گھنٹہ (190 میل فی گھنٹہ) تک کی رفتار حاصل کر سکتی ہے، کل 450 کلومیٹر (280 میل) کا فاصلہ طے کرتی ہے، جس سے دونوں شہروں کے درمیان سفر کا وقت دو گھنٹے سے کم ہو جاتا ہے۔ [74][73]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.