محمد کی خصوصیات From Wikipedia, the free encyclopedia
مسلمانوں کے نزدیک قیامت سے قبل امام مہدی کی آمد یقینی سمجھی جاتی ہے۔[1] حضرت مہدی امت میں ایک مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اہل سنت کے ہاں معصوم ذات صرف انبیائے کرام کی ہے -یاد رہے کہ یہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے۔
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
حضرت مہدی کا نام نامی محمد یا احمد ہے جبکہ مہدی ان کا نام نہیں، لقب ہے، بمعنی ہدایت یافتہ۔ مکمل باادب نام کے ساتھ لقب " حضرت امام مہدی علیہ الرضوان " ہے۔
حضرت مہدی حسنی سادات (نزدیک اہل تشیع) حسینی سادات میں سے ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد یا احمد اور والد کا نام عبد اللہ ہوگا۔[2][3] اکثر علما اہل سنت حضرت محمد بن عبد اللہ المہدی کو حضرت علی رض کے بڑے بیٹے حضرت حسن رض کی نسل سادات میں سے ظہور ہونے کو مستند مانتے ہیں۔ ابو داود اور دیگر کتب احادیث کی روایات نیچے ملاحظہ فرمائیں ابو اسحاق کہتے ہیں کہ:
” | علی نے اپنے صاحبزادے حسن کی طرف دیکھ کر فرمایا میرا بیٹا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا، سردار ہے۔ عنقریب اس کی پشت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمھارے نبی کے نام پر ہوگا، وہ اخلاق و عادات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ ہوگا، ظاہری شکل و صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ نہ ہوگا۔ پھر علی نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا واقعہ بیان فرمایا۔[4] | “ |
مہدی والد کی طرف سے حسن کی اولاد سے اور والدہ کی طرف سے حسین کی اولاد میں سے ہوں گے۔[5]
ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
” | |مہدی میرے خاندان میں سے فاطمہ کی اولاد سے ہوں گے۔[6] | “ |
ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا:
” | حضرت مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے، روشن و کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والے۔ وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح سے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی، وہ سات برس تک زمین پر برسر اقتدار رہیں گے۔[7] | “ |
یعنی امت کو ان کے دور میں جن امور کی ضرورت ہوگی اور جو چیزیں اس کی کامیابی اور برتری کے لیے ضروری ہوں گی اور پوری روئے زمین کے مسلمان بے تحاشا قربانیاں دینے کے باوجود محض ان چند چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو رہے ہوں گے۔
دعوائے مہدویت اور حقیقی مہدویت میں آگ اور پانی کا تضاد ہے۔
مہدویت ایک روحانی منصب ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے :
” | تصوف کے میدان میں مدعی کی سزا پھانسی ہے۔ | “ |
حسنی سادات کو ظہور مہدی کا انعام ملا ہی اس لیے ہے کہ وہ اپنے جائز دعوے اور حق سے دستبردار ہو گئے تھے اب سچے مہدی کے لیے دعوے کے ذریعے یہ عظیم منصب انھیں حال ہوگا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نواسئہ رسول سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاویہ کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو گئے تھے اور محض مسلمانوں میں صلح اور اتفاق کی خاطر اپنا یہ جائز حق چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بدلے جب آخر زمانے میں امت کو اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہوگی تو اللہ انہی کی اولاد میں سے ایک مجاہد لیڈر عالمی سطح پر خلافت کے قیام کے لیے منتخب فرمائیں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر کوئی چیز چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو یا اس کی اولاد کو اس سے بہتر چیز عنایت فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ محدود علاقے میں خلافت چھوڑنے کے بدلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو عالمی خلافت کا انعام ملے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” | مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو یہ صلاحیت عطا فرمادے گا۔[10][11] | “ |
اس حدیث کی شرح میں شیخ عبد الغنی دہلوی فرماتے ہیں:
علامہ ابن کثیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل و توفیق سے سرفراز فرما کر پہلے انھیں (حقیقت کا) الہام کریں گے اور اس مقام سے آشنا کریں گے جس سے وہ پہلے ناواقف تھے۔[13]
مولانا بدرعالم میرٹھی فرماتے ہیں :
ایک عمیق حقیقت اس سے حل ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں پر بعض ضعیف الایمان قلوب میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ جب حضرت مہدی ایسی کھلی ہوئی شہرت رکھتے ہیں تو پھر انکا تعارف عوام و خواص میں کیسے مخفی رہ سکتا ہے؟ اس لیے مصائب و آلام کے وقت ان کے ظہور کا انتطار معقول معلوم نہیں ہوتاہے لیکن اس لفظ (یصلحہ اللہ فی لیلۃٍ) نے یہ حل کر دیا کہ یہ صفات خواہ کتنے ہی اشخاص کیوں نہ ہوں، لیکن ان کے وہ باطنی تصرفات اور روحانیت مشیت الہٰیہ کے ماتحت اوجھل رکھی جائے گی۔ یہاں تک کہ جب ان کے ظہور کا وقت کا قریب آئے گا تو ایک ہی شب میں ان کے اندر اندر ان کی اندرونی خصوصیات منظر عام پر آجائیں گی۔ گویا یہ بھی ایک کرشمہ قدرت کا ہوگا کہ ان کے ظہور کے وقت سے قبل کوئی شخصیت ان کو پہچان نہ سکے گی اور جب وقت آئے گا تو قدرت الہٰیہ شب بھر میں وہ تمام صلاحیتیں ان میں پیدا کرد گی جن کے بعد انکا مہدی ہونا خود ان پر اور تمام دنیا پر بھی منکشف ہو جائے گا۔[14]
درج بالا حدیث و اقوال کی روشنی میں یہ باتیں واضح ہوتیں ہیں :
حضرت مہدی کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہوگا جب امت کو شدید مشکلات سے دو چار ہوگی اور ہر طرف مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا ہوگا۔ چنانچہ ان کے ظہور کے وقت کی علامات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان کی ہیں۔
جابربن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” | وہ وقت قریب ہے جب عراق والوں کے پاس روپے اور غلہ آنے پر پابندی لگادی جائے گی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ پابندی کس کی جانب سے ہوگی؟ تو انہوں سے فرمایا عجمیوں(غیر عرب) کی جانب سے۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب اہل شام پر بھی یہ پابندی لگادی جائے گی۔ پوچھا گیا کہ یہ روکاوٹ کس کی جانب سے ہوگی؟ فرمایا اہلِ روم (مغرب والوں) کی جانب سے۔ پھر فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لپ بھر بھر کے دیگااور شمار نہیں کرے گا نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس کے قبضے میں میری جان ہے یقیناً اسلام اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹے گا جس طرح کے ابتدا مدینہ سے ہوئی تھی حتیٰ کہ ایمان صرف مدینہ میں رہ جائے گا پھر آپ نے فرمایا کہ مدینہ سے جب بھی کوئی بے رغبتی کی بنا پر نکل جائے گا تو اللہ اس سے بہتر کو وہاں آباد کر دے گا۔ کچھ لوگ سنیں گے کہ فلاں جگہ پر ارزانی اور باغ و زراعت کی فراوانی ہے تو مدینہ چھوڑ کر وہاں چلے جائیں گے۔ حالانکہ ان کے واسطے مدینہ ہی بہتر تھا کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں۔[15] | “ |
ابوصالح تابعی نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ :
” | مصر پر بھی پابندیاں لگائی جائیں گی۔[16] | “ |
حضرت کعب سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ:
مشرقی سمندر سے یہاں (بحر عرب) مراد ہے، دور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہنچنا دشوارہو جائے گا، جس کی وجہ سے وہاں آمدو رفت بند ہو جائے گی۔
عمرو ابن شعیب نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ذی القعدہ کے مہینے میں قبائل کے درمیان میں کشمکش اور معاہدہ شکنی ہوگی چنانچہ حاجیوں کو لوٹا جائے گا اور منیٰ میں جنگ ہوگی۔ بہت زیادہ قتل عام اور خون خرابا ہوگا یہاں تک کہ عقبہ جمرہ پر بھی خون بہ رہا ہوگا۔ نوبت یہاں تک آئے گی کہ حرم والا (مہدی) بھی بھاگ جائیں گے اور (بھاگ کر) وہ رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان میں آئینگے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی۔ اگر چہ وہ (مہدی) اس کو پسند نہیں کر رہے ہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا کہ اگر آپ نے بیعت لینے سے انکار کیا تو ہم آپ کی گردن اڑا دیں گے۔ پھر بیعت کریں گے، بیعت کرنے والوں کی تعداد اہل بدر کے برابر ہوگی۔ ان (بیعت کرنے والوں سے زمین و آسمان والے خوش ہوں گے۔[17]
مستدرک کی دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ عبد اللہ ابن عمرو فرماتے ہیں کہ:
جب لوگ بھاگے بھاگے حضرت مہدی کے پاس آئیں گے تو اس وقت مہدی کعبہ سے لپٹے ہوئے رو رہے ہوں گے۔ (عبد اللہ ابن عمرو فرماتے ہیں) گویا میں ان کے آنسو دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ لوگ (مہدی سے کہیں گے) آئیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ وہ(مہدی) کہیں گے افسوس! تم کتنے ہی معاہدوں کو توڑ چکے ہو اور کس قدر خون خرابا کرچکے ہو، اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیعت کر لیں گے۔ (عبد اللہ ابن عمرو) نے فرمایا (ائے لوگو!) جب تم انھیں پالو تو تم ان کے ہاتھ پہر بیعت کرلینا کیونکہ وہ دنیا میں بھی "مہدی ہیں اور آسمان میں بھی مہدی ہیں "۔
حضرت مہدی کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر امت ِمسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے ؛ اور سنیوں میں ان کے آخرت یا قرب قیامت کے نزدیک نازل ہونے کے بارے میں متعدد روایات پائی جاتی ہیں جبکہ شیعوں کے نزدیک حضرت مہدی ، امام حسن عسکری کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آخری امام ہیں۔ امام مہدی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم[حوالہ درکار] وغیرہ میں ملتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ ان کے وجود کے بارے میں مسلمان متفق ہیں [حوالہ درکار] اگرچہ اس بات میں اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے کہ آیا وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں عقائد تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں ملتے ہیں جو آخرِ دنیا میں خدا کی سچی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں متعدد مذاہب میں پیشینگوئیاں بھی ملتی ہیں اور الہامی کتب میں بھی یہ ذکر شامل ہے۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق یہ شخص امام مہدی ہوں گے اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ کا ظہور بھی ہوگا اور یہ دونوں علاحدہ شخصیات ہیں۔ ان کی آمد اور ان کی نشانیوں کی تفصیل حدیث میں موجود ہے پھر بھی اب تک مہدویت کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور فنا ہو گئے۔ سچے مہدی کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا دعوی کریں گے نہ اعلان۔
ایک حدیث کے الفاظ ہیں۔
اگر دنیا کی عمر ختم ہو گئی ہو اور قیامت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہو سکے گی جو میرا ہم نام ہوگا۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔[18][19]
حضرت مہدی کا تصور اسلام سے پہلے بھی قدیم کتب میں ملتا ہے۔ زرتشتی، ہندو، مسیحی، یہودی وغیرہ سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا کے ختم ہونے کے قریب ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوگا جو دنیا میں ایک انصاف پر مبنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ تصور مسلمانوں میں اس لیے نہیں آیا کہ اس سے پہلے یہ موجود تھا بلکہ یہ عقیدہ احادیث سے ثابت ہے۔ امام مہدی کے وجود کے بارے میں اسلامی کتب میں صراحت سے احادیث ملتی ہیں جو حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔
علمائےاہل سنت کے مطابق حضرت مہدی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی بن ابی طالب کی نسل سے ہوں گے۔ ان کا نام محمد ہوگا اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے مگر پیدا ہونے کے بعد وہ باقاعدہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جنگ کریں گے اور ایک اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی پیدائش قیامت کے نزدیک ہوگی۔ اور ان کا ظہور مشرق سے ہوگا اور بعض روایات کے مطابق مکہ سے ہوگا۔ ان کے ظہور کی نشانیاں بھی کثرت سے بیان کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں۔ جن پر شیعہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں۔ اس بارے میں ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ یہ روایات مصدقہ ہیں۔[26]
شیعہ اہل سنت کی کچھ روایات سے اتفاق کرتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مہدی پیدا ہو چکے ہیں اور امام حسن بن علی عسکری کے بیٹے ہیں یعنی ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی کی نسل سے ہیں۔ وہ اب غیبت کبرٰی میں ہیں اور زندہ ہیں یعنی ان کی عمر خضر اور عیسی مسیح کی طرح بہت لمبی ہے۔ وہ قیامت کے نزدیک ظاہر ہوں گے۔
زیدیہ شیعہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مہدی زیدی شیعہ اماموں میں سے ایک امام ہوں گے،تاہم ان کی پیدائش ابھی نہیں ہوئی بلکہ وہ امام حسن یا امام حسین کی نسل سے قرب قیامت پیدا ہوں گے۔[27] زیدی شیعہ کتاب المُحيط بالإمامَة میں روایت ہے کہ:
” |
قال أبو خالدٍ الواسطيّ: سَألنا زيد بن علي إ عَن المهدي أكائنٌ ہو؟ فقَال: نعَم، فقيل لہ: أمِنْ ولَدِ الحسنِ أم مِن ولَد الحُسين؟ فقال زيد ؛: « أما أنّهُ مِن ولَدِ فَاطمة -صلوات اللہ عليها-، وہو كائنٌ مِمَّن شَاءَ اللہ مِن وَلَدِ الحَسنِ، أمْ مِن وَلَدِ الحُسَين -صلوات اللہ عليهم-» |
“ |
یعنی ابوخالد واسطی نے امام زید سے پوچھا مہدی کے متعلق کہ کیا وہ آئیں گے،تو انھوں نے فرمایا ہاں، پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اولاد حسین سے ہوں گے؟ تو امام زید نے فرمایا کہ اگرچہ وہ فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے،لیکن اللہ چاہے تو وہ امام حسن کی نسل سے ہوں گے اور اگر اللہ چاہے تو امام حسین کی نسل سے ہوں گے[28]
جہاں مسلمان فرقوں میں امام مہدی کا تصور پایا جاتا ہے وہاں مسلمان فرقون میں سے ایک قدیم فرقہ یعنی اباضیہ کے نزدیک وجود حضرت مہدی یا عقیدہ حضرت مہدی کا تصور موجود نہیں۔ اباضیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ عقائد کے لیے قطعی دلائل کی ضرورت ہے جو قرآن سے ثابت ہو،لیکن ایسا عقیدہ جو قرآن سے چابت نہ ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔ اباجیہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ افکار و عقائد مہدی مسلمانوں کے درمیان یہودیوں سے رایج ہوا جنھوں نے اپنی کتابون کے منحرف نظریات مسلمانوں میں پھیلا دیے۔[29] زکریا خلیفہ لکھتے ہیں :
” | انتشر بين بعض المسلمين فكرة ظہور رجل خارق في آخر الزمان يملأ الدنيا قسطاً وعدلاً بعدما ملئت ظلماً وجورا في فترة لا تتجاوز الأيام المعدودة ، وأنہ ھو المهدي المنتظر ۔۔ لم يقبل الإباضية بمثل هذہ الأفكار لمخالفتها منهج القرآن الكريم الذي وعد المسلمين بالنصر والتمكين في أي زمان ومكان إن هم أقاموا منهج اللہ وشرعہ ، كما إن تلك الأفكار تنشر في الأمة التخاذل والتواكل وانتظار المجہول دون محاولة للسعي والعمل ، وفكرة المهدوية ذات أصول توراتية وهي في حقيقتها بشارة بالنبي الخاتم محمد صلى اللہ عليہ وآله″ [30] | “ |
یعنی مسلمانوں کے بیچ جو فکر موجود ہے کہ آخری زمانے میں ایک خارق عادت شخص دنیا کو ظلم و جور سے نکال کر عدل و انصاف سے بھر دے گا چند ہی برس میں،اور عہ مہدی منتظر ہوگا،اباضیہ مذہب ایسی فکر کو قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ افکار قرآن کے خلاف ہیں۔ ۔۔۔۔ الخ اباضی مسلمان عالم شیخ سعید بن مبروک القنوبی جو اس مسلک کے حدیث کے ماہر بھی ہیں، کہتے ہیں : أحاديث المهدي مكذوبة موضوعة، لم تثبت عن رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ)۔ یعنی اھادیث مہدی ھجوٹ اور گھڑی ہوئی ہیں،اور یہ رسول صلی اللہ علیہ والہ سے ثابت نہیں ہیں۔[31] اور اباضی عالم الشيخ ناصر بن أبي نبهان الخروصي لکھتے ہیں کہ: وفي أخبار قومنا إن اللہ يبعث المهدي ويخرج الدجال وينزل عيسى من السماء، وكل ذلك في نفسي بعيد من الصواب، ومعي إن الخضر ميت وعيسى كذلك یعنی ہماری قوم میں جو روایات ہیں کہ اللہ تعالی مہدی کو بھیجے گا،دجال کا ظہور ہوگا،اور عیسی آسمان سے اتریں گے ،یہ تمام باتیں میرے نزدیک حقیقت سے دور ہیں،اور ساتھ ہی یہ بتا دوں کہ خضر اور عیسی علیہما السلام کی وفات ہو چکی ہے۔[32]
شیعہ اسماعیلی باطنی فرقوں میں امام مہدی کا عقیدہ تمام مسلمانوں کی عقیدہ کے برعکس ہے۔جہان پوری امت مہدی مغود کا منتظر ہیں۔تو ایک طرف باطنی اسماعیلیوں کا دعوی ہیں کہ مہدی کا ظہور ان کی بارھویں امام عبید اللہ المھدی کی صورت میں ظہور کا زمانہ ہو چکا ہے۔اور مہدی کے بعد ان کے فرزند قائم بن المہدی کو اس کا جانیشن مانتے ہیں۔یہ وہی زمانہ تھا جب 297ء میں فاطمی خلافت کا بنیاد اسماعیلی امام المہدی نے رکھی تھی۔۔اور تقریباً تین سوسال تک فاطمی حکومت قائم رہی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوئی۔فاطمی خلافہ المہدی کے زمانے میں ابوطاہر کے پیروکار قرامطی اسماعیلیوں نے خانہ کعبہ سے حجر اسود چوری کرکے یمن لے گئے اور دس سال تک قرامطیوں کے قبصہ میں رہے۔اس وقت فاطمی خلافہ نے بھی قرامطیوں کی اس فغل کو نامناسب قرار دیا۔اور انھیں پیغام بھیجا کہ حجر اسود کو واپس مکہ میں لایاجائے مگر قرامطیوں نے انکار کیا۔۔بالاخرعباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانے میں حجراسود کو دوباره خانہ کعبہ لائی گئی ۔
"" قال رسول اللہ (ص)"" «من انکر المهدی فقد کفر» یہ حدیث شیعہ اور سنی مکاتب کی مشہورترین اور معتبرترین حدیث ہے۔[33]
«عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: "من کذب بالدجال فقد کفر، ومن کذب بالمهدی فقد کفر" ۔(عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ج1، ص36 ۔) [34] جس نےدجال کے وجود اور خروج کو جھٹلایا وہ کافر ہے اور جس نے مہدی کو جهٹلایا وہ کافر ہے۔
من انکر خروج المهدی فقد کفر۔ [35] جس نے قیام مہدی کو جھٹلایا وہ کافر ہوا۔[حوالہ درکار]
عن جابر رفعہ من أنکر خروج المهدى فقد کفر بما انزل على محمد۔ [36] جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت مرفوعہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے قیام مہدی کا انکار کیا وہ ان تمام چیزوں پر کافر ہوا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہیں۔[حوالہ درکار]
حضرت مہدی کا نام صریحا قرآن میں ذکر نہیں ہوا ہے اور نام پر عدم تصریح مصلحتوں پر استوار ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہیں ؛ تاہم جان لینا چاہیے کہ نام ذکر کرنا شخصیات کے تعارف کا ذریعہ نہیں ہے اور صفات و خصوصیات سے بھی تعارف کرایا جا سکتا ہے ؛ چنانچہ حضرت مہدی کو صفات و خصوصیات کے ذریعے متعارف کرایا گیا ہے -[37] قرآن میں مہدی کو بعض خصوصیات اور صفات کے ذریعے متعارف کرایا گیا ہے
خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے : {وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ}- "اور ہم نے ذکر (تورات) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ اس آیت میں زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے "-[38]
حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی امام باقر اور امام صادق سے نقل کرتے ہیں کہ "اس آیت میں خدا کے صالح بندوں سے مراد مہدی اور ان کے اصحاب ہیں "[39]
نجات دہندہ کی آنے کا بیان بہت سی قرآنی آیات میں موجود ہے مثلا سورہ قصص کی پانچویں آیت میں ارشاد باری تعالی ہے : وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ۔ القصص / 5 ۔[40] اور ہم نے ارادہ کیا کہ ان ضعیف اور ماتحت بنائے جانے والے انسانوں کو روئے زمین کے پیشوا بنا دیں اور انھیں زمین کے وارث قرار دیں۔
احادیث کی کتب میں تواتر کے علاوہ امام مہدی کے بارے میں کئی مشہور علما نے مکمل کتب تحریر کی ہیں، جن کا تعلق اہل سنت کے مختلف مکتب فکر سے ہے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
شیعوں کی طرح اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت سی روایات امام مہدی کے بارے میں نقل کی گئی ہیں حتی کہ بعض اہل سنت کے مصنفین نے مستقل کتابیں حضرت مہدی کے بارے میں لکھی ہیں جس سے وہ اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے کہ جنھوں نے کہا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
1ـ ابراز الوهم المكنون من كلام ابن خلدون، ابوالفيض سيد احمدبن محمد بن صديق غمارى، شافعى، ازهرى، مغربى، (متوفی1380 ) مطبعہ ترقى دمشق 1347۔ 2ـ ابراز الوهم من كلام ابن حزم، احمدبن صديق غمارى مؤلف قبل، مطبوعة 1347 مطبعة ترقى دمشق۔
3ـ الاحتجاج بالاثر على من انكر المهدى المنتظر، جامعہ مدینہ کے استاد شيخ حمّود بن عبد اللّہ تويجرى، یہ کتاب شيخ ابن محمود قاضى قطری کی کتاب کے جواب میں تحریر ہوئی ہے۔ جلد اول 1394 و جلد دوم 1396 رياض۔ سعودی عرب۔
4ـ الى مشيخة الازهر، شيخ عبد اللّہ سبيتى عراقى۔ یہ کتاب سعد محمد حسن « المهدوية فى الاسلام» کی جواب میں تحریر ہوئی ہے۔ مطبوعہ 1375 ہـ دارالحديث بغداد۔
5ـ تحديق النظر فى أخبار الامام المنتظر، ابن خلدون کے دعؤوں کے جواب میں شيخ محمد عبد العزيز بن مانع نے لکھے اور 1385 ہجری کو شائع ہوئی ہے۔
6ـ الرد على من كذّب بالاحاديث الصحيحة الواردة فى المهدى، جامعہ اسلامی مدینہ منورہ کے استاد اور اس کے تعلیمی بورڈ کے رکن عبد المحسن العباد، نے لکھی ہے اور اسی جامعہ کے رسالہ شمارہ 45 ص 297 ــ 328 و شمارہ 46 ص 361 ــ 383، میں چھپی ہے۔
7ـ الوهم المكنون فى الردّ على ابن خلدون، ابوالعباس بن عبد المؤمن، مغربى۔
حضرت مہدی از مفتی اسعد قاسم سنبھلی ،ناشر مکتبہ نعیمیہ دیوبند* امام مہدی کے بارے احادیث نبوی کا ذخیرہ مع تحقیق و تخریج (عربی، اردو) از ڈاکٹر محمد طاہرالقادری[41]
ولادت کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق امام مہدی کی ولادت ابھی نہیں ہوئی اور یہ پیدائش آخری زمانے میں قیامت سے کچھ پہلے ہوگی۔ البتہ ان کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور حضرت علی کی نسل سے ہوگا۔ ان کا نام محمد ہوگا۔ اور کنیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح ابو القاسم ہوگی۔
اہل تشیع کے عقائد کے مطابق وہ 15 شعبان 256 ہجری کو سامراء (موجودہ عراق) میں پیدا ہوئے ہیں اور حسن بن علی عسکری کے بیٹے ہیں اور والدہ کا نام نرجس یا ملیکہ تھا جو قیصرِ روم کی نسل سے تھیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے حاکم وقت نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اس لیے ان کی پیدائش کا زیادہ چرچا نہیں کیا گیا۔ حاکم وقت نے ان احادیث کو سن رکھا تھا کہ اہل بیت سے بارہ امام ہوں گے جن میں سے آخری امام مہدی ہوں گے جو حکومت قائم کریں گے۔ تمام اسلامی فرقے متفق ہیں کہ ان کا نام محمد اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔
حوالوں میں دی گئی قدیم کتب میں ان کے کئی القاب ملتے ہیں۔ جن میں سے مہدی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ان کا اصل نام محمد ہے مگر مہدی اس قدر مشہور ہے کہ اسے ہی ان کے نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے القاب و خطابات یہ ہیں :
اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی پیدا ہو چکے ہیں۔ وہ پانچ سال کی عمر میں غیبت میں چلے گئے مگر اپنے عمال یا نائبین کے ساتھ رابطہ رکھا۔ اس وقت کو غیبت صغریٰ کہتے ہیں۔ غیبتِ صغرٰی کے دوران میں وہ اپنے معاملات اپنے نائبین کے ذریعے چلاتے رہے۔ ایسے چار نائبین کے نام تاریخ میں ملتے ہیں۔ غیبتِ صغریٰ 260ھ سے 329ھ تک چلتی رہی۔ بعد میں وہ مکمل غیبت میں چلے گئے جسے غیبت کبرٰی کہتے ہیں اس دوران میں انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا اور ان کا ظہور حدیث کے مطابق آخرالزمان یا قیامت کے قریب ہوگا۔ تب تک نیک علما لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
حضرت مہدی کے ظہور کی بے شمار علامات کتب اہل سنت اور اہل تشیع دونوں میں ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض پوری بھی ہو چکی ہیں۔ ان علامات میں سے کچھ حتمی ہیں اور کچھ غیر حتمی۔ حتمی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن کا بروایت پورا ہونا ضروری ہے۔ کچھ ان کے ظہور سے کافی پہلے وقوع پزیر ہوں گی اور کچھ ظہور کے نزدیک۔ یہاں ان میں سے کچھ درج کی جاتی ہیں۔
شیعہ و سنی کے ہاں جہاں حضرت مہدی کی آمد یا پیدائش کے قائل ہیں وہیں معاصر علما میں سے ایک تعداد حضرت مہدی کے وجود یا ان کی آمد کو نہیں مانتے،بلکہ ان کے خیال میں اسلامی منابع حدیث میں تصور حضرت مہدی دراصل یہودیوں یا اسرائیلی روایات میں سے ہیں۔ چنانچہ عہد حاضر میں چند علما وجود حضرت مہدی پر یا ان کی آمد پر تحفظات رکھتے ہیں۔ مثلا عراق کے گیارہ امامی عالم احمد الکاتب کے نزدیک وجود حضرت مہدی اور ان کی آمد ثابت ہی نہیں۔ چنانچہ انھوں نے اس موجوع پر پانچ کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ ان سے قبل ایران کے مجتہد سید ابوالفضل برقعی قمی نے شیعہ کتاب حدیث بحار الانوار جلدنمبر 51،52 اور 53 میں موجود روایات پر تحقیق کر کے ایک کتاب بررسی علمی در احادیث مہدی لکھی" جس میں بحار الانوار کی تینوں جلدوں میں موجود روایات کا سند و متن کے لحاظ سے رد کیا گیا۔ یہی روش پاکستان کے عالم سید علی شرف الدین موسوی نے اپنایا اور شیعہ و سنی دونوں کتب میں موجود روایات حضرت مہدی پر تحقیق کی اور اپنی کتاب باطنیہ کے حصہ دوم میں کئی سو صفحات پر اس کا رد کیا ہے۔ ایران میں معاصر عالم سیدمصطفیٰ ھسینی طباطبائی کے نزدیک بھی حضرت مہدی کے متعلق روایات قابل اعتبار نہیں۔ عبد اللہ آل محمود قطر کے سلفی عالم نے ایک کتاب التحقيق المعتبر في أحاديث المهدي المنتظر [55] لکھی ،جس میں حضرت مہدی کے متعلق تمام احادیث کا جائزہ لیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ مہدی کے متعلق ایک بھی قابل اعتبار روایت نہیں اسی لیے بخاری مسلم نے یہ روایات قبول نہیں کیں۔ علامہ البانی نے اس رسالہ کے رد کرتے ہوئے ایک تحریر لکھی تھی،علی گڑھ۔انڈیا کے ایک شخص راشد شاز دربھنگوی نے بھی حضرت مہدی کی آمد کا انکار کیا ہے جس کی وجہ سے معروف مسلم اداروں نے اسے ضال ومضل قرار دیا۔
ابتدا سے مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد اس عقیدے کی صحت سے متعلق تحفظات کا شکار رہی جن میں عمان میں رہنے والے اباضی مسلمان ( جن کی تعداد تقریباً 70 سے 80لاکھ تک ہے ) سر فہرست ہیں، اس کے علاوہ زیدیہ فرقہ کے کچھ لوگوں کے ہاں بھی یہ عقیدہ مشکوک مانا جاتا ہے جیسے علامہ شیخ سالم عزان زیدی ۔ برصغیر میں علامہ اقبال، مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ تمنا عمادی، علامہ طاہر مکی، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی وغیرہم اس عقیدے کی صحت کے قائل نہیں تھے ۔ سید مودودی بھی اس عقیدے کی من و عن تفصیلات کی بابت تحفظات کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ مشہور مغربی محدث جناب ڈاکٹر محمد عمراني حنشي جو فقہ میں مالکی اور عقائد میں سلفی ہیں وہ بھی مہدی سے متعلق روایات کی صحت کے قائل نہیں اور اس عقیدے کی بابت تحفظات رکھتے ہیں۔ مشہور افغانی حنفی عالم جناب ابوبکر عبد الرؤف صافی افغانی بھی اس عقیدے کی صحت کے قائل نہیں ہیں۔ ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہؒ امام مالک ؒاور امام شافعی ؒ سے اس عقیدے کی نفی و اثبات دونوں کی بابت کچھ نہیں ملتا تاہم امام احمد بن حنبل ؒ کی مسند احمد میں مہدی سے متعلق احادیث پائی جاتی ہیں۔علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس عقیدے کی نفی کرکے اس عقیدے سے متعلق احادیث پر جرح نقل کی ہے جس کو اکثر اہل حدیث و سلفی علما نے کالعدم قرار دیکر ان احادیث کی صحت کا فتویٰ دیا ہے۔ تاہم معاصر سلفی علما میں سے "الشيخ سیدعبدالله بن زيد آل محمود الشريف حسنی الہاشمی" جو قطر کے مشہور اور جید سلفی عالم اور مفتی اعظم قطر تھے اور جن سے نجد،قطر اور حجاز وغیرہ کے بڑے بڑے سلفی علما نے دینی تعلیم حاصل کرکے کسب فیض کیا اور ان کے دروس میں شریک ہوئے. آپ مہدی منتظر کے عقیدہ (پیدائش،آمد،وجود،خروج) کے قائل نہ تھے ۔ شیخ عبد اللہ بن زید نہ صرف علامہ ناصر الدین البانی کے قریبی دوستوں میں سے تھے بلکہ حرم مکی میں عرصہ دراز تک درس بھی دیتے رہے ہیں۔ مشہور موحد شیعہ عالم آیت اللہ برقعی نے اپنی کتاب "احادیث مہدی پر علمی تحقیق" میں علامہ عبد اللہ بن زید کا بھی ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ا پنی کتاب کے دیباچہ میں شیخ عبد اللہ بن زید کی کتاب "لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر" سے چند اقتباسات بھی ذکر کیے ہیں۔ اس نالج شیئرنگ کی وجہ غالباً یہ بھی رہی ہوگی کہ علامہ عبد اللہ بن زید اور آیت اللہ برقعی معاصر تھے۔ یاد رہے شیخ عبد اللہ بن زید اس پائے کے سلفی عالم تھے کہ ان کی اس کتاب کے آنے کے بعد علامہ ناصر الدین البانی نے شیخ کی اس کتاب پر اظہار خیال کیا اور ان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا لیکن پھر بھی شیخ البانی نے شیخ عبد اللہ کے حق میں دعائے خیر کی کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ شیخ عبد اللہ بن زید اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ: "جب ہم خود کو سلفی مسلمان کہتے ہیں،اور ہمارا عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے تو ہمیں حق و قول صدق کو لازم پکڑنا چاہیے" پھر آگے لکھتے ہیں:"جب ہم مہدی سے متعلق احادیث کو پڑھتے ہیں تو ان کی صحت و صلاحیت ،اور اس پر اعتقاد کے حوالے سے تحقیق اور پڑھنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے روایات تعارض و اختلاف کا شکار ہیں۔۔۔اشکالات ہیں۔علما محققین متاخرین اور بعض متقدمین نے ان روایات پر حکم لگایا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺکی زبان سے مصنوع و موضوع روایات ہیں۔اور یہ روایات آپ ﷺ کا کلام نہیں ہیں۔نہ اس مجہول شخص سے متعلق روایات صحیح ہیں،نہ یہ متواتر ہیں،نہ صریح ہیں۔شیخ مزید لکھتے ہیں: "بعض لوگ کہتے ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ان روایات کو درست مانتے تھے؟ میں کہتا ہوں ہاں میں نے بھی شیخ الاسلام کا قول پڑھا ہے جس میں وہ خروج مہدی کے اثبات کو لاتے ہیں 7 احادیث جنہیں ابوداود نے ذکر کیا ہے،میں بھی اپنی زندگی کے ابتدا میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ہی عقیدہ رکھتا تھا اس حوالے سے،اور میں ان کے قول سے متاثر بھی تھا،لیکن جب میں 40 سال کا ہو گیا اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ،اور احادیث مہدی کے معرفت ،علل و تعارض اور اختلاف کو سمجھنے کے قابل ہوا،تو میں نے یہ برا عقیدہ چھوڑ دیا الحمد اللہ۔اور میری معرفت یہ بن گئی کہ بعد از رسول اللہ ﷺ اور بعد از کتاب اللہ کوئی مہدی نہیں،اور بے شک شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہمارے محبوب ہیں لیکن وہ ہمارے رب یا نبی نہیں۔"
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.