قرآن کے ابواب کا جملہ یا سطر From Wikipedia, the free encyclopedia
آیت (عربی: آية) عربی زبان کا اسمِ مونث جس کے معنی ہیں اس نے نشانی کی۔ اصطلاحاً قرآن میں ایک پورا جملہ جو شروع ہوتا اور ختم ہوتا ہے،وہ گول نشان قرآن میں جملہ ختم ہونے پر ٹھہرنے کے واسطے بنا ہوتا ہے۔ کلام الہٰی کا ایک فقرہ بھی آیت کہلاتا ہے۔ قرآن شریف پڑھتے وقت جس آیت پر قطعی ٹھہرنا پڑے اسے آیت مطلق اور جس پر ٹھہرنا لازم نہ ہو۔ اسے آیت (لا) کہتے ہیں۔ _______________ آیت کلام الٰہی یا اللہ کی بات۔ بامعنی فقرہ یا جملہ مکمل ہونے کے علامتی نشان کو بھی آیت کہتے ہیں۔۔ آیت لفظ صرف کلام اللہ سے مخصوص ہے ۔۔۔ یعنی قرآن میں درج اللہ کی باتیں۔۔ آیت کی جمع آیات اور آیتیں ہے۔ عام طور پر ہر بات کے لیے لفظ آیت کا استعمال درست نہیں۔۔
الہامی کلام کے ایک ٹکڑے کو آیت یا درس کہتے ہیں کیونکہ وہ خدا کی عطمت وربوبیت کا نشان ہے،آیتوں کی تقسیم صرف الہامی صحیفوں میں ہوتی ہے،نیز آیتوں کے مقمات توقیفی ہیں کسی کو نحوی ترکیب یا معنوی تعلقات کی بنیاد پر تبدیلی کی اجازت نہیں ہے۔[1]
خود قرآن مین آیت مختلف معنوں مین آیا ہے۔
یہسورۃبقرہ کی آیت 255 ہے جو آیت الکرسی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ نام خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کو دیاہے اور شروع سے ہی مسلمان اس کو اس نام سے پکارتے آئے ہیں۔ اس کے فضائل حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔
سورۃ سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں۔ جس میں نجران کے عیساہیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مباہلہ کرنے کا کہا گيا۔ مگر مسیحی ڈر گئے اور مباہلہ نہ کیا۔
” | پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آ جانے کے بعد جو تم سے عیسی کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو:آو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔ | “ |
(ترجمہ، صراط الجنان فے تفسیر القران، مفتی محمد قاسم)
سورۃ النور کی آیت 35 کو علما اور مفسرین نے "آیت نور" کا نام دیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی کی ایک صفت "نور" کا بیان ہے کہ "اللہ زمیں و آسمان کا نور ہے
” | اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا، روشن ہرتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے، نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ مثالیں بیان کرتا فرماتا ہے لوگوں کے لیے اور اللہ سب کچھ جانتا اے | “ |
(ترجمہ کنز الایمان، احمد رضا خان)
سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12۔ کو تفاسیر میں آیت المواریث کہا گيا ہے، جن کی اساس پر اسلامی قانون میراث استوار ہے۔ آیت کا ترجمہ
” | اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لیے ترکے کا دو تہائی حصہ ہو گا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے اور اگر میت کی اولاد ہو تو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے ترکے سے چھٹا حصہ ہو گا پھر اگر میت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لیے تہائی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہو گا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پوراکرنے) کے بعد(ہوں گے) جو وہ (فوت ہونے والا) کر گيا اور قرض(کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے)۔ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑے علم والا، حکمت والا ہے۔(11)اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جاہیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے تمہارے لیے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے ہئے چوتھائی حصہ ہے۔ (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (بعد ہوں گے) اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لیے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اور اولاد (میں سے) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) میں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہو گا پصر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا ہے ، بڑے حلم والا ہے۔(12) | “ |
۔[2]
وہ آیات جن کی تلاوت کرنے یا ان کو سننے پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک یہ سجدہ واجب ہے بعض کے نزدیک سنت۔ قرآن میں ایسے 14 متفق علیہ اور ایک اختلافی مقام، جن کو تلاوت کرنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔
مکی و مدنی دونوں اصطلاحیں ہیں۔ جو آیات ہجرت سے پہلے نازل ہوہیں وہ مکی اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوہیں وہ مدنی۔ اکثر آیات مدنی ہیں جو قرآن کے شروع کے پاروں میں ہیں۔
بعض دفعہ ایک یہ بھی تقسیم کی جاتی ہے کہ جو آیات مکہ کے لوگوں کو خطاب کرنے لی لیے نازل ہوہیں وہ مکی اور جو مدینہ کے لوگوں کو خطاب کرتی ہیں وہ مدنی، اس طرح یہ بھی ایک صورت ہے کہ مکی وہ آیات جو مکہ میں نازل ہوہیں (اس میں فتح مکہ اور حجۃالوداع پر جو نازل ہوہیں وہ بھی )مکی ہیں۔ جو سفر میں (مکہ اور مدینہ کے باہر) نازل ہوہیں، وہ نہ مکی نہ مدنی۔[3]
ایسے جملے جن کے معنی صاف ظاہر نہ ہوں بلکہ تاویل اور تفسیر کے محتاج ہوں اور ان میں بہت سے معنوں کا احتمال ہو۔ آیاتِ متشابہات کہلاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک متشابہات وہ آیتیں ہیں جن کاعلم خدائے تعالٰے کے سوا کسی کو نہیں۔
جو آیتیں تاویل کی محتاج نہیں ہیں ان کے معنی صاف ظاہر ہیں، انھیں آیات محکمات کہتے ہیں۔
وہ آیات جن میں حفاظت و نگہبانی کا ذکر ہو، جیسے
وہ آیات جو عقل و فکر اور دلیل و ب رہان کی دعوت دیتی ہیں۔
وہ آیات جن میں اللہ کی صفت رحمت کا ذکر ہو۔ جیسے سورہ مریم کی پہلی آیت۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.