مجتہد، مجدد، مصلح، نعت گو شاعر From Wikipedia, the free encyclopedia
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف[7] جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ امام احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنفی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ حضرت عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔[8] امام احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرعی حیثیت سے ناجائز ہے۔[9] عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، [10] عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔[11]
کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ امام احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سےامام احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے۔
ان کا قد میانہ اور رنگ چمکدار گندمی تھا یہ بلند پیشانی، بینی نہایت ستواں تھی، آنکھیں بہت موزوں و خوبصورت تھی۔ نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔ داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔ سرپر ہمیشہ عمامہ بندھا رہتا تھا۔گردن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔ ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سفید ہی کپڑے پہنا کرتے۔آپ کی آواز نہایت پردرد تھی اور کسی قدر بلند تھی۔ آپ جب اذاں دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ آپ بخاری طرز پر قرآن پاک پڑھتے۔ آپ کا طرز ادا عام حفاظ سے جدا تھا۔ بڑے بڑے قاریوں کا یہ کہنا ہے کہ ضاد کا مخرج ایسا صاف و شفاف ادا کرتے کسی قاری کو نہ سنا۔ اس مخرج کی تحقیق میں آپ نے ایک مکمل کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام الجام الصاد عن سنن الضاد ہے۔ [12]
اعلیٰ حضرت کی پیدائش 14 جون 1856ء کو بریلی میں ہوئی۔دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔[13][14][15]ان کی سب سے بڑی کتاب کا نام فتاوی رضویہ ہے، جس کی بتیس جلدیں ہیں، یہ ان کے فتاوی کا مجموعہ ہے۔ [16]
رضا علی خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلی شادی | دوسری شادی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
(دختر) زوجہ مہدی علی | نقی علی خان | مستجاب بیگم | ببی جان | ||||||||||||||||||||||||||||||
احمد رضا خان | حسن رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
حامد رضا خان | مصطفٰی رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
ابراہیم رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
اختر رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
عسجد رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
احمد رضا خان کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ بڑيچ سے ہے۔ احمد رضا خان کے جد اعلیٰ سعید اللہ خان قندھار کے پٹھان تھے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ لاہور کا شیش محل انھی کے زیر اقتدار تھا۔ احمد رضا خان کو مغل بادشاہ نے شش ہزاری کے منصف سے سرفراز کیا اور شجاعت جنگ کا خطاب دیا۔ سعید اللہ کے فرزند سعادت یار خان تھے، احمد رضا خان کو مغلیہ حکومت نے روہیل کھنڈ کی جنگی مہم پر بھیجا، جس میں کامیابی پر احمد رضا خان کو بریلی کا صوبہ دار منتخب کیا گیا اور بدایوں و روہیل کھنڈ کے متعدد مواضع جاگیر میں ديئے گئے۔ سعادت یار کے بیٹے محمد اعظم خان تھے، احمد رضا خان کا مزاج مذہبی تھا، علوم و فنون سے گہری دلچسپی تھی۔ سلطنت مغلیہ میں بریلی میں وزارت ملی ہوئی تھی، لیکن مذہب سے شدید وابستگی نے اس عہدہ سے سکبدوش کرا دیا۔ ان کے بیٹے کاظم علی خان تھے جو بدایوں کے تحصیل دار تھے، احمد رضا خان کو اٹھ گاؤں جاگیر میں ملے ہوئے تھے۔ احمد رضا خان سے متعدد کرامات مشہور ہیں۔ کاظم علی کے بیٹے رضا علی خان تھے جھنوں نے ہندوستان میں پہلا باقاعدہ دارالافتا قائم کیا اور جنگ آزادی ہند 1857ء میں حصہ لیا، جنرل ہڈسن نے احمد رضا خان کے سر کی قیمت پانچ سو روپے مقرر کی تھی۔ احمد رضا خان تصوف کی طرف مائل تھے۔ احمد رضا خان کی وفات 1865ء میں ہوئی۔ احمد رضا خان نے والدنقی علی خان تھے جو صاحب تصانیف بزرگ ہیں۔ احمد رضا خان نے زندگی بھر دینی تعلیم کی تدریس کی۔
امام احمد رضا خان کل چھ بہن بھائی پیدا ہوئے، جن میں سے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، سب سے چھوٹی بہن کا جوانی ہی میں انتقال ہو گیا۔ امام احمد رضا خان بھائیوں سے بڑے اور دیگر دو بہنوں سے چھوٹے تھے۔ چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر پر مجمع کے سامنے مولود پڑھا۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد اپنے والد حضرت نقی علی خان سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک عالم دین ہو گئے۔ 14 شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں امام احمد رضا خان کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد نے امام احمد رضا خان کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت ان کے سپرد کی۔ جسے امام احمد رضا خان نے 1340ھ مطابق 1921ء اپنی وفات کے وقت تک جاری رکھا۔ امام احمد رضا خان کے ابتدائے شباب میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔
ویکی اقتباس میں احمد رضا خان سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
رسم بسم اللہ خوانی کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ احمد رضا خان نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں جب کہ عموما دو سرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول شریف کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد مرزا غلام قادر بیگ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، پھر احمد رضا خان نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو امام احمد رضا خان فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ اسی دن مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا۔ جواب بالکل صحیح تھا۔ والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع وقاد دیکھ کر اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت امام احمد رضا خان کے سپرد کردی۔ امام احمد رضا خان نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیر ہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ عبد العلی رامپوری سے پڑھا، پھر احمد رضا خان نے کسی استاذ سے بغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کے اساتذہ کی فہرست تو بہت مختصر ہے لیکن مولانا نے بہت سے فنون میں کتابیں لکھیں سید ظفر الدین بہاری نے 1327ھ مطابق 1909ء میں مولانا کی تصانیف کی ایک فہرست بنام المجمل المعدد لتالیفات المجدد مرتب فرمائی اور آخر میں ایک جدول پیش کی جس میں ان سبھی علوم و فنون کا نام ہے جن میں 1327ء تک مولانا کتابیں تصنیف کیں۔[17]
احمد رضا خان کے اساتذہ:[18]
احمد رضا نے 1877ء (1294ھ) میں اپنے والد نقی علی خان کے ہمراہ شاہ آل رسول مارہروی (م 1878ء) سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے۔ فاضل بریلوی مندرجہ ذیل سلسلوں میں اجازت بیعت حاصل تھی:
مندرجہ بالا سلاسل میں اجازت کے علاوہ فاضل بریلوی کو مصافحات اربعہ (مصا حفۃ الحسنیہ، مصاحفۃ العمریہ، مصاحفۃ، الخضریہ، مصافحۃ المنانیہ) کی سند بھی ملی۔
ان مصافحات و اجازت کے علاوہ مختلف اذکار اشغال و اعمال وغیرہ کی بھی احمد رضا خان کو اجازت حاصل تھی جیسے خواص القرآن اسماء الٰہیہ، دلائل الخیرات، حصن حصین، حزب البحر، صزب النصر، حرز الامیرین، حرز الیمانی دعاءمغنی، دعا حیدری، دعا عزارائیلی، دعا سریانی، قصیدہ غوثیہ، قصیدہ بردہ وغیرہ۔
ذوالحجہ 1294ھ مطابق دسمبر 1877ء میں پہلی بار مولانا نے حج کیا پھر ربیع الاول 1324ھ مطابق اپریل 1906ء میں محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کر بارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے بڑے بڑے علما احمد رضا خان کے علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر احمد رضا خان کے نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور احمد رضا خان کو استاد و پیشوا مانا[19][20][21]
1904ء آپ کے قریبی دوست سید امیر احمد اور شاگرد ظفر الدین بہاری کے اصرار پر آپ نے نئے مدرسے کے قیام کے لیے ہامی بھر لی۔ 1904ء (1322ھ) بریلی میں رحیم یار خان نامی شخص کے مکان میں دو طلبہ ظفر الدین بہاری اور عبد الرشید عظیم آبادی کو صحیح بخاری کا درس دیا۔ اس مدرسے کا نام دار العلوم منظر اسلام رکھا گیا۔
شیعیت کے خلاف احمد رضا خان نے کئی فتوی جاری کیے اور کتب و رسائل لکھے، جن میں شیعی عقائد و رسومات کی پرزور مذمت کی اور شیعہ کے بعض عقائد کی بنیاد پر ان کو کافر کہا۔[22][حا-1] احمد رضا خان نے اپنی کتاب احکام شریعت میں امیر معاویہ پر طعن کرنے والے کو جہنمی کتا کہا اور رد الرفضہ نامی رسالے میں خلافت ابو بکر کے منکر کے بارے لکھا کہ وہ مذہب صحیح (یعنی حنفیت کا ثابت شدہ مسئلہ) پر کافر ہے، یوں ہی شیخین (یعنی ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب) کو برا کہنے والے یا تبرا کرنے والے کو کافر لکھا اور کتاب برہان شرح مواہب الرحمن کے حوالے سے خلافت عثمان کے منکر کو بھی کافر کہا۔ اور ایسے امام کے پیچھے نماز کو ناجائز کہا جو خلفا ثلاثہ (پہلے تین خلفائے اسلام) کو برا کہے یا تنقیص کرے۔ اسی کتاب میں سنی شخص کو شیعہ کا شرعی وارث نہ ہونے کا فتوی موجود ہے۔
دیگر رسائل و فتاوی میں شیعی اذان میں کلمہ خلیفہ بلا فصل کا رد، کیا تعزیہ داری اور شہادت نامہ جیسے اعمال کو حرام قرار دیا، پہلے خلیفہ برحق کی تحقیق میں ابوبکر صدیق کی خلافت پر دلائل دیے، شیخین کی علی ابن طالب پر فضیلت پر دلائل، تفضیلی و امیر معاویہ پر تنقید کرنے والوں کا رد کیا۔
احمد رضا خان کے زمانے میں کئی مکاتب فکر اور فرقے کے لوگ ظاہر ہوئے تھے جن کے بارے میں ان کا تجزیہ تھا کہ وہ اسلام و سنیت کے خلاف دھوکے کا جال بچھا کر بھولے بھالے مسلمانوں میں خوب گمراہی پھیلا رکھی تھی۔ احمد رضا خان نے دین و شریعت کی حمایت میں ان مبینہ گمراہ گروہوں سے اور حق و باطل کو خوب واضح کر کے پیش کرنے کی کوشش کی۔[23] احمد رضا خان کے فتاوے اور کتابوں کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہزاروں مسلمانوں کو حلقہ بگوش کیا۔ بہت سے وہ علما جودوسرے مسلکوں کے سیلاب میں بہتے جا رہے تھے احمد رضا خان کی رہنمائی سے متاثر ہوئے۔ جب کچھ دوسرے مسلکوں کے لوگوں نے سرکار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شان میں گستاخی اور توہین کتابوں میں شائع کی اور مسلمانوں کو بگاڑنا شروع کیا تو احمد رضا خان نے اٹل پہاڑ کی طرح جم کر سرکار محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی محبت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخی کرنے والوں کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی۔[24]
احمد رضا خان نے کم و بیش پچاس[25] مختلف علوم فنون پر ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔[26] ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔
احمد رضا خان نے اردو، عربی، فارسی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت نگاری کی۔
احمد رضا خان کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے، پہلے دو جلدیں احمد رضا خان کی حیات میں اور تیسری، بعد از وفات جمع کر کے کلام شائع کیا گيا، مگر اس میں رضا کا تخلص رکھنے والے ایک دوسرے عام سے شاعر کا عامیانہ کلام بھی در آیا، جس پر کافی تنقید ہوئی، جس کو تحقیق کے بعد نکال دیا گیا۔ حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی جس نے اپنے بعد آنے والے تمام نعت گوؤوں کو ایک ادب کا جامہ پہنا دیا، ورنہ اس سے پہلے اردو نعت صرف عقیدت کے طور پر دیواں کے شروع میں شامل نظر آتی، مگر حدائق بخشش کے بعد اردو نعت ادب کا ایک مستقل حصہ بنا، جس کی نعتیں آج بھی مشہور و معروف ہے۔
مصطفٰی جانِ رحمت پے لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
بہت مشہور ہے۔
احمد رضا خان کا عربی کلام جامعہ ازہر کے مصری محقق پروفیسر حازم محمد احمد نے بساتین الغفران کے نام سے مرتب کیا ہے۔[32] احمد رضا خان کے عربی کلام میں سلاست و روانی کی رنگا رنگی بہت نمایاں ہے اور بے ساختگی، عربی تراکیب کی بندش اور مناسب و برمحل الفاظ کے استعمال پر احمد رضا خان کو یدطولی حاصل تھا۔ تشبیہات و استعارات احمد رضا خان کے کلام کی عدیم المثال خصوصیات ہیں۔ احمد رضا خان کا عربی کلام کلام منتشر اوراق اور مخطوطات میں غیر مرتب پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حامد علی خان (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) نے شعبۂ عربی سے ہندوستان میں عربی شاعری کے موضوع پر جو تحقیقی مقالہ پی ایچ ڈی کے لیے لکھا، اس میں مختلف مآخذ سے احمد رضا خان عربی زبان میں اشعار کو بھی اکٹھا کیا جن کی مجموعی تعداد 390 ہے۔ محمود احمد کانپوری نے بھی مختلف مآخذ سے 1145 اشعار یکجا کیے تھے۔ جب کہ ڈاکٹر محمود حسین بریلوی نے اپنے ایم فل کے مقالہ جو مولانا احمد رضا خان کی عربی زبان و ادب میں خدمات کے عنوان سے طبع شدہ موجود ہے، اس میں 1120 اشعار جمع کیے ہیں۔[33]
احمد رضا خان کے دستیاب فارسی کلام کا کچھ حصّہ حدائق بخشش میں موجود ہے جب کہ احمد رضا خان کی منتخب فارسی نعتوں کا ایک مجموعہ ارمغان رضا کے نام سے، ادارہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا نے پہلی بار، 1994 میں شائع کیا، اس میں حمد و نعت، قصائد و مناقب اور رباعیات شامل ہیں۔ لیکن ابھی بہت سا فارسی کلام منتشر ہے۔[34]
یا رب زمن بر شہ ابرار درودی
برسید و مولائی من زار، درودی
بر آبروی آن قبلہ قوسین سلامی
بر چشم خطا پوش، عطا بار، درودی
احمد رضا خان کا فارسی قصیدہ اکسیر اعظم جو شیخ عبد القادر جيلانی کی شان میں لکھا، مشہور ہے۔ خود ہی اس کی شرح فارسی زبان میں تصنیف فرمائی جس کا نام ”مُجِیرِ مُعظّم“ رکھا۔ فارسی کلام اور شرح کا اردو ترجمہ ”تابِ مُنظّم“ کے نام سے محمد احمد مصباحی نے کیا ہے۔ اس کا ایک شعر بطور نمونہ؛
اولیا را گر گُہر باشد تو بحرِ گوہری
در بدستِ شاں زرے دادند زر راکاں توئی
ترجمہ:اولیا کے پاس اگر موتی ہے تو موتی کا سمندر تم ہو اور اگر ان کے ہاتھ میں کوئی سونا دیا گیا ہے تو سونے کی کان تم ہو۔[36]
امام حمد رضا خان نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔۔[31] امام احمد رضا خان کے ترجمہ کا نام "کنز الایمان" ہے، جس پر امام احمد رضا خان کے خلیفہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نے حاشیہ لکھا ہے۔ اس ترجمہ کو اب تک انگریزی (میں تین بار)، ہندی، سندھی، گجراتی، ڈچ، بنگلہ وغیرہ میں ڈھالا جا چکا ہے۔
25 صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ امام احمد رضا خان کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔[37]
امام احمد رضا خان کا مزار پرانا بریلی شہر سے تین چار فرلانگ کے فاصلہ پر محلہ سوداگران میں واقع ہے۔ اور ایک خانقاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزار میں مام احمد رضا خان کے بیٹے حضرت حامد رضا خان کی بھی قبر ہے۔ درگاہ پر ہر سال 25 صفر کو عرس رضوی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں دنیا بھر سے معتقدین و علما و مشائخ شرکت کرتے ہیں۔
امام احمد رضا خان کی زوجہ ارشاد بیگم سے پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ دونوں بیٹے حامد رضا خان اور مصطفٰی رضا خان نامور علما شمار ہوئے۔ بیٹیوں میں بالترتیب مصطفائی بیگم، کنیز حسن (عرف منجھلی بیگم)، کنیز حسنین (عرف سنجھلی بیگم)، کنیز حسین (عرف چھوٹی بیگم) اور مرتضائی بیگم (عرف چھوٹی بنو) تھیں۔[38]
علمی و عملی دنیا میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفاے کرام نے بہت اہم کردار ادا کیا، کیوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفاے کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے، حتیٰ کہ تحریکِ پاکستان میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ خلفاے کرام نہ صِرف پاک و ہند میں بلکہ عرب و افریقہ میں بھی ایک بھاری تعداد میں پاے جاتے ہیں۔[39] ان میں سے چند ایک نام مندرجہ ذیل ہیں۔
|
|
1979ء میں پہلی بار ڈاکٹر حسن رضا خان نے ڈاکٹر اطہر شیر کی زیر نگرانی جامعہ پٹنہ، بھارت سے احمد رضا خان کی فقہی خدمات پر پی ایچ ڈی کی۔ ان کے بعد ڈاکٹر اوشا سانیال نے جامعہ کولمبیا امریکا سے 1990ء میں کی، بعد ازاں خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے ڈاکٹر سید شاہ ابو طاہر ابوالعلائی نے الہ آباد یونیورسٹی سے ’’اردو شاعری کے ارتقا میں احمد رضا بریلوی کی شعری تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے اور احمد رضا خان کی شاعری پر ڈاکٹر سید جمال الدین نے ڈاکٹر ہری سنگھ کوردیشا ودھیالہ یونیورسٹی، آگرہ سے، ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے، ڈاکٹر سراج احمد بستوی نے کانپور یونیورسٹی سے، ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی۔ جب کہ فقہی خدمات پر ڈاکٹر محمد انور خان نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے، ترجمہ قرآن پر پروفیسر مجید اللہ قادری نے جامعہ کراچی نے، حیات و علمی خدمات پر ڈاکٹر محمد طیب رضا نے ہندو یونیورسٹی بنارس سے اور ڈاکٹر الباری صدیقی نے سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ تصور عشق پر پر ڈاکٹر غلام مصطفٰی نجم قادری نے میسور یونیورسٹی سے، انشاء پردازی پر ڈاکٹر غلام غوث نے رانچی یونیورسٹی سے، افکار پر ڈاکٹر امجد رضا نے ویرکنور سنگھ یونیورسٹی سے، ادبی خدمات پر ڈاکٹر رضا الرحمان عاکف سنبھلی نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے اور مکتوبات پر غلام جابر شمس مصباحی نے بی آر امبیڈکھر، بہار یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان ادب، فارسی زبان و ادب، تفسیری خدمات، خدمات علوم حدیث، عربی شاعری، سیاسی افکار پر بھی پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جا چکے ہیں ان 30 پی ہیچ ڈی مقالات میں 4 عربی زبان میں ایک انگریزی میں اور بقیہ اردو زبان میں لکھے گئے ہیں اور ان 30 جامعات میں سے ایک امریکا، ایک سوڈان، 19 بھارت اور بقیہ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جب کہ پاکستان کی جامعات میں ایک کا تعلق اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، دو کا تعلق جامعہ پنجاب، دو کا تعلق سندھ یونیورسٹی اور بقیہ 4 کا تعلق جامعہ کراچی سے ہے۔ جب کہ ایم فل کے ذیل میں بیس سے زائد تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں، جن میں سے 9 عربی زبان میں ہیں۔ مجموعی طور پر 35 سے زائد جامعات میں تحقیقاتی کام ہو چکا ہے۔[40]
من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ترجمہ:۔ جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ (کتاب، رد الرفضہ)
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.