صحابہ From Wikipedia, the free encyclopedia
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتح ایران کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ننھیالی خاندان ہے اس لیے آپ رشتے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے 30 برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دیے۔[1] ،[2] :[3] [4][5] [6] آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے اور خاندان قریش کے ایک بہت ہی نامور شخص ہيں جو مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہیں ۔ یہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔ یہ ابتدائے اسلام ہی میں جبکہ ابھی ان کی عمر سترہ برس کی تھی دامن اسلام میں آگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ تمام معرکوں میں حاضر رہے ۔ یہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار پر تیر چلا یا ہم لوگوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رہ کر اس حال میں جہاد کیا کہ ہم لوگوں کے پاس سوائے ببول کے پتوں اور ببول کی پھلیوں کے کوئی کھانے کی چیز نہ تھی ۔ [7] حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے خاص طور پر ان کے لیے یہ دعا فرمائی: ”اَللّٰھُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہٗ ” (اے اللہ! عزوجل ان کے تیر کے نشانہ کو درست فرمادے اور ان کی دعا کو مقبول فرما) خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی یہ فارس اور روم کے جہادوں میں سپہ سالار رہے امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو کوفہ کا گورنر مقرر فرمایا پھر اس عہدہ سے معزول کر دیا اور یہ برابر جہادوں میں کفار سے کبھی سپاہی بن کر اور کبھی اسلامی لشکر کے سپہ سالار بن کر لڑتے رہے ۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المؤمنین ہوئے تو انھوں نے دوبارہ انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ یہ مدینہ منورہ کے قریب مقام ”عقیق ”میں اپنا ایک گھر بنا کر اس میں رہتے تھے اور 55ھ میں جبکہ ان کی عمر شریف 75 پچھتّر برس کی تھی اسی مکان کے اندر وفات پائی۔ آپ نے وفات سے پہلے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے کفن میں میرا اون کا وہ پراناجبہ ضرور پہنایا جائے جس کو پہن کر میں نے جنگ بدرمیں کفار سے جہاد کیا تھا چنانچہ وہ جبہ آپ کے کفن میں شامل کیا گیا ۔ لوگ فرط عقیدت سے آپ کے جنازے کو کندھوں پر اٹھا کر مقام ”عقیق” سے مدینہ منورہ لائے اور حاکم مدینہ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کی قبر منور بنائی ۔[8] .[9] ”عشرہ مبشرہ ”یعنی جنت کی خوشخبری پانے والے دس صحابیوں میں سے یہی سب سے اخیر میں دنیا سے تشریف لے گئے اوران کے بعد دنیا عشرہ مبشرہ کے ظاہری وجود سے خالی ہو گئی مگر زمانہ ان کی برکات سے ہمیشہ ہمیشہ مستفیض ہوتا رہے گا۔ [10]
سعد بن ابی وقاص | |
---|---|
(عربی میں: سعد بن أبي وقاص) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 595ء مکہ |
وفات | سنہ 674ء (78–79 سال) مدینہ منورہ |
شہریت | خلافت راشدہ سلطنت امویہ |
اولاد | عمر بن سعد ، محمد بن سعد بن ابی وقاص ، عامر بن سعد بن ابی وقاص ، مصعب بن سعد بن ابی وقاص ، عائشہ بنت سعد ، ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص |
والدہ | حمنہ بنت سفیان |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | تاجر ، عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
وفاداری | خلافت راشدہ |
شاخ | خلافت راشدہ کی فوج |
عہدہ | کمانڈر |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق |
درستی - ترمیم |
عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان | |
اختيار خليفہ ثالث | |
عثمان بن عفان |
سعد نام ، ابو اسحق کنیت ،والد کا نام مالک اور ابو وقاص کنیت والدہ کا نام حمنہ تھا ، سلسلۂ نسب یہ ہے، سعد بن مالک بن وہیب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی الزہری، چونکہ آنحضرت ﷺ کی نانہال زہری خاندان میں تھی ، اس لیے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ رشتہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے ، سرورِ کائنات ﷺ نے خود بھی بارہا اس رشتہ کا اقرار فرمایا تھا۔،[11] [12] [13] [14] [15] [16]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا سنِ مبارک صرف انیس( 19) سال کا تھا کہ دعوتِ اسلام کی صدائے سامعہ نوازنے توحید کا شیدائی بنادیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر خلعتِ ایمان سے مشرف ہوئے۔ صحیح بخاری میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پہلے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوا تھا اور ایک دوسری روایت میں وہ اپنے کو تیسرا مسلمان بتاتے ہیں،لیکن محدثین عظام کی تحقیق کے مطابق چھ ، سات بزرگوں کو ان پر تقدم کا فخر حاصل ہو چکا تھا ،البتہ یہ ممکن ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اطلاع نہ ہو کیونکہ کفار کے خوف سے انھوں نے اپنے ایمان لانے کا اعلان نہیں کیا تھا۔[17] [18][19] [20]
حضرت سعد وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں نے لڑکے کی تبدیل مذہب کا حال سنا تو نہایت کبیدہ خاطر ہوئیں، بات چیت، کھانا پینا سب چھوڑ بیٹھیں، چونکہ وہ اپنی ماں کے حد درجہ فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے، اس لیے یہ سخت آزمائش کا موقع تھا، لیکن جو دل توحید کا لذت آشنا ہو چکا تھا وہ پھر کفر وشرک کی طرف کس طرح رجوع ہو سکتا تھا،ماں مسلسل تین دن تک بے آب و دانہ رہیں ، لیکن بیٹے کی جبینِ استقلال پر شکن تک نہ پڑی،خدائے پاک کو یہ شانِ استقامت کچھ ایسی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں کے لیے معصیتِ الہیٰ میں والدین کے عدم اطاعت کا ایک قانون عام بنادیا گیا۔ [21]" وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا"[22][23] :[24] [25] [26][27]
اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک مکہ مکرمہ میں ہی مقیم رہے گویہ سر زمین عام مسلمانوں کی طرح ان کے لیے مصائب و شدائد سے خالی نہ تھی، تاہم استقلال کے ساتھ ہر قسم کی سختیاں جھلتے رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفار کے خوف سے عموماً مکہ مکرمہ کی ویران و سنسان گھاٹیوں میں چھپ کر معبود حقیقی کی پرستش وعبادت فرمایا کرتے تھے،ایک دفعہ ایک گھاٹی میں چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ مصروف عبادت تھے،اتفاق سے کفار کی ایک جماعت اس طرف آنکلی اور اسلام کا مذاق اُڑانے لگے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بے بسی کی زندگی میں بھی جوش آگیا اور اونٹ کی ہڈی اٹھاکر اس زور سے ماری کہ ایک مشرک کا سر پھٹ گیا،بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام کی حمایت میں یہ پہلی خونریزی تھی جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔[28][29] [30]
مکہ میں جب کفار کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کا پیمانہ صبرو تحمل لبریز ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا، اس حکم عام کی بنا پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ کی راہ لی اور اپنے بھائی عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مکان میں فروکش ہوئے۔[31] جنھوں نے ایام جاہلیت میں ایک خون کیا تھا اور انتقام کے خوف سے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ یہاں پہنچ کر مسلمانوں کو آزادی و طمانیت نصیب ہوئی،تاہم قریش مکہ کی حملہ آوری کا خطرہ موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے پیش بینی کرکے عبدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ غنیم کی نقل وحرکت دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس جماعت میں شامل تھے غرض دورہ کرتے ہوئے حجاز کے ساحلی علاقہ میں قریش کی ایک بڑی تعداد سے مڈ بھیڑ ہوئی،چونکہ محض تجسس مقصود تھا، اس لیے کوئی جنگ پیش نہ آئی، مگر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہاں تاب تھی، انھوں نے ایک تیر چلا ہی دیا، چنانچہ یہ اسلام کا پہلا تیر تھا جو راہِ خدا میں چلا گیا۔[32]
دوسری دفعہ خود سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر قیادت آٹھ مہاجرین کی ایک جماعت تجسس کے لیے روانہ کی گئی،چنانچہ یہ مقام خرار تک دورہ کرکے واپس آئے اور کوئی جنگ پیش نہ آئی، اس کے بعد عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمن کی خبر گیری پر مامور ہوئے، آنحضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن الجحش ؓ کو ایک سربمہر فرماں دیا تھا کہ دو روز سفر کرنے کے بعد کھول کر پڑھیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کریں، انھوں نے حسب ہدایت دو روز کے بعد پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ مکہ اور طائف کے درمیان جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل وحرکت کا پتہ چلائیں، حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو فرمان کا مضمون سنا کر کہا، میں کسی کو مجبور نہیں کرتا جس کو شہادت منظور ہو وہ ساتھ چلے ورنہ واپس جائے،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور تمام دوسرے ساتھیوں نے جوش کے ساتھ سمعا وطاعۃ کہا، لیکن کچھ دور جانے کے بعد عتبہ بن غزوان ؓ اور حضرت سعد وقاص ؓ کا اونٹ جو مشترکہ طور پر دونوں کی سواری میں تھا گم ہو گیا اور اس طرح وہ دونوں پیچھے چھوٹ گئے، عبد اللہ بن الجحش رضی اللہ عنہ نے نخلستان میں پہنچ کر قریش کے ایک قافلہ سے جنگ کی اور مالِ غنیمت اور چند قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے، چونکہ یہ وہ مہینہ تھا جس میں رسما جنگ ممنوع سمجھی جاتی تھی، اس لیے سرورِ کائنات ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور فرمایا کہ میں نے تمھیں جنگ کا حکم نہیں دیاتھا، مسلمانوں نے بھی عبد اللہ اوران کے ساتھیوں کو ملامت کی لیکن وحی الہی نے اس مسئلہ کو اس طرح صاف کر دیا۔ "یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِo قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌo وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ وَکُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامo وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِo وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ"[33] لوگ تم سے ماہِ حرام کی نسبت پوچھتے ہیں کہ اس میں لڑنا (جائز ہے) کہدو اس میں لڑنا بڑا گناہ اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس کا نہ ماننا اور مسجد حرام سے بازر رکھنا اور اس کے اہل کو اس سے نکال دینا خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ہے اور فتنہ کشت وخون سے زیادہ برا ہے۔ قریش فدیہ لے کر اپنے قیدیوں کو چھڑانے آئے لیکن اس وقت تک عتبہ بن غزوان ؓ اور سعد بن ابی وقاص ؓ کا کچھ پتہ نہ تھا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تک یہ دونوں صحیح و سلامت پہنچ نہ جائیں تمھارے قیدی رہا نہ ہوں گے،غرض جب یہ دونوں جانثار واپس آگئے تو مشرکین چھوڑ دیے گئے۔[34] [35] [36]
جنگ بدر سے مستقل جنگوں کی ابتدا ہوئی، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جنگ میں غیر معمولی شجاعت وجان بازی کے جوہر دکھائے اور سعید بن العاص سرخیل کفار کو تہ تیغ کیا، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اس کی ذوالکتیفہ نامی تلوار پسند آگئی تھی،اس لیے ہوئے بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے، چونکہ اس وقت تک تقسیم غنیمت کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا اس لیے ارشاد ہوا کہ جہاں سے اٹھائی ہے وہیں رکھ دو۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برادر عزیز عمیر بن ابی وقاص ؓ اس جنگ میں شہید ہوئے تھے کچھ تو ان کی مفارقت کا صدمہ اور کچھ تلوار نہ ملنے کا افسوس ، غرض غمگین و ملول واپس آئے،لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد سورۂ انفال نازل ہوئی اور سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر تلوار لینے کی اجازت دے دی۔[37] [38] [39] [40] [41] .[42]
3ھ میں غزوۂ اُحد کا معرکہ پیش آیا ، اس جنگ میں تیر اندازوں کی غفلت سے اتفاقاً مسلمانوں کی فتح شکست سے مبدل ہو گئی اور ناگہانی حملہ کے بعد باعث اکثر غازیوں کے پاؤں اکھڑ گئے لیکن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ثابت قدم اصحاب رضوان اللہ علیہم کی صف میں تھے،جن کے پائے استقلال کو اخیر وقت تک لغزش نہ ہوئی،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے اس لیے جب کفار کا نرغہ ہوا تو آنحضرت ﷺ ان کو اپنے ترکش سے تیر دیتے جاتے اورفرماتے: یا سعد ارم فداک امی وابی یعنی اے سعد! تیر چلا میرے باپ ماں تجھ پر فداہوں[43][44] حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سعد ؓ کے سوا اور کسی کے لیے"فداک ابی وامی"کا جملہ نہیں سنا، لیکن دوسری روایتوں میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کی نسبت بھی ایسے ہی جملے منقول ہیں، بہرحال محدثین کا فیصلہ ہے کہ غزوۂ احد میں یہ فخر صرف حضرت سعد وقاص ؓ کے لیے مخصوص تھا۔[45] اثنائے جنگ میں ایک مشرک سامنے آیا جس نے اپنے تیز و تند جملوں سے مسلمانوں کو پریشان کر رکھا تھا ،آنحضرت ﷺ نے اس کو نشانہ بنانے کا حکم دیا، لیکن اس وقت ترکش تیروں سے خالی ہو چکا تھا،حضرت سعد ؓ نے تعمیل ارشاد کے لیے ایک تیر اٹھا کر جس میں پھل نہیں تھا اس صفائی کے ساتھ اس کی پیشانی پر مارا کہ وہ بدحواسی کے ساتھ برہنہ ہوکر گر گیا، آنحضرت ﷺ ان کی تیراندازی اور اس کی بدحواسی پر بے اختیار ہنس پڑے یہاں تک کہ دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ اسی طرح طلحہ بن ابی طلحہ کے حلق میں تاک کر ایسا تیر مارا کہ زبان کتے کی طرح باہر نکل پڑی اور تڑپ کر داخل سقرہوا۔[46] [38]
غزوۂ احد سے فتح مکہ تک جس قدر معرکے پیش آئے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہادری و جانثاری کے ساتھ سب میں پیش پیش رہے ، پھر فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں اسی فدویت جان نثاری اور ثبات و پامردی کا کارنامہ پیش کیا ، جس کا اظہار غزوۂ احد میں کر چکے تھے۔ غزوۂ احد ، طائف اور تبوک کی فوج کشی میں بھی شریک تھے،پھر 10ھ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کا قصد فرمایا تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمرکاب تھے، لیکن مکہ پہنچ کر سخت علیل ہو گئے، یہاں تک کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لائے تو زندگی سے مایوس ہوکر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں؛ لیکن ایک لڑکی کے سوا کوئی وارث نہیں ہے، اس لیے اگر اجازت ہو تو اپنا دو ثلث مال کار خیر میں لگا دوں؟ ارشاد ہوا"نہیں پھر عرض کیا" دو ثلث نہیں تو نصف سہی حکم ہوا نہیں صرف ایک ثلث اور یہ بھی بہت ہے تم اپنے وارثوں کو مالدار و توانگر چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال نہ پھیلاتے پھیریں، تم جو کچھ بھی خدا کی رضا جوئی کے لیے صرف کرو گے اس کا اجر ملے گا، یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو اس کا بھی ثواب پاؤ گے۔[12] [47] [48] [49]
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ سے اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ مکہ میں مرنا بھی پسندنہ تھا،بیماری جس قدر طول کھینچتی جاتی تھی اس قدر ان کی بے قراری بڑھتی جاتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشکبار دیکھ کر پوچھا، روتے کیوں ہو؟ "عرض کیا" معلوم ہوتا ہے کہ اسی سر زمین کی خاک نصیب ہوگی، جس کو خدا اور رسول کی محبت ہمیشہ کے لیے ترک کر چکا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تشفی دیتے ہوئے ان کو قلب پر ہاتھ رکھ کر تین دفعہ دعا فرمائی: اللھم اشف سعداً اللھم اشف سعدا[50] اے خدا سعد ؓ کو صحت عطا کر، سعد کو صحت عطا کر رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے جو الفاظ نکلے تھے وہ اس مریض بستر مرگ کے لیے آب حیات ثابت ہوئے یعنی دعا مقبول ہوئی اور وہ صحیح و تندرست ہوئے ساتھ ہی یہ بشارت سنائی کہ اے سعد ؓ تم اس وقت تک نہ مرو گے جب تک تم سے ایک قوم کو نقصان اور دوسری قوم کو نفع نہ پہنچ لے یہ پیشن گوئی عجمی فتوحات کے ذریعہ پوری ہوئی جن میں عجم قوم نے آپ کے ہاتھوں سے نقصان اور عرب قوم نے فائدہ اٹھایا۔ مکہ سے واپس آنے کے بعد اسی سال رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں کثرت آراء سے مسند نشین خلافت ہوئے،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے بھی جمہور کا ساتھ دیا اور خلیفہ اول کے ہاتھ پر بلا توقف بیعت کرلی۔ خلیفہ اول نے صرف سوا دو برس کی خلافت کے بعد داعیِ حق کو لبیک کہا اور فاروق اعظم ؓ کو جانشین کرکے رحلت گزین عالم جادواں ہوئے اس وقت اندرونی مہمات کا فیصلہ ہوکر شام و عراق پر فوج کشی کی ابتدا ہو چکی تھی،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسند نشین ہونے کے ساتھ ہی تمام عرب میں جوش و خروش کی آگ بھڑکا دی اور ان حملوں کا انتظام زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کر دیا، خصوصا عراق کی فوج کشی پر سب سے پہلے توجہ کی چونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے آیندہ کارناموں کا تعلق تمام تر اسی سر زمین سے وابستہ ہے، اس لیے اس ملک کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات تسلسل قائم رہنے کے خیال سے درج ذیل ہیں۔[51] [52] [53]
اہل عرب اور ایرانیوں میں نہایت قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی ، ایرانیوں نے بارہا عربوں کے تفرق ، اختلاف اور کمزوری سے فائدہ اٹھا کر تمام عرب کو تباہ و برباد کر دیا تھا ، خصوصاً عراقِ عرب اور سرحدی علاقوں پر مستقل قبضہ جما لیا تھا، لیکن عرب بھی دب کر رہنے والے نہ تھے، جب موقع ملتا بغاوت کر دیتے تھے ، چنانچہ پوران وخت کے زمانہ میں جب طوائف الملوکی کے باعث ایرانی حکومت کا نظام ابتر ہو گیا تو سرحدی قبائل کو پھر شورش کا موقع ملا اور مثنی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی جمیعت فراہم کر کے عراق کی سرحد حیرہ اور ابلہ کی طرف غارت گری شروع کردی ، یہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا ، مثنیٰ نے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوکر باقاعدہ عراق پر حملہ آوری کی اجازت طلب کی، چونکہ عام عرب میں اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی، اس لیے اس کے وسیع خطہ کا کسی دوسری حکومت کے زیر اقتدار رہنا مذہبی اور قومی نقطہ نگاہ سے نہایت خطر ناک تھا، اس بنا پر خلیفہ اول نے مثنیٰ کو اجازت دے دی اور حضرت خالد بن ولید سیف اللہ ؓ کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا انھوں نے حملہ کر کے بہت سے سرحدی مقامات فتح کرلیے ؛لیکن چونکہ دوسری طرف شام کی مہم بھی درپیش تھی اور وہاں کمک کی بہت زیادہ ضرورت تھی،اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے خالد ؓ کو حکم دیا کہ مثنیٰ کو اپنا جانشین کرکے شامی رزمگاہ کی طرف روانہ ہوجائیں، لیکن خالد سیف اللہ ؓ کا جانا تھا کہ عراق کی مہم دفعۃ سرد پڑ گئی۔ حضرت عمر ؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھا تو پھر نئے سرے سے عراق کی مہم پر توجہ مبذول فرمائی اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو ایک فوج گراں کے ساتھ اس اس طرف روانہ فرمایا، انھوں نے ایرانیوں کو متفرق معرکوں میں شکست دے کر تمام متصلہ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، غنیم کی ایک زبردست فوج کے سامنے صف آرائی کی،چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا، اس لیے ایرانی سپہ سالار بہمن نے کہلا بھیجا کہ یا تو تم اس پار اتر کر آؤ یا ہم آئیں، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سردارانِ فوج کے اختلاف کے باوجود شجاعت کے نشے میں خود دریا کے پار اتر کر مقابلہ کیا لیکن اس غلطی کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا یعنی مسلمانوں کو نہایت افسوس ناک شکست ہوئی۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے کمک بھیج کر فوج کو ازسر نو مستحکم کر دیا اور چونکہ ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کام آ چکے تھے اس لیے مثنی شیبانی کو سپہ سالاری کی خدمت سپرد کردی، انھوں نے معرکہ بویب اور دوسری جنگوں میں دشمن کو پے درپے شکستیں دے کر عراق کے ایک وسیع خطہ پر قبضہ کر لیا۔ ایرانیوں کو اب تک مسلمانوں کی جارحانہ قوتوں کا اندازہ نہ تھا، ان فتوحات نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اراکین سلطنت نے حکومت کیانی کو محفوظ رکھنے کے لیے نئی تدبیریں اختیار کیں، پوران دخت کو جو ایک عورت تھی تخت سے اتار کر خاندانِ کسریٰ کے اصلی وارث یزدگرد کو تخت نشین کیا اور تمام ملک میں اتحاد، اتفاق اور جوش وخروش کی آگ بھڑکا دی یہاں تک کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بھی بغاوت و سرکشی کی آگ بھڑک اٹھی اور مثنیٰ کو مجبوراً عرب کی سر زمین میں ہٹ آنا پڑا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان واقعات سے مطلع ہوکر تمام عرب میں پر جوش وجادو بیان خطیب پھیلا دیے،کہ وہ اپنی پر تاثیر تقریروں سے قبائل عرب کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے آمادہ کریں، اس کا اثر یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دارالخلافت کی طرف جنگ آزما بہادروں کا ایک طوفان امنڈ آیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عہد صدیقی سے ہوازن کے عامل تھے، انھوں نے اپنے اثر سے ایک ہزار آدمی بھیجے، جن میں سے ہر ایک تیغ و تفنگ کا ماہر تھا، غرض فوج توقع سے زیادہ فراہم ہو گئی؛ لیکن سب زیادہ دقت یہ تھی کہ اس عظیم الشان لشکر کی سربراہی کے لیے کوئی شخص موزوں نظر نہ آتا تھا،حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی گئی تو انھوں نے بھی اس بارِ گراں کے اٹھانے سے انکار کر دیا، عوام کے اصرار سے خود عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیار ہو گئے، لیکن اہل الرائے صحابہ ؓ مانع ہوئے کہ آپ کا جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، لوگ اسی غور و فکر میں تھے کہ دفعۃ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اُٹھ کر کہا میں نے پالیا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کون؟ بولے کہ سعد بن ابی وقاص ؓ تمام حاضرین اس انتخاب پر پھڑک اُٹھے اور سب نے متفقہ طور پر تائید کی۔[54] [55] [56]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نہایت بلند پایہ صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماموں تھے۔ اس کے ساتھ بہادری وشجاعت میں بھی بے نظیر تھے، تمام فوج نے ان کی سپہ سالاری کو نہایت پسندیدگی وفخر کی نگاہ سے دیکھا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گوسپہ سالاری کے لحاظ سے مجبور ہوکر منظور کر لیا اور ہر قسم کی ہدایتیں اور نشیب و فراز سمجھا کر رزم گاہ کی طرف کوچ کرنے کی اجازت دے دی ۔ غرض اس طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی تاریخ زندگی کا وہ صفحہ شروع ہوا جو سب سے زیادہ درخشاں و تاباں ہے اور جس نے دنیا کے بڑے بڑے اولوالعزم، حوصلہ مند اور خوش تدبیر نام آوروں کی صف میں ان کو ممتاز کر دیا ہے، وہ اپنے لشکر کو آراستہ کرکے منزل بہ منزل طے کرتے ہوئے ثعلبہ پہنچے ، یہاں تین مہینے تک قیام رہا، پھر وہاں سے چل کر مشراف میں خیمہ زن ہوئے، مثنیٰ مقام ذی قار میں آٹھ ہزار نبرد آزما سپاہیوں کے ساتھ ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، لیکن داعی اجل نے ملاقات کا موقع نہ دیا اور وہ اپنے بھائی کو سپہ سالار اعظم سے ملنے کی ہدایت کرکے رہ گزین عالم جاوداں ہوئے، معنّٰی نے حسب ہدایت مشراف میں آکر ملاقات کی اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے، سعد بن ابی وقاص ؓ سے بیان کیے۔ سعد بن ابی وقاص ؓ نے مشراف میں اپنی فوج کا باقاعدہ جائز لیا،جو کم وبیش تیس ہزار ٹھہری پھر میمنہ و میسرہ وغیرہ کی تقسیم کرکے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقرر کیے اور مقام کا نقشہ فرود گاہ کا ڈھنگ، لشکر کا پھیلاؤ اور رسد کی کیفیت و محیرہ سے دربارِ خلافت کو مطلع کیا، وہاں سے حکم آیا کہ مشراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ پر اس طرح مورچے جمائیں کہ پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں اور سامنے دشمن کا ملک ہو، چنانچہ وہ یہاں سے روانہ ہوکر عذیب میں عجمیوں کے میگزین پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے اور مناسب موقعوں پر مورچے جما دیے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے سردارانِ قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص منتخب کیے، سفیر بنا کر مدائن روانہ کیا تاکہ شاہِ ایران کو اسلام یا جزیہ قبول کرنے کی دعوت دیں، چنانچہ انھوں نے پہلے اسلام پیش کیا اور طرفین میں بڑی رد وقدح ہوتی رہی، آخر میں مسلمانوں نے کہا اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو ہم اپنے نبی کی پیشن گوئی یاد دلاتے ہیں کہ ایک دن تمھاری زمین ہمارے تصرف میں آئے گی، مسلمانوں کی صاف بیان پر غضبناک ہوکر ، مسلمانوں کی اس دلیری پر جھلا کر خاک دھول منگا کر کہا لو یہ تم کو ملے گا،عمرو بن سعدی کرب نے اس کو اپنی چادر میں لے لیا اور سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ"فتح مبارک ہو دشمن نے خود اپنی زمین ہم کو دے دی، غرٖض سفراء واپس آگئے،اور جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں، عجمی سپہ سالار رستم نے بھی جو ساباط میں مقیم تھا، اپنی فوج کو آگے بڑھا کر قادسیہ میں ڈیرے ڈالے۔ رستم کی فوجیں قادسیہ پہنچیں تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہرطرف جاسوس پھیلا دیے کہ دشمن کی نقل و حرکت سے ہر وقت مطلع کرتے رہیں،نیز غنیم کی فوج کا رنگ ڈھنگ ،لشکر کی ترتیب اور پڑاؤ کی حالت دریافت کرنے کے لیے فوجی افسر متعین کر دیے، اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ ایک دفعہ رات کے وقت غنیم کے کیمپ میں گشت کر رہے تھے، ایک جگہ ایک بیش بہا گھوڑا بندھا دیکھا، تلوار سے باگ ڈورکاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈورسے اٹکالی ،لوگوں نے ان کا تعاقب کیا تو ایک سپاہی کو قید کرکے لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے،قیدی نے حضرت سعد ؓ کے سامنے آکر اسلام قبول کیا اورعجمی فوج کے بہت سے اسرار بیان کیے۔ عرصہ تک صرف اسی قسم کی جھڑپ ہوتی رہی،اورکوئی باقاعدہ جنگ پیش نہ آئی، رستم قصداً جنگ سے جی چراتا تھا،اس نے ایک دفعہ پھر صلح کی کوشش کی اورحضرت سعد ؓ نے اس کی خواہش پر متعدد سفارتیں روانہ کیں، آخری سفارت میں مغیرہ ؓ بھیجے گئے، لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی،رستم کو ناکامی ہوئی تو اس نے غضبناک ہوکر کہا کہ" کل تمھاری تہ و بالا کرڈالوں گا" مغیرہ ؓ نے واپس آکر رستم کا مقولہ بیان کیا تو حضرت سعدؓ نے بھی جوش خروش کے ساتھ مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔[57] [58] [59][60]
رستم اس قدر غضبناک تھا کہ اس نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا اور دوسرے روز صبح کے وقت درمیان کی نہر کو عبور کرکے میدانِ جنگ میں صف آراء ہوا ، دوسری طرف حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا لشکر بھی تیار تھا مشہور شعرا اور پرجوش خطیب رزمیہ اشعار اور جادو اثر تقریروں سے تمام بہادر سپاہیوں کے شجاعانہ ولولے بھڑکا رہے تھے اس کے ساتھ قاریوں کی خوش الحانی اور جہاد کی آیتوں نے جنت کے عاشقوں کو بیتاب کر رکھا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ قاعدہ کے موافق اللہ اکبر کے تین نعرے بلند کیے اور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی، گوہ خود عرق النساء کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باعث عام فوج کا ساتھ نہ دے سکے اور خالد ابن عرطفہ کو قائم مقام کرکے میدانِ جنگ کے قریب جو قصر تھا اس کے بالاخانہ پر رونق افروز ہوئے تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب سمجھتے تھے پرچوں پر لکھ کر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے اور خالد ان ہی ہدایتوں کے مطابق موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے، ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کے ریلے سے قریب تھا کہ بجیلہ سواروں کے پاؤں اکھڑ جائیں، حضرت سعد ؓ نے یہ رنگ دیکھ کر فورا قبیلہ اسد کو حکم بھیجا کہ بجیلہ کو مدد پہنچائیں،پھر جب اس کالی آندھی نے اس طرف رخ کیا تو قبیلہ تمیم کو جو نیزہ بازی اور قادرااندازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمھارا کمال ہاتھیوں کے مقابلہ میں کیا ہوا؟ یہ سنکر انھوں نے اس جوش سے تیر برسائے کہ دفعۃ جنگ کا نقشہ بدل گیا، غرض تمام دن اسی زور کارن ہوا شام ہوئی تو دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤ میں واپس آئے جنگ قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا جس کو عربی میں یوم الارماث کہتے ہیں۔ دوسرے روز پھر جنگ شروع ہوئی،عین ہنگامہ کار زار میں شام کی امدادی فوجیں بھی پہنچ گئیں، اس تائید غیبی سے مسلمانوں کا جوش دوبالا ہو گیا اور اس زور شور سے تیغ وسنان اور تیروتفنگ کا بازار گرم ہوا کہ دور سے دیکھنے والوں کی رگِ شجاعت میں ہیجان پیدا ہورہا تھا ابو محجن ثقفی جن کو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے شراب خواری کے جر م میں اپنے قصر میں مقید کر دیا تھا، اس ولولہ انگیز منظر کو دیکھ کر بیتاب ہو رہے تھے،ضبط نہ کرسکے تو سلمیٰ سعد ؓ کی بیوی سے درخواست کی کہ اس وقت مجھ کو چھوڑ دو، لڑائی سے جیتا بچا تو پھر خود آکر بیڑیاں پہن لوں گا،سلمیٰ نے انکار کیا تو حسرت کے ساتھ یہ اشعار پڑھنے لگے۔ کفن حزناان تردی الخیل بالقناواترک مشدوداً علی وثاقیا اس سے بڑھ کر کیا غم ہوگا کہ سوار نیزہ بازیاں کر رہے ہیں اور میں زنجیر میں بندھا پڑا ہوں۔ اذاقمت عنافی الحدیرواغلفت مصاریع دونی تصم المنادع جب میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر باگ کھینچ لیتی ہے اور دروازے اس طرح سامنے بند کر دیے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔ ان اشعار سے سلمی نے متاثر ہوکر ان کی بیڑیاں کاٹ دیں اوروہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کی دہکتی ہوئی آگ میں کود پڑے اوران لوگوں کو اپنی شجاعت و جانبازی سے متحیر کر دیا، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بھی حیران تھے کہ یہ کون بہادر ہے؟ شام کو جنگ ختم ہوئی تو ابو محجن نے خود آکر بیڑیاں پہن لیں،سلمی نے یہ حالات سعد ؓ سے بیان کیے تو انھوں نے کہا خدا کی قسم میں ایسے فدائی اسلام کو سزا نہیں دے سکتا اور اسی وقت رہا کر دیا ابو محجن پر بھی اس قدر دانی کا یہ اثر ہوا کہ آیندہ شراب سے توبہ کرلی۔ تیسرے روز حسب معمول پھر معرکہ شروع ہوا،حضرت سعد ؓ نے آج آخری فیصلہ کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن شام ہو گئی اور جنگ کے زور شور میں کچھ فرق نہ آیا، زیادہ دقت ہاتھیوں کی وجہ سے تھی،وہ جس طرف جھک پڑتے تھے،صفیں کی صفیں درہم برہم کر دیتے تھے، حضرت سعد ؓ نے قعقاع اور چند دوسرے بہادر سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ تم ہاتھیوں کو مارلو تو پھر میدان تمھارے ہاتھ میں ہے، انھوں نے نہایت جانبازی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی اور نرغہ کرکے بڑے بڑے ہاتھیوں کو مار ڈالا تو دوسرے ہاتھی خود بخود بھاگ کھڑے ہوئے، ہاتھیوں سے میدان صاف ہونا تھا کہ حضرت سعد ؓ نے اپنی فوج کو سمیٹ کر پھر نئے سرے سے ترتیب دیا اور حکم دیا کہ جب میں تیسرا نعرہ بلند کروں تو غنیم پر حملہ کر دیا جائے،لیکن ابھی پہلا ہی نعرہ بلند ہوا تھا کہ قعقاع نے جوش سے بیتاب ہوکر حملہ کر دیا، حضرت سعد ؓ نے فرمایا اللھم اغفرلہ وانصرہ یعنی اے خدا قعقاع کو معاف کرنا اوراس کا مدد گار رہنا، قعقاع کو دیکھ کر دوسرے قبائل بھی ٹوٹ پڑے، حضرت سعد ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ اے خدا اس کو معاف کرنا اور اس کا معین ومدد گار رہنا، غرض دن ختم ہونے کے بعد تمام رات ہنگامہ کا بازار گرم رہا، لیکن بالآخر مسلمانوں کے ثبات واستقلال نے ایرانیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے ،رستم کو بھی مجبوراً بھاگنا پڑا، مگر بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کرکے اس کا کام تمام کر دیا۔ حضرت سعد ؓ نے بارگاہِ خلافت میں نامہ فتح روانہ کرکے مقتولین و مجروحین کی تجہیز و تدفین اور مرہم پٹی کا اہتمام کیا،چونکہ وہ خود اس جنگ میں شریک نہ تھے اس لیے بعض سپاہیوں کو ان کی طرف سے بدگمانی تھی،چنانچہ ایک شاعر نے علانیہ اس خیال کو ظاہر کر دیا۔ وقاتلت حتی انزل اللہ نصرہ وسعد بباب القادسیہ معصم میں نے جنگ کی یہاں تک کہ خدانے اپنی مدد بھیجی، حالانکہ سعد بن ابی وقاص قادسیہ کے دروازے سے چمٹے رہے۔ نابناوقدآملت نسآء کثیرۃ ونسرۃ سعد لیس فیھن ایم ہم لوٹے تو بہت سی عورتیں بیوہ ہوئیں، حالانکہ سعد بن ابی وقاص ؓ کی بیویوں میں سے کوئی بھی بیوہ نہ ہوئی۔ حضرت سعد ؓ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے تمام فوج کو جمع کیا اور ایک مفصل تقریر کرکے اپنی معذوری ظاہر کی۔[61]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے معرکہ قادسیہ کے بعد 15ھ میں تمام عراقِ عرب کو زیر نگین کر لینے کا تہیہ کر لیا ، ایرانی بابل میں پناہ گزین تھے ، اس لیے سب سے پہلے اسی طرف بڑھے ، انھوں نے خود عجمیوں پر اس قدر رعب بٹھادیا تھا کہ راہ میں بڑے بڑے سرداروں نے پیشوائی کر کے صلح کرلی اور بابل تک موقع بموقع پل تیار کرا دیے، اسلامی فوجیں آسانی کے ساتھ گذر جائیں بابل پہنچ کر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہی حملہ میں اس کو فتح کر لیا اور خود یہاں قیام کرکے زہرہ کی افسری میں کچھ فوجیں آگے روانہ کر دیں، انھوں نے کوثی پہنچ کر دم لیا اور وہاں کے رئیس شہر یار کو قتل کرکے شہر پر قبضہ کر لیا۔ کوثی ایک تاریخی جگہ تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے یہیں قید کیا تھا، چنانچہ قید خانہ کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بابل سے تشریف لائے تو اس کی زیارت کو گئے اور درود پڑھ کر یہ آیت پڑھی،"وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ"[62] کوثی سے آگے بڑھ کر پایہ تخت کے قریب ایک مستحکم مقام بہرہ شیر تھا ، اس نام کی وجہ یہ تھی کہ یہاں خاص کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا لشکر جب اس شہر کے قریب پہنچا تو شیر مقابلہ کے لیے چھوڑا گیا ، اس نے تڑپ کر اسلامی شیروں پر حملہ کیا ، لیکن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی ہاشم ؓ نے جوہر اول کے افسر تھے، اس صفائی سے تلوار ماری کی وہیں ڈھیر ہو گیا،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس بہادری پر خوش ہوکر ان کی پیشانی چوم لی اور انھوں نے ان کے قدم کو بوسہ دیا۔ بہرہ شیر کا کامل دو ماہ تک محاصرہ رہا اور اس اثناء میں متعدد ہولناک جنگیں ہوئیں، لیکن کچھ نہ ہو سکا، ایک روز خود ایرانی فوجیں تنگ آکر جوش وخروش کے ساتھ قلعہ سے باہر نکلیں اور دیر تک شجاعانہ لڑتی رہیں، اسی حالت میں ان کا سپہ سالار شہر براز جو نہایت بہادر افسر تھا ایک مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا اس کا مقتول ہونا تھا کہ عجمی فوجیں بھاگ کھڑی ہوئیں اور شہر والوں نے صلح کا پھریرا اڑا دیا۔ بہرہ شیر اور مدائن (پایہ تخت عراق) کے درمیان صرف دجلہ حائل تھا، ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے جہاں جہاں پل تھے توڑ کر بیکار کر دیے تھے ؛لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی اولوالعزمی کے آگے دنیا کی کون چیز حائل ہو سکتی تھی؟ انھوں نے اہل فوج کو مخاطب کرکے کہا "برادرانِ اسلام! دشمن نے ہرطرف سے مجبور ہوکر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے آؤ اس کو بھی تیر جائیں تو تو پھر مطلع صاف ہے یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا سپہ سالار اعظم کی جانبازی دیکھ کر تمام فوج نے بھی جوش کے ساتھ گھوڑے ڈال دیے اور باہم باتیں کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچے، ایرانی اس عجیب وغریب جوش واستقلال کا منظر دیکھ کر "دیوان آمند" کہتے ہوئے بھاگے تاہم سپہ سالار حرز اور تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور دریا سے نکلنے پر مزاحم ہوا، لیکن مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا اور مدائن پہنچ کر شاہی محلات پر قبضہ کر لیا یزد گرد شاہِ ایران پہلے ہی بھاگ چکا تھا، البتہ تمام اسباب وسامان موجود تھا، جو بجنسہ مدینہ روانہ کیا گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار زبان سے یہ آیتیں نکلیں۔ کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍo وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍo وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰکِہِیْنَoکَذٰلِکَ ،وَاَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ[63] (اگلی قومیں) کس قدر باغ، چشمے ،کھیتیاں اور طرح طرح کی نعمتیں عمدہ عمدہ محلات چھوڑ کر چل بسیں جس میں خوش باش زندگی بسر کرتی تھیں اور ہم نے ان چیزوں کا مالک دوسری قوموں کو بنادیا۔ مدائن فتح ہونے کے ساتھ تمام عراقِ عرب پر تسلط قائم ہو گیا،بڑے بڑے رؤساء اور جاگیر داروں نے سپر ڈال کر صلح کرلی اور تمام ملک میں امن و امان کی منادی ہو گئی، جو لوگ گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے وہ پھر واپس آگئے اور حاکم و محکوم میں اس قدر ارتباط پیدا ہوا کہ باہم ازواج و مناکحت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ عراق عرب کے مفتوح ہونے کے بعد حضرت سعد ؓ کے اہتمام سے جلولا اور تکریب پر فوج کشی ہوئی اور نہایت کامیابی و فیروز مندی کے ساتھ ان مقامات پر اسلامی پھیریرا نصیب کر دیا گیا، اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دربارِ خلافت سے آگے بڑھنے کی اجازت طلب کی تو جواب آیا کہ "دولت و حکمرانی کے مقابلہ میں مجھے ایک ایک سپاہی کا خون زیادہ محبوب ہے،کاش ہمارے اور عجمیوں کے درمیان سدِ سکندری حائل ہوتی کہ نہ ہم ان کی طرف بڑھتے اور نہ وہ ہم پر حملہ آور ہوتے ،غرض سرِدست اسی پر اکتفا کرکے ممالک مفتوحہ کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لو۔[64] .[65] .[66]
اس فرمان کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری کا زمانہ ختم ہو گیا اور وہ دوائی ملک کی حیثیت سے مدائن کو صوبہ کا مرکز بنا کر نظم و نسق میں مصروف ہو گئے، اصل یہ ہے کہ کسی غیر قوم پر حکمرانی اور ملکی نظام کو بہترین اصول پر مرتب کرنا بھی اسی قدر مشکل ہے جس قدر کسی ملک کو فتح کرنا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فطری قابلیت کے باعث ان دونوں مشکلات پر غالب آئے، انھوں نے جس خوبی و عمدگی کے ساتھ اپنے عہدہ جلیلہ کے فرائض انجام دیے، اس سے زیادہ اس زمانہ میں ممکن نہ تھا ، دربارِ خلافت کے ایماء سے تمام عراق کی مردم شماری اور پیمائش کرائی، اراضی مفتوحہ کو ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ میں رہنے دیا، البتہ جس زمین کا کوئی وارث نہ تھا،اس کا پھر نئے سرے سے بندوبست کیا،اسی طرح لگان اور جزیہ کے اصول بنائے اور رعایا کے امن و آسائش کا انتظام کیا،عجمیوں کے ساتھ اس قدر خلق و شفقت سے پیش آئے کہ ان کے دل پر قبضہ کر لیا، چنانچہ بڑے بڑے امرا اور رؤساء اسی اثر سے متاثر ہوکر مسلمان ہو گئے،جمیل ابن بصبہری، بطام بن نرسی، رفیل اور فیروز وغیرہ جو عراق کے مشہور روساء تھے خود بخود مسلمان ہو گئے، اسی طرح دیلم کی چارہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے موسوم تھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی۔[67] [68] [69]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوانے اہل عرب کا رنگ روپ بالکل بدل دیا ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ کو اس سے مطلع کیا تو حکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سر زمین تلاش کرکے ایک نیا شہر وہاں بسائیں اور عربی قبائل کو آباد کرکے اس کو مرکزحکومت قرار دیں، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کرکے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی، عرب کے جدا جدا قبیلوں کو جدا جدا محلو ں میں آباد کیا، وسطِ شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں تقریبا چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی، مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو قصر سعد بن ابی وقاص ؓ سے مشہور تھا۔ کچھ دنوں کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس کی رپورٹ دارالخلافت میں بھیجی تو حکم آیا کہ بیت المال کو مسجد سے ملادیا جائے تا کہ ہر وقت نمازیوں کی آمدورفت سے خزانہ محفوظ رہے، چنانچہ انھوں نے روز بہ نام ایک مشہور پارسی معمار کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی،اس نے نہایت خوبی وموزونی کے ساتھ بیت المال کی عمارت کو بڑھا کر مسجد سے ملادیا،حضرت سعد ؓ نے اس کی کاریگری کی بڑی قدر کی اورخوش ہوکر اس کو دارالخلافت بھیج دیا،جہاں ہمیشہ کے لیے اس کا روزینہ مقرر ہو گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا قصر چونکہ وسط بازار میں تھا، اس لیے شوروشغب کے ساتھ باہم گفتگو کرنابھی دشوار تھا، انھوں نے اس سے بچنے کے لیے قصر کے سامنے ایک ڈیوڑھی بنوائی اوراس میں پھاٹک لگوایا، بارگاہِ خلافت میں اس ڈیوڑھی کی اطلاع پہنچی تو اس خیال سے کہ اہل حاجت کے لیے یہ سدِ راہ نہ ہوجائے، حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کو حکم ہوا کہ کوفہ جاکر اس میں آگ لگادیں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی،اورحضرت سعدوقاص ؓ اطاعت شعاری کے ساتھ خاموشی سے دیکھا کیے۔[70] .[71]
کوفہ میں دراصل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک فوجی چھاؤنی قائم کی تھی، جہاں تقریباً ایک لاکھ نبرد آزما سپاہی بسائے گئے تھے۔ ان کو عالی قدر مراتب تنخواہیں دی جاتی تھیں، تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ دس دس سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے ، جو امرا الاعشار کہلاتے تھے ، تنخواہیں ان کو دی جاتی تھیں اور وہ اپنے ماتحت سپاہیوں کو تقسیم کر دیتے تھے، ایک دفعہ امرائے اعشار نے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی اور اس کی وجہ سے فوج میں برہمی کے آثار نمایاں ہوئے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فوراً دربارِ خلافت کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور فرمانِ خلافت کے مطابق دوبارہ نہایت صحت و تحقیق کے ساتھ لوگوں کے عہدے اور روزینے مقرر کیے اور اس دفعہ دس کی بجائے سات سات سپاہیوں پر ایک ایک افسر متعین کیا۔[72] شام کی اسلامی فوجوں نے حمص پر چڑھائی کی تو اہل جزیرہ ایک جمیعت عظیم کے ساتھ رومیوں کی مدد کے لیے روانہ ہوئے،لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جو ملک کے اندرونی و سرحدی واقعات سے ہر وقت باخبر رہتے تھے ایک فوج گراں بھیج کر ان کو وہیں روک لیا اورآگے بڑھنے نہ دیا۔[73] 21ھ میں ایرانیوں نے عراق عجم میں نہایت عظیم الشان جنگی تیاریاں کیں اور مسلمانوں کو ان کے مفتوحہ ممالک سے نکال دینا چاہا،حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان تیاریوں کا حال سنا تو تمام فوجی مرکزوں میں اسلامی فوج کو بھی آراستہ کرنے کے احکام صادر کیے، کوفہ سب سے بڑا مرکز تھا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تیاریاں شروع کیں اور دربارِ خلافت کے ایماء سے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو جو پہلے ان کی ماتحتی میں افسرِ مال تھے، اس فوج کا امیر عسکر مقرر کیا، لیکن یہاں ایک جماعت ایسی پیدا ہو گئی تھی جو قصداً جنگ سے جی چراتی تھی اورکہتی تھی کہ بصرہ والوں نے خواہ مخواہ فارس پر حملہ کرکے یہ لڑائی مول لی ہے،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ خلافت میں ان لوگوں کی شکایت لکھی تو ان میں سے جراح بن سنان اور اس کے چند ساتھیوں کو ان سے شدید عداوت پیدا ہو گئی اور انھوں نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے ،ظاہر ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے عالی مرتبت و بلند پایہ صحابی کی نسبت یہ شکایت کس قدر مہمل تھی، حضرت عمرؓ بن خطاب کو بھی اس کے لغو ہونے کا یقین تھا؛ تاہم رفع حجت کے خیال سے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات کے لیے روانہ فرمایا، انھوں نے کوفہ کو ہر ایک مسجد میں گشت کرکے اس شکایت کی حقیقت دریافت کی تو ہر جگہ سب نے یک زبان ہوکر اس کی تکذیب کی اور لغو بتایا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تحقیقات سے فارغ ہوکر دونوں فریق کو ساتھ لیے ہوئے مدینہ پہنچے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھنے کے ساتھ پوچھا، سعد ! تم کیسی نماز پڑھاتے ہو کہ لوگ شکایت کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ پہلی دو رکعتوں میں لمبی دو سورتیں پڑھتا ہوں اور دونوں آخری میں صرف فاتحہ پر اکتفا کرتا ہوں، حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا بے شک تمھاری نسبت یہی گمان ہو سکتا ہے۔ [74]
گو الزام بے بنیاد ثابت ہوا، تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ ایک جماعت مخالفت پر آمادہ ہو گئی تھی ۔ ان کو اس عہدہ سے سبکدوش ہی کردینا مناسب سمجھا، چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جن کو اپنا جانشین بنا آئے تھے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان ہی کو مستقل کر دیا اور ان کو دوبارہ واپس جانے کی زحمت نہ دی۔[75] حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اوپر اس بیہودہ الزام کے قائم ہونے کا نہایت افسوس تھا ، فرمایا کرتے تھے کہ میں عرب میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے راہِ خدا میں تیر اندازی کی ہے، ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ درخت کے سوکھے پتے کھا کھا کر لڑے تھے،لیکن خدا کی شان آج یہ بنو اسد پیدا ہوئے ہیں جو خود مجھے مذہب سکھاتے ہیں کہ میں نماز اچھی نہیں پڑھاتا۔[76][77] [78]
23ھ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مجوسی غلام کے ہاتھ سے شہادت پائی ، حالتِ نزع میں لوگوں نے خلیفہ نامزد کرنے کی طرف توجہ دلائی تو انھوں نے اس منصب کے لیے چھ آدمیوں کے نام پیش کیے، ان میں ایک حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بھی تھے اور فرمایا کہ اگر وہ خلافت کے لیے منتخب نہ ہوسکیں تو جو منتخب ہو اسے چاہیے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائے کیونکہ میں نے انھیں کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معطل نہیں کیا تھا۔[79] [80] [81]
فاروق اعظم ؓ کی تجہیز و تکفین کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرپردستارِ خلافت باندھی اورانہوں نے حسب وصیت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا ، لیکن اس تقرر کے تین سال بعد یعنی 26ھ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ذمہ دار بیت المال سے اختلاف پیدا ہوجانے کے باعث پھر معزول ہو گئے۔ [82]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معزول ہونے کے بعد مدینہ میں عزلت نشینی اختیار کر لی ، یہاں تک کہ جب خلیفہ ثالث کے آخری عہد حکومت میں فتنہ وفساد کا بازار گرم ہوا تو یہ ہنگامہ بھی ان کی گوشہ گیری میں مخل نہ ہوا، البتہ جب مفسدین نے کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کر لیا تو ان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، لیکن معاملات ملکی سے بے تعلق رہنے کی روش پر اس وقت بھی قائم رہے، چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ جب حضرت طلحہؓ وحضرت زبیر ؓ کے مقابلہ میں اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے تو لوگوں نے ان کوبھی ساتھ چلنے کی دعوت دی، لیکن انھوں نے معذرت کی اور کہا مجھے ایسی تلوار بتاؤ جو مسلم و کافر میں امتیاز رکھے۔[83] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے خود ان کے صاحبزادہ عمر بن سعد نے ایک دفعہ جب کہ وہ جنگل میں اونٹ چروا رہے تھے آکر کہا"کیا یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنگل میں اونٹ چرائیں اور لوگ بادشاہت و حکومت کے لیے اپنی اپنی قسمت آزمائیں،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا، خاموش! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خدا مستغنی اور پرہیز گاربندہ کو محبوب رکھتا ہے۔[84] جناب علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امیر معاویہ ؓ کے منازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے جب پنچایت مقرر ہوئی، تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بھی اس خوشی میں کہ اب خانہ جنگیوں اور خونریزیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، فیصلہ سننے کے لیے دو مۃ الجندل تشریف لائے، لیکن جب یہ بے نتیجہ ثابت ہوئی تو پھر اپنے عزلت کدہ میں واپس آگئے اور تمام جھگڑوں سے قطعی طور پر کنارہ کش رہے۔ [85] [86] [4][87]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لیے ایک قصر تعمیر کرایا تھا ، چنانچہ عزلت نشینی کی زندگی اسی میں بسر ہوئی، آخر میں قویٰ مضمحل ہو گئے تھے اور آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی، یہاں تک کہ 55ھ میں طائر روح نے باغ رضوان کے اشتیاق میں ہمیشہ کے لیے اس قفس عنصری کو خیر باد کہا[88]حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے وصیت کی تھی کہ جنگ بدر میں جو اونی کپڑا میرے جسم پر تھا اس سے کفن کا کام لیا جائے،چنانچہ اس پر عمل کیا گیا [89] اور لاش مدینہ لائی گئی، بعض امہات المومنین رضی اللہ عنہم اس وقت زندہ تھیں ، انھوں نے حکم دیا کہ اس جاں نثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنازہ مسجد میں لایا جائے، چنانچہ مسجد میں ان کے حجروں کے سامنے نماز ادا کی گئی،امہات المومنین ؓ بھی نماز میں شریک تھیں ،کسی نے مسجد میں نماز جنازہ پر اعتراض کیا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا لوگ کس قدر جلد بھول گئے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہیل بن البیضاء ؓ پر مسجد میں نماز نہیں پڑھائی تھی؟[90] غرض اس تزک واحتشام کے ساتھ مقام بقیع میں مدفون ہوئے ،ستر برس سے زیادہ عمر پائی اوراس عرصہ میں اپنے عظیم الشان کارناموں کی ایسی یادگارچھوڑ گئے کہ ان کے اخلاف قیامت تک فخرو مباہات کے ساتھ ان پر رطب اللسان رہیں گے۔[91] [92] [93] .[92]
حضر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علمی پایہ نہایت ارفع تھا،حضرت عمر بن خطاب ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کریں تو پھر اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تحصیل علم میں کبھی پس و پیش یا شرم و حجاب دامنگیر نہ ہوتا تھا، ایک دفعہ بارگاہِ نبوت میں حاضر تھے، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو کچھ عطیے مرحمت فرمائے ، لیکن اس میں سے ایک شخص کو محروم رکھا ،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اس کی محرومی پر سخت تعجب ہوا،عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا خیال ہے کہ یہ بھی مومن ہے ، ارشاد ہوا، "مومن یا مسلم" لیکن حضرت سعد ؓ کو تشفی نہ ہوئی، انھوں نے پھر اپنا سوال دہرایا ، آنحضرت ﷺ نے اس دفعہ بھی وہی جواب دیا،غرض حضرت سعد ؓ نے مکرر سہ کرر اس سوال کو جاری رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما کر تشفی کردی کہ بسا اوقات اس سے جس کو عطیے دیتا ہوں وہ شخص جس کو کچھ نہیں دیتا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے۔[94] [95] [96] </ref>[97]
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے مصحفِ اخلاق میں خشیتِ الہی ، حب رسول ، تقویٰ، زہد ، بے نیازی اور خاکساری سب سے روشن ابواب ہیں، خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ عموماً رات کے اخیر حصے میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آکر نمازیں پڑھا کرتے تھے،[98] طبیعت رہبانیت کی طرف بہت مائل تھی، لیکن اسلام میں ممنوع ہونے کی وجہ سے مجبور تھے، چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ عثمان بن مظعون ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے رہبانیت اور تبتل سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کو اختیار کر لیتا۔[99] رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت و جان نثاری کا صرف اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً تمام غزوات میں ہمرکاب رہے، غزوۂ احد میں جب شکست رونما ہوئی اور تمام صحابہ ؓ پریشانی اور گھبراہٹ میں منتشر ہو گئے تو اس وقت تھوڑی دیر تک تنہا انھوں نے اور حضرت طلحہ ؓ نے خیرالانام ﷺ کی حفاظت کا فرض انجام دیا تھا، سفر میں عموماً خود شوق سے رسول اللہ ﷺ کے خیمے کے گردرات رات بھر پہرا دیتے تھے ، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوۂ سے واپس تشریف لا رہے تھے، رات کے وقت ایک جگہ قیام ہوا، یہاں دشمنوں کا سخت خطرہ تھا، آنحضرت ﷺ دیر تک جاگتے رہے اور فرمانے لگے کہ کاش!میرے اصحاب میں سے کوئی مرد صالح آج پہرہ دیتا، حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ابھی یہ جملہ تمام بھی نہیں ہوا تھا کہ اسلحہ کی جھنکار سننے میں آئی، آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ عرض کیا سعد بن ابی وقاص ؓ"ارشاد ہوا"تو کیسے آئے ،اس فرض کو انجام دینے آیا ہوں، آنحضرت ﷺ اس جان نثار سے نہایت خوش ہوئے اور دعا دی۔[100] عتبہ بن ابی وقاص ؓ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے حقیقی بھائی تھے ، انھوں نے حالت کفر مین غزوۂ احد میں رسول اللہ ﷺ کا روئے مبارک زخمی کیا تھا، حضرت سعد ؓ فرمایا کرتے تھے"واللہ میں عتبہ سے زیادہ کبھی کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا۔ اتباع سنت اور رسول اللہ ﷺ کے اعمال واحکام کامل پیروی کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے، اہل کوفہ نے دربارِ خلافت میں شکایت کی کہ یہ نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو فرمانے لگے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز سے سرمو انحراف نہیں کرتا ۔[101] ایک دفعہ مدینہ سے اپنے قصر کی طرف جو مقام عقیق میں تھا، تشریف لے جا رہے تھے راہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے دیکھا، چونکہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لیے انھوں نے اس کے اوزار چھین لیے، غلام کے مالک نے آکر اس کا مطالبہ کیا تو فرمانے لگے،معاذ اللہ میں رسول اللہ ﷺ کی بخشش کو واپس کردوں گا؟اوراوزار کے واپس دینے سے قطعا انکار کر دیا۔[102] زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا جس وقت دنیائے اسلام حکومت و بادشاہت کے جھگڑوں میں مبتلا تھی اس وقت وہ مدینہ کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اس فتنہ سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگ رہے تھے اور جو کوئی ان جھگڑوں کے متعلق کچھ پوچھتا تو فرماتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ میرے بعد عنقریب ایک فتنہ برپا ہوگا جس میں سونے والا بیٹھنے والے سے بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اچھا ہوگا ۔[103] تواضع اور خاکساری کا صرف اس سے اندازہ ہوگا کہ سپہ سالاری اور گورنری کے بعد بھی جب کہ کسریٰ کے وارثوں نے اپنا عظیم الشان محل ان کے لیے خالی کر دیا تھا ان کو اونٹ اور بکریاں تک چرانے میں عار نہ تھا،افسر کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ گھر میں آگ لگائی گئی وہ خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھتے رہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ درخت کے پتے کھا کھا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں جانبازی دکھاتے تھے لیکن اسلام نے بہت جلد روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی حیثیت سے بھی اپنے فدائیوں کی عسرت وتنگ حال کو دولت و ثروت سے مبدل کر دیا، خیبر کی مفتوحہ اراضی میں جاگیر ملی، ایران کے مالِ غنیمت میں حصہ ملا اسی طرح دورِ فتنہ و فساد میں ایک غیر آباد زمین خرید کر زراعت کا مشغلہ اختیار کیا ! غرض اخیر زندگی میں ایک بڑی دولت کے مالک ہوئے، کوفہ اور مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں عالی شان محلات تعمیر کرائے ،مگر باوجود اس کے غذا و لباس کی سادگی میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔
حلیہ یہ تھا ، قد بلند و بالا ، جسم فربہ ، ناک چپٹی، سر بڑا اور ہاتھ کی انگلیاں نہایت موٹی اور مضبوط۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الشہاب ، بنت قیس بن معدی کرب ، ام عامر بن عمر، زبد ، ام بلال بنت ربیع، ام حکیم بنت قارظ، سلمی بنت حفص، ظیہ بنت عامر، ام حجر
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے چونتیس اولادیں تھیں ان میں سے لڑکے سترہ تھے، لڑکیاں بھی اسی قدر تھیں، سب کے نام حسب ترتیب درج ذیل ہیں۔
اسحاق اکبر، عمر ( عمر ابن سعد کربلا میں امام حسین رض کے خلاف یزید کے لشکر کا سپہ سالار) ، محمد، عامر، اسحاق اصغر، اسماعیل، ابراہیم، موسی، عبد اللہ،عبد اللہ اصغر،عبد الرحمن، عمیر اکبر، عمیر الاصغر، عمرو، عمران، صالح، عثمان ۔[104] [105] [106] [107]
ام الحکیم کبریٰ ، حفصہ ،ام القسم، کلثوم،ام عمران، ام الحکیم صغریٰ، ام عمرو، ہند، ام الزہر،ام موسیٰ، حمنہ، ام عمر، ام ایوب ام اسحاق، ملہ ،عمرہ ،عائشہ [108] [109][110]
ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں[111]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.