صحابی رسول اور مدبر عرب From Wikipedia, the free encyclopedia
عمرو بن عاص امیرالمومنین مولائے کائنات حضرت امام علی المرتضیٰ علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا۔ فتحِ مکّہ پر اسلام قبول کیا۔رسول اللہ ﷺ نے مکّہ کے قرب و جوار میں نصب بُتوں کو گرانے کے لیے مختلف صحابہؓ کو منتخب کیا۔ چناں چہ حضرت خالد ؓبن ولید کو’’ عزیٰ‘‘، حضرت سعد بن زیدؓ کو’’منات‘‘ اور حضرت عمروؓ بن العاص کو ’’سواع‘‘ نامی بُت گرانے کی ذمّے داری دی گئی۔ 8ھ میں جنگِ موتہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر واقع، وادی القریٰ میں مقیم، قبیلہ قفاء کے مشرکین نے مدینے پر حملے کی تیاری کر لی ہے۔ آنحضرتؐ نے اس مہم کے لیے حضرت عمروؓ بن العاص کو منتخب فرمایا، کیوں کہ اُن کی دادی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ تین سو مجاہدین کا لشکر لے کر محاذ پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ مشرکین نے بہت بڑی فوج جمع کی ہوئی ہے۔ آپؓ نے فوری حضور ﷺ کو اطلاع بھجوائی۔ چناں چہ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ مزید دو سو مجاہدین کی کُمک لے کر پہنچے، جن میں سیّدنا ابوبکرؓ، سیّدنا عُمرؓ سمیت سردارانِ انصار بھی تھے۔ کمک آجانے کے بعد حضرت عمروؓ نے ایک بھرپور حملہ کر کے قفاء کے پورے علاقے کو فتح کر لیا۔ محمد ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ’’ مسلمان، قبیلہ جزام کی سر زمین میں واقع ’’سلسل‘‘ نامی ایک چشمے پر اُترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام’’ذات السلال‘‘ پڑ گیا۔‘‘ اس جنگ میں حضرت عمروؓ کی سیاسی بصیرت اور جنگی حکمتِ عملی کے تین اقدامات کو رسول اللہ ﷺ نے بہت سراہا ۔(1) آپؓ راتوں کو سفر کرتے اور دن میں اپنی فوج کو گھاٹیوں میں چُھپا دیا کرتے تاکہ دشمن پر اچانک حملہ آور ہوں۔(2) سخت سردی کے باوجود کسی کو آگ جلانے کی اجازت نہیں دی تاکہ دشمن کو ان کی کم تعداد کا علم نہ ہو سکے۔(3) جنگ جیتنے کے بعد دشمن کے تعاقب سے منع کر دیا تاکہ اَن جان علاقوں میں بھٹک کر مجاہدین کی جانیں تلف نہ ہوں۔عرب کے جنوب میں واقع ریاست، عمّان میں دو مجوسی بھائیوں کی حکومت تھی، جو آگ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ فتحِ مکّہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمروؓ کو ایک خط دے کر عمّان روانہ کیا۔ حضرت عمروؓ خط لے کر دربار میں پہنچے اور اُن کے سامنے نہایت بصیرت افروز تقریر کی۔ اپنے مکارمِ اخلاق، حُسنِ تدّبر، سیاسی بصیرت اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں چند ہی دنوں میں نہ صرف دونوں بھائی مسلمان ہو گئے، بلکہ پوری رعایا بھی مشرف بہ اسلام ہو گئی۔ حضور اکرم ﷺ نے مسرّت کا اظہار فرما کر انھیں عمّان کا امیر مقرّر کر دیا۔ نبی کریم ﷺ کے رحلت فرمانے تک آپؓ عمان کے امیر کی حیثیت سے اسے علم کا گہوارا بنانے میں مصروف رہے۔پھر رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمروؓ کو بنو قضاء کے مرتدین اور منکرینِ زکوٰۃ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، تو آپؓ نے اس معرکے میں بھی کام یابی حاصل کی اور مدینہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انھیں دوبارہ عمّان کا حاکم بنا کر واپس بھیج دیا۔ 12 ہجری میں رومی اور ایرانی حکومتوں نے مسلمان علاقوں پر حملوں کا آغاز کیا، تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں عمّان سے واپس بلا کر مجاہدین کے ایک لشکر کا امیر مقرّر کر کے فلسطین روانہ کر دیا۔ جہاں رومیوں کا ایک لشکر اُن کا منتظر تھا،تاہم آپؓ نے صدیقِ اکبرؓ کو خط لکھ کر مزید کمک منگوا لی۔ جلد ہی حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت شرجیل ؓ، حضرت یزید بن ابی سفیانؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اسلامی فوجیں اُن سے آملیں۔ حضرت عمروؓ نے گھمسان کی جنگ میں رومیوں کو شکستِ فاش دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد حضرت عُمرؓ خلیفہ بنے، تو انھیں فوج کا سپہ سالار بنا کر مِصر روانہ کر دیا۔ مِصر دنیا بھر میں رومیوں کی پہچان تھا۔ حضرت عمروؓ نے بہترین حکمتِ عملی اور جنگی بصیرت کی بنا پر بہت جلد پورے مِصر پر قبضہ کر لیا۔ اُنھوں نے ایک نیا شہر بسایا، جس کا نام ’’فسطاط‘‘ رکھا۔ امیر المومنین، سیّدنا عُمر فاروقؓ نے’’ فسطاط‘‘ کو مِصر کا دار الحکومت قرار دے کر حضرت عمروؓ بن عاص کو مِصر کا حاکم مقرّر کر دیا۔حضرت عمروؓ بن عاص ہی کے دَور میں یہاں دریائے نیل کے خشک ہونے کا مشہور واقعہ پیش آیا، جو عمر فاروقؓ کا خط ڈالنے کے بعد دوبارہ بہنا شروع ہوا۔حضرت عمروؓ بن عاص نے اپنے دورِ حکومت میں یہاں بہت سی اصلاحات کیں۔ نئے شہر آباد کیے، نہریں کھدوائیں، زراعت کو وسعت دی، مدارس، مساجد، مسافر خانے، سڑکیں، پارک اور باغات بنوائے، جس کی بنا پر مصر خوش حال ممالک میں سرِ فہرست آگیا۔ مصر کے حاکم کی حیثیت سے حضرت عمروؓ نے شہر فسطاط کے قریب دریائے نیل سے بحیرۂ قلزم تک 69 میل لمبی ایک نہر’’نہرِ امیر المومنین ‘‘ تعمیر کروائی۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد، حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ بنے، تو انھوں نے حضرت عمروؓ بن العاص کو بدستور مِصر کے حاکم کی حیثیت سے برقرار رکھا، بلکہ انھیں دفاع اور خزانے کے محکمے بھی دے دیے۔حضرت عمروؓ بن العاص نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ میدانِ جنگ میں گزارا۔ 34ھ میں حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں یمن، عراق، شام، فلسطین اور مِصر کے فاتح اور ملّتِ اسلامیہ کے یہ عظیم جرنیل کہ’’جن کے نام سے لرزتے تھے قیصر و کسریٰ‘‘ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے گئے۔[3][4] [5] [6] [7]
عمرو بن العاص رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
مقام پیدائش | مکہ | ||||||
وفات | سنہ 664ء [1][2] مصر | ||||||
مدفن | مصر | ||||||
لقب | أبو عبد اللہ | ||||||
زوجہ | ام کلثوم بنت عقبہ ریطہ بنت منبہ | ||||||
اولاد | عبداللہ | ||||||
والد | Al-'As ibn Wa'il | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
رشتے دار | والد: عاص بن وائل السہمي والدہ: نابغہ بنت خزيمہ بن حارث بن كلثوم ان کی والدہ سے ان کے بھائی: عروة بن اثاثہ عدوی، عقبہ بن نافع | ||||||
مناصب | |||||||
خلافت راشدہ میں والئ مصر (1 ) | |||||||
برسر عہدہ 640 – 646 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
نسب | بنو سہم، قريش | ||||||
اہم واقعات | مصر کی فتح | ||||||
تاریخ قبول اسلام | 8 ھ | ||||||
پیشہ | عسکری قائد ، سفارت کار ، ریاست کار ، تاجر | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | خلافت راشدہ ، سلطنت امویہ | ||||||
شاخ | خلافت راشدہ کی فوج | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، جنگ یرموک ، جنگ صفین ، اسلامی فتح مصر ، اسلامی فتح شام ، المغرب کی اسلامی فتح | ||||||
درستی - ترمیم |
عمرو نام، ابو عبد اللہ اور ابو محمد کنیت، والد کا نام عاص اور والدہ کا نام نابغہ، تھا، جدی سلسلہ نسب یہ ہے، عمروبن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سلہم بن عمرو بن ہصیص ابن کعب بن لوی بن غالب قرشی سہمی، نانہالی نسب یہ ہے، نابغہ بنت حرملہ بن حارث بن کلثوم بن جوشن بن عمرو بن عبد اللہ بن حزیمہ بن غنزہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار۔[8] [9]
عمروبن العاص کا خاندان "بنوسہم"زمانہ جاہلیت سے معزز چلا آتا تھا،قریش کے سیاسی نظام میں مقدمات کا عہدہ اسی خاندان میں تھا، عمرو بن العاص جب تک اسلام نہیں لائے تھے، اسلام کی دشمنی اور مسلمانوں کی ایذارسانی میں عمائد قریش کی طرح یہ بھی پیش پیش تھے؛ چنانچہ مسلمانوں کا پہلا قافلہ جب ہجرت کرکے حبشہ گیا تو قریش کا جو وفد ان لوگوں کو حبشہ سے نکلوانے کے لیے نجاشی کے پاس گیا تھا، اس کے سب سے سرگرم رکن عمرو بن العاص ہی تھے، چنانچہ حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کے اخراج میں ہر قسم کی کوششیں کیں، پہلے بطریقوں سے مل کر ان کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا کہ یہ لوگ بھی مسلمانوں کے نکالنے میں وفد قریش کی تائید کریں ، اس کے بعد شاہِ حبش کی خدمت میں ہدایا پیش کرکے ساری امکانی کوشش صرف کیں کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو پناہ نہ دے، لیکن ان کی تمام مساعی ناکام رہیں۔ [10] غزوۂ خندق میں جس میں سارا عرب مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا تھا، عمرو بن العاص مشرکین کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی بیخ کنی میں پورا زور صرف کر رہے تھے۔ [11][12]
عمرو بن العاصؓ اگرچہ اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کے سخت ترین دشمن تھے، لیکن غزوۂ خندق کے بعد سے وہ اسلام سے متاثر ہونے لگے وہ اکثر دنیا اور اس کے انجام اور اسلام کی تعلیمات پر غور کیا کرتے تھے، ان کا بیان ہے کہ اس غور و فکر سے اسلام کی حقیقت مجھ پر ظاہر ہونے لگی اور اس سے میرا دل متاثر ہونے لگا اور میں نے مسلمانوں کی مخالفت سے رفتہ رفتہ کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کی، قریش نے اس کو محسوس کیا اور اس کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے ایک شخص بھیجا، اس نے مجھ سے بحث کرنا شروع کی، میں نے اس سے کہا بتاؤ ہم حق پر ہیں یا فارس و روم والے، اس نے کہا ہم ہیں پھر میں نے پوچھا کہ ان کو عیش و تنعم میسر ہے یا ہم کو، اس نے کہا ان کو میں نے کہا اگر اس عالم کے بعد دوسرا عالم نہیں ہے تو ہماری حق پرستی کس کام آئے گی جب کہ ہم دنیا میں بھی باطل پرستوں کے مقابلہ میں تنگ حال رہے اور دوسرے عالم میں بھی بدلہ کی کوئی امید نہ ہو، اس لیے محمد ﷺ کی یہ تعلیم کہ مرنے کے بعد ایک دوسرا عالم ہو گا جہاں ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا ملے گی کسی قدر صحیح دلنشین ہے [13] غزوۂ خندق کے بعد ان کو آنحضرت ﷺ کی کامیابی کا پورا یقین ہو گیا تھا اور یہی یقین ان کے اسلام کا ذریعہ بنا، اس کی تفصیل مسند احمد بن حنبل میں خود ان کی زبانی مذکور ہے۔ [14] [15] [16]
ان کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ غزوۂ احزاب سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے ان اشخاص کو جو مجھے مانتے تھے اور میری بات سنتے تھے، جمع کرکے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ یقین جانو کہ محمد ﷺ کی بات تمام باتوں پر سربلند ہوگی، اس میں کسی انکار کی گنجائش نہیں، میری ایک رائے ہے، تم اس کو کیسے سمجھتے ہو، لوگوں نے پوچھا کیا رائے ہے؟ انھوں نے کہا، ہم لوگ نجاشی کے پاس چل کر قیام کریں اگر محمد ﷺ ہماری قوم پر غالب آگئے تو ہم لوگ نجاشی کے پاس ٹھہر جائیں گے،کیوں کہ نجاشی کی ماتحتی میں رہنا محمد ﷺ کی ماتحتی سے کہیں زیادہ پسندیدہ ہے اور اگر ہماری قوم محمد ﷺ پر غالب ہوئی تو ہم ممتاز لوگ ہیں ہمارے ساتھ ان کا طرز عمل بہتر ہی ہوگا، اس رائے پر سب نے اتفاق کیا، میں نے کہا پھر اس کو تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز مہیا کرو، نجاشی کے لیے ہمارے یہاں کا سب سے بہتر تحفہ چمڑہ تھا؛ چنانچہ بہت سا چمڑا لے کر ہم لوگ حبشہ پہنچے، ہم لوگ نجاشی کے دربار میں جا رہے تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری بھی پہنچ گئے ان کو رسول اللہ ﷺ نے جعفر اور ان کے ساتھیوں کی کسی ضرورت سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جب وہ آکر چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نجاشی سے درخواست کریں کہ وہ عمروبن امیہ ضمری کو ہمارے حوالہ کر دے، اگر وہ دیدے تو اس کی گردن ماردیں تاکہ قریش کو معلوم ہو جائے کہ ہم نے محمد ﷺ کے سفیر کا سر قلم کرکے ان کا بدلہ لے لیا، یہ کہہ کر میں نجاشی کے دربار میں گیا اور حسب معمول سجدہ کیا، اس نے خوش آمدید کہا اور پوچھا میرے لیے اپنے ملک کا کوئی تحفہ لائے ؟ میں نے عرض کیا حضور بہت سا چمڑہ تحفہ میں لایا ہوں اور جو چمڑہ لے گیا تھا اس کو پیش کر دیا، اس نے بہت پسند کیا، پھر میں نے عرض کیا عالیجاہ!ابھی میں نے ایک آدمی حضور کے پاس سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے،یہ ہمارے دشمن کا بھیجا ہوا ہے، حضور قتل کرنے کے لیے اس کو ہمارے حوالہ کر دیں، اس نے ہمارے شرفا اور معززین کو تکلیفیں پہنچائی ہیں، نجاشی یہ درخواست سن کر بہت غضبناک ہوا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اس نے زور سے اپنی ناک پر مارا کہ میں سمجھا ٹوٹ جائے گی، اس کی اس حرکت سے میں اس قدر نادم و شرمسار ہوا کہ اگر زمین شق ہوتی تو میں اس میں سما جاتا، پھر میں نے عرض کیا، شاہا! اگر میں سمجھتا کہ حضورکو یہ درخواست ناگوار ہوگی تو میں نہ کرتا، وہ بولا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے شخص کا قاصد جس کے پاس وہ ناموس اکبر آتا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، قتل کے لیے تمھارے حوالہ کر دوں میں نے عرض کیا، عالی جاہ! کیا واقعی وہ ایسا ہے؟وہ بولا عمرو!تمھاری حالت قابلِ افسوس ہے، میرا کہنا مانو اور اس کی پیروی کرلو، خدا کی قسم وہ حق پر ہے، وہ اپنے تمام مخالفوں پر غالب آئے گا، جس طرح موسیؑ فرعون اور اس کے لشکر پر غالب ہوئے تھے، میں نے کہا پھر اس کی طرف سے آپ مجھ سے اسلام کی بیعت لے لیجئے؛ چنانچہ اس نے ہاتھ پھیلایا اورمیں نے اسلام کی بیعت کی، یہاں سے جب میں ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا تو میرے تمام خیالات پلٹ چکے تھے؛لیکن میں نے اپنے ساتھیوں پر ظاہر نہیں کیا اور رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک حق پر ست پر اسلام لانے کے لیے روانہ ہو گیا، راستہ میں خالد بن ولید مکہ سے آتے ہوئے ملے، یہ فتح مکہ کے پہلے کا واقعہ ہے، میں نے کہا ابا سلیمان!کہاں کا قصد ہے؟ وہ بولے خدا کی قسم خوب پانسا پڑا، خدا کی قسم یہ شخص یقیناً نبی ہے، اب جلد اسلام قبول کرلینا چاہیے، یہ لیت و لعل کب تک، میں نے کہا خدا کی قسم میں بھی اسی قصد سے چلا ہوں، چنانچہ ہم دونوں ایک ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے خالد ابن ولید نے بیعت کی، پھر میں نے قریب ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں بیعت کروں گا، لیکن آپ میرے اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف کر دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا عمرو بیعت کرلو اسلام اپنے ماقبل کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے ماقبل کے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے چنانچہ میں نے بیعت کی اور بیعت کر کے لوٹ گیا۔ [17] [18] [19]
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبول اسلام کے بعد مکہ لوٹ گئے، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے۔ [20]
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرف رہے، انتہا پسند رہے، اسلام کے قبل اس کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور اسلام کے بعد کفرو شرک کے استیصال میں اسی شد ومد سے کمر بستہ ہو گئے، قبول اسلام کے بعد گذشتہ مخالفتوں کو یاد کرکے پشیمان ہوتے تھے، چنانچہ کہا کرتے تھے، جب میں حالت کفر میں تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن تھا، اگر اسی حالت میں مرجاتا تو میرے لیے دوزخ کے علاوہ کوئی ٹھکانا نہ تھا اور جب بیعت کرکے حلقہ بگوشِ اسلام ہوا تو کبھی آنحضرت ﷺ سے آنکھیں نہ چار کرسکا۔ [21] [22]
فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے مختلف حصوں میں دعوتِ اسلام کے لیے تبلیغی دستے روانہ فرمائے تھے، اسی سلسلہ کا ایک سریہ ذات السلاسل بھی ہے، ابن سعد بغدادی نے اس سریہ کو سرے سے مدافعانہ لکھا ہے، چنانچہ ان کی روایت کے مطابق صورت واقعہ یہ ہے کہ بنو قضاعہ کے کچھ اشخاص نے ایک جماعت فراہم کرکے مسلمانوں پر حملہ کا ارادہ کیا، آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے عمرو بن العاصؓ کو تین سو مہاجرین وانصار کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا، [23] لیکن صحیح یہ ہے کہ پہلے یہ سریہ مدافعت کی غرض سے نہیں بھیجا تھا؛بلکہ اس کا مقصد اشاعتِ اسلام تھا، علامہ ابن اثیر نے تصریح کردی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمرو بن العاصؓ کو قبیلہ بلی اور عذری کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا تھا، تاکہ وہ اعراب کو اسلام کی طرف راغب کریں، [24] لیکن جب قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ لڑنے پر آمادہ ہیں، عمرو بن العاصؓ نے آنحضرت ﷺ سے امداد طلب کی، آپ نے دو سو آدمیوں کی ایک جمعیت ابو عبیدہؓ بن جراح کے ساتھ روانہ کی جس میں حضرت ابوبکرؓ صدیق و عمرؓ بھی شامل تھے اور تاکید فرما دی کہ کسی بارہ میں باہم اختلاف نہ کرنا، ابو عبیدہ بن جراح امدادی دستہ لے کر پہنچے تو ان میں اور عمرو بن العاصؓ میں امارت کے بارہ میں اختلاف ہو گیا، عمرو بن العاصؓ کہتے تھے کہ امامت میرا حق ہے، کیونکہ میں فوج کا امیر ہوں اور تم میری امداد کے لیے آئے ہو، اس لیے میرے ماتحت ہو، ابو عبیدہؓ نے آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے مطابق گریز کیا اور ان کی امامت قبول کرلی، اس کے بعد دونوں بلی، عذریٰ اور بلقین کی آبادیوں کو پامال کرتے ہوئے اس کے آخری حد تک بڑھتے چلے گئے، راستہ میں صرف ایک جماعت سے مقابلہ ہوا؛ مگر وہ بھی ہزیمت کھا کر بھاگی۔ .[25][26] [27][28]
فتح مکہ کے بعد جب کہ عرب کے اکثر قبائل مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے، بعض ایسے قبائل باقی رہ گئے تھے، جو صدیوں کے اعتقاد کی بنا پر بتکدوں کو ڈھاتے ہوئے ڈرتے تھے؛ اس لیے آنحضرت ﷺ نے چند دستے صرف ان کے گرانے کے لیے بھجے تاکہ عرب کے دلوں سے ان کا خوف وہراس اوران کی عظمت جاتی رہے، سواع بنو مذیل کا صنم کدہ تھا، آنحضرت ﷺ نے عمرو بن العاصؓ کو اس کے ڈھانے پر متعین کیا، جب یہ وہاں پہنچے تو اس کے مجاورنے پوچھا کس نیت سے آئے ہو؟ عمرو بن العاصؓ نے کہا اس کو ڈھانے کے لیے، اس جواب پر اس نے مدافعت کرنے کی بجائے جواب دیا کہ تم اس کو نہ گراسکو گے، وہ خود اپنی حفاظت کرے گا، انھوں نے کہا تم اب تک اسی وہم اورباطل پرستی میں مبتلا ہو،جس میں سننے اور دیکھنے تک کی طاقت نہیں وہ روک کیا سکتا ہے، یہ کہا اور اس کو مسمار کرکے مجاور سے بولے، اس کی طاقت دیکھ لی وہ یہ واقعہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر مشرف باسلام ہو گیا۔ [29] [30][31]
فتح مکہ کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے آس پاس کے حکمرانوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تو عمان کے حاکموں عبید وجیضر کے پاس خط لیجا نے کی خدمت عمرو بن العاصؓ کے سپرد ہوئی، اس خط پر وہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے عمروبن العاص کو یہاں کا عامل کر دیا، [32] اس لیے وہ وفات نبوی تک یہیں مقیم رہے۔ [33] [34]
حضرت ابوبکرؓ صدیق کے استخلاف کے بعد جب ارتداد اور مدعیانِ نبوت کا فتنہ اٹھا اس وقت عمروبن العاصؓ عمان ہی میں تھے،حضرت ابوبکرؓ صدیق نے آنحضرت ﷺ کی وفات اور موجودہ حالات کی اطلاع دے کر ان فتنوں کے دبانے کے لیے بھیجا، چنانچہ یہ بحرین کے راستہ سے آگے بڑھے، راستہ میں قبیلہ بنی عامر میں قرہ بن ہبیرہ کے یہاں مہمان ہوئے اس نے بڑی خاطر و مدارات کی، چلتے وقت تنہائی میں لے جاکر کہا کہ اگر عربوں سے زکوٰۃ لی گئی تو وہ کسی کی کی امارت قبول نہ کریں گے، ہاں اگر زکوٰۃ کا طریقہ بند کر دیا گیا تو البتہ مطیع و فرماں بردار رہیں گے، اس لیے زکوٰۃ کا قانون اٹھا دینا چاہیے، انھوں نے کہا قرہ!کیا تم کافر ہو گئے؟ مجھ کو عربوں سے ڈراتے ہو، خدا کی قسم میں ایسے لوگوں کو گھوڑے کی ٹاپ سے مسل ڈالوں گا، یہ شخص بعد میں جب مانعین زکوٰۃ کے سلسلہ میں گرفتار ہوا تو عمرو بن العاصؓ کی شہادت پر چھوڑ دیا گیا، [35] مدینہ پہنچ کر بنو قضاعہ کے مرتدین کی سرکوبی ان کے سپرد ہوئی اور انھوں نے اپنے حسن تدبیر سے اس کو دوبارہ اسلام پر قائم کیا اور اس مہم کو سر کرنے کے بعد عمان لوٹ گئے۔ ،[36]
فتنہ ارتداد فرو ہونے کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عراق وشام کی طرف توجہ کی اور 13ھ میں شام کے مختلف حصوں میں علاحدہ علاحدہ فوجیں روانہ کیں تو عمرو بن العاصؓ کو جو اس وقت عمان میں تھے، لکھ بھیجا کہ تم کو آنحضرت ﷺ نے عمان کا والی مقرر کیا تھا، اس لیے میں نے تم کو دوبارہ واپس کر دیا تھا، لیکن اب میں تم کو ایسے کام میں لگانا چاہتا ہوں جو تمھاری دنیا وآخرت دونوں کے لیے مفید ہے، انھوں نے جواب دیا کہ میں اللہ کا ایک تیر ہوں اورآپ اس کے بعد اس کے تیر انداز ہیں، اس لیے آپ کو اختیار ہے جدھر چاہے پھینکئے، [37] چنانچہ عمان سے واپس بلا کر فلسطین کی مہم پر مامور کیا۔ [38]
ہر قل کو جب خبر ہوئی کہ اسلامی فوجیں شام کے چاروں طرف منڈلارہی ہیں، تو اس نے ان سب کے مقابلہ کے لیے علاحدہ علاحدہ فوجیں روانہ کیں تاکہ اسلامی فوجیں باہم ملنے نہ پائیں، رومیوں کے مشہور سپہ سالار تذارق اور قبقلار تھے، اجنادین میں اپنی فوجیں اتار دیں، عمرو بن العاص اس وقت فلسطین کے علاقہ عربات میں تھے، یہ رومیوں کے اجتماع کی خبرپاکر اجنادین کی طرف بڑھے، اس درمیان میں خالدؓ بن ولید اور ابو عبیدہ بھی بصریٰ کی مہم سر کر کے ان کی مدد کو روانہ ہو گئے اور اجنادین میں یہ تینوں مل گئے، رومی سپہ سالار نے پوچھا کیا خبر لائے، اس نے کہا یہ لوگ رات کو عابدِ شب زندہ دار اور دن کو میدان جنگ کے شہسوار ہیں، اگر ان کا شہزادہ بھی کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس پر شرعی حد جاری کرتے ہیں، اس نے کہا اگر واقعی ان میں یہ صفات ہیں تو زمین میں دفن ہو جانا ان کے مقابلہ سے بہتر ہے، غرض جمادی الثانی 13ھ میں دونوں کا مقابلہ ہوا، رومی سپہ سالار مارا گیا اور رومیوں نے سخت ہزیمت اٹھائی۔ [39] اجنادین کے معرکہ کے بعد عمرو بن العاصؓ بھی خالد اور ابو عبیدہؓ کے ساتھ ہو گئے اور ایک حصہ فوج کے سردار تھے۔ [40]
اجنادین کے بعد اسلامی لشکر دمشق کی طرف بڑھا کہ شام کا صدر مقام تھا، اس لیے مسلمانوں نے اس کا بڑے اہتمام سے محاصرہ کیا، شہر پناہ کے تمام صدر دروازوں پر الگ الگ افسر متعین کیے، چنانچہ عمرو بن العاصؓ باب توما پر مامور تھے، عرصہ تک محاصرہ قائم رہا اور آخر میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی خوش تدبیری سے فتح ہوا۔ [41]
دمشق کی فتح کے بعد فحل کا رخ کیا، لیکن رومی پہلے سے دریا کا بند توڑ کر بسیان چلے گئے تھے، جس سے دونوں کے درمیان میں دنیائے آب روان ہو گئی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہیں فوجیں ٹھہرا دیں،اس معرکہ میں حضرت عمرو بن العاصؓ فوج کے ایک حصہ کے افسر تھے [42] مسلمان یہاں مقیم تھے کہ ایک دن اچانک اسی ہزار رومیوں نے عقب سے حملہ کر دیا اور ایک شبانہ روز سخت کشت وخون کے بعد شکست کھائی اور جدھر راستہ ملا بھاگے، مگر مسلمانوں نے تعاقب کرکے جہاں تک مل سکے قتل کیا، اس سے فارغ ہوکر بیسان کا محاصرہ کیا، ایک دن رومیوں نے قلعہ سے نکل کر مقابلہ کیا، مگر سب کے سب مارے گئے، باقی ماندہ آبادی نے صلح کرلی۔ [43] [44]
ان مسلسل اور پہیم شکستوں سے سارے روم میں کہرام مچ گیا اور رومیوں نے قیصر سے فریاد کی کہ مسلمانوں نے سارا شام ویران وتباہ کرڈالا، وہ بھی ان کی تاخت وتاراج سے تنگ آچکا تھا، اس لیے سارے ممالک محروسہ میں فرمان جاری کر دیا کہ ساری فوجیں ایک جگہ جمع ہو جائیں اور جہاں تک آدمی مل سکیں بھرتی کیے جائیں، چنانچہ دو لاکھ انسانوں کا دل اس حکم پر امنڈآیا۔ [45] عمرو بن العاصؓ نے مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع ہوکر متحدہ قوت سے مقابلہ کرنا چاہیے اور دربارخلافت سے بھی اسی مشورہ کی تائید ہوئی، چنانچہ اسلامی فوجیں ہر چہار طرف سے سمٹ کر یرموک میں جمع ہوئیں، چونکہ اس معرکہ میں سارا شام امنڈ آیا تھا اور مسلمانوں کی تعداد ان کے چوتھائی حصہ سے بھی کم تھی، اس لیے خالدؓ نے غیر معمولی توجہ سے کام لیا اور جدید طرز پر فوج کو چھبیس 26 حصوں پر تقسیم کیا، میمنہ کے بھی کئی ٹکڑے کرکے اس پر عمرو بن العاصؓ اور شرجیل بن حسنہ کو مقرر کیا، [46] اور دونوں فوجیں پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں، عرصہ تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا اور متعدد ہولناک لڑائیاں ہوئیں،عمرو بن العاصؓ بڑے جوش وخروش سے لڑتے تھے اوراپنی پر جوش تقریروں سے آگ لگا دیتے تھے، ابتدا میں مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے تھے ؛بلکہ بہتیرے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؛ لیکن پھر سنبھل کر اس زور کا حملہ کیا کہ رومی پوری کوشش کے باوجود نہ ٹھہر سکے اور میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ [47]
فلسطین کا کچھ حصہ عمرو بن العاصؓ دمشق کے قبل لے چکے تھے، لیکن درمیان میں دمشق، فحل یرموک وغیرہ کی مہموں کی وجہ سے پہلی مہم ناتمام رہ گئی تھی، اس لیے یرموک وغیرہ سے فراغت کے بعد عمرو بن العاصؓ پھر ادھر متوجہ ہوئے اور غزہ، سبسطین نابلس، لد، بینی، بیت، جیریں اور عمواس وغیرہ آسانی سے فتح کرکے یہ سلسلہ مکمل کر دیا۔ [48] [49]
لیکن ابھی فلسطین کا سب سے بڑا شہر ایلیا (بیت المقدس) باقی رہ گیا تھا اس لیے چھوٹے چھوٹے مقامات لینے کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے رومی سپہ سالار ارطبون کو خط لکھا، اس نے جواب دیا کہ اجنادین کے علاوہ اب فلسطین کا ایک چپہ زمین بھی نہیں لے سکتے [50] اس جواب کے بعد انھوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا، حضرت ابوعبیدہؓ بھی قنسرین کی مہم سر کرکے پہنچ گئے؛لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی، ایلیا والوں نے اس شرط پر شہر حوالہ کر دینے کا وعدہ کیا کہ خود امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں ؛چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا سفر کیا اور صلح نامہ لکھ کر ان کے حوالہ کر دیا اور شام کا یہ متبرک شہر جس کو انبیا ورسل علیہم السلام کے آرام گاہ ہونے کا شرف حاصل تھا مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اور شام پر مکمل قبضہ ہو گیا۔ [51]
اسی سال شام،عراق اور مصر میں سخت طاعون پھیلا، ہزاروں جانیں ضائع ہوگئیں، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ یہاں وبا کا زور ہے، اس لیے فوجیں ہٹا کر کسی محفوظ مقام پر بھیج دینی چاہیے؛لیکن اسلامی فوج کے امیر حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح بڑے متوکل تھے، انھوں نے کہا یہ اللہ کی رحمت ہے، اس میں بڑے بڑے صلحاء نے وفات پائی ہے اس سے فرار کے کیا معنی، چنانچہ انھوں نے عمواس کو نہیں چھوڑا اور خود بھی اس میں مبتلا ہو گئے، آخر میں انھوں نے عمرو بن العاصؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خود اس رحمت کے دامن میں آئے، ان کی وفات کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش قدمی روک کر طاعون زدہ مقامات سے فوجیں ہٹالیں۔ [52]
شام کا فیصلہ ہونے کے بعد بھی عمرو بن العاصؓ کے بلند حوصلے پورے نہ ہوئے؛کیونکہ شام کی فتوحات میں خالدؓ اور ابو عبیدہ بن جراح کی قوتوں کو زیادہ دخل تھا، اس لیے ان کو ایسے میدان میں تلاش ہوئی جہاں تنہا اپنی تلوار کے جوہر دکھائیں اور چونکہ شام کے قریب مصر بہت زیادہ زرخیز اور شاداب مقام تھا اور عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانۂ جاہلیت سے اس کی شادابی سے واقف تھے، ( کیونکہ یہ تجارت کے سلسلہ میں مصر آیا کرتے تھے ) اس لیے حضرت عمرؓ بن خطاب سے پیش قدمی کی اجازت چاہی، لیکن حضرت عمرؓ بن خطاب کو اجازت دینے میں دو وجہوں سے پس و پیش ہوا، اول یہ کہ شام کی مہم سر کرنے کے بعد ابھی اسلامی فوجوں نے دم نہ لیا تھا، دوسرے مقوقس شاہ مصر کی قوت کا تھوڑی فوج سے مقابلہ کرنا دشوار تھا، لیکن آخر میں عمرو بن العاصؓ کے اصرار اور حوصلہ مندی سے مجبور ہوکر اجازت دیدی اوران کے جانے کے بعد زبیر بن عوامؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ امداد کے لیے روانہ کر دیا، عمرو بن العاصؓ نے شام سے نکل کر پہلا مقام باب الیون میں کیا۔ [53] [54]
عمرو بن العاصؓ کے پہنچنے کے قبل آپ کی آمد کی اطلاع پاکر مصری فوجیں باب الیون پہنچ گئی تھیں، ابو مریم مصر کا اسقف ان کی قیادت کررہا تھا، اس لیے عمرو بن العاصؓ کے پہنچنے کے ساتھ ہی دونوں میں جھڑپ ہوئی، مگر عمرو بن العاصؓ نے لڑائی روک دی اور ابو مریم سے تخلیہ میں گفتگو کی خواہش کی، چنانچہ وہ دونوں آئے، انھوں نے اسلام پیش کیا اور آنحضرت ﷺ کی وصیت سنائی، (حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی مصری تھیں، اس تعلق سے آپ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی تھی کہ مصر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا) اور اسلام قبول کرنے کی صورت میں جزیہ کی شرط پیش کی، یہ دونوں چند دن کی مہلت لے کر استصواب کے لیے مقوقس کے پاس گئے؛لیکن ارطبون سپہ سالار مصر نے انکار کر دیا اوراہل مصر کو اطمینان دلایا کہ تم لوگ مطمئن رہو، میں مسلمانوں کو ہٹا دوں گا، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کئی دن تک جواب کا انتظار کرتے رہے، مگر اس درمیان میں ارطبون مقابلہ میں آگیا، مگر فاش شکست کھائی۔ [55] [56]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مصر پر فوج کشی کی اجازت تو دیدی تھی، مگر دل مطمئن نہ تھا، اس لیے وہ عریش تک پہنچے تھے کہ فرمان خلافت پہنچا کہ اگر مصر کے حدود میں داخل نہ ہوئے ہو تو واپس چلے آؤ اور پہنچ چکے ہو تو پیش قدمی جاری رکھو، یہ خط چونکہ عریش میں ملا (عریش شام کا مصر کی سرحد پر حکومت مصر کا ایک قریہ تھا) اس لیے واپس نہ ہوئے اور عریش لینے کے بعد فرما کی طرف بڑھے، اس کو جالینوس کا مدفن ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل تھی اوریہاں کے لوگ مقابلہ کے لیے پورے طور پر تیار تھے، اس لیے جیسے ہی اسلامی فوج پہنچی، ان لوگوں نے نکل کر مقابلہ کیا، مگر شکست کھائی۔ [57] [58]
فرما کی تسخیر کے بعد عمرو بن العاصؓ بلبیس اور ام ونین وغیر فتح کرتے ہوئے عین شمس پہنچے، عین شمس زمانہ قدیم میں بڑا عظیم الشان اور گنجان شہر تھا، یہاں آفتاب کا ہیکل تھا، جس کی تیرتھ کو ہزاروں آدمی آتے تھے، لیکن جس زمانہ میں مسلمانوں کاحملہ ہوا اس وقت تباہ ہو چکا تھا، بعد میں یہی مقام آباد ہوکر فسطاط کے نام سے مشہور ہوا۔ [59] عمرو بن العاصؓ کے حملہ کے وقت اگرچہ یہاں کوئی آبادی نہ تھی؛بلکہ چراگاہیں تھیں ؛تاہم قصر شمع یہاں ایک قلعہ تھا، جس میں مقوقس کی فوج رہتی تھی، مصر کی تسخیر کے لیے اس کا لینا ضروری تھا، اس لیے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کی تیاریاں شروع کیں،اسی دوران میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دس ہزار کی جمعیت لے کر پہنچ گئے اور دونوں نے دوسمتوں سے حملے شروع کردیے، [60] مگر قلعہ اس قدر مستحکم تھا کہ مہینوں لگ گئے، آخر میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تنگ آکر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے آپ کو دیکھ کر بہت سے جانثار سیڑھی لگا کر پہنچ گئے اور سب لوگوں نے اس زور سے تکبیر کا نعرہ لگایا کہ قلعہ والے بدحواس ہو گئے اور سمجھے کہ مسلمان قلعہ میں آگئے،اس لیے انھوں نے خود اس کے دروازے کھول دیے، [61] اب ان کے لیے سوائے مصالحت کے کوئی چارہ کارنہ تھا، اس لیے صلح کی درخواست کی مسلمانوں نے منظور کرلی اور اتنی رعایت کی کہ فاتحانہ داخلہ کے باوجود شرائط بہت نرم رکھے، یہی مقام بعد میں آباد ہوکر فسطاط کے نام سے موسوم ہوا۔ [62] [63]
عین شمس کی فتح کے بعد عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ بن خطاب سے اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کی اجازت مانگی، وہاں سے اجازت ملنے کے بعد خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو مفتوحہ مقامات کا حاکم مقرر کر کے اسکندریہ روانہ ہو گئے، رومیوں اور قبطیوں کو پہلے سے اطلاع ہو چکی تھی، اس لیے انھوں نے آگے بڑھ کر روکنا چاہا اور اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان مقام کریوں میں دونوں کا سخت مقابلہ ہوا، رومی شکست کھا کر بھاگ گئے، [64] اور حضرت عمروؓ بن العاص بڑھتے ہوئے اسکندریہ پہنچے، یہاں کے باشندے مقابلہ کے لیے ہمہ تن تیار تھے مگر مقوقس خود صلح کا خواہش مند تھا، اس لیے اس نے مفاہمت کی درخواست کی؛لیکن عمرو بن العاص نے انکار کر دیا، اب مقوقس شاہ مصر کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ رومیوں کی خواہش کے مطابق جنگ کے لیے آمادہ ہو جائے، چنانچہ قلعہ کی فصیل پر فوجوں کی صف بندی کی اور مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے عورتوں کو بھی شامل کر لیا اور ان کے چہرے شہر کی طرف کردیے تاکہ مسلمان پہنچان نہ سکیں،حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہلا بھیجا کہ ہم یہ اہتمام سمجھتے ہیں، لیکن یاد رکھو ہم نے فوج کی کثرت کے بل پر میدان نہیں سر کیے ہیں، تمھارے بادشاہ ہر قل کا جو زور وقوت میں تم سے کہیں بڑھ کر ہے، کیا انجام ہوا، مقوقس نے جوہر موقع پر صلح کا پہلو ڈھونڈتا تھا، اسکندریہ والوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ واقعی ہمارے شہنشاہ ہر قل کو ان لوگوں نے اس کے دار السلطنت سے بھگا کر قسطنطنیہ پہنچا دیا، تو ہم لوگ کس شمار میں ہیں، اس کے جواب میں اسکندریہ والوں نے اس کو بہت برا بھلا کہا اور لڑائی کی تیاریاں ہونے لگی۔
مقوقس شاہ مصر ابتدا سے جنگ کا مخالف تھا، مگر ہر قل کے خوف سے جس کا وہ باج گزار تھا، علی الاعلان لڑائی سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا تھا، لیکن درپردہ وہ برابر مسلمانوں سے صلح کی کوشش کرتا رہا، ہر قل کو اس کی اطلاع ہو گئی، وہ بہت برہم ہوا اور اسی وقت اسکندریہ فوجیں روانہ کر دیں، لیکن مقوقس شاہ مصر نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہی خفیہ معاہدہ کر لیا تھا کہ یہ جنگ ہماری مرضی کے خلاف ہورہی ہے اور ہم بدرجہ مجبوری اس میں شریک ہیں اس لیے قبطیوں اور رومیوں میں امتیاز ر کھنا اور قبطیوں کے ساتھ وہ سلوک نہ کرنا، جس کے رومی مستحق ہیں، اس معاہدے کے بعد قبطی ہر طرح سے مسلمانوں کے مدد گار رہے اوران کے لیے راستہ صاف کراتے اور گذر گاہوں کے پلوں کی مرمت کرتے تھے۔ غرض اسکندریہ والوں کی تیاری کے بعد مسلمانوں نے اسکندریہ کا محاصرہ کر لیا لیکن قلعہ اس قدر مضبوط مستحکم تھا کہ دو مہینہ تک کوئی نتیجہ نہ نکلا، اس درمیان میں صرف یہ واقعہ قابل ذکر پیش آیا کہ ایک دن قلعہ کے آڑ سے کچھ سوار برآمد ہوئے، ان میں اور مسلمانوں میں مڈبھیڑ ہو گئی جس میں بارہ مسلمان شہید ہوئے، رومیوں کے لیے یہ معرکہ بہت اہم تھا، کیونکہ اسکندریہ میں ان کا سب سے بڑا کنیسہ تھا، اس کے نکل جانے کے بعد ان کی مرکزیت بالکل فنا ہو چکی تھی، اس لیے خود قیصر روم نے جنگ میں شرکت کی تیاریاں شروع کیں، مگر بد قسمتی سے سازو سامان مکمل کرنے کے بعد خود چل بسا، اس کی موت سے رومیوں کی ہمت پست ہو گئی اور بہتوں نے جو اس کے ساتھ تیاریاں کر رہے تھے ارادہ فسخ کر دیا کہ بغیر بادشاہ کے لڑنا بے سود ہے، البتہ اسکندریہ کی فوجیں برابر مدافعت میں مشغول رہیں اور کبھی کبھی باشندگان اسکندریہ مسلمانوں سے دو چار ہاتھ کا تبادلہ بھی ہو جاتا تھا، لیکن رومی برابر قلعہ میں رہتے تھے، ایک دن کچھ لوگ قلعہ سے نکلے اور ایک مسلمان کا سرکاٹ کر اس کو ساتھ لیتے گئے، مقتول کے قبیلہ کے لوگ بہت غضبناک ہوئے اور بغیر سر کی نعش دفنانے پر تیار نہ ہوئے، حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا اس غیط و غضب سے کیا فائدہ، اگر سر واپس لینا چاہتے ہو تو تم بھی کسی رومی کا سرکاٹ کر اس کو رومیوں کی طرف پھینک دو، چنانچہ ایک پادری ہاتھ آگیا، اس کا سر قلم کر کے کسی طرح رومیوں تک پہنچا دیا،اس کے جواب میں انھوں نے مقتول مسلمان کا سر پھینک دیا، چونکہ لڑائی طول پکڑتی جاتی تھی، اس لیے ایک مسلمان نے مشورہ دیا کہ منجنیق نصب کرکے قلعہ پر سنگباری کی جائے لیکن عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ ایسی نازک حالت میں صف بندی توڑنا مناسب نہیں، ابھی تک جم کر دست بدست لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی، البتہ کبھی کبھی قلعہ والے نکل آتے تھے اور دو چار ہاتھ ردوبدل کے بعد قلعہ بند ہو جاتے، ایک دن قلعہ سے نکل کر لڑ رہے تھے کہ رومیوں کی صف سے آواز آئی کہ کون مسلمان میرے مقابلہ میں آتا ہے؟ حضرت مسلمہ بن مخلدؓ بڑھے، مگر بھاری بھرکم آدمی تھے اس لیے حملہ کرتے وقت گھوڑے پر سنبھل نہ سکے اور رومی نے پچھاڑ دیا، مگر مسلمانوں نے بڑھ کر بچالیا، عمرو بن العاصؓ کو غصہ آگیا،انھوں نے کہا ایسے نامردوں کو میدان میں آنے کی کیا ضرورت تھی، مسلمہؓ بن مخلد انصاری کو بہت ناگوار ہوا، مگر مصلحت وقت کے خیال سے خاموش رہے اور لڑائی کا بازار گرم ہو گیا، مسلمان رومیوں کو جوش میں دباتے ہوئے قلعہ کے اندر تک چلے گئے اور دیر تک قلعہ کے اندر لڑتے رہے، لیکن پھر رومیوں نے سنبھل کر مسلمانوں کو قلعہ کے باہر کر دیا، ان کے نکلنے کے بعد رومیوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا، اتفاق سے چار آدمی جن میں ایک حضرت عمرو بن العاصؓ اور دوسرے مسلمہ ؓ بن مخلد تھے، قلعہ ہی میں رہ گئے، رومیوں کی نظر پڑی تو کہا اب تم ہمارے بس میں ہو، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے کو ہمارے حوالہ کر دو، بیکار جان دینے سے کیا فائدہ، عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، البتہ اگر تم ہم کو چھوڑدو تو تمھارے قیدی واپس کردیے جائیں گے، رومی اس پر آمادہ نہ ہوئے اور رہائی کی یہ شرط ٹھری کہ چار محصورین میں سے کوئی ایک کسی رومی کا مقابلہ کرے،اگر مسلمان فتحیاب ہو جائے تو سب چھوڑ دیے جائیں گے ورنہ انھیں حوالہ کر دینا ہوگا، عمرو بن العاصؓ راضی ہو گئے اور خود مقابلہ میں آنا چاہا، مگر مسلمہؓ نے سمجھا یا کہ آپ امیر ہیں، اگر آپ کو کوئی صدمہ پہنچا تو فوج کا کیا حشر ہوگا، اس لیے مجھ کو نکلنے دیجئے، ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور مسلمہؓ بن مخلد مقابلہ میں آئے، خوش قسمتی سے دوہی ایک ہاتھ میں رومی کو گرادیا اور اس طرح سے ان لوگوں کی جان بچ گئی، ان کے چھوٹنے کے بعد رومیوں کو معلوم ہوا کہ ان میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار عمرو بن العاصؓ بھی تھے، مگراب سوائے پشیمانی کے اور کیا ہو سکتا تھا اس لیے ہاتھ مل کے رہ گئے، عمرو بن العاصؓ مسلمہؓ بن مخلد کو ڈانٹنے پر بہت نادم تھے، اس لیے رہائی کے بعد سب سے پہلے ان سے معافی مانگی، مسلمہؓ نے نہایت خوش دلی سے معاف کر دیا اور پھر بدستور محاصرہ میں مشغول ہو گئے، اسکندریہ کے محاصرہ کو قریب قریب دو سال ہو چکے تھے؛ لیکن ہنوز روز اول تھا، حضرت عمرؓ اس تاخیر سے بہت پریشان تھے، چنانچہ انھوں نے لکھ بھیجا کہ تم لوگ دو سال سے جمے ہوئے ہو، لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہ نکلا، معلوم ہوتا ہے رومیوں کی طرح تم بھی عیش وعشرت میں اور ہوا وہوس میں پڑکر اپنے فرائض اور خلوص نیت کو بھول گئے جس وقت تم کو میرا خط ملے، لوگوں کے سامنے جہاد پر تقریر کرو، اورجن چار آدمیوں کو میں نے بھیجا تھا، ان کو فوج کے آگے کر کے جمعہ کے دن حملہ کردو، عمرو بن العاصؓ نے فوج کو یہ خط سنادیا، اس سے ان لوگوں میں نیا جوش پیدا ہو گیا اور فوج کو مرتب کرکے حضرت عبادہ بن صامتؓ کے نیزے پر جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے، اپنا عمامہ لٹکا کر ان کے حوالہ کیا کہ یہ علم لیجئے اور آپ اس فوج کے سردار ہیں، حضرت عبادہؓ بن صامت نے اس جوش و خروش سے حملہ کیا کہ پہلے ہی حملہ میں رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اوران کو خشکی وتری جس راستہ سے جدھر راہ ملی بھاگ نکلے، عمرو بن العاصؓ نے ایک ہزار آدمی متعین کرکے خشکی کی سمت رومیوں کا تعاقب کیا، ادھر وہ تعاقب میں مصروف تھے، رومیوں نے بحری راستہ سے پلٹ کر حملہ کر دیا اور جس قدر مسلمان ملے بے دریغ قتل کردیے،عمرو بن العاص کو معلوم ہوا تو تعاقب چھوڑ کر لوٹ پڑے، رومیوں کا یہ حملہ صرف اتفاقی تھا، ان کی قوت ٹوٹ چکی تھی، اس لیے عمرو بن العاصؓ کو دوبارہ کوئی زحمت پیش نہیں آئی اور آسانی سے زیر کر لیا اور معاویہؓ بن خدیج کو فتح کا مژدہ سنانے کے لیے دار الخلافہ روانہ کیا، وہ بعجلت منزلیں طے کرتے ہوئے ٹھیک دوپہر کے وقت مدینہ پہنچے اور سیدھے مسجد نبوی ﷺ میں چلے گئے، اتفاق سے اس وقت حضرت عمرؓ کی لونڈی اس طرف سے گذری، اس نے انہی سے مسافرانہ شکل میں دیکھ کر پوچھا تم کون ہو؟ کہا معاویہ بن خدیج، عمرو بن العاصؓ کا قاصد، اس نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی، آپ نے فوراً طلب کیا، ان کے پہنچتے پہنچتے خود آنے کو تیار ہو رہے تھے دیکھنے کے ساتھ ہی پوچھا کیا خبر لائے، عرض کیا اللہ نے کامیاب کیا، یہ مژدہ سن کر حضرت عمرؓ نے اسی وقت منادی کرائی اور مسجد نبوی ﷺ میں تمام مسلمانوں کے سامنے خود معاویہؓ کی زبان سے فتح کے حالات سنوائے، پھر پوچھا کہ تم سیدھے مسجد میں کیوں چلے گئے، عرض کیا دوپہر کا وقت تھا میں نے خیال کیا کہ آپ آرام فرماتے ہوں گے، جواب دیا کیا میں دن کو سو کر رعایا کو تباہ کرتا۔ [65] اگرچہ اسکندریہ کو مسلمانوں نے بزور شمشیر فتح کیا تھا، لیکن شہر کے امن وامان میں کوئی فرق نہیں آنے پایا اور عام آبادی میں سے کسی کو قتل یا قید نہیں کیا گیا [66] ؛بلکہ جزیہ اور خراج تشحیص کرنے کے بعد کامل امن وامان ہو گیا۔ مصر کی تسخیر کے بعد اگرچہ وہاں رومیوں کی قوت بالکل ٹوٹ چکی تھی، تاہم منتشر طور پر جابجا ابھی ان کی آبادیاں باقی رہ گئی تھیں، اس لیے حضرت عمرو بن العاص ؓ نے ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کرادیں، تاکہ آئندہ بغاوت کا خطرہ باقی نہ رہے، چنانچہ خارجہ بن حذافہ نے فیوم، اشمونین، بشروات، اخمیم اور صعید، مصر کے تمام مواضعات لیے اور عمیر بن وہب نے تینس، ومیاط، تونہ، دمیرہ، شطا، وقہلا، بوصیر وغیرہ پر قبضہ کر لیا اور یہاں کی کل آبادی نے فسطاط کے شرائط پر صلح کرلی، [67] اور عقبہ بن عامر یادردان نے مصر کی آبادیوں پر قبضہ کیا اور مصر واسکندریہ پر پورا تسلط ہو گیا۔ [68] [69] [70]
حضرت عمرو بن العاصؓ کی فتوحات کا سیلاب اسکندریہ پہنچنے کے بعد برقہ کی طرف مڑا، برقہ فسطاط سے بیس پچیس منزل کی مسافت پر اسکندریہ اور طرابلس کے درمیان میں ایک ذرخیز سیر حاصل اور آباد رقبہ زمین تھا، یہاں کی آبادی بہت مرفہ الحال تھی، یہ قطعہ متعدد شہریوں پر مشتمل تھا، انطابلس یہاں کا بڑا شہر تھا، [71] یہ لوگ حکومت مصر کے باجگزار تھے، حضرت عمرو بن العاصؓ نے انطابلس پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا، برقہ والے بہت نرم خو اور اطاعت شعار تھے، اس لیے بلاکسی مزاحمت کے جزیہ قبول کر لیا اور تیرہ ہزار دینار سالانہ پر صلح ہو گئی۔ [72] [73]
برقہ سے فارغ ہو کر عقبہؓ بن نافع کو زویلہ روانہ کیا، یہ سوڈان کی سرحد پر ایک آباد شہر تھا، برقہ اور زویلہ کی درمیانی آبادیوں نے بلا کسی جنگ کے خود سے اطاعت قبول کرلی۔ زویلہ والوں نے بھی بخوشی جزیہ دینا منظور کر لیا۔ [74]
زویلہ کے بعد طرابلس کا رخ کیا،طرابلس بحرروم کے ساحل پر آباد ہے ، یہ مقام اس زمانہ میں افریقہ کے ممتاز ترین مقامات میں تھا، عمرو بن العاصؓ نے طرابلس کے مشرق میں فوجیں اتاردیں اورنہایت اہتمام سے اس کا محاصرہ کیا، دومہینہ تک برابر محاصرہ جاری رہا؛لیکن کہیں سے اندر جانے کا راستہ نہ ملتا تھا، ایک دن کچھ مسلمان شکار کو نکلے، واپسی میں دھوپ سخت تھی، اس لیے یہ لوگ دریا کے کنارہ کنارہ واپس ہوئے، شہر کے قریب پہنچ کر دیکھا کہ شہر اور دریا کے درمیان میں کوئی فصیل یا شہر پناہ وغیرہ نہیں ہے اور دریا کے گھٹاؤ کی وجہ سے درمیان میں خشک راستہ بھی چھوٹا ہوا ہے،انھوں نے آکر فورا حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی ؛چنانچہ مسلمان اسی وقت حملہ کے لیے تیار ہو گئے اور اسی راستہ سے فورا ًحملہ کر دیا، اس ناگہانی حملہ سے شہر والے بالکل بد حواس ہو گئے، دریائی راستہ سے بھاگنا آسان نہ تھا؛ کیونکہ درمیان میں مسلمان حائل تھے، اس لیے شہر ہی میں کشت وخون ہوا، چونکہ مسلمانوں کا حملہ بالکل اچانک تھا، طرابلس والے پہلے سے تیار نہ تھے، اس لیے تسخیر میں زیادہ دشواری نہ ہوئی اور آسانی سے زیر کر لیا۔ [75] [76]
طرابلس سے آگے بڑھ کر سبرہ ایک شہر پڑتا تھا، طرابلس کی تسخیر کے بعد عمرو بن العاصؓ خود وہیں رہے اور تھوڑی فوج سبرہ بھیج دی، یہ لوگ علی الصباح سبرہ پہنچ گئے، اہل شہر طرابلس کے واقعہ سے لا علم تھے،اس لیے حسب معمول صبح سویرے شہر کا پھاٹک کھول کر اپنے اپنے کارو بارمیں لگ گئے،مسلمانوں نے یلغار کرکے زبردستی شہر میں داخل ہوکر قبضہ کر لیا اور کشت وخون کی نوبت نہیں آئی۔ [77] ان مہموں کے بعد عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ بن خطاب کو لکھا کہ طرابلس فتح ہو چکا ہے آفریقہ (تونس،مراکش اور الجزائر وغیرہ)یہاں سے صرف نو دن کی مسافت پر ہے، اگر امیر المومنین عمر بن خطاب مناسب سمجھیں تو آگے پیش قدمی کی جائے ؛لیکن وہاں سے حکم آگیا کہ افریقہ کے باشندے شورش پسند ہیں، اپنے حکمرانوں سے ہمیشہ بغاوت کرتے ہیں، اس لیے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں؛چنانچہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے آگے پیش قدمی روک دی۔ [78] [79]
ان فتوحات کے بعد حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت عمروؓ بن العاصؓ کو مصر کی حکومت پر سرفراز کیا، کچھ دنوں کے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور حضرت عثمانؓ سریر آرائے خلافت ہوئے، اسی زمانہ میں اسکندریہ والوں نے بغاوت کردی، اس کا سبب یہ ہوا کہ رومی اسکندریہ پر مسلمانوں کے قبضے کے وقت سے ہمیشہ اس کے واپس لینے کی فکر میں رہتے تھے، اسکندریہ بحر روم میں ان کی نہایت اہم بندرگاہ تھی، اس کے نکل جانے کے بعد ان تمام افریقی مقبوضات خطرہ میں پڑ گئے تھے؛ چنانچہ انھوں نے اسکندریہ کی رومی آبادی سے خط کتابت کرکے اس کو بغاوت پر آمادہ کر لیا اوران کی مدد کے لیے قسطنطنیہ سے عظیم الشان لشکر بھیجا، لیکن قبطی آبادی میں اس میں کوئی حصہ نہیں لیا اور مقوقس صلح پر قائم رہا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو وہ مقابلہ کو نکلے دونوں میں سخت معرکہ ہوا رومی شکست کھا کر اسکندریہ کے اندر داخل ہو گئے، مسلمانوں نے شہر کے اندر داخل ہوکر جہاں تک ہو سکا مارا، منویل حضی رومی سپہ سالار مارا گیا، جب یہاں بھی پناہ نہ ملی تو اسکندریہ سے نکل کر بھاگے اور چونکہ قبطیوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا، اس لیے جذبہ انتقام میں ان آبادیوں کو لوٹتے ہوئے نکل گئے، بدحواسی میں اپنے حامیوں کو بھی تاخت و تاراج کر دیا،جب مسلمانوں کا کامل تسلط ہو گیا تو قبطی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس فریاد لے کر آئے کہ رومیوں نے ہمارا سارا مال و متاع لوٹ لیا ہے، ہم نے مسلمانوں سے بغاوت نہیں کی تھی، اس لیے ہم کو واپس دلایا جائے، انھوں نے شناخت کرا کے جن جن لوگوں کا مال تھا واپس کرا دیا اور آئندہ بغاوت کے خطرہ سے بچنے کے لیے اسکندریہ کی شہر پناہ تڑوادی۔ [80] [81]
26ھ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصر کی گورنری سے علاحدہ کر دیا، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ان کے مخالفین کی جانب سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے اتنے بڑے فاتح اور سپہ سالار کو معزول کر کے دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا، جس نے مصر، اسکندریہ اور طرابلس کا تختہ الٹ دیا تھا، لیکن درحقیقت حضرت عثمانؓ بن عفان ان کی معزولی پر مجبور ہو گئے تھے، وہ بلاوجہ معزول نہیں کرتے تھے، طبری کے یہ الفاظ ہیں، وکان لا یعزل احدا الا عن شکاۃ اواستغاثۃ [82] یعنی حضرت عثمان کبھی کسی کو بغیر شکایت یا استغاثہ کے معزول نہیں کرتے تھے، واقعہ یہ ہے کہ پیہم اس قسم کے حالات پیش آتے گئے کہ حضرت عثمانؓ کو ان کی معزولی کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا، مصر کی فتح کے بعد سے برابر عمرو بن العاصؓ ہی یہاں کے حکمران رہے، البتہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے عہد خلافت میں مصر کے ایک چھوٹے حصہ کا جو سعید مصر کے نام سے موسوم ہے، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو والی بنایا تھا، لیکن یہ تقرر بھی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بار تھا اور وہ مصر میں کسی کو بھی اپنے سوا نہ دیکھنا چاہتے تھے، لیکن حضرت عمرؓ کی زندگی میں ان کی ہیبت سے عبد اللہ ؓ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکے، آپ کی وفات کے بعد ہی حضرت عثمانؓ بن عفان سے عبد اللہ بن سعد ؓ کی معزولی کی درخواست کی، لیکن آپ نے قبول نہ کی۔ [83]
مصر نہایت زرخیز ملک ہے، لیکن عمرو بن العاصؓ کے زمانہ میں اس کی زرخیزی کے تناسب سے خراج نہ ملتا تھا اور حضرت عمرؓ ہی کے زمانہ سے اس کی شکایت چلی آتی تھی، حضرت عمرؓ نے اس بارہ میں ان کو ایک سخت خط بھی لکھا تھا،یہ خط اور اس کا جواب مقریزی میں موجود ہے، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بھی یہ شکایت برابر قائم رہی، انھوں نے بھی ان کو لکھا، مگر عمرو بن العاصؓ نے صاف جواب دیا کہ گائے اس سے زیادہ دودھ نہیں دے سکتی، اس جواب پر حضرت عثمانؓ نے خراج کا عہدہ ان سے نکال کر عبد اللہ بن سعد کے متعلق کر دیا، حضرت عمرو بن العاصؓ، عبد اللہ بن سعدؓ کا تعلق سعید مصر ہی سے بمشکل برداشت کیے ہوئے تھے، اس انتظامی تغیر نے دونوں کے تعلقات اور زیادہ کشیدہ کردیے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف دربار خلافت میں شکایات بھیجنے لگے، عبداللہ بن سعد لکھتے تھے کہ عمرو بن العاصؓ خراج کی وصولی میں رخنہ انداز ہوتے ہیں اور عمرو بن العاصؓ لکھتے کہ عبد اللہ جنگی تدبیروں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، [84] اس لیے یہ دو عملی عرصہ تک نہ چل سکی اور حضرت عثمانؓ بن عفان نے عمرو بن العاصؓ کو مصر سے معزول کرکے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو مستقل والی بنادیا، یہ طبری اور ابن اثیر کی روایت ہے،لیکن کتاب الولاۃ اور حسن المحاضرہ کی روایت کے مطابق عمرو بن العاصؓ اسکندریہ کی بغاوت کے پہلے ہی معزول ہو چکے تھے اوران ہی کی معزولی سے اسکندریہ والوں میں بغاوت کا حوصلہ پیدا ہوا تھا اور بغاوت برپا ہونے کے بعد پھر حضرت عثمانؓ کو مجبور ہوکر ان کو اس کے فرو کرنے پر مامور کرنا پڑا، جب وہ بغاوت کا خاتمہ کر چکے تو حضرت عثمان نے ان کو امارت جنگ کے عہد پر بحال کرنا چاہا؛ لیکن انھوں نے قبول نہ کیا اور جواب دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سینگ میں پکڑوں اور دودھ دوسرا دھوھے، اس روایت کے مطابق عمرو بن العاصؓ کی معزولی کا واقعہ 25ھ میں پیش آیا، عمرو بن العاصؓ اپنی معزولی پر حضرت عثمانؓ سے اس درجہ برہم ہوئے کہ جب معزولی کے بعد مصرسے مدینہ آئے اور حضرت عثمانؓ سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کی باتوں کا ٹھیک جواب بھی نہ دیتے تھے، جس وقت ان سے اور حضرت عثمانؓ سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی، اس وقت یہ لبادہ پہنے ہوئے تھے، حضرت عثمانؓ نے پوچھا اس لبادہ میں کیا بھرا ہے، جواب دیا، عمرو بن العاصؓ، حضرت عثمان نے کہا یہ تو میں بھی جانتا ہوں، [85] میرا مطلب یہ ہے کہ روٹی ہے یا اورکوئی چیز؟ پھر پوچھا تم نے عبد اللہ بن سعد کو مصر میں کس حالت میں چھوڑا، کہا جس حال میں آپ چاہتے تھے، پوچھا اس کا کیا مطلب، کہا اپنے نفس کے لیے قوی اوراللہ کے لیے ضعیف، فرمایا میں نے ان کو تمھارے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت کی تھی جواب دیا، آپ نے ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بارڈالا۔ [86] اس وقت عبد اللہ بن سعد کا بھیجا ہوا خراج پہنچ چکا تھا اور اس کی تعداد عمرو بن العاصؓ کے زمانہ کے خراج سے بہت زیادہ تھی، حضرت عثمانؓ نے ان سے کہا دیکھو اونٹنی نے دودھ دیا، انھوں نے کہا ہاں لیکن بچے بھوکے رہ جائیں گے۔ [87] مگر عمرو بن العاصؓ معزولی کے بعد بھی حضرت عثمانؓ بن عفان کے اسی طرح خیر خواہ رہے، جس طرح معزولی کے قبل تھے، چنانچہ جب مصر کے باغیوں کا گروہ چلا اور حضرت عثمانؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے عمرو بن العاصؓ کو سمجھانے کے لیے بھیجا، انھوں نے اپنے سابق اثر سے کام لے کر ان کو واپس کیا اور شہر کے لوگوں کو جمع کرکے حضرت عثمان بن عفان کی طرف سے صفائی پیش کی۔ [88] حضرت عثمانؓ بن عفان کو جب کبھی مشکلات پیش آتی تھیں تو عمرو بن العاصؓ سے مشورہ کرتے تھے یہ نہایت خیر خواہی سے مشورہ دیتے تھے، سازش کے زمانہ میں جب باغیوں نے اپنے مطالبات پیش کیے تو آپ نے ایک مجلس شوری منعقد کی، اس کے ایک رکن عمرو بن العاص بھی تھے، تمام اراکین سے مشورہ کرنے کے بعد عمرو بن العاصؓ سے خاص طور پر ان کی رائے پوچھی، انھوں نے کہا آپ ضرورت سے زیادہ نرمی کرتے ہیں، گرفت کے موقعوں پر چشم پوشی کر جاتے ہیں،عمرؓ سے زیادہ آپ نے لوگوں کو آزادی دے رکھی ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ ملکی انتظام میں اپنے پیشرو ابوبکرؓ و عمرؓ کے نقش قدم پر چلیے اور نرمی کے موقع پر نرمی اور سختی کے موقع پر سختی سے کام لیجئے۔ [89] [90][91]
معزولی کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیاسی زندگی سے کنارہ کش ہوکر فلسطین میں اقامت اختیار کرلی تھی اور کبھی کبھی مدینہ آجاتے تھے،حضرت عثمانؓ بن عفان کے محصور ہونے کے وقت مدینہ میں موجود تھے، لیکن جب دیکھا کہ فتنہ و فساد کے شعلے قابو سے باہر ہو گئے تو یہ کہہ کر کہ عثمانؓ کے قتل میں جس کا ہاتھ ہوگا، اس کو اللہ ذلیل کریگا، جو شخص ان کی مددنہ کرسکتا ہو اس کو مدینہ چھوڑ دینا چاہیے اور خود شام چلے گئے، مگر دل برابر ان میں لگا رہا، ہر آنے جانے والے سے حالات پوچھ لیا کرتے تھے،[92] اس کے بعد حضرت عثمانؓ بن عفان کی شہادت کا واقعہ کبریٰ پیش آیا، پھر جنگ جمل کا ہنگامہ ہوا، مگر انھوں نے دائرہ عزلت سے باہر قدم نہیں نکالا۔ پھر جب حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ میں اختلاف شروع ہوا اور حضرت علیؓ نے جریر بن عبداللہ بجلی کو بیعت کے لیے امیر معاویہ ؓ کے پاس بھیجا اوریہ مطالبہ کیا کہ بیعت کرو، ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ تو امیر معاویہؓ نے اپنے خاندان والوں سے مشورہ کیا، عتبہ بن ابی سفیان نے رائے دی کہ عمرو بن العاصؓ کو بلا کر ان سے مشورہ لو، حضرت عمرو بن العاص ؓ اس وقت فلسطین میں تھے بلا کر آئے، (طبری کی ایک روایت یہ ہے کہ عمرو بن العاصؓ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر سن کر خود آئے تھے)امیر معاویہؓ نے کہا اس وقت کئی مہمیں درپیش ہیں، محمد بن حنفیہ قید خانہ توڑ کر اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہو گئے ہیں، قیصر روم علاحدہ چڑھائی پر آمادہ ہے، تیسرا اور سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ علیؓ نے بیعت کا مطالبہ کیا ہے اور انکار کی صوررت میں جنگ پر آمادہ ہیں، انھوں نے مشورہ دیا کہ محمد بن حنفیہ کا تعاقب کراؤ مل جائیں تو فبہا ورنہ کوئی حرج نہیں، قیصر روم کے قیدی چھوڑ کر اس سے مصالحت کرلو، علیؓ کا معاملہ البتہ بہت اہم ہے، مسلمان کبھی تم کو ان کے برابر نہ سمجھیں گے، معاویہؓ نے کہا وہ عثمانؓ کے قتل میں معاون تھے، امتِ اسلامیہ میں پھوٹ ڈال کر فتنہ پیدا کیا، عمرو بن العاصؓ نے کہا لیکن تم کو سبقت اسلام اور قرابت نبوی ﷺ کا شرف حاصل نہیں ہے اور میں تمھارے مقصد کے حصول کے لیے خواہ مخواہ کیوں تمھاری مدد کروں، امیر معاویہؓ نے کہا آخر کیا چاہتے ہو، عمرو بن العاص ؓ نے کہا مصر، امیر معاویہؓ نے کہا تم مصر چاہتے ہو اور مصر کسی طرح عراق سے کم نہیں ہے، عمروؓ نے کہا ہاں، لیکن مصر کا مطالبہ اس وقت ہے جب علیؓ کو تم مغلوب کر چکے ہوگے اور دنیا تمھارے زیر نگیں ہوگی، اس گفتگو کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ اپنی قیام گاہ پر چلے گئے، عتبہ بن ابی سفیان نے امیر معاویہؓ سے پھر اصرار کیا کہ مصر دے کر کیوں نہیں فائدہ اٹھاتے، ان کے اصرار پر امیر معاویہؓ راضی ہو گئے اور دوسرے دن صبح کو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصر دینے کا تحریری وعدہ کر لیا۔ [93]
عمرو بن العاصؓ نے مشورہ دیا کہ پہلے عمائد شام کے دلوں میں یہ بیٹھا دو کہ عثمانؓ بن عفان کی شہادت میں علیؓ کا ہاتھ تھا، پھر ان کو ان کی مخالفت پر آمادہ کروورنہ کامیابی ناممکن ہے اور سب سے پہلے شرجیل بن سمط کندی کو جو شام کے بااثر آدمی ہیں یقین دلا کر اپنا ہم خیال بناؤ، غرض امیر معاویہ نے ان کی بتائی ہوئی تدبیروں سے عمائدِ شام کو یقین دلادیا کہ عثمانؓ کے خون بے گناہی سے حضرت علیؓ کا ہاتھ بھی رنگین ہے، شرجیل کو پورا یقین ہو گیا اور انھوں نے شام کا دورہ کرکے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ابھارنا شروع کیا، [94] اور امیر معاویہؓ نے خلیفہ مظلوم کے خون آلود پیراہن اور حضرت نائلہ سلام اللہ علیہا کی کٹی ہوئی انگلیوں کی نمائش کر کے سارے شام میں آگ لگادی، لوگ آتے تھے اور یہ المناک نظارہ دیکھ دیکھ کر روتے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے قسم کھالی کہ جب تک قاتلین عثمان بن عفان ؓ کو قتل نہ کریں گے اس وقت تک نہ بستر پر لیٹیں گے نہ عورتوں کو چھویں گے۔ [95]
اس کے بعد طرفین نے جنگی تیاریاں شروع کر دیں اور حضرت عمرو بن العاصؓ شام کی فوج کے امیر العسکر مقرر ہوئے اور وہ المناک جنگ شروع ہوئی جو تاریخ اسلام میں جنگ صفین کے نام سے مشہور ہے، اس جنگ کا سلسلہ مدتوں رہا، آخری فیصلہ کن معرکہ کے بعد جب عمرو بنؓ العاص کو یقین ہو گیا کہ اب شامی زیادہ دیر تک میدان میں نہیں ٹھہر سکتے تو یہ تدبیر کی کہ نیزوں پر قرآن آویزاں کرکے اعلان کرادیا کہ کتاب اللہ سے جو فیصلہ ہوجائے اس پر ہم راضی ہیں، قرآن پاک کے اٹھتے ہی کوفیوں نے جنگ سے ہاتھ روک لیا، حضرت علیؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاکھ سمجھاتے رہے کہ یہ محض فریب ہے، لیکن کسی نے نہ سنا، جب اختلاف کا خطرہ بڑھا تو آپ بھی چاروناچار آمادہ ہو گئے۔ دوسرے دن امیر معاویہؓ کے پاس آدمی بھیجا کہ تحکیم کا طریقہ کیا ہوگا،انھوں نے کہا ایک حکم تمھارا ہو اور ایک ہمارا،دونوں کتاب اللہ کی روسے جو فیصلہ کر دیں وہ دونوں کے لیے واجب التسلیم ہوگا، غرض حضرت عمرو بن العاص شامیوں کی جانب سے اور ابوموسیٰ کوفیوں کی جانب سے حکم مقرر ہوئے اور ثالثی نامہ تحریر ہوا،کہ حکمین اختلاف امت کا خیال رکھتے ہوئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی روسے عدل وانصاف کے ساتھ جو فیصلہ کر دیں گے وہ طرفین کے لیے واجب التسلیم ہوگا اور جو فریق اس کو نہ مانے گا، اس کے خلاف دونوں حکم مدد دیں گے، اگر درمیان میں کوئی حکم مر گیا تو اس فریق کو دوسرا حکم مقرر کرنے کا اختیار ہوگا، اس ثالثی کے بعد دونوں نے اپنی اپنی فوجیں ہٹالیں اور عمرو بن العاصؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ سے تبادلہ خیالات شروع ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے۔ عمرو بن العاصؓ : آپ کو معلوم ہے کہ عثمانؓ مظلوم شہید کیے گئے۔ ابو موسیٰؓ : بے شک۔ عمرو بن العاصؓ : آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ معاویہؓ آل معاویہ ان کے طرفدار ہیں۔ ابو موسیٰؓ : یہ بھی صحیح ہے۔ عمرو بن العاصؓ : ایسی صورت میں قرآن کا یہ حکم ہے، وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا اس کے علاوہ نسبا بھی وہ قریشی ہیں، ہاں سابقین میں نہیں ہیں، یہ کوئی ایسا مانع نہیں ہے، اس کے علاوہ ان میں اور بہت سے اوصاف موجود ہیں، انھوں نے خلیفہ مظلوم کی حمایت کی، حسنِ تدبر اور حسن سیاست میں یگانہ ہیں، ام المومنین ام حبیبہؓ کے بھائی اور آنحضرت ﷺ کے صحابی ہیں۔ ابو موسیٰؓ :عمرو بن العاص! اللہ کا خوف کرو، تم نے معاویہ کے جو فضائل بیان کیے، ان میں سے کوئی بھی ایسے نہیں ہیں، جو ان کو خلافت کا مستحق بناتے ہوں اگر محض شرافت پر استحقاق خلافت کا انحصار ہوتا تو آل ابرہہ ان سے زیادہ مستحق ہوتے، خلافت محض اہل دین اور صاحب فضل افراد کا حق ہے، اگر شرف کی بنیاد پر میں کسی کو خلافت دیتا تو سب سے زیادہ علیؓ مستحق تھے اور تمھاری یہ دلیل کہ انھوں نے عثمانؓ کے خون کے بدلہ کا بار اٹھایا ہے، ایسی نہیں ہے جس سے ان کو مہاجرین اولین پر فضیلت حاصل ہو سکے تم مانتے ہو تو مانو، لیکن میں کسی حالت میں اس کو نہیں مان سکتا، رہی یہ طمع کہ معاویہ کے نزدیک میری قدر ومنزلت بڑھ جائے گی یا ان سے مجھ کو مالی فائدہ ہوگا تو یہ مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی، اللہ کے معاملہ میں رشوت ستانی گوارا نہیں کرسکتا، ہاں اگر تم چاہو تو عمر بن الخطابؓ کا نام زندہ کر دیں۔ عمرو بن العاصؓ :اگر آپ ابن عمرؓ پر راضی ہیں تو میرے لڑکے میں کیا خرابی ہے، اس کے فضائل سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ ابوموسیٰ :تمھارا لڑکا یقیناً بہت سچا ہے، مگر تم نے اس کو اس فتنہ میں مبتلا کرکے محفوظ نہ چھوڑا۔ عمرو بن العاصؓ :خلیفہ ایسے شخص کو ہوناچاہیے، جس کے دو داڑھ ہوں، ایک سے خود کھائے، دوسرے سے لوگوں کو کھلائے۔ ابوموسیٰ :مسلمانوں نے بڑی جنگ وجدل کے بعد یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے، خدارا، اب دوبارہ ان کو فتنہ میں نہ ڈالو۔ غرض دونوں باہمی تبادلہ خیالات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت علیؓ اور معاویہؓ دونوں کو معزول کرکے نئے سرے سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے کہ یہ کشت وخون کسی طرح بند ہو، چنانچہ مقررہ تاریخ پر دو مۃ الجندل میں فریقین جمع ہوئے، جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو عمرو بن العاصؓ نے ابو موسیٰؓ اشعری سے کہا کہ آپ میرے بزرگ اور آنحضرت ﷺ کے مقرب صحابی ہیں، اس لیے پہلے آپ فیصلہ سنائیے، ابوموسیٰ ؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ صاحبو! بہت غور و فکر کے بعد ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ علیؓ اور معاویہؓ دونوں کو معزول کیے بغیر امت کی اصلاح نہیں ہو سکتی، اس لیے میں نے ان دونوں کو معزول کیا، اب آپ لوگوں کو اختیار ہے جس کو خلافت کا اہل سمجھیں اس کو اپنا خلیفہ بنالیں، ابوموسیٰ ؓ کے فیصلہ سنانے کے بعد عمرو بن العاصؓ نے کھڑے ہوکر کہا: آپ لوگوں نے ابوموسیٰؓ کا فیصلہ سن لیا، انھوں نے علیؓ اور معاویہؓ دونوں کو معزول کیا، میں بھی علیؓ کو معزول کرتا ہوں، لیکن معاویہؓ کو برقرار رکھتا ہوں۔ عمرو بن العاصؓ کے اس فیصلہ سے مجمع میں سناٹا چھا گیا، ابو موسیٰؓ اشعری نے ان کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں، لیکن شامیوں نے فوراً حضرت ابوموسیٰ کو اونٹ پر بیٹھا کر مکہ روانہ کر دیا اور حضرت عمرو بن العاصؓ بھی ہٹ گئے۔ [96]
اس فیصلہ کے بعد عمرو بن العاصؓ نے مصر لینے کے لیے مسلمہ بن مخلد انصاری اور معاویہ بن خدیج کندی سے خط کتابت شروع کی، یہ دونوں حضرت عثمانؓ کی شہادت سے بہت متاثر اورحضرت علیؓ کے مخالف تھے، اس لیے دونوں ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے، اس کے بعد عمرو بن العاصؓ چھ ہزار فوج لے کر روانہ ہو گئے، اس وقت محمد بن ابی بکر حضرت علیؓ کی طرف سے مصر کے گورنر تھے، عمرو بن العاصؓ نے ان کو خط لکھا کہ مصر والے تمھارے مخالف ہیں، لڑائی میں ایک شخص بھی تمھارا ساتھ نہ دے گا، لہذا تم مصر چھوڑ دو، میں خواہ مخواہ تمھارے خون سے اپنا ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا، محمد نے یہ خط حضرت علیؓ کے پاس بھیج دیا، وہاں سے مقابلہ کرنے کا حکم آیا، محمد بن ابی بکر نے عمروؓ بن العاص کو مقابلہ کی اطلاع دیدی، حضرت عمرو بن العاصؓ دو ہزار آدمی لے کر بڑے، محمد بھی میدان میں آئے اور ایک خونریز مقابلہ کے بعد مصر فوج کے قوت بازو "کنانہ" مارے گئے، ان کا گرنا تھا کہ مصریوں کے پاؤں اکھڑ گئے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد بن ابی بکر کی طرف بڑھے، مگر وہ شکست کے آثار دیکھ کر پہلے نکل گئے تھے، عمرو بن العاصؓ نے ہر طرف آدمی دوڑائے اور وہ گرفتار کر کے لائے گئے، اس وقت بہت پیاسے تھے، لیکن شامیوں نے پانی تک نہ دیا اور تشنہ لب قتل کردیے گئے اور مصر پر عمرو بن العاصؓ کا قبضہ ہو گیا۔ [97]
نہروان میں خارجیوں کی شکست اور قتل عام سے ان کے بقیہ افراد میں انتقام کا جذبہ بہت ترقی کرگیا تھا، اس لیے عبدالرحمن ابن ملجم، برک بن عبد اللہ اور عمرو بن بکر التمیمی نے مشورہ کیا کہ سارا فساد علیؓ، معاویہؓ اور عمروؓ بن العاص کی وجہ سے ہے اس لیے ان کا قصہ پاک کر دینا چاہیے، چنانچہ ایک مقررہ شب کو تینوں نے تینوں اشخاص پر خفیہ حملہ کیا، ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو شہید کیا، برک بن عبد اللہ نے امیر معاویہ پر حملہ کیا، مگر زخم اوچھا لگا، اس لیے بچ گئے،عمرو بن بکر،حضرت عمرو بن العاصؓ پر متعین تھا، مگر اتفاق سے اس دن عمرو بن العاص کی طبیعت کچھ ناساز تھی، اس لیے ان کی بجائے خارجہ بن حذافہ نماز پڑھانے نکلے، عمرو نے انھی کو عمرو بن العاصؓ سمجھ کر قتل کر دیا۔ [98] [99]
مصر اور شام پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مستقل قبضہ کے بعد ان میں اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مصر کے معاملہ میں شکر رنجی ہو گئی ، مگر معاویہ بن خدیج نے درمیان میں پڑ کر صلح کرادی اور امیر معاویہؓ نے عمروبن العاصؓ کو چند شرائط کے ساتھ مصر کا والی بنا دیا، ان شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ امیر معاویہ کے اطاعت گزار رہیں گے، مزید توثیق کے لیے عہد نامہ لکھا گیا اس پر شاہدوں سے دستخط لیے گئے۔ [100] [101]
عمرو بن العاصؓ بہ اختلاف روایت 43 یا 47 یا 51ھ میں مصر ہی میں اپنے عہد حکومت میں بیمار ہوئے، عمر کافی پاچکے تھے، زندگی کی زیادہ امید نہ تھی، اس لیے مرض الموت میں اپنی گذشتہ لغزشوں پر بہت نادم تھے۔ عبداللہ ابن عباسؓ عیادت کو آئے، سلام کے بعد پوچھا ابو عبد اللہ! کیا حال ہے؟ جواب دیا کیا پوچھتے ہو، دنیا کم بنائی مگر دین زیادہ بگاڑا، اگر اس کا بگاڑا ہوتا جس کو بنایا ہے اور اسے بنایا ہوتا جس کو بگاڑا ہے تو یقیناً کامیاب ہوتا، اگر آخر عمر کی آرزو فائدہ مند ہوتی تو ضرور آرزو کرتا، اگر بھاگنے سے بچ سکتا تو ضرور بھاگتا، مگر اب منجنیق کی طرح زمین وآسمان کے درمیان معلق ہوں، نہ ہاتھوں کے سہارے اوپر چڑھ سکتا ہوں نہ پاؤں کے سہارے نیچے اتر سکتا ہوں، اے بھتیجے !مجھ کو کوئی ایسی نصیحت کر کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں، ابن عباسؓ نے کہا افسوس اب وہ وقت کہاں، اب وہ بھتیجا بوڑھا ہوکر آپ کا بھائی ہو گیا ہے، اگر آپ رونے کے لیے کہیں تو میں رونے کے لیے تیار ہوں، مقیم سفر کا کیسے یقین کرسکتا ہے، عمرو بن العاصؓ نے کہا، اس وقت اسی برس سے کچھ اوپر میری عمر ہے اور تو مجھ کو پروردگار کی رحمت سے ناامید کرتا ہے، خدایا یہ ابن عباس مجھ کو تیری رحمت سے ناامید کررہا ہے ابھی تو مجھے یہاں تک تکلیف دے کہ راضی ہوجا، عبداللہ ابن عباسؓ نے کہا ہیہات ابو عبد اللہ جو چیز لی تھی وہ تو نئی تھی اور جو دے رہے ہو وہ پرانی ہے ، عمرو بن العاصؓ نے کہا، ابن عباس تم کو کیا ہو گیا ہے، جو بات میں کہتا ہوں تم اس کا الٹا کہتے ہوں۔ ابن شمامہ مہری کہتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے مرض الموت میں ہم ان کی عیادت کو گئے وہ دیوار کی طرف منہ کرکے رونے لگے، ان کے بیٹے عبد اللہ نے دلاسا دیا کہ ابا کیا آپ کو آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں بشارتیں نہیں دی ہیں؟ جواب دیا میرے پاس افضل ترین دولت "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ"کی شہادت ہے، مجھ پر زندگی کے تین دور گذرے ہیں، ایک وہ دور تھا جس میں آنحضرت ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اور میری سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ کسی طرح قابو پاکر آپ کو قتل کردوں، اگر اس حالت میں مرجاتا تو میرے لیے دوزخ یقینی تھی، پھر اللہ عزوجل نے میرے دل میں اسلام ڈالا، میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! ہاتھ پھیلائیے میں بیعت کروں گا، آپ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے سمیٹ لیا، فرمایا عمرو بن العاصؓ! تم کو کیا ہو گیا میں نے عرض کیا میں ایک شرط چاہتا ہوں، فرمایا وہ کونسی شرط ہے، میں نے عرض کیا میری مغفرت ہو جائے، فرمایا، عمرو بن العاصؓ ! کیا تم کو معلوم نہیں کہ اسلام اپنے پہلے تمام گناہوں کو کالعدم کر دیتا ہے، ہجرت اپنے پہلے کے گناہوں کو مٹاد یتی ہے، حج اپنے پہلے کے گناہوں کو گرا دیتا ہے، اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نہ میرا کوئی محبوب رہا اور نہ ان سے زیادہ میری نگاہ میں کوئی بزرگ باقی رہا، میں آپ کی انتہائی عظمت و ہیبت کی وجہ سے آپ کو نظر بھر نہیں دیکھ سکتا تھا اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا کہ میں نے نظر بھر کبھی دیکھا ہی نہیں اگر اس حالت میں مرجاتا تو جنت کی امید تھی، پھر تیسرا دور آیا جس میں میں نے مختلف قسم کے اعمال کیے، اب میں نہیں جانتا کہ میرا کیا حال ہو گا جب میں مر جاؤں تو نوحہ کرنے والیاں میرے ساتھ نہ جائیں، نہ جنازہ کے پیچھے آگے جائے، دفن کرتے وقت مٹی آہستہ آہستہ ڈالی جائے، دفن کرنے کے بعد اتنی دیر قبر کے پاس رہنا جب تک جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم ہو جائے، تاکہ میں تمھاری وجہ سے مانوس ہو جاؤں اور یہ غور کرلوں کہ اپنے رب کے قاصدوں کو کیا جواب دوں۔
موت کے وقت اپنے محافظ دستے کو بلا بھیجا اورپوچھا کہ میں تمھارا کیسا ساتھی تھا؟ جواب ملاکہ آپ ہمارے سچے ساتھی تھے، ہماری عزت کرتے تھے، ہم کو دل کھول کر لیتے دیتے تھے، یہ سلوک کرتے تھے وہ کرتے تھے، کہا میں یہ سلوک اس لیے کرتا تھا کہ تم مجھ کو موت سے بچاؤ گے، یہ موت سامنے کھڑی ہوئی کام تمام کرنا چاہتی ہے، اس کو کسی طرح سے میرے سامنے سے دور کرو، یہ عجیب فرمائش سن کر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے، کچھ دیر کے بعد بولے، اباعبداللہ! خدا کی قسم ہم کو آپ سے ایسی فضول بات سننے کی امید نہ تھی، آپ جانتے ہیں کہ موت کے مقابلہ میں ہم آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے، عمرو بن العاصؓ نے کہا میں نے یہ جانتے ہوئے تم سے ایسی فرمائش کی تھی کہ تم موت کے مقابلہ میں میری کوئی مدد نہیں کرسکتے، کاش! میں نے تم میں سے کسی کو اپنی حفاظت کے لیے نہ رکھا ہوتا، افسوس ابن ابی طالب سچ کہتے تھے کہ انسان کا محافظ خود اس کی موت ہے، خدایا میں بری نہیں ہوں کہ معذرت کروں، طاقتور نہیں ہوں کہ غالب آجاؤں، اگر تیری رحمت نے دستگیری نہ کی تو میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ [102] اس کے بعد اپنے صاحبزادہ سے وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو پہلے معمولی پانی سے نہلا کر کپڑے سے خشک کرنا، پھر تازہ اور صاف پانی سے نہلانا،تیسری مرتبہ کافور آمیز پانی سے غسل دینا اور کپڑے سے خشک کرنا، کفناتے وقت ازار کس کر باندھنا کہ میں مخاصم ہوں گا، جنازہ درمیانی چال سے لے چلنا، لوگوں کو جنازہ کے پیچھے رکھنا کہ اس کے آگے ملائکہ چلتے ہیں اور پچھلا حصہ بنی آدم کے چلنے کے لیے ہے، قبر میں رکھنے کے بعد مٹی آہستہ آہستہ ڈالنا، پھر دعا میں مصروف ہو گئے کہ الہا تو نے حکم دیا، میں نے عدول حکمی کی تو نے ممانعت کی میں نے نافرمانی کی میں بری نہیں ہوں کہ معذرت کروں طاقتور نہیں ہوں کہ غالب آجاؤں ہاں لا الہ الا اللہ لا الہ الا اللہ یہی کہتے کہتے جان، جان آفریں کے سپرد کردی، انا للہ وانا الییہ راجعون۔ [103] یکم شوال 43ھ بعد نماز عید الفطر آپ کے صاحبزادہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مقطم میں سپرد خاک کیے گئے۔ [104] .[105] [106] [30].[107] [108]
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو لڑکے تھے، عبد اللہ اور محمد، دونوں ریطہ بنت منبہ کے بطن سے تھے بعض روایات کے مطابق زوجہ خولہ بنت حمزہ کے بطن سے تھے۔ [109]
اسلام کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ کی عمر کا زیادہ حصہ میدان جنگ میں گذرا ، اس لیے سر چشمۂ علم و عرفان سے فائدہ اٹھانے کا موقع کم ملا، پھر بھی علم کی دولت سے بالکل تہی دامن نہ تھے۔ [110]
قرآن مجید بہت سے فنون کا مجموعہ ہے،اس کی قرأت بھی مستقل فن ہے،حضرت عمرو بن العاصؓ کو قرآن سے خاص ذوق تھا اور قرآن بہت صاف و واضح پڑھتے تھے۔ [111] [112]
اگرچہ عمرو بن العاصؓ کو لڑائیوں کی شرکت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کا موقع کم ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے ان میں خوشہ چینی سے غافل نہ رہے اور اقوال نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خاصی تعداد ان کے حصے میں آئی، ان کی مرویات کی تعداد 39 ہے، ان میں تین متفق علیہ ہیں اور ایک میں بخاری اور تین میں مسلم منفرد ہیں، [113] حدیث کے اس سرمایہ کو تنہا اپنی ذات تک محدود نہ رکھا، بلکہ دوسرے مسلمانوں تک پہنچایا، آپ کے مستفیدین کی تعداد بھی کافی ہے، ان میں آپ کے صاحبزادہ، عبداللہ بن عمرو، غلام ابوقیس اور قیس بن ابی حازم، ابو عثمان نہدی، علی بن رباح، لخمی، عبد الرحمن بن شمامہ، عروہ بن زبیر، محمد بن کعب، عمارہ بن حزیمہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ [114]
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم و تلقین کا فرض بھی انجام دیتے تھے، چنانچہ سریہ ذات السلاسل میں کامیابی کے بعد وہیں مقیم ہوکر نو مسلموں کو تعلیم دیتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب دنیا طلبی کی ہوس زیادہ ہو گئی تھی،اس وقت لوگوں کے سامنے تقریر کرتے اوران کو اسوۂ نبوی کی پیروی کی ہدایت کرتے تھے، علی بن رباح روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر تقریر کر رہے تھے کہ آج تم لوگوں کا حال یہ ہو رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ جن چیزوں سے احتراز فرماتے تھے، تم ان کی طرف راغب ہو رہے ہو اور دنیا کی تمنا کرتے ہو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس سے کنارہ کشی اختیار فرماتے تھے۔ [115] [116]
تمام مسائل میں علی الترتیب قرآن وحدیث سے کام لیتے تھے، لیکن ان دونوں سے رہنمائی نہ ہوتی اوران کے حل کرنے کا کوئی تیسرا ذریعہ نہ ہوتا تو اجتہاد سے کام لیتے، سریہ ذات السلاسل میں ایک شب نہانے کی ضرورت پیش آگئی، جاڑا سخت تھا، نہانے میں بیماری کا خطرہ تھا اور نہ نہانے کی صورت میں نماز جاتی تھی، چنانچہ اس موقع پر انھوں نے غسل کی حالت کو وضو پر قیاس کر لیا کہ پانی نہ ملنے یا بیماری کے خطرہ کی صورت میں تیمم جائز ہو جاتا ہے اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی، واپس آکر آنحضرت ﷺ سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ:تم نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھ لی، عرض کیا یا رسول اللہﷺ رات بہت ٹھنڈی تھی، نہانے کی صورت میں ہلاکت کا خوف تھا، اس موقع پر مجھ کو قرآن کی یہ آیت یاد آگئی کہ" لَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا" اس لیے میں نے تیمم کر لیا، آنحضرت ﷺ ہنس کر خاموش ہو گئے۔ [117] [118]
عمرو بن العاص ادب و انشا میں ذوق سلیم پایا تھا، اپنے عہد کے بہترین انشا پردازوں میں تھے، اختصار، جامعیت اور بدیع تشبیہات ان کی انشا پردازی کی خصوصیات تھی ، تاریخ کی کتابوں میں ان کی ادبیت کی بہت سے مثالیں ہیں، بعض نمونے یہ ہیں، مشہور عام الرمادہ میں یعنی جس سال عرب میں قحط پڑا تھا ، حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصر سے غلہ بھیجنے میں تاخیر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ: جب تم اور تمھارے ساتھی شکم سیر ہوں تو تم اس کی پروا نہیں کرتے کہ میں اور میرے ساتھی ہلاک ہوجائیں، المدد، المدد، انھوں نے فورا جواب دیا۔ لبیک، لبیک میں اتنا بڑا اونٹوں کا قافلہ بھیجتا ہوں کہ اس کا اگلا سرا آپ کے پاس ہے، اورپچھلا سرا میرے پاس۔ [119] حضرت عثمانؓ کے عہد میں ان کی معزولی کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے، معزولی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ مصر کے خراج کی رقم کم وصول ہوئی تھی، جب ان کی جگہ عبد اللہ ابن ابی سرح کا تقرر ہوا تو کمی کی شکایت جاتی رہی، چنانچہ مصر سے واپسی کے بعد اس بارہ میں ان سے اورحضرت عثمانؓ سے حسب ذیل گفتگو ہوئی: عثمانؓ، تم عبد اللہ بن ابی سرح کو کس حال میں چھوڑ آئے، عمرو: جیسا آپ چاہتے ہو۔ عثمانؓ: وہ کیا۔ عمروؓ: اپنے نفس کے لیے قوی اوراللہ کے لیے کمزور۔ عثمانؓ: میں نے تو ان کو تمھارے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت کی تھی۔ عمروؓ: تو آپ نے ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا۔ عثمانؓ: دیکھو اونٹنی نے دودھ دیا (یعنی خراج زیادہ وصول ہوا) عمروؓ: لیکن بچے بھوکے رہ گئے۔ [120] اسی طریقہ سے جب امیر معاویہؓ نے حضرت عمرؓ سے قبرس پر حملہ کی اجازت مانگی تو حضرت عمرؓ نے عمروبن العاصؓ سے سمندر کے حالات پوچھ بھیجے، انھوں نے جواب لکھا: ان رایت خلقاً عظیماً یرکبہ خلق صغیر کدودٍ علی عود، ان مال غرق وان بخابرق [121] میں نے ایک بڑی مخلوق(سمندر) دیکھی جس پر چھوٹی مخلوق اس طرح سوار ہوتی ہے جیسے لکڑی پر کیڑا کہ اگر لکڑی ذرا بھی پلٹا کھائے تو کیڑا ڈوب جائے اور اگر صحیح سلامت نکل جائے تو خوفزدہ اور ہراساں رہ جائے۔ [122]
عمرو بن العاص پستہ قد، فربہ اندام، بالوں میں سیاہ خضاب کرتے تھے، ایک مرتبہ اس قدر گہرا خضاب کیا کہ بال کو ے کے پر کی طرح کالے ہو گئے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا، ابا عبد الرحمن یہ کیا؟ عرض کیا امیر المومنین! میں چاہتا ہوں کہ مجھ کو آپ کسی قابل شمار کریں، اس کے بعد پھر انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ [123]
عمرو بن العاصؓ کو ابتلا و آزمائش کے مختلف دوروں سے گذرنا پڑا اور ان میں وہ ایک صحابی رسول کی حیثیت سے اپنا دامن نہ بچا سکے اور اس قسم کی بعض لغزشیں سرزد ہوگئیں جو ایک صحابی کے مرتبہ سے فرو تر ہیں، تاہم وہ بارگاہ نبوی ﷺ کے جلیس اور آپ کے صحبت یافتہ تھے، اس لیے ان لغزشوں کے باوجود آپ کے وہ فضائل نظر انداز نہیں کیے جا سکتے جو فیضان نبوت نے تمام صحابہ کرام میں پیدا کر دیے تھے، اسی لیے ایک دقیقہ رس نگاہ ان کے دامن عفاف میں خفیف بدنما دھبوں کے ساتھ وہ اخلاقی نقوش بھی دیکھتی ہے جن سے ہر صحابی گل بدامن تھا۔ [124]
قوتِ ایمان تمام فضائل کا سرچشمہ ہے، اسی سے تمام فضائل کا ظہور ہوتا ہے، عمرو بن العاصؓ کی ایمانی قوت کا خود زبان رسالت ﷺ نے اعتراف کیا ہے کہ"اسلم الناس وامن عمروبن العاص" [125] ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ :ابنا العاص مومنان یعنی ھشام وعمرو [126] آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی واقعات سے بھی پوری تصدیق ہوتی ہے، ایک مرتبہ عمرو بن العاصؓ کو آنحضرت ﷺ نے بلا بھیجا کہ وہ لباس بدل کر اور ہتھیار لگاکر آئیں، یہ حسب الحکم حاضر ہوئے، آنحضرت ﷺ وضو فرما رہے تھے، نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نظر نیچی کرکے فرمایا کہ میں تم کو امیر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں، انشاء اللہ تم محفوظ رہو گے اور مال غنیمت بھی ہاتھ آئے گا، اس سے تم کو بھی وافر حصہ ملے گا، عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں مال کی طمع میں اسلام نہیں لایا؛ بلکہ اس کو دلی رغبت کے ساتھ قبول کیا، فرمایا: مال صالح مرد صالح کے لیے بہتر ہے، [127] ایک موقع پر آپ نے فرمایا، عمرو بن العاصؓ قریش کے صالح افراد میں ہیں، عبد اللہ اور ابو عبد اللہ عمرو بن العاصؓ کیا اچھے گھرانے کے لوگ ہیں۔ [128] .[30]:[114][129]
اگرچہ بعض سیاسی امور میں عمرو بن العاصؓ اپنا دامن لغزش سے نہ بچا سکے؛ لیکن طبعاً وہ حق پرست تھے، ایک دن خانہ کعبہ کے سایہ دیوار کے تلے بیٹھے لوگوں کو حدیث سنا رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جس نے خلوص دل سے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کرلی اس کو مقدور بھر اس کی حمایت کرنی چاہیے اوراگر کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلہ کے لیے کھڑا ہو تو اس کی گردن اڑادینی چاہیے، عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ(اس حدیث کے راوی) نے کہا کہ اللہ آپ کو خوش رکھے، کیا یہ حدیث آپ نے آنحضرت ﷺ سے سنی ہے، عمرو بن العاصؓ نے اپنے کانوں اور قلب کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میرے دونوں کانوں نے سنی اور قلب نے محفوظ رکھی، اس پر عبد الرحمن نے کہا کہ تمھارے ابن عم معاویہ ہم لوگوں کو ناجائز طور پر ایک دوسرے کے مال کھانے اور جانیں ضائع کرنے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ اللہ فرماتا ہے کہ: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا" یہ سن کر عمروبن العاصؓ چپ ہو گئے اورکہا جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اس کو مانو اورجس میں ہوتی ہو، اس کو نہ مانو۔ [130] خود آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق بارہا تحسین کے کلمات ارشاد فرمائے، ایک موقع پر فرمایا کہ عمرو بن العاص قریش کے صالح لوگوں میں ہیں، [131] اوران کے خدمات کی بنا پر ان سے محبت فرماتے تھے، حسن روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عمرو بن العاص سے کہا کہ کیا وہ شخص نیک خصلت نہیں ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے آخر دم تک محبوب رکھا ہو، یہ بولے اس کی سعادت میں کس کو شک ہو سکتا ہے، کہا آنحضرت ﷺ آخر دم تک تم سے محبت کرتے رہے۔ [132] [133]
عقل و دانش اور تدبیر سیاست کے لحاظ سے عمرو بن العاصؓ کا شمار ان مخصوص اشخاص میں تھا جو سارے عرب میں مدبر مانے جاتے تھے، [134]ان کی اصابت رائے کا خود آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ میں اعتراف فرمایا کہ تم اسلام میں صائب رائے کے آدمی ہو [135] فاروقؓ اعظم جیسا مدبر کہتا تھا کہ عمرو بن العاصؓ حکومت کے لیے موزوں ہیں اور جب کسی خام کار اور ضعیف الرائے کو دیکھتے تو تعجب سے فرماتے کہ اس شخص اور عمرو بن العاصؓ کا خالق ایک ہے، [136] اسی تدبیر و شجاعت کی بنا پر آنحضرت ﷺ اکثر بڑی مہمیں انھی کے سپرد فرماتے تھے اور بعض مرتبہ ابوبکرؓ و عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ پر امیر بناتے تھے، [137] جنگ صفین میں امیر معاویہؓ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں سپر ڈالنا چاہتے تھے، لیکن محض عمرو بن العاصؓ کی تدبیر نے دفعۃً ہوا کا رخ بدل دیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ان کی سیاست کا کرشمہ تھا، ان کی زندگی کا ہر صفحہ تدبیر و سیاست سے لبریز ہے، مغیرہ بن شعبہ تدبیر و سیاست میں ان کا جواب تھے، اس لیے کبھی کبھی دونوں میں چشمک ہوجایا کرتی تھی، امیر معاویہؓ نے ان کو مصر کی حکومت پر مامور کرنے کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ کو کوفہ کا والی مقرر کیا، مغیرہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے ا میر معاویہؓ سے کہا کہ ان دونوں باپ بیٹوں کو مصر اور کوفہ کا والی بنا کر تم نے اپنے کو شیروں کے جبڑے کے درمیان میں دیدیا، امیر معاویہؓ نے بھی خطرہ محسوس کیا، چنانچہ عبد اللہ کو معزول کرکے ان کی جگہ مغیرہ کو مقرر کیا، عمرو بن العاصؓ کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے امیر معاویہؓ سے کہا کہ تم نے ایسے شخص کو کوفہ کی حکومت سپرد کی ہے کہ اگر وہ خراج کھا جائے تو تم وصول بھی نہیں کرسکتے، مغیرہ واقعی تنگ دست رہا کرتے تھے، اس لیے امیر معاویہؓ کی سمجھ میں آگیا، چنانچہ انھوں نے ان سے خراج کا عہدہ نکال کر صرف امامت کے فرائض باقی رکھے، مغیرہؓ نے عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ یہ تمھاری شکایت کا نتیجہ ہے، انھوں نے کہا نہیں ؛بلکہ تمھاری شکایت کا جواب ہے۔ [138] [139]
عمر بن العاصؓ کے صحیفۂ حیات میں جہاد فی سبیل اللہ کا عنوان بہت نمایاں ہے، تمام مغازی میں مشہور مجاہد خالد بن ولید کے دوش بدوش رہے، ان کا خود بیان ہے کہ" ابتدائے اسلام سے آنحضرت ﷺ نے کسی کو مغازی میں میرے اور خالد کے برابر نہیں کیا، [140] شام اور مصر اور طرابلس وغیرہ کے فتوحات کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے، مدینہ میں ذرا بھی کوئی خطرہ پیدا ہوتا، فوراً ان کی تلوار میان سے نکل آتی تھی، ایک مرتبہ کسی سبب سے یک بیک لوگوں میں کچھ انتشار پیدا ہو گیا اور عام بھگدڑ مچ گئی، صرف حضرت ابو حذیفہؓ کے غلام سالم مسجد میں تلوار چھپائے کھڑے رہے، حضرت عمرو بن العاصؓ نے دیکھا تو یہ بھی تلوار لگا کر انھی کے پاس کھڑے ہو گئے، یہ عام سراسیمگی دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ تم لوگ اللہ اور رسول کی پناہ میں کیوں نہیں آئے اور عمرو بن العاصؓ اور سالمؓ کو کیوں نہ نمونہ بنایا۔ [141] [142]
اللہ کی راہ میں بہت فراخدلی کے ساتھ صدقہ دیتے تھے، جس کا اعتراف خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک نے بارہا کیا ہے، علقمہ بن رمثہ بلوی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیجا اور خود ایک دوسرے سریہ میں نکلے ہم لوگ بھی ہمرکاب تھے،آپ پر کچھ غنودگی طاری ہو گئی، بیدار ہوئے تو فرمایا کہ اللہ عمرو پر رحم کرے، یہ دعا سن کر ہم میں سے ہر شخص اس نام کے اشخاص کا ذکر کرنے لگے، دوبارہ پھر آنکھ جھپک گئی، پھر ہوشیار ہوکر فرمایا اللہ عمرو پر رحم کرے، جب تیسری مرتبہ آپ نے فقرہ کو دہرایا تو ہم لوگوں سے ضبط نہ ہو سکا اور پوچھا، آپ کا ارشاد کس عمرو کے متعلق ہے، فرمایا عمرو بن العاصؓ، ہم لوگوں نے سبب پوچھا، فرمایا کہ مجھ کو وہ وقت یاد آگیا، جب میں لوگوں سے صدقہ منگواتا تھا، تو وہ بہت وافر صدقہ لاتے تھے اور جب پوچھتا کہاں سے لاتے ہو تو کہتے اللہ نے دیا، [143] ایک موقع پر آپ نے تین مرتبہ فرمایا خدا یا عمرو بن العاصؓ کی مغفرت فرما میں نے جب ان کو صدقہ کے لیے بلایا تھا تو وہ صدقہ لائے تھے۔ [144] [145]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.