شب برات

مسلمانوں کی سالانہ چھٹی From Wikipedia, the free encyclopedia

شب برات
Remove ads

شب براءت یعنی لیلۃ البراءۃ۔

اجمالی معلومات شب برات, باضابطہ نام ...

تعارف و تفصیل

شب برات ابتدائے اسلام سے عبادت کے ساتھ منایا جارہا ہے"۔ لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی (اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے "۔

سرکارِ مدینہ      صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی، ج2،ص182، حدیث: 736) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا  مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی، ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً) معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شب برأت یا پندرہ شعبان کی نصف رات میں قبرستان جانے کا التزام کرنا اور ناجانے والوں کو برا سمجھنا بدعت ہے[1] (مراٰۃ المناجیح، ج2،ص290)

بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان، پ25، الدخان، تحت الآیۃ:3،ج8،402)

اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب  شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ  کار چلا آرہا ہے کہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتے اور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتے ہیں، ان میں بعض  لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر  رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے  اور اسے اپنے مریضوں کے لیے محفوظ کر لیتے اور اس  رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ، جز: 3،ج2،84 ملخصاً)

دلیل سورۃ الدخان کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

حالانکہ ان آیات میں "شب براءت" نہیں بلکہ "شب قدر" کا بیان ہے اور "تقدیر کے فیصلے ھونے" کا بیان نہیں بلکہ فرشتوں میں "تقدیر کے فیصلے تقسیم ھونے" کا بیان ہے۔ تقدیر کے فیصلے تو ازل سے ھوچکے ہیں اور کائنات کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تقدیر لکھی جاچکی ہے۔

چلئیے سورۃ الدخان کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ان آیات میں تین امور کا بیان ہیں۔

۔1. قرآن مبارک رات میں نازل ھوا ہے

۔2. اس شب میں تمام پر حکمت احکامات (فرشتوں میں) بانٹ دیے جاتے ہیں۔

۔3. اس شب میں رحمت کا نزول ہوتا ہے

قاعدہ ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضا۔ یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ سو ان آیات کی تفسیر قرآن ہی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

سورۃ القدر میں انہی تین امور کا بیان ہے، ملاحظہ کیجئیے۔

۔1. قرآن قدر (عظمت) والی شب میں نازل ھوا ہے۔

۔2. مخلوقات کے لیے اگلے لیلۃ القدر تک جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے، (کائنات کی تدبیر پر مامور) فرشتے اسے لے کر اترتے ہیں۔

۔3. اس شب میں سلامتی کا نزول ہوتا ہے

یہ معما تو حل ھو گیا کہ لیلۃ مبارکۃ لیلۃ القدر کا دوسرا نام ہے۔

یہ شب کس ماہ میں ہے؟

قرآن مقدس کہتا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ھوا ہے۔ (البقرہ آیت نمبر 185. اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ھوتی ہے، شعبان میں نہیں۔

پندرھویں شعبان کی شب :

تفسیر احکام القرآن جلد 2 صفحہ پر امام ابن العربی مالکی (وفات: 543 ھ) پندرھویں شعبان کی رات کی تمام احادیث کو مردود قرار دیتے ھوئے رقمطراز ہیں :

"لیس فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث یعول الیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الآجال فیھا فلا تلفتتوا الیھا"۔

نصف شعبان کی شب کے بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ نہ اس شب کی فضیلت میں اور نہ موت و زندگی لکھنے کے بارے میں، سو ان روایات کی طرف قطعا توجہ نہ دو۔

نصف شعبان کے روزے سے متعلق روایات:

جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی جلد 2 صفحہ 53 میں محدث عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارکپوری لکھتے ہیں

لم اجد فی صوم لیلۃ النصف من شعبان حدیثا مرفوعا صحیحا اما حدیث علی الذی رواہ ابن ماجۃ فقد عرفت التضعیف جدا۔

میں نے نصف شعبان کے روزے کے بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع نہیں پائ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت ابن ماجہ نے روایت کیا ہے وہ تو نہایت ضعیف ہے

نصف شعبان کی نماز :

علامہ شبیر احمد عثمانی فتح الملہم شرح مسلم جلد 3 صفحہ 174 میں رقمطراز ہیں:

قال العینی وما احادیث التی فی صلوۃ النصف من شعبان نذکر ابوالخطاب بن دحیہ انھا موضوعۃ

علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں کہ نصف شعبان کی نمازوں کے جتنی احادیث ہیں تو ابوالخطاب بن دحیہ فرماتے ہیں یہ سب منگھڑت ہیں۔

نصف شعبان کی شب بارے جتنے بھی روایات ہے سب قطعی

نصف شعبان، مغفرت کی رات؟

نصف شعبان کی شب کو مغفرت کی رات قرار دینے کے لیے "یار لوگ" ترمذی سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

نصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑیوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔لیکن اسی روایت کے

اللہ کا طلوع ھونا :

نصف شعبان کی شب بارے ابن ماجہ کی سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں طلوع فرماتا ہے اور مشرک سکینہ پرور کے علاوہ سب کی مغفرت فرماتا ہے"۔

اس روایت کے چار راوی قطعا مجھول اور ایک شدید ضعیف۔ بے بنیاد روایت ہے۔ علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی اپنی کتاب "شب براءت کیا ہے" اس روایت کے ناقل عبد

ابن عدی اور ذھبی کہتے ہیں کہ ابن لہیعہ کی یہ روایت منکر ہے۔

عبد اللہ بن لہیعہ کبھی تو دعوی کرتا ہے کہ یہ روایت زید بن سلیم سے مروی ہے اور کبھی کہتا ہے ضحاک بن ایمن سے مروی ہے۔

نصف شعبان کی شب کو مغفرت کی رات قرار دینے کے لیے "یار لوگ" ترمذی سے مردود روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

نصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑیوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔لیکن اسی روایت کے

درودِ پاک پڑھنے کا مہینا

درودِ پاک پڑھنا افضل ترین اعمال میں سے ہے اور ماہِ شعبان المعظم کو درودِ پاک پڑھنے کا مہیناکہا گیا ہے، چنانچہ امام قَسْطَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نقل فرماتے ہیں: بے شک شعبان کا مہینا نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود شریف پڑھنے کا مہینا ہے کہ آیت: (اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ      ) (پ22،  الاحزاب:  56)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لیے یہاں کلک کریں) اسی مہینے میں نازل ہوئی۔(مواھبِ لدنیہ، ج2،ص506)

Remove ads

مختلف مسلمان مکاتب فکر کی آراء

فقہ اربعہ کے علما

فقہ حنفی کی مشہور کتاب البحرالرائق میں ہے[2]:

رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں،عیدین کی راتوں میں، ذی الحجہ کی دس راتوں میںاور شبِ برأت میں جاگنا اور عبادت میں مشغول رہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے۔جیساکہ احادیث میں وارد ہے۔

امام شافعی نے اپنی کتاب كتاب الأم کے باب العبادة ليلة العيدين - میں اس پر مفصل بحث درج کی ہے اور روایات حدیث و آثار سلف اس طرح نقل کیے ہیں۔[3]

ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ کہا گیا: دعا پانچ راتوں میں قبول ہوتی ہے: جمعہ کی رات، عیدالاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، رجب کی پہلی رات، اور نصف شعبان کی رات، انہوں نے کہا: ہمیں شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم کو ابراہیم بن محمد بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ایک بزرگ نے دیکھا کہ مدینہ کے بہترین لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی رات میں دعا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد کرتے ہیں یہاں تک کہ رات کا ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ابن عمر جمعہ کی رات کو جاگتے تھے اور جمعہ کی رات عید کی رات ہے کیونکہ اس کی صبح قربانی کی ہے (الشافعی نے کہا: میں ان تمام چیزوں کی سفارش کرتا ہوں جو ان راتوں میں فرض کی گئی ہیں)۔

موسوعۃ فقہیہ میں ہے۔[4]

جمہور فقہا ء اسی پر متفق ہیں کہ نصف شعبان کی رات میں عبادت مندوب و مستحسن ہے اور اس کے قیام کے استحباب کے جمہور قائل ہیں۔اس وجہ سے کہ احادیث صحیحہ سے اس کی فضیلت ثابت ہے۔

اہل حدیث علما واکابر

علامہ ابن تیمیہ نے كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم کے باب أنواع الأعياد الزمانية المبتدعة نے اس پر مفصل بحث کی ہے۔[5]ان سے نصف شعبان کی رات نماز کے بارے میں سوال کیا گيا: تو ابن تیمیہ[6] نے جواب دیا :

اگر اس رات میں کوئی تنہا یا مخصوص جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ اسلاف کے بہت سے لوگوں کا یہ معمول تھا، تو یہ اچھا عمل ہے۔

نامور اہل حدیث عالم اور شارح حدیث علامہ عبد الرحمان مبارک پوری ترمذی کی شرح میں لکھتے ہیں،

معلوم ہونا چائیے کہ نصف شعبان کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب کے مجموعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان احادیث کی کوئی نہ کوئی اصل ہے۔[7]

اس کے بعد نصف شعبان پر متعدد حدیثیں نقل کیں ہیں اور کہا ہے :یہ تمام حدیثیں ان لوگوں پر حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں۔[8]

اہل تشیع

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ 15 شعبان 255ھ کو امام مہدی کی پیدائش ہوئی۔[9] وہ اس رات امام مہدی کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔[10]

Remove ads

تقسیمِ امور کی رات

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسانشادی کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔[11]

مغفرت کی رات

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،

ایک رات میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع (قبرستان) میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

یہ روایت حدیث کی اکثر کتب میں مذکور ہے، کثرت ِ روایت کے سبب یہ حديث درجہ صحت کو پہنچ گئی ہے۔ اس کو ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، مشکوٰۃ، مصنف ابنِ ابی شعبہ، شعب الایمان للبیہقی وغیرہ میں اس کو روایت کیا گیا ہے۔[12] قبیلہ بنو کلب کثرت سے بکریاں پالتے تھے جن کی مثال اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔ ایک رویت میں مسلمانوں کا لفظ ہے اور دو شخصوں میں سے ایک قتل کرنے والا اور دوسرا کینہ رکھنے والا مذکور ہے۔[13]

Remove ads

رحمت کی رات

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔

[14] حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔

[15]

Remove ads

شبِ بیداری

شبِ برأت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مساجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے۔

، [16] اب بھی پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، ترکی وغیرہ میں مسلمان شب بیداری کا اجتماعی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔

Remove ads

پاکستان

شب برات پورے پاکستان میں منائی جاتی ہے اور یہ ایک اختیاری تعطیل ہے جس کا انتخاب پاکستان میں ملازمت اور تعطیل کے قوانین سے کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ملازمین اس دن چھٹی لینے کا انتخاب کر سکتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر دفاتر اور کاروبار کھلے رہتے ہیں۔[26]

روایتی مٹھائیاں جیسے حلوہ، سویاں (ورمیسیلی) اور فلیٹ بریڈ تیار کی جاتی ہیں اور پڑوسیوں، دوستوں اور رشتہ داروں اور غریبوں کے ساتھ شیئر کی جاتی ہیں۔[27]

مرحومین کے لواحقین ان کی قبروں پر پھول بھی نچھاور کرتے ہیں اور ان کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی جاتی ہے۔

مختلف مقامات پر مرحومین کے لیے اللہ کے حضور دعائے مغفرت کرنا ایک عام روایت ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور اپنے پیاروں کی قبروں پر شمعیں روشن کرتے ہیں اور خوشبو لگاتے ہیں۔[27]

Thumb
ایک بچہ میت کی قبروں پر موم بتیاں جلا رہا ہے اور خوشبو لگا رہا ہے، کچھ خاندانوں میں اس رات کو اپنے مرحومین کے لیے مغفرت کی دعا کی جاتی ہے
Remove ads

حوالہ جات

  1. "پندرہ شعبان و شب برأت کی فضیلت اور مروجہ رسومات کی حقیقت اہم انکشافات"۔ Aj ki Duniya Urdu
  2. Mir Ajaz (22 Feb 2024). "کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل - Kashmir Uzma" (بزبان امریکی انگریزی). Retrieved 2025-02-22.
  3. فتاوی شیخ الاسلام، جلد 23، ص 131
  4. شرح ترمذی، تحفۃالاحوذی جلد 2 ص52
  5. شرح ترمذی، تحفۃالاحوذی جلد 2 ص53
  6. وفیات الاعیان، روضة الاحباب، تاریخ ابن الوردی، ے نابع المودة، تاریخ کامل طبری، کشف الغمہ، جلاٴالعے ون، اصول کافی، نور الا بصار، ارشاد، جامع عباسی، اعلام الوری اور انوار الحسینہ وغیرہ
  7. الجامع الاحکام القرآن ج 16 ص 126، شعب الایمان للبیہقی ج 3 ص 386
  8. ترمذی جلد 1ص 156، ابن ماجہ ص 100، مسند احمد جلد 6 ص 238، مشکوٰۃ جلد 1ص 277، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج 1ص 337، شعب الایمان للبیہقی جلد 3ص 379
  9. ابنِ ماجہ ص 101، شعب الایمان ج 3ص 382، مشکوٰۃ جلد 1ص 277، مجمع الزوائد ج 8 ص65، مسند احمد ج 2ص 176، مشکوٰۃ جلد 1ص 278
  10. شعب الایمان للبیہقی ج3ص 383
  11. ابنِ ماجہ ص 100، شعب الایمان للبیہقی ج 3ص 378، مشکوٰۃ ج 1ص 278
  12. ما ثبت من السنہ 202، لطائف المعارف ص 144
  13. "About: Shab-e-Barat (شب برات)"۔ Events in Karachi – Latest Event Updates- Articles – About Karachi۔ 5 جولائی 2012۔ 2014-06-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-06-06
  14. "Shab-e-Barat to be observed on 18 March". The Business Standard (بزبان انگریزی). 3 Mar 2022. Retrieved 2022-03-03.
  15. "Shab-e-Barat to be observed on March 29"۔ Dhaka Tribune۔ 14 مارچ 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-03-03
  16. Senior Correspondent۔ "Bangladesh to celebrate Shab-e-Barat on Apr 9"۔ bdnews24.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-03-03
  17. Jawhar Sircar (26 مارچ 2021)۔ "Understanding the History and Purpose of Celebrating Shab-e-Barat"۔ The Wire۔ 2021-03-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-04-14
  18. "Shabe barat"۔ darulifta-deoband.com۔ 2020-10-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-04-14
  19. "Shab-e-Barat 2021: Know about the importance of the day". The Indian Express (بزبان انگریزی). 28 Mar 2021. Retrieved 2022-11-06.
  20. "Shab e-Barat in Pakistan". www.timeanddate.com (بزبان انگریزی). Retrieved 2022-11-06.
  21. "Pakistanis to observe Shab-e-Barat with caution amid third Covid wave"۔ The Express Tribune۔ 28 مارچ 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-02-13
  22. "Shab-e-Barat observed across the country with religious fervor". Dunya News (بزبان انگریزی). Retrieved 2023-02-18.
  23. "Shab e Barat 2022 Date in Japan - 15 Shaban Islamic Event". Hamariweb.com Islam (بزبان امریکی انگریزی). Retrieved 2022-11-06.
Remove ads
Loading related searches...

Wikiwand - on

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Remove ads