واقعہ کربلا

61ھ میں ہونے والا مسلح واقعہ جس میں حسین ابن علیؓ کو شہید کیا گيا From Wikipedia, the free encyclopedia

واقعہ کربلاmap

سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء)[1][2] کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

اجمالی معلومات واقعۂ کربلا, سلسلہ دوسرا فتنہ ...
واقعۂ کربلا
سلسلہ دوسرا فتنہ   ویکی ڈیٹا پر  (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
مقام کربلا   ویکی ڈیٹا پر  (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
32°36′55″N 44°01′53″E   ویکی ڈیٹا پر  (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
یزید کی فوج امام حسین ابن علی کچھ مرد اور اہلبیت کی خواتین
قائد
عمر بن سعد شمر ذی الجوشن امام حسین ابن علی
قوت
40 ہزار سے زائد 151
نقصانات
5 ہزار سے زائد (شیعہ روایات کے مطابق) 134 (72 اصحاب 62 رشتہ دار، بچے اور غلام)، بنو ہاشم سے 18 افراد شہید ہوئے۔
بند کریں

محرم کی دسویں دن حسین بن علی اور عمر سعد کی لشکروں کا آمنے سامنے تھا۔ ابو مخنف کے مطابق امام حسین کی فوج کی تعداد 32 گھڑسوار اور 40 پیادہ تھا اور امام محمد باقر کے مطابق پینتالیس گھڑسوار اور ایک سو پیادہ تھے۔ اس کے سامنے عمر بن سعد کی فوج تھی جس میں 30،000 کے قریب جوان تھے۔ جنگ شروع ہوئی اور حسین اور اس کے ساتھی مارے گئے۔ حسین کی شہادت کے بعد، عمر بن سعد کی فوج نے حسین کی فوج کے 72 ارکان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اجسام پر گھوڑے دوڑائے۔

جنگ کی وجہ یہ کی کہ حسین ابن علی نے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کی۔ حسین ابن علی یزید ابن معاویہ کی حکمرانی کو غیر قانونی، ناجائز اور غیر شرعی سمجھتے تھے، جو حسن مجتبیٰ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے درمیان میں صلح معاہدے کے خلاف، یزید اول کو وراثت میں ملی تھی۔

کربلا کی لڑائی کو واقعہ الطف کہا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا کو اسلامی تاریخ کی ایک متنازع لڑائی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس لڑائی کے نتائج اور تفصیلات سے سیاسی نفسیاتی اور نظریاتی مضمرات تھے جو آج بھی عصر حاضر تک تنازع کا شکار ہے، کیوں کہ یہ معرکہ ان حقائق کے سلسلے میں سب سے نمایاں واقعہ ہے جس نے سنیوں اور شیعوں کے مابین تعلقات کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ پوری تاریخ میں، جنگ کربلا اور اس کی لمحاتی تفصیلات شیعوں اور ان کی سب سے اہم ثقافتی بنیادوں میں سے ایک علامت بن گئیں۔ محرم 10 یا عاشورا، جس دن یہ جنگ ہوئی، شیعوں کے ذریعہ "مظلوم پر مظلوموں کا انقلاب اور اس دن تلوار پر خون کی فتح" کی علامت بن گیا۔ [3]

اگرچہ اس جنگ کو فوجی نقط نظر سے کم اہمیت حاصل تھی، کیوں کہ کچھ لوگ[کون؟] اسے حسین کی بغاوت کی ناکام کوشش سمجھتے ہیں، لیکن اس جنگ نے اہم سیاسی، فکری اور مذہبی اثرات چھوڑے۔ نعرہ "اوہ، انقلابات الحسین" شیعہ ثقافت کے انقلاب کے مرکزی عنصر کی حیثیت اختیار کر گیا اور جنگ، اس کی تفصیلات اور نتائج شیعوں کے لیے ایک عظیم روحانی قدر کی نمائندگی کرتے ہیں، جو جنگ کربلا کو ناانصافی کے خلاف سیاسی انقلاب تصور کرتے ہیں۔ جب کہ کربلا میں واقع حرم الحسین شیعوں کے لیے ان کے عقیدت مندوں کی زیارت کے لیے ایک مقدس مقام بن گیا اور ساتھ ہی ان کی قبر حاضری کے دوران میں خصوصی دعاؤں کی تکرار بھی۔ حسینؓ کے شہید کے نتیجے میں ان کی موت کے حادثے سے متعلق مذہبی تحریروں، خطبات، تبلیغ اور خصوصی دعاؤں کا ایک سلسلہ سامنے آیا اور ان کے قتل کے واقعے کو بیان کرنے والی درجنوں کتابیں مرتب کیں۔

شیعہ جنگ کربلا کو ایک ایسی درس گاہ سمجھتے ہیں جس میں قربانی، سچائی اور آزادی جیسے بہت سے معنی سامنے آتے ہیں۔شیعوں کے مطابق، اس واقعے کی علامتوں نے ایرانی انقلاب اور شاہ کی حکومت کا مقابلہ کرنے کے جذبے میں ایرانی عوام کو متحرک کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا، خاص طور پر عاشورہ کے دوران میں تہران اور مختلف ایرانی شہروں میں ہونے والے لاکھوں مظاہروں میں، جس نے سابق شاہ، محمد رضا پہلوی کو ایران سے فرار ہونے پر مجبور کیا تھا اور ایران میں شیعہ اسلامی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔شیعوں کے مطابق، اس واقعے کا جنوبی لبنان میں اسرائیلی قبضے کے مقابلہ میں اسلامی مزاحمت میں بھی ایک کردار تھا۔

جنگ سے پہلے

واقعۂ عاشورا تاریخ کے آئینے میں
سنہ 60 ہجری قمری
15 رجب وفات معاویہ
28 رجب مدینہ سے امام حسین کا خروج
3 شعبان امامؑ کا مکہ پہنچنا
10رمضان کوفیوں کا امام حسینؑ کے نام پہلا خط
12 رمضان کوفیوں کے 150 خطوط کا قیس بن مُسْہر، .... کے ذریعے امام کو پہنچنا۔
14‌رمضان ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ذریعے بزرگان کوفہ کے خطوط کا پہنچنا
15رمضان مسلم کی مکہ سے کوفہ روانگی
5 شوال کوفہ میں مسلم بن عقیل کا ورود
8 ذی الحج مکہ سے خروج امام حسینؑ
8 ذی الحج کوفہ میں قیام مسلم بن عقیل
9 ذی الحج شہادت مسلم بن عقیل
سنہ 61 قمری
1 محرم قصر بنی مقاتل میں عبیداللہ بن حر جعفی اور و عمرو بن قیس کو امام کا دعوت دینا
2 محرم کربلا میں کاروان امام کا پہنچنا
3 محرم لشکر عمر سعد کا کربلا میں پہنچنا
6 محرم حبیب بن مظاہر کا بنی اسد سے مدد مانگنا
7 محرم پانی کی بندش
8 محرم مسلم بن عوسجہ کا کاروان امام حسین سے ملحق ہونا
9 محرم شمر بن ذی الجوشن کا کربلا پہنچنا
9 محرم امان‌ نامۂ شمر برائے فرزندان ام‌البنین.
9 محرم لشکر عمر سعد کا اعلان جنگ اور امام کی طرف سے ایک رات مہلت کی درخواست
10 محرم واقعہ عاشورا
11 محرم اسرا کا کوفہ کی طرف سفر
11 محرم بنی اسد کا شہدا کو دفن کرنا
12 محرم بعض شہدا کا دفن
12 محرم اسیران کربلا کا کوفہ پہنچنا
19 محرم اہل بیتؑ کی کوفہ سے شام روانگی
1 صفر اہل بیتؑ اور سر مطہر امام حسینؑ کا شام پہنچنا
20 صفر اربعین حسینی
20 صفر اہل بیت کی کربلا میں واپسی
20 صفر اہل بیت کی مدینہ میں واپسی(بنا بر قول)

معاویہ کی خلافت

تاریخی ذرائع کے مطابق، الحسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کے بعد معاویہ بن ابی سفیان نے خلافت کو مستحکم کیا تھا ، اور کچھ کا خیال ہے کہ عوامل کی ایک وجہ سے معاویہ سے الحسن کو چھوڑ دیا گیا تھا، ان میں شامل ہیں:

  • عثمان کے قتل کے بغاوت سے لے کر جنگ جمل اور صفین کی لڑائی تک شروع ہونے والے مسلمانوں کے اندر اندرونی تنازعات کے سلسلے کے بعد، خون بہانے اور اس لفظ کو متحد کرنے کی ایک کوشش۔ بہت کچھ اس اقدام کی تعریف کی اور جس سال میں مفاہمت ہوئی اس کو " عام الجماعت " قرار دیا۔
  • معاویہ کی وفات کے بعد الحسن بن علی بن ابی طالب کو خلافت کے طریقہ کار کی واپسی پر صلح اور مراعات کا اقدام مشروط تھا۔

یہ مفاہمت صفین کی لڑائی میں کل کے دشمنوں کے مابین پُرسکون تعلقات کے بعد ہوئی اور حسن کی شہادت کے بعد جب معاویہ نے زندہ رہتے ہوئے اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو اپنا ولی عہد نامزد کیا۔اس فیصلے کو رد عمل کا سامنا ہوا۔ کچھ اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہیں جو پچھلے خلیفوں کے انتخاب میں عمل پیرا ہونے والے شوری نظام کی وراثت اور ناکامی کے ذریعہ ہیں اور بہت سے بزرگ ساتھی ابھی بھی زندہ تھے اور کچھ نے امیدوار کے دنیاوی، مذہبی اور فقہی تجربات پر مبنی نہیں بلکہ حکمرانی کے جانشینی کے عنصر کی بنیاد پر مزید جانشینی کے انتخاب پر غور کیا ہے۔ اور حالیہ معاویہ کے اس اصول کے وارث ہونے کے فیصلے کے مخالف علامتوں کی علامتیں شروع ہوگئیں، جس میں حسین بن علی، عبد اللہ بن ال زبیر اور عبد اللہ بن عمر بن الخطاب پر توجہ دی گئی۔ [4][5]

تعارف

جنگ کربلا انسانی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ ہے۔ یہ نہ صرف ایک جنگ ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے رہنمائی بھی ہے۔ اس جنگ کی بنیاد حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد رکھی گئی تھی۔ امام علی خلیفہ بن گئے کچھ بدکردار لوگوں کو پسند نہیں آیا، اتنی لڑائیاں ہوئیں، علی شہید ہو گئے، پھر حضرت امام حسن بن علی چھ ماہ خلیفہ رہے وہ بھی ان کے بعد شہید ہو گئے۔

یزید، اس وقت کا حکمران، بدکردار اور ظالمانہ سمجھا جاتا ہے اور اس نے اس کی حکمرانی میں غیر اسلامی کام کیا، عراق اور کوفہ کے عوام نے حضرت امام حسین کو کئی خطوط لکھے اور انھیں کوفہ آنے کو کہا تاکہ وہ اس کے ہاتھ میں بیت حاصل کر سکے۔ اسے اپنا خلیفہ بنا کر، یزید چاہتے تھے کہ حسین اس کے ساتھ ہوں، وہ جانتا تھا کہ اگر حسین اس کے ساتھ آجائے تو سارا اسلام اس کی گرفت میں آجائے گا۔ بہت دباؤ کے بعد بھی، حسین نے ان کی کسی بھی چیز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، لہذا یزید نے حسین کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ 4 مئی 680 ء کو، امام حسین مدینہ میں اپنا گھر چھوڑ کر مکہ پہنچ گئے، جہاں انھوں نے حج کرنے کا ارادہ کیا، لیکن معلوم ہوا کہ دشمن حاجیوں کے بھیس میں آسکتے ہیں۔ حسین کعبہ جیسے مقدس مقام پر خون بہانا نہیں چاہتے تھے، تب امام حسین نے حج کا ارادہ بدلا اور کوفہ شہر کی طرف بڑھے۔ راستے میں، دشمنوں کی ایک فوج نے انھیں گھیر لیا اور انھیں کربلا لائے۔

وہ زمین جس پر امام حسین نے کربلا میں اپنا خیمہ لگایا تھا، اس کو پہلے امام حسین نے خریدا تھا، پھر انھوں نے اسی جگہ پر اپنا کیمپ لگایا تھا۔ یزید اپنے قائدین کے توسط سے اپنی باتوں کو قبول کرنے کے لیے امام حسین پر دباؤ ڈالتا رہا جب امام حسین نے یزید کی شرائط کو نہ مانا تو آخر کار دشمنوں نے نہر پر فوج کا پہرہ لگایا اور پانی کو حسین کیمپوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یزید کی فوج کو دیکھ کر کوفہ عراق کے لوگ، جنھوں نے اپنا رہبر بنانے کے لیے امام حسین کو بلایا تھا، وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔

تین دن گذر جانے کے بعد، جب امام کے گھر والے کے بچوں کو پیاس لگنے لگی، تو حسین نے یزیدی فوج سے پانی طلب کیا، دشمن نے پانی دینے سے انکار کر دیا، دشمنوں نے سوچا کہ امام حسین پیاس سے ٹوٹ کر ہمارے تمام حالات کو قبول کر لیں گے۔ جب تین دن کی پیاس کے بعد بھی حسین نے یزید کی بات نہیں مانی تو دشمنوں نے حسین کے کیمپوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد، امام حسین نے ایک رات دشمنوں سے مہلت طلب کی اور اس رات، امام حسین اور ان کے اہل خانہ نے اللہ کی عبادت کی۔

10 اکتوبر 680 ء کو، نماز فجر کے بعد سے ہونے والی اس لڑائی میں، اسے لڑائی کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ایک طرف لاکھوں کی فوج موجود تھی، دوسری طرف 72 جانثار اور چند نفر کا کنبہ تھا، لیکن مورخ صرف جنگ لکھتے ہیں۔ ویسے، امام حسین کے ساتھ صرف 75 یا 80 مرد تھے، جن میں 6 ماہ سے 13 سال تک کے بچے بھی شامل تھے۔ اسلام کی بنیادوں کی حفاظت کے لیے کربلا میں 72 افراد شہید ہوئے، جس میں دشمنوں نے چھ ماہ کے بچے علی اصغر کی گردن پر تین جہتی تیر مارا، 13 سالہ حضرت قاسم گھوڑے سموں کے سے پامال ہو گیا اور سات برس اور آٹھ برس کے بچے عون محمد سر پر تلوار کی ضرب سے شہید ہوئے۔

ہر سال، شیعہ، علوی اور متعدد سنی اور دوسرے مذاہب ہر سال ماتم کی تقریبات منعقد کرکے محرم کے پہلے 10 دن مناتے ہیں۔ دسویں دن ( عاشورہ ) کی آمد کے ساتھ ہی سوگ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اگرچہ عسکری طور پر اس معرکے کا پیمانہ بہت اچھا نہیں تھا، لیکن اس کا زبردست نظریاتی اور سیاسی اثر پڑا تھا۔ جنگ کربلا اس مذہب کی شیعہ روایت اور تاریخ کا ایک تاریخی اور بنیادی واقعہ ہے۔ یہ جدوجہد ہر سال بیان کی جاتی ہے اور باری باری یادوں کے انعقاد اور ماتم کے ساتھ۔ ایک طرف، اس واقعہ نے اموی حکومت کی سیاسی قانونی حیثیت کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کے بعد، اس حکومت کے خلاف حسین کے لہو کے نعرے کے ساتھ بہت ساری بغاوتیں ہوئیں اور آخر کار اس کا زوال ہوا۔ دوسری طرف، اس نے اگلی صدیوں میں آج تک شیعوں کی سماجی اور مذہبی شناخت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ شیعیان کا خیال ہے کہ حسین ابن علی کی قربانی اور جنگ کربلا کا مشن خدائی حکم کے ذریعہ تھا اور وہ اس تاریخی واقعہ کو اسلامی امت کے بیداری اور یزید کے ذریعہ خلافت کے غصب کے خاتمے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اسباب

جنگ کربلا 10 اکتوبر 680 ( اسلامی کیلنڈر کے سن 61 ھ میں 10 محرم ) کو دوسرے اموی خلیفہ یزید اول کی فوج اور اسلامی نبی محمد کے نواسے، حسین ابن علی کی سربراہی میں ایک چھوٹی سی فوج کے مابین، کربلا، عراق میں لڑی گئی۔

اموی خلیفہ معاویہ اول نے اپنی وفات سے قبل، اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ یزید کی نامزدگی حسین، چوتھے خلیفہعلی کے بیٹے اور زبیر بن عوام کے بیٹے عبد اللہ ابن زبیر سمیت محمد کے چند ممتاز اصحاب کے بیٹوں کی طرف مقابلہ کیا گیا۔ 680 عیسوی میں معاویہ کی موت کے بعد، یزید نے حسین اور دیگر مخالفین سے بیعت کا مطالبہ کیا۔ حسین نے بیعت نہیں کی اور مکہ کا سفر کیا۔ کوفہ، جو ایک عراقی فوجی گيریژن تھا اور خلافت علی کا مرکز تھا، شام کے اموی خلیفہ کے مخالف تھے اور علی کے گھر سے دیرینہ تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے حسین کو امویوں کا تختہ الٹنے کی تجویز پیش کی۔ تقریباً 70 جوانوں کے ساتھ حسین کے کوفہ جاتے ہوئے، اس کے قافلے کو کوفہ سے کچھ فاصلے پر خلیفہ کی ایک ہزار مضبوط فوج نے روک لیا۔ اسے 2 اکتوبر کو شمال کی طرف جانے اور میدان کربلا میں ڈیرے ڈالنے پر مجبور کیا گیا، جہاں اس کے فورا بعد 4000 افراد کی ایک بڑی فوج آئی۔ اموی گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے اپنے اختیار کے تابع کیے بغیر حسین کو محفوظ راستے سے انکار کرنے کے بعد بات چیت ناکام ہو گئی، اس شرط سے حسین نے انکار کر دیا۔ کربلا کی جنگ 10 اکتوبر کو شروع ہوئی جس کے دوران میں حسین اپنے بیشتر رشتے داروں اور ساتھیوں سمیت مارا گیا، جبکہ اس کے باقی بچ جانے والے افراد کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔ دوسرا فتنہ کے بعد اس جنگ کا آغاز ہوا، اس دوران میں عراقیوں نے حسین کی موت کا بدلہ لینے کے لیے دو الگ الگ مہمیں چلائی۔ پہلی توابین اور دوسرا مختار الثقفی اور اس کے حامیوں کے ذریعہ۔

کربلا کی جنگ نے علوی جماعت (شیعاں علی) کی ترقی کو اپنی اپنی رسومات اور اجتماعی یادداشت کے ساتھ ایک انوکھے مذہبی فرقے کی شکل دی۔ [lower-alpha 1] شیعہ تاریخ، روایت اور الہیات میں اس کا مرکزی مقام ہے اور شیعہ ادب میں کثرت سے اس کی تکرار کی جاتی ہے۔ شیعوں کے لیے، حسین کے دکھ اور موت غلط کے خلاف حق اور ناانصافی اور باطل کے خلاف انصاف اور سچائی کی جدوجہد میں قربانی کی علامت بن گئے۔ یہ شیعہ مذہب کے ممبروں کو بہادر اصولوں کا ایک کیٹلاگ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ جنگ شیعوں کے ذریعہ اسلامی محرم کے مہینے کے دوران میں سال کے دس دن کے دوران میں منائی جاتی ہے، اس مہینے کی دسویں تاریخ کو اختتام پزیر ہوتی ہے، جسے یوم عاشور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن، شیعہ مسلمان سوگ مناتے ہیں، عوامی جلوس نکالتے ہیں، مذہبی اجتماعات کا انعقاد کرتے ہیں، اپنے سینوں پر ماتم کرتے ہیں اور کچھ معاملات میں خودغرضی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سنی مسلمان بھی اس واقعے کو ایک تاریخی المیہ سمجھتے ہیں۔ حسین اور اس کے ساتھی بڑے پیمانے پر سنی اور شیعہ مسلمانوں کے ذریعہ شہید مانے جاتے ہیں۔

سیاسی پس منظر

656ء میں باغیوں کے ذریعہ تیسرے خلیفہ عثمان کے قتل کے بعد، باغیوں اور مدینہ کے قصبے کے شہریوں نے علی، اسلامی نبی محمد، کا کزن اور داماد، کے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا۔ محمد کے کچھ ساتھی جن میں طلحہ ابن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور معاویہ ابن ابی سفیان (اس وقت شام کا گورنر) اور محمد کی بیوہ عائشہ، نے علی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لینے اور شوری (مشاورت) کے ذریعہ ایک نئے خلیفہ کے انتخاب کا مطالبہ کیا۔ ان واقعات نے پہلا فتنہ (پہلی مسلمان خانہ جنگی) کو جنم دیا۔ [8] جب 661 میں علی کو عبدالرحمٰن ابن ملجم، ایک خارجی، نے قتل کیا تو، اس کے بڑے بیٹے حسن نے اس کی جان لے لی لیکن جلد ہی معاویہ کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کیے تاکہ مزید خونریزی سے بچا جاسکے۔ [9] معاہدے میں، حسن نے معاویہ کو اس شرط پر اقتدار سونپنا تھا کہ معاویہ ایک منصف حاکم ہے اور وہ کوئی موروثی سلطنت قائم نہیں کرے گا۔ [10] [11] [12] [lower-alpha 2] 670 میں حسن کی وفات کے بعد، اس کا چھوٹا بھائی حسین بنو ہاشم قبیلہ کا سربراہ بن گیا جس کا تعلق اسلامی نبی محمد سے تھا۔ [15] اگرچہ کوفہ میں ان کے والد کے حامیوں نے ان سے بیعت کی، لیکن وہ جب تک مؤخر الذکر زندہ تھا، حسن اور معاویہ کے مابین امن معاہدہ کا پابند رہے گا۔ [9]

یزید اول کی جانشینی کے نتیجے میں کربلا کی لڑائی اس بحران میں ہی واقع ہوئی ہے۔ [16] [17] 676 میں، معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین نامزد کیا، [12] مؤرخ ولفرڈ مڈلنگ نے اس اقدام کو حسن – معاویہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ [9] اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملنے کی وجہ سے، موروثی جانشینی نے کئی حلقوں سے مخالفت پیدا کردی۔ [18] معاویہ نے دمشق میں ایک شوریٰ یا مشاورتی اجلاس طلب کیا اور متعدد صوبوں کے نمائندوں کو ڈپلومیسی اور رشوت کے ذریعہ اس کے منصوبے پر راضی ہونے پر راضی کیا۔ [19] پھر اس نے مدینہ کے اس وقت کے گورنر، مروان بن الحکم کو حکم دیا، جہاں حسین اور متعدد دیگر بااثر مسلمان مقیم تھے، اس فیصلے کا اعلان کرے۔ مروان کو اس اعلان کے خلاف مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر حسین سے، عبد اللہ ابن الزبیر، عبد اللہ ابن عمر اور عبد الرحمن ابن ابی بکر، محمد کے ممتاز صحابہ کے بیٹے، یہ سب، ان کی اولاد کی وجہ سے خلیفہ کے لقب کا دعوی بھی کر سکتے ہیں۔ [20] [21] معاویہ مدینہ چلا گیا اور چار اختلاف رائے رکھنے والوں پر دباؤ ڈالا۔ اس نے پیروی کی اور ان میں سے کچھ کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی، لیکن پھر بھی انھوں نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ [20] [19] بہر حال، معاویہ نے اہل مکہ کو یہ باور کرایا کہ ان چاروں نے اپنی بیعت لی ہے اور یزید کی طرف سے ان سے بیعت لی ہے۔ دمشق واپسی پر، اس نے مدینہ کے لوگوں سے بھی بیعت حاصل کی۔ یزید کی جانشینی کے منصوبے کے خلاف مزید کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ [20] [19] مورخین فٹزپٹرک اور واکر کے مطابق، یزید کی جانشینی، جسے "اسلامی تاریخ کا سقم یا عیب" سمجھا جاتا تھا، نے حکومت کو "مشاورتی" شکل سے بادشاہت میں تبدیل کر دیا۔ [22] اپریل 680 میں اپنی موت سے قبل معاویہ نے یزید کو متنبہ کیا کہ حسین اور ابن الزبیر ان کے حکمرانی کو چیلنج کرسکتے ہیں اور اگر ایسا کرتے ہیں تو انھیں شکست دینے کی ہدایت کی۔ یزید کو مزید صلاح دی گئی کہ وہ حسین کے ساتھ احتیاط سے سلوک کریں اور اپنا خون نہ پھیلائیں کیونکہ وہ محمد کا نواسا تھا۔ [23]

امیر اور غریب میں بڑھتا فرق

حضرت عمر ؓ نے بیت المال کے عطیات کی تقسیم میں  تفضیل کا طریقہ اختیار کیا۔ رسول اللہ(ص) اور حضرت ابو بکر ؓ کے برابری کے طریقے سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا جس کا وظیفہ زیادہ تھا اس کی بچت بھی زیادہ ہونے لگی، جس کا کم تھا اس کا سارا  کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جایا کرتا۔ آخری دنوں تک جاتے جاتے امیر غریب کا فاصلہ بہت ہو گیا۔   کچھ بہت  امیر بن گئے اور غریب بھی بہت ہو گئے۔پھر انھیں اپنے اس فیصلے پر پچھتانا پڑا، حضرت عمر ؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ جو میں نے فاصلے مقرر کر دیے ہیں، یہ جو امیر غریب کا فاصلہ ہو گیا ہے، اس کو درست کرنا چاہئیے، اسی طرح (باقی رکھنا) ٹھیک نہیں ہو گا۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری، ساتویں جلد کے صفحہ نمبر 490 پرحدیث پاک  (نمبر 4236) کی تشریح کے دوران میں  لفظ آ گیا، ”ببّانا”، اس  لفظ کے معانی کی تشریح کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی حضرت عمر ؓ کی جانب سے اس لفظ کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:

” قلت : وقد وقع من عمر ذكر هذہ الكلمة في قصة أخرى وهو أنہ كان يفضل في القسمة فقال:

“لئن عشت لأجعلن الناس ببانا واحدا”

حضرت عمر ؓ جب وظائف تقسیم کرتے تھے تو لوگوں میں فرق کرتے تھے۔جیسے مہاجر کو زیادہ، انصاری کو کم، بدر میں شرکت کرنے والے کو زیادہ، دوسروں کو تھوڑا دیتے۔اپنی زندگی کے آخر ایام میں  انھوں نے اس ضمن میں کہا کہ “اگر میں  کچھ عرصہ اور زندہ رہا تو اس سلسلے میں مسلمانوں  میں برابری قائم کر  دوں گا”۔ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ “ببّان” کے معنی برابر کر دینے کے ہیں۔امام دار لقطنی ؒ “غرائب مالک” میں اسی سلسلے میں  معن بن عیسیٰ  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے فرمایا  “اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو میں سب سے ادنٰی آدمی کو اعلیٰ سے ملا دوں گا” یعنی سب کے وظیفے  برابر  قرار دوں گا۔ انھوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پالیسی ٹھیک نہیں، اس سے امیری غریبی کا فاصلہ  مسلمانوں میں بڑھتا جا رہا ہے، اس کو ختم کرنا چاہئیے”[24]۔یہ حوالہ دینا بھی ضروری ہے کہ خود حضرت عمر ؓ نے کہا کہ مجھ سے یہ غلطی ہو گئی ہے، اس کو ٹھیک کرنا چاہئیے، یہ صحیح نہیں ہے۔ مگر افسوس  یہ ہے کہ (آپ کے بعد) حضرت عثمان ؓ اس روش سے نہ ہٹے۔ انھوں نے اسی طرز پر وظیفے دیے اور وظیفوں کے ساتھ جاگیریں دینا بھی شروع کر دیا۔اسلام میں سرمایہ داری کی بنیاد پڑ گئی۔

حضرت ابوذر غفاری ؓ، پہلے آدمی جنھوں نے اعلا کلمہ الحق کے لیے جان دی۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سے سچا  کوئی نہیں۔ صبر نہ کر سکے، کہا کہ یہ محل کیوں تعمیر ہو رہے ہیں، گورنروں نے اوقات نماز کا پاس کرنا  کیوں چھوڑ دیا ہے؟ ظالم حاکموں نے حضرت عثمان ؓ سے کہہ کے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکلوا دیا، حضور کی مسجد سے دور کر دیا۔ اسی سال کے بوڑھے انسان کو بیٹی سمیت ربذہ نامی جنگل میں بھیج دیا۔اور جس حال میں موت آئی اور ان کا جنازہ حضرت عبدللہ ابن مسعود وغیرہ نے پڑھا، ساری دنیا کے سامنے ہے۔بہت مظلومی کی موت مرے۔ رسول نے فرمایا تھا کہ اے ابوذر ؓ، تم اکیلے جیو گے، اکیلے مرو گے اور اکیلے قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ وہیں ربذہ میں دفن ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دور خلافت

حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے وقت  پوری سلطنت میں انتشار تھا۔کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ آئندہ کیا ہو گا؟ ہر شہر میں گڑ بڑ تھی، کون سنبھالے گا؟ اس وقت پھر سب نے حضرت علی ؓکے آگے ہاتھ جوڑے۔انھوں نے کہا میں کیا کروں؟ ماحول خراب ہو چکا ہے، لوگ بری چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں، رشوت کھانے کے عادی ہو گئے ہیں،  وظیفے لینے کے عادی ہو گئے ہیں۔جسے بنانا ہے بنا لو، جس طرح پہلے وقت گذرا ہے، آگے بھی گزار لوں گا۔ سب سے اصرار کیا کہ آپ کے سوا اب کوئی نہیں ہے۔ امام ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النھایہ میں فرماتے ہیں  کہ امت کے اس فرد کے ہاتھ پر بیعت کی گئی جس سے افضل روئے زمین پر کوئی نہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ گھر پر  بیعت نہیں ہو گی، مسجد میں سب مہاجرین و انصار کو اکٹھا کرو، وہاں سب اپنی مرضی  اور آزادی سے بیعت کریں۔ آپؓ کی خلافت سب سے اعلیٰ طریقے سے منعقد ہوئی – آپ نے پہلے پہل انصار کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کا انتظام کیا۔  اس سے پہلے صرف مہاجرین یا قریش کو گورنر بنایا گیا تھا، آپ نے مدینے کے جلیل القدر انصار کو  بھی گورنر بنایا۔ مگر حشر یہ ہوا کہ سعد بن حریث ؓ شام پہنچے تو معاویہ کی فوجوں نے سرحد پر سے ہی واپس کر دیا۔ ہر اصولی اور محدث نے لکھا ہے کہ :”اول من بغیٰ  فی الاسلام معاویہ “، اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے بغاوت کی وہ معاویہ تھے۔ آپ ؓنے قرآن کے مطابق کہ باغی کے خلاف جنگ کی جائے، لشکر تیار کر کے شام کا قصد کیا۔ ابھی مدینے سے باہر ڈیرہ ڈالا تھا کہ اپنی چچی، حضرت عباس ابن عبد المطلب کی زوجہ کا پیغام آیا کہ  حضرت عائشہ ؓ عمرے پر آئی تھیں اور انھیں حضرات طلحہؓ و زبیر ؓ اپنے ساتھ لے کر بصرہ روانہ ہو گئے ہیں – لشکر کا خرچہ حضرت عثمانؓ کے زمانے کے بصرہ اور یمن کے گورنروں نے ادا کیا  ، جنھوں نے بیت المال لوٹا تھا۔ چال یہ تھی کہ حضرت علی ؓکی  سیدھی ٹکر اگر امیر معاویہ سے ہوئی تو  کچومر نکل جائے گا۔ لہذا یوں کیا گیا کہ اس سے پہلے ہی ایک جنگ (جمل)کا بندوبست کیا گیا جس کے نتیجے میں یا علی ؓنہ  رہیں گے  یا طلحہؓ و زبیرؓ اور دونوں  صورتوں میں  بنی امیہ کے لیے خطرہ کم ہو جائے گا۔ اور یہ سازش کامیاب ہوئی، عراق میں کوفہ اور بصرہ  (جو خطرات سے نبٹنے کے لیے فوجی چھاونیاں بنائی گئی تھیں) کے لوگ آپس میں لڑ مرے۔ حضرت علیؓ کو جب پتا چلا تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اسلام میں ایک رخنہ پڑا تھا، جو بند ہو سکتا ہے یہاں پر اپنی طرف سے من گھڑت کہانی لکھی گئی ہے (احباب اجتناب کریں کوئی ثبوت نہیں ہے)

حضرت عثمان ؓکے خلاف کوئی ایک بندہ نہیں، پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔حضرت عائشہ ؓ اور طلحہ ؓو زبیر ؓجب قصاص عثمان ؓ کے نام پر بصرہ لے جائے گئے اور ہزاروں لوگ مارے گئے تو آخر میں ہرقوس بن  زہیر ہاتھ آیا۔ اس کو پکڑنے لگے تو چھ ہزار لوگ تلواریں لے کر کھڑے ہو گئے، انھیں دیکھ کر یہ لوگ چپ ہو گئے۔ حضرت علی ؓ نے کہا جس طرح کا قصاص مجھے لینے کا کہتے ہو خود کیوں نہیں لیتے؟یہ جو عثمان ؓ کے خون کا بدلہ طالب کرنے والے تھے ان کو دین کا زیادہ علم تھا یا حضرت علیؓ کو؟ حضرت علی ؓ قرآن کی ایک ایک آیت کو جانتے تھے کہ کیا حکم کرتی ہے۔ آپ دہائی دیتے رہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت چھوڑ کر عدالت میں آؤ، قرآن فیصلہ کرے گا کہ یہ گورنر مجرم ہیں یا مظاہرین قاتل ہیں؟ جس جس کا اس قتل میں جو حصہ ہو گا میں نکال کر سامنے لاؤں گا۔ (بغاوت کرنے والے) عدالت کے سامنے نہیں آ ئے کیونکہ پتا تھا کہ شکنجے میں آ جائیں گے۔

حسین ابن علی اپنے والد کے ہمراہ ان کے دور حکومت میں جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں شریک ہوئے۔ سن 50 ہجری میں، جب اس کا بھائی حسن مجتبیٰ مارا گیا، معاویہ قریب 10 سال خلیفہ رہا۔ حسن کے ساتھ صلح معاہدے کے دوسرے پیراگراف کے مطابق معاویہ جانشین کا انتخاب نہیں کرے گا۔ [25]

معاویہ ابن ابی سفیان کی حکومت کے دوران میں

معاویہ کے زمانے کے دوران میں حسین نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ [26] خلافت حسن کے دوران میں اور پھر معاویہ کے ساتھ اپنے امن کے دوران میں، حسین اپنے بھائی حسن کے ساتھ ہم عقیدہ و ہم موضع تھے۔ اگرچہ وہ معاویہ کے حوالے حکومت سرنڈر کرنے کے مخالف تھا اور امن کے بعد بھی، اس نے معاویہ سے بیعت نہیں کی تھی، لیکن اس امن معاہدے پر قائم تھا۔ محمد باقر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حسن اور حسین نماز میں مروان بن حکم کی پیروی کرتے تھے، جسے معاویہ نے مدینہ پر حکمرانی کے لیے مقرر کیا تھا۔ عالم اسلام کے انسائیکلوپیڈیا میں سید محمد عمادی حائری نے شیعہ ذرائع جیسے حر عاملی کا حوالہ دیتے ہوئے ، جو بدکار شخص کی پیروی کرنے سے منع کرتے ہیں اور حسین مروان کے ساتھ سخت سلوک کرتے ہیں، کا خیال ہے کہ یہ روایت غلط ہے۔ [27] حاج منوہری کا کہنا ہے کہ اگرچہ حسین معاویہ کے ساتھ حسن کے امن معاہدے پر کاربند تھے، لیکن انھوں نے معاویہ کو خطوط بھی لکھے تھے جس میں معاویہ کی خلافت اور اس سے بیعت ہونے کی بھی نشان دہی کی گئی، نیز یزید کے جانشین کی حیثیت سے انتخاب کی مذمت کی اور مروان اور امویوں کے اقدامات پر تنقید کی۔ [28] اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ، جیسے حجر بن عدی، حسن کو مارے جانے سے بہت پہلے اس سے ملنے آئے اور معاویہ کے خلاف بغاوت کرنے کو کہا۔ لیکن بلاذری کے مطابق ، اس کا جواب ہمیشہ تھا، "جب تک معاویہ موجود ہے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیشہ انتقام کے بارے میں سوچنا ضروری ہے… لیکن اس کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔ » [29][30]

انسائیکلوپیڈیا اسلام میں ولیری کے مطابق، 41 ہجری میں حسن اور معاویہ کے امن کے بعد۔ حسین نے ایک صلح نامہ قبول کیا اور متعدد بار دمشق چلا گیا، جہاں اسے مزید تحائف ملے۔ [31] اسلامی دنیا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، اس موضوع پر یعقوبی، مسعودی، طبری، بلیزیری، ابن اعثم، ابن شہرآشوب، شیخ مفید، ابن بابویہ اور محمد ابن بحر شیبانی کی مختلف اطلاعات میں سے، صرف طبری نے دو پیراگراف میں امن معاہدے کے مالی مطالبات کا حوالہ دیا۔ وہ کہتا ہے۔[32] ابن سعد لکھتے ہیں کہ معاویہ نے حسین کو 300،000 درہم دیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ دوستی جاری نہیں رہی۔ کیونکہ معاویہ نے علی کو بدنام کیا اور علویوں پر تشدد کیا۔ مدینہ منورہ میں مروان بن حکم نے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے مابین مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب حسن نے عثمان بن عفان کی بیٹی عائشہ کی خواستگاری کی، لیکن مروان نے مداخلت کی اور اس اتحاد کو قائم نہیں ہونے دیا۔ عائشہ نے عبد اللہ ابن زبیر سے شادی کی۔ بنی ہاشم کے لیے ان نظراندازیوں نے حسن سے زیادہ حسین کو ناراض کیا۔ یقینا، مروان کی اس حرکت کے خلاف حسین نے جوابی کارروائی کی اور جب یزید نے عبداللہ ابن جعفر کی بیٹی اُمِّ‌کُلثوم سے شادی کرنی چاہی تو اس اتحاد کو روک لیا اور اُمِّ‌کُلثوم سے شادی قاسم ابن محمد ابن ابو بکر سے کردی۔ نیز، حسن کے برعکس، جب مروان نے مدینہ کی پہلی امارت میں علی پر لعنت کی تھی، حسین نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور مروان اور اس کے والد حکم پر لعنت بھیجی، جسے اس سے قبل اسلام کے پیغمبر محمد نے مسترد کر دیا تھا اور لعنت کی تھی۔ [33]

میڈلنگ کے مطابق، جب حسن زہر کے نتیجے میں موت کی راہ پر گامزن تھا، اس نے اس زہر میں معاویہ پر اظہار شک نہیں کیا تاکہ حسین جوابی کارروائی نہ کرے۔ حسن نے وصیت کی کہ اسے اپنے نانا محمد کے پاس دفن کیا جائے اور اگر اس معاملے پر کوئی تنازع یا خون خرابا ہوا تو اسے اپنی والدہ فاطمہ کے پاس دفن کیا جائے۔ لیکن مروان بن حکم، اس بہانے سے کہ لوگوں نے پہلے عثمان کو بعقیہ میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، حسن کو محمد کے پاس دفن ہونے سے روک دیا۔ حسین نے حِلْفُ‌الْفُضول نامی قریش یونین سے بھی شکایت کی اور بنی امیہ کے خلاف بنی ہاشم کے حقوق کے حصول کا مطالبہ کیا۔ لیکن محمد حنفیہ اور دوسرے لوگوں نے آخر کار حسن کو اپنی ماں کے ساتھ دفن کرنے پر حسین راضی کرلیا۔ اسی دوران میں، کوفہ کے شیعوں نے حسین سے بیعت کرنا شروع کی اور سلیمان بن صُرَد خُزاعی کے گھر پر جُعدَة بن هُبَیْرَة مخزومی کے بیٹوں، جو اُمِّ‌هانی علی بن ابی طالب کی بہن، کے پوتے تھے، سے ملاقات کی۔ انھوں نے حسین کو ایک خط لکھا، جس میں حسن کی موت سے تعزیت کی اور معاویہ سے نفرت کی، انھوں نے حسین سے بیعت کا اعلان کیا اور حسین سے اپنی دلچسپی اور ان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں، حسین نے لکھا کہ وہ حسن کی امن کی شرائط پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور ان سے اپنے جذبات کا اظہار نہ کرنے کو کہتے ہیں اور اگر معاویہ کی موت کے بعد حسین زندہ بچ جاتے ہیں تو وہ شیعوں کو اپنے خیالات بتائیں گے۔ [34]

تیسرے خلیفہ کے بیٹے عمرو ابن عثمان نے مروان کو مدینہ میں حسین کے ساتھ متعدد شیعوں کی ملاقاتوں کے بارے میں متنبہ کیا اور مروان نے معاویہ کو یہ لکھا۔ [35][36] معاویہ کو مدینہ کے حکمران مروان نے شیعوں کے ساتھ حسین کے ساتھ آنے اور جانے کی اطلاع دی، لیکن اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ [37][38] معاویہ نے اس وقت مدینہ کے حکمران مروان سے کہا کہ وہ حسین کے ساتھ معاملہ نہ کریں اور اشتعال انگیز حرکتیں نہ کریں۔ [39][40] دوسری طرف، حسین کو لکھے گئے ایک خط میں، اس نے ان سے فراخ دلی سے وعدے کیے اور مروان کو مشتعل نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کہانی کا اختتام حسین کے تحریری رد عمل کے ساتھ ہوا، جس سے معاویہ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ [41] عمادی حائری لکھتے ہیں کہ امویوں کے ساتھ حسن کی بانسبت حسین کا سخت اور زیادہ آزادانہ رویہ تھا۔ حسین نے ایک بار فاطمہ زہرا کی توہین کرنے پر مروان کے ساتھ سخت سلوک کیا اور امویوں نے علی کی توہین کرنے پر بھی شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ لیکن عمادی حائری نے ایک ہی وقت میں، شیعوں میں امامت کے تصور اور تاریخی اعتبار سے بھی حوالہ دیا ہے، کا خیال ہے کہ عام طور پر دونوں بھائیوں کا ایک ہی مقام تھا اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے حسن کے کفن و دفن والے معاملے کا حوالہ دیتے ہیں۔ [42] ایک دھمکی آمیز خط میں، معاویہ نے حسین کو بغاوت سے باز رہنے کا کہا اور حسین نے سخت جواب میں لکھا: "مجھے اس امت کے خلاف آپ کی حکومت سے بڑھ کر کسی بغاوت کا پتہ نہیں ہے۔" [43] مروان نے ایک بار حسین کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا تھا جس سے امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کا انتباہ دیا گیا تھا، جس پر اسے سخت رد عمل ملا تھا اور ابو سفیان کے ساتھ زیاد کی والدہ کی ہمبستری کی وجہ سے زیاد ابن ابیہ کو بھائی کہنے پر حسین نے معاویہ کی مذمت کی اور معاویہ کو حجر بن عدی کی پھانسی پر اعتراض کیا اور دھمکیوں کو نظر انداز کیا۔ معاویہ نے اپنے آس پاس کے لوگوں اور اس کے دوستوں سے حسین سے شکایت کی، لیکن وہ مزید دھمکیوں سے باز رہا اور حسین کو تحائف بھیجتا رہا۔ [44]

معاویہ کی حکومت کے دوران میں، اس کی دو اہم کارروائیاں تاریخی ذرائع میں ریکارڈ کی گئیں: اول، جب وہ متعدد زمینوں پر اپنی ملکیت کے سلسلے میں متعدد بنو امیہ بزرگوں کے سامنے کھڑا ہوا اور دوسرا، جب معاویہ نے اس سے یزید کو ولی عہد معاویہ کے طور پر قبول کرنے کے لیے کہا۔ ولی عہد کی تقرری اسلام میں ایک بدعت ہے۔ [45] حسین، نے مشہور صحابہ کرام کے بیٹوں کے ساتھ، اس فعل کو مسترد کر دیا کیونکہ یہ حسن کے امن معاہدے کے خلاف اور خلیفہ مقرر کرنے میں شورائے عمر کے اصول کے منافی تھا۔ [46] حسن کی موت کے بعد، بنی ہاشم میں حسین کی سب سے زیادہ عزت تھی اور اس حقیقت کے باوجود کہ عبد اللہ ابن عباس جیسے لوگ عمر کے لحاظ سے ان سے بڑے تھے، انھوں نے ان سے مشورہ کیا اور اس کی رائے کو استعمال کیا۔ [47]

جب معاویہ یزید کے لیے بیعت جمع کررہا تھا تو، حسین ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے بیعت کو مسترد کر دیا اور معاویہ کی مذمت کی۔ سید محمد عمادی حائری کا ماننا ہے کہ انھوں نے معاویہ کے تحائف کو قبول نہیں کیا۔ [48] معاویہ نے یزید کو مشورہ دیا کہ وہ حسین کے ساتھ نرم سلوک کرے اور اسے بیعت کرنے پر مجبور نہ کرے۔ [49][50]

معاویہ بن ابو سفیان کا زمانہ

صلح حسن ؑغیر مشروط نہ تھی۔ امام حسن ؑ نے جنگ بندی کے معاہدے میں منوایا  تھا کہ  کتاب و سنت اور خلفائے راشدین کے طریقے  پر حکومت کرنا، تیرے بعد میں خلیفہ ہوں گا اور پچھلی رنجشوں کی وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہیں دیا جائے گا۔اور آپ پڑھ لیں، ابن اثیر وغیرہ لکھتے ہیں کہ ایک شرط کو بھی امیر معاویہ نے پورا نہیں کیا۔ معاویہ مدینہ آئے تو حضرت عثمان ؓکی بیٹی عائشہؓ نے سوال کیا کہ چچا جس نعرے(قصاص عثمانؓ) پر آپ نے یہ حکومت حاصل کی ہے، اب اس کا کچھ نہیں کیا۔ معاویہ نے کہا، آرام سے بیٹھ جاؤ۔کوئی قصاص  نہیں  لیا گیا۔امام حسنؑ صلح نہ کرتے تو یہ پردہ نہ اٹھتا۔

امیر المومنین علی ؓ پر مسجد کے ممبروں سے لعنت کرواتے رہے۔ جمعے کے دوسرے خطبے میں رکھ دیا کہ جہاں خطیب اور باتیں کرے، یہ بھی کہے کہ علیؓ اور ان سے محبت رکھنے والوں پر  خدا کی لعنت ہو۔ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ ؓ کے پاس ایک آدمی گیا تو انھوں نے کہا کہ تمھارے سامنے ممبر رسول ؐ پر حضور ؐ کو گالیاں دی جاتی ہیں(نعوذباللہ)۔ اس نے کہا اماں کون گالیاں دیتا ہے؟ انھوں نے کہا، کہتے نہیں کہ علی ؓاور ان سے محبت رکھنے والوں پر لعنت ہو، میں حضور کے گھر میں رہی ہوں، سب سے بڑھ کر علی ؓسے محبت تو حضور ؐ رکھتے تھے[51]۔ حضور ؐ نے فرمایا، جس نے علی ؓ کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔

رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو میری سنت کو بدلے گا وہ بنی امیہ کا ایک آدمی ہو گا۔ علامہ البانی صاحب سلسلہ الحادیث الصحیحیہ کی چوتھی جلد میں لکھتے ہیں کہ وہ شخص معاویہ تھا۔

تخت بچھ گئے، سونے چاندی کے برتن (استعمال کیے جانے لگے)۔ حضرت مقدام ا بن معدیکرب   ؓنے کہا کہ میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا  حضور ؐنے مردوں کے لیے ریشم حرام نہیں کیا، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا حرام نہیں کیا، درندوں کی کھالوں پر متکبر بن کر بیٹھنا حرام نہیں کیا؟[52]۔

معاویہ نے بے گناہ صحابہ ؓ کو مارا، ان کی جائیدادیں ضبط کیں، زکوۃ بدلی، حج بدلا،  نماز کے اوقات تبدیل کیے۔  امام حسین ؑ کہتے تھے کہ میرے بھائی نے جو صلح کی میں اس کے مطابق دیکھ رہا ہوں کہ تم آخری شرط پر قائم رہتے ہو یا نہیں کہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کرو؟ یہ خط لکھا کہ جو دن میرا تیری زندگی میں گذر رہا ہے ایک ایک بات ایسی ہے کہ تمھارے خلاف جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ جب آخری بات بھی انھوں نے نہ مانی، معاہدے کے خلاف یزید کو ولی عہد بنا دیا۔ اور ولی عہدی کے لیے بھی بڑے ظلم سے کام لیا۔ جب مروان نے مدینے میں اعلان کیا کہ امیر المومنین نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بعد یزید کو حکمران بنا دیں جیسے کہ حضرت ابوبکر ؓنے حضرت عمر ؓکو مقرر کیا تھا۔اس وقت حضرت عبد الرحمن ابن ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کافر بادشاہ کا طریقہ زندہ کر رہے ہو کہ باپ مرے تو بیٹا تخت پر آ جائے۔ اسی وقت مروان نے حکم دیا کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے، ابوبکر ؓکے بیٹے کو، انھوں نے بھاگ کر حضرت عائشہ ؓکے حجرے میں پناہ لی[53]۔بعد میں وہ مکہ چلے گئے جہاں ایک غار سے ان کی لاش ملی۔ حضرت عائشہؓ کو بہت عرصے تک شک رہا کہ ان کو معاویہ نے (خفیہ طور پر) قتل کروایا۔

یزید کی نامزدگی اور شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت امام حسن بن علی سے معاویہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر معاویہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنھوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے معاویہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ امام حسین عليہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

خطبہ منا

سلیم بن قیس کہتے ہیں: معاویہ کی وفات سے ایک سال پہلے حسین بن علیؑ نے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر کے ساتھ حج کا فریضہ انجام دیا۔ امام حسینؑ نے بنی‌ہاشم اور انصار کے ان چیدہ افراد کو جو آپ اور آپ کے خاندان کی صحیح شناخت رکھتے تھے جمع کیا اس کے بعد کچھ افراد کو بھیجا اور کہا: پیغمبر اکرم(ص) کے صحابہ میں سے جو بھی اس سال حج‌ کا فریضہ انجام دینے کے لیے آیا ہے انھیں میرے پاس بلایا جائے۔

اس دعوت پر تقریباً 700 سے زیادہ افراد جن میں سے اکثر تابعین میں سے تھے اور اصحاب پیغمبر اکرم(ص) میں سے تقریباً 200 افراد کو منا میں ایک خیمہ میں جمع کیا۔ امام ان کے سامنے خطبہ ارشاد فرمانے کی خاطر بلند ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:

خطبہ کا پہلا حصہ[54]

اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللٰہِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَہی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ
فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ فَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ قٰالَ : اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ قَدْ سَمِعْنٰا …

ترجمہ

امام حسین نے فرمایاتمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو ہے کہ جب رسول اللہ نے اپنے اصحاب کے درمیان میں اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرت نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمھارا بھائی ہوں۔ سامعین نے کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ فرمایا : تمھیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لیے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لیے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لیے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا : میں نے نہیں تمھارے دروازے بند کیے اور علی کا دروازہ کھلارکھا، بلکہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھارے دروازے بند کروں اور ان کادروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبی اکرم نے علی کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علی کا حجرہ مسجد میں رسول اللہ کے حجرے کے ساتھ ہی تھا لہذا علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے1ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لیے اللہ تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ سامعین نے کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انھیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے، میرے بھائی علی اور ان کی اولاد کے سوا کوئی اور شخص مسجد میں نہیں رہ سکتا۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انھیں مقام ولایت پر نصب کرنے کااعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمھارے علم میں ہے کہ رسول اللہ نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا : تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لیے ہارون اور فرمایا تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا: تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول اللہ نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ نے جنگ خیبرکے دن لشکر اسلام کا پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا کرار ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے غیر فرار اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انھیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انھیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ نے علی، جعفر اور زید کے درمیان میں فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ سامعین نے کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ حضرت علی ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول اللہ سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بناکر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمھیں علم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ سید الشہدا پر فضیلت دی، جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمھاری شادی کی ہے، جو سب سے پہلے اسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔سامعین نے کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا :کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمھارے درمیان میں دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انھوں نے رسول اللہ سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ رسول اللہ نے فرمایا : کیونکہ وہ علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

خطبے کا دوسرا اور تیسرا حصہ[55]

اعْتَبروْا اَیّھا النّٰاس بمٰا وَعَظَ اللّٰہ بہ اَوْلیٰائَہ منْ سوْء ثَنٰائہ عَلیٰ الاَحْبٰار اذْ یَقوْل : لَوْلاٰ یَنْھٰاہم الرّّبّٰانیّوْنَ وَ الاَحْبٰار عَنْ قَوْلہم الاثْمَ وَ قٰالَ : لعنَ الَّذیْنَ کَفَروْا منْ بَنی اسْرٰائیْلَ - الٰی قَوْلہ - لَبئْسَ مٰا کٰانوْا یَفْعَلوْنَ وَ انَّمٰا عٰابَ اللہ ذٰلکَ عَلَیْہم لاَنَّہمْ کٰانوْا یَرَونَ منَ الظَّلَمَة الَّذیْنَ بَیْنَ اَظْھَرہم الْمنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَہمْ عَنْ ذٰلکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانوْا یَنٰالوْنَ منْہمْ وَ رَھْبَةً ممّٰا یَحْذَروْنَ وَ اللہ یَقوْل : فَلاَ تَخْشَوا النّٰاسَ وَ اخْشَوْن وَ قٰالَ : الْمؤْمنوْنَ وَ الْمؤْمنٰات بَعْضھمْ اَوْلیآء بَعْضٍ یامروْنَ بالْمَعْروْف وَ یَنْھَوْنَ عَن الْمنْکَر فَبَدَءَ اللہ باْلأَمْر بالْمَعْروْف وَ النَّھْی عَن الْمنْکَر فَریضَةً منْہ لعلْمہ باَنَّھٰا اذٰا ادّیَتْ وَ اقیْمَتْ اسْتَقٰامَت الْفَرائض کلّھٰا ھَیَّنھٰا وَ صَعْبھٰا وَ ذٰلکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بالْمَعْروْف وَ النَّھْیَ عَن الْمنْکَر دعٰاءٌ الیٰ اْلاسْلاٰم مَعَ رَدّ الْمَظٰالم وَ مخٰالَفَة الظّٰالم وَ قسْمَة الْفَیء وَ الْغَنٰائم وَ اَخْذ الصَّدَقٰات منْ مَوٰاضعھٰا وَ وَضْعھٰا فی حَقّھٰا
ثمَّ اَنْتمْ أیَّتھا الْعصٰابَة عصٰابَةٌ بالْعلْم مَشْھوْرَةٌ وَ بالْخَیْر مَذْکوْرَةٌ وَ بالنَّصیْحَة مَعْروْفَةٌ وَ باللَّہ فی اَنْفس النّٰاس مَھٰابَةٌ یَھٰابکم الشَّریف وَ یکْرمکم الضَّعیف وَ یؤْثرکمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکمْ عَلَیْہ وَ لاٰ یَدَ لَکمْ عنْدَہ تشَفّعوْنَ فی الْحَوٰائج اذٰا امْتنعَتْ منْ طلاّٰبھٰا وَ تَمْشوْنَ فی الطَّریْق بھَیْبَة الْملوْک وَ کَرٰامَة اْلاَ کٰابر، اَلَیْسَ کلَّ ذٰلکَ انَّمٰا نلْتموہ بمٰا یرْجٰی عنْدَکمْ منَ الْقیٰام بحَقّ اللّٰہ وَ انْ کنْتمْ عَنْ اَکْثَر حَقّہ تقَصّروْنَ فَاسْتَخْفَفْتمْ بحَقّ اْلاَئمَّة فَاَمّٰا حَقَّ الضّعَفٰاء فَضَیَّعْتمْ وَ اَمّٰا حَقَّکمْ بزَعْمکمْ فَطَلَبْتمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتموْہ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتمْ بھٰا للَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشیْرَةً عٰادَیْتموْھٰا فی ذٰات اللّٰہ
اَنْتمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہ وَ مجٰاوَرَةَ رسلہ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابہ لَقَدْ خَشیْت عَلَیْکمْ اَیّھا الْمتَمَنّوْنَ عَلیَ اللّٰہ اَنْ تَحلَّ بکمْ نقْمَةٌ منْ نَقمٰاتہ لاَنَّکمْ بَلَغْتمْ منْ کَرٰامَة اللّٰہ مَنْزلَةً فضّلْتمْ بھٰا وَ مَنْ یعْرَف باللّٰہ لاٰ تکْرموْنَ وَ اَنْتمْ باللّٰہ فی عبٰادہ تکْرَموْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عھودَ اللّٰہ مَنْقوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعوْنَ وَ اَنْتمْ لبَعْض ذمَم آبٰائکمْ تَفْزَعوْنَ وَ ذمَة رَسوْل اللّٰہ مَخْفوْرَةٌ مَحْقوْرَةٌ وَ الْعمْی وَ الْبکْم وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائن مھْمَلَةٌ لاٰ ترْحَموْنَ وَ لاٰ فی مَنْزلَتکمْ تَعْمَلوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَملَ فیھٰا تعیْنوْنَ
وَ بالادّھٰان وَ الْمصٰانَعَة عنْدَ الظَّلَمَة تٰامَنوْنَ کلّ ذٰلکَ ممّٰا اَمَرَکم اللّٰہ بہ منَ النَّھْی وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتمْ عَنْہ غٰافلوْنَ وَ اَنْتمْ اَعْظَم النّٰاس مصیْبَةً لمٰا غلبْتمْ عَلَیْہ منْ مَنٰازل الْعلَمٰاء لَوْ کنْتمْ تَشْعروْنَ ذٰلکَ باَنَّ مَجٰاریَ اْلاموْر وَ اْلاَحْکٰام عَلیٰ اَیدي الْعلَمٰاء باللّٰہ اْلامَنٰاء عَلیٰ حَلاٰلہ وَ حَرٰامہ فَاَنْتم الْمَسْلوْبوْنَ تلْکَ الْمَنْزلَةَ وَ مٰا سلبْتمْ ذٰلکَ الاّٰ بتَفَرّقکمْ عَن الْحَقّ وَ اخْتلاٰفکمْ فی السّنَّة بَعْدَ الْبَیّنَة الْوٰاضحَة وَ لَوْ صَبَرْتمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتمْ الْمَؤوْنَةَ فی ذٰات اللّٰہ کٰانَتْ اموْر اللّٰہ عَلَیْکمْ تَرد وَ عَنْکمْ تَصْدر وَ الَیْکمْ تَرْجع وَ لَکنَّکمْ مَکَّنْتم الظَّلَمَةَ منْ مَنْزلَتکمْ وَ اسْتَسلَمتم اموْرَ اللّٰہ فی اَیْدیْہمْ یَعْمَلوْنَ بالشّبَھٰات وَ یَسیْروْنَ فی الشَّھَوٰات سَلَّطَہمْ عَلیٰ ذٰلکَ فرٰارکمْ منَ الْمَوْت وَ اعْجٰابکمْ بالْحَیٰات الَّتی ہیَ مفٰارقَتکمْ فاَسْلَمْتمْ الضعَفٰاءَ فی اَیْدیھمْ فَمنْ بَیْن مسْتَعْبَدٍ مَقْھوْرٍ وَ بَیْن مسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعیْشَتہ مَغْلوْبٍ یَتَقَلَّبوْنَ فی الْملْک بآرٰائھمْ وَ یَسْتَشْعروْنَ الْخزْیَ باَھْوٰائھمْ اقْتدٰاءً باْلاَشْرٰار وَ جرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰار فی کلّ بَلَدٍ منْہمْ عَلیٰ منْبَرہ خَطیْبٌ مصْقَعٌ فَاْلاَرْض لَہمْ شٰاغرَةٌ وَ اَیدیھمْ فیھٰا مَبْسوْطَةٌ وَ النّٰاس لَہمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعوْنَ یَدَ لاٰمسٍ فَمنْ بَیْن جَبّٰارٍ عَنیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَة شَدیدٍ مطٰاعٍ لاٰ یَعْرف الْمبْدء المعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَب وَاْلأرض منْ غٰاشٍّ غَشومٍ وَمتَصدّقٍ ظلومٍ وعاملٍ عَلی المؤمنینَ بھمْ غَیْر رَحیمٍ، فَاللہ الْحٰاکم فیما فیہ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بحکْمہ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔
اَللَّہمَّ انَّکَ تَعْلَم اَنَّہ لَمْ یَکنْ مٰا کٰانَ منّٰا تَنٰافساً فی سلْطٰانٍ وَ لاٰالْتمٰاساً منْ فضول الْحطٰام و لَکنْ لنریَ الْمَعٰالمَ منْ دیْنکَ وَ نظْھرَ اْلاصْلاٰحَ فی بلاٰدکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلوْموْنَ منْ عبٰادکَ وَ یعْمَلَ بفَرٰائضکَ وَ سنَنکَ وَ اَحْکٰامکَ فَانَّکمْ انْ لاتَنْصروْنٰا وَ تَنْصفوْنٰا قَويَ الْظَّلَمَة عَلَیْکمْ وَ عَملوْا فی اطْفٰاء نوْر نَبیّکم وَ حَسْبنٰا اللَّہ وَ عَلَیْہ تَوَکَّلْنٰا وَ الَیْہ اَنَبْنٰا وَ الَیْہ الْمَصیْر

ترجمہ

اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انھیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انھیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔

درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس لیے انھیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں، انھیں ظالموں کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انھیں، ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے پہنچ سکنے والی سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار

جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خود بخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے، عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو اور صدقات یعنی زکوۃ اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔

اے وہ گروہ جو علم و فضل کے لیے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور اللہ والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے، یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں آپ کا گذر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ سب عزت و احترام صرف اس لیے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجرا کریں گے، اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، معاشرے کے کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کر دیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لیے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ اللہ کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔

اس کے باوجود آپ جنت میں رسول اللہ کی ہم نشینی اور اللہ کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں اللہ کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو، کیونکہ اللہ کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لیے مشہور ہیں جبکہ آپ کو اللہ کے بندوں میں اللہ کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ اللہ سے کیے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اس کے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آبا و اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں، جبکہ رسول اللہ کے عہد و پیمان1 نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی۔ اندھے، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو بھیمنع کرنے کے لیے کہا ہے۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے، اس لیے کہ اگر آپ سمجھیں تو علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے، کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہیے، جو اللہ کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لیے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔

اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتے تو احکام الہٰی اجرا کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور معاملات میں آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور اللہ کے حکم سے چلنے والے امور وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔

وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لیے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے۔ زمین میں ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا، ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو۔

تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدے دار ظالم ہیں اور صوبوں میں اس کے مقرر کردہ گورنر مومنوں کے لیے سنگ دل اور بے رحم۔ آخر کار اللہ ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان میں نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان میں پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔

امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا:

بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لیے ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض، قوانین اور احکام تو نے معین کیے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات حاضرین سے خطاب نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور نور نبوت کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لیے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔

یزید کا ذاتی کردار

یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین رضی اللہ عنہ عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔بندروں سے کھیلنااس کاپسندیدہ شغل تھا۔

بیعت پر اصرار

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔

اہل کوفہ کی دعوت

جب امام حسین عليہ السلام مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین عليہ السلام کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین عليہ السلام کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا۔

واقعات

بیعت کا مطالبہ

Thumb
جنگ سے پہلے مخالف کیمپوں کی تصویر کشی کرنے والی ایک عثمانی تصنیف

اپنی جانشینی پر، یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ ابن ابو سفیان پر اختیار دیا کہ اگر ضرورت ہو تو وہ حسین، ابن الزبیر اور عبد اللہ ابن عمر سے بیعت کرے۔ ولید نے اپنے اموی رشتہ دار مروان بن الحکم سے مشورہ کیا، جس نے مشورہ دیا کہ ابن الزبیر اور حسین کو خطرناک ہونے کی وجہ سے وہ بیعت کرنے پر مجبور ہوجائیں، جبکہ ابن عمر کو کوئی خطرہ نہ ہونے کی وجہ سے تنہا چھوڑنا چاہیے۔ [20] [56] ولید نے ان دونوں کو طلب کیا، لیکن ابن الزبیر مکہ فرار ہو گئے۔ حسین نے سمن کو جواب دیا لیکن اجلاس کے خفیہ ماحول میں بیعت کرنے سے انکار کیا، تجویز پیش کی کہ اس کو عوام میں انجام دیا جائے۔ مروان نے ولید کو حسین کو قید کرنے یا اس کا سر قلم کرنے کو کہا، لیکن محمد کے ساتھ حسین کی رشتہ داری کی وجہ سے ولید اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کچھ دن بعد، حسین یزید کو تسلیم کیے بغیر مکہ روانہ ہو گئے۔ [56] وہ 680 مئی، [57] آغاز میں مکہ پہنچے اور ستمبر کے آغاز تک وہیں مقیم رہے۔ [57]

کوفہ میں حسین کو کافی حمایت حاصل تھی، جو اپنے والد اور بھائی کے دور میں خلیفہ کا دار الحکومت رہا تھا۔ کوفہ والوں نے پانچ سالہ خانہ جنگی، جس نے اموی خلافت کو قائم کیا تھا، پہلے فتنہ کے دوران میں، امویوں اور ان کے شامی اتحادیوں کا مقابلہ کیا۔ [58] وہ حسن کے خاتمے پر مطمئن نہیں تھے [57] اور اموی حکمرانی پر سخت ناراض تھے۔ [58] مکہ مکرمہ میں، حسین کو کوفہ میں حامیوں کی طرف سے خطوط موصول ہوئے جس میں انھیں یہ اطلاع دی گئی کہ وہ اموی حکومت سے تنگ آچکے ہیں، جس کو وہ جابرانہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کا کوئی صحیح رہنما نہیں ہے۔

انھوں نے اس سے یزید کے خلاف بغاوت میں ان کی رہنمائی کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ اموی گورنر کو ہٹائیں گے، اگر حسین ان کی مدد کرنے پر راضی ہوجائیں گے۔ حسین نے اثبات کے ساتھ لکھا کہ ایک صحیح رہنما وہ ہوتا ہے جو قرآن کے مطابق کام کرتا ہے اور صحیح رہنمائی کے ساتھ ان کی رہنمائی کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ پھر اس نے اپنے کزن مسلم ابن عقیل کو کوفہ کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ ابن عقیل نے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کی اور حسین کو صورت حال سے آگاہ کیا اور تجویز کیا کہ وہ بھی ان میں شامل ہوجائے۔ یزید نے بے عملی کی وجہ سے کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر الانصاری کی جگہ اس وقت بصرہ کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد کو مقرر کیا۔ ابن زیاد کے دباؤ اور سیاسی چال چلن کے نتیجے میں، ابن عقیل کی پیروی ختم ہونا شروع ہو گئی اور وہ وقت سے پہلے ہی بغاوت کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسے شکست ہوئی اور ابن عقیل مارا گیا۔ [59] حسین نے ایک قاصد بھی عراق کے ایک اور گیریژن شہر بصرہ میں بھیجا تھا، لیکن قاصد کسی بھی چیز کو راغب نہیں کرسکتا تھا اور اسے جلدی سے پکڑ لیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ [9]

حسین کوفہ میں سیاسی حالات کی تبدیلی سے لاعلم تھے اور انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن الزبیر نے انھیں عراق نا جانے کا مشورہ دیا یا، اگر وہ پرعزم ہیں تو، عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جائیں۔ بہت سے مورخین نے ابن الزبیر کے مشورے کے خلوص پر شبہ کیا ہے، تاہم، ان کی قیادت کے اپنے منصوبے تھے اور وہ حسین سے چھٹکارا پانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ [9] [57] [59] اس کے باوجود، اس نے حسین کو حمایت کی پیش کش کی اگر وہ مکہ میں ہی رہے گا اور وہاں سے یزید کی مخالفت کی رہنمائی کرے گا۔ حسین نے اس سے انکار کر دیا، حرمت گاہ میں خونریزی سے نفرت کی [56] کا حوالہ دیتے ہوئے اور اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ [59]

مکہ روانگی

ولید بن عتبہ نے امام حسین عليہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا۔ ابھی تک معاویہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا۔امام حسین عليہ السلام سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہو گئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین عليہ السلام عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لٰہذا وہ27 رجب 60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

خطبہ منا

معاویہ کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے اور جب وہ اپنے بیٹے یزید کو گورنری اور پھر مسلمانوں کی خلافت میں لانے کی کوشش کر رہا تھا تو، حسن سے اس کے امن معاہدے کے برخلاف، حسین نے اس صورت حال سے خطرہ محسوس کیا اور عالم اسلام کے بزرگوں کو دعوت دی حج کے دوران میں منا کی سرزمین میں جمع ہوں اور اس کا پیغام سنیں۔ اس دعوت کے بعد، منا میں قریب سات سو پیروکار اور پیغمبر اسلام کے دو سو ساتھی جمع ہوئے۔ اپنی تقریر کے آغاز میں - جو بعد میں "خطبہ منا" کے نام سے مشہور ہوئے۔معاویہ نے اسے "بغاوت" قرار دیا ، جے میں حسین نے اس کے اور بنوامیہ کے ظالمانہ اقدامات کو بے نقاب کر دیا، خاص طور پر انھوں نے اہل بیت اور شیعوں کے خلاف کیا کیا اور سامعین سے کہا کہ وہ اس مواد کو ریکارڈ کریں اور قابل اعتماد لوگوں کو جب وہ اپنے شہروں میں واپس آئیں تو اس کی اطلاع دیں۔ یزید کے اقتدار میں آنے کے خطرات اور نقصانات سے بچیں۔ خطبہ کے تسلسل میں، انھوں نے علی ابن ابی طالب کی فضیلت اور نیکی کی طرف متوجہ کرنے اور معاشرے میں برائی سے روکنے کے منصب اور اس اصول کو بھانپنے میں اسلامی اسکالرز اور بزرگوں کی ذمہ داری اور عوامی رائے کو روشن کرنے میں ان کے کردار کا ذکر کیا۔اس اصول کی تکمیل اور اسلام کی رائے عامہ کو نمایاں کرنے میں ان کے کردار میں اسلام کے بزرگ صحابہ کرام اور پیروکاروں کو اس خطبے کی فراہمی حسین کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ منا کی سرزمین سے عالم اسلام کو اپنا پیغام پہنچائیں اور اشراف، خصوصی صحابہ کرام اور اہل اسلام کو اسلامی دنیا کے عمومی حالات سے آگاہ کریں۔ اموی نظام کے خطرات اور سازشوں کو بے نقاب کریں۔ [60]

واقعۂ عاشورا تاریخ کے آئینے میں
سنہ 60 ہجری قمری
15 رجب وفات معاویہ
28 رجب مدینہ سے امام حسین کا خروج
3 شعبان امامؑ کا مکہ پہنچنا
10رمضان کوفیوں کا امام حسینؑ کے نام پہلا خط
12 رمضان کوفیوں کے 150 خطوط کا قیس بن مُسْہر، .... کے ذریعے امام کو پہنچنا۔
14‌رمضان ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ذریعے بزرگان کوفہ کے خطوط کا پہنچنا
15رمضان مسلم کی مکہ سے کوفہ روانگی
5 شوال کوفہ میں مسلم بن عقیل کا ورود
8 ذی الحج مکہ سے خروج امام حسینؑ
8 ذی الحج کوفہ میں قیام مسلم بن عقیل
9 ذی الحج شہادت مسلم بن عقیل
سنہ 61 قمری
1 محرم قصر بنی مقاتل میں عبیداللہ بن حر جعفی اور و عمرو بن قیس کو امام کا دعوت دینا
2 محرم کربلا میں کاروان امام کا پہنچنا
3 محرم لشکر عمر سعد کا کربلا میں پہنچنا
6 محرم حبیب بن مظاہر کا بنی اسد سے مدد مانگنا
7 محرم پانی کی بندش
8 محرم مسلم بن عوسجہ کا کاروان امام حسین سے ملحق ہونا
9 محرم شمر بن ذی الجوشن کا کربلا پہنچنا
9 محرم امان‌ نامۂ شمر برائے فرزندان ام‌البنین.
9 محرم لشکر عمر سعد کا اعلان جنگ اور امام کی طرف سے ایک رات مہلت کی درخواست
10 محرم واقعہ عاشورا
11 محرم اسرا کا کوفہ کی طرف سفر
11 محرم بنی اسد کا شہدا کو دفن کرنا
12 محرم بعض شہدا کا دفن
12 محرم اسیران کربلا کا کوفہ پہنچنا
19 محرم اہل بیتؑ کی کوفہ سے شام روانگی
1 صفر اہل بیتؑ اور سر مطہر امام حسینؑ کا شام پہنچنا
20 صفر اربعین حسینی
20 صفر اہل بیت کی کربلا میں واپسی
20 صفر اہل بیت کی مدینہ میں واپسی(بنا بر قول)

منا میں امام حسینؑ کا خطبہ اس شعلہ بیان اور احتجاجی خطبے کو کہا جاتا ہے جسے امام حسینؑ نے معاویہ کی وفات سے دو سال قبل [61] یعنی سنہ 58 ہجری قمری کو بنی امیہ کی حکومت کے خلاف حج کے موسم میں منا میں دیا۔ جس میں امامؑ نے معاویہ کی حکومت کے خلاف انکشافات کیے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ خطبہ جسے امامؑ نے صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں دیا، امام حسینؑ کی قیام کربلا کا ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ اس خطبے کا پہلا حصہ سلیم بن قیس ہلالی نے اپنی کتاب میں جبکہ اس کا دوسرا اور تیسرا حصہ حسن بن شعبہ حرانی نے کتاب تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

خطبہ کا مضمون

امام حسینؑ کے اس خطبہ میں درج ذیل موضوعات پر بحث ہوئی ہے:

  • امام علیؑ اور خاندان عصمت و طہارت کی فضیلت اور ان آیات و روایات کو بیان کیا ہے جن میں اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ منجملہ ان فضائل میں سد ابواب، واقعہ غدیر خم، مباہلہ، امام علی کے ہاتھوں خیبر کی فتح اور حدیث ثقلین؛[62]
  • امر بالمعروف اور عن المنکر کی طرف دعوت اور اسلام میں اس وظیفہ کی اہمیت؛
  • ستمگروں اور مفسدین کے خلاف قیام کرنے کو علما کی اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علما کے سکوت اور خاموشی کے نقصانات اور علما کا اس الہی وظیفہ کی انجام دہی میں سہل انگاری کے بھیانک نتائج؛[63]

امامؑ اس خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں: خدایا! جو کچھ ہم سے سرزد ہوتے ہیں اسے تو جانتا ہے، یہ چیز حکومت حاصل کرنے اور دنیا کی بے ارزش مال و دولت کے حصول کے لیے نہیں تھا، بلکہ یہ اس لیے تھا کہ تمھارے دین کی نشانیوں کو آشکار کر سکوں اور تیری زمین پر تیرے بندوں کی آرام و آسائش اور انھیں تیری احکام و وظائف پر عمل پیرا ہونے کے لیے زمینہ فراہم کر سکوں [64]

خطبہ کا تاریخی پس منظر

امام حسینؑ نے اس خطبہ کو سنہ 58 ہجری قمری، معاویہ کی وفات کے دو سال قبل منا میں ارشاد فرمایا ہے؛[65] اس زمانے میں معاویہ کی طرف سے شیعیوں پر ظلم و ستم اپنے عروج پر پہچا ہوا تھا اور اس وقت کی سیاسی اور سماجی حالات نہایت پیچیدہ اور مکدر تھی۔[66] چنانچہ سلیم بن قیس نے امام حسینؑ کے اس خطبے کو ارشاد فرمانے کی علل اسباب اور اس وقت کے حالات و واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس خطبے کو ذکر کرنے سے پہلے معاویہ کی طرف سے اپنے کارندوں کو صادر ہونے والے چار حکم ناموں اور ان کے نتائج کو ذکر کرتے ہیں۔[67]

سلیم بن قیس کے مطابق معاویہ نے اپنے پہلے حکم نامے میں امام علیؑ اور آپ کی خاندان کی فضیلت بیان کرنے والوں سے تبری کرتے ہوئے ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ حکم بھی صادر کرتے ہیں کہ شیعوں کی گواہی قبول نہ کی جائے اور جس نے بھی عثمان کی کوئی فضیلت بیان کی اس کے لیے باقاعدہ تنخواہ اور وظیفہ مقرر کیا۔[68] اسی طرح معاویہ نے اپنے دوسرے حکم نامے میں حکم دیا کہ صحابہ بطور خاص عمر اور ابوبکر کی فضیلت میں احادیث نقل کرنے کا حکم دیا اور امام علیؑ کے فضائل کی طرح دوسرے صحابہ کے لیے بھی فضائل بیان کرنے کا حکم دیا اور اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور امام علیؑ کی ذلت قرار دیا۔[69]

سلیم بن قیس کے مطابق اس نے اپنی تیسرے حکم نامے میں لکھا کہ لوگوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور جو شخص بھی علیؑ اور اس کے خاندان کی دوستی سے متہم ہو اس کا نام وظیفہ کی تقرری کے دفتر سے حذف کرنے اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کرنے کا حکم دیا۔[70] معاویہ کے چوتھے حکم نامے میں آیا تھا: جو شخص بھی علیؑ اور اس کے خاندان کی دوستی سے متہم ہو اس کو شدید تحت فشار لایا جائے اور اس کا گھربار خراب کیا جائے تاکہ یہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔[71]

اس خطبہ کی اہمیت

محمدصادق نجمی اس خطبہ کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں: اس خطبہ میں ایک ہم نکتہ یہ تھا کہ اس خطبے کو ارشاد فرمانے سے پہلے امامؑ نے ایک مناسب اور حساس موقع پر اسلام کے مختلف مذہبی شخصیات، بنی‌ہاشم، صحابہ، مہاجرین و انصار کے مرد اور خواتین میں سے تقریباً 200 چیدہ چیدہ افراد کو مدعو کیا اور ایک مجلس تشکیل دیا۔ ان افراد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھیں پیغمبر اکرم(ص) کو درک کرنے کا موقع ملا تھا اسے کے علاوہ صحابہ اور تابعین میں سے تقریباً 800 سے زیادہ افراد اس مجلس میں شامل تھے۔[72]

یہ خطبہ معاویہ کی حکومت کے خلاف انکشافات اور واقعہ کربلا کا مقدمہ قرار پایا۔[73] امامؑ نے اس زمانے کی سہولیات سے بہترین فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تدبیر کے ذریعے حضار مجلس میں ایک جوش اور ولولہ ایجاد کیا تاکہ حضار اس پیغام کو غائبین تک پہنچا سکیں اور ان کی بیداری کا زمینہ فراہم کر سکیں۔ [74]

یزید سے بیعت کرنے سے انکار

معاویہ رجب کے وسط میں 60 ھ میں وفات پاگیا اور اس نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ حسین ابن علی شروع ہی سے ان کی بیعت قبول نہیں کرتے تھے۔ معاویہ کی وفات کے فورا۔ بعد (15 رجب 22/60 اپریل 680)، یزید کے حکم سے، مدینہ کے حکمران ولید ابن عتبہ نے حسین اور عبد اللہ ابن زبیر اور عبد اللہ ابن عمر [75] کو غیر معمولی وقت پر سرکاری محل میں طلب کیا تاکہ انھیں یزید کے ساتھ بیعت کرنے پر مجبور کیا جائے۔ دونوں جانتے تھے کہ معاویہ مر گیا ہے اور یزید ان سے بیعت چاہتا ہے، لیکن وہ خوفزدہ تھے۔ عبد اللہ رات کو مکہ فرار ہو گیا۔ لیکن حسین اپنے پیروکاروں کے ساتھ دربار تک گئے اور معاویہ کی موت کی تعزیت کی [76] لیکن اس نے اس عذر کی وجہ سے یزید سے بیعت خفیہ نہیں عوام میں ہونی چاہیے [77][78]بیعت دو دن کے لیے ملتوی کردی [79] ولید، جو حسین سے تصادم نہیں کرنا چاہتا تھا، نے قبول کیا۔ اس اہم مسئلے کی وجہ سے اس کی برخاستگی ہوئی۔ [80] اس اہم مسئلے کی وجہ سے اس کی برخاستگی ہوئی۔ [81] لیکن مروان، جو جانتا تھا کہ اگر حسین اجلاس چھوڑ کر چلے گئے تو، وہ جنگ لڑے بغیر نہیں پہنچ سکتے ہیں، اس نے ولید سے کہا کہ وہ بیعت کرنے کے لیے حسین کو قید کرے، ورنہ وہ اسے فوری طور پر قتل کر دے۔ [82][یادداشت 1] آخر کار، حسین اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کے وقت مکہ چلے گئے، لیکن انھوں نے غیر مغروف راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ مرکزی سڑک کے ذریعہ مکہ گئے۔ [83] اس سفر کے دوران میں، خواتین اور بچے، حسین کے بھائی اور حسن کے بیٹے، اس کے ساتھ تھے۔ محمد حنفیہ اس کے ساتھ نہیں آئے اور بار بار حسین کو متنبہ کیا کہ وہ وہاں نہ جائیں جب تک کہ انھیں عراقی عوام کی وفاداری کا یقین نہ ہوجائے۔ انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا واقدی کی روایت کہ حسین اور عبد اللہ ابن زبیر کو ایک ساتھ مکہ گئے تھے کی تردید کرتا ہے۔ [84] مکہ میں حسین اور عبد اللہ کی موجودگی سے پیدا ہونے والی صورت حال معمول کی بات نہیں تھی۔ اہل مکہ حسین کی طرف مائل تھے اور عبد اللہ اس کی وجہ سے حسین سے حسد کرتا تھا۔ [85] حسین عباس بن عبد المطلب کے گھر مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور چار مہینے وہاں مقیم رہے۔ [86]

مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی

امام حسین عليہ السلام نے کوفیوں کے خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم کے کوفہ پہنچنے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین عليہ السلام کو کوفہ آنے کا خط لکھا۔

ابن زیاد کوفہ میں

ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انھیں امان دی جائے گی۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی۔ اس وقت مسلم بن عقیل ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انھیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

اہل کوفہ کی حسین کو دعوت دینا اور مسلم ابن عقیل کو بھیجنا

معاویہ کی موت کی خبر نے کوفیوں میں خوشی پیدا کردی، جو زیادہ تر شیعہ تھے۔ کوفہ کے شیعہ رہنما سلیمان ابن صرد خزاغی کے گھر جمع ہوئے اور حسین کو ایک خط میں معاویہ کی حکمرانی کے خاتمے پر خدا کا شکر ادا کیا، معاویہ کو ناجائز خلیفہ اور غضب کنندہ کہا، [87] اور انھوں نے اعتراف کیا کہ اب وہ بنو امیہ کی حکومت کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔اور ان کی املاک کو لوٹتے ہیں اور خدا کے مال کو دولت مندوں میں بانٹ دیتے ہیں اور انھوں نے بہترین مسلمانوں کے قاتل (حجر بن عودی اور اس کے حواریوں کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے) اور زندہ بچ جانے والے کو بدترین لوگوں کا نگہبان کہا۔ [88] کوفیوں نے بتایا کہ وہ معاویہ کے مقرر کردہ کوفہ کے گورنر، نعمان بن بشیر کی رہائش گاہ پر اس ہفتے جمعہ کی نماز نہیں پڑھیں گے اور اگر حسین آنا چاہیں تو وہ نعمان کو کوفہ سے نکال دیں گے۔ کوفہ کے باشندوں اور اس کے قبائل کے سرداروں نے سات قاصدوں کو خطوط کے بہت سے تھیلے دے کر حسین کے بھیجا، پہلے دو قاصد 10 رمضان، 1360/6 جون 680 کو مکہ پہنچے۔ [89] بہت سارے خطوط حسین کو پہنچائے، جن میں سے کچھ کوفی برادری کے مطابق تھے۔ شبت ابن ربعی اور عمرو بن حجاج کے خطوط کی طرح جو کربلا میں حسین کے ساتھ جنگ میں گئے تھے۔ [90] اس کے جواب میں، حسین نے لکھا کہ وہ ان کے اتحاد کے احساس کو سمجھتے ہیں اور کہا ہے کہ امت کے امام کو چاہیے کہ وہ خدا کی کتاب کے مطابق کام کریں، املاک کو ایمانداری سے تقسیم کریں اور خدا کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیں۔ تاہم، کچھ کرنے سے پہلے، اس نے اپنے کزن مسلم بن عقیل کو وہاں صورت حال کی چھان بین کے لیے بھیجا۔ [91][92] رسول جعفاریان، علی اورحسن کے زمانے میں کوفیوں کی بری تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ، تاہم، یزید کی اپنے قتل کی سازش کے بارے میں حسین کو علم حاصل تھا، اس وقت حسین کے لیے اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ کیونکہ، مثال کے طور پر، حکومت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے یمن جانے کا امکان کامیاب نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ عارضی طور پر اگرچہ حسین کی روانگی کے خلاف احتجاج کرنے والے تمام لوگوں نے انھیں یزید کی حکمرانی کو قبول کرنے کا مشورہ دیا اور یہ کہ حسین ابن علی یزید اور اس کے حکمرانی سے قطعا راضی نہیں ہونا چاہتے تھے، چاہے یہ مخالفت نے ان کے قتل کا سبب بنے [93]

حسین نے اپنے بصرہ کے شیعوں سے ایک شیعہ ہمراہ دو بیٹے سے ملاقات کی اور پانچ اہم قبائل کے رہنماؤں کو بصرہ کے مشاورتی امور میں یہی خط لکھے۔ انھوں نے خط میں لکھا:

خدا نے محمد کو اپنا بہترین بندہ بنایا اور اس کے اہل خانہ اور اہل بیت کو اپنا وصی اور وارث بنا دیا، لیکن قریش نے اس حق کو اپنا سمجھا - جو صرف اہل بیت سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن اہل بیت نے امت کے اتحاد کی خاطر اس پر اتفاق کیا۔ جن لوگوں نے خلافت کے حق پر قبضہ کیا، اس کے باوجود یہ ان کا حق تھا، اور ان پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا کی سلامی ہو۔ قرآن اور سنت محمد امت کو یاد دلاتے ہیں۔ خدا کا مذہب ختم ہوچکا ہے اور مذہب میں بدعتیں پھیل گئی ہیں۔ اگر تم میری بات مانو گے تو میں تمہیں سیدھے راستے پر لے جاؤں گا۔

ولفریڈ مڈلنگ کا خیال ہے کہ اس خط کے مندرجات علی کے خلافت کے حق کے پامال ہونے کے بارے میں اپنے خیالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہی ابوبکر اور عمر کے مقام کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ اگرچہ حسین کے خطوط بصرہ کے قائدین سے خفیہ رکھے گئے تھے، ان میں سے ایک نے شبہ کیا کہ یہ خط ابن زیاد کا ہے تاکہ وہ یزید کی خلافت کے ساتھ اپنی وفاداری کی پیمائش کرسکے اور وہ شخص یہ خط ابن زیاد کے پاس لایا۔ اس کے جواب میں، ابن زیاد نے ایک قاصد کا سر قلم کیا، جو حسین کے پاس سے بصرہ آیا تھا اور بصریوں کو مزید سخت اقدامات سے متنبہ کیا۔ [94]

حسین نے مسلم کو کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ کوفہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اس کے مشن کو خفیہ رکھا جائے۔ مسلم شوال 60 / جولائی 680 کے اوائل میں کوفہ پہنچے اور لوگوں کے سامنے حسین کا خط پڑھا۔ [95] کوفہ کے لوگوں نے جلدی سے مسلم سے بیعت کی اور یہاں تک کہ مسلم نے کوفہ کی مسجد کے منبر پر جاکر وہاں کے لوگوں کا انتظام کیا۔ [96] کہا جاتا ہے کہ 18،000 لوگوں نے حسین کی مدد کے لیے مسلم سے بیعت کی۔ [97] بنو امیہ کے حامیوں اور عمر بن سعد، محمد ابن اشعث اور عبد اللہ ابن مسلم جیسے لوگوں نے خطوط میں یزید کو نعمان کے واقعات اور نا اہلیت کی اطلاع دی۔ [98] انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں نجم حیدر کے مطابق، نعمان نے جان بوجھ کر مسلم کی سرگرمیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ [99] یزید، جسے اس وقت کوفہ کے حکمران نعمان ابن بشیر پر بھروسا نہیں تھا، اس نے اسے برخاست کر دیا اور اس کی جگہ بصرہ کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے لی۔ عبیداللہ کو فوری طور پر کوفہ جانے کا حکم دیا گیا اور فسادات کو دبا دیا [100][یادداشت 2] اور مسلم ابن عقیل کے ساتھ سختی سے معاملہ کیا۔ [101] وہ بھیس بدل کر کوفہ میں داخل ہوا اور حسین کے حامیوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے، جس سے وہ خوفزدہ ہو گئے۔ [102] بہرامان کا کہنا ہے کہ کوفیوں کے بارے میں جانکاری کے ساتھ، وہ دھمکیوں، رشوت ستانی اوربات چیت جیسی متعدد کارروائیوں کے ذریعے کوفہ کو حسین کے حامیوں سے قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔نیز، حسین اور کوفیوں کے مابین رابطہ کو توڑ کر اور بنو امیہ کے اصل مقصد، جو کسی بھی حالت میں حسین کو مارنا تھا، تک پہنچنے کے لیے کوفہ سے ایک فوج حسین سے لڑنے کے لیے بھیجی۔ [103] بغاوت میں کوفیوں کے اقدامات اور دارالامارہ کوفہ پر قبضہ کرنے کے بعد کہیں تک نہ پہنچے، [104] مسلم چھپ گیا لیکن آخر کار اس کو ڈھونڈ لیا گیا اور 9 ذی الحجہ، 11/60 ستمبر 680 [105] کو سر قلم کرنے کے بعد، دارالامارہ کوفہ کی چھت سے اور عوام میں نیچے پھینک دیا گیا۔ مراد قبیلے کے رہنما ہانی ابن عروہ کو بھی اس لیے مصلوب کیا گیا تھا کہ اس نے مسلم کو پناہ دے رکھی تھی۔ خطوط میں، یزید نے ابن زیاد کوفیوں کے ساتھ سخت سلوک کی تعریف کی اور اسے حسین اور اس کے پیروکاروں پر نگاہ رکھنے اور ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، لیکن صرف ان لوگوں کو قتل کرنے کے لیے جو لڑائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ [106] یہ وہی وقت تھا جب مسلم نے حسین کو ایک بہت ہی پُرامید خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی تبلیغ کامیاب ہے اور کوفہ کے لوگوں نے ہزاروں بیعتیں کی ہیں۔ [107]

مسلم کی گرفتاری اور شہادت

شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رؤساء کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ آخر کار مسلم کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہو گئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین عليہ السلام تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسا نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین عليہ السلام کی طرف روانہ کر دیا۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ آپؓ نے آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ

اے اللہ میرے نانا کے دین کی حفاظت فرما اور اسے زندہ و آباد رکھ۔

آپ کو اطلاع مل چکی تھی کہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل جن کو آپؓ نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا تا کہ وہاں حالات معلوم کر کے آپؓ کو خبر کریں انھیں انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ کوفے کے لوگ جو آپؓ کو بار بار خطوط بھیج رہے تھے وہ گورنر کوفہ ابن زیاد کے خوف یا لالچ سے حضرت مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ چکے تھے۔ اور وہ کوفے کی گلیوں سے بالکل نا واقف تھے۔ ابن زیاد کے ایک سپہ سالار نے ان کو امان کا وعدہ دے کر گرفتار کیا اور بعد میں انھیں کوفہ کے محل کی چھت سے دھکا دے کر شہید کر دیا گیا۔ اپنے چچا زاد کی شہادت کا صدمہ اور کوفے والوں کی بے وفائی کا افسوس آپ کو آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اور مقصد اتنا بڑا تھا کہ آپؓ پیچھے ہٹ نہیں سکتے تھے۔

حضرت امام حسینؓ کو کوفہ سے سینکڑوں خطوط موصول ہوئے ان کے جواب میں آپ نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ جو خط بھیجا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے فرمایا: میں اپنے خاندان کے سب سے با اعتماد چچا زاد بھائی کو آپ کی طرف بھیج رہا ہوں تا کہ وہ مجھے آپ لوگوں کے

حالات سے آگاہ کرے اگر اس نے مجھے یہ خبر دی کہ آپ لوگ وہی ہو جنہوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں تو میں آپکے یہاںآؤ ں گا۔ امام صرف وہ ہے جو کتابِ خدا پر عمل پیرا ہو۔ عدالت قائم کرے۔دین حق پر یقین رکھتا ہو اور اپنے آپکو خداکے لیے وقف کرے۔

مسلم بن عقیل اور ان کے بچوں کی شہادت

مسلم کے بچوں کی شہادت

حضرت مسلم نے کوفہ کی صورتِ حال دیکھی تو انھوں نے بھی شام کے وقت کسی محفوظ جگہ کی طرف نکلنا چاہا۔ اس دوران میں پورے شہر میں جاسوسی کا جال پھیلایا جاچکا تھا۔ اسی رات کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کو سرکاری جتھوں نے گرفتار کیا اور گورنر ہاﺅس لے آئے۔ حضرت مسلمؓ کے دو کمسن بچے بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ ابن زیاد نے حضرت مسلمؓ کو دیکھتے ہی حکم دیا کہ اسے فی الفور قتل کر دیا جائے۔ اس کا بے سر لاشہ محل کے سامنے پھینک دیا جائے۔ حضرت ہانی کو سولی پر چڑھانے کا حکم صادر ہوا۔ یوں ایک جانب یہ نقشہ یکسر بدل گیا مگر دوسری جانب حضرت حسین بن علیؓ تک درست اطلاعات نہ پہنچ سکیں۔ وہ اس وقت تک حجاز سے حدودِ عراق میں داخل ہو چکے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا لشکر نہیں تھا۔ ان کے قافلے میں کچھ خواتین تھیں اور ڈیڑھ سو کے قریب ان کے اعیان و انصار تھے۔

یہ بات بھی تاریخ میں منقول ہے کہ قادسیہ کے قریب حر بن یزید آپؓ سے ملا اور اس نے کوفے کے حالات آپؓ کو بتائے۔ مسلم بن عقیلؓ اور ان کے بچوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔ حر کی رائے یہ تھی کہ قافلے کو وہیں سے واپس پلٹ جانا چاہیے۔ حضرت حسینؓ کا بھی اسی جانب میلان تھا مگر حضرت مسلم بن عقیلؓ کے بھائیوں نے کہا کہ جب ہمارا بھائی قتل ہو گیا ہے تو ہم یہاں سے کیسے واپس جا سکتے ہیں۔ اصل بات تو یہی ہے کہ تقدیر ہر چیز پر غالب ہوتی ہے۔ حضرت حسینؓ نے اپنا رخ کوفہ سے کربلا کی طرف موڑ لیا۔

امام حسین کا سفر کوفہ

اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمرو بن عبدالرحمن، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ بن زبیر سب نے مشورہ دیا کہ

’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘

عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے۔ لیکن جب امام حسین رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ

’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘

لیکن امام حسین نے کہا کہ

’’ابے ابن عمر میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘

اس پر عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ عثمان کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین عليہ السلام اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحج 60 ھ کو مکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر نے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ :

میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو دنیا تاریک ہو جائے گی۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ سفر میں جلدی کیجیے۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں

حضرت عبداللہ بن جعفر، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین عليہ السلام سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں عمر بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعر فرزوق آپ سے ملا اور امام حسین عليہ السلام سے عرض کی

لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے

لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا۔

مکہ سے کوفہ کا راستہ

امام حسینؑ کا یہ کاروان مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے جن منزلوں سے گذرا ان کی ترتیب یہ ہے:

  1. بستان بنی عامر،
  2. تنعیم (یمن میں یزید کے کارگزار بحیر بن ریسان حمیری کی طرف سے صفایا سے شام کی طرف بھیجے گئے غنائم کو اپنی تحویل میں لے لینا)،
  3. صفاح (فرزدق مشہور شاعر سے ملاقات)،
  4. ذات عرق (بشر بن غالب اور عون بن عبداللہ بن جعفر وغیرہ سے ملاقات)،
  5. وادی عقیق،
  6. غمرہ،
  7. ام خرمان،
  8. سلح،
  9. افیعیہ،
  10. معدن فزان،
  11. عمق،
  12. سلیلیہ،
  13. مغیثہ ماوان،
  14. نقرہ،
  15. حاجر (قیس بن مسہر صیداوی کو کوفہ روانہ کرنا)،
  16. سمیراء،
  17. توز،
  18. اجفر (عبداللہ بن مطیع عدوی سے ملاقات اور ان کی طرف سے امام کو واپس لوٹنے کی نصیحت)،
  19. خزیمیہ،
  20. زرود (زہیر بن قین کا امام حسینؑ کے کاروان میں شامل ہونا، فرزندان مسلم سے ملاقات اور مسلم و ہانی وغیرہ کی شہادت کی خبر)،
  21. ثعلبیہ،
  22. بطان،
  23. شقوق،
  24. زبالہ (قیس کی شہادت کی خبر اور ایک نافع بن ہلال کے ہمراہ ایک گروہ کا امام سے ملحق ہونا)،
  25. بطن عقبہ (عمرو بن لوزان سے ملاقات اور ان کی طرف سے واپس لوٹنے کی نصیحت)،
  26. عمیہ،
  27. واقصہ،
  28. شراف،
  29. برکہ ابومسک،
  30. جبل ذی حسم (حر بن یزید ریاحی کی فوج سے ملاقات)،
  31. بیضہ (امام حسینؑ کا حر کی سپاہ سے خطاب)،
  32. مسیجد،
  33. حمام،
  34. مغیثہ،
  35. ام قرون،
  36. عذیب (کوفہ کا راستے عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی طرف تھا لیکن امام حسینؑ نے راستہ تبدیل کر کے کربلا میں اتر آئے)،
  37. قصر بنی مقاتل (عبیداللہ بن حر جعفی سے ملاقات اور امامم کی دعوت کو قبول نہ کرنا)،
  38. قطقطانہ،
  39. کربلا -وادی طف- (2 محرم 61 ہجری قمری امامؑ کا کربلا میں داخل ہونا)۔[108]

امامؑ ہر منزل پر لوگوں کو جذب کرنے اور ان کے ذہنوں میں اس معاملے کو واضح اور روشن کرنے کے لیے ہر ممکن تلاش کرتے رہے۔ نمونے کے طور پر یہ کہ ذات عرق نامی جگہ پر بشر بن غالب اسدی نامی ایک شخص امام کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کے حالات کی نزاکت کی اطلاع دی۔ اس موقع پر امام نے اس کی بات کی تصدیق کی۔ اس شخص نے امامؑ سے آیت: یوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاس بِإِمَامِهم[109] کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

امام دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جبکہ دوسرا وہ جو لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو ہدایت کے امام کی پیروی کرتا ہے وہ بہشت میں جائیں گے جبکہ جو شخص ضلالت کے امام کی پیروی کرے گا وہ جہنم داخل ہو گا۔[110]

بشر بن غالب اس وقت تو امام کا ساتھ نہیں دیا لیکن بعد میں امام حسینؑ کی قبر مبارک پر گریہ کرتے دیکھا جاتا تھا اور امام کی نصرت اور مدد نہ کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔[111]

اسی طرح ثعلبیہ نامی جگہے پر ابوہرّہ ازدی نامی شخص نے امام کی خدمت میں آکر اس سفر کی وجہ دریافت کی تو امام نے فرمایا:

بنی امیہ نے میری جائداد لے لی اس پر میں نے صبر کیا۔ مجھے گالی دی گئی میں نے صبر کیا۔ میرے خون کے درپے ہوا تو میں نے فرار اختیار کی۔ اے ابوہرہ! جان لو کہ میں ایک باغی اور سرکش گروہ کے ہاتھوں مارا جاوں گا اور خدا ذلت و رسوائی کا لباس انھیں پہنائے گا اور ایک تیز دھار تلوار ان پر مسلط ہوگی جو ان کو ذلیل و رسوا کرے گی۔[112]

قیس بن مُسہر کی کوفہ روانگی

مروی ہے کہ امامؑ جب بطن الرمہ نامی جگہ پر پہنچے تو کوفیوں کو خط لکھا اور انھیں کوفہ کی طرف اپنی روانگی کی اطلاع دی۔[113] امامؑ نے خط قیس بن مسهر صیداوی کو دیا۔ قیس جب قادسیہ پہنچے تو ابن زیاد کے سپاہیوں نے ان کا راستہ روک کر ان کی جامہ تلاشی لینا چاہا۔ اس موقع پر قیس نے مجبور ہوکر امامؑ کا خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہو سکے۔ جب قیس کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو اس نے غضبناک ہوکر چلاتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم! تمھیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کا نام بتا دو جنہیں حسین بن علی نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ منبر پر جا کر حسین اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمھیں رہا کروں گا ورنہ تمھیں مار دوں گا"۔

قیس نے قبول کیا اور منبر پر جاکر امام کو برا بھلا کہنے کی بجائے کہا: اے لوگو! میں حسین بن علیؑ کا ایلچی ہوں اور تمھاری طرف آیا ہوں تا کہ آپ کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو"۔

ابن زیاد آگ بگولہ ہو گیا اور حکم دیا کہ قیس بن مسہر کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے سپایوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بے جان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔[114]

عبد اللہ بن یقطر کو کوفہ روانہ کرنا

مروی ہے کہ امام حسینؑ نے مسلم کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن یقطر [115] کو مسلم کی طرف بھجوایا تھا لیکن وہ حصین بن نمیر کے ہاتھوں گرفتار ہوکر ابن زیاد کے پاس لے جائے گئے۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انھیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ کوفیوں کے سامنے امام حسینؑ اور آپ کے والد بزرگوار پر سبّ و لعن کریں۔ عبد اللہ بن یقطر نے دارالامارہ کی چھت سے کوفہ والوں سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند حسینؑ کا ایلچی ہوں؛ اپنے امام کی مدد کو دوڑو اور ابن مرجانہ کے خلاف بغاوت کرو"۔[116]

ابن زیاد نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ عبداللہ بن یقطر جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انھیں قتل کر دیا۔[117]

عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر مسلم اور ہانی کی شہادت کی خبر کے ہمراہ زبالہ کے مقام پر امام حسینؑ کو ملی۔[118]

سفیر حسین بصرہ میں

امام حسین علیہ السلام نے بصرہ کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، بنو تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا جسے سلیمان بن زرین نامی اپنے ایک موالی(آزاد کردہ) کے توسط سے روانہ کیا۔[119] سلیمان نے پانچوں قبائل کے سرداروس "مالك بن مِسمَع بَكرى، أَحنَف بنِ قیس، مُنذِر بن جارود العبدی، مسعود بن عمرو، قيس بن ہيثَم اور عمرو بن عبيداللہ بن مَعمَر" میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔[120] اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: "۔۔۔ اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّہ ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ"۔ (ترجمہ:۔۔۔میں تمھیں كتاب خدا اور سنت رسولؐ کی طرف بلاتا ہوں۔ بے شک سنت نیست و نابود ہو گئی ہے اور بدعتیں زندہ ہو گئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمھاری راہنمائی کروں گا)۔[121] بصرہ میں مذکورہ افراد میں سے ہر ایک نے امامؑ کے موصولہ خط کا ایک ایک نسخہ چھپا کر رکھا سوائے منذر بن جارود عبدی کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ ابن زیاد کی ایک چال ہے۔[122] چنانچہ اس نے اگلے روز ابن زیاد کو ـ جو کوفہ جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی[123] ابن زیاد نے امامؑ کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔[124]

نعمان بن بشیر اور ابن زیاد

کوفہ میں بنو امیہ کی طرف سے حضرت نعمان بن بشیرؓ گورنر تھے۔ ہر چند کہ گورنر دربارِ بادشاہت کا مقرر کردہ تھا مگر وہ خود بھی موروثی بادشاہت پر انشراحِ صدر نہیں رکھتا تھا۔ دوسری جانب بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد، حضرت معاویہؓ کا معتمد ترین شخص تھا مگر ان کی وفات کے بعد یزید بوجوہ اس سے نالاں تھا اور معزول کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ کی بیعت کی اطلاعات گورنر ہاﺅس کے علاوہ دمشق کے شاہی دربار میں بھی پہنچ رہی تھیں۔

بنو امیہ کا جاسوسی کا نظام

بنو امیہ نے جاسوسی کا ایک بہت موثر نظام قائم کر رکھا تھا اور کمال یہ ہے کہ دورِ جدید کی طرح عام طور پر کسی جاسوس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ یہ سرکاری کارندہ ہے۔ جاسوسوں کو بڑی بڑی رقوم سے نوازا جاتا تھا۔ جاسوسوں کے ذریعے حضرت نعمان بن بشیرؓ کی شکایات مسلسل یزید کو مل رہی تھیں۔ کسی جاسوس نے ان سے ملاقات کرکے کہا کہ حکومت کے خلاف یہاں بغاوت ہو رہی ہے اور آپ گورنر ہوتے ہوئے خاموش ہیں۔ یا تو آپ کمزور ہیں یا آپ کے عزائم کچھ اور ہیں۔ نعمان بن بشیرؓ جاسوس کے ارادوں کا ادراک نہ کرسکے اور انھوں نے کہا: میں گورنری کی قوت کو استعمال کرکے احکامِ الہٰی کے خلاف سرکشی اور خلقِ خدا پر ظلم نہیں ڈھاسکتا۔ جاسوس نے فوراً یہ اطلاع دمشق بھیج دی۔ اس پر یزید نے اپنے کچھ معتمد درباریوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے اسے کہا کہ اگر آپ کے والد معاویہؓ آج زندہ ہوتے تو وہ ابن زیاد کی خدمات سے ضرور فائدہ اٹھاتے۔

بے وفا اور بزدل اہلِ کوفہ

ہانی بن عروہ حضرت حسینؓ کے زبردست حامی تھے مگر اس جاسوس کی مخبری اور پھر گواہی کے بعد سخت خلجان کا شکار ہو گئے۔ اب وہ زخمی حالت میں یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ انھیں قید کرنے اور حضرت مسلم بن عقیلؓ کو پکڑنے، قتل کرنے اور ان کا سر ابن زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ جس شخص نے یہ جاسوسی کی تھی، اس کا نام مورخین نے سرجون بیان کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے یزید نے دمشق سے ابن زیاد کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت مسلمؓ کو ہانی بن عروہ کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ ان کے ساتھ ساڑھے تین چار ہزار کے لگ بھگ کوفی میدان میں نکل کھڑے ہوئے مگر جوں ہی ان بد بختوں نے بڑے بڑے سرداروں کو عبید اللہ بن زیاد کے محل میں دیکھا اور انھوں نے بالکونی سے اپنے اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کو سرزنش کی تو آہستہ آہستہ یہ بدعہد حضرت مسلم بن عقیلؓ کا ساتھ چھوڑ کر منتشر ہو گئے۔ آخر میں ان کے ساتھ صرف چند سو افراد رہ گئے۔

کوفہ کی طرف سفر

حسین حج سے ایک دن قبل 9 ستمبر 680 (8 ذی الحجہ 60 ھ) کو مکہ مکرمہ سے قریب پچاس افراد اور اپنے اہلخانہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ [57] [59] اس نے صحرائے عرب میں شمال مشرقی راستہ اختیار کیا۔ [125] حسین کے چچازاد بھائی عبد اللہ ابن جعفر کی مرضی پر، مکہ کے گورنر عمرو بن سعید نے اپنے بھائی اور ابن جعفر کو حسین کے بعد مکہ میں حفاظت کی یقین دہانی کرانے اور اسے واپس لانے کے لیے بھیجا۔ حسین نے واپسی سے انکار کر دیا، اس سے متعلق کہ محمد نے خواب میں حکم دیا تھا کہ اس کے نتائج سے قطع نظر آگے بڑھیں۔ تنعیم کے نام سے مشہور جگہ پر، اس نے رنگ برنگے پودے اور کپڑے لے کر جا رہا ایک قافلہ پکڑا جس کو یمن کے گورنر نے یزید بھیجا تھا۔ آگے چلتے ہی ثعلبیہ نامی ایک جگہ پر، چھوٹے قافلے کو ابن عقیل کے قتل اور اہل کوفہ کی بے حسی کی خبر ملی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مقام پر حسین نے پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن ابن عقیل کے بھائیوں نے اسے آگے بڑھانے پر راضی کیا، جو اس کی موت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ [59] [57] میڈیلونگ اور آئی کے اے ہاورڈ کے مطابق، یہ اطلاعات مشکوک ہیں۔ [9] [126] [9] [126] بعد ازاں، زبالہ میں، حسین کو اپنے قاصد قیس ابن مظہر السدوی کی گرفتاری اور قتل کا علم ہوا، جسے حجاز (مغربی عرب) سے کوفہ بھیج دیا گیا تھا۔ [lower-alpha 3] اس نے اپنے پیروکاروں کو اس صورت حال سے آگاہ کیا اور انھیں وہاں سے جانے کو کہا۔ راستے میں اس میں شامل ہونے والے بیشتر افراد وہاں سے چلے گئے، جبکہ مکہ سے اس کے ساتھیوں نے اس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ [59]

امام حسین مکہ سے کوفہ صحرائے عرب کے رستے گئے۔

راستے کی رکاوٹیں

راستے میں جگہ جگہ یزیدی دستوں نے قافلہ¿ اہلِ بیت کو روکنا چاہا مگر وہ کسی نہ کسی طرح کربلا تک آپہنچے۔ یہ 60ھ کے آخری دن تھے۔ اسی اثنا میں نئے سال کا ہلال طلوع ہوا۔ عمرو بن سعد بن ابی وقاصؓ بنو امیہ کی حکومت میں ایک علاقے کا حاکم تھا۔ جب اسے ابن زیاد نے اس قافلے کو قتل کرنے کا حکم دیا تو شروع میں اس نے کافی پس و پیش کیا۔ آخر کار ابن زیاد کے دباﺅ کے تحت عمرو بن سعد نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی ڈالا۔ جب عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کا راستہ روکنا چاہا تو آپؓ نے اسے بتایا کہ مجھے اہلِ عراق نے آنے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں میں حجاز سے چل کر یہاں آیا۔ آپؓ نے خطوط کا انبار بھی اس کے سامنے پیش کیا۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کے دعوے کی تکذیب نہیں کی بلکہ کہا کہ اہلِ کوفہ نے آپ کو خطوط لکھے مگر اب وہ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آپ کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یزید کی بیعت کر لیں۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو دب کر بیعت کرلے۔

ابن زیاد نے کوفہ جانے والے راستوں پر فوج رکھی تھی۔ حسین اور اس کے حواریوں کو یزید کی فوج کے سرغنہ نے روک لیا، قادسیہ کے قریب کوفہ کے جنوب میں حر بن یزید التمیمی کی سربراہی میں لگ بھگ 1،000 افراد تھے۔ [59] حسین نے ان سے کہا:

میں اس وقت تک آپ کے پاس نہیں آیا جب تک کہ آپ کے خط میرے پاس نہیں لائے جاتے تھے اور آپ کے قامیصد رے پاس آئے اور کہتے تھے کہ ہمارے پاس آؤ، کیونکہ ہمارے پاس کوئی امام نہیں ہے۔ … لہذا، اگر آپ مجھے اپنے معاہدوں اور گواہوں کے مطابق مجھے وہی چیز دے دیں، تو میں آپ کے شہر آؤں گا۔ اگر آپ نہ مانیں گے اور میرے آنے سے ٹل جائیں گے تو میں آپ کو اس جگہ کے لیے چھوڑ دوں گا جہاں سے میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ [56]

اس کے بعد انھوں نے انھیں وہ خطوط دکھائے جن کو انھوں نے کوفیوں سے موصول کیا تھا، بشمول حر کی قوت میں سے کچھ۔ حر نے خطوط کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات سے انکار کیا اور کہا کہ حسین کو اس کے ساتھ ابن زیاد کے پاس جانا چاہیے، جس سے حسین نے انکار کر دیا۔ حر نے جواب دیا کہ وہ حسین کو یا تو کوفہ میں داخل ہونے یا واپس مدینہ واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا، لیکن یہ کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کہیں اور بھی سفر کرسکے گا۔ اس کے باوجود، اس نے چار کوفیوں کو حسین کے ساتھ شامل ہونے سے نہیں روکا۔ حسین کا قافلہ قادسیہ کی طرف بڑھنے لگا اور حر ان کے پیچھے آگیا۔ نینوا میں حر کو ابن زیاد کی طرف سے حکم ملا کہ حسین کا قافلہ بغیر کسی قلعے اور پانی کے ویران جگہ پر رکنے پر مجبور کیا جائے۔ حسین کے ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ وہ حر پر حملہ کریں اور اقرار کے قلعے والے گاؤں چلے جائیں۔ حسین نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ دشمنی شروع نہیں کرنا چاہتے۔ [59] 2 اکتوبر 680 (2 محرم 61 ہجری) کو حسین کوفہ کے شمال میں 70 کلومیٹر (230,000 فٹ) صحرا کا میدان) کربلا پہنچا اور کیمپ لگایا۔ [57] [125]

Thumb
ایک مزار جو حسینین کے کیمپ کے مقام پر بنایا گیا ہے

اگلے دن، 4،000 پر مشتمل کوفی فوج عمر بن سعد کی سربراہی میں پہنچی۔ اسے مقامی بغاوت کو دبانے کے لیے رے کا گورنر مقرر کیا تھا، لیکن پھر حسین سے مقابلہ کرنے کے لیے واپس آ گیا۔ ابتدائی طور پر، وہ حسین سے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن ابن زیاد کی طرف سے اس کی گورنری کو کالعدم کرنے کی دھمکی دی۔ حسین سے مذاکرات کے بعد، ابن سعد نے ابن زیاد کو لکھا کہ حسین واپس جانے کو تیار ہے۔ ابن زیاد نے جواب دیا کہ حسین کو ہتھیار ڈالنا چاہیے یا اسے زبردستی مسخر کرنا چاہیے، [57] اور اس کو مجبور کرنے کے لیے، اس کو اور اس کے ساتھیوں کو فرات دریا تک جانے سے روک دیا جائے۔ [9] ابن سعد نے دریا کی طرف جانے والے راستے پر 500 سواروں کو رکھا تھا۔ امام حسین بھائی عباس ابن علی کی سربراہی میں پچاس آدمیوں کے ایک گروہ نے دریا تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے حسین اور اس کے ساتھی تین دن پانی کے بغیر رہے۔ وہ صرف بیس پانی کی مشکیں ہی بھر سکے۔ [59] [128]

Thumb
جنگ کربلا، ایرانی پینٹنگ، کینوس پر تیل، 19 ویں صدی میں ٹراپین میوزیم ایمسٹرڈیم

عمرو بن سعد نے امام کا موقف سننے کے بعد کسی حد تک نرمی کا اظہار کیا مگر کہا کہ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے ابن زیاد سے منظوری لینا پڑے گی۔ جب ابن زیاد تک یہ پیغام پہنچا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے سخت الفاظ میں عمرو بن سعد کو سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ یا تو حسین سے بیعت لویا اس کا سر قلم کر کے میرے دربار میں بھیجو۔ سیدنا حسینؓ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انھوں نے پوری جرا¿تِ ایمانی کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں سر تو کٹوا سکتا ہوں مگر زبردستی مجھ سے بیعت نہیں لی جا سکتی۔ اب وہ مرحلہ آگیا کہ جو تاریخ میں معروف ہے اور بے شک اس پر افراط و تفریط کے شکار لوگوں نے جتنے بھی ردے چڑھائے ہیں، بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایک بڑی قربانی پیش کی، جس کا مقصد آمریت و ملوکیت کا انکار اور اسلامی دستور کی اہم ترین شق خلافت و شورائیت کا تحفظ تھا۔ حضرت حسینؓ کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوتے چلے گئے۔ آخر میں آپؓ تنہا رہ گئے۔ پانی تک رسائی بھی ممکن نہ تھی۔ گرمی کی حدت اور جنگ کی شدت، اس لمحے کی سختی اور دل دہلا دینے والا منظر، اس سب کچھ کے باوجود سیدنا حسین بن علیؓ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے مگر یزید کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

رات کے وقت حسین اور ابن سعد بات چیت کے لیے ملاقات کرتے تھے۔ یہ افواہ پھیلائی جارہی تھی کہ حسین نے تین تجاویز پیش کیں: یا تو اسے مدینہ واپس آنے کی اجازت دی جائے، سیدھے یزید کے سامنے پیش کیا جائے یا کسی ایسی سرحدی چوکی پر بھیج دیا جائے جہاں وہ مسلم فوجوں کے ساتھ مل کر لڑے۔ میڈلنگ کے مطابق، یہ اطلاعات شاید غلط ہیں کیوں کہ اس مرحلے پر حسین نے یزید کے سامنے پیش ہونے پر غور کیا ہے۔ بعد میں حسین کی اہلیہ کے ایک مولعلام ا نے دعوی کیا کہ حسین نے تجویز دی تھی کہ انھیں وہاں سے جانے دیا جائے، تاکہ تمام فریقین سیاسی صورت حال کو واضح کر سکیں۔ [9] ابن سعد نے ابن زیاد کے پاس یہ تجویز، جو کچھ بھی تھی، بھیجی، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے قبول کرلیا لیکن پھر اسے تسلیم کیا گیا ورنہ شمر ابن ذی الجوشن نے بھی۔ شمر نے استدلال کیا کہ حسین اپنے دائرہ کار میں ہیں اور اسے جانے دینا کمزوری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ [128] ابن زیاد نے پھر شمر کو حکم دیا کہ وہ حسین سے ایک بار پھر اس کی بیعت لے اور حملہ کرے، اسے مار ڈالے اور اسے بدنام کرے، اگر وہ "باغی، ایک ایک جابر تھا" اس کی موت کے بعد مزید کوئی نقصان نہ کرو "۔ [59] اگر ابن سعد حملہ کرنے کو تیار نہیں تھا تو اسے شمر کے حوالے کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ابن سعد نے شمر پر لعنت بھیج دی اور اس پر الزام لگایا کہ وہ پرامن تصفیہ تک پہنچنے کی کوششوں کو ناکام بنا رہا ہے لیکن اس کے احکامات پر عمل کرنے پر راضی ہو گیا۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ حسین تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ "اس میں ایک فخر روح" ہے۔ [59] [9]

فوج 9 اکتوبر کی شام کو حسین کے کیمپ کی طرف بڑھی۔ حسین نے عباس کو ابن سعد کو اگلی صبح تک انتظار کرنے کے لیے بھیجا، تاکہ وہ اس معاملے پر غور کرسکیں۔ ابن سعد اس مہلت پر راضی ہو گیا۔ [56] حسین نے اپنے جوانوں سے کہا کہ وہ رات کے اندھیرے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ، وہاں سے چلے جانے کے لیے آزاد ہیں، کیونکہ ان کے مخالفین ہی اسے چاہتے ہیں۔ بہت کم لوگوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ دفاعی انتظامات کیے گئے تھے: خیموں کو ایک ساتھ لایا گیا تھا اور ایک دوسرے سے باندھ دیے گئے تھے اور خیموں کے پیچھے کھائی کھودی گئی تھی اور حملہ کرنے کی صورت میں لکڑی سے بھرا ہوا تھا کہ حملہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد حسین اور اس کے حواریوں نے باقی رات نماز پڑھائی۔ [59] [9]

حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ملاقات

عبیداللہ بن زیاد کو امام حسینؑ کی کوفہ عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی فوج کے سربراہ حصین بن نمیر کو چار ہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ" روانہ کیا تا کہ "قادسیہ" سے "خفان" اور "قُکلکُطانیّہ" سے لعلع تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کے ذریعے ان علاقوں سے گزرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے مطلع رہ سکیں۔[129] حر بن یزید ریاحی کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر کے لشکر کا حصہ تھا جو قافلۂ حسینی کا راستہ روکنے کے لیے بھجوایا گیا تھا۔[130]

ابو مِخنَف نے اس سفر میں امام حسینؑ کے قافلے میں شامل دو اسدی افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب قافلۂ حسینی "شراف" کی منزل سے روانہ ہوا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں"۔ "پس امامؑ نے "ذو حُسَم" کا رخ کیا۔[131]

حر اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آگئے؛ امامؑ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ حر اور اس کے سپاہیوں حتی ان کے گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!

نماز ظہر کا وقت ہوا تو امام حسینؑ نے اپنے مؤذن حَجّاج بن مسروق جعفی- کو اذان دینے کی ہدایت کی اور چنانچہ انھوں نے اذان دی اور نماز کا وقت ہوا تو امام حسین علیہ السلام نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: "أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ"۔

ترجمہ: یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمھارے ہاں؛ "لوگو! میں تمھارے پاس نہیں آیا حتی کہ تمھارے خط ملے اور تمھارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں تمھاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمھیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کر دے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمھارے شہر میں آتا ہوں اور اگر نہیں ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ پس امام حسینؑ نے نماز ظہر کے لیے اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور حر اور اس کے سپاہیوں نے بھی امام حسینؑ کی امامت میں نماز پڑھی۔[132] اسی دن عصر کے وقت امام حسینؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں۔ اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کو کہا اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:"ايها الناس، فانكم ان تتقوا اللہ وتعرفوا الحق لاهلہ يكن ارضى للہ عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلا المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني بہ كتبكم، وقدمت على بہ رسلكم، انصرفت عنكم۔

ترجمہ: "اے لوگو! خدا سے ڈرو اور حق کو اہل حق کے لیے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمدؐ منصب خلافت اور تمھاری ولایت و امامت امامت کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمھارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمھاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ [اس کے باوجود] اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمھاری رائے تمھارے خطوں میں لکھے ہوئے مضمون سے ہمآہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زياد کے پاس لے جائیں"۔[133] امامؑ نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!"۔

امامؑ نے فرمایا: "امامؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمھارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔

حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو کوفہ لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لیے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط یزید کے لیے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر ختم ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں"۔[134]

امام حسین "عذیب" اور "قادسیہ" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپؑ عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔[135]

حسین کوفہ کی طرف چلے

محمد حنفیہ، عبد اللہ ابن عمر اور مکہ میں ابن عباس کے مستقل اصرار کے باوجود اور یہاں تک کہ عبد اللہ ابن زبیر کے مشورے کے باوجود، جو منافق تھا کیونکہ عبد اللہ مکہ کو حکومت میں موجود دوسرے حریفوں سے نجات دلانے کا خواہش مند تھا، اس کے باوجود حسین پیچھے نہیں ہٹے۔ [136] ابن عباس نے حسین اور علی کے ساتھ کوفیوں کے غداری کی یاد دلاتے ہوئے حسین سے التجا کی کہ وہ اس سفر میں عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ نہ رکھیں۔ حسین نے ان کے مشوروں کی تعریف کی اور کہا کہ اس نے اپنا کام خدا پر چھوڑ دیا ہے۔ ولفریڈ مڈلنگ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر روایات میں بتایا گیا ہے کہ عبد اللہ ابن زبیر نے حسین جیسے حریف کو مکہ سے پاک کرنے کے لیے حسین کو اپنے کوفوں میں شامل ہونے کی تاکید کی۔ لیکن دوسری روایتیں ہیں جو مکہ میں بغاوت کی صورت میں عبد اللہ بن زبیر کی حسین کی حمایت کرنے کی خواہش کی نشان دہی کرتی ہیں۔ [137] حسین، جو کوفہ میں ہونے والے واقعات سے واقف نہیں تھے اور 8 یا 10 ذی‌الحج 10/60 یا 12 ستمبر680[138] کو کوفہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوئے [139] اور انھوں نے حج ادا کرنے کے بجائے عمرہ ادا کیا، مکہ شہر سے خلے گئے اور گورنر عمرو بن سعید اشدق، جو شہر کے مضافات میں حج کر رہا تھا کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے گروپ کے ساتھ خفیہ طور پر شہر مکہ سے نکلے۔ حسین کے رشتے داروں اور دوستوں کے پچاس آدمی - جو ضرورت پڑنے پر لڑ سکتے تھے - خواتین اور بچوں حسین کے ساتھ تھے۔ مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے حسین کے رکنے کی جگہوں کا ذکر طبری اور بلاذری ذرائع میں ملتا ہے اور ان کا تذکرہ جرمن مورخ ویلہاوزن نے کیا ہے۔ [140] حسین کے جانے کے بعد، عبد اللہ ابن جعفر نے اپنے دو بیٹوں عون اور محمد کے ہمراہ، حسین کو خط لکھا کہ وہ واپس آنے کی درخواست کی۔ [141]

حسین کے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن جعفر نے عمرو بن سعید بن عاص کو خط لکھا اور اس سے کہا کہ اگر حسین مکہ واپس آئیں تو جان کی ضمانت کا امان نامہ لکھ دے۔ [142][143] اس کے جواب میں، عمرو بن سعید بن عاص، مکہ کے حکمران، نے عبد اللہ ابن جعفر کو اپنے بھائی یحیی کی سربراہی میں ایک لشکر کے ساتھ اس کا تعاقب کرنے کے لیے بھیجا۔ [144] لیکن جب دونوں گروہوں کی ملاقات ہوئی، تو انھوں نے حسین سے واپس آنے کو کہا، لیکن حسین نے جواب دیا کہ اس نے اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور انھوں نے اس سے کہا ہے کہ وہ اپنے راستے پر چلتا رہے اور اپنا مقدر خدا پر چھوڑ دے۔ [145][146][147][148] اور پھر دونوں گروہوں کے مابین ہلکا سا جھگڑا ہوا اور عبد اللہ بن جعفر کے دو بیٹے، عون اور محمد حسین کے ساتھ شامل ہو گئے اور عاشورہ کے دن اس کے ساتھ قتل ہو گئے۔ [149]

راستے میں حسین مختلف لوگوں سے ملا۔ فرزدق شاعر کو دیکھا جس نے حسین کے سوال کے جواب میں اسے واضح طور پر بتایا کہ عراقیوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں، لیکن ان کی تلواریں امویوں کے ساتھ ہیں۔ حسین کے چچازاد بھائی، عبد اللہ ابن جعفر کو، عمرو بن سعید کی طرف سے ایک امان نامہ موصول ہوا اور وہ اسے حسین کے پاس لے گیا، لیکن حسین کا فیصلہ اٹل تھا اور ان لوگوں کو جنھوں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی تھی کے جواب میں، انھوں نے کہا کہ سب چیزیں خدا کے ہاتھ میں ہیں اور خدا سب سے بہتر ہے۔ وہ بندوں بہترین کام کے لیے چاہتا ہے اور خدا جو حق پر ہے اس کا دشمن نہیں ہوگا۔ زہیر بن قین بجلی، جو عثمان کا حامی اور سفر میں تھا اور جس نے سفر کے دوران میں حسین کے خیموں سے دور اپنے خیمے لگاتا تھا، ایک جگہ وہ اپنے خیمے حسین کے خیموں کے قریب لگانے پر مجبور ہو گیا۔ حسین نے اسے اپنے گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اس ملاقات کے دوران میں زہیر نے اپنا نظریہ بدلا اور حسین سے شامل ہوکر ان کا بہترین دوست بن گیا۔ [150]

عبیداللہ ابن زیاد نے حجاز سے کوفہ جانے والے راستے میں اپنی فوجیں تعینات کردی تھیں اور کسی کو بھی بلاک شدہ علاقوں میں جانے یا جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ [151] اور اپنے پولیس چیف حصین ابن تمیم کو حجاز سے عراق جانے والی تمام سڑکیں روکنے کے لیے قادسیہ بھیج دیا۔ [152] حسین کو عبید اللہ کے حکم کے بارے میں بدوؤں نے آگاہ کیا، جن کو کوفہ میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا، [153] لیکن وہ متاثر نہیں ہوا اور اپنے راستے پر چلتا رہا۔ ثعلبیہ میں، اسے پہلی بار کچھ مسافروں نے مسلم ابن عقیل اور ہانی ابن عروہ کے قتل کی اطلاع دی اور واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن عقیل کے بیٹوں نے اپنے بھائی کا عبید اللہ سے بدلہ لینے یا اس طرح سے مارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ حسین ہی تھے جنھوں نے اپنے وطن واپسی کے فیصلے کے بارے میں اپنا خیال بدلا۔ [154] البتہ، میڈلنگ مذکورہ بالا داستان کی صداقت پر شک کرتے ہیں۔ [155] رسول جعفریان کا خیال ہے کہ کوفہ کی طرف حسین کی پیش قدمی کی وجہ، مسلم ابن عقیل کی موت کی خبر سننے کے بعد بھی، وہ اور ان کے ساتھیوں نے فتح کی امید کی تھی۔ اس نے فتح کے امکان کے بارے میں اس وقت بیان کی گئی روایتوں کا حوالہ دیا ہے، اس لحاظ سے کہ حسین بن علی کا جذبہ مسلم ابن عقیل سے زیادہ ہے اور کوفہ کے لوگوں نے انھیں دیکھیں تو اس کی مدد کو پہنچ جائیں گے۔ [156] رسول جعفریان کوفہ کے سفر میں حسین کے اہل خانہ کے ساتھ جانے کی وجہ کو یزید سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ عراق میں جیت جاتے ہیں تو، حجاز امویوں کے ہاتھ میں رہے گا اور کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ انھوں نے اہل بیت حسین کے ساتھ کس طرح سلوک کریں گے۔ [157]

زُبالہ میں، حسین کو پتا چلا کہ اسے کے قاصد، قِیس بن مُسَهَّر صیداوی - یا حسین کے رضاعی بھائی عبد اللہ ا ابن یقطر - جسے حجاز سے کوفہ بھیج دیا گیا تھا کہ [158] کوفیوں کو حسین کی آمد کے بارے میں آگاہ کریں[159] وہ پکڑا گیا ہے اور اسے محل کی چھت سے پھینک کر مار دیا گیا ہے۔ [160][161] یہ سن کر حسین نے اپنے حامیوں سے کہا کہ، کوفیوں کی غداری جیسے پیدا ہوئے المناک مسائل کو دیکھ کر، کسی کو بھی حسین کا قافلہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے اسے نہیں چھوڑا۔ [162] جعفریان کے مطابق، اس خبر سے ظاہر ہوا کہ کوفہ میں حالات بدل چکے ہیں اور جب یہ بات مسلم میں بیان کی گئی تو اس سے صورت حال بالکل مختلف تھی۔ یہ بات حسین کو واضح ہو گئی کہ سیاسی تشخیص کے پیش نظر کوفہ جانا اب ٹھیک نہیں رہا۔ [163]

شراف کے علاقے [164] یا ذوحسم [165][166] گھوڑے سوار حر ابن یزید کی سربراہی میں حاضر ہوئے اور چونکہ موسم گرم تھا لہذا حسین نے انھیں پانی دینے کا حکم دیا اور پھر وہاں اس نے حر فوج کو اپنی نقل و حرکت کے محرکات کا اعلان کیا۔ اور کہا:



آپ کا کوئی امام نہیں تھا اور میں امت کو متحد کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ ہمارا خاندان کسی اور سے زیادہ حکومت کا مستحق ہے، اور اقتدار میں رہنے والے اس کے مستحق نہیں ہیں اور ناجائز حکمرانی کرتے ہیں۔[167] اگر آپ میرا ساتھ دیں تو میں کوفہ چلا جاؤں گا۔[168] لیکن اگر آپ مجھے مزید نہیں چاہتے ہیں تو میں اپنی پہلی جگہ واپس چلا جاؤں گا۔[169]

(امام حسین علیہ السلام)

لیکن کوفیوں نے جو حر کے ساتھ تھے انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر حسین نے اپنے اقامت [170] میں شام کی نماز ادا کی یہاں تک کہ حر اور کوفیوں نے بھی حسین کی پیروی کی۔ [171] نماز کے بعد، انھوں نے کوفیوں سے اپنے الفاظ یاد کیے اور خلافت کے معاملے میں خاندان محمد اور اس کنبہ کے حق کے بارے میں بات کی اور ان خطوط کا حوالہ دیا جو کوفیوں نے ان کو لکھے تھے۔ [172] حر، جو کوفیوں کے حسین کو بھیجے خطوط سے ناواقف تھا - حالانکہ حسین نے اسے کوفی خطوط سے بھرے دو بیگ دکھائے تھے - لیکن اس نے اپنا ذہن نہیں بدلا [173][174] اور تسلیم کیا کہ وہ ان خطوں میں سے ایک تھا جن سے خطوط کو خطاب کیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا نہیں ہے اور ابن زیاد کے ماتحت ہے۔ [175] اس نے بغیر کسی لڑائی کے حسین اور اس کے ساتھیوں کو ابن زیاد کے پاس لے جانے کا حکم دیا اور وہ حسین کو اس پر راضی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ حسین نے اپنا قافلہ شروع کیا تو اس کی ہمت نہیں کرلی اس کا پیچھا کیا۔ [176] لیکن میڈلنگ اور بہرامیان لکھتے ہیں کہ جب حسین رخصت ہونے کے لیے تیار ہوا تو حر نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ اگر حسین نے ابن زیاد کا حکم قبول نہ کیا تو وہ حسین کو مدینہ یا کوفہ جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ [177][178] اور اس نے حسین کو کوفہ یا مدینہ نہ جانے کی ہدایت کی بلکہ یزید یا ابن زیاد کو خط لکھنے کی تجویز دی اور خود ابن زیاد کو خط لکھ کر اس کے حکم کا انتظار کیا، امید ہے کہ جواب ملنے سے وہ اس مشکل امتحان سے بچ سکے گا۔ لیکن حسین نے ان کی پیش کش قبول نہیں کی [179] اور وہ عذیب یا قادسیہ جانے کے لیے روانہ ہو گئے۔ [180] حر نے اسے متنبہ کیا کہ میں یہ آپ کے لیے کر رہا ہوں اور یہ کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو آپ کو مار دیا جائے گا۔ لیکن حسین موت سے نہیں ڈرتے تھے اور کوفہ کے مضامات میں سے ایک نینوا نامی علاقے میں رک گئے تھے۔ [181] نیز حر کوفہ کے چار شیعوں کے حسین کی فوج میں داخلے کو روک نہیں سکے۔ [182] گھر میں، حسین نے خطبہ دیتے ہوئے کہا، "میں موت کو شہادت اور مظلوموں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ ایک اور گھر میں، حکومت سے اپنی مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے، اس نے اپنا تعارف کرایا اور کوفیوں کی تلخی کی یاد دلائی جنھوں نے اس کے والد اور بھائی سے بیعت کی۔ پھر، راستے میں، اس نے طے قبیلے میں جانے کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور حر کے ساتھ واپس نہ آنے کے اپنے معاہدے کی یاد دلائی۔ قصر بنی مقاتل کی منزل کے بعد، حسین نے ایک خواب دیکھا اور اسے دو یا تین بار دوہرایا اور اس کی وجہ پوچھنے والے علی اکبر کے جواب میں، اس نے بتایا کہ اس نے دیکھا کہ وہ اور اس کے ساتھی مارے گئے ہیں۔ [183] ابن زیاد کا ایک قاصد حر کے پاس آیا اور حسین کو سلام کیے بغیر اس نے حر کو ایک خط دیا جس میں ابن زیاد نے حر کو حکم دیا تھا کہ وہ حسین کو کسی ایسی جگہ نا رکنے دے جہاں اسے [184] پانی اور مضبوط قلعوں تک رسائی حاصل ہو۔ [185] اس خط کے ساتھ، عبید اللہ حسین کو لڑنے پر مجبور کرنا چاہتا تھا۔ [186] زہیر بن قین نے حسین کو حر کی چھوٹی فوج پر حملہ کرنے اور اقرار کے عکر بند گاؤں پر قبضہ کرنے کی پیش کش کی، لیکن حسین نے انکار کر دیا کیونکہ وہ جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ [187][188]

محرم کے دوسرے دن حسین نے نینواہ کے علاقے کربلا میں خیمے لگائے۔ محمد باقر کی ایک روایت کے مطابق، حسین کے قافلے کے خیموں کے پیچھے دلدلی علاقہ تھا اور اس پودوں نے کوفیوں کے محاصرے کو روکا تھا جو اس کا سامنا کرنے کا واحد راستہ تھا۔ [189] تیسرے دن، عمر بن سعد کی کمان میں ایک 4،000 مضبوط فوج کی آمد سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ، جسے اس سے قبل دیلمیوں کی بغاوت کو دبانے کے لیے عبید اللہ ابن زیاد نے رے کے بھیجا تھا۔ [190][یادداشت 3] محمد کے ایک ساتھی کے بیٹے کی حیثیت سے، عمر بن سعد حسین سے لڑنے سے گریزاں تھا [191][192] اور اس نے حسین سے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری سے خود کو چھڑانے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن ابن زیاد نے کہا کہ اگر اس نے اس حکم کی نافرمانی کی تو رے کی حکمرانی نہیں ملے گی۔ یہ سن کر ابن سعد نے ابن زیاد کی اطاعت کی [193] اس امید پر کہ وہ کم از کم حسین کے ساتھ کسی جنگ کو روکیں گے۔سب سے پہلے عمر بن سعد نے حسین کو ایک خط بھیجا جس میں ان کے عراق آنے کے ارادے کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ [194][195] ایک قاصد ابن سعد کے پاس پہنچا، جس نے حسین کی پسپائی کی خواہش کا اشارہ کیا، [196][197] اور حسین نے کہا کہ وہ کوفیوں کے خطوط کی وجہ سے عراق آیا تھا اور یہ کہ اگر عراقی عوام اب اس کو نہ چاہتے تو وہ مدینہ واپس چلے جائیں گے۔ [198][199] ابن سعد نے یہ معاملہ ابن زیاد کو بتایا، ابن زیاد نے اصرار کیا کہ حسین کو یزید کی ساتھ بیعت کرنا لازمی ہے [200] اور اگر حسین نے یہ عہد قبول کیا تو وہ اگلے حکم کا انتظار کریں گے۔ [201] اس کے فورا بعد ہی، عمر بن سعد کو حکم دیا گیا کہ وہ حسین اور اس کے ساتھیوں کو پانی تک پہنچنے سے روکے۔ [202] ابن سعد کی فوج کے جانے کے بعد، ابن زیاد ابن سعد کی فوج میں شامل ہونے کے لیے فوج کو جمع کرتا اور بھیجتا رہا۔ بظاہر، ابن سعد کے جانے کے بعد، فوج بھیجنے کی اصل وجہ - جس کا مقابلہ حسین سے تھا - کسی حد تک واضح ہو گیا، یہاں تک کہ لوگوں کو پیسے دیے -کہ اس کی سپاہ میں شامل ہوں- اس تدبیر نے کام نہیں کیا اور کچھ لوگ ابن زیاد کی فوج سے الگ ہوئے، لہذا ابن زیاد خوف زدا ہوا۔ [203]

اسی وقت، ابن سعد حسین کے ساتھ معاہدے پر راضی ہو گئے اور انھوں نے حسین کے ساتھ راتوں رات مذاکرات شروع کر دیے۔ [204] یہ مذاکرات زیادہ تر رات تک جاری رہے۔ کسی نے دونوں کے مابین بات چیت نہیں سنی، لیکن ایسی افواہیں ہیں کہ حسین نے مشورہ دیا کہ دونوں آدمی اپنی فوج چھوڑیں اور یزید کے ساتھ ملنے جائیں۔ لیکن عمر بن سعد نے ابن زیاد کی سرزنش اور سزا دینے کے خوف سے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ [205] اگرچہ اس مذاکرات میں کوئی موجود نہیں تھا، لیکن بیشتر راوی حسین کو تین مشورے دیتے ہوئے کہتے ہیں:

  1. سرحدوں پر جاکر کافروں سے عام فوجی کی طرح لڑو۔
  2. یزید کے ساتھ بیعت کرنا اور اس میں شامل ہونا۔
  3. واپس چلا جاؤں جہاں سے آیا تھا۔ [206]

البتہ، عقبہ ابن سمعان - غلام رباب، حسین کی اہلیہ، جو واقعہ کربلا میں حسین کی فوج سے زندہ بچا تھا - اس بیان کی سختی سے تردید کی۔ وہ گواہی دیتا ہے کہ حسین نے کبھی پیش کش نہیں کی اور صرف کربلا کی سرزمین چھوڑنے اور کہیں جاکر جنگ کرنے کا کہا۔ ولفریڈ مڈلنگ کا خیال ہے کہ یزید کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کا یہ نسخہ ان کے مذہبی خیالات کے منافی ہے اور یہ کہ بنیادی وسیلہ شاید حسین کی موت کا الزام یزید پر نہیں، ابن زیاد پر ڈالنا ہے۔ [207] بہرامیان ان بیانات کو افواہوں کے طور پر سمجھتے ہیں جو ابن سعد سے شروع ہوئی ہے، اس نے ابن زیاد کو لکھے گئے خط میں ایسے عنوانات لکھے تھے۔ بہرامیان کا مزید کہنا ہے کہ یہ خط شاید حسین کے چہرے کو ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا، کیونکہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ابن سعد نے ابن زیاد پر اس طرح کے جھوٹ کی اطلاع دی ہو۔ [208][یادداشت 4] رسول جعفریان کے مطابق، شمر ابنِ زیاد کی رائے کو تبدیل کرنے میں اس کا اثر و رسوخ تھا کہ انھوں نے اسلامی ملک کی ایک سرحد میں جانے یا مدینہ واپس جانے کی حسین پیش کش کو مسترد کر دیا۔ [209] ابتدائی ذرائع جیسے طبری اور الکامل فی التاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے، انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ حسین ابن علی کسی بھی مرحلے پر یزید کے پاس جانے اور بیعت کرنے کی اجازت نہیں چاہتے تھے۔ [210]

محرم کی ساتویں تاریخ کو ابن زیاد کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں ابن سعد کو حسین کے کیمپ میں پانی کی فراہمی کا حکم دیا گیا۔ [211] عمرو بن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کی کمان میں فرات پر 500 جوانوں کی فوج بھیجی۔ تین دن تک حسین اور اس کے ساتھی پیاسے رہے۔ رات کے وقت، 50 افراد پر مشتمل ایک گروہ [212] نے عباس کی کمان میں فرات پر بہادری سے حملہ کیا، لیکن وہ تھوڑی مقدار میں پانی لانے میں کامیاب ہو گئے۔ [213]

ابن زیاد نے موجودہ صورت حال اور اس خط کے مندرجات سے اتفاق کیا جس میں ابن سعد نے وہ تجاویز حسین کی زبان میں لکھیں تھیں۔ [214] لیکن اس وقت، شمر بن ذی الجوشن جو علی کا ایک سابق حامی تھا جو صفین میں اس کے لیے لڑا تھا، نے ابن زیاد کو ایک شیطانی پیش کش کی۔ اس نے اصرار کیا کہ ابن زیاد حسین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے۔ کیونکہ حسین ابن زیاد کی حکومت کے دائرے میں داخل ہوا تھا [215] اور اگر وہ حسین سے سمجھوتہ کرتا ہے تو اس سے ابن زیاد کی کمزوری اور حسین کی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔ ابن زیاد نے شمر کی باتیں سن کر اپنا خیال بدل لیا۔ [216] بہرامیان کا خیال ہے کہ یہ مناظر شاید ابن زیاد کو اپنے مقصد کی طرف ایک قدم اٹھانے کے لیے ترتیب دیے گئے تھے - جو حسین کو مارنا تھا - اور یزید کے ساتھ بیعت کے تناؤ اور تنازع کو اس کے حوالے کرنے کے لیے اسے تبدیل کرنا تھا، کیونکہ وہ حسین کے رد عمل کو پہلے ہی جانتا تھا۔ وہ محرم کی نویں تاریخ کو کربلا پہنچا۔ [217] وہ ابن سعد کے پاس یہ پیغام لے کر جارہا تھا کہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگر اس نے ہتھیار نہ ڈالے یا عمر بن سعد نے فوج کی کمان شمر پر چھوڑ دی۔ شمر نے اس پیغام میں یہ بھی کہا کہ حسین کے جسم کو مارے جانے کے بعد اسے لات مارنا چاہیے، کیونکہ وہ باغی ہے۔ [218] شمر کے یہ الفاظ سن کر، ابن سعد نے اس پر لعنت کی اور ان کی توہین کی [219] اور کہا کہ اس مسئلے کو پر امن طور پر ختم کرنے کی ان کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ [220] ابن سعد جانتا تھا کہ حسین اپنی خصوصی روح کی وجہ سے ہار نہیں مانیں گے۔ [221] ابن زیاد نے حکم دیا تھا کہ اگر عمر بن سعد اس حکم کو قبول نہیں کرتا ہے تو شمر اس پر عمل درآمد سنبھال لے گا۔ [222][223] لیکن عمر بن سعد نے اس کی اجازت نہیں دی اور خود اس کی ذمہ داری قبول کی۔ [224] شمر اپنے قبیلے کے ایک شخص کے ساتھ عباس بن علی کے پاس گیا، جس کے ساتھ اس کی والدہ ام البنین کی طرف سے اس کا رشتہ تھا اور اسے ابن زیاد سے اس اور اس کے بھائیوں کے لیے امان نامہ لایا، لیکن عباس اور اس کے بھائیوں نے امان کو قبول نہیں کیا اور نفی میں جواب دیا۔ [225]

محرم کے نویں دن کی شام، ابن سعد اپنی فوجوں کے ساتھ حسین، کے خیموں کی طرف گیا، جو اپنی تلوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور سو رہے تھے۔ ایک خواب میں، اس نے اپنے نانا محمد کو دیکھا، جس نے حسین سے کہا تھا کہ وہ جلد ہی اس کے ساتھ آ ملے گا۔ [226][227] حسین نے اپنے بھائی عباس کو یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا کہ کوفی کیا چاہتے ہیں۔ دریں اثنا، ابن سعد کی نئی حالت سن کر دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کی توہین کی اور لعنت بھیجی۔ معاملہ کا علم ہونے پر، حسین نے اس رات مہلت طلب کی اور اپنے رشتہ داروں اور مددگاروں کو خطبہ دیا، جسے بعد میں علی ابن حسین نے نقل کیا: [228][229]

میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے ہمیں محمد کی ​​نبوت سے نوازا اور ہمیں قرآن اور دین کی تعلیم دی۔ میں اپنے دوستوں سے بہتر مددگار اور اپنے کنبہ سے زیادہ مخلص گھرانے کو نہیں جانتا ہوں۔ خدا آپ کو اجر دے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم کل مارے جائیں گے۔ میں آپ سے رخصت ہونے کا کہتا ہوں اور میں آپ کے قیام پر اصرار نہیں کرتا ہوں۔ رات کے اندھیرے کا استفادہ کرو اور جاؤ۔

(امام حسین علیہ السلام)

لیکن اس کے ساتھیوں قبول نہیں کیا اور ان کی بیعت پر وفادار رہے۔ [230][231] زینب کو نا امیدی سے غش آیا اور بیہوش ہوگئیں۔ [232] لیکن حسین نے انہاں تسلی دی۔ حسین جنگ کے لیے تیار تھے۔ آپ نے خیموں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا اور طنابوں کو ایک دوسرے سے باندھ دیا۔ آپ نے خیموں کے آس پاس لکڑیاں اور سرکنڈے لگائے تھے تاکہ دشمن کو ان تک پہنچنے سے بچائے جب وہ ضرورت پڑنے پر آگ لگائے۔ حسین اور اس کے ساتھیوں نے ساری رات نماز ادا کی اور یہ لڑائی کل صبح شروع ہوئی۔ [233][234]

ابن زیاد کی تیاریاں

ابن زیاد کے حکم سے پولیس کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔ امام حسینؓ کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی۔

اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران میں سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انھیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔

ابنِ زیاد قاضی کوفہ سے حضرت امام حسینؓ کو باغی کہلوا کر قتل کا فتویٰ لے چکا تھا اور اس نے مزید فوج کربلا روانہ کر دی تھی تاکہ یزید کی خوشنودی حاصل کر سکے۔روایات کے مطابق حضرت امام حسینؓ کے 72افراد کے مقابلے ابن زیاد نے 4محرم سن 61ہجری کو مزید 30ہزار فوج کا لشکر کوفہ سے کربلا روانہ کیا۔حضرت امام حسینؓ کے ساتھ یزیدی فوج کے مذاکرات بھی جاری تھے۔ 2 محرم الحرام کو یزیدی فوج کے جس پہلے دستے نے حضرت امام حسینؓ کا راستہ روکا اس دستے کے سربراہ حر الریاحی ان کی ڈیوٹی یہ لگائی گئی تھی کہ آپ کو آگے بڑھنے اور کوفہ داخل ہونے سے روکا جائے۔ تبھی آپ نے کربلا میں قیام کا فیصلہ کیا۔ چند دنوں میں ہی حر نے جناب حر تک کا سفر طے کر لیا۔ حر چند ملاقاتوں میں ہی حضرت امام حسینؓ کو جان چکے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ یزیدی فوج اور حضرت امام حسینؓ کے بیچ میں مصالحت ہو جائے۔ حر کے دستے نے ایک طرف تو حضرت امام حسینؓ کا راستہ روکے رکھا تھا دوسری طرف وہ روزانہ نماز حضرت امام حسینؓ کے پیچھے پڑھتے تھے۔ 7 محرم الحرام کو یزیدی فوج نے طاقت کے نشے میں دھت ہو کر حضرت امام حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ آپؓ اپنے خیمے پانی کے قریب سے اٹھا لیں اور راستے میں یزیدی فوج کو بٹھا دیا گیا۔امام نے پانی بند کرنے کا یہ ظلم شاید اس لیے برداشت کر لیا کہ کہیں بعد میں لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت امام حسینؓ اور یزیدی فوج میں اصل تنازع پانی کا تھا جس پر لڑائی ہوئی۔ آپ نے ظلم برداشت کیا اور اپنے اصحاب کے ساتھ خیموں کو پانی سے دور لے گئے۔ تپتے صحرا میں سب لوگ پانی کی پیاس سے تڑپنے لگے۔لوگوں نے پانی کا تقاضا کیا لیکن یزیدی فوج نے امام پر پانی بند کر دیا

حر بن یزید تمیمی کی آمد

ابن زیاد نے امام حسین عليہ السلام کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذمی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین عليہ السلام نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ

’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین عليہ السلام نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا:

لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے جس نے ظالم، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے، خدا کا عہد توڑنے والے، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے

کچھ دور جا کر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش شکریہ کے ساتھ ٹال دی۔

کربلا کی زمین کی خریداری

امام حسینؓ کا قافلہ جب میدان کربلا میں پہنچا تو آپؓ نے سب سے پہلے اس علاقے میں آباد بنی اسد کے قبیلے کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان سے زمین کربلا خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ امام حسینؓ نے زمین کربلا ساٹھ درہم میں خریدی۔ زمین کربلا کی خریداری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؓ کسی کی غاصب زمین پر دفن ہونا نہیں چاہتے تھے۔

2محرم الحرام کو جب حضرت امام حسینؓ کربلا کے ریگستان میں آئے اور خیمے لگائے تو آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی جیسے اللہ تعالیٰ آپکو آنے والے دنوں کے حالات دکھا رہا ہو۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امام نے تمام لوگوں کو جمع کر کے فرمایا تھا کہ آپ لوگ آزاد ہیں۔حضرت امام حسینؓ نے کربلا نامی زمین کا یہ ٹکڑا قبیلہ بنی اسد سے 60ہزار دینار میں خریدا تھااور شرط رکھی گئی کہ آپ لوگ ہماری شہادت کے بعد ہمیں یہاں دفن کریں گے اور ہماری زیارت کے لیے جو لوگ کربلا آئیں گے آپ انھیں پانی پلائیں گے اور مہمان نوازی کریں گے۔آج بھی اگر عراق لینڈ ڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو کربلا کا 4×4مربع میل کا علاقہ حسین ابن علی کے نام رجسٹرڈ ہے۔ اور بنی اسد شرط کے مطابق آج تک کربلا میں آنے والے زائرین کی خدمت کرتے ہیں۔زائرین کو پانی پلایا جاتا ہے۔کھانا کھلایا جاتا ہے اور اپنے گھروں کے دروازے زائرینِ کربلا کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ادھر یزیدی فوج حضرت امام حسینؓ کے راستے میں حائل تھی اور دوسری طرف گورنر کوفہ آپؓ کو قتل کرنے کے لیے رائے عام ہموار کر رہا تھا۔ تاکہ لوگوں کو آپؓ کے خلاف کر کے اپنا مقصد حاصل کر لے۔

کربلا

اکثر تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب 2 محرم سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں۔[235] تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسینؑ کی آمد کی تاریخ کو یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔[236] اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جب حر نے امامؑ سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے"۔

امامؑ نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔

سب نے کہا: كربلا۔

فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت آپ نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "خاندان محمدؐ کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔[237]

امام حسینؑ نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔[238] اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔[239] و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم سنہ 61 کا دن تھا۔[240]

منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسینؑ نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:

"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين"۔

ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبیؐ کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہؐ کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔

اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

" ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق[241] على السنتهم، يحوطونہ ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلا قل الديانون"۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلا اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔[242]

اس کے بعد امامؑ نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4x4 میل تھا ـ نینوی' اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پزیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔[243]

دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسینؑ اور اصحاب کربلا میں حسینؑ کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، [244] حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لیے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔[245] حر کا خط ملتے ہی عبید اللہ نے ایک خط امام حسینؑ کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:

"امّا بعد، اے حسینؑ! کربلا میں تمھارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمھیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمھیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔

مروی ہے کہ امام حسینؑ نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:

"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا"۔

قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسینؑ کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امامؑ کے خلاف جنگ کے لیے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ [246]

2 محرم کا امام کا خطبہ

امام حسین علیہ السلام 2 محرم 61 ہجری قمری کو کربلا پہنچے اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہل بیت کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

"اما بعد قد نزل بنا ما ترون من الأمر، وإنّ الدنيا قد تغيّرت وتنكّرت، وأدبر معروفها، واستمرّت حتّى لم يبقَ منها إلاّ صبابة كصبابة الإناء، وخسيس عيش كالمرعى الوبيل، ألا ترون أنّ الحقّ لا يُعمل بہ، وأنّ الباطل لا يُتناهى عنہ، ليرغب المؤمن في لقاء اللہ، وإنّي لا أرى الموت إلاّ سعادة، والحياة مع الظالمين إلاّ بَرَما الناسُ عبیدُ الدنیا و الدین لعق علی السنتهم یحوطونہ مادرَّت معایشُهم فاذا مُحَّصوا بالبلا قَلَّ الدَیّانون"

امابعد، معاملات نے ہمارے ساتھ جو صورت اختیار کر لی ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ یقیناً دنیا نے رنگ بدل لیا ہے اور بہت بری شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کی بھلائیوں نے منھ پھیر لیا ہے اور نیکیاں ختم ہو گئی ہیں اور اب اس میں اتنی ہی اچھائیاں باقی رہ گئی ہیں جتنی کسی برتن کی تہ میں باقی رہ جانے والا پانی۔ اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہو گئی ہے جیسا کہ کوئی سنگلاخ اور چٹیل میدان۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور کوئی باطل سے روکنے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں مرد مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے۔ میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے نزدیک ذلت اور حقارت ہے۔ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں پر رہتا ہے۔ یہ بس اس وقت تک دین کے حامی ہیں جب تک ان کی زندگی آرام اور آسائش سے گذرے اور جب امتحان میں ڈالے جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔"[247]

میدانِ کربلا میں آمد

امام حسین عليہ السلام کا قافلہ اور حر بن یزید کی لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتی رہی، جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا

جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی

حر نے تمام صورتِ حال سے امام حسین کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا۔ ‘‘بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمر بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمر بن سعد چونکہ امام حسین سے لڑنے کا خواہش مند نہ تھا، اس لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا۔ قرہ بن سفیان سے امام حسین عليہ السلام نے کہا کہ ’’اگر تمھیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگرامام حسین عليہ السلام بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کر دیا:
امام حسین عليہ السلام کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ ’’اگر امام حسین عليہ السلام اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔

فوجیوں کی تعداد

Thumb
ایک پینٹنگ جس میں فوجیوں کی فوجی تشکیل کو ظاہر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پینٹنگ جنگ کربلا کی قدیم ترین مصوری ہے۔

ابو مخنف کے مطابق، حسین کی فوج کی تعداد 32 گھڑسوار اور 40 پیادہ فوج تھی [248] اور محمد باقر کے مطابق یہ پینتالیس گھڑسوار اور ایک سو پیادہ تھے۔ [249] اس نے حسین زہیر بن قین کو دائیں بازو کا کمانڈر اور حبیب ابن مظہر کو بائیں بازو کا کمانڈر مقرر کیا۔ اس نے سپاہ کا وسط بھی اپنے بھائی عباس کے حوالے کیا۔ [250][251]

ابن زیاد کے بھیجے گئے فوجیوں کی تعداد کا تخمینہ مختلف ذرائع میں کم از کم 4،000 اور کچھ اطلاعات میں 80،000 تک ہے۔

ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش

کربلا میں امام حسینؑ کے آنے کے بعد ابن زیاد نے کوفیوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے بزرگوں کے درمیان میں یزید کے بھیجے گئے تحفے تقسیم کیے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انھیں دعوت دی کہ کربلا جاکر امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں عمر سعد کی مدد کریں۔[252]

ابن زياد نے کوفہ کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔[253] اور کوفیوں کو کربلا جاکر امام حسینؑ سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل کوفہ پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔[254] ابن زیاد نے حصین بن نمیر کو 4000 کے لشکر کے ساتھ قادسیہ سے نخیلہ بلوایا۔[255] ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی، کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو |ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کریں۔[256] ابن زیاد نے سويد بن عبد الرحمن منقرى کو چند سوار دے کر کوفہ میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ پر جانے سے اجتناب کر رہے تھے۔ سوید نے کوفہ میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوایا جو اپنی میراث طلب کرنے کوفہ آیا تھا۔ ابن زیاد نے کوفیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔[257]

نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو ابن زیاد نے حصين بن نمير، حجار بن ابجر، شبث بن ربعى اور شمر بن ذی الجوشن کو ابن سعد کی مدد کے لیے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔[258] شمر نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لیے تیار ہوا۔[259] شمر کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ[260] اور حصين بن نمیر [261] دو ہزار کے لشکر کے ساتھ[262] اور نصر بن حَربہ 2000 کے لشکر کے ساتھ ابن سعد سے جا ملے۔[263] اس کے بعد ابن زیاد ایک آدمی شبث بن ربعی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ ابن سعد سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر عمر بن سعد کی لشکر گاہ میں پہنچا۔[264] شبث کے بعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار[265] اور اس کے بعد محمد بن اشعث ایک ہزار سوار[266] لے کر کربلا پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے کربلا روانہ ہوا۔[267]

ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا[268] حتی کہ چھ محرم الحرام کو ابن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔[269] ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔

حبیب بن مظاہر اور امام حسینؑ کے لیے لشکر جمع کرنے کی کوشش

کربلا میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد حبیب بن مظاہر اسدی امام(ع( کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، امامؑ کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ بنی اسد پہنچے اور ان سے بنت رسولؐ کے لیے مدد کی دوخواست کی۔

بنی اسد رات کے وقت خیام امامؑ کی جانب رواں دواں تھے کہ عمر بن سعد نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور بنی اسد جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ حبیب بن مظاہر اکیلے واپس آگئے۔[270]

سات محرم اور پانی کی بندش

سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ "حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان میں حائل ہوجائے اور اور انھیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔

خط ملتے ہی ابن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔[271]

بعض مصادر میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، امام حسینؑ نے بھائی عباس کو بلوایا اور انھیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لیے فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نافع بن ہلال جملی پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جا رہے تھے؛ یہ افراد عباسؑ کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو فرات کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب حسینؑ کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب حسینؑ کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور علمدار حسینؑ اور نافع بن ہلال سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں حسینؑ کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔[272]

عمر بن سعد کے ساتھ امام حسینؑ کی آخری مذاکرات

عمر بن سعد کی لشکرگاہ میں پے درپے لشکروں کی آمد کے بعد امام حسینؑ عمرو بن قرظہ انصارى کو عمر بن سعد کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، امام حسینؑ اور عمر بن سعد دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ امام حسینؑ نے بھائی ابوالفضل العباس اور بیٹے علی اکبرؑ کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ ابن سعد نے بھی بیٹے حفص اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں امامؑ نے عمر بن سعد سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمھاری دنیا اور آخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔[273] عمر نہ مانا۔ امامؑ جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمھیں ہلاک کر دے اور قیامت کے دن تمھیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم عراق کی گندم نہ کھا سکوگے"۔[274]

امامؑ اور ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔[275]

ایک عجیب روایت

کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں میں ابن زیاد کو لکھا:

"۔۔۔ حسین بن علیؑ نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"[276]

خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انھیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو حسین بن علیؑ کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"[277]

اس کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:

"۔۔۔ میں نے تمھیں (کربلا) نہیں بھیجا کہ حسین بن علیؑ سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لیے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر حسین بن علیؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انھیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب حسین مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کے بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انھیں قتل کیا تو ان کے بے جان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمھیں ایک فرماں بردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو شمر بن ذی الجوشن کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لیے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔[278]

حقیقت کیا ہے

اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ عمرسعد نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، ابن زیاد اور یزید کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ ابن زیاد نے ابن سعد کے لیے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ (عمر بن سعد نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہو سکتا کہ امامؑ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:

معاویہ کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے یزید کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد ولید بن عتبہ اور مروان بن حکم نے حضرت سید الشہداء سے کہا کہ یزید کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:"يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثلہ"۔

ترجمہ: "یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو علانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا"۔[279] بے شک اگر تحریک عاشورا کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ یزید اس عرصے میں توبہ کرکے اسلامی شریعت کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

اور پھر امامؑ یزید کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب معاویہ نے ایک مجلس میں یزید کی تعریف کی تو آپ نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کر دیں اور یزید کے لیے بیعت لینے کے سلسلے میں معاویہ کی کوششوں کی مذمت کی۔[280]

امامؑ نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اللهم إنك تعلم إنہ لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك"۔

ترجمہ: "خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لیے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کر دیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے"۔[281]

امامؐ نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہؐ اور بابا علی بن ابی طالبؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔[282]

"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان میں زيادہ منصف تھا"۔[283] "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسینؑ اور اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خداؐ (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لیے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔[284] یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسینؑ کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔

جنگ

10 اکتوبر کو صبح کی نماز کے بعد، دونوں فریقوں نے جنگی پوزیشنیں سنبھال لیں۔ حسین نے زہیر بن قین کو اپنی فوج کے دائیں حصے کی کمان کے لیے حبیب ابن مظہر کو بائیں بازو کی کمان سنبھالنے کے لیے اور اس کے سوتیلے بھائی عباس کو پرچم بردار مقرر کیا۔ [59] زیادہ تر اطلاعات کے مطابق، حسین کے ساتھیوں کی تعداد بتیس گھوڑے سوار اور بیالیس پیدل چلنے والوں کی تھی۔ اگرچہ کچھ ذرائع کے ذریعہ پینتالیس گھڑ سوار اور سو فوجی یا مجموعی طور پر چند سو افراد کی اطلاع دی گئی ہے۔ [128] لکڑی پر مشتمل کھائی کو روشن کر دیا گیا تھا۔ [57] اس کے بعد حسین نے اپنے مخالفین کو ایک تقریر کی جس سے انھیں محمد کے نواسے کی حیثیت کی یاد دلادی گئی اور دعوت دینے اور پھر اسے چھوڑنے پر ملامت کی گئی۔ اس نے رخصت ہونے کی اجازت دینے کو کہا۔ اسے بتایا گیا کہ پہلے اسے یزید کے سامنے پیش کیا جائے، جس سے انکار کر دیا گیا۔ [59] حسین کی تقریر نے حر کو اس کی طرف موڑ دیا۔ [57]

Thumb
جنگ کربلا

حسین کی تقریر کے بعد، زہیر بن قین نے ابن سعد کے فوجیوں کو حسین کے قتل سے روکنے کی کوشش کی، لیکن بے سود۔ ابن سعد کی فوج نے تیروں کی کئی بوچھاڑیں کیں۔ اس کے بعد جنگ [59] ہوئی جس میں حسین کے کئی ساتھی مارے گئے۔ عمرو بن الحجاج کی سربراہی میں کوفیوں کے دائیں بازو نے حسین کی فوج پر حملہ کیا، لیکن پسپا کر دیا گیا۔ آپس میں مبارزت کی لڑائی لڑنے کا سلسلہ رک گیا اور مزید تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اموی فوج کے بائیں بازو کی کمان کرنے والے شمر نے حملہ کیا، لیکن دونوں طرف سے نقصانات کے بعد اسے پسپا کر دیا گیا۔ [59] [56] اس کے بعد گھڑسوار کے حملے ہوئے۔ حسین کے گھڑسوار نے شدید مزاحمت کی اور ابن سعد بکتر بند گھڑسوار اور پانچ سو تیراندازوں کو لے کر آیا۔ ان کے گھوڑوں کو تیر کے ذریعے زخمی کرنے کے بعد، حسین کے گھڑسوار دستہ گھوڑے چھوڑ کر پیدل لڑے۔ [56]

چونکہ اموی قوتیں محاذ سے صرف حسین کی فوج کے پاس جا سکتی تھیں، ابن سعد نے خیموں کو جلا دینے کا حکم دیا۔ سوائے اس کے سوا جس کو حسین اور اس کے اہل خانہ استعمال کر رہے تھے۔ شمر بھی اسے جلا دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے روک لیا۔ اس منصوبے نے کچھ عرصہ کے لیے اموی پیش قدمی میں رکاوٹ پیدا کردی۔ دوپہر کی نماز کے بعد، حسین کے ساتھیوں کا گھیراؤ کیا گیا اور تقریباً سبھی ہلاک ہو گئے۔ حسین کے رشتے دار، جنھوں نے اب تک لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، لڑائی میں شامل ہو گئے۔ حسین کا بیٹا علی اکبر مارا گیا۔ پھر حسین کے سوتیلے بھائیوں، جن میں عباس بھی شامل تھے، [285] اور عقیل ابن ابی طالب، جعفر ابن ابی طالب اور حسن ابن علی کے بیٹوں کو قتل کیا گیا۔ [59] بنیادی ذرائع، طبری اور بلاذری میں عباس کی موت کا بیان نہیں دیا گیا ہے، لیکن ایک ممتاز شیعہ مذہبی ماہر شیخ مقید نے کتاب ال ارشاد میں اپنے اکاؤنٹ میں بتایا ہے کہ عباس مل کر دریا پر گئے تھے۔ حسین کے ساتھ لیکن علیحدگی اختیار کرلی گئی، گھیر لیا گیا اور مار ڈالا گیا۔ [59] [285] [59] [285] کسی موقع پر، حسین کا ایک چھوٹا بچہ، جو اس کی گود میں بیٹھا تھا، ایک تیر اس کی گردن سے ٹکرایا اور اس کی موت ہو گئی۔ [59]

Thumb
کربلا میں مسجد عباس
Thumb
عاشورہ کے دوپہر کے وقت حسین ابن علی اور یزید کی فوج کے جنگی منظر کا ٹائلنگ ، جو کرمانشاہ کے معاون الملک کے تکیہ کی دیوار پر کندہ ہے۔

جنگ کی تاریخ

  • یوم عاشور 21 مهر 59 شمسی کے ساتھ موافق ہے۔
  • اس کیلنڈر کا حساب ڈاکٹر احمد بیرشک نے کیا ہے۔
  • 21 مهر 59 شمسی کے مذہبی اوقات کے مابین زیادہ سے زیادہ حساب کتاب 3 + منٹ ہے۔
دیگر معلومات وقت, واقعات سپاہ حسین بن علی ...
وقت واقعات سپاہ حسین بن علی واقعات سپاہ عمر بن سعد
5:47

(اذان صبح)

-نماز خواندان

-سخنرانی بعد نماز برای اصحاب

-نماز خواندن بہ امامت عمر بن سعد

-آرایش و نظم سپاہ

حدود ساعت 6 -حفر کانال در پشت خیمه‌ها -دیده‌بانی تحرکات سپاہ مقابل
7:06

(طلوع آفتاب)

-سخنرانی حسین بن علی برای سپاه مقابل -بر طبل زدن و ایجاد سرصدا
حدود ساعت 8 -سخنرانی زهیر و بریر برای سپاہ مقابل

-حسین بن علی ندای: آیا یاری کنندہ ای هست کہ مرا یاری کند۔ سر می‌دهد

-پیوستن حر بن یزید ریاحی و ابوشعثا و دوتن از خوارج بہ سپاہ حسین بن علی
حدود ساعت 9 -اعلام آمادگی حسین بن علی بہ لشکر خود

-کشتہ شدن چندین تن

_فرمان شروع جنگ بہ دستور عمر بن سعد

-تیراندازی 500 تیرانداز بہ سپاہ مقابل

حدود ساعت 10 -بہ میدان رفتن عبد اللہ بن عمیر

-قطع شدن انگشتان عبد اللہ بن عمیر

-فرمان جنگ تن بہ تن

-بہ میدان رفتن دو غلام عبیداللہ بن زیاد

-کشتہ شدن دو غلام

حدود ساعت 10 -مقاومت حبیب بن مظاهر و چندی یاران با نیزہ از حملہ حجار

-مقاومت زهیر و چندی از یاران از حملہ شمر

-کشتہ شدن تعدای از اصحاب

-دستور حملہ سراسری

-حملہ حجار بہ سمت چپ

-حملہ شمر بہ سمت راست

-زخمی شدن شمر

-دستور عقب‌نشینی

حدود ساعت 10 -تیراندزی بہ سپاہ مقابل

-کشتہ شدن بین 38 تا 50 نفر

-از پا درآمدن تمام 23 اسب

-دستور بہ 500 تیرانداز برای تیراندازی

-کشتہ شدن پیش از 5 نفر

حدود ساعت 10 -دفاع زهیر بہ همراہ 10 نفر از اصحاب -حملہ از پشت بہ سپاہ مقابل
حدود ساعت

11

-دستور جنگ تن به تن

-کشتہ شدن بریر، مسلم بہ عوسجہ و تعدادی دیگر

-نجات محاصرہ شدگان توسط عباس بن علی

-محاصرہ کردن هفت نفر از سپاہ مقابل
12:50

(اذان ظهر)

-فرستادن حبیب برای توقف جنگ و اقامه نماز

-نماز خواندن در مقابل سپاہ دشمن

-دفاع چندین نفر از نمازگزاران

-کشتہ شدن حبیب بن مظاهر

-تیراندازی بہ نمازگزاران سپاہ مقابل

-نماز خواندن سپاہ عمر بن سعد

حدود ساعت

13

-کشته شدن تمام اصحاب(غیر از بنی هاشم)

-کشتہ شدن علی‌اکبر

-کشتہ شدن عبد اللہ بن مسلم

-حملات پی در پی گروهی
حدود ساعت 14 -کشتہ شدن تمام بنی هاشم (بجز عباس بن علی)

-رفتن حسین بن علی و عباس بن علی برای رسیدن بہ آب

-کشتہ شدن عباس بن علی

-حملات پی در پی گروهی

-فاصلہ انداختن بین حسین بن علی و عباس بن علی

-محاصرہ کردن سپس کشتن عباس بن علی

حدود ساعت 15 -وداع حسین بن علی با باقی ماندگان

-بردن علی اصغر بہ میدان

-آمدن عبد اللہ بن حسن بہ میدان

-کشتن علی‌اصغر

-کشتن عبد اللہ بن حسن

-تیراندازی بہ حسین بن علی

-رفتن شمر بہ همراہ 10نفر برای کشتن حسین بن علی

16:06

(اذان عصر)

-به زانو درآمدن حسین بن علی

-فروکردن نیزہ بہ سینہ حسین بن علی

-کشته شدن چندین نفر

-دستور کشتن حسین بن علی توسط شمر

-حملہ سنان بن انس با نیزہ

حدود ساعت

17

-به غارت بردن لباس و انگشتر

-جدا کردن سر حسین بن علی

-حمله برای غارت

-بریدن سر حسین بن علی

-دستور توقف غارت

-با اسب تاختن روی اجساد کشتہ شده‌ها

18:49

(اذان مغرب)

-حمله به خیمه ها و غارت

-اتش زدن خیمه‌ها

-بہ اسارات گرفتن علی بن حسین و زینب بنت علی و الباقی زنان و کودکان

-دستور نماز جماعت

-بریدن سرہا و شادی کردن و چرخاندان در بین سپاہ (سر حسین بن علی توسط سنان چرخاندہ می‌شد و می‌گفت: «افسار و رکاب اسب مرا باید از طلا بکنید؛ چرا کہ من بهترین مردمان را کشته‌ام»)

بند کریں

روز تاسوعا

9 محرم سنہ 61 ہجری کی شام کو شمر ابن زیاد کا حکم لے کر عمر سعد کے پاس کربلا پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔[286]عمر بن سعد نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔[287]

شمر یا ایک اور قول کی بنا پر ام البنین(س) کے بھتیجے عبد اللہ بن ابی المحل نے ام البنین کے بیٹوں کے لیے ابن زیاد سے امان نامہ لیا تھا [288] عبد اللہ بن ابی المحل نے امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے کربلا بھجوایا اور اس نے کربلا پہنچتے ہی امان نامے کا متن ام البنین(س) کے بیٹوں (عباس بن علی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔[289] ایک روایت یہ بھی ہے کہ شمر نے ابن زیاد کا امان نامہ خود کربلا لے کر آیا اور عباس بن علی اور ان کے بھائی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی کو پڑھ کر سنایا، [290] تاہم عباسؑ اور ان کے بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔[291]

شیخ مفید نے شمر اور ام البنین کے بیٹوں کی گفتگو کو یوں نقل کیا ہے، شمر نے کہا: اے میرے بہانجو آپ لوگوں کی جان محفوظ ہے۔ اس پر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کہا: خدا تم اور تمارے امان پر لعنت کرے، ہمیں امان دیتے ہو درحالیکہ فرزند رسول خدا کے لیے امان نہیں ہے؟![292]

شب عاشورا کے واقعات

اصحاب کا تجدید عہد

امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمھیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمھاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔

اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی مصادر میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔[293]

اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی

آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسینؑ اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لیے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امامؑ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔

خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسینؑ بہن زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ زینب(س) نے بھائی سے عرض کیا:

کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران میں آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں"۔

امام حسین ؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انھیں آزما لیا ہے اور انھیں سینہ سپر ہو کر جنگ کے لیے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔

نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسینؑ آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امامؑ کے اہل بیتِ کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسینؑ کا دفاع کریں گے۔

حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین ؑ کو بلایا، بنی ہاشم کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسینؑ اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔

تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسینؑ کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔"

حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم رسول خداؐ یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انھیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنھوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔[294]

حسین بن علی کی وفات

Thumb
جنگ میں مارے جانے والوں کو زیارت

اموی فوجیوں نے سیدھا حسین پر براہ راست حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی، لیکن جب وہ دریا پر پانی پینے گیا تو اس کے منہ پر حملہ ہوا۔ [9] اس نے اپنا خون ایک چھینٹے ہوئے ہاتھ میں جمع کیا اور خدا کی طرف سے اپنی تکلیف کی شکایت کرتے ہوئے آسمان کی طرف پھینک دیا۔ [59] بعد میں، اس کو مالک ابن نصیر نے گھیر لیا اور سر پر مارا۔ یہ دھچکا اس کے کٹے ہوئے لبادے سے ہوا، جسے حسین نے اپنے حملہ آور کو بددعا دیتے ہوئے ہٹا دیا۔ اس نے اپنے سر پر ایک ٹوپی ڈالی اور اس کے گرد پگڑی لپیٹ دی تاکہ خون بہہ رہا ہو۔ ابن نصیر خون آلود چادر کو پکڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔ [59] [56]

شمر پیدل فوجیوں کے ایک گروپ کے ساتھ حسین کی طرف بڑھا، جو اب لڑنے کے لیے تیار تھا کیوں کہ اس کی طرف بہت کم لوگ باقی تھے۔ حسین کے کیمپ کا ایک چھوٹا لڑکا خیموں سے نکل کر اس کے پاس بھاگا اور امام کو تلوار کے حملے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کا بازو کٹ گیا۔ ابن سعد خیموں کے قریب پہنچا اور حسین کی بہن زینب نے اس سے شکایت کی: "عمر بن سعد، کیا آپ کھڑے ہوکر دیکھتے ہو ابو عبد اللہ (حسین ) مارے جائیں گے؟" [59] ابن سعد رونے لگے لیکن کچھ نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حسین نے اپنے بہت سے حملہ آوروں کو ہلاک کیا تھا۔ تاہم، وہ ابھی بھی اسے مارنے کے لیے تیار نہیں تھے اور ان میں سے ہر ایک اسے کسی اور کے پاس چھوڑنا چاہتا تھا۔ آخر کار شمر نے چلاتے ہوئے کہا: "شرم کرو! تم اس آدمی کا انتظار کیوں کر رہے ہو؟ اسے مار ڈالو، تمھاری ماؤں تم سے محروم ہوجائیں!" [56] اموی فوجیوں نے پھر حسین کو دوڑایا اور اس کے ہاتھ اور کندھے پر اسے زخمی کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ زمین پر چہرے کے بھر نیچے گرایا اور سنان بن انس نامی ایک حملہ آور وار کیا اور پھر اسے سربریدہ کر دیا۔ [59] [56]

Thumb
وہ جگہ جہاں سے زینب بنت علی نے جنگ دیکھی

المیہ کربلا اور شہادتِ عظمٰی

صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزا باقی رہ گئے، جنھوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی۔ امام حسین عليہ السلام نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم عباس کو مرحمت فرمایا۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

اے لوگو! جلدی نہ کرو۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدّت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور اپنے بھائی عباس کو انھیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ ہے۔ تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے

لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ

یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے

حضرت امام حسین عليہ السلام کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک امام حسین کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ، جعفر طیار کے پوتے عدی، عقیل کے فرزند عبد الرحمن، حضرت حسن کے بیٹے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین عليہ السلام آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین تنہا میدان میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے[295]۔ اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے (پسِ گردن سے ) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔[295] ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔ یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے [296]

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ (جو کفار کی طرف سے تھے) اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد، موجود ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کا انتقام لے لیا، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئی فرشتہ آیا ہے

اس شعر کو سن کر اور یزید کا فخریہ انداز دیکھ کر دربار میں موجود ایک یہودی سفیر نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان میں ستر پشتیں گذر چکی ہیں مگر اس کے باوجود یہودی میری بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کر دیا ہے اور اب اس پر فخر بھی کر رہے ہو۔ یہ تمھارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔[297] گبن کے الفاظ میں

Thus fell one of the noblest spirits of the age and with him perished all the male members of his family with the solitary exception of a sickly child named Ali who later in life received the designation of Zayn-ul-Abidin
ترجمہ : اس طرح زمانے کے پارسا ترین انسانوں میں سے ایک کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاندان کے تمام مرد بھی ختم ہو گئے سوائے امام زین العابدین علی بن حسین (جو بیماری کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کر سکے) اور امام محمد باقر بن علی کے جو اس وقت بچے تھے۔

امام کے سفر کی مدت

امام حسین(ع) کا قیام، ـ یزید کی بیعت سے انکار سے عاشورا کے دن آپ(ع) کی شہادت تک ـ 175 دن تک جاری رہا:

  • بیعت سے انکار سے مکہ کی طرف ہجرت تک 12 دن مدینہ میں رہے؛
  • 4 مہینے اور 10 دن مکہ میں قیام کیا؛
  • 23 دن کی مدت مکہ سے کربلا تک سفر میں صرف ہوئی؛
  • 2 محرم الحرام سے 10 محرم تک کربلا میں قیام کیا۔

منازل کی تعداد

امام حسین(ع) نے مکہ سے کوفہ تک 18 منزلیں طے کیں۔ ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا۔

اصحاب امام حسین کے اعداد و شمار

افسوسناک امر ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے اصحاب کے صحیح اعداد و شمار کے تعین کے لیے کوئی بھی روش موجود نہیں ہے اور درجہ اول کے مستندات و شواہد ـ یعنی عینی شاہدین نے اصحاب امام حسین(ع) کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی ہیں؛ نیز تاریخ و حدیث کے مآخذ میں اصحاب کے ناموں کے ثبت و ضبط کرنے میں بھی کسی جانے پہچانے قاعدے اور نظم کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فرد کے نام، کنیت، والد یا والدہ کے نام، حتی کہ نسل اور قبیلے کے مد نظر رکھ کر مختلف ناموں سے متعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف سے اصحاب سیدالشہداء(ع) کے اصحاب کی تعداد بھی تمام مراحل میں ایک جیسی نہیں تھی۔

چنانچہ امکان کی حد تک واضح اور روشن اعداد و شمار پیش کرنے کے لیے، اوقات اور مقامات کے لحاظ سے قیام امام حسین(ع) کے چار مراحل کو مدن نظر رکھ کر اعداد و شمار کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

مدینہ سے ہجرت کے وقت

بہت سے مآخذ نے اس مرحلے میں امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔[298][299]۔[300][301]۔[302][303]۔[304][305]

واحد روایت جو آپ(ع) کے ساتھ مدینہ سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد پر دلالت کرتی ہے وہی ہے جو شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق اس ہجرت کے دوران میں امام(ع) کے ساتھ روانہ ہونے والے افراد کی تعداد 19 تھی جن میں اہل خانہ اور اصحاب شامل تھے۔[306][307]

مکہ سے کربلا روانہ ہوتے وقت

  1. ابن سعد کی روایت:
    ابن سعد کا کہنا ہے کہ مکہ سے عراق عزیمت کرتے وقت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ اصحاب میں سے 60 اور اہل بیت میں سے (مردوں، خواتین اور بچوں سمیت) 19 افراد تھے۔[308]
  2. ابن عساکر اور ابن کثیر کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے امام علیہ السلام کے خاندان کے افراد کی تعداد بیان کیے بغیر لکھا ہے کہ کوفہ کے 60 مرد آپ(ع) کے ہمراہ تھے۔[309][310]
  3. ابن قتیبہ دینوری اور ابن عبد ربہ کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسلم بن عقیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی شہادت کے وقت ـ جو مکہ سے امام(ع) کی روانگی کے وقت واقع ہوئی ـ بیان کیا تھا کہ کہ 90 افراد امام(ع) کے ساتھ آ رہے ہیں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔[311][312]
  4. ابن اعثم، ابن طلحہ، اربلی اور ابن صباغ کی روایت:
    ابن اعثم، خوارزمی، محمد بن طلحہ شافعی، اربلی اور ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے کہ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کے وقت آپ کے ساتھ 82 افراد تھے۔[313][314]۔[315][316]۔[317]
    البتہ ان مآخذ نے لکھا ہے کہ امام(ع) کے تمام ساتھیوں کی تعداد اتنی تھی اور ان میں خواتین اور بچے اور افراد خاندان اور اصحاب، سب شامل تھے۔
  5. ابن کثیر کا دوسرا قول:
    ابن کثیر ایک دوسری روایت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد تقریباً 300 تھی۔[318]

کربلا میں (عاشورا سے قبل)

اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے اقوال مختلف ہیں؛ جیسے:

  1. 145 افراد:
    عمّار دہنی نے امام باقر علیہ السلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ کربلا میں داخلے کے وقت 145 افراد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے، (100 پیادے اور 45 سوار)۔[319][320]۔[321][322]۔[323][324]۔[325] گوکہ ابن نما حلی کا کہنا ہے کہ امام باقر(ع) سے عمار دہنی کی منقولہ روایت کا تعلق روز عاشورا سے ہے۔[326]
  2. 89 افراد:
    بعض مؤرخین نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد 89 بیان کی ہے؛ تفصیل یہ کہ 50 افراد امام(ع) کے اصحاب تھے، دشمن کی سپاہ سے 20 افراد آپ(ع) سے جاملے اور 19 افراد کا تعلق آپ(ع) کے اپنے خاندان سے تھا۔[327][328]۔[329] ذہبی نے اس سے قبل اسی کتاب کی اسی جلد میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سواروں کی تعداد 32 تھی۔[330]
  3. 62 یا 72 افراد:
    یعقوبی لکھتے ہیں کہ اصحاب اور خاندان [[امام حسین|امام(ع) سے مجموعی طور پر 62 یا 72 افراد آپ(ع) کے ساتھ کربلا آئے تھے۔[331]
  4. 500 افراد:
    مسعودی وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے لکھا ہے کہ حُرّ کے لشکر کے ساتھ کربلا روانہ ہوتے وقت 500 سوار اور 100 پیدل افراد امام(ع) کے ہمراہ تھے۔ ابن جوزی [332] اور مجلسی[333] نے یہ روایت مسعودی سے نقل کی ہے[334] لیکن امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 500 سواروں کی بجائے 1000 سوار بیان کی ہے۔
  5. 82 افراد:
    ابن شہر آشوب نے امام علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد (عاشورا سے قبل) 82، بیان کی ہے۔[335]
  6. 70 افراد:
    ابن أبار بَلَنْسی (متوفٰی 658ہجری[336] لکھتے ہیں کہ سواروں اور پیادوں کی تعداد 70 سے زیادہ تھی۔[337]

مندرجہ بالا روایات اور دیگر روایات سے بحیثیت مجموعی یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 تک تھی۔

روز عاشورا

  1. 72 افراد:
    مشہور ترین ـ اور سب سے زیادہ نقل ہونے والے ـ کے قول کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے ساتھی 72 تھے۔ ابو مخنف نے ضحّاک بن عبداللہ مشرقی، کے حوالے سے لکھا ہے کہ عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 تھی (32 سوار اور 40 پیادے)۔[338][339] بہت سے مؤرخین اس قول کے قائل ہوئے ہیں: [340]۔[341][342]۔[343][344]۔[345][346]۔[347][348]۔[349][350]
  2. 100 افراد:
    "حصین بن عبد الرحمن" نے "سعد بن عبیدہ" کے حوالے سے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی سپاہ عاشورا کے دن 100 کے قریب تھی۔[351][352]۔[353]
  3. 300 افراد:
    طبری نے زید بن علی کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 300 بیان کی ہے۔[354]
  4. 70 افراد:
    قاضی نعمان مغربی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے کم تھی۔[355][356]
  5. 61 افراد:
    کتاب اثبات الوصیہ کے مؤلف علی بن حسین مسعودی کے مطابق اصحاب امام(ع) کی تعداد 61 تھی۔[357]
  6. 114 افراد:
    خوارزمی ایک روایت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اصحاب مام(ع) کی تعداد 114 تھی۔[358][359]
  7. 145 افراد:
    سبط بن جوزی لکھتے ہیں کہ روز عاشورا امام حسین(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 145 تھی جن میں سے 45 سوار اور 100 پیادے تھے۔[360]
  8. 80 افراد:
    ابن حجر ہیتمی (متوفٰی 974 ہجری) کے قول کے مطابق 80 افراد عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے۔[361]

بہرصورت عدد 72 افراد والی روایت چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے اور اس کے راویوں کی تعداد بھی کثیر ہے چنانچہ یہ روایت زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے۔ ==

کربلا میں اصحاب رسول

اصحاب سید الشہداء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کئی صحابہ بھی تھے: فضیل بن زبیر کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ رسول(ص) کی تعداد 6[362] اور مسعودی کے بقول 4 تھی[363] اور یہ افراد امام حسین(ع) کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔ بعض معاصر مؤرخین و محققین نے صحابہ کی تعداد 5 بیان کی ہے:[364] از 5 نفر دیگر، یعنی:

  1. انس بن حارث کاہلی، [365]۔[366][367]۔[368]
  2. حبیب بن مظاہر اسدی، [369]
  3. مسلم بن عوسجہ اسدی، [370]
  4. ہانی بن عروہ مرادی، [371]۔[372][373]
  5. عبداللہ بن يقطر حمیری[374] جو امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی تھے۔[375]

عمر سعد کا لشکر

لشکر کی تعداد

  1. 22000 افراد:
    بعض مؤرخین نے دشمنان امام حسین(ع) کے سپہ سالاروں اور ان کے ماتحت افراد کی تعداد 22000 افراد بیان کی ہے۔[376][377]۔[378][379]
  2. 30000 افراد:
    شیخ صدوق امام سجاد(ع) اور امام صادق(ع) سے منقولہ روایات کے مطابق، عبید اللہ بن زیاد کے لشکر کی تعداد 30000 بیان کرتے ہیں۔[380][381]
  3. 28000 افراد:
    صاحب کتاب اثبات الوصیہ نے یہ کتاب 28000 افراد نقل کی ہے۔[382]
  4. 14000 افراد:
    محمد بن جریر طبری شیعی [383] نے لکھا ہے کہ عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر کی تعداد 14000 تھی۔[384]
  5. 35000 افراد:
    ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کی تعداد 35000 تھی لیکن وہ لشکر کے ہر حصے کے سالاروں اور ان کے زیر فرمان افراد کا ذکر کرتے ہوئے یہ تعداد 25000 تک گھٹا دیتے ہیں۔[385]
  6. 6000 افراد:
    سبط ابن جوزی نے لشکر ابن سعد کی تعداد 6000 بیان کی ہے۔[386]
  7. 20000 افراد:
    ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں کہ چھ محرم الحرام تک دشمن کی سپاہ کی تعداد 20 تک پہنچ چکی تھی۔[387]
  8. 31000 افراد:
    ابن عنبہ کے مطابق لشکر یزید کی تعداد 31000 تھی۔[388]
  9. 32000 یا 17000 افراد:
    ملاحسین کاشفی 32 ہزار اور 17 ہزار تعداد بیان کی ہے۔[389]
  10. 56000:حسین بن حمدان خصیبی نے سوار اور پیادہ ملا کر چھپن ہزار(56000) تعداد بیان کی ہے[390]

معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قابل اعتماد روایت شیخ طوسی کی ہے جس میں لشکر یزید کی تعداد 30000 بیان کی گئی ہے۔

ہالکین کی تعداد

شیخ صدوق (متوفی 381 ہجری) ـ اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے محمد بن فتال نیشابوری (متوفی 508 ہجری) ـ لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے بعض ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے متعدد افراد کو ہلاک کر دیا تھا:

ان اعداد و شمار کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے بعض اصحاب کے ہاتھوں دشمن کے 225 یا 226 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ابن شہر آشوب، نے شیخ صدوق کی بیان کردہ تعداد کی نسبت زیادہ تعداد بیان کی ہے اور بعض اصحاب کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد یوں بیان کی ہے:

روز عاشورا کے واقعات

عاشورا کی صبح کو امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی۔[398] نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) [399] کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو زہیر بن قین اور بائیں بازو کو حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور پرچم بھائی ابوالفضل العباسؑ کے حوالے کیا۔[400]

میدان کے دوسری جانب عمر سعد نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ[401] صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، شمر بن ذی الجوشن کو میسرہ، عزرة بن قیس احمسی کو سوار دستے اور شبث بن ربعی کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔ [402]

اسی عبداللہ بن زہیر اسدی کو کوفیوں، عبدالرحمن بن ابی اسیرہ کو مذحج اور بنو اسد، قیس بن اشعث بن قیس کو بنی ربیعہ اور کندہ اور حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور ہمدان کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کر کے[403] ابو عبداللہ الحسینؑ کے خلاف صف آرا ہوا۔

امام حسینؑ نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔[404] امامؑ کی گفتگو کے بعد زہیر بن قین نے آپؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔[405]

روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک حر بن یزید ریاحی کا لشکر عمر بن سعد سے نکل کر امام حسینؑ کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔[406]

شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی مصادر کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسینؑ کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امامؑ کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسینؑ کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھے۔[407] غیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان حضرت علی اکبر تھا۔[408] ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ ابوالفضل العباسؑ جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔[409]

بنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسینؑ خود جنگ کے لیے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے کوئی میدان میں آنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران میں باوجود اینکہ آپؑ تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھے۔[410]

روز عاشورا خطبہ امام حسین

امام حسین نے اس خطبے میں اپنا تعارف فرمایا، اس کے بعد کوفہ والوں کے لکھے گئے خطوط کو آپ کے عراق آنے کی علت قررا دیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض کا نام بھی لیا جنھوں نے خطوط لکھے تھے اور اس وقت عمر سعد کے لشکر میں موجود تھے اور ان کو ان کی دعوت کی یاد بھی دلا دی اور ذلت کو قبول نہ کرنے اور یزید کی بیعت نہ کرنے کی تأکید فرمائی۔

واقعہ کربلا کے تاریخ نگار ابومخنف کے مطابق خط لکھ کر دعوت دینے والے کوفیوں نے اپنے کام سے انکار کیا۔ اسی طرح شمر نے امام حسینؑ کی تقریر روک دی۔ محمدہادی یوسفی غروی کے مطابق شمر نے یہ کام لشکر عمر سعد پر امام حسینؑ کے کلام کی تأثیر سے ڈر کر ایسا کیا تھا۔

اس خطبے کو امام حسینؑ نے سنہ 61ھ کو عمر بن سعد کے لشکر (یہ لشکر کوفہ میں یزید بن معاویہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے سپاہی تھے جو کربلا میں امام حسینؑ سے جنگ کرنے آئے تھے) کے سامنے ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ مختصر اختلافات کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوا ہے۔[411]

امام حسین نے عمر بن سعد کے سپاہیوں سے جنگ میں جلدی نہ کرنے اور اپنی تقریر سننے کی درخواست کی تاکہ آپ انھیں نصیحت کر سکیں۔ اسی طرح آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ آپ کو اتنی مہلت دیں تاکہ آپ کوفہ کی جانب تشریف لانے کا اپنا مقصد بیان کر سکیں تاکہ بات ان پر واضح ہو سکے۔[412]

اس کے بعد آپ نے اپنا تعارف کیا اور امام علی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت حمزہ اور جعفر بن ابی‌طالب کے ساتھ آپ کی قرابت کی طرف اشارہ فرمایا۔[413] اسی طرح آپ نے اپنے اور اپنے بھائی امام حسنؑ کے متعلق رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد کہ "یہ دونوں بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں" سنایا اور کوفہ والوں سے کہا اگر اس حوالے سے میری باتوں پر اعتبار نہیں کرتے تو جابر بن عبداللہ انصاری، ابوسعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک جییسے صحابہ سے پوچھیں جو ابھی بھی زندہ ہیں۔[414] اس کے بعد رسول خداؐ کے ساتھ اپنی نسبت اور قرابت کو مد نظر رکھتے ہونے فرمایا کہ وہ کیوں آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی کو قتل کیا ہے؟ یا کسی کا مال چرایا ہے؟ یا کسی پر کوئی کاری ضرب لگایا ہے؟[415]

اس کے بعد شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، قیس بن اشعث اور یزید بن حارث جو آپ کے نام کوفہ والوں کے بھیجے گئے خطوط کے کاتبین میں سے تھے، سے مخاطب ہو کر فرمایا آیا یہ تم لوگ نہیں تھے جنھوں نے مجھے خط لکھ کر کوفہ بلایا تھا؟[416]

آپ نے آیت: "إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَ رَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ"[417] جو حضرت موسی کے مقابلے میں فرعون کی لجاجت کی اشارہ کرتی ہے اور آیت "۔۔۔بِرَبِّي وَ رَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسابِ"[418] کے ساتھ اپنی تقریر کو اختتام تک پہنچایا۔[419]

رد عمل

ابومخنف کے مطابق جب امام حسینؑ نے عمر ابن سعد کی سپاہیوں سے اپنی بات سننے کی درخواست کی تاکہ آپ کوفہ آنے کی علت بتا سکیں، تو بچے اور عورتیں رونے لگیں۔ امام حسینؑ نے حضرت عباس اور علی‌اکبر سے انھیں خاموش کرنے کا حکم دیا اور وہ معروف جملہ "سَكِّتَاہُن‏ فَلَعَمْرِي لَيَكْثُرَنَّ بُكَاؤُہُنَّ؛(ترجمہ: انہیں خاموش کریں خدا کی قسم ابھی بہت رونا باقی ہے") اپنی زبان پر ادا فرمایا۔[420]

اسی طرح جب امام حسینؑ نے عمر سعد کے لشکر سے فرمایا کہ اگر آپ کی باتوں پر اعتبار نہیں تو جو صحابہ اب تک زندہ ہیں ان سے پوچھیں، تو شمر نے فریاد بلند کیا: کہ وہ ایک ایسے کلمے کے ساتھ خدا کی عبادت کرتا ہے جس کے بارے میں خود بھی نہیں جانتا کہ کیا کہہ رہا ہے؟ شمر کی باتوں پر حبیب بن مظاہر نے رد عمل ظاہر کیا اور اس نے کہا خدا نے تمھارے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔[421] تاریخ اسلام کے معاصر محقق محمد ہادی یوسفی غروی کے مطابق شمر کے ذریعے امام حسینؑ کی تقریر کو روک دینا حقیقت میں عمر سعد کی سپاہیوں پر امام حسینؑ کے کلام کی تأثیر سے ڈر کر کیا تھا۔[422]

کوفہ کے خطوط لکھنے والوں نے اس کام سے انکار کیا۔[423] امام حسینؑ کی تقریر کے بعد قیس بن اشعث نے کہا: کیوں اپنے چچا زاد بھائی(یزید) کی بیعت نہیں کرتے ہو؟ امام حسینؑ نے فرمایا: "لا وَ اللَّہِ لَا أُعْطِيكُمْ بِيَدِي إِعْطَاءَ الذَّلِيلِ وَ لَا أَفِرُّ فِرَارَ الْعَبِيدِ؛ (ترجمہ: خدا کی قسم میں اپنا ہاتھ ایک ایسے ذلیل اور پست انسان کے ہاتھوں میں نہیں دونگا اور غلاموں کی طرح فرار نہیں کرونگا")۔[424]

متن اور ترجمہ

أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا قَوْلِي وَ لَا تَعْجَلُوا حَتَّى أَعِظَكُمْ بِمَا يَحِقُّ لَكُمْ عَلَيَّ وَ حَتَّى أُعْذِرَ إِلَيْكُمْ فَإِنْ أَعْطَيْتُمُونِي النَّصَفَ كُنْتُمْ بِذَلِكَ أَسْعَدَ وَ إِنْ لَمْ تُعْطُونِي النَّصَفَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ فَأَجْمِعُوا رَأْيَكُمْ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَ لا تُنْظِرُونِ إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتابَ وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ

ثُمَّ حَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ وَ ذَكَرَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ ص وَ عَلَى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَ أَنْبِيَائِهِ فَلَمْ يُسْمَعْ مُتَكَلِّمٌ قَطُّ قَبْلَهُ وَ لَا بَعْدَهُ أَبْلَغُ فِي مَنْطِقٍ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَانْسُبُونِي فَانْظُرُوا مَنْ أَنَا ثُمَّ ارْجِعُوا إِلَى أَنْفُسِكُمْ وَ عَاتِبُوهَا فَانْظُرُوا هَلْ يَصْلُحُ لَكُمْ قَتْلِي وَ انْتِهَاكُ حُرْمَتِي أَ لَسْتُ ابْنَ بِنْتِ نَبِيِّكُمْ وَ ابْنَ وَصِيِّهِ وَ ابْنِ عَمِّهِ وَ أَوَّلِ الْمُؤْمِنِينَ الْمُصَدِّقِ لِرَسُولِ اللَّهِ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ أَ وَ لَيْسَ حَمْزَةُ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ عَمِّي أَ وَ لَيْسَ جَعْفَرٌ الطَّيَّارُ فِي الْجَنَّةِ بِجِنَاحَيْنِ عَمِّي

أَ وَ لَمْ يَبْلُغْكُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لِي وَ لِأَخِي هَذَانِ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَإِنْ صَدَّقْتُمُونِي بِمَا أَقُولُ وَ هُوَ الْحَقُّ وَ اللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِباً مُنْذُ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ يَمْقُتُ عَلَيْهِ أَهْلَهُ وَ إِنْ كَذَّبْتُمُونِي فَإِنَّ فِيكُمْ مَنْ لَوْ سَأَلْتُمُوهُ عَنْ ذَلِكَ أَخْبَرَكُمْ سَلُوا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ وَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ وَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُخْبِرُوكُمْ أَنَّهُمْ سَمِعُوا هَذِهِ الْمَقَالَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص لِي‏ وَ لِأَخِي أَ مَا فِي هَذَا حَاجِزٌ لَكُمْ عَنْ سَفْكِ دَمِي

فَقَالَ لَهُ شِمْرُ بْنُ ذِي الْجَوْشَنِ هُوَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى‏ حَرْفٍ إِنْ كَانَ يَدْرِي مَا تَقَوَّلَ فَقَالَ لَهُ حَبِيبُ بْنُ مُظَاهِرٍ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَرَاكَ تَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى سَبْعِينَ حَرْفاً وَ أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ صَادِقٌ مَا تَدْرِي مَا يَقُولُ قَدْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِكَ

ثُمَّ قَالَ لَهُمُ الْحُسَيْنُ ع فَإِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ هَذَا أَ فَتَشُكُّونَ أَنِّي ابْنُ بِنْتِ نَبِيِّكُمْ فَوَ اللَّهِ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ ابْنُ بِنْتِ نَبِيٍّ غَيْرِي فِيكُمْ وَ لَا فِي غَيْرِكُمْ وَيْحَكُمْ أَ تَطْلُبُونِّي بِقَتِيلٍ مِنْكُمْ قَتَلْتُهُ أَوْ مَالٍ لَكُمُ اسْتَهْلَكْتُهُ أَوْ بِقِصَاصِ جِرَاحَةٍ فَأَخَذُوا لَا يُكَلِّمُونَهُ

فَنَادَى يَا شَبَثَ بْنَ رِبْعِيٍّ يَا حَجَّارَ بْنَ أَبْجَرَ يَا قَيْسَ بْنَ الْأَشْعَثِ يَا يَزِيدَ بْنَ الْحَارِثِ أَ لَمْ تَكْتُبُوا إِلَيَّ أَنْ قَدْ أَيْنَعَتِ الثِّمَارُ وَ اخْضَرَّ الْجَنَابُ وَ إِنَّمَا تَقْدَمُ عَلَى جُنْدٍ لَكَ مُجَنَّدٍ

فَقَالَ لَهُ قَيْسُ بْنُ الْأَشْعَثِ مَا نَدْرِي مَا تَقُولُ وَ لَكِنِ انْزِلْ عَلَى حُكْمِ بَنِي عَمِّكَ فَإِنَّهُمْ لَمْ يُرُوكَ إِلَّا مَا تُحِبُّ فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْنُ لَا وَ اللَّهِ لَا أُعْطِيكُمْ بِيَدِي إِعْطَاءَ الذَّلِيلِ وَ لَا أَفِرُّ فِرَارَ الْعَبِيدِ

ثُمَّ نَادَى يَا عِبَادَ اللَّهِ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَ رَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ أَعُوذُ بِرَبِّي وَ رَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسابِ۔[425]

اے لوگو میرے باتوں کو سنو اور جنگ کے لیے جلدی مت کرو تاکہ میں میرے گردن پر جو تمھارا حق ہے، ہدایت دے سکوں اور میرے یہاں آنے کا مقصد تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ پس اگر انصاف سے کام لو گے تو سعادتمند ہو جاؤگے اور اگر انصاف سے سے کام نہ لو گے تو کم از کم حسن ظن رکھو تاکہ تمھارا کام تمھیں کوئی غم و اندوہ نہ پہنچا سکے۔ اس کے بعد میرے ساتھ جو کجھ انجام دینا چاہتے ہو انجام دے دو اور مجھے مہلت مت دے دو، بتحقیق میرا مولا وہ خدا ہے جس نے قرآن نازل کیا اور وہ تمام نیک اور پرہیز گاروں کا مولا و مددگار ہے۔

اس کے بعد خدا کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں اور جتنا شایستہ تھا خدا کو نیکی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور پیغمبر اکرم، ملائکہ اور انبیا پر درود بھیجتے ہیں۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آپ کے علاوہ کسی مقرر سے ایسا بلیغ‌ اور رسا خطبہ نہیں سنا گیا، اس کے بعد آپ فرماتے ہیں: پس میرے حسب و نسب پر غور کروں! اور دیکھو میں کون ہوں اس کے بعد اپنے آپ سے رجوع کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو اور دیکھو کہ آیا مجھے قتل کر دینا اور میری حرمت پایمال کر دینا تمھارے لیے سزاوار ہے؟ آیا میں تمھارے نیی کی بیٹی اور اس کے وصی کا لخت جگر نہیں ہوں؟! میرے بابا وہ ہیں جو رسول کا چچا زاد بھائی اور وہ ہے جس نے سب سے پہلے رسول خدا پر جو کچھ آپ نے خدا کی طرف سے لایا تھا، ایمان لے آیا۔ کیا حمزہ سیدالشهداء میرے چچا نہیں ہیں؟ آیا جعفر بن ابی‌طالب جو بہشت میں دو پروں کے ساتھ پرواز کریں گے، میرے چچا نہیں ہیں؟

آیا کیا تم لوگوں تک نہیں پہنچا جو کچھ رسول خدا نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا: کہ یہ دونوں بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر میری باتوں کی تصدیق کرو گے تو حق وہی ہے۔ خدا کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ بولنے والا خدا کا دشمن ہوتا ہے، جھوٹ نہیں بولا۔ پھر بھی اگر میری طرف جھوٹ کی نسبت دیتے ہو تو اب بھی تمھارے درمیان میں بعض ایسے لوگ ہیں ان سے پوچھیں جو اس چیز کے بارے میں تمھیں خبر دیں گے جسے میں نے کہا ہے، جابر بن عبداللَّہ انصاری، اباسعید خدری، سهل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے پوچھیں تاکہ وہ تمھیں بتا دیں کہ انھوں نے یہ باتیں میرے اور میرے بھائی کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے سنی ہیں، یہ رسول خدا کی یہ باتیں میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے سے تمھیں باز نہیں رکھتے؟

شمر بن ذی‌الجوشن نے کہا: میں خدا کی کلمے کے ساتھ عبادت کرتا ہوں اگر میری سمجھ میں آئے کہ اے حسین تم کیا کہہ رہے ہو، اس پر حبیب بن مظاہر نے اس سے کہا: خدا کی قسم میں میں دیکھ رہا ہوں کہ تم 70 کلمات کے ساتھ خدا کی عبادت کرو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچ کہہ رہے ہو کہ تم حسین کی باتوں کو نہیں سمجھ رہے ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، خدا نے تیرے دل پر حق کو نہ سمجھنے کی مہر لگا دی ہے۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اگر ان باتوں میں کوئی شک و تردید ہے تو کیا اس میں بھی کوئی شک و تردید ہے کہ میں تمھارے پیغمبر کی بیٹی کا فرزند ہوں؟ خدا کی قسم مشرق و مغرب کے درمیان میں پیغمبر کی بیٹی کا فرزند میرے علاوہ کوئی نہیں ہے چہ تمھارے درمیان میں چہ کہیں اور! افسوس ہو تم پر کیا میں نے نمہارے کسی کو قتل کیا ہے کہ اس کا خون کا بدلہ مجھ سے لے رہے ہو؟ یا کسی کا مال اٹھایا ہے؟ یا کسی زخم کی قصاص مجھ سے چاہتے ہو؟

اس کے بعد آپ نے فریاد بلند فرمایا:‌اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے خط نہیں لکھا تھا: کہ میوے پک چکے ہیں اور باغ‌ سرسبز ہو چکے ہیں اور آپ ایک ایسے لشکر سے روبرو ہوں گے جو آپ کی نصرت کے لیے آمادہ ہیں؟

قیس بن اشعث نے کہا: ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ اپنے چچا زاد بھائی (عبیداللَّہ) کے حکم پر سر تسلم خم کرو کیونکہ وہ جو کچھ آپ کو پسند ہے اس کے علاوہ آپ سے کوئی اور معاملہ نہیں کرے گا!؟

حسین علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو گا کہ میں ذلت کا ہاتھ تمھیں تھاموں اور نہ غلاموں کی طرح بھاگ جاؤں گا، اس کے بعد آپ نے فرمایا:‌اے بندگان خدا بتحقیق میں تمھارے اور اپنے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں تاکہ تہمارے گزند سے محفوظ رہ سکوں، اپنے اور تمھارے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں اس سرکش سے جو روز جزا پر ایمان نہیں رکھتا ہے۔[426]

دوسرا خطبہ

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں مناقب ابن شہر آشوب نامی کتاب سے روز عاشورا امام حسینؑ کا عمر سعد کی لشکر سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمانے والا ایک اور خطبہ بھی نقل کیا ہے۔[427] اس خطبے میں عمر سعد کی فوج خاموش ہو کر آپ کی تقریر نہ سننے پر آپ نے فرمایا: "تم لوگ کیوں میری تقریر نہیں سنتے!؛ کیونکہ تمھارے پیٹ مال حرام سے پر ہو چکے ہیں اور تمھارے دلوں پر شقاوت کی مہر لگا دی گئی ہے"۔[428]

امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے واقعات

آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ قیس بن اشعث اور بحر بن کعب نے آپ کی قمیص [429]، اسود بن خالد اودی نے آپ کے نعلین‌، جمیع بن خلق اودی نے آپ کی تلوار شمشیر، اخنس بن مرثد نے آپ کا عمامہ، بجدل بن سلیم نے آپ کی انگوٹھی اور عمر بن سعد نے آپ کا زرہ۔[430]

خیموں کی غارت گری

اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔[431] شمر امام سجادؑ کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن حضرت زینب(س) اس کام میں رکاوٹ بنیں۔ بعض مورخین کے مطابق دشمن کے بعض سپاہیوں نے شمر کے اس کام پر اعتراض کیا اور اسے اس کام سے باز رکھا۔[432] ابن سعد نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا گیا۔[433]

لاشوں پر گھوڑے دوڑایا جانا

ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئے۔[434]

اسحاق بن حویہ[435]، اخنس بن مرثد[436] حکیم بن طفیل، عمرو بن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اور اسید بن مالک [437] ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے شہداء کے بدن پر گھوڑے دوڑائے۔

شہداء کے سروں کی کوفہ اور شام بھیجوانا

عمر بن سعد نے اسی دن امام حسینؑ کے سر مبارک کو خولی اور حمید ابن مسلم کے ساتھ کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔[438]

اہل حرم کی اسیری

واقعہ عاشورا کے دن امام زین العابدینؑ سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور حضرت زینب(س) سمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد اور اس کے سپاہی اسرا کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انھیں یزید بن معاویہ کے پاس شام میں لے جایا گیا۔

شہدائے عاشورا کی تدفین

مؤرخین کے مطابق عمر بن سعد کے کربلا سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 محرم الحرام کے دن دفن کیا گیا؛[439] جبکہ بعض مورخین کے مطابق 13 محرم[440] شہداء کی تدفین کا دن ہے۔ سنی مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو 11 محرم سنہ 61 ہجری کے دن سپرد خاک کیا گیا ہے۔[441]

شہید ہونے والے قیدی

امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتدا میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں شہید ہوئے:

  1. سوار بن منعم ہمدانی (زیارت رجبیہ میں ان کا نام "سوار بن ابي عمير نہمی‏" ہے)۔
  2. موقع بن ثمامہ صیداوی (ألمُوَقَّع یا "المُرَقَّع" بن ثمامہ الأسدي)۔

اصحاب جو امام حسین کے بعد شہید ہوئے

امام حسین علیہ السلام کے چار اصحاب آپ(ع) کی شہادت کے بعد جان بحق نوش کرگئے:

  1. سعد بن الحرث اور ان کے بھائی
  2. ابو الحتوف بن الحرث،
  3. سوید بن ابی مطاع جو زخمی ہو گئے تھے،
  4. محمد بن ابی سعید بن عقیل

غدار کوفیوں کا شرمناک کردار

اس دل خراش سانحہ سے قبل بھی کوفیوں کا کردار نہایت ہی شرمناک رہا تھا۔ حضرت علیؓؓ کے دارلخلافہ مدینہ سے کوفہ لے جانے سے ان سازشیوں کو کھل کر کھلنے کا موقع ملا۔ بظاہر یہ سازشی حب علی کا لبادہ اوڑھے رہا کرتے تھے لیکن آپ کی ذات اطہر سے بھی الٹے سیدھے سوالات کرنا ان کا وتیرہ تھا۔ ایک موقع پر ان لوگوں نے حضرت علیؓؓ سے سوال کیا۔ " مولا آپ سے پہلے کے خلفاء کے دور میں امن وامان تھا مگر آپ کے دور میں یہ کیوں عنقا ہے" اس گستاخانہ سوال پر حضرت علیؓؓ نے ان منافقوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ آپ نے فرمایا " اس بے امنی کی بنیادی وجہ یہ ہے کر سابقہ خلفاء کے مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر ہیں آپ جیسے لوگ"۔ ان لوگوں کی ان ہی حرکتوں کے باعث حضرت علیؓ بالآخر اس طبقے سے بے زار رہنے لگے تھے۔ جب حضرت حسنؓؓ نے خلافت سنبھالی تو آپ اپنے والد کے دور میں ان منافقوں کا بغور مشاہدہ کر چکے تھے اسے لیے آپ نے ان کو زیادہ منہ نہ لگایا اور حضرت معاویہ سے صلح کرلی۔ اس صلح سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس صلح سے ان منافقوں کی سازشوں پر پانی پھر رہا تھا اس لیے اس صلح پر بھی حضرت حسنؓ کی ذات گرامی پر اعتراض کرنے لگے۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا " اگر خلافت میرا حق تھا تو یہ میں نے ان (معاویہ) کو بخش دیا اور اگر یہ معاویہ کا حق تھا تو یہ ان تک پہنچ گیا"۔ جن کوفیوں نے امام حسین عليہ السلام کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت تھی ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق 12000 اور دوسری روایت کے مطابق 18000 تھی لیکن جب جنگ کی نوبت آگئی تو ان بے وفا اور دغا باز لوگوں میں سے کسی نے امام حسین عليہ السلام کا ساتھ نہ دیا اور کھڑے تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہم راہ جان بحق نوش فرمایا۔ حسینی آج بھی عزاداری مناتے ہیں اور یزید کے اس سیاہ کارنامے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آ رہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انھوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔[442]

مزید تفصیلات

محرم کے دسویں دن کی صبح، حسین نے اپنی فوج تیار کی، جس میں 32 گھوڑوں اور 40 پیادہ شامل تھے۔ اس نے کور کے بائیں طرف حبیب بن مظہر کے دائیں طرف، زہیر بن قین اور پرچم عباس کے حوالے کیا۔ انھوں نے لکڑیوں کو خیموں کے گرد جمع کرنے اور آگ لگانے کا حکم بھی دیا۔ [443][444] وہ خود اس خیمے میں گیا جس نے اس سے پہلے تیار کیا تھا اور کستوری سے خود کو معطر کیا اور نورہ (منڈوانے والی دوا) اس کو اپنے سر اور جسم پر ملا اور دھویا۔ پھر، ہاتھ میں قرآن لے کر گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے، اس نے خدا سے خوبصورت طور پر دعا کی اور کوفہ کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خدا اس کا ولی ہے اور دین کی حفاظت کرے گا۔ لوگوں کو محمد کے کلام کی یاد دلائی، جنھوں نے اسے اور حسن کو جنت کے نوجوانوں کا مالک اور اس کے کنبے کے مقام کی حیثیت سے پکارا اور ان سے یہ سوچنے کو کہا کہ کیا اس کا قتل جائز ہے یا نہیں؟ اس کے بعد انھوں نے کوفہ کے لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ انھوں پہلے اسے اپنے کے پاس آنے کو کہا اور اس اسلامی سرزمین میں سے کسی کو جانے کی اجازت دی جائے جہاں وہ محفوظ رہے گا۔اور کہا کہ وہ اسلامی سرزمین میں سے کسی ایک کو جانے کی اجازت دیں جہاں وہ محفوظ رہے۔ [445] لیکن اسے دوبارہ بتایا گیا کہ اسے پہلے یزید کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ حسین نے جواب دیا کہ وہ کبھی بھی غلام کی حیثیت سے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ [446] حسین نے برخاستگی کی اور اس گھوڑے کو اس نشان کے طور پر روکنے کا حکم دیا کہ وہ جنگ سے کبھی نہیں بچ سکے گا۔ [447] حر بن یزید ریاحی متاثر ہوا اور حسین کی فوج کے پاس گیا اور کوفیوں پر حسین کے ساتھ خیانت کرنے کا الزام لگایا، جس کا یقینا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور بالآخر حر میدان جنگ میں مارا گیا۔ حسین نے حکم دیا کہ لکڑی اور تنکے کے ڈھیر کو خیموں کے پیچھے کھائی میں جلا دیا جائے تاکہ کسی قسم کے پشت سے حملے سے بچا جاسکے۔ سامنے سے، اسے اپنے حلیفوں کی حمایت حاصل تھی اور وہ جنگ کے خاتمے تک نہیں لڑا تھا۔ [448]

زہیر ابن قین نے کوفہ کے لوگوں سے کہا کہ وہ حسین کی بات سنیں اور اسے قتل نہ کریں۔ لیکن انھوں نے توہین اور دھمکیوں کا جواب دیا [449] اور پھر زہیر نے انھیں کم سے کم حسین [450] کو مارنے سے باز رہنے کو کہا [451] لیکن کوفیوں نے تیر اندازی شروع کردی۔ جنگ شروع ہوئی۔ کوفہ فوج کے دائیں بازو نے عمرو بن حجاج زبیدی کی کمانڈ میں حملہ کیا، لیکن لشکر حسین کی مزاحمت کا سامنا کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ عمرو نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ مبارزہ جنگ (ایک سے ایک کی جنگ) میں لڑنے میں حصہ نہ لیں اور صرف دور سے ہی تیر اندازی کریں۔ کوفہ کی فوج کے بائیں بازو نے شمر کی سربراہی میں حملہ کیا اور بے نتیجہ محاصرہ کیا اور گھڑسواروں کے کمانڈر نے ابن سعد کو ان کی مدد کے لیے پیادہ اور تیر اندازی بھیجنے کو کہا۔ شبث ابن ربعی، جو پہلے علی کا حامی تھا، اب کوفہ کی فوج میں تھا اور ابن زیاد کے پیادہ فوج کی سربراہی میں تھا۔ جب اسے حملہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے کھلے دل سے کہا کہ اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور گھڑسوار اور 500 تیراندازوں نے ایسا کیا۔ لشکر حسین کے گھڑسوار، جس کے گھوڑوں کی ٹانگیں کٹ گئیں تھیں، پیدل لڑنے پر مجبور ہو گئے۔ حسین اور ہاشمی صرف سامنے سے ہی آگے بڑھ سکتے تھے اور ابن سعد نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ ہر طرف سے حسین کے خیموں تک جائیں۔ لیکن حسین کے کچھ حامی خیموں کے درمیان میں چلے گئے اور لڑائی کی اور ضد کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ ابن سعد نے حکم دیا کہ خیموں کو نذر آتش کیا جائے۔ ابتدا میں، اس نے حسین کے حق میں کام کیا، کیونکہ آگ عمر بن سعد کے لشکریوں کو داخل ہونے سے روکتی تھی۔ شمر حسین کی عورتوں کے خیموں میں گیا اور خیموں کو جلا دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے سرزنش کی، لیکن وہ شرمندہ ہو گیا اور ہار مان گیا۔ [452][453] ایک حملے میں، ابن زیاد کے دستوں نے حسین کے خیموں کو آگ لگا دی، جس سے ابن زیاد کے دستوں کو پیش قدمی کرنے سے روک دیا گیا۔ [454]

ظہر کے وقت، حسین اور اس کے ساتھیوں نے نماز خوف کی شکل میں دوپہر کی نماز ادا کی۔ [455][456] ظہر کے بعد، حسین کی فوجوں کا بھاری محاصرہ کیا گیا۔ اس کے سامنے حسین کے سپاہی مارے گئے اور ہاشمیوں کی ہلاکت شروع ہو گئی، جو اس وقت تک میدان جنگ میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ [457] مارا جانے والا پہلا ہاشمی حسین کا بیٹا علی اکبر تھا۔ [458][459] پھر مسلم ابن عقیل کے بیٹے، عبد اللہ ابن جعفر کے بیٹے، عقیل اور قاسم ابن حسن شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ قاسم جوان اور خوبصورت تھا اور شدید زخمی ہو گیا تھا اور اس نے اپنے چچا حسین سے مدد کی درخواست کی تھی۔ حسین غصے سے کھڑا ہوا اور اپنی تلوار سے قاسم کے حملہ آور کو مارا۔ وہ شخص ابن زیاد کے دستوں کے گھوڑوں کے سموں کی زد میں آگیا اور اسے روند ڈالا گیا۔ جب گھوڑوں کے کھروں سے اٹھی دھول چھٹ گئی، حسین نمودار ہوا، قاسم کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر اس کے قاتلوں کو لعنت بھیج رہا تھا۔ حسین قاسم کی بے جان لاش کو اپنے خیموں میں لے گیا اور دوسرے شہداء کے پاس رکھ دیا۔ [460]

Thumb
تل زینبیہ

طبری اور بلاذری میں عباس کی ہلاکت کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ یہ صرف ذکر ہے کہ حسین، جن پر پیاس نے غلبہ پایا، فرات کی طرف گئے، لیکن ابن زیاد کی فوج کا سامنا ہوا جس نے اسے روکا اور انھوں نے خدا سے ان لوگوں کی پیاس بجھانے کی درخواست کی جنھوں نے اسے اپنے مقصد تک پہنچنے سے روکا۔ اس کی دعا کا جواب دیا گیا۔ اس کے منہ اور جبڑے میں مارا گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں ان دو جکہوں سے بہتا ہوا خون اکٹھا کیا اور اسے آسمان پر چھڑک دیا اور خدا سے اس تکلیف کے بارے میں شکایت کی جو اس کے نبی کی بیٹی کے بیٹے کو ہوئی ہے۔ کربلا میں عباس کے قتل کے بارے میں دقیقی کی روایتیں ہیں، جن کا تعلق شیخ مفید نے حسین کے بارے میں نقل کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حسین اور عباس دریائے فرات کے کنارے آگے بڑھے، لیکن عباس حسین سے الگ ہو گئے اور دشمن نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ وہ بہادری سے لڑا اور اسی جگہ مارا گیا جہاں آج اس کا مقبرہ ہے۔ [461]

اس وقت، ابن زیاد کی فوجیں حسین کے بہت قریب تھیں، لیکن کسی نے بھی اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ [462] یہاں تک کہ مالک ابن نصیر کنی نے حسین کے سر پر مارا [463] اور اس کی کلاہ خون سے بھری ہوئی تھی۔ جب حسین نے اپنی کلاہ کو قلنسوہ سے بدلا اور سر کو پگڑی سے ڈھانپ لیا، تو کندی کے آدمی نے اس کی چادر کو لوٹ لیا۔ لیکن اس چادر نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ کیوں کہ اس کے بعد وہ مسلسل غریب رہا اور ذلت کی زندگی میں رہا۔ ان لمحوں کا ایک اور افسوسناک حصہ اس بچے کی ہلاکت ہے جسے حسین نے گھٹنوں کے بل رکھ دیا تھا۔ یعقوبی کے مطابق یہ بچہ شیرخوار تھا۔ ایک تیر نے بچے کی گردن پھاڑ دی اور حسین نے اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں بچے کا خون اکٹھا کیا اور زمین پر پھینکا اور بدکاروں کے لیے خدا کے قہر کی دعا کی۔ [464]

شمر ایک فوج کے ساتھ حسین کے پاس گیا، لیکن اس پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کی اور ان دونوں کے درمیان میں صرف زبانی تنازع ہوا۔ حسین نے جنگ کے لیے تیار ہوا۔ اس وقت حسین کی عمر 55 سال تھی اور اپنی عمر کی وجہ سے وہ مسلسل لڑ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو حسین کے راستے میں ڈالا اس نے وہ بات نہیں سنی جو حسین اور زینب نے خیموں میں واپس جانے کو کہا تھا۔ بالآخر اس نے اپنا ہاتھ ایک تلوار کے سامنے رکھا جو تلوار کے زور سے منقطع ہو گیا تھا اور حسین نے اپنے باپ دادا کو جنت میں دیکھنے کا وعدہ کیا اور لڑکے کے درد کو دور کرنے کی کوشش کی۔ حسین کے ساتھیوں میں سے کوئی تین یا چار زیادہ نہیں تھے اور حسین نے ابن زیاد کی فوج پر حملہ کیا۔ حسین نے اپنی موت کے بعد صحرا میں برہنہ رہ جانے کے خوف سے کئی کپڑے پہنے۔ لیکن اس کے مارے جانے کے بعد اس نے وہ سارے کپڑے لوٹ لیے اور اس کا جسم برہنہ کربلا میں چھوڑ دیا گیا۔ ابن سعد قریب پہنچے اور زینب نے اس سے کہا: "اے عمر بن سعد، کیا ابا عبد اللہ کو قتل کیا جا رہا ہے اور آپ ابھی کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہیں؟" ابن سعد کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حسین نے بہادری سے جنگ لڑی اور یعقوبی اور متعدد دوسرے شیعہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے یہاں تک کہ درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا۔ لیکن کچھ دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہ ابن زیاد کے سپاہی اگر چاہتے تو حسین کو مار سکتے تھے۔ [465] جب حسین پانی پینے فرات کے لیے جا رہے تھے تو اسے ٹھوڑی یا گلے میں تیر لگا۔ [466] آخر میں، اگرچہ آخری بار خدا کے انتقام سے دشمنوں کو خوف دلایا، لیکن اس کے سر اور بازو پر ضرب لگی اور وہ زمین پر گر گیا۔ سنان ابن انس عمرو نخعی نے خولی ابن یزید اصبحی کو حسین کا سر کاٹنے کا حکم دیا، لیکن وہ لرز اٹھا اور ایسا نہ کرسکا۔ سنان نے حسین کو ایک بار پھر مارا اور اس کا سر کاٹ دیا اور اسے ابن زیاد کے پاس سر لے جانے کے لیے خولی کو دے دیا۔ [467]

اہل بیت کی شام کو روانگی

حضرت امام حسین عليہ السلام کی شہادت کے بعد اہل بیت اطہر کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلہ ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ حضرت امام حسین عليہ السلام کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا:

ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو۔ اللہ تعالٰیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے

یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہ سن کر ابن زیاد کے غضب کی کوئی حد نہ رہی بولا۔ ’’اللہ تعالٰیٰ دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردان اڑا دیتا۔ ‘‘ یہ دیکھ کر زید بن ارقم مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ گئے:

اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے فاطمہ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے

کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین عليہ السلام کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ وہاں یزید نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔

جنگ کے بعد کے واقعات

دس افراد نے بے حرمتی کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر حسین کے بے جان جسم پر گھوڑے دوڑائے۔ ابن سعد میدان جنگ سے رخصت ہونے کے بعد، غاضریہ گاؤں کے اسدیوں نے دوسرے مقتول کے ساتھ حسین کی لاش کو اسی جگہ دفن کیا جہاں قتل ہوا تھا۔ [468]

جنگ ختم ہو گئی اور ابن زیاد کے فوجیوں نے حسین کے کپڑے، تلوار اور فرنیچر، ٹینری اور یمانی لباس، نیز خواتین کے زیورات اور خیمے لوٹ لیے۔ شمر علی بن حسین کو مارنا چاہتا تھا، جو ایک خیمے میں بیمار تھا۔ لیکن ابن سعد نے اسے روکا اور کسی کو بھی اس کے خیمے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ [469] ان کی وفات کے وقت حسین کی عمر 56 سال اور پانچ ماہ، 57 سال اور پانچ ماہ یا 58 سال تھی۔ عاشورہ جمعہ، ہفتہ، اتوار یا پیر کے نام سے جانا جاتا ہے، جن میں جمعہ زیادہ درست لگتا ہے۔ ابوالفرج اصفہانی کے ذریعہ پیر کو کیلنڈر کے لحاظ سے مسترد کر دیا گیا ہے۔ 10 محرم 61 کے علاوہ، صفر کے مہینے میں یا سن 60 میں، حسین کی وفات کی تاریخ کا بھی ذکر ہے۔ [470]

جنگ کے بعد، حسین کے کاروان کے زندہ بچ جانے والے اور مقتولین کے سروں کو پہلے ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا، جس نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا۔ [471] پھر ان سروں کو دمشق لے جایا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا اسلام میں، ولیری کا خیال ہے کہ ابن زیاد اور یزید کا سر حسین کے بارے میں مختلف رویہ تھا۔ ابن زیاد نے دانتوں پر مارتے ہوئے اور اس کے کچھ دانت توڑ کر حسین کی توہین کی۔ لیکن بیشتر روایات کے مطابق، یزید نے حسین کے ساتھ عزت کی نگاہ سے دیکھا اور ابن زیاد کے حسین کو قتل کرنے میں جلد بازی پر افسوس کا اظہار کیا۔ اتنا کہ اس نے سُمَیّہ کے بیٹے پر لعنت بھیجی۔ یزید نے اعتراف کیا کہ اگر وہ میرے پاس آتا تو وہ حسین کو معاف کر دیتا۔ ہاشمی خواتین اور بچوں کو کوفہ اور دمشق لے جایا گیا۔ یزید نے پہلے ان کے ساتھ سختی کا مظاہرہ کیا، جس کا علی ابن حسین اور زینب نے اسی طرح کا جواب دیا۔ لیکن آخر میں، یزید نے نرم سلوک کیا۔ یزید کی خواتین نے حسین اور مرنے والوں کے لیے گریہ کیا۔ یزید نے انھیں کربلا میں ہاشمی خواتین سے چوری شدہ چیزوں کی تلافی کے لیے جائداد دی۔ علی ابن حسین قتل سے بچ گئے اور یزید نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا اور کچھ دن بعد ہاشمی خواتین اور قابل اعتماد محافظوں کے ساتھ مدینہ واپس آگیا۔ [472]

بنیادی ذرائع کی روایات عام طور پر ابن زیاد پر حسین کے قتل کا الزام لگاتے ہیں اور یزید کو بری کردیتے ہیں۔ ولیفریڈ مڈلنگ لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے حسین کے قتل کا لالچ اس بات کی وجہ سے ظاہر کیا ہے کہ وہ گھوڑوں کے ذریعہ حسین کے جسم کو روندنے کے بارے میں قسم کھاتا ہے اور یہ شدید ناراضی معاویہ کے زید ابن ابیہ (ابن زیاد کے والد) کے خطاب کے خلاف معاویہ کے احتجاج سے ہوئی۔ ولفریڈ مڈلنگ کا خیال ہے کہ یزید بنیادی طور پر حسین کے قتل کا ذمہ دار تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگرچہ عارضی طور پر ہتھیار ڈال دیے تب بھی، یزید کی خلافت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہوگا اور اگرچہ وہ خفیہ طور پر حسین کو قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ اس خواہش کا اظہار مسلمان خلیفہ کی حیثیت سے نہیں کرسکتا تھا۔ ابن زیاد کی حسین سے شدید نفرت سے آگاہی، اس نے انھیں ایک خط میں متنبہ کیا ہے کہ اگر حسین اپنے کام میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ابن زیاد اپنے آبا و اجداد کی غلامی میں واپس آجائے گا۔ یزید نے اپنے خط میں ابن زیاد کو مسلم ابن عقیل کو قتل کر دینے کا سختی سے مشورہ دیا اور ابن زیاد نے بے تابی سے کام کیا۔ یزید نے بعد میں ابن زیاد کو عوام کے سامنے حسین کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس سے وہ ناراض ہوا اور اس نے مکہ میں عبداللہ ابن زبیر پر حملہ کرنے کے یزید کے حکم سے انکار کر دیا۔ [473]

قتل حسین کے بعد

حسین کی طرف سے پچھتر یا بہتر افراد شہید ہوئے، جن میں سے تقریباً بیس علی اب کے والد ابو طالب کی اولاد تھے۔ اس میں حسین کے دو بیٹے، اس کے چھ بھائی، حسن ابن علی کے تین بیٹے، جعفر ابن ابی طالب کے تین بیٹے اور عقیل ابن ابی طالب کے تین بیٹے اور تین پوتے شامل تھے۔ [9] جنگ کے بعد، حسین کے کپڑے چھین لیے گئے اور اس کی تلوار، جوتے اور سامان لے لیا گیا۔ خواتین کے زیورات اور پوشاک بھی قبضے میں لے لیے گئے۔ شمر حسین کے اکلوتے بچ جانے والے بیٹے علی زین العابدین کو قتل کرنا چاہتا تھا، جو بیماری کی وجہ سے لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، لیکن ابن سعد نے اسے روکا تھا۔ [59] [57] [59] [57] حسین کے جسم پر ساٹھ سے زیادہ زخم آنے کی اطلاعات ہیں، [57] پھر گھوڑوں کے ساتھ روند ڈالا گیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے ابن زیاد نے ہدایت کی تھی۔ [9] حسین کے ساتھیوں کی لاشیں منقطع ہوگئیں۔ [57] ابن سعد کی فوج میں 88 ہلاک ہوئے تھے، جنہیں اس کے جانے سے پہلے دفن کر دیا گیا تھا۔ [56] ان کے جانے کے بعد، قریبی گاؤں غاضریا سے بنو اسد قبیلے کے افراد نے، حسین کے ساتھیوں کی سر کے بغیر لاشیں دفن کیں۔ [59]

مرنے والوں کے سروں سمیت حسین کے اہل خانہ کو ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا۔ [57] اس نے چھڑی سے حسین کا منہ کھولا اور علی زین العابدین کو مارنے کا ارادہ کیا، لیکن حسین کی بہن زینب کی درخواست کے بعد اسے بچا لیا۔ [56] اس کے بعد ان کے سر اور اہل خانہ کو یزید کے پاس بھیجا گیا، [57] جنھوں نے چھڑی سے حسین کا منہ بھی کھولا۔ مؤرخ ہنری لیمنس نے تجویز کیا ہے کہ ابن زیاد کے بارے میں اس رپورٹ کی نقل ہے۔ [23] یزید عورتوں اور علی زین العابدین کے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا، [57] اور ابن زیاد پر حسان کو قتل کرنے پر لعنت بھیجی، اگر یہ کہتے کہ وہ وہاں ہوتا تو اسے بچا دیتا۔ [56] [23] ان کے ایک درباری نے شادی میں حسینین کے اہل خانہ سے ایک اسیر عورت کا ہاتھ مانگا، جس کے نتیجے میں یزید اور زینب کے مابین گرما گرمی ہوئی۔ [56] [23] [56] [23] یزید کے گھرانے کی خواتین نے اسیر خواتین کے ساتھ ان کے ماتم میں شہیدوں کا ماتم کیا۔ کچھ دن کے بعد، ان خواتین کو کربلا میں لوٹے گئے سامان کی تلافی کی گئی اور انھیں واپس مدینہ بھیج دیا گیا۔ [59]

Thumb
معاذ الملک حسینیہ، کرمانشاہ، ایران کے اندر ٹائل ورک، کرمانشاہ، ایران، نقشہ کشی علی زین امام العابدین، زینب اور دیگر قیدیوں نے یزید کے دربار میں لے جایا جا رہا ہے

کربلا کے بعد سیاسی انقلابات

جنگ کربلا اور حسین کی موت امویوں کے خلاف دوسرا فتنہ شروع ہونے کا اشارہ ہے۔ [حوالہ درکار]

ابن الزبیر کی بغاوت

حسین کی موت کے بعد، یزید کو عبد اللہ ابن الزبیر کی طرف سے ان کی حکمرانی کی بڑھتی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ابن الزبیر نے خفیہ طور پر مکہ مکرمہ میں حامیوں کی بھرتی شروع کردی، [20] overt [20] جب اس نے کسی شوری کا مطالبہ کرتے ہوئے نیا خلیفہ منتخب کیا۔ [18] ابن الزبیر کا اثر مدینہ پہنچ گیا، جہاں شہریوں کو پہلے ہی اموی حکومت اور معاویہ کے زرعی منصوبوں سے مایوسی ہوئی تھی، [18] جس میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے ان سے زمینیں ضبط کرنا بھی شامل تھیں۔ [8] یزید نے مدینہ کے قابل افراد کو دمشق میں مدعو کیا اور انھیں تحائف کے ذریعے فتح کرنے کی کوشش کی۔ ان کا مقابلہ نہ کیا گیا اور مدینہ واپس آنے پر یزید کے شاہانہ طرز زندگی اور ناپاک طرز عمل کی داستانیں بیان کیں۔ مدینیوں نے، ایک معروف ساتھی محمد کے بیٹے عبد اللہ ابن حنظلہ کی سربراہی میں، یزید کی طرف سے ان کی بیعت ترک کردی اور شہر میں مقیم گورنر اور امویوں کو بے دخل کر دیا۔ یزید نے تجربہ کار کمانڈر مسلم ابن عقبہ کے تحت 12،000 مضبوط فوج کو حجاز پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ناکام مذاکرات کے بعد، جنگ حرہ میں و دینہ والوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس شہر کو تین دن تک لوٹا گیا۔ باغیوں کو اپنی بیعت کی تجدید پر مجبور کرنے کے بعد، شامی فوج نے مکہ کا محاصرہ کر لیا۔ [20] [8] [20] [8] نومبر 683 میں یزید کی موت کے بعد، فوج شام واپس چلی گئی اور ابن الزبیر نے خود کو خلیفہ قرار دے دیا، جس نے خلافت میں وسیع پیمانے پر پزیرائی حاصل کی۔ [21] اس کے باوجود مختار ثقفی نے اپنے سابق اتحادی، ابن زبیر کے گورنر سے کوفہ اور عراق کا زیادہ علاقہ لے لیا، [474] اور خوارج نے بصرہ، فارس اور عرب ان کی اتھارٹی کمزور کیا۔ [21] [18] [21] [18] اگرچہ زبیریوں نے مختار کو شکست دی، لیکن 685 میں شام میں اموی خلیفہ بننے والے عبد الملک بن مروان کی فوجوں نے 692 میں ابن الزبیر کو شکست دے کر ہلاک کیا۔ ابن زبیر کی شکست نے بنو امیہ کی خلافت پر حکمرانی کو بحال کیا۔ [20] [8]

توابین بغاوت

کوفہ میں شیعان علی کے چند معاون حامیوں نے حسین کو بغاوت کی دعوت دینے کے بعد انھیں ترک کرنے کا مجرم سمجھا۔ اس بات کا کفارہ دینے کے لیے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار سمجھتے ہیں، انھوں نے امویوں سے لڑنے کے لیے، سلیمان ابن صرد، محمد کے ایک صحابی، کے تحت، توابینکے نام سے ایک تحریک شروع کی۔ جب تک عراق امویوں کے ہاتھ میں تھا، تحریک زیر زمین رہی۔ نومبر 683 میں یزید کی ہلاکت کے بعد، اہل عراق نے امیہ کے گورنر ابن زیاد کو معزول کر دیا۔ توابین نے لوگوں سے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کے لیے، حسین کی موت کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ [57] کسی بھی سیاسی پروگرام کی کمی کے سبب، انھوں نے امویوں کو سزا دینے یا جدوجہد میں خود کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کا نعرہ تھا "حسین کا بدلہ"۔ [475] مختار الثقفی، کوفہ کے ایک اور اہم حامی، نے شہر پر قبضہ کرنے کے لیے منظم تحریک کے حق میں توابین کو اس کوشش سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن ابن صرد رسول کے صحابی اور علی کے قدیم حلیف کے طور پر، اپنے بیشتر پیروکاروں کو مختار کی تجویز کو قبول کرنے سے روکتا تھا۔ [474] اگرچہ لڑائی کے لیے 16،000 مردوں نے اندراج کیا، لیکن صرف 4،000 ہی جمع ہوئے۔، توابین کربلا میں حسین کی قبر پر ایک دن کے سوگ کے بعد، امویوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ موجودہ شمالی شام میں عین الوردا کی تین روزہ جنگ میں جنوری 685 میں زیادہ تر توابین، بشمول ابن صرد، مارے گئے۔ کچھ فرار ہوکر کوفہ گئے اور مختار کے ساتھ شامل ہو گئے۔ [57]

مختار الثقفی کی بغاوت

مختار کوفہ کے ابتدائی آباد کار تھے، مسلمانوں کے ابتدائی فتح کے بعد عراق پہنچے تھے۔ [18] اس نے مسلم ابن عقیل کی ناکام بغاوت میں حصہ لیا تھا، جس کے لیے اسے ابن زیاد نے عبد اللہ ابن عمر کی مداخلت کے بعد رہا ہونے سے پہلے قید کر دیا تھا۔ مختار اس کے بعد مکہ چلا گیا اور ابن الزبیر کے ساتھ مختصر وقت کا اتحاد ہوا۔ یزید کی موت کے بعد، وہ کوفہ واپس آگئے جہاں اس نے حسین کے قاتلوں کے خلاف انتقام لینے اور حسین کے سوتیلے بھائی محمد ابن الحنفیہ کے نام پر ایک خلافت کے قیام کی حمایت کی اور اپنے آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیا۔ [58] توابین کی شکست نے کوفی نواز شیعان علی کی قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اکتوبر 685 میں مختار اور اس کے حامیوں، جن میں سے ایک بڑی تعداد مقامی اسلام قبول کرنے والوں ( موالیوں ) پر مشتمل تھی، نے ابن الزبیر کے گورنر کو معزول کر دیا اور کوفہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کا کنٹرول زیادہ تر عراق اور شمال مغربی ایران کے علاقوں تک پھیل گیا۔ [474] معاویہ کے بارے میں ان کے اس طرز عمل نے، جسے انھوں نے بہت سے احسانات اور عربوں کے ساتھ مساوی حیثیت سے نوازا تھا، عدم مطمعن عرب اشرافیہ کے ذریعہ بغاوت کو اکسایا۔ بغاوت کو کچلنے کے بعد، مختار نے ابن سعد اور شمر سمیت حسین کے قتل میں ملوث کوفیوں کو قتل کیا، جبکہ ہزاروں افراد بصرہ فرار ہو گئے۔ [8] اس کے بعد اس نے اپنے جنرل ابراہیم ابن الاشتر کو ابن زیاد کی سربراہی میں قریب پہنچنے والی امیہ کی فوج سے لڑنے کے لیے بھیجا، جسے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اگست 686 میں امیہ کی فوج کو خضیر کی لڑائی میں کھڑا کیا گیا اور ابن زیاد کو قتل کر دیا گیا۔ [21] دریں اثنا، مختار کے ابن الزبیر کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے اور بصرہ میں کوفیوں کے پناہ گزینوں نے شہر کے گورنر اور عبد اللہ ابن الزبیر کے چھوٹے بھائی مصعب بن الزبیر کو کوفہ پر حملہ کرنے پر راضی کیا۔ کھلی جنگ میں شکست کا سامنا کرتے ہوئے، مختار اور اس کے باقی حامیوں نے کوفہ کے محل میں پناہ لے لی اور اسے مصعب نے گھیر لیا۔ چار ماہ بعد، اپریل 687 میں، مختار کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس کے تقریباً6000سے 8000 حامیوں کو قتل کر دیا گیا۔ [474] محسن ذاکری کے مطابق موالیوں کے تئیں مختار کا رویہ اس کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک تھا، کوفہ اس طرح کے "انقلابی اقدامات" کے لیے تیار نہیں تھا۔ [476] مختار کے حامی اس کے انقلاب کے خاتمے سے بچ گئے اور ایک فرقے میں تبدیل ہوگئے جس کو کیسانیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہاشمیہ، جو کیسانوں کا ایک جداگانہ گروہ تھا، بعد میں اسے عباسیوں نے سنبھال لیا اور آخر کار 750 میں امویوں کا تختہ الٹ دیا۔ [21]

کربلا میں شہید

عمر بن سعد نے حسین بن علی اور اس کے ساتھیوں کو محاصرہ کرنے اور پانی ان کے لیے بند کرنے کا حکم دیا۔ آخر کار حسین بن علی کو روز عاشورا، 10 محرم سال 61 کو کربلا میں قتل کر دیا گیا اور اس کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے تمام خیموں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پھر، حسین بن علی کے تمام ساتھیوں کے مارے جانے کے بعد، انھوں نے ان کے جسم سے ان کے سر کاٹ ڈالے اور ان سے ڈرا (کچھ ذرائع کے مطابق، صرف علی اصغر اور حر بن ریاحی کے سروں کو ان کے جسم سے نہیں کاٹا گیا) اور عورتوں کو شام بھیجا گیا اور بچوں کو اسیر کر لیا گیا اور ان کی لاشیں صحرائے کربلا میں چھوڑ دی گئیں یہاں تک کہ انھیں تین دن بعد بنی اسد قبیلے نے دفن کر دیا۔

کربلا میں بنی ہاشم کے شہید اور بچ جانے والے

ایک روایت کے مطابق، حسین کے ساتھ شہید ہونے والوں کی کل تعداد 70 یا 72 تھی، جن میں کم از کم 20 افراد ابو طالب کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے بنی ہاشم تھے۔ بنی ہاشم میں سب سے پہلے علی اکبر کو قتل کیا گیا تھا، جب اس وقت کے خلیفہ یزید کی والدہ کی کزن کا بیٹا ہوا تھا، جس کے لیے اس کے پاس سلامتی کا ایک امان نامہ لایا گیا تھا، لیکن اس کی والدین کی سرپرستی اور محمد سے اس کا رشتہ زیادہ تھا اور اس نے اس پناہ کو قبول نہیں کیا تھا۔ ولفریڈ مڈلنگ کا خیال ہے کہ حسین کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کو گھٹنے میں تیر لگا تھا اور میڈلنگ، دوسرے ذرائع کے برعکس، شبہ ہے کہ بچہ شیرخوار ہے۔ اس لڑائی میں حسین کے چھ بھائی مارے گئے تھے، ان میں سے چار بنی کلب قبیلے کے حظام کی بیٹی ام البنین کے بیٹے تھے۔ ام البنین کا بھتیجا عبد اللہ ابن ابی محل ابن حظام، ابن زیاد کی طرف سے حسین کے چاروں بھائیوں کو ایک امان نامہ لایا، جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔ اس واقعے میں حسن کے تین بیٹے، عبد اللہ ابن جعفر کے تین بیٹے ، اور عقیل بن ابی طالب کے تین بیٹے اور تین پوتے شہید ہوئے۔ ابن سعد بغدادی نے بنی ہاشم کے دوسرے مقتول کا ذکر کیا، جو ابو لہب کی نسل کا بیٹا اور ابو سفیان ابن حارث ابن عبد المطلب کی نسل کا بیٹا تھا۔ ابن سعد نے ان باقی ماندگان میں حسن کے دو بیٹے، عبد اللہ ابن جعفر کے ایک بیٹے اور عقیل کے ایک بیٹے کا نام لیا۔ ابوالفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ حسن کے تین بیٹے زندہ بچ گئے، جن میں حسن بن حسن شدید زخمی ہوا۔ علی ابن حسین بیمار تھے اور وہ لڑ نہیں سکتے تھے۔ [477]

جنگ میں مارے گئے حسین بن علی کے متعدد رشتہ داروں کے نام درج ذیل ہیں:

فرزندان علی ابن ابی طالب
فرزندان حسن مجتبیٰ
فرزندان حسین بن علی
عبد اللہ بن جعفر اور زینب کے فرزند

بنی ہاشم

شہدائے کربلا میں بنی ہاشم کے سب شہداء حضرت ابوطالب کی نسل سے تھے۔

علی بن ابی طالب کے بیٹے

حسن بن علی کے بیٹے

( حسن مثنیٰ کربلا میں شدید زخمی ہوئے تھے مگر شہید نہیں ہوئے۔)

حسین بن علی کے بیٹے

عبداللہ بن جعفر و زینب بنت علی کے بیٹے

عقیل ابن ابی طالب کی اولاد (بیٹے اور پوتے)

حسین بن علی کے اصحاب

الف

ب

ج

ح

ر

ز

س

ش

ض

ع

ق

ک

م

ن

و

ہ

ی

امام حسین(ع) کی سپاہ کا ڈھانچہ بلحاظ قبائل

ایک معاصر محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلق بنو ہاشم اور دوسرے قبائل سے ہے:

  1. ہاشمی اور ان کے موالی (مع مسلم بن عقیل): 26 افراد،
  2. اسدی : 7 افراد،
  3. ہَمْدانی: 14 افراد،
  4. مَذْحِجی: 8 افراد،
  5. انصاری: 7 افراد،
  6. بَجَلی اور خثعمی: 4 افراد،
  7. کندی: 5 افراد،
  8. غِفاری: 3 افراد،
  9. کلبی: 3 افراد،
  10. اَزْدی: 7 افراد،
  11. [[بنو عبدیان: 7 افراد،
  12. تیمی: 7 افراد،
  13. طائی: 2 افراد،
  14. تغلبی : 5 افراد،
  15. جُہَنی: 3 افراد،
  16. تمیمی: 2 افراد،
  17. متفرقہ: 3 افراد۔[478]

پہلے حملے کے شہدا

بعض مآخذوں نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کے ابتدائی حملے میں امام حسین علیہ السلام کے 50 ساتھیوں نے جان بحق نوش کیا۔[479]

اصحاب جو امام حسین(ع) کے بعد شہید ہوئے

امام حسین علیہ السلام کے چار اصحاب آپ(ع) کی شہادت کے بعد جان بحق نوش کرگئے:

  1. سعد بن الحرث اور ان کے بھائی
  2. ابو الحتوف بن الحرث،
  3. سوید بن ابی مطاع جو زخمی ہو گئے تھے،
  4. محمد بن ابی سعید بن عقیل

سروں کی تعداد

یزید کے لشکر کے ہاتھوں شہدائے کربلا کے جسموں سے جدا کیے جانے والے سروں کے تعداد کے بارے میں بھی مؤرخین کا موقف یکسان نہیں ہے:

  1. بلاذری، دینوری، طبری، شیخ مفید، خوارزمی اور ابن نما، نے سروں کی تعداد (امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو شامل کیے بغیر) 72 لکھی ہے۔۔[480][481]۔[482][483]۔[484][485] البتہ طبری[486] اور خوارزمی[487] نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے تن سے جدا ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے اور اگلے صفحے میں لکھا ہے کہ "باقی شہداء کے سر قلم کر دیے گئے"، چنانچہ ظاہر ہے کہ "باقی شہداء" سے سید الشہداء علیہ السلام کے سوا دوسرے شہداء مراد ہیں اور اس اعداد و شمار کے مطابق شہداء کے قلم ہونے والے سروں کی تعداد 73 بنتی ہے۔ دینوری، شیخ مفید اور ابن نما کے اقوال بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں کہ سروں کی تعداد 73 تھی۔
  2. دینوری نے کہا ہے کہ [488] قبائل کے درمیان میں سروں کی تقسیم کے لحاظ سے سروں کی تعداد 75 تھی اور بلاذری[489] ابو مخنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شہداء (اور ان کے قلم شدہ سروں) کی تعداد 82 تھی۔
  3. سبط ابن جوزی ہشام کلبی کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ قلم شدہ سروں کی تعداد 92 تھی۔[490]
  4. سید ابن طاؤس، [491] محمد بن ابی طالب موسوی[492] اور مجلسی[493] کے مطابق، سروں کی تعداد 78 تھی۔
  5. طبری، [494] اور ابن شہر آشوب[495] ابو مخنف اور ابن صباغ مالکی[496] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوفہ میں یزید کے والی ابن زیاد کے پاس لائے جانے والے سروں کی تعداد 70 تھی۔

مندرجہ بالا اقوال میں، اول الذکر قول اپنے قدیم راویوں کے پیش نظر زیادہ معتبر ہے: سروں کی تعداد 72.

قبائل کو ملنے والے سرہائے مبارک

شہداء کے سروں کو لشکر یزید میں شامل قبائل میں ـ ذیل کی ترتیب سے ـ تقسیم کیا گیا:

وہ شہداء کے سروں کو غنیمت کے عنوان سے (!) لیتے تھے تا کہ انھیں ابن زیاد کی تحویل میں دے کر انعام حاصل کریں۔

موالی جو شہید ہوئے

فضیل بن زبیر کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے 3 موالی۔[497] کربلا میں شہید ہوئے، [498] لیکن ابن سعد[499] اور طبری[500] کے مطابق ان کی تعداد 2 تھی۔ فضیل نے لکھا ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کا ایک غلام بھی شہدائے کربلا میں شامل تھا۔[501]

ابن شہر آشوب اس سلسلے میں لکھتے ہیں: کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے 10 اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے 2 موالی شہید ہوئے۔[502]

سماوی کے مطابق شہید ہونے والے موالی کی تعداد 15 تھی۔[503]

کربلا میں شہید خواتین

کربلا میں ایک خاتون بھی ابا عبداللہ(ع) کے رکاب میں شہید ہوئیں۔ اس خاتون کا نام ام وہب تھا اور وہ شہید کربلا وَہْب بن وَہْب کی والدہ اور عبداللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ تھیں۔

امام کے زخمی اصحاب

الف ـ وہ واحد زخمی جو میدان جنگ سے زندہ بچ کر نکلے، مؤرخین کے مطابق وہ حسن بن حسن بن علی(ع) (حسن مُثَنّٰی) تھے۔[504][505]۔[506][507]۔[508][509]

ب ـ وہ 3 زخمی جو شہید ہوئے:

  1. سوار بن حمیر جابری، [510]
  2. عمرو بن عبداللہ ہَمْدانی جنُدُعی، [511]
  3. مُرَقَّع بن ثمامہ اسدی، [512]۔[513] لیکن طبری۔[514] اور بلاذری نے دوسری نقل کے ضمن میں۔[515] نیز دینوری نے[516] لکھا ہے کہ مرقع کے قبیلے کے ایک فرد نے ان کے لیے امان نامہ حاصل کیا اور وہ اپنے قبیلے سے جاملے اور ابن زیادہ نے انھیں زرارہ جلا وطن کیا لیکن ان کی شہادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔

جنگ کے بعد

Thumb
یزید بن معاویہ کی پارلیمنٹ میں حسین کے کنبہ کے داخلے کے منظر کا ٹائلنگ، جس میں کرمان شاہ کے معاون الملک کے تکیہ کی ٹائلیں بھی شامل ہیں۔

واقعہ کربلا میں حسین بن علی کے ساتھیوں اور کنبہ کے قتل کے بعد، عمر بن سعد نے حکم دیا کہ ان کے سر کاٹ دیے جائیں۔ اس کے بعد، اس نے قبیلوں میں سر تقسیم کر دیے تاکہ وہ ابن زیاد کے قریب ہوجائیں۔ قیس قبیلہ جس کی سربراہی قیس بن اشعث کندی نے کی تھی، کے پاس 13 سر تھے، ہوزن قبیلہ کی سربراہی شمر بن ذی الجوشن نے کی جس کے پاس12 سر تھے، بنی تمیم کے پاس 17 سر اور بنی اسد کے 16 سر اور کوفہ میں داخل ہوئے تھے اور کل 71 کٹے سر تھے۔ [ غیر بنیادی ذریعہ درکار ہے ]

طلوع آفتاب کے وقت، مقتول کے سروں اور اسیروں کا فاقلہ باب الساعات سے اموی مسجد میں داخل ہوئا۔ پھر، یزید کے حکم سے، تمام سروں کو شہر کے دروازوں اور اموی مسجد میں 3 دن لٹکا دیا گیا۔ چالیس دن بعد، چالیسویں دن، علی ابن حسین نے یزید کی رضامندی حاصل کی کہ وہ ان کے سروں کو جسموں کے ساتھ ملحق کرے گا اور حسین اور دوسرے مقتول کے سروں کو کربلا لے گئے اور ان کے اجسام کے ساتھ ملحق کیا۔

اسی دوران میں، انھوں نے بابا الصغیر میں کئی سر دفن کر دیے، جو یہ ہیں:

  1. سر عباس بن علی
  2. سر علی اکبر
  3. سر حبیب بن مظہر

اسیران کربلا کوفہ اور شام میں

عاشورہ کے دن شہادت امام حسین کے بعد امام کے پس ماندگان جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے، بالغ مرد صرف امام زین العابدین تھے کو قید کر لیا گیا۔ اسیران کربلا کو عمر سعد کے حکم پر 11 محرم کی رات کربلا میں ہی رکھا گیا اور گیارہ محرم کے دن ظہر کے بعد انھیں پہلے کوفہ ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ پھر عبیداللہ بن زیاد نے شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک دستہ کے ہمراہ شام میں دربار یزید کی طرف روانہ کیا۔ واقعہ عاشورا کے بعد سپاہ عمر سعد نے اپنے مقتولین یازدہم محرم کو دفن کیا اور امام حسین کے اہل بیت لے کر کوفہ روانہ ہوا۔[517]

عمر سعد کے سپاہیوں نے اہل بیت کی خواتین کو شہدا کے اجساد کے پاس اس حال سے گزارا کہ نالہ و شیون کے ساتھ ساتھ اپنے چہروں کو پیٹ رہی تھیں۔جیسا کہ قرة بن قیس سے منقول ہے کہ حضرت زینبؑ جب اپنے بھائی کے جسد کے سے گزریں تو انھوں نے اس قدر شدت غم سے گریہ کیا کہ دوست و دشمن اس وقت گریاں ہوئے۔[518] مروی ہے کہ حضرت زینب نے امام حسین کے جسد اطہر کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ جملات کہے:

یا محمداہ، یا محمداہ! صلی علیک ملائکة السماء، ہذا الحسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، یا محمداہ! و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلہ، تسفی علیہا الصبا قال: فابکت واللہ کل عدو و صدیق [519]
ترجمہ: «یامحمدا! وامحمدا! آسمان کے فرشتے تم پر درود سلام بھیجتے ہیں، (لیکن)« یہ حسین دشت میں ہے جس کا بدن خون میں غلطاں اور اس کے اعضائے بدن جدا ہیں! «اے محمد! آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور ان کی مقتول ذریت کو ہوا چھو رہی ہے۔راوی کہتا ہے: خدا کی قسم! یہ نالہ و شون سن کر دوست دشمن نے گریا کیا۔

اسمائے اسرا

اہل بیت اور باقی بچ جانے والے اصحاب امام حسینؑ کے ناموں اور تعداد کے بارے میں مورخین کے اختلاف پایا جاتا ہے، مختلف مصادر میں مذکور اسما: امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام حسین دو بیٹے : محمد و عمر، امام حسنؑ کا بیٹا محمد اور نواسہ زید، [520] اسی طرح حضرت علی بیٹیوں میں سے حضرت زینب، فاطمہ اور ام کلثوم۔[521] امام حسینؑ کی چار بیٹیاں: سکینہ، فاطمہ، رقیہ اور زینب کا بھی مصادر میں تذکرہ آیا ہے۔[522]اسی طرح رباب زوجہ امام حسینؑ[523] اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کربلا کے اسیروں میں موجود تھیں۔[524]

مرد

تاریخ کے قدیم مآخذ کی ورق گردانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعۂ عاشورا کے پسماندگان میں کئی مرد بھی تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

  1. امام سجادعلیہ السلام،
  2. حضرت باقرعلیہ السلام،
  3. عمر بن حسین علیہ ‌السلام، [525]۔[526]
  4. محمد بن حسین بن علی(علیہما السلام)، [527]۔[528]
  5. زید بن حسن، [529]۔[530]
  6. عمرو بن حسن، [531]۔[532][533]۔[534][535]۔[536][537]۔[538] شیخ مفید نے انھیں شہدائے کربلا کے زمرے میں شمار کیا ہے۔[539]
  7. محمد بن عمرو بن حسن، [540]۔[541][542]
  8. جعفر طیار کے دو بیٹے، [543]
  9. عبداللہ بن عباس بن علی (علیہما السلام)، [544]
  10. قاسم بن عبداللہ بن جعفر، [545]
  11. قاسم بن محمد بن جعفر، [546]
  12. محمد بن عقیل اصغر، [547]۔[548][549]
  13. رَباب بنت امرؤ القیس کا غلام عقبہ بن سمعان، [550]۔[551][552]
  14. عبدالرحمن بن عبد رب انصاری کا غلام، [553]
  15. امیرالمؤمنین علیہ السلام کا غلام مسلم بن رباح، [554]
  16. علی بن عثمان مغربی۔[555]

خواتیں

ابن سعد کے مطابق، اہل بیت(ع) کی 6 خواتین، [556]۔[557] قاضی نعمان مغربی کے مطابق 4 خواتین، [558] اور ابو الفرج اصفہانی کے مطابق 3 خواتین[559] یزید کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیٹیاں:

امام حسین بن علی علیہما السلام کی بیٹیاں:

دیگر خواتین:

حضرت زینب بنت علی کا ابن زیاد سے مناظرہ

جب اسیران آل محمدؐ اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھیرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں پہنچا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسین کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پہر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب حقیر لباس میں ملبوس خواتین اور کنیزوں کے حصار میں تھیں اور ناشناختہ طور پر دربار میں آئی اور کسی کونے میں بیٹھ گئی۔

عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: «یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان میں ہے کون ہے؟» زینب نے جواب نہیں دیا۔ عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: «وہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی زینب ہیں۔»

حضرت زینب کا ابن زیاد سے گفتگو
عبيداللہ بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے تمھارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔
زینب: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا (ہماری خاندان سے ہے) اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا اور بدکار ہم نہیں دوسرے ہیں (یعنی تم اور تمھارے پیروکار بدکار ہیں۔) اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔
ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمھارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟
زینب: اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کی مقدر میں اللہ تعالی نے قتل ہونا قرار دیا تھا اور انھوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمھیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمھاری شکایت کرینگے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمھاری ماں روئے!
ابن زیاد: اللہ نے تمھارے نافرمان بھائی حسین، اس کی خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو شفا بخشا۔
زینب: خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، تمھارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمھاری شفا کا باعث ہو تو حتما تم نے شفا پایا ہے۔
ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں: یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمھارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا
زینب: ایک عورت کو سجع اور قافیوں سے کیا کام؟» (یہ سجع کہنے کا کونسا وقت ہے؟)[582]
(خوارزمی، مقتل الحسین، ص47-48)

جناب زینب نے جب کہا: «اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔۔۔» یا «اے ابن مرجانہ تمھاری ماں تم پر روئے» ان جملوں کو سن کر ابن زیاد غصہ ہوااور آپ کو سزا دینا چاہا، توعمرو بن حُرَیث نے کہا: «امیر! یہ ایک خاتون ہے اور خواتین کی باتوں پر انھیں کوئی سزا نہیں دیتا ہے۔

کوفہ اور شام کی طرف حرکت

دشمنوں نے اسیروں کو بے کجاوہ انٹوں پر سوار کیا۔[583] جب اسراء کوفہ میں داخل ہوئے تو لوگ ان کا تماشا دیکھنے جمع ہو گئے تھے در حالیکہ کوفہ کی عورتیں ان پر گریہ کر رہی تھیں۔ خذلم بن ستیر نامی شخص کہتا ہے: اس وقت میں نے علی بن حسینؑ کو دیکھا جس کی گردن میں طوق اور ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے۔[584]

قدیمی مصادر میں اسرائے اہل بیتؑ کے کوفہ میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی دقیق معلومات ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس حوالے سے شیخ مفید کی بعض عبارات موجود ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائے کربلا محرم کی بارہ تاریخ کو کوفے میں داخل ہوئے۔[585]

عمر سعد کے سپاہیوں نے کوفہ کے کوچوں سے گزار کر انھیں قصر عبیداللہ بن زیاد میں لائے۔ حضرت زینب اور عبیداللہ کے درمیان میں سخت گفتگو ہوئی اور عبیداللہ نے امام سجادؑ کے قتل کا حکم صادر کیا[586] لیکن حضرت زینب کے اعتراض کرنے اور عبید اللہ اور حضرت زینب کے درمیان میں تند و تیز لہجے میں گفتگو کے بعد عبید اللہ نے قتل سے صرف نظر کیا۔[587]

اسیران کربلا کی کفہ سے شام روانگی

ابن زیاد نے اسیروں کو محملوں پر اور امام سجاد کو طوق و زنجیر میں جکڑ کر شام روانہ کیا۔ شیعوں کے چوتھے امام، امام سجادؑ اور حضرت علی کی صاحبزادی حضرت زینبؑ ان اسیروں میں اہم ترین شخصیات تھیں۔ ایک نقل کے مطابق مختلف مقامات پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے سامنے حضرت زینب اور امام سجادؑ کے دئے جانے والے خطبے یزید اور بعض دوسرے لوگوں کی پشیمانی کا باعث بنے۔

کوفہ سے شام کا راستہ

ابن زیاد نے کربلا کے اسیروں کو شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک گروہ کی معیت میں شام روانہ کیا۔[588] بعض تاریخی روایات کے مطابق زحر بن قیس بھی ان کے ساتھ تھا۔ [589] کوفہ سے شام تک کے راستے کا دقیق علم نہیں ہے؛ بعض قائل ہیں کہ کوفہ سے شام کے راستے کے درمیان میں موجود امام حسین سے منسوب مقامات کے ذریعے قافلے کے راستے کو مشخص کیا جا سکتا ہے؛ ان میں سے مقام راس الحسین اور امام زین العابدین دمشق میں، ‌[590] حِمص، [591] حماء، [592] بعلبعک، [593] حَجَر[594] اور طُرح۔[595] نیز ایسے مقامات بھی ہیں جو کافی مشہور ہیں؛ جیسے:

  • عراق کے شہر موصل میں مقام راس الحسین: ہروی کے مطابق یہ مقام ساتویں صدی ہجری تک موجود تھا۔[596]
  • ترکی کے شہر نصیبین میں مسجد امام زین العابدینؑ اور مقام راس الحسین : اس وقت یہ شہر ترکی میں موجود ہے۔[597] کہا گیا ہے کہ اس جگہ امام حسینؑ کے سر مبارک کے خون کا اثر یہاں موجود رہا۔[598] ہروی نے اس مقام کو مشہد النقطہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔[599]

سپاہیوں کا برتاؤ

ابن اعثم اور خوارزمی کے بقول عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے اسیران کربلا کو کوفہ سے شام تک پوشش و پردے کے بغیر محملوں پر اس طرح شہر شہر لے کر گئے جس طرح ترک و دیلم کے کافر قیدیوں کو لے جاتے تھے۔[600] شیخ مفید کی منقول روایت کے مطابق امام سجادؑ کو قیدیوں میں پابند غل و زنجیر دیکھا گیا۔[601]

امام سجاد سے منسوب روایات میں ابن زیاد کا قیدیوں سے برتاؤ یوں منقول ہوا ہے: علی بن حسینؑ کو ایک لاغر و نحف اونٹ پر اس حال میں سوار کیا گیا کہ امام حسینؑ کا سر نیزے پر، قیدی عورتیں ان کے پیچھے اور نیزے بردار ان کے اطراف میں موجود تھے۔ اگر امام کی آنکھ سے آنسو جاری جاری ہوتا تو وہ ان کے سر پر نیزے مارتے یہاں کہ اسی حالت میں وہ شام میں داخل ہوئے۔[602]

شام کے راستے کا انتخاب

ابن زیاد نے شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک جماعت اسیروں کے ساتھ شام روانہ کی۔[603] بعض روایات کے مطابق زحر بن قیس بھی ان کے ہمراہ تھا۔[604] اسیروں کو کوفہ سے شام تک کس راستے سے لے جایا گیا اس کا دقیق علم نہیں ہے لیکن بعض معتقد ہیں کہ اس راستے میں امام حسینؑ سے منسوب مقامات کے ذریعے کوفہ سے شام کے راستے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان مقامات کے نام درج ذیل ہیں:

  • مقام راس الحسین موصل میں: علی بن ابوبکر ہروی کے بقول یہ مقام ساتویں صدی ہجری تک موجود تھا۔[605]
  • مسجد امام زین العابدینؑ اور مقام راس الحسین نصیبین میں: آج کل نصیبین ترکی میں ایک شہر کا نام ہے۔[606] کہا جاتا ہے کہ سر امام حسینؑ کے خون کا اثر اس مقام پر رہ گیا تھا۔[607] ہروی نے اس زیارتگاہ کو "مشہد النقطہ" کے نام سے ثبت کیا ہے۔[608]
  • مقام طُرح: طرح اس نوزاد کو کہا جاتا ہے جو مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہوا ہو۔ یہاں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ اسیران کربلا میں کوئی حاملہ خاتون تھی جس نے اپنے بچے کو مقررہ وقت سے پہلے جنم دیا ہوگا۔[609]
  • مقام حَجَر: اسیران کربلا کے قافلے کو شام لے جاتے وقت امام حسینؑ کا سر اس پتھر پر رکھا گیا تھا۔[610]
  • مقام‌ کوہ جوشن: یہ پہاڑ شام کے شہر حلب میں واقع ہے۔ گویا شمر بن ذی الجوشن کے نام سے مشتق ہے۔ بعض مصادر کے مطابق مشہد النقطہ بھی اسی مقام پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک عیسائی راہب زندگی گزارتا تھا جس نے یزید کے سپاہیوں سے امام حسینؑ کا سر ایک رات کے لیے لے جا کر اپنے پاس رکھتا ہے۔ مشہدالسقط میں قبر محسن بن الحسینؑ بھی ہے۔[611]
  • مقام حماہ: یہ مقام شہر حلب کے اندر موجود تھا۔ ابن شہرآشوب نے اس مکان کا تذکرہ کیا ہے۔[612]
  • مقام حِمص: ابن شہر آشوب نے اس مکان کا بھی تذکرہ کیا ہے۔[613]
  • مقام بعلبک: یہاں پر اس وقت ایک مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے اس کا نام "راس الحسین" تھا۔[614]
  • مقام راس الحسین اور مقام امام زین العابدین دمشق میں: یہ دو مقام ایک مسجد کے پاس ہے جسے مسجد اموی کا نام دیا جاتا ہے۔ ابن عساکر نے اس مقام کو "راس الحسین" کا نام دیا ہے۔[615] لیکن دیگر مصادر میں اسے "مقام امام زین العابدین" کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[616]

اسیران کی شام آمد

  • شہر کا چراغان: یزید نے حکم دیا تھا کہ اسیران کربلا کا شام میں داخل ہوتے وقت شہر کا چراغان کیا جائے۔ سہل بن سعد ساعدی ان افراد میں سے ہے جس نے اسیران اہل بیت کا شام میں داخل ہوتے وقت شہر کے چراغان اور لوگوں کی خوشی کو دیکھا اور اس کی توصیف کی ہے۔[617]
  • داخل ہونے کا دن: تاریخی اوراق کے مطابق شہداء کے سروں کو صفر کی پہلی تاریخ کو شام لایا گیا۔[618] اسی دن اسیروں کو باب توما یا باب الساعات سے شہر کے اندر لے جایا گیا اور شہر کے جامع مسجد کے دروازے کے ساتھ اسیروں کو بٹھانے کی مخصوص جگہ پر اسراء اہل بیت کو رکھا گیا۔[619]
  • یزید کو اطلاع دینا:اسراء اہل بیت کو شہر میں پھرانے کے بعد عبیداللہ ابن زیاد کے سپاہی یزید کے محل میں چلے گئے اور زحر بن قیس نے سب کی نمائندگی میں واقعہ کربلا کی سرگزشت یزید کو سنا دی۔[620]
  • اسراء یزید کے محل میں:یزید نے کربلا کے واقعے کی رپورٹ سنے کے بعد محل کی تزئین کا حکم دیا۔ بزرگان شام کو بلایا گیا اس کے بعد اسیروں کو محل میں لانے کا حکم دیا۔[621] تاریخی شواہد کے مطابق اسیروں کو رسیوں میں باندھ کر یزید کی محفل میں لایا گیا۔[622] اس وقت فاطمہ بنت الحسین نے کہا:‌اے یزید کیا یہ شائستہ ہے کہ رسول خدا(ص) کی بیٹیوں کو اسیر کیا جائے؟ اس وقت یزید کے دربار میں موجود افراد اور یزید کی بیوی ہندہ نے گریہ و زاری کی۔ [623]
  • یزید کا اسیروں کے سامنے سر امام حسینؑ کے ساتھ کھیلنا: یزید نے اسیروں کے سامنے سر امام کو ایک سونے کے طبق میں رکھا [624] اور اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے لکڑی کے ذریعے سر امام حسینؑ کی توہین کی۔[625] جب امام حسینؑ کی بیٹی سکینہ اور فاطمہ نے اس حالت کو دیکھا تو ایسی فریاد کی کہ خود یزید کی محل میں موجود عورتوں نے بھی اس فریاد کے ساتھ فریاد بلند کیں۔[626] امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ یزید نے امامؑ کے سر کو ایک طبق میں رکھا پھر اس کے اوپر کھانے کی میز رکھ دی پھر اپنے دوستوں کے ساتھ کھانے اور شراب خواری میں مشغول ہو گیا۔ پھر اسی میز پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شطرنج کھیلنے لگا وہ جب بھی شطرنج میں اپنے حریف پر غلبہ حاصل کرتا شراب کی بوتل اٹھا کر پیتا اور باقی ماندہ شراب کو اس طبق کے نزدیک زمین پر انڈیل دیتا جس میں امامؑ کا سر رکھا ہوا تھا۔[627]
  • حاضرین کا اعتراض: یزید کی محفل میں موجود بعض حاضرین نے یزید کے اس اقدام پر اعتراض کیا ان میں مروان بن حکم کے بھائی یحیی بن حکم ہے جس پر یزید نے اس کے سینے پر گھونسا مارا۔[628] ابوبرزہ اسلمی نے بھی اس پر اعتراض کیا تو اسے یزید کے حکم سے مجلس سے ہی اخراج کیا گیا۔[629]
  • خطبہ دینا: شام میں مختلف واقعات رونما ہونے کے بعد امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) نے شام میں افکار عمومی کو غلط پروپیگنڈوں سے پاک کرنے کی خاطر خطبے دینا شروع کیا۔ یہ خطبے شام میں امام سجادؑ اور حضرت زینب کے خطبوں کے نام سے معروف ہیں۔
  • محل اقامت: تاریخی مصادر کے مطابق اہل بیت امام حسینؑ کو شام میں دو مقامات پر رکھا گیا۔ شروع میں کسی ویرانے میں رکھا گیا جس پر چھت بھی نہیں تھی، [630] جو خرابا شام سے معروف ہے اور حضرت رقیہ اسی خرابے میں وفات پائی۔[631]اسیران کربلا کو دو دن اس مقام پر رکھا گیا۔[632] لیکن امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں کے بعد جب افکار عمومی اسیروں کے نفع میں جانے لگا تو انھیں یزید کے محل کے نزدیک کسی گھر میں منتقل کیا گیا۔[633]
  • شام میں قیام کی مدت: اکثر مورخین نی اسیران کربلا کا شام میں قیام کی مدت کو تین دن لکھا ہے۔[634] لیکن عمادالدین طبری نے اس مدت کو سات دن ذکر کیا ہے۔[635] جبکہ سید بن طاووس نے ایک ماہ کہا ہے [636] البتہ اس نے خود اس قول کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

کوفہ سے شام تک کی منزلیں

کوفہ سے شام تک کی ان منزلوں کی تعداد 14 تھی جنہیں اہل بیت علیہم السلام نے اسیری کی حالت میں طے کیا۔

قیدیوں کا شام میں داخل ہونا

تاریخی مصادر میں اسرا کے شام میں داخل ہونے، سپاہیوں کے برتاؤ، ان کے رہنے کی جگہ اور ان کے خطبات کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ان روایات کے مطابق یہ قافلہ شام میں اول صفر کو داخل ہوا۔[637] انھیں اس روز دروازۂ «توما» یا «ساعات» کے راستے شہر میں لایا گیا۔ سہل بن سعد کے مطابق یزید کے دستور پر شہر کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔[638]

شہر میں داخل ہونے کے بعد اسیروں کو مسجد جامع کے دروازے کے پاس ایک چبوترے پر بٹھایا گیا۔[639] موجودہ زمانے میں مسجد اموی کا دروازہ اصلی مسجد کے محراب و منبر کے مقابلے میں ہے جہاں پتھر اور لکڑی کے سیڑھیاں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے قیدیوں کو یہاں بٹھایا گیا۔ [640]

بعض مصادر میں شام میں داخلے کے موقع پر حضور اہل بیت امام حسینؑ کو دو دن تک [641] اور خرابۂ شام کے نام سے معروف ایسی عمارت میں رکھا گیا جس کی چھت نہیں تھی۔[642] لیکن شیخ مفید قیدیوں کے آنے کی جگہ قصر یزید کے پاس بیان کی ہے۔[643] مشہور قول کے مطابق شام میں قیدیوں کے رہنے کی مدت تین دن [644] لیکن ہفت روز[645] اور یک مہینہ بھی منقول ہوئی ہے۔[646]شام میں قیدیوں کے آنے سے متعلق بعض تاریخی روایات کا ذکر:

  • قصر یزید میں اسیروں کی آمد: شام میں آنے کے بعد زَحر بن قَیس نے واقعہ کربلا کی جنگ کی رپورٹ بیان کی۔[647] یزید نے سارا ماجرا سننے کے بعد حکم دیا کہ محل کو سجایا جائے، بزرگان شام کو بلایا جائے اور اسیروں کو حاضر کیا جائے۔[648] روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسیروں کو رسیوں سے جکڑے ہوئی حالت میں پیش کیا گیا۔[649] اس دوران میں فاطمہ بنت امام حسینؑ نے کہا:اے یزید! کیا شائستہ ہے کہ بنات رسول اللہ اسیر ہوں ؟ اس وقت حاضرین اور یزید کے اہل خانہ سے گریہ کیا۔[650]
  • یزید کا سر امام حسین کے ساتھ ناروا سلوک: یزید قیدیوں کی موجودگی میں سونے کے تھال میں رکھے ہوئے سر امام حسینؑ[651] کو لکڑی کی چوب سے ما رہا تھا [652] جب سکینہ اور فاطمہ یہ منظر دیکھا تو انھوں نے اس طرح فریاد کی کہ یزید اور معاویہ بن ابوسفیان کی بیٹیوں نے گریہ کرنا شروع کیا۔[653] شیخ صدوق سے امام رضاؑ کی مروی روایت کے مطابق یزید نے سر امام حسین کو طشت میں رکھا اور اسے کھانے کی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیااس کے بعد اسے شطرنج کی میز پر رکھ کر شطرنج کھیلنے مشغول ہوا۔ کہتے ہیں جب وہ بازی جیت جاتا تو ایک جام فقاع ( جَو کی شرآب) کا پیتا اور اس کا آخری بچا ہوا پانی طشت کے پاس زمین پر گرا دیتا۔[654]
  • حاضرین کا اعتراض: یزید کی اس رفتار پر حاضرین میں سے بعض نے اعتراض کیا، ان میں سے مروان بن حکم کا بھائی یحیی بن حکم تھا جس کے اعتراض کے جواب میں یزید نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔[655] اَبوبَرْزہ اَسْلَمی نے بھی اعتراض کیا تو یزید کے حکم پر اسے دربار سے نکال دیا گیا۔[656]

علی ابن الحسن کا جامع مسجد امویہ میں خطبہ

امام سجاد اور اسیران کربلا کی موجودگی میں یزید کے حکم پر ایک خطیب نے منبر سے بنی امیہ کی مدح اور امام علی اور آپ کے اہل بیت کی مذمت میں ایک تقریر کی۔ امام سجاد نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطیب کے جواب میں علی بن ابی طالب کے فضائل بیان فرمائے۔ یہ خطبہ جس کے اکثر مطالب حضرت علیؑ کی مدح اور فضیلت پر مشتمل ہیں، شام میں ایک وسیع اثرات کا حامل رہا اور یزید کی ظاہری سیاست میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

اسرائے اہل بیت کی موجودگی میں یزید نے شام کے مسجد اموی میں ایک محفل منعقد کروایا اور اپنے باطل خیال کے مطابق وہ اس کام کے ذریعے اہل بیت کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک خطیب نے ممبر سے یزید اور اس کے آباء و اجداد کی مدح سرائی کرنا شروع کیا۔ اس موقع پر امام سجاد نے مذکورہ خطیب سے فرمایا:

"وای ہو تم پر! تم مخلوق کی خشنودی اور رضایت کو خدا کی خوشنودی پر مقدم کیا اور جہنم میں اپنا ٹھکانا معین کیا"۔ [657]

اس کے بعد امام سجادؑ نے یزید کی طرف رخ کر کے تقریر کرنے کی اجازت مانگی، ناسخ التواریخ میں آیا ہے کہ یزید نے امام سجادؑ کی درخواست کو رد کیا لیکن شامیوں کی اصرار پر یزید نے مجبورا امام سجادؑ کی درخواست کو قبول کیا۔

؛اجمالی تعارف امام سجادؑ نے اس خطبے کے ابتدائی جملات میں اجمالی طور پر اپنا اور اہل بیت کا تعارف کرایا۔ ان جملات میں اس خاندان کے علم، حلم اور شجاعت کو بیان کرتے ہوئے اس خاندان کے بعض مشہور و معروف شخصیات جیسے حضرت حمزہ اور جعفر طیار وغیرہ کا نام لیا۔

؛تفصیلی تعارف

فرزند حج

امام سجادؑ نے اس خطبے میں بعض ایسے مسائل کو بیان فرمایا ہے جو شاید پہلی نگاہ میں کچھ بے اہمیت نظر آئے؛ آپ نے فرمایا: میں فرزند مکہ و منا، زمزم و صفا ہوں۔ ان جملات کی توضیح میں درج ذیل احتمالات پائے جاتے ہیں:

  1. ان جملوں کا معنا میں فرزند مناسک حج ہوں ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کہ مناسک حج ایک توحیدی مناسک اور عبادت ہونے کے اعتبار سے آپ کے خون اور گوشت میں رچی بسی ہے، نہ یہ کہ آپ دوسرے مسلمانوں کی طرح فقط مناسک حج کو انجام دیتے ہیں بلکہ جتنا زیادہ حج اور اس کے مناسک کے ساتھ مانوس ہونا ممکن ہے وہ آپ کے وجود میں موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی چیز کے ساتھ اپنے شدید انس اور لگاؤ کو بتانے کی خاطر اپنے آپ کو اس امر کا بیٹا یا بیٹی قرار دیتے ہیں۔ یہاں امام سجاد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے یزید اور یزیدیو! تم ہمیں دین سے خارج سمجھتے ہو؟ میرا دین کے ساتھ اتنا لگاؤ اور انس ہے کہ گویا میں اس کا فرزند ہوں۔
  2. حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی یادگار ہے اور مسلمان ان مناسک کو حضرت ابراہیم کے نام سے جدا ناپزیر سمجھتے ہیں۔ امامؑ یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں فرزند ابراہیم خلیل ہوں، جو شاید امام صادقؑ کے اس قول کی طرف اشارہ ہو جسے آپ نے اپنے گھر کو آگ لگنے کے موقع پر فرمایا۔[658]
  3. ایک اور احتمال یہ بھی ہے کہ امام یہاں پر اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت سے منسوب کرنا چاہتے ہیں جس نے مناسک ابراہیمی کو زندہ کیا یعنی میں فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابت

پیغمبر اکرمؐ کی تعارف کا مقصد اسیران کربلا کی آنحضرتؐکے ساتھ موجود قرابت کو لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا ورنہ شام کے لوگ پیغمبر اکرمؐکو تو جانتے تھے اس حوالے سے آنحضرت کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ بلکہ یہاں یہ ان اسیروں کی قافلہ کی رسول خدا کے ساتھ موجود نسبت اور قرابت کو بتانا مقصود تھا جسے حکمران جماعت خارجی کے نام سے متعارف کرا رہی تھی۔

حضرت علیؑ کا تعارف

شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام سجادؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علیؑ کا تعارف کرنا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام سجادؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علیؑ کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔

حضرت علیؑ کے فضائل شام کے لوگوں کے لیے ایک نئی چیز تھی یہاں پر ہم ان فضائل میں سے بعض کی مختصر توضیح دیتے ہیں۔

دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرنا

امام سجادؑ حضرت علیؑ کی بعض فضائل کو بیان کرنے کے بعد اس فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے دادا نے دو دو تلواروں کے ساتھ جنگ کیا۔ یہاں دو تلوار سے کیا مراد ہے، کچھ احتمالات پائے جاتے ہیں:

  • وہ دو تلواریں جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ کو بخش دی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آٹھویں سنہ ہجری کو على ؑ کو منات نامی ایک بت کو توڑنے کے لیے روانہ کیا۔ امام علیؑ نے اس بت کو توڑنے کے بعد اس بت سے متعلق تمام اشیاء کو اٹھا کر پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں لے آیا۔ اس بت سے متعلق اشیاء میں دو تلواریں بھی تھیں جسے حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا ان تلواروں کو حارث بن ابى شمر غسانی -پادشاہ غسان- نے اس بت کے لیے ہدیہ کے طور پر دیا تھا۔ ان تلواروں میں سے ایک کا نام مخذم اور دوسرے کا نام رسوب تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے ان دونوں تلواروں کو حضرت علیؑ بخش دیے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک وہی تلوار ہے جو ذو الفقار کے نام سے معروف ہے۔[659]
  • دو تلوار سے مراد تنزیل اور تاویل ہے۔[660] پیغمبر اکرمؐسے ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
علی، تاویل کے مطابق جنگ کرینگے جس طرح میں نے تنزیل کے مطابق جنگ کیا۔[661]
  • مراد یہ ہے کہ ایک تلوار کے بعد دوسری تلوار لے کر جنگ کرتے تھے جس طرح یہ کام جنگ احد میں انجام دیا کہ آپ کی پہلی تلوار کے ٹوٹنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ذو الفقار نامی تلوار دے دیا تھا۔[662]
  • ممکن ہے آپ کی تلوار یعنی ذو الفقار کے دو دھار ہونے کی طرف اشارہ ہو۔[663]
دو بار ہجرت

اس خطبے میں حضرت علیؑ کی ایک صفت "ہاجر ہجرتین‌" کے عنوان سے ذکر کیا ہے [664] جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپؑ نے دو دفعہ ہجرت کی۔

پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے جبکہ دوسری ہجرت کے بارے میں کئی احتملات ہیں:

پہلا احتمال: شعب ابی طالب کی طرف ہجرت۔[665]

دوسرا احتمال: ایک حدیث میں ابن عباس سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اپنے بھائی جعفر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ تشریف لے آئے۔[666] لیکن یہ نقل ضعیف ہے کیونکہ کسی بھی معتبر تاریخی منابع میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں حضرت علیؑ کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ براین جس وقت حبشہ ہجرت کرنے والے مہاجرین حبشہ میں زندگی بسر کر رہے تھے حضرت علیؑ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے۔

تیسرا احتمال: مدینہ سے کوفہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔[667]

دو بار بیعت

یہ جملہ امام سجادؑ کے خطبے کے علاوہ خودامام علیؑ سے بھی نقل ہوا ہے۔ یہاں پر دو بیعت سے مراد کیا ہے خود امام علی علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:

  • امام علیؑ نے معاویہ کے ساتھ اپنی مکتوبات میں فرمایا: "میں نے دو بیعت میں شرکت کیا ان میں سے پہلی بیعت کے وقت تو "کافر" تھا اور وہ بیعت رضوان سنہ چھ ہجری صلح حدیبیہ کے موقع پر انجام پائی۔
  • دوسری بیعت فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی اگرچہ معاویہ بھی اس میں شریک تھا ولی بعد میں اس نے اس بیعت کو نقض کیا[668]

مناقب میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق پہلی بیعت سے مراد بیعت بدر اور دوسری بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے۔[669]

جبرئیل کی تأئید اور میکائیل کی امداد

یہ جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کی مدد کے لیے آئے تھے۔ ابن عبد البر "استیعاب فی تمییز لاصحاب" نامی کتاب میں جنگ بدر کے حوالے سے کہتے ہیں: جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کے ساتھ تھے۔[670]

امام حسن بھی اس حوالے سے فرماتے ہیں: رسول خداؐنے جنگ بدر میں پرچم حضرت علیؑ کے دست مبارک میں دیا درحالیکہ جبرئیل آپ کے دائیں طرف اور میکائل بائیں طرف سے آپ کی ہمراہی کر رہے تھے۔[671]

حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت کا تذکرہ

چونکہ شام میں فقط حضرت زہراؑ کی شخصیت تخریب سے محفوظ تھی اس لیے امام سجادؑ بھی فقط کے ساتھ اپنی قرابت کا تذکرہ کیا۔[حوالہ درکار]

امام حسینؑ کی مظلومیت

امام سجادؑ نے حضرت علیؑ کے تعارف اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ سے منسوب کرنے کے بعد امام حسینؑ کی مظومیت اور آپ کی شہادت کی نوعیت بیان فرمائی۔ امام سجادؑ کی پیغمبر اکرمؐاور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت ثابت ہونے اور حضرت علیؑ کے بارے میں معاویہ اور یزید کے جھوٹے پروپیگنڈے اور امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت سے با خبر ہونا شام کے لوگوں پر کافی اثر انداز ہو سکتا تھا اس لیے امام سجادؑ نے اس خطبے میں اپنے والد کی مظلومانہ پر بھی کسی حد تک گفتگو فرمائی۔[حوالہ درکار]

خطبے کے اثرات

مزید راز فاش ہونے کا خطرہ

امام سجادؑ کے دوٹوک اور روشنگرانہ خطبے نے حکومت یزید کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیا لذا مزید رسوائی سے بچنے کے لیے یزید نے موذن سے اذان دینے کا کہا اور اس کے درباری مؤذن نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اذان دینا شروع کیا۔ لیکن جیسے جیسے مؤذن اذان کے جملات ادا کرتا جاتا امام سجادؑ نیز کوئی نہ کوئی جملہ ارشاد فرماتے یہاں تک کہ مؤذن اشہد ان محمدا رسول اللہ کے جملے پر جب پہنچے۔

جیسے ہی مؤذن نے یہ جملہ ادا کیا تو امام سجادؑ نے موذن کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے یزید سے پوچھا: اے یزید! یہ محمد جس کی رسالت کی گواہی اذان میں دی جاتی ہے، تیرا نانا ہے یا میرا نانا؟ اگر تم انھیں تیرا نانا سمجھتے ہو تو بے شک تو جھوٹا ہو لیکن اگر وہ میرا نانا ہے تو ان کی عترت اور اہل بیت پر یہ ظلم کیوں روا رکھا ہے؟[حوالہ درکار]

لوگوں کا رد عمل

امام سجادؑ کے خطبے سے مسجد میں موجود لوگ بہت متأثر ہوئے۔ ریاض القدس نامی کتاب میں آیا ہے کہ یزید نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر چلا گیا یوں یہ اجتماع بھی درہم برہم ہو گیا۔ جب امام ممبر سے نیچے اتر آئے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے سب نے اپنے کیے پر امام سے معافی مانگ لی۔[672]

دربار میں موجود ایک یہودی کی حکایت

امام سجادؑ کے خطبے کے بعد محفل میں موجود ایک یہودی نے یزید کو برا بھلا کہا اور اپنے پیغمبر کی بیٹی کے اولاد کو اس طرح مظلومانہ طور پر شہید کرنے پر اس کی یوں مذمت اور سرزنش کی:

خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسى بن عمران کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتے تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمھارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالے ہو؟ افسوس ہو تم لوگوں پر![673]

خطبے کا متن اور ترجمہ

دیگر معلومات دربار یزید میں امام سجادؑ کا خطبہ Error: No text given for quotation (or equals sign used in the actual argument to an unnamed parameter) ...
دربار یزید میں امام سجادؑ کا خطبہ
Error: No text given for quotation (or equals sign used in the actual argument to an unnamed parameter)
ترجمہ
:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ؛
أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ۔
وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّيقُ وَ مِنَّا الطَّيَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ۔
مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِي وَ نَسَبِي۔
أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا۔
أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّكْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا۔
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَى۔ر
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَى۔
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَى۔
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّى۔
أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَى الْبُرَاقِ فِي الْهَوَاءِ۔
أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِيَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى۔
أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِيلُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى۔
أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّى فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى‏۔
أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّى بِمَلَائِكَةِ السَّمَاءِ۔
أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَى إِلَيْهِ الْجَلِيلُ مَا أَوْحَى۔
أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى أَنَا ابْنُ عَلِيٍّ الْمُرْتَضَى۔
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِيمَ الْخَلْقِ حَتَّى قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَيْفَيْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَيْنِ وَ هَاجَرَ الْهِجْرَتَيْنِ وَ بَايَعَ الْبَيْعَتَيْنِ وَ قَاتَلَ بِبَدْرٍ وَ حُنَيْنٍ وَ لَمْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ۔
أَنَا ابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَارِثِ النَّبِيِّينَ وَ قَامِعِ الْمُلْحِدِينَ وَ يَعْسُوبِ الْمُسْلِمِينَ وَ نُورِ الْمُجَاهِدِينَ وَ زَيْنِ الْعَابِدِينَ وَ تَاجِ الْبَكَّائِينَ وَ أَصْبَرِ الصَّابِرِينَ وَ أَفْضَلِ الْقَائِمِينَ مِنْ آلِ يَاسِينَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
أَنَا ابْنُ الْمُؤَيَّدِ بِجَبْرَئِيلَ الْمَنْصُورِ بِمِيكَائِيلَ
أَنَا ابْنُ الْمُحَامِي عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِينَ وَ قَاتِلِ الْمَارِقِينَ وَ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ۔
وَ الْمُجَاهِدِ أَعْدَاءَهُ النَّاصِبِينَ وَ أَفْخَرِ مَنْ مَشَى مِنْ قُرَيْشٍ أَجْمَعِينَ وَ أَوَّلِ مَنْ أَجَابَ وَ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ أَوَّلِ السَّابِقِينَ وَ قَاصِمِ الْمُعْتَدِينَ وَ مُبِيدِ الْمُشْرِكِينَ وَ سَهْمٍ مِنْ مَرَامِي اللَّهِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ
وَ لِسَانِ حِكْمَةِ الْعَابِدِينَ وَ نَاصِرِ دِينِ اللَّهِ وَ وَلِيِّ أَمْرِ اللَّهِ وَ بُسْتَانِ حِكْمَةِ اللَّهِ وَ عَيْبَةِ عِلْمِهِ۔
سَمِحٌ سَخِيٌّ بَهِيٌّ بُهْلُولٌ زَكِيٌّ أَبْطَحِيٌّ رَضِيٌّ مِقْدَامٌ هُمَامٌ صَابِرٌ صَوَّامٌ مُهَذَّبٌ قَوَّامٌ۔
قَاطِعُ الْأَصْلَابِ وَ مُفَرِّقُ الْأَحْزَابِ۔
أَرْبَطُهُمْ عِنَاناً وَ أَثْبَتُهُمْ جَنَاناً وَ أَمْضَاهُمْ عَزِيمَةً وَ أَشَدُّهُمْ شَكِيمَةً
أَسَدٌ بَاسِلٌ يَطْحَنُهُمْ فِي الْحُرُوبِ إِذَا ازْدَلَفَتِ الْأَسِنَّةُ وَ قَرُبَتِ الْأَعِنَّةُ طَحْنَ الرَّحَى وَ يَذْرُوهُمْ فِيهَا ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمِ۔
لَيْثُ الْحِجَازِ وَ كَبْشُ الْعِرَاقِ مَكِّيٌّ مَدَنِيٌّ خَيْفِيٌّ عَقَبِيٌّ بَدْرِيٌّ أُحُدِيٌّ شَجَرِيٌّ مُهَاجِرِيٌّ۔
مِنَ الْعَرَبِ سَيِّدُهَا وَ مِنَ الْوَغَى لَيْثُهَا
وَارِثُ الْمَشْعَرَيْنِ وَ أَبُو السِّبْطَيْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ۔
ذَاكَ جَدِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ
ثُمَّ قَالَ:
أَنَا ابْنُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ أَنَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ
انا ابنُ خَدیجهَ الکبری۔ (انا ابن الحسين القتيل بكربلا، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بكى عليہ الجن في الظلماء، انا ابن من ناح عليہ الطيور في الهواء) فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ أَنَا أَنَا حَتَّى ضَجَّ النَّاسُ بِالْبُكَاءِ وَ النَّحِيبِ۔ وَ خَشِيَ يَزِيدُ لَعَنَهُ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ فِتْنَةٌ۔ فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَقَطَعَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ۔ فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ عَلِيٌّ لَا شَيْ‏ءَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ۔ فَلَمَّا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ شَهِدَ بِهَا شَعْرِي وَ بَشَرِي وَ لَحْمِي وَ دَمِي۔ فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ الْتَفَتَ مِنْ فَوْقِ الْمِنْبَرِ إِلَى يَزِيدَ فَقَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا جَدِّي أَمْ جَدُّكَ يَا يَزِيدُ فَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدُّكَ فَقَدْ كَذَبْتَ وَ كَفَرْتَ وَ إِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدِّي فَلِمَ قَتَلْتَ عِتْرَتَهُ

قَالَ وَ فَرَغَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَةِ وَ تَقَدَّمَ يَزِيدُ فَصَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ۔
۔
:
اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛
ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔
ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:

  1. خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔
  2. صدیق (امیر المومنین علیؑ) ہم سے ہیں۔
  3. جعفر طیار ہم سے ہیں۔
  4. شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
  5. اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔
  6. زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
  7. مہدی امت ہم سے ہیں۔

لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،
میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،
میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنھوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی
میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے
میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے]
میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنھوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛
میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛
میں محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ ؐکے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛
میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیا علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکا کرنے والوں کے تاج اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد ؐ ) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔
میرے داد (امیر المومنین ؑ) وہ ہيں جن کو جبرائیل ؑ کی تائید و حمایت اور میکائیل ؑ کی مدد و نصرت حاصل ہے،
میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیر المومنین ؑ کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔
میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنھوں نے خدا اور رسول ؐکی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔
میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لیے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپزیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران میں نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین ؑ" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہراؑ کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کر دیا۔
مؤذن نے کہا:
اللہ أكبر اللہ أكبر
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن لاإلہ إلا اللہ
امام علي بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن محمدا رسول اللہ
امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمھیں اسی محمد ؐ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ؐمیرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہوگے کہ تمھارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتائ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہو گیا اور نماز ظہر ادا ہوئی۔

بند کریں

شام میں قیام اور عزاداری کی مدت

  • ابن اعثم، [674] اور شیخ مفید[675] اور ان کی پیروی کرتے ہوئے شیخ طبرسی[676] نے اجمالی طور پر لکھا ہے کہ اسیران اہل بیت نے چند دن شام میں بسر کیے۔
  • محمد بن سعد، [677] محمد بن جریر طبری، [678] موفق بن احمد خوارزمی (بحوالۂ ابو مخنف)، [679] ابن عساکر، [680] سبط ابن جوزی، [681] ابوالفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی[682] اور علامہ محمد باقر مجلسی[683] کا کہنا ہے کہ شام میں اہل بیت علیہم السلام نے تین دن تک عزاداری کی اور معاویہ کے خاندان کی عورتوں میں بھی عزاداری میں شرکت کی۔
  • قاضی نعمان مغربی (متوفی سنہ 363 ہجری قمری) لکھتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام نے شام میں 45 دن تک قیام کیا۔[684]
  • سید ابن طاؤس (متوفی سنہ 664 ہجری قمری) نے لکھا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ایک مہینے تک دمشق کے قید خانے میں مقیم رہے۔[685]
  • عمادالدین طبری (زندہ تا سنہ 701 ہجری قمری) نیز مجلسی (دوسری روایت کے ضمن میں) لکھتے ہیں: اہل بیت علیہم السلام نے 7 دن تک عزاداری کی۔ مجلسی مزید لکھتے ہیں کہ آٹھویں دن یزید نے انھیں بلوایا اور ان کی دلجوئی کی اور ان کی مدینہ واپسی کا انتظام کیا۔[686][687]۔[688]
شام میں ایک مہینہ یا 45 دن تک قیام پر مبنی روایات میں کچھ زیادہ قوت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال کے قائلین متفرد (اور تنہا) ہیں اور چونکہ خاندان معاویہ کی عورتوں نے اہل بیت علیہم السلام کی عزاداری کو دیکھا تو ان کی حقانیت کا ادراک کیا تو وہی بھی پانچویں دن عزاداری کی اس مجلس میں شرکت کرنا شروع کردی چنانچہ یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام نے دمشق پہنچنے سے لے کر مدینہ واپسی تک، شام میں 10 روز سے زیادہ قیام نہیں کیا۔

قافلے کے واپسی

سید محمدعلی قاضی طباطبائی تحقیق دربارہ اولین اربعین حضرت سیدالشہداءؑ میں کاروان اہل بیت کی شام سے واپسی کے متعلق بھث کرتے ہیں اور اربعین کے روز ان کے کربلا کو پہنچنے کو ثابت کرتے ہیں۔ لیکن محدث نوری[689] اور شیخ عباس قمی کربلا میں اسرا کی واپسی اربعین کے روز کے مخالف ہیں۔[690] بشیر مسجد النبی کے پاس جا کر روتے ہوئے اس شعر کو پڑھا:

یا اہل یثرب لا مقام لکمقتل الحسین فادمعی مدرار
اے مدینہ کے رہنے والو! اب مدینہ رہنے کے قابل نہیں ہےحسین مارا گیا اور میرے آنسو جاری ہیں
الجسم منہ بکربلا مضرجوالراس منہ علی القناة یدار۔
ان کی لاش کربلا میں خاک و خون میں غلطاں ہےاور ان کا سر نیزوں پر پھرایا گیا[691]

شیخ مفید اور شیخ طوسی نے تصریح کی ہے کہ کاروان اہل بیت شام سے واپسی کے بعد مدینہ گیا ہے۔[692]

سید بن طاووس کی نقل کے مطابق قافلۂ اهل‌ بیتؑ نے مدینہ پہنچنے پر شہر سر سے باہر خیمے نصب کیے اور امام سجاد کے حکم پر بشیر بن حذلم مدینہ گیا اور اس نے مسجد النبی کے پاس اشعار پڑھے اور گریہ کیا۔ اس طرح اہالیان مدینہ اہل بیت کے مدینہ واپسی سے مطلع ہوئے۔[693] سید بن طاووس اس دن کو رسول گرامی قدر کے وصال کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کا غم انگیز ترین دن شمار کرتے ہیں۔ منقول ہے کہ اہل بیت کی واپسی کا سن کر مدینہ کی تمام خواتین گھروں سے گریہ و شیون کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اور اس سے پہلے مدینہ میں ایسا گریہ، نالہ و فریاد دیکھا نہیں گیا۔[694]

دیگر خطبات

قیدیوں کے کوفہ میں آنے کے بعد امام سجاد نے خطبہ دیا[695] اور حضرت زینب نے خطبہ دیا تاریخی مآخذوں کے مطابق اس خطبے میں امام حسین کی مدد نہ کرنے پر کوفیوں کی سرزنش کی۔[696] لیکن تاریخ کے معاصرین محققین میں سے سید جعفر شهیدی کوفی حکومت کی سختیوں، کوفیوں کے خوف اور ترس کی وجہ سے کوفہ میں ایسے خطبے کے دئے جانے کو مشکل سمجھتے ہیں۔[697] نیز فاطمہ صغری بنت امام حسین[698] اور ام کلثوم کی طرف خطبوں کی نسبت دی گئی ہے۔[699]

امام سجادؑ اور حضرت زینب(س)، نے شام میں بھی خطبات دئے۔ حضرت امام حسین ؑ اور ان کی اہل بیت کے ساتھ ناروا سلوک پر یزید کی سرزنش اور انھیں مختلف شہروں میں در بدر پھرانے پر احتجاج، [700] اور فضائل اهل بیت پیامبرؑ و علیؑ ان خطبات کے مضامین تھے۔[701] یہ خطبات شام میں حضرت امام سجاد اور حضرت زینب کے خطبات کے نام سے معروف ہیں۔[702]

واقعہ کربلا امام محمد باقر کی زبانی

روایت کے راوی عمار دہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسینؓ سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعۂ قتلِ حسینؓ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہو رہا ہے۔ اس پر حضرت محمد باقر ؒ نے فرمایا : امیر معاویہ ؓ کے انتقال کے وقت حضرت معاویہؓ کا بھتیجا ‘یزید کا چچیرا بھائی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ ولید نے حسب ِ دستور حضرت حسین ؓ ‘کو پیغام بھیجا تاکہ ان سے نئے امیر یزید کے لیے بیعت لیں۔ حضرت حسینؓ نے جواب میں فرمایا کہ سرِدست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں۔ ولید نے ان کو مہلت دے دی۔ حضرت حسین ؓ مہلت پا کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔

دریں اثناء جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرتؓ ‘ تو مکہ شریف پہنچ گئے ہیں تو انھوں نے اپنے قاصد حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں روانہ کیے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں‘ ہم اب آپ ہی کے ہو گئے ہیں۔ ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں۔ ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت حضرت نعمان بن بشیر انصاریؓ یزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ جب اہل کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو حضرت حسینؓ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ ‘ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تا کہ وہ وہاں جا کر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ اگر اہل کوفہ کے بیانات صحیح ہوئے تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے۔

قرارداد کے مطابق حضرت مسلمؓ مکہ شریف سے مدینہ منورہ پہنچے ‘وہاں سے راستہ کی راہنمائی کے لیے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس راستہ سے وہ لے گئے ‘اس میں ایک ایسا لق و دق میدان آ گیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے سخت دوچار ہو گئے۔ چنانچہ اسی جگہ ایک رہنما انتقال کر گیا۔ اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلمؓ نے حضرت حسینؓ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح ؓ نے معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں۔ بنابریں حضرت مسلم ؓ کوفہ کی طرف چل دیے۔ وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا۔ جب اہل کوفہ میں حضرت مسلمؓ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں آئے اور ان کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ کے لیے بیعت کرنے لگے۔

چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کر لی۔ دریں اثنا یزید کے ایک کارندہ عبد اللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کارروائی کی اطلاع گورنر ِکوفہ نعمان بن بشیر کو دے دی اور ساتھ ہی کہا کہ یا تو آپ واقعتا کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے‘ دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورتِ حال مخدوش ہو رہی ہے! اس پر حضرت نعمان نے فرمایا کہ میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعتِ الٰہی ہو وہ مجھے اس قوت و طاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو‘ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے خواہ مخواہ اس پردہ کو فاش کروں۔ اس پر عبد اللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کربھیج دیا۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی سے اس بارے میں مشورہ لیا۔ اس نے کہا ’’اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے؟‘‘ یزید نے کہا ضرور!سرحون نے کہا ‘تو پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبیداللہ بن زیاد کے سپرد کر دیں۔ ادھر صورتِ حال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبیداللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اسے معزول کرنا چاہتا تھا۔مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہارِ پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری پر بھی عبیداللہ بن زیاد کو نامز دکر دیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل کو تلاش کرو ‘اگر مل جائے تو اس کو قتل کر دو۔

اس حکم کی بنا پر عبیداللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تا کہ اسے کوئی پہچان نہ سکے۔وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا ‘ اس پر سلام کرتا اور وہ حضرت حسینؓ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللّٰہ ’’اے رسول اللہ ‘ﷺ کے بیٹے‘ !آ پ پر بھی سلام‘‘ سے جواب دیتے۔ اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک غلام کو تین ہزار درہم دیے اور کہا کہ تم جا کر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صَرف کریں۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہو گئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا۔ اور اس نے اپنے آنے اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمھیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ ہماری اسکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی۔ تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلمؓ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔

ادھر عبیداللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد حضرت مسلم عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش تھے اور حضرت حسینؓ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ لوگوں نے بارہ ہزار کی تعداد میں ہماری بیعت کر لی ہے‘ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔ اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبیداللہ کو پتہ چل گیا کہ حضرت مسلمؓ ہانی کے مکان پر ہیں تو اس نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے! اس پرحاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعب چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے۔ ابن اشعب نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں‘ لہذا آپ کو چلنا چاہیے۔ چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہو لیے اور وہ عبیداللہ کے پاس پہنچے۔اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر اس نے کہا ‘دیکھو اس ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے۔ پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا ’’ہانی! مسلم بن عقیل کہاں ہیں؟‘‘ اس نے کہا ‘مجھے علم نہیں۔ اس پر عبیداللہ نے تین ہزار درہم دینے والے غلام کو اس کے سامنے کر دیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہو گئے‘ البتہ اتنا کہا کہ میں نے انھیں اپنے گھر بلایا نہیں بلکہ وہ خود میرے گھر آ کر ٹھہر گئے ہیں۔ ابن زیاد نے کہا ‘اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس نے اس پر پس و پیش کیا تو ابن زیاد نے ان کو اپنے قریب بلوا کر اس زور سے چھڑی ماری جس سے اس کی بھویں پھٹ گئیں۔ اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبیداللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر کہ اب تمھارا خون حلال ہے‘ قصرِ امارت کے ایک حصّے میں اس کو قید میں ڈال دیا۔

اس واقعہ کی اطلاع ہانی کے قبیلہ مذحج کو ہوئی تو اس نے قصر امارت پر یلغار بول دی۔ عبیداللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا کہ ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کے لیے آیا ہے۔ اس نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے‘ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا‘ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں! قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گذرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا‘ ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے۔تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا‘ اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

حضرت مسلم کو جب ہنگامہ کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کر ا دیا‘ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ ان کو باقاعدہ انھوں نے ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش ‘میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم بن عقیلؓ اس کے قلب میں ہو گئے۔ اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصر امارت کی طرف روانہ ہو گیا۔ عبیداللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اہالیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا۔ جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے پانے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا۔ اب تو حضرت مسلم کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے‘ حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی چل دیے۔ جب حضرت مسلمؓ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑے۔ راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی۔

آپ نے اس کو پانی پلانے کے لیے کہا تو اس نے پانی تو پلا دیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا ‘اے اللہ کے بندے! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے ‘یہاں سے چلے جائیں۔ آپ نے کہا :میں مسلم بن عقیل ہوں‘ کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا ‘ہاں آجائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کے لڑکے نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبیداللہ تک خبر پہنچائی۔ اس نے اس کے ہمراہ پولیس کو روانہ کر دیا اور ان کو حضرت مسلم کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جب کہ حضرت مسلم کو خبر تک نہ ہو سکی تھی۔ اب خود کو انھوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس کے مقابلے کی ٹھان لی۔ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کر کہا کہ میں ذمہ دار ہوں‘ آپ محفوظ رہیں گے۔ پس وہ حضرت مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے انھیں قصرِامارت کی چھت پر لے جا کر قتل کر دیا۔ (اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون) اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی۔ نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا اور …

اُدھر حضرت مسلم چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے‘ حضرت حسینؓ جلد از جلد تشریف لے آئیں اس لیے حضرت حسینؓ مکہ شریف سے کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ تاآنکہ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُر بن یزیدتمیمی حضرت حسینؓ کے قافلہ کو ملا۔ اس نے کہا کہاں تشریف لے جا رہے ہو۔ آپ نے فرمایا کوفہ۔ اس نے کہا کہ وہاں تو کسی خیر کی توقع نہیں‘ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہو جانا چاہیے۔ پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری روداد آپ کو سنائی۔

سارا قصہ سن کر حضرت حسینؓ نے تو واپسی کا ارادہ کر لیا لیکن حضرت مسلم کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ ہم خونِ مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود مارے جائیں گے۔ اس پر حضرت حسینؓ نے فرمایا ‘تمھارے بغیر میں جی کر کیا کروں گا۔ اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہو ئے۔ جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ’’کربلا‘‘ کا رُخ کر لیااوروہاں جا کر ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی۔ چنانچہ خیمے نصب کر لیے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے۔

دریں اثناء عبیداللہ نے عمرو بن سعد کو جو کوفہ کا گورنر تھا ‘بلایا اور اس سے کہا کہ اس شخص کے معاملے میں میری مدد کریں۔اس نے کہا ‘مجھے تو معاف ہی رکھیے۔ ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمرو بن سعد نے کہا ’’پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے۔‘‘ اس نے کہا ‘ٹھیک ہے‘ سوچ لو۔ ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد آمادگی کی اطلاع دے دی۔ اب عمرو بن سعد حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظور کر لو :(1) یا مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو‘ (2) یا مجھے موقع دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں (3) اور یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔

ابن سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیج دی۔ اس نے لکھا ‘ہمیں یہ منظور نہیں ہے ‘(بس ایک ہی بات ہے کہ ) حسینؓ (یزید کے لیے) میری بیعت کریں۔ ابن سعد نے یہی بات حضرت حسین ؓ تک پہنچا دی۔ انھوں نے فرمایا ‘ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر آپس میں لڑائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہو گئے‘ جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے۔ اسی اثناء میں ایک تیر آیا جو حضرت کے ایک چھوٹے بچے کو لگا جو گود میں تھا۔ آپ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے ’’اے اللہ! ہمارے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلہ فرما جنھوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے۔ پھر اب وہی ہمیں قتل کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی‘ مردانہ وار مقابلہ کیااور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے! رضی اللہ عنہ۔ اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حضرت حسین ؓ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا‘اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی تاریخوں میں مذکور ہیں۔

مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امار ت پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ اس نے ایک شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا‘ جہاں جا کر یزیدکے سامنے رکھ دیا گیا۔ ادھر ابن سعد بھی حضرت کے گھردار کولے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا۔ ان کا صرف ایک لڑکا بچا رہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن الحسینؓ زین العابدین تھے‘ جو روایت کے راوی ابوجعفر الباقر کے والد تھے۔ یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمار تھے۔ ابن زیاد نے حکم دیا‘ اس بچے کو بھی قتل کر دیا جائے۔ اس پر ان کی پھوپھی حضرت زینبؓ بنت علیؓ اس کے اوپر گر پڑیں اور فرمایا کہ جب تک مَیں قتل نہ ہو جاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعد میں اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔

جب حضرت حسینؓ کے یہ بچے کھچے افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسب ِ دستور یزید کو تہنیت فتح پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا’’ امیر المؤمنین! یہ مجھے دے دیجئے‘‘۔ یہ سن کر حضرت زینبؓ بنت علیؓ نے کہا ’’بخدا! یہ نہیں ہو سکتا‘ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے‘‘۔ پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اُسے ڈانٹ دیا۔[703]

اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا۔ پھر ان کو تیار کرا کے مدینہ روانہ کروا دیا۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو خاندانِ عبد المطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ہوئی ان سے ملنے کے لیے آئی اوراس کی زبان پر یہ اشعار تھے ؎

ماذا تقولون ان قال النبی لکمماذا فعلتم وانتم اخر الامم
بعترتی وباہلی بعد مفتقدیمنہم اسارٰی وقتلی ضرجوابدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکمان تخلفو فی بشر فی ذوی رحمی

واقعہ کربلا کے بعد سیاسی تحریکیں

واقعہ حرہ

شہادتِ حسین کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشک بار نہ ہو۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہو گیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کر لی۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں مسیحی کثیر تعداد میں شامل تھے۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج کے سامنے ان کو شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسلمانوں کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

عبد اللہ بن زبیر کی خلافت

اہل مدینہ نے یزید کی بجائے عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ چن لیا۔ شہادت حسین نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ازسرنو بیدار کر دیا اور سرزمین حجاز میں ناراضی کی ہمہ گیر لہر اموی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ اہل حجاز کو ابن زبیر جیسی موثر شخصیت بطور رہنما میسر آئی۔ چنانچہ اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ اس انقلاب نے اموی اقتدار کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ حجاز کی سرزمین سے مخالفت کے یہ ابلتے ہوئے جذبات درحقیقت تمام عالم اسلامی میں پیدا شدہ ہمہ گیر اضطراب کے ترجمان تھے۔

اموی خلافت کا زوال

واقعہ کربلا اموی خلافت کے زوال کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اموی حکومت اور اس کے عمال پہلے ہی عوام الناس میں مقبول نہ تھے۔ کیونکہ مسلمان جب ان کی حکومت کا موازنہ خلافت راشدہ سے کرتے تھے انھیں سخت مایوسی ہوتی۔ امام حسینؓ کی شہادت نے ملت اسلامیہ کو بہت متاثر کیا۔ خود یزید کابیٹا معاویہ دل برداشتہ ہو کر خلافت سے ہی دست بردار ہو گیا۔ اگرچہ امویوں نے اپنی قوت اور استقلال کی بدولت حکومت کو وقتی طور پر اپنے خاندن میں محفوظ کر لیا لیکن خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ تک کھلم کھلا اور زیر زمین کئی تحریکیں مسلسل اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ امویوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

عباسی تحریک

عباسیوں نے امویوں کے خلاف اس رد عمل سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے داعی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور اموی مظالم کی داستان اس قدر پر زور اور پر تاثیر انداز میں پیش کی کہ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے۔ چنانچہ عباسیوں نے بھی حسینؓ کے انتقام کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا۔

حق پرستوں کے لیے مثال

اس واقعہ کا سب سے بڑا اہم نتیجہ یہ تھا کہ امام حسینؓ کا کردار عین حق کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا توامام حسین عليہ السلام کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔

اہمیت

کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوس ناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔[704][705] اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسینؓ محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گذری وہ جور جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے۔ مزید براں، امام حسینؓ کا جو تعلق آنحضورؐ سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسۂ رسولؐ کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسینؓ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح، ملی، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا۔ کیونکہ جہاں تک حق و انصاف، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شان دار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی۔ لٰہذا امام حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخِ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔

جنگ کربلا کے اثرات

مورخ ہاؤٹنگ نے جنگ "کربلا" کو "تکلیف اور شہادت" کے شیعہ ماڈل کی ایک "بہترین" مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ [706] عبد العزیز سچادینا کے نوستہ میں، واقع کربلا شیعوں کے لیے مصائب اور ظلم کی انتہا ہے، جو بہت سے شیعہ بغاوت کے بنیادی اہداف میں شامل رہا ہے۔ [707] مائیکل فشر کے مطابق، انسان شناسی، شیعوں کی طرف سے کربلا کے واقعے کی یاد نہ صرف تاریخی تفہیم ہے، بلکہ، اس میں کربلا ماڈل، طرز زندگی اور طرز عمل کے وہ اصول شامل ہیں جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر لاگو ہوتے ہیں۔ [708] کربلا میں حسین کا قتل ایک حوالہ فریم ہے - شیعوں کے لیے عوامی زندگی کا سبق۔ [709] جیسا کہ بہت سی شیعہ بغاوتیں، صاحب فخ کی بغاوت اور ادریسی سلطنت کے بانی ادریس اول کی بغاوت، تاریخی کربلا کی بغاوت سے متاثر ہے۔[710]

اسلامی انقلاب ایران واقعہ کربلا سے متاثر ہوا، تا کہ 15 جون کی بغاوت عاشورہ کے موقع پر سید روح اللہ خمینی کی تقریر کے دو دن بعد ہوئی۔ [711] اسلامی انقلاب ایران کے دوران میں، سید روح اللہ خمینی کے حامی اکثر نعرے کے طور پر «کُلُّ یَومٍ عاشورا و کُلُّ أرضٍ کَربَلا» "پورا یوم عاشور اور پوری سرزمین کربلا" کے جملے کو استعمال کرتے تھے۔ ماہر عمرانیات پالسن کے مطابق، شروع سے اب تک اس نعرے میں کہا گیا ہے کہ شیعہ مثالی کی درستی، جو کربلا میں حسین کی ہمت سے مجسم تھی، روز مرہ کی زندگی کی رہنمائی کرنے کا فلسفہ ہے۔ پالسن نے اپنی کتاب میں جتنی بھی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے، انھیں پتا چلتا ہے کہ محرم کے مہینے کے دوران میں ہونے والے مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ [712] محرم میں بھی سعودی عرب میں 1979 کی بغاوت بغاوت ہوئی۔ [713] اس وقت، عوامی مقامات پر محرم کی سوگ کی تقاریب کو منع کیا گیا تھا، لیکن قطیف میں کچھ شیعہ علما نے عوامی مقامات پر اس تقریب کے انعقاد کے ارادے کا اعلان کیا۔ قطیف بغاوت اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک سال بعد ہوئی تھی، جو محرم میں ہی شروع ہوئی تھی اور اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ [714]

حسین اور کربلا بغاوت کے محرک کے بارے میں خیالات

زیادہ تر مسلمان حسین کی قدر کرتے ہیں۔ یہ صرف بنو امیہ کے حامی تھے جنھوں نے انھیں «باغیُ بَعدُ اِنعِقادِ الْبَیْعَة»"فروخت کے اختتام کے بعد باغبان" کہا تھا کیونکہ اس وقت اس نے دولت اسلامیہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ یہ گروہ یزید کے ذریعہ حسین کے قتل کو اس وجہ سے نہ ہونے کے برابر سمجھتا ہے۔ لیکن اس فرقہ کے مخالفین نہ صرف بنو امیہ سے نفرت کرنے والے تھے، بلکہ حتیٰ کہ ایک گروہ جو قاتلوں کے "ہوش اعمال" کو قبول نہیں کرتا تھا، جبکہ انھوں نے حسین یا اس کے غیر جانبدار ساتھیوں اور پیروکاروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے انکار کرنے کا عذر ڈھونڈتے ہوئے - روکنے کے لیے اسلام میں خانہ جنگیوں سے - حسین اور یزید کے مابین تنازع میں، حسین کے معاملے میں بھی بنو امیہ کے حامیوں کے مخالف تھے لہذا، تقریباً تمام مسلمان حسین کو معزز سمجھتے ہیں کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نواسا ہے اور یہ عقیدہ ہے کہ اس نے حق کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔ [715]

ولفریڈ مڈلنگ لکھتے ہیں کہ واقعہ کربلا کے اصل مجرموں کی تحرکات پر اکثر بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ حسین کو ایک باغی نہیں سمجھا جا سکتا ہے جس نے اپنی جان اور اپنے اہل خانہ کی جان کا خطرہ مول لیا تھا۔ وہ معاویہ کے ساتھ اپنے عہد کا وفادار رہا، حالانکہ وہ حکمرانی کے طریقے سے غیر مطمعن تھا۔ اس نے یزید سے بیعت نہیں کی کیونکہ معاویہ کے امن معاہدے کی دفعات کے برخلاف حسن کو معاویہ کا جانشین منتخب کیا گیا تھا۔ تاہم، انھوں نے سرگرمی سے شہادت کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے عراق چھوڑنے کی پیش کش کی جب یہ بات واضح ہو گئی کہ انھیں کوفیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ عبید اللہ ابن زیاد ہی تھا جس نے شدت سے حسین کو جنگ شروع کرنے پر اکسانے کی کوشش کی۔ [716]

کوفہ کے شیعوں کی دعوت کا مثبت جواب دینے کا ان کا ابتدائی فیصلہ، پیغمبر اسلام کے سچے خواب کے علاوہ، ان کو موصول ہونے والی متعدد انتباہات کے باوجود، نتائج سے قطع نظر، ایک مشن انجام دینے کے لیے حسین پر ایک پختہ مذہبی عقیدہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اپنے والد کی طرح، اس کا بھی پختہ یقین تھا کہ نبی کے اہل خانہ کا خدا کے ذریعہ اس معاشرے کی رہنمائی کے لیے انتخاب کیا ہے جس کو محمد نے قائم کیا تھا اور یہ ایک غیر مشروط حق تھا اور اسے اس معاشرے کی رہنمائی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ [717]

بنیادی ماخذ

ابو مخنف (متوفی 156 ھ / 64 ء) نے سب سے پہلے منظم پروگرام کے ذریعہ اپنی کتاب مقتل الحسین میں اس واقعے کا حساب کتاب ریکارڈ کیا۔ [718]

ابو مخنف کی اصل کتاب اب دستیاب نہیں ہے، جیسا کہ اس کے طالب علم ہشام بن الکالبی (متوفی 204 ہجری) کا بیان ہے۔ مقتل کی چار نسخے اب گوٹھہ (نمبر 1837)، برلن (اسپرنگر، نمبر 159-160)، لیڈن (نمبر 692) اور سینٹ پیٹرزبرگ (نمبر 8) کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ [719]

معاشرے پراثرات

Thumb
امام حسین کا مزار اربعین کے دوران میں

نواسہ محمد کے قتل نے امت مسلمہ کو حیرت زدہ کر دیا۔ [18] یزید کی شبیہہ نے تکلیف دی اور اس جذبات کو جنم دیا کہ وہ ناراض تھا۔ [8] اس واقعہ کا سنیوں پر جذباتی اثر پڑا، [21] جو واقعہ کو ایک افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد کرتے ہیں اور حسین کی صحبت میں جاں بحق ہونے والے افراد کو شہدا کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔ [128] شیعہ اسلام پر اثرات بہت زیادہ گہرے رہے ہیں۔ [21] [128]

شیعہ اسلام

کربلا کی جنگ سے پہلے، مسلم طبقہ دو سیاسی گروہوں میں منقسم تھا۔ بہر حال، ایک الگ مذہبی عقائد اور مخصوص رسومات کے ساتھ ایک مذہبی فرقہ تیار نہیں ہوا تھا۔ [8] [18] [128] کربلا نے حامی جماعتوں کی اس ابتدائی سیاسی جماعت کو ایک الگ مذہبی شناخت بخشی اور اس کو ایک الگ مذہبی فرقے میں تبدیل کرنے میں مدد ملی۔ [720] [125] ہینز ہالم لکھتے ہیں: "680 سے پہلے شیعوں کا کوئی مذہبی پہلو نہیں تھا۔ تیسرے امام اور اس کے پیروکاروں کی موت نے 'بڑے دھچکے' کی نشان دہی کی جس نے شیعت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے کسموس کو پیدا کیا اور اسے حرکت میں لایا۔ " [125]

Thumb
ماتم کی رسم

شیعوں کے ذریعہ کربلا میں حسین کی موت کو ایک قربانی مانا جاتا ہے جو ظالم حکمرانوں کے ذریعہ اسلام کی بدعنوانی کو روکنے اور اس کے نظریہ کے تحفظ کے لیے دی گئی قربانی ہے۔ [720] جیسا کہ، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر اور اس کی بغاوت کے انجام سے پوری طرح واقف تھا، جو خدائی طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ [721] اس طرح اسے شہداء کے شہزادے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ( سید الشہداء ) [720] مورخ جی آر ہاؤٹنگ نے جنگ کربلا کو شیعوں کے لیے "مصائب اور شہادت" کی ایک "اعلیٰ" مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ [21] عبد العزیز ساچیدینا کے مطابق، یہ شیعوں کی طرف سے بہت سے شیعہ بغاوت کے بنیادی اہداف میں سے ایک بننے کے لیے آئے بدلہ جس کے لیے مصائب اور ظلم کی انتہا دیکھا جاتا ہے۔ یہ انتقام بارہویں شیعہ امام محمد المہدی کے آئندہ انقلاب کے بنیادی مقاصد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس کی واپسی کا انتظار ہے۔ [722] ان کی واپسی کے بعد، حسین اور اس کے بائیس ساتھیوں کو ان کے قاتلوں کے ساتھ بھی زندہ کرنے کی توقع کی جارہی ہے، جس کے بعد انھیں سزا دی جائے گی۔ [722]

شیعہ کی پیروی

شیعہ مسلمان، حسین کی قبر پر جانے والے زیارتوں کو خدائی نعمتوں اور انعامات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ [720] شیعہ روایت کے مطابق اس طرح کا پہلا دورہ حسین کے بیٹے علی زین العابدین اور زندہ بچ جانے والے افراد نے شام سے مدینہ واپسی کے دوران میں کیا۔ تاریخی اعتبار سے ریکارڈ ہونے والا پہلا دورہ سلیمان بن صرد خزاعی اور شام روانگی سے قبل توابین حسین کی قبر پر جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنے سینوں پر نوحہ کیا اور مارا پیٹا اور ایک رات قبر کے پاس گزاری۔ [723] اس کے بعد یہ روایت متعدد دہائیوں تک شیعوں کے اماموں تک ہی محدود تھی، اس سے پہلے کہ چھٹے شیعہ امام جعفر صادق اور اس کے پیروکاروں کے تحت اقتدار حاصل کیا جائے۔ آل بویہ اور صفویوں نے بھی اس مشق کی حوصلہ افزائی کی۔ [720] خصوصی محفل 10 محرم ( عاشورہ اربعین) پر اور <i id="mwAqg">حسین</i> ( اربعین زیارت ) کی برسی کے 40 دن بعد ادا کی جاتی ہیں۔ [720] کربلا کی سرزمین پر معجزے کے معجزات ہوتے ہیں۔ [720]

Thumb
ایک مجلس ایک حسینیہ میں منعقد کی جارہی ہے

شیعوں کے ذریعہ حسین کے لیے ماتم کرنا، بعد کی زندگی میں نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، [724] اور اس کی تکلیف کی یاد آوری کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔ [128] حسین کی وفات کے بعد، جب اس کے کنبے کو ابن زیاد کے پاس لے جایا جارہا تھا، تو حسین کی بہن زینب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے سر کے بغیر جسم دیکھ کر چیخ اٹھی: "اے محمد! … یہاں حسین ویرانے میں پڑا ہے، جس پر داغ ہے خون اور اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، اے محمد! آپ کی بیٹیاں قیدی ہیں، آپ کی اولاد ہلاک ہو گئی ہے اور مشرقی ہوا نے ان پر دھول اڑا دی ہے۔ " [56] شیعہ مسلمان اس کو حسین کی وفات پر ماتم کرنے اور ماتم کرنے کی پہلی مثال سمجھتے ہیں۔ [720] اطلاعات ہیں کہ حسین کے بیٹے زین العابدین نے اپنی باقی زندگی اپنے والد کے لیے روتے ہوئے گزاری ہے۔ اسی طرح، خیال کیا جاتا ہے کہ حسین کی والدہ فاطمہ جنت میں اس کے لیے رو رہی ہیں اور مومنین کا رونا اس کے دکھ بانٹنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ [128] اس مقصد کے لیے مختص جگہوں پر خصوصی اجتماعات ( مجالس ؛ نوجہ مجلس ) کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کو حسینیہ کہتے ہیں۔ [720] ان اجتماعات کربلا کی کہانی روایت ہے اور مختلف نوحہ(رودا) میں پیشہ ورانہ قراء (رودا خواں ) کی طرف سے پڑھی جاتی ہیں۔ [720]

Thumb
محرم کے جلوس میں ایک ذو الجناح

محرم کے مہینے میں، جنگ کربلا کی یاد میں وسیع و عریض جلوس نکالے جاتے ہیں۔ حسین کے مقبرے کی زیارت اور عام طور پر نوحہ خوانی کے برخلاف، یہ جلوس جنگ کے وقت سے نہیں، بلکہ دسویں صدی کے دوران میں اٹھائے گئے تھے۔ ان کی سب سے ابتدائی ریکارڈ 963 میں بغداد میں پہلے آل بویہ کے حکمران معز الدولہ کے دور میں تھا۔ [724] جلوس ایک حسینیہ سے شروع ہوتے ہیں اور شرکاء نے سڑکوں پر ننگے پاؤں پریڈ کی، ایک مجلس کے لیے حسینیہ واپس جانے سے پہلے روتے اور اپنے سینوں اور سروں کو پیٹے ہیں۔ [720] [128] بعض اوقات، زنجیروں اور چھریوں کو زخموں اور جسمانی تکلیف پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ [128] جنوبی ایشیاء میں، ذو الجناح کے نام سے ایک سجا ہوا گھوڑا، جو حسین کے جنگ کے گھوڑے کی نمائندگی کرتا ہے، کا بھی سڑکوں پر جلوس نکالا جاتا ہے۔ [725] ایران میں کربلا کی جنگ کے مناظر اسٹیج پر ایک ناظرین کے سامنے ایک رسم کہا جاتا میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تعزیہ (جذبہ ڈراما) بھی شبیہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ [125] [128] تاہم، ہندوستان میں، تعزیہ سے مراد جلوسوں میں لائے ہوئے حسین کے مقبرے کے تابوت اور نقلیں ہیں۔ [125] [725]

ان میں سے بیشتر رسومات محرم کے پہلے دس دنوں میں ہوتی ہیں، جو دسویں دن ایک عروج پر پہنچ جاتی ہیں، حالانکہ مجالس بھی سال بھر پائی جا سکتی ہیں۔ [128] [125] کبھی کبھار، خاص طور پر ماضی میں، مجلسوں اور جلوسوں میں کچھ سنیوں کی شرکت دیکھی گئی ہے۔ [724] [726] یزاک نقاش کے مطابق، محرم کی رسم "کربلا کی یاد کو طلب کرنے" میں "اہم" اثر ڈالتی ہے، کیونکہ یہ شیعہ برادری کی اجتماعی شناخت اور یاد کو مستحکم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ [720] ماہر بشریات مائیکل فشر بیان کرتے ہیں کہ شیعوں کے ذریعہ جنگ کربلا کی یاد نہ صرف اس کہانی کی ترجمانی ہے، بلکہ انھیں "زندگی کے نمونے اور طرز عمل کے اصول" بھی پیش کیا گیا ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر لاگو ہوتے ہیں، جسے وہ کربلا پیراڈیگم کہتے ہیں۔ [727] اولمو گلز کے مطابق، کربلا پیراڈیگم شیعوں کو بہادر رواج اور ایک شہدا کی اخلاقیات مہیا کرتا ہے اور اچھائی اور برائی، انصاف اور ناانصافی کے مابین لڑائی کے مظاہر کی نمائندگی کرتا ہے۔ [727] بہت سے شیعہ اسکالروں کے ذریعہ خودغرضی سے متعلق رسم و رواج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ انھیں شیعہ مذہب کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے جدید طریق کار سمجھا جاتا ہے۔ ایرانی اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے 1994 سے ایران میں اس عمل پر پابندی عائد کردی ہے۔ [721]

سر حسین کی حیثیت

دوسرا متنازع نقطہ وہ جگہ ہے جہاں حسین بن علی کے سر کو دفن کیا گیا تھا۔ اس موضوع پر بہت ساری رائے یں ہیں، جن میں شامل ہیں:

  • سر کو جسم کے ساتھ کربلا میں دفن کیا گیا تھا اور یہ اس پر اکثریت اہل تشیع کے ساتھ ہے ، کیوں کہ یہ خیال ہے کہ سر سیدہ زینب کے ساتھ قتل کے چالیس دن بعد کربلا واپس آیا، یعنی صفر 20 ، جس پر چالیس دن شیعوں نے اپنے غم کی تجدید کی۔
  • شام کے سر کی حیثیت اور کچھ کھاتوں کے مطابق ہے جس کو یاد ہے کہ اموی زائرین کے سامنے اس کے بارے میں فخر کرنے کے لیے سر برقرار رکھے ہوئے ہیں جب تک کہ وہ عمر بن عبد العزیز کے پاس نہ آیا اور سر اور اکرامہ کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا، جیسا کہ حادثات میں ذہبی سر کا ذکر اس کے سر سے زیادہ ہے " [728]۔ اور آج بھی وہاں موجود مزار کی زیارت کی جاتی ہے۔
  • عسقلان میں سر ہے، اور یہ رائے دوسری رائے کی توسیع ہے، چونکہ اگر دوسرا سچ ہے تو، تیسرا اور چوتھا صحیح ہو سکتا ہے۔ کچھ اکاؤنٹس بیان کرتے ہیں، جن میں سے سب سے اہم المقریزی ہے، کہ جب صلیبیوں کے دمشق میں داخل ہونے اور صلیبی جنگوں کو تیز کرنے کے بعد، فاطمیوں نے خاص طور پر صلیبیوں سے سلامتی سے دفن کرنے کا فیصلہ کیا، صلیبی رہنماؤں نے قبر کو باہر نکالا، تو وہ اسے عسقلان لے گئے اور وہاں دفن کردیا گیا۔
Thumb
قاہرہ میں امام حسین مسجد۔
  • قاہرہ میں سر کی جگہ بھی پچھلی رائے کی توسیع ہے، جیسا کہ المقریزی بیان کرتے ہیں کہ فاطمیوں نے عسقلان سے قاہرہ جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایک بہت بڑا مشہد تعمیر کیا، جو مشہد اب قاہرہ کے حسین محلے میں ہے اور مصریوں میں ایک مقامی روایت موجود ہے جب لوگوں کے قصوں کے سوا کوئی قابل اعتماد ذریعہ نہیں لکھا ہے۔ حسین کی اہلیہ شاہ زنان بنت یزدیگرد کے ساتھ، مصر میں جسے أم الغلام پکارا جاتا ہے، جو کربلا سے فارس چلی گئی تھی۔
  • سر بقیع مدینہ میں، سب سے زیادہ کی مسلسل رائے ہے جو اہل سنت، خاص کر سلفیوں کی رائے کی وجہ سے ان میں، ابن تیمیہ اس نے امام حسین کے سر کے مقام کے بارے میں پوچھا گیا تو اور اس نے اس بات کی تصدیق میں قاہرہ، عسقیلان اور شام میں تمام مشہد جھوٹے ہیں، جیسے بعض حدیث راویوں اور مورخین کی روایتوں کے حوالے قرطبی اور المناوی
  • سر کی جگہ معلوم نہیں ہے، جیسا کہ ایک روایت میں الذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت کا ایک مضبوط سلسلہ ہے: "احمد بن محمد بن یحیی بن حمزہ نے کہا:
حدثني أبي، عن أبيہ قال: "أخبرني أبي حمزة بن يزيد الحضرمي قال: رأيت امرأة من أجمل النساء وأعقلهن يقال لها ريا حاضنة يزيد بن معاوية، يُقال: بلغت مائة سنة، قالت: دخل رجل على يزيد، فقال: يا أمير المؤمنين أبشر فقد مكنك اللہ من الحسين، فحين رآہ خمر وجهہ كأنہ يشم منہ رائحة، قال حمزة: فقلت لها: أقرع ثناياہ بقضيب؟ قالت: إي واللہ، ثم قال حمزة: وقد كان حدثني بعض أهلها أنہ رأى رأس الحسين مصلوباً بدمشق ثلاثة أيام، وحدثتني ريا أن الرأس مكث في خزائن السلاح حتى ولي سليمان الخلافة، فبعث إليہ فجيء بہ وقد بقي عظماً أبيض، فجعلہ في سفط وكفنہ ودفنہ في مقابر المسلمين، فلما دخلت المسودة سألوا عن موضع الرأس فنبشوہ وأخذوہ، فاللہ أعلم ما صنع بہ۔

سیاسی طور پر دیکھا جائے تو، حسین کا انقلاب یزید کی جانشینی کے خلاف آخری انقلاب نہیں تھا۔اس کے بعد مدینہ میں ایک انقلاب ہوا جس کا اختتام واقعہ الحرہ اور اس کے بعد عبداللہ بن الزبیر کے انقلاب کے ساتھ ہوا ۔ اسلامی ممالک امویوں کی حکمرانی پر مکمل طور پر انحصار نہیں ہوئے سوائے عبد الملک بن مروان کے دور میں اور الحاج بن یوسف الثقفی کے ذریعہ وہ سن 73 ہجری میں عبداللہ بن الزبیر کے انقلاب کو ختم کرنے میں کامیاب رہا۔

شیعہ مسلک کے کچھ پیروکاروں کا خیال ہے کہ حسین بن علی کے قتل کے بعد متعدد معجزات ہوئے۔

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّةِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ شَوْقٍ الْعَبْديَّةُ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي نَضْرَةُ الْأَزْدِيَّةِ، قَالَتْ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَمًا، فَأَصْبَحْتُ وَكُلُّ شَيْءٍ مَلْآنُ دَمًا۔[729]

زید بن علی انقلاب

زید بن علی کا انقلاب ایک انقلاب ہے جس کو زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب نے، کوفہ میں، امویوں اور ہشام بن عبد الملک کی حکمرانی کے خلاف، بدھ 2 صفر 122 ہجری کو شروع کیا اور زید بن علی کا انقلاب اس کے قتل کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا۔ [730] جو باہر آئے کے بعد سے حسین بن علی میں چونکہ میں یزید بن معاویہ کی حکمرانی میں 61 ھ کو حسین بن علی کا کربلا میں قتل ہوا، جب کوفہ کے لوگوں نے انھیں بلایا کیا اور یہ کہ حسین اور اس کے بیشتر گھرانے کو کربلا میں قتل کرکے ختم کر دیا۔ اس دن سے، طالبیوں کو پھر بھی بار بار چھوڑنے کا خیال آیا، لیکن عظیم سانحہ اور جنگ کربلا میں جو کچھ ہوا اس نے انھیں روک لیا، یہاں تک کہ زید بن علی زین العابدین بن الحسین کے آنے تک۔[731]

واقعہ کربلا کے اثرات

آج ہسٹری اور سوشیالوجی کے اسکالرز ایک خاص خطرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں جو اس کے وقوع پزیر ہونے اور اس کے مقام کے بعد ہر انقلاب کو خطرہ بناتا ہے۔ تاریخ ہمیں ان لوگوں کے وجود کے بارے میں بتاتی ہے جو انقلاب کی کامیابی اور پھل پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مخالفت کرتے تھے، لیکن ایک بار جب انھوں نے اپنی مخالفت ترک کردی تو وہ اس میں شامل ہو گئے اور اس کا ورنما حاصل کر لیا اور اس انقلاب کے پیچھے اپنا اصلی امیج چھپا لیا اور یہ لوگ انقلاب کی شکل و صورت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ عام لوگ اس بنیادی تبدیلی کو نہیں سمجھ سکتے جو واقع ہو سکتی ہے۔ اس میں، جبکہ وہ در حقیقت، اس انقلاب کے جوہر اور بنیادی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اسے بدعنوانی اور بدعنوانی کی سمت کھینچ رہے ہیں۔ [732] یہاں ہمیں تیز نگاہوں اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہے، ہمیں ایک دوربین کی ضرورت ہے جو داخلہ اور مشمولات میں داخل ہوجائے اور شکل، دکھائی دینے والے اور ترازو کو نظر انداز کرنے کے ل۔، یہ جاننے کے لیے کہ جو موجود ہے وہ حقیقت اور حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ [733]

اور یہاں اسلامی تاریخ کے دائرے کو تبدیل کرنے میں حسین بن علی کے انقلاب کا کردار ہے، کیوں کہ ان کی کارکردگی امام علی کی تحریک کا تسلسل تھا، جب امام علی مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو فتحوں کو کوئی اہمیت نہیں دی اور سرحدوں سے باہر کافروں کا مقابلہ کیا، جبکہ امام نے داخلی اصلاح پر پوری توجہ دی، امام کا خیال تھا کہ اسلام جو کچھ، اس کے چہرے پر، وسیع اور بڑھتا ہوا ہوا، سوجھی ہوئی آنکھ کی طرح ہے، جیسا کہ اس کے اندر بدعنوانی کی طرف بڑھتا ہے، لہذا وہاں داخلی اصلاح کا عمل ضرور ہونا چاہیے۔ اس طرح، اسلامی برادری میں اصلاح کے لیے، حسین بن علی کا انقلاب تھا۔ [734]

دوسری طرف، حسین بن علی انقلاب کو ایک اہم ترین تاریخی واقعہ سمجھا جاتا ہے جس نے واقعہ کربلا کے بعد اور اس موقع پر واقع اہل بیت مکتب کی عمومی سیاسی لائن کی تشکیل کے موقع پر پھوٹ پڑی تاریخی انقلابات کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ لہذا، ایک تاریخی محقق اموی دور کی تاریخ اور انقلابات، تضادات اور اس میں پائے جانے والے عظیم واقعات کا مطالعہ نہیں کر سکے گا، جب تک کہ وہ عام طور پر اسلامی برادری پر اور اہل بیت مکتب کی کمیونٹی میں، جس کی موجودگی کوفہ اور بصرہ اور کچھ شہروں میں مرکوز ہے۔ دوسرے عراقی اور کچھ فارسی شہر۔ [735]

قرآن مجید کے نقطہ نظر سے قوموں کے خاتمے کی وجوہات

قرآن کریم کونسے عوامل پر غور کرتا ہے جو قوموں کے خاتمے کا باعث بنتا ہے؟ کیا یہ علامتیں اور عوامل اسلامی معاشرے میں پائے گئے، جہاں حسین بن علی کو خطرہ محسوس ہوا؟ یہ معنی عظیم آیت سے سمجھا جاتا ہے: وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ سے سے گے ربط= جہاں رسول کی زندگی میں دیر سے باہر دشمن کی مایوسی کی سطح تک پہنچ گیا اور وہ اسلام کے لیے خطرہ نہیں بن گیا، جس میں آیت نمبر پر زور دیا گیا ہے "نہیں ٹخکوم اور اخکن" کا مقصد "اخکن" کا مقصد : آپ کو اسلامی قوم کے بدعنوانی پر خوفزدہ ہونا پڑے گا، جو اپنے سال کی خوبی سے قوم کے خدا کو لوٹ لے گا۔ دوٹوک: "بے شک، خدا کسی لوگوں کی حالت نہیں بدلا جب تک وہ اپنے اندر موجود چیزوں کو تبدیل نہ کریں" تمام برکتیں جو موجود ہیں۔ [734]

ناانصافی

قرآن مجید میں ناانصافی، اقوام کے خاتمے کا سبب ہے اور قرآن مجید کی بہت سی آیات ہیں جن میں اس موضوع کے بارے میں بات کی گئی ہے، جیسے سورہ ہود میں 100-119 کے درمیان میں واقع آیات؛ یہ ان عمدہ آیات میں سے ایک میں آیا ہے: وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ربط= اور یہ ایک اور آیت میں کہتا ہے: وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ربط= جس کا مطلب بولوں: خدا کسی قوم کو غفلت کے بغیر ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی خدا ان پر ظلم کرے گا۔ [736] رسول نے یہ بھی کہا: الملك يبقى مع الكفر ولا يبقى مع الظلم [737] سور of القصص کے آغاز میں، اس نے کہا: "فرعون زمین پر بلند ہے اور اس نے اپنی قوم کو ایک فرقہ بنایا ہے جو الشطر کے لوگوں سے التجا کرتا ہے، کہا: بادشاہ وہ ہے جو تبدیلی کا متلاشی ہے۔" خدا کا فضل اور ناانصافی قائم کرنے سے اس کا بدلہ جلدی کرنا [738]

اخلاقی بدعنوانی

فرد کی اخلاقی صداقت اور بدعنوانی دوسرا اصول ہے جو قرآن مجید سے اخذ کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی معاشرہ افراد کے ایک گروہ پر مشتمل ہوتا ہے تو، ان کی شخصیات اخلاق، اخلاق، ملکہ اور خوبیاں کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں۔ معاشرہ زندہ رہتا ہے اور جاری رہتا ہے اگر اس کے ارکان اخلاقی بدعنوانی کا شکار نہیں ہیں۔ کرپٹ وہ ہے جو اختلاف رائے، جرم، جوا، شراب، رشوت اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا عادی ہے۔ مندرجہ ذیل عمدہ آیت آسائش کی صورت حال کا تعارف کراتی ہے۔ وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ربط= مذہب پسند معاشرے میں بے حیائی، بے حیائی اور اخلاقی بدعنوانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ جیسا کہ عظیم آیت کا ثبوت ہے وہ تباہی، بربادی اور ہلاکت ہے۔ [739]

لہذا معاشرہ افراد کے ایک گروہ پر مشتمل ہے اور اس کا مرکب فطرت میں اس وقت تک موجود نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے سارے حصے برقرار، درست اور خراب نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، کسی کمپاؤنڈ میں حصوں کی موجودگی کچھ تناسب میں ہونی چاہیے، جس کی بنا پر قدیموں نے اس موڈ کو کہا تھا جو حصوں کے مابین کشش، اثر و رسوخ اور پیار کی موجودگی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر کشتی کے پرزے خراب ہیں (وہ عمارت جو بوسیدہ مٹیریل سے بنی ہے) تو کشتی کا وجود ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن اس میں مستقل مزاجی اور استحکام کی خصوصیت نہیں ہے، اس بنا پر کہ اس کے حصے خراب ہیں۔ اس طرح، اگر پرزے اور خام مال صحیح اور ناقص ہیں، لیکن وہ بلڈر جو پرزوں سے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے پر کام کرتا ہے وہ بدعنوان تھا، اس سے عمارت میں بھی بدعنوانی ہوگی۔ [739]

تفریق بازی

یہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ربط= طبری نے کہا: خداتعالیٰ اپنا ذکر ان لوگوں کے لیے فرماتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں: اے مومنو! اپنے رب اور اس کے رسول کی اطاعت کرو جس میں اس نے تمھیں حکم دیا ہے اور تمھیں منع کیا ہے اور ان سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرنا۔" [740] امت جو آپس میں اتحاد کھو دیتی ہے اور تفرقہ اور منتشر کی لعنت ہوتی ہے، وہ ایک ضعیف امت ہوتی ہے، جب یہ خوشبودار خوشبو جو حقیقی اسلامی معاشرے سے اٹھتی ہے، غائب ہوجاتی ہے۔ [741] اور تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ریاستوں کے خاتمے کی ایک سب سے اہم وجہ قطع نظر ان کے مختلف عقائد اور ان کی غضب ہے، اس وقت اسلامی ممالک کے منتشر ہونے کے بعد خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور اسلامی ریاست اندلس میں گر پڑی اس کے بعد کہ سلطنتِ عثمانیہ اس وقت تک نہیں گرای جب تک کہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو گئے۔ [742]

ترك الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر

برائی سے روکنے اور برائیوں سے روکنے سے معاشرے کا خاتمہ، فنا اور تباہی ہوتی ہے [743]۔ ہم سورہ ہود میں پڑھتے ہیں: فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ یہ، ربط= اچھے کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک ضروری عنصر ہے، خواہ انسان روک تھام کے لیے کتنی ہی سختی سے کام لے، لیکن معاشرے میں ایسے لوگ باقی رہ گئے ہیں جو معاشرے کو انصاف کی فضا سے خراب کرنے یا ختم کرنے کا رجحان رکھتے ہیں اور اس طرح اسلامی معاشرے میں تفرقہ و بازی کا وجود وجوہات اور اسباب کی ایک سیٹ کے وجود کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں ایک تحریک یا صورت حال ہے جو خود اصلاح کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔اگر یہاں اخلاقیات خراب ہوجاتے ہیں تو معاملے کو اچھے انداز میں آگے بڑھانا چاہیے اور اس سے منع کیا جانا چاہیے کہ اخلاقیات کی اصلاح کا ذریعہ بننے کے لیے کیا غلط ہے۔ بازی اور بازی کا حل، لہذا اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اتحاد کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ [744]  

سیاست

Thumb
ایران میں تعزیہ
Thumb
بھارت میں تعزیہ

حسین کی موت کا پہلا سیاسی استعمال مختار کی بغاوت کے دوران میں ہوا ہے، جب اس نے "حسین کا بدلہ" کے نعرے کے تحت کوفہ پر قبضہ کیا تھا۔ [475] [745] اگرچہ اہلِ قلم نے بھی یہی نعرہ استعمال کیا تھا، لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی پروگرام ہوا ہے۔ [475] اپنی قانونی حیثیت کو بڑھاوا دینے کے لیے، عباسی حکمرانوں نے امویوں پر دستبرداری کرکے حسین کی موت کا بدلہ لینے کا دعوی کیا۔ [18] اپنے اقتدار کے ابتدائی سالوں کے دوران میں، انھوں نے محرم کی رسومات کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ [128] آل بویہ، ایک شیعہ خاندان ہے جو اصل میں ایران سے تھا جس نے بعد میں عباسی دار الحکومت بغداد پر قبضہ کیا جبکہ عباسی خلیفہ کی سرکوبی قبول کرتے ہوئے، [746] محرم کی عوامی رسومات کو فروغ دیا تاکہ وہ اپنے آپ کو مذہب کے سرپرست کی حیثیت سے پیش کریں اور عراق میں شیعہ شناخت کو مضبوط بنائیں۔ [724] 1501 میں ایران کا اقتدار سنبھالنے کے بعد، صفویوں، جو پہلے ایک صوفی سلسلہ تھے، نے ریاستی مذہب اثناعشری شیعہ قرار دیا تھا۔ اس سلسلے میں، کربلا اور محرم کی رسمیں صفویت کے پروپیگنڈے کی ایک گاڑی اور خاندان کے شیعہ تشخص کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔ [724] ریزا یلدریم نے دعویٰ کیا ہے کہ صفوی انقلاب کا محرک حسین کی موت کا بدلہ تھا۔ [747] شاہی خاندان کا بانی، شاہ اسماعیل، خود کو مہدی (بارہویں شیعہ امام) یا اس کا پیش خیمہ سمجھتا تھا۔ [746] [747] اسی طرح، قاجار نے بھی محرم کے جلوسوں، تعزیہ اور مجالس کی سرپرستی کی، تاکہ ریاست اور عوام کے درمیان میں تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ [724]

ایرانی انقلاب

1979 کے ایرانی انقلاب میں کربلا اور شیعہ علامت نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ [724] مصائب، سوگ اور سیاسی خاموشی کے مذہب کے طور پر شیعہ مذہب کے روایتی نقطہ نظر کے برخلاف، شیعہ اسلام اور کربلا کو ایک عہدہ دیا گیا۔ انقلابی دانشوروں اور جلال الاحمد، علی شریعتی اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی جیسے مذہبی تجدید پسندوں کے انقلاب سے قبل کے دور میں نئی تشریح۔ [125] [724] ان کے نزدیک، شیعیت ظلم اور استحصال کے خلاف انقلاب اور سیاسی جدوجہد کا ایک نظریہ تھا، [125] اور جنگ کربلا اور حسین کی موت کو انقلابی جدوجہد کے نمونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ [724] حسین کے نظریات کا ادراک کرنے کے لیے رونے اور ماتم کی جگہ سیاسی سرگرمی کو تبدیل کرنا تھا۔ [748]

ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی کے سفید انقلاب اصلاحات کے بعد، جو ایرانی مذہبی رہنماؤں اور دیگر لوگوں نے مخالفت کی، روح اللہ خمینی نے شاہ کو اپنے وقت کا یزید قرار دیا تھا۔ [125] [746] ایرانی بادشاہت کی مذمت کرتے ہوئے، خمینی نے لکھا: "کربلا میں حسین کی جدوجہد کی اسی طرح تشریح کی جاتی ہے جیسے بادشاہت کے غیر اسلامی اصول کے خلاف جدوجہد کی جائے۔" [125] شاہ کی مخالفت کا موازنہ یزید کے حسین کی مخالفت سے کیا گیا، [746] اور محرم کی رسم اجتماعات فطرت میں تیزی سے سیاسی ہوتی گئیں۔ [724] ایگاہی کے مطابق، شاہ کی مختلف محرم رواج کے خلاف دشمنی، جسے وہ غیر مہذب خیال کرتے تھے، نے اس کے زوال میں مدد کی۔ [724] اسلامی جمہوریہ جو انقلاب کے بعد قائم ہوا تھا اس کے بعد سے محرم کی رسومات کو فروغ ملا ہے۔ علمائے کرام حسین کی تقابلی "سیاسی سرگرمی" کی ایک شکل کے طور پر انتخابات میں عوامی شرکت کی ترغیب دیتے ہیں۔ [724] ایران-عراق جنگ کے دوران میں، حسین کی موت سے متاثر ہونے والے شہادت کے جذبے کو ایرانی فوجیوں میں اکثر دیکھا گیا۔ [125] [724]

بنیادی اور کلاسیکی ذرائع

کربلا داستان کا بنیادی ماخذ کوفی مورخ ابو مخنف کی کتاب مقاتل الحسین ہے۔ [59] حسین کی وفات سے متعلق ابتدائی دیگر تصنیفات، جو ابھی تک نہیں بچ پائے، الصبغ النباطہ، جابر بن یزید الجوفی، عمار بن معاویہ الدھانی، اوانا بن الحکم نے لکھے تھے۔، الواقدی، ہشام ابن الکلبی، نصر ابن مزاحم اور المدائنی ؛ ان میں سے النبطہ کا مونوگراف شاید قدیم ترین تھا۔ [126] اگرچہ ابو محنف کی تاریخ پیدائش کا کوئی پتہ نہیں ہے، لیکن وہ ابن العاشق کی بغاوت کے وقت، ایک بالغ تھا، جو 701 میں ہوئی، یہ جنگ کربلا کے بیس سال بعد ہوئی تھی۔ اس طرح وہ بہت سے عینی شاہدین کو جانتا تھا اور اس نے خود ہی کھاتوں اور کچھ ٹرانسمیٹر کی چھوٹی سی زنجیروں والے عام طور پر ایک یا دو بیچوان جمع کرتے تھے۔ [20] عینی شاہدین دو طرح کے تھے: وہ حسین کے پہلو سے تھے۔ اور وہ ابن سعد کی فوج سے۔ چونکہ حسین کے کیمپ سے چند افراد زندہ بچ گئے ہیں، زیادہ تر عینی شاہدین دوسرے درجے سے تھے۔ جولیس ویلہاؤسن کے مطابق، ان میں سے بیشتر نے جنگ میں اپنے اقدامات پر نادم ہوئے اور اپنے جرم کو کم کرنے کے لیے جنگ کے بیانات حسین کے حق میں سجائے۔ [57] اگرچہ ایک عراقی ہونے کے ناطے، ابو مخنف علی کے حامیوں کے حامی تھے، لیکن ان کی اطلاعات میں عام طور پر اس کی طرف سے زیادہ تعصب نہیں پایا جاتا ہے۔ [20] ایسا لگتا ہے کہ ابو مخنف کا اصل متن ضائع ہو چکا ہے اور موجودہ نسخہ ثانوی ذرائع جیسے تاریخ انبیاء اور تاریخ الرسل والملوک کے ذریعہ منتقل ہوا ہے، جسے محمد بن جریر الطبری کی تاریخ طبری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اور انساب ال اشراف از احمد بن یحییٰ بلاذری۔ اس کے باوجود گوثہ (نمبر 1836)، برلن (اسپرنجر، نمبر 159-160)، لیڈن (نمبر 792) اور سینٹ پیٹرزبرگ (AM نمبر 78) لائبریریاں میں متبل کے چار مخطوطے ابو مخنف سے منسوب کیے گئے ہیں۔۔ [11] طبری نے یا تو سیدھا ابو مخنف یا اپنے طالب علم ابن الکلبی سے حوالہ دیا، جنھوں نے اپنا سب سے زیادہ سامان ابو مخنف سے لیا۔ [59] طبری کبھی کبھار عمار بن معاویہ، [126] آوانا [126] اور دیگر بنیادی وسائل سے مواد لیتا ہے، تاہم، اس کے بیان میں بہت کم اضافہ ہوتا ہے۔ [57] بلاذری طبری جیسے وسائل استعمال کرتے ہیں۔الدینوری اور یعقوبی کے کاموں میں پائی جانے والی جنگ کے بارے میں معلومات بھی ابو مخنف کے مقاتل پر مبنی ہیں، حالانکہ وہ کبھی کبھار کچھ اضافی نوٹ اور آیات بھی مہیا کرتے ہیں۔[59] دوسرے ثانوی ذرائع میں مسعودیکے مروج الذھب، ابن اعثم کی کتاب الفتوح، شیخ مفید کی کتاب الارشاد اور ابو الفرج الاصفہانی کے مقاتل الطالبیان شامل ہیں۔ ان ذرائع میں سے بیشتر نے ابو محنف سے مواد لیا، [126] اس کے علاوہ اوانا، المدائنی اور نصر ابن مزاحم کے بنیادی کاموں کے علاوہ بھی کچھ مواد حاصل کیے [126]

اگرچہ طبری اور دیگر ابتدائی ماخذات میں کچھ معجزاتی کہانیاں ہیں، [11] یہ ذرائع بنیادی طور پر تاریخی اور عقلی نوعیت کے ہیں، [125] بعد کے ادوار کے ادب کے برخلاف، جو فطرت میں بنیادی طور پر ہیگوگرافیکل ہے۔ [125] [749]

ابتدائی عیسائی ذریعہ کے ذریعہ جنگ کربلا کی اطلاع بھی ملی تھی۔ ادریسہ کے شامی عیسائی اسکالر تھیوفیلس کی ایک تاریخ جو 775 اور 785 کے درمیان میں عباسی دربار میں چیف اسٹرولوگروفر تھا، جزوی طور پر متعدد موجودہ مسیحی تاریخوں میں محفوظ ہیں، جن میں مائیکل شامی اور بازنطینی مورخ تھیوفینس کنفیوزر شامل ہیں۔ [750] تھیفیلس کی تاریخ حسین اور اس کے بیشتر افراد کو پیاس میں مبتلا ہونے کے بعد کربلا میں جنگ اور حسین کی لڑائی میں موت کی تصدیق کرتی ہے۔ لیکن تمام مسلم وسائل کے برخلاف، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حسین نے یزید سے لڑائی کی تھی، تھیوفیلس نے لکھا ہے کہ معاویہ نے امویوں اور علی کے حامیوں کے مابین پہلے فتنے کی آخری جنگ کے طور پر معاویہ نے قتل کیا تھا۔[751]

تاریخی تجزیہ

خلیفہ یزید کو بھیجی گئی ایک سرکاری رپورٹ کی بنیاد پر، جس نے اس جنگ کو بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ جنگ کسی سیسٹا سے زیادہ جاری نہیں رہی تھی، لیمنس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایک لڑی میں بالکل بھی نہیں تھا بلکہ ایک فوری قتل و غارت گری تھی جو ایک گھنٹے میں ختم ہو چکی تھی۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ ابتدائی ذرائع میں پائے جانے والے تفصیلی اکاؤنٹس عراقی من گھڑت ہیں، کیونکہ ان کے مصنفین نے لڑائی لڑائے بغیر ہیرو کے مارے جانے پر عدم اطمینان ظاہر کیا تھا۔ [23] اس کا مقابلہ مورخ لورا ویکیا واگلیری نے کیا ہے، جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ کچھ من گھڑت اکاؤنٹس ہونے کے باوجود، ہم عصر حاضر کے سبھی اکاؤنٹس مل کر "ایک مربوط اور معتبر داستان" تشکیل دیتے ہیں۔ وہ لیمنس کی قیاس آرائی پر تنقید کرتی ہے کیونکہ وہ واحد تنہائی رپورٹ پر مبنی ہے اور تنقیدی تجزیہ سے مبرا ہے۔ [59] اسی طرح، میڈیلونگ اور ویلہاؤسن نے زور دے کر کہا کہ یہ جنگ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جاری رہی اور جنگ کا مجموعی حساب قابل اعتماد ہے۔ [9] [57] واگلیری اور میڈیلونگ نے مخالف کیمپوں کے مابین عددی تفاوت کے باوجود جنگ کی لمبائی کی وضاحت کی ہے کیونکہ ابن سعد نے لڑائی کو طول دینے کی کوشش کی اور حسین کو جلدی سے مغلوب کرنے اور اسے مارنے کی کوشش کرنے کی بجائے پیش کرنے پر دباؤ ڈالا۔ [59] [9]

ویلہاؤسن کے مطابق، یزید نے حسین کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہمدردی ظاہر کی اور ابن زیاد پر اس کی لعنت صرف نمائش کے لیے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حسین کو قتل کرنا جرم تھا تو اس کی ذمہ داری یزید پر عائد ہوتی ہے نہ کہ ابن زیاد، جو صرف اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ [57] میڈیلونگ کا بھی ایسا ہی نظریہ ہے۔ ان کے بقول، ابتدائی اکاؤنٹس میں حسین کی موت کی ذمہ داری یزید پر نہیں بلکہ ابن زیاد پر عائد ہوتی ہے۔ یزید، مدیلنگ کا کہنا ہے کہ، حسین کی مخالفت کو ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک خلیفہ اسلام کے طور پر اس کو عوامی طور پر ذمہ دار سمجھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اس نے منافقانہ لعنت بھیج کر ابن زیاد پر الزامات پھیر دیا۔ [9]

حسین کے محرکات کے بارے میں جدید تاریخی آراء

دوسری طرف واگلیری اسے نظریے سے متاثر ہونے کا خیال کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس جو مواد نیچے آیا ہے وہ مستند ہے، تو وہ اس شخص کی شبیہہ پیش کرتے ہیں جو "اس بات پر قائل ہے کہ وہ حق پر ہے، ہٹ دھرمی سے حصول کے لیے پرعزم ہے ان کا انجام … " [59] اسی طرح کا نظریہ رکھتے ہوئے، میڈلنگ نے استدلال کیا ہے کہ حسین ایک" لاپروا باغی "نہیں تھا بلکہ ایک مذہبی آدمی تھا جو تقویت کی بنا پر متاثر تھا۔ ان کے مطابق، حسین کو اس بات کا یقین تھا کہ "پیغمبر کے اہل خانہ کو محمد کے قائم کردہ اس معاشرے کی رہنمائی کے لیے خدائی طور پر چن لیا گیا تھا، جیسا کہ مؤخر الذکر کا انتخاب کیا گیا تھا اور اس کی قیادت حاصل کرنے کا ایک ناگزیر حق اور ذمہ داری بھی تھی۔ [9] ماریہ ڈاکاک کا مؤقف ہے کہ حسین نے اموی حکومت کو جابرانہ اور گمراہ کن سمجھا اور اسلامی جماعت کو صحیح سمت میں بحال کرنے کے لیے بغاوت کی۔ [752] حسین محمد جعفری نے خیال پیش کیا کہ حسین اگرچہ نظریے سے محرک ہیں، لیکن وہ اپنے لیے قیادت کو محفوظ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ حسین جعفری کا دعوی ہے کہ، شروع سے ہی مسلم برادری کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور اس بات کا انکشاف کرنا تھا کہ وہ اموی حکومت کی جابرانہ اور اسلام دشمن فطرت کو سمجھتے ہیں۔ [11]

ادب میں کربلا

تاریخ کی کتابوں میں کربلا

حسین بن علی کے انقلاب نے مختلف عرب، اسلامی اور بیرونی ممالک کے ادیبوں، شاعروں، مورخین، مصنفین اور مفکرین کی توجہ حاصل کی۔ جو کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کتابوں نے حسین کے انقلاب کا احاطہ کیا ہے، ان میں سے ہیں: " مروج الذہب " المسعودی کی، تاریخ الامم والملوک طبری کی "ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ " اور مجلسی کی " بحار الانوار " اور دیگر۔

كتب المَقَاتِل میں کربلا

واقعہ کربلا کے بارے میں سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، جو پہلی صدی ہجری سے شروع ہوکر ہمارے وقت تک جاری رہی ہیں اور یہ ان میں سے کچھ اشارہ ہے:

شہادت حسین پر کتابیں لکھنے والے پہلے لوگوں میں:

  • ابو احمد عبد العزیز بن یحییٰ بن احمد بن عیسیٰ الجالودی،
  • اور تیسری صدی ہجری میں ابو الحسن علی بن محمد الممدینی،
  • ابو الفضل نصر بن مظہم المقری العطار، جو سن 212 ہجری میں فوت ہوا اور بہت سے دوسرے

مقاتل کی کتابیں شائع کی گئیں جن میں رزمیہ کربلا کو بیان کیا گیا ہے، ان میں سے سب سے اہم کتابیں یہ ہیں:

جدید اور عصری تاریخ میں کربلا

  • کربلا مہم کے بارے میں جاری کردہ بہت ساری حالیہ کتابوں میں، ہم تذکرہ کرتے ہیں: (کربلا کے بحالی میں) حسین کورانی کی تحریر: سن 1991 ء میں،
  • اور ( عیسائی خیال میں الحسین ) از انتون پارا،
  • اور (تاریخ کربلا) عبد الجواد الکلیدار
  • محمد عبدو یامانی نے اپنی کتاب (اپنے بچوں کو گھروں کی محبت سکھائیں) میں محرم 61 ہجری کو کربلا معرکہ اور امام حسین، ان کے اہل خانہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی داستان پر تبادلہ خیال کیا۔
  • جہاں تک حالیہ علمی تحقیقی کتابیں ہیں جن میں واقعہ کربلا کے بارے میں پوری تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور دنیا کے ممالک میں شہادت حسین کی یاد میں منانے کے جو طریق کار ہیں، وہ ابراہیم الحیدری کی تصنیف کردہ کتاب (کربلا المیہ) ہے۔

مصنفین کی نظر میں کربلا

جبرا ابراہیم جبرا : سانحہ الحسین جیسے بڑے سانحات میں، طرح طرح کے انسانی المیے گرمی، پیاس، ظلم، اجتماعی قتل اور سر قلم کرنے کی فضا میں پائے جاتے ہیں، انسانی پاگل پن، غداری کا المیہ، آزادانہ قتل کا المیہ ہے، اسی طرح سانحہ و فضلیت کا المیہ ہے۔۔۔ الحسین زندگی سے بڑا ہے اور شاید وہ اس دائرے سے باہر بوڑھا اور اونچا ہے جس کے اندر ہیرو کے ساتھ اس کی خواہش کے باوجود بھی وہ اتحاد کرسکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کا فنی اظہار اس کی موثر حد تک ہی محدود ہے۔ [753]

یادگاری

سلامی شیعہ ہر میں جنگ کی برسی ہجری سال، ہم کے پہلے سے شروع محرم کو محدود محرم کی دسویں اور احیا تیرھویں دن تک، احیا کچھ شامل ہو سکتے رسومات جیسے کونسلوں کے قیام، ، کا دورہ حسین کے مزار اور تپپڑ اور Alttber اور دیگر۔ یحییٰ اس چالیسواں کو بھی یاد کرتے ہیں ، یعنی صفر کے بیسویں دن کا، جو عبید اللہ بن زیاد کی فوج کے ذریعہ کربلا کی جنگ میں امام حسین بن علی بن ابی طالب کے قتل کے 40 دن گذر جانے کے مساوی ہے۔

شیعہ ہر ہجری سال واقعہ کربلا کو یاد کرتے ہیں، محرم کی پہلی محرم سے لے کر دسویں محرم تک اور بحالی تیرہویں دن تک پہنچ سکتی ہے۔ رسومات جیسے مجالس کا قیام، حسین کے مزار اک زیارت، اس چالیسواں کی یاد بھی مناتا ہے، یعنی صفر کے بیسویں دن کا، جو عبید اللہ بن زیاد کی فوج کے ذریعہ کربلا کی جنگ میں امام حسین بن علی بن ابی طالب کے قتل کے 40 دن گذر جانے کے مساوی ہے۔

اربعین مارچ

اربعین کے جلوس جس کے دوران میں لاکھوں شیعہ ہر سال بیس صفر کوحسین بن علی بن ابی طالب کی زیارت کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوتے ہیں، شیعہ عراقی شہروں اور دیہات سے اور ایران، جیسے بحرین، کویت اور لبنان اور پاکستان جیسے مختلف ممالک سے پیروکاروں کے متعدد وفدوں کی شرکت کے ساتھ مختلف عراقی شہروں اور دیہاتوں سے مذہبی جماعتیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع اور سب سے بڑا مارچ تصور کیا جاتا ہے۔ [754]

ادب پر ​​اثرات

ادب

Thumb
کربلا میں دیکھنے والے واقعات کے بارے میں لوگوں کو بتانا کاملر

کربلا پر میر مشرف حسین کا 19 ویں صدی کا ناول، بیشاد سندھو (بحر ہند) نے بنگالی ادب میں اسلامی مہاکاوی(رزمیہ) کی نظیر قائم کی۔ [755] جنوبی ایشیائی فلسفی اور شاعر محمد اقبال کو بھی اسی طرح کیا جا رہا ہے جو حسین علیہ السلام کی قربانی کو اسمعیل کی قربانی کی طرح دیکھتا ہے اور یزید کی حسین سے مخالفت کا موازنہ فرعون کی موسی سے مخالف سے کرتا ہے [756] اردو شاعر غالب نے دسویں صدی کے ایک صوفی، منصور حلاج کے ساتھ حسین کے دکھوں کا موازنہ کیا، جسے خدا کے دعوے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ [726]

مقتل ادب اور افسانوی بیانات

مقاتل (جمع: مقاتل) کسی کی موت کی داستان بیان کرتا ہے۔ [749] اگرچہ علی، عثمان اور متعدد دیگر افراد کی ہلاکتوں پر مقاتل لکھا گیا ہے [749]، لیکن مقاتل نوع نے بنیادی طور پر حسینی کی موت کی کہانی پر توجہ دی ہے۔۔ [749] [757]

نیز ابو مخنف کے مقاتل کے علاوہ حسین پر دوسرے عربی مقاتل بھی لکھے گئے تھے۔ [757] ان میں سے زیادہ تر تاریخ علامات کے ساتھ مل جاتی ہے [749] اور حسین کی معجزاتی پیدائش کے بارے میں اس کی تفصیل ہے، جو 10 محرم کو بتائی گئی ہے، جو اس کی وفات کی تاریخ کے مطابق ہے۔ [757] کائنات کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی یوم عاشور (10 محرم) کو تخلیق کیا گیا ہے۔ عاشورا کو یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ دونوں ہی ابراہیم اور محمد کی ولادت کا دن اور یسوع کے جنت میں چڑھنے اور پیغمبروں کے بارے میں متعدد دیگر واقعات تھے۔ [757] یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حسین نے مختلف معجزے کیے جن میں ان کے انگوٹھے کو منہ میں ڈال کر اپنے ساتھیوں کی پیاس بجھانا اور آسمان سے کھانا اتار کر اپنی بھوک کو مطمئن کرنا اور کئی ہزار اموی حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔ [59] [757] دوسرے بیانات میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ جب حسین کی وفات ہوئی تو، اس کے گھوڑے نے آنسو بہائے اور بہت سارے اموی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ [757] آسمان سرخ ہو گیا اور اس نے خون کی بارش کی۔ فرشتے، جن اور جنگلی جانور روئے۔ یہ روشنی حسین کے ماتھے ہوئے سر سے نکلی اور اس نے قرآن کی تلاوت کی۔ اور یہ کہ اس کے سبھی قاتلوں کا خاتمہ ہوا۔ [59]

مقاتل نے بعد ازاں فارسی، ترکی اور اردو ادب میں بھی داخل ہوئے اور رودا کی ترقی کی تحریک دی۔ [749]

مرثیہ اور رودا

جب 16 ویں صدی میں شیعہ ایران کا سرکاری مذہب بن گیا تو، شاہ طہماسپ اول جیسے صفوی حکمرانوں نے، کربلا کی جنگ کے بارے میں لکھنے والے شاعروں کی سرپرستی کی۔ [758] فارسی اسکالر وہیل تھاکسٹن کے مطابق، انھوں نے مرثیہ کی صنف [759] (مردہ کی یاد میں نظمیں، کربلا سے متعلقہ مارتھیا کی مقبول شکلیں رودا اور نوحہ تھیں)، فارسی اسکالر وہیل تھیکسٹن کے مطابق، "خاص طور پر صفویوں نے کاشت کی تھی۔ [758] متعدد فارسی مصنفین نے جنگ اور اس سے پیش آنے والے واقعات کے رومانوی انداز اور ترکیب شدہ ورژنوں کی تکرار کرنے والے متنی تحریریں لکھیں، [726] [724] [724]" متعدد فارسی مصنفین نے نصوص لکھے تھے کہ اس سے رومانوی شکل اور ترکیب شدہ ورژن اور اس سے پیش آنے والے واقعات، جس میں سعیدالدین کی روادات الشہداء (باغات شہداء) اور الخوارزمی کی مقاتل نور الائمہ شامل ہیں۔ [724] [726]جس کو حسین واعظ کاشیفی نے 1502 میں لکھا تھا۔ مجلسی میں لڑائی کے واقعات کا باقاعدہ انداز میں بیان کیا گیا کہ کاشفی کی تحریر رودا خوانی کی ترقی میں ایک کارگر عنصر تھی۔[724][760]

رودات الشہداء سے متاثر، آزربائیجانی شاعر محمد فضولی میں اس کا ایک مشترکہ اور آسان ورژن عثمانی ترکی میں حدیقت الشہداء لکھا۔ [761] اس نے اسی موضوع پر البانی زبان میں بھی اسی طرح کے کاموں کو متاثر کیا۔ دلیپ فریشری کی کوپشتی آئی میرویت اب تک کی قدیم ترین اور سب سے طویل مہاکاوی ہے، جسے البانی زبان میں لکھا گیا ہے۔ جنگ کربلا کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور فراشاری خاص طور پر حسین کو شہید ہونے والے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ [761] [762]

اردو مرثیہ بنیادی طور پر فطرت میں مذہبی ہے اور عام طور پر جنگ کربلا پر ماتم کرنے پر مرکوز ہے۔ بیجاپور ( علی عادل شاہ ) اور گولکنڈہ سلطنت ( محمد قلی قطب شاہ ) کے جنوبی ہندوستانی حکمران شاعری کے سرپرست تھے اور محرم میں اردو مرثیہ تلاوت کی ترغیب دیتے تھے۔ اس کے بعد اردو مرثیہ پورے ہندوستان میں مقبول ہوا۔ [763] اردو کے مشہور شعرا میر تقی میر، مرزا رفیع سعود، میر انیس اور میرزا سلامت علی دبیر نے بھی مرثیہ لکھا ہے۔ [763] کارل مارکس کا موازنہ حسین سے کرتے ہوئے، جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ کربلا ماضی کی کہانی نہیں ہے جس کو مذہبی علما نے مجالس میں پیش کیا ہے، لیکن اسے طبقاتی معاشرہ اور معاشی انصاف کے مقصد کے لیے انقلابی جدوجہد کے نمونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ [726]

صوفی شاعری

تصوف میں، جہاں نفس ( نفس ) کی فنا اور خدا کی راہ میں مبتلا ہونا بنیادی اصول ہیں، وہیں حسین کو ایک ماڈل صوفی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ [756] فارسی صوفی شاعر حکیم سنائی حسین کو ایک شہید کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں، جو دنیا کے دیگر تمام شہداء کے مقابلہ میں بلند ہے۔ جب کہ فرید الدین عطار اسے ایک صوفی کا پروٹو ٹائپ سمجھتے ہیں جس نے خدا کی محبت میں خود کو قربان کر دیا۔ [756] جلال الدین رومی الہی کے ساتھ یونین کے حصول کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کربلا میں حسین علیہ السلام کے مصائب بیان کرتا ہے اور اس وجہ سے غم کی بجائے خوشی کی بات کے ہونے کا یہ تصور کرتا ہے۔ [764] سندھی صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اپنے شاہ جو رسالو میں ایک حصہ حسین کی وفات کے لیے وقف کیا، جس میں اس واقعے کو نوحہ خوانیوں اور یادوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ [765] وہ بھی حسین کی موت کو راہ خدا میں کی جانے والی قربانی کے طور پر دیکھتا ہے اور یزید کی مذمت کرتا ہے کہ وہ خدائی محبت سے محروم ہے۔ [756] ترک صوفی یونس عمری نے اپنے گانوں میں حسین کو اپنے بھائی حسن کے ساتھ "شہداء کا چشمہ سر" اور "جنت کے بادشاہ" کے نام سے لیبل لگا دیا ہے۔ [756]

خواجہ معین الدین چشتی بلند پایہ صوفی بزرگ ہیں، وہ فرماتے ہیں:

شاہ است حسینپادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نا داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الا است حسین

پنجابی ادب

پنجابی زبان اور ادب میں واقعہ کربلا کے بارے میں کافی مواد ہے۔ پنجابی ادب کی ایک خاص صنف جنگ نامہ ہے جس میں کربلا کی لڑائی کے واقعات کو رزمیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔محرم کے دنوں میں پنجاب کے دیہاتوں میں یہ جنگ نامے پڑھے جاتے تھے۔ماضی قریب تک یہ روایت قائم رہی ہے۔

جنگنامہ کا مطلب جنگ سے متعلق اشعار ہے۔ فارسی میں جنگنامہ لکھنے کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ جنگنامہ فارسی اشعار کی شکل اختیار کر گیا۔اس کی ابتدا کربلا اور یزید کی لڑائی میں حضرت محمد کے نواسہ، حسین کی شہادت کی روایت میں ہے۔ ابتدائی جنگناموں میں کربلا کی جنگ کی تفصیل اور واقعات کی عکاسی بعد میں جنگناما شاعرانہ شکل کی ایک خصوصیت بن گئی۔ بہت سے فارسی شاعروں نے جنگنامہ لکھا اور امام حسین کو خراج عقیدت پیش کی۔

جنگنامہ کربلا

حافظ برخوردار نے جنگنامہ امام حسین لکھا۔ اورنگ زیب کے دور حکومت میں، پیر محمد کاسبی نے 1681 ء میں جنگنما کربلا کی تشکیل کی۔

اس کام کا مخطوطہ شاہی قلعہ، لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ ڈاکٹر پہلی بار شہباز ملک کی تدوین اور 1982 میں تاج بک ڈپو لاہور نے شائع کیا۔ اسکالرز اسے پنجابی میں لکھا جانے والا پہلا جنگ نامہ سمجھتے ہیں۔ اس کے مشمولات کی بنیاد فارسی محدث میں ایک کتاب ہے جسے انسولوازن کہتے ہیں۔ اس میں جنگ کربلا کو بیان کیا گیا ہے۔

جنگنامہ پیر محمد کاسبی

مجب کربلا کا پہلا باقاعدہ جنگنامہ اب تک دریافت ہوا ہے۔

پنجابی جنگنما روایت میں یہ پہلا جنگنامہ ہے جس میں پہلی بار پنجابی زبان میں امام حسین کی شہادت کے تناظر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد، مقبل اور حامد نے اپنی جنگناموں میں کربلا کے سیاق و سباق کی تصویر کشی کی ہے۔ اگرچہ یہ جنگناما اشعار اور داستان کی ایک غیر ملکی صنف کو پنجابی میں متعارف کراتے ہیں، وہ شاعری میں شیعہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ محرم کے دنوں میں، اس طرح کے جنگناموں کے افسوسناک مناظر کے اشعار کرکے مسلمانوں میں ایک سوگ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

جنگناما مقبل

مقبل نے 1159–1660 ہجری میں جنگنامہ امام حسین لکھا۔ حافظ محمود شیرانی مقبل کے جنگنامہ کو قدیم ترین کہتے ہیں جو 1159–60 ہجری میں مرتب ہوا تھا۔ شمشیر سنگھ اشوک بھی اس بیان سے متفق ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، "مقبل کی جنگنامہ شاید پنجابی میں پہلی کوشش ہے۔"

اس جنگنامہ میں، مقبل نے نہ صرف کربلا کے خونی واقعے کا ذکر کیا ہے، بلکہ اس واقعے سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جنگنامہ فارسی رزمیہ نظم کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

سرائیکی ادب

سرائیکی ادب میں مرثیہ کی روایت

برصغیر جنوبی ایشیا میں کربلائی ادب کا بانی سرائیکی خطہ ہے مگر نصاب کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ‘ نہ صرف یہ کہ سرائیکی کا ذکر نہیں بلکہ نصاب کی کتابوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ پنجابی‘ بلوچی ‘ پشتو ‘ براہوی ‘ ہندکو‘ پوٹھوہاری و دیگر پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونیوالے ادب کا بھی تذکرہ نہیں کہ حکمرانوں نے صرف ایک زبان کو فوقیت دی، اردو کا تعلق انڈیا سے تھا، اس لیے ادب کے میدان میں ہندوستانی اہل قلم کا تذکرہ تو ہوا جبکہ پاکستانی زبانوں کی تخلیقات سے اہل وطن محروم رہے۔ ادبی تخلیقات سے سوچ و فکر جنم لیتی ہے، پاکستانی سوچ و فکر پاکستانی زبانوں میں تخلیق سے ہی ممکن ہے، آج محرم الحرام کے موقع پر درخواست کر رہا ہوں کہ پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ادب کو قومی زبانوں کا درجہ دیکر نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ آنیوالی نسل کو پاکستان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ و آثار کا علم ہو سکے۔ وسیب کے قدیم مرکز ملتان میں عزاداری اور مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے۔ معروف مورخ حفیظ خان اس پر لکھتے ہیں کہ خطہ ملتان میں عزاداری اس وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے بعد دت قوم کے کچھ لوگ حضرت امام حسینؓ سے عقیدت رکھنے کے باعث وہاں مظالم کا شکار ہوئے اور عراق سے نکال دیے گئے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے۔ یہ لوگ 681 ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آ کر آباد ہوئے۔ ملتان شروع سے ہی محبت کرنے والا خطہ ہے، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا، ملتان کے باسیوں نے اسے اپنا درد سمجھا۔ دنیا میں پیش آنے والے ہر سانحے کو اپنا سانحہ سمجھ لیتے تھے۔ ظلم کا شکار کوئی بھی قوم ہجرت کر کے آئی ملتان نے محبت دی، اپنائیت دی، اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، اس کے دکھ میں شریک ہوئے۔ دت قوم کے لوگ جب اس خطہ میں آئے اس وقت ایران اور عبر کے زیر اثر اس قوم کے ان لوگوں نے مخلوط زبان میں عزاداری کی اور اس منظوم صنف کو عام کیا جو کبت کہلائی۔ کبت خوانی کرنے والے ان لوگوں کو حسینی باہمن کہا جاتا تھا۔ حسینی باہمنوں کے کہے ہوئے کبت ہی خطہ ملتان اور سرائیکی زبان میں مرثیہ کی ابتدائی شکل ہے۔ ایک روایت اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگ جو ظلم کا شکار ہو کر عراق سے ایران کے راستے اس علاقے آئے، یہاں کے کلچر اور یہاں کی زبان سے مانوس ہوئے، یہیں سے سرائیکی مرثیہ کی روایت بنی۔ نظام مصطفٰی صرف نعرے کے طور پر نہیں عملی طور پر ہونا چاہیے۔ قانون کی تعلیم کے لیے پوری دنیا میں مشہور برطانیہ کے تعلیمی ادارے ’’ لنکز ان ‘‘ میں بار ایٹ لا کے داخلے کے لیے قائد اعظم گئے تو ان کی نظر اس فریم پر پڑی جہاں روئے زمین پر قانون بنانے والے قانون ساز عمائدین کے نام لگے ہوئے تھے، اس فہرست میں سب سے پہلا نام ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیؐ کا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم نے بھی ہمارے آقا ئے نامدارؐ کے بنائے ہوئے قوانین کی عظمت اور سپرمیسی کو تسلیم کیا جب کہ مسلم ممالک آج بھی نظام محمدی نافذ کرنے کے لیے لیت و لعل سے کم لے رہے ہیں۔نظام محمدی کیا تھا ؟ نظام محمدی شوراتی نظام تھا جو ایک طرح کا جمہوری نظام ہے۔ یزید نے جب شورائی نظام کی بجائے ملوکیت کی بنیاد رکھی تو نواسہ رسول ؐ حضرت امام حسین ؓ نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ عملی طور پر میدان میں آ گئے۔ ہادی برحق کے نظام احیاء اور نفاذ کے لیے اپنی اور آل اولاد کی جانوں کی پروا نہ کی اور راہ حق میں قربان ہو کر امت محمدی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔مسلم ممالک میں پائی جانے والی مطلع العنانی، ڈکٹیٹر شپ مرضی کی حکومتیں، سرداری، جاگیرداری اور قبائلی نظام اور بڑی بادشاہتیں، یہ سب اس ملوکی نظام کے مظاہر ہیں جس کی بنیاد یزیدی دور میں رکھی گئی تھی۔ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ کو شہدائے کربلا کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس مہینے کی بہت زیادہ عظمت ہے ‘ اس پورے مہینے کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان شہر خاموشاں کی طرف جاتے ہیں اور پہلی محرم سے 10 محرم تک قبروں کی لپائی کی جاتی ہے۔ لواحقین قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘ نذر نیاز اور طعام تقسیم ہوتا ہے ‘ کھجور کے پتے ‘ دالیں ‘ خوشبودار پانی اور پھول کی پتیاں قبروں پر نچھاور کی جاتی ہیں‘ اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ واقعہ کربلا کا سرائیکی وسیب سے گہرا تعلق ہے، یہ بات دعوے سی کہی جا سکتی ہے کہ حضرت امام عالی مقام ؓ کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جتنا مرثیہ سرائیکی زبان میں کہا گیا ہے، دنیا کی کسی زبان میں نہیں کہا گیا۔ سانحہ کربلا 10 محرم 61 ھ بمطابق پہلی اکتوبر 680ء کے بعد حضرت امام حسین ؓ کے بیٹے حضرت امام زین العابدین ؓ مستورات کو لے کر دمشق گئے تو حضرت امام حسین ؓ کی بہن ام کلثوم اور امام زین العابدین کی زوجہ محترمہ نے مرثیے کہے۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سرائیکی زبان میں کربلائی ادب کے نام سے بہت سی اصنافِ سخن جانی اور پہچانی جاتی ہیں جیسا کہ حسینی ڈوہڑہ، حسینی مرثیہ، حسینی قصیدہ اور حسینی منقبت اپنی مثال آپ ہیں۔ سرائیکی مرثیہ سب سے پہلے سرائیکی وسیب سے شروع ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس عزاء جہاں بھی ہو رہی ہو، وہاں سرائیکی مرثیہ ضرور پڑھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لکھنؤ، دکن اور دہلی کی مجالس میں بھی سرائیکی مرثیے پڑھے گئے۔

اردو ادب

عربی اور فارسی ادب میں واقعۂ کربلا اور قربانیِ شبیرؑ کے موضوع پر قدیم زمانے سے شعر و ادب میں واضح طور پر فلسفۂ حق و باطل کو بیان کیا گیا ہے۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے نواسۂ رسولؐ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی: دانش وروں اور شاعروں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ اردو شعر و نثر میں کربلا کو حق و باطل کا ایک اہم استعارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہمیشہ کے لیے حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہے۔

اردو کے چند شاعروں کا کربلا پر کلام :

دشمن جو ہو حسین علیہ السلام کا

آتشؔ نہ کم سمجھ اسے ابنِ زیاد سے

(آتش)

جو کربلا میں شاہِ شہیداں سے پھِر گئے

کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھِر گئے

(امیر مینائی)

ڈوب کر پار اتر گیا اسلام

آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے

(یگانہ)

حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری

بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرمنہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل

(اقبال)

دشت میں خونِ حسین ابن علی بہہ جائے

بیعتِ حاکمِ کفار نہ ہونے پائے

(مصطفٰی زیدی)

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

(افتخار عارف)

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری

ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت ہے

(پروین شاکر)

تو نے صداقتوں کا نہ سودا کیا حسینؑ

باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی

(اقبال ساجد)

صبر کی ڈھال تیغ کو کرتی ہے کُند کس طرح

کوئی اگر یہ سن سکے کہتی ہے کربلا کہ یوں

(شکیل جاذب)

حسین دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ

کہیں بجھے تو نہیں دشت میں وفا کے چراغ

(نصرت مسعود)

حق و باطل کی ہے پیکار ہمیشہ جاری

جو نہ باطل سے ڈریں ہیں وہی شیعانِ حسین

(محمد علی جوہر)

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے

(فیض احمد فیض)

دلوں کو غسلِ طہارت کے واسطے جا کر

کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لائو

(مصطفٰی زیدی)

حسین ابنِ علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

(شہریار)

کتنے یزید و شمر ہیں کوثر کی گھات میں

پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا

(صبا اکبر آبادی)

چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے

خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے

(منظر حنفی)

فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ

جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے

(افتخار عارف)

اقبال کی شاعری میں کربلا اور امام حسین

نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظر انداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہوا ہے لہذا جو جتنا باشعور ہوگا اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی شاعر مشرق علامہ اقبال بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزین ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظر انداز کر ے

یوں بھی شاعر حسینیت قیصربار ہوئی کے بقول:

وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا

مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا

تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے

ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب

واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب

اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشان دہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔

آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

بعض اقبال شناسوں کے مطابق علامہ اقبال نے خدا کی رضا و اجازت کے بغیر ایک ہی لفظ زبان پر نہ لانے والے پیغمبر گرامی حضرت محمدؐکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا "حسین منی و انا من الحسین" "یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"

اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد بیت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خدا کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ کے نواسے ہیں لیکن رسول خدا کا امام حسین سے ہونا کیا۔۔۔ رکھتا ہے

اس حدیث کی تفسیر میں آیا ہے کہ چونکہ رسول آخر زمان حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہوجاتے تو رسول اکرم کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔جب اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل کی قربانی کو زبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کر دیا تو جس زبح عظیم کا ذکر آیا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیل کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیل قربانی ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خدا تک پہنچی۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آں امام عاشقاں پوربتولؑ سرو آزادی زبستان رسولؐ

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر مفی زبح عظیم آمد پسر

اقبال ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :

"سر ابراہیم و اسماعیل بود یعنی آن اجمال را تفضیل بود"

علامہ اقبال معرکہ کربلا کو حق و باطل کا ایک بے مثل واقعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:

"حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی"

گویا اقبال کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنا رہے گا آپ نے فرمایا تھا :"مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا"

علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں اداکیا ہے

موسی و فرعون و شبیر و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید

علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں

زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است

علامہ اقبال امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ در ویرانہ ها بارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چنین ایجاد کرد

رمز قران از حسین آموختم ز آتش او شعلہ ها اندوختم

علامہ اقبال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت کو اسلامی اور انسانی بیداری کا لازوال کردار گردانتے ہیں"رموز بیخودی" میں کہتے ہیں:

عزم او چون کوہساران استوار پایدار و تند سیرو کامکار

آگے چل کر مزید کہتے ہیں:

خون او تفسیر این اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد

نقش الا اللہ بر صحرا نوشت عنوان نجات ما نوشت

علامہ اقبال سیدالشہداء کی ذات میں گم ہوکر کہہ اٹھتے ہیں:

بهر حق در خاک و خون گردیدہ است بس بنا لا الہ گردیدہ است

حکیم الامت علامہ اقبال جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ آپ غم و اندوہ سے کہتے ہیں:

دشمنان چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزدان هم عدد

غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

کربلائی شاعری

کربلائی شاعری وہ شاعری ہے جو کربلا سے متاثر ہو کر کی جائے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد سے ہی ہر زبان میں یہ منفرد شاعری رواج پاتی گئی۔ اس کے تاریخی حوالے کر بلا کے زمانہ وقوع سے جا ملتے ہیں۔
اس کی متعدد اقسام ہیں۔ 1۔ قصیدہمرثیہنوحہبندمسدسمخمسرباعیبیتمنقبت 10۔ سلام 11۔سوز وغیرہ

کربلائی شعرا

جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض ، عبدالحمید عدم، احسان دانش، ناصر کاظمی، استاد قمر جلالوی، علامہ رشید ترابی، عابد علی عابد، سید ضمیر جعفری، جون ایلیا، رئیس امروہوی، شکیب جلالی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، احمد فراز، منیر نیازی، شیر افضل جعفری، کیفی اعظمی، مصطفٰی زیدی، کیپٹن جعفر طاہر، مشیر کاظمی، علامہ سید شاد گیلانی، بیدل پانی پتی، علامہ طالب جوہری، سیف زلفی، وحید الحسن ہاشمی، ڈاکٹر مسعود رضا خاکی، قیصر بارہوی ، افسر عباس افسر، سجاد باقر رضوی، عدیم ہاشمی، مہندر سنگھ بیدی، بیدل حیدری، سید محسن نقوی، محسن احسان، پروین شاکر، فارغ بخاری، عاشور کاظمی، مشکور حسین یاد، افتخار عارف، ریحان اعظمی، سید قمر حسنین ٬ حسن رضوی، امجد اسلام امجد، عباس تابش، زاہد فخری، سید صفدر ہمدانی، ڈاکٹر خورشید رضوی، سبط جعفر زیدی، شاہد نقوی، ریحان سرور، اختر چنیوٹی، زکی سرور کوٹی، صاحبزادہ رفعت سلطان، پیر نصیر الدین نصیر، ظفر سعید ظفر، سید ندیم عباس شاد، قائم نقوی، سید عقیل محسن نقوی، شوکت رضا شوکت، سیدعرفی ہاشمی، ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی، رمیض حیدری، سید فضل حسنین میثم ٬ سید نجم الحسنین ابوذر ٬ عقیل عباس جعفری، میر حسین حیدر تکلم، میر سجاد میر، حسنین اکبر، یاور رضا یاور اور ان کے علاوہ عہد حاضر کے بہت سے دیگر نامور اور گمنام تخلیق کار ایسے ہیں کہ ان میں سے چند ایک کا قلم تو مرثیہ و سلام نویسی کے لیے ہی مختص رہا جبکہ باقی سخنورغزل و نظم کے ساتھ ساتھ ایک موزوں تناسب کے ساتھ نعت، مرثیہ اور سلام کو بھی لکھتے رہنے کی ادبی روایت کے حامل نظر آتے ہیں۔ بھارت، امریکا، کینیڈا، انگلینڈ، یورپ اور عرب ریاستوں میں رہنے والے کئی گرانقدر ادبی قامت کے شعرائے اہل البیت کی فہرست اس مضمون میں شامل نہیں ہے لیکن آسٹریلیا میں مقیم کئی شعرا ئے اردو مثلاََ ڈاکٹر سید شبیر حیدر اور صباصادق بولانی، غزل نوشی گیلانی اور سعید خان کے ساتھ ساتھ سلام و نعت کہنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شاعری میں لغاتِ کربلا

کربلائی استعارے

عہد قدیم سے لے کر اب تک کے شعرا میں اگر مرثیہ کی مخصوص صنف سے ہٹ کر نگاہ کی جائے تو اردو زبان کی غزل کو بھی ہر عہد کے شعرا کربلا کی تشبیہات اور استعارات سے مزیّن کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

اِس میدان میں مسلمان شعرا کے علاوہ اردو زبان کے بعض غیر مسلم شعرا کی تخلیقات بھی کربلائی استعارات اور افکار سے لبریز رہی ہیں اور یہ بات کربلا سے اردو کے لا زوال رشتے کی گواہی کو اور زیادہ مضبوط کر دیتی ہے۔

شاعری میں کربلا کے موضوع کی شعوری ترکیب مرثیہ، سلام، نوحہ اور رباعی میں ظہور کرتی ہے جبکہ اس موضوع کی غیر شعوری ترکیب کا حوالہ اردو غزل و نظم میں موجزن نظر آتا ہے۔

اردو غزل بلکہ نظم کی بھی لغات میں پیاس، وفا، دشتِ بلا، شام غریباں، مقتل، نوکِ نیزہ، گریہء خون، خیمہ، قفس، درد، خیر و شر، تشہیر، کوچہء عشق، فرات، دھوپ، سجدہ، جراحت، ماتم، سفر، یتیمی، تشنہ دہانی، غربتِ جاں، چراغِ خیمہ، آخری وداع، رسن بستگی، صبر، بیکسی، خنجرِ قاتل، شہیدِ وفا، مسافرت، حُر، گردِ سفر، تیغِ ستم، چہرے پہ خون ملنا، بندشِ آب، سر بُریدگی، بازو قلم ہونا، مشکیزہ، دریا، پامالی، بازارِکوفہ، خاکِ مزار یا خاکِ شفا، وقتِ عصر، چادرِ سر، عزا، مجلس، بے پردہ، علمدار، سینہ کوبی، رخصت، آمد، رَجَز، جنگ، شہادت، دعا، طفل شیر خوار، ماں کی گود، باپ کا سینہ اور ان جیسے کئی دیگر استعارات و اشارات جیسے شمر، یزید، شقی، ظالم، حارث، طماچہ، در چھین لینا، تازیانہ، اجڑنا، گھرانہ، صغری، شام، بازار، ننگے سر، خاک نشیں، باغی، ڈھول، شہنائی، ہار کے جیتنا، جیت کر ہارنا، وغیرہ شامل ہیں ان کا معدن کربلا کے سوا کچھ اور قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عربی اور فارسی میں بھی اس موضوع پر بے شمار کتب ہیں۔

عربی میں سید جواد شبر کی ایک تاریخی ادبی کتاب ادب الطف ہے۔

متعلقہ عناوین و موضوعات

میر انیس کی مرثیہ گوئی

میر انیس اُردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے زمین سخن کو آسمان کر دیا ہے۔ جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں یکتا ہیں۔ اوّل تو میر انیس نے اپنی مرثے وں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کر دیا ہے۔ دوسرا انھوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کرکے اس کو ارفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔ واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعراءنے مذہبی عقیدت کی بنا پر مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کانام سر فہرست ہے اردو کے دکنی دور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے شمالی ہند میں بھی اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا۔ لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لیے مسدس کو مخصوص کر دیا جس کو بعد کے شعراءنے بھی قائم رکھا۔ سودا کے بعد میر خلیق، میر ضمیر، دیگر اور فصیح وغیرہ نے مرثے ہ کو ترقی دی لیکن فنی بلندی، امتیازی خصوصیات کو نکھارنے اور جاذب دل و دماغ بنانے کے لیے ااس صنف کو میرانیس کی ضرورت تھی جنھوں نے مرثیہ کو معراج کمال پر پہنچایا انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔ علاوہ دوسرے اصناف کے مرثیے میں طبع آزمائی کی جارہی تھی۔ میر ضاحک، میر حسن اور میر خلیق اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔ الفاظ زبان کی صفائی اور صحت پر خاص زور تھا۔ انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنؤ میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی اور دہلی والوں کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو“

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردو “ کہتے ہیں۔

” انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔“

پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،

” انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اُتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بے جا نہیں،

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
 کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
 اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

میرانیس اردو کے سب سے بڑے مرثیہ گو شاعر ہیں ہم سب سے پہلے ان کی مراثی کا تجزیہ فن مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے کریں گے۔

مراثی انیس کے اجزائے ترکیبی:۔

چہرہ:۔ چہرہ مرثیہ کا پہلا جزو ہوتا ہے اس کی حیثیت تقریباً ایسی ہی ہے جیسے قصید ے میں تشبیب کی ہوتی ہے چہرہ سے مرثیہ گو اپنے مرثیہ کا آغاز کرتا ہے یہ آغاز مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ مثلا انیس نے مراثی انیس جلد اوّل میں اپنے پہلے مرثیے کا آغاز دعا سے کیا ہے انھوں نے خدا سے دعا کی ہے کہ ان میں و ہ شعر گوئی کی صلاحیت پیدا کر دے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

یارب ! چمن نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابر کرم ! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
 جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
 اقلیم سخن میر ے قلم رو سے نہ جائے

میر انیس نے چہرے میں کبھی کبھی اخلاقی قدروں کو پیش کیا ہے۔ ان اخلاقی قدروں کی وجہ سے مرثیے کی عظمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

سراپا:۔ مرثیے کا دوسرا جزو سراپا ہوتا ہے جس میں کرداروں کے جسم، قدو قامت اور خط و خال کا نقشہ کھینچا جاتا ہے میر انیس نے جا بجا مختلف کراروں کا سراپا پیش کیا ہے۔ حضرت امام حسین کے بڑے بیٹے حضرت علی اکبر تھے۔ وہ بھی نہایت حسین و جمیل تھے میر انیس ان کے بارے میں فرماتے ہیں،

گلدستہ حسین میں اکبر سا گلبدن
 قربان جس کے تن کی نزاکت پہ یاسمن
سنبل کو لائے پیچ میں و ہ زلف پر شکن
غل تھا کہ تنگ تر کہیں غنچے سے ہے دہن
 مطلب کھلا ہو ا ہے خط سبز رنگ کا
 بہ حاشیہ لکھا ہے اسی متن تنگ کا

رخصت:۔ مرثیہ کا تیسراجزو رخصت ہے جب کوئی جنگ کے لیے جاتا تھا تو اہل بیت اس کو رخصت کرتے تھے جس کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔ جناب عون و جناب محمد حضرت زینب کے بیٹے ہیں۔ اگر چہ کم سن ہیں لیکن شجاعت ان کی سرشت میں داخل ہے ان کی رخصت کا منظر میر انیس یوں بیان کرتے ہیں۔

خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
 دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی، وہ صفدر
منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
 یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں
بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں

آمد:۔ آمد کو ہم مرثیہ کا چوتھا جزو تصور کر سکتے ہیں اس میں مرثیہ گو کردار کی آمد پیش کرتا ہے اور اس کی شان و شوکت پر روشنی ڈالتا ہے میرانیس نے اپنے مرثیوں میں مختلف کرداروں کی آمد دکھائی ہے۔ حسینی لشکر میں سب سے زیادہ بہادر حضرت عباس تھے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا عہد شباب تھا اس لیے ان کے بازئوں میں بچوں بوڑھوں سے زیادہ طاقت تھی اسی بناءپر ان کی آمد مندرجہ ذیل بندوں میں پیش کرتے ہیں،

آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں نہیں راہ پھیر کی
غش آگیا ہے شہ کو یہ ہے وجہ دیر کی
 خوشبو ہے دشت، بادِ بہاری قریب ہے
 ہشیار غافلو کہ سوار ی قریب ہے

رجز:۔ مرثیہ کا پانچواں جزو رجز ہے جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ اپنے آبا واجدادکی شجاعت کا بیان کرتاہے۔ اور پھر اپنی بہادری کا قصد اعدا کے دل میں بٹھا تا ہے۔ میر انیس نے مختلف کرداروں کے رجز کا ذکر کیا ہے جس کی وضاحت مندرجہ ذیل سطور میں کی جاتی ہے۔ حضرت امام حسین رجز خوانی میں ماہر تھے چونکہ وہ بہت اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے اس لیے ان کی رجز خوانی میں بہت اثر تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں صداقت بھی تھی میر انیس نے ان کی رجز خوانی پر روشنی ڈالی ہے۔

اعدا کی زبانوں پہ یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تو لے ہوئے شمشیر
دیکھو نہ مٹائو مجھے اے فرقہ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
 واللہ تعلی نہیں یہ کلمہ حق ہے
 عالم میں مرقع میں حسین ایک ورق ہے

جنگ:۔ مرثیے کا چھٹا جزو جنگ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کربلا کی جنگ کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ میر انیس نے عو ن و محمد کی جنگ کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

میدان میں عجب شان سے وہ شیر نر آئے
گویا کہ بہم حیدر و جعفر نظر آئے
غل پڑ گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
 یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا
 یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا

شہادت:۔ مرثیے کا ساتواں جزو شہادت ہے دراصل شہادت کا سلسلہ میدان ِ کربلا سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسین کو اپنے وطن میں بیعت کے لیے بلایا تو انھوں نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ وہاں اہل ِ کوفہ نے ان کے ساتھ دغا کی اور ان کو شہید کر دیا۔یہ منظر دیکھیے،

جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی
جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی
 کی شرم خدا سے نہ محمد سے حیا ءکی
 مظلوم پہ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی
پانی نہ دمِ مرگ دیا تشنہ دہن کو
 کس ظلم سے ٹکڑے کیا آوارہ وطن کو

بین:۔ بین کو ہم مرثیے کا آٹھواں جزو تصور کر سکتے ہیں اس حصہ میں شہدائے کربلا پر اہل بیت ماتم کرتے ہیں عورتیں سر کے بال کھول کر فریاد و فغاں کرتی ہیں اور مرد بھی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں مگر بین کا خاص طور سے تعلق مستورات کی گریہ و زاری سے ہے میر انیس نے بین کے حصے کو بہت مو ثر انداز میں پیش کیا ہے۔ حضرت علی اکبر سب کو عزیز تھے اس کے علاوہ وہ بہت بہادر بھی تھے ان کی شادی کا شوق حضرت بانو اور حضرت زینب کو بہت تھا یہ ارمان بھی اُن کا نہ نکل سکا اس لیے ان کی شہادت کا غم سب کو ہوا۔ اس بین کا ذکر میرانیس نے نہایت مو ثر انداز میں اس طرح کیا ہے۔

آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر
چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر
برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبرِ دے گر
بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر
 تھا کون اُٹھاتا جو زمیں سے انھیں آکر
اُٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر

میر انیس کے مرثیہ کی خصوصیات۔

میرانیس کے مرثیہ کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں، 

جذبات نگاری:۔ جذبات نگاری شاعری کی جان ہے یہ صرف قدرتِ کلام ہی پر منحصر نہیں بلکہ جذبات نگاری کے لیے قادرالکلامی کے ساتھ فطرت ِ انسانی کا غائر مطالعہ بھی ضروری ہے۔ میرانیس کی وہ سب سے بڑی امتیازی خصوصیت جوان کو اور تمام شعراءسے ممتاز کرتی ہے۔ جذبات نگاری ہے۔ میرانیس کے یہاں جذبات نگاری کے ایسے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کی مثالی اردو میں تو کیا دوسری زبانوں میں بھی ملنا دوشوار ہے۔ مثلاً امام حسین کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیمار ہیں امام محترم ان کو اپنے ہمراہ لے جانا نہیں چاہتے۔ وہ ضد کر رہی ہیں اس وقت میرانیس، حضرت صغریٰ کی زبان سے کہلواتے ہیں

حیرت میں ہوں باعث مجھے کھلتا نہیں اس کا
 وہ آنکھ چرا لیتا ہے منہ تکتی ہوں جس کا

اس طرح ایک اور نادر مثال اس موقع پر ملتی ہے جب قافلہ مدینہ سے روانہ ہو رہا ہے۔ حضرت صغریٰ سب سے مل رہی ہیں اور بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں جا سکتی۔ اس وقت کی کیفیات کی اس سے زیادہ درد انگیز اس سے زیادہ صحیح تصویر اور کیا ہو سکتی ہے جس کو میرانیس نے یہاں بیان کیا ہے۔

ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغریٰ ترے قرباں
گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جاں
 بے کس میری بچی تری اللہ نگہباں
 صحت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آں
کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا
کنبے کے لیے جانوں کو کھوتے نہیں بیٹا

منظر کشی:۔ الفاظ میں کسی جذبہ، واقعہ یا منظر کھینچا محاکات کہلاتا ہے۔ محاکات کی قدرت انیس میں اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ خود مرزا دبیر کے مداحوں کو میرانیس کی عظمت کو تسلیم کرنا پڑاہے۔ یہ خصوصیت ان کو(میرحسن مثنوی سحرالبیان) سے ترکہ میں ملی تھی۔ میرانیس کا کما ل یہ ہے جس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اس کی تصویرکھینچ دیتے ہیں بلکہ ان کی تصویر کبھی کبھی اصل سے بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہت خوبصورت مثال پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً اس جگہ صبح کا سماں کا کتنا اچھا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دمبدم
مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پرنہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس او ربھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

واقعہ نگاری:۔

میرانیس واقعہ نگاری کے مرد میدان ہیں۔ بقول شبلی نعمانی

” میرانیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجہ تک پہنچایا اُرد و کیا فارسی میں بھی اس کی نظیر یں مشکل سے ملتی ہیں۔“ میرانیس کی نگاہوں سے دقیق اور چھوٹے سے چھوٹا نکتہ بھی نہیں بچتا۔ مثلاً ایک موقعے پر گھوڑے کی تیز روی کو لکھا ہے جب حد سے زیادہ تیز دوڑتا ہے تو اُس کی دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہوں کرمل جاتی ہیں۔

دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہو کے مل گئیں

یا جب حضرت امام حسین کے ترسانے کے لیے عمرو بن سعد نے پانی منگوا کر پیا اس موقع پر کہتے ہیں۔

ظالم نے ڈگڈگا کے پیا سا منے جو آب

ایک موقع پر گھوڑے پر سوار ہونے کی حالت کو لکھا ہے۔

کچھ ہٹ کے ہاتھ آپ نے رکھا ایا ل پر

ہٹ کے ایال پر ہاتھ رکھنا سواری کی مخصوص حالت اور تصویر کھینچنے کے لیے یہ حالت دکھانا ضروری ہے۔ یا پھر جب رفقائے امام نے نماز سے لڑائی کے لیے اُٹھے اس موقع پرلکھتے ہیں۔

تیار جان دینے پہ چھوٹے بڑے ہوئے
 تلواریں ٹیک ٹیک کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے

کردار نگاری:۔ ڈراما کی طرح مرثیہ میں بھی کردار نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مرثیے کے کردار مثالی ہوتے ہیں۔ جیسے امام حسین اور ان کے ساتھی حق و صداقت کے علم بردار اور یزیدی لشکر باطل کا پیروکار۔ انیس کے کردار زندہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ جیسے مرثیہ کا کردار سامع کا قریبی آدمی ہے۔ میرانیس کردار سیرت، عمر اور مرتبے میں بڑی رعایت رکھتے ہیں یہی وہ خوبی ہے جن کی داد ان کے لکھنوی سامعین یہ کہہ دیتے ہیں کہ میر صاحب ”فرق مراتب کا لحا ظ رکھتے ہیں۔“ مثلاً

گردن جھکا دی تانہ ادب میں خلل پرے
قطرے لہو کے آنکھوں سے لیکن نکل پڑے
عمل خیر سے بہکانہ مجھے او ابلیس
یہی کونین کا مالک ہے یہی راس و رئیس
کیامجھے دے گا ترا حاکم مطعون و خسیس
کچھ تردد نہیں کہدے کہ لکھیں پرچہ نویس
  ہاں سوئے ابنِ شہنشاہ ِ عرب جاتا ہوں
 لے ستمگر جونہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں

کردار نگاری انیس پر ختم ہے یہ مصرع دیکھیے کس قدر زور دار ہے اور کردار کا نقشہ کس قدر مکمل ہے۔

نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے

تصادم و کشمکش:۔ میرانیس اکثر اپنے مرثیوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اس کیفیت کی کشمکش بہت زور دار ہوتی ہے۔ مثلاً انیس کے ایک مشہور مرثیہ”بخدا فارس میدان تہور تھا حر“ میں ڈرامائی تصادم کی بہت اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ اس میں خیر و شر کی قوتوں کا ٹکرائو ڈراما اور مکالمات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحط ِ آب تھا

اخلاقی شاعری:۔ انیس نے تمام کلام میں بلند اخلاقی لہر دوڑائی ہوئی ہے۔ جن اخلاق ِ فاضلہ کی تعلیم انیس نے د ی ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ انھوں نے نفسِ انسانی کے انتہائی شرافت کے نقشے جن موثر طریقوں سے کھینچے ہیں ان کا جواب ممکن نہیں۔ یوم عاشورہ جب امام حسین میدان کا رزار میں جامے کے لیے رخصت ہونے لگتے ہیں تو سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں،

جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ سنے کوئی نہ آواز تمھاری
بے صبروں کا شے وہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیںصبر ان کا خدا کرتا ہے یاری
ہوں لاکھ ستم، رکھیو نظر اپنی خدا پر
 اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جز ا پر

رزمیہ شاعری:۔ رزمیہ شاعری اگرچہ واقعہ نگاری ہی کی ایک قسم ہے لیکن وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے اس کے لیے جداگانہ عنوان درکار ہیں۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب کا کہنا ہے کہ انیس جنگ کا نقشہ خوب کھینچتے ہیں، پہلوانوں کی ہیئت ان کی آمد کی دھوم دھام، رجز کا زور و شور اور حریفوں کے دائو پیچ خوب دکھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیراندازی اور شہسواری کی اصطلاحوں سے اکثر کام لیتے ہیں۔ حرب و ضرب کے ہنگاموں کی ایسی تصویریں کھنچتے ہیں کہ میدان ِ جنگ کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ عام ہنگامہ جنگ کے علاوہ دو حریفوں کا مقابلہ اور ان کی گھاتیں اور چوٹیں اس تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ لڑائی کا سماں سامنے آجاتا ہے۔

نقارہ دغا یہ لگی چوب یک بیک
ُٹھا غریو کوہ کہ ہلنے لگا فلک
 شہپور کی صدا سے ہراساں ہوئے ملک
قرنا پھنکی کہ گونج اُٹھا دشت دور تک
 شور دہل سے حشر تھا افلاک کے تلے
مردے بھی ڈر کے چونک پڑے خاک کے تلے

فصاحت و بلاغت :۔ میرانیس کے کلام کی ایک بڑی خصوصیت ان کی فصاحت و بلاغت ہے میرانیس نے اردو شعراءمیں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر ان کے ہاں غیر فصیح الفاظ کا ملنا مشکل ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے جو ان کو تمام دوسرے مرثیہ گو شعراءسے اورخود مرزا دبیر سے بھی یقے نا ممتاز اور نماے اں کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بیان کا حسن اور طرزِ اد ا کی خوبی اس درجہ موجودہے کہ وہ اردو ادب میں آج بھی اپنا حریف تلاش کررہی ہے۔ خود وہ حضرات بھی جو مرزا دیبرکے کلام کے مداح ہیں اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انیس کے یہاں دبیر سے زیادہ فصاحت و بلاغت اور حسنِ بیان موجود ہے۔ ان خصوصیات کی مثال ان کا پورا کلام ہے اس لیے اشعار پیش کرنا تحصیل حاصل ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہوں،

دولھا سے پہلے مجھ کو اُٹھا لے تو خوب ہے
عورت کی موت خوب ہے شوہر کے سامنے
 سایہ کسی جگہ ہے نہ چشمہ نہ آب ہے
تم تو ہوا میں ہو، مر ی حالت خراب ہے
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
 ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی

تشبیہات و استعارات:۔ میر انیس نے تشبیہات اور استعارات کے نہایت دلکش نقش و نگار بنائے ہیں اور عجب خوشنما رنگ بھرے ہیں۔ بقول شبلی ” اگر تکلف و تصنع سے کام نہ لیا جائے تو تشبیہات و استعارات حسنِ کلام کا زیور بن جاتے ہیں۔“ انیس کی تشبیہہیں نہایت نیچرل سادہ اور پرُ تکلف ہوتی ہیں۔ انیس تشبیہ مرکب کا استعمال کرتے تھے۔ اور عموماً محسوسات سے تشبیہ دیتے تھے۔ ضنائع بدائع بھی کثرت سے انیس کے کلام میں موجود ہیں۔ مگر خود انیس کی طبیعت کا رجحان اس طرف نہ تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا عام مذاق یہی تھا۔ اس لیے انیس کوبھی کلام میں صنعتیں استعمال کرنا پڑیں تاہم اکثر و بیشتر صنعتیں ایسی ہیں جو بغیر کسی کوشش کے خود بخود پیدا ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پر کیف اور اثر انگیز ہے۔ میر انیس کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی فطری خصوصیت یعنی حسنِ مذاق لطافت ِ تخیل، موزونیتِ طبع اور معیار صحیح کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جدت و ندرت کے ساتھ بے تکلفی اور آمد پائی جاتی ہے۔ تکلف اور بھدا پن بالکل نہیں ہے۔ مثلاً

پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
 پر تھی رخوں پہ خاک تیمم سے طرفہ آب
 باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
 ہوتے ہیں خاکسار غلام ابوتراب

تشبیہ کی خوبیاں جس قدر میرانیس کے کلام میں پائی جاتی ہیں اُردو زبان میں اور کہیں نہیں مل سکتی۔ مثلاً جب حضرت عباس پر چاروں طرف سے پرچھیاں چلنے لگیں تو یہ حالت اس طرح ظاہر کی۔

یوں برچھیاں تھیں چاروں طرف اس جناب کے
 جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتا ب کے

محسوسات سے جو تشبیہ دی جاتی ہے نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہے کیونکہ محسوسات رات دن محسوس ہوتے رہتے ہیں اس قسم کی تشبیہات میرانیس کے یہا ں کثرت سے ہیں۔ مثلابھاگڑ او ر اضطراب کا بیان، 

یوں روح کے طائر تن و سر چھوڑ کے بھاگے
جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے

کلام کی ترتیب:۔ یعنی الفاظ جس ترتیب سے بو ل چال میں آتے ہیں جو ترتیب نثر میں ہوتی ہے وہ ترتیب شعر میں قائم رہے۔ یہ صفت قادرالکلامی کی انتہا ہے۔ اور میر انیس سے زیادہ کسی شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی مثلاًحضرت زینب دعا مانگی ہیں،

سر پر اب علی نہ رسول فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتون روزگار
اماں کے بعد روئی حسن کو میں سوگوار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کی عدالت پناہ ہے
 کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تبا ہ ہے

روز مرہ محاورہ:۔ انیس کو خود اپنے روزمرہ و محاورہ پر ناز تھا۔ اور بجا طور پر ناز تھا۔دراصل روزمرہ محاورہ اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ لیکن بعض اہل تحقیق زبان دانوں نے ان میں فرق قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ ایک سے زیادہ لفظ یا ترکیبیں حقیقی معنوں میں جس طرح اہل زبان استعمال کرتے ہیں ان کو روزمرہ اور مجازی معنوں میں مستعمل ہونا محاورہ کہلاتا ہے۔ مثلاً

آگے تھے سب کے حضرت عباس ذی حشم
بڑھ بڑھ کے روکتے تھے دلیروں کو دمبدم
 تیغیں جو تولتے تھے، ادھر بانی ستم
کہتے تھے سر نہ ہوگا بڑھایا اگر قدم

میرانیس کے ان اشعار میں ”بڑھ بڑھ کے“ اور ”سر نہ ہوگا“ روزمرہ ہے اور ”تیغیں تولتے تھے“ محاورہ ہے۔
انیس نے اردو کو موقع ومحل کے مطابق عوامی بنانے کی کوشش کی ہے ان کے مرثیوں میں بعض اوقات مقامی الفاظ اس خوبصورتی سے سماجاتے ہیں کہ ان کی مرصع ساز ی اور نگینہ سازی پر دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انیس نے زبان کے جمالیاتی پیکر مقامی مٹی سے تراشے ہیں، شہاب سروری فرماتے ہیں، 

’ ’ میرانیس نے اردو زبان کو اصطلاحات کی دولت دے کر اردو کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔“

مجموعی جائزہ:۔

میرانیس کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل، مثنوی کا تسلسل، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ مولانا شبلی انیس کے بارے میں فرماتے ہیں،

” ان کا کلام صیح و بلیغ ہے۔ زبان صحیح اور روز مرہ بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ انتخاب الفاظ مضمون اور موضوع کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جزئیات نگاری میں اُستادانہ مہارت، جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ، منظر نگاری اور مظاہر قدرت کے بیان میں زور تشبیہات اور استعارات میں جدت اور ندرت ہے۔“

انیس کے مرثیے رزمیہ شاعری کے شہ کار ہیں۔ مناظر ِ قدرت کے بیان انسانی جذبات کی مصوری اور رزم آرائی میں انھوں نے حیرت انگیز واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ فنی مہارت بلند تخیل اور مضمون آفرینی کی اس سے بہتر مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ انیس کے مرثیوں میں مبالغہ بھی ہے اور تکلف و تصنع بھی۔ لیکن ایک تو ان چیزوں میں اعتدال ہے دوسرے ان کی شعری خوبیوں نے ان سب پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ یہ چیزیں عیب کی جگہ حسن بن گئیں ہیں۔بقول رام بابو سکسینہ،

” ادب اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں بحیثیت شاعر کے ان کی جگہ صف اولین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبان اردو کے تمام شعراءسے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کاشکسپیر اور خدائے سخن اور نظم اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“

اودھ میں مرثیہ

دکن کے علاوہ اودھ میں بھی مرثیے پر خصوصی توجہ کی گئی۔ اس سے پہلے کہ اودھ میں مرثیے کے عروج و ارتقا پر روشنی ڈالی جائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب اودھ میں مرثیہ دورِ عروج کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس وقت دہلی یا دکن میں مرثیہ کی روایت کی تابانی میں کس طرح کی کمی نہیں ہوئی۔ اودھ میں مرثیہ کی روایت کو ارتقا کی طرف لے جانے والوں پر ڈاکٹر مسیح الزماں نے تفصیلی بحث کی ہے اور بہت سے نام تحریر کیے ہیں۔ جن میں مرزا ظہور علی، راجا کلیان سنگھ خلف، راجا شتاب رائے، مولانا محمد حسین محزوں (جو الہ آباد آ کر دائرہ شاہ اجمل کے ایک کمرہ میں رہا کرتے تھے اور درس دیتے تھے) شامل ہیں۔ اسی طرح آیۃ اللہ جوہری (پھلواری شریف) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان لوگوں نے ان روایات کی پابندی کی جو انھیں ملی تھیں، کوئی روایت سازی نہیں کی، کوئی ایسا پہلو بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر انھیں منفرد سمجھا جائے۔ لکھنؤ سے پہلے مختلف جگہوں پر مرثیہ گوئی کی روایت فروغ پا رہی تھی۔ ان مرثیہ نگاروں میں اہم نام مرزا پناہ علی بیگ، افسر دہ حیدرآبادی کا ہے۔ کریم الدین نے ان کی مرثیہ گوئی کے بارے میں لکھا ہے کہ افسردہ اپنے کمال فن کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے مرثیہ میں رقت خیز مضامین شامل کیے۔ سفارش حسین نے افسردہ کو مقصد اور فن دونوں کے اعتبار سے کامیاب شاعر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر مسیح ا لزماں بھی افسردہ کے معترف ہیں اور لکھتے ہیں کہ بعض مرثیوں میں تمہید کا التزام کیا ہے۔ اس تمہید میں کنایوں اور اشاروں کی مدد سے شاعرانہ محاسن پیدا کیے ہیں اور پیرائے بیان کو جدت و ندرت دی ہے۔

مرزا سلامت علی دبیر کا مرثیہ

1803ء میں مرزا سلامت علی دبیر دہلی کے مشہور محلہ بلیماران میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے بگڑے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے شرفا اور شعرا و ہنر مند دلی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ دبیر بھی سعادت علی خان کے زمانے میں لکھنؤ پہنچے۔ اس زمانے میں لکھنؤ میں مرثیہ گوئی کا اچھا خاصا رواج تھا۔ مرزا دبیر نے لکھنؤ پہنچ کر تعلیمی مدارج طئے کیے اور اسی شہر کے نامور علما سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، صرف و نحو، منطق، ادب و حکمت کی درسی کتابیں پڑھیں، حدیث، تفسیر قرآن و اصول حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا۔ شاعری کا ذوق بچپن سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں ضمیر کی شاگردی اختیار کی۔ ضمیر نے خود انھیں دبیر تخلص عطا کیا۔ یہ 1814ء کی بات ہے۔ اس وقت لکھنؤ میں ناسخ و آتش کے چرچے تھے۔ مرزا دبیر نے مرثیہ نگاری میں بلند مقام حاصل کیا۔ ابھی تک مرزا کے مرثیوں کی صحیح تعداد متعین نہیں ہو سکی ہے۔ پھر بھی دفتر ماتم کی تمام جلدوں کے مراثی اگر شمار کر لیے جائیں تو یہ تعداد چار سو سے اوپر پہنچتی ہے۔ ان کے بعض مرثیوں کے مطلعے درج کیے جاتے ہیں :

ع کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

ع قید خانہ میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

ع جب حرم قلعہ شیریں کے برابر آئے

ع بانو کے شیر خوار کو ہفتم سے پیاس ہے

ع ذرہ ہے، آفتاب در بو تراب کا

ع ہم ہیں سفر میں اور طبیعت وطن میں ہے

دبیر بڑے پرگو مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ جذبات نگاری اور شوکت الفاظ کو دبیر کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ سراپا نگاری اور رزم نگاری کے اعلا نمونے دبیر کے یہاں ملتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں ضائع و بدائع، لفظی و معنوی خوبیوں کا استعمال فیاضی سے ملتا ہے۔ بعض مرثیوں میں تو دبیر نے تمام صنعتیں ایک ساتھ نظم کر دی ہیں۔ دبیر کے یہاں مرثیوں میں علمیت، فنی پختگی اور زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیم اور عالمانہ ژرف نگاہی کی وجہ سے مرثیوں میں وزن و وقار آگیا ہے لیکن کبھی کبھی یہی محاسن کھٹکنے بھی لگتے ہیں۔

دبیر کے یہاں خیال آفرینی، مضمون سے مضمون نکالنا اور مذہب کلامی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ موازنہ انیس و دبیر میں شبلی نے خیال بندی اور دقت پسندی کو مرزا صاحب کے تاج کمال کا طرہ ثابت کیا ہے۔ مرزا صاحب نے بے نقطہ مرثیہ بھی لکھا ہے اس میں اپنا تخلص دبیر کی بجائے عطارد رکھا ہے۔ ان کی ایک کتاب ابواب المصائب بھی ہے۔ یوں تو ان کے ہزاروں شعر مثال میں پیش کیے جا سکتے ہیں، مگر میر انیس کی وفات پر ان کا بے نظیر قطعہ تاریخ اور اس کا آخری شعر معجزہ فن کا نمونہ ہے۔

آسماں بے ماہ کامل سدرہ بے روح الامیں

طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس

اردو ادب میں جدید مرثیہ

1918ء میں جوش نے ’’آواز حق’‘ کے عنوان سے جدید مرثیے کی داغ بیل ڈالی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنے مفرد اشعار میں ’’حسین’‘ اور ’’شبیری’‘ کے استعارے کے ذریعہ سے شہادت کے اثرات و رموز اور معنویت کی طرف متوجہ کر چکے تھے۔ فارسی تصنیف رموز بیخودی میں ان کی نظم

ع ’’آں امام عاشقاں پور بتول’‘

کربلا کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ مگر جوش نے آوازہ حق کے بعد ’’ذاکر سے خطاب’‘ میں بھی ایک نیا رنگ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مرثیے ’’حسین اور انقلاب’‘ سے جدید مرثیہ گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔

اب مرثیے کے اجزائے ترکیبی اور رثائیت سے زیادہ پیغام حسینی کی معنویت پر زور دیا جانے لگا۔ جوش نے کل 9 مرثیے لکھے ہیں۔ ان کے ایک مرثیے سے ایک بند پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کے انداز مرثیہ گوئی کا پتہ چل سکتا ہے:

یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو

یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو

در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو

جوش کی شاعری کے پورے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا مندرجہ ذیل شعر پڑھیں تو ان کے مرثیوں کے شعری آہنگ اور شعری مزاج کو سمجھنا آسان ہو گا:

زندگی ہے سر بسر آتش فشانی ! یا حسین

آگ دنیا میں لگی ہے، آگ ! پانی ! یا حسین

جوش کے بعد یا جوش کے لفظوں میں جدید مرثیے کے بانی کے طور پر آل رضا کا نام آتا ہے۔

اردو مرثیہ جس کا نقطہ آغاز سولہویں صدی میں حضرت شاہ اشرف تھے، ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے جب بیسویں صدی میں داخل ہوا تو اسے جوش ملیح آبادی جیسے قدر آور شاعر کی تعمیر کردہ روایات ملی تھیں۔ انھیں روایات کی بنیاد پر دور حاضر میں بھی مرثیے لکھے جا رہے ہیں۔ اس عہد میں بھی (یعنی جوش کے فوراً بعد کے زمانے میں ) سب سے اہم نام آل رضا کا ہے۔ جوش نے انھیں جدید مرثیے کا بانی قرار دیا ہے۔ انھوں نے تقریباً بیس مراثی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا مرثیہ ہے ع ’’کلمہ حق کی ہے تحریر دل فطرت میں ‘‘۔ ان کے مجموعے میں آخری مرثیہ ع ’’قافلہ آل محمد کا سوے شام چلا’‘ ہے۔

پہلے مرثیے سے ایک بند ملاحظہ ہو:

ابر بے فصل نے اب کے یہ سماں دکھلایا

آسماں سوگ میں تھا جب کہ محرم آیا

رندھ گئی جتنی فضا اتنا ہی غم بھی چھایا

بوندیں پڑنے جو لگیں یاد نے دل تڑپایا

کتنا پانی ہے جو بے وقت برس جاتا ہے

اور کبھی قافلہ پیاسوں کا ترس جاتا ہے

آل رضا کے ساتھ علامہ جمیل مظہری کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ان کا شاہکار مرثیہ ’’شام غریباں ‘‘ ہے۔ ایک بند دیکھیے:

تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام

عہد ظلمت کی سحر، خاتمہ’ نور کی شام

شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام

آج کی شام تو ہے زینت رنجور کی شام

آفریں اس پہ بہتر کی عزا دار ہے جو

اک نئے قافلہ کی قافلہ سالار ہے جو

اس میں یہ فنی معجزہ بھی ملتا ہے کہ مرثیہ میں صرف ’’شام’‘ کا بیان ہے ’’شب’‘ نہیں ہوپاتی۔

دور حاضر کے مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی اہم ہیں۔ حالانکہ ان کی اہمیت نوحہ و سلام کی وجہ سے زیادہ ہے۔ پھر بھی ان کا ایک مرثیہ بہت مشہور ہوا جس کا آخری شعر درج کیا جاتا ہے۔

عباس نامور کا علم لے کے جائیں گے

ہم چاند پہ حسین کا غم لے کے جائیں گے

ڈاکٹر وحید اختر نے انقلابی انداز میں کئی مرثیے لکھے۔ ان کے مجموعہ کا نام ’’کربلا تا کربلا’‘ ہے۔ ایک مرثیہ اسیران کربلا پر ہے اور ایک مرثیہ لفظ ’’قلم’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

امید فاضلی کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’سرنینوا’‘ دوسرا مجموعہ ’’تب و تاب جاودانہ’‘ ہے۔ دونوں مجموعوں میں کل بارہ مرثیے ہیں۔ سب سے اچھا مرثیہ علم و عمل ہے۔ جس کا ایک بند دیکھیے:

مرحبا صل علیٰ علم کا در کھلتا ہے

مصحف نور سر رحل نظر کھلتا ہے

لب جو کھولوں تو یہاں عجز ہنر کھلتا ہے

منزل آتی ہے تو سامان سفر کھلتا ہے

علم کے در سے اگر میری سفارش ہو جائے

کشت تخئیل پر الفاظ کی بارش ہو جائے

ایک اور بند پیش ہے:

علم آیات الہی کی حرا میں تنزیل

اس کی آواز ہے داؤد تو لہجہ ہے خلیل

یہی قرآن کا دعویٰ، یہی دعوے کی دلیل

یہ وہ اجمال ہے، ممکن نہیں جس کی تفصیل

یہ رگ حرف میں خوں بن کے رواں ہوتا ہے

اس کی آغوش میں وجدان جواں ہوتا ہے

بنگالی ادب

میر مشرف حسین بیشادسندھو کے نام سے ایک ناول لکھا ہے اور اس اندوہناک واقعے کے تناظر میں قاضی نذرالاسلام نے بہت سے مرثیے لکھے ہیں۔ 10 محرم کو مرثیے پڑھے جاتے ہیں۔

فارسی ادب

عاشورہ کا واقعہ مذہب اسلام اور شیعہ مذہب کو زندہ کرتا ہے اور اس نے شیعوں کی مذہبی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ شیعہ اور یہاں تک کہ سنی شعرا نے بھی اس واقعے اور خالص اماموں کی طرف اپنا فرض ادا کرنے کے لیے عاشورا اور اس کے واقعات کے موضوع کے ساتھ بہت سی نظمیں لکھیں ہیں۔ اس طرح کی تحریک نے عاشورا مکتب کا خروج اور فارسی ادب میں شاعری کا سبب بنی۔

کسی بھی سرزمین کا ادب، کسی بھی معاشرے کے آب و ہوا اور معاشرتی تناظر پر غور کرتے ہوئے، بلاشبہ ان لوگوں کے افکار، عقائد اور رجحانات کا آئینہ ہوتا ہے اور اس سرزمین کے فن و فکر کو ظاہر کرتا ہے اور یہ ایک ایسی انسانی تشویش کا سنگ بنیاد ہے جو مستقل معاشرتی موجودگی کا مستحق ہے۔۔ امام حسین of کا بغاوت اور عاشورہ کا واقعہ عربی ادب کے ساتھ ساتھ فارسی ادب میں بھی ایک اہم بااثر عوامل ہیں اور یہ واقعہ اور اس کے پیغامات پوری تاریخ میں شاعری کی صورت میں قائم ہیں۔ اس واقعے کے صدیوں بعد، بہت سارے شعرا نے اس پاگل سانحے کے غم اور سانحے کے بارے میں لکھا ہے، لیکن پھر بھی ان میں سے کوئی بھی بول نہیں پایا ہے کیوں کہ وہ اس افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ کا مستحق ہے اور اسے پوری طرح سے بیان کرتا ہے۔ یہ غم اتنا گہرا ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن جو چیز اس واقعہ کو جنم دیتی ہے وہ اس کی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور یہی تحریری تحریریں ہی اس سانحے کے مستقبل کو آگاہ کرتی ہیں۔

عاشورا

عاشورا ادب شیعہ مکتب کے سب سے امیر اور انتہائی رزمیہ دانشورانہ اور جذباتی وسائل میں سے ایک ہے اور کچھ ایسے شاعر بھی موجود ہیں جن کی تمام تر شہرت شیعہ مکتب کے اس فکری اور جذباتی وسائل سے واقف ہے۔ فارسی میں عاشورا شعری نصاب کو 4 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں فارسی شاعری کی ابتدائی صدیوں پر مشتمل ہے، جس میں صفوید کی حکمرانی کے قیام سے پہلے شامل ہے، دوسرا دور صفوی دور سے متعلق ہے، تیسرے دور میں افشری، زندی اور قجر ادوار شامل ہیں اور چوتھا دور ہم عصر ہے۔

پہلے دور میں، عاشورا کی نظمیں زیادہ تر واقعات کے رزمیہ پہلو کی طرف اشارہ کرتی تھیں اور اس کی وجہ معاشرے میں موجودہ سیاسی حالات تھے، جہاں مذہبی تعصبات غالب تھے اور شیعہ افکار کو دبایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے، تیسری سے چھٹی صدیوں میں عاشورہ کے اشعار کی تعداد کم ہے اور ان اشعار میں امام (ع) کے کردار، وہ اور ان کے ساتھیوں کو کس طرح شہید کیا گیا اور اشور واقعے کے عناصر اشارہ کی صورت میں (اشارہ ان ادبی صنعتوں میں سے ایک ہے جس میں شاعر ایک کہانی سنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایک نظم کی شکل کا اظہار) اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے، اس دور کی سیاسی صورت حال شیعوں کے لیے سازگار نہیں تھی اور اسی وجہ سے، شاعروں نے اس ادبی صنعت کو اپنے عاشورا اور مذہبی اشعار میں زیادہ استعمال کیا۔

شاید بتوان «کسایی مروزی» را جزو اولین شاعرانی دانست کہ در رثای امام حسین و واقعه‌ی کربلا شعر سرودہ است: شاید "کسایی مروزی" کو ان پہلے شاعروں میں شمار کیا جا سکتا ہے جنھوں نے امام حسین کے سوگ اور واقعہ کربلا میں شعر لکھا تھا:

باد صبا درآمد، فردوس گشت صحرا

آراست بوستان را نیسان بہ فرش دیبا

میراث مصطفٰی را فرزند مرتضی را

مقتول کربلا را تازہ کنم تولا

پاکیزہ آل یاسین، گمراہ و زار و مسکین

وان کینه‌ای پیشین آن روز گشتہ پیدا

آن پنج ماهہ کودک باری چہ کرد ویحک!

کز پای تا بہ تارک مجروح شد مفاجا

آن زینب غریوان اندر میان دیوان

آل زیاد و مروان نظارہ گشتہ عمدا

کسایی کے بعد، ناصر خسرو، جو ان کے پیروکار تھے، نے بھی اپنی نظموں میں اس واقعہ اور مصیبت سیدالشهدا کا حوالہ دیا:

بتگر بتی تراشد، او را همی پرستد

زو نیست رنج کس را نہ زان خدای سنگین

تو چون بتی گزیدی کز رنج و شر آن بت

برکندہ گشت و کشتہ یکرویہ آل یاسین؟

آن کز بت تو آمد بر عترت پیمبر

از تیغ حیدر آمد بر اهل بدر و صفین

لعنت کنم بر آن بت کز امت محمد

او بود جاهلان را ز اول بت نخستین

لعنت کنم بر آن بت کز فاطمہ فـدک را

بستد بہ قهر تا شد رنجور و خوار و غمگین

لعنت کنم بر آن بت کو کرد و شیعت او

حلق حسین تشنہ در خون خضاب و رنگین

قطران تبریز نے بھی واقعہ کربلا کی تصویر کو امام اور اس کے ساتھیوں اور پیاس کو پانی بند کرنے کی ایک آیت میں اور ایک تعریف کی شکل میں اس کی تعریف کی ہے۔

رفتی زجهان بہ تشنگی بیرون مانند شهید کربلا بودی

اس دور میں، عاشورا کی نظموں کی تشکیل صرف شیعوں تک ہی محدود نہیں تھی اور حکومت کے سیاسی تعصبات کی پیروی نہ کرنے والے سنی شعرا نے بھی ان اشعار کی تشکیل کی۔ مثال کے طور پر، سنا، ی، جو سنی شاعر تھے، نے پہلے سنی شاعر کی حیثیت سے امام حسین کی تعریف کی:

خرمی چون باشد اندر راہ دین کز بهر حق خون روان گشتست از حلق حسین در کربلا

از برای یک بلا کاندر ازل گفتست جان تا ابد اندر دهد مرد بلی تن در بلا

و در شعر دیگری می‌گوید:

سراسر جملہ عالم پر زنانند زنی چون فاطمہ خیر النسا کو؟

سراسر جملہ عالم پر شهید است شهیدی چون حسین کربلا کو؟

پہلے دور کے اختتام کی طرف، سلجوقیوں اور خوارزم شاہوں کے عروج کے ساتھ ساتھ منگولوں کے شیعہ مذہب کے رجحان کے ساتھ، عاشورا کی شاعری روایتی ادب کی سب سے نمایاں قسم کے طور پر پروان چڑھی۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور کی سب سے خوبصورت رسمی نظمیں خواجہ کرمینی اور ابن حسین کی ہیں۔

دلم شکستہ و مجروح و مبتلای حسين طواف کرد شبی گرد کربلای حسين

طراز طره‏ی مشکين عنبر افشانش خضاب کرد بہ خون، خصم بی‌‏وفای حسين

قدر چو واقعه‏‌ی کربلا مشاهدہ کرد ز چشم چشمه‏‌ی خون راند بر قضای حسين

نشستہ بر سر خاکستر آفتاب مقيم کبود پوش بہ سوگ از پی عزای حسين

جمال روشن خورشيد را غبار گرفت کہ در غبار نهان شد مہ لقای حسين

بہ روز واقعه‌، ای ظالم خدا ناترس بيا ببين کہ چه‌ها کرده‌‏ای بہ جای حسين

خدای قاضی و پيغمبر از تو ناخشنود چگونہ مي‏دهی انصاف ماجرای حسين

حسين، جان گرامی فدای امت کرد سزاست امت اگر جان کند فدای حسين

دوسرے ادوار میں، جب صفوی شیعہ حکمران بر سر اقتدار آئے، تو انھوں نے شیعوں کی سب سے بڑی علامت، عاشورہ کے واقعہ کی تشہیر کی۔ اسی دوران میں سوگ اور تلاوت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور یہ دور عاشورہ کی شاعری کے لیے ایک شاندار آغاز تھا۔ اس دور میں امام حسین's کی سوگوار تقاریب کے پھل پھولنے سے عاشورا شاعری کی ضرورت میں اضافہ ہوا اور یہ اشعار مقبول ہوئے اور فروغ پائے۔ صفوید دور کو عاشورا کی تشکیل اور ترجیح کے ظہور کا دور کہا جا سکتا ہے۔ موتاشم کاشانی اس دور کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں اور انھیں "ایرانی سوگ کا باپ" کہا جاتا ہے جنھوں نے عاشورا کے بارے میں ایک مشہور آیت مرتب کی جو ابھی تک سوگ میں گائی جاتی ہے اور بہت سے شعرا اس نظم سے متاثر ہوئے ہیں اور عاشورا کی شاعری بھی تحریر کی ہیں:

باز این چہ شورش است کہ در خلق عالم است باز این چہ نوحہ و چہ عزا و چہ ماتم است

باز این چہ رستخیز عظیم است کز زمین بی نفخ صور خاستہ تا عرش اعظم است

این صبح تیرہ باز دمید از کجا کزو کار جهان و خلق جهان جملہ درهم است

گویا طلوع می‌کند از مغرب آفتاب کاشوب در تمامی ذرات عالم است

گر خوانمش قیامت دنیا بعید نیست این رستخیز عام کہ نامش محرم است

در بارگاہ قدس کہ جای ملال نیست سرهای قدسیان همہ بر زانوی غم است

جن و ملک بر آدمیان نوحہ می‌کنند گویا عزای اشرف اولاد آدم است

خورشید آسمان و زمین، نور مشرقین پرورده‌ی کنار رسول خدا، حسین

باز این چہ شورش است

وحشی بافغی بھی ان دلفریب شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے شیعہ اماموں کے نقاب میں نظمیں ترتیب دیں۔ ایک پیراگراف میں، انھوں نے واقعہ کربلا کو بیان کیا، جس کی سب سے اہم خصوصیت تقریر کی طاقت اور اس کی راگ ہے۔

روزی است این کہ حادثہ کوس بلا زدہ است کـــوس بـلا بــہ معرکہ کربـلا زدہ اســت

روزی است این کہ دسـت ستـم پـیشہ جــفا بر پــای گلبن چمن مـصطفـی زدہ اســــت

روزی است این کہ خشک شد از تاب تشنگی آن چشمه‌ای کہ خندہ بر آب بـقا زدہ است

روزی اســـت ایـــن کـــشتہ بــــیداد کـربلا زانـــــوی داد در حـــرم کـبریا زدہ اســت

امــروز مــاتـمی است کہ زهرا گشادہ مـوی بر سـر زدہ زحسـرت و واحــسرتا زدہ است

یـــعنی مــحرم آمـــد روز نــدامــت اســت روز نــــدامت چـــہ کہ روز قیامت اسـت

ایـن مـاتـم بــزرگ نـــگنجد در ایـن جـهان آری در آن جــــهان دگـر نیز این عزاسـت

تیسرا دور صفوی دور کا تسلسل کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس دور کے حکمرانوں نے مذہبی اور اسلامی رسومات کے تحفظ بالخصوص واقعہ کربلا اور امام حسین (ع) کی شہادت پر بھی زور دیا تھا۔ ہندستانی شاعری کو پچھلے ادوار کی شاعری کی تکرار کہا جا سکتا ہے کیوں کہ شعرا ہندوستانی اسلوب کو نظموں میں استعمال کرنے اور عجیب و غریب موضوعات (جو خواص کے لیے بھی سمجھنا مشکل تھا) کی تشکیل میں مبالغہ آرائی کی وجہ سے چھٹی صدی کی شاعری کے انداز میں لوٹ گئے تھے۔ اس دور کے ممتاز شعرا میں نیاز جوشگانی، ہوجاٹولسلم نیر تبریزی اور عمان سمانی شامل ہیں، جو قجر عہد کے اہم عاشورا شعرا میں شامل تھے۔ عمان سمانی کی ایک صوفیانہ نظم ہے جسے "گنجینj الاسار" کہا جاتا ہے جو ان کی مشہور عاشورہ نظم ہے اور اس میں کربلا کے قتل عام اور عاشورہ کے واقعات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ حضرت زینب کا میدان جنگ میں اور ان کے بھائی حسین پر آنے کا منظر ایک ایسی شبیہہ ہے جو ہر گلوکار کے دل کو تکلیف دیتا ہے:

پس ز جان بر خواهر استقبال كرد تا رخش بوسد الف را دال كرد

همچو جان خود در آغوشش كشيد اين سخن آہستہ در گوشش كشيد

كای عنان‌گير من آيا زينبی؟ يا كہ آہ دردمندان در شبی؟

پيش پای شوق زنجيری مكن راہ عشق است اين عنان ‌گيری مكن

با تو هستم جان خواهر همسفر تو بہ پا اين راہ كوبی من بہ سر

خانہ سوزان را تو صاحب‌خانہ باش با زنان در همرہی مردانہ باش

جان خواهر در غمم زاری مكن با صدا بهرم عزاداری مكن

معجر از سر پردہ از رخ وا مكن آفتاب و ماہ را رسوا مكن

هست بر من ناگوار و ناپسند از تو زينب گر صدا گردد بلند

هرچہ باشد تو علی را دختری مادہ شيرا كی كم از شير نری

با زبان زينبی شہ آنچہ گفت با حسينی گوش زينب می‌شنفت

با حسينی لب هرآنچہ گفت راز شہ به‌گوش زينبی بشنيد باز

گوش عشق آری زبان خواهد ز عشق فهم عشق آری بيان خواهد ز عشق

با زبان ديگر اين آواز نيست گوش ديگر محرم اين راز نيست

ای سخنگو لحظه‌ای خاموش باش ای زبان از پای تا سر گوش باش

تا ببينم از سر صدق و صواب شاہ را زينب چہ می‌گويد جواب

گفت زينب در جواب آن شاہ را كای فروزان كردہ مهر و ماہ را

عشق را از يک مشمہ زاده‌ايم لب بہ يك پستان غم بنهاده‌ايم

تربيت بوده‌است بر يک دوشمان پرورش در جيب يک آغوشمان

تا كنيم اين راہ را مستانہ طی هر دو از يک جام خوردستيم می

هر دو در انجام طاعت كامليم هر يكی امر دگر را حامليم

تو شهادت جستی ای سبط رسول من اسيری را بہ جان كردم قبول

گنجینہ الاسرار

چوتھا دور ہم عصر ہے اور ہم اس دور کو آئینی ازم کے آغاز سے لے کر اب تک غور کرسکتے ہیں۔ انقلاب سے پہلے، شاعروں نے واقعہ کے تاریخی، روحانی اور جذباتی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دی اور اس دور میں کم شاعری پائی جا سکتی ہے جس میں امام کی بغاوت کے پیغام، بلند تعلیمات، ماتم اور محرک کا ذکر ہے۔ بیشتر اشعار میں واقعہ عاشورا کی عظمت اور وحشت اور اہل بیت کے مصائب کو تلاوت کیا گیا ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب کے بعد (جو خود ہی عاشورا اور اس کے پیغام سے اپنی جڑیں اور افکار رکھتے ہیں)، عاشورا کی شاعری نے ایک نیا معنی اختیار کیا اور عاشورا کی تعلیمات اور امام حسین کی بغاوت کے مقصد نے انھیں اشعار میں ڈھل لیا۔ معاصر شعرا اپنی نظموں میں شہداء پر ظلم اور ظلم کا اظہار کرتے ہیں اور بغاوت کے ظلم و ستم، امام حسین کی انقلابی اور اصلاح پسند تحریک اور یزیدیوں کی تقدیر اور اہل بیت خاندان کے اعزاز کو دیکھتے ہیں۔ معاصر شعرا نے اپنی نظموں میں "کربلا میں کیا ہوا؟" "ایسا کیوں ہوا" اور اپنے بلند مقاصد اور اقدار کو بتانا۔

اسلامی انقلاب ایران، امام خمینی (ع) کی سربراہی میں، سن 1942 میں عاشورا کے موقع پر پوری شدت سے شروع ہوا اور اس بغاوت اور اس کے اہداف کی بدولت ہمارا انقلاب تشکیل پایا اور جیت گیا۔ آج کی عاشورا poetry شاعری در حقیقت ظلم و ستم کے خلاف لڑنے اور ڈٹ جانے اور مظلوموں کا دفاع کرنے اور خود قربانی کے احساس کو بلند کرنے اور سچائی کا دفاع کرنے کی محرک ہے۔ انقلاب کے بعد، عاشورہ کی شاعری کو ایک بار پھر تقویت ملی اور دفاعی دفاع کے دوران میں، عاشورہ کے موضوعات والی نظمیں ہمارے ملک کے محافظوں کی تعریف میں لکھی گئیں۔ اس دور کے مشہور شاعروں میں ایک ماسٹر شہریار ہیں جنھوں نے اہل بیت کے بارے میں بہت سی نظمیں لکھیں:

شیعیان دیگر هوای نینوا دارد حسین روی دل با کاروان کربلا دارد حسین

از حریم کعبہ ی جدش بہ اشگی شست دست مروہ پشت سر نهاد اما صفا دارد حسین

می برد در کربلا هفتاد و دو ذبح عظیم بیش از اینها حرمت کوی منا دارد حسین

پیش رو راہ دیار نیستی کافیش نیست اشک و آہ عالمی هم در قفا دارد حسین

بس کہ محمل‌ها رود منزل بہ منزل باشتاب کس نمی‌داند عروسی یا عزا دارد حسین

رخت و دیباج حرم چون گل بہ تاراجش برند تا بہ جایی کہ کفن از بوریا دارد حسین

بردن اهل حرم دستور بود و سر غیب ورنہ این بی حرمتی ها کی روا دارد حسین

سروران، پروانگان شمع رخسارش ولی چون سحر روشن کہ سر از تن جدا دارد حسین

سر بہ قاچ زین نهادہ، راہ پیمای عراق می‌نماید خود کہ عهدی با خدا دارد حسین

او وفای عهد را با سر کند سودا ولی خون بہ دل از کوفیان بی‌وفا دارد حسین

دشمنانش بی‌امان و دوستانش بی‌وفا با کدامین سر کند، مشکل دو تا دارد حسین

سیرت آل علی با سرنوشت کربلاست هر زمان از ما، یکی صورت نما دارد حسین

آب خود با دشمنان تشنہ قسمت می‌کند عزت و آزادگی بین تا کجا دارد حسین

دشمنش هم آب می‌بندد بہ روی اهل بیت داوری بین با چہ قومی بی‌حیا دارد حسین

شعر عاشورایی شهریار

معاصر دیگر دیگر شخصیات جن کی مذہبی نظمیں خاص طور پر مشہور ہیں ان میں حبیب اللہ چایچیان شامل ہیں، جس کا نام "حسان" ہے۔

امشب شهادت نامه‌ی عشاق امضا می‌شود فردا ز خون عاشقان، این دشت دریا می‌شود

امشب کنار یکدگر، بنشستہ آل مصطفٰی فردا پریشان جمعشان، چون قلب زهرا می‌شود

امشب بود بر پا اگر، این خیمه‌ی خون خدا فردا بہ دست دشمنان، بر کندہ از جا می‌شود

امشب صدای خواندن قرآن بہ گوش آید ولی فردا صدای الامان، زین دشت بر پا می‌شود

امشب کنار مادرش، لب تشنہ اصغر خفتہ است فردا خدایا بسترش، آغوش صحرا می‌شود

امشب کہ جمع کودکان، در خواب ناز آسوده‌اند فردا بہ زیر خارہا، گم گشتہ پیدا می‌شود

امشب رقیہ حلقه‌ی زرین اگر دارد بہ گوش فردا دریغ این گوشوار از گوش او وا می‌شود

امشب بہ خیل تشنگان، عباس باشد پاسبان فردا کنار علقمہ، بی‌دست، سقا می‌شود

امشب کہ قاسم زینت گلزار آل مصطفٰی ست فردا ز مرکب سرنگون، این سرو رعنا می‌شود

امشب بود جای علی، آغوش گرم مادرش فردا چو گل‌ها پیکرش، پا مال اعدا می‌شود

امشب گرفتہ در میان، اصحاب، ثاراللہ را فردا عزیز فاطمہ، بی‌یار و تنها می‌شود

امشب بہ دست شاہ دین، باشد سلیمانی نگین فردا بہ دست ساربان، این حلقہ یغما می‌شود

امشب سر سر خدا، بر دامن زینب بود فردا انیس خولی و دیر نصاری می‌شود

ترسم زمین و آسمان، زیر و زبر گردد حسان فردا اسارت نامه‌ی زینب چو اجرا می‌شود

حبیب اللہ چایچیان حسان

شاعروں جیسے علیرضا قزوہ، عبد الجبار کاکایی، قیصر امین پور، محمدعلی بہمنی، سید حسن حسینی، ساعد باقری و چند تن دیگر، نے ہم عصر عاشورا کی شاعری کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

عاشورا کی نظموں میں مختلف موضوعات ہیں، جن میں سے کچھ کا تذکرہ یہاں ہے:

؛آب واقعہ کربلا میں، اگرچہ سید الشہداء کا قافلہ دریائے فرات کے قریب تھا، یزیز فوج نے امام کو پانی بند کر دیا اور کربلا کے قافلے کو پیاس سے چھوڑ دیا۔ عاشورا کی شاعری میں پانی کے معاملے کو مختلف جہتوں میں اٹھایا گیا ہے۔

راہ آب فرات بربستند

دل اوزان عناد و غم خستند

یا

آب خود با دشمنان تشنہ قسمت می‌کند

عزت و آزادگی بين تا کجا دارد حسين

؛خون بلاجواز بہایا ہوا خون کبھی رائگاں نہیں جاتا اور مستقل ہوتا ہے۔ امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے اپنے خون سے اسلام کے درخت کو پانی پلایا اور اس کو زندہ کرنے کے لیے زندہ کیا جو سوئے ہوئے اور ہوشیار حکمرانوں کے دھوکے میں تھے:

چون خون ز حلق تشنہ او بر زمين رسيد

جوش از زمين بہ ذرہ عرش برين رسيد

؛خیمگاہ اور خیمہ جلانا کچھ اشعار میں امام اور ان کے اہل خانہ کے خیموں کا بھی ذکر ہے جنھوں نے سید الشہدا کی شہادت کے بعد، ان کے املاک کو لوٹ لیا اور ان کے خیموں میں آگ لگا دی:

اين داغ سوزدم کہ پس از قتل شاہ دين

از خيمه‌گاہ جز تل خاکستری نماند

خیمہ گاہ

؛عطش(پیاس) بچوں کی پیاس، اصحاب پر پانی کی بندش اور کربلا کے گرم موسم میں ان کی شدید پیاس، عاشورا کے بارے میں فارسی شعرا کے اشعار اور اشعار میں کسی بھی موضوع کے مقابلے میں زیادہ استعمال کی گئی ہے۔

زان تشنگان هنوز بہ عيوق می‌رسد

فرياد العطش ز بيابان کربلا

؛حضرت عباس حضرت ابوالفضل العباس سید الشہداء کے کارواں کے پرچم بردار اور رہنما تھے اور آخری سانس تک اپنے بھائی کے وفادار رہے اور شیعوں اور دنیا کے تمام مسلمانوں کی وفاداری کا مظہر بن گئے:

عباس نامدار چو از پشت زين افتاد

افتاد بر سيار و يمين عرش را

گفتی قيامت است کہ بر زمين افتاد

چون هر دو دست او را يسار و يمين افتاد

قمر بنی هاشم

؛حضرت علی اصغر علی اصغر کربلا میں ایک چھ ماہ کا بچہ ہے جسے خونخوار دشمن نے نہیں بخشا اور ایک تیر سے شہید ہو گیا:

بهر گلوی اصغر تو تير کينہ هست

وز بهر کودکان تو جز تازيانہ نيست

؛حضرت زینب، کربلا کی شیرنی حضرت زینب عاشورا کی شیرنی ہیں اور اپنے بھائی کی شہادت کے بعد وہ یزیدیوں کے سامنے پہاڑ کی طرح کھڑی ہوگئیں:

خاتون کربلاست کہ ام‌المصائب است

اين زينب است و خواهر عباس و جعفر است

قهرمان صبر دو عالم جناب زينب است

صبر مات از سينہ پرالتهاب زينب است

؛اہل کوفہ اور ان کی بے وفائی عاشورہ شعرا نے بھی کوفیوں کی بے وفائی و عہدشکنی کی تصویر کشی کی۔ لوگوں کے جیونی کردار اس شہر میں شمار کیے جاتے ہیں۔

در کوفہ از وفا و محبت نشانہ نيست

وز مهر و آتشي سخن در ميانہ نيست

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، ادب میں جو موضوعات اور تصورات ظاہر ہوتے ہیں وہ معاشرے کے رحم اور اس کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ آج، شام اور عراق میں دہشت گردی کے بحران اور سلامتی کے بحران کے باوجود، سرزمین کے نوجوان اسلام اور حسینی اقدار کے دفاع میں ملک سے باہر ائمہ کے حرمت کا دفاع کر رہے ہیں۔ جدید دور میں، عاشورا کی نظموں نے حرمت کے دفاع کا رنگ لیا ہے اور شاعروں نے اپنی ہی شاعری میں بھی اس مشعل کو استعمال کیا ہے۔

ما را ز خاندان کرم آفریده‌اند

یک موج از تلاطم یم آفریده‌اند

ما را فدائیان پسرهای فاطمہ

ما را شهید میر و علم آفریده‌اند

ما را بہ اعتبار عنایات فاطمہ

گریہ کنان حضرت غم آفریده‌اند

بهر بریدن سر اولاد عمروعاص

در جان ما غرور و غژم آفریده‌اند

هر یک ز ما حریف دو صد لشکر یزید !

زین روز شیعہ عدہ کم آفریده‌اند

دجال ها و حرملہ ها را مهاجم

ما را «مدافعان حرم» آفریده‌اند


آں امامِ عاشقاں پورِ بتول
سروے آزادے زبستانِ رسول

بہر آں شہزادہِ خیر الملل
دوشِ ختم المرسلین نعم الجمل

موسٰی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیاتِ آید پدید

زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است

تا قیامت وطع استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد

رمزِ قرآن از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوختیم

شوکتِ شام و فرِ بغداد رفت
سطوتِ غرناتا ہم از یاد رفت

تارِ ما از زخمئہِ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز

اے صبا اے پیکِ دورِ افتادگاں
اشک، ما بر خاکِ پاکِ او رساں



وہ جو عاشقوں کا امام و پیشوا اور فاطمہ کا فرزند اور رسولِ پاک کے باغ کا سروِ آزاد تھا۔ امتِ مسلمہ کے اس بہترین شہزادے کے لیے رسول کریم کے مبارک شانے سواری تھے۔ موسٰی و فرعون، شبیر و یزید یہ زندگی کی دو متضاد قوتیں روزِ اول سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ حق شبیر کی طاقت ہی سے زندہ ہے۔ اور باطل کا انجام حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ امام حسین نے قیامت تک کے لیے جبرو استبداد کی جڑیں کاٹ دیں۔ آپ کی موجِ خوں نے ایک تازہ چمن ایجاد کیا۔ قرآں کے اسرارو رموز ہم نے حسین سے سیکھے۔ آپ ہی کی آگ سے حرارتِ ایمانی کے شعلے چُنے۔ شام کی شان و شوکت اور بغداد کی عظمت جاتی رہی، غرناتا کی سطوت و شوکت بھی ہماری یادوں سے محو ہو گئی لیکن ہماری زندگی کے تار آج بھی اسی مضراب کی وجہ سے لرزاں ہیں، اسی نعرہِ تکبیر کے سبب ہمارا ایمان آج تک زندہ ہے۔ اے بادِ صبا، اے دُور کی بستیوں کے مکینوں کی نامہ بر ! میرے آنسو اُس کی قبر کی خاکِ پا تک پہنچا دے۔

==== مولانا جلال الدین رومی ====

فارسی زبان میں مولانا محمد رومی بلخی کے دیوان میں تین غزلیات اور مثنوی میں دو نظمیں سیدالشہدا، آپ کے اہل بیت و انصار اور سانحہ کربلا کے بارے میں بلاواسطہ نہایت عمیق اور عارفانہ مطالب کی حامل ہیں

حکیم الامت علامہ اقبال نے انھیں مرشد رومی کہا ہے۔

==== امام حسینؑ اور کربلا کے بار ے میں مولانا کا کلام ====
مولانائے روم کے شہرہ آفاق دیوان جس کا نام انھوں نے اپنے مرشد شمس تبریزی کی مناسبت سے دیوان شمس تبریز رکھا ہے کی غزل نمبر230 میں امام حسینؑ اور کربلا والوں کا ذکر بہت معنی خیز انداز سے کیا گیا ہے۔
<poem>زسوز شوق دل من ھمی زند عللا
کہ بوک در رسدش از جناب وصل صلا
دلست ھمچو حسین و فراق ھمچو یزید
شھید گشتہ دو صد رہ بہ دشت کرب و بلا
شھید گشتہ بہ ظاہر حیات گشتہ بہ غیب
اسیر در نظر خصم و خسروی بخلا
میان جنت و فردوس وصل دوست مقیم
رھیدہ از تک زندان جوع و رخص وغلا
اگر نہ بیخ درختش درون غیب ملیست
چرا شکوفہ وصلش شکفتہ است ملا
خموش باش و ز سوی ضمیر ناطق باش
کہ نفس ناطق کلی بگویدت افلا

اس غزل کا مختصر مفہوم کچھ یوں ہیں:

سوز شوق سے مرا دل شوروغوغا برپا کیے ہوئے ہے کہ جناب وصل سے اسے دعوت وصال پہنچی ہے۔

دل حسین کی طرح سے ہے اور فراق یزید کی طرح، یہ دل دشت کربلا تک پہنچنے کے لیے سو بار شہید ہوا ہے۔

ظاہر میں تو وہ شہید ہو چکے ہیں لیکن عالم غیب میں وہ زندگی ہو گئے ہیں، دشمن کی نظر میں اہل بیت رسالت اسیر تھے لیکن حقیقت میں وہ (عرش کی طرف پرواز کرتے ہوئے)مقام خسروی پر پہنچ چکے تھے۔

جنت و فردوس کے مابین وصل دوست کا مرحلہ ہے۔ یہ کربلا والے اس زندان سے نجات پا گئے جہاں بھوک، پستی اور قحط و گرانی تھی۔

اگر درخت کا بیج عالم غیب میں اور زیرزمین نہ پھولتا، کھِلتا اور طاقتور ہوتا تو وصل یار کا شگوفہ ملائے عام میں کیسے کھلتا ہوا دکھائی دیتا۔

خاموش رہو اور ضمیر سے بات کرو کیونکہ نفس ناطق کلی تمھیں کہتا ہے کہ کیا تم عقل و تدبر سے کام نہیں لیتے ہو۔

مولانا دل کی بے قراری اور بے کلی کو بہت بے ساختگی سے بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سوز شوق کا یہ عالم ہے کہ میرا دل پیہم شوروشین بپا کیے ہوئے ہے۔ اس میں یہ بات پیش نظر رکھنے والی ہے کہ یہاں ظاہری اور زبان کے شوروشین کا بیان نہیں ہے بلکہ دل کی بے کلی اور محبوب کے لیے اس کی بے تابی کا بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھر محبوب ازلی کی طرف سے بھی وصل کا پیغام ملتا ہے۔

اس عشق و سوز کامرکز دل ہے اور اگلے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ دل حسین کی طرح ہے۔

اس میں دل کو حسینؑ سے تشبیہ دی گئی نہ کہ حسین ؑکو دل سے۔ دل ایک بلند مقام کا حامل ہے۔ وجود انسان کے تمام اعمال، احوال اور مقامات اسی سے وابستہ ہیں۔ عرفاء کی نظر میں نظام ہستی میں موجودات کا خلاصہ انسان ہے اور انسان کا خلاصہ دل ہے۔ یہی بات صفی الدین اردبیلی نے اپنی کتاب صفوۃ الصفاء میں لکھی ہے۔ ایک طرف مولانائے روم امام حسینؑ کے حضور اس طرح سے اظہار شیفتگی کرتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو حضرت حق سے کامل جدائی، دوری اور فراق کی علامت قرار دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دشت کرب و بلا تک پہنچتے پہنچتے یہ دل سینکڑوں مرتبہ شہید ہوا ہے۔ اول تو کربلا کی عظمتوں اور عشق کی ان بالامنزلوں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ ثانیاً اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دشت ابتلا میں سوجان سے قربان ہونا پڑتا ہے۔ بار بار فنا کی منزل سے گذرنا پڑتا ہے، تب کہیں جلوہئ حق نصیب ہوتا ہے۔

مولانائے روم امام حسینؑ اور ان کے اہل بیت و انصار کو بہت عمدگی سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ شہیدان کربلا کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بظاہر وہ قتل ہو گئے ہیں اور ہماری نظروں میں وہ شہید ہو گئے ہیں لیکن عالم غیب میں وہ ایک اعلیٰ زندگی سے سرفراز ہو گئے ہیں بلکہ“حیات گشتہ بہ غیب“ کہہ کر انھیں سراسر ایک حیات قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن حکیم نے راہ خدا میں جان دینے والوں کے لیے کہی ہے:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْن(آل عمران:961)

اسرائے کربلا کا بھی مولانا نے ذکرعجیب انداز سے کیا ہے۔ شاید ان سے پہلے کسی نے اسرائے کربلا کو اس طرح سے خراج تحسین پیش نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ دشمن کی نظر میں تو وہ اسیر ہیں لیکن اس بظاہر اسیری کے برخلاف وہ بارگاہ حق تعالیٰ میں مقام خسروی و شاہی پر فائزہیں۔ ان کے اور محبوب ازلی کے مابین کوئی حجاب، بُعد اور دوری نہیں۔ یہ اسیر دشت کربلا سے نکلے تو بظاہر کوفہ و دمشق میں پھرائے گئے لیکن حقیقت میں ان کا سفر سوئے عرش الٰہی تھا۔

مولانائے روم بہشت کے دو درجوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک کو وہ جنت کہتے ہیں اور دوسرے کو فردوس۔ مولانا اور دیگر عرفا کے نزدیک ایک عام نیک انسانوں کا درجہ ہے اور دوسرا اس کے بندگان خاص کا مقام ہے۔ یہ مقام دراصل وصال محبوب ازلی کا مقام ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ کربلا والوں نے مادیات کے زندان سے رہائی پا لی ہے، اس دنیا کی بھوک، قحط اور پستی سے نکل کر گئے اور وصل دوست کی منزل مراد تک جا پہنچے ہیں اور اس بہشت میں جا مقیم ہوئے ہیں۔ اگلے شعر میں وہ ایک نہایت اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر زمین کے اندر بویا گیا بیج پھلنے پھولنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو زمین کے باہر بھی اس کی شاخوں پر شگونے نہیں کھل سکتے۔ مولانا کا موضوع چونکہ عشق ہے اور عشق کا اعلیٰ ترین اور کامیاب ترین نمونہ ان کے نزدیک امام حسینؑ اور ان کے ساتھی ہیں، اس لیے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ان کی روحیں قوی نہ ہوتیں اور ان کے سینے سوز عشق سے بے قرار نہ ہوتے تو دشت کرب و بلا میں سے کامیابی سے نہ گذر سکتے تھے لہٰذا عاشق صادق وہی ہے جس کی روح قوی ہو اور عشق حضرت حق میں بے قرار ہو۔ یہی عشق نتیجہ خیز ہوگا اور پھر وصال محبوب کا ظہورملائے عام میں ہوگا۔

آخری شعرمیں کہتے ہیں کہ بظاہر خاموش رہو اور جو بات تمھیں کرنا ہے اپنے ضمیر سے کرو، اپنے باطن سے گفتگو کرو یعنی غور و فکر کرو، اپنی ذات پر غور کرو کہ اندر ہی آپ کا محبوب موجود ہے۔ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس سے ہم کلام ہو کہ نفس ناطق کلی تم سے کہتا ہے کہ کیا تم عقل و تدبر سے کام نہیں۔ باہر کیا تلاش کرتے ہو، اپنے ضمیر سے ہم سخن کیوں نہیں ہوتے۔

مولانا کی ایک اور غزل جس کا نمبر2102ہے، اس میں مولانا عشق کی منزل انتہا کربلا کو قرار دیتے ہیں اور ان کی نظر میں دنیا کی ہر لذت کو تج کر، ابتلا و امتحان سے گذر کر عاشور کے دن کربلا میں جا پہنچنا عاشق کی جہد مسلسل کا حاصل ہے۔

چیست با عشق آشنا بودن
بجز از کام دل جدا بودن
خون شدن خون خود فروخوردن
باسگان بر در وفا بودن
او فدایی است ھیچ فرقی نیست
پیش او مرگ و نقل یا بودن
رو مسلمان سپر سلامت باش
جھد می کن بہ پارسا بودن
کاین شھیدان ز مرگ نشکیبند
عاشقانند برفنا بودن
از بلا و قضا گریزی تو
ترس ایشان زبی بلا بودن
ششہ می گیر و روز عاشورا
تو نتانی بہ کربلا بودن

عشق سے آشنا ہونا اور آگاہ ہوناکیا ہے سوائے خواہشات دل سے جدا ہونے کے۔
(عشق یعنی) خون ہوجانا اور اپنے خون کو بہا دینا اور پھر کتوں کے ساتھ در وفا پر بیٹھ رہنا۔
(رہ عشق کا) فدا کار وہ ہے جس کے لیے موت، انتقال یا ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
مسلمان رہو اور اس اسلام کو اپنی سپر بنا کر سلامت رہو اور اس طرح پارسا رہنے کے لیے مجاہدہ کرو۔
کیونکہ شہید وہ ہیں کہ جو موت سے نہیں ڈرتے وہ تو فنا ہو جانے پر عاشق ہیں۔
تم امتحان و ابتلا اور موت سے گریزاں ہو جب کہ عاشق وہ ہیں کہ اگرکوئی ابتلا نہ آئے تو وہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
اگر تم (عید کے) چھ روز بعد روزہ بھی رکھتے رہے توروز عاشورا کربلا میں نہیں پہنچ سکتے۔

اس غزل میں کربلا کے مقام باطنی تک رسائی کے لیے جس فکر و احساس اور ایمان و عشق کی ضرورت ہے اس کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غزل کا مطلع ہی اس سوال پر مبنی ہے کہ عشق سے آشنا ہونے اور عشق سے آگاہ ہونے کا کیا مطلب ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ کام دل سے جدا ہوئے بغیر یعنی اس مادی دنیا کے علائق و خواہشات سے جدا ہوئے بغیر عشق سے آشنائی ممکن نہیں ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ جہانِ مادی اور لذّات مادی سے جدائی عشق سے آشنائی کا آغاز ہے، اسی لیے مولانا اسے عشق سے آشنائی قرار دیتے ہیں نہ کہ مقام عشق کو پالینا۔

دوسرے شعر میں اگلے مرحلے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس راہ عشق میں عاشق خون ہو جاتا ہے اور اپنا خون یعنی مادی زندگی کی ہر رمک کو در حبیب کی نذر کر دیتا ہے اور جیسے کتے اپنے مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتے اور وفادار کہلاتے ہیں اسی طرح عاشق کو محبوب کے دروازے پر پوری وفاداری سے جمے رہنا ہوتا ہے۔پنجاب کے بزرگ صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جب ایک انسان اس دنیا کی حقیقت کو پہچان لیتا ہے، اپنی معرفت حاصل کرلیتا اور نتیجے کے طور پر فریفتہ حق ہو جاتا ہے تو پھر اس کی نظر میں موت، انتقال یا ہونے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ”بودن“ یہاں بہت معنی خیز ہے۔ ہونا نہ ہونا اسی کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ”فنافی اللہ“ کی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ اسی کو مولانا ”فدائی“ ہونا قرار دیتے ہیں۔ اگلے شعر میں مولانا اپنے مخاطب سے، جسے وہ منزل عشق سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ اپنے اسلام اور ایمان کو اپنی سپر بناؤ، اپنے وجود انسانی و اسلامی کی حفاظت کرو اور آلائشاتِ مادی سے بچ کر پارسائی کا مقام حاصل کرو لیکن اس کے لیے تمھیں صرف ارادہ نہیں کرنا بلکہ جدوجہد کرنا ہے۔ عرفانی زبان میں اسے ”مجاہدہ“ کہتے ہیں۔ اب وہ فنا و عشق کا تذکرہ کرتے ہوئے شہادت کی طرف آتے ہیں۔ حقیقی عاشق وہی ہے جو جاں باختہ عشق ہو اور ترک دنیا یا راہ محبوب میں جان دینے سے گریزاں نہ ہو بلکہ اس موت پر عاشق ہو، ایسا شخص موت سے ہراساں ہرگز نہیں ہو سکتا۔

اس راہ کا راہی بلا و قضا سے گریزاں نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اس وقت ترساں و پریشاں ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا محبوب اسے کسی امتحان ہی کے قابل نہیں سمجھتا۔

فارسی زبان میں ”ششہ گرفتن“ عیدالفطر کے بعد چھ روزے رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس شعر میں ایک طرف ”ششہ گرفتن“ کا محاورہ استعمال کیا گیاہے اور دوسری طرف ”عاشورا“ کا ”روز عاشورا“ یعنی محرم الحرام کی وہ دسویں تاریخ جب امام حسینؑ اور ان کے انصار و اہل بیتؑ نے شہادت حق دیتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ مولانا کہتے ہیں کہ

تم عید منا کر چھ روزے رکھتے رہو گے تو روزعاشورا ہرگز کربلا نہیں پہنچ سکتے۔

اس میں ایک مفہوم تو یہ پنہاں ہے کہ چھ دن کی ریاضت کرکے بیٹھ جانا دسویں دن حاصل ہونے والی منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔ ثانیاً روز عاشورا خدمت سیدالشہداؑ میں رسائی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ظاہری نمازیں اور روزے جو اندر سے بے روح ہوں اور ان کے مقابل عشق کی نماز اور ترک دنیا کا معنوی مفہوم اتنا ہی باہم مختلف ہے جتنا لفظ و معنی یا جسم و روح۔ پنجاب کے معروف صوفی بزرگ حضرت سلطان باہو ایسی نماز، روزے اور حج پر ایک عارفانہ طنز کرتے ہیں:

کربلا اور غیر مسلم شعرا

’’بوستانِ عقیدت‘‘ میں نور احمد میرٹھی رقم طراز ہیں:

’’کربلا کا واقعہ زمانی اعتبار سے ساتویں صدی کی آٹھویں دہائی کا ہے اور زمینی اعتبار سے عرب کے ایک مقام کربلا سے متعلق ہے۔ اس معرکۂ حق و صداقت کے بعد پوری انسانی تاریخ متاثر ہوئی اور تمام اقوام نے اس سے حوصلہ اور رہنمائی حاصل کی۔ عالمی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ خیر و شر کے تصادم کے حوالے سے ہی یادگار نہیں بلکہ حضرت امام حسینؓ نے قربانی و ایثار سے جو نقوش ابھارے اس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسینؓ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے حریت و آزادی کی ایک ایسی علامت ہیں جن سے بلا لحاظِ مذہب و ملت ہر انسان محبت کرتا ہے اور دل سے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔‘‘

برصغیر میں شاید ہی کوئی ایسا اہلِ قلم ہو جس نے اس واقعہ کا تذکرہ اپنے افکار میں نہ کیا ہو۔ تمام نامور غیر مسلم اہلِ قلم نے بھی اس کا اظہار نہایت عقیدت سے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

حکم تر لوک ناتھ اعظمؔ جلال آبادی
اے کربلا ہے تیری زمین رشکِ کیمیا
تانبے کو خاک سے ہم زر بنائیں گے
اعظمؔ تُو اپنے شوق کو بے فائدہ نہ جان
فردوس میں یہ شعر تیرا گھر بنائیں گے

گرسرن لال ادیبؔ لکھنوی کا شمار اپنے وقت کے قابلِ ذکر شعرا میں ہوتا ہے، آپ کی یادگار کئی کتب ہیں جن میں حمد، نعت، سلام، منقبت پر مشتمل کتاب ’’نذرانۂ عقیدت‘‘ ان کے بھتیجے دھرمیندر ناتھ نے 1984ء میں شائع کرائی۔ سلام کے چند اشعار دیکھیے:

لوحِ جہاں پہ نقش ہے عظمت حسینؓ کی
حق کو شرف ملا ہے بدولت حسینؓ کی
ہوئی ہے تازہ دل میں رسولِؐ خدا کی یاد
کہتے تھے لوگ دیکھ کے صورت حسینؓ کی
تھا اعتقاد میرے بزرگوں کو بھی ادیبؔ
میراث میں ملی ہے محبت حسینؓ کی

بھارت کے صفِ اوّل کے معروف وکیل، صحافی، دانشور، ادیب، شاعر رگھبیر سرن دواکر المعروف راہیؔ امروہوی کے بارے میں تذکرہ نگار عظم امروہوی کہتے ہیں:

’’جہاں تک راہیؔ کی مرثیہ نگاری کا سوال ہے اس کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے گذشتہ سال ہی اس طرف توجہ دی ہے، لیکن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ عقیدت رکھتے ہیں اور واقعہ کربلا سے بھی متاثر ہیں۔

موقوف کچھ نہیں ہے انیسؔ و دبیرؔ پر
راہیؔ بھی کہہ رہا ہے ترا مرثیہ حسینؓ
میں حق پرست مبصر ہوں اس لیے شبیر!
تمھیں ہی فاتحِ عالم قرار دیتا ہوں
کاش پھر پیغام حق لے کر یہاں آئیں حسینؓ
زندگی کو اک نیا پیغام دے جائیں حسینؓ

سنت درشن جی مہاراج درشنؔ نے اردو، فارسی، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں شاعری کی ہے۔ انگریزی منظومات کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کئی عالمی دورے کیے اور خدا شناسی، خودشناسی اور امنِ عالم کے مختلف پہلوؤں پر افکار پیش کیے۔ ان کے خطبات کا ترجمہ دنیا کی تقریباً چالیس زبانوں میں ہو چکا ہے۔ انھوں نے واقعہ کربلا کو مثالی قرار دیا۔ اپنی نظم ’’فاتح کربلا‘‘ میں کہتے ہیں:

حسینؓ درد کو، دل کو، دعا کو کہتے ہیں
حسینؓ اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسینؓ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسینؓ شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسینؓ لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسینؓ عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسینؓ سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسینؓ نقطۂ معراج ہے رسالت کا
حسینؓ جذبۂ آزادئ ہر آدم ہے
حسینؓ حریتِ زندگی کا پرچم ہے
حسینؓ صبحِ جہاں تاب کی علامت ہے
حسینؓ ہی کو بھلا دیں یہ کیا قیامت ہے
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسینؓ درشنِؔ تشنہ کو جام بخشے گا

کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ نہایت سادہ، آسان اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’’طلوعِ سحر‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ آپ کا یہ نعتیہ شعر بہت مشور ہے:

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
حضرت امام حسینؓ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:
بڑھائی دینِ محمدؐ کی آبرو تُو نے
جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر
عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بو تُو نے
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل دکھایا تُو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

سروجنی نائیڈو کو معروف شاعرہ اور قوم پرست رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ برصغیر کی سیاست میں بھی متحرک رہیں۔ 1925ء میں کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ ان کی شاعری کلیات کی شکل میں انگلستان سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی نظم ’’شبِ شہادتِ عظمیٰ‘‘ کا ترجمہ مولانا صفی لکھنوی نے کیا ہے:

برہنہ پا، سیاہ پوش، چشم سفید، اشکبار تیری
مصیبتوں پہ آہ، روتی ہے خلق زا ر زار
ہائے حسینؒ بے وطن، وائے حسینؓبے کفن
پیارے ولیِ حق نما، تیرے مُحب با صفا
جس کی نہیں کوئی مثال، گاڑ گیا وہ اک نشان
جد سے وراثتاً ملی، دولتِ دینِ بے زوال

’’بوستانِ عقیدت‘‘ سے چند پھول اورپیش خدمت ہیں:

ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
(رام پرکاش ساحرؔ )

لاالٰہ کی سطوتِ شوکت کے حامل زندہ باد
قائدِ اربابِ حق جانِ قیادت زندہ باد
(رانا بھگوان داس)

سید الشہداء غیر مسلموں کی نظر میں

رابرٹ بولانو 1953–2003

  • چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹ بولانو نے کہا ہے کہ امام حسین کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جو ان کی ہر چیز کو نظر انداز کرنے پہ مجبور کرگئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی۔

فریا اسٹارک

  • معروف برطانوی ادیبہ فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہے، فریا نے 1934 میں عراق کے بارے میں ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے، فریا کہتی ہے کہ امام حسینؑ نے جہاں خیمہ لگائے وہاں دشمنوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا، یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 سال پہلے تھی، میرا کہنا ہے آپ کربلا کی سرزمین کا سفر کرنے سے اس وقت تک کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کو اس کہانی کا پتا نہ ہو، یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جسے میں روئے بغیر کبھی نہ پڑھ سکی۔

چارلس ڈکنز

  • مشہور انگریزی ناولسٹ چارلس ڈکنز نے کہا تھا اگر امام حسینؓ کی جنگ مال ومتاع اور اقتدار کے لیے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے، بلاشبہ وہ ایک مقصد کے لیے ہی کھرے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کے لیے تھی، چارلس کا دور تھا( Charles John Huffam Dickens 1812–1870)

ایڈورڈ جی براؤن

  • کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف پرشیا” میں لکھا ہے، کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبر ﷺ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک و پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کی باعث ہے جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہوں۔(Literary History of Persia by Edward Granville Brown, 1862–1926)

رینالڈ نکلسن

  • چیسٹر کے ادبی اسکالر رینالڈنکلسن نے تاریخ اسلام، مولانا رومیؒ اور علی ہجویریؒ پر بھی کام کیا ہے، ان کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف عرب” میں ہے جس طرح امام حسینؑ کے ساتھی ان کے ارد گرد کٹ گئے بلاخر امام حسین بھی شہید ہو گئے، یہ بنو امیہ کا وہ تلخ کردار ہے جس پر مسلمانوں کی تاریخ امام حسینؑ کو شہید اور یزید کو ان کا قاتل گردانتی ہے۔(Reynold Alleyne Nicholson 1868–1945)

انتونی بار

  • لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا نے اپنی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” میں لکھا ہے کہ، جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے اتنی ہمدردی اور پزیرائی حاصل کی ہو، صرف یہی نہیں بلکہ معرکہ کربلا سے امام حسین کی باوقار شہادت کے علاوہ بھی دیکھنے والے کو بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں۔(Antoine Bara-2008)
  • تھامس کارلائل نے کہا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسینؑ کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔(Thomas Carlyle 1795–1881)

وکٹرہیوگو

  • فرانس کے معروف ادیب، ناولسٹ وکٹرھوگو نے لکھا ہے کہ امام حسینؑ کے انقلابی اصول ہر اس باغی کے لیے مشعل راہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔(Victor Marie Hugo 1802–1885)

لیو ٹالسٹائی

  • روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے، امام حسینؑ ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انھیں شہادت حاصل ہوئی۔(Leo Tolstoy 1828–1910)

کوئیانہ

  • جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کے لیے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے، (نومبر 2013)

ولیم میور

  • برطانیہ کے اسکاٹش ادبی اسکالر سر ولیم میور کہتے ہیں، سانحہ کربلا نے تاریخ محمد ﷺ میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے، واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا بلکہ محمدی ریاست کا اصول و معیار بھی متعین کر دیا جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گیا تھا۔(Sir William Muir 1819–1905 Annals of the Early Caliphate, London, 1883)

پیٹر جے چیلکووسکی

  • مغربی محقق، تاریخ دان اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر جے چیلکووسکی کہتے ہیں، امام حسینؓ پر مکہ سے کربلا تک کئی بار چھپ کر حملہ کیا گیا، ان کے خاندان اور اصحاب پر بھوک پیاس کا ظلم اور شہادت کے بعد ان کے جسموں کو پامال کیا گیا لیکن حسینؓ نے صبر سے جان بحق نوش کیا پر یزید کی بیعت نہ کی۔(Peter J Chelkowski, phd in 1968)

ایڈورڈ گبن

  • تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔(Edward Gibbon 1737–1794)

گیورجی لیوکیکس

  • ہنگری کے مصنف گیورجی لیوکیکس کہتے ہیں، حسینؑ کا تصور مرکزی طور پر انسان کی فری وِل، شخصی آزادی اور اپنی قوم کی خوش حالی کے لیے استبدادی حاکم کے سامنے کھڑے ہونے پر فوکس کرتا ہے اور حسینؑ نے اپنی پوری قوت اور عزم کے ساتھ اس استبداد کو فیس بھی کیا، لوکیکس مارکسی فلاسفر تھے اور مغربی مارکسزم کے بانیوں میں سے بھی تھے۔(Gyorgy Lukacs 1885–1971)

اوگیرا

  • روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ حسینؑ ہر اس طبقے کے لیے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کر دیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔

تھامس لیل

  • انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انھیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا ہلا کے رکھ سکتے ہیں، تھامس 1918–1921 میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی۔

ایڈورڈ کیسلر

  • وولف انسٹی ٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کے لیے امام حسینؓ بہترین رول ماڈل ہیں

جسویر سنگھ

  • سٹی سکھ پروگریسیو آرگنائزیشن لندن کے بانی ممبر جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ہم امام حسین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ، امام حسینؑ عدل کے لیے کھڑے تھے انھوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔

ڈائنا ملز

  • انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ امام حسینؑ نوع انسان کے لیے رول ماڈل ہیں، میرے لیے امام حسینؑ کئی جہتوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انھوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسینؑ کی یہ بات مجھے بہت بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے

کرس ہیور

  • کرسچئین استاد ڈاکٹر کرس ہیور نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ دنیا جانتی ہے یزید ایک برا انسان تھا جو خدا کے احکامات کا سرعام مزاق اڑاتا تھا، یہاں میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حدیث بیان کروں گا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا جہاد ہے، یہی بات امام حسینؑ کے پیش نظر تھی، اسی لیے حسینؑ کھڑے ہوئے اور اپنی جان قربان کرکے دراصل انسان کی عظمت کو بحال کیا۔( یوٹیوب ویڈیو لیکچر 08 نومبر 2014)

کرس ہیور

  • ڈاکٹر کرس ہیور نے ایک دوسرے لیکچر میں کہا کہ 72 اور تیس ہزار کا کیا مقابلہ؟ ایک طرف تیس ہزار کی مسلح فوج اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی اور دوسری طرف امام حسینؑ نے 72 نہتے لوگوں کیساتھ اپنا مقصد حاصل کر لیا وجہ یہ کہ امام حسینؑ وہ ہیں جن کے اندر خدا بولتا ہے، خدا انسانوں کو سمجھانا چاہتا تھا کہ حق بات پر کیسے کھڑے ہونا ہے، ایک عیسائی ہونے کی حیثیت میں سمجھتا ہوں انسان کو خدا کی رضا پر ایسے ہی پورا اترنا چاہیے جیسے امام حسینؑ نے نیابت خداوندی کا حق ادا کیا۔(یوٹیوب ویڈیو لیکچر 24 نومبر 2014)

مہاتما گاندھی

  • مہاتما گاندھی نے کہا تھا، میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؓ ابن علیؓ کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

جواہر لعل نہرو

  • پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کے لیے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلیٰ ترین مثال ہے، (1889–1964)

رابندر ناتھ ٹیگور

  • بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لیے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے جیسے امام حسینؓ نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں۔(1861–1941)

راجندر پرساد

  • بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی نے کہا تھا، امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے، (1884–1963)

[[سروجنی نائیڈو|سروجنی نائیڈو]

  • مسز سروجنی نائیڈو نے کہا ہے کہ میں مسلمانوں کو اس لیے مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں کہ ان میں دنیا کی سب سے عظیم ہستی امام حسینؑ پیدا ہوئے جو دنیا کے تمام مزاہب کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ہر کمیونیٹی کے لیے باعث فخر ہیں۔

سوامی شنکر اچاریہ

  • سوامی شنکر اچاریہ نے کہا یہ امام حسینؑ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ ہے ورنہ آج دنیا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔

ڈاکٹر رادھا کرشن

  • ڈاکٹر رادھا کرشن بھارتی صدر نے کہا تھا، گو امام حسینؑ نے تیرہ سو سال پہلے قربانی دی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔

نیلسن منڈیلا

  • نیلسن منڈیلا نے کہا، میں نے بیس سال جیل میں گزارے ہیں، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پالینی چاہیے لیکن پھر مجھے امام حسینؑ اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کے لیے پھر سے تقویت مل گئی۔

لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا کی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” بلاک بسٹر کتاب ہے جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے دیگر ملکوں کے ادیب بھی مصنف سے اجازت لینے کے لیے کوشاں ہیں۔انتونی بارا کہتا ہے کہ یہ کتاب خالصتاً علمی ادبی اور تحقیقی کام تھا جسے علمی بنیادوں پر ہی کرنا تھا لیکن اس کام کے دوران میرے دل میں یقیناً امام حسینؑ کی عظمت رچ بس گئی ہے، تین گھنٹے کے انٹرویو میں جب بھی بارا نے امام حسینؑ کا نام لیا تو ‌ساتھ میں “ان پر سلامتی ہو” ضرور کہا، بارا کا کہنا ہے کہ میں نہیں مانتا امام

شیعہ فلسفہ

امام حسین علیہ السلام کے مزار کے دوران میں اربعین

شیعہ مسلمان محرم کے مہینے میں ہر سال جنگ کربلا کی یاد مناتے ہیں۔ یہ یکم محرم کے دن سے شروع ہوکر 10 محرم ( عاشورہ ) کے دن آخری مراحل پر پہنچتا ہے۔

جنوبی ایشین خطے میں، جنگ کربلا نے ادب اور ثقافت کے پھیلاؤ کو متاثر کیا، جیسے: مرثیہ، نوحہ اور سوز

مزید دیکھیے

باب آئیکنباب Shia Islam
باب آئیکنباب Islam

بیرونی روابط

سنی روابط

شیعہ روابط

32°37′N 44°02′E

یو ٹیوب پر

نوٹ

  1. Political supporters of Ali and his descendants (Alids)۔[6][7]
  2. Several conflicting terms of the treaty have been reported. Most of the accounts mention various financial rewards to Hasan. Other conditions, different in different sources, include selection of new caliph through shura (consultation) after Mu'awiya's death, transfer of the caliphate to Hasan after Mu'awiya's death, general amnesty to Hasan's followers, rule according to Qur'an and the سنت of Muhammad, discontinuation of cursing of Ali from the pulpit, financial rewards to Husayn, and preferential treatment of the بنو ہاشم (clan of Muhammad)۔ According to Vaglieri, conditions other than financial benefits are suspect and were probably invented later in order to mitigate criticism of Hasan for having abdicated.[13] Jafri, on the other hand, considers the terms in addition to financial compensation reliable.[14]
  3. According to other accounts, the person was Husayn's foster brother Abd Allah ibn Yaqtur whom he had sent after learning of Ibn Aqil's execution.[127]

حواشی

  • بلوکباشی، علی؛ بهرامیان، علی؛ پاکتچی، احمد؛ حاج منوچهری، فرامرز؛ مسعودی آرانی، عبداللہ؛ بخش فقہ، علوم قرآنی و حدیث (۱۳۹۲). «حسین (ع)، امام». در موسوی بجنوردی، کاظم. 20. تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی. صص. 664–715. شابک ۹۷۸-۶۰۰-۶۳۲۶-۱۹-۱. از پارامتر ناشناخته |پیوند نویسندہ1= صرف‌نظر شد (کمک); از پارامتر ناشناخته |پیوند نویسندہ3= صرف‌نظر شد (کمک); از پارامتر ناشناخته |دانشنامہ= صرف‌نظر شد (کمک); از پارامتر ناشناخته |پیوند نویسندہ2= صرف‌نظر شد (کمک); پارامتر |عنوان= یا |title= ناموجود یا خالی (کمک)

* ۔ دفتر نشر الهادی مفقود أو فارغ |title= (معاونت)

  • عمادی حائری، سید محمد (۱۳۸۸). «حسین بن علی، امام». در حداد عادل، غلامعلی. 13. تهران: بنیاد دایرةالمعارف اسلامی. از پارامتر ناشناخته |دانشنامہ= صرف‌نظر شد (کمک); از پارامتر ناشناخته |پیوند نویسندہ= صرف‌نظر شد (کمک); پارامتر |عنوان= یا |title= ناموجود یا خالی (کمک)

* مهدوی دامغانی، محمود؛ باغستانی، اسماعیل (۱۳۸۸). «حسن بن علی، امام». در حداد عادل، غلامعلی. 13. تهران: بنیاد دایرةالمعارف اسلامی. از پارامتر ناشناخته |دانشنامہ= صرف‌نظر شد (کمک); از پارامتر ناشناخته |پیوند نویسندہ1= صرف‌نظر شد (کمک); پارامتر |عنوان= یا |title= ناموجود یا خالی (کمک)

  • "Ashura's place in genesis of Islamic Revolution of Iran" (بزبان انگریزی)۔ Islamic Revolution Document Center
  • "Martyrdom and Masculinity in Warring Iran: The Karbala Paradigm, the Heroic, and the Personal Dimensions of War" (بزبان انگریزی)۔ doi:10.6094/behemoth.2019.12.1.1005
  • (بزبان انگریزی)۔ Brill مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  • The First Dynasty of Islam: The Umayyad Caliphate AD 661-750 (بزبان انگریزی)۔ Routledge
  • Religious minorities in the Middle East domination, self-empowerment, accommodation (بزبان انگریزی)۔ Brill
  • (بزبان انگریزی)۔ Bibliotheca Persica Press۔ صفحہ: 493–498 مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  • The other Saudis: Shiism, dissent and sectarianism (بزبان انگریزی)۔ Cambridge University Press
  • Social movements in twentieth-century Iran: culture, ideology, and mobilizing frameworks (بزبان انگریزی)۔ Lexington Books
  • Islamic Messianism: The Idea of Mahdi in Twelver Shi'ism (بزبان انگریزی)۔ State University of New York Press
  • (بزبان انگریزی)۔ E. J. Brill۔ صفحہ: 607–615 مفقود أو فارغ |title= (معاونت)

کتابیات

مآخذ

  • ابن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ص1991۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت: دارصادر-داربیروت، 1965۔
  • ابن‌اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، 1991۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفٰی عبد القادر عطا، ج3و5، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1992۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد بن صامل السلمی، طائف: مکتبۃ الصدیق، 1993؛ الطبقات الکبری، ج1، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1990۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4 و 3، قم: علامہ، 1379ق۔
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج8، بیروت: دارالفکر، 1986۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، ج1، تبریز: مکتبۃ بنی ہاشمی، 1381ق۔
  • ازدی، ابومخنف، مقتل الحسینؑ، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم: مطبعۃ العلمیہ، بی‌تا۔
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • بغدادی، صفی الدین عبد المؤمن، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع، ج1، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت: دارالمعرفہ، 1954۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج5، تحقیق احسان عباس، بیروت: جمیعۃ المتشرقین الامانیہ، 1979؛ انساب الاشراف، ج3 و 1، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت: دارالتعارف، چاپ اول، 1977۔
  • جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، 1391۔
  • حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، قم: مدرسہ امام مہدی (عج)، 1406۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسینؑ، ج1، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم: مکتبۃ المفید، بی‌تا۔
  • دینوری، ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج1، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، 1990۔
  • دینوری، احمد بن داوود، الاخبارالطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم: منشورات رضی، 1368ش۔
  • سماوی، محمد، ابصارالعین فی انصار الحسینؑ، تحقیق: محمد جعفرالطبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورۃ الاسلامیہ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف، جہان، تہران، 1348ش۔
  • شیخ طوسی، شیخ محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، بیروت، دارالصعب ـ دارالتعارف، 1401ق۔
  • صدوق، الأمالی، قم: تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیۃ - مؤسسۃ البعثۃ – 1417۔
  • شیخ مفید، الارشاد، قم: کنگرہ شیخ مفید، 1413۔
  • طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، تہران: اسلامیہ، 1390ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج2و5، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: دارالتراث، 1967۔
  • طریحی، فخر الدین، مجمع‌البحرین، تہران، مرتضوی، چاپ سوم، 1375ش۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، ج1، قم: رضی، بی‌تا۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج1، قم: ہجرت، 1409۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم: دارالہجرہ، 1409۔
  • ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران: سروش، 1379ش۔
  • موسوی مقرم، عبد الرزاق، مقتل الحسینؑ، بیروت: دارالکتاب الاسلامیہ۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقیق و تصحیح: گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، بیروت، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، 1408ق۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج2، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا۔
  • کلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، ‌ دار صادر -‌دار بیروت، 1385ق۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفٰی عبد القادر عطا، بیروت، ‌ دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1412ق۔
  • ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیرالأحزان، قم، مدرسہ امام مہدی، چاپ سوم، 1406ق۔
  • ابومخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمدہادی یوسفی غروی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامي، چاپ سوم، 1417ق۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، لہوف علی قتلی الطفوف، ترجمہ فہری زنجانی، تہران، انتشارات جہان، چاپ اول، 1348ش۔
  • شامی، یوسف بن حاتم، الدرالنظیم فی مناقب الأئمۃ اللہامیم، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1420ق۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ق۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ترجمہ سیدہاشم رسولی محلاتی، تہران، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ سوم، 1390ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، ‌دارالتراث، چاپ دوم، 1387ق۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ق۔
  • یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع اندیشہ اسلامی، 1417ق۔
  • شیخ مفید، الارشاد، ترجمہ محمد باقر ساعدی، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1380ش۔
  • خوارزمی، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، قم، نشر انوار الہدی، الاولی، 1418ق۔
  • سید بن طاووس، اللہوف، ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، دفتر نشر نوید اسلام، پنجم، 1378ش۔
  • ابن اَبّار، محمد بن عبد اللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، تحقیق عزالدین عمر موسی، چاپ اول: بیروت، دارالغرب الاسلامی، 1407ہجری قمری۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء الکتب العربیہ، 1378 ہجری قمری۔
  • ابن اعثم، أبو محمد أحمد، الکوفی الکندی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1411 ہجری قمری۔
  • ابن جوزی، ابوالفرج عبد الرحمن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1412ہجری قمری۔
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری۔
  • ابن حجر عسقلانی، تبصیر المنتبہ، قاہرہ، دارالقومیۃ العربیہ۔
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، چاپ اول: بیروت، دارالفکر، 1404 ہجری قمری۔
  • ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبد العزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ 10، 1408 ہجری قمری۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق یوسف بقاعی، بیروت، افست دارالاضواء، 1421ہجری قمری۔
  • ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تہران، مؤسسۃ الاعلمی، [بی تا]۔
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، چاپ اول: بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1409 ہجری قمری۔
  • ابن عبد ربہ، العقد الفرید، مطبعۃ اللجنۃ التألیف و الترجمۃ و النشر، 1365 ہجری قمری۔
  • ابن عبد البرّ قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415 ہجری قمری۔
  • ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، تحقیق محمد باقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1414 ہجری قمری۔
  • ابن عنبہ، سید جمال الدین احمد بن علی حسنی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، تصحیح محمد حسن آل طالقانی، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1380ہجری قمری۔
  • ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1410ہجری قمری۔
  • ابن کثیر دمشقی، ابوالفداء اسماعیل، البدایۃ و النہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ہجری قمری۔
  • ابن نما حلی، مثیرالأحزان، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1369 ہجری قمری۔
  • ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، تحقیق فارس تبریزیان حسون، [بی جا ]، محقق، 1375ہجری شمسی۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دارالکتاب، 1385 ہجری قمری۔
  • ابوحنیفہ دینوری، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قاہرہ، داراحیاء الکتب العربیہ، 1960 عیسوی۔
  • اربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، بیروت، دارالأضواء، 1405 ہجری قمری۔
  • ازدی غامدی کوفی، ابومخنف لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمد ہادی یوسفی غروی، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری۔
  • باعونی، محمد بن احمد، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب، تحقیق محمدباقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1415 ہجری قمری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417 ہجری قمری۔
  • بلخی، ابوزید احمد بن سہل، البدء والتاریخ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری قمری۔
  • تستری، شیخ محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی۔
  • تمیمی بستی، محمد بن حبّان بن احمد، الثقات، چاپ اول: [بی جا]، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1393 ہجری قمری۔
  • تمیمی مغربی، ابوحنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، [بی تا]۔
  • جرجانی شجری، یحیی بن حسین بن اسماعیل، الامالی الخمیسیہ، بیروت، عالم الکتب۔
  • جعفریان، رسول، تأملی در نہضت عاشورا، چاپ دوم: قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
  • حسینی موسوی، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، تحقیق فارس حسّون، چاپ اول: قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1418ہجری قمری۔
  • حلی، رضی الدین علی بن یوسف مطہر، العدد القویہ، تحقیق سید مہدی رجایی، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ * المرعشی النجفی، 1408ہجری قمری۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد طاہر سماوی، قم، دارانوار الہدی، 1418 ہجری قمری۔
  • خواند میر، غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، تہران، انتشارات کتابخانہ خیام، 1333.
  • دولابی، محمد بن احمد، الذریۃ الطاہرہ، تحقیق سعد مبارک حسن، کویت، دارالسلفیہ، 1407 ہجری قمری۔
  • ذہبی، سیر اعلام النبلا، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1413ہجری قمری۔
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمُری، چاپ دوم: بیروت، دارالکتاب العربی، 1418ہجری قمری۔
  • زرگری نژاد، غلامحسین، نہضت امام حسین و قیام کربلا، چاپ اول: تہران، سمت، 1383ہجری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ، تحقیق حسین تقی زادہ، چاپ اول: [بی جا]، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لأہل البیت، 1426 ہجری قمری۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، قدّم لہ سید صادق بحرالعلوم، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، [بی تا]۔
  • سپہر، محمدتقی، ناسخ التواریخ، چاپ سوم: تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1368ہجری شمسی۔
  • سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمد باقر انصاری زنجانی، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا]۔
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین، تحقیق محمد جعفر سماوی، قم، مرکز الدراسات الاسلامیۃ لحرس * الثورہ، 1377 ہجری شمسی۔
  • سید ابن طاؤس، الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنہ، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، [بی جا]، مکتب الاعلام الاسلامی، 1416 ہجری قمری۔
  • سید ابن طاؤس، الملہوف علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس حسّون، چاپ چہارم: تہران، دارالاسوہ، 1383 ہجری شمسی۔
  • شافعی، محمد بن طلحہ، کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین، تحقیق محمد ہادی امینی، تہران دار احیاء تراث اہل البیت، 1404 ہجری قمری۔
  • شافعی، محمد بن طلحہ، مطالب السؤول فی مناقب الرسول، تحقیق ماجد بن احمد العطیہ، بیروت، مؤسسۃ‌ام القری، 1420 ہجری قمری۔
  • شمس الدین، محمد مہدی، انصار الحسین، چاپ دوم:[بی جا]، الدار الاسلامیہ، 1401 ہجری قمری۔
  • شیخ صدوق، الأمالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1417 ہجری قمری۔
  • شیخ صدوق، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، منشورات جماعۃ المدرسین، 1362 ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، تحقیق شیخ حسین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1404 ہجری قمری۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1405ہجری قمری۔
  • شیخ طوسی، الامالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، دارالثقافہ، 1414 ہجری قمری۔
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1415 ہجری قمری۔
  • شیخ کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363 ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، دارالمفید، 1413 ہجری قمری۔
  • شیخ مفید، مسارّ الشیعہ، (چاپ شدہ در جلد 7 مؤلفات شیخ مفید)، تحقیق مہدی نجف، چاپ دوم: بیروت، دارالمفید، 1414ہجری قمری۔
  • صفدی، صلاح الدین خلیل بن أیبک، الوافی بالوفیات، بیروت، المعہد المانی۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبد المجید سلفی، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بی تا]۔
  • طبرسی، ابومنصور احمدبن علی بن ابی طالب، الاحتجاج، سید محمّد باقر خرسان، نجف، دارالنعمان، 1386 ہجری قمری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ہجری قمری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1406ہجری قمری۔
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1409 ہجری قمری۔
  • طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، تہران، مکتبۃ المصطفوی، [بی تا]۔
  • طبری، عماد الدین، بشارۃ المصطفٰی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420 ہجری قمری۔
  • طبری، محب الدین احمد بن عبد اللہ، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1356ہجری قمری۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1413 ہجری قمری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، چاپ اول: بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، 1411 ہجری قمری۔
  • عاملی، سید محسن امین، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1406 ہجری قمری۔
  • عصفری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دارالفکر، 1414ہجری قمری۔
  • عمری، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409 ہجری قمری۔
  • خلیل بن احمد الفراہیدی، ترتیب کتاب العین، تحقیق مہدی المخزومی، ابراہیم سامرائی؛ تصحیح اسعد الطبیب، ناشر: سازمان اوقاف و امور خیریہ، انتشارات اسوہ، چاپ اول، قم، 1414ہجری قمری۔
  • قزوینی، زکریا محمد بن محمود، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، چاپ شدہ در حاشیہ کتاب حیاۃ الحیوان دمیری، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا]۔
  • کاشفی، ملاحسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، 1381 ہجری شمسی۔
  • کفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، قم، منشورات الشریف الرضی و زاہدی۔
  • کوفی اسدی، فضیل بن زبیر بن عمر بن درہم، «تسمیۃ من قتل مع الحسین»، تحقیق سید محمد رضا حسینی جلالی، فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، 1406ہجری قمری۔
  • مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، تہران، انتشارات جہان، [بی تا]۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، چاپ دوم: بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ہجری قمری۔
  • مجلسی، محمدباقر، جلا العیون، چاپ اول: تہران، رشیدی، 1362 ہجری شمسی۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، فرسان الہیجاء، چاپ دوم: تہران، مرکز نشر کتاب، 1390ہجری قمری۔
  • مُحَلّی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیہ فی مناقب ائمۃ الزیدیہ، تحقیق مرتضی بن زید محطوری حسنی، چاپ اول: صنعاء، مکتبۃ بدر، 1423ہجری قمری۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انتشارات انصاریان، 1417 ہجری قمری۔
  • مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق سعید محمد لحّام، بیروت، دارالفکر، 1421 ہجری قمری۔
  • مسکویہ رازی، ابوعلی، تجارب الامم وتعاقب الہمم، تحقیق ابو القاسم امامی، چاپ اول: تہران، سروش، 1366 ہجری شمسی۔
  • مشہدی، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419 ہجری قمری۔
  • معلوف، لوئیس، المنجد فی الاعلام، چاپ دوازدہم: بیروت، افست دارالمشرق، [بی تا]۔
  • مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، تحقیق آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383 ہجری قمری۔
  • موسوی خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، چاپ پنجم: [بی جا، بی‌نا ]، 1413 ہجری قمری۔
  • میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، تصحیح جمشید کیان فر، چاپ اول: تہران، اساطیر، 1380ہجری شمسی۔
  • نویری، شہاب الدین احمد بن عبدالوہّاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، مکتبۃ العربیہ، 1395 ہجری قمری۔
  • نیشابوری، محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، تحقیق سید محمد مہدی خرسان، قم، منشورات الشریف الرضی، [بی تا]۔
  • ہادی بن ابراہیم وزیر، نہایۃ التنویہ فی ازہاق التمویہ، تحقیق احمد بن درہم ابن عبد اللہ حوریہ و ابراہیم بن مجد الدین بن محمد مؤیدی، چاپ اول: یمن، منشورات مرکز اہل البیت للدراسات الاسلامیہ، 1421 ہجری قمری۔
  • ہیتمی، احمد بن حجر، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، تعلیق عبد الوہاب عبد اللطیف، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ القاہرہ، 1385ہجری قمری۔
  • یوسفی غروی، محمدہادی، وقعۃ الطف، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری۔
  • ابن ابی الحدید، عزالدین عبد الحمید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، چاپ 2، قم، منشورات کتابخانہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، 1404ق۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ‌ بیروت، دار التراث العربی، 1405ق۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دراالاضواء، 1411ق۔
  • ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبد العزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ 10، 1408ق۔
  • ابن شداد، محمد بن علی، الاعلاق الخطیرہ فی ذکر امرا الجزیرہ، دمشق، بی‌نا، 2006م۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی مازندرانی، مناقب آل أبی‌طالب علیہم السلام، علامہ، قم، 1379ق۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الملہوف فی معرفۃ علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس تبریزیان، قم، دارالاسوہ، 1417ق۔
  • ابن طیفور، ابوالفضل بن ابی‌طاہر، بلاغات النساء، قم، مکتبہ الحیدریہ، 1378ش۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن بن ہبہ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق علی عاشور، ‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1421ق۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن بن ہبہ اللہ، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، تحقیق علی شیری، دارالفکر، 1415ق۔
  • ابن نما، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، قم، مدرسہ امام المہدی(عج)، 1406ق۔
  • ابو ریحان بیرونی، محمد بن احمد، آثار الباقیہ، مترجم دانا سرشت، اکبر، تہران، امیر کبیر، 1386ش۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دارالکتاب، 1385ق۔
  • ابومخنف، لوط بن يحيى، وقعۃ الطف، قم، نشر جامعہ مدرسين، چاپ: سوم، 1417ق۔
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار وریاض زرلکی، بیروت، دارالفکر، 1417ق۔
  • بیضون، لبیب، موسوعۃ كربلا، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بی‌تا۔
  • تمیمی مغربی، ابوحنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی تا۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد مکی، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، نجف، مطبعۃ الزہراء، 1367ق۔
  • دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عصام محمد الحاج علی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1421ق۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «افشاگری امام سجاد در قیام کربلا (2)»، در مجلہ نور علم، شمارہ 46، مرداد و شہریور 1371ش۔
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی علی ابن الحسینؑ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ سیزدہم، 1385ش۔
  • صدوق، عیون اخبارالرضا، تصحیح حسین اعلمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1404ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1417ق۔
  • صفار قمی، محمد بن حسن، بصائرالدرجات، تصحیح محسن کوچہ باغی، قم، کتابخانہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، 1404ق۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق ابراہیم بہادری و محمدہادی‌بہ، چ2، قم، اسوہ، 1416ق۔
  • طبری، عمادالدین حسن بن علی، کامل بہایی، قم، موسسہ طبع و نشر، 1334ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، 1387ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعۃ، چاپ اول، 1411ق۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، تہران، مطبوعاتی حسینی، 1372ش۔
  • محدث نوری، لؤلؤ و مرجان، تحقیق: داریتی، مصطفٰی، قم، کنگرہ دین پژوہان کشور، 1420ق۔
  • محل حضور اسرای کربلا در مسجد اموی، در خبرگزاری بین المللی قرآن، تاریخ درج مطلب : 24 اردیبہشت 1393، تاریخ بازدید 24 مرداد 1397۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین ع بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، مترجم:مسعودی، عبد الہادی، قم، ناشر:موسسہ دار الحديث، 1388ش۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، تحقیق موسسہ آل البیت، قم، الموتمر العالمی الالفیہ الشیخ المفید، 1413ق۔
  • مفید، محمد بن محمد، امالی، تحقیق حسین استادولی و علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1403ق۔
  • مفید، محمد بن محمد، مسار الشیعہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ق۔
  • مہاجر، جعفر، کاروان غم، سید حسین مرعشی، تہران، انتشارات مسافر، 1390ش۔
  • نادعلیان، احمد و مہران ہوشیار، «نقش‌ہای عاشورایی»، در مجلہ رہپویہ ہنر، شمارہ 5، بہار 1387ش۔
  • ہروی، علی بن ابی‌بکر، الاشارات الی معرفہ الزیارات، دمشق، بہ کوشش جانین سوردیل، 1953م۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، ‌ بیروت، دار صادر، بی‌تا۔

حوالہ جات

سانچے

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.