جنگ جمل
36ھ میں عراق میں جنگ From Wikipedia, the free encyclopedia
36ھ میں عراق میں جنگ From Wikipedia, the free encyclopedia
جنگ جمل یا جنگ بصرہ 13 جمادی الاولیٰ 36ھ (7 نومبر 656ء) کو بصرہ، عراق میں لڑی گئی۔ جنگ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی و داماد اور چوتھے خلیفہ راشد علی اور زوجہ رسول عائشہ، طلحہ اور زبیر کے درمیان میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں علی کے مخالفین چاہتے تھے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں جو حال ہی میں بغاوت کے نتیجے میں مخالفین کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے تھے۔ ناگزیر جنگ کا اختتام علی کی فتح اور عائشہ کی شکست کے ساتھ ہوا، یوں پہلے فتنہ کا دوسرا باب شروع ہوا۔
جنگ جمل | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ پہلا فتنہ | |||||||
علی و عائشہ رض جمل کی جنگ میں | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
عائشہ کی افواج اور بنو امیہ | |||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
علی بن ابی طالب حسن بن علی حسین بن علی مالک اشتر عمار بن یاسر محمد بن ابی بکر عبد الرحمن بن ابی بکر مسلم بن عقیل حارث بن ربیع جابر بن عبد اللہ محمد بن حنفیہ ابو ایوب انصاری ابو قتادہ انصاری قیس بن سعد قثم بن عباس عبداللہ بن عباس خزیمہ بن ثابت جندب ازدی |
عائشہ بنت ابی بکر طلحہ بن عبید اللہ ⚔ محمد بن طلحہ ⚔ زبیر بن عوام ⚔ کعب بن سور ⚔ عبد اللہ بن زبیر مروان بن حکم (جنگی قیدی) ولید بن عقبہ (جنگی قیدی) عبد اللہ بن صفوان | ||||||
طاقت | |||||||
~20,000[6] | ~30,000[6] | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
>400-500[7] ~5,000[8][9] |
>2,500[7] ~13,000[8][9] |
عثمان بن عفان کے قتل کے بعد اہل مدینہ نے علی کی نئے خلیفۃ المسلمین کے طور پر بیعت کرلی۔ لیکن بیعت کے بعد طلحہ بن عبید اللہ اور زبیر بن عوام نے علی سے حج کرنے کی اجازت مانگی۔ اہل مدینہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر علی کا موقف جاننا چاہتے، اس لیے وہ معاویہ بن ابی سفیان کے متعلق ان کا موقف پوچھا اور ان کے انکار پر وہ علی کی بیعت پر آمادہ ہو گئے۔ اس لیے ان لوگوں نے زیاد بن حنظلہ کو بھیجا جو خلافت علی کو قائم کرنا چاہتا تھا کیونکہ عثمان شہید ہو چکے تھے اور وہ لوگ "قاتلین عثمان" کے طالب تھے۔ تاہم وہ لوگ بصرہ گئے جہاں جرم سرزد ہوا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ، طلحہ اور زبیر نے مکہ سے عراق کا سفر کیا تاکہ علی سے قاتلین عثمان کی گرفتاری اور معاویہ سے جنگ نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔[10][11]
حضرت عثمان ایک شریف ترین اور صالح ترین خلیفہ تھے۔ مروان بن الحکم جیسا بد طینت آدمی، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا کو حضرت عثمان واپس لے آئے اور داماد بنا لیا۔
وہ قصر خلافت میں ہی رہتا تھا اور حضرت عثمان کے دستخطوں اور مہر سے قبائلی عصبیت کے بے شمار کام کرتا تھا۔
اس نے مملکت کا نظام اتنا خراب کر دیا تھا کہ لوگ گورنروں کی معزولی کے لیے احتجاج کرنے لگے۔
مروان نے سنی ان سنی کر دی اور بزور تشدد تحریک کو دبانا چاہا۔ فتنہ پرور بھی موقع کی تلاش میں تھے۔ انھون نے حملہ کر دیا اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا۔
حضرت عثمان اسلام کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ کے دور میں یہودیوں نے "منافقت " کا راستہ بڑے پرعزم طریقے اور منصوبہ بندی سے اختیار کیا۔ طبری کی روایت ہے کہ 33-35 ہجری کے برسوں میں ایک یمنی یہودی عبداللہ بن سبا نے، جو ابن السودا کے نام سے مشہور تھا، اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ظاہری تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ نمازِ فجر کے لیے مسجد میں داخل ہونے والا وہ پہلا شخص ہوتا اور عشاء کے بعد مسجد سے رخصت ہونے والا بھی وہ آخری شخص ہوتا۔ ہر وقت نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتا۔ اکثر روزہ رکھتا اور ورد و وظائف کا تو شمار ہی نہ تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ علی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت قریبی رشتہ دار ہیں اگر ان کے نام پر عثمان کے خلاف کام کیا جائے تو بڑا کامیاب ہوگا۔ عرب میں عبد ﷲ بن سبا اپنا کام نہ کرسکا کیونکہ یہاں صحابہ کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اس لیے اس نے عراق کے علاقے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا تھا لیکن یہاں پر اب بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایرانی بادشاہ کی محبت اور مسلمانوں کے خلا ف نفرت تھی۔ وہاں جاکر عبد اﷲ بن سبا نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ یہ کیا بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار یعنی علی تو یوں ہی بیٹھے رہیں اور اِدھراُدھر کے لوگ خلیفہ بن جائیں۔ ابھی وقت ہے کہ عثمان کو ہٹا کر علی کو خلیفہ بنادو۔ لیکن چونکہ بصرہ عراق میں صحابہ کی بہت ہی تھوڑی تعداد تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے کوئی عبد ﷲ بن سبا کی باتوں کا جواب نہ دے سکتا اگر وہ ہوتے تو کچھ جواب دیتے لوگ آہستہ آہستہ اس کی باتوں سے متاثر ہوکر عثمان کے خلاف ہوتے گئے۔ جب بصرہ کے گورنر عبد ﷲ بن عامر کو عبد ﷲ بن سبا کی منافقت کی خبر ملی تو اس کو بصرہ سے نکال دیا اور یہ پھر کوفہ پہنچ گیا۔ وہاں سے بھی نکلوادیا گیا پھر یہ شام پہنچا لیکن وہاں معاویہ گورنر تھے جنھوں نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔ عبد ﷲ بن سبا کو چونکہ تمام اسلام دشمن لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے وہ اس کام کو چلانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ عبد ﷲ بن سبا شام سے نکالے جانے کے بعد مصر پہنچا اور وہاں کام شروع کیا اور ایک اچھی خاصی جماعت بنالی جو عثمان کے خلاف ہو گئے۔ عبد اللہ بن سباحجاز، بصرہ، کوفہ، شام، مصر میں لوگوں کو اپنے بناوٹی تقویٰ سے متاثر کر چکا تھا وہ خصوصاً ان لوگوں کی ٹوہ میں رہتاجنہوں نے موقع پرستی کے لیے اسلام کا لیبل اپنے اوپر لگا لیا تھا لیکن دراصل وہ اس کی جڑیں کاٹنے کے درپے تھے۔ جب اس نے ایسے بہت سے افراد جمع کرلیے تو اپنا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جو سادہ مگر دور رس اثرات کا حامل تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی وہ اس کے اشارے کے منتظر رہیں۔ اس نے ایک خط تیار کیا جو ہر علاقے میں اس کے معتمدینِ خاص کو دوسرے علاقوں کے معتمدینِ خاص کی طرف سے پہنچایا گیا۔ اس میں لکھا تھا "پیارے بھائی۔ آپ خوش قسمت ہیں آپ کے علاقے میں اسلام زندہ ہے۔ گورنر دیانت دار ہے، انتظامیہ منصف مزاج ہے جبکہ میرے علاقے میں اسلام مردہ ہو چکا ہے۔ کوئی شخص اس پر عمل پیرا نہیں۔ گورنر شرابی اور عورتوں کا رسیا ہے۔ انتظامیہ بدعنوان ہے۔ بہتری کا کوئی امکان نہیں۔" اس طرح کے خطوط مسلسل مدینہ سے ہر شہر میں آئے اور اس کے معتمدین نے نمازوں کے بعد مساجد میں پڑھ کر سنائے اور اسی طرح ہر شہر سے ایسے ہی خطوط مدینہ آئے۔ پہلے پہل تو لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی لیکن جب اس طرح کے خطوط مسلسل آنے لگے تو عوام میں ناراضی پھیلنے لگی۔ بعض نے یہ اطلاعات خلیفہ(حضرت عثمانؓ) تک بھی پہنچائیں۔ اپنے معمول کے مطابق انھوں نے فوراً کارروائی کی اور لوگوں سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئیے۔ فیصلہ ہوا کہ مدینہ سے با اعتماد اور غیر جانبدار لوگوں کو ان علاقوں کے دورے پر بھیجا جائے جہاں کے بارے میں شکایت کی گئی ہے کہ وہ اسلام سے دور ہو گئے ہیں اوریہ لوگ خود مشاہدہ کرکے الزامات کی تحقیقات کریں۔ بظاہر یہ لوگ گروپوں کی شکل میں نہیں گئے بلکہ ہر ایک اپنے لیے مقرر علاقے کی طرف گیا۔ طبری کے مطابق تمام نمائندے اپنے مقررہ وقت پر دار الحکومت پہنچ گئے اور یہی خبر لائے کہ نامعلوم افراد کی طرف سے عاید کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور حالات بہت اچھے اور معمول کے مطابق ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے صوبوں میں اس قسم کا کوئی انتظام نہ کیا گیا جہاں لوگ حضرت عثمانؓ کے خلاف پھیلائی جانے والی بے بنیاد کہانیوں پر مسلسل یقین کرتے رہے۔ صرف مصر جانے والے عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ واپس نہ آئے اور مصر ہی میں ٹھہر گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد گورنر مصر نے خلیفہ کو رپورٹ بھجوائی کہ یہاں کچھ لوگوں نے عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو چکر دے کر ساتھ ملا لیا ہے اور ان کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں جن میں عبد اللہ بن السودا بھی شامل ہے۔ خلیفہ نے رواداری کا مظاہرہ کیا۔ طبری نے لکھا ہے کہ "شوال 35 ہجری میں ابن سبا نے مصر سے مدینہ کا سفر اختیار کیا۔ اس کے 600 کے لگ بھگ فدائی اس کے ساتھ تھے۔ اپنے آپ کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا رکھنے لیے انھوں نے اعلان کیا کہ وہ حج کے لیے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی بصرہ اورکوفہ سے بھی سبائی مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ یہ سب یہودی النسل نہیں تھے۔ ان میں بعض مخلص مسلمان بھی تھے جو اپنی سادگی کے باعث ان کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ سبائی پراپیگنڈہ کام دکھا رہا تھا اور ان سب کا مطالبہ یہ تھاکہ خلیفہ کو معزول کیا جائے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے لیکن ان میں یہ اتفاق رائے نہیں ہو رہا تھا کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کرکے کسے ان کی جگہ لایا جائے۔ مصریوں کا مطالبہ تھاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ بصرہ کے سبائی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں تھے جبکہ کوفی حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بن عوام کے حامی تھے۔ عامۃ المسلمین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے زمین بڑی احتیاط سے ہموار کی گئی۔ جو خطوط مدینہ سے بھجوائے گئے ان پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کیے گئے تھے۔ جن میں مصریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ مدینہ آئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت کی گدی سے اتارنے میں ان کی مدد کریں [12]۔ دوسرے خطوط پر بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دستخط تھے جن میں صوبوں کے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا تھا۔[13] جبکہ بعض خطوط پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کیے گئے۔[14] جب شام اور فلسطین کے گورنر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مشکوک افراد کے قافلوں کی مختلف مقامات سے مدینہ روانگی کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے خلیفہ کو مطلع کرتے ہوئے استدعا کی کہ انھیں اپنے کچھ قابل اعتماد فوجی دستے دار الحکومت بھجوانے کی اجازت دے دیں مگر خلیفہ نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ جب مصر، بصرہ اور کوفہ سے آنے والے باغی مدینہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنے اپنے "محبوب" لیڈروں علی رضی اللہ تعالی عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ انھوں نے امہات المومنین کے پاس بھی حاضری دی۔ ان سب اصحاب نے آنے والوں (یعنی باغیوں) سے یہی سوال کیا کہ وہ اچانک ان پر کس طرح اتنے مہربان ہو گئے ہیں؟ انھوں نے خلافت کی پیشکشیں بھی ٹھکرا دیں اور انھیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا۔ ادھر سے مایوس ہونے کے بعد مصری باغی خلیفہ کے پاس چلے گئے اور گورنر کے خلاف شکایت پیش کی۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ آپ لوگ اس کی جگہ کس کو گورنر لانا چاہتے ہیں؟ باغیوں نے جواب دیا "ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے محمد کو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فوری طور پر باغیوں کا مطالبہ تسلیم کیا اور نئے گورنر کی تقرری کا خط لکھ کر محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ فوراً مصر پہنچیں۔ باغیوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ ان کا یہ مطالبہ اتنی آسانی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔ اب ان کے لیے مصر واپسی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہ گیا تھا۔ پھر اس بدنام کہانی کا آغاز ہوا کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے خفیہ طور پر ایک ایلچی مصر بھیجا جس میں گورنر کو مبینہ طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ نئے نامزد گورنر محمد بن ابی بکر جونہی مصر پہنچے انھیں قتل کر دیا جائے۔[15] مصری دستہ نے مطمئن ہوکر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ نامزد گورنر محمد بن ابی بکر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک تیز رفتار اونٹ سوار ان کے پاس سے گذر کر آگے گیا۔ اس کا رخ مصر کی جانب تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ وہی اونٹ واپس مدینہ کی طرف جاتا نظر آیا۔ اور ایک بار پھر دیکھا گیا کہ وہی اونٹ سوار دوبارہ مصر کی جانب عازمِ سفر ہے۔ مگر کسی نے اس سے تعرض نہ کیا پھر اچانک اس نے قافلہ والوں پر دشنام طرازی شروع کردی۔ انھوں نے پوچھا "تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟" اس نے بڑے متکبرانہ انداز میں جواب دیا "میں خلیفہ کا قاصد ہوں اور گورنر مصر کے لیے ان کا خط لے کر جا رہا ہوں۔" اور خط بھی انھیں دکھا دیا۔ متجسس ہوکر محمد بن ابی بکر نے وہ خط کھول لیا اور پڑھا جس میں مبینہ طور پر گورنر مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جونہی نامزد گورنر محمد بن ابی بکر اپنا تقرر نامہ لے کر آپ کے پاس پہنچیں انھیں قتل کر دیا جائے اور ان کے ساتھیوں کو دیگر سزائیں دی جائیں۔ یہ خط بھی ابن سبا کی ایک اور جعل سازی تھی۔ سازشیوں کی توقع کے عین مطابق خط پڑھ کر محمد بن ابی بکر برافروختہ ہو گئے۔ انھوں نے فی الفور مدینہ واپسی کا سفر اختیار کیا اور دار الحکومت پہنچ کر طوفان کھڑا کر دیا اور اگرچہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم اٹھا کر انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ خط انھوں نے نہیں لکھا مگر محمد بن ابی بکر نہ مانے۔ مصری باغی پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور مطالبہ کیا کہ خلیفہ کے قتل کے لیے ان کا ساتھ دیں جنھوں نے بلاوجہ ہمارے قتل کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا" آپ ہمیں کس طرح انکار کرسکتے ہیں؟ آپ ہی نے تو خط لکھ کر ہمیں بلوایا ہے۔" انھوں نے کہا "خدا کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا خط نہیں لکھا۔" باغی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا "تم مصر کے راستے سے عثمانؓ کے ایک جعلی خط کا بہانہ بنا کر واپس آ گئے ہو مگر بصرہ اور کوفہ جانے والے دستے جو اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو چکے تھے وہ بھی تمھارے ساتھ ہی مدینہ واپس پہنچ چکے ہیں۔ انھیں کیسے معلوم ہوا کہ تم لوگوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ یقیناً یہ سازش کا شاخسانہ ہے" [12]۔ حج کا زمانہ قریب آ رہا تھا۔ خلیفہ نے مدینہ گریژن کے فوجی دستوں کو حج پر جانے کی اجازت دے دی اور مدینہ امن و امان قائم رکھنے والی فوج سے خالی ہو گیا۔ باغیوں نے خلیفہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا اور انھیں مسجدِ نبوی میں نمازیوں کی امامت سے روک دیا۔ غفیقی نامی ایک یمنی نے، جو ابن سبا کا نائب تھا، خلیفہ کی جگہ نمازوں کی امامت شروع کردی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابن سبا کی طرح وہ بھی یہودی تھا کیونکہ شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اس نے اس قرآن کو پاؤں سے ٹھوکر ماری جسے شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پڑھ رہے تھے اور یہ الٹ کر خلیفہ کے گھٹنوں پر گر پڑا۔ باغیوں نے خلیفہ کی رہائش گاہ کا گیٹ جلادیا تاہم وہ اندر نہ جاسکے۔ اس پر حملہ آور محمد(بن ابو بکرؓ) کے ہمراہ پیچھے کی گلی سے ہوکر مکان کی عقبی دیوار پر چڑھ گئے اور اندر کود کر قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے خلیفہ کو شہید کرڈالا۔ ان کی اہلیہ شوہر کو بچانے کی کوشش میں شدید زخمی ہوگئیں۔ ان کے ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹ گئیں۔ باغیوں نے گھر میں لوٹ مار بھی کی۔ حملہ سے قبل محمد بن ابی بکرنے معمر خلیفہ کی داڑھی پکڑلی۔ جب خلیفہ نے انھیں شرم دلائی کہ "اگر آپ کے والد(ابوبکرؓ ) یہاں ہوتے اور آپ کو اس حالت میں دیکھتے۔۔۔" تو انھوں نے داڑھی چھوڑ دی اور واپس چلے گئے تاہم دوسروں نے اپنا کام مکمل کر دیا۔
شہادت عثمان کے بعد باغی اب چاہتے تھے کہ اپنے جرم کا کوئی جواز پیدا کر لیں تاکہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بچ سکیں۔ پہلے وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور انھیں خلافت کی پیش کش کی مگر انھوں نے انھیں جھڑک کر واپس بھیج دیا۔ جس کے بعد وہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے لیکن انھوں نے بھی انھیں منہ نہ لگایا۔ پھر انھوں نے ایک اور حربہ اختیار کیاکہ مدینہ کی گلیوں میں اعلان کرنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہو کہ وہ خلافت سنبھال لیں ورنہ ہم تمھارا قتلِ عام شروع کر دیں گے۔ اس کے نتائج خاطر خواہ نکلے۔ لوگ روتے پیٹتے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور استدعا کی کہ انھیں ہتھے سے اکھڑے ہوئے باغیوں کی دستبرد سے بچائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کی آہ و فغاں سے متاثر ہوئے مگر کہا کہ خلافت عوام الناس کا معاملہ ہے۔ میں نہ تو آپ کے کہنے پر اور نہ باغیوں کے کہنے پر اسے سنبھال سکتا ہوں۔ یہ بات تو درست ہے کہ خلیفہ کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے لوگوں کی رائے لینا ہوگی۔ اس لیے میں کل نمازِ فجر کے بعد لوگوں سے اس بارے میں پوچھوں گا۔ اگلے روز نماز کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ نے منبر پر کھڑے ہوکر اور بے گناہ خلیفہ کے بہیمانہ قتل پر دلی دکھ اور صدمے کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ شاید سب سے پہلے چیخنے والے سبائی ایجنٹ ہی ہوں جنھوں نے کہا " صرف آپ ہی اس کے مستحق ہیں، کیونکہ آپ سب سے اچھے مسلمان ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کہنے والے سچے مسلمان ہی ہوں تاہم اس موقع پر کوئی اور نام سامنے نہ آیا اور لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کرنا شروع کردی۔ باغیوں نے دیکھا کہ بعض ممتاز اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم اس موقع پر خاموش رہے اور انھوں نے کسی قسم کی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان میں زید رضی اللہ تعالی عنہ بن ثابت، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ، زبیر رضی اللہ تعالی عنہ، اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ اور صہیب رضی اللہ تعالی عنہ شامل تھے۔ باغیوں کو سب سے زیادہ خدشہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے تھا۔ اس لیے وہ ان دونوں کو بہ نوکِ شمشیر مسجد میں لائے اور دھمکی دی کہ اگر انھوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت نہ کی تو وہ انھیں قتل کر دیں گے۔ جب باغیوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ لا تعلق اور مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو انھوں نے سوچا کہ ان سے بعد میں بیعت لے لیں گے۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے جبر اور دباؤ کے تحت بیعت کی۔
عام لوگوں کو توقع تھی کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ خلافت کا آغاز ہی قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی گرفتاری سے کریں گے مگر دن اور ہفتے گزرنے لگے اور ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ مدینہ کا کنٹرول عملی طور پر باغیوں کے ہاتھ میں تھا اور علی رضی اللہ تعالی عنہ باغیوں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی کرنے کے قابل نہ تھے۔ اب مدینہ سے ایک اور خط پورے عالمِ اسلام میں پھیلایا گیا جس میں کہا گیا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ بننے کے لیے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کرایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو اس الزام پر یقین آنے لگا۔ یہ فطری بات تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ اور بچوں کو ہر شخص سے زیادہ دلچسپی تھی کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف نظامِ انصاف کو حرکت میں لایا جائے۔ اس لیے، شاید مدینہ سے مایوس ہوکر، آپ کی اہلیہ نے اپنی کٹی ہوئی انگلیاں اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا خون آلود کرتا جو بوقتِ شہادت زیبِ تن کیے ہوئے تھے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شام بھجوادیا جو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان پر زور دیا کہ قتلِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقام لیا جائے۔ غالباً سبائیوں نے بھی شام سے خطوط علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھجوائے جن میں انھیں بھڑکایا گیا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی خلافت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور راہِ اسلام سے بھی ہٹ گئے ہیں۔ اس قسم کے خطوط جب ایک تسلسل اور منصوبہ بندی کے ساتھ آئیں تو اپنا اثر ضرور دکھاتے ہیں۔ اس موقع پر اپنے مخلص دوستوں کے مشوروں کو نظر انداز کرکے علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ انھوں نے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت صوبائی گورنروں کو شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے سانحہ کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ وہ خلافت کا منصب سنبھال چکے ہیں اب وہ نہ صرف خود نئے خلیفہ کی بیعت کریں بلکہ اپنے اپنے صوبوں میں بھی خلیفہ کے لیے بیعت لیں۔ انھوں نے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام خط میں انھیں گورنر کے منصب سے معزول کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ چارج نئے گورنر کے حوالے کر دیں۔ سبائیوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی لیکن وہ آسانی سے ان کے چکر میں آنے والے نہ تھے۔ انھوں نے علیؓ کے خط کا جواب نہایت نرمی سے دیا اور کہا کہ جب قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو گرفتار کرکے سزا دے دی جائے گی وہ بیعت کر لیں گے۔
اسی اثناء میں سبائیوں کی طرف سے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسری ازواجِ مطہراات کو خط بھجوائے گئے جن میں الزام لگایا گیا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سزا دینے سے انکاری ہیں اور امہات المومنین ہونے کی حیثیت سے آپ کا یہ حق اور فرض ہے کہ آپ اپنے "بچے" عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں کے سروں کا مطالبہ کریں۔ بصرہ سے آنے والے خطوط میں یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر امہات المومنینؓ بصرہ آئیں وہ تو وہ انھیں ہر ممکن مدد کے لیے حاضر پائیں گی۔ کچھ عرصہ بعد طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ جانے کے لیے مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ ان کی منزل بصرہ تھی۔ مورخوں کا کہنا ہے کہ ان کی روانگی سے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر انھوں نے بصرہ کے خزانے پر قبضہ کر لیا اور وہاں کی فوج ان سے مل گئی تو وہ حکومت کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے بھی عراق جانے کا قصد کر لیا۔ ادھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا پر ان کے بھائی ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل زور دے رہے تھے کہ وہ سیاست میں سرگرم حصہ لیں۔ اسی اثناء میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی اپنے کچھ قریبی عزیزوں کے ہمراہ عراق تشریف لے گئیں۔ بصرہ کے نزدیک ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کے گرد جمع ہوجانے والوں اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج میں تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ سبائیوں کی خطوط مہم سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لے چکی تھیں۔ بعض مخلص اور غیر جانبدار مسلمانوں نے مصالحت کی کوششیں شروع کر دیں اور جلد ہی یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ تھی کہ نہ تو علی رضی اللہ تعالی عنہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سزا دینے کے خلاف تھے اور نہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے کوئی ذاتی عزائم تھے۔ امن معاہدہ ہو گیا اور دونوں طرف کے لوگ پہلی بار سکون کی نیند سو گئے۔ بظاہر ابن سبا کے کھیل کی بساط الٹ چکی تھی۔ مگر وہ حوصلہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ رات کے آخری پہر اس کے کچھ آدمی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ میں داخل ہو گئے اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج پر حملہ کر دیا۔ قدرتی طور پر علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کیمپ میں یہی سمجھا گیا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دھوکا سے حملہ کر دیا ہے۔ تاہم جلد ہی ان کے فوجیوں نے صورت حال پر قابو پا لیا۔ ادھر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ کو گمان ہوا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس ساری صورت حال میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتہائی جرأت مندی سے صورت حال کا مقابلہ کیا اور آخر تک اپنی اونٹنی پر سوار رہیں۔ جمل کا مطلب اونٹ ہے اور اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں۔ لڑائی کے دوران میں علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور عملاً وہ مخالف فوج کی حراست میں آگئیں۔ ان کے آدمی موقع سے فرار ہو گئے۔ حضرت علی نے ان پر غلبہ پانے کے بعد اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ وہ بلبلا کر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد جب صورت حال واضح ہوئی تو بہت دیر ہو گئی تھی۔ اس موقع پر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے حریف معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف مدد کی پیشکش کی تاہم علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انتہائی احترام سے ان کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ واپس مدینہ تشریف لے چلیں اوران کی شایانِ شان واپسی کے انتظامات بھی کر دیے۔ یہ لڑائی کوفہ کے باہر خریبہ کے مقام پر ہوئی تھی۔ انہی دنوں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ایک خط مشتہر ہو گیا جس میں انھوں نے لوگوں کو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت پر بھڑکایا تھا۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد جب یہ خط ان کے علم میں آیا تو انھوں نے کہا: " قسم اس ذات کی جس پر ایمان لانے والے یقین رکھتے ہیں اور فتنہ گر انکار کرتے ہیں، میں نے اس جگہ بیٹھنے تک کبھی ان لوگوں کو کچھ نہیں لکھا[16])۔ طبری کی روایت یہ ہے کہ انھوں نے کہا "اگر آپ کو(ناجائز) کوڑا بھی مارا جائے تو میں اس کی حمایت نہیں کرسکتی۔ کیا میں اس ناجائز تلوار کی حمایت کرسکتی ہوں جس سے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا۔ آپ لوگوں نے ان پر الزام لگائے لیکن جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ پاک صاف چینی کی طرح پاکیزہ ہیں اور ان کا کردار دھلے ہوئے کپڑے کی طرح بے داغ ہے تو تم لوگوں نے انھیں قتل کر دیا۔ مسروق کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا "ام المومنین! یہ آپ ہی تھیں جنھوں نے لوگوں کو خط لکھ کر ان کے خلاف کھڑا کیا تو انھوں نے فرمایا "میں قسم کھاتی ہوں اس ذات کی جس پر ایمان لانے والے یقین رکھتے ہیں اور فتنہ گر انکار کرتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو کبھی کچھ نہیں لکھا۔ الاعمش مزید روایت کرتا ہے کہ " اس طرح لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے نام سے جعلی خطوط لکھے گئے"۔
اوپر والی تحریر میری نہیں۔یہاں سے میری بات شروع ہے حافظ ابو الفداء ابن کثیر م 774 لکھتے ہیں کہ روایت کیا اس کو حافظ ابن عساکر نے حافظ ابو زرعہ رازی کے حوالہ سے کہ حافظ ابو زرعہ رازی کو ایک شخص نے کہا میں بغض نفرت رکھتا ہوں حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان م 60 سے تو آپ نے فرمایا ولم کیوں اس کی وجہ تو اس نے کہا اس کی وجہ یہ کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب م 40 سے جنگ کی تھی تو آپ نے فرمایا ویحک تیرا ناس ہو حضرت معاویہ کا رب رب رحیم ہے اور ان کا فریق شریف فریق ہے فایش ان دونوں کے درمیان تیرے جیسوں کا کیا کام اللہ تعالیٰ ان دونوں سے راضی ہو۔
البداية والنهاية ج 8 ص 130 مطبوعہ مكتبة المعارف بيروت سن 1992.
خادم الحدیث نوید بن مقبول۔
جنگِ جمل میں کامیابی سے اگرچہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قد و قامت میں اضافہ ہوا مگر شام سمیت کئی بڑے صوبے ابھی تک ان کے کنٹرول سے آزاد تھے۔ اس اثناء میں معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ خط کتابت جاری رہی۔ یہ تمام خط کتابت اہلِ تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں محفوظ ہے جسے اہلِ سنت بھی وقیع گردانتے ہیں۔ جنگ جمل مسلمانوں کے درمیان میں لڑی جانے والی پہلی جنگ ہے جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کے شعلے مزید بھڑکے اور حضرت امیر معاویہ نے قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا۔ اور شام میں مخالت کی۔ جس کی سرکوبی کے لیے جنگ صفین لڑی گئی۔ یوں مسلمانوں کی عظیم ریاست چند باغیوں کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اور اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔
حضرت علی کی فوج میں ایک تعداد باغیوں اور قاتلان عثمان کی تھی اس لیے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں۔ ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علی کے الفاظ پڑھیے جو ـ"نہج البلاغہ "میں نقل ہوئے ہیں۔ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45) "میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے بھاگے"(صفحہ 69) "اپنے اصحاب کی سرزنش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہوں گے۔ خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119) "خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دے دے۔(صفحہ 189) اس طرح کے اقوال سے جو علی سے منسوب نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں، کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ علی بھی اپنی فوج کے باغیوں سے تنگ تھے اور ان کا مکر و فریب اور ان کی بغاوت کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔ مورخوں نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جنگِ جمل سے قبل یا فوراً بعد کچھ مخلص مسلمانوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت کی کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ان کی فوج میں آزادی سے پھر رہے ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ اس پر علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آدمیوں سے پوچھا کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کون ہیں؟ کم و بیش 12 ہزار آدمی اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چلاچلا کر کہنے لگے "میں ہوں۔ میں ہوں۔"[17] یہاں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ قاتلان عثمان کی گرفتاری کے لیے اپنی نیک دلی کے باوجود علی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو ایک حکمران کو حاصل ہونی چاہئیے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.