عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم (کنیت: ابو حفص) خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انھیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
عمر بن عبد العزیز | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: عمر بن عبد العزيز) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 2 نومبر 681ء مدینہ منورہ [1][2] | ||||||
وفات | 5 فروری 720ء (39 سال) دیر سمعان (حلب) | ||||||
وجہ وفات | زہر | ||||||
مدفن | مقبرہ عمر بن عبد العزیز | ||||||
زوجہ | فاطمہ بنت عبد الملک | ||||||
اولاد | عبدالملک ابن عمر ابن عبدالعزیز ، عبد اللہ بن عمر بن عبد العزیز ، عبد العزیز بن عمر | ||||||
والد | عبد العزیز بن مروان | ||||||
والدہ | لیلہ بنت عاصم | ||||||
خاندان | خلافت امویہ | ||||||
مناصب | |||||||
گورنر مدینہ | |||||||
برسر عہدہ 706 – 712 | |||||||
| |||||||
خلیفہ سلطنت امویہ (8 ) | |||||||
برسر عہدہ 24 ستمبر 717 – 5 فروری 720 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
استاد | صالح بن کیسان | ||||||
نمایاں شاگرد | توبہ عنبری | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، گورنر ، خلیفہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی [3] | ||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
آپ نے 61ھ میں مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ نام عمر بن عبد العزیز بن مروان اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن عمر بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں گویا حضرت عمر فاروق کی پوتی ہوئیں اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا۔ 61ھ/681ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ وہ ایک نفیس طبع خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے۔ عہد شباب میں اچھے سے اچھا لباس پہنتے۔ دن میں کئی پوشاک تبدیل کرتے، خوشبو کو بے حد پسند کرتے، جس راہ سے گذر جاتے فضا مہک جاتی۔ ان ظاہری علامات کو دیکھ کر اس امر کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی تھی جو خلیفہ بننے کے بعد ظاہر ہوئے لیکن چونکہ طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کی طرف راغب تھی اس لیے یہ ظاہری اسباب و نشاط ان کو قطعاً متاثر نہ کر سکے۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔ پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔
آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ مشہور عالم اور محدث صالح بن کیسان کو آپ کا اتالیق مقرر کیا۔ اس دور کے دیگر اہل علم مثلاً حضرت انس بن مالک، سائب بن یزید اور یوسف بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابعین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شخصیت ان تمام برائیوں سے پاک تھی جن میں بیشتر بنوامیہ کے حکمران مبتلا تھے۔ نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عمر نماز میں شریک نہ ہو سکے استاد نے پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میں اس وقت بالوں کو کنگھی کر رہا تھا استاد کو یہ جواب پسند نہ آیا اور فوراً والد والیٔ مصر سے شکایت لکھ دی وہاں سے ایک خاص آدمی انھیں سزا دینے کے لیے مدینہ آیا اور ان کے بال منڈا دیے اور ان کے بعد ان سے بات چیت کی۔
آپ طبعاً صالح اور نیک تھے اس کی نشان دہی ان کے استاد صالح بن کیسان، عبد العزیز کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان الفاظ میں کر چکے تھے۔
” | مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو | “ |
یہی وجہ تھی کہ خلافت سے پہلے جب کئی دیگر اعلیٰ عہدوں پر آپ کو فائز کیا گیا تو انھوں نے اپنی اس نیک نفسی اور خدا خوفی کی روش کو قائم رکھا۔ عبد الملک نے ہمیشہ ان کو دیگر اموی شہزادوں سے زیادہ پیار و محبت اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے بھائی عبد العزیز کی وفات کے بعد عبد الملک نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کی شادی عمر سے کر دی اس وجہ سے بنو امیہ میں عمر کے وقار میں مزید اضافہ ہوا۔
عمر کے والد
عمر کے والد عبد العزیز مروان کے چھوٹے لڑکے تھے،مروان نے عبد الملک کے بعد انھیں ولی عہد نامزد کیا تھا، لیکن وہ عبد الملک کی زندگی ہی میں وفات پاگئے۔ [4] عبد العزیز اپنے خاندانی اوصاف وکمالات کے پورے حاصل تھے اوراپنے والد کی مہمات میں ان کے دست راست رہے، عبد اللہ بن زبیرؓ کی وفات کے بعد مروان نے جب مصر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج کشی کی توعبدالعزیز کو ایلہ پر متعین کیا۔ [5] مصر پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد مروان دو مہینہ یہاں مقیم رہا، دو مہینہ کے بعد عبد العزیز کو یہاں کا گورنر بنا کر شام واپس ہوا۔ [6] مروان کے بعد عبد الملک نے بھی عبد العزیز کو مصر کی حکومت پر برقرار رکھا، اورانہوں نے یہاں کامل اکیس سال حکومت کرنے کے بعد 86 میں انتقال کیا تاریخ اسلام میں اتنی طویل مدت کم کسی والی کو نصیب ہوئی ہوگی۔ عبد العزیز نے مصر اورحلوان میں اپنی حکومت کی بہت سے یاد گاریں چھوڑیں ایک زرنگار محل تعمیر کرایا، حلوان میں متعدد محلات اورمسجدیں بنوائیں،مصر کی جامع مسجد منہدم کرا کے اس کو از سر نو تعمیر کرایا،خلیج مصر پر پل بنوائے، انگورا اورخرمے کے باغات لگوائے۔ [7] علما اورارباب کمال کا بڑا قدر دان تھا، قاضی عبد الرحمن بن حجیرہ خولانی کا ایک ہزار اشرفی سالانہ وظیفہ مقرر کیا[8]شعرا کے ساتھ اتنی داد ودہش کرتا تھا کہ بعض شعرا نے اس کے بعد شاعری چھوڑدی،کثیر سے کسی نے پوچھا،اب شعرکیوں نہیں کہتے ،جواب دیا، عبد العزیز کے بعد صلہ کی توقع کس سے کی جائے۔
خناضرہ کی حکومت
عمر بن عبد العزیز درحقیقت مسند درس کے لیے زیادہ موزوں تھے لیکن شاہی خاندان کی رکنیت نے ان کو ایوان حکومت میں پہنچادیا؛چنانچہ سب سے اول وہ خناضرہ کے والی مقرر ہوئے۔
گورنر مدینہ
بنو امیہ |
خلفائے بنو امیہ |
---|
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680 |
یزید بن معاویہ، 680-683 |
معاویہ بن یزید، 683-684 |
مروان بن حکم، 684-685 |
عبدالملک بن مروان، 685-705 |
ولید بن عبدالملک، 705-715 |
سلیمان بن عبدالملک، 715-717 |
عمر بن عبدالعزیز، 717-720 |
یزید بن عبدالملک، 720-724 |
ہشام بن عبدالملک، 724-743 |
ولید بن یزید، 743-744 |
یزید بن ولید، 744 |
ابراہیم بن ولید، 744 |
مروان بن محمد، 744-750 |
707ء میں ولید بن عبد الملک کے کہنے پر آپ نے مدینہ کی گورنری اس شرط پر قبول کی کہ وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح لوگوں پر ظلم اور زیادتی نہ کریں گے۔ ولید نے بھی اس شرط کو قبول کیا اور کہا کہ آپ حق پر عمل کیجیے گو ہم کو ایک درہم بھی وصول نہ ہو۔ جب مدینہ پہنچے تو اکابر فقہا کو جمع کرکے کہا کہ:
” | میں نے آپ لوگوں کو ایک ایسے کام کے لیے طلب کیا ہے جس پر آپ لوگوں کو ثواب ملے گا اور آپ آپ حامی حق دار قرار پائیں گے۔ میں آپ لوگوں کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا پس آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ لوگوں میں سے کسی کو میرے عامل کے ظلم کا حال معلوم ہو تو میں خدا کی قسم دلا کر کہتا ہوں کہ وہ مجھے تک اس معاملہ کو ضرور پہنچائے | “ |
تمام اخلاقی خوبیوں کے باوجود طبیعت ابھی تک شاہانہ وقار اور اطوار سے برقرار رکھے ہوئے تھی۔ چنانچہ جب مدینہ آئے تو آپ کا ذاتی سامان 30 اونٹوں پر لد کر آیا۔ 707ء سے 713ء تک مدینہ کے گورنر رہے اس دوران آپ نے عدل و انصاف سے حکومت کی اور اہل حجاز کے دل جیت لیے۔ مسجد نبوی کی تعمیر آپ کے زمانہ گورنری کا شاندار کارنامہ ہے۔ 713ء میں ولید نے انھیں مدینہ کی گورنری سے علیحدا کر دیا۔ سلیمان آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا چنانچہ اس نے وفات سے پہلے آپ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا۔
علمائے مدینہ سے مشورہ
لیکن فطرت سلیم تھی، اس لیے مدینہ پہنچنے کے بعد یہاں کے دس بڑے فضلاء کو بلا کر ان کے سامنے ایک مختصر تقریر کی کہ میں نے آپ کو ایک ایسے کام کے لیے بلایا ہے جس میں آپ کو ثواب ملے گا اورآپ حامی حق قرار پائیں گے،میں آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتا، اس لیے جب آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ کو میرے کسی عامل کے ظلم کی اطلاع ہو تو آپ خدا کی قسم مجھ کو ضرور اس کی خبر کیجئے،یہ تقریر سننے کے بعد فقہا ان کو دعائے خیر دیتے ہوئے واپس گئے۔ [9]
تعمیر مسجد نبوی
مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں عمر بن عبد العزیز نے یہاں بہت سی اصلاحیں اور مفید کام کیے،ان میں ان کا ناقابل فراموش کارنامہ مسجد نبوی کی تعمیر اوراس کی تزئین وآرائش ہے۔ ولید کے پیشر وخلفاء نے وقتاً فوقتاً مسجد نبوی میں ترمیمیں کرائی تھیں لیکن ولید نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کو نہایت عظیم الشان پیمانہ پر تعمیر کرانے کا ارادہ کیا اور 88 ھ میں عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ مسجد نئے سرے سے تعمیر کی جائے، اس سے متصل ازواج مطہرات کے حجرے اوردوسرے جو مکانات ہیں ان کا معاوضہ دے کر ان کو مسجد میں شامل کر لیا جائے جو لوگ قیمت لینے سے انکار کریں ،ان کے مکانات زبردستی گرادیے جائیں اوران کی قیمت فقیروں کو خیرات کردی جائے۔ [10] قیصر روم کو خط لکھ کر بہت سے رومی کاریگر ،مزدور،میناکاری اور پچہ کاری کا سامان کئی ہزار مثقال سونا منگایا[11]اور مختلف مقامات سے مختلف قسم کے تعمیر سامان جمع کیے اورفقہائے مدینہ کی موجودگی میں مسجد کی پرانی عمارت گروا کر ان بزرگوں کے متبرک ہاتھوں سے عمارت کی بنیاد ڈالی۔ [12] عمر بن عبد العزیز کو اس عمارت سے ذاتی دلچسپی تھی،اس لیے بڑے انہماک اورحسنِ مذاقِ سے اس کو تعمیر کرایا، ساری عمارت نفیس پتھروں کی تھی ، دیواریں اورچھتیں منقش مطلا اورمیناکارتھیں، جھاڑ کے ایک نقش پر کاریگروں کو 30 درہم انعام دیتے تھے۔ [13] اس اہتمام سے تین سال میں عمارت بن کر تیار ہوئی 91ھ میں ولید نے مدینہ جاکر اس کا معائنہ کیا اور عمر بن عبد العزیز کی کارگزاری پر خوشنودی ظاہر کی۔
اطراف مدینہ کی مساجد کی تعمیر
مسجد نبوی کے علاوہ اپنے عہد گورنری میں اطراف مدینہ میں اوربہت سی مسجدیں بنوائیں ،آنحضرت ﷺ نے اطرافِ مدینہ میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی تھیں مسلمانوں نے یاد گار کے طور پر وہاں معمولی مسجدیں بنالی تھیں، عمر بن عبد العزیز نے اس قسم کی تمام مسجدوں کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔ [14]
کنوؤں اورراستوں کی تعمیر
رفاہِ عام کے سلسلہ میں ولید کے حکم سے مدینہ میں بہت سے کنویں کھدوائے اور دشوار گزار پہاڑی راستے درست کرائے۔
معزولی
اگرچہ عمر بن عبد العزیز نے تقرر کے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ وہ گذشتہ والیوں کی طرح ظلم نہ کریں گے،لیکن بنی امیہ کا نظام کچھ ایسا تھا کہ یہ شرط قائم نہیں رہ سکتی تھی اس لیے ایک روایت یہ ہے کہ حجاج کی شکایت پر وہ معزول کر دیے گئے (طبری ) دوسرا بیان ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ کے صاحبزادے خبیب کو جو بنی امیہ کے مخالفین میں تھے،ولید کے حکم سے مجبور ہوکر سزادی جس کے صدمہ سے وہ مرگئے ،اس کی ندامت میں خود مستعفی ہو گئے۔ [15]
بارِ خلافت
718ء میں وابق کے مقام پر ( جو فوج کی اجتماع گاہ تھی ) سلیمان بن عبد الملک بیمار ہوا جب زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اپنے وزیر رجاء بن حیوہ کو بلا کر اپنے جانشین کے بارے میں رائے لی۔ سلیمان نے رجاء کے مشورہ کے مطابق عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبد الملک کو علی الترتیب اپنا جانشین مقرر کرکے ایک وصیت نامہ لکھا اور مہر بند کرکے کعب بن جابر افسر پولیس کے حوالہ کیا کہ وہ اس وصیت نامہ پر بنو امیہ سے بیعت لے چنانچہ سلیمان کی زندگی ہی میں رجاء بن حیوۃ نے اس پر بیعت لی لیکن چونکہ سلیمان کو بنو امیہ کی طرف سے خطرہ لاحق تھا س لیے مرنے پہلے رجاء کو دوبارہ بیعت کی تاکید کی۔ اس دوران خیلفہ کی موت واقع ہو گئی رجاء کو خدشہ تکھا کہ بنو امیہ آسانی سے عمر بن عبد العزیز کی خلافت قبول نہ کریں گے اس لیے کچھ دیر کے لیے سلیمان کی موت کو چھپائے رکھا تاکہ آنکہ وابق کی جامع مسجد میں افراد بنو امیہ کو جمع کرکے دوبارہ بیعت لے لی اس کے بعد وصیت نامہ کھول کر پڑھا گیا۔ جب اعلان خلافت ہو رہا تھا تو اس وقت ’’انا اللہ ‘‘ کی دو آوازیں بیک وقت سنی گئیں۔ ایک ہشام کے منہ سے جسے حکومت کھو جانے کا غم تھا، دوسرے عمر بن عبد العزیز جنہیں حکومت مل جانے کا افسوس تھا۔ ہشام نے بیعت سے انکار کیا تو رجاء نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا اٹھو بیعت کرو وگرنہ تمھارا سر قلم کر دوں گا۔ یہ کہہ کر عمر بن عبد العزیز کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کر دیا۔
اس کے بعد عمر بن عبد العزیز اس عظیم ذمہ داری کے اٹھانے سے لرزاں تھے۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا آپ خود اس کے خواہش مند نہ تھے۔ ان کے نزدیک خلافت موروثی نہیں بلکہ ایک جمہوری ادارہ تھی لہذا سلیمان کے دفن کرنے کے بعد مسجد میں آئے، منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” | لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے خود اسے اتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ بنا لو | “ |
یہ تقریر سن کر سب نے بلند آواز سے کہا ہم نے آپ کو اپنے لیے پسند کیا اور آپ سے راضی ہو گئے اس کے بعد آپ نے خدا اور اس کے رسول کے احکامات کے منشا کے بیان کرنے کے لیے لوگوں سے کہا:
” | اے لوگو! جس نے خدا کی اطاعت کی ،اس کی اطاعت انسان پر واجب ہے جس نے خدا کی نافرمانی کی، اس کی نافرمانی لوگوں پر ضروری نہیں۔میں اگر اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت ضروری جانو اور اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو | “ |
لوگوں نے ایک بار پھر آپ کی تائید کی اور اس طرح بیعت عامہ حاصل کرنے کے بعد آپ نے خلیفہ اسلام کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جب آپ عوام کے سامنے آئے تو لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ عمر نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
” | اے لوگو! اگر تم ہمارے اعزاز میں کھڑے ہو گئے تو ہم بھی کھڑے ہو جایا کریں گے۔ اگر تم بیٹھو گے تو ہم بیٹھیں گے۔ لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالٰیٰ نے کچھ باتیں انسانوں پر فرض کیں اور کچھ سنن قرار دیں۔ جنہوں نے ان کی پابندی کی وہ کامیاب ہوئے اور جس نے ان کا لحاظ نہ رکھا وہ تباہ ہوا | “ |
اس کے بعد فرمایا:
” | تم میں سے جو کوئی میرے پاس آئے وہ ان باتوں کا خیال رکھے
مجھ تک ایسی حاجت پہنچائے جس کا مجھے علم نہ ہو۔ مجھے ایسے عدل و انصاف کی طرف توجہ دلائے جو مجھ سے نہ ہو سکا ہو۔ سچائی میں میرا ساتھ دے۔ مسلمانوں کی امانت کا نگہبان اور محافظ ہو۔ میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے |
“ |
خلفائے راشدین کا پہلا اسوہ
تختِ خلافت پر قد م رکھتے ہی عمر بن عبد العزیز بالکل بدل گئے اوراب ناز پرور دہ عمر نے ابو زر غفاریؓ اورابوہریرہؓ کا قالب اختیار کر لیا، سلیمان کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول عمر بن عبد العزیز کے سامنے شاہی سواریاں پیش کی گئیں، انھوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟عرض کیا گیا شاہی سواریاں، فرمایا،میرے لیے میرا خچر کافی ہے اورکل سواریاں واپس کر دیں۔ [16] ابھی سلیمان کے اہل و عیال قصرِ خلافت میں تھے، اس لیے اپنے خیمہ میں فروکش ہوئے،گھر آئے تو اس بار عظیم کی ذمہ داری سے چہرہ پریشان تھا،لونڈی نے پوچھا آپ شاید کچھ متفکر ہیں،فرمایا اس سے بڑھ کر تشویش کی بات کیا ہوگی کہ مشرق ومغرب میں امتِ محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ اوراطلاع کے اس کا اداکرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔ [17]
خلافت سے دستبرداری کا اعلان اورمسلمانوں کا اصرار
حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلافت کی ذمہ داریوں کے بار گراں کا پورا احساس تھا،اگر نامزدگی کے وقت ان کو اس کا علم ہو گیا ہوتا تو وہ اسی وقت اپنا نام واپس لے لیتے، لیکن اب یہ بار پڑچکا تھا،تاہم انھوں نے ایک مرتبہ اس سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی اورلوگوں کو جمع کر کے تقرر کی۔ لوگو: میری خواہش اورعام مسلمانوں کی رائے لیے ہوئے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کیا گیا ہے، اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے میں خود اس کو اتار ے دیتا ہوں، تم جس کو چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔ یہ خطبہ سن کر مجمع سے شور اٹھا ہم نے آپ کو خلیفہ منتخب کیا ہے اورآپ کی خلافت سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کردیجئے۔
پہلا خطبہ
جب اس کا یقین ہو گیا کہ آپ کی خلافت سے کسی کو اختلاف نہیں ہے تو آپ نے ایک تقریر کی جس میں لوگوں کو تقویٰ ،فکرِ آخرت اورذکر موت کی طرف توجہ دلائی آخر میں بآواز بلند فرمایا: لوگو:جو شخص خدا کی اطاعت کرے اس کی اطاعت فرض ہے اور جو شخص خدا کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت واجب نہیں،جب تک میں خدا کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں۔ [18] طبقات ابن سعد میں یہ الفاظ ہیں،اما بعد تمھارے نبی کے بعد دوسرا نبی اوراس پر جو کتاب نازل ہوئی ہے ،اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نہیں ہے، خدا نے جو چیز حلال کردی وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اورجو حرام کردی وہ قیامت تک کے لیے حرام رہے گی، میں (اپنی جانب سے ) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں ؛بلکہ صرف (احکام الہی کو) نافذ کرنے والا ہوں، میں خود کوئی بات شروع کرنے والا نہیں ہوں صرف پیرو ہوں،کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے میں تمھاری جماعت کا بہتر آدمی بھی نہیں ہوں ؛بلکہ ایک معمولی فرد ہوں، البتہ خدانے مجھ کو تم سے زیادہ گراں بار کر دیا ہے۔ [19]
عبد العزیز بن عبد الملک کی بیعت
یہاں دمشق میں یہ سب کچھ ہو چکا تھا،لیکن عبد العزیز بن عبد الملک کو جو کہیں باہر تھا ان واقعات کی خبر نہیں ہوئی تھی،ا س لیے سلیمان کی موت کی خبر سن کر اس نے اپنے ہمراہیوں سے اپنی بیعت لے لی اوردمشق کے ارادہ سے بڑھا ،راستہ میں اسے سلیمان کی وصیت اورعمر بن عبد العزیز کی بیعت کا حال معلوم ہوا،یہ سن کر وہ سیدھا ان کے پاس پہنچا، ان کو اس کے بیعت لینے کی خبر ہو چکی تھی،انھوں نے اس سے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی بیعت لے کردمشق میں داخل ہونا چاہتے تھے،عبد العزیز نے کہا مجھے اس کا علم نہ تھا کہ سلیمان نے آپ کو خلیفہ نامزد کر دیا ہے، اس لیے مجھے خوف تھا کہ لوگ خزانہ نہ لوٹ لیں، عمر بن عبد العزیزؓ نے فرمایا،اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کرلیتے اورتم بار خلافت کو سنبھال لیتے تو میں تم سے جھگڑا نہ کرتا اور اپنے گھر میں بیٹھ جاتا، عبد العزیز نے کہا آپ کے ہوتے ہوئے میں دوسرے کا خلیفہ ہونا پسند ہی نہیں کرتا اورآپ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ [20]
احساس فرض اور طرز زندگی میں تبدیلی
خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، جن لباس فاخرا تھا اب سراپا عجز و نیاز تھے۔ سلیمان کی تجہیز و تکفین کے بعد پلٹے تو سواری کے لیے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کیے گئے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ’’میرے لیے میر خچر کافی ہے‘‘ اور انھیں واپس بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور کہا کہ ’’ میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘ پھر جب سلیمان کے اثاثہ کو ورثا میں تقسیم کرنے کی تجویز کی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ واپسی کے وقت دستور کے مطابق خیال تھا کہ وہ قصر خلافت میں ضرور داخل ہوں گے لیکن عمر اس کی بجائے یہ کہہ کر کہ ’’ میرے لیے میرا خیمہ کافی ہے‘‘ اندر داخل ہو گئے۔ آپ کی ملازمہ نے چہرہ بشرہ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ پریشان ہیں۔ پوچھا تو کہا:
” | یہ تشویشناک ناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع اس کے ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو | “ |
اس کے بعد مسجد جاکر وہ خطبہ دیا جس کا ذکر اس سے بیشتر کیا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے باغِ فدک اھلِ بیت کوان کا حق سمجھ کر واپس کر دیا جس پر اس سے قبل اختلاف تھا۔ اگرچہ فدک اگلے خلیفہ نے بعد میں دوبارہ ان سے واپس لے لیا گیا۔
ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ہمیشہ چہرے پر پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے۔ اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زروجواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ اس پاکیزہ زندگی اور کا رہائے نمایاں کی بدولت ہی پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔ آپ نے اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ ان کی ضبط کی ہوئی جائیدایں ان کو واپس کر دی گئیں۔ حضرت علی پر جمع خطبہ کے دوران لعن طعن کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کر دیا۔ احیائے شریعت کے لیے کام کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا۔ اس میں سے تحفے تحائف اور انعامات دینے کا طریقہ موقوف کر دیا۔ ذمیوں سے حسن سلوک کی روایت اختیار کی۔ اس کے علاوہ معاشی اور سیاسی نظام میں اور بھی اصلاحات کیں۔
اقدامات
آپ نے بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد منادی کروادی کہ لوگ اپنے مال و جائداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کر دیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیالیا گیا ہے۔
یہ کام بہت خطرناک اور نازک تھا، خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی۔ بعض افراد نے آکر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کردی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
آپ نے اعلان عام کروایا کہ اموی خلفاء نے جس کے مال، جاگیر یا جائداد پر ناجائز قبضہ جمالیا ہے وہ ان کے حقداروں کو واپس کی جا رہی ہیں۔ اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں اور آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو نکال کر پڑھتے جاتے تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیز اسے پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی اور اہل خاندان کی ایک ایک جاگیر ان کے حقداروں کو واپس کردی اور اس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا۔
خلیفہ بننے سے قبل حضرت عمر بن عبد العزیز کی نفاست پسندی کا یہ حال تھا کہ نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کرتے تھے اور تھوڑی دیر میں اسے اتار کر دوسرا قیمتی لباس پہنتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے سب سے خوش لباس اور جامہ زیب شخص مانے جاتے تھے لیکن عہدۂ خلافت سنبھالتے ہی ان کی زندگی میں بڑا تغیر آگیا۔ انھوں نے گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروادیا، خاندان کے تمام وظائف بند کر دیے اور اپنی تمام سواریاں فروخت کرکے رقم بیت المال میں داخل کروادی۔ انھوں نے خلفاء کے ساتھ نقیبوں اور علمبرداروں کے چلنے کا سلسلہ بھی بند کروادیا۔
مسلمانوں کے دونوں اہم فرقے اہل سنت اور اہل تشیع آپ کی بے حد عزت کرتے ہیں۔۔
خلافت راشدہ کا احیاء
ان مراحل سے فراغت کے بعد امورِ خلافت کی طرف متوجہ ہوئے،خلافت کے باب میں عمر بن عبد العزیز کا نقطۂ نظر گذشتہ خلفاء سے بالکل مختلف تھا، ان کے پیش نظر نظامِ خلافت میں عظیم الشان انقلاب برپاکرنا تھا وہ سلطنت کی ظاہری ترقیوں یعنی فتوحات محاصل اور عمارتوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے تھے ؛بلکہ اموی حکومت کو خلافتِ راشدہ میں بدل دینا چاہتے تھے، یہ اقدام ایسا اہم اور خطرناک تھا، جس میں ہر طرف سے مخالفتوں کے طوفان کا مقابلہ تھا؛لیکن عمر بن عبد العزیز نے تمام خطرات سے بے پروا ہوکر نہایت جرأت سے انقلاب شروع کر دیا۔
غصب کردہ مال وجائداد کی واپسی
اسی سلسلہ میں سب سے اہم اورنازک کام رعایا کی املاک کی واپسی تھی،جس کو شاہی خاندان نے اپنی جاگیر بنالیا تھا،اس میں سارے خاندان کی مخالفت کا مقابلہ کرنا تھا ،لیکن عمر بن عبد العزیز نے سب پہلے یہی کار خیر کیا اور سب سے اول اپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کیا،جس وقت آپ نے اس کا ارادہ ظاہر فرمایا، اس وقت بعض ہوا خواہوں نے دبی زبان سے عرض کیا کہ اگر آپ جاگیر یں واپس کر دیں گے تو اپنی اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے فرمایا ان کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اس عزم راسخ کے بعد خاندان والوں کو جمع کرکے فرمایا: بنی مروان تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے،میرا خیال ہے کہ امتِ مسلمہ کا نصف یا دوتہائی مال تمھارے قبضہ میں ہے یہ لوگ یہ اشارہ سمجھ گئے اورجواب میں کہا: خدا کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہوں گے اس وقت تک یہ نہیں ہو سکتا،خدا کی قسم نہ ہم اپنے اباواجداد کو کافر بناسکتے ہیں (عمر بن عبد العزیز اپنے اسلاف کے افعال کو حرام کہتے تھے) اورنہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے،عمر بن عبد العزیز نے فرمایا خدا کی قسم اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر ڈالوں گا تم لوگ میرے پاس سے چلے جاؤ۔ [21]
اس کے بعد عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرکے تقریر کی: ان لوگوں (بنی امیہ)نے ہم کو عطایا اورجاگیریں دیں،خدا کی قسم نہ انھیں ان کو دینے کا حق تھا اورنہ ہمیں ان کے لینے کا ،اب میں ان سب میں ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اوراپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسناد شاہی کا خریطہ منگایا،مزاحم سب کو پڑھ پڑھ کر سناتے جاتے تھے اورعمرؓ بن عبد العزیز ان کو لے لے کر قینچی سے کاٹتے جاتے تھے،صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ [22] اس طرح اپنی اوراپنے پورے خاندان کی کل جاگیریں واپس کر دیں اوراپنے پاس ایک نگینہ تک باقی نہ رہنے دیا [23]ان کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبد الملک نے ایک قیمتی پتھر دیا تھا، عمر بن عبدؓ العزیز نے اپنی بیوی سے کہا،یا اس کو بیت المال میں داخل کر دیا، [24]سب سے اہم معاملہ فدک کا تھا،جومدتوں سے خلفاء اوراہل بیت کے درمیان متنازع فیہ چلا آتا تھا اوراب عمر بن عبد العزیزؒ کے قبضہ میں تھا اوراسی پر اُن کی اوراُن کے اہل و عیال کی معاش کا دارومدار تھا،اس کے متعلق انھوں نے رسول اللہ ﷺ اورخلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی تحقیقات کرکے آل مروان سے کہا فدک رسول اللہ ﷺ کا خاصہ تھا، جس کی آمدنی آپ اپنی اور بنی ہاشم کی ضروریات میں صرف فرماتے تھے،خود فاطمہؓ نے آپ سے اس کو مانگا تھا؛ لیکن آپ نے دینے سے انکار فرمایا،حضرت عمرؓ کے زمانہ تک اسی پر عمل ہوتا رہا ،آخر میں مروان نے اس کو اپنی جاگیر بنالیا اوراب وہ راثۃ میرے قبضہ میں ہے؛ لیکن جو چیز رسول اللہ ﷺ نے فاطمہؓ کو نہیں دی، اس پر میرا کوئی حق نہیں ہے، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو صورت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھی میں ا س کو اسی حالت پر لوٹاتا ہوں۔ [25] اپنی اوراپنے خاندان کی جاگیروں کو واپس کرنے کے بعد عام غصب شدہ مال کی طرف متوجہ ہوئے اورامیر معاویہ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ظالمانہ طریقوں سے جس قدر غصب کردہ مال وجائداد تھی ،سب ایک ایک کرکے واپس کرادی اور معاویہ اوریزید کے وارثوں سے لے کر ان کے اصلی مالکوں کے حوالہ کی۔ [26]
شام کے علاوہ سارے ممالکِ محروسہ کے عمال کے پاس غصب شدہ مال کی واپسی کے متعلق تاکیدی احکام بھیجے ،عراق میں اس کثرت سے مال واپس کیا گیا کہ صوبہ کی حکومت کا خزانہ خالی ہو گیا اور عمر بن عبد العزیز کو وہاں کے اخراجات کے لیے دمشق سے روپیہ بھیجنا پڑا۔ [27] مال کی واپسی کے لیے ہر طرح کی آسانیوں کا لحاظ رکھا گیا،ملکیت کے ثبوت کے لیے کوئی بڑی شہادت کی ضرورت نہ تھی، معمولی شہادت پر مل جاتا تھا۔[28]جو لوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو واپس کیا گیا [29] اوریہ سلسلہ عمر بن عبد العزیز کی وفات تک برابر قائم رہا۔ [30]
اہل خاندان کی برہمی
عمر بن عبد العزیز نے نہ صرف علاقے اورجاگیر یں چھین کر بنی امیہ کو تہی دست کر دیا؛بلکہ ان کے سارے امتیازات مٹاکر ان کی نخوت اورغرور کو خاک میں ملادیا، اس لیے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اورانہوں نے ان کو ہرطریقہ سے اس عادلانہ طریقے سے ہٹانے کی کوشش کی عمرو بن ولید نے نہایت غضب آلود خط لکھا کہ تم نے گذشتہ خلفاء پر عیب لگایا ہے،اُن کی اوران کی اولاد کی دشمنی میں ان کے خلاف روش اختیار کی ،تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث ظلم وجور سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا،عمر بن عبد العزیز خدا سے ڈرو اوراس کا خیال کرو کہ تم نے زیادتی کی ہے،تم ابھی منبر پر اچھی طرح بیٹھے بھی نہ تھے کہ اپنے خاندان والوں کو جوروظلم کا نشانہ بنادیا، اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص فرمایا، تم اس حکومت میں جس کو تم اپنے لیے آزمائش اورمصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دور ہو گئے ،اس لیے اپنی خواہشوں کو روکو اوراس کا یقین رکھو کہ تم ایک جبار کی نگاہ کے سامنے اوراس کے قبضہ میں ہو اوراس حالت میں چھوڑے نہیں جا سکتے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے بھی اس کا نہایت سخت جواب دیا۔ [31]
آلِ مروان نے ہشام کو اپنا وکیل بناکر ان کے پاس بھیجا ،اس نے ان کی جانب سے کہا کہ: آل مروان کہتے ہیں کہ ان امور میں جن کا تعلق آپ کی ذات سے ہے جو چاہے کیجئے لیکن گذشتہ خلفاء جو کچھ کر گئے ہیں،اس کو اسی حالت پر رہنے دیجئے،عمر بن عبد العزیزؓ نے اس کے جواب میں پوچھا اگر ایک ہی معاملہ کے متعلق تمھارے پاس دودوتاویزیں ہوں، ایک امیر معاویہؓ کی دوسری عبد الملک کی،تو تم کسے قبول کرو گے، ہشام نے کہا جو قدیم ہوگی،عمر بن عبد العزیزؓ نے کہا تو میں نے کتاب اللہ کو قدیم دستاویز پایا، اس لیے میں ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے،خواہ وہ میرے زمانہ کی ہو یا گذشتہ زمانہ سے متعلق ہو اسی کے مطابق عمل کروں گا،یہ سن کر سعید بن خالد نے کہا امیر المومنین جو چیز آپ کی ولایت میں ہے، اس میں آپ حق وانصاف کے ساتھ اپنی رائے سے فیصلہ کیجئے، لیکن گذشتہ خلفاء اوران کی بھلائیوں اوربرائیوں کو ان کے حال پر رہنے دیجئے، اس قدر آپ کے لیے کافی ہے،عمر بن عبد العزیز نے کہا میں خدا کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک شخص چھوٹے بڑے لڑکوں کو چھوڑ کر مرجائے،اس کے بعد بڑے لڑکے اپنی قوت سے چھوٹے لڑکوں کے مال پر قبضہ کرکے کھاجائیں اور وہ تمھارے پاس مددکے لیے آئیں تو تم کیا کرو گے، سعید نے کہا ان کے حقوق واپس دلاؤں گا، عمر بن عبد العزیزؓ نے کہا یہی تو میں بھی کررہا ہوں،مجھ سے پہلے خلفاء نے ان لوگوں کو اپنی قوت سے دبایا ان کے ماتحتوں نے بھی ان کی تقلید کی، اب جب میں خلیفہ ہوا تو یہ کمزور لوگ میرے پاس آئے، اس لیے میرے لیے اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ طاقتور سے کمزور کا اوراعلیٰ سے ادنی کا حق دلاؤں۔ [32]
ایک مرتبہ تمام آل مروان نے آپ کے دروازہ پر جمع ہوکر آپ کے صاحبزادے عبد الملک سے کہا کہیا ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دلواؤ یا اپنے باپ کوجاکر پیام دو کہ ان سے پہلے جو خلفاء تھے وہ ہم کو لیتے دیتے تھے،ہمارے مراتب کا لحاظ رکھتے تھے اور تمھارے باپ نے ہم کو بالکل محروم کر دیا ،عبد الملک نے جاکر حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کو یہ پیام سنایا،انھوں نے کہا جاکر ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو عذاب قیامت سے ڈرتا ہوں۔ [33] خود آپ کے گھر والوں کو آپ سے شکایت ہو گئی۔ اوزاعی کا بیان ہے کہ جب عمر بن عبد العزیزؓ نے اپنے گھر والوں کے گزارے بند کردیے تو عنبسہ بن سعد نے آپ سے شکایت کی کہ امیر المومنین آپ پر ہم لوگوں کا حق قرابت ہے،آپ نے جواب دیا میرے ذاتی مال میں تمھارا اس سے زیادہ حق نہیں ہے ،جتنا برک عماد کے آخری حدود کے رہنے والے کا، بخدا اگر ساری دنیا تم لوگوں کی رائے کی ہوجائے تو ان پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ [34] اس قبیل کے اوربہت سے واقعات ہیں،مگر ان میں سے کوئی شے عمر بن عبد العزیزؓ کو قیام عدل سے نہ روک سکی۔
ظالم عہدہ داروں کا تدارک
مال مغصوبہ کی واپسی کے بعد دوسری اہم اصلاح عمال کے ظلم وجور کا تدارک تھا، جس کے وہ خوگر ہو رہے تھے،اگرچہ آپ کے مشورہ سے سلیمان ہی کے زمانہ میں بڑی حد تک اس کا تدارک ہو چکا تھا،پھر بھی کچھ آثار باقی رہ گئے تھے،اموی حکومت میں سب سے زیادہ جفاکار حجاج کے خاندان والے اوراس کے ماتحت عہدہ دار تھے،حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے حجاج کے پورے خاندان کو یمن کی طرف جلائے وطن کر دیا اوروہاں کے عامل کو لکھا کہ میں تمھارے پاس آل عقیل کو بھیج رہا ہوں، جو عرب میں بدترین خاندان ہے،اس کو اپنی حکومت میں ادھر ادھر منتشر کرو [35] جو لوگ حجاج کے ہم قبیلہ یا اس کی ماتحتی میں کام کرچکے تھے ان کو ہر قسم کے ملکی حقوق سے محروم کر دیا۔
مظالم کا انسداد
اموی دور میں بد گمانی اورسوئے ظن پرداروگیر اورسزا عام تھی حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسے بالکل بند کر دیا،موصل میں چوری اورنقب زنی کی وارداتیں بکثرت ہوتی تھیں، یہاں کے والی یحییٰ غسانی نے لکھا جب تک لوگوں کو شبہ پر پکڑا نہ جائے گا اور سزا نہ دی جائے گی اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہ ہوں گی آپ نے لکھا کہ صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کرو اگر حق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا تو خدا ان کی اصلاح نہ کرے۔ [36] اسی طرح سے جراج بن عبد اللہ بن حکمی والی خراسان نے لکھا کہ اہل خراسان کی روش نہایت خراب ہے ان کو کوڑے اورتلوار کے علاوہ اورکوئی چیز درست نہیں کرسکتی، اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت فرمائیں ،آپ نے جواب میں لکھا تھا تمھارا خط پہنچا، تمھارا یہ لکھنا کہ اہل خراسان کو کوڑے اورتلوار کے سوا کوئی شے درست نہیں کرسکتی، بالکل غلط ہے،ان کو عدل وحق درست کرسکتا ہے،اسی کو عام کرو۔ [37]
عمال کو رعایا کا مال کم قیمت پر خریدنے کی سختی سے ممانعت کردی، عدی بن ارطاط والی فارس کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمھارے عمال پھلوں کا تخمینہ کرکے عام نرخ سے کم قیمت لگاکر اس کو خریدتے ہیں،اور کردوں کے قبیلے مسافروں سے عشر وصول کرتے ہیں،اگر یہ معلوم ہو گیا کہ یہ تمھارے ایما سے ہوتا ہے یا اسے تم پسند کرتے ہو،تو میں تم کو مہلت نہ دوں گا،میں بشر بن صفوان ،عبد اللہ بن عجلان اورخالد بن سالم کو اس کی تحقیقات کے لیے بھیجتا ہوں، اگر وہ اس خبر کو صحیح پائیں گے تو پھلوں کو ان کے مالکوں کو واپس کر دیں گے ،اس کے علاوہ جن جن باتوں کی مجھے اطلاع ملی ہے،سب کی تحقیقات کریں گے،تم ان لوگوں سے کوئی مزاحمت نہ کرنا۔ [38] وقتاً فوقتاً عمال کو قیام عدل اورانسدادِ مظالم کے احکام بھیجتے رہتے تھے،ایک مرتبہ ایک گشتی فرمان تمام امرا کے نام بھیجا کہ لوگ بُرے عمال کی وجہ سے جنھوں نے برے دستور قائم کیے اورکبھی انصاف،نرمی اوراحسان کا ارادہ نہیں کیا، احکام الہی میں سخت مصیبت سختی اورظلم وجور میں مبتلا ہو گئے۔ [39] ایک والی عبد الحمید کو پہلا خط لکھا کہ وسوسہ شیطانی اورحکومت کے بعد انسان کی بقا نہیں ہو سکتی،اس لیے جب تم کو میرا خط ملے،اس وقت ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو،جس قدر ناجائز ٹیکس تھے،سب موقوف کر دیے [40] ان کے علاوہ اور تمام ظالمانہ طریقوں کو روکا۔
بیت المال کی آمدنی کی اصلاح
اموی دور میں بیت المال کے مداخل اورمخارج میں بڑی بے عنوانیاں تھیں،جائز اورناجائز آمدنی میں کوئی تفریق نہ تھی، ہر طرح کی ناجائز آمدنیوں سے خزانہ بھرا جاتا تھا، پھر اس بے عنوانی سے اسے خرچ کیا جاتا تھا، بیت المال جو ایک قومی امانت ہے،ذاتی خزانہ بن گیا تھا اوراس کا بڑا حصہ خلفاء کے ذاتی مصارف اوران کے تعیش میں صرف ہوتا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیز نے دونوں بے عنوانیوں کا تدارک کیا۔ شاہی خاندان کے تمام مخصوص وظیفے بند کر دیے،خلافت کے شکوہ وتجمل کے مصارف بالکل ختم کردیے،ان کی تخت نشینی کے بعد شاہی اصطبل کے داروغہ نے سواریوں کے اخراجات طلب کیے تو حکم دیا کہ انھیں بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے ، میرا خچر میرے لیے کافی ہے۔ [41]
بیت المال کی آمدنی بڑھانے کے لیے حجاج نو مسلموں سے بھی جزیہ لیتا تھا، آپ نے حکم جاری کر دیا کہ ‘جو لوگ مسلمان ہوجائیں ان کا جزیہ ساقط کر دیا جائے اس حکم پر اتنے آدمی مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی،حیان بن شریح نے شکایت لکھ بھیجی کہ، اس کثرت کے ساتھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں کہ مجھے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے دینے پڑے آپ نے ان کو نہایت سخت خط لکھا کہ جزیہ بہر حال موقوف کرو، رسول اللہ ﷺ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے، محصل خراج بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ [42] اور اس سلسلہ میں یہ فرمانِ عام جاری کر دیا کہ اگر جزیہ ترازو میں رکھا جاچکا ہو اوراس حالت میں بھی ذمی اسلام قبول کرلے یا آغازِ سال سے ایک دن پہلے (جبکہ پورے سال کا جزیہ عائد ہوجاتا ہے )اسلام لے آئے تو بھی جزیہ نہ لیا جائے۔ [43]
خراج کی اصلاح کے متعلق عبد الحمید بن عبد الرحمن کو فرمان لکھا
زمین کا معائنہ کرو، بنجر زمین کا بار آباد زمین پر اورآباد زمین کا بار بنجر زمین پر نہ ڈالو،بنجر زمین کا معائنہ کرو، اگر اس میں صلاحیت ہو تو بقدر گنجائش خراج لواور ان کی اصلاح کرو کہ وہ آباد ہوجائیں، جن آباد زمینوں میں پیدا وار نہیں ہوتی، ان سے خراج نہ لو اورجو زمینیں قحط زدہ ہوجائیں، ان کے مالکوں سے نہایت نرمی سے خراج وصول کرو، خراج میں صرف وزن سبعہ لو، جن میں سونا نہ ہو،ٹکسال اورچاندی پگھلا نے والوں سے ،نو روز اورمہرجان کے ہدیے، عرائض نویسی اورشادی کا ٹیکس، گھروں کا ٹیکس اورنکاحانہ نہ لو، جوذمی مسلمان ہوجائیں ان پر خراج نہیں ہے (کتاب الخراج:49) اس طرح انھوں نے بیت المال سے ہر قسم کی ناجائز آمدنیاں بند کر دیں۔
بیت المال کی حفاظت کا انتظام
اس کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا، ایک مرتبہ یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہو گیا،حضرت عمر بن عبد العزیز نے یہاں کے افسرِ خزانہ کولکھا کہ میں تمھاری امانت کو متہم نہیں کرتا، لیکن تمھاری لاپروائی کو جرم قرار دیتا ہوں اور مسلمانوں کی طرف سے ان کے مال کا مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ تم شرعی قسم کھاؤ۔ [44] یزید بن مہلب بن ابی صفرہ والیِ خراسان کو خیانت کے جرم میں معزول کرکے قید کر دیا۔ [45] ابو بکرہ بن حزم نے سلیمان کے آخری عہد میں کاغذ، قلم، دوات اورروشنی کے دفتر اخراجات کے اضافہ کے لیے لکھا تھا، ابھی اس کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا کہ عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ ہو گئے،انھوں نے ابوبکرہ کو لکھا، وہ دن یاد کرو جب تم اندھیری رات میں بغیر روشنی کے کیچڑ میں اپنے گھر سے مسجد نبویﷺ جاتے تھے اور آج بخدا تمھاری حالت اس سے کہیں بہتر ہے،قلم باریک کرلو اورسطریں قریب قریب لکھا کرو، اپنی ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لو، میں مسلمانوں کے خزانہ سے ایسی رقم صرف کرنا پسند نہیں کرتا ،جس سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے، دوسرے عمال کو بھی ہدایت لکھی کہ کوئی عامل بڑے کاغذ پر جلی قلم سے نہ لکھے، خود آپ کے فرامین ایک بالشت سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ [46] بیت المال کی آمدنیوں اور مصارف کی علاحدہ علاحدہ مدیں قائم کیں، صدقہ کی علاحدہ ،خمس کی علاحدہ،مالِ غنیمت کی علاحدہ [47] گذشتہ خلفاء خمس کے مقررہ مصارف کی پابندی نہیں کرتے تھے،عمر بن عبد العزیز ؓ نے خمس کو اس کے صحیح مصارف میں لگایا۔ [48]
بیت المال کے مصارف
بیت المال کو پھر مسلمانوں کی امانت بنادیا اوراس کو ان کی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا؛چنانچہ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ خالص رعایا کے مفاد کے کاموں میں صرف کیا جانے لگا؛ملک میں جتنے اپاہج تھے، سب کے نام درجِ رجسٹر تھے، ان سب کو وظیفہ ملتا تھا [49] جو عمال اس میں ذرا بھی غفلت یاترمیم کرتے تھے ان کو تنبیہ کی جاتی تھی، دمشق کے بیت المال سے ایک اپاہج کے وظیفہ کے تقرر کے سلسلہ میں میمون بن مہران نے کہا،ان لوگوں کے ساتھ سلوک تو کیا جا سکتا ہے ،لیکن ان کو صحیح وتندرست آدمی کے برابر وظیفہ نہیں دیا جا سکتا،حضرت عمر بن عبد العزیز کو اس کی اطلاع ہوئی تو نہایت غضب آلود خط لکھا ۔ [50] بہتوں کو نقد کی بجائے جنس ملتی ہے اور فی کس ساڑھے چار اروب کے حساب سے غلہ دیا جاتا تھا، [51]قرضداروں کی قرض کی ادایگی کے لیے بھی ایک مد تھی [52]شیر خوار بچوں کے وظائف مقرر تھے [53]ایک عام لنگر خانہ تھا ،جس سے فقرا ومساکین کو کھانا ملتا تھا۔ [54] عام مستحقین میں صدقات وخیرات تقسیم ہوتی تھی، ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک شخص کو تقسیم مال کے لیے رقعہ بھیجا،اس نے عذر کیا کہ آپ مجھے ایسی جگہ بھیج رہے ہیں جہاں میں کسی کو نہیں پہچانتا،ان میں امیر وغریب سب ہیں، فرمایا کے مفید مصارف میں صرف کرتے، اس فیاضا نہ داد دہش کا بیت المال پر بہت بار پڑتا تھا، بعض عمال نے اس کی طرف توجہ دلائی تو جواب میں لکھا کہ جب تک ہے دیتے چلے جاؤ، جب خالی ہوجائے تو کوڑا کرکٹ بھردو۔ [55]
ذمیوں کے حقوق
کسی حکومت کے عدل وانصاف اورظلم وجورکا ایک بڑا معیار دوسری اقوام اوردوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا سلوک اورطرزِ عمل ہے،اس معیار سے بھی عمر بن عبد العزیز کا دور سراپا ،عدل تھا، انھوں نے جس طرح ذمیوں کے حقوق کی حفاطت کی اوران کے ساتھ جیسی نرمی برتی اس کی مثال عہد فاروقی کے علاوہ اورکسی دور میں نہیں مل سکتی ،مسلمانوں کی طرح ان کی جان اوران کے مال کی حفاظت کی،ان کے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی،جزیہ کی وصولی میں نرمی اورآسانیاں پیدا کیں، اس کا اندازہ ذمیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل اور ان احکام سے ہوگا جو عمال کو بھیجتے رہتے تھے۔ عدی بن ارطاط کو لکھا کہ ذمیوں کے ساتھ نرمی کرو ان میں جو بوڑھا اورنادار ہوجائے اس کی کفالت کرو، اگر اس کا کوئی رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو جس طرح تمھارا کوئی غلام بوڑھا ہوجائے تو اسے آزاد کرنا پڑے گا یامرتے دم تک اس کی کفالت کرنی پڑے گی۔
ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر قرار دی،ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا، عمر بن عبد العزیز نے وہاں کے عامل کو لکھا کہ قاتل کو مقتول کے ورثا کے حوالہ کردو، وہ چاہیں قتل کریں چاہیں معاف کر دیں ؛چنانچہ قاتل حوالہ کیا گیا، اورذمیوں نے اسے قتل کر دیا۔ [56] کوئی مسلمان ان کے مال پر دست درازی نہیں کرسکتاتھا، جو شخص ایسا کرتا تھا اسے پوری سزاملتی تھی، ایک مرتبہ ایک مسلمان ربیعہ شعودی نے ایک سرکاری کام کے لیے ایک قطبی کا گھوڑا بے گار میں پکڑلیا اور اس پر سواری کی عمر بن عبد العزیز نے اس کو چالیس کوڑے لگوائے۔ [57]
مال مغصوبہ کی واپسی کے وقت شاہی خاندان سے ذمیوں کی زمینیں بھی واپس دلائیں ،اس سلسلسہ میں ایک ذمی نے دعویٰ دائر کیا کہ عباس بن ولید نے میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے، حضرت عمر بن عبد العزیز نے عباس سے فرمایا تم اس کا کیا جواب دیتے ہو انھوں نے کہا ولید نے مجھے جاگیر میں دے دیا ہے اورمیرے پاس اس کی سند موجود ہے ذمی نے عمرؓ بن عبد العزیز سے کہا میں آپ سے کتاب اللہ کے موافق اس کا فیصلہ چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا خدا کی کتاب ولید کی سند پر مقدم ہے اور ذمی کو زمین واپس دلادی۔ [58] ان کے مذہبی حقوق کو جوگذشتہ خلفاء کے زمانہ میں ختم ہو گئے تھے،از سر نو قائم کیا دمشق میں ایک گرجا عرصہ سے ایک مسلمان خاندان کی جاگیر میں چلا آتا تھا، عیسائیوں نے عمر بن عبد العزیز کے پاس اس کا دعویٰ کیا، آپ نے واپس دلادیا، ایک مسلمان نے ایک گرجے کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اس کی جاگیر میں ہے،حضرت عمرؓ بن عبد العزیز نے فرمایا، اگر یہ عیسائیوں کے معاہدہ میں ہے تو تم اس کو نہیں پاسکتے۔ [59]
آپ کے زمانہ میں ذمیوں کے ساتھ اتنی نرمی برتی گئی کہ اس سے عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا؛چنانچہ غلہ کا نرخ گراں ہو گیا، ایک شخص نے آ پ سے اس کا سبب پوچھا،آپ نے فرمایا پہلے خلفاءذمیوں کو جزیہ کی وصولی میں ناقابل برداشت تکلیفیں دیتے تھے،اس لیے وہ جس نرخ پر بھی ہو سکتا تھا،غلہ فروخت کرڈالتے تھے اورمیں ہر شخص کو اسی قدر تکلیف دیتا ہوں،جس کا وہ متحمل ہو سکے، اس لیے ہر شخص جس طرح چاہتا ہے فروخت کرتا ہے۔ [60] شاہی خاندان کے ارکان اورذمیوں میں مساوات قائم کی،ایک مرتبہ ہشام بن عبد الملک نے ایک عیسائی پر مقدمہ دائر کیا،عمر بن عبد العزیزؓ نے دونوں کو برابر کھڑا کیا،ہشام نے غرور وتمکنت میں عیسائی سے سخت کلامی کی،عمر بن عبد العزیز نے ان کو ڈانٹا اورسزا دینے کی دھمکی دی۔ [61]
محاصل میں اضافہ
یہ عمر بن عبد العزیز کی برکت تھی کہ ناجائز آمدنیوں کے سدِ باب اورمصارفِ خیر کی کثرت کے باوجود بیت المال پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا؛بلکہ بعض بعض ملکوں کے محاصل میں حیرت انگیز اضافہ ہو گیا، چنانچہ عراق کی آمدنی حجاج کے ظالمانہ دور سے بھی بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ بن عبد العزیز فرمایا کرتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت کرے اس کو نہ دین کا سلیقہ تھا نہ دنیا کا،حجاج کے زمانہ میں باوجود ظالمانہ طریقوں کے عراق سے صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم وصول ہوتے تھے،اس نے کاشتکاروں کو بیس لاکھ درہم زمین کی آبادی کے لیے بطور قرض دیے تو ایک کروڑ سات لاکھ اضافہ ہوا،اس ویرانی کے بعد جب عراق میرے قبضہ میں آیا تو میں نے بغیر کسی جبر کے بارہ کروڑ وصول کروں گا۔ [62]
رعایا کی خوش حالی
مظالم کے انسداد ،ناجائز ٹیکسوں کی منسوخی،ذمیوں کے ساتھ مراعات اورعام داد ودہش کی وجہ سے ملک نہایت فارغ البال اوررعایا آسودہ حال تھی ملک کے طول وعرض میں افلاس کا نشان باقی نہ رہ گیا تھا،مہاجرین یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ تقسیم کرتے تھے،ایک سال کے بعد دوسرے سال وہ لوگ جو پہلے صدقہ لیتے تھے خود دوسروں کو صدقہ دینے لگتے تھے۔ [63] عمر بن عبد العزیزؒ نے صرف ڈھائی سال حکومت کی اس مختصر مدت میں یہ حالت ہو گئی تھی کہ لوگ ان کے عمال کے پاس،فقراء میں تقسیم کرنے کے لیے صدقہ کا مال لے کر آتے تھے،لیکن کوئی صاحبِ حاجت نہ ملتا تھا اور مال واپس لے جانا پڑتا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیز نے سب کو اس قدر مالا مال کر دیا تھا کہ کوئی شخص حاجت مند باقی نہ رہ گیا تھا۔ [64] آپ کے زمانہ میں رعایا کی خوش حالی اس درجہ کو پہنچ گئی تھی کہ اس کے نشہ میں کبر ونخوت میں اس کے مبتلا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا؛چنانچہ عدی بن ارطاۃ نے آپ کو لکھا کہ اہل بصرہ اس قدر خوش حال ہو گئے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ وہ فخر وغرور نہ کرنے لگیں،آپ نے جواب دیا،کہ خدا جب اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا تو حکم دے گا کہ وہ الحمد للہ کہیں اس لیے تم بھی لوگوں کو حکم دو کہ وہ خد کا شکر بجالائیں۔ [65]
رفاہ عام کے کام
آپ نے جس قدر اصلاحیں کیں، وہ سب درحقیقت رفاہ عام ہی کے کام ہیں،لیکن ان کے علاوہ مروجہ اصطلاح میں بھی آپ نے بہت سے رفاہِ عام کے کام کیے۔ سارے ممالکِ محروسہ میں نہایت کثرت سے سرائیں بنوائیں، خراسان کے عامل کو لکھا کہ وہاں کے تمام راستوں میں سرائیں تعمیر کرائی جائیں،سمر قند کے والی سلیمان بن ابی السری کے پاس بھیجا کہ وہاں کے شہروں میں سرائیں تعمیر کراؤ،جو مسلمان ادھر سے گزریں ایک شبانہ یوم ان کی مہمان نوازی کرو، ان کی سواریوں کی حفاظت کرو، جو مسافر مریض ہو، اس کو دو دن اور دورات مقیم رکھو، اگر کسی کے پاس گھر تک پہنچنے کا سامان نہ ہو تو وطن تک پہنچنے کا سامان کردو [66]ایک عام لنگر خانہ قائم کیا، جس میں فقراء اورمساکین کو کھانا ملتا تھا۔ [67]
مذہبی خدمات
گویہ تمام اصلاحات درحقیقت مذہب پرستی ہی کا نتیجہ تھیں، ایک حیثیت سے وہ سب مذہبی خدمات کے دائرہ میں داخل ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے بہت سی خالص مذہبی خدمات بھی انجام دیں اورشریعتِ اسلامی میں جو اموی خلفاء کی غفلت شعاری سے بالکل مردہ ہو چکی تھی،دوبارہ جان ڈالی،امویوں کے زمانہ میں کوئی شے جادۂ شریعت پر نہ رہ گئی تھی ،عمر بن عبد العزیزؓ نے سب کو پھر صراط مستقیم پر لگایا، عمال کے نام جو فرامین جاتے تھے، ان سب میں احیائے شریعت اوراستیصالِ بدعت کی تاکید ہوتی تھی۔ [68]
عدی بن ارطاۃ کو ایک فرمان لکھا کہ ایمان چند فرائض،چند احکام اورچند سنین کا نام ہے، جس نے ان اجزاء کی تکمیل کرلی،اس نے ایمان کو مکمل کردیااور جس نے اس کی تکمیل نہیں کی، اس نے ایمان کو مکمل نہیں کیا، اگر میں زندہ رہا تو ان تمام اجزاء کو تمھارے سامنے واضح کردوں گا تاکہ تم لوگ اس پر عمل کرو اوراگر مرگیا تو مجھے تمھارے ساتھ رہنے کی حرص بھی نہیں ہے۔ [69] آپ نے جس طرح ان اجزاء کا تحفظ کیا اوران کی تبلیغ واشاعت میں جیسی جدوجہد کی اس کی نظیر نہیں مل سکتی، اس کی تفصیلات نہایت طویل ہیں، مختصر یہ ہے کہ مذہبی روح آپ کے عہد کی امتیازی خصوصیت بن گئی تھی،طبری کا بیان ہے کہ: ولید عمارتوں کا بانی تھا، اس لیے اس کے زمانہ میں یہی عام مذاق ہو گیا تھا اورلوگ آپس میں صرف عمارتوں کا تذکرہ کرتے تھے، سلیمان کو عورتوں اورنکاح کا شوق تھا، اس لیے اس کے زمانہ میں لوگ لونڈیوں اورشادیوں کا چرچا کرتے تھے،لیکن جب عمر بن عبد العزیزؒ نے تختِ خلافت پر قدم رکھا تو لوگوں کا موضوع بدل کر مذہب وعبادت کی تفصیلات ہوگئیں۔ [70]
مذہبی تعلیم کی اشاعت
احیائے شریعت کے لیے عمر بن عبد العزیز نے مذہبی تعلیم کی اشاعت کا خاص اہتمام کیا،قاضی ابو بکرہ بن حزم کو لکھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ عام طور پر علم ( علم شریعت) کی اشاعت کریں، تعلیم کے لیے حلقہ درس میں بیٹھیں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں۔ ایک اورعامل کو لکھا کہ لوگوں کو حکم دو وہ اپنی مسجدوں میں علم کی اشاعت کریں کیونکہ سنت مردہ ہو چکی ہے۔ [71] جو علما اس مقدس کام میں مصروف تھے،ان کو فکرِ معاش سے مطمئن کر دیا، حمص کے گورنر کو لکھا،جن لوگوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے کو فقہ کی تعلیم کے لیے وقف کر دیا ہے،بیت المال سے سوسو دینار ان کا وظیفہ مقرر کرو، تاکہ وہ اس حالت کو قائم رکھ سکیں [72] علما کے علاوہ طلبہ کے وظائف مقرر کیے۔ [73]
دور افتادہ ممالک میں تعلیم کی اشاعت کے لیے علما بھیجے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے غلام نافع کو جو بڑے نامور عالم تھے، تعلیم حدیث کے لیے مصر بھیجا [74] قاری جعثل بن عامان کو قرأت کی تعلیم دینے کے لیے مصرو مغرب بھیجا [75]یزید بن ابی مالک دمشقی کو حارث بن یمجدالاشعری کو بدؤں کی تعلیم کے لیے مقرر کیا (سیرت عمر بن عبد العزیز:74)یہ صرف چند نام ہیں ورنہ جن جن مقامات پر ضرورت تھی،سب جگہ علما بھیجے۔
اشاعتِ اسلام
سلطنت میں توسیع کی بجائے اسلام کی توسیع واشاعت کو اپنا مقصد قرار دیا اوراسکے لیے ہر قسم کے مادی اوراخلاقی ذرائع اختیار کیے۔امرائے فوج کو خاص طور سے ہدایت تھی کہ رومیوں کے کسی حلقہ اوران کی کسی جماعت سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک اسلام کی دعوت نہ دے لو۔ [76] تمام عمال کو حکم دیا کہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے،جو ذمی اسلام قبول کر لیں ان کا جزیہ معاف کر دیا جائے،اس طریقہ سے اسلام کی بڑی اشاعت ہوئی تنہا جراح بن عبد اللہ حکمی والی خراسان کے ہاتھوں پر چار ہزار ذمی مسلمان ہوئے۔[77] اسمٰعیل بن عبد اللہ بن ابی المہاجر والی مغرب کی تبلیغ سے سارے مغرب میں اسلام پھیل گیا [78] اور مختلف ملکوں میں اس کثرت سے ذمی مسلمان ہوئے کہ متعدد والیوں نے خراج کی آمدنی گھٹ جانے کی شکایت کی،لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز نے مطلق اس کی پروا نہ کی، بعضوں کو جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ ،ہادی بناکر بھیجے گئے تھے[79]بعضوں کو لکھا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ سارے ذمی مسلمان ہوجائیں اورہماری تمھاری حیثیت صرف ایک کاشتکار کی رہ جائے کہ اپنے ہاتھوں سے کمائیں کھائیں [80] بعض عمال نے تجویز پیش کی کہ ذمی جزیہ کے خوف سے مسلمان ہوتے ہیں،اس لیے ختنہ کرکے ان کا امتحان لیا جائے،آپ نے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہادی ورہنما تھے،خاتن نہ تھے۔ [81] آپ کے محاسنِ اخلاق کی شہرت اورتبلیغِ اسلام سے آپ کا شغف سن کر بعض ممالک نے خود اپنے یہاں مبلغِ اسلام بھیجنے کی درخواست کی؛چنانچہ تبت کے وفود کی درخواست پر آپ نے سلیط بن عبد اللہ حنفی کو تبت روانہ کیا[82] اس طرح آپ کے زمانہ میں اسلام کی غیر معمولی اشاعت ہوئی۔
خلافت کو جمہوری بنانا چاہتے تھے
حضرت عمر بن عبد العزیز کا دلی منشا خلافت کو جمہوری شکل میں تبدیلی کرنا تھا، لیکن یہ مستقل تغیر ان کے بس میں نہ تھا،اس لیے کہ اب شاہی خاندان میں موروثی بادشاہت ،اصولی حیثیت سے مسلم ہو چکی تھی اور عام مسلمان بھی اس کے خوگر ہو گئے تھے، عمر بن عبد العزیزؓ نے بعض مواقع پر اپنے اس خیال کا اظہار بھی کر دیا کہ ، اگر خلافت کا معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں قاسم بن عبد اللہ کو خلیفہ بنادیتا [83] بلکہ ایک مرتبہ آل مروان کو دھمکی بھی دی اس کا واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے جمع ہوکر آپ سے کہا کہ گذشتہ خلفاء ہمارے ساتھ جو کچھ کرتے تھے وہ سب آپ نے ختم کر دیا اور اس پر بڑی برہمی ظاہر کی آپ نے فرمایا، اگر آیندہ پھر تم نے میرے سامنے اس قسم کی باتیں کیں تو میں چھوڑ کر مدینہ چلا جاؤں گا اورخلافت کو شوریٰ پر چھوڑدوں گا،میں اس کے اہل (قاسم بن عبد اللہ) کو پہچانتا ہوں۔ [84]
بادشاہت کے امتیازات کا استیصال
لیکن سلیمان آپ کے بعد یزید بن عبد الملک کو نامزد کرگیا تھا،اس لیے یہ انقلاب آپ کے اختیار میں نہ رہ گیا تھا، تاہم جہاں تک ہو سکا آپ نے شاہنشاہیت کا زور توڑنے اوراس کے مفاسد کو دور کرنے کی پوری کوشش کی اور ہر شعبہ سے ملوکیت کے اثرات کو بالکل مٹادیا۔ خلفاء کے ساتھ نقیب و علمبردار چلتے تھے، نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرح ان پر درود و سلام بھیجا جاتا تھا، سلام میں خاص امتیاز برتا جاتا تھا ،عمر بن ؓ عبدالعزیزنے ان تمام امتیازات کو مٹادیا؛چنانچہ پہلی مرتبہ جب کو توال نے حسب دستور نیزہ لے کر آپ کے ساتھ چلنا چاہا تو آپ نے روک دیا کہ مسلمانوں کا ایک معمولی فرد ہوں [85] اسلام کے متعلق ہدایت فرمائی کہ عام طریقہ سے سلام کیا جائے [86] عمال کو فرمان لکھا کہ پیشہ ور واعظ خلفاء پر درود و سلام بھیجتے ہیں، انھیں روک دو اورحکم دو کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے دعا کریں، باقی چھوڑدیں [87] مخصوص میرے لیے کوئی دعا نہ کرو ؛بلکہ تمام مسلمان مردوں اورعورتوں کے لیے دعا کرو،اگر میں ان میں ہوں گا تومیں بھی شامل ہو جاؤں گا۔ [88] شاہی خاندان کے متعلق ابوبکر بن محمد کو لکھا کہ کسی کو صرف اس لیے ترجیح نہ دو کہ وہ خاندانِ خلافت سے تعلق رکھتا ہے ،میرے نزدیک یہ لوگ عام مسلمانوں کے برابر ہیں اوراسے عملاً کرکے دکھا دیا، ایک مرتبہ مسلمہ بن عبد الملک ایک مقدمہ میں فریق کی حیثیت سے آپ کے اجلاس میں آیا اورفرش پر بیٹھ گیا،آپ نے اس سے کہا کہ اپنے فریق کی موجودگی میں تم فرش پر نہیں بیٹھ سکتے یا عام لوگوں کے برابر بیٹھو یاکسی دوسرے کو اپنا وکیل مقرر کردو [89] شاہی خاندان کے وظائف عام مسلمانوں کے برابر کر دیے، غرض آپ نے ملوکیت کے کنگر ے کو پست کرکے عام سطح کے برابر کر دیا۔
فتوحات
حکومت اورسلطنت کے باب میں آپ کا نقطۂ نظر دوسرے خلفاء سے بالکل جداگانہ تھا، آپ کا مقصداس کی توسیع نہیں ؛بلکہ اس کی اصلاح تھی، اس لیے آپ کے زمانہ میں جو چیز سب سے آخری درجہ پر نظر آتی ہے،وہ فوجی سرگرمی ہے؛چنانچہ سلطنت کے بقا وتحفظ اورقیامِ امن کی ضروریات کے علاوہ جارحانہ اقدام بہت کم ہوا، صرف اندلس کے بعض علاقوں اورسندھ کی بعض فتوحات کے علاوہ کوئی قابل ذکر فتوحات نہیں ہوئیں۔
خوارج کا مقابلہ
حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت سے لے کر اس وقت تک کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے رنگین تھی، اس لیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس میں اتنی احتیاط برتی کہ مفسدہ پرداز اورفتنہ پرست اسلامی فرقوں کے خلاف بھی تلوار نہ اٹھائی، خوارج امویوں کے پرانے دشمن تھے، ان کی مخالفانہ روش حضرت عمر بن عبد العزیز کے عہد میں بھی قائم رہی، اپنے ہر ممکن طریقہ سے ان کو سمجھا بجھا کر باز رکھنے کی کوشش کی عبد الحمید والی کوفہ کو جو خوارج کے مقابلہ میں تھے لکھا کہ ،جب تک یہ لوگ خون ریزی اورفساد نہ کریں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے،ایک دور اندیش اورمستقل مزاج آدمی کو میرا یہ حکم سنا کر تھوڑی سی فوج کے ساتھ بھیج دو اس حکم کے مطابق عبد الحمید نے محمد بن جریر بجلی کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کر دیا۔
اس سے بھی زیادہ احتیاط یہ فرمائی کہ خوارج کے سردار بسطام کو خط لکھ کر اصلاح ومناظرہ کی دعوت دی، آؤ ہم تم مناظرہ کر لیں، اگر ہم حق پر ہوں تو تم عام لوگوں کی طرح حلقہ اطاعت میں داخل ہوجاؤ، اگر تم حق پر ہو تو ہم اپنے معاملہ پر غور کریں اس دعوت پر بسطام نے دو شخصوں کو مناظرہ کے لیے بھیجا اور فریقین میں مناظرہ ہوا، اس کی تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں، حضرت عمر بن عبد العزیز نے انھیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان پر افہام و تفہیم کا کوئی اثر نہ ہوا اوروہ اپنی مفسدانہ روش سے باز نہ آئے، اس لیے حضرت عمر بن عبد العزیز کو آخر میں مجبور ہوکر ان شرائط کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کی اجازت دینا پڑی کہ: 1۔عورت ،بچے اورقیدی قتل نہ کیے جائیں ،زخمیوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔ 2۔فتح کے بعد جومالِ غنیمت ہاتھ آئے ،وہ ان کے اہل و عیال کو واپس کر دیا جائے۔ 3۔قیدی اس وقت تک مقید رہیں جب تک راہ راست پر نہ آجائیں۔ ان پا بندیوں کے ساتھ عبد الحمید نے ان پر حملہ کیا،لیکن شکست کھائی ،حضرت عمر بن عبد العزیز کو اس کی اطلاع ہوئی تو مسلمہ بن عبد الملک کو روانہ کیا انھوں نے چند دنوں میں قابو حاصل کر لیا۔ [90]
خصوصیاتِ حکومت پر اجمالی تبصرہ
اوپر کے حالات سے حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کی خصوصیات کا پورا اندازہ ہوجاتا ہے، اس لیے اس کی بنیادی خصوصیات پر اجمالی تبصرہ کیا جاتا ہے،آپ کی خلافت کی بنیاد کتاب اللہ سنتِ رسول اللہ اورخدا کی اطاعت پر تھی، ان بنیادی اصولوں اوراپنی حیثیت کو اپنی پہلی تقریر میں ان الفاظ میں واضح فرمایا۔ اما بعد لوگو! تمھارے نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہے اوراس پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نہیں ہے خدانے جو چیز حلال کردی وہ قیامت تک حلال رہے گی اورجو چیز حرام کردی وہ قیامت تک حرام رہے گی، میں (اپنی جانب سے) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں ؛بلکہ محض (احکامِ الہی کو )نافذ کرنے والا ہوں میں خود کوئی بات شروع کرنے والا نہیں ہوں؛بلکہ محض پیرو ہوں، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ خداکی نافرمانی اس کی اطاعت کی جائے، میں تم کا بہترآدمی بھی نہیں ہوں، البتہ خدانے مجھ کو تمھارے مقابلہ میں زیادہ گراں بار کیا ہے۔ [91]
امورِ خلافت میں خلافتِ فاروق کو اپنے لیے نمونہ عمل بنایا، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے پوتے سالم بن عبد اللہ بنؓ عمر کو لکھا میں چاہتا ہوں کہ اگر خدا کو منظور ہو اورمجھ میں اس کی استطاعت ہوتو رعایا کے معاملہ میں عمر بنؓ خطاب کی روش اختیار کروں، اس لیے تم میرے لیے عمر کی تحریریں اوران کے فیصلے جو انھوں نے مسلمانوں اورذمیوں کے بارہ میں کیے،بھیجو،اگر خدا کو منظور ہوگا تو میں ان کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا تھا،عہد رسالت پر مدت گزرچکی تھی، صحابہ اٹھ چکے تھے،بنی امیہ کی حکومت نے اسلامی حکومت کے بارہ میں عام مسلمانوں کا نقطہ نظر بدل دیا تھا، اس لیے اس زمانہ میں عہد فاروقی کو زندہ کرنا بہت مشکل تھا، سالم نے بھی ان دشواریوں کو محسوس کیا اورآپ کو لکھا کہ عمر نے جو کچھ کیا وہ دوسرے زمانہ میں اور دوسرے آدمیوں کے ذریعہ سے اگر تم نے اس زمانہ میں اوران آدمیوں کے ذریعہ سے عمر بن ؓ الخطاب کی پیروی کی تو تم ان سے افضل ہو گئے۔ [92] لیکن حضرت عمر بنؓ عبد العزیز نے اس تغیر حالات اورہر طرح کے موانع ومشکلات کے باوجود ایک مرتبہ پھر فاروقی خلافت کا نمونہ دنیا کو دیکھا دیا، اسی لیے بعض محدثین آپ کو پانچواں خلیفہ راشد مانتے ہیں۔
علالت
لیکن افسوس مسلمانوں کو ڈھائی سال سے زیادہ اس سراپا خیر وبرکت ہستی سے مستفیض ہونے کا موقع نہ ملا اور 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء میں مجددِخلافت نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کے سببِ وفات کے بارہ میں دوروایتیں ہیں، ایک یہ کہ آپ کی موت طبعی تھی،دوسرا بیان یہ ہے کہ بنی امیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ اگر آپ کی خلافت کا زمانہ زیادہ بڑھا تو اموی خاندان کی قوت ہمیشہ کے لیے توڑدیں گے،تو انھوں نے آپ کے ایک غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر خفیہ زہر دلوایا، آپ کو اس کا علم ہو گیا، لیکن غلام پر کوئی سختی نہیں کی ؛بلکہ اشرفیاں واپس لے کر بیت المال میں داخل کر دیں اورغلام کو آزاد کر دیا۔ [93] طبیب نے بھی زہرکا علاج تجویز کیا مگر آپ نے علاج کرنے سے انکار کر دیا اورفرمایا اگر مجھے یہ بھی یقین ہوجاتا کہ میرے کان کی لو کے پاس میری شفا ہے تو بھی ہاتھ نہ بڑھاتا۔ [94]
یزید بن عبد الملک کو وصیت نامہ
زندگی سے مایوسی کے بعد اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کو یہ وصیت نامہ لکھا: میں تم کو یہ وصیت نامہ اس حالت میں لکھ رہا ہوں کہ مرض سے لاغر ہو گیا ہوں تم کو معلوم ہے کہ امورِ خلافت کے متعلق مجھ سے سوال کیا جائے گا اورخدا مجھ سے اس کا حساب لے گا اورمیں اس سے اپنا کوئی کام نہ چھپا سکوں گا،خدا خود فرماتا ہے: فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ ہم ان کو علم سے قصہ سناتے ہیں اور ہم غیر حاضر نہ تھے۔ اگر خدا مجھ سے راضی ہو گیا تو میں کامیاب ہوا اور ایک طویل عذاب سے نجات پائی اوراگر مجھ سے ناراض ہوا تو افسوس ہے میرے انجام پر، میں اس خدا سے جس کے سوا کوئی خدا نہیں دعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا مندی سے جنت عطا کرے،تم کو تقویٰ اختیار کرنا چاہیے اوررعایا کا خیال رکھنا چاہیے؛کیونکہ میرے بعد تم بھی تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے،تم کو اس سے بچنا چاہیے کہ تم سے غفلت میں ایسی لغزش سرزد ہوجائے جس کی تلافی نہ کرسکو۔ سلیمان بن عبد الملک خدا کا ایک بندہ تھا ،خدانے اسے وفات دی اور اس نے مجھ کو خلیفہ بنایا اورمیرے بعد تم کو ولیعہد مقرر کیا،میں جس حالت میں تھا، اگر وہ اس لیے ہوتی کہ میں بہت سی بیویوں کا انتخاب کروں اور مال ودولت جمع کروں، تو خدانے مجھ کو اس سے بہتر سامان دیے تھے جو کسی بندہ کو دے سکتا تھا، لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں ،بجز اس کے کہ خدا میری دستگیری فرمائے۔ [95]
اپنی اولاد کے متعلق ارشاد
آپ کے اہل و عیال کے متعلق مسلمہ نے آپ سے کہا: امیر المومنین آپ نے ہمیشہ اپنی اولاد کا منہ اس مال و دولت سے خشک رکھا اوران کو ایسی حالت میں چھوڑے جاتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، کاش آپ ان کے متعلق مجھے یا اپنے خاندان کے کسی اورشخص کو کچھ وصیت کرتے جاتے یہ سن کر فرمایا مجھے ٹیک لگا کر بٹھا دو پھر فرمایا تمھارا یہ کہنا کہ اس مال سے میں نے ہمیشہ اپنی اولاد کا منہ خشک رکھا، تو خدا کی قسم میں نے ان کا کوئی حق تلف نہیں کیا ؛البتہ جس میں ان کا حق نہیں تھا وہ ان کو نہیں دیا، تمھارا یہ کہنا کہ میں تم کو یا کسی اوراہل خاندان کو وصیت کرتا جاؤں،تو اس معاملہ میں میرا وصی اور ولی صرف خدا ہے جو صلحاء کا ولی ہوتا ہے،میرے لڑکے اگر خدا سے ڈریں گے تو خدا ان کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا اوراگر وہ گناہ میں مبتلا ہوں گے تو میں ان کو گناہ کرنے کے لیے قوی بناؤں گا اس کے بعد لڑکوں کو بلا کر ان سے باچشم پرنم فرمایا: میری جان تم پر سے قربان جن کو میں نے خالی ہاتھ چھوڑا ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم کو اچھی حالت میں چھوڑا،میرے بچو!تم کسی ایسے عرب اورذمی سے نہ ملو گے جس کا تم پر حق ہو،بچو دوباتوں میں سے ایک بات تمھارے باپ کے اختیار میں تھی ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمھارا باپ دوزخ میں جائے،دوسرے یہ کہ تم محتاج رہو اور تمھارا باپ جنت میں داخل ہو،ان دونوں میں اس کو یہ زیادہ پسند تھا کہ تم محتاج رہو اوروہ جنت میں جائے اچھا اب جاؤ خدا تم کو حفظ وامان میں رکھے۔ [96]
آخری وصیتیں اوروفات
بعض لوگوں نے عرض کیا،آپ مدینہ منتقل ہوجاتے اورروضہ نبویﷺ میں جو چوتھی جگہ خالی ہے اس میں رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ وعمرؓ کے ساتھ دفن ہوتے،یہ سن کر فرمایا خدا کی قسم آگ کے سوا اگر خدا مجھے ہر قسم کے عذاب دے تو میں انھیں بخوشی منظور کرلوں گا،لیکن یہ گوارا نہیں کہ خدا کو یہ معلوم ہو کہ میں اپنے کو رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کے قابل سمجھتا ہوں۔ [97]
اس کے بعد ایک ذمی سے قبر کے لیے زمین خریدی،اس نے قیمت لینے میں عذر کیا اورکہا یہ میرے لیے خیر وبرکت کا باعث ہے کہ آپ میری مملوکہ زمین میں دفن ہوں، لیکن آپ نے اسے منظور نہ کیا اور بہ اصرار قیمت حوالہ کی۔ [98] پھر کفن اوردفن کے متعلق ضروری وصیتیں کیں اورآنحضرت ﷺ کے ناخن اورموئے مبارک منگا کر انھیں کفن میں رکھنے کی ہدایت کی۔ [99] دم آخر زبان پر یہ آیت تھی: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص:83) یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں نہ برتری چاہتے ہیں اور نہ فساد کرتے ہیں اورعاقبت پرہیز گاروں کے لیے ہے۔ یہی آیت تلاوت کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے [100] یہ رجب کا مہینہ اور 101ھ تھا،تاریخوں میں اختلاف ہے،وفات کے وقت انتالیس یا چالیس سال کی عمر تھی دیر سمعان میں دفن کیے گئے۔
ازواج و اولاد
حضرت عمر بن عبد العزیز کے چار بیویاں تھیں اوران سب سے اولادیں ہوئیں،لیس بنت علی، ان سے تین لڑکے تھے،عبد اللہ،بکر اورام عمار، ام عثمان بنت شعیب، ان سے ایک لڑکا ابراہیم تھا،فاطمہ بنت عبد الملک ،ان سے تین لڑکے تھے،اسحاق،یعقوب اورموسیٰ،ام ولید سے نو اولادیں تھیں، عبد الملک ،ولید،عاصم ،یزید،عبد اللہ،عبد العزیز،زبانا،امۃ اور ام عبد اللہ۔
حلیہ
صورۃ شکیل تھے،رنگ گورا اورچہرہ نازک تھا، خلافت سے پہلے عیش وتنعم کی زندگی کی وجہ سے جسم نہایت تروتازہ تھا، ازار بند پیٹ کے ٹپوں میں غائب ہوجاتا تھا،لیکن خلافت کے بعد کی زاہدانہ زندگی نے رنگ روپ بالکل بدل دیا تھا،سوکھ کر لاغر ہو گئے تھے،پسلیاں بغیر چھوئے ہوئے گنی جا سکتی تھیں۔ [101]
فضل وکمال
حضرت عمر بن عبد العزیز کواگر سیاسی حالات تختِ خلافت پر نہ بٹھادیتے تو وہ مسندِ درس کی زینت ہوتے علمی،اعتبار سے وہ ائمہ کبار میں تھے،تمام علما ومصنفین کا ان کی جلالتِ علمی پر اتفاق ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں "کان فقیھا مجتھدا عار فابالسنن وکبیر الشان ثبتا حجۃ جافظا قانتا للہ اد نیا" عمر بن عبد العزیز امام،فقیہ،مجتہد، عالم،سنت،کبیرالشان،ثبت،حجت،حافظ (حدیث)خدا کے فرماں بردار نرم دل اورخدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت فضیلت،وفورعلم،صلاح ،زہد وورع، عدل،شفقت علی المسلمین،حسن سیرت خدا کی راہ میں ان تھک کوشش، سنت نبوی اورآثار نبوی کے اتباع اورخلفاء راشدین کی اقتداء میں سب کا اتفاق ہے۔
معاصر علما میں درجہ
اس عہد کے اکابر علما ان کے علمی کمالات کے مقابلہ میں طفل وبستان تھے، میمون بن مہران کہتے تھے کہ علما عمر بن عبد العزیز کے سامنے شاگرد معلوم ہوتے تھے، ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ علما کے معلم تھے؛چنانچہ جو علما انھیں تعلیم دینے کے خیال سے ان کے پاس آتے تھے،وہ خود ان سے تعلیم حاصل کرتے تھے،مجاہد کا جو بڑے جلیل القدر تابعی عالم تھے بیان ہے کہ ہم لوگ ان کے پاس تعلیم دینے کے لیے گئے تھے، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہم خود ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ [102]
تفسیر
تفسیر قرآن میں نہایت وسیع نظر تھی،بڑے بڑے علما قرآنی مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، ایک مرتبہ حجاز اورشام کے کچھ علما نے آپ کے صاحبزادے عبد الملک سے کہا کہ اپنے والد سے قرآن کی اس آیت: أَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ [103] وہ دور سے کیونکر پاسکتے ہیں۔ کے متعلق پوچھو کہ اس سے کیا مراد ہے،انھوں نے پوچھا،حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا کہ اس سے مراد وہ توبہ ہے جس کی خواہش اس وقت کی جائے جس وقت انسان اس پر قادر نہ ہو۔ [104]
حدیث
حدیث کے اجلہ حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی ان کو امام ،عارف سنت،حجت اورحافظ لکھتے ہیں [105]امام مالک اورابن عینیہ آپ کو امامِ وقت کہتے تھے۔ [106] جتنی مرفوع حدیثیں ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں،اتنی کسی تابعی کے علم میں نہ تھیں،ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں جن جن لوگوں سے ملا،ان میں سے کسی کو عمر بن عبد العزیز سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والا نہیں دیکھا۔ [107]
احادیث نبوی کا تحفظ
حدیث نبوی کی انھوں نے بڑی خدمت کی،ہر ممکن طریقہ سے اس کی اشاعت کی اوراس کو محفوظ کیا،ان کا سب سے بڑا کارنامہ احادیث نبوی کی تدوین اوراس کا تحفظ ہے،اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی ہوتی تو احادیث نبویﷺ کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا۔ آپ کے زمانہ میں مرور زمانہ کے ساتھ اکابر علما اورحفاظ حدیث اٹھتے جاتے تھے،جب آپ نے دیکھا کہ یہ بہار آخر ہورہی ہے،اگر احادیث کی حفاظت نہ کی گئی تو اس کا بڑا حصہ علما کے ساتھ دفن ہوجائے گا، تو قاضی ابوبکر بن حزم گورنر مدینہ کو لکھا کہ احادیث نبوی کی تلاش وجستجو کرکے ان کو لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اورعلماء کے فنا ہونے کا خوف ہے،لیکن صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث قبول کی جائیں۔ [108] حافظ ابن حجر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صوبوں کے گورنروں کے نام اسی مضمون کا فرمان بھیجا تھا۔ [109] اس حکم کی تعمیل ہوئی اورجمع شدہ احادیث کے مجموعے تیار کراکے تمام ممالکِ محروسہ میں بھیجے گئے،سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ ہم کو عمر بن عبد العزیز نے حدیث جمع کرنے کا حکم دیا ہم نے دفتر کی دفتر حدیثیں لکھیں اورانہوں نے ایک ایک مجموعہ جہاں جہاں ان کی حکومت تھی بھیجا۔ [110]
فقہ
فقہ میں امامت واجتہاد کا درجہ رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں: "کان اماما فقیھا مجتھدا" انھوں نے حضرت عمرؓ کے ان تمام فقہی فیصلوں جو انھوں نے رعایا کے متعلق جمع کیے تھے جمع کرایا تھا۔
شاعری
حضرت عمر بن عبد العزیز کو اگر مروجہ رسمی شاعری سے ذوق نہ تھا،لیکن اخلاقی اشعار پسند کرتے تھے اورکبھی کبھی خود بھی اس رنگ کے اشعار کہتے تھے،ابن جوزی نے سیرت میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں [111] ایک راگ بھی جو مدینہ میں بہت مقبول تھا،آپ کی جانب منسوب تھا،ممکن ہے،مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں جب کہ آپ کی طبیعت عیش وتنعم کی طرف راغب تھی یہ راگ ایجاد کیا ہو۔
خطابت
اگرچہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے بحیثیت خطیب کے کوئی شہرت حاصل نہیں کی،لیکن آپ کے خطبات نہایت مؤثر اوردلپذیر ہوتے تھے،ابن جوزی نے آپ کے متعدد خطبات لکھے ہیں، جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں جو بلیغ خطبات کا بہترین مجموعہ ہے،آپ کے ایک دو خطبے نمونتہ نقل کیے ہیں۔ [112]
علما کی قدر دانی
گذشتہ خلفاء کی بزمِ طرب کی زینت شعرا خطباء اورادیبوں سے تھی،لیکن عمر بن عبد العزیز کا ذوق ان سے مختلف تھا،اس لیے ان کے زمانہ میں شعراکا ہجوم چھٹ گیا اوراس کی جگہ علمائے دین نے لے لی۔ ان کی تخت نشینی کے بعد حسب معمول حجاز اورعراق کے مشہور شعرا میں نصیب جزیر،فرزدق،احوص،کثیر اوراخطل،قصیدے لے لے کر پہنچے اورعرصہ تک ٹھہرے رہے لیکن کسی کو باریابی کی اجازت نہیں ملی،ان کی بجائے علما فقہا کو بلاتے تھے اوران کی قدر دانی کرتے تھے،شعرا کی یہ کس مپرسی دیکھ کر ایک دن جریر نے عون بن عبد اللہ کے ذریعہ جو ایک ممتاز فقیہ تھے،یہ اشعار کہہ کر حضرت عمر بن عبد العزیز کی خدمت میں بھیجے: یا یھا القاری المرخی عمامتہ ھذا زمانک انی ندمضی زمنی اے وہ قاری جس کے عمامہ کا شملہ لٹک رہا ہے یہ تیرا زمانہ ہے،میرا زمانہ گذر گیا ابلغ خلیفتنا ان کنت لاقیہ انی لدی البابکا المصفورفی قرن اگر ہمارے خلیفہ سے ملاقات ہو تو میرا یہ پیغام پہنچادے کہ میں دروازہ پر بیڑیوں میں جکڑا ہوں عون بن عبد اللہ نے عمر بن عبد العزیز سے کہا کہ جریر سے میری آبرو بچائیے،آپ نے جریر کو باریابی کی اجازت دی،اس نے قصیدہ سنایا،جس میں اہل مدینہ کے مصائب مشکلات کا حال تھا،حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے ان کے لیے کپڑا،غلہ اورنقد روپیہ بھیجا اور جریر سے پوچھا بتاؤ تم کس جماعت میں سے ہو، مہاجرین میں ،انصار میں، ان کے اعزہ میں ،مجاہدین میں، اس نے کہا کسی میں نہیں، فرمایا پھر مسلمانوں کے مال میں تمھارا کیا حق ہے،اس نے کہا خدا نے میرا حق مقرر کیا ہے،بشرطیکہ آپ اس کونہ روکیں میں ابن سبیل (مسافر) ہوں دور دراز کا سفر کرکے آپ کے آستانہ پر ٹھہراہوں،آپ نے فرمایا،خیر اگر تم میرے پاس آئے ہو تو میں اپنی جیب سے تم کو بیس روپیہ دیتا ہوں،اس حقیر رقم پر خواہ میری تعریف کرویا مذمت،جریر نے اسے بھی غنیمت سمجھا اوراسے لے کر باہر آیا، دوسرے شعرا نے لپک کر پوچھا،کہو ابو حرزہ کیا معاملہ رہا، اس نے جواب دیا اپنا اپنا راستہ لو یہ شخص شاعروں کو نہیں ؛بلکہ گداگروں کو دیتا ہے۔ مگر علما فقہا اورقراء کی بڑی قدردانی تھی،ان کو دور دور سے بلاکر خواص میں داخل کرتے تھے۔ [113]
زمامِ خلافت ہاتھوں میں لینے کے بعد سالم بن عبد اللہ بن عمر،محمد بن کعب قرظی اور رجاء بن حیوٰۃ ،ریاح بن عبیدہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے تھے [114]میموں بن مہران،رجاء بن حیواۃ،ریاح ابن عبیدہ آپ کے ندیم خاص تھے،ان کے علاوہ اورمتعدد علما آپ کے ہم جلیس تھے۔ [115]
فضائل اخلاق
اگرچہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے مجددانہ کارناموں کے بعد ان کے فضائل اخلاق لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس گلستان سے اس بہا لکا پورا اندازہ ہوجاتا ہے تاہم اس پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ خلافت سے پہلے آپ فطرۃ صالح اورسعید تھے،اس لیے زندگی کے کسی دور میں بھی آپ کا دامن اخلاق داغدار نہ تھا، لیکن خلافت سے پہلے آپ کی زندگی بڑے عیش وتنعم اورشان شکوہ کی تھیں۔ ان کا خود بیان ہے کہ مجھے لباس،عیش پرستی اور عطریات کا جب شوق ہوا،تو میں نے اسے اس قدر پورا کیا کہ میرے علم میں میرے خاندان ؛بلکہ دوسرے خاندانوں میں بھی ایسی زندگی کسی کو نصیب نہ ہوئی ہوگی [116] ان کے شوق اورنفاستِ مزاج کا یہ حال تھا کہ جب ان کے کپڑوں پر ایک مرتبہ دوسروں کی نظر پڑجاتی تھی تو پھر انھیں وہ پرانا سمجھتے تھے[117]ولید کے زمانہ میں ان کو چار چار سو روپیہ کی قیمت کا کپڑا سخت و کرخت معلوم ہوتا تھا، لیکن پھر چودہ درہم کا کپڑا بھی نرم وملیح معلوم ہونے لگا تھا [118]خوشبو کے لیے داڑھی پر عنبر چھڑکتے تھے[119]رجاء بن حیوۃ کا بیان ہے کہ عمر بن عبد العزیزؓ سب سے زیادہ خوش لباس،سب سے زیادہ معطر اورسب سے زیادہ تنجتر کی چال چلنے والے تھے۔ [120] لیکن تختِ خلافت پر قدم رکھنے کے بعد زندگی یکسر بدل گئی ،عیش وتنعم کے سارے سامان چھوٹ گئے اور عیش پروردہ عمر بن عبد العزیز نے ابوذر غفاریؓ اورحسن بصری کا قالب اختیار کر لیا۔ انھوں نے جس طرح دنیا سے دامن جھاڑا،اس کے کچھ حالات اوپر گذر چکے ہیں، ساری املاک بیت المال کو واپس کردی،لونڈی غلام،فرش فروش ،لباس وعطریات عیش وتجمل کے جملہ سامانوں کو بیچ کر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی [121] بیت المال سے گزارہ کے لیے چار سودینار سالانہ لیتے تھے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ لیتے تھے [122]لباس بقدر ستر پوشی اورغذا بقدر لایموت سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔
لباس
لباس میں عموماً صرف ایک جوڑا رہتا تھا، اسی کو دھودھوکر پہنتے تھے [123] مرض الموت میں ایک قمیص کے علاوہ دوسری قمیص نہ تھی،آپ کے سالے مسلمہ بن عبد الملک نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا کہ قمیص میلی ہو گئی ہے،لوگ عیادت کے لیے آتے ہیں،اس لیے دوسری بدلوادو،وہ خاموش رہیں، سلمہ نے دوبارہ کہا،فاطمہ نے جواب دیا، خدا کی قسم اس کے علاوہ دوسرا کپڑا نہیں ہے [124] پھر ایک جوڑا بھی سالم نہ ہوتا تھا ؛بلکہ اس میں پیوند لگے ہوتے تھے۔ [125] بچے بھی اسی تنگی سے بسر کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ کی بچی کے پاس کپڑا نہ تھا آپ نے حکم دیا کہ فرش پھاڑ کر کرتا بنادیا جائے، آپ کی بہن کو خبر ہوئی تو انھوں نے ایک تھان بھجوادیا اورمنع کر دیا کہ عمر سے نہ مانگنا۔ [126] ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادے نے کپڑے مانگے، آپ نے فرمایا میرے کپڑے خیار بن رباح کے پاس رکھے ہیں، ان سے جاکر لے لو، وہ ان کے پاس گئے،انھوں نے گاڑھے کے کپڑے نکال کر دیے،عبید اللہ نے کہا یہ توہمارے پہننے کے لائق نہیں ہیں، خیار نے کہا میرے پاس تو امیر المومنین کے یہی کپڑے ہیں،عبیداللہ نے واپس جاکر حضرت عمر بن عبد العزیز سے بھی وہی عذر کیا،آپ نے فرمایا میرے پاس تو یہی کپڑے ہیں، یہ جواب سُن کر وہ لوٹنے لگے تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے واپس بلا کے کہا اگر اپنے وظیفہ سے پیشگی لینا چاہو، تولے سکتے ہو؛چنانچہ سو درہم دلوادیے اوروظیفہ تقسیم ہونے کے وقت کاٹ گئے۔ [127]
غذا
غذا نہایت معمولی اورسادہ ہوتی تھی،روٹی اورروغن زیتون یا دال روٹی کھاتے تھے ،آپ کے غلاموں کو بھی یہی ملتا تھا،ایک مرتبہ ایک غلام نے شکایت کی کہ روز،روز دال روٹی ملتی ہے، آپ کی بیوی نے جواب دیا،امیر المومنین کی یہی غذا ہے اوریہ غذا بھی پیٹ بھرکر نہ کھاتے تھے، آپ کے غلام کا بیان ہے کہ جب سے آپ خلیفہ ہوئے اس وقت سے وفات تک کبھی شکم سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا۔ [128] اگر کبھی کوئی اچھی چیز کھانے کی خواہش بھی ہوتی تھی تو اس کی مقدرت نہ تھی ایک مرتبہ انگور کھانے کو دل چاہا،بیوی سے پوچھا، تمھارے پاس ایک درہم ہے میں انگور کھانا چاہتا ہوں،انھوں نے جھلا کر جواب دیا، امیر المومنین ہوکر تم کو ایک درہم کی استطاعت نہیں، فرمایا یہ جہنم کی ہتکڑیوں سے میرے لیے زیادہ آسان ہے۔ [129] ان کی یہ زندگی دیکھ کر ان کی بیوی فاطمہ نے (جنھوں نے امارت کے گہوارہ میں پرورش پائی تھی، بھی اسی رنگ میں اپنے کو رنگ لیا تھا اوربناؤ سنگار بالکل ترک کر دیا تھا،ایک مرتبہ ایک دولت مند گھرانے کی خاتون نے اس حالت میں دیکھ کر پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میرے شوہر کی یہی پسند ہے۔ [130]
ذمہ داری کا احساس اورخشیتِ الہیٰ
حکومت اورسلطنت دلوں کو سخت اورمواخذہ سے بے خوف بنادیتی ہے،لیکن عمر بن عبد العزیز کے دل کو ا س نے خشیتِ الہیٰ سے لبریز کر دیا تھا، وہ خلافت کی ذمہ داریوں کے احساس سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ یہ مشغلہ کبھی گھر میں بھی تنہائی میں ہوتا تھا،ایک دن بیوی نے دیکھ لیا، اس کی وجہ پوچھی آپ نے ٹالنا چاہا مگر بیوی نے اصرار کیا اورکہا میں بھی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہتی ہوں، اس وقت آپ نے بتایا کہ میں نے اپنے بارہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اورسیاہ سپید جملہ امور کا ذمہ دار ہوں،اس لیے جب میں بیکس غریب محتاج،فقیر،گم شدہ قیدی اوراس قبیل کے دوسرے آدمیوں کو یاد کرتا ہوں جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور خدا ان کے بارہ میں مجھ سے سوال کرے گا اوررسول اللہ ﷺ ان کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے،اگر میں خدا کے سامنے ان کا کوئی عذر اوررسول اللہ ﷺ کے سامنے کوئی دلیل نہ پیش کرسکا تو مجھے خوف پیدا ہوجاتا ہے اورمیرے آنسو نکل آتے ہیں اورجس قدر میں ان چیزوں پر غور کرتا ہوں اسی قدر میرا دل خوفزدہ ہوتا ہے۔ [131] بعض لوگ آپ کے گریہ وبکا پر ملامت کرتے، آپ جواب دیتے تم لوگ مجھے رونے پر ملامت کرتے ہو؛حالانکہ اگر فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی ہلاک ہوجائے تو عمر اس کے بدلہ میں پکڑاجائے گا۔ [132]
ایک مرتبہ آپ نے ایک فوجی افسر سلیمان بن ابی کریمہ کو لکھا
خدا کی تعظیم وخشیت کا سب سے زیادہ مستحق وہ بندہ ہے،جس کو اس نے اس آزمائش میں ڈالا جس میں میں ہوں،خدا کے نزدیک مجھ سے زیادہ سخت حساب دینے والا اور اگر اس کی نافرمانی کروں تو مجھ سے زیادہ ذلیل کوئی نہیں ہے میں اپنی حالت سے سخت دل گرفتہ ہوں، مجھے خوف ہے کہ میرے یہ حالات مجھے ہلاک نہ کر دیں،مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جانے والے ہو تو برادرِمن جب تم میدان جہاد میں پہنچ جاؤ تو خدا سے دعا کرو کہ وہ مجھے شہادت عطا فرمائے، اس لیے کہ میری حالت نہایت سخت اورمیرا خطرہ بہت بڑا ہے۔ [133]
موت اورقیامت کا خوف
سلاطین کی بزمِ طرب میں موت اورقیامت کے ذکر اورخوف کا گذر بھی نہیں ہوتا،لیکن عمر بن عبد العزیزؓ کی مجلس بزم عزا ہوتی تھی،رات کو علما جمع ہوکر موت اورقیامت کا ذکر کرکے اس طرح روتے تھے ،جیسے ان کے سامنے جنازہ رکھا ہو۔ [134] رات رات بھر جاگ کر موت پر غور و فکر کیا کرتے تھے اورقبر کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے بے ہوش ہوجاتے تھے،ایک مرتبہ اپنے ایک ہم جلیس سے فرمایا میں رات بھر غور و فکر میں جاگتا رہا، اس نے پوچھا کس چیز کے متعلق،فرمایا قبر اور اہل قبر کے متعلق،اگر تم مردے کو تین دن کے بعد قبر میں دیکھو تو انس ومحبت کے باوجود اس کے پاس جاتے ہوئے خوف زدہ ہوگے تم ایسا گھر دیکھو گے جس میں خوش لباسی اورخوشبو کی بجائے کیڑے رینگ رہے ہوں گے،پیپ بہ رہی ہوگی اوراس میں کیڑے تیر رہے ہوں گے،بدبو پھیلی ہوگی،کفن بوسیدہ ہو چکا ہوگا،یہ کہہ کر ہچکی بندھ گئی اوربیہوش ہوکر گرپڑے،ان کی بیوی پانی چھڑک کر ہوش میں لائیں۔ یزید بن حوشب کا بیان ہے کہ میں نے حسن بصری اورعمر بن عبد العزیز سے زیادہ کسی شخص کو قیامت سے ڈرنے والا نہیں دیکھا،معلوم ہوتا تھا ، گویا دوزخ انھی کے لیے بنائی گئی ہے۔ [135]
آیات قرآنی سے تاثر
قرآن مجید کی موعظت آیات پڑھ کر بے حال ہوتے جاتے ،ایک شب کو یہ آیت: يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ،وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [136] جس دن لوگ مثل بکھرے ہوئے پردانوں کے ہوں گے،اورپہاڑ مثل دھنکے ہوئے اون کے ہوں گے۔ تلاوت کرکے زور سے چیخے: وسوء صباحاہ اوراچھل کر اس طرح گرے کہ معلوم ہوتا تھا کہ دم نکل جائے گا،پھر اس طرح ساکن ہو گئے کہ معلوم ہوتا تھا ختم ہو گئے پھر ہوش میں آگئے، ایک دن نماز میں یہ آیت: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ [137] ان کو بتادو کہ ان سے باز پرس کی جائے گی۔ پڑھی تو اتنے متاثر ہوئے کہ اسی کو بار بار دہراتے رہے اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ [138]
دیانت
آپ کے فضائل اخلاق میں دیانت کا وصف سب سے زیادہ نمایاں ہے مسلمانوں کے ماں کی حفاظت میں آپ نے دیانت کا جو نمونہ پیش کیا ، اس کی مثال کسی قوم کی تاریخ میں مشکل سے مل سکتی ہے۔ بیت المال سے کبھی معمولی فائدہ اٹھانا بھی گوارانہ کیا،رات کو جب تک خلافت کے کام انجام دیتے تھے، اس وقت تک بیت المال کی شمع جلاتے تھے،اس کے بعد گل کرکے اپنا ذاتی چراغ جلواتے تھے۔ [139] بیت المال کی جانب سے فقراء اورمساکین کے لیے جو مہمان خانہ تھا،اس کے باورچی خانہ سے اپنے لیے پانی بھی گرم نہ کراتے تھے، ایک مرتبہ غفلت میں آپ کا ملازم ایک مہینہ تک اس مطبخ سے آپ کے وضو کا پانی گرم کرتا رہا،آپ کو معلوم ہوا تو اتنی لکڑی خرید کر باورچی خانہ میں داخل کرادی۔ [140] ایک بار غلام کو گوشت کا ٹکڑا بھوننے کا حکم دیا وہ اسی مطبخ سے بھون لایا آپ نے اسے ہاتھ نہ لگایا اورغلام سے فرمایا تم ہی کھالو،میری قسمت کا نہ تھا۔ [141]
خلافت کے کاموں کے سلسلہ میں جو لوگ آتے تھے وہ اسی مہمان خانہ میں مہمان ہوتے تھے حضرت عمر بن عبد العزیز ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتے تھے،ایک مرتبہ چند مہمانوں نے کھانے سے انکار کر دیا کہ جب تک آپ نہ کھائیں گے ہم بھی نہ کھائیں گے،اس دن سے مجبور ہوکر مہمانوں کے ساتھ کھانے لگے،مگر اس کا معاوضہ دے دیتے تھے۔ [142] ایک مرتبہ بہت سے سیب آئے، آپ انھیں عام مسلمانوں میں تقسیم فرما رہے تھے،آپ کا چھوٹا بچہ ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا،آپ نے اس کے منہ سے چھن لیا وہ رونے لگا اورجاکر اپنی ماں سے شکایت کی ماں نے بازار سے سیب منگادیئے،عمر بن عبد العزیز گھرآئے تو انھیں سیب کی خوشبو معلوم ہوئی،پوچھا فاطمہ کوئی سرکاری سیب تو تمھارے پاس نہیں آیا ہے،انھوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا، آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے اس کے منہ سے نہیں چھینا تھا، اپنے دل سے چھینا تھا،لیکن مجھے یہ پسند نہ تھا کہ میں مسلمانوں کے حصہ کے ایک سیب کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضورمیں اپنے نفس کو برباد کروں۔ [143]
آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا، ایک مرتبہ آپ نے اس کی خواہش ظاہر کی،آپ کی بیوی فاطمہ نے وہاں کے حاکم ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا،انھوں نے بہت سا شہد بھجوادیا،فاطمہ نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے پیش کیا آپ نے شہد دیکھ کر فرمایا معلوم ہوتا ہے،تم نے ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا تھا، انھی نے بھیجا ہے؛چنانچہ کل شہد بہجواکر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی اور ابن معدیکرب کو لکھ بھیجا کہ تم نے فاطمہ کے کہلانے پر شہد بھیجا ہے،خدا کی قسم اگر آیندہ ایسا کیا تو اپنے عہدہ پر نہ رہو گے اورتمہارے چہرہ پر نظر نہ ڈالوں گا۔ [144] ایک مرتبہ آپ کی حاملہ بیوی کے لیے تھوڑے سے دودھ کی ضرورت تھی،لونڈی مہمان خانہ سے ایک پیالہ میں دودھ لے آئی، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے، اس نے کہا بی بی کے لیے دودھ کی ضرورت تھی،اگر اس وقت دودھ نہ دیا جائے گا تو اسقاط کا اندیشہ ہے،اس لیے یہ دودھ دارالضیافۃ سے لے آئی ہوں، یہ سن کر لونڈی کا ہاتھ پکڑا اورچلاتے ہوئے بیوی کے پاس لائے اورکہا اگر حمل فقراء ومساکین کے کھانے کے علاوہ اورکسی چیز سے قائم نہیں رہ سکتا تو خدا اس کو قائم نہ رکھے،یہ برہمی دیکھ کر بیوی نے دودھ واپس کرادیا۔ [145]
احتیاط کا آخری نمونہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بیت المال کا مشک آپ کے سامنے لایا گیا،آپ نے ناک بند کرلی کہ اس کی خوشبو نہ جانے پائے،لوگوں نے عرض کیا امیر المومنین اس کی خوشبو سونگھ لینے میں کیا ہرج ہے،فرمایا مشک کا انتقاع یہی ہے۔ [146] تختِ خلافت پر قدم رکھنے کے بعد ہدایاوتحائف کا سلسلہ بند کر دیا تھا ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کو سیب اور دوسرے میوے ہدیہ میں بھیجے، آپ نے واپس کر دیا،بھیجنے والے نے آپ سے کہا ہدیہ تو رسول اللہ ﷺ قبول فرماتے تھے، آپ نے جواب دیا،لیکن ہمارے لیے اور ہمارے بعد والوں کے لیے وہ رشوت ہے ،ابن جوزی نے اس قبیل کے اوربہت سے واقعات لکھے ہیں۔
توکل
توکل اوراعتماد علی اللہ نے تمام خطرات سے بے پروا کر دیا تھا،جس زمانہ سے امیر معاویہ پر حملہ ہوا تھا، اس زمانہ سے خلفاء کی حفاظت کا بڑا اہتمام رہتا تھا سینکڑوں سپاہی پہرہ پر متعین رہتے تھے،عمر بن عبد العزیز نے دوسرے سامان تجمل کے ساتھ اس کو بھی ختم کر دیا تھا، ایک مرتبہ بعض ہوا خواہوں نے عرض کیا کہ گذشتہ خلفاء کی طرح آپ بھی کھانا دیکھ بھال کر کھایا کریں اورحملہ کی حفاظت کے لیے نماز میں پہرہ کا انتظام رکھا کریں، طاعون میں ہٹ جایا کریں، یہ سُن کر فرمایا خدایا اگر میں تیرے علم میں روز قیامت کے علاوہ اورکسی دن سے ڈروں توتو میرے خوف کو اطمینان نہ دلانا۔ [147]
تواضع ومساوات
ترفع،کبر،خودنمائی اورعدم مساوات وغیرہ امارت کے لوازم میں ہیں،خود حضرت عمر بن عبدالعزیزمیں خلافت سے پہلے بڑی تمکنت تھی،لیکن خلافت کے بعد سراپا عجزوانکسار اورمساوات کا نمونہ بن گئے تھے۔ اوپر گذر چکا ہے کہ خلافت کے بعد انھوں نے تمام شاہی امتیازات مٹادیئے تھے اور فرمایا تھا کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں ،سرکاری پہرہ داروں کو تعظیم کے لیے اٹھنے کی ممانعت کردی اورخود ان کے ساتھ برابر بیٹھتے تھے۔ [148]
لونڈی غلاموں کے ساتھ برتاؤ اتنا مساویانہ تھا کہ کبھی کبھی آپ خود بھی ملازمین کی خدمت کرتے تھے،ایک مرتبہ پنکھا جھلتے جھلتے ایک لونڈی کی آنکھ لگ گئی،آپ نے پنکھا لے کر اس کو جھلنا شروع کر دیا،اس کی آنکھ کھلی تو گھبرا کر چلائی، آپ نے فرمایا آخر تم بھی میری طرح انسان ہو،تم کو بھی گرمی لگتی ہوگی،جس طرح تم مجھے پنکھا جھل رہی تھی میں نے تم کوجھلنا مناسب سمجھا۔ [149] جنازہ میں شرکت کے وقت خلفاء کے لیے علاحدہ چادر بچھائی جاتی تھی؛چنانچہ حسب معمول جب آپ کے لیے پہلی مرتبہ بچھائی گئی تو آپ نے اس کو پیروں سے ہٹادیا۔ [150]
ملازموں کے آرام میں خلل نہ ڈالتے تھے اور ان کے آرام کے اوقات میں خود اپنے ہاتھ سے کام کر لیتے تھے،ایک مرتبہ رجاء بن حیوٰۃ سے گفتگو میں رات گزرگئی اورچراغ جھلملانے لگا،پاس ہی ملازم سویاہوا تھا،رجاء نے کہا اسے جگادوں، فرمایا سونے دو،رجاء نے خود چراغ درست کرنے کا ارادہ کیا،آپ نے روک دیا کہ مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے اور خود اٹھ کر زیتون کا تیل لیا اورچراغ ٹھیک کرکے پلٹ کر فرمایا جب میں اٹھاتھا تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اوراب بھی عمر بن عبد العزیز ہوں۔ [151] اس تواضع اورمساوات کی وجہ سے ان لوگوں کو جو خلیفہ میں جاہ وجلال دیکھنے کے عادی تھے،آپ کے پہچاننے میں دقت ہوتی تھی ،حکم بن عمرو الرعینی کا بیان ہے کہ عمروبن عبد العزیز ایک حلقہ سے اٹھ کر دوسرے حلقہ میں بیٹھ جاتے تھے اور وہ اجنبی جو آپ کو پہچانتے نہ تھے، انھیں جب تک اشارہ سے بتایا نہ جاتا، اس وقت تک وہ پہنچان نہ سکتے تھے۔ [152] اس مختصر تذکرہ میں ان کے اخلاقی کمال کا احاطہ مشکل ہے اس لیے صرف چند نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
دورِ خلافت کی خصوصیت
بیان کیا جاتا ہے کہ خلافت سے پہلے عمر بن عبد العزیز کے سامنے تین ہزار درہم کا لباس پیش کیا گیا تو آپ کو پسند آیا۔ پھر دوران میں خلافت آپ کے خریدنے کے لیے کپڑے بھیجے گئے تو آپ نے تین درہم والا کپڑا خریدا اور فرمایا: کاش کوئی اس سے بھی موٹا اور کھردرا (کپڑا) ہوتا کیونکہ یہ بھی پتلا ہے! اے بھائی غور کر، کہاں وہ (تین ہزار) اور کہاں یہ (تین درہم)، اللہ آپ سے راضی ہو، آپ جیسے لوگوں کو ہی اللہ کے بندوں کے امور سنبھالنے چاہئیں۔[153]
بنی امیہ کی حکومت کے 92 سالہ دور میں حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کا زمانۂ خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح بہت ہی مختصر تھا۔ لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت اہم زمانہ تھا اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کرکے عہد صدیقی اورعہد فاروقی کو دنیا میں پھر واپس لے آئے تھے۔
منصب خلافت سنبھالنے کے بعد مشورہ کرنا
جب عمر بن عبد العزیز نے منصبِ خلافت سنبھالا تھا تو انھوں نے سالم بن عبد اللہ، محمد بن کعب القرظی، رجا بن حیوة کو بلوایا اور کہا: مجھے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے؛ اب مجھے مشورہ دو۔ انھوں نے تو خلافت کو آزمائش جانا، جبکہ آپ اور آپ کے ساتھی اِسے نعمت تصور کرتے ہیں۔ اس وقت سالم بن عبد اللہ نے انھیں کہا تھا: اگر آپ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو دنیا میں روزہ رکھ لیں اور موت سے ہی اسے افطار کریں۔ محمد بن کعب نے انھیں فرمایا: اگر آپ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں؛ تو مسلمان بزرگوں کو اپنا باپ سمجھیں، اپنے جتنوں کو اپنا بھائی سمجھیں اور چھوٹوں کو اپنا بیٹا جانیں؛ اپنے باپ کا احترام کریں، اپنے بھائی کی عزت کریں اور اپنے بیٹے سے شفقت سے پیش آئیں۔ رجا بن حیوة بولے: اگر آپ کل عذاب الہی سے بچنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے بھی وہی ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، اس کے بعد چاہے آپ کی موت آ جائے۔[154]
منصب خلافت سنبھالنے کے بعد کے واقعات
مجھے بتایا گیا کہ جب عمر بن عبد العزیز نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک بڑے شہزادے کی جاگیر واپس لے لی، جو اسے سلیمان بن عبد الملک اور ولید بن عبد الملک نے دی تھی۔ پھر جب عمر بن عبد العزیز کا انتقال ہوا اور یزید بن عبد الملک نے خلافت سنبھالی تو وہ شہزادہ ان کے پاس گیا اور بولا: آپ کے بھائی سلیمان امیر المومنین اور ولید نے مجھے جاگیر عنایت کی تھی جو مجھ سے امیر الومنین عمر بن عبد العزیز نے چھین لی، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے وہ واپس لوٹا دیں۔ وہ بولے: میں ایسا نہیں کرنے والا۔ پوچھا: کیوں؟ فرمایا: کیونکہ حق وہی ہے جو عمر بن عبد العزیز نے کیا۔ پوچھا: وہ کیسے؟ فرمایا: کیونکہ میرے بھائیوں نے تجھ پر احسان کیا لیکن جب تو نے ان کا ذکر کیا تو ان کے ساتھ نہ لگایا، جبکہ عمر بن عبد العزیز نے تیرے ساتھ برا کیا لیکن جب تو نے ان کا ذکر کیا تو ساتھ لگایا۔ اس سے مجھے پتا چلا کہ عمر نے تیرے معاملے میں اپنی خواہش کے مقابلے میں اللہ کو ترجیح دی اور بیشک سلیمان بن عبد الملک اور ولید نے اللہ کے حق پر اپنی خواہش کو ترجیح دی؛ اللہ کی قسم میں تو تجھے یہ نہیں دے سکتا۔ یہ واقعہ حکمرانوں کے الفاظ پر غور کرنے کا بہترین واقعہ بیان کیا گیا ہے۔[155]
سرکاری ملازم کا شکوہ اور آپ کا جواب
عمر بن عبد العزیز کے ماتحت ایک سرکاری ملازم نے ان سے شکوہ کیا تو آپ نے اُسے لکھ بھیجا: بھائی! میں تجھے دوزخیوں کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا اور طویل جاگنا یاد دلاتا ہوں، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کی طرف مت نکل پڑیں کہ وہ تیری انتہا ہو اور کوئی امید بھی نہ رہے۔ جب اُس نے وہ خط پڑھا تو سفر کرتا کراتا سیدھا آپ کے قدموں میں آ پڑا۔ آپ بولے: تو یہاں کیوں آ گیا؟ وہ بولا: آپ کے خط نے تو میرا دل دہلا دیا؛ اب میں اللہ سے ملنے تک عہدہ قبول نہیں کروں گا۔[156]
کارنامے
آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے بھی وسیع پیمانے پر اقدامات کیے۔ خلیفہ بننے سے قبل نومسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا، آپ نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کردی۔ اس پر صرف مصر میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی اور وہاں کے حاکم سے آپ سے شکایت کی کہ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس پر آپ نے لکھا کہ "جزیہ بہرحال ختم کردو، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے، محصل بنا کر نہیں"۔
آپ نے بیت المال کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا، دفتری اخراجات میں تخفیف کردی۔ ملک کے تمام معذورین اور شیر خوار بچوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ نو مسلموں پر جزیہ معاف کردینے سے آمدنی گھٹنے کے باوجود سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کے وظائف مقرر کیے لیکن ناجائز آمدنیوں کی روک تھام، ظلم کے سدباب اور مال کی دیانتدارانہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔
آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا، شراب کی دکانوں کو بند کروادیا اور حکم دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے۔
آپ نے اپنے دور میں علم کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے تدریس و اشاعت میں مشغول علمائے کرام کے لیے بیت المال سے بھاری وظیفے مقرر کرکے ان کو فکرِ معاش سے آزاد کر دیا۔ آپ کا سب سے بڑا تعلیمی کارنامہ احادیثِ نبوی کی حفاظت و اشاعت ہے۔
آپ کے دور میں بڑے پیمانے پر تبلیغ اسلام کے باعث ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے جن میں سندھ کے راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ بھی شامل تھا۔
پانچویں خلیفہ راشد
عنان حکومت جب بنو امیہ کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے خلافت کو موروثی بنا کر ملوکیت میں تبدیل کر دیا حالانکہ اسلامی نظریات کے مطابق خلافت جمہوری ادارہ تھی۔ خلافت راشدہ کا نظام عوام کی رائے اور مشورہ اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر قائم تھا۔ ان میں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ غلام۔ خلیفہ اپنے اعمال کے لیے خدا اورخلق دونوں کے سامنے جواب دہ تھا۔ عمر بن عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپ نے زمانے کی باگ پھیر کر اس کا ناتا ایک بار پھر خلافت راشدہ سے جوڑدیا۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ نے عوام کے سامنے جاکر اپنی دست برداری کا اعلان کیا۔ اور جب تک عوام نے ان کو خلیفہ نہ چنا آپ اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکاری رہے۔ آپ نے ہر معاملہ میں حضرت عمر فاروق کی مثال کو سامنے رکھا اور اپنے فکروعمل سے ایک بار پھر عہد فاروقی کی یاد تازہ کردی۔ آپ سے پہلے مختلف حکمران اسلام کے دیے ہوئے نظام مذہب و اخلاق اور سیاست و حکومت میں طرح طرح کی رنگ آمیزیاں کر رہے تھے۔ آپ نے ان سب خرابیوں سے حکومت و معاشرہ کو پاک کرنے کی کوششیں کیں۔ ملوکیت کی امتیازی خصوصیات مٹانے کی پوری کوشش کی۔ آپ نے بیت المال کو پھر قومی امانت کا درجہ دیا۔ چھوٹے بڑے کے امتیازات، جبر و اسبتداد کے نشانات اور حکمرانوں کے ظلم و ستم کو ختم کرکے آپ نے خلافت راشدہ کے نقش قدم پر چل کر اسلام کا نظام عدل دوبارہ قائم کیا۔ آپ نے خلافت کی موروثی حیثیت ختم کرنے کے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کی ریشہ دوانیوں نے انھیں یہ تبدیلی لانے کی مہلت نہ دی۔ تجدید و اصلاح کے اس کارنامہ کی بدولت آپ کا زمانہ خلافت راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے اور آپ کوپانچواں خلیفہ راشد مانا جاتا ہے۔
کتابیات
- '"حضرت عمر بن عبد العزیز کی 425 حکایات'" از المدینۃالعلمیہ(دعوت اسلامی) ناشر مکتبۃالمدینہ
- اجالے ماضی کے از ڈاکٹر ابو طالب انصاری
- عمر بن عبد العزیز از عبد السلام ندوی
- سیرت عمر بن عبد العزیز از ابو محمد عبد اللہ بن عبد الحکم
- تاریخ اسلام (حصہ دوم) از شاہ معین الدین احمد ندوی
- عظیم مسلمان شخصیات (حصہ اول) از کلیم چغتائی
مزید دیکھیے
حوالہ جات
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.