Remove ads
صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم From Wikipedia, the free encyclopedia
جُنْدُب بن جُنَادَة رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات 31ھ) ابوذر کنیت، شیخ الاسلام لقب۔ قبیلہ بنو غفار سے تھے۔آپ اپنی کنیت ابوذرؓ غِفَارِی کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ نہ مکہ سے تھے نہ یثرب سے تعلق تھا بلکہ ایک ایسی جگہ سے تھے جو مسافروں کے لیے نہایت ہی خطر ناک جگہ تھی - غِفَار-رہزنی اور تجارتی قافلوں کو لوٹنا بنو غفار کا پیشہ تھا۔جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ خبر بنو غفار کے اس نوجوان تک بھی پہنچی جس کی رنگت میں سرمئی غالب تھی- بلند ترین قد, دبلے اور پھرتیلے جسم کے مالک تھے۔کردار میں سادہ مزاجی اقوال میں بے باکی ان کی شخصیت کو ایک خاص پہچان دیتی تھی۔آپ کبھی بت پرستی کے قریب نہیں گئے۔ابوذرؓ نے اپنے بھائی انیس کو یہ ذمہ دیا کہ مکہ کے حالات معلوم کرے اور اس شخص کے بھی جس نے نبوت کا اعلان کیا اور اک اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ان کے بھائی نے واپس آکر مختصر حالات بیان کیے کیونکہ مشرکین مکہ مکرمہ کی وجہ سے تفصیل معلوم کرنا مشکل کام تھا۔ابو زر غفاری نے کہا اتنا میرے لیے کافی نہیں خود مختصر سامان سفر باندھا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے جاتے وقت بھائی نے آگاہ کیا کہ مکہ کی قوم اس نبی کے خلاف ہیں اور وہ ان کے دشمن ہیں اور انھیں بھی تکلیف دیتے ہیں جو ان سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں۔جب یہ مکہ پہنچے تو اسی الجھن میں رہے کی کس سے ملے اور کس سے نہیں اسی الجھن میں وقت گذرا اور سامان سفر ختم ہو گیا۔اسی حالت میں اک جگہ سے گذر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک معتبر شخصیت پر پڑی جو مسکینوں کو کھانا کھلا رہے تھے دیکھنے پر بہت ہی بھلے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ جیسے ابوذرؓ نے غور کیا ویسے ہی انھوں نے بھی بھی ابوذرؓ پر غور کیا۔وہ ابوبکرؓ تھے۔ انھیں ابوبکرؓ اپنے گھر لے گئے اور خوب مہمان نوازی کی تین دن گذر گئے لیکن ابوذرؓ غفاری نے ان کے سامنے کچھ ذکر نہیں کیا کیونکہ ابوذرؓ غفاری اب بھی الجھن میں ہی تھے۔آخر ابوبکرؓ نے ان سے پوچھ لیا نہ تم تاجر نظر آتے ہو نہ تمھارے آمد کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔تمھارا مقصد کیا ہے اور تمھاری منزل کیا ہے۔یہ سن کر ابوذرؓ نے ہمت باندھی اور کہا کہ وعدہ کرو کہ جو میں سوال کروں اس کا صحیح جواب دو گے اور مجھے تکلیف نہیں پہنچاؤ گے اور یہ راز ہی رکھو گے۔ابوبکرؓ صدیق نے وعدہ کیا- ابوذرؓ نے ان سے مکہ آنے کا ارادہ بیان کیا اور یہ اللہ کی منشا تھی کہ آپ ابوبکر صدیقؓ کے مہمان تھے اور ابوبکرؓ بلا تاخیر انھیں آپ ﷺ کے پاس لے کر گئے۔آپ ﷺ نے ان کے سامنے جب قرآن پڑھا تو بے ساختہ ابوذرؓ نے درمیان میں ہی کلمہ پڑھ کر گواہی دی جس سے آپ ﷺ بے حد خوش ہوئے۔ان کی بے باکی کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ ابوذرؓ نے مشرکین مکہ کے درمیان با آواز بلند مسلمان ہونے کا اعلان کیا جس سے مشتعل ہوکر مشرکین نے آپ کو بہت زدوکوب کیا لیکن آپ ﷺ کے چاچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابھی ایمان نہ لائے تھے درمیان میں حائل ہو گئے اور کہا یامعاشرۃ القریش! یہ شخص بنو غِفَار سے تعلق رکھتا ہے جہاں سے ہمارے تجارتی قافلوں کا گذر ہوتا ہے یہ سنتے ہی سب خوف سے پیچھے ہٹ گئے اس طرح ابوذرؓ مشرکین کے چنگل سے چھوٹے آپ اسلام لانے والے پانچویں یا چھٹے شخص تھے اور بیرون مکہ سے آکر اسلام لانے والے پہلے شخص تھے آپ ﷺ سے پہلی ملاقات میں السلام علیکہ یا رسول اللہ یہ الفاظ سب سے پہلے ابوذرؓ نے استعمال کیے آپ ﷺ کے کہنے پر آپ نے اپنے علاقے میں جاکر دعوت دی آپ کے خاندان سمیت اکثر لوگ ایمان لے آے- بقیہ تب ایمان لائے جب آپ ﷺ مدینہ میں تھے آپ ﷺ نے بنو غفار کے لیے دعا فرمائی غِفٰارُُ غَفَرَالَلہُ لَہُمْ اے اللہ بنو غفار کو بخش دے دنیا اور مال سے بے رغبتی: ایک دفع ایک صحابی ابوذرؓ کے کمرے میں آے تو حیران رہ گئے سارا حجرہ خالی پڑا ہے تو پوچھا آپ کی ضروریات کا سامان کہاں ہے تو آپ نے فرمایا وہ سب سامان میں نے اپنے محل میں محفوظ رکھا ہے! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کو جانے لگے چونکہ یہ غزوہ بڑی سخت گرمی میں ہونا تھا، لمبا سفر تھا اور جنگلوں کو طے کرنا تھا اور مقابلہ بھی بہت بڑی فوج سے تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرما دیا تھا تاکہ دشمن کے مقابلہ کے لیے پوری تیاری کر لیں یہ اصحاب کے لیے آزمائش تھی۔یہ سفر اتنا دشوار تھا کہ اونٹ بھی تھک کر نکمے ہو جاتے۔اس سفر میں بار ہا اندراج ہوا اگر کوئی پیچھے رہ جاتا تو اس کی اطلاع آپﷺ کو دی جاتی۔ایک مرحلہ ایسا آیا کہ ابوذرؓ پیچھے رہ گئے اس کی اطلاع آپﷺ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا جانے دو اگر ان کی شرکت سودمند ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے تم کو ملا دے گا اور اس کے خلاف ہے تو اللہ نے تم کو ان سے مطمئن کر دیا ہوا یہ تھا کہ ابوذرؓ کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا آپ نے بلا تاخیر اپنا سامان پشت پر ڈالا اور نبی صلی الله عليه وسلم کے پیچھے چل کھڑے ہوئے آپ ﷺ کسی منزل پر فروکش تھے ایک صحابی کی نظر دور سے آتے ہوئے ایک شخص پر پڑی انھوں نے آپ ﷺ کو اطلاع دی آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر ہوں گے شناخت کرنے پر پتہ چلا ابوذرؓ ہی ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ ابوذر پر رحم کرے وہ تنہا پیدل آ رہے ہے تنہائی میں ان کو موت آے گی اور تنہا قبر سے اٹھاے جائے گے زید بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہے کہ میں ربذہ سے گذر رہا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ دکھائی دیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آ گئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ سے میرا اختلاف (قرآن کی آیت) ”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے“ کے متعلق ہو گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ (جو ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے) کے یہاں میری شکایت لکھی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ (وہاں جب پہنچا) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انھوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کر لو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں (ربذہ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔اسی ویران مقام پر آپ نے اپنی بیوی اور خادم کے ساتھ وقت گزارا آخری وقت میں دونوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد غسل دے کر اور کفنا کر جنازہ شارع عام پر رکھ دینا اور جو کوئی یہاں سے گذرے ان سے کہنا یہ ابوذرؓ صحابیِ رسول اللہ کا جنازہ ہے آپ تدفین میں ہماری مدد کریں یہ کہ کر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس کہ بعد آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا اور آپ کے جنازے کو تیار کر کے راستہ کے کنارے پر رکھ دیا گیا اتفاقاً کچھ ہی دیر بعد وہاں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہل عراق کی ایک جماعت کو لے کر عمرہ کے ارادہ سے مکہ کے لیے اسی راستے سے گذر رہے تھے انھوں نے اچانک جنازہ دیکھا اسی وقت ابوذرؓ کا خادم قافلے کے قریب آیا اور کہا یہ ابوذرؓ صحابی رسول اللہ کا جنازہ ہے آپ تدفین میں ہماری مدد کرے یہ سننا تھا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ زار وقطار رونے لگے پھر عبد اللہ بن مسعود نے واقعہ تبوک کا ذکر کیا رسول اللہ کی بات ابوذرؓ کے متعلق آج بالکل سچ ہو گئی پھر سب سوا ریوں سے اترے اور تدفین عمل میں آئی پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعے کا ذکر ہر ایک سے کر تے تھے ۔[3][4][5] [6] [7]
ابو ذر غفاری | |
---|---|
(عربی میں: أَبُو ذَرّ ٱلْغِفَارِيّ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: جُنْدَب بن جُنادَة بن سُفيان ٱلْغِفَارِيّ ٱلْكِنَانِيّ) |
پیدائش | حجاز |
وفات | سنہ 651ء [1] ربذہ |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | انس بن مالک |
پیشہ | واعظ ، محدث ، تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | فتح مکہ ، غزوہ حنین ، اسلامی فتح مصر ، عرب بازنطینی جنگیں |
درستی - ترمیم |
جندب نام ، ابوذر کنیت "مسیح الاسلام" لقب تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، جندب بن جنادہ ابن قیس بن عمروبن ملیل بن صعیر بن حزام بن غفار بن ملیل بن حمزہ بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدر کہ غفاری، ماں کا نام رملہ تھا اور قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتی تھیں۔ [8]
حضرت ابوذرؓ کا قبیلہ بنو غفار رہزنی کیا کرتا تھا، جاہلیت میں ابوذرؓ کا بھی یہی پیشہ تھا اور وہ نہایت مشہور راہزن تھے، تن تنہا نہایت جرأت اور دلیری سے قبائل کو لوٹتے تھے؛ لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کی زندگی میں دفعۃ انقلاب ہوا اور ایسا سخت ہوا کہ رہزنی یکلخت ترک کرکے ہمہ تن خدا پرستی کی طرف مائل ہو گئے، چنانچہ ظہور اسلام کے پہلے جب سارا عرب ضلالت میں مبتلا تھا وہ خدا کی پرستش کرتے تھے،ابو معشرؓ راوی ہیں کہ ابوذرؓ غفاری جاہلیت ہی سے موحد تھے، خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتے تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے، ان کی خدا پرستی عام طور پر لوگوں میں مشہور تھی، چنانچہ جس شخص نے ان کو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے ظہور کی اطلاع دی ، اس کے الفاظ یہ تھے کہ "ابوذرؓ" مکہ میں تمھاری طرح ایک شخص لا الہ الا اللہ کہتا ہے [9] ابوذرؓ کی خدا پرستی صرف اعتراف توحید تک محدود نہ تھی ؛بلکہ جس طرح بن پڑتا تھا نماز بھی پڑہتے تھے، وہ خود کہتے تھے کہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے کے تین سال قبل سے نماز پڑھتا تھا ، لوگوں نے پوچھا کس کی نماز پڑہتے تھے کہا خدا کی پھر پوچھا کس طرف رخ کرتے تھے جواب دیا جس طرف خدا پھیر دیتا، [10] اینما تولوافثم وجہ اللہ، ع ہر جا کنیم سجدہ بآں آستان رسید۔ [11][12]
چونکہ ابوذرؓ جاہلیت ہی سے راہِ حق کے متلاشی تھے، اس لیے حق کی پکار سنتے ہی لبیک کہا اور اس وقت دعوت حق کا جواب دیا ، جب چار آدمیوں کے سوا ساری دنیا کی زبانیں اس اعلانِ حق سے خاموش تھیں، اس اعتبار سے اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے، ان کے اسلام کا واقعہ خاص اہمیت رکھتا ہے یہ دلچسپ داستان خود ان کی زبان سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ جب میں قبیلہ غفار میں تھا تو مجھ کو معلوم ہوا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، میں نے اپنے بھائی کو واقعہ کی تحقیق کے لیے بھیجا وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا، کہو کیا خبر لائے؟ انھوں نے کہا خدا کی قسم یہ شخص نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، اس قدر مجمل بیان سے میری تشفی نہیں ہوئی، اس لیے میں خود سفر کا مختصر سامان لے کر مکہ چل کھڑا ہوا، وہاں پہنچا تو یہ دقت پیش آئی کہ میں رسول اکرم کو پہچانتا نہ تھا اور کسی سے پوچھنا بھی مصلحت نہ تھی، اس لیے خانۂ کعبہ میں جا کر ٹھہر گیا اور زمزم کے پانی پر بسر کرنے لگا، اتفاق سے ایک دن علیؓ گذرے، انھوں نے پوچھا تم مسافر معلوم ہوتے ہو، میں نے کہا، ہاں وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے؛لیکن مجھ سے ان کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، صبح اٹھ کر میں پھر کعبہ گیا کہ لوگوں سے اپنے مقصود کا پتہ دریافت کروں کیوں کہ ابھی تک آنحضرت ﷺ کے حالات سے بے خبر تھا، اتفاق سے پھر علیؓ گذرے اور پوچھا کہ اب تک تم کو اپنا ٹھکانہ نہیں معلوم ہوا، میں نے کہا نہیں، وہ پھر دوبارہ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلے، اس مرتبہ انھوں نے پوچھا، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا اگر اس کو راز میں رکھیں تو عرض کروں، فرمایا مطمئن رہو ، میں نے کہا میں نے سنا تھا کہ یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، پہلے اس خبر کی تصدیق اور اس شخص کے حالات دریافت کرنے کے لیے میں نے اپنے بھائی کو بھیجا، مگر وہ کوئی تشفی بخش خبر نہ لایا، اس لیے اب میں خود اس سے ملنے آیا ہے، حضرت علیؓ نے فرمایا تم نے نیکی کا راستہ پالیا، سیدھے میرے ساتھ چلے آؤ، جس مکان میں میں جاؤں تم بھی میرے ساتھ چلے آنا، راستہ میں اگر کوئی خطرہ پیش آئے گا، تو میں جوتا درست کرنے کے بہانے سے دیوار کی طرف ہٹ جاؤں گا اور تم بڑھے چلے جانا، چنانچہ میں حسب ہدایت ان کے ساتھ ہولیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے سامنے اسلام پیش کیجئے، آپ نے اسلام پیش کیا اور میں اسلام کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا، قبول اسلام کے بعد آپ نے فرمایا ابوذر ابھی تم اس کو پوشیدہ رکھو اوراپنے گھر لوٹ جاؤ، میرے ظہور کے بعد واپس آنا، میں نے قسم کھا کر کہاکہ میں اسلام کو چھپا نہیں سکتا،ابھی لوگوں کے سامنے پکار کر اعلان کروں گا، یہ کہہ کر مسجد میں آیا، یہاں قریش کا مجمع تھا،میں نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ قریشیو! میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں، یہ سن کر ان لوگوں نے للکارا کہ اس بے دین کو لینا، اس آواز کے ساتھ ہی چاروں طرف سے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے بے دم کر دیا، یہ درد ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عباسؓ سے ضبط نہ ہو سکا، وہ مجھ کو بچانے کے لیے میرے اوپر گر پڑے اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ ایک غفاری کی جان لینا چاہتے ہو ؛حالانکہ یہ قبیلہ تمھاری تجارت کا گذرگاہ ہے، یہ سن کر سب ہٹ گئے؛لیکن اسلام کا وہ نشہ نہ تھا جس کا خمار قریش کے غیظ و غضب کی ترشی سے اتر جاتا، دوسرے دن پھر اس حق گو کی زبان پر یہ نعرہ مستانہ تھا۔ در عجا بہائے طور عشق حکمتہا کم است عشق رابا مصلحت اندیشی مجنوں چہ کار اور پھر وہی مسجد تھی وہی صنادید قریش کا مجمع تھا اور وہی ان کی ستم آرائی تھی۔ [13]
صحیح مسلم فضائل ابی زرؓ میں ان کے اسلام کے بارہ میں دو روایتیں ہیں، ایک یہی مذکورہ بالا روایت، اس روایت کے راوی حضرت ابن عباسؓ ہیں، دوسری روایت خود ان سے مروی ہے ؛لیکن دونوں روایتوں کے واقعات باہم مختلف ہیں، ان کے زبانی جو روایت منقول ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اپنے وطن سے اپنے بھائی انیس اور امنا کو لے کر اپنے ماموں کے یہاں گئے، کچھ دنوں کے بعد ان سے خفا ہوکر چلے گئے، اتفاق سے ایک مرتبہ انیس کسی ضرورت سے مکہ گئے وہاں سے لوٹ کر ابوذر ؓ سے آنحضرت ﷺ کے واقعات بیان کیے، آپ کے اوصاف سن کہ وہ خود تحقیقات کے لیے مکہ پہنچے اور ایک شخص سے آپ کا پتہ پوچھا، پوچھتے ہی ہر طرف سے مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے بیدم کر دیا، لیکن یہ نہ ہٹے، تیسرے دن آنحضرت ﷺ سے ملاقات ہوئی، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور یہ مشرف باسلام ہوئے، ہم نے جو صورت واقعہ نقل کی ہے وہ چونکہ صحیح بخاری،صحیح مسلم اور مستدرک حاکم تینوں میں ہے اس لیے اس کو ترجیح دی۔[14]
کچھ دن مکہ میں قیام کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کو ان کے گھر واپس کر دیا اور فرمایا کہ میں عنقریب یثرب ہجرت کرنے والا ہوں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم اپنی قوم میں کار اسلام کی تبلیغ کرو، شاید خدا ان کو فائدہ بخشے اور اس صلہ میں تمھیں بھی اجر ملے، انھوں نے آپ کے حسب ارشاد روانگی کی تیاری شروع کر دی اور وطن کا سفر کرنے کے قبل اپنے بھائی انیس سے ملے، انھوں نے پوچھا کیا کرکے آئے، جواب دیا، اعتراف صداقت کرکے اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا ہوں، یہ سن کر وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، یہاں سے دونوں تیسرے بھائی امنا کے پاس پہنچے، وہ بھی مشرف باسلام ہوئے، اس کے بعد تینوں وطن پہنچے اور دعوتِ حق میں اپنا وقت صرف کرنے لگے، آدھا قبیلہ تو اسی وقت مسلمان ہو گیا اور آدھا ہجرت کے بعد مسلمان ہوا۔ [15] [16]
آنحضرت ﷺ کی مدینہ کی تشریف آوری کے بعد بھی عرصہ تک ابوذرؓ غفاری بنی غفار میں رہے اور غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، وغیرہ کے غزوات ہونے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے، اسی بنا پر مو اخاۃ میں اختلاف ہے، محمد بن اسحٰق راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابوذرؓ اور منذر بن عمرو کے درمیان مواخاۃ کرائی تھی؛لیکن واقدی کا قول ہے کہ ابوذرؓ آیت میراث کے نزول کے بعد مدینہ آئے اور اس آیت کے بعد مواخاۃ کا طریقہ باقی نہ رہا تھا۔ [17] [18]
مدینہ کے قیام میں ان کا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گذرتا تھا اوران کا محبوب مشغلہ آنحضرت ﷺ کی خدمت تھی، خود کہتے ہیں کہ میں پہلے آنحضرت ﷺ کی خدمت کرتا تھا، اس سے فراغت کے بعد پھر آکر مسجد میں آرام کرتا تھا۔ [19] چونکہ ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس لیے مہاجرین زیادہ تر اسی میں مشغول رہتے تھے، حضرت ابوذرؓ کی غزوات میں شرکت کی تفصیل نہیں ملی، صرف غزوۂ تبوک کی شرکت کا پتہ چلتا ہے، عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کے لیے نکلے تو بہت سے لوگ بچھڑنے لگے (کیونکہ یہ قحط سالی کا زمانہ تھا) جب کوئی شخص بچھڑ تا تو لوگ آنحضرت ﷺ کو بتاتے کہ یا رسول اللہ ﷺ فلاں شخص نہیں آیا، آپ ﷺ فرماتے جانے دو، اگر اس کی نیت اچھی ہے تو عنقریب اللہ اس کو تم سے ملادے گا، ورنہ اللہ نے اس کو تم سے چھڑا کر اس کی طرف سے راحت دیدی، یہاں تک کہ ابوذرؓ غفاری کا نام لیا گیا کہ وہ بھی بچھڑ گئے، واقعہ یہ تھا کہ ان کا اونٹ سست ہو گیا تھا، اس کو پہلے چلانے کی کوشش کی جب نہ چلا تو اس پر سے سازو سامان اتار کر پیٹھ پر لادا اور پاپیادہ آنحضرت ﷺ کے عقب سے روانہ ہو گئے اوراگلی منزل پر جاکر مل گئے، ایک شخص نے دور سے آتا دیکھ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ راستہ پر کوئی شخص آرہا ہے، آپ نے فرمایا، ابوذر ؓ ہوں گے لوگوں نے بغور دیکھ کر پہچانا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم ابوذرؓ ہیں، آپ نے فرمایا :اللہ ابوذرؓ غفاری پر رحم کرے، وہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اور قیامت کے دن تنہا اٹھیں گے۔ آنحضرت ﷺ کی دوسری پیشین گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی، آئندہ واقعات میں اس کی تفصیل آئے گی، اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں بھی جب بہتوں کے ارادے متزلزل ہو گئے پیچھے نہ ہٹے اور اپنا سامان پیٹھ پر لاد کر پا پیادہ میدان جہاد میں پہنچے تو ان غزوات میں جن میں اس قسم کی دشواریاں نہ تھیں، یقیناً شریک ہوئے ہوں گے، پھر وہ آنحضرت ﷺ کے خدام میں تھے، اس لیے ان لڑائیوں میں جن میں آپ ﷺ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہوگی، ان میں ابوذرؓ غفاری بھی یقیناً ہمرکاب رہے ہوں گے، خصوصاً جب کہ یہ معلوم ہے کہ ان کو جہاد کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا، [20] اس لیے یہ ممکن نہیں ہے جب تمام مسلمانوں کی تلواریں اپنے جوہر دکھا رہی ہوں، اس وقت ان کی تلوار نیام میں رہی ہو، فتح مکہ کے بعد جب اسلامی افواج کا مظاہرہ ہو رہا تھا تو سب سے آگے انھی کے قبیلہ کا پرچم تھا۔ .[21]
حضرت ابوذرؓ غفاری فطرۃ فقیر منش، زہد پیشہ، تارک الدنیا اورعزلت پسند تھے،اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو "مسیح الاسلام" کا لقب دیا تھا، آنحضرت ﷺ کے بعد انھوں نے دنیا سے ہی قطع تعلق کر لیا، لیکن قیام دیار محبوب ہی میں رہا، وفات نبوی سے دل ٹوٹ چکا تھا، اس لیے عہد صدیقی میں کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات نے اور بھی شکستہ خاطر کر دیا، گلشن مدینہ ویرانہ نظر آنے لگا، اس لیے مدینہ چھوڑ کر شام کی غربت اختیار کرلی۔ [22] [23]
اسلام کی اصل سادگی شیخین کے عہد تک قائم رہی، پھر جب فتوحات کی کثرت کے ساتھ مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو قدرۃ سادگی کی جگہ تمدنی تکلفات شروع ہو گئے ؛چنانچہ عہد عثمانی میں ہی امرا میں شاہانہ شان و شوکت کی ابتدا ہو چکی تھی، ان کا اثر عام مسلمانوں پر بھی پڑا اوران میں عہد نبوت کی سادگی کی بجائے عیش وتنعم کے تکلفات پیدا ہونے لگے،شام میں رومیوں کے اثر نے اس کو اور زیادہ فروغ دیا ، دولت و ثروت نے خزانوں کی صورت اختیار کی، جگہ جگہ قصور و ایوان بننے لگے، زرق برق پوشاکیں پہنی جانے لگیں، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں میں وہی عہد نبوت کی سادگی چاہتے تھے اور اپنی طرح سب کے دلوں کو مال و دولت کی محبت سے خالی دیکھنا چاہتے تھے، ان کے متوکلانہ مذہب میں کل کے لیے آج اٹھا رکھنا جائز نہ تھا، ان کا عقیدہ یہ تھ کہ کسی مسلمان کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو بھوکا اور ننگا دیکھ کر بھی اپنے لیے دولت کا خزانہ جمع کرے،حضرت امیر معاویہؓ وغیرہ امرائے شام یہ سمجھتے تھے کہ اللہ نے اہل دولت پر زکوۃ کا جو فرض عائدہ کیا ہے، اس کو ادا کرنے کے بعد دولت جمع کرنے کا مسلمانوں کو اختیار ہے، اس اختلاف رائے نے بڑہتے بڑہتے نزاع کی صورت اختیار کرلی، حضرت ابوذر غفاری نہایت بے باکی کے ساتھ ان امرا پر اعتراض کرتے تھے اوران کے طمطراق، دولت وحشمت اور سازوسامان پر نکتہ چینیاں کرتے تھے اوران کے زائد از ضرورت دولت جمع کر لینے پر ان کو قرآن پاک کی اس آیت کا مورد ٹہراتے تھے۔ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ [24] جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ اس آیت پاک سے پہلے یہود و نصاری کا ذکر ہے،امیر معاویہؓ کہتے تھے کہ اس آیت کا تعلق بھی انھی لوگوں سے ہے،حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اس کو مسلمانوں اور غیر مسلم، دونوں سے متعلق سمجھتے تھے، دوسرے اختلاف یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ اللہ کی راہ میں نہ دینے کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا کل مال راہِ خدا میں نہیں دیتے اور امیر معاویہؓ وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ حکم صرف زکوٰۃ کے متعلق ہے،بہرحال حضرت ابوذرؓ غفاری نے اپنے خیال کے مطابق بڑی سختی سے طعن و تشنیع شروع کردی، امیر معاویہؓ کو خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ جذبہ یوں ہی بڑھتا رہا تو عجب نہیں کہ شام میں کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو، اس لیے انھوں نے حضرت عثمانؓ غنی کو اس صورت حال کی اطلاع دی اور کہلا بھیجا کہ ان کو مدینہ بلالیا جائے، حضرت عثمانؓ غنی نے ان کو مدینہ بلالیا اور ایک دن ان کے سامنے حضرت کعبؓ احبار سے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے جو مال جمع کرتا ہے؛ لیکن اس کی زکوٰۃ بھی دیتا ہے اس کو اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرتا ہے، حضرت کعبؓ احبار نے کہا ایسے شخص کے بارہ میں مجھ کو بھلائی کی امید ہے، یہ سن کر ابوذرؓ غفاری بگڑ گئے اور کعبؓ پر ڈنڈا اٹھا کر بولے یہودی عورت کے بچے تو اس کو کیا سمجھ سکتا ہے، قیامت کے دن ایسے شخص کے قلب تک کو بچھو ڈسیں گے۔[25] اس لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آخر میں مجبور ہو کر آپ سے کہا کہ آپ میرے پاس رہیے، دودھ والی اونٹنیاں صبح شام دروازہ پر حاضر کی جائیں گی، لیکن اس بے نیاز نے جواب دیا کہ مجھ کو تمھاری دنیا کی مطلق ضرورت نہیں، یہ کہہ کر واپس چلے آئے۔ ،[26]
لیکن اب مدینہ بھی پہلا مدینہ باقی نہیں رہ گیا تھا، لوگ آ آ کر حضرت ابو زرؓ غفاری کو تعجب سے دیکھتے تھے، جہاں وہ جاتے ہر جگہ ہجوم ہو جاتا،اس سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو تکلیف ہوتی، مکہ کے قریب ربذہ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، حضرت عثمانؓ نے ان سے کہا یا انھوں نے خود ربذہ میں قیام کرنے کی خواہش کی، [27] بہر حال اپنی بیوی کو لے کر ربذہ چلے گئے، یہاں کے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بنو ثعلبہ کے شیخ اور اس کی بیوی نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے نہلایا، عراقیوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے آکر عرض کیا کہ اس شخص (عثمانؓ) نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے، اگر آپ اس کے خلاف علم بلند کریں تو ہم لوگ آپ کی حمایت پر تیار ہیں، آپ نے فرمایا کہ مسلمانو! اس معاملہ میں تم دخل نہ دو، اپنے حاکم کو ذلیل نہ کرو، کیونکہ جس نے اپنے حاکم کو ذلیل کیا اس کی توبہ قبول نہیں ہو سکتی، اگر عثمانؓ غنی مجھ کو سولی پر بھی چڑھا دیتے تو مجھ کو عذر نہ ہوتا اور میں اسی میں اپنی بھلائی سمجھتا، اگر وہ ربذہ کی بجائے ایک افق سے دوسرے افق یا مشرق سے مغرب میں بھیج دیتے تب بھی میں سر تسلیم خم کر دیتا اور اسی میں اپنی اچھائی سمجھتا اوراگر وہ کہیں نہ بھیجتے اور مجھ کو میری قیام گاہ ہی میں لوٹا دیتے تو بھی مجھ کو کوئی عذر نہ ہوتا اور اس میں بھی میں اپنی سعادت سمجھتا۔ [28] ،[29] ،[30][31]
حضرت ابوذرؓ غفاری کی وفات کا واقعہ بھی نہایت حسرت انگیز ہے، 31ھ میں ربذہ کے ویرانہ میں وفات پائی۔ ان کی حرم محترم وفات کے حالات بیان کرتی ہیں کہ جب ابوذرؓ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں رونے لگی، پوچھا کیوں روتی ہو، میں نے کہا کہ تم ایک صحرا میں سفر آخرت کر رہے ہو، یہاں میرے اور تمھارے استعمالی کپڑوں کے علاوہ کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو تمھارے کفن کے کام آئے، فرمایا رونا موقوف کرو، میں تم کو ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے جس مسلمان کے دو یا تین لڑکے مر چکے ہوں وہ آگ سے بچانے کے لیے کافی ہیں، آپ ﷺ نے چند آدمیوں کے سامنے جن میں ایک میں بھی تھا، یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں مریگا اور اس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی، میرے علاوہ ان میں سب آبادی میں مرچکے ہیں، اب صر ف میں باقی رہ گیا ہوں، اس لیے وہ شخص یقینا ًمیں ہی ہوں اور میں بحلف کہتا ہوں کہ نہ میں نے تم سے جھوٹ بیان کیا ہے اور نہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے، اس لیے گذرگاہ پر جاکر دیکھو یہ غیبی امداد ضرور آتی ہوگی، میں نے کہا اب تو حجاج بھی واپس جاچکے اور راستہ بند ہو چکا،فرمایا نہیں جاکر دیکھو،چنانچہ میں ایک طرف دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ کر دیکھنے جاتی تھی اور دوسری طرف بھاگ کران کی تیمارداری کرتی تھی، اسی دوڑ دھوپ اور تلاش و انتظار کا سلسلہ جاری تھا کہ دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیے، میں نے اشارہ کیا، وہ لوگ نہایت تیزی سے آکر میرے پاس ٹھہر گئے اور ابوذرؓ کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے، میں نے کہا ابوذرؓ غفاری پوچھا آنحضرت ﷺ کے صحابی؟ میں نے کہا ہاں؟ وہ لوگ فدیۃ بابی وامی کہہ کر ابوذرؓ غفاری کے پاس گئے، پہلے ابوذرؓ نے آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئی سنائی پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی یا میرے پاس کفن بھر کا کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنٰی عہدہ دار بھی ہو، وہ مجھ کو نہ کفنائے، اتفاق سے ایک انصاری نوجوان کے علاوہ ان میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خدمت پر مامور رہ چکا تھا ؛چنانچہ انصاری نے کہا کہ چچا میرے پاس ایک چادر ہے، اس کے علاوہ دو کپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں، انھی میں آپ کو کفناؤں گا، فرمایا ہاں تم ہی کفنانا۔ [32]
ابو زر غفاری نے اس وصیت کے بعد وفات پائی، متعدد روایتوں کے باہم ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے اور کوفہ سے آ رہے تھے،انھی کے ساتھ مشہور صحابی عبداللہؓ بن مسعود بھی تھے، جو عراق جا رہے تھے، بہرحال اس انصاری نوجوان نے ان کو کفنایا اور عبداللہ بن مسعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، [33] اور پھر سبھوں نے مل کر اسی صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو پیوند خاک کیا۔ [34]
حضرت ابو زر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قددراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، سر اور داڑھی دونوں کے بال سفید۔ [35]
فقیروں کے کلبہ احزان میں کیا تھا، صرف تین گدھے، دو مادہ ایک نر، چند بکریاں، کچھ سواریاں، یہ ساری کائنات تھی۔
حضرت ابوذرؓ غفاری خدمت نبوی ﷺ کے بڑے حاضر باش تھے، ہر وقت آپ کی خدمت میں رہتے اور آپ سے استفادہ اور تحصیل علم میں بڑے حریص تھے اور ہر چیز کے متعلق سوالات کیا کرتے تھے، چنانچہ تمام اصول و فروع، ایمان اور احسان، رویت باری، اللہ کے نزدیک پسندیدہ کلمات، لیلۃ القدر وغیرہ ہر چیز حتی کہ نماز میں کنکری چھونے تک کے بارہ میں پوچھا، [36] اسی ذوق و شوق اور تلاش وجستجو نے آپ کو علم کا دریا بنادیا تھا، حضرت علیؓ جو علم وعمل کے مجمع البحرین تھے، فرماتے تھے کہ ابوذرؓ نے اتنا علم محفوظ کر لیا ہے کہ لوگ اس کے حاصل کرنے سے عاجز تھے اور اس تھیلی کو اس طرح سے بند کر دیا کہ اس میں کچھ بھی کم نہ ہوا، [37] حضرت عمرؓ جیسے صاحب کمال آپ کو علم میں عبداللہ بن مسعودؓ کے برابر سمجھتے تھے، [38] جو اپنی وسعت علم کے لحاظ سے جبر الامۃ کہلاتے تھے۔ [21]
کلام حبیب ہونے کی حیثیت سے قدرۃ آپ کو حدیث سے خاص ذوق تھا، آپ کی مرویات کی تعداد 281 ہے، ان میں 12 متفق علیہ ہیں اور 2 میں بخاری اور 7 میں مسلم منفرد ہیں، [39] یہ تعداد حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ کی مرویات کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ خاموش، تنہائی پسند اور کم آمیز تھے، اس لیے ان کے علم کی اشاعت نہ ہو سکی، ورنہ صحابہ میں انس بن ؓ مالک اور عبداللہ بن عباسؓ جیسے بزرگ ان سے استفادہ کرتے تھے، عام رواۃ میں خالد بن وہبان، زید بن وہب جہنی، خرشہ بن جرجبیربن احنف بن قیس، عبد اللہ بن صامت، زید بن ذبیان، عبد اللہ بن شقیق، عمروبن میمون، عبد اللہ بن غنم، قیس بن عباد، مرثد بن مالک بن زبید وغیرہم نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [40] [41]
آنحضرت ﷺ کے بعد مدینہ میں جو جماعت صاحب علم وافتا تھی، اس میں ان کا نام نامی بھی تھا، [42] مگر ان کے فتاوے کی تعداد بہت کم ہے، فتویٰ میں وہ کسی کی مطلق رعایت نہ کرتے اور بلا کسی خوف وہراس کے جو سچی بات ہوتی وہ کہہ دیتے تھے، عہد عثمانی میں بعض محصلین صدقہ وصول کرنے میں زیادتی کرتے تھے، ایک شخص نے آکر کہا ان سے فتویٰ پوچھا کہ عثمان کے محصلوں نے صدقہ میں اضافہ کر دیا ہے، ایسی حالت میں کیا ہم بقدر زیادتی مال چھپا سکتے ہیں؟ فرمایا نہیں ان سے کہو کہ جو واجبی ہو اس کو لے لیں اور جو ناجائز ہوااس کو واپس کر دیں، اگر اس کے بعد بھی وہ زیادہ لیں تو قیامت کے دن وہ زیادتی تمھاری میزان میں کام آئے گی، ان کا یہ فتویٰ ایک قریشی نوجوان کھڑا سن رہا تھا، وہ بولا آپ کیوں فتویٰ دیتے ہیں؟ کیا آپ کو امیر المومنین نے فتویٰ دینے سے منع نہیں کیا ہے؟ فرمایا کیا تم میرے نگہبان ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میری گردن پر تلوار بھی رکھ دو اور مجھ کو یقین ہو جائے کہ گردن کٹنے کے قبل جو کچھ آنحضرت ﷺ سے سنا ہے سنا سکوں گا تو یقینا ًسنا دوں گا۔ [43]
حضرت ابوذرؓ ان محرمان خاص میں تھے، جن کو بارگاہِ نبوت میں خاص تقرب حاصل تھا، اس لیے آپ کے ہر فعل و عمل پر خلق نبوی ﷺ کا بہت گہرا پرتو پڑا تھا ، صحابہ کرام میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جنھوں نے دین و دنیا دونوں کو پوری طرح حاصل کیا، دوسرے وہ جنھوں نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور محض آخرت کی نعمتوں پر قناعت کی ، حضرت ابوذرؓ غفاری اسی دوسری صنف میں تھے، وہ زہد و درع، حق گوئی وحق پرستی، توکل و قناعت ، استغناء و بے نیازی میں تمام صحابہ سے ممتاز تھے، یہ وہ وقت تھا جب قیصر و کسریٰ کے خزانے دار الخلافہ میں لدے چلے آ رہے تھے ، جگہ جگہ قصر و ایوان بن رہے تھے، عیش و تنعم کے سامان ہو رہے تھے ؛مگر ان میں سے کوئی چیز بھی رضوان الہی کے اس طالب کو اپنی طرف متوجہ کرنہ سکی، زرو جواہر کے ڈھیران کی نگاہ میں خزف ریزوں سے زیادہ وقعت نہ رکھتے تھے، زر نقد کبھی جمع نہیں کیا، ضرورت سے جو فاضل بچتا، اس کو اسی وقت خرچ کردیتے تھے، چار ہزار وظیفہ مقرر تھا، جب وہ ملتا تو خادم کو بلاتے اور ایک سال کے اخراجات کا اندازہ لگا کر چیزیں خرید لیتے، اس سے جتنی رقم فاضل بچتی اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سونا چاندی تھیلوں میں محفوظ رکھتا ہے، وہ گویا انگارے رکھتا ہے، [44] یہ بھی فرماتے تھے کہ میرے دوست ﷺ نے مجھے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص بھی سونا چاندی تھیلوں میں محفوظ کرتا ہے وہ جب تک اس کو اللہ کی راہ میں نہ خرچ کر دے، اس کے لیے آگ کا انگارہ رہے گا، [45] اس پر نہ صرف خود عامل تھے؛بلکہ چاہتے تھے کہ دنیا اسی رنگ میں رنگ جائے اور اس عقیدے میں یہاں تک متشدد تھے کہ بڑے لوگوں سے ملنا تک گوارا نہ کرتے ، ابو موسیٰ اشعریؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی اور مرتبہ میں آپ سے کم نہ تھے، جب عراق کی گورنری کے زمانہ میں ان سے ملے تو قدیم تعلقات کی بنا پر ان سے چمٹ گئے، انھوں نے کہا دور رہو، وہ بھائی بھائی کہہ کر لپکتے تھے اور وہ کہہ کر ہٹاتے تھے کہ تم اس عہدہ کے بعد میرے بھائی نہیں رہے، اس کے بعد پھر ابو موسیٰ ؓ ملے تو پھر محبت کے جذبہ سے مجبور ہوکر بھائی بھائی کہہ دوڑے، حضرت ابوذرؓ کا پھر وہی جواب تھا، ابھی دور رہو، اس کے بعد سوالات شروع کیے کہ تم لوگوں کے عامل بنائے گئے ہو، انھوں نے کہا ہاں، پوچھا تم نے بڑی عمارت تو نہیں بنائی، زراعت تو نہیں کرتے، گلے تو نہیں رکھتے، انھوں نے کہا نہیں، بولے ہاں اب تم میرے بھائی ہو۔ [46] ایک مرتبہ ابوذرؓ حضرت ابودرداء انصاریؓ کے پاس سے گذرے تو دیکھا کہ ابودرداءؓ گھر بنوا رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہا، ابودرداء تم لوگوں کی گردنوں پر پتھراٹھواتے ہو، ابودرداء نے جواب دیا کہ نہیں، گھر بنوا رہا ہوں، ابوذرؓ نے پھر وہی فقرہ دہرایا، حضرت ابودرداء نے کہا برادرم شاید اس سے آپ کو کچھ ناگواری پیدا ہو گئی ہے، حضرت ابوذرؓ غفاری نے فرمایا، اگر میں تم کو اس کی بجائے تمھارے گھر کے پاخانہ میں بھی دیکھتا تو اس کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا۔ [47] [48]
اس فقیرانہ زندگی کے باعث ان کی زندگی بالکل سادہ تھی اوران چند چیزوں کے علاوہ جو ایک جاندار کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں، کبھی کوئی سازوسامان نہیں رکھا، ابی مروان نے ان کو ایک پشمینہ کی چادر باندھے نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ ابوذر کیا اس چادر کے علاوہ تمھارے پاس اور کوئی کپڑا نہیں ہے؟ فرمایا اگر اورکوئی کپڑا ہوتو میرے پاس دیکھتے، انھوں نے کہا کچھ دن ہوئے تمھارے پاس دو کپڑے تھے، فرمایا ہاں، مگر وہ دونوں اپنے سے زیادہ حاجتمند کو دیدیے، انھوں نے کہا تم کو خود اس کی حاجت تھی، فرمایا اللہ تم کو معاف کرے، تم دنیا کو بڑھانا چاہتے ہو، تم کو نظر نہیں آتا کہ ایک چادر میں باندھے ہوئے ہوں، دوسری مسجد کے لیے ہے، میرے پاس کچھ بکریاں ہیں جن کا دودھ پیتا ہوں، کچھ خچر ہیں جو باربرداری کے کام آتے ہیں، ایک خادم کھانا پکار کر کھلا دیتا ہے، اس سے زیادہ اورکیا نعمتیں درکارہیں۔ [49] عبد اللہ بن خراش کا بیان ہے کہ میں نے ربذہ میں ابوذرؓ کو دیکھا وہ سایہ میں ایک صوف کے نمدے پر بیٹھے تھے، ان کی بیوی بڑی سیاہ فام تھیں، ان سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہی، انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس دارالفنا میں اولاد کولے کر دارالبقا میں اس کو ذخیرہ آخرت بنایا، لوگوں نے کہا کہ کاش آپ کوئی دوسری بیوی کرلیتے، انھوں نے جواب دیا کہ ایسی عورت سے شادی کرنا مجھے زیادہ پسند ہے جو مجھ میں تواضع پیدا کرے، بہ نسبت اس کے کہ جو مجھ میں ترفع پیدا کرے۔ [50] جعفر بن زبرقان کہتے ہیں کہ مجھ سے غالب بن عبد الرحمن بیان کرتے تھے کہ میں ایک شخص سے ملا جو ابوذرؓ کے ساتھ بیت المقدس میں نماز پڑھا کرتا تھا، وہ کہتا تھا کہ اگر ابوذرؓ کا پورا اثات البیت جمع کیا جاتا تو بھی اس شخص (ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے) کی چادر کی قیمت کے برابر نہ نکلتا، جعفر نے اس کو مہران بن میمون سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں ان کا کل اثاثہ دو درہم سے زیادہ کا نہ تھا۔ [51] لوگ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے، مگر وہ اس کو قبول نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ حبیب ابن مسلمہ فہری، والیٔ شام نے ان کی خدمت میں تین سو اشرفیاں بھیجیں کہ وہ ان کو اپنی ضروریات میں صرف کریں، انھوں نے اسی وقت واپس کرادیا اورکہا کہ کیا ان کو میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اللہ کے معاملہ میں دھوکا کھانے والا نہیں ملا، ہم کو صرف سر چھپانے کے لیے دودھ پینے کے لیے بکریاں اور خدمت کے لیے ایک لونڈی چاہیے، اس کے ساتھ کچھ ہوگا وہ زایدار ضرورت ہے۔ [52] آپ فرماتے تھے کہ لوگ موت کے لیے پیدا ہوتے ہیں، ویران ہونے کے لیے آبادیاں بساتے ہیں، فنا ہونے والی چیزوں کی حرص و طمع کرتے ہیں اور باقی اور پائندہ چیزوں چھوڑ دیتے ہیں، دونا پسندیدہ چیزیں موت اور فقر میرے لیے کس قدر خوش آئندہ ہیں۔ [53] [54] .[55][56]
ان کی زندگی شروع سے آخر تک سرتا پا زہد و تقویٰ تھی، جس پہلو پر نظر ڈالی جائے زہد و تقویٰ کا عجیب و غریب نمونہ نظر آئے گا، اس فقیرانہ زندگی کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ میری امت میں سے ابوذرؓ میں عیسیٰ بن مریم جیسا زہد ہے، [57] یہی زہد کی زندگی آخر دم تک قائم رہی، آنحضرت ﷺ کے بعد عہد نبوت کے بعد سے لوگوں میں بہت کچھ تبدیلی پیدا ہو گئی تھی، لیکن حضرت ابوذرؓ غفاری شروع سے اخیر تک ایک رنگ پر قائم رہے۔ [58] جب عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس دور ختم ہوا اور لوگ دنیا سے ملوث ہونے لگے تو تنہا نشینی اختیار کر لی، عمران بن حطان راوی ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابوذرؓ غفاری کے پاس گیا، وہ مسجد میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا ابوذرؓ تنہائی کیوں اختیار کرلی، فرمایا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ تنہائی برے ہمنشین سے بہتر ہے، [59] اسی وجہ سے وہ دنیا سے بہت دور بھاگتے تھے، ابی اسماء رحبی راوی ہیں کہ میں ابوذرؓ غفاری کے پاس ربذہ گیا، ان کی بیوی کو سخت خستہ حال دیکھا، فرمانے لگے کہ یہ عورت مجھ سے کہتی ہے کہ عراق جاؤ، اگر میں عراق جاؤں تو عراق والے میرے سامنے دنیا پیش کریں گے اور میرے دوست (آنحضرت ﷺ ) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ جہنم کے پل کے سامنے پیر پھسلانے والا راستہ ہے اور تم لوگوں کو اس پر سے گذرنا ہے، اس لیے بوجھ کی گرانباری سے ہلکا رہنا چاہیے۔ [60]
حضرت ابوذرؓ ارشاد نبوی ﷺ کو ہر لمحہ پیش نظر رکھتے تھے اور اس سے سر موتجاوز نہ کرتے تھے، بات بات میں فرماتے تھے کہ: عہدالی خلیلی رسول اللہ ﷺ یا سمعت خلیلی رسول اللہ ﷺ میرے دوست ﷺ نے مجھ سے یہ وعدہ لیا ہے یا میں نے اپنے دوست ﷺ کو یہ کہتے سنا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے امارت کی خواہش ظاہر کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم ناتواں ہو اورامارت ایسا بار امانت ہے کہ اگر اس کے حقوق کی پوری نگہداشت نہ کی جائے تو آخرت میں اس کے لیے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے، [61] اس فرمان کے بعد پھر انھوں نے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی، ان کی خدمت میں کسی نے دو چادریں پیش کیں،انھوں نے ایک کا ازار بنایا اور ایک چھوٹی کملی اوڑھ لی اور دوسری غلام کو دیدی، گھر سے نکلے تو لوگوں نے کہا اگر آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو بہتر ہوتا، فرمایا یہ صحیح ہے؛لیکن میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔ [62]
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تمھارے اوپر ایسے امرا حکمران ہوں گے جو اپنا حصہ زیادہ لیں گے،اس وقت تم کیا کروگے،عرض کیا تلوار سے کام لوں گا، فرمایا: میں تم کو اس سے بہتر مشورہ دیتا ہوں، ایسے وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے مل جاؤ، [63] اس مشورہ پر انھوں نے اس سختی سے عمل کیا کہ جب وہ زمانہ آیاتو تنہا نشینی اختیار کرلی اورکسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ایک مرتبہ وہ مسجد میں لیٹے تھے کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ابوذرؓ غفاری جب تم اس سے نکالے جاؤ گے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا مسجد نبوی ﷺ یا اپنے گھر چلا جاؤں گا، اگر اس سے بھی نکالے گئے تو کیا طریقہ اختیار کرو گے، عرض کیا تلوار نکالوں گا،آنحضرت ﷺ نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ فرمایا کہ ابوذرؓ غفاری :اللہ تمھاری مغفرت کرے، تلوار نہ نکالنا ؛بلکہ جہاں وہ لے جانا چاہیں چلے جانا، چنانچہ جب ربذہ میں رہنے کا حکم ملا تو اسی فرمان کے مطابق بلا کسی عذر کے چلے گئے اور وہاں حبشی غلام کے پیچھے نماز پڑھی، ہر چند اس نے آپ کو بڑھانا چاہامگر آپ نے جواب دیا کہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں۔ [64] .[65]
ابوذرؓ غفاری کو ذات نبویؓ کے ساتھ جو شیفتگی تھی، اس کا اظہار لفظوں میں نہیں ہو سکتا، ایک مرتبہ آپ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا،یا رسول اللہ! آدمی کسی ایک جماعت سے محبت کرتا ہے، لیکن اس کے جیسے اعمال کی طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا: ابوذرؓ تم جس شخص سے محبت رکھتے ہو اسی کے ساتھ ہو، عرض کیا میں اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، فرمایا تم یقیناً اسی کے ساتھ ہو،جس سے محبت رکھتے ہو۔ [66] آنحضرت ﷺ کے بعد جب آپ کا نام زبان پر آجاتا تو آنسوؤں کا دریا امنڈآتا، احنف بن قیس روایت کرتے ہیں کہ میں نے بیت المقدس میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسلسل سجدے کررہا ہے، جس سے میرے دل پر ایک خاص اثر ہوا، جب میں دوبارہ لوٹ کر گیا تو پوچھا کہ آپ بتاسکتے ہیں کہ میں نے جفت نماز پڑھی یاطاق، اس نے کہا اگر میں لا علم ہوں تو اللہ ضرور جانتا ہے، اس کے بعد کہا کہ میرے دوست ابو القاسم ﷺ نے مجھ کو خبر دی ہے، صرف اس قدر زبان سے نکلا تھا کہ رونے لگے پھر کہا کہ میرے دوست ابو القاسم ﷺ نے مجھ کو خبر دی ہے، ابھی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ پھر آنسو امنڈ آئے، آخر میں سنبھل کر کہا ؛کہ میرے دوست ابو القاسم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے، اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرکے اس کی بدی کو مٹاکر نیکی لکھتا ہے، میں نے پوچھا آپ کون ہیں، فرمایا ابوذر رسول اللہ ﷺ کا صحابی، یہ سن کر میں اپنی تقصیر پر بہت نادم ہوا۔ [67]
حریم نبوت میں ان کی یہ نیاز مندیاں بہت مقبول تھیں، جب یہ مجلس میں موجود ہوتے تو سب سے پہلے انھی کو تخاطب کا شرف حاصل ہوتا اور اگر موجود نہ ہوتے تو تلاش ہوتی، جب ملاقات ہوتی تو آنحضرت ﷺ مصافحہ فرماتے۔ [68] یہ محبت ویگانگت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ اپنے اسرار تک ان سے نہ چھپاتے تھے اور یہ راز داری کا پوری طرح فرض ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی بعض باتیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، فرمایا:اگر وہ آپ کا کوئی راز ہوگا تو نہ بتاؤں گا۔ [69] یہی یگانگت آنحضرت ﷺ کے آخری لمحۂ حیات تک قائم رہی؛ چنانچہ مرض الموت میں آپ نے ان کو بلوا بھیجا،یہ جب حاضر خدمت ہوئے، اس وقت آنحضرت ﷺ لیٹے ہوئے تھے، ابوذر غفاری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر جھک گئے اور محبوبِ عالم نے ہاتھ بڑھا کر چمٹا لیا، [70] نہ معلوم یہ نگاہ واپسیں کیا کام کر گئی کہ آخر دم تک دارفتگی کا عالم طاری رہا۔ آنحضرت ﷺ جو چیز اپنے لیے پسند فرماتے تھے وہی ابوذرؓ غفاری کے لیے بھی پسند فرماتے کہ یہی آئین محبت ہے، ایک مرتبہ انھوں نے امارت کی خواہش کی آپ نے فرمایا کہ ابوذرؓ تم ناتواں ہو اور میں تمھارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ [71] [72][73]
اگرچہ ابوذرؓ حق پسند طبیعت رکھتے تھے، پھر بھی اختلاف امت کے خیال سے کسی چیز میں خلیفہ وقت کے حکم سے سرتابی نہ کرتے تھے اوپر گذرچکا ہے کہ ربذہ کے قیام کے زمانہ میں عراقیوں کی خواہش کے باوجود حضرت عثمانؓ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر مجھ پر حبشی بھی امیر بنایا جائے تو بھی اس کی اطاعت کروں گا اور اس کو عملاً کرکے دکھایا، چنانچہ جب وہ ربذہ جاکر مقیم ہوئے تو اتفاق سے اس وقت یہاں کا امیر ایک حبشی تھا جب ابوذرؓ پہنچے اور نماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو وہ ان کے ادب کے خیال سے پیچھے ہٹ گیا، انھوں نے فرمایاتم ہی نماز پڑھاؤ، تم گو حبشی غلام ہو؛لیکن مجھ کو حکم ملا ہے کہ خواہ حبشی ہی کیوں نہ ہوتا، اس کی مخالفت نہ کرتے تھے؛بلکہ خود بھی وہی کرتے، حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں حک کو گئے، کسی نے آکر اطلاع دی کہ منی میں عثمانؓ نے چار رکعتیں نماز پڑھیں، آپ کو بہت ناگوار ہوا اور درشت الفاظ استعمال کرکے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، یہ سب دو رکعت پڑہتے تھے، اس کے بعد انھوں نے امامت کی مگر خود بھی چار رکعتیں پڑھائی، لوگوں نے کہا ٓپ نے تو امیر المومنین پر اعتراض کیا؛لیکن خود بھی چار رکعتیں پڑھائیں فرمایا کہ اختلاف بری چیز ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امرا ہوں گے، ان کی تذلیل نہ کرنا اور جو شخص ان کی تذلیل کا ارادہ کرے گا، اس نے گویا اسلام کی حبل متین اپنی گرد سے نکال دی اور توبہ کا دروازہ اپنے لیے بند کر لیا، [74] ؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ امرا خلفاء کی تمام جاوہ بے جا باتوں کو مان لیتے تھے، امیر معاویہؓ کی لغزشوں پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے؛بلکہ برا بھلا تک کہتے تھے۔ .[75]
اللہ کے معاملہ میں لومۃ لائم کی مطلق پروانہ کرتے تھے، حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ آج میرے اور ابوذرؓ کے علاوہ کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جو اللہ کے معاملہ میں لومۃ لائم کا خوف نہ کرتا ہو، [76] ان کی حق گوئی کی شہادت خود زبان وحی والہام نے دی ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ابوذرؓ غفاری سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔ [77]
اس تحقیر دنیا کا لازمی نتیجہ سر چشمی اور فیاضی تھا، ان کو سالانہ وظیفہ کافی ملتا تھا، ؛لیکن اپنی محدود ضروریات کے علاوہ جس قدر بچتا تھا لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے، اگر کوئی کہتا کہ اس کو رکھ لیجئے، آپ کے اور آپ کے مہمانوں کے کام آئے گا تو فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سونا چاندی جمع کرتا ہے، وہ گویا انگارے جمع کرتا ہے، جب تک اس کو راہ ِ خدا میں صرف نہ کر دے۔ [78]
آپ کی غذا زیادہ تر بکریوں کا دودھ تھا ، لیکن اس میں بھی مہمانوں اور پڑوسیوں کو شریک کرتے تھے، عمیلہ فزاری روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص اپنا چشم دیدواقعہ بیان کرتا تھا کہ ابوذرؓ دودھ دوہکر پہلے مہمانوں اور پڑوسیوں کو پلاتے تھے ، ایک مرتبہ دودھ اور کھجوریں لے کر پڑوسیوں اور مہمانوں کے سامنے پیش کرکے معذرت کرنے لگے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اگر ہوتا تو پیش کرتا، چنانچہ جو کچھ تھا سب دوسروں کو کھلا دیا اور خود بھوکے سو رہے۔ [79]
عموماً زہاد اور متقشفین کے مزاج میں ایک طرح کی خشکی ہوتی ہے ؛لیکن مسیح اسلام کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی، ان کا اخلاق بدویوں تک کو مسحور کرلیتا تھا، ایک بدوی کا بیان ہے کہ میں ابوذر کے ساتھ رہا ہوں، ان کی تمام اخلاقی خوبیاں تعجب انگیز تھیں۔ [80] وہ جن اخلاقی اصول پر عمل پیرا تھے ان کو خود سناتے تھے کہ میرے دوست نے مجھے سات وصیتیں کی ہیں، مسکین کی محبت اوران سے ملنا جلنا، اپنے سے کمتر کو دیکھنا اور بلند ترکو نہ دیکھنا، کسی سے سوال نہ کرنا، صلہ رحمی کرنا، حق بولنا، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو، اللہ کے معاملہ میں کسی کی ملامت کا خوف نہ کرنا، لاحول ولا قوۃ کا ورد کثرت سے کرنا۔ [81] [82]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.