واقعہ کربلا کے شہداء کی یاد میں چالیسواں From Wikipedia, the free encyclopedia
اربعین یا چہلم یا چالیسواں (عربی: اربعین) ایک شیعی مذہبی تہوار ہے۔. ياکہ سوگ ہے اس تہوار کو ہر سال یوم عاشورہ کے چالیس دن بعد منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کی یاد منانا ہے جو ماہ صفر کی بیسویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ حسین ابن علی اور ان کے 72 رفقا 61ھ (680ء) میں کربلا کی جنگ میں یزید بن معاویہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اربعین یا چالیسواں سے مراد عام لوگ جو اپنے عزیز کے وفات کے چالیسویں دن سوگ اور خیرات کے ذریعے یاد مناتے ہیں، بھی ہے۔ اربعین کے دن دنیا کے سب سے بڑے انسانی اجتماع کا انعقاد بھی ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس دن پانچ کروڑ لوگ کربلا، عراق میں زیارت اربعین پڑھنے اور یاد شہداء میں ماتم کرنے پہنچتے ہیں۔[1][2][3][4][5]
اربعین عربی گنتی کا لفظ ہے جس کا لفظی معنی 40 اور چالیس ہے اور اصطلاح میں کسی کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے مرحوم کا چہلم اور چالیسواں بھی کہا جاتا ہے۔
چہلم ہند و پاک میں اکثر اہل اسلام کی جانب سے اپنے مرنے والے کی یاد میں اور اس کے ایصال ثواب کے لیے منائے جانے والے دنوں میں سے ایک ہے۔ جیسے
واقعہ کربلا 10 محرم الحرام 61ھ کو پیش آیا، شہداء کی یاد میں امام سجاد کے کہنے پر 20 صفر کو یہ دن شہدائے کربلا کی یاد میں عاشورہ کے 40 دن بعد منایا جاتا ہے۔ یہ اہل تشیع کے اہم دنوں میں سے ایک ہے۔[6] اس کو اربعین حسینی کہا جاتا ہے جو قمری سال کے مطابق 20 صفر المظفر کا دن ہے اور کربلائے معلی میں واقعہ عاشورہ 61 ھ میں امام حسین اور آپ(ع) کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے۔
مشہور ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین(ع) اور آپ کے اہل خاندان اور اصحاب کی شہادت کے بعد آپ کے باقیماندہ خاندان کو قید کر کے کوفہ اور شام لے جایا گیا جہاں سے مدینہ واپسی کے وقت اسیران اہل بیت علیہم السلام امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے کربلائے معلی آئے ہیں۔
تاریخی کتب میں مذکور ہے اس روز جابر بن عبداللہ انصاری قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کا سلام بھی وہیں پر امام محمد باقر کو پہنچایا تھا۔
اس روز ایران سمیت بعض ممالک میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور شیعیان اہل بیت (ع) عزاداری کرتے ہیں اور یوم عاشورہ کی طرح اس دن بھی ماتمی دستے سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں۔
بہت سی احادیث میں اس دن میں زیارت اربعین پڑھنے اور روضہ امام حسین کی زیارت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
امام حسن عسکری(ع) سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی پانچ علامتوں میں سے ایک علامت گردانا گیا ہے۔
طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52۔
ماہ صفر میں لاکھوں شیعیان اہل بیت (ع) قافلوں کی صورت میں اربعین کے دن زیارت اربعین پڑھنے کے لیے کربلائے معلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عزاداری سید الشہداء (ع) کے سلسلے میں شیعیان عالم کے اہم ترین اور عظیم ترین مرسومات ہیں اور اس بین الاقوامی کوشش کو مذکورہ بالا حدیث پر عمل کرنے کا اہم ترین مظاہرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ کہ اہل بیت علیہم السلام شام سے مدینہ واپسی کے دوران کربلائے معلی سے گذرے ہیں یا نہیں، ایک ایسی بحث ہے جس کے بارے میں آسانی سے کوئی رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
محدث نوری نے اپنی کتاب اللؤلؤ و المرجان میں [7] اور ان کے شاگرد شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب منتہی الآمال[8] میں کہا ہے کہ یہ زیارت پہلے سال کے دوران انجام نہيں پائی ہے۔ محدث نوری سے پہلے کتاب اقبال الاعمال میں اس کے مؤلف سید ابن طاؤوس نے اس رائے کے ساتھ اتفاق نہیں کیا ہے۔[9]
ان کے برعکس بعض علما کی رائے یہ ہے کہ اسیران کربلائے معلی کا قافلہ شام سے عراق آیا ہے اور اربعین کے دن کربلائے معلی پہنچا ہے اور زیارت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوا ہے۔ سید ابن طاؤوس نے اپنی کتاب مقتل لہوف میں صراحت کے ساتھ یہی رائے دی ہے ؛ اور واضح کیا ہے کہ قافلہ اہل بیت نے اس سفر میں جابر بن عبداللہ انصاری اور بنو ہاشم کے بعض افراد کو بھی کربلائے معلی میں دیکھا ہے۔[10]
سید محمد علی قاضی طباطبائی نے محدث نوری اور محدث قمی کی رائے کو رد کرنے کے لیے تحقیق درباره اول اربعین حضرت سيد الشہداء یعنی امام حسین کے پہلے اربعین کی تحقیق کے عنوان سے مفصل کتاب تالیف کی ہے۔
جابر بن عبداللہ انصاری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ عطیہ (یا عطاء) بن سعید کے ہمراہ 61 ھ کے واقعہ عاشورہ میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد، یعنی پہلی اربعین کو کربلا آئے اور قبر حسین کی زيارت کی۔[11]
امام حسن عسکری سے منقول حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی کی پانچ نشانیوں میں سے ایک نشانی بتایا گیا ہے۔[12]
نیز یوم اربعین کے لیے ایک زیارت نامہ امام جعفر صادق سے منقول ہے۔[13] شیخ عباس قمی نے اس زیارتنامے کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں زيارت عاشورہ غير معروفہ، میں متن زیارت اربعین[مردہ ربط] کے عنوان سے درج کیا ہے۔
قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین، زیارت "مَرَدّ الرَّأس" بھی کہلاتی ہے۔[14] "مَرَدُ الرأس" یعنی سر کا لوٹا دیا جانا، کیونکہ اس روز اسیران اہل بیت کربلا پلٹ کر آئے تو وہ امام حسین بن علی کا سر مبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جس کو انھوں نے امام حسین بن علی کے ساتھ دفن کیا۔
کتب زیارات میں امام حسین کی زیارت کے مختلف آداب بتائے گئے ہیں۔ من جملہ مفاتیح الجنان میں تفصیل کے ساتھ آداب تحریر ہیں۔
اربعین کے جلوس [عربی: مسيرات الأربعين انگریزی: Procession of Arba‘in] وہ عظیم مذہبی جلوس ہیں۔ جو اربعین حسینی (چہلم امام حسین) کی مناسبت سے، وسیع عالمی سطح پر، کربلا جاتے ہیں تاکہ وہاں پہنچ کر زیارت اربعین کی قرائت میں شرکت کرسکیں۔
زیارت اربعین پر ائمہ کی تاکید کی بنا پر لاکھوں بلکہ کروڑوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک، بالخصوص عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں سے کربلا کی طرف نکلتے ہیں ؛ اکثر زائرین پیدل چل کر اس عظیم مہم میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ریلیاں دنیا کی عظیم ترین مذہبی ریلیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دسمبر 2013ء بمطابق صفر المظفر 1435 ھ، مستند اندازوں کے مطابق، اس سال دو کروڑ زائرین اس عظیم جلوس عزاداری میں شریک ہوئے تھے۔[15] بعض رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔[16]
دنیا کے اس عظیم ترین اجتماع میں مجموعی طور پر شریک افراد کی تعداد ہر سال کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔
محمد علی قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ اربعین کے دن کربلا کا سفر اختیار کرنا آئمۂ اطہار علیہم السلام کے زمانے میں بھی شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رائج تھا اور حتی کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی شیعہ اس سفر کے پابند تھے۔ وہ اس عمل کو شیعیان آل رسول(ص) کی سیرت مستمرہ یعنی ہمیشہ سے جاری اور مسلسل سیرت سمجھتے ہیں۔[17]
سنہ 1388ھ (بمطابق 1967ء) میں شائع ہونے والی کتاب ادب الطّف کے مؤلف سید جواد شبر کربلا میں اربعین حسینی کے موقع پر منعقدہ عظیم الشان اجتماع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا موازنہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے کرتے ہیں اور ماتمی انجمنوں کی حاضری کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ان میں بعض ترکی زبان میں اور بعض فارسی زبان اور اردو زبان میں اشعار پڑھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : یہ مبالغہ نہیں ہے اگر میں کہوں کہ دس لاکھ افراد زیارت اربعین کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔[18]
عراق میں بعثی نظامِ حکومت کے خاتمے کے بعد، جو ہر قسم کی عزاداری کے راستے میں رکاوٹ تھا، اس حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار سنہ 2003 ء میں شیعیان اہل بیت(ع) نے اربعین کے موقع پر کربلا کا رخ کیا۔ اس عزیمت کے دوبارہ شروع ہونے پر کربلا جانے والوں کی تعداد 20 سے 30 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ دو سال بعد ان زائرین کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔[19]
سنہ 2013ء (بمطابق سنہ 1435 ھ) کو اربعین کے لیے کربلا کے عازمین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچی۔[20]
ایران اور پاکستان سمیت مشرق و مغرب کے دوسرے ممالک سے بھی لاکھوں افراد اس دن کربلا پہنچتے ہیں۔
عراق کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2013ء میں اربعین کے لیے عراقیوں کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک نیز یورپی ممالک سے آنے والے زائرین کی تعداد 300000 تک پہنچی تاکہ وہ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تجدید عہد کریں۔[21]
قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ مختلف علاقوں سے کربلا کی طرف پائے پیادہ جانے والے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ آئمہ معصومین کے زمانے سے رائج ہے اور حتی کہ یہ سلسلہ بنو امیہ اور بنوعباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطروں کے باوجود شیعیان اہل بیت پابندی کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔[22]
اسلامی تاریخ | عیسوی تاریخ[23] |
---|---|
1435ھ | 23 دسمبر 2013ء |
1436ھ | 13 دسمبر 2014ء |
1437ھ | 2 دسمبر 2015ء |
1438ھ | 20 نومبر 2016ء |
1439ھ | 9 نومبر 2017ء |
1440ھ | 30 اکتوبر 2018ء |
1441ھ | 19 اکتوبر 2019ء |
1442ھ | 9 اکتوبر 2020ء |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.