پاکستان کا دار الحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلام آباد (انگریزی: Islamabad)، (ہندی: इस्लामबाद، (بنگالی: ইসলামাবাদ))،[1] پاکستان کا دار الحکومت ہے جو 14 اگست 1967ء کو کراچی سے 20 سال بعد اسلام آباد منتقل ہوا۔ مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء کے مطابق اسلام آباد کی آبادی بائیس لاکھ تریاسی ہزار 2,283,244 افراد پر مشتمل ہے۔
Islamabad | |
---|---|
اسلام آباد | |
سرکاری نام | |
ملک | پاکستان |
تشکیل | 1967 |
قائم از | ایوب خان |
انتظامی تقسیم | ۱
|
حکومت | |
• قسم | میٹرو پولیٹن کارپوریشن |
• قائم مقام منتظم (ڈپٹی کمشنر) | عرفان نواز میمن |
• انتخابی حلقے | این اے-46 (اسلام آباد-1) این اے-47 (اسلام آباد-2) این اے-48 (اسلام آباد-3) |
رقبہ | |
• کل | 220.15 کلومیٹر2 (85 میل مربع) |
بلندی | 540 میل (1,770 فٹ) |
آبادی (مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء) | |
• کل | 2,283,244 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+05:00) |
• گرما (گرمائی وقت) | مشاہدہ نہیں کیا جاتا (UTC) |
رمزیہ ڈاک | 44000 |
ٹیلی فون کوڈ | 051 |
اسلام آباد کا پرانا نام راج شاہی تھا۔[2] 1958ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان[3] نے راولپنڈی کے قریب اس جگہ کا انتخاب کر کے یہاں نیا شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس نئے دار الحکومت کے لیے زمین کا انتظام کیا گیا جس کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب سے زمین حاصل کی گئی۔ عارضی طور پر دار الحکومت کو راولپنڈی منتقل کر دیا گیا اور 1960ء میں اسلام آباد میں ترقیاتی کاموں کا آغاز شروع ہوا۔ شہر کی طرز تعمیر کا زیادہ تر کام یونانی شہری منصوبہ دان کانسٹینٹ ٹینس اپوستولس ڈوکسڈز[4][5] نے کیا، جس میں اس نے اسے آٹھ زونز میں تقسیم کیا۔ انتظامی، ڈپلومیٹک انکلیو، رہائشی علاقے، تعلیمی اور صنعتی شعبے، تجارتی علاقوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام دیہی اور سبز علاقے جو کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعاون سے ہیں۔ 1968ء میں دار الحکومت کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ 1958ء تک پاکستان کا دار الحکومت کراچی رہا۔[6][7][8] کراچی کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دار الحکومت کو کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا۔ اسلام آباد اپنے اعلیٰ معیار زندگی، حفاظت، صفائی ستھرائی اور وافر ہریالی کے لیے قابل ذکر ہے۔[9] اسلام آباد مارگلہ ہل نیشنل پارک اور شکر پڑياں سمیت متعدد پارکوں اور جنگلات کی موجودگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا نواں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، جس کی آبادی 1.2 ملین سے زیادہ ہے۔ فیصل مسجد جو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی مسجد ہے اسلام آباد میں تعمیر کی گئی۔ دیگراہم مقامات میں پاکستان مونومنٹ اور ڈیموکریسی اسکوائر شامل ہیں۔[10][11] دار الحکومت بننے کے بعد اسلام آباد نے پاکستان بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور دار الحکومت کے طور پر اس شہر نے کئی اہم اجلاسوں کی میزبانی بھی کی۔ [5][12] [13]
اسلام آباد میں 20 یونیورسٹیاں ہیں جن میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی شامل ہیں۔ [14] اسلام آباد پاکستان کے محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے اور اس میں تقریباً 2000 فعال سی سی ٹی وی کیمروں کا نظام ہے۔ [15][16]
اسلام آباد نام کا مطلب اسلام کا شہر ہے۔ یہ دو الفاظ سے ماخوذ ہے اسلام اور آباد۔ اسلام سے مراد مذہب اسلام، جو پاکستان کا ریاستی مذہب ہے اور آباد ایک فارسی لاحقہ ہے جس کا مطلب کاشت کی جگہ ہے، جو آباد جگہ یا شہر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسلام آباد کا نام عارف والا کے ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن امرتسری نے تجویز کیا تھا۔[17][18]
اسلام آباد، شمالی پنجاب کے علاقے پوٹھوہار کے سطح مرتفع پر واقع ہے اور اسے ایشیا میں انسانی آبادکاری کے ابتدائی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سواں سے برآمد ہونے والے ابتدائی پتھر سے برفانی دور میں ابتدائی انسانوں کی کوششوں کی گواہی دیتے ہیں۔ ماقبل تاریخ سے متعلق مٹی کے برتن اور برتنوں کی اشیاء ملی ہیں۔ [19][20] ظہیر الدین بابر، چنگیز خان، تیمور اور احمد شاہ درانی نے برصغیر پاک و ہند پر اپنے حملوں کے دوران میں اس خطے کو عبور کیا۔ 2015–16 ء میں وفاقی محکمہ آثار قدیمہ نے ثقافتی ورثے کے لیے قومی فنڈ کی مالی مدد سے ابتدائی آثار قدیمہ کی کھدائی کی جس میں شاہ اللہ دتہ غاروں کے قریب بان فقیراں میں بدھسٹ اسٹوپا کی باقیات کا پتہ چلا، جو دوسری سے پانچویں صدی عیسوی تک کی تاریخ کے نشانات ہیں۔[21][22] اسلام آباد 10 ویں صدی سے لے کر جدید دور تک کی تہذیب اور فن تعمیر پر قائم ہے۔ اسلام آباد کے تاریخی نشانات ہندو تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ سید پور گاؤں جو 16 ویں صدی میں آباد ہوا تھا اسلام آباد میں واقع ہے جو ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے یہاں ایک مندر بھی ہے جہاں ہندو مغل کمانڈر پوجا کیا کرتے تھے۔[23] بری امام سرکار کا مزار مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروایا تھا۔[24][25]
اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں[26] نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا۔ یہاں اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے۔ ان ملازمین میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا۔ [27][28] سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اسی سے منسوب کر دی جسے آج ہم آبپارہ مارکیٹ کہتے ہیں۔[29] انہی کوارٹرز میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا تھا۔ باغ کلاں کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی۔ باگاں بعد میں دار الحکومت بن گیا مگر 1961ء کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔[30][31]
اسلام آباد کو مملکتِ خداداد پاکستان کا دار الحکومت بنانے کا اعلان 1959ء میں ہوا۔ اس سے قبل اس سرزمین پر کم وبیش 160 دیہات آباد تھے۔ شہر کی تعمیر کے دوران مارگلہ کے دامن میں واقع بہت سے دیہات جیسے نورپور شاہاں، شاہدرہ، سیدپور اور گولڑہ شریف کو اسلام آباد کا دیہی علاقہ قرار دے کر ان کی اصل شکل کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس دیہی علاقے کا مجموعی رقبہ 38906 مربع کلومیٹر ہے۔ سیدپور اور شاہ اللہ دتہ قدیم ترین دیہات ہیں۔ سیدپور سے منسلک قدیمی آبادیوں میں چک، بیچو، میرہ، ٹیمبا، بڑ، جنڈالہ ہیلاں شامل تھے، ٹیمبا میں پاکستان کی سب سے بڑی مسجد فیصل مسجد قائم ہے موجودہ ایف 5 کا علاقہ ہے۔ سیکٹر ای سیون میں ڈھوک جیون نام کی بستی تھی۔ سیکٹر جی 5 میں کٹاریاں گاؤں آباد تھا آج کل یہاں وزارت خارجہ کے دفاتر ہیں۔ چڑیا گھر کے سامنے سیکٹر ایف 6 میں بانیاں نام کی بستی تھی۔ راولپنڈی گزیٹئر 1884ء[32] کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالکان گوجر تھے اور 62 دیہات گکھڑوں کی ملکیت تھے۔ سیکٹر جی 10 کا پرانا نام ٹھٹھہ گوجراں تھا۔ اسلام آباد سے بہارہ کہو جاتے ہوئے مری روڈ پر ملپور کی قدیم بستی واقع ہے۔ یہ گاؤں راول ڈیم کی حدود کے اندر واقع تھا۔ بعد ازاں اسے نیو ملپور کے نام سے بسایا گیا۔ موجودہ کنونشن سنٹر کے قریب ڈھوکری نام کا چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ نور پور شاہاں حضرت شاہ عبدالطیف کی آمد سے قبل چور پور کے نام سے مشہور تھا۔ راول ڈیم جسے کورنگ نالہ پر تعمیر کیا گیا ہے یہاں کئی گاؤں آباد تھے جن میں پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑپن اور مچھریالاں شامل تھے۔
فیصل مسجد کے مغرب میں پہاڑوں پر کلنجر[33] نام کی بستی آباد تھی۔ موجودہ جناح سپر مارکیٹ کے قریب روپڑاں نام کی بستی تھی۔ موضع تمیر، کوری، کرور، کرپا بند بیگوال چارہان اور میرا بیگوال دھنیال قبیلے کے مشہور دیہات تھے۔[34]
اسلام آباد سطح مرتفع پوٹھوہار کے شمالی کنارے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں 33.43°N 73.04°E پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 540 میٹر (1,770 فٹ) ہے۔ جدید دار الحکومت اور راولپنڈی شہر کو ملا کر انھیں عام طور پر جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ شہر کے شمال مشرق میں مری کا نوآبادیاتی دور کا ہل اسٹیشن واقع ہے اور شمال میں خیبر پختونخوا کا ضلع ہری پور واقع ہے۔ کہوٹہ جنوب مشرق میں، شمال مغرب میں ٹیکسلا، واہ کینٹ اور ضلع اٹک۔ جنوب مشرق میں گوجر خان، روات اور مندرہ۔ اور جنوب اور جنوب مغرب میں راولپنڈی کا شہر واقع ہے۔ اسلام آباد مظفرآباد سے 120 کلومیٹر (75 میل)، پشاور سے 185 کلومیٹر (115 میل) اور لاہور سے 295 کلومیٹر (183 میل) سے دور ہے۔
اسلام آباد شہر کا رقبہ 906 مربع کلومیٹر (350 مربع میل) ہے۔ مزید 2,717 مربع کلومیٹر (1,049 مربع میل) رقبہ مخصوص علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں شمال اور شمال مشرق میں مارگلہ پہاڑیاں ہیں۔ شہر کا جنوبی حصہ ایک غیر منقسم میدان ہے۔ یہ دریائے کورنگ سے نکلتا ہے، جس پر راول ڈیم واقع ہے۔[35]
سیکٹر اے، بی اور سی ابھی تک ترقی یافتہ نہیں ہیں۔ ڈی سیریز کے سات سیکٹر ہیں (ڈی-11 سے ڈی-17)، جن میں سے صرف ڈی-12 مکمل طور پر تیار ہے۔ ای سیکٹرز ای-7 سے ای -17تک ہیں۔ شہر کے نظرثانی شدہ ماسٹر پلان میں سی ڈی اے نے سیکٹر ای-14 میں فاطمہ جناح پارک کی طرز پر پارک تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیکٹر ای-8 اور ای-9 میں بحریہ یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے کیمپس شامل ہیں۔[36][37][38] ایف اور جی کے سیکٹرز سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ایف سیکٹر ز میں ایف -5 سے ایف-17 تک سیکٹرز پر مشتمل ہے۔[39][40] ایف-5 اسلام آباد میں سافٹ ویئر انڈسٹری کے لیے ہے اور یہاں دو سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس واقع ہیں۔ ایف-9 سیکٹر مکمل طور پر فاطمہ جناح پارک پر مشتمل ہے۔ سینٹورس کمپلیکس ایف-8 سیکٹر کا اہم تجارتی مرکز ہے۔ جی سیکٹرز کو جی-5 سے جی-17 تک نمبر دیا گیا ہے۔ کچھ اہم مقامات میں جی-5 میں جناح کنونشن سینٹر اور سرینا ہوٹل، جی-6[41] میں لال مسجد اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دار الحکومت کا سب سے بڑا میڈیکل کمپلیکس ہے جو جی-8 میں واقع ہے اور جی-9 میں کراچی کمپنی کا شاپنگ سینٹر ہے۔[42] ایچ سیریز کو ایچ-8 سے ایچ-17 تک نمبر دیا گیا ہے۔ ایچ کے تمام سیکٹرز تعلیمی اور صحت کے اداروں کے لیے وقف ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سیکٹر ایچ-12 کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے۔ آئی سیکٹرز کو آئی -8 سے آئی -18 تک نمبر دیا گیا ہے۔ آئی -8 سیکٹر رہائشی علاقے پر مشتمل ہے۔ آئی -9 کے دو سب سیکٹر اور آئی -10 کا ایک سب سیکٹر صنعتی علاقوں پر مشتمل ہے۔ سی ڈی اے سیکٹر آئی -18 میں اسلام آباد ریلوے اسٹیشن اور سیکٹر آئی -17 میں انڈسٹریل سٹی قائم کر رہا ہے۔ زون III بنیادی طور پر مارگلہ ہلز اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک پر مشتمل ہے۔ راول جھیل اسی زون میں ہے۔ زون IV اور V اسلام آباد پارک اور شہر کے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ دریائے سواں زون V کے ذریعے شہر میں بہتا ہے۔[43]
یہ تمام منصوبہ بند اور تعمیر شدہ سیکٹروں کی فہرست ہے۔[42][44]
مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء کے مطابق اسلام آباد میں 1,154,540 افراد پنجابی، 415,838 پشتو، 358,922 اردو، 140,780 ہندکو، 51,920 کشمیری، 46,270 سرائیکی، 21,362 سندھی، 10,315 بلتی، 7,099 شینا، 5,016 کوہستانی، 4,503 بلوچی، 1,095 میواتی، 668 براہوی، 182 کلاشہ اور 64,734 افراد دیگر زبانیں بولتے ہیں۔
اسلام، اسلام آباد کا سب سے بڑا مذہب ہے، جس کی 95.43% آبادی اس کی پیروی کرتی ہے۔ عیسائیت دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جس کی 4.34 فیصد آبادی پیروی کرتی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 0.04% آبادی ہندو مذہب کی پیروی کرتی ہے۔[47][7][48]
اسلام آباد شہر کو جنوبی ایشیا کے عام شہروں سے یکسر مختلف بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور جنگل جیسی ترتیب میں وسیع و عریض راستے پیش کیے گئے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان کا دار الحکومت دہلی تھا لیکن جب پاکستان نے 1947ء میں آزادی حاصل کی تو جنوبی بندرگاہی شہر کراچی اس کا عارضی قومی دار الحکومت بنا۔ 1958ء میں قومی دار الحکومت کے لیے راولپنڈی کے قریب ایک مناسب جگہ کا انتخاب کرنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ جس میں دیگر خصوصیات کے ساتھ محل وقوع، آب و ہوا، رسد اور دفاعی ضروریات پر خاص زور دیا گیا۔ وسیع مطالعہ، تحقیق اور ممکنہ مقامات کے مکمل جائزے کے بعد، کمیشن نے 1959ء میں راولپنڈی کے شمال مشرق کے علاقے کی سفارش کی۔[49] 1960ء کی دہائی میں، اسلام آباد کو کئی وجوہات کی بنا پر ایک متبادل دار الحکومت کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔[50] کراچی ملک کے جنوبی سرے پر واقع تھا اور بحیرہ عرب پر واقع ہونے سے ماضی میں حملوں کا شکار تھا۔ پاکستان کو ایک ایسے دار الحکومت کی ضرورت تھی جہاں سے ملک کے تمام حصوں سے باآسانی قابل رسائی ہو۔ کراچی جو ایک کاروباری مرکز تھا کو جزوی طور پر حکومتی معاملات میں کاروباری مفادات کی مداخلت کی وجہ سے بھی غیر موزوں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام آباد کا نیا منتخب مقام راولپنڈی میں آرمی ہیڈ کوارٹر اور شمال میں کشمیر کے متنازع علاقے کے قریب تھا۔ معماروں کی یونانی فرم، جس کی سربراہی کانسٹینٹ ٹینس اپوستولس ڈوکسڈز نے کی،[51] شہر کے ماسٹر پلان کو گرڈ پلان کی بنیاد پر ڈیزائن کیا جو مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف اس کی چوٹی کے ساتھ تکون شکل کا تھا۔ دار الحکومت کو کراچی سے براہ راست اسلام آباد نہیں منتقل کیا گیا۔ اسے پہلے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں عارضی طور پر راولپنڈی منتقل کیا گیا اور پھر 1966ء میں ضروری ترقیاتی کام مکمل ہونے پر اسلام آباد منتقل کیا گیا۔[52]
اسلام آباد کے زون | ||
---|---|---|
زون | ایریا | |
ایکڑز | km2 | |
I | 54,958.25 | 222.4081 |
II | 9,804.92 | 39.6791 |
III | 50,393.01 | 203.9333 |
IV | 69,814.35 | 282.5287 |
V | 39,029.45 | 157.9466 |
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) ایڈمنسٹریشن، جسے عام طور پر آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن یا اسلام آباد ایڈمنسٹریشن کے نام سے جانا جاتا ہے، سول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت کی اہم امن و امان کا ادارہ ہے۔ شہر کی لوکل گورنمنٹ اتھارٹی اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن (IMC) ہے جو کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (اسلام آباد) (CDA) کی مدد سے شہر کی منصوبہ بندی، ترقی، تعمیر اور انتظامیہ کی نگرانی کرتی ہے۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کو آٹھ زونز میں تقسیم کیا گیا ہے: انتظامی زون، کمرشل ڈسٹرکٹ، تعلیمی سیکٹر، انڈسٹریل سیکٹر، ڈپلومیٹک انکلیو، رہائشی علاقے، دیہی علاقے اور گرین ایریا۔ اسلام آباد شہر کو پانچ بڑے زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے: زون I، زون II، زون III، زون IV اور زون V۔[53] ان میں سے زون IV رقبے میں سب سے بڑا ہے۔ زون I بنیادی طور پر تمام ترقی یافتہ رہائشی شعبوں پر مشتمل ہے جبکہ زون II غیر ترقی یافتہ رہائشی شعبوں پر مشتمل ہے۔ ہر رہائشی شعبے کی شناخت حروف تہجی کے ایک حرف اور ایک عدد سے ہوتی ہے اور یہ تقریباً 2 کلومیٹر × 2 کلومیٹر (1+1⁄4 mi × 1+1⁄4 mi) کے رقبے پر محیط ہے۔ سیکٹرز کو A سے I تک لکھا گیا ہے اور ہر سیکٹر کو چار نمبر والے ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[42]
اسلام آباد فن تعمیر جدیدیت اور پرانی اسلامی اور علاقائی روایات کا مجموعہ ہے۔ سعودی پاک ٹاور روایتی طرز کے ساتھ جدید فن تعمیر کی ایک مثال ہے۔ خاکستری رنگ کی عمارت کو جو اسلامی روایتی نیلے رنگ کے ٹائلوں سے تراشی گئی ہے اور یہ اسلام آباد کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اسلامی اور جدید فن تعمیر کی دیگر مثالوں میں پاکستان یادگار اور فیصل مسجد شامل ہیں۔[54] سیکرٹریٹ کمپلیکس جو جیو پونٹی نے ڈیزائن کیا تھا، مغل فن تعمیر پر مبنی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس اور ایڈورڈ ڈیوریل سٹون کی قومی اسمبلی بھی خوبصورت عمارتیں ہیں۔ پاکستان یادگار کی بڑی پنکھڑیوں کے اندر کی دیواریں اسلامی فن تعمیر پر مبنی ہیں۔ شاہ فیصل مسجد عصری فن تعمیر کا امتزاج ہے[55] جس میں روایتی تکون نما نماز ہال اور چار مینار ہیں، جن کا ڈیزائن ترکی کے ماہر تعمیرات ویدات دلوکے نے بنایا تھا اور سعودی عرب کے شاہ فیصل کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ فیصل مسجد کا فن تعمیر غیر معمولی ہے کیونکہ اس میں گنبد کی ساخت نہیں ہے۔ یہ عربی، ترکی اور مغل تعمیراتی روایات کا مجموعہ ہے۔[56] سینٹورس اسلام آباد میں جدید فن تعمیر کی ایک مثال ہے۔ نو تعمیر اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کے ٹاورز شہر میں جدید طرز تعمیر کی ایک اور مثال ہے۔[57]
اسلام آباد میں دو سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کے ساتھ معلومات اور مواصلات ٹیکنالوجی کی قومی اور غیر ملکی کمپنیاں بھی بڑی مقدار میں کام کر رہی ہیں۔[58] پی آئی اے، پی ٹی وی، پی ٹی سی ایل، او جی ڈی سی ایل اور زرعی ترقیاتی بینک کی طرح پاکستان کی کئی سرکاری کمپنیاں بھی اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اس طرح پی ٹی سی ایل، موبی لنک، ٹیلی نار، یوفون اور چائنا موبائل اور دیگر تمام اہم ٹیلی کمیونیکیشن آپریٹرز کے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں واقع ہیں۔ وفاقی دار الحکومت میں متعدد میڈیا ہاؤسز یا پبلشنگ ہاؤسز بھی قائم ہیں۔ ان کے صدر دفاتر سمیت ملکی اور بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز کے بیورو یا کنٹری آفسز بھی قائم ہیں۔[59] ورلڈ بینک کی 2010ء کی ڈوئنگ بزنس رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کو پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے لیے بہترین جگہ قرار دیا گیا تھا۔[60]
آئی ٹی پارک میں 36 آئی ٹی کمپنیاں ہیں، جبکہ ایویکیو ٹرسٹ میں 29 کمپنیاں ہیں۔ اسلام آباد کا تیسرا آئی ٹی پارک 2020ء میں جنوبی کوریا کے تعاون سے تعمیر کیا گیا۔[61]
اسلام آباد سٹاک ایکسچینج کی بنیاد 1989ء میں رکھی گئی۔ یہ، کراچی اسٹاک ایکسچینج اور لاہور سٹاک ایکسچینج کے بعد پاکستان کی تیسری سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا اوسط یومیہ کاروبار 1 ملین حصص سے زیادہ ہے۔[62]
اسلام آباد ماڈل اسپیشل اکنامک زون ( آئی ایم ایس ای سی ) اسپیشل اکنامک زون ہے جو روات، اسلام آباد کے قریب واقع ہے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک ہے۔ یہ زون N-5 نیشنل ہائی وے اور اسلام آباد ایکسپریس وے کے سنگم پر پرائم انڈسٹریل ایریا کے 1,000 ایکڑ سے زیادہ کے رقبے پر محیط ہے۔ یہ 2.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور تقریباً 1,000 ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی توقع ہے۔ مزید برآں، اس کے مقاصد میں سے ایک ملک میں کم کاربن فوٹ پرنٹ صنعتوں کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔[63][64]
پاکستان کے مروجہ نظام شاہرات کے تحت قائم بین الاضلاعی شاہرات کے ذریعے یہ شہر اسلام آباد، اٹک، جہلم، چکوال، مری، گوجرخان، کوہاٹ، مظفر آباد، لاہور، پشاور اور ایبٹ آباد کے ساتھ متصل ہے۔ اسلام آباد کو ٹرانسپورٹ کے نظام کے تحت اسے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کو بس سروسز، ریل گاڑیوں اور اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈا کے ذریعے جوڑتا ہے جو زیادہ تر پڑوسی شہر راولپنڈی سے چلتی ہیں۔[65][66] اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کی علاقائی شاہراہیں ان تمام عوامی شاہراہوں پر مشتمل ہیں جو اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے زیر انتظام ہیں۔ وزارت نقل و حمل کے تحت کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا انجینئری ونگ 2,000 کلومیٹر (6,600,000 فٹ) سے زیادہ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ان سڑکوں کو مختلف درجہ بندیوں میں ترتیب دی گئی ہے جو علاقوں (بنیادی طور پر اسلام آباد) سے گزرتی ہیں۔ ان کو قومی شاہراہوں کے ساتھ نہیں جوڑا گیا جو حکومت پاکستان اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام وفاقی سڑکیں ہیں۔ ان سڑکوں کی حفاظت کا انتظام اسلام آباد کی وفاقی حکومت کرتی ہے۔[67] اسلام آباد فیض آباد انٹرچینج کے ذریعے راولپنڈی سے منسلک ہے جہاں روزانہ تقریباً 48,000 گاڑیوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ [68]
اسلام آباد کی مرکزی سڑکوں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔[69]
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کی علاقائی شاہراہیں۔ | |||||||||||
ہائی وے | کورس | لمبائی | موجودہ | حالت | لائنیں | تکمیل | |||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
اسلام آباد ایکسپریس وے | زیرو پوائنٹ انٹرچینج – راوت | 28 کلومیٹر | 28 کلومیٹر | آپریشنل | 6 | 1968 | |||||
سری نگر ہائی وے | E-75 ( مری روڈ انٹرچینج) – M-1 / M-2 موٹروے (اسلام آباد انٹرچینج) | 25 کلومیٹر | 25 کلومیٹر | آپریشنل | 4 | 1973 | |||||
مارگلہ ایونیو | مرکزی مارگلہ روڈ | 33 کلومیٹر | 33 کلومیٹر | آپریشنل | 6 | ||||||
آئی جے پی روڈ | راولپنڈی - اسلام آباد | 10.2 کلومیٹر | 10.2 کلومیٹر | آپریشنل | 6 | ||||||
مری روڈ | صدر، راولپنڈی -- بہارہ کہو، اسلام آباد | 28 کلومیٹر | 28 کلومیٹر | آپریشنل | 6 | ||||||
راولپنڈی-اسلام آباد میٹرو بس جو 83.6 کلومیٹر (51.9 میل) بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے جو اسلام آباد-راولپنڈی میٹروپولیٹن ایریا میں کام کرتا ہے۔ میٹرو بس نیٹ ورک کا پہلا مرحلہ 4 جون 2015ء کو کھولا گیا تھا،[70] اور یہ 22.5 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جو پاک سیکرٹریٹ، اسلام آباد سے صدر راولپنڈی کے درمیان میں ہے۔ دوسرا مرحلہ پشاور موڑ انٹر چینج اور نیواسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے درمیان میں 25.6 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا افتتاح 18 اپریل 2022ء کو کیا گیا تھا۔ 7 جولائی 2022ء کو گرین لائن اور بلیو لائنز کو اس میٹروبس نیٹ ورک میں شامل کیا گیا۔[71][72] یہ سسٹم ای ٹکٹنگ سسٹم کا استعمال کرتا ہے اور اس کا انتظام پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کرتا ہے[73] میٹرو بس نے راولپنڈی-اسلام آباد کے سفر اور راستے کو کم کر دیا ہے۔ اب اس بس سروس کو اسلام آباد کے مزید علاقوں تک بڑھایا جا رہا ہے جن میں G-13 اور H-12 کے قریب کے علاقے شامل ہیں۔[74]
لائن | آپریٹر | کھلنے کی تاریخ | لمبائی | راسته | اسٹیشنوں کی تعداد | بسوں کی تعداد | تعدد | سفر کا وقت (اختتام سے آخر تک) | نوٹس |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سرخ | پی ایم اے اور سی ڈی اے | 4 جون 2015۔ | 22.5 کلومیٹر (14.0 میل) | پاک سیکرٹریٹ - صدر | 24 | 68 | دن کے اوقات میں ہر 4 سے 8 منٹ پر (06:00-20:00) | [75] | |
کینو | سی ڈی اے | 18 اپریل 2022 | 25.6 کلومیٹر (15.9 میل) | فیض احمد فیض اسٹیشن (H-8/2) - ہوائی اڈا | 7 | 15[76] | ہر 5 منٹ | [77] | |
نیلا | 7 جولائی 2022 | 20 کلومیٹر (12 میل) | پمز - گلبرگ | 13 | 10 | ایک گھنٹہ | [78] | ||
سبز | 7 جولائی 2022 | 15.5 کلومیٹر (9.6 میل) | پمز - بہارہ کہو | 8 | 5 | [78] | |||
اسلام آباد کو موٹروے ایم 1 موٹروے (پاکستان)[79] اسلام آباد اور پشاور اور ایم 2 موٹروے (پاکستان) لاہور اور اسلام آباد سے ملاتی ہے۔ دونوں موٹرویز چھ لینوں پر مشتمل ہیں۔[80]
ایم 1 موٹر وے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب کو ملاتی ہے۔ گولڑہ موڑ کے ذریعے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے۔ یہ موٹر وے افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک اہم رابطہ سڑک بن چکی ہے۔ جبکہ ایم 2 موٹر وے جو اسلام آباد اور لاہور کو ملاتی ہے۔ یہ موٹر وے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان کے تمام صوبوں کو آپس میں ملاتی ہے۔[81]
اسلام آباد کو پشاور سے موٹروے ایم 1 موٹروے (پاکستان) ملاتی ہے جو 155 کلومیٹر (96 میل) لمبی ہے۔[82] اور اسلام آباد کو لاہور سے ایم 2 موٹروے (پاکستان) ملاتی ہے 367 کلومیٹر (228 میل) لمبی ہے۔ [66]
نیو اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈا دنیا بھر اور مقامی طور پر اہم مقامات سے جڑا ہوا ہے۔[83][84] اس ہوائی اڈا کو 400 ملین ڈالرز کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ،[85]پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کی خدمت کرنے والا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ ہوائی اڈا شہر سے 25 کلومیٹر (16 میل) جنوب مغرب میں واقع ہے اور سری نگر ہائی وے کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس ہوائی اڈے نے 6 مئی 2018ء میں مکمل طور پر کام شروع کیا۔[86] جس نے بینظیر بھٹو بین الاقوامی ہوائی اڈا کی جگہ لے لی جو اب پی اے ایف بیس نور خان کا حصہ ہے۔ یہ رقبہ اور مسافروں کی گنجائش کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا کارگو ہوائی اڈا ہے، جو سالانہ 9 ملین مسافروں کی خدمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مستقبل میں مزید توسیع سے اسے سالانہ 25 ملین مسافروں کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، کراچی کے بعد مسافروں کی آمدورفت کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا مصروف ترین ایئرپورٹ ہے۔ ٹرمینل میں 15 دروازے، ڈیوٹی فری شاپس، ایک فوڈ کورٹ اور 42 امیگریشن کاؤنٹرز شامل ہیں۔ اس ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے علاوہ دیگر 25 ائیر لائنز اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔[87]
لوگ مقامی سفر کے لیے نجی ٹرانسپورٹ جیسے ٹیکسی، کریم، اوبر، بائیکیا، ان ڈرائیور اور ایس ڈبلیو وی ایل کا استعمال کرتے ہیں۔[88]
اسلام آباد ریلوے اسٹیشن سابقہ نام مارگلہ ریلوے اسٹیشن کا افتتاح 21 نومبر 1979ء کو ہوا۔ یہ ریلوے اسٹیشن سیکٹر 9-H اور I-9 کے درمیان واقع ہے۔ اس کا داخلی راستہ سیکٹر 9-H کی طرف سے ہے۔ گولڑہ شریف جنکشن ریلوے اسٹیشن، ترنول ریلوے اسٹیشن، نور (راولپنڈی) ریلوے اسٹیشن اور گولڑہ شریف ریلوے عجائب گھر اسلام آباد میں واقع ہیں۔[89] راولپنڈی ریلوے اسٹیشن اس اسٹیشن کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ یہاں سے ٹرینیں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد ملتان اور بہاولپور ہیں۔
ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب جو راولپنڈی کے علامہ اقبال پارک اور شمس آباد سے سیاحوں کی بسیں چلاتی ہے۔ یہ بسیں سیاحوں کو شکر پڑياں کے راستے شارع دستور تک لاتی ہے۔ بس روٹ کے اہم پرکشش مقامات میں فیصل مسجد، مرغزار چڑیا گھر، دامن کوہ، شارع دستور، لوک ورثہ عجائب گھر، پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری، شکر پڑياں، روز اینڈ جیسمین گارڈن، علامہ اقبال پارک اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم شامل ہیں۔[90]
اسلام آباد پاکستان کے دوسرے خطوں سے آنے والے بہت سے تارکین وطن کا گھر ہے اور یہاں ثقافتی اور مذہبی تنوع کافی قدیم ہے۔ پوٹھوہار سطح مرتفع پر واقع ہونے کی وجہ سے، قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کی باقیات جیسے آریائی، سوانی اور وادی سندھ کی تہذیب اب بھی اس خطے میں پائی جا سکتی ہے۔ 15ویں صدی کا گکھڑ قلعہ پھروالہ اسلام آباد کے قریب واقع ہے۔[91][92] اس خطے میں راوت قلعہ گکھڑوں نے 16ویں صدی میں تعمیر کیا تھا اور اس میں گکھڑ کے سردار سلطان سارنگ خان کی قبر ہے۔ [92] سید پور گاؤں کا نام قیاس کے مطابق سارنگ خان کے بیٹے سید خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 500 سال پرانے گاؤں کو ایک مغل کمانڈر راجہ مان سنگھ نے ہندوؤں کی عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس نے کئی چھوٹے تالاب بنائے جن میں رام کنڈا، سیتا کنڈا، لکشمن کنڈا اور ہنومان کنڈا شامل تھے۔[93] اس علاقے میں ایک چھوٹا سا ہندو مندر ہے جو محفوظ ہے، جو اس خطے میں ہندو لوگوں کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ پیر مہر علی شاہ کا مزار گولڑہ شریف میں واقع ہے۔ بدھ دور کے آثار قدیمہ کے آثار بھی اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔[94] امام بری کا مزار مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بنوایا تھا۔ بری امام کے سالانہ عرس میں پاکستان بھر سے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔ یہ تقریب اسلام آباد کے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک ہے۔ 2004ء میں عرس میں 1.2 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اسلام آباد میں لوک ورثہ عجائب گھر پاکستان کی لوک اور روایتی ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتا ہے۔ یہ شکر پڑياں پہاڑیوں کے قریب واقع ہے اور اس علاقے اور پاکستان کے دیگر حصوں سے کڑھائی والے ملبوسات، زیورات، موسیقی کے آلات، لکڑی کے کام، برتن اور لوک ثقافتی اشیاء کی ایک بڑی نمائش کا حامل ہے۔[95]
اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول، ایک بین الاقوامی ادبی میلہ ہے جو ہر سال اسلام آباد، پاکستان میں منعقد ہوتا ہے۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کو 2013ء میں قائم کیا گیا۔ پہلا ادبی میلہ 30 اور 31 اپریل 2013ء کو منعقد ہوا۔ اور آخری میلہ 16 سے 19 مارچ 2023ء کو منعقد ہوا۔[96]
اکادمی ادبیات، پاکستانی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم شدہ ادارہ ہے جس کا قیام یکم جولائی 1976ء میں رکھا گیا۔ اس کا دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستانی ادب کے فروغ کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی ادبی و تحقیقی اور ترجمہ شدہ کتب شائع کی ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا کتب خانہ چالیس ہزار سے زائد ذخیرہ کتب پر مشتمل ہے۔[97]
ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان)، حکومت پاکستان کی قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، وفاقی وزارت تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، قومی ورثہ اور ثقافت کے ماتحت ادارہ ہے جس کا نصب العین ملک میں اردو زبان کی ترویج ہے۔ اس ادارہ کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو' کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کیا جا سکے اور مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بنایا جا سکے۔[98]
قومى کتب خانہ پاکستان، ریڈ زون، اسلام آباد، میں واقع ہے۔ یہ ملک کی قدیمی ثقافتی ادارہ اور نئی معلومات کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ مشرقی فن تعمیر کے طرز پر تیار کردہ، لائبریری میں 500 قارئین کی گنجائش ہے، اس میں 15 تحقیقی کمرے، 450 نشستوں والا آڈیٹوریم ہے اور کمپیوٹر اور مائیکرو فلم کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ 1993 میں اپنے افتتاح کے وقت، لائبریری کے پاس 130,000 جلدوں اور 600 مخطوطات کا مجموعہ تھا۔ نیشنل لائبریری کا مشن خواندگی کو فروغ دینا اور ریاست کے دار الحکومت اسلام آباد کے لیے ایک متحرک ثقافتی اور تعلیمی مرکز کے طور پر کام کرنا ہے۔[99][100]
جناح کنونشن سینٹر (جسے نیشنل کنونشن سینٹر بھی کہا جاتا ہے) اسلام آباد میں واقع ایک نمائش اور کنونشن سینٹر ہے۔ اس کا نام محمد علی جناح کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر انتظام ہے اور اس میں 2,200 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ یہ بنیادی طور پر حکومت پاکستان کی طرف سے قومی تقریبات کی میزبانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[101][102][103]
نیشنل آرکائیوز آف پاکستان، پاکستان کی تاریخ، ثقافت اور ورثے پر اثر انداز ہونے والے سرکاری اور نجی ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور دستیاب کرنے کے مقصد سے حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے۔ [104] نیشنل آرکائیوز کا کام دستاویزات کا حصول، تحفظ، ریپروگرافی، بحالی، آٹومیشن، تقسیم اور رسائی ہیں۔ نیشنل آرکائیوز آف پاکستان، اہم ریاستی دستاویزات اور تاریخ کی فائلوں کو جمع کرنے کی سہولت کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔[105][106]
اسلام آباد میں پورے پاکستان کی طرح مذہبی اور قومی تہوار بھی جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ درج ذیل چند اہم تہواروں کی ایک فہرست ہے۔[107]
مرکزی حکومت کے تمام دفاتر اسلام آباد کے پاکستان سیکرٹریٹ جو ریڈ زون میں واقع ہے موجود ہیں۔ درج ذیل میں تمام وفاقی وزارتوں کی فہرست ہے۔[108]
قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی 3 نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔[109]
# | قومی اسمبلی کی نشست | نمائندہ حلقہ | سیاسی جماعت |
---|---|---|---|
1 | این اے۔52 (اسلام آباد -1) |
خالی |
/ |
2 | این اے۔53 (اسلام آباد -2) |
خالی |
/ |
3 | این اے۔54 (اسلام آباد -3) |
خالی |
/ |
ناظم یا میئر اسلام آبادایک ناظم شہر (میئر) ہے جو اسلام آباد اور آس پاس کے دارالحکومت کے علاقے کی بلدیاتی انتظامیہ کا سربراہ ہے۔ ناظم بلدیہ عظمی اسلام آباد (ایم سی آئی) کی قیادت کرتا ہے جس کی ایگزیکٹو برانچ 77 منتخب عہدے داروں پر مشتمل ہے۔ ناظم کاعہدہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے مطابق بنایا گیا تھا، جسے 2015 میں قومی اسمبلی اور ایوان بالا پاکستان نے منظور کیا۔[110][111][112][113]
2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع اسلام آباد کی یونین کونسلوں کی تعداد125 ہو گئی ہے۔ 2022ء میں اسلام آباد کی یونین کونسلوں کی تعداد 52 سے بڑھا کر 101کر دی تھی۔[114][115][116]
1960ء میں جب اسلام آباد کا ماسٹر پلان تیار کیا گیا تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے ملحقہ علاقوں کو ساتھ ملا کر اسلام آباد/راولپنڈی میٹروپولیٹن ایریا کے نام سے ایک بڑا میٹروپولیٹن علاقہ بنایا جانا تھا۔[117][118] یہ علاقہ ترقی پزیر اسلام آباد، راولپنڈی اور آس پاس کے دیہی علاقوں کے پر مشتمل ہو گا۔ تاہم اسلام آباد شہر اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کا حصہ ہو گا اور راولپنڈی ضلع راولپنڈی کا حصہ ہو گا جو صوبہ پنجاب کا حصہ ہے۔
ابتدائی طور پر یہ تجویز کیا گیا تھا کہ تینوں علاقوں کو چار بڑی شاہراہوں سے ملایا جائے گا۔ جن میں مری ہائی وے، اسلام آباد ہائی وے، سواں ہائی وے اور کیپٹل ہائی وے شامل تھیں۔ مارگلہ ایونیو کی تعمیر کے منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔[119] اسلام آباد تمام سرکاری سرگرمیوں کا مرکز ہے جبکہ راولپنڈی تمام صنعتی، تجارتی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ دونوں شہروں کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے اور یہ دونوں شہر ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔[120]
اسلام آباد میں ملک میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے کم شرح 38 فی ہزار پر ہے جبکہ قومی اوسط 78 اموات فی ہزار ہے۔[121] اسلام آباد میں سرکاری اور نجی دونوں طرح کے طبی مراکز ہیں۔ اسلام آباد کا سب سے بڑا ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہسپتال ہے۔ یہ 1985ء میں تدریسی اور ڈاکٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ ہسپتال خصوصی تشخیص اور علاج کی خدمات فراہم کرتا ہے۔[122] ہسپتال میں 30 بڑے طبی شعبے ہیں۔[123] پمز کو پانچ انتظامی شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہسپتال 592 بستروں کی سہولت اور 22 طبی اور سرجیکل خصوصیات کے ساتھ عوام کی خدمت کر رہا ہے۔[124] چلڈرن ہسپتال 1985ء میں مکمل ہونے والا 230 بستروں کا ہسپتال ہے۔ اس میں چھ بڑی سہولیات ہیں: سرجیکل اور الائیڈ اسپیشلٹیز، میڈیکل اینڈ الائیڈ اسپیشلٹیز، تشخیصی سہولیات، آپریشن تھیٹر، کریٹیکل کیئر (این آئی سی یو، پی آئی سی یو، آئسولیشن اور ایکسیڈنٹ ایمرجنسی) اور ایک بلڈ بینک شامل ہے۔[125] میٹرنل اینڈ چائلڈ ہیلتھ کیئر سینٹر ایک تربیتی ادارہ ہے جس میں 125 بستروں کا ایک ہسپتال ہے جو مختلف طبی اور آپریشنل خدمات فراہم کرتا ہے۔[126] پمز پانچ تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے: قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج، کالج آف نرسنگ، کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی، اسکول آف نرسنگ اور مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹر شامل ہیں۔ [127] جنرل ہسپتال اور تدریسی ادارہ، جو 2006ء میں قائم ہوا، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہے۔ [128] ہسپتال 100 بستروں کی سہولت پر مشتمل ہے [128] اور 10 بڑے شعبہ جات جن میں: دندان سازی، امراض نسواں، اطفال، جنرل میڈیسن، جنرل سرجری، شعبۂ انتہائی نگہداشت / کورونری کیئر یونٹ، آرتھوپیڈکس، اوپتھلمولوجی، پیتھالوجی، ریڈیولوجی ہیں۔[129] شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کا ایک تدریسی ہسپتال ہے جس کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی اور 1989ء میں ایک پبلک کمپنی بن گئی۔ ہسپتال میں تقریباً تمام خصوصیات ہیں جن میں 70 مستند کنسلٹنٹس، 150 آئی پی ڈی بیڈز اور 35 مختلف اسپیشلائزیشنز میں او پی ڈی کی سہولیات ہیں۔[130] حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے وفاقی بیورو کے مطابق، 2008ء میں شہر میں 12 ہسپتال، 76 ڈسپنسریاں اور پانچ زچگی اور بچوں کی بہبود کے مراکز تھے جن کی کل تعداد 5,158 تھی۔[131]
اسلام آباد میں صحت عامہ کی اعلیٰ سہولیات میسر ہیں۔ درج ذیل اسلام آباد کے اہم ہسپتالوں اور طبی درس گاہوں کی فہرست ہے۔[132]
اسلام آباد میں آبپارہ کے سامنے ایک سپورٹس کمپلیکس ہے۔[136] اس میں انڈور گیمز کے لیے لیاقت جمنازیم، مصحف اسکواش کمپلیکس اور آؤٹ ڈور گیمز کے لیے جناح اسپورٹس اسٹیڈیم شامل ہیں جہاں باقاعدہ قومی اور بین الاقوامی کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیاقت جمنازیم میں 2004ء کے جنوب ایشیائی کھیل منعقد ہوئے۔ اسلام آباد کے دیگر کھیلوں کے مقامات میں ڈائمنڈ کلب گراؤنڈ، شالیمار کرکٹ گراؤنڈ اور اسلام آباد گالف کلب شامل ہیں۔ ایف سکس مرکز میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اسپورٹس کمپلیکس ہے۔ اس میں ٹینس کورٹ، فائبر گلاس بورڈز کے ساتھ باسکٹ بال کورٹ اور فٹسال گراؤنڈ ہے۔ اسلام آباد کے کھیلوں میں کرکٹ، فٹ بال، اسکواش، ہاکی، ٹیبل ٹینس، رگبی اور باکسنگ شامل ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کرکٹ ٹیم نے 2016ء میں پہلی بار اور 2018ء میں دوسری بار پاکستان سپر لیگ کا ٹائٹل جیتا تھا۔[137][138] اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر چڑھنے کے لیے مختلف ٹریک موجود ہیں۔[139] پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں بچوں کے لیے تین سوئمنگ پول ہیں۔[140]
جناح اسپورٹس اسٹیڈیم، ایک کثیر المقاصد اسٹیڈیم ہے۔ یہ اسٹیڈیم زیادہ تر فٹ بال میچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اسٹیڈیم 1970 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کی گئی تھی اور اسے 2004 میں ایس اے ایف گیمز کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں 48,000 افراد کی گنجائش ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے۔[141]
لیاقت جمنازیم اسلام آباد، میں واقع ایک انڈور کھیلوں کا میدان ہے۔ میدان کی گنجائش 10,223 شائقین کی گنجائش ہے۔ یہ باسکٹ بال، بیڈمنٹن، باکسنگ اور پرو ریسلنگ جیسے اندرونی کھیلوں کے مقابلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیاقت جمنازیم کی تعمیر میں زلزلے سے بچاؤ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔[142][143]
اسلام آباد میں خواندگی کی شرح 98% ہے اور پاکستان کے جدید ترین تعلیمی ادارے موجود ہیں۔[144] سرکاری اور نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ دارالحکومت کے اعلیٰ تعلیمی ادارے یا تو وفاقی طور پر چارٹرڈ ہیں یا نجی اداروں کے زیر انتظام ہیں اور ان میں سے تقریباً سبھی کو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے تسلیم کیا ہے۔[145] ہائی اسکول اور کالج فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سے وابستہ ہیں۔[145][146]
اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء میں اسلام آباد میں کل 913 تسلیم شدہ ادارے تھے (31 پری پرائمری، 2 مذہبی، 367 پرائمری، 162 مڈل، 250 ہائی، 75 ہائیر سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ کالجز اور 26۔ ڈگری کالجز )۔ [147] اسلام آباد میں اساتذہ کی تربیت کے سات ادارے ہیں جن میں کل 604,633 طلبہ اور 499 فیکلٹی کا داخلہ ہے۔ [147] اسلام آباد میں صنفی برابری کا انڈیکس 0.95 قومی اوسط کے مقابلے میں 0.93 ہے۔ اسلام آباد میں لڑکوں کے لیے 178 ادارے اور لڑکیوں کے لیے 175 ادارے اور 551 مخلوط ادارے ہیں۔ [148] تمام زمروں میں طلبہ کی کل تعداد 267,992 ہے۔ لڑکوں کے لیے 138,272 اور لڑکیوں کے لیے 129,720۔ [148] اسلام آباد میں 16 تسلیم شدہ یونیورسٹیاں ہیں جن میں کل 372,974 طلبہ اور 30,144 اساتذہ شامل ہیں۔ [148] زیادہ تر اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیاں؛ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی، کومسٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کا صدر دفتر بھی دار الحکومت میں ہے۔ [149] اندراج کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی جنرل یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی فاصلاتی تعلیم کے لیے اسلام آباد میں واقع ہے۔ دیگر یونیورسٹیوں میں ایئر یونیورسٹی، بحریہ یونیورسٹی، سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان انجینئرنگ، فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ہمدرد یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز، کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، شفا تمیر شامل ہیں۔ ملت یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اقراء یونیورسٹی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان، محمد علی جناح یونیورسٹی، دی یونیورسٹی آف لاہور، اباسین یونیورسٹی اور دی ملینیم یونیورسٹی کالج شامل ہیں۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد 1980ء بمطابق 1400ھ میں قائم ہوئی۔ 1985ء بمطابق 1405ھ میں اسے قانونی طور پر بین الاقوامی حیثیت عطا کی گئی، جس کے بعد وہ پاکستانی آئین کے تحت انتظامی طور پر مستقل ادارے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ پاکستانی آئین کے تحت پاکستان کے صدر مملکت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز عالم اسلام کی چوالیس معروف شخصیات پر مشتمل ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 9 فیکیلٹیز، 39 شعبہ جات اور 6 اکیڈمیوں پر مشتمل ہے اور 131 تعلیمی پروگراموں میں دنیا کے پچاس سے زائد ممالک سے آنے والے 30 ہزار کے قریب طلبہ و طالبات کو زیورِتعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔ اسلام آباد میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل وسیع رقبہ عطا کیا گیا ہے۔[150]
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں واقع ہے جو فاصلاتی نظام تعلیم کی ایشیا کی بڑی جامعات میں شمار کی جاتی ہے۔ اس یونیورسٹی کو 1974ء میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت پیپلز اوپن یونیورسٹی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ 1977ء کواس یونیورسٹی کو علامہ اقبال کے اعزاز میں پیپلز اوپن یونیورسٹی سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نام دے دیا گیا۔[151][152][153]
وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی، سابق سربراہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاءالرحمن کی ذاتی کوششوں سے سابقہ وفاقی اردو کالج برائے سائنس، گلشن اقبال اور سابقہ وفاقی اردو کالج برائے فنون و تجارت (مولوی عبد الحق کیمپس) کو ترقی دے کر وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس و ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 13 نومبر 2002ء کو صدر پاکستان پرویز مشرف نے وفاقی اردو یونیورسٹی کی باضابطہ بنیاد رکھی۔[154][155][156]
اسلام آباد سے بہت سے روزنامے اردو، انگریزی اور مقامی زبانوں میں شائع ہوتے ہیں۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے اور ملک کے تمام اہم اخباروں کے صحافی اسلام آباد میں موجود رہتے ہیں۔[157]
شہر میں انٹرنیٹ کے لیے براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور ویڈیو کانفرینسنگ کی سہولت دستیاب ہیں۔ گھریلو صارفین اور کارپوریٹ صارفین کے لیے اچھی رفتار کا براڈبینڈ انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہوتا ہے۔ شہر میں بہت سے انٹرنیٹ کیفے بھی موجود ہیں۔
اسلام آباد سے اردو اخبارات جو شائع ہوتے ہیں۔[158]
اسلام آباد سے انگریزی اخبارات جو شائع ہوتے ہیں۔[158]
ریڈیو پاکستان کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ یہاں میڈیم ویوز پر نشریات کی جاتی ہیں۔ اس وقت مندرجہ ذیل ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں۔[159]
پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سینٹر کی بنیاد 1967ء میں رکھی گئی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔[160]
اسلام آباد میں درج ذیل سینما گھر ہیں۔[161][162]
جنرل پوسٹ آفس (General Post Office / GPO) اسلام آباد کا مرکزی ڈاک خانہ ہے۔[163]
شہر/قصبہ | رمزِ ڈاک | ضلع/صدر ڈاک خانہ | صوبہ/عملداری |
---|---|---|---|
اسلام آباد GPO | 44000 | وفاقی دارالحکومت | وفاقی |
اسلام آباد وزیرِ اعظم Sectt | 44010 | وفاقی دارالحکومت | وفاقی |
اسلام آباد جامعہ قائداعظم | 45320 | وفاقی دارالحکومت | وفاقی |
اسلام آباد میں بہت سے سیاحی مقامات ہیں جن میں دامن کوہ، مارگلہ چڑیا گھر، پاکستان یادگار، فیصل مسجد اور راول بند قابل ذکر ہیں۔[164] فیصل مسجد شہر کا ایک اہم ثقافتی نشان ہے اور جو روزانہ بہت سے سیاحوں کو راغب کرتی ہے۔ فیصل مسجد 1986ء میں تعمیر کی گئی تھی، اس کا نام سعودی عرب کے بادشاہ فیصل بن عبدالعزیز کے نام پر رکھا گیا تھا۔[165] اس مسجد میں 24,000 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ فیصل مسجد جسے ترکوں نے ڈیزائن کیا ہے اور سعودی عرب کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے، مسجد کی دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی شامل ہے۔ سیاحوں کے لیے تاریخی مقامات میں سے ایک پاکستان یادگار ہے جو 2007ء میں تعمیر کی گئی۔ یہ سیاحتی مقام پاکستان کی حب الوطنی اور خود مختاری کی نمائندگی کرتا ہے۔ ڈیزائن کو گنبد کی شکل دی گئی ہے جس میں پنکھڑیوں کی شکل کی دیواریں ہیں جو پاکستان کے دیگر سیاحتی مقامات جیسے بادشاہی مسجد، مینارِ پاکستان اور قلعہ لاہور کی تصویر کشی کرنے والے فنون سے کندہ ہیں۔[166]
اسلام آباد میں پاکستان کے کچھ مشہور عجائب گھر ہیں جن میں لوک ورثہ عجائب گھر، انسٹی ٹیوٹ آف فوک اینڈ ٹریڈیشنل ہیریٹیج شکر پڑياں پارک اور نیشنل آرٹ گیلری شامل ہیں۔ اسلام آباد میوزیم میں گندھارا دور کے بہت سے آثار اور نمونے موجود ہیں، جو بدھ مت اور گریکو-رومن طرزوں پر مشتمل ہیں۔ اسلام آباد اور پاکستان کی ثقافت کو لوک ورثہ عجائب گھر کے ساتھ شکرپڑیاں پارک میں انسٹی ٹیوٹ آف فوک اینڈ ٹریڈیشنل ہیریٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد 10ویں صدی سے لے کر جدید دور تک کی تہذیب اور فن تعمیر پر قائم ہے۔ چونکہ اسلام آباد سطح مرتفع پوٹھوہار پر واقع ہے، اس لیے پتھر کے زمانے کی تہذیب کی باقیات میں اچیولین اور سوانیائی روایات شامل ہیں اور یہ سیاحتی مقامات ہیں۔ اسلام آباد میں تاریخی نشانات ہندو تہذیب کی عکاسی کرتی ہے جس کی باقیات 16 ویں صدی سید پور گاؤں میں موجود ہے۔ سید پور میں مندر موجود ہے جہاں ہندو مغل کمانڈر پوجا کرتے تھے۔[167]
مارگلہ ہلز نیشنل پارک اسلام آباد کے شمالی سیکٹر میں واقع ہے اور ہمالیہ کے قریب ہے۔ نیشنل پارک میں دلکش وادیوں اور قدرتی پہاڑیوں پر مشتمل ہے جس میں مختلف جنگلی حیات جیسے ہمالیائی گورل، ہرن اور چیتے شامل ہیں۔ جنگلی حیات اور پودوں سے بھرے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں سیاحوں کے لیے رہائش اور کیمپنگ گراؤنڈ بھی شامل ہیں۔
لوک ورثہ عجائب گھر، تاریخی آرٹ اور ثقافت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عجائب گھر 1974ء میں کھولا گیا اور 2002ء میں یہ ایک خود مختار ادارہ بن گیا۔ عجائب گھر کئی عمارتوں پر مشتمل ہے۔ یہ شکر پڑیاں کی پہاڑیوں اسلام آباد میں واقع ہے۔[168]
فیصل مسجد، اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان مسجدہے جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد شوال 1396ھ مطابق اکتوبر 1976ء کو رکھا گیا اور تکمیل 1987ء میں ہوئی۔[169] سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976ء میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر مسجد اور کراچی کی اہم ترین شاہراہ 1975ء میں شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔ تعمیراتی کام 1987ء میں مکمل ہوا اور احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے مزار کی چھوٹی سی عمارت مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب واقع ہے۔
پاکستان یادگار ایک قومی یادگار ہے جو ملک کے چاروں صوبوں اور تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یادگارکھلے پھول کی شکل میں ایک تیزی سے ترقی پزیر ملک کے طور پر پاکستان کی پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یادگار کی چار اہم پنکھڑیاں چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں (بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ)، جبکہ تین چھوٹی پنکھڑیاں تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں (گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقہ جات )۔ فضا سے یادگار ایک ستارہ (وسط میں) اور ایک چاند (پنکھڑیوں کی دیواروں سے بنا) کی طرح دکھتا ہے، جو پاکستانی پرچم میں ستارہ و ہلال کی نمائندگی کرتا ہے۔[170]
شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک صدیوں پرانا گاؤں اور اسلام آباد کیپیٹل اتھارٹی کی یونین کونسل ہے۔ اس گاؤں کا نام ایک درویش کے نام پر رکھا گیا ہے جو مغل دور سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ گاؤں 650 سال پہلے آباد ہوا تھا۔ یہاں قدیم غاریں موجود ہیں جو پچھلی تہذیبوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں 2500 سال پرانی بدھ غاریں ٹیکسلا کے مغرب میں، اسلام آباد کے مشرق میں اور خان پور کے وسطی علاقے میں واقع ہیں۔ شاہ اللہ دتہ غاروں کے قریب ایک چشمہ، ایک تالاب اور ایک باغ اب بھی موجود ہے۔ باغ میں برگد کے کچھ درخت ہیں جبکہ باقی تمام پھل دار درخت ختم ہو چکے ہیں۔ اسی چشمے کا پانی غاروں سے ملحقہ باغ کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مغلیہ دور میں جب ہندوستان عرب اور وسطی ایشیا سے نکلنے والے تصوف کا مرکز تھا، شاہ اللہ دتہ نامی ایک ولی نے اس باغ میں قیام کیا اور یہاں ان کی تدفین ہوئی۔ وہ جگہ جو پہلے سادھوؤں، راہبوں یا جوگیوں سے منسوب تھی آج شاہ اللہ دتہ کے نام سے منسوب ہے۔ ان غاروں سے تھوڑے فاصلے پر کنتھیلا گاؤں میں ایک قدیم باولی بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے بنایا تھا۔[171]
نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد، پاکستان میں ملک کی پہلی قومی آرٹ گیلری ہے۔ جسے مجلس شوریٰ (پاکستان کی پارلیمنٹ) اور ایوان صدر (ایوان صدر) کے سامنے ایک چھوٹی پہاڑی پر بنایا گیا ہے۔ اسے 26 اگست 2007ء بروز اتوار کو عوام کے لیے کھولا گیا۔ نیشنل آرٹ گیلری، پاکستان ایک بڑی تنظیم کا حصہ ہے جسے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کہا جاتا ہے۔[172]
سید پور ویلج، مارگلہ کے دامن میں واقع ہے۔ اس گاؤں میں یونانی، گندھارا اور مغل دور کے آثار ملتے ہیں۔ 2006ء میں اس گاؤں کو ماڈل ولیج میں تبدیل کر دیا گیا۔ تمام تاریخی عمارتوں کی ازسرِنو آرائش کی گئی۔ یہاں پر مختلف ہوٹل اور آرٹ گیلریاں قائم کی گئیں ہیں۔
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا قیام 1976 ء میں پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر انتظام عمل میں لایا گیا، یہ 4 مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے،۔ جن میں نباتات، حیوانات، ارضیات اور عوامی خدمت شامل ہیں۔ پہلے تین شعبہ جات کا مقصد پاکستان میں موجود پودوں، جانوروں، معدنیات، چٹانوں اور فاسلز کے نمونے اکٹھے کرنا ان کی پہچان اور ان پر تحقیق کرنا ہے، جبکہ چوتھا شعبہ ترتیب و تشہیر سے متعلق ہے۔
اسلام آباد کا سب سے مشہور اور قدیم ترین ہائیک ٹریک ٹریل 3 ہے۔ یہ سیکٹر F-6/3 میں مارگلہ روڈ سے شروع ہوتا ہے اور پیر سوہاوہ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ٹریک تقریباً 30 - 50 منٹ کا ٹریک ہوتا ہے۔ ویو پوائنٹ کے بعد یہ مزید 45-60 منٹ تک جاری رہتا ہے اور پیر سوہاوہ پہنچ جاتا ہے، جہاں کھانے کے دو ریستوراں مونال اور لا مونٹانا ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ تقریباً ایک گھنٹہ تیس منٹ کی پیدل سفر ہے۔[173]
اسلام آباد میں درج ذیل اہم سیاحتی مقامات ہیں۔[174]
اس وقت اسلام آباد کے سفارتی انکلیو میں مختلف ممالک کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں۔[178]
یہ شہر اسلام آباد کے شراکت دار (Twin Cities) شہر ہیں۔[179]
اسلام آباد اور راولپنڈی کو پاکستان کے جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔[191] بلکہ بعض جگہوں پر آج بھی دونوں شہروں کے تھانوں کو مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ حدود اسلام آباد کی ہے یا راولپنڈی کی۔ دو ہزار سال پہلے بھی گندھارا سندھ کی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا مرکز تھا اور آج پھر تاریخ نے جو انگڑائی لی ہے اور اسلام آباد کو پاکستان کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں دنیا کی دو بڑی تجارتی شاہراہوں کا ملاپ ہو رہا ہے۔ ایک چین کو مشرقِ وسطیٰ سے ملاتی ہے تو دوسری بھارت اور بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیاء کو کابل اور ماسکو تک لے جاتی ہے۔ ان دونوں شاہراہوں پر ابھی بین الاقوامی تجارت شروع نہیں ہوئی لیکن جب بھی ہو گی راولپنڈی اور اسلام آباد پاکستان کا سب سے بڑا شہری علاقہ بن جائیں گے۔ یہاں دنیا بھر سے تاجر اور سیاح آئیں گے.[192]
درجہ | شہر | آبادی (1998 مردم شماری) | آبادی (2017 مردم شماری) | اضافہ | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 9,856,318 | 16,051,521 [193] | 62.86% | سندھ |
2 | لاہور | 5,143,495 | 11,126,285 | 116.32% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 2,008,861 | 3,203,846 | 59.49% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 1,409,768 | 2,098,231 | 48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 1,132,509 | 2,027,001 | 78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 982,816 | 1,970,042 | 100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,197,384 | 1,871,843 | 56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد، سندھ | 1,166,894 | 1,732,693 | 48.49% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 529,180 | 1,014,825 | 91.77% | اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ |
10 | کوئٹہ | 565,137 | 1,001,205 | 77.16% | بلوچستان |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.