ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء)[8][9] پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد رضی اللہ عنہم کے طور پر سنہ 656ء سے 661ء تک حکمرانی کی، لیکن انھیں شیعہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام معصوم اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔
عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان | |
اختيار خليفہ ثالث | |
عثمان بن عفان |
مسلمان انھیں ابو الحسن، ابو تراب، حیدرو حیدرہ، اسد اللہ/شیر خدا، المرتضی، امیر المومنین، باب مدینہ العلم اور عام طور پر عرب میں: سیِّدُنا علی اور عرب و عجم میں امام علی، ہند و پاک میں مولا علی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
ابو طالب[10] اور فاطمہ بنت اسد[11] کے ہاں پیدا ہوئے۔ روایات کے مطابق علی، مقدس ترین اسلامی شہر مکہ میں کعبہ کے اندر جائے حرمت میں پیدا ہوئے تھے۔[11][12][13] علی رضی اللہ عنہ بچوں میں پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، [14][15] اور کچھ مصنفین کے مطابق پہلے مسلم تھے۔[16] ابتدائی دور میں علی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی[17] اور ابتدائی مسلمانوں کے خلاف کی گئی تقریباً تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد انھوں نے پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا سے شادی کی۔[11] خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد سنہ 656ء میں صحابہ نے انھیں خلیفہ منتخب کیا تھا۔[18][19] علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دو بغاوتیں اور خوارج کی خانہ جنگیاں دیکھیں اور نہایت بہترین اقدامات کیے۔ سنہ 661ء میں جب وہ جامع مسجد کوفہ میں نماز پڑھا رہے تھے عبد الرحمن بن ملجم نامی ایک خارجی نے ان کے سر پر تلوار سے حملہ کر دیا اور وہ دو دنوں بعد شہید ہو گئے۔[20][21][22]
علی شیعوں اور سنیوں، دونوں کے ہاں سیاسی طور پر اور روحانی طور پر اہم ہیں۔[23] فرقوں کے نزدیک علی کے متعلق متعدد سوانح عمریاں، ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں، لیکن وہ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ وہ پارسا مسلم اور قرآن و سنت پر سختی سے کاربند تھے۔[8] سنی علی کو چوتھا اور آخری خلیفہ راشد سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ قرآنی آیات اور متعدد فرامین نبوی جن میں اہم ترین واقعہ غدیر خم ہے، کو دلیل بنا کر انھیں محمد کے بعد پہلا اِمام مانتے ہیں۔ شیعوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ علی اور دیگر شیعہ ائمہ (اہل بیت سے تمام) بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔ اسی اختلاف پر امت مسلمہ کو شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔[11][23][24][25] علی کو مختلف غیر مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی پزیرائی حاصل ہے جیسے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے عالمی تنظیم نے ان کے طرز حکمرانی اور سماجی انصاف کی تعریف کی ہے۔[26][27][28][29]
نام و نسب و خاندان
علی نام ، ابو الحسن اور ابوتراب کنیت ، حیدر (شیر)لقب، [30]والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا ، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان چونکہ ابوطالب کی شادی اپنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نجیب الطرفین ہاشمی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔ خاندانِ ہاشم کو عرب اور قبیلہ قریش میں جو وقعت وعظمت حاصل تھی وہ محتاجِ اظہار نہیں، خانہ کعبہ کی خدمت اور اس کا اہتمام بنو ہاشم کا مخصوص طغرائے امتیاز تھا اور اس شرف کے باعث ان کو تمام عرب میں مذہبی سیادت حاصل تھی۔ حضرت علی مرتضی ؓ کے والد ابو طالب مکہ کے ذی اثر بزرگ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کی آغوش شفقت میں پرورش پائی تھی اور بعثت کے بعد انھی کے زیر حمایت مکہ کے کفرستان میں دعوتِ حق کا اعلان کیا تھا، ابو طالب ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے رہے اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے پنجہ ظلم ستم سے محفوظ رکھا، مشرکین قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی اور حمایت کے باعث ابو طالب اور ان کے خاندان کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں، ایک گھاٹی میں ان کو محصور کر دیا، کاروبار اور لین دین بند کر دیا، شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کرلئے، کھانا پینا تک بند کر دیا، غرض ہر طرح پریشان کیا، مگر اس نیک طینت بزرگ نے آخری لمحہ حیات تک اپنے عزیز بھتیجے کے سر سے دستِ شفقت نہ اُٹھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی آرزو تھی کہ ابو طالب کا دل نورِ ایمان سے منور ہو جائے اور انھوں نے اپنی ذات سے دنیا میں مہبط وحی(صلی اللہ علیہ وسلم )کی جو خدمت و حمایت کی ہے اس کے معاوضہ میں ان کو نعیم فردوس کی ابدی اور لامتناہی دولت حاصل ہو، اس لیے ابو طالب کی وفات کے وقت نہایت اصرار کے ساتھ کلمہ توحید کی دعوت دی، ابوطالب نے کہا عزیز بھتیجے! اگر مجھے قریش کی طعنہ زنی کا خوف نہ ہوتا تو نہایت خوشی سے تمھاری دعوت قبول کرلیتا، [31]سیرت ابن ہشام میں حضرت عباس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نزع کی حالت میں کلمۂ توحید ان کی زبان پر تھا، مگر یہ روایت کمزور ہے، بہر حال ابو طالب نے گو علانیہ اسلام قبول نہیں کیا، تاہم انھوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح پرورش و پرداخت کی اور کفار کے مقابلہ میں جس ثبات اور استقلال کے ساتھ آپ کی نصرت وحمایت کا فرض انجام دیا، اس کے لحاظ سے اسلام کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ شکر گزاری اور احسان مندی کے ساتھ لیا جائے گا۔ حضرت علی ؓ کی والدہ حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد نے بھی حضرت آمنہ ؓ کے اس یتیم معصوم کی ماں کی طرح شفقت ومحبت سے پرورش کی، مستند روایات کے مطابق وہ مسلمان ہوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ گئیں، ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن میں اپنی قمیص مبارک پہنائی اور قبر میں لیٹ کر اس کو متبرک کیا،لوگوں نے اس عنایت کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ اسی نیک سیرت خاتون کا ممنونِ احسان ہوں۔ [32] حضرت علی بن ابی طالب ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئے تھے، ابو طالب نہایت کثر العیال اور معاش کی تنگی سے نہایت پریشان تھے، قحط و خشک سالی نے اس مصیبت میں اور بھی اضافہ کر دیا، اس لیے رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبوب چچا کی عسرت سے متاثر ہوکر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ہم کو اس مصیبت وپریشان حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے؛چنانچہ حضرت عباس ؓ نے حسب ارشاد جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کفالت اپنے ذمہ لی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے علی ؓ کو پسند کیا؛چنانچہ وہ اس وقت سے برابر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ [33][34] .[35][36][37][38][39][40][41] [42][43][44] [45] [34][46][47] ،[46][48][49] .[50]
اسلام
حضرت علی ؓ کا سن ابھی صرف دس سال کا تھا کہ ان کے شفیق مربی کو دربارِ خداوندی سے نبوت کا خلعت عطا ہوا، چونکہ حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ رہتے تھے اس لیے ان کواسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے؛ چنانچہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو مصروفِ عبادت دیکھا، اس مؤثر نظارہ نے اثر کیا، طفلانہ استعجاب کے ساتھ پوچھا، آپ دونوں کیا کر رہے تھے؟ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے منصبِ گرامی کی خبردی اور کفر و شرک کی مذمت کرکے توحید کی دعوت دی، حضرت علی ؓ کے کان ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے، متحیر ہوکر عرض کیا، اپنے والد ابوطالب سے دریافت کروں اس کے متعلق؟چونکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی اعلان عام منظور نہ تھا، اس لیے فرمایا کہ اگر تمھیں تامل ہے توخود غورکرو؛لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش سے فطرت سنورچکی تھی، توفیق الہیٰ شامل ہوئی، اس لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت پیش نہ آئی اور دوسرے ہی دن بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہو گئے۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بعد سب سے پہلے کون ایمان لایا، بعض روایات سے حضرت ابوبکر ؓ کی، بعض سے حضرت علی ؓ کی اولیت ظاہر ہوتی ہے اور بعضوں کے خیال میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کا ایمان سب پر مقدم ہے؛ لیکن محققین نے ان مختلف احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ عورتوں میں، حضرت ابوبکر صدیق ؓ مردوں میں، حضرت زید بن حارثہ ؓ غلاموں اور حضرت علی ؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔[51][52][53][48][54]
مکہ کی زندگی
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی ؓ کی زندگی کے تیرہ سال مکہ معظمہ میں بسر ہوئے، چونکہ وہ رات دن سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے مشورہ کی مجلسوں میں تعلیم وارشاد کے مجمعوں میں ، کفارو مشرکین کے مباحثوں میں اور معبودِحقیقی کی پرستش وعبادت کے موقعوں پر، غرض ہر قسم کی صحبتوں میں شریک رہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سر زمین مکہ میں مسلمانوں کے لیے علانیہ خدا کا نام لینا اور اس کی عبادت و پرستش کرنا تقریباً ناممکن تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھپ چھپ کر اپنے معبود حقیقی کی پرستش فرماتے، حضرت علی ؓ بھی ان عبادتوں میں شریک ہوتے، ایک دفعہ وادی نخلہ میں حسب معمول مصروفِ عبادت تھے کہ اتفاق سے اس طرف ابو طالب کا گزرہوا، اپنے معصوم بھتیجے اور نیک بخت بیٹے کو مصروفِ عبادت دیکھ کر پوچھا کیا کرتے ہو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ حق کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ اس میں کوئی ہرج نہیں ؛لیکن مجھ سے نہیں ہو سکتا۔[55] [36][56] [57]
انتظام دعوت
منصب نبوت عطا ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین برس تک علانیہ دعوتِ اسلام کی صدا بلند نہیں فرمائی؛بلکہ پوشیدہ طریقہ پر خاص خاص لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے رہے، چوتھے سال کے اعلان عام اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں میں اس کی تبلیغ کا حکم ہوا؛چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی : وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبیْنَ "اپنے قریبی اعزہ کو (عذب ِالہی سے) ڈراؤ" سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے موافق کوہِ صفا پر چڑھ کر اپنے خاندان کے سامنے دعوتِ اسلام کی صدا بلند کی ؛لیکن مدت کا زنگ ایک دن کے صیقل سے نہیں دور ہو سکتا تھا، ابولہب نے کہا :تَبًّالَکَ، اسی لیے تو نے ہم لوگوں کو جمع کیا تھا؟اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر اپنے خاندان میں تبلیغ اسلام کی کوشش فرمائی اور حضرت علی ؓ کو انتظام دعوت کی خدمت پر مامور کیا۔ حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت مشکل سے چودہ پندرہ برس کی تھی ؛لیکن انھوں نے اس کمسنی کے باوجود نہایت اچھا انتظام کیا، دسترخوان پر بکرے کے پائے اور دودھ تھا، دعوت میں کل خاندان شریک تھا جن کی تعداد چالیس تھی، حضرت حمزہ ؓ، عباس ؓ، ابولہب اور ابوطالب بھی شرکاء میں تھے، لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر فرمایا:‘‘ یا بنی عبدالمطلب:خداکی قسم میں تمھارے سامنے دنیا وآخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں، بولو تم میں سے کون اس شرط پر میرا ساتھ دیتا ہے کہ وہ میرا معاون و مددگار ہوگا؟ اس کے جواب میں سب چپ رہے، صرف شیر خدا علی مرتضی کی آواز بلند ہوئی کہ گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یاور اور دست وبازو بنوں گا۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا تم بیٹھ جاؤ اور پھر لوگوں سے خطاب فرمایا؛لیکن کسی نے جواب نہ دیا، حضرت علی ؓ پھر آٹھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دفعہ بھی ان کو بٹھا دیا، یہاں تک کہ جب تیسری دفعہ بھی اس بارِگراں کا اٹھانا کسی نے قبول نہیں کیا تو اس مرتبہ بھی حضرت علی ؓ نے جاں بازی کے لہجہ میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا تو ارشاد ہوا کہ بیٹھ جاؤ تو میرا بھائی اور میرا وارث ہے۔" [58][59]،[60][61] .[62]
ہجرت
بعثت کے بعد تقریباً تیرہ برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گھاٹیوں میں اسلام کی صدا بلند کرتے رہے؛لیکن مشرکین قریش نے اس کا جواب محض بغض وعناد سے دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو اسیر پنجۂ ستم دیکھ کر آہستہ آہستہ ان سب کو مدینہ چلے جانے کا حکم دیا؛چنانچہ چند نفوسِ قدسیہ کے علاوہ مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا، اس ہجرت سے مشرکین کو اندیشہ ہوا کہ اب مسلمان ہمارے قبضہ اقتدار سے باہر ہو گئے ہیں اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی قوت مضبوط کرکے ہم سے انتقام لیں، اس خطرہ نے ان کو خود رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن بنادیا؛چنانچہ ایک روز مشورہ کرکے وہ رات کے وقت کاشانۂ نبوت کی طرف چلے کہ مکہ چھوڑنے سے پہلے ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے رخصت کر دیں؛لیکن مشیت الہی تو یہ تھی کہ ایک دفعہ تمام عالم حقانیت کے نور سے پرنور اور توحید کی روشنی سے شرک کی ظلمت کا فورہوجائے، اس مقصد کی تکمیل سے پہلے آفتاب رسالت کس طرح غروب ہو سکتا ہے،اس لیے وحی الہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے ارادوں کی اطلاع دیدی اور ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ مشرکین کو شبہ نہ ہو، حضرت علی ؓ مرتضیٰ کو اپنے فرشِ اطہر پر استراحت کا حکم دیا اور خود حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔[48][63] [64]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مہاجرین میں باہم بھائی چارہ کرایا تو حضرت علی ؓ کو اپنا بھائی بنایا۔ [65][66][67][68][69][70][71]
تعمیر مسجد
مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس و مجبور نہ تھا ؛بلکہ آزادی و حریت کی سر زمین میں تھا جہاں ہر شخص علانیہ خدائے واحد کی پرستش کرسکتا اور احکام شرعیہ نہایت اطمینان کے ساتھ ادا کر سکتا تھا ، مسلمانوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جاتی تھی، یہاں تک کہ ہجرت کے چھٹے یا ساتویں مہینہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسجد تعمیر کرنے کا خیال پیدا ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد رکھی اور اپنے رفقا کے ساتھ خود اس کی تعمیر میں حصہ لیا، تمام صحابہ جوش کے ساتھ شریک کار تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اینٹ اور گارہ لالا کر دیتے تھے اور یہ رجز پڑھتے تھے: لایستوی من یعمر المساجدیدائب فیہ قائما وقاعداومن یری عن الغبار حائدا [72] "جو مسجد تعمیر کرتا ہے کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اس مشقت کو برداشت کرتا ہے اور جو گردو غبار کے باعث اس کام سے جی چراتا ہے وہ برابر نہیں ہو سکتے۔"[73]
غزوہ ٔبدر
سلسلۂ غزوات میں سب سے پہلا معرکہ غزوہ ٔبدر ہے، اس غزوہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین سو تیرہ جان نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، آگے آگے دو سیاہ رنگ کے عَلم تھے، ان میں سے ایک حیدرکرار کے ہاتھ میں تھا، جب رزمگاہِ بدر کے قریب پہنچے تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو چند منتخب جان بازوں کے ساتھ غنیم کی نقل وحرکت کا پتہ چلانے کے لیے بھیجا، انھوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی اور مجاہدین نے مشرکین سے پہلے پہنچ کر اہم مقاموں پر قبضہ کر لیا، سترہویں رمضان جمعہ کے دن جنگ کی ابتداہوئی، قاعدہ کے موافق پہلے تنہا مقابلہ ہوا، سب سے پہلے قریش کی صف سے تین نامی بہادر نکل کر مسلمانوں سے مبازر طلب ہوئے، تین انصاریوں نے ان کی دعوت کو لبیک کہا اور آگے بڑھے، قریش کے بہادروں نے ان کا نام نسب پوچھا، جب یہ معلوم ہوا کہ دو یثرب کے نوجوان ہیں تو ان کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مقابلہ میں ہمارے ہمسر کے آدمی بھیجو، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے تین عزیزوں کے نام لیے، حمزہ ؓ، علی ؓ اور عبیدہ ؓ تینوں اپنے حریفوں کے لیے میدان میں آئے، حضرت علی ؓ نے اپنے حریف ولید کو ایک ہی وار میں تہ تیغ کر دیا، اس کے بعد جھپٹ کر عبیدہ ؓ کی مدد کی اور ان کے حریف شیبہ کو بھی قتل کیا، مشرکین نے طیش میں آکر عام حملہ کر دیا، یہ دیکھ کر مجاہدین بھی نعرۂ تکبیر کے ساتھ کفار کے نرغہ میں گھس گئے اور عام جنگ شروع ہو گئی، شیر خدا نے صفیں کی صفیں الٹ دیں اور ذو الفقار حیدری نے بجلی کی طرح چمک چمک کر اعدائے اسلام کے خرمن ہستی کو جلادیا، مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان مظفر و منصور نے شمار مال غنیمت اور تقریباً ستر قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے، مال غنیمت میں سے آ پ کو ایک زرہ ایک اونٹ اور ایک تلوار ملی، [74][36]
حضرت فاطمہ سے نکاح
اسی سال یعنی 2ھ میں حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دامادی کا شرف بخشا یعنی اپنی محبوب ترین صاحبزادی سیدۃ النساء حضرت فاطمہ زہرا ؓ سے نکاح کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا ؓ سے عقد کی درخواست سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ان کے بعد حضرت عمر ؓ نے کی تھی ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ نے خواہش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمھارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ بولے ایک گھوڑے اور ایک ذرہ کے سوا کچھ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تو لڑائی کے لیے ہے البتہ ذرہ کو فروخت کر دو، حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اس کو حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ہاتھ چار سو اسی درہم میں بیچا اور قیمت لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ بازار سے عطر اور خوشبو خرید لائیں اور خود نکاح پڑھایا اور دونوں میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر خیر و برکت کی دعادی۔ [75][76] [77][78][79]
رخصتی
نکاح کے تقریباً دس ، گیارہ ماہ بعد باقاعدہ رخصتی ہوئی، اس وقت تک حضرت علی بن ابی طالب ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے جب رخصتی کا وقت آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایک مکان کرایہ پر لے لو؛ چنانچہ حارث بن النعمان کا مکان ملا اور حضرت علی ؓ ملکہ جنت کو رخصت کرا کے اس میں لے آئے۔ [80][81]
جہیز
حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنے گھر سے کوئی جہیز نہیں ملا تھا۔ حضرت علی نے انھیں جو دیا اس کی کل کائنات یہ تھی، ایک پلنگ، ایک بستر، ایک چادر، دوچکیاں اورایک مشکیزہ، عجیب اتفاق ہے کہ یہی چیزیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی تک ان کی رفیق رہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس میں کوئی اضافہ نہ کرسکے۔[82][83]
دعوت ولیمہ
حضرت علی ؓ کی زندگی نہایت فقیرانہ و زاہدانہ تھی خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ذاتی ملکیت میں صرف ایک اونٹ تھا جس کے ذریعہ سے اذخر(ایک قسم کی گھاس) کی تجارت کرکے دعوت ولیمہ کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کا ارادہ تھا؛ لیکن حضرت حمزہ ؓ نے حالت نشہ میں (اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی، بخاری میں مفصل واقعہ مذکور ہے) اس اونٹ کو ذبح کرکے کباب سیخ بنادیا، اس لیے اب اقلیم زہد کے تاجدار کے پاس اس رقم کے سوا جو ذرہ کی قیمت میں سے مہر ادا کرنے کے بعد بچ رہی تھی اور کچھ نہ تھی؛چنانچہ اسی سے دعوت ولیمہ کا سامان کیا جس میں کھجور، جو کی روٹی، پنیز اور ایک خاص قسم کا شوربہ تھا؛لیکن یہ اس زمانہ کے لحاظ سے پرتکلف ولیمہ تھا، حضرت اسماء ؓ کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں اس سے بہتر ولیمہ نہیں ہوا۔[34] [84]
غزوۂ احد
3ھ میں اُحد کا معرکہ پیش آیا، شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی اور پہلے مسلمانوں نے قلت تعداد کے باجود غنیم کو بھگا دیا؛ لیکن عقب کے محافظ تیر اندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھا کہ مشرکین پیچھے سے یکایک ٹوٹ پڑے اس ناگہانی حملے سے مسلمانوں کے اوسان جاتے رہے، اسی حالت میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم زخم پہنچا، دندانِ مبارک شہید ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خندق میں گر پڑے، [85] مشرکین ادھر بڑھے ؛لیکن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روکا اور اسی میں لڑتے لڑتے شہید ہوئے، اس کے بعد حیدر کرار ؓ نے بڑھ کر علم سنبھالا اور بے جگری کے ساتھ دادِ شجاعت دی، مشرکین کے علمبردار، ابو سعید بن ابی طلحہ نے مقابلہ کے لیے للکارا، شیر خدانے بڑھ کر ایسا ہاتھ مارا کہ فرشِ خاک پر تڑپنے لگا اور بدحواسی کے عالم میں برہنہ ہو گیا، حضرت علی ؓ کو اس کی بدحواسی اور بے بسی پر رحم آگیا اور زندہ چھوڑ کر واپس آئے۔ مشرکین کا زور کم ہوا تو حضرت علی چند صحابہ ؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ پر لے گئے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ تعالیٰ علیہا ؓ نے زخم دھویا اور حضرت علی ؓ نے ڈھال میں پانی بھر بھر کر گرایا، اس سے خون بند نہ ہوا تو حضرت فاطمہ ؓ نے چٹائی جلا کر اس کی راکھ سے زخم کا منہ بند کیا۔[86] [87]
بنو نضیر
غزوہ احد کے بعد 4ھ میں بنو نضیر کو ان کی بد عہدی کے باعث جلا وطن کیا گیا، حضرت علی ؓ اس میں بھی پیش پیش تھے اور علم انھی کے ہاتھ میں تھا۔
غزوۂ خندق
سنہ 5ھ میں غزوۂ خندق پیش آیا اس میں کفار کبھی کبھی خندق میں گھس گھس کرحملہ کرتے تھے، ایک دفعہ سواروں نے حملہ کیا،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند جان بازوں کے ساتھ بڑھ کر روکا، سواروں کے سردار عمرو بن عبدود نے کسی کو تنہا مقابلہ کی دعوت دی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کو پیش کیا، اس نے کہا میں تم کو قتل کرنا نہیں چاہتا، شیر خدانے کہا؛لیکن میں تم کو قتل کرنا چاہتا ہوں، وہ برہم ہوکر گھوڑے سے کود پڑا اور مقابلہ میں آیا، تھوڑی دیر تک شجاعانہ مقابلہ کے بعد ذو الفقار حیدری نے اس کو واصل جہنم کیا، اس کا مقتول ہونا تھا کہ باقی سوار بھاگ کھڑے ہوئے، [88] کفار بہت دن تک خندق کا محاصرہ کیے رہے ؛لیکن بالآخر مسلمانوں کی اس پامردی اور استقلال کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ معرکہ بھی مجاہدین کرام کے ہاتھ رہا۔[89][90]
بنو قریظہ
بنو قریظہ نے مسلمانوں سے معاہدہ کے باوجود ان کے مقابلہ میں قریش کا ساتھ دیا اور تمام قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا تھا، اس لیے غزوۂ خندق سے فراغت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف توجہ کی، اس مہم میں بھی علم حضرت علی ؓ کے ہاتھ میں تھا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے مطابق قلعہ پر قبضہ کرکے اس کے صحن میں عصر کی نماز اداکی۔ [91]
بنو سعد کی سرکوبی
6ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کے یہود خیبر کی اعانت کے لیے مجتمع ہو رہے ہیں، اس لیے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو ایک سو کی جمعیت کے ساتھ ان کی سرکوبی پر مامور کیا، انھوں نے ماہِ شعبان میں حملہ کرکے بنو سعد کو منتشر کر دیا اور پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں مال غنیمت میں لائے۔
صلح حدیبیہ
اسی سال یعنی 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً چودہ ہزار صحابہ کرام ؓ کے ساتھ زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا ، مقام حدیبیہ میں معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ مزاحمت کریں گے، حضرت عثمان بن عفان ؓ گفتگو کے لیے سفیر بنا کر بھیجے گئے، مشرکین نے ان کو روک لیا، یہاں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ شہید کر دیے گئے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان ؓ کے انتقام کے لیے مسلمانوں سے بیعت لی، حضرت علی بن ابی طالب ؓ بھی اس بیعت میں شریک تھے، بعد کو جب یہ معلوم ہوا کہ شہادت کی خبر غلط تھی تو مسلمانوں کا جوش کسی قدر کم ہوا اور طرفین نے مصالحت پر رضا مندی ظاہر کی، حضرت علی ؓ کو صلح نامہ لکھنے کا حکم ہوا، انھوں نے حسب دستور :ھذا اماقاضٰی علیہ محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبارت سے عہد نامہ کی ابتدا کی، مشرکین نے ‘رسول اللہ ’’کے لفظ پر اعتراض کیا اگر ہم کو رسول اللہ ہونا تسلیم ہوتا تو پھر جھگڑا ہی کیا تھا ؟ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کو مٹا دینے کا حکم دیا؛لیکن حضرت علی ؓ کی غیرت نے گوارا نہ کیا اور عرض کیا، خداکی قسم! میں اس کو نہیں مٹا سکتا، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ست مبارک سے اس کو مٹادیا اس کے بعد معاہدہ صلح لکھا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کا ارادہ ملتوی کرکے مدینہ واپس تشریف لائے۔[92][93]
فتح خیبر
7ھ میں خیبر پر فوج کشی ہوئی، یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا، پہلے حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے بعد حضرت عمر ؓ اس کی تسخیر پر مامور ہوئے ؛لیکن کامیابی نہ ہوئی، حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل ایک ایسے بہادر کو علم دوں گا جو خدا اور رسول کا محبوب ہے اور خیبر کی فتح اسی کے ہاتھ سے مقدر ہے، صبح ہوئی تو ہر شخص متمنی تھا کہ کاش اس فخر وشرف کا تاج اس کے سرپر ہوتا؛لیکن یہ دولت گرانمایہ حیدر کرار ؓ کے لیے مقدر ہو چکی تھی، صبح کو بڑے بڑے جاں نثار اپنے نام سننے کے منتظر تھے کہ دفعتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب ؓ کا نام لیا ، یہ آواز غیر متوقع تھی، کیونکہ حضرت علی ؓ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاکر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب لگایا جس سے یہ شکایت فوراً جاتی رہی۔ [94]
مرحب کی شکست
اس کے بعد علم مرحمت فرمایا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں لڑکر ان کو مسلمان بنالوں؟ فرمایا نہیں؛بلکہ پہلے اسلام پیش کرو اور ان کو اسلام کے فرائض سے آگاہ کرو کیونکہ تمھاری کوششوں سے ایک شخص بھی مسلمان ہو گیا تووہ تمھارے لیے بڑی سے بڑی نعمت سے بہتر ہے۔ [95]لیکن یہودیوں کی قسمت میں اسلام کی عزت کی بجائے شکست، ذلت اور رسوائی لکھی تھی، اس لیے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اوران کا معزز سردار مرحب بڑے جوش وخروش سے یہ رجز پڑھتا ہوا نکلا۔ قد علمت خیبر انی مرحب شاکی السلاح بطل مجرب خیبر مجھ کو جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں سطح پوش ہوں، بہادر ہوں، تجربہ کار ہوں اذالحروب اقبلت تلھب جب کہ لڑائی کی آگ بھڑکتی ہے فاتح خیبر اس متکبرانہ رجز کا جواب دیتے ہوئے بڑھا: اناالذی سمتنی امی حیدرہ کلیث غابات کریہ النظرہ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے جھاڑی کے شیر کی طرح مہیب اور ڈراؤنا اوفیہم بالصاع کیل السدرہ میں دشمنوں کو نہایت سرعت سے قتل کر دیتا ہوں اور جھپٹ کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا، [96] اس کے بعد حیدر کرار ؓ نے بڑھ کر حملہ کیا اور حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ اس کو مسخر کر لیا۔
مہم مکہ
رمضان 8ھ میں مکہ پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئیں، ابھی مجاہدین روانہ نہ ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ ایک عورت غنیم کو یہاں کے تمام حالات سے مطلع کرنے کے لیے روانہ ہو گئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ، زبیر ؓ اور مقداد ؓ کو اس کی گرفتاری پر مامور کیا، یہ تینوں تیز گھوڑوں پر سوار ہوکر اس کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔اور خاخ کے باغ میں گرفتار کرکے خط مانگا، پہلے اس عورت نے لا علمی ظاہر کی ؛لیکن جب ان لوگوں نے جامہ تلاشی کا ارادہ کیا تو اس نے خط حوالہ کر دیا اوریہ لوگ خط لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب یہ خط پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ مشہور صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین مکہ کے نام بھیجا تھا اور اس میں بعض مخفی حالات کی اطلاع تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاتم بن ابی بلتعہ سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرد جرم قرار دینے سے قبل اصل حالات سن لیں، واقعہ یہ ہے کہ مجھ کو قریش سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے، صرف اس کا حلیف ہوں اور مکہ میں دوسرے مہاجرین کی قرابتیں ہیں جو فتح مکہ کے وقت ان کے اہل و عیال کی حفاظت کرتے، میں نے اس خیال سے کہ اگر کوئی نازک وقت آئے تو میرے بچے بے یارو مددگار نہ رہ جائیں یہ خط لکھا تھا، حاشا وکلا اس سے مخبری یا اسلام کے ساتھ دشمنی مقصود نہ تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذر کو قبول کیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ انھوں نے سچ بیان کیا ہے؛ لیکن حضرت عمر ؓ کی آتش غضب بھڑک چکی تھی انھوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اُڑادوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بدری ہیں، کیا تم کو معلوم نہیں کہ بدریوں کے تمام گناہ معاف ہیں۔’’ [97] غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 10رمضان 8ھ کو مدینہ روانہ ہوئے اور ایک مرتبہ پھر اس محبوب سر زمین پر دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاتحانہ جاہ وجلال کے ساتھ داخل ہوئے، جہاں سے آٹھ سال پہلے بڑی بے کسی کے ساتھ مسلمان نکالے گئے تھے، ایک علم حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاتھ میں تھا اور وہ جوش کی حالت میں یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ الیوم یوم الملحۃ الیوم تستحل الکعبۃ ‘‘آج شدید جنگ کا دن ہے آج حرم میں خونریزی جائز ہے۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا توفرمایا، نہیں ایسا نہ کہو آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے اور حضرت علی ؓ کو حکم ہوا کہ سعد بن عبادہ ؓ سے علم لے کر فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہوں؛چنانچہ وہ کداء کی جانب سے مکہ میں داخل ہوئے[98] اورمکہ بلاکسی خونریزی کے تسخیر ہو گیا اور وقت آگیا کہ خلیل بت شکن کی یادگارِ (خانہ کعبہ) کو بتوں کی آلائشوں سے پاک کیا جائے جس کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس فریضہ کو ادا کیا اورخانۂ کعبہ کے گرد جس قدر بت تھے، سب کو لکڑی سے ٹھکراتے جاتے تھے اور یہ آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے‘‘وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا’[99]پھر خانۂ کعبہ کے اندر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام کی مورتیوں کو الگ کروایا اور تطہیر کعبہ کے بعد اندر داخل ہوئے، [100] لیکن چونکہ اس وحدت کدہ کا گوشہ گوشہ بتوں کی مورتیوں سے اٹا ہوا تھا اس لیے اس اہتمام کے باوجود تانبے کا سب سے بڑا بت باقی رہ گیا، یہ لوہے کی سلاخ میں پیوست کیا ہوا زمین پر نصب تھا اس لیے بہت بلندی پر تھا، پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کے کندھوں پر چڑھ کر اس کے گرانے کی کوشش کی؛لیکن وہ جسم اطہر کا بارنہ سنبھال سکے، اس لیے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شانہ اقدس پر چڑھا کر اس کے گرانے کا حکم دیا اور انھوں نے سلاخ سے اکھاڑ کر حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پاش پاش کرڈالا اور خانہ کعبہ کی کامل تطہیر ہو گئی۔( حاکم نے مستدرک میں اس واقعہ کو بہ تفصیل نقل کیا ہے؛لیکن فتح مکہ کی بجائے شب ہجرت کی طرف منسوب کیا ہے؛لیکن اس کے علاوہ دوسرے محدثین اورارباب سیر نے فتح مکہ میں لکھا ہے اور یہی صحیح اور قریب عقل ہے، ہجرت کی ایسی نازک رات میں جبکہ جان خطرہ میں تھی ایسے بڑے اور خطرناک کام کا انجام دینا بعید از قیاس ہے، دوسرے مکہ کی زندگی میں بت شکنی کا کوئی واقعہ نہیں ہے)[101][102] وتقول مصادرهم أن جميع المسلمين والمسلمات قد بايعوه في هذا اليوم على السمع والطاعة.[103]
ایک غلطی کی تلافی
فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنو حذیمہ میں تبلیغ اسلام کے لیے روانہ فرمایا، انھوں نے توحید کی دعوت دی، بنو حذیمہ نے اسے قبول کیا؛ لیکن اپنی بدویت اور جہالت کے باعث اس کو ادا نہ کرسکے اور اسلمنا یعنی ہم نے اسلام قبول کیا کی بجائے صبانا صبانا یعنی ہم بے دین ہو گئے کہنے لگے، حضرت خالد بن ولید ؓ نے ان کا منشا سمجھ کر سب کو قید کر لیا اور بہتوں کو قتل کر ڈالا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو نہایت متاثر ہوئے اورحضرت علی ؓ کو اس غلطی کی تلافی کے لیے روانہ فرمایا، انھوں نے پہنچ کر تمام قیدیوں کو آزاد کرادیا اور مقتولین کے معاوضہ خوں بہادیا۔ [104]
غزوہ حنین
فتح مکہ کے بعد اسی سال غزوہ حنین کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا اوراس میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی؛لیکن جب وہ مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوئے تو شکست خوردہ غنیم نے غافل پاکر پھر اچانک حملہ کر دیا، مجاہدین اس ناگہانی مصیبت سے ایسے پریشان ہوئے کہ بارہ ہزار نفوس میں سے صرف چند ثابت قدم رہ سکے، ان میں ایک حضرت علی ؓ بھی تھے، آپ نہ صرف پامردی اور استقلال کے ساتھ قائم رہے ؛بلکہ اپنی غیر معمولی شجاعت سے لڑائی کو سنبھال لیا اور غنیم کے امیر عسکر پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کر دیا اور دوسری طرف جو مجاہدین ثابت قدم رہ گئے تھے وہ اس بے جگری کے ساتھ لڑے کہ مسلمانوں کی ابتری اور پریشانی کے باوجود دشمن کو شکست ہوئی۔ [105]
اہل بیت کی حفاظت
9ھ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا قصد فرمایا تو حضرت علی ؓ کو اہل بیت کی حفاظت کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا، شیر خدا کو شرکتِ جہاد سے محرومی کا غم تو تھا، منافقین کی طعنہ زنی نے اور بھی رنجیدہ کر دیا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال کا علم ہوا تو ان کا غم دور کرنے کے لیے فرمایا، علیؓ !کیا تم اسے پسند کروگے کہ میرے نزدیک تمھارا وہ رتبہ ہو جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھا۔" [106]
تبلیغ فرمانِ رسول
غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بناکر روانہ فرمایا، اسی اثناء میں سورۂ برأت نازل ہوئی، لوگوں نے کہا کہ اگر یہ سورۃ ابوبکر ؓ کے ساتھ حج کے موقع پر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجی جاتی تو اچھا ہوتا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری طرف سے صرف میرے خاندان کا آدمی اس کی تبلیغ کرسکتا ہے؛چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو بلا کر حکم دیا کہ وہ مکہ جا کر اس سورۃ کو سنائیں اور عام اعلان کر دیں کہ کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہوگا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرے اور جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہد ہے وہ مدتِ مہینہ تک باقی رہے گا۔ [107]
مہم یمن اور اشاعتِ اسلام
تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہمیں روانہ فرمائیں ان میں یمن کی مہم پر حضرت خالد بن ولید ؓ مامور ہوئے، لیکن چھ مہینہ کی مسلسل جدوجہد کے باوجود اشاعت اسلام میں کامیاب نہ ہو سکے، اس لیے رمضان 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو بلا کر یمن جانے کا حکم دیا، انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایک ایسی قوم میں بھیجا جاتا ہوں جس میں مجھ سے زیادہ معمر اور تجربہ کار لوگ موجود ہیں، ان لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا میرے لیے نہایت دشوار ہوگا، ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی‘‘ اے خدا اس کی زبان کو راست گو بنا اور ا س کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کر دے’’ اس کے بعد خود اپنے دستِ اقدس سے ان کے فرقِ مبارک پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ فرمایا۔ [108] حضرت علی ؓ کے یمن پہنچتے ہی یہاں کا رنگ بالکل بدل گیا، جو لوگ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چھہ مہینہ کی سعی و کوشش سے بھی اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے وہ حضرت علی مرتضی ؓ کی صرف چند روزہ تعلیم و تلقین سے اسلام کے شیدائی ہو گئے اور قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔[109]
حجۃ الوداع میں شرکت
اسی سال یعنی 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یمن سے آکر اس یادگار حج میں شریک ہوئے۔ [110]
صدمۂ جانکاہ
حج سے واپسی کے بعد ابتدائے ماہ ربیع الاول 11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، حضرت علی ؓ نے نہایت تندہی اورجانفشانی کے ساتھ تیمار داری اور خدمت گزاری کا فرض انجام دیا، ایک روز باہر آئے، لوگوں نے پوچھا، اب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیسا ہے؟ حضرت علی ؓ نے اطمینان ظاہر کیا، حضرت عباس ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، خدا کی قسم! میں موت کے وقت خاندان عبد المطلب کے چہرے پہچانتا ہوں، آؤ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ ہمارے لیے خلافت کی وصیت کرجائیں، حضرت علی ؓ نے کہا، میں عرض نہیں کروں گا، اگر خدا کی قسم!آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر آئندہ کوئی امید باقی نہیں رہے گی، [111] دس روز کی مختصر علالت کے بعد 12 / ربیع الاول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان نثاروں کو اپنی مفارقت کا داغ دیا، حضرت علی ؓ چونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین عزیز اور خاندان کے رکن رکین تھے، اس لیے غسل اور تجہیز و تکفین کے تمام مراسم انہی کے ہاتھ سے انجام پائے۔ [112] انصار و مہاجرین دروازے کے باہر کھڑے تھے، ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاری کو بھی اس میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔[113]
خلفائے راشدین کے ماتحت زندگی
محمد کی جانشینی
سقیفہ
حضرت محمد 632 میں فوت ہوئے جب حضرت علی کی عمر اواخر تیس کے قریب تھی۔[114] جب وہ اور دیگر قریبی رشتہ دار تدفین کی تیاری کر رہے تھے،[115][116] تو انصار (مدنی باشندے، یعنی 'مددگار') کا ایک گروہ سقيفہ میں مسلمانوں کے مستقبل پر بات چیت کرنے یا اپنے شہر، مدینہ، پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کے لیے جمع ہوا۔ حضرت ابو بکر اور عمر انصار کے اس اجتماع میں مہاجرین (مکہ کے مسلمان، یعنی 'مہاجر') کی چند نمائندوں میں شامل تھے۔[117] حضرت علی کا معاملہ ان کی عدم موجودگی میں سقيفہ میں پیش کیا گیا، لیکن ناکام رہا،[118][119] اور آخرکار موجودہ لوگوں نے حضرت ابو بکر کو قیادت کے لیے منتخب کیا، جس کے بعد ایک تند بحث ہوئی جو کہا جاتا ہے کہ تشدد کی صورت اختیار کر گئی۔[120] سقيفہ میں قبیلائی رقابتوں نے حضرت ابو بکر کے حق میں اہم کردار ادا کیا،[115][121] اور اگر حضرت علی کو امیدوار کی حیثیت سے ایک وسیع مجلس (شورا) میں شامل کیا جاتا تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔[122][123] خاص طور پر، قریش کی روایات میں وراثتی جانشینی نے حضرت علی کے حق میں زبردست فوائد فراہم کیے،[124][125][126] حالانکہ ان کی کم عمری ان کے حق میں کمزور تھی۔[127][114] اس کے برعکس، حضرت ابو بکر کی جانشینی (خلافت) کو اکثر اس بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت محمد کے آخری دنوں میں کچھ نمازیں پڑھائیں،[115][128] لیکن ایسی اطلاعات کی صداقت اور سیاسی اہمیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔[115][129][130]
حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ
جبکہ حضرت ابو بکر کی تقرری کو مدینہ میں کم مزاحمت کا سامنا تھا،[128] بنو ہاشم اور رسول کے کچھ ساتھی جلد ہی حضرت علی کے گھر کے سامنے احتجاج کرنے جمع ہو گئے۔[131][132] ان میں زبیر اور رسول کے چچا عباس بھی شامل تھے۔[132] ان احتجاج کرنے والوں نے حضرت علی کو رسول کا حقیقی جانشین سمجھا،[133][134] جو غالباً غدیر خم کے حوالے سے تھا۔[135] دیگر روایات کے مطابق،[136] طبری کی اطلاع ہے کہ پھر حضرت عمر نے امام علی کے رہائش گاہ پر ایک مسلح ہجوم کی قیادت کی اور دھمکی دی کہ اگر علی اور ان کے حامی ابو بکر کی بیعت نہیں کریں گے تو وہ گھر کو آگ لگا دیں گے۔[137][133][138][139] یہ منظر جلد ہی پرتشدد ہو گیا،[136][140] لیکن حضرت علی کی بیوی، حضرت فاطمہ، کی فریاد کے بعد ہجوم پیچھے ہٹ گیا۔[137] بعد میں، حضرت ابو بکر نے بنو ہاشم پر ایک کامیاب بائیکاٹ عائد کیا،[141] جس کے نتیجے میں وہ امام علی کی حمایت چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔[141][142] زیادہ تر، امام علی نے خود حضرت ابو بکر کی بیعت اس وقت تک نہیں کی جب تک حضرت فاطمہ اپنے والد حضرت محمد کی وفات کے چھ ماہ کے اندر فوت نہ ہو گئیں۔[143] شیعہ مصادر میں، جوان فاطمہ کی موت (اور اسقاط) کو حضرت ابو بکر کے حکم پر امام علی کو زیر کرنے کے لیے ان کے گھر پر حملے سے منسوب کیا گیا ہے۔[144][133][134] سنی یہ اطلاعات قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں،[145] لیکن ان کے ابتدائی مصادر میں یہ ثبوت موجود ہے کہ ایک ہجوم نے طاقت کے ساتھ حضرت فاطمہ کے گھر میں داخل ہو کر علی کو گرفتار کیا،[146][147][148] ایک واقعہ جس پر حضرت ابو بکر نے اپنی آخری ایام میں افسوس کا اظہار کیا۔[149][150] بنو ہاشم کو کمزور کرنے کے لیے ایک سیاسی اقدام کے طور پر،[151][152][153][154] حضرت ابو بکر نے پہلے حضرت فاطمہ سے فدک کے قیمتی زمینیں ضبط کر لیں، جسے وہ اپنے والد کی وراثت (یا تحفہ) سمجھتی تھیں۔[155][156] فدک کی ضبطی کو اکثر سنی مصادر میں نبی کی وراثت کے بارے میں ایک حدیث کے ساتھ جائز قرار دیا جاتا ہے، جس کی صداقت پر جزوی طور پر سوال اٹھایا گیا ہے کیونکہ یہ قرآنی احکامات سے متصادم ہے۔[155][157]
حضرت ابوبکر کی خلافت (632-634)
عوامی حمایت کی عدم موجودگی میں، حضرت علی نے بالآخر مسلم اتحاد کے لیے حضرت ابوبکر کی وقتی حکمرانی کو قبول کر لیا۔[158][159][160] خاص طور پر، حضرت علی نے خلافت کے حصول کے لیے زبردستی کے کسی بھی اقدام کو مسترد کر دیا۔[161][127] تاہم، حضرت علی نے اپنے فضائل اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قریبی تعلق کی بنیاد پر خود کو قیادت کے لیے سب سے زیادہ موزوں امیدوار سمجھا۔[162][163][164] شواہد بتاتے ہیں کہ حضرت علی نے خود کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر کردہ جانشین بھی تصور کیا۔[165][166][167] محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے برعکس،[168][169] حضرت علی نے حضرت ابوبکر اور ان کے جانشینوں حضرت عمر اور عثمان کی خلافتوں کے دوران عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی۔[170][168][171] حضرت علی نے نہ تو جنگِ ارتداد میں حصہ لیا اور نہ ہی ابتدائی مسلم فتوحات میں،[171] اگرچہ وہ حضرت ابوبکر اور عمر کو حکومت اور مذہبی امور میں مشورہ دیتے رہے۔[170][171] تاہم، ان کے ساتھ حضرت علی کے اختلافات بھی معروف ہیں[172][173][174] مگر انہیں اکثر سنی ذرائع میں نظر انداز کیا گیا ہے۔[175][176] یہ تناؤ 644ء کی شوریٰ میں اس وقت عروج پر پہنچا جب حضرت علی نے پہلے دو خلفاء کی مثالوں کی پابندی کرنے سے انکار کر دیا۔[169][168] اس کے برعکس، شیعہ ذرائع میں حضرت علی کا حضرت ابوبکر سے بیعت لینا ایک (جبری) سیاسی مصلحت (تقیہ) کا عمل تصور کیا جاتا ہے۔[177] شیعہ ذرائع میں حضرت علی کے خلفاء کے ساتھ تنازعات پیش کیے گئے ہیں۔[175]
حضرت عمر کی خلافت (634-644)
634ء میں اپنی وفات سے قبل حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا۔[178] حضرت علی کو اس تقرری کے بارے میں مشورہ نہیں کیا گیا تھا، جس کی ابتدا میں کچھ سینئر صحابہ نے مخالفت کی۔[179] حضرت علی نے خود اس وقت خلافت کے کسی دعوے پر زور نہیں دیا اور حضرت عمر کی خلافت کے دوران عوامی امور سے الگ تھلگ رہے،[180] اگرچہ حضرت عمر نے بعض معاملات میں حضرت علی سے مشورہ کیا۔[170][181] مثال کے طور پر، اسلامی تقویم کے آغاز کے لیے مدینہ ہجرت (ہجرت) کو اپنانے کا خیال حضرت علی سے منسوب ہے۔[182] اس کے باوجود حضرت علی کے سیاسی مشورے کو شاید نظر انداز کیا گیا۔[127] مثال کے طور پر، حضرت عمر نے اضافی ریاستی آمدنی کو اسلامی حیثیت کے مطابق تقسیم کرنے کے لیے ایک ریاستی رجسٹر (دیوان) بنایا،[183] جبکہ حضرت علی کا مؤقف تھا کہ یہ آمدنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے طریقے کے مطابق تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کی جانی چاہیے۔[184][127] حضرت علی دمشق کے قریب ایک اسٹریٹجک اجلاس میں بھی شامل نہیں تھے۔[127] حضرت علی نے حضرت عمر کی فوجی مہمات میں حصہ نہیں لیا،[185][186] اگرچہ ان کے بارے میں انہوں نے کھل کر مخالفت بھی نہیں کی۔[186] غالباً حضرت عمر نے بنو ہاشم میں نبوت اور خلافت کے اجتماع کی مخالفت کی[187][188] اور اسی لیے انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر مرگ پر اپنی وصیت لکھنے سے روکا،[189][190][191] شاید اس خوف سے کہ وہ حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر نہ کر دیں۔[192] بہرحال، شاید اپنی شراکتی طرز حکومت میں حضرت علی کے تعاون کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، حضرت عمر نے اپنی خلافت کے دوران حضرت علی اور بنو ہاشم کی جانب کچھ محدود پیش قدمیاں کیں۔[193] مثال کے طور پر، حضرت عمر نے مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جاگیریں علی کو واپس کر دیں، مگر فدک اور خیبر اپنے پاس رکھے۔[194] بعض سنی روایات کے مطابق، حضرت عمر نے حضرت علی کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح پر بھی اصرار کیا، جس پر حضرت علی نے بادل نخواستہ اس وقت رضامندی ظاہر کی جب حضرت عمر نے اپنے مطالبے کے لیے عوامی حمایت حاصل کی۔[195] لیکن شیعہ اس بات کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ام کلثوم اس وقت بچی تھیں۔
حضرت عثمان کا انتخاب (644)
644 میں اپنی موت سے پہلے،[196] حضرت عمر نے ایک چھوٹی کمیٹی کو اپنے درمیان اگلے خلیفہ کا انتخاب کرنے کا کام سونپا۔[197] اس کمیٹی میں حضرت علی اور حضرت عثمان سب سے مضبوط امیدوار تھے،[198][199] اور اس کے تمام اراکین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابتدائی ساتھی تھے جو قریش قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔[197] کمیٹی کا ایک اور رکن، عبد الرحمن بن عوف، کو فیصلہ کن ووٹ دیا گیا، چاہے یہ کمیٹی کی طرف سے ہو یا حضرت عمر کی طرف سے۔[200][201][202] بحث و مباحثے کے بعد، ابن عوف نے اپنے سالے حضرت عثمان کو اگلا خلیفہ مقرر کیا،[203][204] جب کہ حضرت عثمان نے پہلے دو خلفاء کی روایات پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔[203] اس کے برعکس، حضرت علی نے اس شرط کو مسترد کر دیا،[203][202] یا ایک غیر واضح جواب دیا۔[205] انصار کمیٹی میں نمائندگی نہیں رکھتے تھے،[206][201] جو ظاہر ہے کہ حضرت عثمان کے حق میں جانبدار تھی۔[207][208][202] یہ دونوں عوامل حضرت علی کے خلاف کام کرتے رہے،[201][209][210] جو اس عمل سے صرف خارج نہیں ہو سکتے تھے۔[211]
حضرت عثمان کی خلافت (644-656)
حضرت عثمان پر اقربا پروری،[212] بدعنوانی،[213][214] اور ناانصافی[215] کے الزامات لگائے گئے۔ حضرت علی نے بھی حضرت عثمان کے طرز عمل پر تنقید کی،[127][186][216] بشمول اپنے رشتہ داروں کے لیے اس کے اسراف بھرے تحائف۔[217][218] حضرت علی نے کھل کر بولنے والے ساتھیوں، جیسے ابوذر اور عمار کی بھی حفاظت کی،[219][220] اور مجموعی طور پر حضرت عثمان پر ایک ضبط کرنے والے اثر کے طور پر عمل کیا۔[219] حضرت علی کے کچھ حامی اپوزیشن تحریک کا حصہ تھے،[221][222] جن کی کوششوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں سینئر ساتھی، طلحہ اور زبیر، اور ان کی بیوی عائشہ بھی شامل تھیں۔[223][224][221] حضرت علی کے حامیوں میں مالک الاشتر اور دیگر مذہبی طور پر علم والے قراء (یعنی 'قرآن پڑھنے والے') بھی شامل تھے۔[225][218] یہ حامی چاہتے تھے کہ حضرت علی اگلے خلیفہ بنیں، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔[226] حضرت علی نے باغیوں کی قیادت کی درخواستیں بھی مسترد کر دیں،[127][227] حالانکہ وہ ممکنہ طور پر ان کی شکایات کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔[228][227] اس لیے، انہیں اپوزیشن کا ایک قدرتی مرکز سمجھا گیا،[229] کم از کم اخلاقی طور پر۔[127]
حضرت عثمان کا قتل (656)
656 میں جب صوبائی ناراضیاں بڑھتی گئیں تو صوبائی مخالفین مدینہ میں داخل ہو گئے۔[171] مصری مخالفین نے علی سے مشورہ طلب کیا، جنہوں نے انہیں عثمان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا۔[230][231] علی نے عراقی مخالفین سے بھی تشدد سے باز رہنے کو کہا، جسے انہوں نے قبول کر لیا۔[232] انہوں نے عثمان اور مخالفین[171][233][234] کے درمیان معاشی اور سیاسی شکایات کے حل کے لیے بار بار ثالثی کی۔[235][171] خاص طور پر، علی نے پہلے محاصرے کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ کیا اور اس کی ضمانت دی۔[236][171] انہوں نے عثمان کو عوامی طور پر توبہ کرنے پر بھی آمادہ کیا،[237] لیکن خلیفہ نے جلد ہی اپنا بیان واپس لے لیا، ممکنہ طور پر اپنے سیکریٹری مروان بن حکم کے دباو میں۔[238] مصری باغیوں نے عثمان کی رہائش گاہ کا دوسرا محاصرہ اس وقت کیا جب انہوں نے ایک سرکاری خط پکڑا جس میں ان کی سزا کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے خلیفہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا لیکن عثمان نے انکار کر دیا اور خط کے بارے میں اپنی بے گناہی برقرار رکھی،[239] جس کا الزام اکثر ابتدائی ذرائع میں مروان پر لگایا جاتا ہے۔[240][241] علی نے بھی عثمان کا ساتھ دیا،[239] لیکن بظاہر عثمان نے انہیں خط کے بارے میں الزام دیا۔[242] شاید یہی وہ وقت تھا جب علی نے عثمان کے لیے مزید مداخلت کرنے سے انکار کر دیا،[239][229] جنہیں جلد ہی مصری باغیوں نے قتل کر دیا۔[240][243][244] علی کا اس جان لیوا حملے میں کوئی کردار نہیں تھا،[127][245] اور ان کے بیٹے حسن اس وقت زخمی ہوئے جب وہ علی کی درخواست پر عثمان کی محصور رہائش گاہ کی حفاظت کر رہے تھے۔[170][246][221] انہوں نے محاصرے کے دوران باغیوں کو عثمان کے گھر پانی فراہم کرنے پر بھی آمادہ کیا۔[239][219]
خلافت
حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی، اس عرصہ میں لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اس منصب کے قبول کرنے کے لیے سخت اصرار کیا، انھوں نے پہلے اس بارِ گراں کے اٹھانے سے انکار کر دیا ؛لیکن آخر میں مہاجرین وانصار کے اصرار سے مجبور ہوکر اٹھانا پڑا، [247]اور اس واقعہ کے تیسرے دن 21/ذی الحجہ دوشنبہ کے دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئی۔ مسند نشین خلافت ہونے کے بعد سب سے پہلے کام حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ چلانا اور ان کو سزا دینا تھا؛ لیکن دقت یہ تھی کہ شہادت کے وقت صرف ان کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ موجود تھیں جو اس کے سوا کچھ نہ بتا سکیں کہ محمد بن ابی بکر ؓ دو آدمیوں کے ساتھ جن کو وہ پہلے سے پہنچانتی نہیں تھیں، اندر آئے، حضرت علی ؓ نے محمد بن ابی بکر ؓ کو پکڑا تو انھوں نے قسم کھا کر اپنی برات ظاہر کی کہ وہ قتل کے ارادے سے ضرور داخل ہوئے تھے ؛لیکن حضرت عثمان ؓ کے جملہ سے محجوب ہوکر پیچھے ہٹ آئے، البتہ ان دونوں نابکاروں نے بڑھ کر حملہ کیا جن کووہ بھی نہیں جانتے کہ کون تھے؟ حضرت نائلہ ؓ نے بھی اس بیان کی تصدیق کی کہ محمد بن ابی بکر ؓ شریک نہ تھے، غرض تحقیق وتفتیش کے باوجود قاتلوں کا پتہ نہ تھا، تاریخ کی کتابوں میں قاتلوں کے مختلف نام مذکور ہیں، لیکن شہادت کی قانونی حیثیت سے وہ مجرم ثابت نہیں ہوتے اس لیے مجرموں کا کوئی پتہ نہ چلا اورحضرت علی ؓ اس وقت کوئی کارروائی نہ کرسکے۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا حضرت علی ؓ کے نزدیک اس انقلاب کا اصلی سبب عمال کی بے اعتدالیاں تھیں اور بڑی حد تک یہ صحیح بھی ہے اس لیے آپ نے تمام عثمانی عمال کو معزول کرکے عثمان بن حنیف کو بصرہ کا عامل مقرر کیا، عمارہ بن حسان کو کوفہ کی حکومت سپرد کی، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو یمن کی ولایت پر مامور کیا اور سہل کو حکومت شام کا فرمان دے کر روانہ کیا، سہل تبوک کے قریب پہنچے تو امیر معاویہ ؓ کے سوار مزاحم ہوئے اور ان کو مدینہ جانے پر مجبور کیا، اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا کہ ان کی خلافت جھگڑوں سے پاک نہیں ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے امیر معاویہ ؓ کو لکھا کہ مہاجرین و انصار نے اتفاق عام کے ساتھ میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس لیے یا تو میر ی اطاعت کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، امیر معاویہ ؓ نے اپنے خاص قاصد کی معرفت جواب بھیجا اور خط میں صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد مکتوب الیہ کا اور اپنا نام لکھا، قاصد نہایت طرار اور زبان آور تھا اس نے کھڑے ہوکر کہا صاحبو! میں نے شام میں پچاس ہزار شیوخ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ عثمان ؓ کی خون آلود قمیص پر ان کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہیں اور انھوں نے عہد کر لیا ہے کہ جب تک اس خونِ ناحق کا قصاص نہیں لیں گے، اس وقت تک ان کی تلواریں بے نیام رہیں، قاصد یہ کہہ چکا توحضرت علی ؓ کی جماعت میں سے خالد بن زفر عبسی نے اس کے جواب میں کہا‘‘تمھارا برا ہو!کیا تم مہاجرین و انصار کو شامیوں سے ڈراتے ہو؟ خدا کی قسم نہ تو قمیص عثمان ؓ، قمیص یوسف علیہ السلام ہے اور نہ معاویہ ؓ کو یعقوب علیہ السلام کی طرح غم ہے، اگر شام میں اس قدر اس کو اہمیت دی گئی ہے تو تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل عراق اس کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ حضرت عائشہؓ کی قصاص پر آمادگی امیر معاویہ ؓ کے مناقشات کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ دوسرا قضیۂ نامرضیہ پیدا ہو گیا یعنی حضرت عائشہ ؓ مکہ سے مدینہ واپس ہورہی تھیں، راستہ میں ان کے ایک عزیز ملے ان سے حالات دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ عثمان ؓ شہید کر دیے گئے اور علی ؓ خلیفہ منتخب ہوئے ؛لیکن ہنوز فتنہ کی گرم بازاری ہے، یہ خبر سن کر پھر مکہ واپس ہوگئیں، لوگوں نے واپسی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ عثمان ؓ مظلوم شہید کر دیے گئے اورفتنہ دبتا ہوا نظر نہیں آتا، اس لیے تم لوگ خلیفہ مظلوم کا خون رائیگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لے کر اسلام کی عزت بچاؤ۔ [248] حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہ ؓ اور زبیر بھی حضرت علی ؓ سے اجازت لے کر مکہ چلے گئے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ان سے بھی وہاں کے حالات دریافت کیے، انھوں نے بھی شوروغوغہ کی داستان سنائی، ان کے بیان سے حضرت عائشہ ؓ کے ارادوں میں اور تقویت ہوئی اور انھوں نے خلیفہ مظلوم کے قصاص کی دعوت شروع کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعض سیاسی تسامح نے عام طور پر ملک میں بدنظمی پیداکردی تھی، حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ نہ چلنا ان کے اعداء کو اپنا معاون وانصار بنانا اور مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ تمام عمال کو برطرف کردینا لوگوں کو بدظن کردینے کے لیے کافی تھا، انہی بدگمانیوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو بھی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے قصاص پر آمادہ کر دیا؛چنانچہ قصاص کی تیاریاں شروع ہوگئیں، عبد اللہ بن عامر حضرمی والی مکہ مروان بن حکم ، سعید بن العاص اور دوسرے بنی امیہ نے جو مدینہ سے مفرور ہوکر مکہ میں پناہ گزین تھے، نہایت جوش کے ساتھ اس تحریک کو پھیلایا اور ایک معتدبہ جمعیت فراہم کرکے روانہ ہوئے کہ پہلے بیت المال قبضہ کرکے مالی مشکلات میں سہولت پیدا کریں، پھر بصرہ، کوفہ اور عراق کی دوسری نوآبادیوں میں اس تحریک کی اشاعت کرکے لوگوں کو اپنا ہم آہنگ بنائیں۔[249] [250][251][252][253][254][255][256][257].[258][259]
سفر عراق
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مکہ کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا تو آپ نے بھی اس خیال سے عراق کا قصد کیا وہاں مخالفین سے پہلے پہنچ کر بیت المال کی حفاظت کا انتظام کریں اور اہل عراق کو وفاداری کا سبق دیں، انصار کرام کو اس ارادہ کی خبر ہوئی تو وہ بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اورحضرت عقبہ بن عامر ؓ نے جو بڑے پایہ کے صحابی اور غزوہ بدر میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، انصار کی جانب سے گزارش کی کہ دار الخلافہ چھوڑ کر جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، عمر فاروق ؓ کے عہد میں بڑی بڑی جنگیں پیش آئیں ؛لیکن انھوں نے کبھی مدینہ سے باہر قدم نہیں نکالا، اگر اُس وقت خالد ؓ، ابوعبیدہ ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ، ابو موسیٰ اشعری ؓ نے شام وایران کو تہ وبالا کر دیا تھا تو اِس وقت بھی ایسے جانبازوں کی کمی نہیں، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ صحیح ہے ؛لیکن عراق پر مخالفین کے تسلط سے نہایت دشواری پیش آئے گی وہ اس وقت مسلمانوں کی بہت بڑی نوآبادی ہے وہاں کے بیت المال بھی مال وزر سے پر ہیں، اس لیے میرا وہاں موجود رہنا نہایت ضروری ہے اور مدینہ میں عام منادی کرادی کہ لوگ سفر عراق کے لیے تیار ہو جائیں، چند محتاط صحابہ کے سوا تقریباً اہل مدینہ ہمرکاب ہوئے، ذی قار پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اور زبیر بن عوام ؓ سبقت کر کے بصرہ پہنچ گئے ہیں اور بنو سعد کے علاوہ تقریباً تمام بصرہ والوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔[260][261]
حضرت امام حسن ؓ کا سفرِ کوفہ
یہ سن کر حضرت علی ؓ نے ذی قار میں قیام کیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوفہ روانہ کیا کہ لوگوں کو مرکز خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں، حضرت امام حسن ؓ جس وقت کوفہ پہنچے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ والی کوفہ مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کر رہے تھے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فتنہ کا خوف دلایا تھا وہ اب سرپر ہے، اس لیے ہتھیار بے کار کردو اوربالکل عزلت نشین ہو جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتنہ وفساد کے وقت سونے والا بیٹھنے والے سے اور بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہے، اس اثنا میں امام حسن ؓ مسجد میں داخل ہوئے اور ابو موسیٰ اشعری ؓ سے کہا تم بھی ہماری مسجد سے نکلو اور جہا ں جی چاہے چلے جاؤ۔ اس کے بعد منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو امیر المومنین کی مساعدت پر آمادہ کیا، حجر بن عدی کندی نے جو کوفہ کے نہایت معزز اور ذی اثر بزرگ تھے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تائید کی اور کہا صاحبو ! امیر المومنین نے خود اپنے صاحبزادہ کو بھیج کر تمھیں دعوت دی ہے اس دعوت کو قبول کرو اور علم حیدری کے نیچے مجتمع ہوکر فتنہ وفساد کی آگ کو سرد کر دو میں خود سب سے پہلے چلنے کو تیار ہوں۔ غرض حضرت امام حسن ؓ اور حجر بن عدی کی تقریروں نے لوگوں کو حضرت علی ؓ کی اعانت پر آمادہ کر دیا اور ہرطرف سے امیر المومنین کی اطاعت اور فرماں برداری کی صدائیں بلند ہوئیں اور دوسرے ہی دن صبح کے وقت تقریباً ساڑھے نو ہزار جانبازوں کی ایک جماعت مسلح ہوکر حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ روانہ ہوئی اور مقام ذی قار میں امیر المومنین کی فوج سے مل گئی، جناب امیر ؓ نے اپنی فوج کونئے سرے سے ترتیب دے کر بصرہ کا رخ کیا، اس وقت بصرہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین گروہوں میں منقسم تھا، ایک خاموش اورغیر جانبدار تھا، دوسرا حضرت علی ؓ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہ ؓ اور حضرت طلحہ ؓ وغیرہ کا حامی، خانہ جنگی کی یہ تیاریاں دیکھ کر پہلی جماعت نے مصالحت کی بڑی کوشش کی ؛بلکہ ہر فریق کے نیک نیک لوگ اس کی تائید میں تھے، حضرت علی ؓ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں چاہتے تھے کہ جنگ کی نوبت نہ آنے پائے اورکسی طرح باہمی اختلافات دور ہو جائیں، صلح کی گفتگو ترقی پر تھی اور فریقین جنگ کے تمام احتمالات دلوں سے دور کرچکے تھے اور رات کے سناٹے میں ہر فریق آرام کی نیند سو رہا تھا، دونوں فریقوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے جن کے نزدیک یہ مصالحت ان کے حق میں سم قاتل تھی، حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی فوج میں سبائی انجمن کے ارکان اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے قاتلوں کا گروہ شامل تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف کچھ اموی تھے، حضرت عثمان ؓ کے قاتل اور سبائی سمجھے کہ اگر یہ مصالحت کامیاب ہو گئی تو ان کی خیر نہیں، اس لیے انھوں نے رات کی تاریکی میں حضرت عائشہ ؓ کی فوج پر شبخون مارا، گھبراہٹ میں فریقین نے یہ سمجھ کر کہ دوسرے فریق نے دھوکا دیا، ایک دوسرے پر حملہ شروع کر دیا، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اونٹ پر آہنی ہودہ رکھوا کر سوار ہوئی کہ وہ اپنی فوج کو اس حملہ سے روک سکیں، حضرت علی ؓ نے بھی اپنے سپاہیوں کو روکا مگر جو فتنہ پھیل چکا تھا وہ کب رک سکتا تھا، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی وجہ سے ان کی فوج میں غیر معمولی جوش وخروش تھا، قلب فوج میں ان کا ہودج تھا، محمد بن طلحہ ؓ سواروں کے افسر تھے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیادہ فوج کی سربراہی پر مامور تھے اور پوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں میں تھی۔[259][262]
جنگ جمل
دوران جنگ میں حضرت علی ؓ گھوڑا بڑھا کر میدان میں آئے اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا‘‘ابو عبد اللہ! تمھیں وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم علی ؓ کو دوست رکھتے ہو؟ تو تم نے عرض کیا تھاہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یاد کرو، اس وقت تم سے حضور صلی انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک دن تم اس سے ناحق لڑوگے’’ حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا، ہاں اب مجھے بھی یاد آیا۔ [263] یہ پیشین گوئی یاد کرکے حضرت زبیر ؓ جنگ سے کنارہ کش ہو گئے اور اپنے بیٹے عبد اللہ ؓ سے فرمایا، جان پدر! علی ؓ نے ایسی بات یاد دلادی کہ تمام جنگ کا تمام جوش فرو ہو گیا، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں، اب میں اس جنگ میں شرکت نہ کروں گا تم بھی میرا ساتھ دو؛لیکن حضرت عبد اللہ ؓ نے انکار کیا تو وہ تنہا بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے کہ وہاں سے سامان لے کر کسی طرف نکل جائیں، حضرت طلحہ نے حضرت زبیر کو جاتے دیکھا تو ان کا ارادہ بھی متزلزل ہو گیا، مروان بن حکم کو معلوم ہوا تو انھوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا تاک کر تیر مارا کہ جو گھٹنے میں پیوست ہو گیا، یہ تیر زہر میں بجھا ہواتھا، زہر کے اثر سے ان کا کام تمام ہو گیا، اب میدان جنگ میں صرف ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کے جان نثار فرزند رہ گئے، جنگ کی ابتدا ہو چکی تھی، دیر تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی، ام المومنین ؓ زرہ پوش ہودج میں بیٹھی تھیں، نا مرتبہ شناس سبائی آپ کے ساتھ گستاخیاں کر رہے تھے اور آپ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے، حضرت عائشہ ؓ کے وفادار بیٹوں میں بنوضبہ اس اونٹ کی حفاظت میں اپنی لاشوں پہ لاشیں گرا رہے تھے، بکربن وائل، ازواوربنوضبہ اونٹ کو اپنے حلقہ میں لے کر اس جوش ثبات اور وارفتگی کے ساتھ لڑے کہ خود حیدرکرار ؓ کو حیرت تھی، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اونٹ کی نکیل پکڑے تھے وہ زخمی ہوکر گرے تو فوراً دوسرے نے بڑھ کر پکڑلی، مارا گیا تو تیسرے نے اس کی جگہ لے لی،اس طرح یکے بعد دیگرے ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو قربان کر دیا، [264]بصرہ کا شہسوار عمرو بن بحرہ اس جوش سے لڑ رہا تھا کہ حضرت علی ؓ کی فوج کا جو شخص اس کے سامنے پہنچ جاتا تھا، مارا جاتا تھا اور ابن بحرہ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا۔ یاامان یاخیر ام نعلم والام تغذ وولم ھاوترحم اے ہماری بہترین اور ماں بچوں کو کھلاتی ہے اور ان پرحم کرتی ہے الا ترین کم جوادلک تختلی مامتہ والمعصم کیا تو نہیں دیکھتی کہ کتنے گھوڑے زخمی کیے جاتے ہیں اور ان کی کھوپڑی اور کلائی کاٹی جاتی ہے آخر کار حضرت علی ؓ کی فوج کے مشہو شہسوارحارث بن زبیر ازدی نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا اور تھوڑی دیر تک تیغ وسنان کے ردل وبدل کے بعد دونوں ایک دوسرے کے وار سے کٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ اونٹ کے سامنے بنوضبہ حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ سدِ سکندری بنے دشمنوں کو روکے کھڑے تھے اور جب تک ایک شخص بھی زندہ رہا اس نے پشت نہیں پھیری اور یہ رجز ان کی زبان پرتھا: الموت احلی عندنا من العسل نحن بنوضبۃ اصحاب الجمل موت ہمارے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے ہم ضبہ کی اولاد اونٹ کے محافظ ہیں نحن بنوالموت الذالموت نزل ننعی ابن عفان باطراف الاسل ہم موت کے بیٹے ہیں، جب موت اترے ہم عثمان بن عفان کی موت کی خبر نیزوں سے پھیلا رہے ہیں ردواعلینا شیخنا ثم یجل ہمارے سردار کو ہم کوواپس کردو تو پھر کچھ نہیں حضرت علی ؓ نے دیکھا کہ جب تک اونٹ بٹھایا نہ جائے گا مسلمانوں کی خونریزی رک نہیں سکتی، اس لیے آپ کے اشارے سے ایک شخص نے پیچھے سے جاکر اونٹ کے پاؤں پر تلوار ماری، اونٹ بلبلا کر بیٹھ گیا، اونٹ بیٹھتے ہی حضرت عائشہ ؓ کی فوج کی ہمت چھوٹ گئی اور حضرت علی ؓ کے حق میں جنگ کا فیصلہ ہو گیا، آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے بھائی محمد بن ابی بکر ؓ کو جو حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے، حکم دیا کہ اپنی ہمشیرہ محترمہ کی خبر گیری کریں اور عام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں پر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں مالِ غنیمت نہ لوٹا جائے، جو ہتھیار ڈال دیں وہ مامون ہیں، پھر خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس حاضر ہوکر مزاج پرسی کی اوربصرہ میں چند دن تک آرام و آسائش سے ٹھہرانے کے بعد محمد بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ عزت واحترام کے ساتھ مدینہ بھیج دیا، بصرہ کی چالیس شریف و معزز خواتین کو پہنچانے کے لیے ساتھ کیا اوررخصت کرنے کے لیے خود چند میل تک ساتھ گئے اورایک منزل تک اپنے صاحبزادوں کو مشائعت کے لیے بھیجا۔ حضرت عائشہ ؓ نے رخصت ہوتے وقت لوگوں سے فرمایا کہ میرے بچو!ہماری باہمی کشمکش محض غلط فہمی کا نتیجہ تھی، ورنہ مجھ میں علی ؓ میں پہلے کوئی جھگڑانہ تھا، حضرت علی ؓ نے بھی مناسب الفاظ میں تصدیق کی اور فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور ہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم و توقیر ضروری ہے، غرض پہلی رجب 36ھ سنیچر کے روز حضرت عائشہ ؓ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ بصرہ میں چند روز قیام کے بعد حضرت علی ؓ نے کوفہ کا عزم کیا اور 12/رجب 36ھ دوشنبہ کے روز داخل شہر ہوئے، اہل کوفہ نے قصرامارت میں مہمان نوازی کا سامان کیا؛لیکن زہد وقناعت کے شہنشاہ نے اس میں فروکش ہونے سے انکار کیا اورفرمایاکہ حضرت عمربن الخطاب ؓ نے ہمیشہ ان عالی شان محلات کو حقارت کی نظر سے دیکھا مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میدان میرے لیے بس ہے؛چنانچہ میدان میں قیام فرمایا اورمسجد اعظم میں داخل ہوکر دورکعت نماز ادا کی اورجمعہ کے روز خطبہ میں لوگوں کو اتقاوپرہیز گاری اوروفاشعاری کی ہدایت کی۔ جنگ جمل کے بعد حضرت علی ؓ نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ میں مستقل اقامت اختیار کی اور دار الحکومت حجاز سے عراق منتقل ہو گیا۔ لوگوں نے اس تبدیلی کے مختلف وجوہ بیان کیے ہیں مگر ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توہین ہوئی اس نے علی مرتضی کو مجبور کیا کہ وہ آئندہ سلطنت کے سیاسی مرکز کو علمی اور مذہبی مرکز سے علاحدہ کر دیں، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کوفہ میں حضرت علی ؓ کے طرفداری اور حامیوں کی اس وقت سب سے بڑی تعداد تھی، گوحضرت علی ؓ مدینہ کو سیاسی شروفتن سے بچانے کے لیے عراق کو دار الحکومت بنایا تھا؛لیکن اس کا کوئی مفید نتیجہ مرتب نہیں ہوا اس سے مدینہ کی سیاسی اہمیت ختم ہو گئی اورخود حضرت علی ؓ مرکز اسلام سے دور ہو گئے جو سیاسی حیثیت سے آئندہ ان کے لیے مضر ثابت ہوا۔ بہرحال حضرت علی ؓ نے کوفہ میں قیام فرما کر ملک کا ازسرنو نظم ونسق قائم کیا، حضرت عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کی ولایت سپرد کی، مدائن پر یزید بن قیس، اصفہان پر محمد بن سلیم، کسکر پرقدامہ بن عجلان ازدی، ہجستان پر ربعی بن کاس اور تمام خراسان پر خلیدبن کا س کو مامور کرکے بھیجا، خلید خراسان پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ خاندان کسریٰ کی ایک لڑکی نے نیشا پور پہنچ کر بغاوت کرادی ہے؛چنانچہ انھوں نے نیشاپور پر فوج کشی کرکے بغاوت فرو کی اوراس کو بارگاہ خلافت میں بھیج دیا، جناب امیر نے اس کے ساتھ نہایت لطف وکرم کا برتاؤکیا اور اس سے فرمایا کہ اگر وہ پسند کرے تو اپنے فرزند امام حسن سے نکاح کر دیں، اس نے کہا کہ وہ ایسے شخص سے شادی کرنا نہیں چاہتی جو ابھی خود مختار نہ ہو، اگر خود جناب امیر اپنے عقد نکاح سے مشرف فرمائیں تو بطیب خاطر حاضر ہوں، حضرت علی ؓ نے انکار کیا اور اسے آزاد کر دیا کہ جہاں چاہے رہے اور جس سے چاہے بیاہ کرے۔ جزیرہ موصل اور شام کے متصلہ علاقوں پر اشتر نخعی کو مامور کیا، اشترنے بڑھ کر شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا؛لیکن امیر معاویہ ؓ کے عامل ضحاک بن قیس نے حران اور رقہ کے درمیان مقابلہ کرکے اشتر کو پھر موصل جانے پر مجبور کیا، اشتر نے موصل میں قیام کرکے شامی فوج سے مستقل چھیڑ چھاڑ کردی اور اس سیلاب کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔[265] [266][86] ،[267][268]
صلح کی دعوت
اگرچہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو یہ معلوم تھا کہ امیر معاویہ ؓ آپ کی خلافت تسلیم نہیں کریں گے تاہم اتمام حجت کے لیے ایک دفعہ پھر صلح کی دعوت دی اور جریر بن عبد اللہ کو قاصد بنا کر بھیجا، جریر ایسے وقت امیر معاویہ ؓ کے پاس پہنچے کہ ان کے دربار میں روسائے شام کا مجمع تھا، امیر معاویہ ؓ نے خط لے کر پہلے خود پڑھا، پھر ببانگ بلند حاضرین کو سنایا، بعد حمد و نعت کے خط کا مضمون یہ تھا: ‘‘تم اور تمھارے زیر اثر جس قدر مسلمان ہیں، سب پر میری بیعت لازم ہے کیونکہ مہاجرین وانصار نے اتفاق عام سے مجھے منصب خلافت کے لیے منتخب کیا ہے، حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان ؓ کو بھی انہی لوگوں نے منتخب کیا تھا، اس لیے جو شخص اس بیعت کے بعد سرکشی اور اعراض کرے گا وہ جبرو اطاعت پر مجبور کیا جائے گا، پس تم مہاجرین وانصار کی اتباع کرو یہی سب سے بہتر طریقہ ہے، ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ، تم نے عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کو اپنی مقصد برآری کا وسیلہ بنایا ہے، اگر تم کو حضرت عثمان بن عفان ؓ کے قاتلوں سے انتقام لینے کا حقیقی جوش ہے تو پہلے میری اطاعت قبول کرو، اس کے بعد باضابطہ اس مقدمہ کو پیش کرو، میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، ورنہ تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ محض دھوکا اور فریب ہے۔" امیر معاویہ ؓ بائیس برس سے شام کے والی تھے، اس طویل حکومت نے ان کے دل میں استقلال وخود مختاری کی تمنا پیدا کردی تھی، جس کے حصول کے لیے اس سے بہتر موقع میسر نہیں آسکتا تھا، نیز حضرت عثمان ؓ کی شہادت، حضرت علی ؓ کی خلافت اور اموی عمال کی برطرفی سے بنوامیہ اور بنو ہاشم کی دیرینہ چشمک پھر تازہ ہو گئی تھی، حضرت علی ؓ کے معزول کردہ تمام اموی عمال امیر معاویہ ؓ کے گردو پیش جمع ہو گئے تھے، بہت سے قبائل عرب جو اگرچہ اموی نہ تھے ؛لیکن امیر معاویہ ؓ کی شاہانہ دادو دہش نے ان کو بھی ان کا طرفدار بنادیا تھا، بعض صحابہ بھی اپنے مقاصد کے لیے ان کے دست و بازو بن گئے تھے، حضرت عمرو بن العاص ؓ نے مصر کی حکومت کا عہدہ لے کر اعانت و ساعدت کا وعدہ کر لیا تھا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ جو عرب کے نامور مدبروں میں تھے اور پہلے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے طرفدار تھے آپ سے دل برداشتہ ہوکر امیر معاویہ ؓ کے ساتھ ہو گئے تھے، عبید اللہ بن عمر ؓ جنھوں نے اپنے والد کے خون کے جوش انتقام میں ایک پارسی نو مسلم ہر مزان کو بے وجہ قتل کر دیا تھا اور حضرت عثمان ؓ نے ان سے قصاص نہیں لیا تھا حضرت علی ؓ کی مسند نشینی کے بعد مقدمہ قائم ہونے کے خوف سے بھاگ کر امیر معاویہ کے دامن میں پناہ گزین ہو گئے تھے، امیر معاویہ ؓ نے ایک اور مامور مدبر زیاد بن امیہ کو جو حضرت علی ؓ کے حامیوں میں تھا، اپنے ساتھ ملا لیا تھا، اکابر شام کی پہلے ہی سے ان کو تائید وحمایت حاصل تھی، ان کی مدد سے انھوں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کے واقعہ کو جس سے تمام مسلمان سخت متاثر تھے، سارے شام میں پھیلایا، ہر ہر گاؤں، قصبہ اور شہر میں اس کی اشاعت کے لیے خطیب مقرر کیے، دمشق کی جامع مسجد میں حضرت عثمان ؓ کے خون آلود پیراہن اور حضرت نائلہ ؓ کی کٹی ہوئی انگلیوں کی نمائش کی جاتی تھی۔ [269] ان تدبیروں سے لوگوں کو حضرت عثمان ؓ کے خون کے انتقام کا جوش پیدا کرنے کے بعد اپنے حاشیہ نشینوں کے مشورہ سے حضرت علی ؓ کے خط کا جواب لکھا اورحسب معمول قاتلین عثمان ؓ کو حوالہ کردینے پر اصرارکیا، ابو مسلم نے جو خط کا جواب لے کر گئے تھے، دربارخلافت میں خط پیش کرنے کے بعد رنج کے طور پر گزارش کی کہ اگر عثمان بن عفان ؓ کے قاتلوں کو ہمارے حوالہ کر دیا جائے تو ہم اور تمام اہل شام خوشی کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہیں، فضل وکمال کے لحاظ سے آپ ہی خلافت کے حقیقی مستحق ہیں، جناب امیر معاویہ ؓ نے دوسرے روز صبح کے وقت جواب دینے کا وعدہ فرمایا، ابو مسلم جب دوسرے روز حاضر ہوئے تو وہاں تقریباً دس ہزار مسلح آدمیوں کا مجمع تھا، ابو مسلم کو دیکھ کر سب نے ایک ساتھ ببانگ بلند کہا، ہم سب عثمان ؓ کے قاتل ہیں، ابو مسلم نے مستعجب ہوکر بارگاہ خلافت میں عرض کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب نے باہم سازش کرلی ہے، حضرت علی ؓ نے فرمایا تم اس سے سمجھ سکتے ہو کہ عثمان ؓ کے قاتلوں پر میرا کہاں تک اختیار ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پھر امیر معاویہ ؓ کو لکھا کہ وہ ناحق ضد سے باز آجائیں اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے قتل میں ان کی کوئی شرکت نہ تھی، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علاحدہ لکھا کہ دنیا طلبی چھوڑ کر حق کی حمایت کرو؛لیکن زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی، گو جنگ جمل میں دس ہزار مسلمانوں کا خون پی چکی تھی ؛لیکن ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی، اس لیے مصالحت اور خانہ جنگی کے سدباب کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مجبور ہوکر قبضۂ شمشر پر ہاتھ رکھنا پڑا، تمام عمال و حکام کو دور دراز حصص ملک سے جنگ میں شریک ہونے کے لیے بلایا اور تقریباً اسی ہزار کی جمعیت کے ساتھ حدود شام کا رخ کیا۔[270][259][271][272]
معرکۂ صفین
جب یہ فوج گراں فرات کو عبور کر کے سرحد شام میں داخل ہوئی تو امیر معاویہ ؓ کی طرف سے ابو الدعور سلمیٰ نے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھنے سے روکا، علوی فوج کے افسر زیاد بن النفرا اور شریح بن ہانی نے تمام دن نہایت جاں بازی کے ساتھ مقابلہ کیا، اسی اثنا میں اشتر نخعی کمک لے کر پہنچ گئے، ابوالدعور نے دیکھا کہ اب مقابلہ دشوار ہے اس لیے رات کی تاریکی میں فوج کو ہٹالیا اور امیر معاویہ ؓ کو فوج مخالف کی آمد کی اطلاع دی، انھوں نے صفین کے میدان کو مدافعت کے لیے منتخب کیا اور پیش قدمی کرکے مناسب موقعوں پر مورچے جما دیے، گھاٹ کو اپنے قبضہ میں لے کر سلمی کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ متعین کر دیا کہ علوی فوج کو دریا سے پانی نہ لینے دیں۔[273]
پانی کے لیے کشمکش
ابوالدعور نے اس حکم کی تعمیل کی ، چنانچہ حضرت علی ؓ کی فوج صفین پہنچی تو اس کو پانی کی وجہ سے سخت دقت پیش آئی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ شامی فوج کا مقابلہ کرکے بزور گھاٹ پر قبضہ کر لیا جائے؛ چنانچہ پہلے چند آدمی اتمام حجت کے لیے آشتی کے ساتھ دریا کی طرف بڑھے ؛لیکن جیسے ہی قریب پہنچے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع ہو گئی، حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی فوج پیش دستی کی منتظر تھی، سب نے ایک ساتھ مل کر حملہ کر دیا، ابولدعور نے دیر تک ثبات و استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا عمرو بن العاص ؓ نے بھی اپنی کمک سے تقویت دی؛ لیکن پیاسوں کو پانی سے روکنا آسان نہ تھا، آخر کار شامی دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور گھاٹ پر تشنہ کاموں کا قبضہ ہو گیا، اب جو دقت امیر المومنین کی فوجوں کو ہوئی تھی وہی امیر معاویہ ؓ کو پیش آئی؛ لیکن جناب علی المرتضیٰ کی حمیت انسانی نے کسی کو تشنہ کام رکھنا گوارا نہ کیا اور شامی فوج کو دریا سے پانی لینے کی اجازت دیدی، [274] چنانچہ دونوں فوجیں ایک ساتھ دریا سے سیراب ہونے لگیں اور باہم اس قدر اختلاط پیدا ہو گیا کہ دونوں کیمپوں کے سپاہیوں میں دوستانہ آمدو رفت شروع ہو گئی یہاں تک کہ بعضوں کو خیال ہوا کہ اب صلح ہو جائے گی۔ میدانِ جنگ میں مصالحت کی آخری کوشش حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ شروع کرنے سے قبل ایک دفعہ پھر اتمام حجت کے لیے بشیربن عمروبن محصن انصاری، سعید بن قیس ہمدانی اور شبث بن ربعی کو امیر معاویہ ؓ کے پاس بھیج کر مصالحت کی آخری کوشش کی ؛لیکن کامیابی نہ ہوئی دونوں طرف علما، فضلا اور حفاظ قرآن کی ایک جماعت موجود تھی جو دل سے اس خونریزی کو ناپسند کرتی تھی، اس نے مسلسل تین ماہ تک جنگ کو روکے رکھا اور اس درمیان میں برابر مصالحت کی کوشش کرتی رہی،اس اثنا میں دونوں طرف سے تقریباً پچاسی دفعہ حملہ کا ارادہ کیا گیا؛ لیکن ان بزرگوں نے ہمیشہ درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرا دیا، غرض ربیع الاول ، ربیع الثانی اور جمادی الاولی تین مہینے صرف صلح کے انتظار میں گذر گئے؛لیکن اس کی کوئی صورت نہ نکل سکی اور جمادی الاآخر کے شروع میں جنگ چھڑ گئی۔[275][276]
آغاز جنگ
لڑائی کایہ طریقہ تھاکہ دونوں طرف سے دن میں دو دفعہ یعنی صبح و شام تھوڑی تھوڑی فوج میدان جنگ میں اترتی تھی اور کشت وخون کے بعد اپنے فردو گاہ پر واپس جاتی تھی، فوج کی کمان حضرت علی بن ابی طالب ؓ کبھی خود کرتے تھے اور کبھی باری باری سے اشترنخعی، حجر بن عدی، شبث ربعی، خالد بن المعمرہ، زیاد بن النضر، زیاد بن حصفہ التیمی، سعید بن قیس، محمد بن حنفیہ، معقل بن قیس اور قیس بن سعد اس فرض کو انجام دیتے تھے، یہ سلسلہ جمادی الآخر کی آخر تاریخوں تک جاری رہا ؛لیکن جیسے ہی رجب کا ہلال طلوع ہوا، اشہر حرم کی عظمت کے خیال سے دفعۃً دونوں طرف سے جنگ رک گئی، اس التواء سے خیرخواہان امت کو پھر ایک مرتبہ مصالحت کی کوشش کا موقع مل گیا؛چنانچہ حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت ابوامامہ باہلی ؓ نے امیر معاویہ کے پاس جاکر ان سے حسب ذیل گفتگو کی: حضرت ابولدرداء ؓ: تم علیؓ سے لڑتے ہوکیا وہ امامت کے تم سے زیادہ مستحق نہیں ہیں؟ امیرمعاویہ:میں عثمان ؓ کے خون ناحق کے لیے لڑتا ہوں حضرت ابوالدرداء: کیا عثمان ؓ کو علیؓ نے قتل کیا ہے؟ امیر معاویہؓ: قتل تو نہیں کیا ہے، قاتلوں کو پناہ دی ہے، اگر وہ ان کو میرے سپرد کر دیں تو سب سے پہلے بیعت کرنے کو تیار ہوں۔ اس گفتگو کے بعد حضرت ابوالدردا ءؓ اور حضرت ابوامامہ ؓ حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امیر معاویہ ؓ کی شرائط سے مطلع کیا، اسے سن کر تقریباً بیس ہزار سپاہیوں نے علوی فوج سے نکل کر کہا کہ‘‘ہم سب عثمان ؓ کے قاتل ہیں’’، حضرت ابوالدرداء اور حضرت ابو امامہ ؓ نے یہ رنگ دیکھا تو لشکر گاہ چھوڑ کر ساحلی علاقہ کی طرف چلے گئے اور اس جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ غرض پہلی رجب سے اخیر محرم 37ھ تک طرفین سے سکوت رہا اور کوئی قابل ذکر معرکہ پیش نہ آیا، آغاز سفر سے پھر ازسرنو جنگ شروع ہو گئی اور اس قدر خونریز لڑائیاں پیش آئیں کہ ہزاروں عورتیں بیوہ اور ہزاروں بچے یتیم ہو گئے، پھر بھی اس خانہ جنگی کا فیصلہ نہ ہوا، علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے اس طوالت سے تنگ آکر اپنی فوج کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی اور اس کو فیصلہ کن جنگ کے لیے ابھارا، تمام فوج نے نہایت جوش و خروش کے ساتھ اس تقریر کو لبیک کہا اور اپنے حریف پر اس زور سے حملہ کیا کہ شامی فوج کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے، حیدرکرار خود فوج کے آگے تھے اور اس جانبازی سے لڑ رہے تھے کہ حریف کی صفیں چیرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کے مقصورہ تک پہنچ گئے، آپ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا: اضربہم ولااری معاویۃ الجاحظ العین العظیم الحاویۃ قریب پہنچ کر پکارکر کہا‘‘معاویہ !خلق خدا کا خون گراتے ہو، آؤ ہم تم باہم اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کر لیں۔’’ اس مبارزت پر عمرو بن العاص ؓ اور امیر معاویہ میں حسب ذیل مکالمہ ہوا: عمرو بن العاص ؓ: بات انصاف کی ہے۔ امیر معاویہ ؓ: خوب کیا انصاف ہے؟تم جانتے ہو کہ جو اس شخص کے مقابلہ میں جاتا ہے پھر زندہ نہیں بچتا۔ عمرو بن العاص:جو کچھ ہو، تاہم مقابلے کے لیے نکلنا چاہیے۔ امیر معاویہ ؓ:تم چاہتے ہو کہ مجھے قتل کرا کے میرے منصب پر قبضہ کرو۔ امیر معاویہ ؓ کے اعراض پر عمرو بن العاص ؓ خود شیر خدا کے مقابلے کے لیے نکلے، دیر تک دونوں میں تیغ سنان کا ردو بدل ہوتا رہا، ایک دفعہ حضرت علی ؓ نے ایسا وار کیا کہ اس سے سلامت بچنا ناممکن تھا، عمرو بن العاص ؓ اس بدحواسی کے ساتھ گھوڑے سے گرے کہ بالکل برہنہ ہو گئے، فاتح خیبر نے اپنے حریف کو برہنہ دیکھ کر منہ پھیر لیا اور زندہ چھوڑ کر واپس چلے آئے۔ اس جنگ کے بعد تھوڑی تھوڑی فوج سے مقابلہ ہونے کی بجائے پوری فوج کے ساتھ جنگ ہونے لگی، چند دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ جمعہ کے روز عظیم الشان جنگ پیش آئی جو شدت و خونریزی کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں اپنی نظیر آپ ہے، صبح سے شام اور شام سے دوسری صبح تک اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج، گھوڑوں کی ٹاپوں اور تلواروں کی جھنکاروں سے کرہ ارض تھرارہا تھا اسی مناسبت سے اس کو لیلۃ الہریر کہتے ہیں۔ دوسری صبح کو مجروحین و مقتولین کے اٹھانے کے لیے جنگ ملتوی ہوئی، حضرت علی ؓ نے اپنے طرفداروں کو مخاطب کرکے نہایت جوش سے تقریر کی اور فرمایا‘‘جانبازو !ہماری کوششیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ انشاء اللہ کل اس کا آخری فیصلہ ہو جائیگا، پس آج کچھ آرام لینے کے بعد اپنے حریف کو آخری شکست دینے کے لیے تیار ہو جاؤ اور اس وقت تک میدان سے منہ نہ موڑو جب تک اس کا قطعی فیصلہ نہ ہو جائے۔ امیر معاویہ ؓ اور عمرو بن العاص ؓ نے اس وقت تک نہایت جانبازی، شجاعت اور پامردی کے ساتھ اپنی فوجوں کو سرگرم کا رزاررکھا تھا؛لیکن لیلۃ الہریر کی جنگ سے انھیں بھی یقین ہو گیا تھا کہ اب لشکر حیدری کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے، قبیلوں کے سردار بھی ہمت ہار گئے، اشعث ابن قیس نے علانیہ دربار میں کھڑے ہوکر کہا اگر مسلمانوں کی باہمی لڑائی ایسی ہی قائم رہی تو تمام عرب ویران ہو جائے گا، رومی شام میں ہمارے اہل و عیال پر قبضہ کر لیں گے، اس طرح ایران دہقان اہل کوفہ کی عورتوں اور بچوں پر متصرف ہو جائیں گے، ،تمام درباریوں کی نظریں امیر معاویہ ؓ کے چہرہ پر گڑ گئیں اور سب نے بالاتفاق اس خیال کی تائید کی۔ یہ رنگ دیکھ کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جناب مرتضیٰ کو لکھا کہ‘‘اگر ہم کو اور خود آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ جنگ اس قدر طول کھینچے گی تو غالباً ہم دونوں اس کو چھیڑنا پسند نہ کرتے، بہر حال اب ہم کو اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ کر دینا چاہیے ہم لوگ بنی عبد مناف ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں، اس لیے مصالحت ایسی ہو کہ طرفین کی عزت وآبرو برقرار رہے؛لیکن اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مصالحت سے انکار کیا اور دوسرے روز علی الصباح زرہ بکتر سے آراستہ ہوکر اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ میدان میں صف آراء ہوئے؛لیکن حریف نے جنگ ختم کردینے کا تہیہ کر لیا تھا، عمرو بن العاص نے کہا اب میں ایک ایسی چال چلوں گا کہ یا تو جنگ کا خاتمہ ہی ہو جائے گا یہ علی ؓ کی فوج میں پھوٹ پڑجائے گی؛چنانچہ دوسری صبح شامی فوج ایک عجیب منظر کے ساتھ میدان جنگ میں آئی، آگے آگے دمشق کا مصحفِ اعظم پانچ نیزوں پر بندھا ہوا تھا اوراس کو پانچ آدمی بلند کیے ہوئے تھے، اس کے علاوہ جس جس کے پاس قرآن پاک تھا اس نے اس کو نیزے پر باندھ لیاتھا، حضرت علی ؓ کی طرف سے اشترنخعی نے ایک جمعیت عظیم کے ساتھ حملہ کیا توقلب سے فضل بن اوہم، میمنہ سے شریح الجذامی اور میسرہ سے زرقاء بن معمر بڑھے اور چلا کر کہا گروہِ عرب!خدارومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھ سے تمھاری عورتوں اور بچوں کو بچائے تم فنا ہو گئے، دیکھو یہ کتاب اللہ ہمارے اور تمھارے درمیان میں ہے، اسی طرح ابوالدعور سلمیٰ اپنے سرپر کلام مجید رکھے ہوئے لشکر حیدری کے قریب آئے اور ببانگ بلند کہا‘‘اے اہل عراق یہ کتاب اللہ ہمارے اور تمھارے درمیان میں حکم ہے، اشتر نخعی نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ حریف کی چال ہے اور جوش دلا کر نہایت زورو شور سے حملہ کر دیا؛لیکن شامیوں کی چال کامیاب ہو گئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لوگوں کو لاکھ سمجھایا کہ مصاحف کا بلند کرنا محض عیاری ہے ہم کو اس دام تزویر سے بچنا چاہیے، کردوس بن ہانی، سفیان بن ثور اورخالد بن العمر نے بھی امیر المومنین کی تائید کی اور کہا کہ پہلے ہم نے ان کو قرآن کی طرف دعوت دی تو انھوں نے کچھ پروا نہ کی، لیکن جب ناکامی و نامرادی کا خوف ہوا تو اس مکاری کے ساتھ ہمیں دھوکا دینا چاہتے ہیں؛لیکن شامیوں کا جادو چل چکا تھا، اس لیے باوجود سعی وکوشش ایک جماعت نے نہایت سختی کے ساتھ اصرار کیا کہ قرآن کی دعوت کو رد نہ کرنا چاہیے اور دھمکی دی کہ اگر قرآن کے درمیان میں آنے کے بعد بھی جنگ بند نہ ہوگی تو وہ نہ صرف فوج سے کنارہ کش ہوجائے گی؛ بلکہ خود جناب امیر ؓ کا مقابلہ کرے گی، معر بن فد کی، زیدبن حصین، سنبی اور ابن الکواء اس جماعت کے سرگروہ تھے، اسی طرح اشعث بن قیس نے عرض کیا امیر المومنین ! میں جس طرح کل آپ کا جان نثار تھا اسی طرح آج بھی ہوں؛لیکن میری بھی یہی رائے ہے کہ قرآن مجید کو حکم مان لینا چاہیے، غرض یہ چال ایسی کامیاب ہوئی کہ جناب علی مرتضیٰ کو مجبورا ًاپنی فوج کو بازگشت کا حکم دینا پڑا، اشترنخعی اس وقت نہایت کامیاب جنگ میں مصروف تھے، اس لیے واپسی کا حکم سن کر ان کو بڑا صدمہ ہوا اور فردوگاہ پر واپس جانے کے بعد ان میں اور مسعر بن مذکی اور ابن الکواء وغیرہ میں جنھوں نے التوائے جنگ پر مجبور کیا تھا نہایت تلخ گفتگو ہوئی اور قریب تھا کہ باہم کشت وخون کی نوبت پہنچ جائے ؛لیکن جناب امیر معاویہ ؓ نے درمیان میں پڑکر معاملہ کو رفت و گذشت کر دیا۔ التوائے جنگ کے بعد دونوں فریق میں خط کتابت شروع ہوئی اور طرفین کے علما، فضلا کا اجتماع ہوا اور بحث و مباحثہ کے بعد قرار پایا کہ خلافت کا مسئلہ دوحکم کے سپرد کر دیا جائے اور وہ جو کچھ فیصلہ کریں اس کو قطعی تصور کیا جائے، شامیوں نے اپنی طرف سے عمرو بن العاص ؓ کا نام پیش کیا، اہل عراق کی طرف سے اشعث بن قیس نے ابوموسیٰ اشعری کا نام لیا، حضرت علی ؓ نے اس سے اختلاف کیا اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی بجائے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو تجویز کیا، لوگوں نے کہا عبد اللہ بن عباس اورآپ تو ایک ہی ہیں، حکم کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، اس لیے جناب امیر معاویہ ؓ نے دوسرا نام اشترنخعی کا لیا، اشعث بن قیس نے برا فروختہ ہوکر کہا‘‘جنگ کی آگ اشتر ہی نے بھڑکائی ہے اور ان کی رائے تھی کہ جب تک آخری نتیجہ نہ ظاہر ہو ہر فریق دوسرے سے لڑتا رہے، اس وقت تک ہم اس کی رائے پر عمل کرتے رہے، ظاہر ہے جس کی رائے یہ ہے اس کا فیصلہ بھی یہی ہوگا، حضرت علی ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ ابوموسیٰ اشعری کے علاوہ اورکسی پر رضا مند نہیں تو تحمل و بردباری کے ساتھ فرمایا جس کو چاہو حکم بناؤ مجھے بحث نہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعر ی ؓ جنگ سے کنارہ کش ہوکر ملک شام کے ایک گاؤں میں گوشہ نشین ہو گئے تھے، لوگوں نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور دونوں فریق کے ارباب حل وعقد ایک عہد نامہ ترتیب دینے کے لیے مجتمع ہوئے، کاتب نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا ہذا ماقضی علیہ امیر المومنین، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر امیر المومنین تسلیم کرلیتا تو پھر جھگڑا ہی کیا تھا، عمرو بن العاص ؓ نے مشورہ دیا کہ صرف نام پر اکتفا کیا جائے، لیکن احنف ابن قیس اور حضرت علی ؓ کے دوسرے جاں نثاروں کو اس لقب کا محوہونا نہایت شاق تھا، فدائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا خدا کی قسم یہ سنت کبریٰ ہے، صلح حدیبیہ (ذوقعدہ 6ھ ) میں رسول اللہ کے فقرے پر ایسا ہی اعتراض ہوا تھا اس لیے جس طرح حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنے دست مبارک سے مٹایا تھا، اسی طرح میں بھی اپنے ہاتھ سے مٹاتا ہوں، غرض معاہدہ لکھا گیا اور دونوں طرف کے سربرآوردہ آدمیوں نے دستخط کرکے اس کو موثق کیا، معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے۔ ‘‘علی ؓ، معاویہ ؓ اوران دونوں کے طرفدار باہمی رضا مندی کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری ؓ ) اورعمروبن العاص قرآن پاک اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جو فیصلہ کریں گے اس کے تسلیم کرنے میں ان کو پس و پیش نہ ہوگا، اس لیے دونوں حکم کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ قرآن اور سنت نبوی کو نصب العین بنائیں اورکسی حالت میں اس سے انحراف نہ کریں، حکم کی جان اور ان کا مال محفوظ رہے گا اور ان کے حق فیصلہ کی تمام امت تائید کرے گی، ہاں اگر فیصلہ کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگا تو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور فریقین کو اختیار ہوگا کہ پھر ازسرنو جنگ کو اپنا حکم بنائیں۔ [86] .[277]
خارجی فرقہ کی بنیاد
معاہدہ تیرہویں صفر 37ھ چہار شنبہ کے روز ترتیب پایا، اشعث بن قیس تمام قبائل کو اس معاہدہ سے مطلع کرنے پر مامور ہوئے، وہ سب کو سناتے ہوئے جب غزہ کے فرودگاہ پر پہنچے تو دو آدمیوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ خدا کے سوا اورکسی کو فیصلہ کا حق نہیں اور غضب ناک ہو کہ شامی فوج پر حملہ کر دیا اور لڑکر مارے گئے، اسی طرح قبیلہ مراد اور بنو راست اور بنو تمیم نے بھی اس کو ناپسند کیا، بنو تمیم کے ایک شخص غزوہ بن اُدیہ نے اشعث سے سوال کیا کہ کیا تم لوگ اللہ کے دین میں آدمیوں کا فیصلہ قبول کرتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو بتاؤ کہ ہمارے مقتول کہا جائیں؟ اور غضب ناک ہو کر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اگر خالی نہ جاتا تو اشعث کا کام ہی تمام ہوجاتا، بہت سے آدمیوں نے خود حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس معاہدہ کی نسبت اپنی بیزاری ظاہر کی، محزر بن خنیس نے عرض کیا، امیر المومنین اس معاہدہ سے رجوع کر لیجئے، واللہ میں ڈرتا ہوں کہ شاید آپ کا انجام برا نہ ہو، غرض ایک معتدبہ جماعت نے اس کو ناپسند کیا اور انجام کار اسی نا پسندیدگی نے ایک مستقل فرقہ کی بنیاد قائم کردی جس کا ذکر آگے آئے گا۔
تحکیم کا نتیجہ
حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ نے دومۃ الجندل کو جو عراق اور شام کے وسط میں تھا بالاتفاق حکمین کے لیے اجلاس کا مقام منتخب کیا اور ہر ایک نے اپنے اپنے حکم کے ساتھ چار چار سو آدمیوں کی جمعیت ساتھ کر دیا حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اور مذہبی نگران حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تھے، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ وغیرہ بھی جو اپنے ورع و تقویٰ کے باعث اس خانہ جنگی سے الگ رہے تھے، تحکیم کی خبر سن کر اس کا آخری فیصلہ معلوم کرنے کے لیے دومۃ الجندل میں آئے، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے جو نہایت نکتہ رس اورمعاملہ فہم بزرگ تھے پہنچنے کے ساتھ ابوموسیٰ اشعر ؓ اور عمروبن العاص ؓ سے علاحدہ علاحدہ گفتگو کرکے ان کی رائے کا اندازہ کیا تو انھیں یقین ہو گیا کہ ان دونوں میں اتحاد رائے ممکن نہیں ہے؛چنانچہ انھوں نے اسی وقت علانیہ پیشن گوئی کی کہ اس تحکیم کا نتیجہ خوش آئند نہ ہوگا، بہرحال دونوں حکم حسب قرارداد گوشہ خلوت میں مجتمع ہوئے، عمرو بن العاص ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ان کی غیر معمولی تعظیم و توقیر شروع کی تعریف وتوصیف کے پل باندھ دیے، اصل مسئلہ کے متعلق جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے: ابوموسیٰ ؓ :عمروؓ بن عاص تم ایک ایسی رائے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہو جس سے خدا کی خوشنودی اور قوم کی بہبودی دونوں میسر آئے؟ عمرو بن العاصؓ :وہ کیا ہے؟ ابو موسیٰؓ، عبد اللہ بن عمرؓ نے ان خانہ جنگیوں میں کسی طرح حصہ نہیں لیا ہے، ان کو منصب خلافت پر کیوں نہ متمکن کیا جائے۔ عمرو بن العاصؓ، معاویہؓ میں کیا خرابی ہے؟ ابوموسی ؓ، امیر معاویہؓ نہ تو اس منصب جلیل کے لیے موزوں ہیں اور نہ ان کو کسی طرح کا استحقاق ہے، ہاں اگر تم مجھ سے اتفاق کرو تو فاروق اعظم ؓ کا عہد لوٹ آئے اور عبد اللہ اپنے باپ کی یاد پھر تازہ کر دیں۔ عمرو بن العاصؓ، میرے لڑکے عبد اللہ پر آپ کی نظر انتخاب کیوں نہیں پڑتی فضل و منقبت میں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔ ابوموسیٰ ؓ، بے شک تمھارا لڑکا صاحب فضل ومنقبت ہے؛ لیکن ان خانہ جنگیوں میں شریک کرکے تم نے ان کے دامن کو بھی ایک حد تک داغدار کر دیا ہے، بر خلاف اس کے طیب ابن طیب عبد اللہ بن عمر ؓ کا لباس تقویٰ ہر قسم کے دھبوں سے محفوظ ہے، بس آؤ انہی کو مسند خلافت پر بٹھا دیں۔ عمرو بن العاصؓ: ابو موسیؓ! اس منصب کی صلاحیت صرف اس میں ہو سکتی ہے جس کے دو داڑھ ہوں، ایک سے کھائے اور دوسرے سے کھلائے۔ ابوموسیؓ، عمروؓ! تمھارا برا ہو، کشت وخون کے بعد مسلمانوں نے ہمارا دامن پکڑا ہے اب ہم ان کو پھر فتنہ وفساد میں مبتلا نہیں کریں گے۔ عمرو بن العاص ؓ، پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ ابوموسیٰ ؓ، ہمارا خیال ہے کہ علی ؓ اور معاویہ ؓ دونوں کو معزول کر دیں اور مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کو پھر سے اختیار دیں جس کو چاہے منتخب کرے۔ عمرو بن العاصؓ، مجھے بھی اس سے اتفاق ہے۔ مذکورہ بالاقرار داد کے بعد جب دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو عبد اللہ بن عباس ؓ نے ابو موسیٰ ؓ کے پاس جاکر کہا‘‘خدا کی قسم !مجھے یقین ہے کہ عمرو نے آپ کو دھوکا دیا ہوگا، اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو توآپ ہر گز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا، وہ نہایت غدار ہے، کیا عجب ہے کہ آپ کے بیان کی مخالفت کر بیٹھے، ابوموسی ؓ نے کہا کہ ہم لوگ ایسی رائے پر متحد ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں، غرض دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسی اشعری ؓ نے عمرو بن العاصؓ سے فرمایا کہ وہ منبر پر چڑھ کر فیصلہ سنائیں، انھوں نے عرض کیا میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا، آپ فضل ومنقبت میں، سن وسال میں، غرض ہر حیثیت سے ہم سے افضل اور ہمارے بزرگ ہیں۔ حضرت ابوموسی ؓ پر عمرو بن العاص ؓکا جادو چل گیا؛چنانچہ آپ بغیر پس وپیش کے کھڑے ہو گئے اور حمد وثنا کے بعد کہا‘‘صاحبو! ہم نے علی ؓ اور معاویہ ؓ دونوں کو معزول کیا اور پھر نئے سرے سے مجلس شوریٰ کو انتخاب کا حق دیا، وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے، ابو موسی اپنا فیصلہ سنا کر منبر پر سے اترے عمرو بن العاص نے کھڑے ہوکر کہا‘‘صاحبو!علی ؓ کو جیسا کہ ابوموسیٰ ؓ نے معزول کیا میں بھی معزول کرتا ہوں ؛لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر قائم رکھتا ہوں، کیونکہ وہ امیر المؤمنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بہت نیک دل اور سادہ دل بزرگ تھے، اس خلاف بیانی سے ششد رہ گئے، چلا کر کہنے لگے یہ کیا غداری ہے، یہ کیا بے ایمانی ہے، سچ یہ ہے کہ تمھاری حالت بالکل اس کتے کی طرح ہے جس پر لادوجب بھی ہانپتا ہے اور چھوڑو تو بھی ہانپتا ہے، انما مثلک کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث اوتترکہ یلھث، عمرو بن العاص نے کہا اور آپ پر چار پائے بروکتا بے چند کی مثل صادق آتی ہے، مثلک کمثل الحمار یحمل اسفارا، عمرو بن العاصؓ کے بیان سے مجمع میں سخت برہمی پیدا ہو گئی، شریح بن ہانی نے عمرو بن العاصؓ کو کوڑے سے مارنا شروع کیا، اس طرف سے ان کے ایک لڑکے نے شریح پر حملہ کر دیا؛لیکن بات بڑھنے نہیں پائی اورلوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے رفت وگذشت کر دیا، حضرت ابوموسیٰ ؓ کو اس قدر ندامت ہوئی کہ اس وقت مکہ روانہ ہو گئے اور تمام عمر گوشہ نشین رہے۔
خوارج کی سرکشی
پہلے گذر چکا ہے کہ تحکیم کو حضرت علی ؓ کے اعوان وانصار میں سے معتدبہ جماعت نے ناپسند کیا تھا؛چنانچہ جب آپ صفین سے کوفہ تشریف لائے تو اس نے اپنی ناپسندید گی کا ثبوت اس طرح دیا کہ تقریباً بارہ ہزار آدمیوں نے لشکر حیدری سے کنارہ کش ہوکر حردار میں اقامت اختیار کی، حضرت علی ؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباس کو سمجھانے کے لیے بھیجا، انھیں ناکامی ہوئی توخود تشریف لے گئے اور مناظرہ ومباحثہ کے بعد راضی کرکے سب کو کوفہ لے آئے یہاں یہ افواہ پھیل گئی کہ جناب امیر ؓ نے ان کی خاطر داری کے لیے تحکیم کو کفر تسلیم کرکے اس سے توبہ کی ہے، حضرت علی ؓ کے کان میں اس کی بھنک پہنچی تو آپ نے خطبہ دے کر اس کی تکذیب کی اور فرمایا کہ پہلے انھی لوگوں نے جنگ ملتوی کرنے پر مجبور کیا، پھر تحکیم پر ناپسندیدگی ظاہر کی اوراب چاہتے ہیں کہ عہد شکنی کرکے قبل از فیصلہ پھر جنگ شروع کر دوں، خدا کی قسم ! یہ نہیں ہو سکتا، حاضرین میں اُس جماعت کے لوگ بھی موجود تھے وہ سب ایک ساتھ چلا آٹھے‘‘ لاحکم الا اللہ’’ یعنی فیصلہ کا حق صرف اللہ کو ہے اور ایک شخص نے سامنے آکر نہایت بلند آہنگی سے کہا: وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَo لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ [278] "اے محمد تم اورتمہارے قبل انبیا پر یہ وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے خدا کی ذات میں دوسرے کو شریک بنایا تو تمھارے سب اعمال بیکار ہوجائیں گے اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوں گے۔" حضرت علی ؓ نے برجستہ جواب دیا: فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ توصبر کر، خداکا وعدہ حق ہے اور جولوگ یقین نہیں رکھتے وہ تیرا استخفاف نہ کریں۔ غرض رفتہ رفتہ اس جماعت نے ایک مستقل فرقہ کی صورت اختیار کرلی، دومۃ الجندل کی تحکیم کا افسوس ناک نتیجہ ملک میں شائع ہوا تو اس فرقہ نے جناب مرتضیٰ کی بیعت توڑکر عبد اللہ بن وہب الراسبی کے ہاتھ پر بیعت کی اور کوفہ، بصرہ، انبار اور مدائن وغیرہ میں جس قدر اس فرقہ کے لوگ موجود تھے وہ سب نہروان میں جمع ہوئے اور عام طور پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ خارجیوں کا عقیدہ تھا کہ معاملات دین میں سرے سے حکم مقرر کرنا کفر ہے، پھر ان دونوں حکم نے جس طریقہ پراس کا فیصلہ کیا اس کے لحاظ سے خود وہ دونوں اور ان کے انتخاب کرنے والے کافر ہیں اور اس عقیدہ سے جس کو اتفاق نہ ہو اس کا خون مباح ہے؛چنانچہ انھوں نے عبد اللہ بن خباب اوران کی اہلیہ کو نہایت بیددردی سے قتل کر دیا، اسی طرح ام سنان اورصید اویہ کو مشق ستم بنایا اورجو انھیں ملا اس کو یا تو اپنا ہم خیال بناکر چھوڑایا تلوار کے گھاٹ اتار دیا، حضرت علی ؓ کو ان جگر خراش واقعات کی اطلاع ہوئی تو حارث بن مرہ کو دریافت حال کے لیے بھیجا، خارجیوں نے ان کا بھی کام تمام کر دیا۔ جناب مرتضیٰ ؓ اس وقت نئے سرے سے شام پر فوج کشی کی تیاری فرما رہے تھے ؛لیکن جب خارجیوں کی سرکشی اور قتل وغارت اس حد تک پہنچ گئی تو اس ارادہ کو ملتوی کرکے ان خارجیوں کی تنبیہ کے لیے نہروان کا قصد کرنا پڑا۔[279][280]
معرکہ نہروان
نہروان پہنچ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ اور قیس بن سعد بن عبادہ ؓ کو خارجیوں کے پاس بھیجا کہ وہ بحث و مباحثہ کرکے ان کو ان کی غلطی پر متنبہ کریں، جب ان دونوں کو ناکامی ہوئی تو خارجیوں کے ایک سردار ابن الکوا کو بلا کر خود ہر طرح سمجھایا لیکن ان کے قلوب تاریک ہو چکے تھے، اس لیے ارشاد وہدایت کے تمام مساعی ناکام رہے اور جناب امیر ؓ نے مجبور ہوکر فوج کو تیاری کا حکم دیا، میمنہ پر حجر بن عدی، میسرہ پر شیث بن ربعی، پیادہ پرحضرت ابوقتادہ انصاری ؓ اورسواروں پر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کو متعین کرکے باقاعدہ صف آرائی کی۔ خارجیوں میں ایک جماعت ایسی تھی جس کو حیدر کرار ؓ سے جنگ آزمائی ہونے میں پس و پیش تھا، ایک بڑا گروہ کوفہ چلا گیا اورایک ہزار آدمیوں نے توبہ کرکے علم حیدری کے نیچے پناہ لی اور عبد اللہ بن وہب الراسبی کے ساتھ صرف چار ہزار خارجی باقی رہ گئے لیکن یہ سب منتخب اور جانباز تھے اس لیے انھوں نے میمنہ اور میسرہ پر اس زور کا حملہ کر دیا کہ اگر جاں نثاران علی ؓ میں غیر معمولی ثبات واستقلال نہ ہوتا توان کا روکنا سخت مشکل تھا، خارجیوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے اعضاء کٹ کٹ کر جسم سے علاحدہ ہو جاتے تھے؛ لیکن ان کی حملہ آوری میں فرق نہیں آتا تھا، شریح بن ابی ادنیٰ کا ایک پاؤں کٹ گیا تو تنہا ایک ہی پاؤں پر کھڑا ہوکر لڑتا رہا، اسی طرح خارجی ایک ایک کرکے کٹ کر مر گئے، جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے خارجی مقتولین میں اس شخص کو تلاش کرنا شروع کیا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی؛چنانچہ تمام علامات کے ساتھ ایک لاش برآمد ہوئی تو فرمایا اللہ اکبر! خداکی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر صحیح ارشاد فرمایا تھا۔" جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد حضرت علی ؓ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ؛لیکن اشعث بن قیس نے کہا‘‘امیر المومنین !ہمارے ترکش خالی ہو گئے ہیں، تلواروں کی دھاریں مڑ گئی ہیں، نیزوں کے پھل خراب ہو گئے ہیں، اس لیے ہم کو دشمن پر فوج کشی کرنے سے پہلے اسباب وسامان درست کر لینا چاہیے، جناب امیر ؓ نے اشعث کی رائے کے مطابق نخیلہ میں پڑاؤ کرکے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا؛لیکن لوگ تیار ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ دس دس بیس بیس کوفہ کھسکنے لگے، یہاں تک کہ آخر میں کل ایک ہزار کی جمعیت ساتھ رہ گئی۔حضرت علی ؓ نے یہ رنگ دیکھا تو سردست شام پر فوج کشی کا ارادہ ترک کر دیا اور کوفہ واپس جاکر اقامت اختیار کی۔[281][282]
مصر کے لیے کش مکش
پہلے گذر چکا ہے کہ جناب حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ عہد عثمانی کے تمام عمال کو معزول کرکے نئے عمال مقرر کیے تھے؛ چنانچہ مصر کی ولایت حضرت قیس بن سعد انصاری ؓ کے سپرد ہوئی تھی، انھوں نے حکمت عملی سے تقریباً تمام اہل مصر کو جناب امیر ؓ کی خلافت پر راضی کرکے ان سے آپ کی بیعت لے لی صرف قصبہ خرتبا کے لوگوں کو تامل ہوا اور انھوں نے کہا جب تک معاملات یکسو نہ ہو جائیں اس وقت تک ان سے بیعت کے لیے اصرار نہ کیا جائے البتہ والی مصر کی اطاعت و فرماں برداری میں کوتاہی نہ کریں گے اور نہ ملک کے امن وسکون کو صدمہ پہنچائیں گے، قیس بن سعد نہایت پختہ کار اور صاحب تدبیر تھے، انھوں نے اس بھڑکے چھتے کو چھیڑنا خلافِ مصلحت سمجھا اور انھیں امن وسکون کی زندگی بسر کرنے کی اجازت دے دی، اس رواداری کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل خرتبا مطیع و فرماں بردار ہو گئے اور خراج وغیرہ ادا کرنے میں انھوں نے کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا۔ جنگ صفین کی تیاریاں شروع ہوئیں تو امیر معاویہ ؓ کو خوف ہوا کہ اگر وہ دوسری طرف سے قیس بن سعد اہل مصر کو لے کر شام پر چڑھ آئے تو بڑی دقت کا سامنا ہوگا، اس لیے انھوں نے قیس بن سعد کو خط لکھا کر اپنا طرفدار بنانا چاہا قیس بن سعد ؓ نے دنیا سازی کے طور پر نہایت گول جواب دے کر ٹال دیا، امیر معاویہ ؓ فورا اس کو تاڑ گئے اور ان کو لکھا کہ تم مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو، مجھ جیسا شخص کبھی تمھارے دام فریب کا شکار نہیں ہو سکتا افسوس تم اس کو فریب دیتے ہو جس کا ادنٰی سا اشارہ مصر کو پامال کرسکتا ہے قیس بن سعد ؓ نے اس تحریر کا جواب نہایت سخت دیا اور لکھا کہ تمھاری دہمکی سے نہیں ڈرتا، خدانے چاہا تو خود تمھاری اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ حضرت قیس بن سعد نہایت بلند پایہ اور ذی اثر بزرگ تھے، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر غزوات میں انصار کے علم بردار رہے تھے، امیر معاویہ ؓ نے جب دیکھا کہ ان کے مقابلہ میں کچھ پیش نہ جائے گی تو انھوں نے ان کے مصر سے ہٹانے کی تدبیر کی ان کے متعلق مشہور کر دیا کہ قیس بن سعد ؓ میرے طرفدار ہیں، رفتہ رفتہ یہ افواہ دربارِ خلافت پہنچی، محمد بن ابی بکر ؓ وغیرہ نے اس کو اور بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور اہل خرتبا کے بیعت نہ کرنے کا واقعہ ثبوت میں پیش کیا۔ جناب امیر ؓ نے اس افواہ سے متاثر ہوکر قیس بن سعد ؓ کو خرتبا والوں سے بیعت کے لیے لڑنے کا حکم دیا، انھوں نے جواب دیا کہ خرتبا تقریباً دس ہزار نفوس کی آبادی ہے اس میں بسر بن ارطاۃ، مسلمہ بن مخلد اور معاویہ بن خدیج جیسے جنگ آزما بہادر موجود ہیں، ان سے لڑائی خریدنا مصلحت نہیں ہے جب دربارِ خلافت سے مکرر اصرار ہوا تو انھوں نے استعفا دے دیا، قیس کی جگہ محمد بن ابی بکر ؓ والی مصر مقرر ہوئے، یہ کمسن ناتجربہ کار تھے، ان کے طرزِ عمل نے مصر میں شورش وبے چینی کی آگ بھڑکا دی اور انھوں نے خرتبا والوں سے چھیڑ کرکے ان کو آمادہ پر خاش کر دیا، حضرت علی ؓ کو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے معرکہ صفین کے بعد اشترنخعی کو مصر روانہ کیا کہ وہ محمد بن ابی بکر کو سبکدوش کرکے ملک کے حالات درست کریں؛لیکن امیر معاویہ ؓ نے راستے میں زہر دلا کر اشترنخعی کا کام تمام کرادیا اور عمرو بن العاص ؓ کے ماتحت ایک زبردست مہم مصر روانہ کی، محمد بن ابی بکر ؓ کے لیے اس فوج کا مقابلہ نہایت دشوار تھا، تاہم دو ہزار کی جمعیت فراہم کرا کے وہ اس جانبازی سے لڑے کہ عمرو بن العاص ؓ کو معاویہ بن خدیج رئیس خرتباکی مدد طلب کرنی پڑی؛ لیکن اس دوران میں حضرت امیر معاویہ ؓ نے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ آکر پیچھے سے گھیر لیا اور محمد بن ابی بکر ؓ کے ساتھی یا تو مارے گئے یا جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے، محمد بن ابی بکر ؓ نے بھی ایک ویران کھنڈر میں پناہ لی؛ لیکن عمرو بن العاص ؓکے جاسوسوں نے ڈھونڈ نکالا اور معاویہ بن خدیج نے نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے لاش کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال دیا، اس افسوسناک طریقہ پر 38ھ میں مصر کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا اور حضرت علی ؓ اپنی مجبوریوں کے باعث محمد بن ابی بکر کی کوئی مددنہ کرسکے۔ اسی سال یعنی 38ھ میں امیر معاویہ ؓ نے اہل بصرہ کو جناب مرتضٰی کی اطاعت سے برگشتہ کرکے اپنی حکومت کا طرفدار بنانے کے لیے عبد اللہ بن حضرمی کو بصرہ بھیجا، عبد اللہ کو اس مہم میں بڑی کامیابی ہوئی، قبیلۂ بنو تمیم اور تقریباً تمام اہل بصرہ نے اس دعوت کو لبیک کہا اور حضرت علی ؓ کے عامل زیاد کو بصرہ چھوڑ کر حدان میں پناہ گزین ہونا پڑا، بارگاہ خلافت کو اس کی اطلاع ہوئی تو حضرت علی ؓ نے عین بن ضبیعہ کو ابن حضرمی کی ریشہ دوانیوں کے انسداد پر مامور کیا؛ لیکن قبل اس کے کہ انھیں کامیابی ہو، امیر معاویہ ؓ کے ہوا خواہوں نے ناگہانی طور پر قتل کر دیا، عین بن ضبعیہ کے بعد جناب امیر نے جاریہ بن قدامہ کو ابن حضرمی کی سرکوبی پر مامور کیا، انھوں نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ بصرہ پہنچ کر ابن حضرمی اور اس کے ساتھیوں کو گھیرلیا اور ان کی پناہ گاہ کو نذر آتش کرکے خاک سیاہ کر دیا اور اہل بصرہ نے دوبارہ اطاعت قبول کرلی، امیر المومنین کے ترحم نے عفو عام کا اعلان کیا۔
بغاوتوں کا استیصال
جنگ نہروان میں گو خارجیوں کا زور ٹوٹ چکا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں ملک میں موجود تھیں اوراپنی ریشہ دوانیوں سے روز ایک نہ ایک فتنہ برپا کرتی رہتی تھیں؛چنانچہ ایک خارجی خریت بن راشد کا صرف یہ کام تھا کہ وہ مجوسیوں، مرتدوں اور نومسلموں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ملک میں ہر طرف لوٹ مارکرتا پھرتا تھا اورہر جگہ ذمیوں کو بھڑکا کر بغاوت کرا دیتا تھا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد بن حفصہ اور ایک روایت کے مطابق معقل بن قیس کو جب رامہرمز سے روانہ ہوئے تو ان لوگوں نے دور تک مشایعیت کی، ایرانی مردوں اور عورتوں نے خدا حافظ کہا اور ان کی جدائی پر بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
امیر معاویہ ؓ کا جارحانہ طریق عمل
جنگ صفین کے التواء اور مسئلہ تحکیم نے ایک طرف تو حضرت علی ؓ کی جماعت میں تفریق واختلاف ڈال کر خارجیوں کو پیدا کر دیا اور دوسری طرف اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آپ کے مخصوص ہمدموں اور جانثاروں کے عزم و ارادے بھی پست ہو گئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر وہ جنگ سے پہلو تہی کرنے لگے، جناب امیر ؓ نے بارہا شام پر چڑھائی کا قصد کیا ، پرجوش خطبوں سے اپنے ساتھیوں کو حمایت حق کی دعوت دی اور طعن آمیز جملوں سے ان کی رگِ غیرت کو جوش میں لانے کی کوشش کی؛ لیکن شیعان علی ؓ کے دل ایسے پثرمردہ ہو گئے تھے اور ان کی ہمتیں ایسی پست ہو چکی تھیں کہ پھر وہ کسی طرح آمادہ نہ ہوئے، اس سلسلے کے جو خطبے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب اور نہج البلاغۃ میں موجود ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت علی ؓ کو اپنے حامیوں اورطرفداروں کی اس سرد مہری کا کتنا صدمہ تھا، امیر معاویہ ؓ اس حقیقت حال سے ناواقف نہ تھے، انھوں نے شیعان علی کی پست ہمتی سے فائدہ اٹھا کر مدافعت کی بجائے اب جارحانہ قدم اُٹھایا اور 39ھ میں فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے حجاز، عراق اور جزیرہ میں پھیلا دیے کہ وہ بے امنی پھیلا کر جناب مرتضی ؓ کو پریشانیوں میں اضافہ کریں؛چنانچہ نعمان بن بشر نے دوہزار کی جمعیت سے عین التمر پر، سفیان بن عوف نے چھ ہزار کی فوج سے انبار اور مدائن وغیرہ پر، عبد اللہ بن مسعدہ فزاری نے ایک ہزار سات سو آدمیوں سے تیماء پر ضحاک بن قیس نے وافضۃ کے نشیبی حصہ پر اور امیر معاویہ ؓ نے دجلہ کے ساحلی علاقوں پر حملہ کرکے بیت المال لوٹ لیا اور شیعان علی ؓ کو تہ تیغ کرکے لوگوں کو اپنی حکومت کے سامنے گردن اطاعت خم کرنے پر مجبور کر دیا۔
کرمان و فارس کی بغاوتوں کو فرو کرنا
حیدرکرار کی ہمت مردانہ نے گو بہت جلد امیر معاویہ ؓ کے حملہ آور دستوں کو ممالک مقبوضہ سے نکال دیا، تاہم اس سے ایک عام بے امنی اور بے رعبی پیدا ہو گئی، کرمان وفارس کے عجمیوں نے بغاوت کرکے خراج دینے سے انکار کر دیا، اکثر صوبوں نے اپنے یہاں کے علوی نکال دیے اور ذمیوں نے خود سری اختیار کرلی، حضرت علی ؓ نے اس عام بغاوت کے فرو کرنے کے متعلق مشورہ طلب کیا، لوگوں نے عرض کیا، زیاد بن ابیہ سے زیاہ اس کام کے لیے کوئی شخص موزوں نہیں ہو سکتا، اس لیے زیاد اس مہم پر مامور ہوئے، انھوں نے بہت جلد کرمان، فارس اور تمام ایران میں بغاوت کی آگ فرو کرکے امن وسکون پیدا کر دیا، بغاوت فرو ہونے کے بعد حضرت علی ؓ نے ایرانی باغیوں کے ساتھ اس لطف و مدارت کا سلوک کیا کہ ایران کا بچہ بچہ منت پذیری کے جذبات سے لبریز ہو گیا، ایرانیوں کا خیال تھا کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب ؓ کے طریق جہانبا نی نے نو شیروانی طرز حکومت کی یاد بھلا دی۔
فتوحات
گذشتہ حالات سے یہ معلوم ہو گیا ہوگا کہ علی بن ابی طالب ؓ کو اندرونی شورشوں اور خانگی جھگڑوں کے دبانے سے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ وہ اسلام کے فتوحات کے دائرہ کو بڑھا سکتے، تاہم آپ بیرونی امور سے غافل نہ رہے؛ چنانچہ سیستان اور کابل کی سمت میں بعض عرب خود مختار ہو گئے تھے، ان کو قابو میں کرکے آگے قدم بڑھایا، [283] اور 38ھ میں بعض مسلمانوں کو بحری راستہ سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت دی، اس وقت کوکن بمبئی کا علاقہ سندھ میں شامل تھا، مسلمان رضا کار سپاہیوں نے سب سے پہلے اسی عہد میں کوکن پر حملہ کیا۔ [284]
حجاز اور عرب کے قبضہ کے لیے کشمکش
حضرت امیر معاویہ ؓ نے 40ھ میں پھر ازسرنو چھیڑ چھاڑ شروع کی اور بسر بن ارطاۃ کو تین ہزار کی جمعیت کے ساتھ حجاز روانہ کیا، اس نے بغیر کسی مزاحمت و جنگ کے مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرکے یہاں کے باشندوں سے زبردستی امیر معاویہ ؓ کے لیے بیعت لی، پھر وہاں سے یمن کی طرف بڑھا، حضرت ابوموسی اشعر ی ضی اللہ عنہ نے پہلے سے پوشیدہ طور پر یمن کے عامل عبید اللہ بن عباس کو بسر بن ابی ارطاۃ کے حملہ کے اطلاع کردی اور یہ بھی لکھ دیا کہ جو لوگ معاویہ ؓ کی حکومت تسلیم کرنے میں لیت و لعل کرتے ہیں وہ ان کو نہایت بے دردی سے تہ تیغ کردیتا ہے، عبیداللہ بن عباس نے اپنے کو اس مقابلہ ے عاجز دیکھ کر عبد اللہ بن عبدالمدان کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود دربار خلافت سے مدد طلب کرنے کے لیے کوفہ کی راہ لی، بسر بن ابی ارطاۃ نے یمن پہنچ کر نہایت بے دردی کے ساتھ عبیداللہ بن عباس کے دو صغیر السن بچوں اور شیعان علی کی ایک بڑی جماعت کو قتل کر دیا۔ دوسری طرف شامی سواروں نے سرحد عراق پر ترکتاز شروع کردی اور یہاں کی محافظ سپاہ کو شکست دے کر انبار پر قبضہ کر لیا، حضرت علی ؓ کو بسر بن ابی ارطاۃ کے مظالم کا حال معلوم ہوا تو آُ پ نے جاریہ بن قدامہ اور وہب بن مسعود کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے یمن و حجاز کی مہم پر مامور کیا اورکوفہ کی جامع مسجد میں پرجوش خطبے دے کر لوگوں کو حدود عراق سے شامی فوج نکال دینے پر ابھارا اور یہ تقریریں ایسی مؤثر تھیں کہ اہل کوفہ کے مردہ قلوب میں بھی فوری طور پر روح پیدا ہو گئی اور ہر گوشہ سے صدائے لبیک بلند ہوئی؛لیکن جب کوچ کا وقت آیا تو صرف تین سو آدمی رہ گئے، جناب مرتضیٰ کو اہل کوفہ کی اس بے حسی پر نہایت صدمہ ہوا، حجر بن عدی اورسعید بن قیس ہمدانی نے عرض کیا، امیر المومنین بغیر تشدد کے لوگ راہ پر نہ آئیں گے، عام منادی کرا دیں کی بلا استثناء ہر شخص کو میدان جنگ کی طرف چلنا پڑے گا جو اس میں تساہل یا اعراض سے کام لے گا اس کو سخت سزادی جائے گی، اب صورتِ حال ایسی تھی کہ اس مشورہ پر عمل کرنے کے سوا چارہ نہ تھا اس لیے حضرت علی ؓ نے اس کا اعلان عام کر دیا اور معقل کو رساتیق بھیجا کہ وہاں سے جس قدر بھی سپاہی مل سکیں جمع کرکے اسے لے آئیں ؛لیکن یہ تیاریاں ابھی حد تکمیل کو نہیں پہنچی تھیں کہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار نے جان بحق پلا دیا، اناللہ وانا الیہ راجعون
شہادت
اس جانگداز اور اندوہناک سانحہ کی تفصیل یہ ہے کہ واقعہ نہروان کے بعد چند خارجیوں نے حج کے موقع پر مجمتع ہوکر مسائل حاضرہ پر گفتگو شروع کی اور بحث و مباحثہ کے بعد بالاتفاق یہ رائے قرار پائی کہ جب تک تین آدمی علی ؓ، امیر معاویہ ؓ اور عمرو بن العاص ؓ صفحہ ہستی پر موجود ہیں دنیائے اسلام کو خانہ جنگیوں سے نجات نصیب نہیں ہو سکتی؛چنانچہ تین آدمی ان تینوں کے قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے، عبدالرحمن بن ملجم نے کہا کہ میں علی ؓ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں، اسی طرح نزال نے معاویہ ؓ اور عبد اللہ نے عمرو بن العاص کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور تینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہو گئے، کوفہ پہنچ کر ابن ملجم کے ارادہ کو قطام نامی ایک خوب صورت خارجی عورت نے اور زیادہ مستحکم کر دیا، اس مہم میں کامیاب ہونے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا اور جناب مرتضیٰ کے خون کا مہر قرار دیا۔ 19 رمضان 40ھ ( 660ء ) میں تینوں نے ایک ہی روز صبح کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا، امیر معاویہ ؓ اور عمرو بن العاص ؓ اتفاقی طور پر بچ گئے امیر معاویہ ؓ پر وار اوچھا پڑا، عمرو بن العاص اس دن امامت کے لیے نہیں آئے تھے، ایک اور شخص ان کا قائم مقام ہوا تھا وہ عمرو بن العاص کے دھوکا میں مارا گیا، جناب مرتضیٰ کا پیمانہ حیات لبریز ہوچکاتھا، آپ مسجد میں تشریف لائے اور ابن ملجم کو جو مسجد میں آکر سو رہا تھا، جگایا، جب آپ نے نماز شروع کی اور سرسجدہ میں اور دل رازونیاز الہی میں مصروف تھا کہ اسی حالت میں شقی ابن ملجم نے تلوار کا نہایت کاری وارکیا، سرپر زخم آیا اور ابن ملجم کو لوگوں نے گرفتار کر لیا، [285] حضرت علی ؓ اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی کوئی امید نہ تھی اس لیے حضرت امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ کو بلاکر نہایت مفید نصائح کیے اور محمد بن حنفیہ کے ساتھ لطف و مدارت کی تائید کی، جندب بن عبد اللہ نے عرض کیا امیر المومنین!آپ کے بعد ہم لوگ امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کریں، فرمایا اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تم لوگ خود اس کو طئے کرو، اس کے بعد مختلف وصیتیں کیں، قاتل کے متعلق فرمایا کہ معمولی طور پر قصاص لینا، [286] تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی اس لیے نہایت تیزی کے ساتھ اس کا اثر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور اسی روز یعنی 20/رمضان 40ھ جمعہ کی رات کو یہ فضل وکمال اور رشدو ہدایت کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا، حضرت امام حسن ؓ نے خود اپنے ہاتھ سے تجہیز و تکفین کی، نماز جنازہ میں چار تکبیروں کی بجائے پانچ تکبیریں کیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تجہیز و تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سر زمین میں دفن کیے گئے۔[287][288]
خلافت مرتضوی پر ایک نظر
حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا پورا زمانہ خانہ جنگی اور شورش کی نذر ہوا اور اس پنج سالہ مدت میں آپ کو ایک لمحہ بھی سکون واطمینان کا نصیب نہ ہوا، اس لیے آپ کے زمانہ میں فتوحات کا دروازہ تقریباً بند ہو گیا ، ملکی انتظام کی طرف بھی توجہ کرنے کی فرصت ان کو نہ مل سکی؛ لیکن ان گوناں گوں مشکلات کے باوجود جناب مرتضیٰ ؓ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے مملوہے ؛ لیکن ان کارماموں پر نظر پڑنے سے پہلے یہ امر قابل غور ہے کہ خلافت مرتضوی میں اس قدر افتراق اختلاف اور شرو فساد کے اسباب کیا تھے؟ حضرت علی ؓ نے کس تحمل، استقلال اور سلامت روی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جناب مرتضیٰ نے جس وقت مسند خلافت پر قدم رکھا ہے اس وقت نہ صرف دار الخلافہ ؛بلکہ تمام دنیائے اسلام پر آشوب تھی، حضرت عثمان ؓ کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، اس نے مسلمانوں کے جذبہ غیظ و غضب کو مشتعل کر دیا، یہاں تک کہ جو لوگ آپ کے طرز حکومت کو ناپسند کرتے تھے انھوں نے بھی مفسدین کی اس جسارت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا؛ چنانچہ حضرت زبیر ؓ، طلحہ ؓ اورخود ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کی حکومت سے شاکی ہونے کے باوجود قصاص کا علم بلند کیا۔ دوسری طرف شام میں بنو امیہ امیر معاویہ ؓ کے زیر سیادت خلافت راشدہ کو اپنی سلطنت میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے لیے اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا تھا؛چنانچہ امیر معاویہ ؓ نے بغیر کسی تامل کے ہر ممکن ذریعہ سے تمام شام میں خلیفہ ثالث کے انتقام کا جوش پیدا کرکے حضرت علی ؓ کے خلاف ایک عظیم الشان قوت پیدا کرلی اور حسب ذیل وجہ کو آڑ بنا کر میدان میں اتر ے۔ 1۔حضرت علی ؓ نے مفسدین کے مقابلہ میں حضرت عثمان ؓ کو مدد نہیں دی۔ 2۔اپنی خلافت میں قاتلین عثمان ؓ سے قصاص نہیں لیا۔ 3۔محاصرہ کرنے والوں کو قوتِ بازو بنایا اوران کو بڑے بڑے عہدے دیے۔ یہ وجوہ تمام جنگوں کی بنا قرار پائے، اس لیے غور کرنا چاہیے کہ اس میں کہا ں تک صداقت ہے اور جناب مرتضیٰ ؓ کس حد تک اس میں معذور تھے، پہلا سبب یعنی مفسدین کے مقابلہ میں مدد نہ دینے کا الزام صرف حضرت علی ؓ ہی پر نہیں ؛بلکہ حضرت طلحہ ؓ، زبیر ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ اور تمام اہل مدینہ پر عائد ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ ان کے عہد میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی چنانچہ انصار کرام بنو امیہ اوردوسرے وابستگان خلافت نے جب اپنے کو جاں نثاری کے لیے پیش کیا تو حضرت عثمان ؓ نے نہایت سختی کے ساتھ کشت وخون سے منع کر دیا۔ جناب مرتضی ؓ نے اس باب میں جو کچھ کیا، ان کے لیے اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؛چنانچہ پہلی مرتبہ آپ ہی نے مفسدین کو راضی کرکے واپس کیا تھا ؛لیکن جب دوسری مرتبہ وہ پھر لوٹے تو مروان کی غداری نے ان کی آتش غیظ و غضب کو اس قدر بھڑکا دیا تھا کہ کسی قسم کی سفارش کار گر نہیں ہو سکتی تھی، ام المومنین ام حبیبہ ؓ نے محاصرہ کی حالت میں عثمان ؓ کے پاس کھانے پینے کا کچھ سامان پہنچانا چاہا، تو مفسدین نے ان کا بھی پاس و لحاظ نہ کیا اور گستاخانہ مزاحمت کی اسی طرح حضرت علی ؓ نے سفارش کی کہ آب و دانہ کی بندش نہ کی جائے تو ان شوریدہ سروں نے نہایت سختی سے انکار کیا، حضرت علی ؓ کو اس کا اس قدر صدمہ ہوا کہ عمامہ پھینک کر اسی وقت واپس چلے آئے، [289] اورتمام معاملات سے قطع تعلق کرکے عزلت نشین ہو گئے، پھر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اگر حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو دوسرے بڑے بڑے صحابہ ؓ بھی آزاد نہ تھے اور مفسدین نے ان لوگوں کی نقل وحرکت پر نہایت سخت نگرانی قائم کردی تھی؛چنانچہ ایک دفعہ حضرت امام حسن نے اپنے پدر گرامی سے عرض کیا کہ اگر آپ میری گزارش پر عمل کرکے محاصرہ کے وقت مدینہ منورہ چھوڑ دیتے تو مطالبہ قصاص کا جھگڑا آپ کے سر نہ پڑتا، اس وقت جناب امیر نے یہی جواب دیاتھا کہ تمھیں کیا معلوم کہ میں اس وقت آزاد تھا یا مقید۔ البتہ قاتلوں کو سزا دینے کا الزام ایک حد تک لائق بحث ہے، اصل یہ ہے کہ اگر قاتل سے مراد وہ اشخاص ہیں جنھوں نے براہ راست قتل میں حصہ لیا تو بے شک انھیں کیفر کردار تک پہنچانا حضرت علی ؓ کا فرض تھا ؛لیکن جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے، پوری تفتیش و تحقیقات کے باوجود ان کا سراغ نہ ملا، اگر قاتل کا لفظ تمام محاصرہ کرنے والوں پر مشتمل ہے جیسا کہ حضرتامیر معاویہ ؓ وغیرہ کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کے قصاص میں ہزاروں آدمیوں کا خون نہیں بہایا جا سکتا تھا اور نہ شریعت اس کی اجازت دیتی تھی، اس بڑی جماعت میں بعض صحابہ کرام اور بہت سے صلحائے روز گار بھی شامل تھے جن کا مطمح نظر صرف طلب اصلاح تھا، ان لوگوں کو قتل کر دینا یا امیر معاویہ ؓ کے خنجر انتقام کے نیچے دے دینا صریحاً ظلم تھا۔ امر سوم یعنی محاصرہ کرنے والوں کو قوت بازو بنانے اوران کو بڑے بڑے عہدے دینے کا الزام ایک حد تک صحیح ہے ؛لیکن حضرت علی بن ابی طالب ؓ اس میں مجبور تھے، اس وقت دنیائے اسلام مین تین فرقے پیدا ہو گئے تھے، شیعۂ عثمان ؓ، یعنی عثمانی فرقہ جو علانیہ جناب امیر ؓ کا مخالف اور اپنی ایک مستقل سلطنت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا، دوسرا گروہ اکابر صحابہ ؓ کا تھا جو اگرچہ حضرت علی ؓ کو برحق سمجھتا تھا؛لیکن اپنے ورع وتقویٰ کے باعث خانہ جنگی میں حصہ لینا پسند نہیں کرتا تھا؛چنانچہ جب حضرت علی ؓ نے مدینہ منورہ سے کوفہ کا قصد کیا اور صحابہ کرام سے چلنے کے لیے کہا تو بہت سے محتاط صحابہ نے معذرت کی، حضرت سعد وقاص ؓ نے کہا‘‘مجھے ایسی تلوار دیجئے جو مسلم و کافر میں امتیاز رکھے، میں صرف اسی صورت میں جانبازی کے لیے حاضر ہوں’’ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہا، خدا کے لیے مجھے ایک ناپسندیدہ فعل کے لیے مجبور نہ کیجئے، حضرت محمدبن مسلمہ ؓ نے کہا کہ قبل اس کے کہ میری تلوار کسی مسلم کا خون گرائے اس زور سے اسے جبل احد پر پٹک ماروں گا وہ ٹکڑ ٹکڑے ہو جائے گی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا امیر المومنین !مجھے معاف کیجئے میں نے عہد کیا کہ کسی کلمہ گوکے خون سے اپنی تلوار رنگین نہ کروں گا، غرض یہ گروہ عملی اعانت سے قطعی کنارہ کش تھا، تیسرا گروہ شیعان علی ؓ کا تھا جس میں ایک بڑی جماعت ان لوگوں کی تھی جو یا تو خود محاصرہ میں شریک تھے یا وہ ان کے زیر اثر تھے، اس لیے جناب امیر خواہ مخواہ بے رخی کرکے اس بڑی جماعت کو قصداً اپنا دشمن نہیں بنا سکتے تھے، تاہم آپ نے ان لوگوں کو مقرب خاص بنایا جو درحقیقت اس کے اہل تھے، حضرت عمار بن یاسر ؓ ایک بلند پایہ صحابی اور مقبول بارگاہ نبوت تھے، محمد بن ابی بکر ؓ خلیفہ اول کے بیٹے اور آغوش حیدر ؓ کے تربیت یافتہ تھے، اسی طرح اشترنخعی ایک صالح نیک سیرت اور جان نثار تابعی تھے۔ غرض اسباب و علل جو بھی رہے ہوں اور ان کی حقیقت کچھ بھی ہو ؛لیکن یہ واقعہ کہ جناب مرتضیٰ کی مسند نشینی کے ساتھ ہی یکایک دنیائے اسلام میں افتراق واختلاف کی آگ بھڑک اُٹھی اور شیرازہ ملی اس طرح بکھر گیا کہ جناب مرتضی ؓ کی سعی اور جدوجہد کے باوجود پھر اوراق پریشاں کی شیرازہ بندی نہ ہو سکی اور روز بروز مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور اسلام کے سررشتہ نظام میں فرقہ آرائی اور جماعت بندی کی ایسی گرہ پڑ گئی جو قیامت تک کسی کے ناخن تدبیر سے حل نہیں ہو سکتی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب عنان خلافت ہاتھ میں لی تھی تو اس وقت دنیائے اسلام نہایت پر آشوب تھی ؛لیکن دونوں حالتوں میں بین فرق ہے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سامنے گو مصائب کا طوفان امنڈ رہا تھا؛لیکن یہ کفر وارتدا اور اسلام کا مقابلہ تھا، اس لیے سارے مسلمان اس کے مقابلہ میں متحد تھے،کل صحابہ ان کے معین ومددگار تھے، پھر خود حریف طاقتوں میں ہوا وہوس اورباطل پرستی کی وجہ سے کوئی استقلال نہ تھا اس لیے ان کو زیر کر لینا نسبتاً آسان تھا، اس کے بر خلاف جناب امیر کے مقابلہ میں جو لوگ تھے وہ نہ صرف مسلمان تھے ؛بلکہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب حرم حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، آپ کے پھوبھی زاد اور ہم زلف وحواری رسول حضرت زبیر بن العوام ؓ مبشر بالجنۃ صحابی اور غزوہِ احد کے سپاہی جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں سارا بدن چھلنی ہو گیا تھا اور اس صلہ میں انھیں بارگاہ نبوت سے خیر کا لقب ملا تھا، جیسے اکابر امت تھے ان کے علاوہ امیر معاویہ والی ٔشام جیسے مدبر تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کا بھی شرف حاصل تھا اور عمرو بن العاص فاتح مصر جیسے سیاست دان تھے جن کی اسلام میں بڑی خدمات تھیں اوران میں سے ہر ایک اپنے کو برسرحق سمجھتا تھا، ساتھ ہی ان کو ایسے جاں نثار و وفاشعار ملے تھے جن کی مثالیں شیعان علی ؓ میں کم تھیں اس لیے ان کے مقابلہ میں حضرت علی ؓ کا عہد برآہونا بہت دشوار تھا۔ حضرت علی ؓ کی سیاسی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھاکہ وہ جس زہد واتقاء دینداری امانت، عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو جس راستہ پر لے جانا چاہتے تھے زمانہ کے تغیر اور حالات کے انقلاب سے لوگوں کے قلوب میں اس کی صلاحیت باقی نہیں رہ گئی تھی، ایک طرف امیر معاویہ ؓ اپنے طرفداروں کے لیے بیت المال کا خزانہ لٹا رہے تھے، دوسری طرف حضرت علی ؓ ایک ایک خر مہرہ کا حساب لیتے تھے، یہی سبب تھا کہ حضرت علی ؓ کے طرفدار اوران کے بعض اعزہ تک دل برداشتہ ہو کر ان سے جدا ہو گئے تھے؛ لیکن بہر حال حق حق ہے اور باطل باطل، باطل کے مقابلہ میں حق کی شکست سے اس کی عظمت میں فرق نہیں آتا، اگر حضرت علی ؓ ایسا نہ کرتے اور سیاسی حیثیت سے وہ کامیاب بھی ہوجاتے تو زہد تقویٰ اور دیانت وامانت کی حیثیت میں وہ ناکام ہی ٹھہرتے، ان کی سیاسی ناکامی کا دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ ان کے طرفداروں اور حامیوں میں پورا اتحاد خیال اور کامل خلوص نہ تھا، اس جماعت میں ایک بڑا طبقہ عبد اللہ بن سبا کے پیروؤں کا تھا جس کا عقیدہ تھا کہ جناب مرتضٰی ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں پھر اس خیال نے یہاں تک ترقی کی کہ سبائی فرقہ کے لوگ حضرت علی ؓ کو انسان سے بالاترہستی ؛بلکہ بعض خدا تک کہنے لگے، حضرت علی ؓ نے ان لوگوں کو عبرت انگیز سزائیں دیں ؛لیکن جو وباء پھیل چکی تھی اس کا دورکرنا آسان نہ تھا، اس فرقہ نے مذہب کے علاوہ سیاسی حیثیت سے بھی مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا، واقعہ جمل میں ممکن تھا کہ صلح ہوجاتی ؛لیکن اسی جماعت نے پیش دستی کرکے جنگ شروع کردی۔ دوسری جماعت قراء اور حفاظ قرآن کی تھی جو ہر معاملہ میں قرآن پاک کی لفظی پابندی چاہتی تھی، معنی اور مفہوم سے اس کو چنداں سروکار نہ تھا؛چنانچہ واقعہ تحکیم کے بعد یہی جماعت خارجی فرقہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ حضرت علی ؓ کے حاشیہ نشینوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو درحقیقت جاں نثارووفا شعار تھے ؛لیکن معرکہ صفین میں کامل جدوجہد کے بعد درمقصود تک پہنچ کر غنیم کی چال سے محروم واپس آنا نہایت ہمت شکن واقعہ تھا، اس نے تمام جاں نثاروں کے حوصلے اورارادے پست کردئے تھے، غرض ان تمام مشکلات اورمجبوریوں کے باوجود جناب مرتضیٰ ؓ نے غیر معمولی ہمت واستقلال اورعدیم النظیر عزم وثبات کے ساتھ آخری لمحہ حیات تک ان مشکلات ومصائب کا مقابلہ کرکے دنیا کے سامنے بے نظیر تحمل وسلامت روی کا نمونہ پیش کیا اوراپنی ناکامی کے اسباب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود دیانت داری اورشریعت سے سرموتجاوز کرنا پسند نہ فرمایا، اگر آپ تھوڑی سی دنیا داری سے کام لیتے تو کامیاب ہوجاتے ؛لیکن دین ضائع ہوجاتا جس کا بچانا ایک خلیفہ راشد اورجانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا معرکہ اصلی فرض تھا۔
ملکی نظم و نسق
حضرت علی رضی کرم اللہ وجہہ انتظام مملکت میں حضرت عمر ؓ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے اور اس زمانہ کے انتظامات میں کسی قسم کا تغیر کرنا پسند نہیں فرماتے تھے، ایک دفعہ نجران کے یہودیوں نے(جن کو فاروق اعظم ؓ نے حجاز سے جلاوطن کرکے نجران میں آباد کرایا تھا) نہایت لجاجت کے ساتھ درخواست کی کہ ان کو پھر اپنے قدیم وطن میں واپس آنے کی اجازت دی جائے، حضرت علی ؓ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ عمر بن خطاب ؓ سے زیادہ کون صحیح الرائے ہو سکتا ہے۔ [290]
عمال کی نگرانی
ملکی نظم ونسق کے سلسلہ میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی ہے، حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اس کاخاص اہتمام مدنظر رکھا، وہ جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت مفید اور گراں بہانصائح کرتے تھے، [291] وقتا فوقتا عمال وحکام کے طرز عمل کی تحقیقات کرتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ جب کعب بن مالک ؓ کو اس خدمت پر مامور کیا تو یہ ہدایت فرمائی: اخرت فی طائفۃ من اصحابک حتی تمر بارض السواد کورۃ فتسالہم عن عمالہم وتنظر فی سیر تہم تم اپنے ساتھیوں کا ایک گروہ لے کر روانہ ہوجاؤ اور عراق کے ہر ضلع میں پھر و، عمال کی تحقیقات کرو اور ان کی روش پر غائر نظر ڈالو۔’’ عمال کے اسراف اور مالیات میں ان کی بد عنوانیوں کی سختی سے باز پرس فرماتے تھے، ایک دفعہ اردشیر کے عامل مصقلہ نے بیت المال سے قرض لے کر پانچسو لونڈی اور غلام خرید کر آزاد کیے، کچھ دنوں کے بعد حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس رقم کا مطالبہ کیا، مصقلہ نے کہا خدا کی قسم عثمان ؓ کے نزدیک اتنی رقم کا چھوڑ دینا کوئی بات نہ تھی؛ لیکن یہ تو ایک ایک حبہ کا تقاضا کرتے ہیں اورناداری کے باعث مجبور ہوکر امیر معاویہ ؓ کی پناہ میں چلے گئے، جناب امیر کو معلوم ہوا تو فرمایا: برحہ اللہ فعل فعل السید وفرفرار العبد وخان خیانۃ الفاجرا ماواللہ لوانہ اقام فعجز ماز دنا علی حبس فان وجدنا لہ شیئا اخذناہ وات لم نقتہ علی مال ترکناہ خدا اس کا برا کرے اس نے کام تو سید کا کیا ؛لیکن غلام کی طرح بھاگا اور فاجر کی طرح خیانت کی خدا کی قسم اگر وہ مقیم ہوتا تو قید سے زیادہ اس کو سزا دیتا اور اگر اس کے پاس کچھ ہوتا تو لیتا ورنہ معاف کر دیتا۔’’ اس باز پرس سے آپ کے مخصوص اعزہ واقارب بھی مستثنیٰ نہ تھے، ایک مرتبہ آپ کے چچیرے بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ عامل بصرہ نے بیت المال سے ایک بیش قرار رقم لی، حضرت علی ؓ نے چشم نمائی فرمائی تو جواب دیا کہ میں نے ابھی اپنا پورا حق نہیں لیا ہے؛ لیکن اس عذر کے باوجود وہ خائف ہوکر بصرہ سے مکہ چلے گئے۔ [292]
صیغۂ محاصل
حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے محاصل کے صیغہ میں خاص اصلاحات جاری کیں، آپ سے پہلے جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں لیا جاتا تھا، آپ کے عہد میں جنگلات کو بھی محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا؛چنانچہ برص کے جنگل پر چار ہزار درہم مالگذاری تشخیص کی گئی۔[293] عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گھوڑے زکوٰۃ سے مستثنیٰ تھے؛لیکن عہد فاروقی میں جب عام طور سے اس کی تجارت ہونے لگی تو اس پر بھی زکوٰۃ مقرر کردی، حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے نزدیک تمدنی اور جنگی فوائد کے لحاظ سے گھوڑوں کی افزائش نسل میں سہولت بہم پہنچانا ضروری تھا اس لیے آپ نے اپنے زمانہ میں زکوٰۃ موقوف کردی، [294] گو آپ محاصل ملکی وصول کرنے میں نہایت سخت تھے ؛لیکن اسی کے ساتھ رعایا کی فلاح وبہبود کا بھی خاص خیال رکھا تھا؛چنانچہ معذور اور نادار آدمیوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی تھی۔ [295]
رعایا کی ساتھ شفقت
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود رعایا کے لیے سایۂ رحمت تھا، بیت المال کے دروازے غرباء اور مساکین کے لیے کھلے ہوئے تھے اور اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کردی جاتی تھی، ذمیوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت آمیز برتاؤ تھا، ایران میں مخفی سازشوں کے باعث بارہا بغاوتیں ہوئیں؛ لیکن حضرت علی ؓ نے ہمیشہ نہایت ترحم سے کام لیا، یہاں تک کہ ایرانی اس لطف وشفقت سے متاثر ہوکر کہتے تھے، خدا کی قسم! اس عربی نے نوشیرواں کی یاد تازہ کردی۔[296]
فوجی انتظامات
حضرت علی ؓ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اورجنگی امور میں آپ کو پوری بصیرت حاصل تھی، اس لیے اس سلسلہ میں آپ نے بہت سے انتظامات کیے؛چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں، 40ھ میں جب امیر معاویہ ؓ نے عراق پر عام یورش کی تو پہلے انہی سرحدی فوجوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا، اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اور بغاوت کے باعث بیت المال، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے نہایت مستحکم قلعے بنوائے، اصطخر کا قلعہ حصن زیاد اسی سلسلہ میں بنا تھا، [297] جنگی تعمیر کے سلسلہ میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا تھا لائق ذکر ہے۔
مذہبی خدمات
امام وقت کا سب سے اہم فرض مذہب کی اشاعت، تبلیغ اورخود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین ہے، حضرت علی ؓ عہد نبوت ہی سے ان خدمات میں ممتاز تھے؛چنانچہ یمن میں اسلام کی روشنی انھی کی کوشش سے پھیلی تھی، سورہ ٔبرأۃ نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ واشاعت کی خدمت بھی انھی کے سپرد ہوئی۔ مسند خلافت پر قدم رکھنے کے بعد سے آخروقت تک گوخانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی تاہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے، ایران اور آرمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد ہو گئے تھے حضرت علی ؓ نے نہایت سختی کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ خارجیوں کی سرکوبی اوران سبائیوں کو جو شدت غلو میں جناب علی مرتضیٰ ؓ کو خدا کہنے لگے تھے، سزا دینے میں بھی دراصل مذہب کی ایک بڑی خدمت تھی۔ حضرت علی ؓ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا، مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے نئی سزائیں تجویز کیں جو ان سے پہلے اسلام میں رائج نہ تھیں، مثلاً زندہ جلانا، مکان مسمار کرا دینا، چوری کے علاوہ دوسرے جرم میں بھی ہاتھ کاٹنا وغیرہ؛لیکن اس سے قیاس نہیں کرنا چا ہئے کہ حضر ت علی ؓ حدود کے اجر اء میں کسی اصول کے پابند نہ تھے، زندہ جلادینے کی سزا صرف چند زندیقوں کو دی تھی؛ مگر جب حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کی ممانعت فرمائی ہے تو آپ نے اس فعل پر ندامت ظاہر کی، (سنن ترمذی حدود مرتد) شراب نوشی کی سزا میں کوڑوں کی تعداد متعین نہ تھی، حضرت علی ؓ نے اس کے لیے اسی کوڑے تجویز کیے۔ [298] درے مارنے والوں کو ہدایت تھی کہ چہرہ اور شرمگاہ کے علاوہ تمام جسم پر کوڑا مار سکتے ہیں، عورتوں کے لیے حکم تھا کہ ان کو بٹھا کر سزادیں اورکپڑے سے تمام جسم کو اس طرح چھپادیں کہ کوئی عضو بے ستر نہ ہونے پائے، اسی طرح رجم کی صورت میں ناف تک زمین میں گاڑ دینا چاہیے۔ [299] اقرار جرم کی حالت میں صرف ایک دفعہ کا اقرار کافی نہ سمجھتے تھے؛چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا امیر المومنین! میں نے چوری کی ہے، حضرت علی ؓ نے غضب آلود نگاہ ڈال کراس کو واپس کر دیا؛لیکن جب اس نے پھر مکرر حاضر ہوکر اقرار جرم کیا تو فرمایا اب تم نے اپنا جرم آپ ثابت کر دیا اور اس وقت اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ [300] تنہا جرم کا ارادہ اور اس کے لیے اقدام بغیر جرم کیے ہوئے مجرم بنانے کے لیے کافی نہیں ہے؛چنانچہ ایک شخص نے ایک مکان میں نقب لگائی اور چوری کرنے سے قبل پکڑلیا گیا، حضرت علی ؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس پر کسی قسم کی حدجاری نہیں کی، [301] جو عورتیں ناجائز حمل سے حاملہ ہوتی تھیں، ان پر حد جاری کرنے کے لیے وضع حمل کا انتظار کیا جاتا تھا تاکہ بچہ کی جان کو نقصان نہ پہنچے، جس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ عام قیدیوں کو بیت المال سے کھانا دیا جاتا تھا ؛لیکن جو لوگ محض اپنے فسق و فجور کے باعث نظر بند کیے جاتے تھے، وہ اگر مالدار ہوتے تھے تو خود ان کے مال سے ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا، ورنہ بیت المال سے مقرر کر دیا جاتا تھا۔ [302][303][304] .[305][306] ،[307][308]
تعزیزی سزا
حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے جو بعض غیر معمولی سزائیں تجویز کیں وہ دراصل تعزیزی سزائیں تھیں، حضرت عمرؓ بن خطاب نے بھی اس قسم کی سزائیں جاری کی تھیں؛چنانچہ ان کے عہد میں ایک شخص نے رمضان میں شراب پی تو اسی کوڑوں کی بجائے سو کوڑے لگوائے، کیونکہ اس نے بادہ نوشی کے ساتھ رمضان کی بھی بے حرمتی کی تھی۔
فضل و کمال
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بچپن ہی سے درسگاہ نبوت میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا، مسند میں خود ان سے روایت ہے کہ میں روزانہ صبح کو معمولاً آپ کی خدمت میں حاضر ہواکرتا تھا، [309] اورتقرب کا درجہ میرے سوا کسی اور کو خاص نہ تھا، [310]ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رات دن میں دوبار اس قسم کا موقع ملتا تھا، [311]اکثر سفر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہوتا تھا اوراس سلسلہ میں سفر سے متعلق شرعی احکام سے واقف ہونے کا موقع ملتا تھا، ایک مرتبہ شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے "مسح علی الخفین”کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے اس کے لیے حضرت علی ؓ کا نام بتایا اوراس کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے، [312] شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخلفاء میں بارگاہ رسالت میں جناب امیر کے اس تقرب و تربیت کو ان کے فضائل کی اصلی بنیاد قراردیا ہے؛چنانچہ امام احمد بن حنبل ؒ کی ایک روایت نقل کرکے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی ؓ کے جس قدر فضائل مذکور ہیں، کسی صحابی کے نہیں ہیں، اس کی تشریح یہ کی ہے: "عبد ضعیف گوید سبب ایں معنی اجتماع دو جہت است، در مرتضی ؓ یکے رسوخ اودرسوابق اسلامیہ، دوم قرب قرابت اوبآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وآں جناب علیہ الصلوٰۃ والسلام اوصل ناس بارحام واعرف ناس بحقوق قرابت بودندباز چوں عنایت الہی مساعدت نمود، حضرت مرتضیٰ رادرکنارِ تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انداخت مرتبہ قرابت دربالاشدوکرامت دیگر درکار اوکردند ؓ بازچوں حضرت فاطمہ زہرا ؓ عقدااودادند مزید فضیلت بادیارشد"۔ [313] آپ کے تقرب واختصاص کی بنا پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے، [314] بعض موقعوں پر قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر بھی فرماتے تھے، [315] چند مخصوص حدیثیں بھی قلمبند کرلی تھیں، [316] غرض حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ابتداہی سے علم و فضل کے گہوارہ میں تربیت پائی تھی اس لیے صحابہ کرام میں آپ غیر معمولی تجربہ اورفضل وکمال کے مالک اور”انامدینۃ العلم وعلی بابھا"( میں علم کا گھر اور علی اس کا دروازہ ہیں) کے طغرائے خاص سے ممتاز ہوئے۔ ( جامع ترمذی مناقب علی مرتضی ؓ میں ہے”انا دارالحکمۃ وعلی بابھا”لیکن امام ترمذی نے اس کو منکر کہا ہے، حاکم نے [317] اس روایت کے متعلق متعدد راویوں کو جمع کیا ہے اور اس کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ؛لیکن امام ذہبی نے ان کے صحیح کہنے کو تسلیم نہیں کیا ہے) نوشت وخواند کی تعلیم آپ نے بچپن ہی میں حاصل کی تھی؛چنانچہ ظہور اسلام کے وقت جبکہ آپ کی عمر بہت کم تھی آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، [318] اسی لیے ابتدا ہی سے بعض دوسرے صحابہ کی طرح آپ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحریری کام انجام دیتے تھے؛چنانچہ کاتبان وحی میں آپ کا بھی نام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو مکاتیب و فرامین لکھے جاتے تھے ان میں بعض آپ کے دست مبارک کے لکھے ہوئے تھے؛چنانچہ حدیبیہ کا صلح نامہ آپ ہی نے لکھا تھا۔[319] ،[320] .[321] ،[322] ،[323]
تفسیر اور علوم القرآن
اسلام کے علوم ومعارف کا اصل سرچشمہ قرآن پاک ہے، حضرت علی مرتضیٰ ؓ اس سرچشمہ سے پوری طرح سیراب اور ان صحابہ میں تھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں نہ صرف پورا قرآن زبانی یاد کر لیا تھا ؛بلکہ اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شان نزول سے واقف تھے، ابن سعد میں ہے کہ ایک موقع پر خود آپ نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں ہر آیت کے متعلق بتاسکتا ہوں کہ یہ کہاں اور کیوں اور کس کے حق میں نازل ہوئی، [324]چنانچہ حضرت علی ؓ کا شمار مفسرین کے اعلیٰ طبقہ میں ہے اور صحابہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے سوا اس کمال میں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے؛چنانچہ ان تمام تفسیروں میں فن کا مدار روایتوں پر ہے، مثلاً ابن جریر طبری، ابن ابی حاتم، ابن کثیر وغیرہ میں بکثرت آپ کی روایت سے آیات کی تفسریں منقول ہیں، ابن سعد میں ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ مہینے تک جو گوشہ نشینی اختیار کی اس میں آپ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کو نزول کی ترتیب سے مرتب کیا تھا، ابن ندیم نے کتاب الفہر ست میں سورتوں کی اس ترتیب کو نقل کیا ہے۔ قرآن پاک سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا چنانچہ تحکیم کے مسئلہ میں خوارج نے اعتراض کیا کہ فیصلہ کا حق خدا کے سوا اورکسی کو حاصل نہیں ان الحکم الا للہ، تو آپ نے قرآن کے تمام حفاظ اور اس کے عالموں کو جمع کرکے فرمایا کہ میاں بیوی میں جب اختلاف رائے ہو تو اللہ تعالی حکم بنانے کی اجازت دے وان خفتم شقاق بینھما فابعثواحکما من اھلہ وحکما من اھلھا[325]، اورامت محمدیہ میں جب اختلاف رائے ہوجائے تو حکم بنانا ناجائز ہو؟ کیا تمام امت محمدیہ کی حیثیت ایک مرد اور ایک عورت سے بھی خدا کی نگاہ میں کم ہے۔ [326] علم ناسخ اورمنسوخ میں آپ کو کمال حاصل تھا اوراس کو آپ بڑی اہمیت دیتے تھے اورجن لوگوں کو اس میں درک نہ ہوتا، ان کو درس وعظ سے روک دیتے تھے؛چنانچہ کوفہ میں جامع مسجد میں جو شخص وعظ و تذکیر کرنا چاہتا تھا، اس سے پہلے آپ دریافت فرماتے تھے کہ تم کو ناسخ و منسوخ کا بھی علم ہے، اگر وہ نفی میں جواب دیتا تو اس کو زجر و توبیخ فرماتے تھے اور درس ووعظ کی اجازت نہ دیتے۔ آیات کی تفسیر و تاویل کے متعلق آپ سے اس کثرت سے روایتیں ہیں کہ اگر ان کا استقصا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے اسی لیے یہاں ان کو نقل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو ان ظاہری علوم کے علاوہ کچھ خاص باتیں اور بھی بتائی ہیں، ان کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ کیا قرآن کے سوا کچھ اور بھی آپ کے پاس ہے؟فرمایا قسم ہے اس کی جو دانہ کو پھاڑ کر درخت اُگاتا ہے اور جو جان کو (جسم کے اندر)پیداکرتا ہے، قرآن کے سوا میرے پاس کچھ اورنہیں ؛لیکن قرآن کے سمجھنے کی قوت(فہم) یہ دولت خدا جس کو چاہے دے، [327]ان کے علاوہ چند حدیثیں میرے پاس ہیں، اس موقع میں حضرت علی ؓ نے جو قسم کھائی ہے اس میں بھی ایک خاص نکتہ ہے یعنی قرآن کی آیتوں کی مثال تخم اورجسم کی ہے اور اس کے معنی ومقصود کی مثال درخت کی ہے جو اس تخم سے پیدا ہوتا ہے اورجان کی ہے جو جسم میں پوشیدہ رہتی ہے، یعنی جس طرح ایک چھوٹے سے تخم نے اتنا بڑا عظیم الشان درخت پیدا ہوجاتا ہے جو درحقیقت اس کے اندر مخفی تھا اور روح سے جو جسم میں چھپی رہتی ہے، تمام اعمال انسانی کا ظہور ہوتا ہے، اسی طرح قرآن پاک کے الفاظ سے جو بمنزلہ جسم کے ہیں، معنی ومطالب نکلتے ہیں۔[92][93]
علم حدیث
جناب مرتضیٰ ؓ بچپن سے لے کر وفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تیس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و رفاقت میں بسر کیے، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ کو چھوڑ کر اسلام کے احکام وفرائض اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عالم آپ ہی تھے،پھر تمام اکابر صحابہ ؓ میں وفاتِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ آپ نے عمر پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً تیس برس تک ارشادات و افادات کی مسند پر جلوہ گر رہے، خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عہد میں بھی یہ خدمت آپ ہی کے سپرد رہی، ان کے بعد خود آپ کے زمانہ خلافت میں بھی یہ فیض بدستور جاری رہا اس لیے تمام خلفاء میں احادیث کی روایت کا زمانہ آپ کو سب سے زیادہ ملا، اسی لیے خلفائے سابقین کے مقابلہ میں آپ کی روایتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے؛لیکن احادیث کی روایت میں آپ بھی اپنے پیشتر خلفاء اور اکابر صحابہ کی طرح محتاط اور متشدد تھے، اس لیے دوسرے کثیر الروایۃ صحابہ کے مقابلہ میں آپ کی روایتیں بہت کم ہیں؛چنانچہ آپ سے کل 586 حدیثیں مروی ہیں جن میں سے بیس حدیثوں پر بخاری ومسلم دونوں کا اتفاق ہے اور 9 حدیثیں صرف بخاری میں ہیں مسلم میں نہیں ہیں اور دس حدیثیں مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں، غرض صحیحین میں آپ کی کل 39 حدیثیں ہیں۔ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اپنے رفقا اور ہمعصروں میں حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت مقداد بن الاسود ؓ اپنی حرم محترم حضرت فاطمہ زہرا ؓ سے روایتیں کی ہیں، آپ کی عترت مطہرہ اور اولاد امجاد میں حضرت حسن ؓ، حضرت حسین ؓ، محمد بن حنفیہ، عمر، فاطمہ (بیٹے اور صاحبزادیاں) محمد بن عمر بن علی، علی بن حسین بن علی ؓ(پوتے) عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب(بھتیجے) جعدہ بن ہبیرہ مخزوی (بھانجے) عام اصحاب میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ، براء بن عازب ؓ، ابوہریرہ ؓ، ابو سعید خدری ؓ، بشیر بن شحیم غفاری ؓ، زید بن ارقم ؓ، سفینہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صہیب رومی ؓ، ابن عباس ؓ، ابن عمر ؓ، ابن زبیر ؓ، عمرو بن حریث ؓ، نزال بن سبرہ ؓ، ہلال ؓ، جابر بن سمرہ ؓ، جابر بن عبد اللہ ؓ، ابو حجیفہ ؓ، ابوامامہ ؓ، ابولیلیٰ انصاری ؓ، ابو موسیٰ اشعری ؓ، مسعود بن حکم زرقی ؓ، ابو الطفیل ؓ، عامرین واثلہ، عبید اللہ بن ابی رافع (کاتب) اورام موسیٰ ؓ(جاریہ)۔ تابعین میں زربن جیش، زید بن وہب، ابوالاسود وئلی، حارث بن سوید التمیمی، حارث بن عبد اللہ الاعور، حرملہ مولیٰ بن زید ؓ، ابوساسان حفین بن منذرالرقاشی، جحیہ بن عبد اللہ الکندی، ربعی بن حرابش، شریح بن ہانی، شریح بن النعمان صائدی، ابو وائل شقیق بن سلمہ، شیث بن ربیعی، سوید بن غفلہ،عاصم بن ضمرہ،عامر بن شراحیل شعبی، عبد اللہ بن سلمہ مرادی، عبد اللہ بن شداد بن ہاد، عبد اللہ بن شقیق، عبد اللہ بن معقل بن مقرن، عبد خیر بن یزید المرانی، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، عبیدہ سلیمانی، علقمہ بن قیس النخعی، عمیر بن سعید النخعی، قیس بن عباد البصری، مالک بن اوس بن حدثان، مروان بن حکم اموی، مطرف بن عبد اللہ ابن شخیر، نافع بن جبیر بن مطعم، ہانی بن ہانی، یزید بن شریک التمیمی، ابوبردہ بن ابی الموسیٰ الاشعری، ابوحیہ وادعی، ابوالخلیل الحضرمی، ابو صالح الحضرمی، ابو الصالح الحنفی، ابو عبد الرحمن السلمی، ابو عبیدہ مولی ابن ازہرا، ابوالہیاج الاسدی وغیرہ(یہ فہرست تہذیب التہذیب سے منقول ہے) نے آپ سے فیض پایا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی تمام حدیثوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلیہ اقدس، آپ کی نماز و مناجات و دعاو نوافل کے متعلق سب سے زیادہ روایتیں حضرت علی ؓ ہی سے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر وقت رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہتے تھے اور ان کو عبادتوں سے خاص شغف تھا۔ [328] احادیث کو قلمبند کرنے کا شرف جن چند صحابہ کو حاصل ہے ان میں حضرت علی ؓ بھی داخل ہیں، فہم قرآن کے سلسلہ میں جو روایت اوپر گذری ہے اس میں چند حدیثوں کا ذکر ہے، یہ وہی ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر آپ نے ایک لمبے کاغذ پر لکھ لیا تھا، یہ تحریر لپٹی ہوئی آپ کی تلوار کی نیام میں لٹکی رہتی تھی، اس کا نام آپ نے صحیفہ رکھا تھا، اس صحیفہ کا ذکر حدیث کی کتابوں میں آتا ہے، یہ حدیثیں چند فقہی احکام سے متعلق تھیں۔ [329][330]
فقہہ و اجتہاد
حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو فقہ واجتہاد میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی، ؛بلکہ علم و اطلاع کی وسعت سے دیکھا جائے تو آپ کی مستحضرانہ قوت سب سے اعلیٰ ماننی پڑے گی، بڑے بڑے صحابہ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ بن خطاب اور حضرت عائشہ ؓ کو بھی کبھی کبھی حضرت علی ؓ کے فضل وکمال کا ممنون ہونا پڑتا تھا۔ فقہ و اجتہاد کے لیے کتاب وسنت کے علم کے ساتھ سرعت فہم، دقیقہ سنجی، انتقال ذہنی کی بڑی ضرورت ہے اور حضرت ت علی مرتضیٰ ؓ کو یہ کمالات خداداد حاصل تھے، مشکل سے مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کی تہ تک آپ کی نکتہ رس نگاہ آسانی سے پہنچ جاتی تھی، شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں آپ کی طباعی اور انتقال ذہنی کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں ؛لیکن ہم طوالت کے خوف سے ان کو نظر انداز کرتے ہیں، مثلاً ایک واقعہ یہ ہے: ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے سامنے ایک مجنون زانیہ عورت پیش کی گئی، حضرت عمر ؓ نے اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا، حضرت علی ؓ نے فرمایا یہ ممکن نہیں کہ مجنون حدود شرعی سے مستثنیٰ ہیں، یہ سن کر حضر عمر ؓ اپنے ارادہ سے باز آگئے۔ [331] ایک دفعہ حج کے موسم میں حضرت عثمان ؓ کے سامنے کسی نے شکار کا گوشت پکا کر پیش کیا، لوگوں نے احرام کی حالت میں اس کے کھانے کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ اس کے جواز کے قائل تھے ، انھوں نے کہا حالت احرام میں خود شکار کرکے کھانا منع ہے؛لیکن جب کسی دوسرے غیر محرم نے شکار کیاہے تو اس کے کھانے میں کیا حرج ہے؟دوسروں نے اس سے اختلاف کیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے دریافت کیا کہ اس مسئلہ میں قطعی فیصلہ کس سے معلوم ہوگا؟ لوگوں نے حضرت علی ؓ کا نام لیا؛چنانچہ انھوں نے ان سے جاکر دریافت کیا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا جن لوگوں کو یہ واقعہ یاد ہو وہ شہادت دیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے، ایک گورخرشکار کرکے پیش کیا گیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم لوگ تو احرام کی حالت میں ہیں یہ ان کو کھلادو جو احرام میں نہیں ہیں، حاضرین میں سے بارہ آدمیوں نے شہادت دی، اسی طرح آپ نے ایک دوسرے واقعہ کا ذکر کیا جس میں کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حالت احرام میں شتر مرغ کے انڈے پیش کیے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کھانے سے بھی احتراز فرمایا تھا، اس کی بھی کچھ لوگوں نے گواہی دی، یہ سن کر حضرت عثمان ؓ اور ان کے رفقا نے اس کے کھانے سے پرہیز کیا۔[332] فقہا میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، بہت سے لوگ حضرت عثمان ؓ کے استدلال کو صحیح سمجھتے ہیں اوردیگراحادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، بہرحال حضرت علی ؓ کا فتویٰ زیادہ محتاطا نہ ہے اس لیے حضرت عثمان ؓ نے اس کو قبول کر لیا) ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بار پاؤں دھونے کے بعد، کتنے دن تک موزوں پر مسح کرسکتے ہیں؟ فرمایا علی ؓ سے جاکر دریافت کرو، ان کو معلوم ہوگا کیونکہ وہ سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے؛چنانچہ وہ سائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے پاس گیا، انھوں نے بتایا کہ مسافر تین دن تین رات تک اور مقیم ایک دن ایک رات تک [333] حضرت علی ؓ کے علم اوران کے اجتہادی قوت اور دقت نظر کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کے حریف بھی دقیق اور مشکل مسائل میں ان کی طرف رجوع کرنے کے لیے مجبور ہوتے تھے؛چنانچہ ایک دفعہ امیر معاویہ ؓ نے لکھ کر دریافت کیا کہ خنثی مشکل کی وراثت کی کیا صورت ہے؟ یعنی وہ مرد قرار دیا جائے یا عورت؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ ہمارے دشمن بھی علم دین میں ہمارے محتاج ہیں، پھر جواب دیا کہ پیشاب گاہ سے اندازہ کرنا چاہیے کہ وہ مرد ہے یا عورت؟ (تاریخ الخلفاء بحوالہ سنن سعد بن منصور مسند ہشیم) فقہی مسائل میں حضرت علی ؓ کی وسعتِ نظر کی ایک وجہ یہ تھی ہے کہ آپ جو بات نہیں جانتے تھے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے بعض ایسے مسائل جو شرم وحیا اور اپنے رشتہ کی نزاکت کے باعث خود براہ راست نہیں پوچھ سکتے تھے اس کو کسی دوسرے کے ذریعہ سے پوچھوا لیتے تھے؛چنانچہ مذی کا ناقص وضو ہونا آپ نے اسی طرح بالواسطہ دریافت کرایا تھا۔ حضرت علی ؓ اپنے علم وکمال کی بنا پر متعدد مسائل میں عام صحابہ سے مختلف رائے رکھتے تھے، خصوصا ًحضرت عثمان ؓ سے بعض خاص مسائل میں زیادہ اختلاف تھا مثلاً حضرت عثمان حج تمتع کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہ صرف لڑائی اور بے امنی کی وجہ سے جائز تھا، اب وہ حالت نہیں ہے اس لیے اب جائز نہیں ہے، حضرت علی رضی اللہ اوردوسرے صحابہ ہر حال میں جائز سمجھتے تھے، اسی طرح حالت احرام میں نکاح اور حالت عدت میں عورت کی وراثت وغیرہ کے مسائل میں بھی اختلاف تھا۔ حضرت علی رضی مرتضیٰ ؓ گو تمام عمر مدینہ منورہ میں رہے ؛لیکن آپ کی خلافت کا زمانہ تمام تر کوفہ میں گذرا اور احکام اور مقدمات کے فیصلے کا زیادہ موقع نہیں پیش آیا اس لیے آپ کے مسائل و اجتہادات کی زیادہ تر اشاعت عراق میں ہوئی، اسی بنا پر حنفی فقہ کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے بعد حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے ہی فیصلوں پر ہے۔[334]
قضا اور فیصلے
حضرت علی مرتضیٰ انھی خصوصیات کی بنا پر مقدمات کے فیصلوں اور قضا کے لیے نہایت موزوں تھے اور اس کو صحابہ عام طور سے تسلیم کرتے تھے، حضرت عمرؓ بن خطاب فرمایا کرتے تھے کہ"اقضانا علی واقرأنا ابی"یعنی ہم میں مقدمات کے فیصلے کے لیے سب سے موزوں علی ہیں اور سب سے بڑے قاری ابی ہیں" [335] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہرشناس نگاہ نے حضرت علی ؓ کی اس استعداد و قابلیت کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور آپ کی زبان فیض ترجمان سے حضرت علی ؓ کو”اقضاہم علی”کی سند مل چکی تھی اور ضرورت کے اوقات میں قضا کی خدمت آپ کے سپرد فرماتے تھے؛چنانچہ جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے عہدہ قضاء کے لیے آپ کو منتخب فرمایا، حضرت علی ؓ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نئے نئے مقدمات پیش ہوں گے اورمجھے قضا کا تجربہ اورعلم نہیں، فرمایا کہ اللہ تعالی تمھاری زبان کو راہِ راست اور تمھارے دل کو ثبات واستقلال بخشے گا، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مقدمات کے فیصلہ میں تذبذب نہ ہوا۔ [336] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قضاء اور فصل مقدمات کے بعض اصول بھی تعلیم فرمائے؛چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا”علی !جب تم دو آدمیوں کا جھگڑا چکا نے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کا فیصلہ نہ کرو، اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔ [337] مقدمات میں علم یقین کے لیے اہل مقدمہ اور گواہوں سے جرح اوران سے سوالات کرنا بھی آپ کے اصول قضا میں داخل تھا، ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ کی عدالت میں اپنی نسبت جرم زنا کا اعتراف کیا، آپ نے اس سے پے درپے متعدد سوالات کیے، جب وہ آخر تک اپنے بیان پر قائم رہی تو اس وقت سزا کا حکم دیا، [338]اسی طرح لوگوں نے ایک شخص کو چوری کے الزام میں پکڑ کر پیش کیا اور دو گواہ بھی پیش کر دیے آپ نے گواہوں کو دہمکی دی کہ اگر تمھاری گواہی جھوٹی نکلی تو میں یہ سزادوں گا اوریہ کروں گا اوروہ کروں گا، اس کے بعد کسی دوسرے کام میں مصروف ہو گئے، اس سے فراغت کے بعد دیکھا کہ دونوں گواہ موقع پاکر چل دیے، آپ نے ملزم کو بے قصور پاکر چھوڑدیا۔ [339] یمن میں آپ نے دو عجیب وغریب مقدمات کا فیصلہ کیا، یمن نیا نیا مسلمان ہوا تھا پرانی باتیں بھی تازہ تھیں، ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوا، جس سے ایک ماہ کے اندر تین مرد خلوت کرچکے، نوماہ بعد اس کے لڑکا ہوا، اب یہ نزاع ہوئی کہ وہ لڑکا کس کا قرار دیا جائے، ہر ایک نے اس کے باپ ہونے کا دعویٰ کیا، حضرت علی ؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس لڑکے کی دیت کے تین حصے کیے، پھر قرعہ ڈالا جس کے نام قرعہ نکلا، اس کے حوالہ کیا اور بقیہ دونوں کو دیت کے تین حصوں میں سے دو حصے اس سے لے کر دلوا دیے، گویا غلام کے مسئلہ پر اس کو قیاس کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت علی ؓ کا یہ فیصلہ سنا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ [340] دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ چند لوگوں نے شیر پھنسانے کے لیے کنواں کھودا تھا شیر اس میں گرگیا، چند اشخاس ہنسی مذاق میں ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے کہ اتفاق سے ایک کا پیر پھسلا اور وہ اس کنوئیں میں گرا، اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بدحواسی میں دوسرے کی کمر پکڑلی وہ بھی سنبھل نہ سکا اور گرتے گرتے اس نے تیسرے کی کمر تھام لی، تیسرے نے چوتھے کو پکڑلیا، غرض چاروں اس میں گرپڑے اور شیر نے چاروں کو مار ڈالا، ان مقتولین کے ورثاء باہم آمادہ جنگ ہوئے، حضرت علی ؓ نے ان کو اس ہنگامہ و فساد سے روکا اور فرمایا کہ ایک رسول کی موجودگی میں یہ فتنہ وفساد مناسب نہیں، میں فیصلہ کرتا ہوں، اگر وہ پسند نہ ہو تو دربارِ رسالت میں جا کر تم اپنا مقدمہ پیش کرسکتے ہو، لوگوں نے رضا مندی ظاہر کی، آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے یہ کنواں کھودا، ان کے قبیلوں سے ان مقتولین کے خون بہا کی رقم اس طرح وصول کی جائے کہ ایک پوری، ایک ایک تہائی، ،ایک ایک چوتھائی اور ایک آدھی، پہلے مقتول کے ورثاء کو ایک چوتھائی خوں بہا، دوسرے کو ثلث تیسرے کو نصف اور چوتھے کو پورا خوں بہا دلایا۔ لوگ اس بظاہر عجیب وغریب فیصلہ سے راضی نہ ہوئے اورحجۃ الوداع کے موقع پر حاضر ہوکر اس فیصلہ کا مرافعہ(اپیل) عدالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلہ کو برقرار رکھا۔ [341] روایت میں مذکور نہیں کہ یہ فیصلہ کس اصول پر کیا گیا تھا، صرف پہلے شخص کے متعلق اتنا ہے کہ اس کو چوتھائی اس لیے ملا کہ فورا ًاوپر سے گرا تھا، ہمارا خیال ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ اس فیصلہ میں اس اصول کو پیش نظر رکھا ہے کہ یہ حادثے بالقصد قتل اور اتفاقی قتل کے درمیان میں ہیں، غرض قصد اور عدم قصد کے بیچ کی شکل ہے، اس لیے عدم قصد واتفاق اور قصد وارادہ ان دونوں میں اس کا حصہ جس مقتول میں زیادہ ہے اتنا ہی اس کو کم وبیش دلایا گیا، اس کے بعد وراثت کا اصول پیش نظر رہا، چونکہ یہ معاملہ چار آدمیوں کا تھا اس لیے کم سے کم رقم ایک چوتھائی مقرر کی، اس کے نکل جانے کے بعد تین آدمی رہ گئے تو اس کو تہائیوں پر تقسیم کرکے تیسرا حصہ یعنی ایک تہائی اس کو دلادیا، باقی دو بچے تو دوحصے کرکے نصف تیسرے کا مقرر کیا۔ اب غور کیجئے کہ اصل جرم ان لوگوں کا تھا جنھوں نے آبادی کے قریب کنواں کھود کر شیر پھنسانے کی غلطی کی تھی، اس لیے کسی متعین قاتل نہ ہونے کے سبب سے قسامت کے اصول سے خوں بہا کو ان کے کھودنے والوں اوران کے ہم قبیلوں پر عائد کیا، پہلا شخص گو اتفاقاً گرا مگر ایک دوسرے کو دکھیلنے کے نتیجہ کو بھی اس میں دخل تھا اس لیے پہلے شخص کے گرنے میں اتفاق کا زیادہ اورقصد کا بہت کم دخل تھا اس لیے وہ خوں بہا کاکم سے کم مستحق ٹھہرا، یعنی ایک چوتھائی پہلے نے دوسرے کو گویا بالقصد کھینچا، مگر غایت بدحواسی میں اس کو اپنے فعل کے نتیجہ کے سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے پہلے کے مقابلہ میں اس میں اتفاق کا عنصر کم اور قصد کا کچھ زیادہ ہے، اس لیے وہ تہائی کا مستحق ہوا، دوسرے کو پہلے نتائج کو دیکھ کر اپنے فعل کے نتیجہ کے سوچنے سمجھنے کا موقع زیادہ ملا اس لیے اس میں اتفاق کے مقابلہ میں قصد کا عنصر زیادہ تھا اس لیے اس کو نصف دلایا گیا، تیسرے نے چوتھے کو کھینچا حالانکہ وہ سب سے دور تھا اور گذشتہ نتائج کو تیسرے نے خوب غور سے دیکھ لیا تھا، اس لیے وہ تمام تر قصد وارادہ سے گرایا گیا، نیز یہ کہ اس نے اپنے اپنے رفقا کی طرح کسی اورکے گرانے کا جرم بھی نہیں کیا اس لیے وہ پوری دیت کا مستحق تھا۔ (واللہ اعلم) ایک اور مقدمہ کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ فیصلہ آپ نے فرمایا، دو شخص (غالباًمسافر) تھے، ایک کے پاس تین روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس پانچ روٹیاں تھیں، دونوں مل کر ایک ساتھ کھانے کو بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک تیسرا مسافر بھی آگیا، وہ بھی کھانے میں شریک ہوا، کھانے سے جب فراغت ہوئی تو اس نے آٹھ درہم اپنے حصہ کی روٹیوں کی قیمت دے دی اور آگے بڑھ گیا، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس نے سیدھا حساب یہ کیا کہ اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ درہم لی اور دوسرے کو ان کی تین روٹیوں کی قیمت تین درہم دینے چاہے، مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا اور نصف کا مطالبہ کیا، یہ معاملہ عدالت مرتضوی میں پیش ہوا، آپ نے دوسرے کو نصیحت فرمائی کہ تمھارا رفیق جو فیصلہ کررہا ہے اس کو قبول کرلو اس میں زیادہ تمھارا نفع ہے؛لیکن اس نے کہا کہ حق تو یہ ہے کہ تم کو صرف ایک درہم اور تمھارے رفیق کو سات درہم ملنے چاہیے، اس عجیب فیصلہ سے وہ متحیر ہو گیا، آپ نے فرمایا کہ تم تین آدمی تھے، تمھاری تین روٹیاں تھیں اور تمھارے رفیق کی پانچ، تم دونوں نے برابر کھائیں اور ایک تیسرے کو بھی برابر کا حصہ دیا، تمھاری تین روٹیوں کے حصے تین جگہ کیے جائیں تو 9 ٹکڑے ہوتے ہیں، تم اپنے 9 ٹکڑوں اور اس کے پندرہ ٹکڑوں کو جمع کرو تو 24 ٹکڑے ہوتے ہیں، تینوں میں سے ہر ایک نے برابر ٹکڑے کھائے اورایک تیسرے مسافر کو دیا اور تمھارے رفیق نے اپنے پندرہ ٹکڑوں میں سے آٹھ خود کھائے اور سات تیسرے کو دیے، اس لیے آٹھ درہم میں سے ایک کے تم اور سات کا تمھارا رفیق مستحق ہے۔ [342] کبھی کبھی کوئی لغو مقدمہ پیش ہوتا تو آپ زندہ دلی کا ثبوت بھی دیتے تھے، ایک شخص نے ایک شخص کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ اس نے میری ماں کی آبروریزی کی ہے، فرمایا ملزم کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کرو، اس کے سایہ کو سو کوڑے مارو۔ [343] حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے فیصلے قانون کے نظائر کی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے اہل علم نے ان کو تحریری صورت میں مدون کر لیا تھا مگر اس عہد میں اختلاف آراء اور فرقہ آرائی کا زمانہ شروع ہو چکا تھا اس لیے ان میں تحریف بھی ہونے لگی؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے سامنے جب ان کے فیصلوں کا تحریری مجموعہ پیش ہوا تواس میں کے ایک حصہ کو انھوں نے نقلی بتلایا اور فرمایا کہ عقل وہوش کی سلامتی کے ساتھ علی ؓ کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔ [344][276][345][346][347]
علم اسرار و حکم
دنیا میں اہل حکمت اورمتکلمین کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو اپنی عقل و فہم اور علم کی بنا پر ہر شرعی حکم کی جزئی مصلحتوں پر نگاہ رکھتا ہے اوراس کے اسرار وحکم کی تلاش میں رہتا ہے، دوسرا گروہ وہ ہے جو ایک ایک حکم کے جزئی مصالح سے دلچسپی نہیں رکھتا ؛بلکہ وہ کلی طور پر پوری شریعت پر ایک مبصرانہ نگاہ ڈال کر ایک کلی اصول طے کرلیتا ہے اور اللہ تعالی نے ان احکام میں جزئی مصلحتیں رکھی ہیں، ان کی تلاش اور جستجو کی ضرورت نہیں سمجھتا، صحابہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا مذاق ِعلم پہلی قسم کا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق فکر دوسری قسم کا معلوم ہوتا ہے، ان کی نظر احکام کی نظری کیفیت پر اتنی نہیں پڑتی جتنی ان کی عملی کیفیت پر، اسی لیے کسی حکم کا انسان کی ظاہری عقل کے خلاف ہونا ان کے نزدیک چنداں اہم نہیں کہ انسانی عقل خود ناقص ہے، وہ کسی حکم شرعی کے لیے صحت اور صواب کا معیار نہیں بن سکتی۔ صحیح بخاری کی تعلیقات میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی مرتضی ؓ نے فرمایا: حدثو الناس بمایعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ [348] لوگوں سے وہی کہو جو سمجھ سکتے ہو، کیا تم یہ پسند کرتے ہوکہ خدایا خداکا رسول جھٹلایا جائے۔ مقصود یہ ہے کہ اگران سے ایسی باتیں کی جائیں جو ان کے فہم سے بالاترہوں تو لامحالہ اپنی کوتاہ عقل سے وہ ان باتوں کو غلط سمجھیں گے اوراس طرح سے وہ نادانستگی میں خدااوررسول کی تکذیب کے جرم کے مرتکب ہوں گے، اس لیے لوگوں سے ان کی عقل کے موافق گفتگو کرنی چاہیے کہ ہر مصالح الہی ہر شخص کی سمجھ میں یکساں نہیں آسکتے ہیں۔ احکام اورروایات کے الفاظ اگر متعدد معنوں کے متحمل ہوں تو آپ کا یہ فیصلہ ہے کہ ان میں سے وہی معنی صحیح ہوں گے جو رسالت اور نبوت کی شان کے شایان ہوں، مسند ابن حنبل کے مطابق اس روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں، آپ نے فرمایا: اذااحدثتم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحدیث فطنوابہ الذی ھوا ھدیٰ والذی ھواتقی والذی ھواھتا۔ (: 130) "جب تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے معنی وہ سمجھو جو زیادہ قرین ھدایت، زیادہ پرہیز گارانہ اور بہتر ہوں" موزوں پر مسح کرنا سنت ہے؛لیکن یہ مسح نیچے تلوؤں پر نہیں ؛بلکہ اوپر پاؤں پر کیا جاتا ہے، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے: لوکان الدین باالرای لکان باطن المقدین احق بالمسح من ظاہر ھما وقد مسح النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی اظھر خفیہ۔ (باب کیف المسح) "اگر دینی مسائل کا انحصار محض رائے پرہوتا تو تلوے اوپر کے پاؤں سے زیادہ مسح کے مستحق ہوتے ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کی پشت پاپر مسح فرمایا۔" حضرت علی مرتضی کا مقصود یہ ہے کہ چلنے کی وجہ سے اگر گردو غبار کے دور کرنے اور صفائی کی غرض سے یہ مسح ہوتا تو نیچے کے تلوؤں پر مسح ہوتا ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے نہیں اوپر مسح فرمایا، اس لیے احکام الہی کے مصالح کی تعیین میں محض ظاہری عقل و رائے کو دخل نہیں ہے۔ یہی روایت مسند ابن حنبل [349] میں اس طرح ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح کرتے ہوئے نہ دیکھتا تو سمجھتا کہ نیچے مسح کرنا اوپر کرنے سے بہتر ہے، یعنی ظاہر قیاس کا مقتضیٰ یہی تھا، مگر حکم الہی محض ظاہری قیاس پر مبنی نہیں۔[350][351][352] ،[353] .[354] ،[322] [355]
تصوف
اس بیان سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت علی مرتضی ؓ کو اسرارِ شریعت پر عبورنہ تھا ؛بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ عوام کے لیے یہ موزوں نہیں ہیں اور یہ بالکل سچ ہے کہ اس سے عوام کے طبائع میں احکام الہی کی اتباع اور پیروی کی بجائے عدم عمل کے لیے حیلہ سازی اور فلسفیانہ بہانہ جوئی پیدا ہوتی ہے، خواص اس فرق کو سمجھتے ہیں اس لیے انھی کے لیے یہ علم موزوں ہے؛چنانچہ تصوف جو مذہب کی جان، شریعت کی روح اور جو خاصانِ امت کا حصہ ہے حضرت علی ؓ نے اس کے حقائق و معارف بہت خوبی سے بیان کیے ہیں۔ تصوف کے اکثر سلسلے سینۂ مرتضی ؓ پر جاکر ختم ہوتے ہیں، حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "اصول اور آزمائش وامتحان میں ہمارے شیخ الشیوخ علی مرتضی ہیں، شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں لکھا ہے کہ خلافت سے پہلے حضرت ممدوح کو اس میں بے حد انہماک تھا، مگر خلافت کے بعد اس کی مصروفیت نے ان کو اس فن کی تفصیل بیان کرنے کی فرصت نہ دی۔ [356] محدثین کے اصولِ روایت کے مطابق حضرت علی مرتضی ؓ کے یہ صوفیانہ اقوال پایۂ صحت کو نہیں پہنچتے اور نہ سلسلہ صحبت کی کڑیاں ثابت ہوتی ہیں کہ یہ اکثر سلسلے حضرت حسن بصری ؓ پر جاکر تمام ہوتے ہیں، ان کو حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا فیض اور صحبت یافتہ سمجھا جاتا ہے، مگر حضرت حسن بصری ؓ کی صحبت اور تعلیم محدثین کی روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی ؛بلکہ امام ترمذی نے تو اس سے بھی انکار کیا ہے کہ انھوں نے بلا واسطہ حضرت علی ؓ سے کچھ سنا بھی ہے، بہرحال اتنا بالاتفاق ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت علی مرتضی ٰ ؓ کو خلافت سے پہلے مدینہ میں دیکھا تھا اوران کے دیدار سے مشرف تھے اور اس وقت ان کی عمر غالبا 14،15 برس کی تھی۔ [357]
تقریر و خطابت
تقریر وخطابت میں حضرت علی مرتضی ؓ کو خداداد ملکہ حاصل تھا اور مشکل سے مشکل مسائل پر بڑے بڑے مجمعوں میں فی البدیہہ تقریر فرماتے تھے، تقریریں نہایت خطیبانہ مدلل اور مؤثر ہوتی تھیں، 339ھ میں جب امیر معاویہ ؓ نے مدافعت کی بجائے جارحانہ طریق عمل اختیار کیا تو جمعہ کے روز اپنی جماعت کو ابھارنے کے لیے جو خطبہ دیا تھا، اس سے زور تقریر اورحسن خطابی کا اندازہ ہوگا۔ أما بعد، فإن الجهاد باب من أبواب الجنة، من تركہ ألبسہ اللہ الذلة وشملہ بالصغار، وسيم الخسف وسيل الضيم، وإني قد دعوتكم إلى جهاد هؤلا القوم ليلا ونهارا وسرا وجهارا، وقلت لكم، اغزوهم قبل أن يغزوكم، فما غزي قوم في عقر دارهم إلا ذلوا واجترأ عليهم عدوهم، هذا أخو بني عامر قد ورد الأنبار، وقتل ابن حسان البكري، وأزال مسالحكم عن مواضعها، وقتل منكم رجالا صالحين، وقد بلغني انهم كانوا يدخلون بيت المرأة المسلمة والأخرى المعاهدة فينزع حجلها من رجلها، وقلائدها من عنقها، وقد انصرفوا موفورين، ما كلم رجل منهم كلما، فلو أن أحدا مات من هذا أسفا ما كان عندي ملوما، بل كان جديرا، يا عجبا من أمر يميت القلوب، ويجتلب الهم ويسعر الأحزان من اجتماع القوم على باطلهم، وتفرقكم عن حقكم، فبعدا لكم وسحقا، قد صرتم غرضا، ترمون ولا ترمون، ويغار عليكم ولا تغيرون، ويعصى اللہ فترضون، إذا قلت لكم سيروا في الشتاء قلتمكيف نغزو في هذا القر والصر وإن قلت لكم سيروا في الصيف قلتم حتى ينصرم عنا حمارة القيظ، وكل هذا فرار من الموت، فإذا كنتم من الحر والقر تفرون فأنتم واللہ من السيف أفر، والذي نفسي بيدہ، ما من ذلك تهربون، ولكن من السيف تحيدون، يا أشباہ الرجال ولا رجال، ويا أحلام الأطفال وعقول ربات الحجال، أما واللہ لوددت أن اللہ أخرجني من بين أظهركم وقبضني إلى رحمتہ من بينكم، ووددت أن لم أركم ولم أعرفكم، فقد واللہ ملأتم صدري غيظا، وجرعتموني الأمرين أنفاسا، وأفسدتم على رأيي بالعصيان والخذلان "حمدونعت کے بعد، جہادجنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس نے اس کو چھوڑا، خدااس کو ذلت کا لباس پہناتا ہے اور رسوائی کو شاملِ حال کرتا ہے اور ذلت کا مزہ چکھایا جاتا ہے اوردشمنوں کی دست درازی میں گرفتار ہوتا ہے، میں نے تم کو شب وروز علانیہ اور پوشیدہ، ان لوگوں سے لڑنے کی دعوت دی اورمیں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کریں میں حملہ کروں، کوئی قوم جس پر اس کے گھر میں آخر حملہ کیا جائے وہ ذلیل ورسوا ہوتی ہے اس کا دشمن اس پر جری ہوتا ہے، دیکھو کہ عامری نے انبار میں آکر ابن حسان بکری کو قتل کر دیا، تمھارے مورچوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا، تمھاری فوج کے چند نیکوکار بہادروں کو قتل کر ڈالا اور مجھے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ وہ مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھسنے اوران کے پاؤں سے ان کے پازیب، ان کے گلے سے ان کے ہار اتارلیے، ایک قوم کا باطل پر اجتماع اور تمھارا امر حق سے برگشتہ ہونا کس قدر تعجب انگیز ہے جو دلوں کو مردہ کرتا ہے اور غم ورنج کو بڑھاتا ہے، تمھارے لیے دوری و ہلاکت ہو تم نشانہ بن گئے ہو اور تم پر تیر برسایا جاتا ہے ؛لیکن تم خود تیر نہیں چلا سکتے تم پر غارت گری کی جاتی ہے؛لیکن تم غارت گری نہیں کرتے، خداکی نافرمانی کی جاتی ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو، جب تم سے کہتا ہوں کہ موسم سرما میں فوج کشی کرو تم کہتے ہوکہ اس قدر سردی اور پالے میں کس طرح لڑسکتے ہیں اور اگر کہتا ہوں کہ موسم گرما میں چلو تو کہتے ہوکہ گرمی کی شدت کم ہو جائے تب، حالانکہ یہ سب موت سے بھاگنے کا حیلہ ہے، پس تم گرمی سردی سے بھاگتے ہو تو خدا کی قسم! تلوار سے اور بھی بھاگو گے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس سے نہیں بھاگتے ؛بلکہ تلوار سے جان چراتے ہو، اے مرد نہیں؛بلکہ مرد کی تصویرو! اوراے بچوں اور عورتوں کی سی عقل اور سمجھ رکھنے والو، خداکی قسم میں پسند کرتا ہوں کہ خدا تمھاری جماعت سے مجھے نکال لے جائے اور (موت دے کر) اپنے رحمت نصیب کرے، میری تمنا تھی کہ تم سے جان پہچان نہ ہوتی، خدا کی قسم! تم نے میرا سینہ غیظ و غضب سے بھردیا ہے، تم نے مجھے وہ تلخیوں کے گھونٹ پلائے ہیں اور عصیان و نافرمانی کرکے میری رائے کو برباد کر دیا ہے۔" آپ کے طرفداروں کے دل اگرچہ پثر مردہ ہو چکے تھے اور قوائے عمل نے جواب دیدیا تھا تاہم اس پر جوش اور ولولہ انگیز تقریر نے تھوڑی دیر کے لیے ہلچل پیدا کردی اور ہرطرف سے پرجوش صداؤں نے لبیک کہا۔ شریف رضی نے حضرت علی ؓ کے تمام خطبوں کو”نہج البلاغۃ ”کے نام سے چار جلدوں میں جمع کر دیا ہے اوران پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے کہ ان خطبوں نے ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں کو فصیح و بلیغ مقرر بنا دیا؛ لیکن نہج البلاغۃ کے تمام خطبوں کا صحیح ہونا ایک مشتبہ امر ہے، کیونکہ ان میں ایسے اصلاحات وخیالات بھی ہیں جو تیسری صدی میں یونانی فلسفہ کے ترجمہ کے بعد سے عربی رائج ہوئے ہیں اور ان میں حضرت علی ؓ کی زبان سے ایسی باتیں بھی ہیں جن کو کوئی صاحب ایمان ان کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔[358][359]
شاعری
جناب علی المرتضیٰ ؓ کی طرف بہت سے اشعار بھی منسوب ہیں جن میں سے دو، چار احادیث صحیحہ میں بھی مذکور ہیں، مثلاً آپ کا وہ رجز یہ شعر جو معرکۂ خیبر میں آپ نے پڑھا تھا: انا الذی سمتنی امی حیدرۃ کلیث غابات کریہ المنظرۃ لیکن بہت سے جعلی اشعار بناکر آپ کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں؛ بلکہ ایک پورا دیوان دیوانِ علی ؓ کے نام سے موجود ہے جس کو افسوس ہے کہ طلبہ اور علما نہایت شوق سے پڑھتے پڑھاتے ہیں، حالانکہ اس کی زبان اس لائق بھی نہیں کہ کسی عربی شاعر کی طرف منسوب کی جائے، چہ جائیکہ الفصح الفصحاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الشریف کی طرف، حاکم نے مستدرک میں حضرت فاطمۃ زہرا ؓ کے مرثیہ میں آپ کی زبان مبارک سے دو شعر نقل کیے ہیں۔ [360] [34][361]
علم نحو کی ایجاد
علم نحو کی بنیاد خاص حضرت علی ؓ کے دست مبارک سے رکھی گئی ہے، ایک دفعہ ایک شخص کو قرآن شریف غلط پڑھتے سنا، اس سے خیال پیدا ہوا کہ کوئی ایسا قاعدہ بنادیا جائے جس سے اعراب میں غلطی واقع نہ ہو سکے؛چنانچہ ابوالاسودوئلی کو چند قواعد کلیہ بتاکر اس فن کی تدوین پر مامور کیا، (فہرست ابن ندیم) اس طرح علم نحو کے ابتدائی اصول بھی آپ ہی کی طرف منسوب ہیں۔[34][362]
تالیفات اور احادیث
1۔ کتاب جامعہ کہ بنا بر روایت ابوبصیر، علی بن ابی طالب نے اس میں اسلامی احکام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے لکھے اور اس میں متعدد موضوعات کے حلال اور حرام کے مسائل جمع فرمائے۔ یہ ایک ضخیم کتاب تھی اسے کتاب علی بھی کہا جاتا ہے۔
2۔ صحیفہ امام علی جس میں جامعہ مذکورہ کے علاوہ خاص احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو سے سنے تھے لکھے گئے ہیں۔
3۔ الملاحم یا صحیفةالدولة ایک اور کتاب ہے جوعلی بن ابی طالب نے زبان مبارک رسول اکرم سے سن کر ان کے لکھوانے پر تحریر فرمایا جو آنحضرت کی وفات کے بعد کے واقعات کی پیشگوئی نیز ان کی وصیتوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے۔
4۔ مصحف امام علی، علی بن ابی طالب نے قرآن مجید کو شأن نزول کی ترتیب سے آیات کی جمع آوری فرمائی و علما اہل سنت بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بہت قابل قدر کام ہے۔
5۔ کتاب جفر واشعار کا دیوان شعر بھی حضرت علی سے منسوب ہے۔
6۔ آثار امام علی علیہ السلام میں سے ایک بہت بڑا ذخیرہ ان کی بارگاہ ربوبیت میں کی گئی دعائیں ہیں جو معارف الہی کا بہت قیمتی خزانہ ہے۔
7۔ اہم ترین اور مشہور دعائیں جیسے: دعای کمیل، دعای توسّل، دعای ابوحمزہ ثمالی، صباح، جوشن وغیرہ
8۔ ان کے خطبوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جو اسلامی، ادبی، علمی، تاریخی، اخلاقی، سیاسی، الہی مضامین پر مشتمل ہے ایسا کلام کسی دیگر بشر سے نہیں سنا گیا۔ ان میں سے کچھ خطبے نہج البلاغۃ نامی کتاب میں چوتھی صدی کے ایک عظیم شیعہ عالم دین سید رضی (395ھ وفات 406ھ) میں جمع کیے ہیں۔
9۔ ان کے نجی یا سرکاری خطوط جو تاریخی، ادبی اور اسلامی معارف اور اقدار کے لحاظ سے بے نظیر اور نمونہ عمل ہیں۔ کچھ خطوط نہج البلاغہ میں نقل ہوئے ہیں۔
10۔ ان کے حکیمانہ جملے اور کلمات قصار جو سمندر کو کوزے میں سموئے ہوئے ہیں۔ ان ہزاروں جملوں میں سے چند سو نہج البلاغۃ میں موجود ہیں۔
نہج البلاغہ کی بہت سی شرحیں سنی اور شیعہ علما نے لکھی ہیں جن میں سے مشہور یہ ہیں۔ شرح محمد عبدہ، شرح ابن ابی الحدید، شرح قطب راوندی، شرح محمدتقی جعفری، شرح محمد دشتی وغیرہ۔
احادیث
بے شمار نبوی احادیث علی بن ابی طالب نے نقل فرمائی ہیں چونکہ آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب اور ساتھ ہوتے تھے تو سب سے زیادہ ان کے فرامین سنتے تھے۔ علامہ ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب أسماء الصحابہ و ما لكل واحد منهم من العدد میں آپ کی مرویات کی تعداد پانچ سو سینتیس لکھی ہے اہل سنّت کے علما کے بقول ان احادیث کی تعداد مختلف ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر صرف پچاس حدیثیں ہی اہل سنت کی کتب حدیث میں نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق حضرت علی کی مرویات کی تعداد بارہ ہزار ہے
1۔ مسند الامام علی دو جلدوں میں جو احادیث آج کل جمع کی گئی ہیں وہ 1450 احادیث ہیں۔
امام علی علیهالسلام نے بہت سے راویوں کی تربیت فرمائی اور اسلامی معاشرے کی بہبود کے لیے ان شاگرد ہمیشہ احادیث بیان کرتے رہے جن میں سے اہم ترین حسن بن علی، حسین بن علی، محمد بن حنفیہ، عمرو بن علی، فاطمہ بنت علی، جعفر بن ہبیرہ مخزومی، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ انصاری، ابورافع، و اسامہ بن زید کے نام ہیں۔ کتب رجال، میں علی بن ابی طالب کے شاگرد راویوں میں اصحاب میں سے 66 راوی اور تابعین میں سے 180 کا تذکرہ ملتا ہے۔
ان کے شاگردوں نے جو آپ کی زبان سے جاری کلمات کو لکھا ہے ان میں سے چند کتب یہ ہیں۔
1۔ القضایا و الاحکام، تألیف بریربن خضیر همدانی شرقی (شهید عاشورہ)؛
2۔ السنن و الاحکام والقضایا، تألیف ابورافع ابراہیم بن مالک انصاری (م 40)؛
3۔ قضایا امیر المومنین، تألیف عبد اللہ بن ابی رافع؛ (امام علی کے فیصلے)
4۔ کتاب فقہ، تألیف علی بن ابی رافع؛
5۔ جانوروں کے بارے کتاب، تألیف ربیعہ بن سمیع؛
6۔ کتاب میثم بن یحیی تمّار کوفی (م 60)؛
7۔ کتاب الدیات، تألیف ظریف بن ناصح وغیرہ
حدیث میں ذکر
ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبد الرحمن بن عوف کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبد الرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابو عبیدہ جنتی ہیں۔[363]
اخلاق
حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایام طفولیت ہی سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لیے وہ قدرتاً محاسن اخلاق اور حسنِ تربیت کا نمونہ تھے، آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے آلودہ نہ ہوئی اور نہ آپ کی پیشانی غیر خدا کے آگے جھکی، جاہلیت کے ہر قسم کے گناہ سے مبرا اورپاک رہے، شراب کے ذائقہ سے جو عرب کی گھٹی میں تھی، اسلام سے پہلے بھی آپ کی زبان آشنانہ ہوئی اور اسلام کے بعد تو اس کا کوئی خیال ہی نہیں کیا جا سکتا۔[364]
امانت و دیانت
آپ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے، اس لیے ابتدا ہی سے امین تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی امانتیں جمع رہتی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی خدمت حضرت علی ؓ کے سپرد فرمائی، [365] اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جیسی امانت داری فرمائی، اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم ؓ کے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسن ؓ، امام حسین ؓ نے ایک نارنگی اٹھالی، جناب امیر ؓ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کر دی۔[366] مال غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگا کر غایت احتیاط میں قرعہ ڈالتے تھے کہ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو آپ اس سے بری ہو جائیں، ایک دفعہ اصفہان سے مال آیا، اس میں ایک روٹی بھی تھی، حضرت علی ؓ نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے بھی سات ٹکڑے کیے اورقرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا، ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کرکے اس میں جھاڑو دی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی کہ وہ قیامت میں ان کی امانت و دیانت کی شاہد رہے۔ [367]
زہد
آپ کی ذات گرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی ؛بلکہ حق یہ ہے کہ آپ کی ذات پر زہد کا خاتمہ ہو گیا، آپ کے کا شانۂ فقر میں دنیاوی شان و شکوہ کا درگزرنہ تھا، کوفہ تشریف لائے تو دارالامارت کی بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا، مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میدان ہی میرے لیے بس ہے۔ بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور شہنشاہ اقلیم زہد وقناعت کے یہاں دنیاوی عیش کا کیا ذکر تھا، حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے ساتھ شادی ہوئی تو علاحدہ مکان میں رہنے لگے، اسی نئی زندگی کے سازو سامان کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سیدہ جنت جو سازو سامان اپنے میکہ سے لائی تھیں اس میں ایک چیز کا بھی اضافہ نہ ہو سکا، چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے تھے، گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی، وہ بھی اس قدر مختصر کہ پاؤں چھپاتے تو سربرہنہ ہو جاتا اور سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتا، معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں گھر سے دہواں نہیں اٹھتا تھا، بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ سے پتھر باندھ لیتے، ایک دفعہ شدت گرسنگی میں کا شانۂ اقدس سے باہر نکلے کہ مزدوری کرکے کچھ کمالائیں، عوالی (مدینہ کے قرب وجوار کی آبادی کا نام عوالی تھا)مدینہ میں دیکھا کہ ایک ضعیفہ کچھ اینٹ پتھر جمع کررہی ہے، خیال ہوا کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے، اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اور پانی سینچنے لگے، یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، غرض اس محنت ومشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت میں ملیں؛لیکن تنہا خوری کی عادت نہ تھی بجنسہٖ لیے ہوئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا۔ [368] ایامِ خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا، موٹا چھوٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی، ایک دفعہ عبد اللہ بن زریر نامی ایک صاحب شریک طعام تھے، دسترخوان پر کھانا نہایت معمولی اور سادہ تھا، انھوں نے کہا، امیر المومنین! آپ کو پرند کے گوشت سے شوق نہیں ہے، فرمایا ابن زریر!خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں سے صرف دو پیالوں کا حق ہے، ایک خود کھائے اور اہل کو کھلائے اور دوسرا خلق خدا کے سامنے پیش کرے [369] دردولت پر کوئی حاجب نہ تھا نہ دربان، نہ امیرنہ کروفرنہ شاہانہ تزک و احتشام اور عین اس وقت جب قیصر و کسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کے لیے زروجواہر اگل رہی تھی، اسلام کا خلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا اور اس پر فیاضی کا یہ حال تھا کہ دادو دہش کی بدولت کبھی فقرو فاقہ کی نوبت بھی آجاتی تھی، ایک دفعہ منبر پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ:میری تلوار کا کون خریدار ہے؟خدا کی قسم! اگر میرے پاس ایک تہ بند کی قیمت ہوتی تواس کو فروخت نہ کرتا، ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا ‘‘امیر المومنین! میں تہ بند کی قیمت قرض دیتا ہوں۔ گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی، شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی، ایک مرتبہ شفیق باپ کے پاس اپنی مصیبت بیان کرنے گئیں، حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے اس لیے واپس آکر سو رہی، تھوڑی دیرکے بعد حضرت عائشہؓ صدیقہ کی اطلاع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور فرمایا کیا تم کو ایک ایسی بات نہ بتادوں جو ایک خادم سے کہیں زیادہ تمھارے لیے مفید ہو، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کی تعلیم دی۔ [370] [371][372]
عبادات
حضرت علی کرم اللہ وجہہ خدا کے نہایت عبادت گزار بندے تھے، عبادات ان کا مشغلہ حیات تھا جس کا شاہد خود قرآن ہے، کلام پاک کی اس آیت : "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِo وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرٰئہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًاْ" [373] ‘‘محمد رسول اللہ اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں باہم رحمدل ہیں، تم ان کو دیکھتے ہو کہ بہت رکوع اور بہت سجدہ کرکے خدا کا فضل اور اس کی رضا مندی کی جستجو کرتے ہیں۔’’ کی تفسیر میں مفسرین نے نکتہ لکھا ہے کہ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ، اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ سے حضرت عمر بن الخطاب ؓ، رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ سے حضرت عثمان بن عفان ؓ، رُکَّعًا سُجَّدًسے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ اور یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًاْسے بقیہ صحابہ ؓ مراد ہیں، [374]اس سے عبادت میں تمام صحابہ پر حضرت علی ؓ کی فضیلت ثابت ہوئی ہے کیونکہ رکوع وسجود جو تمام صحابہ ؓ کا مشترک وصف تھا، پھر اس اشتراک میں تخصیص سے معلوم ہوا کہ اس اشتراک کے باوجود ان کو اس باب میں کچھ مزید امتیاز بھی حاصل تھا۔ قرآن مجید کے اس اشارہ کے علاوہ خود صحابہ ؓ کی زبان سے ان کے اس امتیازی وصف کی شہادت مذکور ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: کان ماعلمت صواما قواما، [375] جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بڑے روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔’’ زبیر بن سعید قریشی کہتے ہیں: لم ارھا شمیا قط کان اعبد اللہ منہ [376] "میں نے کسی ہاشم کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خداکا عبادت گزار ہو۔" ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبادات میں جس چیز کا التزام کرلیتے تھے اس پر ہمیشہ قائم رہتے تھے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اورحضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تم دنوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح، دس بار تحمید اوردس بار تکبیر پڑھ لیا کرو اورجب سوؤ تو 33 بار تسبیح، 33 بار تحمید اور 34 بار تکبیر پڑھ لیا کرو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اس کی تلقین کی میں نے اس کو چھوڑا نہیں، ابن کواء نے کہاکہ"صفین کی شب میں بھی نہیں؟فرمایا‘صفین کی شب میں بھی نہیں۔" [377]
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت علی ؓ گودنیاوی دولت سے تہی دامن تھے؛لیکن دل غنی تھا کبھی کوئی سائل آپ کے درسے ناکام واپس نہیں ہوا حتی کہ قوت لایموت تک دے دیتے، ایک دفعہ رات بھر باغ سینچ کر تھوڑے سے جو مزدوری میں حاصل کیے صبح کے وقت گھر تشریف لائے تو ایک ایک ثلث پسواکر حریرہ پکوانے کا انتظام کیا، اب پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدادی، حضرت علی ؓ نے سب اٹھاکر اس کو دے دیا اورپھر بقیہ میں دوسرے ثلث کے پکنے کا انتظار کیا؛لیکن تیارہوا کہ ایک مسکین یتیم نے دست سوال بڑھایا، اسے بھی اٹھا کر اس کی نذر کیا، غرض اسی طرح تیسرا حصہ بھی جو بچ رہا تھا پکنے کے بعد ایک مشرک قیدی کی نذر ہو گیا اوریہ مردخدارات بھر کی مشقت کے باوجود دن کوفاقہ مست رہا، خدائے پاک کو یہ ایثار کچھ ایسا بھایا کہ بطور ستائش اس کے صلہ میں، >(سورہ دھر:8)>کی آیت نازل ہوئی۔ [378]
تواضع
سادگی اور تواضع حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی دستارِ فضیلت کا سب سے خوشنما طرہ ہے، اپنے ہاتھ سے محنت و مزدوری کرنے میں کوئی عارنہ تھا، لوگ مسائل پوچھنے آتے تو آپ کبھی جوتا ٹانکتے، کبھی اونٹ چراتے اورکبھی زمین کھودتے ہوئے پائے جاتے، مزاج میں بے تکلفی اتنی تھی کہ فرش خاک پر بے تکلف سوجاتے، ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے، دیکھا کہ بے تکلفی کے ساتھ زمین پر سو رہے ہیں، چادر پیٹھ کے نیچے سے سرک گئی ہے اورجسم ِانور گردو غبار کے اندر کندن کی طرح دمک رہا ہے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سادگی نہایت پسند آئی، خوددست مبارک سے ان کا بدن صاف کرکے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا: اجلس یاابا تراب [379]مٹی والے اب اٹھ بیٹھ، زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علی ؓ کو اس قدر محبوب تھی کہ جب کوئی اس سے مخاطب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تبسم کی لہر دوڑ جاتی۔ ایام خلافت میں بھی یہ سادگی قائم رہی، عموماً چھوٹی آستین اوراونچے دامن کا کرتا پہنتے اور معمولی کپڑے کی تہ بند باندھتے، بازار میں گشت کرتے پھرتے، اگر کوئی تعظیماً پیچھے ہولیتا تو منع فرماتے کہ اس میں ولی کے لیے فتنہ اور مومن کے لیے ذلت ہے۔ شجاعت وبسالت حضرت علی ؓ کا مخصوص وصف تھا جس میں کوئی معاصر آپ کا حریف نہ تھا، آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور سب میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے، اسلام میں سب سے پہلا غزوہ ٔبدر پیش آیا، اس وقت حضرت علی ؓ کا عنفوان شباب تھا؛لیکن اس عمر میں آپ نے جنگ آزما بہادروں کے دوش بدوش ایسی دادِ شجاعت دی کہ آپ اس کے ہیرو قرار پائے۔ آغازِ جنگ میں آپ کا مقابلہ ولید سے ہوا، ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا، پھر شیبہ کے مقابلہ میں حضرت عبیدہ بن حارث ؓ آئے اور اس نے ان کو زخمی کیا تو حضرت حمزہ اور حضرت علی ؓ نے حملہ کرکے اس کا کام بھی تمام کر دیا، غزوہ ٔاحد میں کفار کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا، اس نے مبازرت طلب کی تو حضرت علی مرتضیٰ ؓ ہی اس کے مقابلہ میں آئے اور سرپر ایسی تلوار ماری کہ سر کے دو ٹکڑے ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو فرطِ مسرت میں تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور مسلمانوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔ غزوۂ خندق میں بھی پیش پیش رہے؛چنانچہ عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبدود نے جب مبازرت طلب کی تو حضرت علی مرتضی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میدان میں جانے کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی تلوار عنایت فرمائی، خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے سرپر عمامہ باندھا اور دعا کی خداوندا!تو اس کے مقابلہ مین ان کا مددگار ہو، اس اہتمام سے آپ ابن عبدود کے مقابلہ میں تشریف لے گئے اور اس کو زیر کرکے تکبیر کا نعرہ مارا جس سے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے حریف پر کامیابی حاصل کرلی۔ غزوہ ٔخیبر کا معرکہ حضرت علی ؓ ہی کی شجاعت سے سر ہوا، جب خیبر کا قلعہ کئی دن تک فتح نہ ہو سکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور خدا کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اور خدا اور خدا کے رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں؛چنانچہ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو جھنڈا عنایت فرمایا اور خیبر کا رئیس مرحب تلوار ہلاتا ہوا اور رجز پڑھتا ہوا مقابلے میں آیا، اس کے جواب میں حضرت علی مرتضی رجز خواں آگے بڑھے اور مرحب کے سرپر ایسی تلوار ماری کہ سر پھٹ گیا اور خیبر فتح ہو گیا، خیبر کی فتح کو آپ کے جنگی کارناموں میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ غزوات میں غزوہ ہوازن خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں تمام قبائلِ عرب کی متحدہ طاقت مسلمانوں کے خلاف امنڈ آئی تھی؛لیکن اس غزوہ میں بھی حضرت علی بن ابی طالب ؓ ہر موقع پر ممتاز رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن اکابر کو جھنڈے عنایت فرمائے، ان میں حضرت علی مرتضیٰ بھی شامل تھے، آغاز جنگ میں جب کفارنے دفعۃ تیروں کا مینہ برسانا شروع کیا تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور صر ف چند ممتاز صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثبات قدم رہے، ان میں ایک حضرت علی مرتضیٰ ؓ بھی تھے، عہد نبوت کے بعد خود ان کے زمانہ میں جو معرکے پیش آئے ان میں کبھی ان کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوئی۔ [380][381] [382]
دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک
حدیث میں آیا ہے کہ‘‘بہادر وہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑ دے ؛بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اس میدان کے مرد تھے، ان کی زندگی کا اکثر حصہ مخالفین کی معرکہ آرائی میں گذرا؛لیکن بایں ہمہ انھوں نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، ایک دفعہ ایک لڑائی میں جب ان کا حریف گرکر برہنہ ہو گیا تو اس کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ ان کی حریف تھیں؛لیکن جب ایک ضبی نے ان کے اونٹ کو زخمی کرکے گرایا تو خود حضرت علی ؓ نے آگے بڑھ کر ان کی خیرت دریافت کی اوران کو ان کے طرفدار بصرہ کے رئیس کے گھر میں اتارا، حضرت عائشہ ؓ کی فوج کے تمام زخمیوں نے بھی اسی گھر کے ایک گوشے میں پناہ لی تھی، حضرت علی ؓ حضرت عائشہ ؓ سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے؛ لیکن ان پناہ گزین دشمنوں سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ جنگ جمل میں جو لوگ شریک جنگ تھے، ان کی نسبت بھی عام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں کے اوپر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، مالِ غنیمت نہ لوٹا جائے، جوہتیارڈال دے اس کو امان ہے۔ حضرت زبیر ؓ نے ایک حریف کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کیا تھا اورجنگ جمل کے سپہ سالاروں میں تھے، مگر جب ان کا قاتل ابن جرموز ان کا مقتول سراورتلوار لے کر حضرت علی ؓ کے پاس آیا تو وہ آبدیدہ ہو گئے اورفرمایا‘‘فرزند صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو، پھر حضرت زبیر ؓ کی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا، یہ وہی تلوار ہے جس نے کئی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے مشکلات کا بادل ہٹایا ہے۔ مستدرک میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ان کا سرآیا تو فرمایا کہ ‘فرزندِ صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے۔ [383] جنگ جمل کے میدان میں جب آپ فریق مخالف کی لاشوں کا معائنہ کر رہے تھے، تو ایک ایک لاش کو دیکھ کر افسوس کرتے تھے، جب حضرت طلحہ ؓ کے بیٹے محمد کی لاش پر نظر پڑی تو آہ سرد بھر کر فرمایا:اے قریش کا شکرہ! ان کا سب سے بڑا دشمن ان کا قاتل ابن ملجم ہو سکتا تھا؛لیکن انھوں نے اس کے متعلق جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ اس سے معمولی طور پر قصاص لینا، مثلہ نہ کرنا، یعنی اس کے ہاتھ پاؤں اورناک نہ کاٹنا، ابن سعد میں ہے کہ جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا کہ اس کو اچھا کھانا کھلاؤ اور اس کو نرم بستر پر سلاؤ اگر میں زندہ بچ گیا تو اس کے معاف کرنے یا قصاص لینے کا مجھے اختیار حاصل ہوگا اور اگر میں مرگیا تو اس کو مجھ سے ملا دینا، میں خدا کے سامنے اس سے جھگڑوں گا، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہو سکتی ہے؟ [384] [56]
اصابت رائے
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صائب الرائے بھی تھے اور آپ کی اصابت رائے پر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا؛چنانچہ آپ تمام مہماتِ امور میں شریک مشورہ کیے جاتے تھے، واقعہ افک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا، ان میں سے ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، غزوہ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابوبکر و عمرؓ دونوں کے مشیر تھے؛چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین وانصار کی جو مجلس شوریٰ قائم کی تھی، اس کے رکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، حضرت عمر فاروق ؓ نے اس مجلس کے ساتھ مہاجرین کی جو مخصوص مجلس شوریٰ قائم کی تھی اس کے اراکین کے نام اگرچہ ہم کو معلوم نہیں ہیں؛لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ لازمی طور پر اس کے ایک رکن رہے ہوں گے، کیونکہ حضرت عمرؓ کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا تو حضرت علی ؓ سے مشورہ کرتے تھے، ایک موقع پر انھوں نے فرمایا تھا۔ لولا علی لھلک عمر اگر علی نہ ہوتے عمر ہلاک ہو جاتا۔ اس اعتماد کی بنا پر بعض امور میں حضرت عمر ؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی ہے، معرکہ نہادند میں جب ایرانیوں کی کثرت نے حضرت عمرؓ کو بے حد مشوش کر دیا، تو انھوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام صحابہ کو جمع کرکے رائے طلب کی، حضرت طلحہ ؓ نے کہا امیر المومنین آپ خود ہم سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں، البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں، حضرت عثمان ؓ نے مشورہ دیا کہ شام ویمن وغیرہ سے فوجیں جمع کرکے آپ خود سپہ سالار ہوکر میدانِ جنگ تشریف لے جائیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ خاموش تھے، حضرت عمؓ نے ان کی طرف دیکھا تو بولے کہ شام سے اگر فوجیں ہٹیں تو مفتوحہ مقامات پر دشمنوں کا تسلط ہوجائے گا اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب میں ہر طرف قیامت برپا ہو جائے گی، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ یہاں سے نہ ہلیں اور شام ویمن وغیرہ میں فرمان بھیج دیے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہوں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کردی جائیں، حضرت عمر ؓ نے اس رائے کو پسند کیا اور کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی ان سے اہم معاملات میں مشورے لیے اور اگر ان کے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو ان کا عہد نہ صرف فتنہ وفساد سے محفوظ رہتا ؛بلکہ قبائل عرب میں ایک ایسا توازن قائم ہوجاتا کہ آئندہ جھگڑے کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہوتی۔ آپ کی اصابت رائے کا سب سے بڑا ثبوت آپ کے فیصلوں میں ملتا ہے احادیث کی کتابوں میں بہت سے ایسے پیچیدہ مقامات مذکور ہیں جن کا فیصلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا اورجب وہ فیصلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو آپ نے فرمایا: مااجد فیھا الاماقال علی میرے نزدیک بھی اس کا فیصلہ وہی ہے جو علی نے کیا۔ ان کے ایک اور فیصلہ کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا: الحمد للہ الذی جعل فینا الحکمۃ اھل البیت [385] اس خدا کا شکر ہے جس نے ہم اہل بیت کو حکمت سکھائی۔" شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے محاسن اخلاق پر ایک نہایت جامع بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہاں مناسب ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ‘‘بڑے بڑے لوگوں کی سرشت میں جو عظیم الشان اخلاق داخل ہوتے ہیں، مثلاً شجاعت، قوت، حمیت اور وفا وہ سب ان میں موجود تھے اور فیض ربانی نے ان سب کو اپنی مرضی میں صرف کیا اوران کے ایک ایک خلق کے ساتھ اس فیضِ ربانی کی آمیزش سے ایک ایک مقام پیدا ہوا، ریاض النضرہ میں ہے کہ جب وہ راہ چلتے تھے تو ادھر ادھر جھکے ہوئے چلتے تھے اور جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے تو وہ سانس تک نہیں لے سکتا تھا، وہ تقریباً فربہ اندام تھے، ان کی کلائیاں اور ان کے ہاتھ مضبوط تھے اور دل کے مضبوط تھے، جس شخص سے کشتی لڑتے اس کو پچھاڑ دیتے تھے، بہادر تھے اور جس سے جنگ میں مقابلہ کرتے اس پر غالب آتے تھے۔ ان کے تمام محاسن اخلاق میں ایک وفا تھی اور جب فیض ربانی نے اس کو موہبت کیا تو مقام محبت ان کے لیے ایک مسلمہ چیز بن گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ متواتر طور پر ثابت ہے، فرمایا کہ میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیا۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق، دشمنوں کی مدافعت و مبارزت تھی جسے فیض ربانی نے ان کے سوابق اسلامیہ میں صرف کیا اور آخرت میں اس سے عجیب نتیجہ پیدا ہوا اوریہ آیت: ھذان خمصان اختصموا ان دونوں فریق نے باہم مخاصمت کی۔ ان کی اوران کے رفقا کی شان میں نازل ہوئی، امام بخاری نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں پہلا شخص ہوں گا جو قیامت کے دن خدا کے سامنے خصوصیت کے لیے دو زانو بیٹھے گا، قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت: ھذان خصمان اختصموا فی ربہم ان دونوں فریق نے اپنے رب کے بارے میں باہم مخاصمت کی۔ انھی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی اوریہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بدر کے دن باہم مبارزت کی، یعنی حمزہ ؓ، علی ؓ اور عبیدہ بن الحارث ؓ، شیبہ بن ربیعہ ؓ، عتبہ اور ولید بن عتبہ۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق ان کی غیر معمولی دلیری تھی، وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے، لوگوں کی خاطر مدارت میں اپنی خواہش سے باز نہیں آتے تھے، فیض ربانی نے ان کے ان اخلاق سے نہی المنکر اور بیت المال کی حفاظت کا کام لیا، حاکم نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کی ہے، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شکایت کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا‘‘لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، خداکی قسم!خداکی ذات اور اس کی راہ کے معاملہ میں وہ کسی قدر سخت ہے"حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی ذات کے معاملہ میں علی ؓ سخت ہیں۔" ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق اپنی قوم اور اپنے چچازاد بھائی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی حمیت تھی، وہ ان کے کام کی تکمیل میں نہایت اہتمام کرتے تھے اوران کی مدد میں نہایت ہمت سے کام لیتے تھے، یہ وہ وصف ہے جو اکثر شریفوں میں پیدا ہوتا ہے، جب فیض ربانی نے اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ ان کے دل میں پیدا کیا تو اس خلق سے کام لیا اور اس عقلی معنی کی شرح و تفسیر جس سے ایک ایسا عجیب مقام پیدا ہوا جس کی تعبیر اخوت رسول، وصی اور وارث وغیرہ متعدد الفاظ سے کی جاتی ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچیرے بھائیوں میں سے ہر ایک سے فرمایا کہ دنیا وآخرت میں تم میں سے کون میرا ولی ہوگا؛لیکن ان سب نے اس بار کے تحمل سے انکار کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ تم دنیا وآخرت میں میرے ولی ہوئے، حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فرماتے تھے کہ خداوند تعالی فرماتا ہے: افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم اگروہ مرگیے یا مارے گئے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ خداکی قسم!جب ہم کو خدانے ہدایت دے دی تو اس کے بعد ہم پیٹھ نہ پھیریں گے خداکی قسم اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو جس چیز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کرتے تھے، ہم بھی اس کے لیے لڑیں گے، یہاں تک کہ مرجائیں، خداکی قسم ! میں آپ کا بھائی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا لڑکا ہوں، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا وارث ہوں، ایسی صورت میں مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق دار کون ہے۔ [386] اسی سے ان دونوں فریق کی جوافراط وتفریط کرتے ہیں غلطی بھی ظاہر ہو گئی، ایک کہتا ہے کہ قوم کی حمایت کے لیے غلبہ کا خواستگار ہونا خلوص نہیں، دوسرا کہتا ہے کہ استحقاق خلافت کے لیے اخوت نسبتی شرط ہے۔ ان کے محاسنِ اخلاق میں ایک زہد اور شہوت نفسانی سے اجتناب ہے، حضرت امیر معاویہ ؓ نے ضراراسدی سے کہا کہ مجھ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اوصاف بیان کرو، انھوں نے کہا کہ امیر المومنین اس سے مجھے معاف فرمائیے، معاویہ ؓ نے اصرار کیا ضرار بولے، اگر اصرار ہے تو سنیے وہ بلند حوصلہ اور نہایت قوی تھے، فیصلہ کن بات کہتے تھے، عادلانہ فیصلہ کرتے تھے، ان کے ہرجانب سے علم کا سرچشمہ پھوٹتا تھا، ان کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی، دنیا کی دلفریبی اور شادابی سے وحشت کرتے اوررات کی وحشت ناکی سے انس رکھتے تھے، بڑے رونے والے اور بہت زیادہ غور و فکر کرنے والے تھے، چھوٹا لباس اور موٹا جھوٹا کھانا پسند تھا، ہم میں بالکل ہماری طرح رہتے تھے، جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے اور جب ہم ان سے انتظار کی درخواست کرتے تھے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے، باوجود یکہ اپنی خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کرلیتے تھے اور وہ خود ہم سے قریب ہو جاتے تھے؛لیکن اس کے باوجود خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے، وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے، غریبوں کو مقرب بناتے تھے، قوی کو اس کے باطل میں حرص وطمع کا موقع نہیں دیتے تھے، ان کے انصاف سے ضعیف ناامید نہیں ہوتا تھا، میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو بعض معرکوں میں دیکھا کہ رات گزرچکی ہے، ستارے ڈوب چکے ہیں اور وہ اپنی داڑھی پکڑے ہوئے ایسے مضطرب ہیں جیسے مارگزیدہ مضطرب ہوتا ہے اور اس حالت میں وہ غمژدہ آدمی کی طرح رو رہے ہیں اورکہتے ہیں کہ اے دنیا مجھ کو فریب نہ دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوتی ہے، افسوس افسوس! میں نے تجھ کو تین طلاقیں دے دی ہیں جس سے رجعت نہیں ہو سکتی، تیری عمر کم اورتیرا مقصدحقیر ہے، آہ! زادراہ کم اور سفر دور دراز کا ہے، راستہ وحشت خیز ہے’’ یہ سن کر امیر معاویہ ؓ روپڑے اورفرمایا خدا ابو الحسن پر رحم کرے، خدا کی قسم!وہ ایسے ہی تھے۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک چیز شبہات سے اجتناب ہے، ان کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے روایت ہے کہ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس لیموں آجاتے تھے اورحسن ؓ وحسین ؓ ان میں سے کوئی لیموں لے کر کھانے لگتا تو وہ اس کو ان کے ہاتھ سے چھین لیتے اور اس کو تقسیم کرنے کا حکم دیتے تھے، ابوعمروسے روایت ہے کہ وہ فے کی تقسیم میں حضرت ابوبکر ؓ کا طریقہ اختیار کرتے تھے، یعنی جب ان کے پاس آتا تھا تو سب تقسیم کردیتے تھے اور فرماتے اے دنیا میرے سوا کسی اورکو دھوکا دے اورخود اس سے اپنے لیے کوئی چیز انتخاب نہ کرتے تھے اور نہ تقسیم میں اپنے کسی رشتہ دار یا اورعزیز کی تخصیص کرتے تھے، حکومت اورامانت صرف متدین لوگوں کے سپرد کرتے تھے، اورجب یہ معلوم ہوتا کہ کسی نے اس میں خیانت کی ہے تو اس کو لکھتے: قدجاءتکم موعظۃ من ربکم فاو فواالکیل والمیزان بالقسط ولاتدخسوا الناس اشیاء ہم ولا تعثوافی الارض مفسدین بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین وماانا علیکم بحفیظ "تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے نصیحت آچکی ہے تو ناپ جو کھ کر انصاف کے ساتھ پورا کرو اورلوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اورزمین میں فساد نہ پھیلاؤ، خداکا ثواب تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم ایماندار ہو اورمیں تمھارا نگران نہیں ہوں۔" جب تمھارے پاس میراخط پہنچے تو تمھارے ہاتھ میں جو کام ہے اس وقت تک تم اس کی پوری حفاظت کرو جب تک کہ ہم تمھارے پاس دوسرے شخص کو نہ بھیجیں جو تمھارے ہاتھوں سے لے لے، پھر اپنی نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھاتے اورکہتے کہ خداوندتوجانتا ہے کہ میں نے ان کو تیری مخلوق پر ظلم کرنے اورتیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیاہے۔ مجع التمیمی سے روایت ہے کہ بیت المال میں جو کچھ تھا اس کو حضرت علی ؓ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر حکم دیا کہ اس میں جھاڑودے دی جائے اوراس میں نماز پڑھی تاکہ قیامت کے دن ان کی گواہ رہے۔ حضرت کلیب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس اصفہان سے مال آیا تو انھوں نے اس کے ساتھ حصے کیے، اس میں ایک روٹی بھی تھی اس کے بھی سات ٹکڑے کیے اورہر حصے پر ایک ایک ٹکڑاتقسیم کیا، پھر قرعہ ڈالاکہ ان میں کس کوکون ساحصہ دیا جائے۔ ان کے محاسنِ اخلاق میں ایک چیز یہ ہے کہ وہ معاش کی تنگی پر صبر کرتے تھے اوراس کو اپنے لیے گوارا کرلیتے تھے، خود ان سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ ہمارے گھر میں آئیں تو ہمارے بچھانے کے لیے صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی، ضمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کا کام اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے متعلق کیا تھا اوربیرونی انتظامات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کیے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح کیا تو جہیز میں ایک چادر، چمڑے کا ایک گدا جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں، ایک چکی، ایک مشک اوردو گھڑے دیے، ایک دن حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام آتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو، انھوں نے کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں بھی آبلے پڑ گئے؛چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، بیٹی کس غرض سے آئی ہو؟ بولیں سلام کرنے؛لیکن سوال کرنے سے ان کو شرم آئی اور واپس چلی گئیں، حضرت علی ؓ نے پوچھا، تم نے کیا کیا؟ بولیں سوال کرنے میں مجھے شرم آئی، دوبارہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا اورحضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، خدانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام اورمال بھیجا ہے، ہم کو بھی ایک خادم عنایت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ میں تم کو دوں اوراہل صفہ کو فاقہ مستی کی حالت میں چھوڑ دوں میں ان لونڈی غلاموں کو فروخت کرکے ان کی قیمت ان پر صرف کروں گا، یہ جواب پاکر دونوں لوٹ آئے، ان کی واپسی کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ ؓ چادر اوڑھ کر سوچکی تھیں، یہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ جب سرڈھکتے تھے تو پاؤں اور جب پاؤں ڈھکتے تھے تو سرکھل جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر دونوں اُٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو میں ایسی چیز نہ بتلا دوں جو اس چیز سے بہتر ہے جس چیز کو تم مجھ سے مانگ سکتے ہو، دونوں نے کہا، ہاں!فرمایا، مجھ کو جبرئیل نے چند کلمے سکھائے اور کہا کہ دونوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح اور دس بار تحمید اور دس بار تکبیر کہہ لیا کرو، اس طرح تم دونوں سوتے وقت 33 بار تحمید اور 34 بار تکبیر کہہ لیا کرو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یہ کلمے سکھائے، اس وقت سے میں نے ان کو نہیں چھوڑا، ابن کواء نے کہا کہ صفین کی رات میں بھی نہیں؟فرمایا، نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ایک مرتبہ مجھے سخت بھوک لگی، کھانے کو کچھ نہ تھا اس لیے عوالی میں مزدوری کی تلاش میں نکلا، ایک عورت ملی، جس نے ڈھیلے اکھٹے کیے تھے، میں نے خیال کیا کہ غالبا ان کو وہ بھگوانا چاہتی ہے؛چنانچہ میں نے ہر ڈول پر ایک کھجور اجرت طے کی اور 16 ڈول پانی بھرے جس سے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، اس نے مجھے سولہ کھجوریں گن کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ ہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو میرے ساتھ کھایا۔ [387][388][389]
خانگی زندگی
حضرت علی ؓ کی مستقل خانہ داری کی زندگی اس وقت سے شروع ہوئی؛ جبکہ سیدہ جنت حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ ایک علاحدہ مکان میں رہنے لگے، اس سے پہلے آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے کسب معاش کے لیے آپ کو کسی جدوجہد کی ضرورت نہ پڑتی تھی، ہجرت کے بعد جب حضرت فاطمہ ؓ سے شادی قرارپائی تو ولیمہ کی فکر دامن گیر ہوئی؛چنانچہ قرب وجوار کے جنگل سے اونٹ پر گھاس لاکر بیچنے کا ارادہ کیا، حضرت حمزہ ؓ نے ایک روز ان کی اجازت کے بغیر اونٹ کو ذبح کرکے لوگوں کو کھلادیا، حضرت علی ؓ نے دیکھا تو نہایت صدمہ ہوا، کیونکہ آپ کے پاس صرف دواونٹ تھے، [390]آخر زرہ بیچ کر سامان کیا، اس زرہ کی قیمت بھی روپیہ سواروپیہ سے زیادہ نہ تھی۔ شادی کے بعد جب علاحدہ مکان میں رہنے لگے تو حصول معاش کی فکر لاحق ہوئی، چونکہ شروع سے اس وقت تک آپ کی زندگی سپاہیانہ کاموں میں بسر ہوئی تھی اس لیے کسی قسم کا سرمایہ پاس نہ تھا، محنت مزدوری اورجہاد کے مالِ غنیمت پر گزراوقات تھی، خیبر فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک قطعہ زمین جاگیر کے طور پر عنایت فرمایا، حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں باغ فدک کا انتظام بھی ان کے حوالہ کر دیا اور دوسرے صحابہ ؓ کی طرح ان کے لیے بھی پانچ ہزار درہم (ایک ہزارروپیہ) سالانہ کا وظیفہ مقرر فرمایا، خلیفہ ثالث کے بعد جب مسند نشین خلافت ہوئے تو بیت المال سے بقدر کفاف روزینہ مقرر ہو گیا جس پر آخری لمحہ حیات تک قانع رہے۔ مسند کی ایک روایت میں ہے حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور آج میرا یہ حال ہے کہ چالیس ہزار سالانہ میری زکوٰۃ کی رقم ہوتی ہے۔[391] اس واقعہ میں اورآپ کی عسرت اورفقروفاقہ کی روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس لیے کہ آپ کی اس آمدنی کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں صرف ہوتا تھا اورتمول کے دور میں بھی ذاتی اورخانگی فقروفاقہ کا وہی عالم رہتا تھا۔ کبھی کبھی خانہ داری کے معاملات میں حضرت فاطمہ ؓ سے رنجش بھی ہوجاتی تھی؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ درمیان میں پڑ کر صفائی کرادیتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے ان پر کچھ سختی کی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر چلیں، پیچھے پیچھے حضرت علی ؓ بھی آئے، حضرت فاطمہ ؓ نے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیٹی!تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ کون شوہر اپنی بی بی کے پاس خاموش چلا آتا ہے؟ حضرت علی ؓ نہایت متاثر ہوئے اور انھوں نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا اب میں تمھارے خلافِ مزاج کوئی بات نہ کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو حضرت فاطمہ ؓ کو اس قدر غم ہواکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھہ مہینے زندہ رہیں اوراس عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی ان کا دل پثر مردہ شگفتہ نہ ہوا، حضرت علی ؓ بھی ان کی دلدہی اور تسلی کے خیال سے خانہ نشین رہے اورجب تک وہ زندہ رہیں گھر سے باہر قدم نہ رکھا، حضرت فاطمہ ؓ کے بعد متعدد شادیاں کیں اوران بیویوں سے بھی لطف ومحبت کے ساتھ پیش آئے، دوسری بیویوں سے جو اولادیں تھیں ان میں حضرت محمد بن حنیفہ ؓ سے بھی نہایت محبت تھی؛چنانچہ وفات کے وقت حضرت امام حسن ؓ سے ان کے ساتھ لطف ومحبت سے پیش آنے کی خاص طور پر وصیت فرمائی تھی۔
غذا و لباس
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے غیر معمولی زہد وورع نے ان کی معاشرت کو نہایت سادہ بنادیا تھا، کھانا عموماً روکھا پھیکا کھاتے تھے، عمدہ لباس اور قیمتی لباس سے بھی شو ق نہ تھا، عمامہ بہت پسند کرتے تھے؛چنانچہ فرمایا کرتے تھے‘‘ العمامۃ یتجان العرب’’ یعنی عمامے عربوں کے تاج ہیں کبھی کبھی سپید ٹوپی بھی پہنتے تھے، کرتے کی آستین اس قدر چھوٹی ہوتی کہ اکثر ہاتھ آدھے کھلے رہتے تھے، تہبند بھی نصف ساق تک ہوتی تھی کبھی صرف ایک تہبند اور ایک چادر ہی پر قناعت کرتے اور اسی حالت میں فرائض خلافت ادا کرنے کے لیے کوڑا لے کر بازار میں گشت کرتے نظر آتے تھے، غرض آپ کو ظاہری طمطراق کا مطلق شوق نہ تھا، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، لوگوں نے اس کے متعلق عرض کیا تو فرمایا یہ دل میں خشوع پیدا کرتا ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک اچھا نمونہ ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں، بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اس پر‘‘اللہ الملک’’ نقش تھا۔ حضرت علی ؓ پر سردی گرمی کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا کیونکہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٔخیبر میں ان کے لیے دعا فرمائی تھی، اللہم اذھب عنہ الحر والبرد یعنی اس سے گرمی و سردی دورکر، اس کا یہ اثر تھا کہ وہ جاڑے کا کپڑا گرمی میں اور گرمی کا کپڑا جاڑے میں زیب تن فرماتے اور اس سے کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ [392]
حلیہ
قدمیانہ، رنگ گندم گوں، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ پررونق و خوبصورت، سینہ چوڑا اس پر بال، بازو اور تمام بدن گٹھا ہوا، پیٹ بڑا اور نکلا ہوا ، سر میں بال نہ تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ سر کے بال کے نیچے نجاست ہوتی ہے اسی لیے میں بالوں کا دشمن ہوں، ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ کے دو گیسو پڑے دیکھے، مگر زیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ کے سر میں بال نہ تھے، ریش مبارک بڑی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک مونڈے سے دوسرے مونڈھے تک پھیلی تھی، آخر میں بال بالکل سپید ہو گئے تھے اور شاید تمام عمر میں ایک مرتبہ بالوں میں مہندی کا خضاب کیا تھا۔
ازواج و اولاد
سیدہ جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے بعد جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور ان سے نہایت کثرت کے ساتھ اولاد ہوئیں، تفصیل حسب ذیل ہے:
حضرت فاطمہ ؓ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں، ان سے ذکور میں حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، محسن رضی اللہ عنہ اور لڑکیوں میں زینب کبریٰ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم کبری رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں، محسن ؓ نے بچپن ہی میں وفات پائی۔
ام النبین بن حزام
ان سے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان پیدا ہوئے، ان میں سے عباس کے علاوہ سب حضرت امام حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ لیلیٰ بن مسعود: انھوں نے عبید اللہ اور ابوبکر کو یاد گار چھوڑا لیکن ایک روایت کے مطابق یہ دونوں بھی حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ شہید ہوئے۔
اسماء بنت عمیس
ان سے یحییٰ اور محمد اصغر پیدا ہوئے
صہبا یاام حبیب بنت ربیعہ
یہ ام ولد تھیں، ان سے عمر اوررقیہ پیداہوئیں، عمر نے نہایت طویل عمر پائی اور تقریباً پچاس برس کے سن میں ینبوع میں وفات پائی۔ امامہ بنت ابی العاص:یہ حضرت زینب ؓ کی صاحبزادی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں، ان سے محمد اوسط تولد ہوئے۔
خولہ بنت جعفر
محمد بن علی، جو محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں، انھی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
ام سعید بنت عروہ
ان سے ام الحسن اور رملۂ کبریٰ پیدا ہوئیں۔
محیاۃ بنت امرء القیس
ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی، مگر بچپن ہی میں قضا کر گئی۔
لونڈیوں سے دیگر اولاد
متذکرہ بالابیویوں کے علاوہ متعدد لونڈیاں بھی تھیں اوران سے حسب ذیل لڑکیاں تولد ہوئیں: ام ہانی، میمونہ، زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، فاطمہ، امامہ، خدیجہ ام الکرام، ام سلمہ، ام جعفر، جمانہ، نفیسہ۔ غرض حضرت علی ؓ کے سترہ لڑکیاں اورچودہ لڑکے تھے، جن سے سلسلہ نسل جاری رہا، ان کے نام یہ ہیں: امام حسن، امام حسین، محمد بن حنفیہ، عمر (رضی اللہ عنہم)۔ [393][394][395]
حوالہ جات
بیرونی روابط
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.