محمد کے منہ بولے بیٹے From Wikipedia, the free encyclopedia
حضور سیدنا زید بن حارثہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ آپ کو بچپن میں اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا تھا۔ کئی ہاتھوں سے بکتے ہوئے آپ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے خرید لیا اور اپنی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی نذر کر دیا حضرت خدیجہ نے اس غلام کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نذر کر دیا یہ درحقیقت ایک آزاد عیسائی خاندان کے لڑکے تھے۔ اس دوران آپ کے والد کو بھی آپ کی خبر پہنچ گئی۔ آپ کے والد حارث اور چچا کعبہ آپ کو لینے مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منہ مانگی رقم کی پیشکش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، "اگر زید تمھارے ساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔" زید نے اپنے والدین کی بجائے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ یہ دیکھ کر آپ کے والد خفا ہوئے اور کہا کہ تم آزادی کی زندگی کو غلامی پر ترجیع دیتے ہو زید نے کہا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ بات دیکھی کہ ان کے لیے میں باپ تو کیا کائنات چھوڑ سلتا ہوں۔ یہ سن کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زید کو لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور علان فرما دیا کہ لوگوں سن لو میں زید کو آج سے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بناتا ہوں.اس کے بعد زید بن حارث کی بجائے زید بن محمد کہا جانے لگا۔ یہ دیکھ کر زید کے چچا اور باپ حارث بہت خوش ہوئے اور بخوشی واپس چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا برتاؤ اپنے ملازموں کے ساتھ بھی کیسا ہوتا ہوگا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے زید ہیں۔آپ تمام غزوات میں شریک تھے۔اور غزوہ مؤتہ میں شہادت نوش فرمائی۔
زید بن حارثہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 581ء جزیرہ نما عرب |
وفات | سنہ 629ء (47–48 سال)[1][2] موتہ |
زوجہ | ام ایمن [3] زینب بنت جحش ام کلثوم بنت عقبہ درہ بنت ابی لہب |
اولاد | اسامہ بن زید [1][3] |
والد | Harithah ibn shrahel |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر ، جنگ موتہ |
درستی - ترمیم |
زید نام ، ابو اسامہ کنیت، حب رسول اللہ(ﷺ ) لقب،والد کا نام حارثہ اور والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ تھا، پورا سلسہ نسب یہ ہے،زید بن حارثہ بن شراحیل یا شرحبیل بن کعب ابن عبدالعزیٰ بن امرؤالقیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرہ بن تغلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ۔[4]
گذشتہ بالانسب سے ظاہر ہوا ہوگا کہ حضرت زید ؓ کے والد حارثہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا، ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بنی معن سے تھیں جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی، وہ ایک مرتبہ اپنے صغیر السن بچے حضرت زید ؓ کو ساتھ لے کر اپنے میکہ گئیں، اسی اثناء میں بنوقین کے سوار جوغارتگری سے واپس آ رہے تھے۔ اس نونہال کو خیمہ کے سامنے سے اٹھالائے اور غلام بناکر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا، ستارہ اقبال بلند تھا، غلامی میں بھی سیادت مقدر تھی، حکیم بن حزام نے چار سو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ کی خدمت میں پیش کیا، جن کی وساطت سے سرور دوعالم ﷺ کی غلامی کا شرف نصیب ہوا جس پر ہزاروں آزادیاں اور تمام دنیا کی شاہنشاہیاں قربان ہیں۔ [5]
حضرت زید ؓ کے والد حارثہ بن شرجیل کو قدرۃ اپنے لخت جگر کے گم ہو جانے کا شدید غم ہوا، آنکھوں سے سیل اشک بہائے، دل آتشِ فراق سے بھڑک اُٹھا اور محبت پدری نے الفاظ کی رنگ آمیزی سے اس طرح اس رنج والم کا نقشہ کھینچا: بکیت علی زید ولم اورمافعل أ حیٌّ فیرجی ام اتی دونہ الاجل میں نے زید پر گریہ وزاری کی لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا ہو گیا،آیا زندہ ہے جس کی امید رکھی جائے یا اسے موت آگئی۔ فواللہ ماادری وان کنت سائلا اغالک سھل الارض ام غالک الحیل خدا کی قسم میں جانتا ہوں اگرچہ پوچھتا بھی ہوں کہ کیا تجھے نرم زمین نگل گئی یا پہاڑ کھا گیا؟ فیالیت شعری ھل لک الدھررجعۃ نحسبی من الدنیا رجوعک لی بحل کاش ! میں جانتا کہ آیا تیرا آنا کبھی ممکن ہے؟پس تیرا واپس آنا ہی میرے لیے دنیا میں کافی ہے۔ تذکرینہ الشمس عند طلوعھا وتعرض ذکراہ اذا قارب الطفل آفتاب اپنے طلوع ہونے کے وقت اس کو یاد دلاتا ہے اور جب غروب کا وقت قریب آجاتا ہے تو اس کی یاد کو پھر تازہ کردیتا ہے۔ وان ھبت الارواح ھیجن ذکرہ فیاطول ماحزنی علیہ وپاوجل باد بہاری کی لپٹ اس کی یاد کو برانگخیتہ کر دیتی ہے،آہ! مجھے اس پر کس قدر شدید رنج و الم ہے۔ ساعمل نصر العیش فی الارض جاھدا ولااسام التطواف اوتسام الابل عنقریب میں اونٹ کی طرح چل کر تمام دنیا چھان ماروں گا،میں اس آوارہ گردی سے اپنی زندگی بھر نہیں تھکوں گا یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے گا۔ حیاتی اوتاتی علی منتی وکل امر عفانٍ وان غرہ الاصل یا مجھ پر موت آجائے،ہر آدمی فانی ہے،اگرچہ سرابِ امید اسے دھوکا دے۔ واوصی بہ قیسا وعمرا کلیھما واوصی یزید ثم من بعدھم جبل میں قیس اور عمر (یہ دونوں زید کے بھائی تھے) دونوں کو اس کے جستجو کی وصیت کرتا ہوں،اور یزید کو پھر ان کے بعد جبل کو وصیت کرتا ہوں۔ جبل سے مراد جبلہ بن حارثہ ہیں جو حضرت زید ؓ کے بڑے بھائی تھے اور یزید ان کے اخیافی بھائی تھے۔ ایک سال بنی کلب کے چند آدمی حج کے خیال سے مکہ آئے تو انھوں نے اسی یوسف گم گشتہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور یعقوب صفت باپ کا ماجرائے غم کہہ سنایا، بولے"یقیناً انھوں نے میری فرقت میں نوحہ خوانی کی ہوگی،تم میری طرف سے میرے خاندان والوں کو یہ اشعار سنادینا۔ احن الی قومی وان کنت نائیا بانی قطین البیت عندالمشاعر میں اپنی قوم کا مشتاق ہوں گو ان سے دور ہوں،میں خانہ کعبہ میں مشعر حرام کے قریب رہتا ہوں نکفوامن الوجدالذی قدشماکم ولاتعملوافی الارض نص الاباعر اس لیے اس غم سے باز آجاؤ، جس نے تم کو پرالم بنا رکھا ہو اور اونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو۔ فانی بحمداللہ فی خیر اسرۃ کدام معدِ کابرابعد کابر الحمد للہ کہ میں بنی بعد کے ایک معزز اور اچھے خاندان میں ہوں جو پشتہا پشت سے معزز ہے۔
بنی کلب کے زائروں نے واپس جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو تعجب سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وفور یاس نے یک بیک یقین نہ ہونے دیا"بولے" رب کعبہ کی قسم کیا میرا ہی نور نظر تھا؟ ان لوگوں نے جب تفصیل کے ساتھ حلیہ، جائے قیام اور مربی کے حالات بیان کیے تو اسی وقت اپنے بھائی کعب بن شرجیل کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف چل کھڑے ہوئے اور حضرت سرورِ کائنات ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بصد منت ولجاجت عرض کیا اے ابن عبد اللہ! اے ابن عبد المطلب!اے اپنی قوم کے رئیس زادہ! تم اہل حرم اور اس کے مجاور ہو، مصیبت زدوں کی دستگیری کرتے ہو، قیدیوں کو کھانا دیتے ہو، ہم تمھارے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو آزاد کرکے ہم کو رہینِ منت بنادو،زرِ فدیہ جس قدر چاہولو، ہم بیش قرار معاوضہ دینے کو تیار ہیں، ارشاد ہوا، وہ کون ہے بولے"زید بن حارثہ ؓ! آنحضرت ﷺ نے حضرت زید کا نام سنا تو ایک لمحہ تفکر کے بعد فرمایا، کیا اس کے سوا تمھاری کوئی اور حاجت نہیں؟ عرض کیا"نہیں" فرمایا، بہتر یہ ہے کہ زید ؓ کو بلا کر اختیار دو، اگر وہ تمھیں پسند کرے تو تمھارا ہے اور اگر مجھے ترجیح دے تو خدا کی قسم میں ایسا نہیں ہوں کہ اپنے ترجیح دینے والے پر کسی کو ترجیح دوں، حارثہ اور کعب نے اس شرط پر شکریہ کے ساتھ رضا مندی ظاہر کی،حضرت زید ؓ بلائے گئے، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا، تم ان دونوں کو پہچانتے ہو؟ عرض کیا ہاں! یہ میرے باپ اور چچا ہیں،آپ نے ان کے ہاتھ میں قرعہ انتخاب دے کر فرمایا،میں کون ہوں؟اس سے تم واقف ہو،میری ہم نشینی کا حال بھی تم کو معلوم ہے، اب تمھیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو،حضرت زید ؓ کو شاہنشاہِ کونین ؓ کی غلامی میں جو لطف ملاتھا اس پر صدہا آزادیاں نثار تھیں، بولے میں ایسا نہیں ہوں جو حضور ﷺ پر کسی کو ترجیح دوں،آپ ﷺ ہی میرے ماں باپ ہیں،حضرت زید ؓ کی اس مخلصانہ وفاشعاری نے ان کے باپ اور چچا کو محوِ حیرت کر دیا، تعجب سے بولے ، زید ؓ، افسوس تم آزادی،باپ چچا اور خاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو، فرمایا،ہاں! مجھے اس ذات پاک میں ایسے ہی محاسن نظر آئے ہیں کہ میں اس پر کسی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتا۔
حضرت زید ؓ نے اپنی غیر متزلزل وفاشعاری سے آقائے شفیق کے دل میں محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو مشتعل کر دیا، آنحضرت ﷺ نے خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے کر اعلان فرمایا کہ زید آج سے میرا فرزند ہے، میں اس کا وارث ہوں گا، وہ میرا وارث ہوگا، اس اعلان سے ان کے باپ اور چچا کے افسردہ دل گل شگفتہ کی طرح کھل گئے گو والد کو مفارقت گوارانہ تھی؛ تاہم اپنے لختِ جگر کو ایک شفیق و معزز باپ کے آغوشِ عاطفت میں دیکھ کر اطمینان ہو گیا اور اطمینان ومسرت کے ساتھ واپس گئے۔
اس اعلان کے بعد حضرت زیدؓ حضور ﷺ ہی کے انتساب کے ساتھ زید بن محمد کے نام سے زبان زد عام و خاص ہوئے، یہاں تک کہ جب اسلام کا زمانہ آیا اور قرآن پاک کی الہامی زبان نے صرف اپنے نسبی اٰباء کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے۔ [6]
آنحضرت ﷺ کو خلعت نبوت عطا ہوا تو حضرت زید ؓ نے ابتدا ہی میں شرفِ بیعت حاصل کیا، محققین کا فیصلہ ہے کہ وہ غلاموں میں سب سے پہلے مومن تھے، حضرت حمزہ ؓ ایمان لائے تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے بھائی چارہ کرا دیا، ان دونوں میں اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ حضرت حمزہ ؓ غزوات میں تشریف لے جاتے تھے تو ان ہی کو اپنا وصی بنا کر جاتے تھے۔ [7]
حضرت ام ایمنؓ آنحضرت ﷺ کی آیا اور کنیز تھیں، آپ ﷺ ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے،اور اماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے، ایک روز آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص وفوریاس کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو ام ایمن ؓ سے نکاح کرنا چاہیے، حضرت زیدؓ نے جو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان سے نکاح کر لیا، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ؓ جو اپنے والد کے بعد حب رسول اللہ ﷺ کے لقب سے مشہور ہوئے، ان ہی کے بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے۔ [8]
مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آنحضرت ﷺ کی طرح یہ بھی حضرت کلثوم بن ہدم ؓ کے مہمان ہوئے، حضرت اسید بن حضیر ؓ انصاری جو قبیلہ عبدالاشہل کے معزز رئیس تھے، ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے، وہ اب تک خاندانِ نبوت کے ایک ممبر کی طرح آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر آپﷺ نے ان کے لیے ایک علاحدہ مکان مخصوص فرما دیا اور اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کر دیا، اس طرح درحقیقت یہ دوسرا طرۂ افتخار تھا جو حضرت زید ؓ کے دستار فضل پر نصب ہوا، لیکن یہ نکاح زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا، نسبی وخاندانی عدم توازن نے دونوں کے سطح مزاج میں نشیب وفراز پیدا کر دیا، حضرت زید ؓ نے دربارِ نبوت میں بار بار ناموافقت کی شکایت کی اور بالآخر طلاق دینے پر مجبور ہو گئے، انقضائے عدت کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کی معرفت پیام نکاح بھیجا تو انھوں نے کہا،جب تک خدا کی طرف سے کچھ حکم نہ آئے میں کچھ نہیں کرسکتی، چنانچہ اس کے بعد ہی اس آیت نے ان کو امہات المومنین میں داخل کر دیا۔ [9] فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا جب زید ؓ نے حاجت پوری کی تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا حضرت زید ؓ چونکہ آنحضرت ﷺ کے متبنیٰ اور زید بن محمد کے نام سے مشہور تھے اس لیے منافقین نے اس واقعہ کو نہایت ناگوار پیرایہ میں شہرت دی اور کہنے لگے، محمد ایک طرف تو بہو سے نکاح کرنا حرام قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے لڑکے زیدؓ کی بیوی سے نکاح کرتے ہیں لیکن قرآن پاک نے اس مفسدہ پردازی کا اس طرح پردہ فاش کر دیا۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ [10] محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ؛بلکہ وہ خدا کے رسول اور انبیا کی مہر ہیں اورمسلمانوں کو حکم ہوا۔ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَائہِمْ ہُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ [11] لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو، یہ خدا کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی وہ اپنے والد حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ ؓ مشہور ہوئے۔ [12]
حضرت زید ؓ تیر اندازی میں مخصوص کمال رکھتے تھے ، ان کا شمار ان مشاہیر صحابہ میں تھا جو اس فن میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے، معرکۂ بدر سے غزوۂ موتہ تک جس قدر اہم و خون ریز معرکے پیش آئے سب میں پامردی و شجاعت کے ساتھ شریکِ کارزار ہوئے ، غزوۂ مریسیع میں چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مدینہ میں اپنی جانشینی کا فخر بخشا اس لیے اس مہم میں حصہ نہ لے سکے۔ [13]
مشہور معرکوں کے علاوہ اکثر چھوٹی چھوٹی مہمات خاص ان کی سپہ سالاری میں سرہوئیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جس فوج کشی میں زید ؓ شریک ہوتے تھے، اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا تھا۔[14]اس طرح نو دفعہ سپہ سالار بنا کر بھیجے گئے،[15] ان مہمات میں سے پہلی مہم سریہ قردہ تھی جس میں انھوں نے غنیم کو نہایت کامیابی کے ساتھ شکست دی،اور بہت سے اونٹ، مال واسباب اور دشمن کے ایک سردار فرات بن حیان عجلی کو گرفتار کر کے لائے۔ [16] ربیع الثانی6ھ میں بنی سلیم کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مقام جموم میں مسکن گزین تھے، اس مہم میں بھی حضرت زید ؓ کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، بہت سے اونٹ بکریاں اور قیدی پکڑ کر لائے۔ [17] اسی سال قریش کے ایک قافلہ کو جو شام سے واپس آرہا تھا روکنے کا حکم ہوا، حضرت زید ؓ ایک سو ستر سواروں کے ساتھ یکایک مقام عیص میں اس قافلہ پر جا پڑے اور تمام اہل قافلہ کو مع سامان گرفتار کرلائے، مال غنیمت میں چاندی کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا جو صفوان بن امیہ کے لیے شام سے آرہا تھا، قیدیوں میں ابو العاس بن الربیع آنحضرت ﷺ کے داماد بھی تھے،جنھوں نے اپنی اہلیہ اور حضرت سرورِ کائنات ﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کی پناہ حاصل کر کے مخلصی پائی۔ [18] اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں مقام طرف پر حملہ آوار ہوئے، لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی کیونکہ غنیم پہلے ہی خائف ہو کر بھاگ گیا تھا،[19]اس کے بعد مقام حسمیٰ پر فوج کشی ہوئی،پانچ سو جانباز مجاہدان کے زیرکمان تھے، حضرت زید ؓ احتیاط کے خیال سے دن کو پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے قطع منازل کرتے تھے،یہاں تک کہ ایک روز یکایک غنیم پر جا پڑے،ھنیذ اور اس کے خاندان کو جس نے دحیہ کلبی ؓ کو قسطنطنیہ کی سفارت سے واپس آتے وقت لوٹ لیا تھا، تہِ تیغ کیا اور ایک ہزار اونٹ ،پانچ ہزار بھیڑ بکریاں اور بہت سے قیدی گرفتار کرکے زید بن رفاعہ کے ساتھ دربارِ نبوت میں ارسال کیے، چونکہ اس قوم کے ایک ممبر ابو یزید بن عمرو نے دور اندیشی سے پہلے ہی پہنچ کر اسلام قبول کرلیاتھا ،اس لیے ان کی سفارش پر تمام قیدی رہا کردئے گئے اور مالِ غنیمت واپس کر دیا گیا،[20] پھر اسی سال ماہِ رجب میں وادی قری کی مہم پر بھیجے گئے اور کامیابی کے ساتھ واپس آئے۔ ماہ رمضان المبارک 6ھ میں حضرت زید ؓ ایک اسلامی کاروانِ تجارت کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا بہت ساسامانِ تجارت ان کے ساتھ تھا،مدینہ سے سات منزل دور وادیِ قری کے نواح میں پہنچے تو بنی بدر کی ایک رہزن وغارت پیشہ جماعت نے تمام قافلہ کو لوٹ لیا اور کلمہ گویانِ توحید کو سخت اذیتیں پہنچائیں،حضرت زید ؓ بمشکل جان بچا کر مدینہ واپس آئے اور دربارِ نبوت میں اس واقعہ کی اطلاع دی، چونکہ اس قسم کے متعدد واقعات پیش آچکے تھے، اس لیے حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ اس قبیلہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، حضرت زید ؓ کمال احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتے ہوئے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے یکایک ان ڈاکوؤں پر جاپڑے اور قرار واقعی سزا دے کر مدینہ واپس آئے،انھوں نے آستانہ نبوت پر پہنچ کر دستک دی تو آنحضرت ﷺ جس حالت میں تھے اسی حالت میں باہر تشریف لے آئے اور جوشِ مسرت سے گلے لگاکر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور دیر تک مفصل کیفیت دریافت فرماتے رہے۔ [21]
موتہ دمشق کے قریب ایک مقام کا نام تھا، حضرت حارث بن عمیر ازدی ؓ جو شاہِ بصریٰ کے دربار میں سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آ رہے تھے، اسی مقام پر شرجیل ابن عمر غسانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے ، یہ پہلا موقع تھا کہ دربارِ رسالت کے ایک قاصد کے ساتھ اس قسم کی جسارت کی گئی،[22] آنحضرت ﷺ نے ان کے انتقام کے لیے تین ہزار مجاہدین کی جمعیت فراہم کر کے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوائے قیادت عطا کیا اور فرمایا اگر زید بن حارثہ ؓ شہید ہوں تو جعفر طیار ؓ اور ان کے بعد عبد اللہ بن رواحہ ؓ اس جماعت کے امیر ہوں گے،[23]حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ چونکہ اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ امارت کا طغرائے امتیاز ان کے سینہ پر آویزاں ہوگا اس لیے انھوں نے کھڑے ہوکر عرض کیا یارسول اللہ!میرا کبھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ ﷺ زید ؓ کو مجھ پر امیر بنائیں گے، ارشاد ہوا، اس کو جانے دو تم نہیں جان سکتے کہ بہتر کیا ہے۔ [24]
جمادی الاولیٰ 8ھ میں یہ مہم روانہ ہوئی،چونکہ غنیم کو اس فوج کشی کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی،اس لیے ایک لاکھ کا ٹڈی دل لشکر اُمنڈ آیا تھا، لیکن حضرت زید ؓ نے اس کثرت کی پروا نہ کی اور علم سنبھال کر پیادہ پادشمن کی صف میں گھس گئے،ان کے اتباع میں دوسرے سردارانِ فوج نے بھی ہلہ کر دیا، دیر تک گھمسان کی جنگ رہی،اس حالت میں نیزہ کے ایک وارنے اسلای سالارِ فوج یعنی حضرت خیرالانام ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کو شہید کیا، ان کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت جعفر طیار ؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے علم سنبھالا اور شدید کشت وخون کے بعد واصلِ بحق ہوئے ،ان کے بعد حضرت خالد سیف اللہ نے علم ہاتھ میں لیا اور غازیانِ دین کو مجتمع کر کے ایک ایسا حملہ کیا کہ غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ [25] آنحضرت ﷺ نے میدانِ جنگ سے اطلاع آنے کے قبل ہی لوگوں کو امرائے فوج کی خبر شہادت سنادی اور وفور غم سے آبدیدہ ہو گئے، [26] حضرت زید بن حارثہ ؓ کی ایک صاحبزادی شفیق باپ کا سایہ اُٹھ جانے سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، تو آپ بھی ضبط نہ فرما سکے اور اس قدر روئے کہ گلو گرفتہ ہو گئے، حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا"یارسول اللہ! یہ کیا ہے فرمایا یہ جذبۂ محبت ہے۔ [27]
حضرت سرورِ کائنات ﷺ کو اپنے محبوب و وفا شعار غلام کی مفارقت کا شدید غم تھا،حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ انتقام پر مامور فرمایا؛ چونکہ وہ نہایت کمسن تھے اس لیے بعض نے ان کی سیادت پر ناپسندیدگی ظاہر کی آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تم لوگ پہلے جس طرح اس کے باپ کی سرداری پر طعن وطنز کرتے تھے اسی طرح اب اس کی امارت کو ناپسند کرتے ہو، خدا کی قسم زید سزاوارِ امارت ومحبوب ترین شخص تھا،اور اس کے بعد اسامہ ؓ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ [28] یہ مہم ابھی روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ آفتاب رِسالت غروب ہو گیا؛ لیکن خلیفۂ اول نے ہجوم مصائب و صعوبات گوناگوں کے باوجود کوچ کا حکم دے دیا اور حضرت اسامہ ؓ اپنے پدر شفیق کے قاتلوں سے انتقام لے کر غیر معمولی کامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔
حضرت زید ؓ کے صحیفۂ اخلاق میں وفاشعاری کاباب سب سے نمایاں ہے، گذشتہ واقعات سے اس کا اندازہ ہوا ہوگا،آقائے نامدار کی رضامندی ان کا پرلطف مقصدِ حیات تھا ،حضرت ام ایمن ؓ گو ایک معمر عورت تھیں تاہم انھوں نے محض اس لیے ان سے نکاح کر لیا کہ آنحضرت ﷺ ان کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ [29] حضرت رسالت مآب ﷺ اوران کے متعلقین کا بے حد ادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے،حضرت زینب بنت جحش ؓ کے پاس جن کو انھوں نے ناموافقت کے باعث طلاق دے دی تھی، آنحضرت ﷺ کی طرف سے پیام لے کر گئے تومحض اس خیال سے کہ آپ ﷺ نے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی ہے تعظیماً دیکھ نہ سکے اور جو کچھ کہنا تھا منہ پھیر کر کہا۔ [30] گو حضرت زید بن حارثہ ؓ کے اخلاقی کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی تاہم درحقیقت ان کے وہ اوصاف حسنہ و محاسن جمیلہ ہی تھے جس نے ان کو اوران کی اولاد کو حضرت رسالت مآب ﷺ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب بنادیا تھا، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو آپ ان ہی کو اپنا جانشین بناتے،[31]حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک دفعہ ان کے پوتے محمد بن اسامہ کو مدینہ کی مسجد میں دیکھا تو تعظیم سے گردن جھکا لی اور بولے اگر رسول اللہ ﷺ دیکھتے تو اس کو بھی محبوب رکھتے۔ [32]
حضرت زید ؓ کا حلیہ یہ تھا، قد کوتاہ ، ناک پست اور رنگ گہرا گندمی 54 یا 55 برس کی عمر میں شہادت پائی۔ [33]
مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں ،بیویوں کے نام یہ ہیں: ام ایمن، ام کلثوم بنت عقبہ، درہ بنت لہب، ہند بنت العوام، زینب بنت جحش ، ناموافقت کے باعث ان کو طلاق دے دی اور اس کے بعد وہ امہات المومنین میں شامل کی گئیں۔ [34]
دو لڑکے اسامہ بن زید ،زید بن زید اور ایک لڑکی رقیہ پیدا ہوئی ، لیکن حضرت اسامہ ؓ کے سوا مؤخرالذکر دونوں بچوں نے بچپن ہی میں داغِ مفارقت دیا۔ [35]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.