شیعیانِ حیدر و صحابیِ رسول From Wikipedia, the free encyclopedia
محمد بن ابی بکر ابوبکر صدیق کے بیٹے ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس تھا۔ یہی محمد بن عبد اللہ کہلاتے ہیں۔ آپ کی پرورش علی بن ابی طالب کے گھر میں ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابیِ رسول اور حضرت امام علی المرتضیٰ کے جانثار ساتھیوں میں سے ہیں۔
محمد بن ابوبکر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: محمد بن أبي بكر) | |||||||
![]() | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 631ء مدینہ منورہ | ||||||
وفات | سنہ 658ء (26–27 سال) فسطاط | ||||||
وجہ وفات | قتل | ||||||
قاتل | معاویہ بن حدیج | ||||||
شہریت | خلافت راشدہ | ||||||
اولاد | قاسم بن محمد بن ابی بکر | ||||||
والد | ابوبکر صدیق | ||||||
والدہ | اسماء بنت عمیس | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
مناصب | |||||||
خلافت راشدہ میں والئ مصر (6 ) | |||||||
برسر عہدہ فروری 658 – جولائی 658 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، والی | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | خلافت راشدہ | ||||||
شاخ | خلافت راشدہ کی فوج | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ جمل ، جنگ صفین | ||||||
درستی - ترمیم |
محمد بن ابوبکر کی ولادت 25 ذوالقعدہ 10ھ کو ذوالحلیفہ میں ہوئی۔ سنن نسائی میں ان کی ولادت کا ذکر ہے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ نے ان کی کنیت ابو القاسم رکھی اور اسی نام سے صحابہ کے دور میں پکارا کرتی تھیں بعد میں جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا نام قاسم رکھا۔
محمد بن عبد الله بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب ابن لؤی القرشی التيمی۔
جب ان کی والدہ اسماء بنت عمیس نے ابوبکر صدیق کے بعد علی المرتضیٰ سے نکاح کیا تو محمد بن ابوبکر ان کے ربیب (وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے ) ہو گئے یہ یحی بن علی اور عبد اللہ بن جعفر کے اخیافی بھائی تھے یہ بڑے ہی عبادت گزار اور صاحب فضل و علم تھے اس لیے امیر المؤمنین انھیں پسند کرتے تھے۔
قتل عثمان رضی اللہ علیہ کے بعد علی المرتضی نے مصر کا والی مقرر کیا۔ علی المرتضی کی شہادت کے بعد عمرو بن العاص نے مصر پر حملہ کیا تو محمد بن ابی بکر کو شکست ہوئی تو انھوں نے ایک غار میں پناہ لی اور پکڑے جانے کے بعد بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور ان کی میت کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ اسی طرح عمرو بن خدیج کے قتل کرنے اور عمرو بن العاص کے بھوکا رکھ کر ہلاک کرنے کی روایات بھی ہیں۔
عائشہ صدیقہ کو ان کی اس طرح شہادت کا علم ہوا تو سخت افسوس ہوا فرماتیں میں اسے اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتی ہوں چونکہ انھیں آگ میں جلایا گیا تھا۔ اسی غم کی وجہ سے اس کے بعد عائشہ نے کبھی بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا۔[2]
محمد بن ابوبکر ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے عثمان غنی کی پالیسیوں اور کار کردگی کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا محاصرہ کیا۔
حسن سے منقول ہے کہ سب سے پہلے محمد بن ابوبکر گھر میں داخل ہوئے اور عثمان غنی کی داڑھی کو پکڑا اور کہا تم نے اللہ کے دین کو کیوں بگاڑا ہے؟ اور سنت رسول کو کیوں برباد کیا ہے؟ تو عثمان نے فرمایا جس طرح تم نے میری داڑھی کو پکڑا ہے اس طرح ابوبکر صدیق پکڑنے والے نہ تھے پس وہ یہ سن کر ان کو چھوڑ دیا اور ان کو کوئی نقصان پہنچائے بغیرباہر نکل گئے۔[3]
جنگ جمل اور صفین میں خلیفہ چہارم علی المرتضی کے ساتھ رہے ایک روایت میں ہے۔
عبد اللہ بن بدیل، جنگ جمل کے دن، ام المؤمنین عائشہ کے پاس پہنچے وہ ہودج میں بیٹھی ہوئی تھیں اور عرض کیا اے ام المومنین آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو یاد ہے کہ میں آپ کے پاس اس دن حاضر ہوا تھا جس دن عثمان غنی کو شہید کیا گیا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ عثمان شہید ہو گئے ہیں اب آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں تو آپ نے فرمایا تھا کہ علی کو لازم پکڑو۔ اللہ کی قسم وہ بدلے نہیں، پس عائشہ خاموش ہوگئیں پھر یہی بات عبد اللہ بن بدیل نے تین دفعہ دہرائی پس وہ خاموش رہیں۔ عبد اللہ بن بدیل نے اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کا حکم دیا تو اونٹنی کی کانچیں کاٹ دی گئیں پس میں اور عائشہ کے بھائی محمد بن ابوبکر اترے اور ان کے ہودج کو اٹھا کر علی کے سامنے رکھ دیا۔ پھر ان کو علی کے حکم سے عبد اللہ بن بدیل کے گھر میں داخل کر دیا۔[4]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.