From Wikipedia, the free encyclopedia
واقعہ غدیر تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے۔ جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم نامی جگہ پر ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ کے دن حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ جس کے بعد تمام بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علیؑ کی بیعت کی۔
حیات
علمی ورثہ
فضائل
اصحاب |
یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند عالم نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیت ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ سے کچھ مدت قبل نازل ہوئی جس میں پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی جس میں خدا نے دین کی تکمیل اور نعمات کی تمامیت کا اعلان کرتے ہوئے دین اسلام کو خدا کا پسندیدہ دین قرار دیا۔
معصومینؑ نے حدیث غدیر کے ساتھ استناد کیا ہے۔ اسی طرح امام علیؑ کے دور سے لے کر موجودہ دور تک کے بہت سے شعرا نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے ہیں۔ اس واقعہ اور حدیث غدیر کے سب سے اہم مستندات میں علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب شامل ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ نے اس دن کو عید قرار دیے ہیں اسی لیے تمام مسلمان بطور خاص، شیعہ اس دن جشن مناتے ہیں۔
فائل:السعید۲.jpg | |
اصول دین (عقائد) | |
---|---|
بنیادی عقائد | توحید • عدل • نبوت • امامت • معاد یا قیامت |
دیگر عقائد | عصمت • ولایت • مہدویت: غیبت • انتظار • ظہور • رجعت • بداء • ...... |
فروع دین (عملی احکام) | |
عبادی احکام | نماز • روزہ • خمس • زکات • حج • جہاد |
غیرعبادی احکام | امر بالمعروف اور نہی عن المنکر • تولا • تبرا |
مآخذ اجتہاد | قرآن کریم • سنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں) • عقل • اجماع |
اخلاق | |
فضائل | عفو • سخاوت • مواسات • ... |
رذائل | كبر • عُجب • غرور • حسد • .... |
مآخذ | نہج البلاغہ • صحیفۂ سجادیہ • ..... |
نمایاں عقائد | |
امامت • مہدویت • رجعت • بدا • شفاعت • توسل • تقیہ • عصمت • مرجعیت، تقلید • ولایت فقیہ • متعہ • عزاداری • متعہ • عدالت صحابہ | |
شخصیات | |
شیعہ ائمہ | امام علیؑ • امام حسنؑ • امام حسینؑ • امام سجادؑ • امام باقرؑ • امام صادقؑ • امام کاظمؑ • امام رضاؑ • امام جوادؑ • امام ہادیؑ • امام عسکریؑ • امام مہدیؑ • |
صحابہ | سلمان فارسی • مقداد بن اسود • ابوذر غفاری • عمار یاسر خواتین: |
شیعہ علما | ادبا • علمائے اصول • شعرا • علمائے رجال • فقہا • فلاسفہ • مفسرین |
مقامات | |
مسجد الحرام • مسجد النبی • بقیع • مسجدالاقصی • حرم امام علی • مسجد کوفہ • حرم امام حسینؑ • حرم کاظمین • حرم عسکریین • حرم امام رضاؑ حرم حضرت زینب • حرم فاطمہ معصومہ | |
اسلامی عیدیں | |
عید فطر • عید الاضحی • عید غدیر خم • عید مبعث | |
شیعہ مناسبتیں | |
ایام فاطمیہ • محرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین | |
واقعات | |
واقعۂ مباہلہ • غدیر خم • سقیفۂ بنی ساعدہ • واقعۂ فدک • خانۂ زہرا کا واقعہ • جنگ جمل • جنگ صفین • جنگ نہروان • واقعۂ کربلا • اصحاب کساء • افسانۂ ابن سبا | |
شیعہ کتب | |
الکافی • الاستبصار • تہذیب الاحکام • من لایحضرہ الفقیہ | |
شیعہ مکاتب | |
امامیہ • اسماعیلیہ • زیدیہ • کیسانیہ | |
رسول خداؐ ہجرت کے دسویں سال، 24 یا 25 ذیقعدہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[1] رسول اللہؐ کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ البلاغ کہلاتا ہے۔
اس وقت امام علی تبلیغ کے لیے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول اللہؐ سے جا ملے۔[2] حج کے اختتام پر رسول خداؐ مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔[3]
ابن مغازلی شافعی، المناقب ص 24۔
نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں فرمایا:
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا یہاں تک کہ سب نے آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا:
ابھی اجتماع منتشر نہیں ہوا تھا کہ جبرائیل دوبارہ نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آیت اکمال نازل کردی؛ جس میں ارشاد ہوا:
اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنینؑ کو مبارکباد پیش کی۔ ابوبکر اور عمر تبریک و تہنیت کہنے والوں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے: بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولٰی كل مؤمن ومؤمنة، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہو گئے۔[4]
مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر ایک خیمہ بپا کیا گیا اور آپؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ آ کر علی علیہ السلام کو امیر المومنین کے عنوان سے سلام کریں اور حتی کہ ازواج رسولؐ نے بھی اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔ [5]
غدیر خم میں حاضر افراد کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تعداد 10000 [6]،بعض نے 12000، بعض نے 17000 [7] اور بعض نے 70000 افراد[8] نقل کی ہے۔
غدیر خم کے مقام پر اجتماع کی گنجائش اور سنہ 10 ہجری میں مدینہ کی آبادی کے پیش نظر نیز مکہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے غدیر خم میں 10000 افراد پر مبنی روایت کو مستند تر اور صحیح تر قرار دیا جا سکتا ہے۔[9]
تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقعہ ہوگا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے اس قدر قوی اور مستحکم ہو۔ حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
اہل بیت یعنی امام علیؑ، فاطمہ الزہراحضرت فاطمہ(س)، امام حسنؑ اور امام حسینؑ۔ بعد ازاں 110 صحابہ کے نام آتے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
عمر بن الخطاب[10]، عثمان بن عفان[11]، عائشہ بنت ابی بکر[12]، سلمان فارسی[13]، ابوذر غفاری[14]، زبیر بن عوام[15]، جابر بن عبداللہ انصاری[16]،عباس بن عبدالمطلب[17]، ابوہریرہ[18] وغیرہ، جو واقعہ غدیر کے وقت غدیر خم کے مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے یہ حدیث بلاواسطہ طور پر نقل کی ہے۔
بعد ازاں تابعین ہیں جن میں سے 83 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے اور ان میں سے اصبغ بن نباتہ[19] اور اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز[20] کے نام قابل ذکر ہیں۔
تابعین کے بعد دوسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک 360 علمائے اہل سنت سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے؛ جن میں شافعیوں کے امام محمد بن ادریس شافعی،[21] حنابلہ کے امام احمد بن حنبل،[22]، احمد بن شعیب نسائی[23]، ابن مغازلی،[24] احمد بن عبد اللہ[25]، احمد بن عبدربہ[26] زیادہ مشہور ہیں۔
شیعہ محدثین اور علما میں سے بے شمار افراد نے حدیث غدیر کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے جن میں شیخ کلینی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، سید مرتضی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔[27]
بہت سے محدثین حدیث غدیر کو حدیث حسن اور بہت سے دوسرے اس کو حدیث صحیح سمجھتے ہیں؛[28] نیز تمام شیعہ محدثین اور بعض اکابرین اہل سنت اس کو حدیث متواتر سمجھتے ہیں۔[29]
شیعہ[30] اور سنی مفسرین[31]، کے مطابق قرآن کی چند آیات حجۃ الوداع کے موقع پر واقعۂ غدیر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں:
1۔ سورہ مائدہ آیت 3:
2۔ سورہ مائدہ آیت 67:
3۔ سورہ معارج آیات 1 و 2:
مؤخر الذکر دو آیات کریمہ کی تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمؤمنینؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپؐ کے قریب آیا اور اعتراض کی حالت میں آپؐ سے کہا: "تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکات کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے انکار کی حالت میں کہا: اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آگرے۔ اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کرڈالا اور یہ آیات نازل ہوئیں۔[32]
مسلمانان عالم اور بالخصوص شیعہ روز غدیر کو بڑی عیدوں میں شمار کرتے ہیں اور یہ دن ان کے درمیان عید غدیر کے نام سے مشہور و معروف ہے۔[33]
اس عید کی شہرت اس قدر زیادہ ہے کہ عباسی خلیفہ مستعلی بن مستنصر عباسی کی سنہ 487 میں عید غدیر کو انجام پائی۔ [34] نیز اہل سنت کے مصادر حدیث میں منقول ہے کہ جو بھی 18 ذی الحجہ کو روزہ رکھے خداوند متعال اس کو چھ مہینوں کے روزے کا ثواب عطا فرمائے گا؛ اور یہ دن وہی عید غدیر ہی کا دن ہے۔[35] عید غدیر کی رات بھی مسلمانوں کے درمیان معروف راتوں میں شمار ہوتی ہے۔[36]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
امام صادقؑ نے فرمایا:
امام علی نے فرمایا:
حضرت فاطمہ(س) فرماتی ہیں:
امام حسنؑ نے فرمایا:
امام حسینؑ نے فرمایا:
امام علی رضاؑ نے فرمایا:
پہلی صدی ہجری | دوسری صدی ہجری | تیسری صدی ہجری | چوتھی صدی ہجری | پانچویں صدی ہجری | چھٹی صدی ہجری | ساتویں صدی ہجری | آٹھویں صدی ہجری | نویں صدی ہجری | دسویں صدی ہجری | گیارہویں صدی ہجری | چودھویں صدی ہجری |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
امیرالمؤمنین ؑ | کمیت بن زید | ابوتمام طائی | ابن طباطبای اصفہانی | شریف رضی | ابو الحسن فنجکردی | ابو الحسن المنصور باللہ | ابن داود حلی | ابن عرندس حلی | ابراہیم بن کفعمی | ابن أبی شافین البحرانی | |
حسان بن ثابت | سید حمیری | دعبل | ابن علویہ اصفہانی | سید مرتضی | اخطب خوارزمی | مجدالدین بن جمیل | جمال الدین خعی | ابن داغر حلّی | عزالدین عاملی | زین الدین حمیدی | |
قیس انصاری | عبدی کوفی | ابواسماعیل علوی | مفجّع | مہیار دیلمی | قاضی ابن قادوس | ابو الحسن جزّار | سریجی اوالی | حافظ برسی حلّی | شیخ حسین کرکی | ||
عمرو بن عاص | وامق نصرانی | ابوقاسم صنوبری | ابوعلی بصیر | ابوالغارات ملک صالح | قاضی نظام الدین | صفی الدین حلّی | ضیاء الدین الہادی | شیخ بہائی | |||
محمد حمیری | ابن رومی | ابوفراس | ابوالعلی معرّی | قطب الدین راوندی | شمس الدین محفوظ بن وشاح | شیبانی شافعی | الحسن آل ابی عبد الکریم | شیخ حر عاملی | |||
حمانی افوہ | ابونجیب طاہر | ابن جبر مصری | ابوالمعالی القاضی جلیس | بہاء الدین اربلی | شمس الدین مالکی | حسین بن شہاب کرکی[44] | محمد ثقفی تہرانی [45] | ||||
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.