حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی From Wikipedia, the free encyclopedia
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔[5] آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
زندگی | |
---|---|
فہرست القابات فاطمہ زہرہ · اختلاف مالی فاطمہ و عباس با خلافت · واقعہ در و دیوار · خطبہ فدکیہ · وفات فاطمہ | |
قرآن میں | |
سورہ دہر · سورہ کوثر · آیت تطہیر · آیت مباہلہ · آیت نور | |
مقامات | |
مکہ میں: محلہ بنی ہاشم · شعب ابی طالب · مدینہ میں: جنت البقیع · بیتالاحزان · درخت کنار · سقیفہ · مسجد نبوی · شمال حجاز میں: فدک | |
افراد | |
خاندان | محمد · خدیجہ · علی |
فرزند | حسن · حسین · زینب · ام کلثوم · محسن |
وفد | فضہ نوبیہ · ام ایمن · اسماء · سلمان |
دیگر | قنفذ · مغیرہ · عمر · ابوبکر |
مرتبط | |
تسبیح فاطمہ · مصحف فاطمہ · لوح فاطمہ · واقعہ مباہلہ · ایام فاطمیہ | |
فاطمہ بنت محمد عربی: فاطمة | |
---|---|
کنیت | |
القاب | |
خصوصیت | محمد بن عبد اللہ کی بیٹی |
محمد بن عبد اللہ کی حیات میں | 5 قبل ہجرت – 11 ہجری
|
محمد بن عبد اللہ | 90 دن 11 ہجری |
پیدائش | جمعہ 20 جمادی الثانی 8 قبل ہجرت/ 24 جولائی 615ء |
مقام پیدائش | مکہ، حجازی[1] |
قومیت | حجازی عرب |
والد | محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [1] |
والدہ | خدیجہ بنت خویلد [1] |
بھائی | قاسم اور ابراہیم (سوتیلا) |
بہنیں | زینب، ام کلثوم اور رقیہ |
شوہر | علی ابن ابی طالب |
اولاد | بیٹے
بیٹیاں |
وفات | 3 جمادی الثانی 11ھ/ 25 اگست 632ء مدت حیات : 17 سال 11 ماہ 12 یوم قمری |
دین | اسلام |
فاطمۃ الزہرا کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلافات موجود ہیں۔ مختلف روایات ان کی ولادت کو 608ء سے لے کر 615ء تک بتاتی ہیں۔[6] زیادہ مستند روایات یہ ہیں کہ آپ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال 615ء کو بروز جمعہ صبح صادق کے وقت مکہ میں پیدا ہوئیں۔۔[7] طبری نے بھی بعثت کا پانچواں سال لکھا ہے[8][9]
ایک روایت کے مطابق حضرت محمد بن عبد اللہ اکثر خاتونِ جنت کو سونگھ کرفرماتے کہ اس سے بہشت کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہ اس میوۂ جنت سے پیدا ہوئی ہے جو جبرائیل نے مجھے شبِ معراج کھلایا تھا۔[10][11][12]
اس بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں کہ آپ حضرت محمد بن عبد اللہ کی اکلوتی بیٹی تھیں یا نہیں۔ اس بارے میں تین قسم کی روایات ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی اور بہنیں تھیں جن کے نام زینب، رقیہ اور ام کلثوم تھا۔ دوسری قسم کی روایات کے مطابق یہ باقی بہنیں خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی پہلی شادی سے تھیں جو خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی محمد بن عبد اللہ سے شادی کے بعد ان کی بیٹیاں بنیں۔ تیسری قسم کی روایات کے مطابق یہ خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو اپنے والدین (ابوالہند اور ہالہ) کے اختلافات کے بعد خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی زیرِ کفالت آئیں اور بعد میں حضرت محمد بن عبد اللہ کی بیٹیاں بن گئیں۔۔[13] لیکن قرآن میں محمد بن عبد اللہ کی بیٹیوں کے لیے جمع کا صیغہ آیا ہے۔[حوالہ درکار] آپ نے اپنی بہنوں کے نام پر بعد میں اپنی بیٹیوں کے نام بھی ام کلثوم اور زینب رکھے۔
آپ کی تربیت خاندانِ رسالت میں ہوئی جو حضرت محمد بن عبد اللہ، خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا، فاطمہ بنت اسد، ام سلمیٰ، ام الفضل (حضرت محمد بن عبد اللہ کے چچا عباس کی زوجہ)، ام ہانی (حضرت ابوطالب کی ہمشیرہ)، اسما بنت عمیس (زوجہ جعفرطیار)، صفیہ بنت حمزہ وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔[14] خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت محمد بن عبد اللہ نے ان کی تربیت و پرورش کے لیے فاطمہ بنت اسد کا انتخاب کیا۔ جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو اس وقت حضرت محمد بن عبد اللہ نے ام سلمیٰ کو ان کی تربیت کی ذمہ داری دی[15]
آپ کے مشہور القاب میں زہرا اور سیدۃ نساء العالمین (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ نساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد بن عبد اللہ نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں۔۔[16] اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، سیدۃ نساء اھل الجنۃ، العذراء وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔[17]
حضرت فاطمہ الزہرا رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی ابتدائی تربیت خود رسول اللہ بن عبد اللہ اور حضرت خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے کی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو رسول اللہ بن عبد اللہ نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں برداشت کی۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت محمد بن عبد اللہ کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضرت محمد بن عبد اللہ ان کو کہتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔[18]
ان کے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ہوا۔ ربیع الاول میں 10 بعثت کو ہجرت ہوئی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت محمد بن عبد اللہ نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو 500 درہم اور اونٹ دے کر مکہ سے حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کو بلوایا چنانچہ وہ کچھ دن بعد مدینہ پہنچ گئیں۔[19] بعض دیگر روایات کے مطابق انھیں حضرت علی علیہ السلام بعد میں لے کر آئے۔[20] 2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں رسول اللہ نے حضرت ام سلمیٰ سے عقد کیا تو حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی تربیت میں دے دیا۔[19]
حضرت ام سلمیٰ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انھیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مؤدب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔[21] رسول اللہ بن عبد اللہ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا جو ابھی کم سن تھیں تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔ آنحضرت نے دیکھا تو کہا کہ بیٹی ادھر آؤ۔ جب آپ قریب آئیں تو رسول اللہ بن عبد اللہ نے دعا فرمائی کہ اے بھوکوں کو سیر کرنے والے پروردگار، اے پستی کو بلندی عطا کرنے والے، فاطمہ کے بھوک کی شدت کو ختم فرما دے۔ اس دعا کے بعد حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے چہرے کی زردی مبدل بسرخی ہو گئی، چہرے پر خون دوڑنے لگا اور آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ خود حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔[9][22]
حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے شادی کی خواہش کئی لوگوں نے کی جن میں سے کچھ پر رسول اللہ نے غضب ناک ہو کر منہ پھیر لیا۔[23] طبقات ابن سعد وغیرہ کے مطابق حضرت ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اور بعد میں حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضور بن عبد اللہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحیِ الٰہی کا انتظار ہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو حضور بن عبد اللہ نے قبول کر لیا اور کہا 'مرحباً و اھلاً۔۔[20][24][25][26][27] بعض روایات کے مطابق حضور بن عبد اللہ نے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمھیں منظور ہے۔ انھوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔[28] یہی روایت صحاح میں عبد اللہ ابن مسعود، انس بن مالک اور حضرت ام سلمیٰ نے کی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ بن عبد اللہ نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔[29][30]
حضرت علی و فاطمہ کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔[19] کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔[9]۔۔ شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درہم میں بیچ دی۔[31] یہ رقم حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درہم تھا۔[32]
جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔[9] انھوں نے چیزیں لا کر حضور بن عبد اللہ کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔[33]۔[34]۔۔۔[35] یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔[34]۔[36][37][38]
نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر میں اتارا گیا۔ رسول اللہ بن عبد اللہ نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی و فاطمہ کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انھیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔[39] ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ بن عبد اللہ نے خاندان عبد المطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب ام سلمیٰ، عائشہ اور حفصہ نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات نے جو رجز پڑھے نیچے درج ہیں:
حضرت ام سلمیٰ کا رجز |
اے پڑوسنو چلو اللہ کی مدد تمھارے ساتھ ہے اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرو۔ اور جن پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرکے اللہ نے احسان فرمایا ہے اسے یاد کرو۔ آسمانوں کے پروردگار نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور ہر طرح کا عیش و آرام دیا۔ اے پڑوسنو۔ چلو سیدۂ زنانِ عالم کے ساتھ جن پر ان کی پھوپھیاں اور خالائیں نثار ہوں۔ اے عالی مرتبت پیغمبر کی بیٹی جسے اللہ نے وحی اور رسالت کے ذریعے سے تمام لوگوں پر فضیلت دی |
حضرت عائشہ کا رجز | اے عورتو چادر اوڑھ لو اور یاد رکھو کہ یہ چیز مجمع میں اچھی سمجھی جاتی ہے۔
یاد رکھو اس پروردگار کو جس نے اپنے دوسرے شکر گزار بندوں کے ساتھ ہمیں بھی اپنے دینِ حق کے لیے مخصوص فرمایا۔ اللہ کی حمد اس کے فضل و کرم پر اور شکر ہے اس کا جو عزت و قدرت والا ہے۔ فاطمہ زہرا کو ساتھ لے کے چلو کہ اللہ نے ان کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ان کے لیے ایک ایسے پاک و پاکیزہ مرد کو مخصوص کیا ہے جو ان ہی کے خاندان سے ہے |
حضرت حفصہ کا رجز | اے فاطمہ تم عالم انسانیت کی تمام عورتوں سے بہتر ہو۔ تمھارا چہرہ چاند کی مثل ہے۔
تمھیں اللہ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس شخص کی فضیلت کے ساتھ جس کا فضل و شرف سورہ زمر کی آیتوں میں مذکور ہے۔ اللہ نے تمھاری تزویج ایک صاحب فضائل و مناقب نوجوان سے کی ہے یعنی علی سے جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ پس اے میری پروسنو۔ فاطمہ کو لے کر چلو کیونکہ یہ ایک بڑی شان والے باپ کی عزت مآب بیٹی ہے |
آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انھیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک فقیر (غریب) سے کردی گئی ہے۔ جس پر انھوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ بن عبد اللہ نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ پکڑا
اور تسلی دی کہ اے فاطمہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس پر راضی اور خوش ہوں۔[36]۔[42]
شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقۂ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔[43] آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ بن عبد اللہ نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی تھیں۔[43]۔[44][45]
ایک دفعہ رسول اللہ بن عبد اللہ ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ بن عبد اللہ نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔[36]
آپ کے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ بیمار پڑیں تو حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔[46]
آپ نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور بچے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ بن عبد اللہ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سر انجام دیے۔[45]
اللہ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ دو بیٹے حضرت حسن بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور بیٹیاں زینب بنت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا و ام کلثوم بنت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہا تھیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کو رسول اللہ بن عبد اللہ اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی حضرت محمد بن عبد اللہ نے خود رکھے تھے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مشہور روایت کے مطابق 29/سال کی تھی کہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اب صرف وہی باقی رہ گئی تھیں، اس لیے ان کوصدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا، وفات سے پہلے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوبلابھیجا، تشریف لائیں توان سے کچھ کان میں باتیں کیں، وہ رونے لگیں؛ پھربلاکر کچھ کان میں کہا توہنس پڑیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا توکہا، پہلی دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کروں گا، جب میں رونے لگی توفرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تمھیں مجھ سے آکرملوگی توہنسنے لگی۔ [47] وفات سے پہلے جب بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرغشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ دیکھ کربولیں: وَاكَرْبَ أَبَاهُ ہائے میرے باپ کی بے چینی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا۔ [48] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پرایک مصیب ٹوٹ پڑی، اسدالغابہ میں لکھا ہے کہ جب تک زندہ رہیں کبھی تبسم نہیں فرمایا [49] بخاری میں لکھا ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نعش مبارک کودفن کرکے واپس آئے توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرخاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا؟۔ [50] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد میراث کا مسئلہ پیش ہوا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن، یہ تمام بزرگ میراث کے مدعی تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی ایک قائم مقام موجود تھا، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائداد خالصہ جائداد تھی اور اس میں قانونِ وراثت جاری نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزہ کواپنے اعزہ سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں؛ لیکن دقت یہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیا جومتروکہ چھوڑتے ہیں وہ کل کا کل صدقہ ہوتا ہے اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی اس بناپر میں اس جائداد کوکیونکر تقسیم کرسکتا ہوں؛ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اہلِ بیت جس حد تک اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے اب بھی اٹھاسکتے ہیں، صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اس گفتگو سے کوحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوسخت قلق ہوا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی [51] طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بعد کوحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئی تھیں۔ [52]
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے مسیحی جب محمد بن عبد اللہ سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:
اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61
اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ مسیحی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ بن عبد اللہ آیۂ مباہلہ پر عمل کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ بن عبد اللہ اپنے ساتھ حضرت حسن رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو چادر میں لپیٹے ہوئے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی مسیحی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی مسیحی سلامت نہ رہ جائے گا۔۔۔۔[53][54][55][56]
” | مرض الموت میں رسول اللہ بن عبد اللہ نے فاطمہ کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔[57]۔[58]۔[33]۔ | “ |
ایک اور روایت میں یحیٰ بن جعدہ سے مروی ہے کہ حضور بن عبد اللہ نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ سال میں صرف ایک مرتبہ قرآن مجھے دکھایا جاتا تھا۔ مگر اس دفعہ دو مرتبہ دکھایا گیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میری موت قریب ہے۔ میرے اہل میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی۔[59] یہ سن کر آپ غمگین ہوئیں تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم زنان اہلِ جنت کی سردار ہو؟ یہ سن کر آپ مسکرانے لگیں[60][61]
آپ کے والد رسول اللہ بن عبد اللہ کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی تبدیل کر دی۔ آپ شب و روز گریہ کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ بن عبد اللہ کی میراث میں سے بھی انھیں بوجوہ کچھ نہ مل سکا جس سے مالی پریشانیاں بھی ہوئیں۔ مسئلہ فدک و خلافت بھی پیش آیا۔ اہلِ مدینہ ان کے رونے سے تنگ آئے تو حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کے لیے مدینہ سے کچھ فاصلے پر بندوبست کیا تاکہ وہ وہاں گریہ و زاری کیا کریں۔ اس جگہ کا نام بیت الحزن مشہور ہو گیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے مرثیہ کہا جس کا ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ 'اے ابا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے'۔۔۔[62][63] اس دوران مسئلہ فدک بھی پیش آیا جس کا تذکرہ بعد میں آئے گا۔
حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد آپ کی وفات ہوئی۔ اس کی تاریخ 3 جمادی الثانی 11ھ ہے۔ آپ کی وفات کی وجوہات میں تاریخی اختلافات ہیں جن کا تذکرہ الگ سے کیا جائے گا۔ آپ کی وفات کے متعلق بہت سی روایتیں ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو زہری کے طریق سے عروہ سے بحوالہ حضرت عائشہ سے بیان ہوئی ہے کہ حضرت فاطمہ رسول اللہ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں۔ آپ کی وفات بروز منگل 3 رمضان المبارک گیارہ ہجری میں ہوئی۔ جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے اسماء بنت عمیس (زوجہ ابو بکر صدیق) کو وصیت کی کہ وہ انھیں غسل دیں۔ پس انھوں نے اور علی المرتضی اور سلمی ام رافع نے آپ کو غسل دیا اور بعض کا قول ہے کہ ل عباس بن عبد المطلب بھی ان میں شامل تھے۔ یہ جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ فاطمہ نے اپنی وفات سے قبل غسل کر لیا تھا اور وصیت کی کہ ان کو بعد میں غسل نہ دیا جائے یہ روایت ضعیف ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بعض روایت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ آپ کے خاوند علی نے پڑھائی اور بعض کا قول ہے کہ عباس بن عبد المطلب نے پڑھائی اور بعض کا قول ہے کہ ابو بکر صدیق نے پڑھائی۔ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی اس میں بھی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ستائیس بعض اٹھائیس بعض انتیس بعض تیس اور بعض پینتیس سال عمر بتاتے ہیں اور یہ مستعد ہے اور اس سے قبل کے قول اقرب ہیں۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں جہاں پر ایک روضہ بھی بنا ہوا تھا جسے سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو ڈھا دیا۔[55]
ویکی اقتباس میں فاطمۃ الزہراء سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
فدک ایک باغ تھا جو جنگ خیبر کے وقت محمد بن عبد اللہ کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔[90] شرعی لحاظ سے اسے مال فئی میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔[91][92]
اہل سنت کے بعض اور اہل تشیع کے اکثر علما اسے محمد بن عبد اللہ کی جائداد مانتے ہیں۔[93][94][95][96][97][98][99] لیکن ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔[100]
صحیح مسلم میں ابوسعدی الخدری اور عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ محمد بن عبد اللہ نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔[101] دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد محمد بن عبد اللہ نے فدک فاطمہ الزہراء کو ہبہ کر دیا۔[102][103]
شاہ عبد العزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فاطمہ الزہراء کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔[104] تاہم شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔[100][105]
صحیح البخاری میں عائشہ بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ محمد بن عبد اللہ کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر فاطمہ الزہراء اور ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ فاطمہ زہرا نے فدک پر اپنا حق ملکیت سمجھا جبکہ ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیا کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر فاطمہ، ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔[106][107][108][109][110]
اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق حضرت ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے بعد میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔[111]
اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق محمد بن عبد اللہ نے فرمایا کہ انبیا کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیا کی وراثت کا ذکر ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے مطابق وفات تک فاطمہ ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی[112] جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور انھوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔[113]
بیہقی[111] کے مطابق صلح ہوئی لیکن امام بخاری اور ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح نہ ہوئی اور فاطمہ نے تا زندگی ابوبکر و عمر سے کلام نہ کیا۔ جبکہ ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح کی کوششوں کے دوران میں فاطمہ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تا زندگی نماز کے بعد تم دونوں پر بددعا کرتی رہوں گی۔[114][115]
آپ کی وفات کے بارے میں مؤرخین اور نتیجتاً اہل تشیع، اہل سنت و اہل حدیث میں شدید اختلافات ہیں۔ اس لیے یہاں انہی واقعات کا تذکرہ کیا جائے گا جو مختلف تواریخ میں لکھے ہوئے ہیں۔
تواریخ میں ہے کہ حضور بن عبد اللہ کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے بشمول حضرت علی کے بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے آئے اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اس گھر میں حضور بن عبد اللہ کے نواسے حسنین موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہونے دیں۔[116][117][118][119][120][121]
حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازہ کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں۔[122] کچھ روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن شہید ہوئے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ محسن کا ذکر کسی معتبر تاریخ میں نہیں اس لیے اس بات کو نہ ماننا چائیے۔ لیکن کچھ کتابوں میں یہ ذکر موجود ہے۔[123]
لوگ جب گھر میں گھسے تو حضرت فاطمہ نے کہا کہ خدا کی قسم گھرسے نکل جاؤ ورنہ سر کے بال کھول دوں گی اور خدا کی بارگاہ میں سخت فریاد کروں گی۔[124]
اس مکمل واقعہ کی روایت بشمول آگ لگانا اور دروازہ گرانے کے ابن قیتبہ، ابوالفداء، ابن عبد ربہ وغیرہ نے بھی کی ہے۔[125][126][127][128]
علامہ شبلی نعمانی نے ان واقعات کی صحت کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روایت کے مطابق اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت عمر کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر نے تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کارروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں لیکن یاد رکھنا چائیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بعض بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں تو آگے جا کر حضرت علی اور معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پیدا ہوئیں۔۔۔[129]
شاہ عبد العزیز نے لکھا ہے کہ یہ قصہ افترا ہے اور اس کی کچھ اصل نہیں اگر جلانے کی دھمکی دی گئی تھی تو اس کا مقصد صرف ڈرانا تھا کیونکہ ایسے لوگ اس گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے جو حضرت ابوبکر کی خلافت لوٹ پوٹ کرنے کے واسطے صلاح و مشورہ کرتے تھے۔ یہ فعل حضرت عمر سے مطابق فعل معصوم وقوع میں آیا (کیونکہ حضور بن عبد اللہ نے بھی ترک نماز کرنے والوں کے گھر کو آگ سے پھونکنے کی دھمکی دی تھی) اس لیے طعن کیوں ہو۔[130]
3 جمادی الاخر 11ھ کو انتقال ہوا اور صحیحین کے مطابق بوجہ حضرت فاطمہ کی وصیت کے انھیں رات کے وقت دفنایا گیا۔[57]۔[131] جنازے میں حضرت علی، حضرت حسن و حسین، حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد ابن اسود، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت بریدہ شریک تھے۔۔[132] دیگر روایات میں حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عباس، حضرت فضل، حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا ذکر ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر کا ذکر بھی آتا ہے۔۔[133] صحیح بخاری میں درج ہے کہ حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ ابوبکر و عمر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔[134] کچھ اور جگہ آتا ہے کہ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی جنازے میں نہ آئے جن سے میں ناراض ہوں۔[135][136]
اکثر اور مشہور روایات کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[137] چالیس دیگر قبریں بھی بنائی گئیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے۔[138] ) جبکہ کچھ روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں۔ جب عمر ابن عبد العزیز نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔[36]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.