اڈيشا
مشرقی بھارت کی ریاست From Wikipedia, the free encyclopedia
مشرقی بھارت کی ریاست From Wikipedia, the free encyclopedia
اڈیشا (انگریزی: Odisha،[9] مقامی: [oɽiˈsaː] ( سنیے)، (سابق نام: اڑیسہ [10]) بھارت کی ایک ریاست، جو مشرقی بھارت میں واقع ہے۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے بھارت کی آٹھویں اور آبادی کے لحاظ سے گیارھویں بڑی ریاست ہے۔ نیز اس ریاست میں بھارت کے درج فہرست قبائل کی تیسری بڑی آبادی ہے۔[11] اس کی سرحدیں شمال میں مغربی بنگال کے بعض حصوں اور جھارکھنڈ سے، مغرب میں چھتیس گڑھ سے اور جنوب میں آندھرا پردیش سے ملتی ہیں۔ اڈیشا کی ساحلی پٹی خلیج بنگال پر 485 کلومیٹر (1,591,000 فٹ) طویل ہے۔[12] اس علاقہ کو اتکلہ یا اتکل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور بھارت کے قومی ترانہ جن گن من میں اس کا ذکر ملتا ہے۔[13] اڈیشا کی زبان اڈیہ ہے جو بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔[14]
ریاست | |
سرکاری نام | |
ہر سطر دائیں سے بائیں: کونارک سوریا مندر، جگن ناتھ مندر، دیومالی، راورکیلا اسٹیل پلانٹ، مہاندی، سملی پال نیشنل پارک، چیلیکا جھیل، رتناگری، سرنگوں بملیشور مندر، سِشوپال گڑھ | |
ترانہ: بندے اتکلہ جنانی (مجھے تم سے پیار ہے، اے ماں اتکل!) | |
متناسقات (بھوبنیشور): 20.27°N 85.82°E | |
ملک | بھارت |
ریاست | 1 اپریل 1936 (یوم اڈیشا) |
دار الحکومت سب سے بڑا شہر | بھوبنیشور[1] |
اضلاع | 30 |
حکومت | |
• مجلس | حکومت اڈیشا |
• گورنر | رگھوور داس |
• وزیر اعلی | موہن چرن مانجھی (بی جے پی) |
• مقننہ | یک ایوانی (147 نشستیں) |
• پارلیمانی حلقہ | لوک سبھا (21 نشستیں) راجیہ سبھا (10 نشستیں) |
• ہائی کورٹ | اڈیشا ہائی کورٹ |
رقبہ | |
• کل | 155,707 کلومیٹر2 (60,119 میل مربع) |
رقبہ درجہ | 8 ویں |
بلندی[2] | 900 میل (3,000 فٹ) |
بلند ترین پیمائش (دیومالی[3]) | 1,672 میل (5,486 فٹ) |
پست ترین پیمائش (خلیج بنگال) | −1 میل (−3 فٹ) |
آبادی (2011ء) | |
• کل | 41,974,218[4] |
• درجہ | 11ویں |
نام آبادی | اڈیا |
خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) (2019–20)[5] | |
• کل | ₹533,822 کروڑ (امریکی $75 بلین) |
• فی کس | ₹116,614 (امریکی $1,600) |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (آئی ایس ٹی) (UTC+05:30) |
آیزو 3166 رمز | آیزو 3166-2:IN |
ایچ ڈی آئی (2018ء) | 0.606[6] درمیانہ · 32واں |
شرح خواندگی | 73.45%[7] |
سرکاری زبان | انگریزی، اڈیہ[8] |
ویب سائٹ | www |
کلنگ کی قدیم سلطنت – جس پر موریا شہنشاہ اشوک نے حملہ کیا تھا (اور بعد میں بادشاہ کھارویلا نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا تھا) – 261 قبل مسیح میں کلنگا جنگ کا نتیجہ تھی جو دور جدید کے اڈیشا کی سرحدوں سے متصل ہے۔[15] بھارت کی برطانوی حکومت نے اڈیشا کی نئی سرحدوں کی حدبندی اس وقت کی، جب یکم اپریل 1936ء کو صوبہ اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا، اس میں اڈیہ بولنے والے صوبجات بہار و اڑیسہ کے اضلاع شامل تھے۔[15] اسی بنا پر یہاں یکم اپریل کا دن اُتکلہ دیبسہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔[16] کٹک کو اننتھ ورمن چوڈا گنگا نے ت 1135ء میں اس خطہ کا دار الحکومت بنایا تھا،[17] جس کے بعد 1948ء تک انگریزوں کے دور میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور بعد ازاں بھونیشور اڈیشا کا دار الحکومت بن گیا۔[18] اڈیشا کی معیشت ؛ مجموعی ملکی پیداوار میں 5.33₹ لاکھ کروڑ (75$ ارب امریکی ڈالر ) کی ہے اور یوں معیشت میں؛ بھارت کی سولھویں سب سے بڑی ریاست ہے اور فی کس خام ملکی پیداوار 116,614₹ (1,600 ارب امریکی ڈالر) ہے۔[5] (2018ء) کے حساب سے انسانی ترقیاتی اشاریہ میں اڈیشا بتیسویں نمبر پر ہے۔ [19]
لفظ اڈیشا (ଓଡ଼ିଶା) قدیم پراکرت لفظ "اوڈا وِسَیا" سے ماخوذ ہے جیسا کہ راجیندر چولا اول کے تروملائی لکھاوٹ میں ہے، جس کی تاریخ 1025ء ہے۔ [20] سارلا داس؛ جنھوں نے 15 ویں صدی میں مہابھارت کا اڈیہ زبان میں ترجمہ کیا تھا، نے اس خطہ اوڈر راشٹر کو اڈیشا کہا ہے۔ پوری میں مندروں کی دیواروں پر گجاپتی سلطنت (67-1435ء) کے کپیلیندر دیو کے نقشے؛ اس خطہ کو اڈیشا یا اڈیشا راجیہ کہتے ہیں۔ [21]
2011ء میں ریاست کا نام اڑیسہ سے تبدیل کرکے اڈیشا کر دیا گیا تھا اور اس کی زبان کا نام اڑیا سے اڈیا کر دیا گیا تھا۔ اڑیسہ نام کی تبدیلی بل 2010ء اور پارلیمنٹ میں آئینى (113 ویں ترمیم) بل 2010ء کی منظوری سے ایک مختصر بحث و مباحثہ کے بعد ایوانِ زیریں لوک سبھا نے 9 نومبر 2010ء کو بل اور ترمیم منظور کی۔ [22] 24 مارچ 2011ء کو پارلیمان کے ايوانِ بالا راجیہ سبھا نے بھی اس بل اور ترمیم کو منظور کیا۔ [23] نام کی تبدیلی ہندی کے سابق نام उड़ीसा اور انگریزی کے سابق نام Orissa کو اڈیہ ہجہ اور اس کے تلفظ کے مطابق اڈیشا Odisha کرنے کے لیے کی گئی تھی۔[24]
خطہ میں مختلف مقامات پر ابتدائی قدیم سنگی دور سے پہلے کے ملنے والے اچیلین ادوات دریافت ہوئے ہیں، جس سے انسانوں کے ذریعہ ابتدائی آباد کاری کا اشارہ ملتا ہے۔ [25] کلنگ کا ذکر قدیم متون جیسے مہابھارت، وایو پران اور مہا گووند ستنت میں کیا گیا ہے۔ [26][27] مہا بھارت میں اڈیشا کے سابر قوم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ [28][29] بودھیانوں نے کلنگ کا تذکرہ کیا ہے؛ کیوں کہ ابھی تک وہ ویدک روایات سے متاثر نہیں ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر قبائلی روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔[30]
موریا خاندان کے اشوک نے 261 قبل مسیح میں خونی جنگ کلنگ میں کلنگ کو فتح کیا،[31] جب کہ اس کے دور حکومت کا آٹھواں سال تھا۔[32] اس کی اپنے فرامین کے مطابق؛ اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ پکڑے گئے اور مزید لوگ متاثر ہوئے تھے۔[31] کہا جاتا ہے کہ جنگ کے نتیجہ میں ہونے والی خوں ریزی اور مصائب نے اشوکا کو گہرا متاثر کیا۔ وہ ایک امن پسند ہو گیا اور بدھ مت میں مذہب تبدیل کرلی۔[32][33]
تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ کھارویلا نے، جو ممکنہ طور پر باختر کے ڈیمیٹریس اول کا ہم عصر تھا،[34] برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا۔ کھارویلا ایک جین حکمران تھا۔ انھوں نے اودے گری پہاڑی کے اوپر مٹھ بھی تعمیر کی۔[35] اس کے بعد اس علاقے پر دیگر بادشاہوں، جیسے سمدر گپت اور ششانک کی حکومت تھی۔[36] [37] یہ ہرش کی سلطنت کا بھی ایک حصہ تھا۔[38]
اڈیشا کا شہر برہم پور چوتھی صدی عیسوی کے اختتامی برسوں کے دوران میں پوراواؤں کا دار الحکومت رہا تھا۔ تقریباً تیسری صدی عیسوی میں پورا واس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا؛ کیوں کہ یودھیا جمہوریہ نے ان کا قبضہ کر لیا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ موریاؤں کے سامنے پیش ہو گئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر ہی انھوں نے تقریباً 700 سالوں کے بعد برہم پور میں شاہی حکومت قائم کی۔
بعد میں سوماومشی خاندان کے بادشاہوں نے اس خطہ کو متحد کرنا شروع کیا۔ یایاٹی دوم کے دور تک تقریباً 1025 عیسوی میں انھوں نے اس خطہ کو ایک ہی ریاست میں ضم کیا تھا۔ یایاٹی دوم نے بھوبنیشور میں لنگ راج مندر تعمیر کیا تھا۔[15] ان کی جگہ مشرقی گنگا خاندان نے لے لی۔ اس خاندان کے قابل ذکر حکمران اننتھ ورمن چوڈا گنگا تھا، جس نے پوری میں (تقریباً سنہ 1135ء) میں موجودہ جگن ناتھ مندر اور نرسنگھا دیو اول کی (تقریباً 1250ء میں) تعمیر کردہ کونارک مندر دوبارہ تعمیر کیے تھے۔[39][40]
مشرقی گنگا خاندان کے بعد گجاپتی سلطنت آئی، جس نے 1568ء تک اس خطہ کے شاہی بنگالہ میں انضمام کے خلاف مزاحمت کی؛ یہاں تک کہ اس کو شاہی بنگالہ نے فتح کر لیا۔[41] مکند دیو جسے کلنگ کا آخری آزاد بادشاہ سمجھا جاتا ہے، شکست کھا گیا اور ایک باغی رام چندر بھنج کی لڑائی میں مارا گیا۔ خود رام چندر بھنج کو بایزید خان کرانی نے قتل کیا تھا۔[42] 1591ء میں بہار کے اس وقت کے گورنر مان سنگھ اول نے بنگال کے کرانیوں سے اڈیشا لینے کے لیے ایک فوج کی قیادت کی۔ وہ معاہدے پر راضی ہو گئے؛ کیوں کہ ان کے رہنما قطلو خان لوہانی کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ لیکن پھر انھوں نے پوری کے ہیکل قصبہ پر حملہ کرکے معاہدہ توڑا۔ مان سنگھ اول کی 1592ء میں واپسی ہوئی اور اس نے دوبارہ اس خطے کو پر سکون بنایا۔[43]
1751ء میں نواب بنگال علی وردی خان نے اس علاقہ کو مرہٹہ سلطنت کے حوالے کر دیا۔ [15]
1760ء تک دوسری کارناٹِک جنگ کے نتیجہ میں برطانویوں نے اڈیشا کے جنوبی ساحلوں پر مشتمل شمالی حلقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور آہستہ آہستہ انھیں مدراس پریزیڈنسی میں شامل کر لیا تھا۔[44] 1803ء میں انگریزوں نے دوسری اینگلو مراٹھا دوسری اینگلو مرہٹہ جنگ کے دوران اڈیشا کے پوری-کٹک خطے سے مرہٹوں کو بے دخل کر دیا۔ اڈیشا کے شمالی اور مغربی اضلاع کو بنگال پریزیڈنسی میں شامل کیا گیا۔[45]
1866ء میں اڈیشا کی قحط سالی کے نتیجہ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔[46] اس کے بعد بڑے پیمانہ پر آبپاشی کے منصوبے شروع کیے گئے۔[47] 1903ء میں اڈیہ بولنے والے علاقوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کے مطالبہ میں اتکل سمیلنی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[48] 1 اپریل (بقول دیگر: 1 اگست[49]) 1912ء کو صوبہ بہار اور اڑیسہ تشکیل پایا۔[50] یکم اپریل 1936ء کو صوبجات بہار و اڑیسہ کو الگ الگ دو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔[51]
اڑیسہ کا نیا صوبہ؛ بھارت میں انگریزوں کی حکمرانی کے دوران؛ لسانی بنیادوں پر معرض وجود میں آیا، سر جون آسٹن ہوبیک پہلے گورنر کے طور پر مقرر کیے گئے۔[51][52] تحریک آزادی ہند کے بعد 15 اگست 1947ء کو 27 نوابی ریاستوں نے (جو اس وقت اڈیشا کے الگ الگ اضلاع ہیں) اڈیشا میں شامل ہونے کے لیے اس دستاویز پر دستخط کیے۔[53] مشرقی ریاستوں کا اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد 1948ء میں نوابی ریاستوں کی ایک جماعت اڈیشا کی سب سے بڑی معاون ریاستیں؛ اڈیشا میں شامل ہو گئیں۔[54]
اڈیشا میں 17.780 اور 22.730 عرض بلد اور 81.37 اور 87.53 طول بلد کے درمیان ہے۔ ریاست کا کل رقبہ 155،707 (ایک لاکھ پچپن ہزار، سات سو سات) مربع کلومیٹر ہے، جو بھارت کے کل رقبہ کا 4.87 فی صد ہے اور اس ریاست میں 450 کلومیٹر کا ساحل ہے۔[55] ریاست کے مشرقی حصہ میں ساحلی پٹی ہے۔ یہ شمال میں دریائے سبرنا ریکھا سے لے کر جنوب میں دریائے رشیکولیا تک پھیلا ہوا ہے۔ چیلیکا جھیل؛ ساحلی میدانی علاقوں کا ایک حصہ ہے۔ میدانی علاقے خلیج بنگال میں بہنے والے چھ بڑی دریاؤں؛ سبرنا ریکھا، بدھ بلنگا، بیترنی، برہمنی، مہاندی اور رشیکولیا کے ذریعہ جمع ہونے والی کیچڑوں سے بھرے ہوتے ہیں۔[55] سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آر آر آئی)؛ جو ادارہ برائے خوراک و زراعت سے تسلیم شدہ رائس جین بینک اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، کٹک میں مہاندی کے کنارے پر واقع ہے۔[56] اڈیشا میں پوری اور بھدرک کے مابین؛ سمندر کا تھوڑا سا پھیلا ہوا حصہ نکلتا ہے، جس سے (سی آر آر آئی کو) کسی بھی طوفانی سرگرمی کا خطرہ ہوتا ہے۔[57]
ریاست کا تین چوتھائی حصہ پہاڑی سلسلوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ ندیوں کے ذریعہ ان میں گہری اور وسیع وادیاں بنائی گئی ہیں۔ ان وادیوں میں زرخیز مٹی ہے اور گنجان آباد ہیں۔ اڈیشا میں سطح مرتفع اور کوہسار (بلند پہاڑیاں) بھی ہیں، جو سطح مرتفع سے کم بلندی پر ہیں۔[55] ریاست کا سب سے اونچا مقام؛ کوراپٹ ضلع میں واقع دیومالی پہاڑ ہے، جو 1،672 میٹر پر ہے۔ کچھ دوسری بلند چوٹیاں ہیں: سنکارام (1،620 میٹر) ، گولیکوڈا (1،617 میٹر) اور یندریکا (1،582 میٹر)۔[58]
اڈیشا میں مشرقی پاکستان کے بے گھر افراد کی بحالی کی گئی ہے 31 اکتوبر 1958 تک اڈیشا میں 876 خاندانوں کی بحالی کی گئی ہے۔[59]
ریاست چار موسمیاتی موسموں کا تجربہ کرتی ہے: موسم سرما (جنوری تا فروری)، بارش سے پہلے کا موسم (مارچ تا مئی)، جنوب مغربی بارش کا موسم (جون تا ستمبر) اور شمال مشرقی بارش کا موسم (اکتوبر تا دسمبر)۔ تاہم مقامی طور پر سال کو چھ روایتی موسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: گرِشما (موسمِ گرما)، برسا (برسات کا موسم)، شرِتا (خزاں)، ہیمنتا (شبنم)، شیتا (سردیوں کا موسم) اور بسنتا (بہار)۔[55]
منتخب موسمی سٹیشنوں کا اوسط درجہ حرارت اور بارش[60] | ||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
بھوبنیشور (1952–2000ء) |
بالاسور (1901–2000ء) |
گوپالپور (1901–2000ء) |
سمبلپور (1901–2000ء) | |||||||||
زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) | کم سے کم (سیلسیس) | بارش (ملی میٹر) | زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) | کم سے کم (سیلسیس) | بارش (ملی میٹر) | زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) | کم سے کم (سیلسیس) | بارش (ملی میٹر) | زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) | کم سے کم (سیلسیس) | بارش (ملی میٹر) | |
جنوری | 28.5 | 15.5 | 13.1 | 27.0 | 13.9 | 17.0 | 27.2 | 16.9 | 11.0 | 27.6 | 12.6 | 14.2 |
فروری | 31.6 | 18.6 | 25.5 | 29.5 | 16.7 | 36.3 | 28.9 | 19.5 | 23.6 | 30.1 | 15.1 | 28.0 |
مارچ | 35.1 | 22.3 | 25.2 | 33.7 | 21.0 | 39.4 | 30.7 | 22.6 | 18.1 | 35.0 | 19.0 | 20.9 |
اپریل | 37.2 | 25.1 | 30.8 | 36.0 | 24.4 | 54.8 | 31.2 | 25.0 | 20.3 | 39.3 | 23.5 | 14.2 |
مئی | 37.5 | 26.5 | 68.2 | 36.1 | 26.0 | 108.6 | 32.4 | 26.7 | 53.8 | 41.4 | 27.0 | 22.7 |
جون | 35.2 | 26.1 | 204.9 | 34.2 | 26.2 | 233.4 | 32.3 | 26.8 | 138.1 | 36.9 | 26.7 | 218.9 |
جولائی | 32.0 | 25.2 | 326.2 | 31.8 | 25.8 | 297.9 | 31.0 | 26.1 | 174.6 | 31.1 | 24.9 | 459.0 |
اگست | 31.6 | 25.1 | 366.8 | 31.4 | 25.8 | 318.3 | 31.2 | 25.9 | 195.9 | 30.7 | 24.8 | 487.5 |
ستمبر | 31.9 | 24.8 | 256.3 | 31.7 | 25.5 | 275.8 | 31.7 | 25.7 | 192.0 | 31.7 | 24.6 | 243.5 |
اکتوبر | 31.7 | 23.0 | 190.7 | 31.3 | 23.0 | 184.0 | 31.4 | 23.8 | 237.8 | 31.7 | 21.8 | 56.6 |
نومبر | 30.2 | 18.8 | 41.7 | 29.2 | 17.8 | 41.6 | 29.5 | 19.7 | 95.3 | 29.4 | 16.2 | 17.6 |
دسمبر | 28.3 | 15.2 | 4.9 | 26.9 | 13.7 | 6.5 | 27.4 | 16.4 | 11.4 | 27.2 | 12.1 | 4.8 |
2012ء میں فاریسٹ سروے آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ اڈیشا میں 48،903 مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جو ریاست کے کل رقبے کا 31.41 فی صد ہیں۔ جنگلات میں درجہ بندی کی گئی ہے: گھنے جنگل (7,060 مربع کلومیٹر)، درمیانے گھنے جنگل (21,366 مربع کلومیٹر)، کھلے جنگل (بغیر بند چھتری والے جنگل؛ 20,477 مربع کلومیٹر) اور جھاڑیوں والا جنگل (4,734 مربع کلومیٹر)۔ ریاست میں بانس کے جنگلات (10،518 مربع کلومیٹر ) اور چمرنگ (221 مربع کلومیٹر ) بھی ہیں۔ ریاست؛ لکڑیوں کی غیر قانونی برآمد، کان کَنی، صنعت کاری اور چرنے چرانے سے اپنے جنگلات کھو رہی ہے۔ تحفظ اور باز جنگل کاری کے سلسلے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔[61]
آب و ہوا اور اچھی بارش کی وجہ سے اڈیشا کے سدا بہار اور نم جنگل؛ جنگلی آرکڈ کے لیے مناسب رہائش گاہ ہیں۔ ریاست سے 130 کے قریب اقسام کی اطلاع ملی ہے۔[62] ان میں سے 97 تنہا میوربھنج ضلع میں پائے جاتے ہیں۔ نندن کانن چڑیا گھر کا آرکڈ ہاؤس؛ ان میں سے کچھ قسموں کی میزبانی کرتا ہے۔[63]
سملی پال نیشنل پارک ایک محفوظ پناہ گاہ علاقہ اور میوربھنج ضلع کے شمالی حصہ کے 2،750 مربع کلومیٹر رقبہ میں پھیلا ہوا ٹائیگر ریزرو (شیروں کی پناہ گاہ) ہے۔ اس میں درختوں کی 1078 اقسام ہیں، جن میں 94 آرکڈ شامل ہیں۔ سال درخت وہاں درختوں کی بنیادی نوع ہے۔ اس پارک میں 55 ممالیہ جانور ہیں، جن میں بھونکنے والا ہرن، بنگالی باگھ، عام لنگور، چوسنگا ہرن، بھارتی گور، بھارتی ہاتھی، بھارتی دیو گلہری، بھارتی چیتا، جنگلی بلی، سمبر ہرن اور جنگلی سور شامل ہیں۔ اس پارک میں پرندوں کی 304 اقسام ہیں، جیسے عام پہاڑی مینا، ہندوستانی سرمئی ہارن بل، ہندوستانی کثیر رنگی ہارن بل اور مالابار کثیر رنگی ہارن بل۔ اس میں 60 قسم کے رینگنے والے جانور بھی موجود ہیں، ان میں کنگ کوبرا، بینڈڈ کریٹ اور ٹرائکیرینیٹ پہاڑی کچھوا شامل ہیں۔ قریبی رام تیرتھا میں انڈس مگر مچھ پالنے کا پروگرام بھی ہے۔[64] چندکا ہاتھی پناہ گاہ (ہاتھیوں کا ایک محفوظ مقام) دار الحکومت بھوبنیشور کے قریب 190 مربع کلومیٹر محفوظ علاقہ ہے۔ تاہم شہری توسیع اور زیادہ چرنے سے جنگلات کم ہو گئے ہیں اور ہاتھیوں کے ریوڑ کو ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔ 2002ء میں تقریباً 80 ہاتھی تھے۔ لیکن 2012ء تک ان کی تعداد کم ہوکر 20 ہو گئی تھی۔ بہت سارے جانور باربرا ریزرو جنگل، چیلیکا، نیاگڑھ ضلع اور آٹھ گڑھ کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ ہاتھی دیہاتیوں کے ساتھ تنازعات میں ہلاک ہو گئے ہیں، جب کہ کچھ ہجرت کے دوران میں بجلی کی لائنوں سے بجلی گرنے یا ٹرینوں کی زد میں آنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ محفوظ علاقے کے باہر وہ غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔[65][66] ہاتھیوں کے علاوہ، اس مقام پر ہندوستانی چیتے، جنگلى بلیاں اور چیتل (چیتے دار ہرن) بھی رہتے ہیں۔[67]
کیندراپاڑہ کا بھیتر کنیکا نیشنل پارک؛ 650 پر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 150 مربع کلومیٹر چمرنگ ہیں۔ چمرنگ؛ ایک جھاڑی یا چھوٹا درخت ہے، جو ساحلی نمکین یا کھارے پانی میں اگتا ہے۔ بھیتر کنیکا کا گہیر ماتھا ساحل؛ زیتونی سمندری کچھووں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا گھونسلا ہے۔[68] ریاست میں کچھی کے لیے گھونسلے کے دیگر بڑے میدان گنجام ضلع میں رشیکولیا[69] اور دیوی ندی کا دہانہ ہیں۔[70] بھیتر کنیکا پناہ گاہ؛ کھارے پانی کے مگرمچھوں کی بڑی آبادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے،[71] سردیوں کے موسم میں اس پناہ گاہ میں مہاجر پرندے بھی جاتے ہیں۔ پناہ گاہ میں پائے جانے والے پرندوں کی انواع میں سیاہ تاج پوش رات کا بگلا، سارس، سرمئی بگلا، ہندوستانی کارمورنٹ، سیاہ سر والا آئبس، جامنی بگلا اور سارس کونج شامل ہیں۔[72] اس خطہ میں ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار گھوڑے کی نعل کی شکل کا کیکڑا بھی پایا جاتا ہے۔[73]
چیلیکا جھیل؛ اڈیشا کے مشرقی ساحل پر ایک کھارے پانی والا ساحلی جھیل ہے، جس کا رقبہ 1،105 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ 35 کلومیٹر طویل تنگ آبی گذر گاہ کے ذریعہ خلیج بنگال سے منسلک ہے اور مہاندی دہانہ کا ایک حصہ ہے۔ خشک موسم میں بہاؤ؛ نمکین پانی لے آتے ہیں۔ بارش کے موسم میں نالے میں گرنے والی ندیوں کی نمکینی میں کمی آجاتی ہے۔[74] بحیرہ قزوین، جھیل بیکال، روس کے دیگر حصوں، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، لداخ اور ہمالیہ کے مقامات سے پرندے؛ سردیوں میں اس جھیل کو ہجرت کرکے آتے ہیں۔[75] نشان زد پرندوں میں یوریشیائی جنگلی بطخ، پنٹیل، دھاری دار سر والا قاز، سرمئی پیروں والا قاز، فلیمنگو، میلارڈ اور دیوہیکل بگلا موجود ہیں۔[76][77] کھاڑی میں خطرے سے دوچار اراوڈی ڈالفن کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔[78] ریاست کے سواحل میں بدون مہیپر سوس، بوٹلنوز ڈالفن، ہمپ بیک ڈالفن اور اسپنر ڈالفن بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔[79]
سات پاڑہ؛ چلیکا جھیل اور خلیج بنگال کے قریبی شمال مشرقی سرے سے قریب واقع ہے۔ یہ مقام قدرتی مسکن میں ڈالفن پائے جانے کے لیے مشہور ہے۔ ڈالفن دیکھنے کے لیے راستے میں ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جہاں سیاح اکثر تھوڑا سا وقفہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ چھوٹے چھوٹے کیکڑوں کا گھر بھی ہے۔[80][81]
2016ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق؛ ریاست میں 2000 کے قریب ہاتھی ہیں۔ [82]
تمام بھارتی ریاستوں پر عالمی حق رائے دہی پر مبنی ایک پارلیمانی نظام کی حکومت ہوتی ہے۔[84][85]
اڈیشا کی سیاست میں سرگرم مرکزی پارٹیاں: بیجو جنتا دل، انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں۔ 2019ء میں اڈیشا کے انتخابات کے بعد؛ نوین پٹنایک کی زیر قیادت؛ بیجو جنتا دل مسلسل چھٹی بار اقتدار میں رہی، نوین پٹنایک سنہ 2000ء کے بعد سے اڈیشا کے 14 ویں وزیر اعلیٰ ہیں۔[86]
اڈیشا میں یک ایوانی مقننہ ہے۔[87] اڈیشا قانون ساز اسمبلی میں 147 منتخب ارکان،[86] اور خصوصی عہدہ دار جیسے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر شامل ہیں، جو ارکان کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کی صدارت اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے یا اسپیکر کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے۔[88] انتظامی اختیارات وزیر اعلی کی ماتحت وزرا کی کونسل کے پاس ہوتے ہیں، اگرچہ حکومت کا اعزازی سربراہ؛ گورنر اڈیشا ہوتا ہے۔ گورنر کا تقرر؛ صدر بھارت کرتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ پارٹی یا اتحاد کا لیڈر؛ گورنر کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور وزرا کی کونسل؛ گورنر کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے مشورے پر مقرر کی جاتی ہے۔ وزرا کی کونسل قانون ساز اسمبلی کو رپورٹ کرتی ہے۔[89] منتخب ہونے والے 147 نمائندوں کو ارکانِ قانون ساز اسمبلی یا ایم ایل اے کہا جاتا ہے۔ ایک ایم ایل اے گورنر کے ذریعہ اینگلو انڈین برادری سے نامزد کیا جا سکتا ہے۔[90] عہدہ کی مدت پانچ سال کے لیے ہے، جب کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہوجاتی ہے۔[88]
عدليہ، اڈیشا ہائی کورٹ پر مشتمل ہے، جو کٹک میں واقع ہے اور نچلی عدالتوں کا ایک نظام ہے۔
اڈیشا کو 30 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان 30 اضلاع کو اپنی حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے تین مختلف محصولات ڈویژنوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ ڈویژنیں شمالی، وسطی اور جنوبی ہیں، جن کا صدر مقام بالترتیب سمبلپور، کٹک اور برہم پور میں ہے۔ ہر ذیلی تقسیم؛ دس اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا انتظامی سربراہ بطورِ محصول ایک ڈویژنل کمشنر (آر ڈی سی) ہوتا ہے۔[91] انتظامی درجہ بندی میں آر ڈی سی کی پوزیشن ضلعی انتظامیہ اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان ہے۔[92] ڈویژنل کمشنرز بورڈ آف ریونیو کو رپورٹ کرتے ہیں، جس کی سربراہی انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس (آئی اے ایس) کے ایک سینئر افسر کے ذریعہ ہوتی ہے۔[91]
شمالی ڈویژن (صدر مقام - سمبلپور) | مرکزی ڈویژن (صدر مقام - کٹک) | جنوبی ڈویژن (صدر مقام - برہم پور) |
---|---|---|
ہر ضلع پر کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ حکومت کرتا ہے، جو آئی اے ایس کے ذریعے مقرر ہوتا ہے۔[94][95] کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ ضلع میں محصول وصولی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کو "سَب ڈویژنوں" میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک "سَب کلکٹر" اور "سَب ڈویژن"؛ "مجسٹریٹ" کے زیرِ انتظام ہوتا ہے۔ سب ڈویژنوں کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کی سربراہی؛ تحصیلدار کرتے ہیں۔ اڈیشا میں 58 سب ڈویژنز، 317 تحصیل اور 314 بلاک ہیں۔[93] بلاکس پنچایتوں اور ٹاؤن میونسپلٹی پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ریاست کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر بھوبنیشور ہے۔ دوسرے بڑے شہر کٹک، راورکیلا، برہم پور اور سمبلپور ہیں۔ اڈیشا کے میونسپل کارپوریشنز میں بھوبنیشور، کٹک، برہم پور، سمبلپور اور راورکیلا شامل ہیں۔
اڈیشا کی دیگر بلدیات میں انگول، بلانگیر، بالاسور، بربل، برگڑھ، باریپادا، بیل پہاڑ، بھدرک، بھوانی پٹنہ، بیرمتر پور، بودھ گڑھ، برجراج نگر، بیاسانگر، چھترپور، دیباگڑھ، ڈھینکانال ضلع، گوپالپور، گنو پور، ہنجلی کٹ، جگت سنگھ پور، جاجپور، جے پور، جھارسگوڈا، جوڑا، کیندرا پاڑہ، کیندوجھر، کھوردا، کونارک، کوراپوٹ، ملکان گری، نبرنگپور، نیاگڑھ، نواپاڑہ، پارادیپ، پارالاکھیمنڈی، پھول بانی، پوری، راجگانگ پور، رایگڑا، سونپور، سندرگڑھ، تالچیر، ٹٹلاگڑھ اور عمر کوٹ شامل ہیں۔
معاون اختیارات پنچایتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، جن کے لیے بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں، دیہی علاقوں میں مقامی امور پر حکومت کرتے ہیں۔
اڈیشا مستحکم اقتصادی ترقی کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست کی مجموعی گھریلو مصنوعات میں متاثر کن نمو کی اطلاع وزارت شماریات و نفاذ لائحہ عمل (منسٹری آف اسٹیٹکٹس اینڈ پروگرام امپلیمنٹیشن) نے دی ہے۔ اڈیشا کی شرحِ نمو؛ قومی اوسط سے زیادہ ہے۔[96] مرکزی حکومت کی شہری ترقی کی وزارت نے حال ہی میں 20 شہروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جو اسمارٹ شہروں کے طور پر تیار کیے جائیں گے۔ ریاستی دار الحکومت بھوبنیشور جنوری 2016ء میں جاری کردہ اسمارٹ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا، جو بھارتی حکومت کا پالتو منصوبہ ہے۔ اس اعلان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالوں میں 508.02 ارب روپیوں کی منظوری بھی دی گئی ہے۔[97]
اڈیشا میں قدرتی وسائل اور ایک بڑی ساحلی پٹی ہے۔ اڈیشا سرمایہ کاری کی تجاویز کے ساتھ بیرون ملک سرمایہ کاروں کے لیے سب سے پسندیدہ منزل بن کر ابھری ہے۔[98] یہاں بھارت کے کوئلہ کا پانچواں حصہ، اس کے لوہے کا ایک چوتھائی، اس کے باکسائٹ ذخائر کا ایک تہائی اور زیادہ تر کرومائٹ موجود ہے۔
راورکیلا اسٹیل پلانٹ[99] ؛ بھارت میں عوامی شعبہ میں پہلا مربوط کارخانۂ فولاد تھا، جو جرمنی کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔
آرسیلر مِتّل نے ایک اور بڑے منصوبۂ فولاد میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک روسی بڑی "میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی" (ایم ایم کے) نے بھی اڈیشا میں بھی 10 میگا ٹن کارخانۂ فولاد لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بندھ باہال، اڈیشا میں کوئلے کی کھلی ہوئی کانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ ریاست؛ الومینیم اور کوئلہ پر مبنی بجلی گھروں، پیٹرو کیمیکلز اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بھی بے مثال سرمایہ کاری کی طرف رغبت کر رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں ریلائنس پاور (انیل امبانی گروپ) جھارسگوڈا ضلع کے ہِرما میں 13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا پاور پلانٹ لگا رہا ہے۔[100]
2009ء میں کارپوریٹ سرمایہ کاری پر ایسوچیم (اے ایس ایس او سی ایچ اے ایم) انویسٹمنٹ میٹر (اے آئی ایم) کے مطالعہ کے تجزیہ کے مطابق اڈیشا دوسرے نمبر پر گجرات پہلے اور آندھرا پردیش تیسرے نمبر پر تھی۔ ملک میں کل سرمایہ کاری میں اڈیشا کا حصہ 12.6 فیصد تھا۔اسے گذشتہ سال کے دوران؛ 2،00،846 کروڑ کی مالیت کی سرمایہ کاری کی تجویز موصول ہوئی تھی۔ اسٹیل اور پاور ان شعبوں میں شامل تھے، جنھوں نے ریاست میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔[101]
اڈیشا میں سڑکیں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھوبنیشور باقی ہندوستان کے ساتھ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعہ اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ شاہراہیں "فور لینز (چار سڑکوں والی شاہراہوں)" تک پھیل رہی ہیں۔ [102] بھوبنیشور اور کٹک سے ملنے والی میٹرو ریل کے منصوبے بھی 30 کیلو میٹر کی علاقہ کے لیے شروع ہو چکے ہیں۔ [103]
اڈیشا میں کل 2 زیر عمل ہوائی اڈے، 17 "ہوائی پٹی" اور 16 "ہیلی پیڈ" ہیں۔[104][105][106] جھارسگوڈا کے ہوائی اڈے کو مئی 2018ء میں ایک مکمل گھریلو ہوائی اڈے میں تبدیل کر دیا گیا۔[107] حکومت اڈیشا نے اندرونی اور بین ریاستی شہری ہوا بازی کو فروغ دینے کی کوشش میں انگول، دھامرا، کلنگانگر، پارادیپ اور رایگڑا میں پانچ گرین فیلڈ ہوائی اڈوں کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ بڑبل، گوپال،پور، جھارسگوڈا اور راورکیلا میں موجود ہوائی اڈوں کی بھی تجدید کی جانی تھی۔[108] دھامرا پورٹ کمپنی لمیٹیڈ؛ دھامرا بندرگاہ سے 20 کلومیٹر دور دھامرا ہوائی اڈا بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔[109] ایئر اڈیشا؛ اڈیشا کی واحد ایئر چارٹر کمپنی ہے، جو بھوبنیشور میں واقع ہے۔
اڈیشا میں ساحل کا فاصلہ 485 کلومیٹر ہے۔ اس کی ایک بڑی بندرگاہ پارادیپ میں ہے اور کچھ معمولی بندرگاہیں بھی ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:[110][111]
اڈیشا کے بڑے شہر؛ بھارت کے تمام بڑے شہروں سے براہ راست روزانہ کی ٹرینوں اور ہفتہ وار ٹرینوں سے اچھی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اڈیشا میں زیادہ تر ریلوے نیٹ ورک مشرقی ساحلی ریلوے (ای سی او آر) کے دائرہ اختیار میں ہے، جس کا صدر دفتر بھوبنیشور میں ہے اور کچھ حصے جنوب مشرقی ریلوے زون اور جنوب مشرقی وسطی ریلوے زون کے تحت ہیں۔
سال | آبادی | ±% پی.اے. |
---|---|---|
1901 | 10,302,917 | — |
1911 | 11,378,875 | +1.00% |
1921 | 11,158,586 | −0.20% |
1931 | 12,491,056 | +1.13% |
1941 | 13,767,988 | +0.98% |
1951 | 14,645,946 | +0.62% |
1961 | 17,548,846 | +1.82% |
1971 | 21,944,615 | +2.26% |
1981 | 26,370,271 | +1.85% |
1991 | 31,659,736 | +1.84% |
2001 | 36,804,660 | +1.52% |
2011 | 41,974,218 | +1.32% |
ذریعہ:[112] |
بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ اڈیشا کی کل آبادی 41،974،218 ہے، جن میں 21،212،136 (%50.54) مرد اور 20،762،082 (%49.46) خواتین ہیں یا فی 1000 مرد 978 خواتین ہیں۔ یہ 2001ء کی آبادی کے مقابلہ میں 13.97 فیصد اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ آبادی کی کثافت 270 فی مربع کلومیٹر ہے۔[4]
2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ شرح خواندگی 73 فیصد تھی، 82 فیصد مرد اور 64 فیصد خواتین خواندہ تھے۔
2004ء-2005ء میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کا تناسب 57.15 فیصد تھا، جو بھارتی اوسط 26.10 فیصد سے تقریباً دگنا ہے۔ 2005ء سے ریاست نے غربت کی شرح میں ڈرامائی طور پر 24.6 فیصد پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ موجودہ تخمینہ کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کا تناسب 32.6 فیصد تھا[113][114]
1996ء-2001ء کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست میں متوقع عمر 61.64 سال تھی جو سالوں کی قومی حیثیت سے زیادہ ہے۔ ریاست میں سالانہ شرح پیدائش 23.2 فی 1000 افراد، سالانہ شرح اموات 9.1 فی 1،000 افراد، بچوں کی شرح اموات 65 فی 1000 زندہ پیدائش اور زچگی شرح اموات 358 فی 1،000،000 زندہ پیدائش ہے۔ اڈیشا میں 2018ء کے مطابق انسانی ترقیاتی اشاریہ 0.606 ہے۔[115]
ضلع | صدر دفاتر | آبادی (2011ء) | مرد | عورتیں | فیصد دس سالہ اضافہ % (2001ء-11ء) | جنسی تناسب | کثافت (افراد فی مربع کیلومیٹر) | بچوں کی آبادی 0 سے 6 سال کے | بچوں کا جنسی تناسب | شرح خواندگی | |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | انگول ضلع | انگول | 1,271,703 | 654,898 | 616,805 | 11.55 | 942 | 199 | 145,690 | 884 | 78.96 |
2 | بلانگیر ضلع | بلانگیر | 1,648,574 | 831,349 | 817,225 | 23.29 | 983 | 251 | 206,964 | 951 | 65.50 |
3 | بالاسور ضلع | بالاسور | 2,317,419 | 1,184,371 | 1,133,048 | 14.47 | 957 | 609 | 274,432 | 941 | 80.66 |
4 | برگڑھ ضلع | برگڑھ | 1,478,833 | 748,332 | 730,501 | 9.84 | 976 | 253 | 156,185 | 946 | 75.16 |
5 | بھدرک ضلع | بھدرک | 1,506,522 | 760,591 | 745,931 | 12.95 | 981 | 601 | 176,793 | 931 | 83.25 |
6 | بودھ ضلع | بودھ گڑھ | 439,917 | 220,993 | 218,924 | 17.82 | 991 | 142 | 59,094 | 975 | 72.51 |
7 | کٹک ضلع | کٹک | 2,618,708 | 1,339,153 | 1,279,555 | 11.87 | 955 | 666 | 251,152 | 913 | 84.20 |
8 | دیباگڑھ ضلع | دیباگڑھ | 312,164 | 158,017 | 154,147 | 13.88 | 976 | 106 | 38,621 | 917 | 73.07 |
9 | ڈھینکانال ضلع | ڈھینکانال، بھارت | 1,192,948 | 612,597 | 580,351 | 11.82 | 947 | 268 | 132,647 | 870 | 79.41 |
10 | گجپتی ضلع | پارالاکھیمنڈی | 575,880 | 282,041 | 293,839 | 10.99 | 1,042 | 133 | 82,777 | 964 | 54.29 |
11 | گنجام ضلع | چھترپور | 3,520,151 | 1,777,324 | 1,742,827 | 11.37 | 981 | 429 | 397,920 | 899 | 71.88 |
12 | ضلع جگت سنگھ پور | جگت سنگھ پور | 1,136,604 | 577,699 | 558,905 | 7.44 | 967 | 681 | 103,517 | 929 | 87.13 |
13 | جاجپور ضلع | جاجپور | 1,826,275 | 926,058 | 900,217 | 12.43 | 972 | 630 | 207,310 | 921 | 80.44 |
14 | جھارسگوڈا ضلع | جھارسگوڈا | 579,499 | 297,014 | 282,485 | 12.56 | 951 | 274 | 61,823 | 938 | 78.36 |
15 | کلاہانڈی ضلع | بھوانی پٹنہ | 1,573,054 | 785,179 | 787,875 | 17.79 | 1,003 | 199 | 214,111 | 947 | 60.22 |
16 | کندھمال ضلع | پھول بانی | 731,952 | 359,401 | 372,551 | 12.92 | 1,037 | 91 | 106,379 | 960 | 65.12 |
17 | کیندرہ پاڑہ ضلع | کیندرہ پاڑہ | 1,439,891 | 717,695 | 722,196 | 10.59 | 1,006 | 545 | 153,443 | 921 | 85.93 |
18 | کیندوجھر ضلع | کیندوجھر | 1,802,777 | 907,135 | 895,642 | 15.42 | 987 | 217 | 253,418 | 957 | 69.00 |
19 | کھوردا ضلع | کھوردا | 2,246,341 | 1,166,949 | 1,079,392 | 19.65 | 925 | 799 | 222,275 | 910 | 87.51 |
20 | کوراپٹ ضلع | کوراپوٹ | 1,376,934 | 677,864 | 699,070 | 16.63 | 1,031 | 156 | 215,518 | 970 | 49.87 |
21 | ملکان گری | ملکان گری | 612,727 | 303,913 | 308,814 | 21.53 | 1,016 | 106 | 105,636 | 979 | 49.49 |
22 | میوربھنج ضلع | باریپادا | 2,513,895 | 1,253,633 | 1,260,262 | 13.06 | 1,005 | 241 | 337,757 | 952 | 63.98 |
23 | نبرنگپور ضلع | نبرنگپور | 1,218,762 | 604,046 | 614,716 | 18.81 | 1,018 | 230 | 201,901 | 988 | 48.20 |
24 | نیاگڑھ ضلع | نیاگڑھ | 962,215 | 502,194 | 460,021 | 11.30 | 916 | 247 | 101,337 | 851 | 79.17 |
25 | نواپاڑہ ضلع | نواپاڑہ | 606,490 | 300,307 | 306,183 | 14.28 | 1,020 | 157 | 84,893 | 971 | 58.20 |
26 | پوری ضلع | پوری، اڈیشا | 1,697,983 | 865,209 | 832,774 | 13.00 | 963 | 488 | 164,388 | 924 | 85.37 |
27 | رایگڑا ضلع | رایگڑا | 961,959 | 469,672 | 492,287 | 15.74 | 1,048 | 136 | 141,167 | 955 | 50.88 |
28 | سمبلپور ضلع | سمبلپور | 1,044,410 | 529,424 | 514,986 | 12.24 | 973 | 158 | 112,946 | 931 | 76.91 |
29 | سونپور ضلع | سونپور، اڑیسہ | 652,107 | 332,897 | 319,210 | 20.35 | 959 | 279 | 76,536 | 947 | 74.42 |
30 | سندرگڑھ ضلع | سندرگڑھ | 2,080,664 | 1,055,723 | 1,024,941 | 13.66 | 971 | 214 | 249,020 | 937 | 74.13 |
اڈیشا میں مذہب؛ باعتبار مردم شماری (2011 ء) [116]
اڈیشا میں اکثریت (تقریباً %94[118]) ہندو ہیں اور ریاست میں ایک متناسب ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اڈیشا میں متعدد ہندو شخصیات ہیں۔ سنت بھیما بھوئی؛ مہیما دھرم کا قائد تھا۔ سارلا داس ایک ہندو کھنڈایت؛ مہاکاوی مہابھارت کا اڈیہ میں ترجمہ کرنے والے تھے۔ چیتنیا داس؛ ایک بدھ مت - وشنو اور "نِرگُنا مہاتمَیا" کے مصنف تھے۔ جیدیو؛ "گیتا گووِندا" کے مصنف تھے۔
1948ء کے اڈیشا مندر اتھارٹی ایکٹ نے حکومت اڈیشا کو یہ اختیار دیا کہ وہ دلتوں سمیت تمام ہندؤوں کے لیے مندر کھولے۔[119]
شاید اڈیشا کا سب سے قدیم صحیفہ پوری مندر کا "مَڈلا پنجی" ہے، جو 1042ء کا مانا جاتا ہے۔ مشہور ہندو اڈیہ صحیفہ میں 16 ویں صدی کے جگن ناتھ داس کی بھاگوت شامل ہے۔[120] جدید دور میں مدھوسودن راؤ؛ اڈیہ کے ایک بڑے ادیب تھے، جو ایک برہمو سماج پسند تھے اور جنھوں نے 20 ویں صدی کے آغاز میں جدید اڈیہ ادب کی تشکیل کی۔[121]
2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اڈیشا میں عیسائی آبادی تقریباً 2.8 فیصد ہے، جب کہ اڈیہ مسلمان %2.2 فیصد ہیں۔ سکھ، بدھ اور جین برادری مل کر آبادی کا 0.1 فی صد ہیں۔[118]
اڈیہ؛ اڈیشا کی سرکاری زبان ہے[123] اور یہ بھارت کی مردم شماری 2011ء کے مطابق؛ آبادی میں 82.7 فی صد بولی جاتی تھی۔[122] یہ بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ریاست اور ہندوستان کے اتحاد کے مابین خط کتابت کی سرکاری زبان ہے۔ عام بول چال والی اڈیہ یکساں نہیں ہیں؛ کیوں کہ ریاست بھر میں بولی جانے والی مختلف بولیاں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی کچھ بڑی بولیاں: "سمبلپوری"، "کٹکی"، "پوری"، "بالاسوری"، "گنجامی"، "دیسیہ" اور "پھولبانی" ہیں۔ اڈیہ کے علاوہ دوسری بڑی بھارتی زبانیں جیسے ہندی، تیلگو، اردو اور بنگالی بولنے والوں کی نمایاں آبادی بھی ریاست میں پائی جاتی ہیں۔[124]
مختلف آدی واسی برادریاں؛ جو زیادہ تر مغربی اڈیشا میں رہتی ہیں، ان کی اپنی زبانیں جنوبی ایشیائی اور دراوڑی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ آدی واسی زبانیں؛ سنتالی، کُوئی اور ہو ہیں۔ بیرونی لوگوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے رابطوں، نقل مکانی اور سماجی و اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی مقامی زبانیں آہستہ آہستہ ناپید ہو رہی ہیں یا ناپید ہونے کے دہانے پر ہیں۔[125]
اڈیشا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ؛ 1957ء میں اڈیہ زبان و ادب کو فعال طور پر ترقی دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ حکومت اڈیشا نے اڈیہ زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے 2018ء میں ایک پورٹل https://ova.gov.in/en شروع کیا۔
اعلی تعلیم کے مختلف اداروں بالخصوص انجینئری کی ڈگری والے اداروں میں داخلہ؛ اڈیشا مشترکہ داخلہ امتحان کے ذریعہ ہوتا ہے، جو بیجو پٹنایک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (بی پی یو ٹی)، راورکیلا کے ذریعہ 2003ء سے لیا جاتا ہے، جہاں نشستوں کی اہلیت کے مطابق نشستیں فراہم کی جاتی ہیں۔[129] انجینئری کے بہت سارے انسٹی ٹیوٹ؛ جوائنٹ انٹری امتحان کے ذریعہ طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں۔ میڈیکل کورس کے لیے اسی طرح کی قومی اہلیت کے ساتھ داخلہ امتحان ہوتا ہے۔
اڈیشا میں صدیوں پر محیط ایک پاک روایت ہے۔ شری جگن ناتھ مندر، پوری کا باورچی خانہ دنیا میں سب سے بڑا باورچی ہے، جس میں 1،000 شیف (باورچی) ہر روز 10،000 سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 752 لکڑی سے جلنے والے مٹی کے چولوں پر کام کرتے ہیں۔[130][131]
اڈیشا میں تیار کی گئی شیرہ سے بھری پہاڑہ رسگولہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔[132] چھینا پوڑ اڈیشا کی ایک اور بڑی میٹھی ڈِش ہے، جس کی شروعات نیاگڑھ سے ہوئی ہے۔[133] دالما (دال اور منتخب سبزیوں کا مرکب) وسیع پیمانے پر مشہور پکوان ہے، جو گھی کے ساتھ بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مغربی بنگال کے ساتھ مشہور مٹھائی کی اصل کے بارے میں طویل لڑائی کے بعد اڈیشا رسگولہ کو 29 جولائی 2019ء کو "جی آئی ٹیگ" دیا گیا۔[134]
اڑیسی رقص اور موسیقی کلاسیکی آرٹ کی شکلیں ہے۔ اوڈیسی؛ آثار قدیمہ کے شواہد کی بنیاد پر بھارت میں قدیم زندہ بچ جانے والا رقص ہے۔[135] اوڈیسی کی 2،000 سال کی طویل غیر متزلزل روایت ہے اور اس کا ذکر؛ ممکنہ طور پر تحریری تقریباً 200 قبل مسیح سے بھرت مونی کے ناٹیہ شاستر میں ملتا ہے۔ تاہم برطانوی دور میں رقص کی شکل تقریباً معدوم ہو گئی تھی، صرف چند گرؤوں کے ذریعہ آزادی ہند کے بعد اسے زندہ کیا گیا۔
رقص کی مختلف اقسام میں گھمورا رقص، چھاؤ رقص، جھومیر، مہاری رقص، دلکھائی اور گوٹی پوا شامل ہیں۔
ریاست اڈیشا نے کھیلوں کے کئی بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کی ہے، جن میں مردوں کا ہاکی عالمی کپ 2018ء بھی شامل ہے اور عورتوں کا ہاکی عالمی کپ فیفا انڈر 17، 2020ء بھی شامل ہے اور مردوں کا ہاکی عالمی کپ 2023ء کے لیے میچوں کی میزبانی کرے گا۔
کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے بہت سارے اسٹیڈیم اور میدان دستیاب ہیں۔ کچھ مشہور اسٹیڈیم کے نام درج ذیل ہیں؛
بھوبنیشور کے لنگ راج مندر میں 150-فٹ (46 میٹر) اونچا دیولا (مندروں کے اوپر کا گنبد نما حصہ) ہے، جب کہ جگن ناتھ مندر، پوری تقریباً 200 فٹ (61 میٹر) اونچائی پر ہے اور اسکائی لائن پر تسلط رکھتا ہے۔ کونارک، ضلع پوری میں کونارک سوریا مندر کا صرف ایک حصہ؛ جو مقدس سنہرے مثلث" کے سب سے بڑے مندروں میں موجود ہے اور یہ اب بھی حیرت زدہ ہے۔ یہ اڈیشا کی فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ "شکت ازم" کے سب سے زیادہ روحانی اظہارِ خیالات میں سے ایک سمجھا جانے والا سرلا مندر؛ ضلع جگت سنگھ پور میں ہے۔ یہ اڈیشا میں ایک سب سے پرجوش مقام اور سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ گھٹگاؤں، کیندوجھر ضلع میں واقع ماں تارنی مندر بھی ایک مشہور زیارت گاہ ہے۔ ہر روز ہزاروں ناریل اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر عقیدت مندوں کے ذریعہ ماں تارنی کو دیے جاتے ہیں۔ ہر روز ہزاروں ناریل ماں تارنی کو عقیدت مند اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دیتے ہیں۔[137] اڈیشا کی مختلف ٹپوگرافی - جنگلی مشرقی گھاٹوں سے لے کر زرخیز دریا کے حوضوں تک - کمپیکٹ اور منفرد ماحولیاتی نظام کے ارتقا کے لیے مثالی ثابت ہوئی ہے۔ اس سے نباتات اور حیوانات کے خزانے پیدا ہوتے ہیں، جو پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی بہت سی ہجرت کرنے والی نسلوں کو دعوت دیتے ہیں۔بھیترکنیکا نیشنل پارک کیندرہ پاڑہ ضلع میں اپنے دوسرے بڑے چمرنگ ماحولیاتی نظام کے لیے مشہور ہے۔ چیلیکا جھیل میں پرندوں کی پناہ گاہ (ایشیا کی سب سے بڑی کھارے پانی کی جھیل) ہے۔ سملی پال نیشنل پارک، میوربھنج ضلع کا ٹائیگر ریزرو اور آبشاریں؛ سیاحت ِ اڈیشا کے زیر اہتمام ماحولیات اڈیشا میں سیاحت کا لازمی حصہ ہیں۔[138]
درنگبادی؛ کندھمال ضلع میں ایک پہاڑی اسٹیشن ہے۔ اسے موسمی مماثلت کی وجہ سے "کشمیرِ اڈیشا" کہا جاتا ہے۔ چاندی پور؛ بالاسور ضلع میں ایک پرسکون اور پرسکون مقام ہے، جو زیادہ تر سیاحوں کے ذریعہ دریافت نہیں کیا جاتا ہے۔ اس ساحل کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ جوار کی لہریں؛ 4 کلومیٹر تک کم ہوتی ہیں اور تال میل کے ساتھ غائب ہو جاتی ہیں۔
اڈیشا کے مغربی حصہ میں ہیراکود ڈیم سمبلپور ضلع میں دنیا کا سب سے لمبا مٹی کا ڈیم ہے۔ یہ ایشیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل بھی بنتی ہے۔ ڈیبری گڑھ وائلڈ لائف سینکچوری ہیراکود ڈیم کے قریب واقع ہے۔ سملیسوری مندر؛ سمبلپور شہر کی ایک ہندو مندر ہے، جو "سمبلپور" کی صدارت کرنے والا دیوتا "سمَلیسوَری" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ریاستِ اڈیشا اور چھتیس گڑھ کے مغربی حصہ میں ایک مضبوط مذہبی قوت ہے۔ ہما کا جھکا ہوا مندر سمبلپور کے قریب واقع ہے۔ مندر ہندو دیوتا بیملیشور کے لیے وقف ہے۔ سری سری ہری شنکر دیوستھان؛ بلانگیر ضلع میں گندھاماردن پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر ایک مندر ہے۔ یہ فطرت کے مناظر اور دو ہندو معبودان وشنو اور شیو کے لیے مشہور ہے۔ گندھاماردن پہاڑیوں کے مخالف سمت میں سری نرسنگھ ناتھ کا مندر ہے، جو پیکمال، برگڑھ ضلع کے قریب گندھاماردن پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔
اڈیشا کے جنوبی حصے میں ضلع گنجام میں برہم پور شہر کے قریب واقع "رُشِکُلیہ ندی" کے کنارے میں "کُماری پہاڑیوں" پر واقع "تارا تَرینی مندر" ہے، جہاں چھاتی (پستان) کی عبادت گاہ (ستھنا پیٹھہ) اور آدی طاقت کے مظہر کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ "تارا تارینی شکتی پیٹھہ"؛ دیوی کے قدیم ترین یاترا مراکز میں سے ایک ہے اور یہ بھارت میں چار بڑے قدیم تنتر پیٹھہ" اور شکتی پیٹھوں" میں سے ایک ہے۔ "دیومالی"؛ مشرقی گھاٹوں کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ "ضلع کورا پوٹ" میں واقع ہے۔ یہ چوٹی تقریباً 1,672 میٹر کی بلندی کے ساتھ، اڈیشا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔
ریاست میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا حصہ پورے ہندوستان کی سطح پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔[139]
کھچنگ؛ سُکرُولی بلاک کے تحت ایک قدیم گاؤں ہے۔ سکرولی؛ بھارت کے اڈیشا کے ضلع میوربھنج کے مشہور مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ کِچَا کیشوَری مندر کا مقام ہے، جو کالے پتھر سے بنایا گیا ہے۔ کِھچِنگ؛ کرنجی سے 24 کلومیٹر مغرب میں اور کیندوجھر شہر سے تقریباً 50 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
"پوری بیچ" یا "گولڈن بیچ" بھارت کی ریاست اڈیشا ریاست میں پوری شہر کا ایک ساحل ہے۔ یہ خلیج بنگال کے کنارے ہے۔ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز اور ہندو مقدس جگہ ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اور اسی شہر میں "جگن ناتھ مندر، پوری" واقع ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.