From Wikipedia, the free encyclopedia
تاریخ ہند کی سب سے بڑی اور پہلی سلطنت موریا تھی۔ جس کا بانی چندر گپت موریا تھا۔ عام روایات کے مطابق یہ نند خاندان کا ناجائز فرد تھا جوکسی بنا پر راجا کی ناراضی سے ڈر کر پنجاب کی طرف بھاگ گیا تھا۔ پنجاب میں چندر گپت پنجاب و سرحد کے غیر مطمئن قبائل کا رہنما بن گیا۔ اس نے اپنے وزیر چانکیا یا کوٹلیاChaknia or Koutlia کی مدد سے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور ایک سال کے اندر یونانی حکومت کے اثر و نفوز کو مٹا کر ایک نئے شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ جو اس کی ماں کے نام سے موریہ تاریخ میں مشہور ہوا۔ چندر گپت یونانی اثرات کو زائل کرنے کے بعد مگدھ کی ریاست پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں نند خاندان کا آخری حکمران مارا گیا۔
جین مت کی روایتیں موریاؤں کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ موروں کے رکھوالے تھے۔ بدھ روایتیں کہتی ہیں کہ جب شاکیا کی شاخ موریا مگدھ سے بچ نکلا تو ایک پہاڑی علاقہ میں چلا گیا ہے جہاں موروں کی بہتات تھی۔ وہاں انھوں نے ایک شہر بسایا اور چونکہ شہر کے محلات کی اینٹوں کا رنگ مور کی گردن جیسا تھا۔ اس لیے یہ لوگ مور کہلائے اور شہر کا نام موریا نگر مشہور ہوا۔ نندن گڑھ کے ستون سابچی کے سٹوپوں وغیرہ پر موروں کی تصویر کندہ ہیں۔ پاٹلی پتر میں موریا محل کے باغ مور پالے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے فاؤچر، جان مارشل اور گرن ویڈل اس نتیجہ پر پہنچے کہ مور موریا خاندان کی قومی علامت تھا۔ یہاں تک جب گپتا دور میں مہا بھارت پر نظر ثانی کی گئی تو انھیں سنسکرت کا تلفظ میورا کا (یعنی مور قبیلہ) دے دیا گیا۔ (مور راکھا یعنی موروں کا رکھوالا) چندر گپت کے بارے میں یہ روایت ہے کہ وہ نندا خاندان کا ناجائز لڑکا تھا اور اس کی ماں کے نام سے موریا خاندان کا نام پڑا۔
بی ایس ڈاہیا کا کہنا ہے کہ یہ تمام روایات بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ تمام داستانیں فرضی ہیں ان میں زرہ پھر سچائی نہیں ہے موریا خاندان کا مور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ مور ان کی خاندانی یا پسندیدہ علامت ہے۔ ستون پر کندہ اشوک کے شاہی فرمان نمبر 5 میں ان جانوروں اور پرندوں کی فہرست دی گئی جن کو مارنا منع ہے، لیکن ان میں مور شامل نہیں ہے۔ اشوک کی خوراک جو جانور شامل تھے ان میں کو بھی شامل تھا۔ یہ لوگ مور خور تھے نہ کہ مور کے محافظ۔ یہ کیسے ممکن ہے موروں کے رکھوالے کا بیٹا (چندر گپت) ایک ہزار میل دور ٹیکسلا جو شہزادوں کی عظیم درس گاہ تھی تعلیم پاتا تھا۔
یونانی تاریخیں میں کہیں بھی اس کی نشان دہی نہیں ہوتی ہے کہ موریاؤں کا تعلق نندا خاندان سے ہے۔ موریہ کون تھے؟ چانکیہ اس کے بارے میں اپنی تصنیف ارتھ شاستر میں ایک لفظ نہیں کہتا ہے۔ پران موریہ حکمرانوں کے بارے میں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتی ہیں۔ ’مدرا راکش‘ سنسکرت کے ڈراما نگار وشاکھ دت نے موریاؤں کو انھیں شودر، ورشل اور کمینہ کہہ کر حقارت کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے اور خود چندر گپتا کو کلاہن (مجہو الاصل) کہا ہے۔ جب کہ ’یوگ پران‘ نے انھیں بے دین بظاہر دین دار کہا ہے۔ وشنو پران کہتا ہے نندا کی نسل کے خاتمہ کے بعد موریا قابض ہوجائیں گے اور انھیں شودر کہا ہے۔ مارکنڈیا پران میں انھیں ہے اسور کہا گیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس نفرت کا سبب کیا ہے۔ اس جانب ایک اشارہ ہے کہ معاشرے کے بارے میں بالعوم اور برہمنی رسوم کے بارے میں بالخصوص موریاؤں کا روئیہ ہے۔ موریاؤں نے تمام برہمنی رسومات ختم کر دیں۔ انھوں نے رسمی طور پر برہمنی مذہب کی مخالفت کی اور اس کے برعکس انھوں نے بیواؤں کی شادی کی حمایت کی۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ موریا غیر ملکی تھے۔ اس لیے وہ برہمنوں کی بالا دستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے اور وہ ذات پات کو نہیں مانتے تھے۔
اور مزید ان کا کہنا ہے اس کی حقیقت وسط ایشیائی کلمہ ’مور‘ جس کے معنی تاج کہ ہے، یہ وہی کلمہ ہے جس کو موڈ بھی بولا جاتا یعنی وہ تاج جو دولہا شادی کہ موقع پہنتا ہے۔ کیوں وسط ایشا کہ لوگ کلمہ کو ڑ اور ڈ ساتھ بھی بھی بولتے ہیں، اس لیے اسے سنسکرت کو ’موڈ‘ سمجھا گیا، جس کے معنی مسرت اور خوشی کے ہیں۔ انھوں نے اس کلمہ پر تفصیلی بحث کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کڑٹس کہتا ہے سندھ میں پٹالا کے بادشاہوں نے بھی اس کلمہ کو اپنے ناموں کے ساتھ لگایا ہے اور یہ کلمہ وہی ہے جس کو یونانیوں نے موئز کہا ہے، یہ کلمہ وسطہ ایشیا میں بھی ایک قبیلہ کا نام تھا اور وہاں اب بھی موجود ہے اور اس کا نام بھی یہی ہے۔ موریا، خوتان ترکستان اور دیگر علاقوں کے علاوہ کشمیر کے بھی حکمران تھے۔ پاپا اول سے پہلے موریا راجستھان میں جتوڑ کے حکمران تھے، وہ خود مور راجا کی لڑکی کا بیٹا تھا۔ اس طرح مہرت راجا چتوڑ جس کا ذکر چچ نامہ میں ذکر ملتا ہے مور یا موری قبیلہ کی شاخ اور سندھ کے رائے ساسی کا رشتہ دار تھا۔ نیل گری کے پہاڑوں پر چند قدیم مجسموں کا حوالہ دیتے ہوئے فادر مٹز کہتا ہے کہ وہ موریا ری مان (موریا گھرانا کہلاتے تھے۔ وہ انھیں تار تار یا ازبک تسیلم کرتا ہے۔
سلطنتِ موریہ Maurya Empire मौर्यसाम्राज्यम् (پراکرت) | |||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
322 قبل مسیح–185 قبل مسیح | |||||||||||||||||
دار الحکومت | پاٹلی پوترا (موجودہ پٹنہ) | ||||||||||||||||
عمومی زبانیں | ہند۔آریائی زبانیں (مثلاً مگدھی پراکرت، پراکرت، سنسکرت زبان) | ||||||||||||||||
مذہب | ہندو مت بدھ مت جین مت آجیویکا | ||||||||||||||||
حکومت | مطلق بادشاہت مذکور از ارتھ شاستر | ||||||||||||||||
شہنشاہ | |||||||||||||||||
• 320–298 قبل مسیح | چندرگپت موریا | ||||||||||||||||
• 298–272 قبل مسیح | بندوسارا | ||||||||||||||||
• 268–232 قبل مسیح | اشوک اعظم | ||||||||||||||||
• 232–224 قبل مسیح | دشرتھ موریہ | ||||||||||||||||
• 224–215 قبل مسیح | Samprati | ||||||||||||||||
• 215–202 قبل مسیح | Shalishuka Maurya | ||||||||||||||||
• 202–195 قبل مسیح | دیوا ورمن | ||||||||||||||||
• 195–187 قبل مسیح | Shatadhanvan | ||||||||||||||||
• 187–185 قبل مسیح | Brihadratha | ||||||||||||||||
تاریخی دور | قدیم تاریخ | ||||||||||||||||
• | 322 قبل مسیح | ||||||||||||||||
• | 185 قبل مسیح | ||||||||||||||||
رقبہ | |||||||||||||||||
4,000,000 کلومیٹر2 (1,500,000 مربع میل) | |||||||||||||||||
کرنسی | Panas | ||||||||||||||||
| |||||||||||||||||
موجودہ حصہ | افغانستان بنگلادیش پاکستان بھارت |
چندرگپت موریاسے تاریخ ہند کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جو شمالی ہند کے اتحاد اور ہندو تمذن کی نشونماہ نظام حکومت کی توسیع اور برہمنت کے اثر و رسوخ کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پہلا حکمران ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کرکے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنی مملکت کو خلیج بنگال سے لے کر بحیرہ عرب تک وسیع کیا۔ اس نے اپنے چوبیس سالہ (322ء تا 298ء ق م) دور میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں، جس میں سب سے اہم جنگ سکندر کے سالار سلوکس Seleuces سے لڑی۔ سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ سلوکس نے 305 ق م میں پاک و ہند کی طرف قدم بڑھایا، مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پنجاب کی سرزمین پر شکست کھانے کے بعد ایک شرمناک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ جس کے رو سے وہ نہ صرف ہندی مقبوضات سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہو گیا۔ نیز تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اس نے اپنی بیٹی کی شادی چندر گپت سے کردی۔ چندر گپت نے محض اس کی بات رکھنے کے لیے پانسو ہاتھیوں کا تحفہ بھیجا۔ سلوکس نے اپنے ایک سفیر میگھستینز Maghasthenes کو اس کے دربار میں بھیجا، جس نے اس عہد کے حالات تفصیل سے قلمبند کیے ہیں۔ اس جنگ کے بعد موریا سلطنت کی سرحدیں مکران و افغانستان تک وسیع ہوگئیں۔ جین روایات کے مطابق چندر گپت نے آخری زمانے میں جین مت قبول کر لیا تھا اور اس نے تخت سے دست بردار ہوکر حکومت اپنے بیٹے بندو سار Bindusara کو سونپ دی تھی۔ مگر دوسری روایات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔
بندوسار 298 ق م میں تخت نشین ہوا۔ اس نے تقریباََ پچیس سال حکومت کی۔ بندو سار کے عہد کے حالات معلوم نہیں مگر اس کا لقب امیر گھاتا (دشمن کش) تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک جنگجو حکمران تھا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس نے دکن فتح کر لیا تھا۔ کیوں کہ یہ بات قطعی طور پر درست ہے کہ اشوک نے صرف کلنگا Kalinga کو ہی فتح کیا تھا۔ سلوکس نیکتر سے اس کے دوستانہ تعلقات تھے۔ سلوکس نے اپنے سفیر دیماکوس کو اس کے دربار میں بھیجا تھا۔
تاریخ کا طالب علم یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگرچہ بندوسار اپنے دور کا ایک عظیم حکمران تھا مگر وہ اپنے عظیم باپ (چندر گپت) اورشان وشوکت والے بیٹے (اشوک ) کے درمیان دبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
بندوسار کے بعد273 یا 273 ق م میں اشوک Ashoka اس کا بیٹا جانشین ہوا۔ اس حالات خود اس کے لاٹوں اور کتبوں سے ملتے ہیں۔ اس کی تاجپوشی کی رسم چار سال کے بعد269 ق م میں ادا کی گئی۔ مگر اس کی حکومت کے ابتدائی چارسال کے حالات بالکل معلوم نہیں ہیں اور جو کچھ مذہبی کتابوں میں ملتے ہیں ان پر مذہبی رنگ غالب ہے۔ ان مذہبی روایات میں بتایا گیا ہے کہ اشوک اپنے 99 بھائیوں کو قتل کرکے تخت حاصل کیا تھا۔ مگر دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی حکومت کے سترویں یا اٹھارویں برس تک اس کے بھائی زندہ تھے اور وہ ان کی خبر گیری کرتا تھا۔ پھر بھی یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ تخت نشینی کی عام روایات کے مطابق اسے اپنے بھائیوں جنگ کرنی پڑی ہو اور چند کا اسے خون بھی بہانا پڑا ہو، جیسا کہ اس کی پانچویں لاٹ سے پتہ چلتا ہے۔ غرض اس کی حکومت کے ابتدائی حالات کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ تخت نشینی کے بارہ سال تک وہ غیر اہم زندگی بسر کرتا تا رہا اور شاید اپنا وقت انتظامی امور پر توجہ دی اور 261 ق م میں مہاندی اور گوادری کے درمیان غیر آریائی ریاست کلنگاKulinga پر حملہ کر کے اس ریاست کو فتح کر لیا۔ اس طرح موریا کی توسیع جنوبی ہند تک ہو گئی۔ کلنگا کی فتح نے اشوک کے دماغ پر گہرا اثر دالا۔ کیوں کہ اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگی تباہ کاریاں دیکھ کر اشوک سخت متاسف ہوا اور اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ کبھی جنگ نہ کرے گا۔ اس واقع کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی اخلاقی تعلیمات پھیلانے، برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں سے آشنا کرنے میں صرف کردی۔ اشوک نے دور دراز کے ملکوں مثلاََ لنکا، برما، سیام، سماٹرا، شام، مقدونیہ اور مصر میں اپنے مغلبین بھیجے۔ انھوں نے جنوبی ملکوں میں شاندار کامیابی حاصل کیں۔ اشوک نے بدھ کی اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے انھیں پتھروں کی سلوں کی پر کندہ کرا کر انھیں شاہراؤں پر نصب کروائے۔ اس کی تعلیمات جو بدھ سے ماخذ ہیں ان میں عدم تشد، جانداروں کی زندگی کی تحریم، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، ماں اور باپ اور استادوں کی تعظیم، راست گوئی، عام ہمدردی اور فیاضی پر زور دیا گیا ہے۔ اس نے مختلف مقامات پر مسافر خانے، کنوئیں اور شفاخانے تعمیر کرائے۔ نیز جانوروں کو ہلاک کرنا ممنوع قرار دیا۔ اشوک نے اپنی حکومت کے چوبیسویں سال مقدس مقامات کی زیارت کی اور گوتم کی یاد میں لمبنی باغ قریب جہاں گوتم پیدا ہوا تھا ایک مینار نصب کرایا۔ علاوہ ازیں اشوک نے بدھ مت کے فرقوں کے اختلاف ختم کروانے کے لیے ایک مجلس منعقد کروائی۔ اشوک کو عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ اس نے مختلف مقامات پر عالی شان محلات، خانقائیں اوراسٹوپے Stups تعمیر کروائے جن کے نشانات اب نہیں ملتے ہیں۔ اس نے سنیاسیوں کی عبادت کے لیے گیا کے قریب برابر کے پہاڑوں میں چٹانوں کو کاٹ خوب صورت اور بہت ہی صاف سفاف خانقائیں بنوائیں جو اب بھی باقی ہیں۔ مگر اس کی تمام یادگاروں میں اہم اس کے کتبہ ہیں جو تعداد میں تیس ہیں۔ یہ کتبہ زیادہ تر چٹانوں کی سلوں، غاروں کی دیواروں اور ستونوں پر کندہ ہیں برصغیر کے بہت سے حصوں میں پائے گئے ہیں۔ ان کی زبان پراکرت ہے، یعنی وہ مقامی زبانوں میں ہیں۔ ان کتبوں میں دو کا رسم الخط وہ ہے جسے آج کل کروشتھی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ رسم الخظ قدیم آرامی رسم الخظ سے ماخوذ ہے اور دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ بقیہ کتبے براہمی حروف کے کسی نہ کسی شکل میں کندہ۔ یعنی ان حروف میں ہیں جن سے موجودہ دیوناگری رسم الخط نکلا ہے۔ یہ حروف دائیں سے بائیں لکھے جاتے تھے۔ یہ کتبات شاہی فرامین ہیں اور زیادہ تر اخلاخی اصول بدھ کی عام تعلیمات، نظم و نسق اور اصول سلطنت پر مشتمل ہیں۔
یہ حقیقت ہے جوحکومت قیام امن کے لیے قائم ہوتی ہے خود بغیر جنگ اور عسکری طاقت کے بغیر قائم رہے نہیں سکتی ہے۔ اشوک نے اپنی تمام زندگی میں عدم تشدد کی پر زور تبلیغ کی اور ان کے اصولوں سیاسی اور اجتماعی زندگی میں اپنانے اور قابل عمل بنانے کی کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں کے اندر سطنت کی حربی طاقت ختم ہو گئی اور فوج کا جنگی جذبہ سرد ہو گیا، نظام حکومت کمزور ہو گیا اور اس کی ہیبت لوگوں کے دلوں سے اٹھ گئی۔ ساتھ ہی ساتھ بدھ مت کی تبلیغ کی وجہ سے برہمنیت جاگ اتھی اور وہ نچ ذات کے بدھ فرمانروا کو اکھاڑ پھیکنے پر تل گئی۔ طاقت کے استعمال کا خوف تھا ہی نہیں اس لیے بڑی بیباکی کے ساتھ اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں کا مسلہ کھڑا کر کے مذہبی جذبات بھڑکا دیا گیا، اشوک کے موت کے بعد موریاسلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ایک طرف اشوک کے بیٹوں اور پوتوں نے حصہ بخرے کر لیے اور دوسری طرف بعض حوصلہ مندوں نے بعض مقامات پر قبضہ جمالیا اور یہ بتانا مشکل ہو گیا کہ اشوک کے بعد اس کا جانشین کون ہوا۔ پران کی روایت میں کنال kunak جو اشوک کا بیٹا تھا پہلا جانشین بتاتا ہے۔ مگر کشمیر کے واقع نگار ایک شخص جلوک Jalauka اس کا بیٹا اور جانشین کہتے ہیں۔ تیسری بدھ مت کی روایتں ہیں جو بتاتی ہیں کہ بڑھاپے میں اشوک کا انہماک مذہب کی طرف اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ حکومت کے کاموں سے غفلت برتنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کے سلطنت کے کل پرزے ڈھیلے پڑ گئے اور آمدنی بے جا طور پر صرف ہونے لگی۔ یہ حالات دیکھ کر وزراء نے اشوک کے اختیارات سلب کر کے اس کے پوتے سمپری Samprti جو کنال کا بیٹا تھا تخت پر بیٹھا دیا۔ ان روایات کے مطابق سمپرتی کے بعد موریا خاندان کے چار اور حکمران برشین Brashisin، پسی Pushydrman دھرمن اور پشی متر Pushidhrman تخت پر بیٹھے۔ جین روایت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ سمپرتی اشوک کا جانشین ہوا۔ ان روایات کے پہلو بہ پہلو وہ کتبے ہیں جو ناگرجنیNagarjuni کے پہاڑ کے غاروں میں کندہ ہیں جو اشوک کے پوتے دسرتھ Dasartha نے بنوائے تھے۔ یہ غار اشوک کے کھدوائے ہوئے برابر پہاڑ Brabar Hillکے غاروں کے قریب واقع ہیں۔ ان کتبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشوک کی موت کے بعد دسرتھ تخت پر بیٹھا یا کم از کم مشرقی صوبوں میں اس کا جانشین ہوا۔ دسرتھ اشوک کے ایک بیٹے تیور Tivra کا بیٹا تھا جو شاید باپ کی زندگی میں مر گیا تھا، کیوں کہ اشوک کے بعد اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ حلانکہ اشوک کا یہی ایک بیٹا تھا جس کا ذکر کتبوں میں آیا ہے۔ وشنو پران کی روایات کے مطابق موریا خاندان کے چار حکمران شالی شوک Sali suka، دیو ورمن Devavarman، ستمدہنوس Satamdhmus اور برہدرتھ Brihadrtha پاٹلی کے تخت پر بیٹھے۔ ہر نیا حکمران سابق حکمران سے کمزور تر نکلا۔ آخر انحاط اس حد تک پڑھا کے فوج کے سالار پشی متر Pushyammitra نے راجا (برہدرتھ) کو قتل کرکے موریا خاندان کا خاٹمہ کر دیا۔
موریا حکومت اس دور کی دوسری ہندی حکومتوں کی طرح شخصی، موروثی اور مطلق العنان تھی۔ راجا دیوتا کا نائب اور اس کی طاقتوں کا مظہر تھا۔ تمام عدالتی، انتظامی اور فوجہ اختیارات صرف اسے حاصل تھے۔ مگر وہ اکیلا تمام امور انجام دے نہیں سکتا تھا۔ اس لیے اس نے مشیروں ایک مجلس ”منتری پریشد“ Mantri Parishad قائم کر رکھی تھی جو امور میں اس کو مشورہ دیتی تھی۔ اس مجلس کے علاوہ اعلیٰ احکام کا ایک طبقہ تھا جو حکومت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ اس طبقہ کے اندر منترن Mantrin یعنی مشیر خاص پرہت Prohita یعنی مذہبی امور کا نگران۔ اپاک Uparika یعنی صوبہ دار آدھی کارنیک Adikarnika یا پرادو یواک Prpvivaka یعنی قاضی، سینا پتی Senapati یعنی سپہ سالار اور راجوک Rajuka یعنی حاکم ضلع شامل تھے۔ اشوک کے عہد میں ایک نیا عہدہ دھرم مانز Dhama Manmtra یعنی محتسب کا عہدہ قائم کیا گیا تھا۔ جس کا کام مذہبی امور نافذ کرنا تھا۔ یہ تمام عہدے دار موروثی ہوتے تھے۔ انتظامی امور کے لحاظ سے سلطنت صوبوں، ضلوں اور پرگنوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جن کا انتظام راجا کے مقرر کردہ احکام کیا کرتے تھے۔ اس کے علاہ معتدد ریاستیں اور جاگیریں تھیں۔ جو راجا کی بالادستی کو تسلیم کرتی تھیں۔ ان کے حکمرانوں کو راج Raja، ادھیر راج Adhirajaاور مہا سامنت Mahasamanta کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ اپنی رہاستوں میں آزاد تھے اور راجا کو ایک طہ شدہ رقم ادا کیا کرتے تھے۔ راجا ان سے بوقت فوج طلب کر لیا کرتا تھا۔ جشن کے موقع پر بیش قیمت نذرانے راجا کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے اکثر راجا کے دربار میں ہی تربیت حاصل کرتے تھے۔ ان میں سے بعض حکمران جو سامنت کہلاتے تھے بہت طاقت ور ہوا کرتے تھے اور وہ راجا کے خلاف بغاوت کر سکتے تھے، کیوں کہ ان کی فوج جدا گانہ اور ان کا نظام اپنا ہوتا تھا۔ اس لیے ان پر اپنی بالادستی کے سخت نگرانی اور فوج رکھی جاتی تھی۔ شہروں کے انتظام کے متعلق یونانی سفیر مگھشتر کے بیان کے مطابق ایک تفصیل ملتی ہے۔ ’وہ کہتا ہے کہ دار الحکومت پاٹلی پتر کے نظم و نسق کے لیے ایک مجلس تھی جو تیس اراکین پر مشتمل تھی اور وہ مزید چھ ذیلی مجلسوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک صنعت وحرفت کی نگرانی کرتی تھی۔ دوسری مسافروں اور غیر ملکی تاجروں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ تیسری پیدائش اور موت کا اندراج کرتی ہے۔ چوتھی تجارت کے متعلق تھی۔ پانچویں مصنوعات کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ چھٹی ان محصولات سے تعلق رکھتی تھی جو فروخت شدہ مال سے وصول کیے جاتے تھے۔ مگر اس کے بیان کی تصدیق کسی اور ذرائع سے نہیں ہوتی ہے۔ اگر مگھتشرکا بیان درست ہے تو پھر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے بڑے شہروں کا انتظام بھی اسی نوعیت کا ہوگا۔ دیہاتوں کا نظام براہ راست حکومت سے متعلق نہیں تھا بلکہ قدیم زمانے سے گرام و پنچایت کا نظام رواج چلا آ رہا تھا اور اس موریاؤں کے دور میں قائم رہا۔ پنچایت میں گاؤں کے سردار یعنی گرامانی Garamni یا گام بھوجک Ganbhojaka کے زیر ہدایت تمام معاملے طہ کرتی تھی۔
راجا قانون کے مطابق اپنی سلطنت کے تمام خشک و تر کا مالک تھا۔ کل مروغہ و غیر مروغہ زمین مالک تھا۔ اس لیے وہ کسانوں سے زرعی پیداوار کا ایک خاص حصہ بطور لگان وصول کرتا تھا اور اس کی آمدنی کا سب سے اہم حصہ یہی ہوتا تھا۔ زمین کے لگان کو بھاگ Bhaga کہتے تھے اور یہ پیداوار کا ایک چوتھائی یا ایک تہائی حصہ ہوتا تھا۔ اس لگان کے ساتھ آب پاشی کا محصول بھی عائد تھا۔ جس کی شرح پانچویں سے تیسرے حصہ پیداوار کے مابین تھی۔ بعض حالتوں میں دوسرے ابواب بھی زمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ اس طرح تمام لگان ادا کرنے کے بعد کاشکاروں کے پاس بمشکل پیداوار کا نصف حصہ رہے جاتا تھا۔ مذکورہ لگان اور آبیانہ کے علاوہ مویشی، مکانات، سامان تجارت، آب کاری، نمک سازی کان کنی اور قمار خانے پر محصول عائد تھے۔ جن کو وصول کرنے کے لیے مختلف عمال مقرر تھے۔ دریا کے گھاتوں پر بھی حکومتی کشتیاں ہوتی تھیں جن کا کرایا سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ شہر کے اندر پیدائش اور موت پر محصول لگا ہوا تھا۔ یہ بھی حکومتی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ جرمانہ کی رقم بھی معقول ہوتی تھی۔ مجرمین سے زیادہ تر جرمانے ڈنڈ Dand وصول کیے جاتے تھے۔ ان محصولات کے علاوہ خراج کی آمدنی بھی تھی جو ماتحت ریاستوں سے وصول کی جاتی تھی۔ مال غنیمت جو جنگوں میں ہاتھ لگتا تھا اور نذرانے جو سردار مختلف مواقع پر راجا کی خدمت گذانتے تھے۔ اس کے علاوہ ضرورت کے موقع پر غیر معمولی محصول لگادیا جاتا تھا۔ سرکاری محصول نقد و جنس دونوں صورتوں میں وصول کیے جاتے تھے۔ وصول میں بالعموم سختی برتی جاتی تھی۔ اکثر ایسے تذکرے اور حوالے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کاشکاروں نے عاملوں کے ظلم و ستم اور لگان کی زیادتی سے تنگ آ کر زمین کو چھوڑ دیا اور جنگلوں کی طرف بھاگ گئے۔ بیگار کا عام رواج تھا، ہر اہل ہنر اور کاریگر کو مہینہ میں دو دن سرکاری کام کرنا پڑتا تھا۔ جس کی انھیں مزدوری نہیں ملتی ہے۔
اس عہد کی طرح موریہ بھی نیم فوجی حکومت تھی اور طاقت کا دارو مدار فوج پر تھا۔ وہ اپنی فوج کے بل پر ہی اپنی حکومت قائم کی اور لوگوں کے دلوں پر اپنی ہیبت قائم رکھ سکے۔ موریا عہد میں فوج کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کی تعد بڑھ کر چھ لاکھ سے بھی تجاوز ہو گئی۔ پلینی Pliny کے بیان کے مطابق چندر گپت کی فوج میں چھ لاکھ 600000 پیادہ 30000 تیس ہزار سوار اور نو ہزار 9000 ہاتھی شامل تھے۔ مگھشنز کے بیان کے مطابق اس عظیم انشان فوج کی نگرانی ایک مجلس کے سپرد تھی جو تیس اراکین پر مشتمل تھی اور جو مزید چھ ذیلی مجلسوں میں تقسیم بٹی ہوئی تھی۔ ہر ذیلی مجلس کے سپرد فوج کا خاص حصہ تھا۔ پہلی دریائی بیڑا کی دیکھ بھال۔ دوسری پیادہ افوج کا انتظام۔ تیسر سوار فوج کا انتظام۔ چوتھی رتھوں کا انتطام۔ پانچویں ہاتھیوں کا انتظام۔ چھٹی سامان رسد م بار برداری، طبلچی، سائیس، گھسیارے اور کاری گروں کی دیکھ بھال پر معمول تھا۔ مگھیشنز کے بیان کی تصدیق کسی اور ذرائع سے نہیں ہوتی ہے پھر بھی اس سے اتنا اندازہ ہوجاتا ہے کہ موریا عہد میں فوج کا محکمہ منظم اور مستحکم تھا۔ اشوک نے عدم تشدد کے اصول کو اپنایا اور اس محکمہ کی طرف سے غفلت برتی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ملک فوجی لحاظ سے کمزور ہو گیا اور داخلی انتشار کے ساتھ عرصہ تک بیرونی حملوں کا شکار ہوتا رہا۔ مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجا کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔ خود خون و کشت میں حصہ لیتا تھا اور سپاہیوں لڑاتا تھا وہ رتھ یا ہاتھی پر سوار ہو کر میدان جنگ میں آتا تھا۔ ارتھ شاستر میں اسے پیچھے رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وہ دشمنوں کے نرغے سے بچ سکے۔ راجا کی عدم موجودگی میں سپہ سالار جسے سینہ پتی کہتے تھے فوج کی قیادت کا کام انجام دیتا تھا۔ سینہ پتی بہت با اثرعہدہ تھا۔ عملی طور پر وہی پوری فوج کا قائد تھا۔ راجا اس پر اپنے کسی عزیز یا خاص معتدی کو اس عہدے پر فائز کرتا تھا۔ اس کے تحت دوسرے بہت سے فوجی سالار تھے جو نایک Nayaka اور دندا نایک Danda Nayakaکہلاتے تھے۔ اپنی ترکیب کے لحاظ سے فوج پیادہ، سوار، جنگی رتھوں اور ہاتھیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہاتھیوں پر زیادہ بھروسا کیا جاتا تھا۔ موریہ عہد میں رتھوں کو اہمیت حاصل رہی۔ موریاؤں کے عہد میں جنگی آلات اور اسلحہ کو ترقی دینے کی کوشش نہیں کی۔ وہی نیزہ، بھالا، ڈھال، گذر، خنجر اور تیر کمان تھے ان کے پاس زرہ بکتر اور خود کی کمی تھی۔ ان کے قلعہ شکن آلات ناقص تھے۔
عدلیہ کے تمام اعلیٰ اختیارات حکمرانوں کو حاصل تھے۔ وہی ملک کا سب سے بڑا قاضی تھا۔ اس کے فیصلے پر کسی کو نظر ثانی کا حق حاصل نہیں تھا۔ وہ دربار عام میں میں مقدمات کے فیصلے کرتا اور اپنے فیصلے صادر کرتا تھا۔ ان کی فیصلے میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ خدائی ارادہ کا مظہر نہیں تھی۔ توقع کی جاتی تھی کہ وہ مذہبی آئین و قوانین کے تحت فیصلے کرے گا۔ مگر وہ اس کا پابند نہیں تھا۔ ارتھ شاستر میں اس کے حکم کو تمام قوانین سے بالاتر بتایا ہے۔ راجا کی عدالت کے بعد صوبوں اور ضلعوں کی عدالتیں تھیں۔ جہاں مہامانز Mahamatsa یعنی حاکم شہر اپارک Uparika یعنی صوبہ دار پرا دیواک Pradvavaka یعنی قاضی اور راجوک یعنی حاکم ضلع مقدمات کی سماعت کرتے تھے۔ عدالتی نظام انتظامیہ علاحدہ نہیں تھا۔ اس لیے اس کے اندر بے انتہا خرابیاں تھیں۔ اکثر تین یا پانچ قاضیوں پر مشتمل ایک مجلس عدلتی فرائض انجام دیتی تھی۔ مگر ایسی مجلسوں میں مقامی سیٹھ Seth اور کائستھ Kaystha ہوتے تھے جو اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس نہیں کرتے تھے عدالتی بد عنوانیوں کے حوالے اور تذکرے ملتے ہیں۔ جن سے ظااہر ہوتا ہے کہ یہ محکمہ ابتدائی حالت میں تھا۔ دیہاتوں میں پنچایت ہی مقدمات کا فیصلہ کرتی تھی، مگر لوگوں کو عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل تھا۔ اشوک کے عہد تک منو سمرتی کی تالیف نہیں ہوئی تھی اور اس وقت تک دھرم سترہ پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس میں بھی ذات کی تفریق کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا تھا اور قانون کی نظر میں سب برابر نہیں تھے۔ پھر بھی اس میں شدت نہیں تھی۔ اشوک نے اس تفریق کو پسند نہیں کیا اور اس کے عہد میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی حثیت وہ نہیں رہی جو دھرم شترہ اور دھرم شاستر میں تھی۔ اشوک نے حاکموں کو حکم دیا کہ عدالتی کارروائی میں مساوات کو ملحوظ رکھیں۔ اگرچہ اس پر عمل بہت کم ہوتا تھا۔ موریہ دور میں مختلف جرائم کی مختلف سزائیں جن میں جرمانہ، قطع اعضاء، جلاوطنی، جائداد کی ضبطی اور قتل کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ہلاک کرنے کے مختلف طریقہ رائج تھے۔ مثلاً پھانسی، قتل، پانی میں ڈبو دینا اور جلا دینا۔ مگر اشوک کے دور میں یہ سزئیں برقرار رہیں۔ البتہ اس نے سزائے موت کے مجرموں کو انتی رعایت ضرور دی تھی کہ ان سزا پر تین دن کے بعد عمل کیا جاتا تھا۔
موریا دور میں تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں کثرت سے عمارتیں بنیں۔ مگر وہ زیادہ تر لکڑی کی تھیں اس لیے امتداد زمانہ سے ناپید ہوگئیں۔ صرف اشوک کی چند عمارتوں کے کھنڈر باقی رہے گئے ہیں۔ مگر ان تعمیرات کے سلسلے میں دو غیر ملکی سیاحوں مگھستیز اور فاہیان کے بیانات بے حال ملتے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے پاٹلی پٹر بہت ہی بارونق شہر تھا اور یہاں معتدد عالیشان عمارتیں اور قلعے تھے۔ مگھستیز کے بیان کے مطابق یہ شہر نو 9 میل لمبا اور ڈیرھ میل چوڑا تھا اور اس کے کے گرد لکڑی کی مظبوط فصیل تھی جس میں چونستھ 64 دروازے تھے اور اس کے اوپر پانچ سو 005 برج تھے۔ فصیل کے باہر ایک وسیع اور عمیق قندق تھی جس میں دریائے سون کا پانی بھرا ہوا تھا۔ شہر کے اندر چندر گپت موریا کا محل تھا جو لکڑیوں کا بنا ہوا تھا اور بہت عالی شان تھا۔ اس کے ستونوں اور دیواروں پر سونے کا پانی پھرا ہوا تھا اور ان پر سونے کی بیلیں اور چاندی کے پرندے منقوش تھے۔ چینی سیاح فاہیان نے بھی اس شہر کو دیکھا۔ وہ بھی اس کی خوبصوری کا مداح تھا۔ اس کے عہد تک اشوک کا محل قائم تھا۔ وہ اس کے متعلق کہتا ہے کہ شاہی محلات اور ایوان شاہی شہر کے بیچوں بیچ قائم ہیں۔ اس کو ان طاقتوں (غیر بشری) نے تعمیر کرایا جو اشوک کا ملازم تھے۔ انھوں نے ہی اس کو پتھروں سے چنا تھا اور دیواریں اور دروازے کھڑے کیے تھے اور ایسی خوبصورت پچکاری کا کام تھا جو انسانی طاقت سے باہر تھا۔ فاہیان نے ان راہب خانوں اور اسٹوپوں کا بھی ذکر کیا جو اشوک نے اس شہر میں تعمیر کرائے تھے۔ اشوک کے عہد کے سنگ تراشی کے نمونے ستونوں اور غاروں کی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔ برابر کے پہاڑ کے غار اشوک سنگ تراش کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی دیواریں اور فرش اتنے صاف اور اتنے چکنے ہیں کہ آئندہ بھی چمکتے رہیں گے۔ اس کے ستونوں میں سارتھ کا ستون خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے اوپر چار بڑے کوفناک شیروں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں، جن کی پشت ایک طرف ہے اور وہ ہوشیار کھڑے ہیں۔ ان کے پاؤں کے نیچے دوسرے جانوروں کی چھوٹی شکلیں کھدی ہوئیں ہیں۔ اس طرح اشوک کے وہ ستون جو ایک چٹان سے تراشے گئے ہیں۔ سنگ تراشی کے بہترین نمونے ہیں۔ ان میں بعض پچاس فٹ اونچے اور پچاس ٹن وزنی ہیں۔ اشوک نے اپنے عہد میں کثرت سے اسٹوپے تعمیر کرائے ہیں۔ جن میں صرف نیپال کا اسٹوپہ اپنی اصل شکل میں رہ گیا ہے۔ اس کا داخلی حصہ خام انیٹوں سے اور بیرونی حصہ پختہ حصوں سے بنا ہوا ہے، نیز اس پر موٹی استرکاری ہے۔ سانچی ریاست بھوپال کے اسٹوپے کے متعلق لوگوں کا خیال کہ وہ اشوک کا تعمیر کردہ ہے۔ پہلے یہ چھوٹا سا تھا بعد میں اس کو وسیع کیا گیا۔ اس قطر 121 فٹ اور بلندی ستر 70 فٹ ہے۔ یہ ایک سنگین چار دیواری سے گھرا ہوا ہے، جس میں چار دروازے ہیں مذکورہ اسٹوپہ کے علاوہ چار اور اسٹوپے اس مقام پر ہیں جو بوعد میں تعمیر ہوئے۔
ہندی تہذیب زراعتی تہذیب ہے اس لیے موریہ دور میں اس کی ترقی ترویح کی طرف توجہ دی گئی۔ اس سلسلے میں چندر گپت کے ایک صوبہ دار پوشی گپتPosi gpta کا نام ملتا ہے جس نے کاٹھیاوار کے ایک مقام گرنار میں پھتروں کو کاٹ کر ایک خوبصورت جھیل بنوائی۔ جو سدرشن چھیل Sudarasana lake کے نام سے مشہور ہوئی۔ اشوک کے عہد میں اس پر مزید کام ہوا اور بہت سی نالیاں تعمیر کیں گئیں۔ جس سے ارد گرد وسیع علاقہ کو پانی ملنے لگا۔ ترتیب معین انصاری
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.