اسلام کے دوسرے خلیفہ (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) From Wikipedia, the free encyclopedia
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔[4] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔[5] عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں،جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
عمر بن خطاب | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ) | |||||||
مناصب | |||||||
خلیفہ [1] (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 22 اگست 634 – 3 نومبر 644 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 586ء مکہ | ||||||
وفات | 3 نومبر 644ء (57–58 سال)[2] مدینہ منورہ | ||||||
وجہ وفات | تیز دار ہتھیار کا گھاؤ | ||||||
مدفن | مسجد نبوی | ||||||
قاتل | پیروز نہاوندی | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | خلافت راشدہ | ||||||
زوجہ | ام کلثوم بنت علی عاتکہ بنت زید جميلہ بنت ثابت ام كلثوم بنت جرول الخزاعی قريبہ بنت ابی اميہ زینب بنت مظعون | ||||||
اولاد | عبد اللہ بن عمر [3]، عاصم بن عمر ، حفصہ بنت عمر ، عبیداللہ ابن عمر ابن خطاب | ||||||
والد | خطاب بن نفیل | ||||||
والدہ | حنتمہ بنت ہشام بن المغیرہ | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | ریاست کار ، خلیفہ ، امام ، مذہبی رہنما ، صحابی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر | ||||||
درستی - ترمیم |
عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان | |
اختيار خليفہ ثالث | |
عثمان بن عفان |
عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔[6] عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔[7] صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔[8]
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن غالب [9]بن فہر بن مالک[10] بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔[11] حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جدا علیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلا بعد نسل چلے آ رہے تھے ددھیال کی طرح عمر ننھیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔ [12][13]
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس برس پہلے پیدا ہوئے،ایام طفولیت کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛بلکہ سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں، شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے، یعنی نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی، خصوصاً شہسواری میں کمال حاصل کیا، اسی زمانہ میں انھوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان میں سے ایک عمر بن خطاب بھی تھے۔ [14] تعلیم و تعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے، عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر تجارت تھا، اس لیے انھوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا، اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے ، آپ کی خودداری بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا تھا، قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہو جاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم و تدبر اور تجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔ [15][7] عمر بن خطاب کا ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں آفتاب اسلام روشن ہوا اور مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے یہ آواز نہایت نامانوس تھی اس لیے سخت برہم ہوئے، یہاں تک جس کی نسبت معلوم ہو جاتا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس کے دشمن بن جاتے، ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ نامی مسلمان ہو گئی تھی، اس کو اتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے، بسینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا زدو کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے؛لیکن اسلام کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا، ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کرسکے۔[16][17][18]
” | عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑے ماہر تھے [19] | “ |
” | آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ [20] | “ |
قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابو جہل اور عمر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی :اللہم اعزالاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام و اما عمر بن الخطاب [21] یعنی خدایا اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب سے معزز کر، مگر یہ دولت تو قسام ازل نے عمر بن خطاب کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابو جہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی عمر بن خطاب کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا"ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ "تاریخ و سیرت کی کتابوں میں عمر کی تفصیلاتِ قبولِ اسلام میں اختلاف ہے۔ ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں، یہ ہے کہ جب عمر اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدہے رسول اللہ کی طرف چلے راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں، انھوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو خود تمھاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں" فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپالئے؛لیکن آواز ان کے کان میں پڑ چکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں کچھ نہیں، انھوں نے کہا میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہو گئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی، یہاں تک کہ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا؛لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا "بولیں عمر جو بن آئے کرلو ؛لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا "ان الفاظ نے عمر بن خطاب کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ، فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیے، اٹھاکر دیکھا تو یہ سورۃ تھی: "سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ" "زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے۔" ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: "اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ" خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو بے اختیار پکاراٹھے "اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عبدُہُ وَ الرَّسُوْلُ" یہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم ؓ کے مکان پر جو کوہ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزین تھے، عمر بن خطاب نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، صحابہ کو تردد ہوا؛ لیکن حضرت حمزہ ؓ نے کہا آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا، عمر نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا"کیوں عمر!کس ارادے سے آئے ہو؟ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا ایمان لانے کے لیے !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونچ اٹھیں۔ [22] یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی، ابویعلیٰ، حاکم اور بیہقی میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے، دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورہ حدید کی آیۃ سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے، دوسری میں سورۂ طہٰ کی یہ آیت ہے: "اِنَّنِیْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْoَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ " "میں ہوں خدا کوئی نہیں معبود ؛لیکن میں، تو مجھ کو پوجو اور میری یاد کے لیے نماز کھڑی کرو"۔ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار لا الہ الا اللہ پکار اٹھے اور دراقدس پر حاضری کی درخواست کی ؛لیکن یہ روایت دو طریقوں سے مروی ہے اور دونوں میں ایسے رواۃ ہیں جو قبول کے لائق نہیں؛چنانچہ دارقطنی نے اس روایت کو مختصراً لکھا ہے کہ اس کا ایک راوی قاسم بن عثمان بصری قوی نہیں۔[23]ذہبی نے مستدرک حاکم کے استدلال میں لکھا ہے کہ روایت واہی و منقطع ہے[24]ان دونوں روایتوں کے مشترک راوی اسحاق بن یوسف، قاسم بن عثمان، اسحاق بن ابراہیم الحسینی اور اسامہ بن زید بن اسلم ہیں اور یہ سب کے سب پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود عمر سے مروی ہے، جو گو ایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے، عمر فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہو گئے اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتارہا اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے، ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: "اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍoقَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ " "یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔" میں نے کہا یہ تو کاہن ہے، میرے دل کی بات جان گیا ہے، اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی: "وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍoقَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَoتَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ " "یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو، یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے"۔ آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔ [25] اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود عمر کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندرسے آواز آئی، اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے: لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ، اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں، (باب بنیان الکعبہ باب اسلام عمر ؓ)اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا عمر پر کیا اثر ہوا۔ پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر عمرنے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لیے ادھر میلان ہوا ہوگا؛لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا، اس لیے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہو سکی، اس کے بعد جب انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے، نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے وقع الاسلام فی قلبی کل موقع، یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لیے انھوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا ؛بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے ؛لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور دراقدس پر حاضری کی درخواست کی۔ اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لیے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہو سکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی، بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہو گئے۔[26][27][27][28]
عام مورخین اور ارباب سیر نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا زمانہ 7 نبوی مقرر کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ چالیسویں مسلمان تھے۔ (آج کل کے ایک نوجوان خوش فہم صاحب قلم نے تمام گذشتہ روایات کو ایک سرے سے ناقابل التفات قرار دے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نہایت قدیم الاسلام تھے، شاید مقصود یہ ہو کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وغیرہ کے بعد ہی ان کا شمار ہو، اس مقصد کے لیے انھوں نے تنہا بخاری کو سند قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں کہ: اسی فطرت سلیمہ کی بنا پر ان (عمر ؓ ) کو اسلام سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہمشیرہ اور سعید بن زید نے اسلام قبول کیا تو گووہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تاہم لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے؛چنانچہ سعید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر بیان کیا ہے۔" کان عمر بن الخطاب ؓ یقیم علی الاسلام اناواختہ وما اسلم "یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ کو اور اپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود نہیں اسلام لاتے تھے"۔ [29] اس حدیث میں اپنے موافق مطلب تحریر کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں:"اس حدیث کا بعض لوگوں نے اور بھی مطلب بیان کیا ہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے۔"اس کے بعد بت خانہ میں ندائے غیب سننے کے واقعہ کا ذکر کیا۔ پہلی حدیث سے عمر بن خطاب کی اسلام کے ساتھ ہمدردی اور دوسری میں ہاتف غیب کی آواز سننے کا ذکر ہے، ان دونوں باتوں کو ملا کر انھوں نے فوراً عمر بن خطاب کے آغاز اسلام ہی میں مسلمان ہونے کا قطعی فیصلہ کر دیا اور اسی واقعہ کو ان کے فوری اسلام کا سبب قرار دیدیا، اس کے بعد ایک اور شہادت پر مصنف کی نظر پڑی کہ مرض الموت میں ایک نوجوان نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ الفاظ کہے:"اے امیر المومنین:خدا نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور سبقت کے ذریعہ سے (جس کو آپ جانتے ہیں) جو بشارت دی ہے اس سے آپ خوش ہوں"اس قدر شواہد اور اتنے دلائل کے بعد فاضل مصنف ناظرین سے داد طلب ہیں کہ: "ایک طرف تو صحیح بخاری کی مستند روایات ہیں جو عمر کی فطری سلامت روی اور حق پرستی کو ظاہر کرتی ہیں، دوسری طرف مزخرفات کا یہ دفتر بے پایاں ہے جو ان میں گذشتہ اوصاف سے متعارض صفات تسلیم کراتا ہے، ناظرین انصاف کریں کہ ان میں سے کس کو صحیح تسلیم کیا جائے؟ ’’ افسوس مصنف کو دیگر مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی متعدد مسامحات میں گرفتار ہونا پڑا ہے، ہم ناظرین کو مصنف کے ابتدائی دلائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں، مصنف نے سب سے پہلے اسلام کے ساتھ عمر بن خطاب کی ہمدردی میں سعید بن زید ؓ کی یہ روایت پیش کی ہے: کان عمر بن الخطاب یقیم علی الاسلام انا واختہ وما اسلم [30] "یعنی عمر مجھ کو اور اپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود مسلمان نہیں ہوئے تھے۔" اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا بعض لوگوں نے ایک اور مطلب بھی بیان کیا ہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے، یہاں پر مصنف نے اپنا مطلب ثابت کرنے کے لیے بڑی جسارت سے کام لیا ہے، اول توحدیث کے لفظ میں صریح تحریف کی ہے اور تحریف بھی ادب عربی کے خلاف ہے، پھر حدیث میں "یقیم" کی بجائے "موثقی"ہے، [31]جس کے معنی باندھنے کے ہیں نہ کہ مضبوط کرنے اور قائم رکھنے کے یہ عربی کا محاورہ ہے اور قسطلانی نے باندھنے کے معنی لیے ہیں اور مصنف کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی سے مصنف کے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے، ہذا بہتان عظیم؛چنانچہ قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں، ([32] بجبل اوقد کالا سیر تضییقا واھانۃ، یعنی موثقی سے مراد رسی یا تسمہ سے قیدی کی طرح تنگ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے باندھنا ہے، البتہ قسطلانی نے مصنف کے اختیار کردہ غلط معنی کی تردید کی ہے جس کو بعض خوش فہموں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔ دوسری حدیث جو مصنف نے عمر کے اسلام کے باب میں پیش کی ہے، یعنی ہاتف غیب کی آواز، اس روایت میں کوئی ایسا فقرہ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ عمر بن خطاب اس کو سن کر متاثر ہوئے اور فورا اسلام لے آئے، اس قصہ کے آخر میں یہ صاف مذکور ہے کہ اس کے بعد تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا شہرہ ہوا، اس لیے یہ بالکل ہی آغاز اسلام کا واقعہ ہوگا ، اگر اسی وقت حضرت عمر ؓکا اسلام لانا ثابت ہو جائے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ مسلمان ہو چکے تھے جو قطعی غلط ہے، جیسا کہ آگے ثابت ہوگا۔ آئیے اب ہم صحیح بخاری ہی کے ارشادات پر چل کر عمرکے اسلام کی تاریخ تلاش کریں، عمرکے اسلام کے واقعہ کے بیان میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب ؓ کے یہ الفاظ بخاری میں ہیں:"حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، مشرکین بکثرت ان کے مکان پرجمع ہو گئے اورکہنے لگے صبا عمر، عمر بے دین ہو گئے، حضرت عمرؓ بن خطاب خوف زدہ گھر کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پرتھا۔" [33] اس روایت سے ظاہر ہے کہ عمر کے اسلام کے وقت نہ صرف یہ کہ وہ پیدا ہو چکے تھے ؛بلکہ سن تمیز کے اس درجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کو لڑکپن کے واقعات وضاحت سے یادرہ گئے اورتجربہ اس کا شاہد ہے کہ 5 ، 6 سال کابچہ واقعات کو اس طرح سے محفوظ نہیں رکھ سکتا، آگے چلئے، 3ھ یعنی بعثت کے سولہویں سال غزوہ ٔاحد ہوا، بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ چھانٹ دیے گئے تھے اور مجاہدین میں نہیں لیے گئے، [34] اس حساب سے بعثت کے دوسال بعد آپ کی پیدائش ماننی پڑے گی، اورکم از کم پانچ سال کی عمر واقعات محفوظ رہنے کے لیے ماننی ہوگی توپانچ سال یہ اور دو سال بعد بعثت کے کل سات سال ہوجاتے ہیں، لہذا خود صحیح بخاری کی تائید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمر کا زمانہ اسلام 7ھ بعثت ہو گا، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ہاتف غیب کی آواز سننے کے سات سال بعد اسلام لائے۔) عمرکے مسلمان ہوجانے سے اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہو گیا، اس وقت تک چالیس یا اس سے کچھ کم وبیش آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے ؛لیکن وہ نہایت بے بسی ومجبوری کے عالم میں تھے، علانیہ فرائض مذہبی ادا کرنا تو درکنار اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا اور کعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا، عمر کے اسلام لانے سے دفعتاً حالت بدل گئی، انھوں نے علانیہ اپنے اسلام کا اظہار کیا، صرف اتنا ہی نہیں ؛بلکہ مشرکین کو جمع کرکے بآواز بلند اپنے ایمان کا اعلان کیا، مشرکین نہایت برافروختہ ہوئے ؛لیکن عاص بن وائل نے جو رشتہ میں عمر بن خطاب کے ماموں تھے، ان کو اپنی پناہ میں لے لیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی مظلومیت کا تماشا دیکھتے تھے اس لیے شوق مساوات نے اسے پسند نہ کیا کہ وہ اسلام کی نعمت سے متمتع ہونے کے بعد عاص بن وائل کی حمایت کے سہارے اس کے نتائج سے محفوظ رہیں، اس لیے انھوں نے پناہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور برابر ثبات و استقلال کے ساتھ مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ برابر کعبہ میں جاکر نماز اداکی۔ [35] یہ پہلا موقع تھا کہ حق، باطل کے مقابلہ میں سر بلند ہوا اور عمر کو اس صلہ میں دربار نبوت سے فاروق کا لقب مرحمت ہوا۔[36][37] ،[38][39]
مکہ مکرمہ میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد بڑہتی گئی، اسی قدر مشرکین قریش کے بغض و عناد میں بھی ترقی ہوتی گئی،اگر پہلے وہ صرف فطری خونخواری اور جوش مذہبی کی بناپر مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے تھے تو اب انھیں سیاسی مصالح نے مسلمانوں کے کامل استیصال پر آمادہ کر دیا تھا، سچ یہ ہے کہ اگر بلا کشان اسلام میں غیر معمولی جوش ثبات اور وارفتگی کا مادہ نہ ہوتا ایمان پر ثابت قدم رہنا غیر ممکن تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ 7 نبوی میں اسلام لائے تھے اور 13 نبوی میں ہجرت ہوئی،اس طرح گویا انھوں نے اسلام لانے کے بعد تقریباً 7،6 برس تک قریش کے مظالم برداشت کیے،جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو عمر بن خطاب بھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، نہایت اطمینان سے طواف کیا، نماز پڑھی، پھر مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اوروہ مدینہ روانہ ہو گئے۔ [40] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچ کر قبا میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے، قبا کا دوسرانام عوالی ہے؛چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے، عمرکے بعد اکثر صحابہ نے ہجرت کی یہاں تک کہ 622ء میں خود آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ کی گھاٹیوں سے نکل کر مدینہ کے افق سے ضوافگن ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد غریب الوطن مہاجرین کے رہنے سہنے کا اس طرح انتظام فرمایا کہ ان میں اور انصار میں برادری قائم کردی، اس موقع پر انصار نے عدیم النظیر ایثار سے کام لے کر اپنے مہاجر بھائیوں کو مال واسباب میں نصف کا شریک بنالیا، اس رشتہ کے قائم کرنے میں درجہ و مراتب کا خاص طور پر خیال رکھا گیا تھا یعنی جو مہاجر جس رتبہ کا تھا اسی حیثیت کے انصاری سے اس کی برادری قائم کی گئی تھی؛چنانچہ عمر ؓ کے برادر اسلام حضرت عتبہ بن مالک قرار پائے تھے جو قبیلہ بنی سالم کے معزز رئیس تھے۔ مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس و مجبور نہ تھا؛بلکہ اب آزادی اور اطمینان کا دور تھا اور اس کا وقت آگیا تھا کہ فرائض وارکان محدود اور معین کیے جائیں نیز مسلمانوں کی تعداد وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی تھی اور وہ دور دور کے محلوں میں آباد ہونے لگے تھے، اس بنا پر شدید ضرورت تھی کہ اعلان نماز کا کوئی طریقہ معین کیاجائے؛چنانچہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی کا انتظام کرنا چاہا، بعض صحابہ کی رائے ہوئی کہ آگ جلا کر لوگوں کو خبر کی جائے، بعض کا خیال تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح بوق و ناقوس سے کام لیا جائے، عمر بن خطاب نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا گیا، اس طرح اسلام کا ایک شعار اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا، [41] جس سے تمام عالم قیامت تک دن اور رات میں پانچ وقت توحید ورسالت کے اعلان سے گونجتا رہے گا۔[42] [43][44] .[45][46][47] [48]
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مندرجہ ذیل غزوات و واقعات میں شریک رہے۔[49] ،[49] ،[50]
مدینہ میں سب سے پہلا معرکہ بدر کا پیش آیا، عمراس معرکہ میں رائے، تدبر جانبازی اورپامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو رہے، عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتہ میں ان کا ماموں ہوتا تھا، خود ان کے خنجر خاراشگاف سے واصل جہنم ہوا [51] یہ بات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں قرابت ومحبت کے تعلقات سے مطلقاً متاثر نہیں ہوتے تھے، آپ کے ہاتھوں عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے۔ بدر کا میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، غنیم کے کم وبیش ستر آدمی مارے گئے اور تقریباً اسی قدر گرفتار ہوئے ؛چونکہ ان میں سے قریش کے اکثر بڑے بڑے معزز سردار تھے، اس لیے یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی، لوگوں نے مختلف رائیں دی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے ہوئی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، عمر نے اختلاف کیا اور کہا کہ ان سب کو قتل کردینا چاہیے،اور اس طرح کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیز کو قتل کرے، علی ، عقیل کی گردن ماریں اور فلاں جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا، بارگاہ الہی میں یہ چیز پسند نہ آئی اس پر عتاب ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ "کسی پیغمبر کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ خونریزی نہ کرلے۔" حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے گریہ وزاری کی۔ [52][53]
واقعہ بدر کے بعد خود مدینہ کے یہودیوں سے لڑائی ہوئی اور ان کو جلاوطن کیا گیا اسی طرح غزوہ سویق اور دوسرے چھوٹے چھوٹے معرکے پیش آئے، سب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرگرم پیکار رہے، یہاں تک کہ شوال 3ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا، اس میں ایک طرف تو قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دو سو سوار اور سات سو زرہ پوش تھے، ادھر غازیان اسلام کی کل تعداد صرف سات سو تھی جس میں سوزرہ پوش اور دو سو سوار تھے، 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیرؓ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب میں متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ مسلمانوں نے غنیم کی صفیں تہ وبالا کر دیں، کفار شکست کھاکر بھاگے اور غازیان دین مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے، تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہو چکا ہے، اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے، تیر اندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)دفعتہ عقب سے زور و شور کے ساتھ حملہ کر دیا، مسلمان چونکہ غافل تھے اس لیے ناگہانی ریلے کو روک نہ سکے، یہاں تک کہ کفار نے خود ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر یورش کردی اور اس قدر تیروں اور پتھروں کی بارش کی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر پڑے اور لوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ جنگ کا زور وشورجب کسی قدر کم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تیس فدائیوں کے ساتھ پہاڑ پر تشریف لائے، اسی اثنا میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج کے ساتھ اس طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ خدایا یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹادیا۔ [54] ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے، ابو سفیان نے پھر عمر اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا نام لے کر کہا، یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے جواب نہ دیا تو بولا کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا، پکار کر کہا:او دشمن خدا!ہم سب زندہ ہیں، ابوسفیان نے کہا"اعل ھبل" یعنی اے ہبل بلند ہو، (ہبل ایک بت کا نام تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب سے فرمایا جواب دو، اللہ اعلیٰ واجل یعنی خدا بلند وبرتر ہے۔ [55] غزوہ احد کے بعد 3ھ میں حضرت عمر بن خطاب کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، 4ھ بنو نضیر کو ان کی بدعہدی کے باعث مدینہ سے جلاوطن کیا گیا، اس واقعہ میں بھی حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک رہے،[56]
5ھ میں غزوہ خندق پیش آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر خندق تیار کرائی، دس ہزار کفار نے خندق کا محاصرہ کیا، وہ لوگ کبھی کبھی خندق میں گھس کر حملہ کرتے تھے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے ادھر ادھر کچھ کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو متعین فرمادیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصہ پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ متعین تھے؛چنانچہ یہاں پر ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے، ایک دن کافروں کے مقابلہ میں ان کو اس قدر مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، [57] کامل ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد مسلمانوں کے ثبات واستقلال کے آگے کافروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ میدان بھی غازیوں کے ہاتھ رہا۔
6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا اور اس خیال سے کہ کسی کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، حکم دیا کہ کوئی ہتھیار باندھ کر نہ چلے،ذوالحلیفہ پہنچ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ دشمنوں میں غیر مسلح چلنا مصلحت نہیں ہے؛چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے اسلحہ منگوا لیے، مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا اس لیے مصالحت کے خیال سے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو سفیر بناکر بھیجا ، قریش نے ان کو روک رکھا جب کئی دن گذر گئے تو یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ شہید ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر صحابہ ؓ جو تعداد میں چودہ سو تھے،ایک درخت کے نیچے جہاد پر بیعت لی؛چنانچہ قرآن مجید کی اس آیت میں "لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ"، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [58] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیعت سے پہلے ہی لڑائی کی تیاری شروع کردی تھی، ہتھیار سج رہے تھے کہ خبر ملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں، اسی وقت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور جہاد کے لیے دست اقدس پر بیعت کی۔ [59] قریش مصر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے،آخر بڑے ردو قدح کے بعد ایک معاہدہ پر طرفین رضا مند ہو گئے، اس معاہدہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چلا جائے تو اس کو قریش کے پاس واپس کر دیا جائے گا؛لیکن اگر مسلمانوں کا کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو نہ واپس کرنے کا اخیتار ہوگا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی غیور طبیعت اس شرط سے نہایت مضطرب ہوئی اور خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو باطل سے اس قدر دب کر کیوں صلح کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی یہی گفتگو کی، انھوں نے بھی یہی جواب دیا،بعد کو حضرت عمرؓ بن خطاب کو اپنی گفتگو پرندامت ہوئی اور اس کے کفارے میں کچھ خیرات کی۔ [60] غرض معاہدہ صلح لکھا گیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر اپنے دستخط ثبت کیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کا قصد کیا، راہ میں سورہ "اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا"نازل ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر سنایا اور فرمایا کہ آج ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ [61][62] .[63]
7ھ میں واقعہ خبیر پیش آیا، یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا، پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالار ہوئے، ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خدمت پر مامور ہوئے؛ لیکن یہ فخر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے مقدر ہو چکا تھا چنانچہ آخر میں جب آپ کو علم مرحمت ہوا تو آپ کے ہاتھوں خیبر کا رئیس مرحب مارا گیا اور خبیر مفتوح ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کی زمین مجاہدوں کو تقسیم کردی؛چنانچہ ایک ٹکڑا ثمغ نامی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آیا، انھوں نے اس کو راہ خدا میں وقف کر دیا، [64]اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔[65][66]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریش کے درمیان میں حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا خیبر کے بعد قریش نے اس کو توڑدیا، ابوسفیان نے پیش بندی کے خیال سے مدینہ آکر عذر خواہی کی؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس لیے وہ اٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا کہ وہ اس معاملہ کو طے کرا دیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل نا امید ہو گیا، غرض نقض عہد کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رمضان 8ھ میں مکہ کا قصد فرمایا، قریش میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی، اس لیے انھوں نے کوئی مزاحمت نہ کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور باب کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح وبلیغ تقریری کی جو تاریخوں میں بعینہ مذکور ہے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لیے تشریف لائے لوگ جوق درجوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ؛لیکن کسی قدر نیچے بیٹھے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورتوں کے ہاتھ مس نہیں کرتے تھے، اس لیے جب عورتوں کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ تم ان سے بیعت لو؛چنانچہ تمام عورتوں نے ان ہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔[67]
فتح مکہ کے بعد اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو غزوہ حنین کے نام سے مشہو رہے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس جنگ میں بھی نہایت ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ شریک کار زار رہے، پھر 9ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اورجنگی تیاریوں کے لیے زر ومال سے اعانت کی ترغیب دلائی،اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر اپنے تمام مال و املاک کا آدھا حصہ لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ [68] [69]
اسلحہ اور سامان رسد مہیا ہو جانے کے بعد مجاہدین نے مقام تبوک کا رخ کیا ، یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی ، اس لیے چند روز قیام کے بعد سب لوگ واپس آگئے۔[70]
10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے، حضرت عمرؓ بن خطاب بھی ہمرکاب تھے، اس حج سے واپس آنے کے بعد ابتدا ماہ ربیع الاول دوشنبہ کے دن حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور دس روز کی مختصر علالت کے بعد 12 ربیع الاول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا، عام روایت یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ازخود رفتہ ہوکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اعلان کیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس کو قتل کر ڈالوں گا۔ شاید اس میں یہ بھی مصلحت ہو کہ منافقین کو فتنہ پردازی کا موقع نہ ملے، پھر بھی فتنہ سقیفہ بنی ساعدہ کھڑا ہی ہو گیا، اگر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہوقت پر پہنچ کر اپنے ناخن عقل سے اس گتھی کو نہ سلجھاتے تو کیا عجب تھا کہ یہی فتنہ شمع اسلام کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیتا لیکن انصار کے ساتھ بہت بحث و مباحثہ کے بعد حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوراس کے بعد اور لوگوں نے بیعت کی۔ [71] حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت صرف سوا دو برس رہی ان کے عہد میں جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے سب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شریک رہے، قرآن شریف کی تدوین کا کام خاص ان کے مشورہ اور اصرار سے عمل میں آیا ، غرض حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے عہد خلافت میں تجربہ ہو چکا تھا کہ منصب خلافت کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص موزوں نہیں ہو سکتا؛چنانچہ انھوں نے وفات کے قریب اکابر صحابہ سے مشورہ کے بعد ان کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اور آئندہ کے لیے مفید مؤثر نصیحتیں کیں جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے نہایت عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔[72][73]
حضرت ابوبکر صدیق ؓ تریسٹھ سال کی عمر میں اواخر جمادی الثانی دوشنبہ کے روز وفات پائی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے، خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اور منکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا، یعنی 12ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے، اسی طرح 13ھ میں شام پر حملہ ہوا اور اسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت نے انتقال کیا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔[74][75]
سیرت صدیق ؓ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہو چکا ہے کہ عراق پر حملے کے کیا وجوہ واسباب تھے اور کس طرح اس کی ابتدا ہوئی، یہاں سلسلہ کے لیے مختصراً اس قدر جان لینا چاہیے کہ خالد بن ولید بانقیا، کسکر اور حیرہ کے اضلاع کو فتح کر چکے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے حکم سے مثنی بن حارثہ کو اپنا جانشین کرکے مہم شام کی اعانت کے لیے ان کو شام جانا پڑا، حضرت خالد بن ولید ؓ کا جانا تھا کہ عراق کی فتوحات دفعۃ رک گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسند نشین خلافت ہوئے تو سب سے پہلے مہم عراق کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے، بیعت خلافت کے لیے عرب کے مختلف حصوں سے بے شمار آدمی آئے تھے، اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں آپ نے جہاد کا وعظ کیا؛لیکن چونکہ عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور اس کا فتح ہونا نہایت دشوار ہے اس لیے ہر طرف سے صدائے برنخاست کا معاملہ رہا، عمر نے کئی دن تک وعظ کہا ؛لیکن کچھ اثر نہ ہوا، آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے مثنی شیبانی نے کہا کہ"مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں، ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضلاع فتح کرلئے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہا مان گئے ہیں، اسی طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابو عبیدہ ثقفی نے جوش میں آکر کہا "انالھذا"یعنی اس کے لیے میں ہوں، ابو عبیدہ کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہرطرف سے آوازیں اٹھیں کہ ہم بھی حاضر ہیں، عمر نے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار اور دوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی انتخاب کیے اور ابو عبید کو سپہ سالار مقرر کرکے روانہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایرانیوں کو بیدار کر دیا تھا؛چنانچہ پوران وخت نے جو صغیر السن یزد گرد شاہِ ایران کی متولیہ تھی فرخ زاد گورنر خراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع اور مدبر تھا دربار میں طلب کرکے وزیر جنگ بنایا اور تمام اہل فارس کو اتحاد و اتفاق پر آمادہ کیا، نیز مذہبی حمیت کا جوش دلا کر نئی روح پیدا کردی، اس طرح دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کرلی جو ہر مزپرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔ رستم نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی اضلاع فرات میں غدر کرا دیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے، پوران وخت نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لیے تیار کی اور نرسی و جابان کو سپہ سالار مقرر کیا یہ دونوں دو راستوں سے روانہ ہوئے، جابان کی فوج نماز ق پہنچ کر ابو عبیدہ بن جراح ؓ کی فوج سے بر سر پیکار ہوئی اور بری طرح شکست کھا کر بھاگی، ایرانی فوج کے مشہور افسر جوشن شاہ اور مروان شاہ مارے گئے، جابان گرفتار ہوا مگر اس حیلہ سے بچ گیا جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ پہچانتا نہ تھا، جابان نے اس سے کہا کہ میں بڑھاپے میں تمھارے کس کام کاہوں، معاوضے میں دو غلام لے لو اور مجھے چھوڑ دو، اس نے منظور کر لیا، بعد کو معلوم ہوا کہ یہ جابان تھا،لوگوں نے غل مچایا کہ ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہیے ؛لیکن ابو عبیدہ ؓ نے کہا کہ اسلام میں بدعہدی جائز نہیں۔ ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے جابان کو شکست دینے کے بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں کو بھی شکست دی، اس کا اثریہ ہوا کہ قرب وجوار کے تمام رؤسا خود بخود مطیع ہو گئے،نرسی وجابان کی ہزیمت سن کر رستم نے مروان شاہ کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے مقابلہ میں روانہ کیا، ابو عبیدہ ؓ نے فوجی افسروں کے شدید اختلاف کے باوجود فرات سے پار اتر کر غنیم سے نبرد آزمائی کی چونکہ اس پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا، نیز عربی دلاورں کے لیے ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہلا مقابلہ تھا، اس لیے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اور نوہزارفوج میں سے صرف تین ہزار باقی بچی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شکست نے نہایت برافروختہ کیا، انھوں نے اپنے پرجوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگادی، ان کے جوش کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ نمرو تغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے اپنے قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب وعجم کا مقابلہ ہے، اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں، غرض عمرؓ بن خطاب ایک فوج گراں کے ساتھ جریر بجلی کو میدان رزم کی طرف روانہ کیا، یہاں مثنیٰ نے بھی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دلا کر ایک زبردست فوج تیار کرلی تھی۔ پوران وخت نے ان تیاروں کا حال سنا تو اپنی فوج خاصہ میں سے بارہ ہزار جنگ آزما بہادر منتخب کرکے مہران بن مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے، ایک شدید جنگ کے بعد عجمیوں میں بھگدڑ پڑ گئی، مہران بن تغلب کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے مارا گیا، مثنی نے پل کا راستہ روک دیا اور اتنے آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے، اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔ حیرہ کے کچھ فاصلہ پر جہاں آج بغداد آباد ہے وہاں اسی زمانہ میں بہت بڑا بازار لگتا تھا، مثنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا بازاری جان بچا کر بھاگ گئے اور بے شمار دولت مسلمانوں کے ہاتھ آئی، اسی طرح قرب وجوار کے مقامات میں مسلمانوں کی پیش قدمی شروع ہو گئی، سورا، کسکر، صراۃ اور فلالیح وغیرہ پر اسلامی پھر یرا لہرانے لگا، پایہ تخت ایران میں یہ خبریں پہنچیں تو ایران قوم میں بڑا جوش وخروش پیدا ہو گیا، حکومت کا نظام بالکل بدل دیا، پوران وخت معزول کی گئی، یزد گرد جو سولہ سالہ نوجوان اور خاندان کیانی کا تنہا وارث تھا تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا، اعیان واکابرملک نے باہم متفق ومتحد ہوکر کام کرنے کا ارادہ کیا، تمام قلعے اور بفوجی چھاؤنیوں کو مستحکم کر دیا گیا، اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیلائی جائے، ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی زندگی پیدا ہو گئی اور تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے، مثنی مجبور ہوکر عرب کی سرحد میں ہٹ آئے اور ربیعہ اور مضر کے قبائل کو جو اطراف عراق میں پھیلے ہوئے تھے، ایک تاریخ معین تک علم اسلامی کے نیچے جمع ہونے کے لیے طلب کیا، نیز دربار خلافت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طور پر مطلع کیا۔ عمر نے ایرانیوں کی تیاریوں کا حال سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو جو بڑے رتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے، بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل پر مامور کیا، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں تقریباً سترہ صحابی تھے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر میں جوہر شجاعت دکھا چکے تھے، تین سو وہ تھے جو فتح مکہ میں موجود تھے اور سات سو ایسے تھے جو خود صحابی نہ تھے ؛لیکن ان کی اولاد ہونے کا فخر رکھتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا، مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کر رہے تھے کہ اس اثناء میں ان کا انتقال ہو گیا، اس لیے ان کے بھائی مغنی شراف آکر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے ان سے بیان کیے۔ عمر نے ایام جاہلیت میں نواح عراق کی سیاحت کی تھی اور وہ اس سرزمین کے چپہ چپہ سے واقف تھے اس لیے انھوں نے خاص طور پر ہدایت کردی تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے مفصل حالات لکھ کر آپ کے پاس بھیجے جائیں؛چنانچہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فرودگاہ کی حالت اور رسد کی کیفیت سے ان کو اطلاع دی، اس کے جواب میں دربار خلافت سے ایک مفصل بیان آیا جس میں فوج کی نقل وحرکت حملہ کا بندوبست، لشکر کی ترتیب اور فوج کی تقسیم کے متعلق ہدایتیں درج تھیں، اسی کے ساتھ حکم دیا گیا کہ شراف سے بڑھ کر قادسیہ کو میدان کا رزار قراردیں اور اس طرح مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اور عرب کا پہاڑ حفاظت کا کام دے۔ حضرت سعد ؓ نے دربار خلافت کی ہدایت کے مطابق شراف سے بڑھ کر قادسیہ میں مورچہ جمایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اور اس کے رفقا کو اسلام کی ترغیب دیں ؛لیکن جو لوگ دولت و حکومت کے نشہ میں مخمور تھے، وہ خانہ بدوش عرب اور ان کے مذہب کو کب خاطر میں لاتے چنانچہ سفارت گئی اور ناکام واپس آئی۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سے سکوت رہا، رستم ساٹھ ہزار کے فوج کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اور یزدگرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چرا رہا تھا اور مسلمان آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے مویشی وغیرہ حاصل کر لاتے تھے جب اس حالت نے طول کھینچا مجبور ہوکر رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا اور ایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔ رستم قادسیہ میں پہنچ کر بھی جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتا رہا اور مدتوں سفراء کی آمدورفت اور نامہ وپیام کا سلسلہ جاری رکھا ؛لیکن مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہوگا، رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو سخت برہم ہوا اور قسم کھا کر کہا"آفتاب کی قسم!اب میں تمام عربوں کو ویران کردوں گا۔"[76][77][78] .[79][80]
اورغضب ناک ہوکر فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیااورخود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا ،صبح کے وقت قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں سے آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا جس کے پیچھے پیچھے ہاتھیوں کے کالے کالے پہاڑ عجیب خوفناک سماں پیدا کر رہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکرِ جرار صف بستہ کھڑا تھا،اللہ اکبر کے نعروں سے جنگ شروع ہوئی،دن بھر ہنگامہ محشر برپا رہا، شام کو جب تاریکی چھاگئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے، قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔ قادسیہ کی دوسری جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے، اس معرکہ میں مہم شام کی چھ ہزار فوج عین جنگ کے وقت پہنچی اور عمر کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے موقع پر پہنچے اور پکارکرکہا"امیر المومنین نے یہ انعام ان کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں"اس نے مسلمانوں کے جوش و خروش کو اور بھی بھڑکا دیا تمام دن جنگ ہوتی رہی شام تک مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول ومجروح ہوئے ؛لیکن فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے، اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے نقصان پہنچا تھا، اگرچہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب ایجاد کر لیا تھا، تاہم یہ کالے دیو جس طرف جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ضخم وسلم وغیرہ پارسی نومسلموں سے اس سیاہ بلا کے متعلق مشورہ طلب کیا، انھوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں اور سونڈ بیکار کر دیے جائیں، سعد ؓ نے قعقاع ؓ، جمال اور ربیع کو اس خدمت پر مامور کیا، ان لوگوں نے ہاتھیوں کو نرغے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر آنکھیں بیکار کر دیں، قعقاع ؓ نے آگے بڑھ کر پیل سفید کی سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ مستک الگ ہو گئی، جھر جھری لے کر بھاگا، اس کا بھاگنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہولئے، اس طرح دم کے دم میں یہ سیاہ بادل چھٹ گیا۔ اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا، دن بھر ہنگامہ کار زار گرم رہا، رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہا اور اس زور کارن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل اٹھتی تھی، اسی مناسبت سے اس رات کو لیلۃ الہریر کہتے ہیں، رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا؛لیکن آخر میں زخموں سے چور ہوکر بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑاکہ تیر کر نکل جائے گا، بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا اور تلوار سے کام تمام کر دیا، رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے دور تک تعاقب کرکے ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔ قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسریٰ کی قسمت کاآخری فیصلہ کر دیا، درفش کاریانی ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہو گیا اور اسلامی حلم نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایران کی سرزمین پر لہرانے لگا، مسلمانوں نے قادسیہ سے بڑھ کر آسانی کے ساتھ بابل، کوثی، بہرہ شیر اورخود نوشیروانی دار الحکومت مدائن پر قبضہ کر لیا، ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلولا کو اپنا فوجی مرکز قرار دیا، اس دوران میں رستم کے بھائی خرندانے حسن تدبیر سے ایک زبردست فوج جمع کرلی، سعد نے ہاشم بن عتبہ کو جلولا کی تسخیر پر مامور کیا، جلولا چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا، اس لیے مہینوں کے محاصرہ کے بعد مفتوح ہوا، یہاں سے قعقاع ؓ کی سپردگی میں ایک جمعیت حلوان کی طرف بڑھی اور خسرووشنوم کو شکست دے کر شہر پر قابض ہو گیا۔ قعقاع ؓ حلوان میں قیام کیا اور عام منادی کرادی کہ جو لوگ اسلام یا جزیہ قبول کر لیں گے وہ مامون و محفوظ رہیں گے، اس منادی پر بہت سے امرا اور رؤسا برضاورغبت اسلام میں آگئے یہ عراق کی آخری فتح تھی،کیونکہ یہاں اس کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ تسخیر عراق کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی دلی خواہش تھی کہ جنگ کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ" کاش!ہمارے اور فارس کے درمیان میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے نہ ہم ان پر چڑھ سکتے"لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد کسی طرح چین نہیں آتا تھا؛چنانچہ یزد گرد نے معرکہ جلول کے بعد مرو کو مرکزبناکر نئے سرے سے حکومت کے ٹھاٹھ لگائے اورتمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔ یز گرد کے فرامین نے تمام ممالک میں آگ لگادی اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کا ٹڈی دل قم میں آکر مجتمع ہوا، یزدگرد نے مروان شاہ کو سرلشکر مقرر کرکے نہادندکی طرف روانہ کیا، اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم نہایت متبرک سمجھتے تھے، فال نیک کے خیال سے نکالا گیا اور جب مروان شاہ روانہ ہوا تو یہ مبارک پھر یرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ ایرانیوں کی ان تیاریوں کا حال سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو آگے بڑھنے سے روکنے کا حکم دیا نہاوند کے قریب دونوں کی فوجیں سرگرم پیکار ہوئیں اور اس زورکا رن پڑا کہ قادسیہ کے بعد ایسی خونزیز جنگ کوئی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ اس جنگ میں خود اسلامی سپہ سالار نعمانی ؓ شہید ہو گئے، ان کے بعد ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر بدستور جنگ جاری رکھی اور رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا، اس لڑائی میں تقریباً تین ہزار عجمی کھیت رہے، نتائج کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام "فتح الفتوح" رکھا، فیروز جس کے ہاتھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت مقدر تھی، اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔[81] [82]
واقعہ نہاوند کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیال پیدا ہوا کہ جب تک تخت کیانی کا وارث ایران کی سر زمین پر موجود ہے، بغاوت اور جنگ کا فتنہ فرونہ ہوگا، اس بنا پر عام لشکر کشی کا ارادہ کیا اور اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کرکے مشہور افسروں کو دیے اور انھیں خاص خاص ممالک کی طرف روانہ کیا، چنانچہ 21ھ میں یہ سب غازیان اسلام اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہو گئے اور نہایت جوش و خروش سے حملہ کرکے تمام ممالک کو اسلام کا زیرنگیں کر دیا اور صرف ڈیڑھ دو برس کے عرصہ میں کسریٰ کی حکومت نیست ونابود ہو گئی۔ خاندان کیانی کا آخری تاجدار ایران سے بھاگ کر خاقان کے دربار میں پہنچا، خاقان نے اس کی بڑی عزت وتوقیر کی اورایک فوج گراں کے ساتھ یزد گرد کو ہمراہ لے کر خراسان کی طرف بڑھا اور خاقان نے احنف بن قیس کے مقابلہ میں صف آرائی کی ؛لیکن صفائی کے دوہی ہاتھ نے اس کے عزم واستقلال کو متزلز ل کر دیا اور اس کے ذہن نشین ہو گیا کہ ایسے بہادروں کو چھیڑنا مصلحت نہیں؛چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے حدود میں واپس چلا گیا۔ یزد گرد کوخاقان کے واپس جانے کی خبر ملی تو مایوس ہوکر خزانہ اور جواہرات ساتھ لیے ترکستان کا عزم کیا، درباریوں نے دیکھا کہ ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے تو روکا ، اس نے نہ مانا تو مقابلہ کرکے تمام مال واسباب ایک ایک کرکے چھین لیا، یزد گرد بے سروسامان خاقان کے پاس پہنچا اور خدا تعالی کی نافرمانی کے باعث مدتوں فرغانہ کی گلیوں میں خاک چھانتا رہا۔ "اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُoوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُo بِیَدِکَ الْخَیْرُ" "خدایا تو ہی ملکوں کا مالک ہے جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔" احنف بن قیس نے بارگاہِ خلافت میں نامۂ فتح روانہ کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام آدمیوں کو جمع کرکے یہ مژدہ جانفزا سنایا اور ایک مؤثر تقریر کی، آخر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی اور اب وہ کسی طرح اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؛لیکن اگر تم بھی صراط مستقیم پر قائم نہ رہے تو خدا تعالی تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کو دے دیگا۔[83][84]
ممالک شام میں سے اجنادین ، بصریٰ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں فتح ہو چکے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے تو دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا، خالد بن ولید سیف اللہ ؓ نے رجب 14ھ میں اپنے حسن تدبیر سے اس کو مسخر کر لیا۔ رومی دمشق کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہرطرف سے فوجیں جمع کرکے مقام بیسان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے، مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑاؤڈالا، عیسائیوں کی درخواست پر معاذ بن جبل ؓ سفیر بن کر گئے؛لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی، آخر کار ذوقعدہ 14ھ میں فحل کے میدان میں نہایت خونزیز معرکے پیش آئے خصوصاً آخری معرکہ نہایت سخت تھا، بالآخر یہ میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا[85]غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان اردن کے تمام شہر اور مقامات پر قابض ہو گئے، رعایا ذمی قراردی گئی اور ہرجگہ اعلان کر دیا گیاکہ"مقتولین کی جان ومال، زمین، مکانات، گرجے اور عبادت گاہیں سب محفوظ ہیں" دمشق اور اردن مفتوح ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کا رخ کیا،راہ میں بعلبک، حماۃ ، شیراز اور معرۃ النعمان فتح کرتے ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا، حمص والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت کرلی سپہ سالار اعظم ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کو وہاں متعین کرکے لاذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص تدبیر سے اس کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ حمص کی فتح کے بعد اسلامی فوجوں نے ہر قل کے پایہ تخت انطاکیہ کا رخ کیا ؛لیکن بارگاہ خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیاجائے، اس لیے فوجیں واپس آگئیں۔ [86][87] ،[88][89]
دمشق ، حمص اور لاذقیہ کی پیہم اور متواتر ہزیمتوں نے قیصر کو سخت برہم کر دیا اور وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اپنی شہنشاہی کا پورا زور صرف کرنے پر آمادہ ہو گیا اور انطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈآیا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے اس طوفان کو روکنے کے لیے افسروں کے مشورہ سے تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کرکے دمشق میں اپنی قوت مجمتع کی اور ذمیوں سے جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا سب واپس کر دیا گیا، [90] کیونکہ اب مسلمان ان کی حفاظت کرنے سے مجبور تھے اس واقعہ کا عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے تھے کہ خدا تم کو جلد واپس لائے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مفتوحہ مقامات سے مسلمانوں کے ہٹ آنے کی خبر ملی تو پہلے وہ بہت رنجیدہ ہوئے ؛لیکن جب معلوم ہوا کہ تمام افسروں کی یہی رائے تھی تو فی الجملہ تسلی ہو گئی اور فرمایا خداکی اسی میں مصلحت ہوگی، سعید بن عامر ؓ کو ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا اور قاصد کو ہدایت کی کہ خود ایک صف میں جاکر زبانی یہ پیغام پہنچانا: "الاعمر یقرئک الاسلام ویقول لکم یا اھل السلام اصدقوااللقاء وشدو اعلیہم مثداللیوث ولیکونوااھون علیکم من الذر فاناقد علمنا انکم علیہم منصورون" ترجمہ: اے برادران اسلام! عمر بن خطاب ؓ نے بعد سلام کے تم کو یہ پیغام دیا ہے کہ پوری سرگرمی کے ساتھ جنگ کرو اور دشمنوں پر شیروں کی طرح اس طرح حملہ آور ہو کہ وہ تم کو چیونٹیوں سے زیادہ حقیر معلوم ہوں، ہم کو یقین کامل ہے کہ خدا کی نصرت تمھارے ساتھ ہے اور آخر فتح تمھارے ہاتھ ہے" اردن کی حدود میں یرموک کا میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت باموقع تھا، اس لیے ا س اہم معرکہ کے لیے اسی میدان کو منتخب کیا گیا، رومیوں کی تعداد دولاکھ تھی، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار تھی؛لیکن سب کے سب یگانۂ روز گار تھے، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا، سو وہ تھے جو غزوہ بدر میں حضور خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، عام مجاہدین بھی ایسے قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی شجاعت اورسپہ گری میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا، پانچویں رجب المرجب 15ھ کو دوسرا معرکہ پیش آیا، رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ بھاگنے کا خیال تک نہ آئے، ہزاروں پادری اوربشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے تھے اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نام لے کر جوش دلاتے تھے، اس جوش واہتمام کے ساتھ رومیوں نے حملہ کیا، فریقین میں بڑی خونریز جنگ ہوئی ؛لیکن انجام کار مسلمانوں کی ثابت قدمی اور پامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائی کھیت رہے اور مسلمان کل تین ہزار کام آئے، قیصر کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو حسرت وافسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا، [91]حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مژدہ فتح سنا تو اسی وقت سجدہ میں گرکر خداکا شکر اداکیا۔ فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں تمام اطراف ملک میں پھیل گئیں اور قنسرین،انطاکیہ،جومہ، سرمین، توزی، قورس ، تل غرار، ولوک، رعیان وغیرہ چھوٹے چھوٹے مقامات نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہو گئے۔[92][93][94]
فسلطین کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مامور ہوئے تھے، انھوں نے نابلس، لد ، عمواس، بیت جبرین وغیرہ پر قبضہ کر کے 6ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا، اس اثناء میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ بھی اس مہم سے فارغ ہوکر ان سے مل گئے، بیت المقدس کے عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کے لیے یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبردی گئی، انھوں نے اکابر صحابہ ؓ سے مشورہ کرکے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو نائب مقرر کیا اور رجب 16ھ میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔ [95] [94]
حضرت عمرؓ بن خطاب کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا، مقام جابیہ میں افسروں نے استقبال کیا اور دیر تک قیام کرکے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا، پھر وہاں سے روانہ ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے،پہلے مسجد میں تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی، نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں نمازپڑھنے کی اجازت دی ؛لیکن حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قراردے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں، باہر نکل کر نماز پڑھی، [96] بیت المقدس سے واپسی کے وقت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام ملک کا دورہ کیا، سرحدوں کا معائنہ کرکے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اور بخیر وخوبی مدینہ واپس تشریف لائے۔ [66]
بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی متفرق معرکہ پیش آئے، اہل جزیرہ کی مستعدی اورہر قل کی اعانت عیسائیوں نے دوبارہ حمص پر قبضہ کی کوشش کی ؛لیکن ناکام رہے، فلسطین کے اضلاع میں قیساریہ نہایت آباد اور پر رونق شہر تھا، 13ھ میں عمرو بن العاص ؓ نے اس پر چڑھائی کی، 18ھ ء تک متواتر حملوں کے باوجود فتح نہ ہو سکا، آخر 18ھ کے اخیر میں امیر معاویہ ؓ نے ایک یہودی کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا اور شہر پر اسلامی پرچم لہرانے لگا، جزیرہ پر 16ھ میں عبد اللہ بن الغنم نے فوج کشی کی، تکریت کا ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور چوبیس دفعہ حملے ہوئے، آخر میں حسن تدبیر سے مسخر ہوا، باقی علاقوں کو عیاض بن غنم نے فتح کیا، اسی طرح 16ھ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے خوزستان پر حملہ کیا، 17ھ میں وہ معزول ہوئے اور ان کی جگہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے، انھوں نے نئے سروسامان سے حملہ کیا اور اہواز، مناذر، سوس، رامہرز کو فتح کرتے ہوئے خوزستان کے صدر مقام شوستر کا رخ کیا، یہ نہایت مستحکم اور قلعہ بند مقام تھا؛لیکن ایک شخص کی راہنمائی سے مسلمانوں نے تہ خانہ کی راہ سے گھس کر اس کو مسخر کر لیا، یہاں کا سردار ہر مزان گرفتار ہوکر مدینہ بھیجا گیا، وہاں پہنچ کر اس نے اسلام قبول کیا، [97] عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت خوش ہوئے، خاص مدینہ میں رہنے کی جازت دی اور دو ہزار سالانہ مقرر کر دیا۔[98] .[99]
حضرت عمرو بن عاص ؓ نے بہ اصرار فاروق اعظم ؓ سے اجازت لے کر چار ہزار فوج کے ساتھ مصر پر حملہ کیا اور فرما، بلیبس، ام ونین وغیرہ کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو امدادی فوج کے لیے لکھا، انھوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے، زبیر بن العوام ؓ، عبادہ بن صامت ؓ، مقداد بن عمرو ؓ، سلمہ بن مخلد ؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓ نے حضرت زبیرؓ بن عوام کو ان رتبہ کے لحاظ سے افسر بنایا سات مہینے کے بعد حضرت زبیر بن عوام ؓ کی غیر معمولی شجاعت سے قلعہ مسخر ہوا اور وہاں سے فوجیں اسکندریہ کی طرف بڑھیں، مقام کربوں میں ایک سخت جنگ ہوئی، یہاں بھی عیسائیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا اور چند دنوں کے محاصرہ کے بعد اس کو بھی فتح کر لیا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مژدۂ فتح سنا تو سجدہ میں گرپڑے اور خدا کا شکر اداکیا۔[100]فتح اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور بہت سے قبطی برضاو رغبت حلقہ بگوشہ اسلام ہوئے۔ [101][102][101]
مغیرہ بن شعبہ ؓ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے جس کی کنیت ابولولو تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اپنے آقا کے بھاری محصول مقرر کرنے کی شکایت کی، شکایت بے جا تھی، اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے توجہ نہ کی، اس پر وہ اتنا ناراض ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر لے کر اچانک حملہ کر دیا اور متواتر چھ وار کیے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدمے سے گر پڑے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ [103] یہ ایسا زخم کاری تھا کہ اس سے آپ جانبر نہ ہو سکے، لوگوں کے اصرار سے چھ اشخاص کو منصب خلافت کے لیے نامزد کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہو جائے اس منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے، ان لوگوں کے نام یہ ہیں، علی بن ابی طالب ؓ، عثمان بن عفان ؓ، زبیر بن عوام ؓ، طلحہ بن عبیداللہ ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی جازت لی۔ [104] اس کے بعد مہاجرین انصار، اعراب اور اہل ذمہ کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے، ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ ہو سکے تو کل قریش سے ؛لیکن قریش کے سوا اورکسی کو تکلیف نہ دینا۔ سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا اور جمعرات کے روز جان بحق نوش کرگئے۔ ابن اثیرؒ کے مطابق "سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہو گئی تھی ، 26 ذوالحجه کو حملہ ہوا حملے کے بعد 29 ذوالحجۃ تک زندہ رہے اور 1 محرم الحرام کو وفات پائی اور دفنایا گیا " [105] [106][107] [108]
اسلام میں خلافت کا سلسلہ گو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے ؛لیکن منتظم اور باقاعدہ حکومت کا آغاز عمر بن خطاب کے عہد سے ہوا، انھوں نے نہ صرف قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک محروسہ میں شامل کیا؛بلکہ حکومت و سلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پزیر ہو چکے تھے؛لیکن قبل اس کے کہ ہم نظام حکومت کی تفصیل بیان کریں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت جمہوری طرز حکومت سے مشابہ تھی، یعنی تمام ملکی و قومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین و انصار ؓ کے منتخب اور اکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے، مجلس کے ممتاز اور مشہور ارکان یہ ہیں: حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ۔ [109] مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین و انصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی، ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا، ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔ [110] مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی"الصلاۃ جامعۃ" کا اعلان کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے، [111] جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی رائے کے علانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اوراس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت ان تمام امور کی جامع تھی، ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اور خلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمؓر نے متعدد موقعوں پر تصریح کر دی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے، نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں: "وإنما أنا ومالكم كولي اليتيم إن استغنيت استعففت، وإن افتقرت أكلت بالمعروف، لكم علي أيها الناس خصال فخذوني بها، لكم علي أن لا أجتبي شيئا من خراجكم و مما أفاء اللہ عليكم إلا من وجهہ لكم علي إِذَا وقع فِي يدي أن لا يخرج مني إلا فِي حقہ ومالكم علي أن أزيد أعطياتكم وأرزاقكم إن شاء اللہ وأسد ثغوركم، ولكم علي أن لا ألقيكم فِي المهالك" [112] "مجھ کو تمھارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے، اگر میں دولتمندہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور اگر صاحب حاجت ہوں گا تو اندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا، صاحبو! میرے اوپر تمھارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمھارے روزینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اور یہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں مذکورہ بالاتقریر صرف دلفریب خیالات کی نمائش نہ تھی ؛بلکہ عمر بن خطاب نہایت سختی کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ آپ کی صاحبزادی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے حضرت عمر بن خطاب کے پاس آئیں اور کہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں، اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ" بے شک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے، افسوس ہے کہ تم نے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا، وہ بے چاری خفیف ہوکر چلی گئیں، [113] ایک دفعہ خود بیمار پڑے لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد موجود تھا ؛لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جا کر لوگوں سے کہا کہ" اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا سا شہد لے لوں" [114] ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب عمر کی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار عمر کو مخاطب کرکے کہا"اتق اللہ یاعمر"[115]حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، عمر بن خطاب نے فرمایا"نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم"یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔ ایک دفعہ عمر مہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے، ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اور کہا"اتق اللہ یاعمر!"یعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا عمر نے اعتراف کے طور پر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور مساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو جوش استقلال اور عزم و ثبات کا مجسم پتلا بنادیا۔ خلافت فاروقی رضی اللّٰہ عنہ کی ترکیب اور ساخت بیان کرنے کے بعد اب ہم انتظامات ملکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ فاروق اعظم نے اپنے عہد مبارک میں خلافت اسلامیہ کو کس درجہ منظم اور باقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کر دیا تھا۔ نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام ملک کا صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم ہے، اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا، مکہ، مدینہ منورہ ، جزیرہ، بصرہ ، کوفہ، مصر، فلسطین، ان صوبوں کے علاوہ تین صوبے اور تھے، خراسان، آذر بائیجان، فارس، ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے، والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی، صاحب الخراج عینی کلکٹر، صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال، یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی جج چنانچہ کوفہ میں عمار بن یاسر ؓ والی، عثمان بن حنیف ؓ کلکٹر، عبد اللہ بن مسعود ؓ افسر خزانہ، شریح ؓ قاضی اور عبد اللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔ [116] بڑے بڑے عہدہ داروں کا انتخاب عموماً مجلس شوریٰ میں ہوتا تھا، عمر کسی لائق راستباز اورمتدین شخص کا نام پیش کرتے تھے اور چونکہ عمر میں جوہر شناسی کا مادہ فطرتا تھا اس لیے ارباب مجلس عموما ان کے حسن انتخاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس شخص کے تقرر پر اتفاق رائے کرلیتے تھے؛چنانچہ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے نعمان بن مقرن کا اسی طریقہ سے انتخاب ہوا تھا۔ [117][118][119][120]
خلیفہ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اور قوم کے اخلاق و عادات کی حفاظت ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے، وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا، باریک کپڑے نہ پہنے گا، چھنا ہوا آٹانہ کھائے گا، دروازہ پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا ، [121]اسی کے ساتھ اس کے مال و اسباب کی فہرست تیار کرا کے محفوظ رکھتے تھے اور جب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو جائزہ لے کر آدھا مال بٹا لیتے تھے[122] اور بیت المال میں داخل کر دیتے تھے، ایک دفعہ بہت سے عمال اس بلا میں مبتلا ہوئے، خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، انھوں نے سب کی املاک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال بٹا لیا اور بیت المال میں داخل کر لیا ، موسم حج میں اعلان عام تھا جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فورا بارگاہ خلافت میں پیش کرے، [123]چنانچہ ذراذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے، حضرت عمروبن العاص ؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا، عمر نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں، عمرو بن العاص ؓ نے منت سماجت کرکے مستغیث کو راضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ [124] حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اپنی جانبازی اور شجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اور اپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض اس لیے معزول کر دیے گئے کہ انھوں نے ایک شخص کو انعام دیا تھا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی تو انھوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار اعظم کو لکھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورت میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔ [125] حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بصرہ کے گورنر تھے، شکایتیں گزریں کہ انھوں نے اسیران جنگ میں سے 60 رئیس زادے منتخب کرکے اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں اور کاروبار حکومت زیاد بن سفیان کے سپرد کررکھا ہے اور یہ کہ ان کے پاس ایک لونڈی ہے جس کو نہایت اعلیٰ درجہ کی غذا بہم پہنچائی جاتی ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں آسکتی،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخذہ کیا تو انھوں نے دو اعتراضوں کا جواب تشفی بخش دیا، لیکن تیسری شکایت کا کچھ جواب نہ دے سکے؛چنانچہ لونڈی ان کے پاس سے لے لی گئی۔ [126] حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کوفہ میں ایک محل تعمیر کرایا جس میں دیوڑھی بھی تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ اہل حاجت کو رکاؤ ہوگا محمد بن مسلمہ ؓ کو حکم دیا کہ جاکر ڈیوڑھی میں آگ لگادیں ؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ [127] عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے، عمر نے محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ ؓ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، اس ہیئت اور لباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے، عمر بن خطاب نے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا اور بالوں کا کرتا پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم دیا، عیاض ؓ کو انکار کی مجال نہ تھی، مگر بار بار کہتے تھے، اس سے مرجانا بہتر ہے، عمر بن خطاب نے فرمایا کہ یہ تو تمھارا آبائی پیشہ ہے، اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ [128] حکام کے علاوہ عام مسلمانوں کی اخلاقی اور مذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا، عمر جس طرح خود اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھے، چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام قوم مکارم اخلاق سے آراستہ ہو جائے، انھوں نے عرب جیسی فخار قوم سے فخر وغرور کی تمام علامتیں مٹادیں، یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے دی، ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک خوان پیش کیا، عمر بن خطاب نے فقیروں اور غلاموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور فرمایا کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا ہے۔ [129] ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب ؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے، مجلس سے اٹھتے تو لوگ ادب اور تعظیم کے خیال سے ساتھ ساتھ چلتے اتفاق سے عمر بن خطاب آنکلے، یہ حالت دیکھ کر ابی بن کعب ؓ کودرہ لگایا، ان کو نہایت تعجب ہوا اور کہا خیر تو ہے؟ عمر بن خطاب نے فرمایا: اوما تری فتنۃ للمتبوع ومذلۃ للتابع۔ [130] "تمھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ امر متبوع کے لیے فتنہ اور تابع کے لیے ذلت ہے"۔ شعر و شاعری کے ذریعہ ہجوو بدگوئی عرب کا عام مذاق تھا، عمر بن خطاب نے نہایت سختی سے اس کو بند کر دیا، حطیہ اس زمانہ کا مشہور ہجو گوئی شاعر تھا، عمر نے اس کو قید کر دیا اورآخر اس شرط پر رہا کیا کہ پھر کسی کی ہجو نہیں لکھے گا، [131]ہواپرستی، رندی اور آوارگی کی نہایت شدت سے روک تھا م کی، شعرا کو عشقیہ اشعار میں عورتوں کا نام لینے سے قطعی طور پر منع کر دیا، شراب خوری کی سزا سخت کردی، چالیس درے سے اسی درے کر دیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا بڑا خیال تھا کہ لوگ عیش پرستی اور تنعم کی زندگی میں مبتلا ہو کر سادگی کے جوہر سے خالی نہ ہو جائیں، افسروں کو خاص طور پر عیسائیوں اور پارسیوں کے لباس اور طرز معاشرت کے اختیا ر کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے، سفر شام میں مسلمان افسروں کے بدن پر حریر دیباکے حلے اور پر تکلف قبائیں دیکھ کر اس قدر خفا ہوئے کہ ان کو سنگریزے مارے اور فرمایا تم اس وضع میں میرا استقبال کرتے ہو۔ [132] مسلمانوں کو اخلاق ذمیمہ سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کی بھی خاص طور پر تعلیم دی، مساوات اور عزت نفس کا خاص خیال رکھتے تھے اور تمام عمال کو ہدایت تھی کہ مسلمانوں کو مارانہ کریں اس سے وہ ذلیل ہو جائیں گے۔ [133][134][135]
شام و ایران فتح ہوا تو لوگوں کی رائے ہوئی کہ مفتوحہ علاقے امرائے فوج کی جاگیر میں دے دیے جائیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک فتح کیا ہے ان ہی کا قبضہ بھی حق ہے، حضرت بلال ؓ کو اس قدر اصرار تھا کہ عمر بن خطاب نے دق ہو کر فرمایا"اللہم اکفنی بلالا" لیکن خود عمر کی رائے تھی کہ زمین حکومت کی ملک اور باشندوں کے قبضہ میں رہنے دی جائے، حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت طلحہ ؓ بھی عمر کے ہم آہنگ تھے، غرض مجلس عام میں مسئلہ پیش ہوا اور بحث ومباحثہ کے بعد فاروق اعظم ؓ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔ [136] عراق کی پیمائش کرائی، قابل زراعت اراضی کا بندوبست کیا، عشرو خراج کا طریقہ قائم کیا، عشرکا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں جاری ہو چکا تھا ؛لیکن خراج کا طریقہ اس قدر منضبط نہیں ہوا تھا، اسی طرح شام و مصر میں بھی لگان تشحیص کیا ؛لیکن وہاں کا قانون ملکی حالات کے لحاظ سے عراق سے مختلف تھا، تجارت پر عشر یعنی چنگی لگائی گئی، اسلام میں یہ خاص عمر کی ایجاد ہے اور اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ممالک میں تجارت کے لیے جاتے تھے ان کو دس فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا، عمر کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھی غیر ملکی مال پر ٹیکس لگا دیا، اسی طرح تجارتی گھوڑوں پر بھی زکوٰۃ خاص عمر کے حکم سے قائم کی ورنہ گھوڑے مستثنی تھے، اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ نعوذ باللہ عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ فرمائے تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں، اس لیے تجارت کے گھوڑے مستثنی کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ حضرت عمر بن خطاب نے تمام ملک میں مردم شمار کرائی، اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں، محکمۂ قضا کے لیے اصول و قوانین بنائے، قاضیوں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی سے محفوظ رہیں؛چنانچہ سلمان ؓ، ربیعہ ؓ اور قاضی شریح ؓ کی تنخواہیں پانچ پانچ سو درہم ماہانہ تھی۔ [137] اور امیر معاویہ ؓ کی تنخواہ ایک ہزار دینار تھی، [138] حل طلب مسائل کے لیے شعبہ افتاء قائم کیا، حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت ابودرداءؓ اس شعبے کے ممتاز رکن تھے۔ ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے عمر نے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، اس کے افسر کا نام "صاحب الاحداث" تھا، حضرت ابوہریرہ ؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث بنا دیا تو ان کو خاص طور پر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں، احتساب کے متعلق جو کام ہیں، مثلاً دکان دار ناپ تول میں کمی نہ کریں، کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے، اس قبیل کے اور بہت سے امور کی نگرانی کا جن کا تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا انتظام تھا اور صاحبان احداث (افسران پولیس) اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ سے پہلے عرب میں جیل خانوں کا نام ونشان نہ تھا، عمر بن خطاب نے اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدکر اس کو جیل خانہ بنایا، [139] پھر اور اضلا ع میں بھی جیل خانے بنوائے، جلاوطنی کی سزا بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی کی ایجاد ہے؛چنانچہ ابو محجن ثقفی کو بار بار شراب پینے کے جرم میں ایک جزیرہ میں جلاوطن کر دیا تھا۔ [140][141].[142]
خلافت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا ؛بلکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا، ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا ؛لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تقریبا 15ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا، دار الخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جدا گانہ افسر مقرر ہوئے، مثلاً اصفہان میں خالد بن حارث ؓ اور کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود خزانہ کے افسر تھے، صوبہ جات اوراضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کردی جاتی تھی، صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے، صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی، بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹرڈ بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 16ھ میں سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔[143] [144]
اسلام کا دائرہ حکومت جس قدر وسیع ہوتا گیا، اسی قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اس کے لیے کوئی مستقل صیغہ نہ تھا تاہم صوبہ جات کے عمال اور حکام کی نگرانی میں تعمیرات کا کام نہایت منتظم اور وسیع طور پر جاری تھا، ہر جگہ حکام کے بود وباش کے لیے سرکاری عمارتیں تیار ہوئیں، رفاہ عام کے لیے سڑک،پل اور مسجدیں تعمیر کی گئیں، فوجی ضروریات کے لحاظ سے قلعے چھاؤنیاں اوربارکیں تعمیر ہوئیں، مسافروں کے لیے مہمان خانے بنائے گئے، خزانہ کی حفاظت کے لیے بیت المال کی عمارتیں تیار ہوئیں، عمر تعمیرات کے باب میں نہایت کفایت شعار تھے ؛لیکن بیت المال کی عمارتیں عموما ًشاندار اور مستحکم بنواتے تھے؛چنانچہ کوفہ کے بیت المال کو روزبہ نامی ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اور اس میں خسروان فارس کی عمارت کا مسالحۃ استعمال کیا گیا تھا۔ [145] مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں جو خاص تعلق ہے اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان میں راستہ سہل اور آرام دہ بنایا جائے، عمر بن خطاب نے17ھ میں اس کی طرف توجہ کی اور مدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں،سرائیں اور چشمے تیار کرائے۔[146]ترقی زراعت کے لیے تمام ملک میں نہریں کھدوائی گئیں،بعض نہریں ایسی تھیں جن کا تعلق زراعت سے نہ تھا، مثلاً نہر ابی موسیٰ جو محض بصرہ والوں کے لیے شیریں پانی بہم پہنچانے کے خیال سے دجلہ کو کاٹ کر لائی گئی تھی، یہ نہر نو میل لمبی تھی، [147]اسی طرح نہر معقل جس کی نسبت عربی ضرب المثل ہے اذاجاء نھر اللہ بطل نھرا لمعقل، [148] حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ گورنر کوفہ نے بھی ایک نہر تیار کرائی جو سعد بن عمرو بن حرام کے نام سے مشہور ہوئی، [149]اس سلسلہ میں سب سے بڑی اور فائدہ رساں وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہوئی جس کے ذریعہ سے دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملادیا گیاتھا۔ [150][151]
مسلمان جب عرب کی گھاٹیوں سے نکل کر شام و ایران کے چمن زار میں پہنچے تو ان کو یہ ممالک ایسے خوش آئند نظر آئے کہ انھوں نے وطن کو خیر باد کہہ کر یہیں طرح اقامت ڈال دی اور نہایت کثر ت سے نوآبادیاں قائم کیں،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جو شہر آباد ہوئے ان کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے۔
14ھ میں عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے اس شہر کو بسایا تھا، ابتدا میں صرف آٹھ سو آدمیوں نے یہاں سکونت اختیار کی ؛لیکن اس کی آبادی بہت جلد ترقی کر گئی،یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد امارت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی اندراج میں درج تھے اسی ہزار اور ان کی آل و اولاد کی ایک لاکھ بیس ہزار تھی ، بصرہ اپنی علمی خصوصیات کے لحاظ سے مدتوں مسلمانوں کا مایہ ناز شہر رہا ہے۔ [152]
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے عراق کے قدیم عرب فرمانروا نعمان بن منذر کے پایہ تخت کو آباد کیااوراس میں چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے لائق مکانات بنوائے گئے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شہر کے بسانے میں غیر معمولی دلچسپی تھی، شہر کے نقشہ کے متعلق خود ایک یادداشت لکھ بھیجی، اس میں حکم تھا کہ شارع ہائے عام چالیس چالیس ہاتھ چوڑی رکھی جائیں، اس سے کم کی مقدار 30 ، 30 ہاتھ اور 20 ، 20 ہاتھ سے کم نہ ہو، جامع مسجد کی عمارت اس قدر وسیع بنائی گئی تھی کہ اس میں چالیس ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کرسکتے تھے، [153] مسجد کے سامنے دو سو ہاتھ لمبا ایک وسیع سائبان تھا جو سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا، یہ شہر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں اس عظمت و شان کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اس کو راس اسلام فرمایا کرتے تھے، علمی حیثیت سے بھی ہمیشہ ممتاز رہا ہے، امام نخعی، حماد، امام ابو حنیفہ اور امام شعبی رحمہ اللہ علیہما اسی معدن کے لعل و گوہر تھے۔[154]
دریائے نیل اور جبل مقطم کے درمیان میں ایک کف دست میدان تھا، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح مصر نے اثنائے جنگ میں یہاں پڑاؤ کیا، اتفاق سے ایک کبوتر نے ان کے خیمہ میں گھونسلا بنالیا، عمرو بن العاص ؓ نے کوچ کے وقت قصدا اس خیمہ کو چھوڑ دیا کہ اس مہمان کو تکلیف نہ ہو مصر کی تسخیر کے بعد انھوں نے عمرکے حکم سے اسی میدان میں ایک شہر آباد کیا، چونکہ خیمہ کو عربی میں فسطاط کہتے ہیں، اس لیے اس شہر کا نام فسطاط قرار پایا، [155]فسطاط نے بہت جلد ترقی کرلی اور پورے مصر کا صدر مقام ہو گیا، چوتھی صدی کا ایک سیاح ان الفاظ میں اس شہر کے عروج وکمال کا نقشہ کھینچتا ہے: "یہ شہر بغداد کا ناسخ، مغرب کا خزانہ اور اسلام کا فخر ہے، دنیائے اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتی ہیں، نہ یہاں سے زیادہ کبھی ساحل پر جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔"[156]
یہ پہلے ایک گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو ایک عظیم الشان شہر بنادیا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے بنیاد رکھی اور ایک جامع مسجد تیار کرائی اور چونکہ یہ مشرق ومغرب کو آپس میں ملاتا ہے اس لیے اس کا نام موصل رکھا گیا۔ [157]
فتح اسکندریہ کے بعد عمرو بن العاص ؓ اس خیال سے کہ رومی دریا کی سمت سے حملہ نہ کرنے پائیں، تھوڑی سی فوج لب ساحل مقرر کر دی تھی، ان لوگوں کو دریا کا منظر ایسا پسند آگیا کہ وہاں سے ہٹنا پسند نہ کیا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی حفاظت کے لیے 21ھ میں ایک قلعہ تعمیر کرادیا اور اس وقت سے یہاں ایک مستقل نوآبادی کی صورت پیدا ہو گئی۔ [158][159][160]اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فاروق اعظم نے مساوات کا کیسا سبق سکھایا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نظام کو قریش وانصار سے وسعت دے کر تمام قبائل عرب میں عام کر دیا، پورے ملک کی مردم شماری کی گئی اور ہر ایک عربی نسل کی علی قدر مراتب تنخواہ مقرر ہوئی، یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کے لیے وظائف کا قاعدہ جاری کیا گیا، [161]گویا عرب کا ہر ایک بچہ اپنے یوم ولادت ہی سے اسلامی فوج کا ایک سپاہی تصور کر لیا جاتا تھا، ہر سپاہی کو تنخواہ کے علاوہ کھانا اور کپڑا بھی ملتا تھا، تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ ہر قبیلہ میں ایک عریف ہوتا تھا، اسی طرح ہر دس سپاہی پر ایک افسر ہوتا تھا جن کو امرا الاعشار کہتے ہیں، تنخواہیں عریف کو دی جاتی تھیں وہ امرائے عشار کی معرفت فوج میں تقسیم کرتا تھا، ایک ایک عریف کے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی، کوفہ اور بصرہ میں سو عریف تھے جن کے ذریعہ سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی، حسن خدمت اور کار گزاری کے لحاظ سے سپاہیوں اور افسروں کی تنخواہوں میں وقتا فوقتا اضافہ بھی ہوتا رہتا تھا؛چنانچہ زہرہ، عصمہ اور ضبی وغیرہ نے قادسیہ میں غیر معمولی جانبازی کا اظہا رکیا تھا، اس صلہ میں ان کی تنخواہیں دو دو ہزار سے اڑھائی اڑھائی ہزار کردی گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوج کی تربیت کا بہت خیال تھا، انھوں نے نہایت تاکیدی احکام جاری کیے تھے کہ ممالک مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرنے پائے، کیونکہ اس سے ان کے سپاہیانہ جوہر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، سرد اور گرم ممالک پر حملہ کرتے وقت موسم کا بھی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ فوج کی صحت اور تندرستی کو نقصان نہ پہنچے۔ قواعد کے متعلق چار چیزوں کے سیکھنے کی سخت تاکید تھی، تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا اور ننگے پاؤں چلنا، ہر چار مہینے کے بعد سپاہیوں کو وطن جاکر اپنے اہل و عیال سے ملنے کے لیے رخصت دی جاتی تھی، [162]جفا کشی کے خیال سے حکم تھا کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ سے بچیں حماموں میں نہ نہائیں۔ موسم بہار میں فوجیں عموما سرسبز و شاداب مقامات میں بھیج دی جاتی تھیں، بارکوں اور چھاؤنیوں کے بنانے میں آب و ہوا کی خوبی کا لحاظ رکھا جاتا تھا، کوچ کی حالت میں حکم تھا کہ فوج جمعہ کے دن مقام کرے اور ایک شب وروز قیام رکھے کہ لوگ دم لیں، غرض عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیرہ سو برس پیشتر فوجی تربیت کے لیے اعلیٰ اصول وضع کر دیے تھے کہ آج بھی اصولی حیثیت سے اس پر کچھ اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ حسب ذیل مقامات کو فوجی مرکز قرار دیا تھا، مدینہ، کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، دمشق، حمص، اردن، فلسطین، ان مقام کے علاوہ تمام اضلاع میں فوجی بارکیں اور چھاؤنیاں تھیں،جہاں تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔ فوج میں حسب ذیل عہدے دار لازمی طور پر رہتے تھے، خزانچی، محاسب، مترجم، طبیب، جراح اور جاسوس جو غنیم کی نقل وحرکت کی خبریں بہم پہنچایا کرتے تھے، یہ خدمت زیادہ تر ذمیوں سے لی جاتی تھی چنانچہ قیساریہ کے محاصرہ میں یوسف نامی یہودی نے جاسوسی کی خدمت انجام دی تھی،[163]اسی طرح عراق میں بعض وفادار مجوسی اپنی خوشی سے اس خدمت کو انجام دیتے تھے، تاریخ طبری میں ہے: وکانت تکون لعمرالعیون فی کل جیش "ہر فوج میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاسوس رہتے تھے۔" آلات جنگ میں تیغ وسنان کے علاوہ قلعہ شکنی کے لیے منجنیق اور دبابہ بھی ساتھ رہتا تھا چنانچہ دمشق کے محاصروں میں منجنیقوں کا استعمال ہواتھا۔ [164] فوج حسب ذیل شعبوں میں منقسم تھی، مقدمہ، قلب، میمنہ، میسرہ، ساقہ، طلیعہ، سفرمینا، روایعنی عقبی گارد، شترسوار، سوار، پیادہ، تیر انداز گھوڑوں کی پرورش و پرداخت کا بھی نہایت اہتمام تھا، ہر مرکز میں چار ہزار گھوڑے ہر وقت سازو سامان سے لیس رہتے تھے، موسم بہار میں تمام گھوڑے سر سبز و شاداب مقامات پر بھیج دیے جاتے تھے، خود مدینہ کے قریب ایک چراگاہ تیار کرائی، اوراپنے ایک غلام کو اس کی حفاظت اور نگرانی کے لیے مقرر کیا تھا، گھوڑوں کی رانوں پر داغ سے"جیش فی سبیل اللہ"نقش کیا جاتا تھا۔ عرب کی تلوار اپنی فتوحات میں کبھی غیروں کی ممنون احسان نہیں ہوئی ؛لیکن حریف اقوام کو خود ان ہی کے ہم قوموں سے لڑانا فن جنگ کا ایک بڑا اصول ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو نہایت خوبی سے برتا، صدہا عجمی، یونانی اور رومی بہادروں نے اسلامی فوج میں داخل ہوکر مسلمانوں کے دوش بدوش نہایت وفاداری کے ساتھ خود اپنی قوموں سے جنگ کی، قادسیہ کے معرکہ میں دوران میں جنگ ہی میں ایرانیوں کی چار ہزار افواج حلقہ اسلام میں آگئی اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اسلامی فوج میں شامل کر لیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کر دیں، یرموک کے معرکہ میں رومیوں کے لشکر کا مشہور سپاہی عین حالت جنگ میں مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کے دوش بدوش لڑکر شہید ہوا۔[165] .[166]
مذہبی خدمات کے سلسلہ میں سب سے بڑا کام اشاعت اسلام ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس میں بہت انہماک تھا ؛لیکن تلوار کے زور سے نہیں؛بلکہ اخلاق کی قوت سے انھوں نے اپنے غلام کو اسلام کی دعوت دی، اس نے باوجود ترغیب وہدایت کے انکار کیا تو فرمایا لا اکراہ فی الدین [167]یعنی مذہب میں جبر نہیں، حکام کو ہدایت تھی کہ جنگ سے پہلے لوگوں کے سامنے محاسن اسلام پیش کر کے ان کو شریعت عزا کی دعوت دی جائے، اس کے علاوہ انھوں نے تمام مسلمانوں کو اپنی تربیت اور ارشاد سے اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ بنادیا تھا، وہ جس طرف گذر جاتے تھے لوگ ان کے اخلاقی تفوق کو دیکھ کر خود بخود اسلام کے گرویدہ ہو جاتے تھے، رومی سفیر اسلامی کیمپ میں آیا تو سالار فوج کی سادگی اور بے تکلفی دیکھ کر خود بخود اس کا دل اسلام کی طرف کھینچ گیا اور وہ مسلمان ہو گیا، مصر کا ایک رئیس مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گرویدہ ہو گیا اور دوہزار کی جمعیت کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ [168] وہ عربی قبائل جو عراق وشام میں آباد ہو گئے تھے، نسبتا آسانی کے ساتھ اسلام کی جانب مائل کیے جا سکتے تھے، عمر کو ان لوگوں میں تبلیغ کا خاص خیال تھا چنانچہ اکثر قبائل معمولی کوشش سے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، مسلمانوں کے فتوحات کی بوالعجبی نے بھی بہت سے لوگوں کو اسلام کی صداقت کا یقین دلادیا؛چنانچہ معرکہ قادسیہ کے بعد دیلیم کی چارہزار عجمی فوج نے خوشی سے اسلام قبول کر لیا، [169]، اسی طرح فتح جلولا کے بعد بہت سے رؤسا برضاورغبت مسلمان ہو گئے جن میں بعض کے نام یہ ہیں: جمیل بن بصہیری، بسطام بن نرسی، رفیل، فیروزان، (ایضا فتح جلولا) عراق کی طرح شام ومصر میں بھی کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے؛چنانچہ شہر فسطاط میں ایک بڑا محلہ نو مسلموں کا تھا غرض عمر کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا، اس سے بھی بڑ ھ کر یہ کہ آپ دین حنیف کی آئندہ کے لیے راستہ صاف کرگئے۔ اشاعت اسلام کے بعد سب سے بڑا کام خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین اور شعار اسلامی کی ترویج تھی، اس کے متعلق عمر کے مساعی کا سلسلہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کے عہد سے شروع ہوتا ہے، قرآن مجید جو اساس اسلام ہے عمر بن خطاب ہی کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں مرتب کیا گیا تھا، اس کے بعد انھوں نے اپنے عہد میں اس کے درس وتدریس کا رواج دیا، معلمین اور حفاظ اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، [170]حضرت عبادہ بن الصامت ؓ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوالدردا کو جو حفاظ قرآن اور صحابۂ کبار میں سے تھے، قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے ملک شام میں روانہ کیا، [171]قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے تاکیدی احکام روانہ کیے ابن الانباری کی روایت کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ، غرض عمر کی مساعی جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہو گئی تھی کہ ناظرہ خوانوں کا تو شمار ہی نہیں، حافظوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔ [172] اصول اسلام میں قرآن کے بعد حدیث کا رتبہ ہے، عمر نے اس کے متعلق جو خدمات انجام دیں ان کی تفصیل یہ ہے: احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرا کے حکام کے پاس روانہ کیا کہ عام طور پر اس کی اشاعت ہو، مشاہیر صحابہ کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لیے بھیجا؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ روانہ کیا، عبد اللہ بن مغفل، عمران بن حسین اور معقل بن یسار ؓ کو بصرہ بھیجا، حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور حضرت ابوالدردا ؓ کو شام روانہ کیا، [173]اگرچہ محدثین کے نزدیک تمام صحابہ عدول ہیں؛لیکن عمر اس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں، ان سے کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہو سکتا ؛چنانچہ انھوں نے روایت قبول کرنے میں نہایت چھان بین اور احتیاط سے کام لیا، ایک دفعہ آپ کسی کام میں مشغول تھے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ آئے اور تین دفعہ سلام کرکے واپس چلے گئے، عمر بن خطاب کام سے فارغ ہوئے تو ابو موسیٰ ؓ کو بلا کر دریافت کیا کہ تم واپس کیوں چلے گئے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین دفعہ اجازت مانگو اگر اس پر بھی نہ ملے تو واپس چلے جاؤ، عمر بن خطاب نے فرمایا، اس روایت کا ثبوت دو ورنہ میں تم کو سزا دو گا، [174] حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے حضرت سعید ؓ کو شہادت میں پیش کیا، اسی طرح سقط یعنی کسی عورت کا حمل ضائع کردینے کے مسئلہ میں مغیرہ ؓ نے حدیث روایت کی تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت طلب کی جب محمد بن مسلمہ ؓ نے تصدیق کی تو انھوں نے تسلیم کیا، [175]حضرت عباس ؓ کے مقدمہ میں ایک حدیث پیش کی گئی تو عمر نے تائید ثبوت طلب کیا، جب لوگوں نے تصدیق کی تو فرمایا مجھ کو تم سے بدگمانی نہ تھی ؛بلکہ اپنا اطمینان مقصود تھا۔ [176] عمر لوگوں کو کثرت روایت سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے؛چنانچہ جب قرظہ بن کعب کو عراق کی طرف روانہ کیا تو خود دور تک ساتھ گئے اور سمجھا یا کہ دیکھو تم ایسے ملک میں جاتے ہو جہاں قرآن کی آواز گونچ رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ ان کی توجہ کو قرآن سے ہٹاکر احادیث کی طرف مبذول کردو، [177] حضرت ابوہریرہ ؓ بڑے حافظ حدیث تھے اس لیے وہ روایتیں بھی کثرت سے بیان کرتے تھے، ایک دفعہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ عمر کے عہد میں اس طرح روایت کرتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ اگر اس زمانہ میں ایسا کرتا تو درے کھاتا، [178] حدیث کے بعد فقہ کا درجہ ہے، عمر بن خطاب خود بالمُشافہ اپنے خطبوں اور تقریروں میں مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور دور دراز ممالک کے حکام فقہی مسائل لکھ کر بھیجتے تھے، مختلف فیہ مسائل کو صحابہ ؓ کے مجمع میں پیش کرا کے طے کراتے تھے، اضلاع میں عمال اور افسروں کی تقرری میں عالم اور فقیہ ہونے کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، تمام ممالک محروسہ میں فقہا مقرر کیے تھے جو احکام مذہبی کی تعلیم دیتے تھے اور حسب بیان ابن جوزی عمر بن خطاب نے فقہا کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کی تھیں، اس سے پہلے فقہا اور معلمین کو تنخواہ دینے کا رواج نہ تھا، غرض یہ کہ فاروق اعظم ؓ کے عہد میں مذہبی تعلیم کا ایک مرتب اور منظم سلسلہ قائم ہو گیا تھا جس کی تفصیل کے لیے اس اجمال میں گنجائش نہیں۔ عملی انتظامات کی طرف بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بڑی توجہ کی، تمام ممالک محروسہ میں کثرت سے مسجدیں تعمیر کرائیں، امام اور مؤذن مقرر کیے، حرم محترم کی عمارت ناکافی تھی،17ھ میں اس کو وسیع کیا، غلاف کعبہ کے لیے نطع کی بجائے قباطی کا رواج دیا جو نہایت عمدہ کپڑا ہوتا ہے اور مصر میں بنایاجاتا ہے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہایت وسعت دی، پہلے اس کا طول سو گز تھا انھوں نے بڑھا کر 140 گز کر دیا، عرض میں بھی 20 گز کا اضافہ ہوا، مسجد کے ساتھ ایک گوشہ چبوترا بنوا دیا جس کو بات چیت کرنا یا شعر پڑھنا ہو تو یہاں چلا آئے، مسجدوں میں روشنی اور فرش کا انتظام بھی عمر کے عہد سے ہی ہوا، حجاج کی راحت و آسائش کا بھی پورا انتظام تھا، ہر سال خود حج کے لیے جاتے تھے اور خبر گیری کی خدمت انجام دیتے تھے۔ [179]
ملکی، فوجی اور مذہبی انتظامات کا ایک اجمالی خاکہ درج کرنے کے بعد اب ہم ان متفرق انتظامات کا تذکرہ کرتے ہیں جوکسی خاص عنوان کے تحت نہیں آتے۔ 18ھ میں عرب میں قحط پڑا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس مصیبت کو کم کرنے میں جو سرگرمی ظاہر کی وہ ہمیشہ یادگار زمانہ رہے گی، بیت المال کا تمام نقد وجنس صرف کر دیا، تمام صوبوں سے غلہ منگوایا اور انتظام کے ساتھ قحط زدوں میں تقسیم کیا[180]لا وارث بچوں کو دودھ پلانے اور پرورش پرداخت کا انتظام کیا، [181] غرباء و مساکین کے روز ینے مقرر کیے اور منبر پر اس کا اعلان فرمایا: انی فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شہر مادی حنطۃ و قسطی خل۔ میں نے ہر مسلمان کے لیے فی ماہ دو مد گیہوں اور دو قسط سرکہ مقرر کیا۔" اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لیے بھی؟ فرمایا ہاں غلام کے لیے بھی، [182]لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عمر اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح مفت خوری سے لوگ کاہل ہو جائیں گے، درحقیقت انھوں نے ان ہی لوگوں کے روزینے مقرر کیے تھے جو یا تو فوجی خدمت کے لائق تھے یا ضعف کے باعث کسب معاش سے معذور تھے، ملکی حالات سے واقفیت کے لیے ملک کے ہر حصے میں پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کیے تھے جن کے ذریعہ سے ہر جزئی واقع کی اطلاع ہوجاتی تھی، مورّخ طبری لکھتے ہیں: وکان عمر لایخفی علیہ شی فی علمہ کتب الیہ من العراق یخرج من خرج ومن الشام بجائزۃ من اجیزبھا "عمر بن خطاب پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی، عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اورشام میں جن لوگوں کو انعام دیے گئے سب ہی ان کو لکھا جاتا تھا۔" محکمہ خبر رسانی کی سرگرمی کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ نعمان بن عدی حاکم میسان نے عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر اپنی بی بی کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر بھی تھا۔ لعل امیر المومنین یسوءہ تنادمنابالجوسق المتھدم غالبا امیر المومنین برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندان صحبت رکھتے ہیں اس محکمہ کو میاں بیوی کے راز ونیاز کی بھی خبر ہو گئی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نعمان کو معزول کرکے لکھا کہ"ہاں مجھ کو تمھاری یہ حرکت ناگوار ہوئی" [183][184] .[185]
خلافت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل و انصاف ہے، ان کے عہد میں کبھی سرمو بھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا، شاہ و گدا، شریف و رزیل، عزیزو یگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا، ایک دفعہ عمرو بن العاص ؓ کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، عمرو بن العاص ؓ بھی موجود تھے، دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشا دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا[186] جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا، اس نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے حضرت عمر بن خطاب سے شکایت کی تو انھوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور مرتد ہوکر قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ عمر نے لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں تو اسامہ بن زید ؓ کی تنخواہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کے فرزند تھے، اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی، عبد اللہ نے عذر کیا کہ واللہ اسامہ بن زید ؓ کسی بات میں ہم سے فائق نہیں ہیں، حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ ؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ [187] فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان، یہودی، عیسائی سب کے لیے یکساں تھا، قبیلۂ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا،حضرت عمر بن خطاب نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔ عمر نے ایک ضعیف شخص کو گداگری کرتے دیکھا، پوچھا"تو بھیک مانگتا ہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے، حالانکہ میں بالکل مفلس ہوں"، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقد دے کر مہتمم بیت المال کو لکھا کہ اس قسم کے ذمی مساکین کے لیے بھی وظیفہ مقرر کر دیا جائے، واللہ! یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کی خبر گیری نہ کریں"۔ [188] عربسوس کے عیسائیوں کو ان کی متواتر بغاوتوں کے باعث جلاوطن کیا گیا، مگر اس طرح کہ ان کی املاک کی دو چند قیمت دی گئی، [189] نجران کے عیسائیوں کو جلاوطن کیا گیا تو ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا گیا۔ [190][191][192][193][194][195]
اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہ تھا؛چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی زمانہ میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا، [196] حضرت عمر بن خطاب کے فرامین خطوط توقیعات اور خطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، ان سے ان کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر کا اندازہ ہو سکتا ہے، بیعت خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں: اللہم انی غلیظ فلینی، اللہم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل انف وقد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ " اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر، میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے، ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے ؛لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔" قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہو سکتا ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے نام لکھا گیا تھا، اس کے چند فقرے یہ ہیں: اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم "اما بعد! مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھو، ایسا کروگے تو تمھارے بہت سے کام جمع ہو جائیں گے، پھر پریشان ہو جاؤگے کہ کس کو کریں اور کس کو چھوڑیں، اس طرح کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔" شاعری کا خاص ذوق تھا اور شعرائے عرب کے کلام پر تنقیدی نگاہ رکھتے تھے، مشاہیر میں سے زہیر کے کلام کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے، کبھی کبھی خود بھی شعر کہتے تھے، ( ابوعلی الحسن بن رشیق نے کتاب العمدہ میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں) لیکن اس کی طرف زیادہ شغل نہ تھا۔ فصاحت وبلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، علم الانساب میں بھی ید طولی ٰ حاصل تھا، یہ علم کئی پشتوں سے ان کے خاندان میں چلا آتا تھا، ان کے والد خطاب مشہور نساب تھے، جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے تھے، [197]معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان بھی انھوں نے سیکھ لی تھی، مسند دارمی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ توریت کا نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور پڑھنا شروع کیا، وہ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا ہے، [198] اس سے قیاس ہوتا ہے کہ عبرانی زبان سے اس قدر واقف ہو گئے تھے کہ توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔ عمر فطرۃ ذہین، طباع اور صائب الرائے تھے، اصابت رائے کی اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں، اذان کا طریقہ ان کی رائے کے موافق ہوا، اسیران بدر کے متعلق جو رائے انھوں نے دی وحی الہی نے اسی کی تائید کی، شراب کی حرمت، ازواج مطہرات ؓ کے پردہ اور مقام ابراہیم کو مصلےٰ بنانے کے متعلق عمر نے نزول وحی سے پہلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو رائے دی تھی۔ [199] آپ کو بارگاہ نبوت میں جو خاص تقرب حاصل تھا، اس کے لحاظ سے قدرۃ ان کو شرعی احکام اور عقائد سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا، طبیعت نکتہ رس واقع ہوئی تھی اس لیے آئندہ نسلوں کے لیے اجتہاد اور استنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کردی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شرعی مسائل پر غور و فکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی مسئلہ خلاف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے، سفر میں قصر کا حکم دے دیا گیا تھا؛لیکن جب راستے مامون ہو گئے تو عمر بن خطاب نے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ خدا کا انعام ہے۔"مسائل دریافت کرنے میں مطلقاً پس وپیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ ہوجاتی ایک ہی مسئلہ کو باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے، کلالہ کے مسئلہ کو جو نہایت دقیق اورمختلف فیہ مسئلہ ہے، بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سورۂ نساء کی آخری آیت تمھارے لیے کافی ہے۔ [200] نہایت غوروتوجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، ہر ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے، ایک دن صحابہ ؓ کے مجمع میں اس آیت کے معنی پوچھے اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ لوگوں نے کہا واللہ اعلم، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اس میں ایک کام کرنے والے کی تمثیل ہے، چونکہ جواب ناتمام تھا،حضرت عمر بن خطاب نے اس پر قناعت نہ کی ؛لیکن عبد اللہ بن عباس ؓ اس سے زیادہ نہ بتا سکے عمر نے فرمایا: یہ اس آدمی کی مثال ہے جس کو خدا نے دولت و نعمت دی کہ خدا کی بندگی بجا لاے مگراس نے نافرمانی کی، تو اس کے اچھے اعمال بھی برباد کردیے جائیں گے۔ [201] قرآن مجید سے استدلال میں بڑی مہارت رکھتے تھے، عراق کی فتح کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ ممالک مفتوحہ مجاہدین کی ملکیت اور وہاں کے باشندے ان کے غلام ہیں عمر کا خیال تھا کہ مقام مفتوحہ کسی شخص یا ایک بہت سے مخصوص اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں ؛بلکہ وقف عام ہیں اور استدلال میں یہ آیت پیش کی، وَمَا اَفَاء اللہُ علی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرْیٰ بالآخر سب نے اس کی تائید کی اور اسی پر فیصلہ ہوا، عمر کی مرفوع روایات کی تعداد سترسے زیادہ نہیں ہے؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اس قدر احادیث سے واقف تھے، درحقیقت انھوں نے اپنے عہد خلافت میں جس قدر احکام صادر فرمائے ہیں وہ سب احادیث ہی کے ماخوذ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا ہے اور نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کو منسوب کرنے میں نہایت محتاط تھے جب تک کے ہر لفظ پر یقین نہ ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمائی ہے اس وقت تک ہرگز ہر گز زبان سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ نہیں نکالتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی بہت کم احادیث روایت کرتے تھے اور دوسروں کو بھی کثرت روایت سے روکتے تھے، علامہ ذہبی عمرکے حالات میں لکھتے ہیں: وقد کان عمر من دجلہ یخطیٔ الصاحب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرہم ان یقلوالروایۃ من نبیہم [202] اور عمر بن خطاب اس ڈر سے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں غلطی نہ کریں ان کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم روایت کریں محدث کا سب سے بڑا فرض روایات کی تحقیق وتنقید اورجرح و تعدیل ہے، اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اپنے عہد میں روایت کے قبول کرنے میں ثبوت اور شہادت کا لحاظ رکھا؛لیکن عمر کو اس میں بہت زیادہ غلو تھا اور جب تک روایت و درایت دونوں حیثیت سے اس کا ثبوت نہ پہنچتا، قبول نہ کرتے، اس کی مثالیں تفصیل کے ساتھ مذہبی خدمات کے سلسلہ میں مذکور ہو چکی ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ فقہ کا سلسلہ بھی درحقیقت عمرکا ہی ساختہ پرداختہ ہے ان سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے، استنباط احکام اورتفریع مسائل کے لیے بھی انھوں نے ایک شاہراہ قائم کردی تھی، مختلف فیہ مسائل کے طے کرنے کے لیے اجماع صحابہ جس کثرت سے عمرکے عہد میں ہوا پھر نہیں ہوا۔[203] [204]
حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا حقیقی مقصد دنیا کو برگزیدہ اور پسندیدہ اخلاق کی تعلیم دینا تھا، جیسا کہ خود ارشاد فرمایا بعثت لا تم مکارم الاخلاق، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو براہ راست اس سر چشمہ اخلاق سے سیراب ہونے کا موقع ملا تھا اس لیے اس مقدس جماعت کا ہر فرد اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھا؛لیکن عمر کو بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کو زیادہ حصہ ملا، وہ محاسن و محامد کی مجسم تصویر تھے ان کے آئینہ اخلاق میں خلوص، انقطاع الی اللہ، لذایذ دنیا سے اجتناب حفظ لسان حق پرستی، راست گوئی، تواضع اورسادگی کا عکس سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے، یہ اوصاف آپ میں ایسے راسخ تھے کہ جو شخص آپ کی صحبت میں رہتا تھا، وہ بھی کم وبیش متاثر ہوکر اسی قالب میں ڈھل جاتا تھا، مسور بن مخرمہ ؓ کا بیان ہے کہ ہم اس غرض سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے تھے کہ ان سے پرہیز گاری وتقویٰ سیکھیں، عہد فاروقی کے افسروں اور عہدے داروں کے حالات کا بغور مطالعہ کرو، تم کو معلوم ہوگا کہ وہ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔[205] [206]
اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سر چشمہ خشئیت الہی اورخداوند جل وعلا جبروت وعظمت کا غیر متزلزل تیقن ہے، جو دل خشوع وخضوع اورخوف خداوندی سے خالی ہے اس کی حقیقت ایک مضغۂ گوشت سے زیادہ نہیں، عمر بن خطاب خشوع و خضوع کے ساتھ رات بھر نمازیں پڑھتے، صبح ہونے کے قریب گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے:وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا[207]، نمازمیں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا خدا کی عظمت کا جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی، حضرت عبد اللہ بن شداد ؓ کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہتا تھا ؛لیکن حضرت عمرؓ یہ آیت اِنَّمَا اَشکُوْبِثَیْ وَحُزْنِیْ پڑھکر اس زور سے روتے تھے کہ میں رونے کی آواز سنتا تھا۔ [208] حضرت امام حسن ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ عمر نماز پڑھ رہے تھے جب اس پر پہنچے:اِنَّ عَذابَ ربک لواقع مالہ من دافع "یہ تیرے رب کا عذاب یقینی ہوکر رہنے والا ہے اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں"تو بہت متاثر ہوئے اورروتے روتے آنکھیں سوج گئیں، اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر: وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا[209]اس قدرخضوع وخشوع طاری ہواکہ اگر کوئی ان کے حال سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی حالت میں روح پرواز کرجائے گی، رقت قلب اور عبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں سورۂ یوسف شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے وَابیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ، (یوسف)تو زارو قطار رونے لگے، یہاں تک کہ قرآن مجید ختم کرکے رکوع پر مجبور ہو گئے۔ [210] قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کاخیال رہتا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے کہا کہ "تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے، ہجرت کی، جہاد اور نیک اعمال کیے، اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب وثواب برابر ہو جائے، بولے خدا کی قسم نہیں، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، بہت سے نیک کام کیے اور ہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے ہم کو ان اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں، عمر نے فرمایا اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اور نیکی اور بدی برابر ہو جائیں۔ [211] ایک بار راہ میں پڑا ایک تنکا اٹھا لیا اور کہا کاش میں بھی خش و خاشاک ہوتا، کاش! کاش میں پیدا ہی نہ کیا جاتا، کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ [212] غرض عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں وترساں رہتا تھا، آپ فرماتے کہ اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت انسان میں ہی ہوں۔ [213][214]
تہذیب نفس اور اخلاق حمیدہ سے مزین ہونے کے لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے دل میں مبدء خلق عظیم یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالص محبت اوراتباع سنت کا صحیح جذبہ پیداکرے جو دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی اور جو قدم اسوۂ حسنہ کا جادۂ مستقیم سے منحرف ہے وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں ہو سکتا، ایک دفعہ عمر بن خطاب نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں، ارشاد ہوا، عمر میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے،عمر نے کہا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے، ان کو اس راہ میں جان ومال اولاد اور عزیز و اقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا، عاصی بن ہشام جو عمر کا ماموں تھا، معرکۂ بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا، اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات ؓ سے ناراض ہوکر علیحدگی اخیتار کرلی تو حضرت عمرؓ نے یہ خبر سن کر حاضر خدمت ہونا چاہا، جب باربار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملی تو پکار کر کہا"خداکی قسم !میں حفصہ رضی اللہ عنہا کی سفارش کے لیے نہیں آیا ہوں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔ [215] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی محبت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ان کو کسی طرح اس کا یقین نہیں آتا تھا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کر اعلان کرتے تھے جس کی زبان سے نکلے گا کہ میرا محبوب آقا دنیا سے اُٹھ گیا اس کا سر توڑدوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد آجاتا تورقت طاری ہوجاتی اور روتے روتے بیتاب ہو جاتے، ایک دفعہ سفرِ شام کے موقع پر حضرت بلال ؓ نے مسجد اقصیٰ میں اذان دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تازہ ہو گئی اور اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ [216] یہ فطری امر ہے کہ محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوتا ہے اس بناپر جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں عزیز رکھتے تھے، عمر بن خطاب نے اپنے ایام خلافت میں ان کا خاص خیال رکھا؛ چنانچہ جب آپ نے صحابہ ؓ کے وظائف مقرر کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام زید بن حارثہ کے فرزند اسامہ بن زید کی تنخواہ اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی، عبد اللہ نے عذر کیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔[217]اسی طرح جب فتح مدائن کے بعد مال غنیمت آیا تو عمر نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ؓ کو ہزار ہزار درہم مرحمت فرمائے اور اپنے بیٹے عبد اللہ کو صرف پانچ سو دیے، حضرت عبد اللہ ؓ نے عذر کیا اور کہا کہ جب یہ دونوں بچے تھے، اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں پیش پیش رہا ہوں، عمر نہ کہا ہاں ؛لیکن ان کے بزرگوں کا جو رتبہ ہے وہ تیرے باپ دادا کا نہیں ہے۔ ازواج ِمطہرات ؓ کے مرتبہ، ان کے احترام اور آرام و آسائش کا خاص لحاظ رکھتے تھے۔چنانچہ ان کی تنخواہیں سب سے زیادہ بارہ ہزار مقرر کیں، [218] 63ھ میں جب امیر الحجاج بن کر گئے تو ازواج مطہرات کو بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ ہمراہ لے گئے، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کو سواریوں کے ساتھ کر دیا تھا، یہ لوگ آگے پیچھے چلتے تھے اورکسی کو سواریوں کے قریب نہیں آنے دیتے تھے، ازواج مطہرات ؓ منزل پر حضرت عمرؓ کے ساتھ قیام کرتی تھیں اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کسی کو قیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ [219] عمر بن خطاب کے دستور عمل کا سب سے زریں صفحہ اتباع سنت تھا، وہ خور و نوش،لباس وضع، نشست و برخاست غرض ہر چیز میں اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ فقر وفاقہ سے بسر کی تھی، اس لیے عمر نے روم وایران کی شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر وفاقہ کی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ نے کہا کہ اب خدا نے مرفہ الحالی عطا فرمائی ہے اس لیے آپ کو نرم لباس اورنفیس غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے، عمر نے کہا، جان پدر!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت اور تنگ حالی کو بھول گئیں، خداکی قسم !میں اپنے آقا کے نقش قدم پر چلوں گا کہ آخرت کی فراغت اور خوش حالی نصیب ہو، اس کے بعد دیر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت کا تذکرہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت حفصہ ؓ بے تاب ہوکر رونے لگیں۔ [220] ایک دفعہ یزید بن ابی سفیان کے ساتھ شریک طعام ہوئے، معمولی کھانے کے بعد دسترخوان پر جب عمدہ کھانے لائے گئے تو عمر نے ہاتھ کھنچ لیا اور کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں عمر ؓ کی جان ہے اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے ہٹ جاؤ گے تو خدا تم کو جادۂ مستقیم سے منحرف کر دے گا۔ [221] اسلام میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیاہے، حضرت عمرؓ کو اپنے زمانہ خلافت میں جب اس کا موقع پیش آیا تو اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ پتھر کو بوسہ دینے سے کبھی مسلمانوں کو یہ دھوکا ہوکہ اس میں بھی الہی شان ہے حجراسود کو بوسہ تو دیا؛لیکن اس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا: إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔" [222] اسی طرح طواف میں رمل کا حکم مشرکین عرب کے دلوں پر رعب ڈالنے کی مصلحت پر مبنی تھا اس لیے جب خدا نے ان کو ہلاک کر دیا تو عمر بن خطاب کو خیا ل ہوا کہ اب رمل سے کیا فائدہ ہے مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار کو ترک کرنے پر جرأت نہ ہوئی۔ [223] ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجو کام جس طرح کرتے دیکھا اسی طرح وہ بھی عمل پیرا ہوں، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی تھی، عمر نے جب اس طرف سے گزرتے تو اس جگہ دو رکعت نماز ادا کرلیتے تھے، ایک شخص نے پوچھا یہ نماز کیسی ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، یہ کوشش صرف اپنی ذات تک محدود نہ تھی؛بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کا دل اتباع سنت کے جذبہ سے معمور ہو جائے۔ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، عمر نے عین خطبہ کی حالت میں اس کی طرف دیکھا اور کہا آنے کا یہ کیا وقت ہے؟ انھوں نے کہا کہ بازار سے آرہا تھا کہ اذان سنی، وضو کرکے فوراً حاضر ہوا، حضرت عمرؓ نے فرمایا"وضو پر کیوں اکتفا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کو)غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔ [224][225][226]
دنیا طلبی اور حرص تمام بد اخلاقیوں کی بنیاد ہے، عمر بن خطاب کو اس سے طبعی نفرت تھی، یہاں تک کہ خود ان کے ہم مرتبہ معاصرین کو اعتراف تھاکہ وہ زہدوقناعت کے میدان میں سب سے آگے ہیں، حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے: قدامتِ اسلام اور ہجرت کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کو عمر بن الخطاب پر فوقیت حاصل ہے؛لیکن زہد وقناعت میں وہ سب سے بڑے ہوئے ہیں، صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرکو کچھ دینا چاہتے تو وہ عرض کرتے کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند لوگ موجود ہیں جو اس عطیہ کے زیادہ مستحق ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے کہ اس کو لے لو، پھر تمھیں اختیار ہے کہ اپنے پاس رکھویا صدقہ کر دو، انسان کو اگر بے طلب مل جائے تو لے لینا چاہیے۔ [227] عمر بن خطاب کا جسم کبھی نرم اور ملائم کپڑے سے مس نہیں ہوا، بدن پر بارہ بارہ پیوند کا کرتا، سر پر پھٹا ہوا عمامہ اور پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں، اسی حالت میں وہ قیصر وکسریٰ کے سفیروں سے ملتے تھے اور وفود کو باریاب کرتے تھے، مسلمانوں کو شرم آتی تھی، مگر اقلیم زہد کے شہنشاہ کے آگے کون زبان کھولتا، ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ اورحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا، امیر المومنین ! اب خدا نے مرفہ الحال کیا ہے، بادشاہوں کے سفراء اور عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنے طرز معاشرت میں تغیر کرنا چاہیے، عمر بن خطاب نے کہا، افسوس تم دونوں امہات المومنین ہوکر دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو، عائشہؓ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ تمھارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا جس کو دن کو بچھاتے اور رات کو اوڑھتے تھے، حفصہؓ !تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے فرش کو دہرا کرکے بچھادیا تھا، اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر سوتے رہے۔ بلال ؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا حفصۃ ماذا ضعت ثنیت المھاد حتی ذھب بی النوم الی الصباح مالی وللدنیا ومالی شغلتمو نی بین الفراش [228] "حفصہ رضی اللہ عنہا تم نے یہ کیا کیا فرش کو دہرا کر دیا کہ میں صبح تک سوتا رہا مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق ہے؟ اور فرش کی نرمی کی وجہ سے تو نے مجھے غافل کر دیا۔" ایک دفعہ گزی کا کرتا ایک شخص کو دھونے اور پیوند لگانے کے لیے دیا اس نے اس کے ساتھ ایک نرم کپڑے کا کرتا پیش کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو واپس کر دیا اور اپنا کرتا لے کر کہا اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ [229] کپڑا عموماً گرمی میں بنواتے تھے اور پھٹ جاتا تو پیوند لگاتے چلے جاتے، حضرت حفصہ ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کی تو فرمایا، مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ تصرف نہیں کر سکتا، [230]ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے، باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے، معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے اس لیے ان ہی کپڑوں کو دھوکر سوکھنے کو ڈال دیا تھا، خشک ہوئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔ غذا بھی عموماً نہایت سادہ ہوتی تھی ، معمولاً روٹی اور روغن زیتون دسترخوان پر ہوتا تھا،روٹی گیہوں کی ہوتی تھی ؛لیکن آٹا چھانا نہیں جاتا تھا، مہمان یا سفراء آتے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی کیونکہ وہ ایسی سادی اور معمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے،حفص بن ابی العاص ؓ اکثر کھانے کے وقت موجود ہوتے تھے ؛لیکن شریک نہیں ہوتے تھے، ایک دفعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ آپ کے دستر خوان پر ایسی سادہ اور معمولی غذا ہوتی ہے کہ ہم لوگ اپنے لذیذ اور نفیس کھانوں پر اس کو ترجیح نہیں دے سکتے، عمر بن خطاب نے کہا، کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں قیمتی اور لذیذ کھانا کھانے کی مقدرت نہیں رکھتا؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح دنیاوی عیش و عشرت کا دلدادہ ہوتا۔ [231] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر شخص کو اپنی طرح زہد اور سادگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، وقتاً فوقتاً اپنے عمال اور احکام کو ہدایت کرتے رہتے تھے کہ رومیوں اور عجمیوں کی طرز معاشرت نہ اختیار کریں، سفر شام میں جب انھوں نے افسروں کو اس وضع میں دیکھا کہ بدن پر حریر ودیبا کے حلے اورپر تکلف قبائیں ہیں اور وہ اپنی زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قدر غصہ آیا کہ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان پر پھینکے اور فرمایا کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اخیتار کر لیں، اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص جس کو انھوں نے یمن کا عامل مقرر کیا تھا، اس صورت سے ملنے آیا کہ لباس فاخرہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور بالوں میں خوب تیل پڑا ہواتھا، اس وضع کو دیکھ کر عمر نہایت ناراض ہوئے اور وہ کپڑے اتروا کر موٹا جھوٹا کپڑا پہنایا۔ احنف بن قیس ایک جماعت کے ساتھ عراق کی ایک مہم پر روانہ کیے گئے، وہ وہاں سے کامیاب ہوکر تزک و احتشام کے ساتھ واپس آئے تو عمر نے ان کے زرق برق پوشاک دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ لوگ امیر المومنین کو برہم دیکھ کر دربار سے اٹھ آئے اور عرب کی سادہ پوشاک زیب تن کرکے پھر حاضر خدمت ہوئے، عمر اس لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرد اً فرداً ہر ایک سے بغلگیر ہوئے۔ قناعت کا یہ حال تھا کہ اپنے زمانہ خلافت میں چند برس تک مسلمانوں کے مال سے ایک خر مہرہ نہیں لیا حالانکہ فقر و فاقہ سے حالت تباہ تھی، صحابہ ؓ نے ان کی عسرت اور تنگدستی کو دیکھ کر اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک اور لباس کے لیے کافی ہو ؛لیکن شہنشاہ قناعت نے اس شرط پر قبول کیا کہ جب تک ضرورت ہے لوں گا اور جب میری مالی حالت درست ہو جائے گی، کچھ نہ لوں گا، فرمایا کرتے تھے کہ میرا حق مسلمانوں کے مال میں اسی قدر ہے جس قدر یتیم کے مال میں ولی کا ہوتا ہے، [232]میں اپنی ذات پراس سے زیادہ نہیں صرف کرسکتا جس قدر خلافت سے پہلے اپنے مال میں سے صرف کرتا تھا، ایک دفعہ ربیع بن زیاد حارثی نے کہا امیر المومنین ! آپ کو خدا نے جو مرتبہ بخشا ہے اس کے لحاظ سے آپ دنیا میں سب سے زیادہ عیش و نشاط کی زندگی کے مستحق ہیں، عمر نہایت خفا ہوئے اور فرمایا میں قوم کا امین ہوں، امانت میں خیانت کب جائز ہے، [233]ایک دفعہ عتبہ بن فرقد شریک طعام تھے اور ابلا ہوا گوشت اورسوکھی روٹی کے ٹکڑے زبردستی حلق سے فروکر رہے تھے عمر بن خطاب نے کہا اگر تم سے نہیں کھا یا جاتا تو نہ کھاؤ، عتبہ ؓ سے نہ رہا گیا، کہنے لگے امیر المومنین! اگر آپ اپنے کھانے پہننے میں کچھ زیادہ صرف کریں گے تو اس سے مسلمانوں کا مال کم نہ ہو جائے گا، حضرت عمرؓ نے کہا، افسوس تم مجھے دنیاوی عیش و تنعم کی ترغیب دیتے ہو۔ [234] اپنے وسیع کنبہ کے لیے بیت المال سے صرف دو درہم روزانہ لیتے تھے اور تکلیف و عسرت کے ساتھ بسر کرتے تھے، ایک دفعہ حج میں اسی درہم صرف ہو گئے تو اس کا افسوس ہوا اور اسے اسراف تصور کیا، [235]کپڑے پھٹ جاتے تھے ؛لیکن اس خیال سے کہ بیت المال پر بار نہ پڑے اسی میں پیوند پر پیوند لگاتے جاتے تھے، حضرت امام حسن ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ عمرجمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے، میں نے شمار کیا تو ان کے تہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے، [236] انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ ان کے کرتا کے مونڈے پر تہ بہ تہ پیوند لگے ہوئے ہیں، [237]غرض فاروق اعظم ؓ نے زہد و قناعت کا جو نمونہ پیش کیا، دنیا کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی عظمت وشان کے تاج پر زہد و قناعت ہی کا طرہ زیب دیتا ہے۔ خلافت کے بارگراں نے حضرت عمرؓ کو بہت زیادہ محتاط بنادیا تھا کیونکہ اس وقت ان کی معمولی بے احتیاطی اور فرو گذاشت قوم کے لیے صدہا خرابیوں کا باعث ہو سکتی تھی اور مشکوک طبائع ان کی ذرا سی لغزش سے طرح طرح کے افسانے اختراع کرسکتے تھے، عمر نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کبھی ملکی عہدے نہیں دئے کہ اس میں جانبداری پائی جاتی تھی، عمال وحکام کے تحائف واپس کر دیتے اور اس سختی سے چشم نمائی کرتے کہ پھر کسی کو جرأت نہ ہوتی، ایک دفعہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے آپ کی زوجہ عاتکہ بنت زید ؓ کے پاس ہدیۃً ایک نفیس چادر بھیجی، عمر نے دیکھا تو ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلاکر کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں، [238]اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیت المال کا جائزہ لیا تو وہاں صرف ایک درہم موجود تھا، انھوں نے اس خیال سے کہ یہ یہاں کیوں پڑا رہے، اٹھا کر عمر کے بیٹے کو دیدیا، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو انھوں نے درہم واپس لے کر بیت المال میں داخل کر دیا اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلاکر فرمایا کہ افسوس تم کو مدینہ میں آل عمر ؓ کے سوا اور کوئی کمزور نظر نہ آیا، تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ میری گردن پر ہو۔ [239] فتح شام کے بعد قیصر و روم سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط کتابت رہتی تھی، ایک دفعہ ام کلثوم ؓ(عمر کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طور پر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں، اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا، عمر کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمھارا تھا؛لیکن قاصد جولے کر گیا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی سے ادا کیے گئے تھے؛چنانچہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کر دیے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا، اسی طرح ایک بازار میں ایک فربہ اونٹ فروخت ہوتے دیکھا، دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ کے بیٹے عبد اللہ ؓ کا ہے، ان سے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟انھوں نے کہا میں نے اس کو خرید کر سرکاری چرا گاہ مین بھیج دیا تھا اور اب کچھ فربہ ہو گیا ہے تو فروخت کرنا چاہتا ہوں، عمر نے فرمایا چونکہ یہ سرکاری چراگاہ میں فربہ ہوا ہے اس لیے تم صرف راس المال کے مستحق ہو اور بقیہ قیمت لے کر بیت المال میں داخل کردی، [240] خلافت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے، بیت المال سے وظیفہ مقرر ہونے سے بیشتر تک کچھ دنوں زمانہ خلافت میں بھی یہ مشغلہ جاری تھا، ایک دفعہ شام کی طرف مال بھیجنا چاہا، روپیہ کی ضرورت ہوئی تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے قرض طلب کیا، انھوں نے کہا، آپ امیر المومنین ہیں، بیت المال سے اس قدر رقم قرض لے سکتے ہیں، عمر نے فرمایا کہ بیت المال سے نہیں لوں گا، کیونکہ اگر ادا کرنے سے پہلے مرجاؤں گا تو تم لوگ میرے ورثاء سے مطالبہ نہ کروگے اور یہ بار میرے سررہ جائے گا، اس لیے چاہتا ہوں کہ کسی ایسے شخص سے لوں جو میرے متروکہ سے وصول کرنے پر مجبور ہو۔ [241] ایک دفعہ بیمار ہوئے طبیبوں نے شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد موجود تھا؛ لیکن قلب متقی بغیر مسلمانوں کی اجازت کے لینے پر راضی نہ تھا؛چنانچہ اسی حالت میں مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو جمع کر کے اجازت طلب کی، جب لوگوں نے اجازت دے دی تو استعمال فرمایا، [242] بحرین سے مال غنیمت میں مشک وعنبر آیا اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جس کو عطریات کے وزن میں دستگاہ ہو، عمر کی بیوی عاتکہ بنت زید ؓ نے کہا میں اس کام کو کرسکتی ہوں، حضرت عمرؓ نے کہا تم سے یہ کام نہیں لوں گا، کیونکہ مجھے خوف ہے کہ تمھاری انگلیوں میں جو کچھ لگ جائیگا اسے اپنے جسم پر لگاؤ گی اور اس طرح عام مسلمانوں سے زیادہ میرے حصہ میں آجائے گا۔ [243] ابو موسیٰ اشعری ؓ نے عراق سے زیورات بھیجے، اس وقت آپ کی گود میں آپ کی سب سے محبوب یتیم بھتیجی اسماء بنت زید ؓ کھیل رہی تھی، اس نے ایک انگوٹھی ہاتھ میں لے لی، عمر نے بلطائف الحیل اس سے لے کر زیورات میں ملا دی اور لوگوں سے کہا کہ اس لڑکی کو میرے پاس سے لے جاؤ، اسی طرح عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معرکۂ جلولا کے بعد زیورات بھیجے تو آپ کے ایک بیٹے نے ایک انگوٹھی کی درخواست کی، عمر اس سوال پر خفا ہوئے اور کچھ نہ دیا۔ [244] ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ یہ سن کر کہ مال غنیمت آیا ہوا ہے، عمر کے پاس آئیں اورکہا امیر المومنین! اس میں میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے، میں ذوالقربی میں سے ہوں، عمر بن خطاب نے کہانور نظر تیرا حق میرے خاص مال میں ہے، یہ تو غنیمت کا مال ہے، افسوس ہے کہ تونے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا، وہ بیچاری خفیف ہوکر چلی گئیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تمنا تھی کہ اپنے محبوب آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہوں، حضرت عائشہ ؓ نے اجازت دیدی تھی، مگر خیال یہ تھا کہ شاید خلافت کے رعب نے انھیں مجبور کیاہو، اس لیے اپنے صاحبزادے کو وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اجازت لی جائے، اگر اذن ہو توخیر ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا، اس طرح وفات کے بعد بھی فاروق اعظم ؓ نے ورع وتقویٰ کا بدیع المثال نمونہ پیش کیا، ؓ۔[245] ،[245] .[246] .[247]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و داب کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض نام سے قیصر و کسریٰ کے ایوان حکومت میں لرزہ پیدا ہو جاتا تھا، دوسری طرف تواضع اور خاکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھرتے تھے، مجاہدین کی بیویوں کا بازار سے سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے، پھر اس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشہ میں فرش خاک پر لیٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے ایام خلافت میں سر پر چادر ڈال کر باہر نکلے، ایک غلام کو گدھے پر سوار جاتے دیکھا چونکہ تھک گئے تھے اس لیے اپنے ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی ، اس کے لیے اس سے زیادہ کیا شرف ہو سکتا ہے، فوراً اتر پڑا اور سواری کے لیے اپنا گدھا پیش کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اپنی وجہ سے تمھیں تکلیف نہیں دے سکتا تم جس طرح سوار تھے سوار رہو میں تمھارے پیچھے بیٹھ لوں گا، غرض اسی حالت میں مدینہ کی گلیوں میں داخل ہوئے، لوگ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو ایک غلام کے پیچھے دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ [248] آپ کو بارہا سفر کا اتفاق ہوا ؛لیکن خیمہ و خرگاہ کبھی ساتھ نہیں رہا، درخت کا سایہ شامیانہ اور فرش خاک بستر تھا، سفر شام کے موقع پر مسلمانوں نے اس خیال سے کہ عیسائی امیر المومنین کے معمولی لباس اور بے سرو سامانی کو دیکھ کر اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ سواری کے لیے ترکی گھوڑا اور پہننے کے لیے قیمتی لباس پیش کیا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدانے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی بس ہے۔ ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے، ایک شخص نے کہا امیر المومنین ! عمر بن خطاب یہ کام کسی غلام سے لیا ہوتا ؟ بولے مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ ان کا غلام بھی ہے۔ [249][250]
عمر کی تند مزاجی کے افسانے نہایت کثرت سے مشہور ہیں اور ایک حد تک وہ صحیح بھی ہیں؛لیکن یہ قیاس صحیح نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو لطف اور رحمدلی سے ناآشنا رکھا تھا، اصل یہ ہے کہ ان کا غیظ و غضب بھی خدا کے لیے تھا اور لطف و رحم بھی اسی کے لیے، جیسا کہ ایک موقع پر خود ارشاد فرمایا تھا: واللہ لقد لان قلبي في اللہ حتى لهو ألين من الزبد ولقد اشتد قلبي في اللہ حتى لهو أشد من الحجر۔"واللہ!میرادل خدا کے بارے میں نرم ہوتا ہے تو جھاگ سے بھی نرم ہوجاتا ہے اور سخت ہوتا ہے تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔" [251] مثال کے طور پر چند واقعات درج ذیل ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ حضرت عمر بن خطاب کا غصہ اور لطف و رحم محض خدا کے لیے تھا، ذاتیات کو مطلقاً دخل نہ تھا۔ غزوۂ بدر میں کافروں نے بنو ہاشم کو مسلمانوں سے لڑنے پر مجبور کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عباس ؓ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا، ابو حذیفہ ؓ کی زبان سے نکل گیا کہ بنوہاشم میں کیا خصوصیت ہے؟ اگر عباس ؓ سے مقابلہ ہو گیا تو ضرور مزہ چکھاؤں گا، عمر یہ گستاخی دیکھ کر آپے سے باہر ہو گئے اور کہا اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر اُڑا دوں۔ [252] حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، یہ خود ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے؛لیکن ان کے اہل و عیال مکہ میں تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا قصد فرمایا تو حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے خیال سے اپنے بعض مشرک دوستوں کو اس کی اطلاع دیدی، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو برا فروختہ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کر دوں۔ [253] اسی طرح خویصرہ نے ایک دفعہ گستاخانہ کہا"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)عدل کر"عمر غصے سے بے تاب ہو گئے اور اس کو قتل کردینا چاہا؛لیکن رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔ غرض اسی قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے اگر تم مزاج کی سختی کا اندازہ کرسکتے ہو تو دوسری طرف للہیت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا۔ ایام خلافت میں جو سختیاں ظاہو ہوئیں وہ اصولِ سیاست کے لحاظ سے نہایت ضروری تھیں، حضرت خالد بن ولید ؓ کی معزولی، حکام سے سختی کے ساتھ بازپرس، مذہبی پابندی کے لیے تنبیہ وتعزیر اور اسی قسم کے تمام امور عمر کے فرائض منصبی میں داخل تھے، اس لیے انھوں نے جو کچھ کیا وہ منصب خلافت کی حیثیت سے ان پر واجب تھا، ورنہ ان کا دل لطف ومحبت کے شریفانہ جذبات سے خالی نہ تھا ؛بلکہ وہ جس قدر مذہبی اور انتظامی معاملات میں سختی اور تشدد کرتے تھے، ہمدردی کے موقعوں پر اس سے زیادہ لطف ورحم کا برتاؤ کرتے تھے، خدا کی ذی عقل مخلوق میں غلاموں سے زیادہ قابل رحم حالت کسی کی نہیں ہوگی، حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ تمام عربی غلاموں کو آزاد کرا دیا، [254] اوریہ قانون بنادیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے، کنزالعمال میں بہ تصریح ان کا قول مذکور ہے کہ "لا تسترق عربی" یعنی عربی غلام نہیں ہو سکتے، عام غلاموں کا آزاد کرانا بہت مشکل تھا تاہم ان کے حق میں بہت سی مراعات قائم کیں، مجاہدین کی تنخواہیں مقرر ہوئیں تو آقا کے ساتھ اسی قدر ان کے غلام کی تنخواہ مقرر ہوئی، [255]اکثر غلاموں کو بلاکر ساتھ کھانا کھلاتے، ایک شخص نے دعوت کی تو محض اس وجہ سے برا فروختہ ہوکر آٹھ گئے کہ اس نے دسترخوان پر اپنے غلام کو نہیں بٹھایا تھا، آپ اکثر حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ جو لوگ غلاموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا عار سمجھتے ہیں، خدا ان پر لعنت بھیجتا ہے غلاموں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے جدا ہو جاتے تھے، عمر نے حکم دیا کہ کوئی غلام اپنے اعزہ سے جدانہ کیاجائے۔ [256] 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا اس وقت عمر بن خطاب کی بے قراری قابل دید تھی، دور دراز ممالک سے غلہ منگواکر تقسیم کیا، گوشت گھی اور دوسری مرغوب غذائیں ترک کر دیں، اپنے لڑکے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھ کر خفا ہوئے کہ قوم فاقہ مست ہے اور تو تفکہات سے لطف اٹھاتا ہے، غرض !جب تک قحط رہا، عمر نے ہر قسم کے عیش و لطف سے اجتناب رکھا۔ [257] عراق عجم کے معرکہ میں نعمان بن مقرن اوردوسرے بہت سے مسلمان شہید ہوئے، عمر پر ان کی شہادت کا اتنا اثر تھا کہ زار وقطار روتے تھے، مال غنیمت آیا تو غصہ سے واپس کر دیا کہ مجاہدین اور شہداء کے ورثا میں تقسیم کر دیا جائے۔ تم نے انتظامات کے سلسلہ میں پڑھا ہوگا کہ عمرنے اپنے عہد میں ہر جگہ لنگر خانے، مسافر خانے اور یتیم خانے بنوائے تھے، غرباء مساکین اور مجبور و ناچار آدمیوں کے روز ینے مقرر کر دیے تھے، کیا یہ تمام امور لطف وترحم کے دائرہ سے باہر ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ذمیوں اور کافروں کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا سلوک کیا آج مسلمان، مسلمان سے نہیں کرتے، زندگی کے آخری لمحے تک ذمیوں کا خیال رہا، وفات کے وقت وصیت میں ذمیوں کے حقوق پر خاص زوردیا۔ [258][259]
اس لطف و ترحم کی بنا پر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عفو اور درگزر سے بھی کام لیتے تھے، ایک دفعہ حر بن قیس اور عینیہ بن حصن حاضر خدمت ہوئے، عینیہ نے کہا آپ انصاف سے حکومت نہیں کرتے،عمر بن خطاب اس گستاخی پر بہت غضبناک ہوئے، حربن قیس نے کہا امیر المومنین! قرآن مجید میں آیا ہے"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِين [260]" یہ شخص جاہل ہے اس کی بات کاخیال نہ کیجئے، اس گفتگو سے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا۔ [261]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فریضۂ خلافت کی حیثیت سے رفاہ عام اور بنی نوع انسان کی بہبودی کے جو کام کیے اس کی تفصیل گزرچکی ہے، ذاتی حیثیت سے بھی ان کا ہرلمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لیے وقف تھا، ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے پوچھ کر بازار سے سودا سلف لا دیتے تھے، مقام جنگ سے قاصد آتا تو اہل فوج کے خطوط ان کے گھروں میں پہنچا آتے اور جس گھر میں کوئی لکھا پڑھا نہ ہوتا خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو کچھ لکھا تے لکھ دیتے، راتوں کو عموماً گشت کرتے کہ عام آبادی کا حال معلوم ہو، ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرار پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت پکار رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں، پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی، عورت نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، میں نے ان کے بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے،عمر بن خطاب اسی وقت مدینہ آئے اور آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لے چلے، عمر بن خطاب کے غلام اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں، فرمایا، ہاں قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھاؤ گے اور خود ہی سب سامان لے کر عورت کے پاس گئے، اس نے پکانے کا انتظام کیا، حضرت عمرؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ [262] ایک دفعہ کچھ لوگ شہر کے باہر اترے، عمر نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ساتھ لیا اور کہا مجھ کو ان کے متعلق مدینہ منورہ کے چوروں کا ڈر لگا ہوا ہے، چلو ہم دونوں چل کر پہرہ دیں؛چنانچہ دونوں آدمی رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ [263] ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی، دریافت سے معلو ہوا کہ بدو کی عورت دردزہ میں مبتلا ہے، حضرت عمرؓ گھر آئے اور اپنی بیوی ام کلثوم ؓ کو ساتھ لے کر بدو کے خیمہ گئے، تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا، ام کلثوم ؓ نے پکار کر کہا اے امیر المومنین !اپنے دوست کو مبارکباددیجئے، بد وامیر المومنین کا لفظ سن کو چونک پڑا، عمر نے کہا کچھ خیال نہ کرو، کل میرے پاس آنا، بچہ کی تنخواہ مقرر کردوں گا۔ [264] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے بھی مجبور، بیکس اور اپاہج آدمیوں کی خدمت گزاری کے لیے وقت نکال لیتے تھے، مدینہ سے اکثر نابینا اور ضعیف اشخاص فاروق اعظم ؓ کی خدمت گزاری کے ممنون تھے، خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت کون ہے؟ حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز علی الصبح امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے دیکھا، خیال ہوا کہ فاروق اعظم کا کیا کام ؟دریافت سے معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے اور وہ روز اس کی خبر گیری کے لیے جایا کرتے ہیں۔[265]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بہت زیادہ دولتمند نہ تھے، تاہم انھوں نے جو کچھ خدا کی راہ میں صرف کیا وہ ان کی حیثیت سے بہت زیادہ تھا، 9ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کی تو اکثر صحابہ نے ضروریات جنگ کے لیے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، عمر نے اس موقع پر اپنے مال واسباب میں سے آدھا لے کر پیش کیا۔ [266] یہود بنی حارثہ سے آپ کو ایک زمین ملی تھی اس کوخداکی راہ میں وقف کر دیا اسی طریقہ سے خیبر میں ایک بہترین سیر حاصل قطعۂ اراضی ملا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے ایک قطعہ زمین ملا ہے جس سے بہتر میرے پاس کوئی جائداد نہیں ہے، آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وقف کر دو؛چنانچہ حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فقراء اعزہ، مسافر، غلام اور جہاد کے لیے وقف کر دیا۔ [267] ایک دفعہ ایک اعرابی نے نہایت رقت انگیز اشعار سنائے اور دست سوال دراز کیا، حضرت عمرؓ متاثر ہوکر بہت روئے اور کرتا اتار کر دے دیا۔ [268][269]
عہد فاروقی میں شاہ گدا، امیروغریب، مفلس و مالدار سب ایک حال میں نظر آتے تھے، عمال کو تاکیدی حکم تھا کہ کسی طرح کا امتیاز ونمودا تیار نہ کریں، عمر نے خود ذاتی حیثیت سے بھی مساوات اپنا خاص شعار بنایا تھا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی معاشرت نہایت سادہ رکھی تھی، تعظیم وتکریم کو دل سے ناپسند کرتے تھے، ایک دفعہ کسی نے کہا، میں آپ پر قربان فرمایا ایسا نہ کہو، اس سے تمھار نفس ذلیل ہو جائے گا، اسی طرح زید بن ثابت ؓ قاضی مدینہ کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے گئے تو انھوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کردی، عمر نے کہا تم نے اس مقدمہ میں یہ پہلی ناانصافی کی، یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ [270] آپ کا مقولہ تھا کہ میں اگر عیش وتنعم کی زندگی بسر کروں اور لوگ مصیبت و افلاس میں رہیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا، سفر شام میں نفیس و لذیز کھانے پیش کیے گئے تو پوچھا کہ تمام مسلمانوں کو بھی یہ ایوان نعمت میسر ہیں؟ لوگوں نے کہا ہر شخص کے لیے کس طرح ممکن ہے؟فرمایا، تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں۔ خلافت کی حیثیت سے فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاہ وجلال کا سکہ تمام دنیا پر بیٹھا ہوا تھا ؛لیکن مساوات کا یہ عالم تھا کہ قیصروکسریٰ کے سفراء آتے تھے تو انھیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ شاہ کون ہے؟درحقیقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا ایسا درس دیا تھا کہ حاکم ومحکوم اور آقا وغلام کے سارے امتیازات اُٹھ گئے تھے۔[271][272][273]
حضرت عمرؓ بالطبع غیور واقع ہوئے تھے، یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی غیرت کا پاس و لحاظ کرتے تھے، صحیح مسلم، ترمذی اور صحاح کی تقریباً سب کتابوں میں باختلاف الفاظ مروی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں ایک عالیشان طلائی قصر ملاحظہ فرمایا جو فاروق اعظم ؓ کے لیے مخصوص تھا اس کے اندر صرف اس وجہ سے تشریف نہیں لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی غیر ت کا حال معلوم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے اس کا ذکر فرمایا تو وہ روکر کہنے لگے" أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ" (کیا میں آپ کے مقابلہ میں غیرت کروں گا یا رسول اللہ ﷺ۔ [274] آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عرب میں پردہ کا رواج نہ تھا یہاں تک کہ خود ازواج مطہرات ؓ پردہ نہیں کرتی تھیں، حضرت عمرؓ کی غیرت اس بے حجابی کو نہایت ناپسند کرتی تھی، باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ آپ ازواجِ مطہرات ؓ کو پردہ کا حکم دیں اس خواہش کے بعد ہی آیت حجاب نازل ہوئی۔ آپ کی غیرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب آپ کو خبر ملی مسلمان عورتیں حماموں میں عیسائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں تو تحریری حکم جاری کیا کہ مسلمان عورت کا غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ ہونا جائز نہیں۔[275] [276][277]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اولادو ازواج سے محبت تھی، مگر اس قدر نہیں کہ خالق ومخلوق کے تعلقات میں فتنہ ثابت ہو، اہل خاندان سے بھی بہت زیادہ شغف نہ تھا، البتہ زید ؓ سے جو حقیقی بھائی تھے، نہایت الفت رکھتے تھے جب وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے تو نہایت قلق ہوا، فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے، [278]زید نے اسماء نامی ایک لڑکی چھوڑی تھی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔ مکہ سے ہجرت کرکے آئے تو مدینہ سے دومیل کے فاصلہ پر عوالی میں رہتے تھے ؛لیکن خلافت کے بعد خاص مدینہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل سکونت اختیار کی، چونکہ وفات کے وقت وصیت کردی تھی کہ مکان فروخت کرکہ قرض اداکیا جائے، اس لیے یہ مکان فروخت کر دیا گیا اور عرصہ دراز تک دارالقضا ءکے نام سے مشہور رہا۔ حصول معاش کا اعلیٰ ذیعہ تجارت تھا، مدینہ پہنچ کر زراعت بھی شروع کی تھی ؛لیکن خلافت کے بارگراں نے انھیں ذاتی مشاغل سے روک دیا تو ان کی عسرت کو دیکھ کر صحابہ نے اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک اورلباس کے لیے کافی ہو، 15ھ میں لوگوں کے وظیفے مقرر ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پانچ ہزار درہم۔ سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔ (یہ وظیفہ بھی خلافت کی خصوصیت کی وجہ سے نہ تھا ؛بلکہ تمام بدری صحابیوں کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا، [279]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غذا نہایت سادہ تھی یعنی صرف روٹی اور روغن زیتون پر گزارہ تھا کبھی کبھی گوشت دودھ، ترکاری اور سرکہ بھی دسترخوان پر ہوتا تھا ، لباس بھی نہایت معمولی ہوتا تھا بیشتر صرف قمیص پہنتے تھے، اکثر عمامہ باندھتے تھے، جوتی قدیم عربی وضع کی ہوتی تھی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا، رنگ گندم گوں، سر چندلا، رخسارے کم گوشت، ڈاڑھی گھنی اور مونچھیں بڑی بڑی، قد نہایت طویل، یہاں تک کہ سینکڑوں کے مجمع میں کھڑے ہوں تو سب سے سر بلند نظر آئیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے ، ان کے ازواج کی تفصیل یہ ہیں:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں حضرت حفصہ ؓ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات میں داخل تھیں، عمر نے اپنی کنیت بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی، اولاد مذکور کے نام یہ ہیں:
ان سب میں عبد اللہ، عبید اللہ اور عاصم اپنے علم و فضل اور مخصوص اوصاف کے لحاظ سے نہایت مشہور ہیں۔ [280][281] [282][283][284]
وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ بیت المال سے لوگوں میں تقسیم ہونے والے اس حصے سے زیادہ ہے جو دوسروں کو ملا تھا۔ تو عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبد اللّٰہ موجود ہے، عبد اللہ بن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ عبداللّٰہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔[حوالہ درکار] ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن امیر المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گذری۔ بعض کہنے لگے یہ باندی کی ہے۔ آ پ ( عمر) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے :
اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
عمر علی سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد جب علی ابن ابی طالب آئے تو فرمایا میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔
ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[285]
” | اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتا ہے۔[286] | “ |
” | جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔ | “ |
” | میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔[287] | “ |
ٌ* علی سے روایت ہے کہ [أن عمر لیقول القول فینزل القرآن بتصدیقہ [288]}}(بے شک عمر فاروق البتہ جب کوئی کہتے ہیں تو قرآن اُن کی بات کی تصدیق کے لیے نازل ہوتا ہے )* فضل بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا [عمر معنی وأنا مع عمر، والحق بعدی مع عمر حیث کان ][288]}}(میں عمر() کے ساتھ ہوں اور عمر ( ) میرے ساتھ ہیں اور حق میرے بعد عمر () کے ساتھ ہو گا)* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ[ نظر رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- إلى عمر ذات يوم وتبسم، فقال: "يابن الخطاب، أتدري لم تبسمت إليك?" قال: اللہ ورسولہ أعلم، قال: "إن اللہ -عز وجل- نظر إليك بالشفقة والرحمة ليلة عرفة، وجعلك مفتاح الإسلام][289]}} ( رسول اکرم ﷺ نے عمر فاروق کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا اے ابن خطاب !کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کی طرف دیکھ کر تبسم کیوں فرمایا تو عمرفاروق عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالی نے آپ کی طرف عرفہ کی رات رحمت اور شفقت سے نظر فرمائی اور آپ کو مفتاح اسلام (اسلام کی چابی) بنایا )* علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة"( عمر فاروق اہل جنت کے سردار ہیں )جب عمر فاروق تک یہ بات پہنچی تو آپ ایک جماعت کے ساتھ علی کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے سُنا ہے کہ عمر فاروق اہل جنت کے چراغ ہیں علی جواب دیا جی ہاں عمر فاروق نے فرمایا آپ مجھے یہ تحریر لکھ دیں تو علی نے لکھا ("بسم اللہ الرحمن الرحيم: هذا ما ضمن علي بن أبي طالب لعمر بن الخطاب عن رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- عن جبريل عن اللہ تعالى أن عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة" عمر فاروق نے یہ تحریر لے کر اپنی اولاد میں سے ایک بیٹا کو دی اور فرمایا (إذا أنا مت وغسلتموني وكفنتموني فأدرجوا هذہ معي في كفني حتى ألقى بها ربي، فلما أصيب غسل وكفن وأدرجت مع في كفنہ ودفن)جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے غسل وکفن دینا اور پھر یہ تحریر میرے کفن میں ڈال دینا یہاں تک میں اپنے رب سے ملاقات کروں جب آپ وصال فرما گئے تو آپ کو غسل اور کفن دیا گیا اور آپ کے کفن میں وہ تحریر رکھ کر دفن کر دیا گیا۔[290]}}* کثیر ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ میں نے نے ابو جعفر محمد بن علی سے ابو بکر اور عمر فاروق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا[ بُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ نِفَاقٌ، وَبُغْضُ الْأَنْصَارِ نِفَاقٌ۔ يَا كَثِيرُ مَنْ شَكَّ فِيهِمَا، فَقَدْ شَكَّ فِي السُّنَّةِ][291]}}( ابوبکر، عمر فاروق اور انصار کا بغض نفاق ہے۔ اے کثیر جس نے ان دونوں حضرات کے بارے میں شک کیا اس نے سنت میں شک کیا )* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا [اللَّهمّ أعزّ الإسلام بأبي جهل بن هشام أو بعمر بن الخطّاب][292]}}(اے اللہ اسلام کو ابو جہل بن ھشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے)تو عمر فاروق نے صبح کی اور رسول اکرم ﷺ کے پاس آ گئے۔* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَوَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ "[293]}}* علی سے روایت ہے [ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، إِلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ "، ثُمَّ قَالَ لِي: " يَا عَلِيُّ، لا تُخْبِرْهُمَا ][293]}}کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا پس ابو بکر وعمر م تشریف لائے تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے کہا اے علی () یہ دونوں اہل جنت کے اولین وآخرین کے بوڑھی عمر والوں کے سردار ہیں انبیاومرسلین کے علاوہ پھر مجھے کہا کہ اے علی، تم ان دونوں کو اس بات کی خبر نہ دینا۔* ابن عباس سے فرماتے ہیں [أَكْثِرُوا ذِكْرَ عُمَرَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا ذَكَرْتُمُوهُ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ، وَإِنْ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ ذَكَرْتُمُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى][293]}} عمر فاروق کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا کرو جب تم ان کا ذکر کرتے ہوتو تم عدل کا ذکر کرتے ہو اور جب تم عدل کا ذکر کرتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو۔
” | میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ از محمدصلی اللہ علیہ وسلم | “ |
” | اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ بن مسعود[294] | “ |
” | عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و امین ہیں۔ از سیدنا علی | “ |
” | ابوبکر و عمر تاریخِ اسلام کی دوشاہکار شخصیتیں ہیں۔ ایچ جی ویلز | “ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.