From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلام اور یہودیت کے تعلق کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب میں طلوع اسلام اور اس کی اشاعت سے ہوتا ہے۔ دونوں مذاہب میں متعدد مشترک اقدار، ہدایات اور اصول بیان کیے گئے ہیں۔[1] حتیٰ کہ یہودی تاریخ بھی اسلام کی تعلیمات ہی کا حصہ سمجھی جاتی ہے کیونکہ قرآن میں ایسے کئی انبیا کا تذکرہ ہے جن کو مسلمان اپنا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں اور وہ یہود کے بھی پیغمبر ہیں۔ بنی اسرائیل کو اسلام میں ایک مذہبی گروہ مانا جاتا ہے۔ موسی جو یہودیت کے سب سے اہم پیغمبر ہیں، اسلام میں بھی ان کو نبی تسلیم کیا گیا ہے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے۔[2] بلکہ قرآن میں موسی بن عمران کا تذکرہ دیگر انبیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ دفعہ وارد ہوا ہے اور ان کے واقعات بکثرت بیان کیے گئے ہیں۔ بلکہ کسی بھی نبی سے زیادہ موسی کے واقعات مذکور ہیں۔[3] قرآن میں بنی اسرائیل سے متعلق 43 حوالے[4] اور احادیث میں متعدد بار بنی اسرائیل کا ذکر ملتا ہے۔ بعد میں موسی بن میمون اور دیگر ربیوں نے اسلام اور یہودیت پر بحث کی اور ان دونوں مذاہب کے باہمی تعلقات کو پیش کیا۔ یہاں تک کہ موسی بن میمون پر یہ الزام بھی لگا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو چکے ہیں۔[5]
یہودیت | |
عقائد
خدا (اسمائے خدا) • دس احکام • برگزیدہ قوم • انبیا • مسیح • بنیادی عقائد تاریخ یہودیت
خط زمانی • خروج • مملکت کا زمانہ • زمانہ اسیری • مرگ انبوہ • اسرائیل مؤثر شخصیات
مکاتب فکر
راسخ العقیدہ • اصلاحی • رجعت پسند • قرائیم • تجدیدی یہودیت • حریدی • انسان دوست • ہیمانوت ثقافت و معاشرہ
تقویم • لسان القدس • ستارہ داؤدی • یہودی شادی • اشکنازی • سفاردی • مزراحی تہوار
مقامات مقدسہ
|
اسلام اور دیگر مذاہب |
دیگر مذاہب
قبل از اسلام • ہندومت • جین مت • سکھ مت |
چونکہ اسلام اور یہودیت کا منبع ایک ہی شخصیت یعنی پیغمبر ابراہیم کی ذات ہے، اس لیے دونوں مذاہب ابراہیمی مذاہب کا حصہ ہیں اور اسی بنا پر اسلام اور یہودیت میں کئی مشترک پہلو ہیں، چنانچہ اسلام کے بنیادی عقائد، مذہبی نقطہ نظر، فقہ اور عبادات کے بہت سے پہلو یہودیت کے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔[1] اسی یکسانی اور عالم اسلام میں رہنے والے یہودیوں پر مسلمانوں کی تہذیب اور فلسفہ کے اثر کی وجہ سے ان دونوں مذاہب میں بعد کے 1400 برسوں میں ظاہری، نظریاتی اور سیاسی مناسبت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور قابل ذکر مناسبت مخیریق کا اسلام میں پہلا وقف ہے جب انھوں نے اپنا سارا مال اور باغات پیغمبر اسلام کو ہبہ کر دیا تھا جسے پیغمبر نے مدینہ میں تقسیم کر دیا اور مخیریق جنگ احد میں اسلام کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ دوسرا قابل ذکر واقعہ سنہ 1027ء کا ہے جب سموئیل بن نغریلہ طائفہ غرناتا کے اہم مشیر اور فوجی جنرل مقرر ہوتے ہیں۔ [6]
”سام“ نوح کے بیٹے تھے، ان کی اولاد اور ان سے منسوب افراد کو سامی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک برگزیدہ شخص تھے۔ [7] عبرانی قوم اور عرب اقوام کو سامی قوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نسلی نظریہ ہے جو بائبل کے ان ابواب میں مذکور ہے جن میں قدیم عبرانی تہذیب کا بیان ہے۔ جو قوم بھی زبان اور تہذیب کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں ان کو عموما سام کی اولاد مانا جاتا ہے۔ سام نوح کا ایک بیٹا ہے۔
دشمنوں کو سام کے ملعون بھانجے کنعان کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، وہ نوح کا پوتا تھا اور حام کا بیٹا تھا۔ جدید مؤرخین ان خصوصیات کی بنا پر جو باپ سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، جیسے جینز اور عادتیں، یہ مان چکے ہیں کہ عرب اور قدیم عبرانی کی اصل ایک ہی ہے۔ اصل کی اس شناخت میں سب سے زیادہ مطالعہ زبان کا کیا گیا ہے، سامی زبانوں بشمول عربی زبان اور عبرانی زبان کے درمیان یکسانی اور ان دونوں کا دوسری زبانوں کے اختلاف یہ واضح کردیتا ہے کہ دونوں قوموں کی اصل ایک ہے اور وہ ہے سام۔ [8] تقریباً 12ویں صدی قبل مسیح میں یہودیت ایک توحیدی مذہب کے طور پر ابھرا۔ یہودی مذہب کی روایت کے مطابق یہودی تاریخ کی ابتدا خدا اور ابراہیم کے درمیان میں معاہدہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہودیت میں ابراہیم کو ایک عبرانی تصور کیا جاتا ہے۔ تنک میں کہیں کہیں Arvi لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جس کا ترجمہ “عرب” یا “عربی”سے کیا جاتا ہے جو “Arava” میں رہتے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے کچھ عرب ابراہیم کے بڑے بیٹے اسماعیل کی اولاد بتائے جاتے ہیں۔ مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کی ابتدا 7ویں صدی عیسوی میں عرب میں ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق آدم سب سے پہلے مسلمان تھے (بایں طور پر کہ مسلمان اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے حکم کا تابع دار ہوتا ہے)۔ اسلام اور یہودیت کی بہت سی علامات مشترک ہیں ( اور کچھ مسیحیت سے بھی)جیسے عقائد اور پیغمبر، پیغمبروں میں موسی اور ابراہیم تینوں ابراہیمی مذاہب میں یکسا ں طور پر مقدس ہیں۔ [9]
اسلام اور یہودیت ابراہیمی مذاہب ہیں۔ [10] یہودیت ابتدائی ابراہیمی مذاہب میں سے ہے جس کے ماننے والے جزیرہ نما سینا کے وسیع و عریض علاقے میں رہتے تھے۔ اور بعد میں مصر کے وادی تیہ میں بحیثیت عبرانی جا بسے، پھر وہ کنعان کی طرف گئے جس کو انھوں نے فتح کیا اور اس کے باشندے ہو کر رہ گئے۔ کنعان پر ان کی بادشاہت تھی۔ بعد میں یہ سلطنت دو حصوں میں منقسم ہو گئی؛ مملکت اسرائیل اور مملکت یہوداہ۔ یہ واقعہ پہلا ہزارہ قبل مسیح میں اسیری بابل سے پہلے کا ہے۔ ابراہیم کے پہلے صلبی بیٹے اسماعیل عربوں کے باپ تصور کیے جاتے ہیں۔ ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسحاق یہودیوں کے باپ کہے جاتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے اسحاق تمام اسرائلیوں کے دادا ہیں اور اسحاق ابراہیم اور ان کی بانجھ بیوی سارہ کے بیٹے ہیں۔ سارہ کو یہود نبیہ میں سے ایک مانتے ہیں۔ حدیث میں اسلامی پیغمبر محمد بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم کی اولاد میں تقریباً 25 ہزار انبیا اور رسول گذرے ہیں۔ اور ان میں زیادہ تر اسحاق کی اولاد میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں آخری نبی عیسی ابن مریم ہیں۔ اسی لیے ابراہیم کو ابولابنیا بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی تہذیب میں ابراہیم کو Avraham Avinu یا “ہمارے والد ابراہیم” کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک ابراہیم ایک برگزیدہ رسول ہیں جن پر اللہ نے کچھ صحائف بھی نازل کیے جن کا ذکر سورہ الاعلیٰ میں موجود ہے۔ تمام عرب بشمول پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم کی ہی اولاد ہیں۔ ابراہیم دوسرے انبیا جیسے نوح، موسی، عیسی محمد اور بہت سارے انبیا کے ساتھ اسلام کے پیغمبر ہیں۔ قرآن میں ان کا تذکرہ تنک کے تذکرہ سے تقریباً ملتا جلتا ہے۔ [11]
یہودیت اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی موسیٰ کو ایک برگزیدہ پیغمبر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا تذکرہ قران کی کی و مدنی دونوں سورتوں میں کثرت سے موجود ہے۔ بعض جگہ تو ان کا قصہ بہت مفصل انداز میں بیا ہوان ہے اور فرعون کے ساتھ ان کی معرکہ آرائی بھی کئی جگہ مذکور ہے۔ ان کی پیدائش، فرعون کا بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنا، موسی کا دریا پار ہونا اور فرعون کا اس میں بہایا جانا، فرعون کے گھر موسی کی پرورش، مدین کا سفر، شعیب علیہ اسلام سے ملاقات، ان کی بیٹی سے شادی اور حق مہر کے طور پر 10 سال تک ان کی بکری چرانا، پھر مصر کی طرف واپسی اور فرعون سے مناظرہ، عصا اور ید بیضا کا عطا ہونا، ہارون کی معیت اور جادوگروں سے مقابلہ، بنی اسرایل کے ساتھ مصر سے نکل جانا اور دریائے نیل عبور کرنا اور فرعون کا اس میں غرق ہونا۔ پھر بنی اسرائیل کا وادی تیہ میں 40 سال تک بھٹکنا، من و سلوی کا عطا ہونا، بنی اسرائیل کو سنہرے بچھڑے کی پوجا کرنا، واقعہ بقر، الغرض کہ جتنا مفصل تذکرہ قرآن میں موسی کا موجود ہے اتنا کسی بھی پیغمبر کا نہیں ہے۔ [12][13] نیوگیل اور وہیلر جیسے کچھ محققین کا کہنا ہے کہ موسی کی زندگی میں ہارون کا وہی مقام ہے جو محمد کی زندگی ًمیں عمر کا ہے۔ قرآن و بائبل میں موسی و ہارون کا تذکرہ ساتھ ساتھ ملتا ہے اور دونوں جگہ موسی کو زیادہ فعال بتایا گیا ہے۔ قرآن اور بائبل کا بس اس بات میں اختلاف ہے کہ سنہرے بچھڑے کی پوجا کروانے کا ذمہ دار کون ہے۔ بائبل میں ہارون کو اس کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے جبکہ قرآن ان کو بے قصور مانتا ہے اور سامری کو اس کا ذمہ دار بتاتا ہے۔ اسی نے بنی اسرائیل کو بہکایا تھا۔ [14]
جب مکہ میں محمد بن عبد اللہ کو پریشان کیا جا رہا تھا تب آپ یہودیت اور مسیحیت کو اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے اپنا تحادی گردانتے تھے اور ان سے اعانت کی امید بھی رکھتے تھے کیونکہ اسلام کے بنیادی عقائد ان دونوں مذاہب سے تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ جبل نور پر آپ کے پہلے اعلان کے دس سال بعد [15] مدینہ سے بارہ اہم افراد کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا اور آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی اور مکمل حفاظت اور تعاون کا وعدہ بھی کیا۔ یہ اوس اور خزرج کے 12 نقبا تھے۔ انھوں نے یہ بھی پیشکش کی کہ مدینہ آپ کا اپنا وطن ہو گا جہاں آپ ایک ثالث سربراہ کی چیثیت سے رہیں گے۔ چونکہ مدینہ میں یہ دونوں قبیلے آپس میں اور دونوں مل کر یہود سے تقریباً 100 برسوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھے، لہذا ان کو ایک ایسے سربراہ کی ضرورت تھی جو ان کو اس لڑائی سے چھٹکارا دلاسکے۔ [16][17][18]
مدینہ کے قبائل کے درمیان مدتوں کے چل رہے جھگڑے اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے محمد بن عبد اللہ نے بہت سارے اقدامات کیے۔ میثاق مدینہ انہی اقدامات کا ایک حصہ ہے۔ گوکہ مدینہ کے آئین پر مذہبی رنگ غالب تھا مگر عملی طور پر عرب کے قدیم قبائل کے قانونی شکل کے حفاظت ہوئی۔ [19] یہودیوں کو اسلام سے قریب لانے کے لیے آپ نے ان کی کچھ عبادتوں کو اسلامی شکل دی اور اپنایا جیسے یوم کپور کا روزہ۔ شروع میں نماز بھی بیت المقدس کی جانب ادا کی جاتی تھی مگر پھر قرآن کا حکم نازل ہوا کہ کعبہ شریف کو قبلہ بنایا جائے۔
مدینے کے دو قبائل اوس اور خزرج یہود کے مقابلے تھوڑے کمزور تھے اور نسبتا غریب بھی۔ ادھر یہود اور مسیحی دونوں اس انتظار میں تھے کہ اب آخری نبی کے آنے کا وقت ہو چکا ہے اور دونوں میں سے ہر یہ امید لگاے بیٹھا تھا آخری نبی ان ہی کی قوم میں آئے گا۔ لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قوم عرب میں ہوئی تو انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔[17] اور یہ بھی دعوی کرنے لگے کہ قرآن کی آیات تورات سے مختلف ہیں۔ [20] ادھر اوس و خزرج نے نبی کو اپنا لیا، ان کو پناہ دی اور اس طرح ان کی طاقت بڑھنے لگی۔ اب یہود کو تشویش ہونے لگی کہ کل تک جو کمزور تھے اور ہمارے تابع تھے وہ اب طاقتور ہوتے جا رہے ہیں اور بلا شبہ یہ محمد کا کرشمہ تھا۔ کیونکہ ان کے ماننے والے زیادہ تر کمزور طبقہ کے افراد ہوا کرتے تھے۔ مدینہ میں مسلمان اس لیے بھی طاقتور ہوئے کہ مکہ کے سارے مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور محمد نے مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں میں مواخاۃ کروادی جس کی رو سے ایک مدینہ کا مسلمان ایک مکہ کے مسلمان کا بھائی ہو گیا اور کفالت کی پوری ذمہ داری لے لی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہود میں سے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ [21] اب مذہبی اختلاف کے ساتھ ساتھ یہود اور مسلمانوں (عربی قبائل) کے مابین سیاسی اختلاف بھی ہونے لگا۔ یہود عبد اللہ بن ابی کے بہت قریب تھے جو آدھا مسلمان اور آدھا یہودیوں سے قریب تھا۔ اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ نہ آتے تو وہ ہی مدینہ کا سردار بنتا۔ [20][22] جب یہودیوں نے اس کو مزید قریب کیا تو وہ محمد کا کھلم کھلا دشمن بن گیا اور جنگ احد کے موقع پر اپنے ساتھی لے کر جنگ سے الگ ہو گیا۔ مارک کوہین کہتے ہیں کہ “محمد بن عبد اللہ کا ظہور بائبل کے انبیا کے صدیوں بعد ہوا ہے۔ اور اس طرح آپ نے اپنا پیغام یہودیوں کو بائبلی اور قرآنی دونوں انداز میں دیا۔” [23] ایک یہودی محقق موسی بن میمون محمد بن عبد اللہ کو جھوٹا نبی مانتا ہے۔ میمون کا کہنا ہے کہ محمد بن عبد اللہ کا دعوی نبوت ہی ان کو جھوٹا نبی ثابت کرتا ہے کیونکہ اس سے موسی کی نبوت، تورات اور زبانی تورات سے تضاد پیدا ہوتا ہے۔ اس نے، مزید کہا کہ محمد چونکہ امی تھے لہذا وہ نبی نہیں ہو سکتے ہیں۔[24]
میثاق مدینہ میں یہود کو اس شرط پر مسلمانوں کے برابر مانا گیا وہ سیاسی طور پر مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ [17][25] مزید یہ کہ یہود کو اپنے مذہب پرعمل کرنے اور اپنی تہذیب پر باقی رہنے کی مکمل آزادی تھی۔ ابتدائی ایام میں کچھ یہود اسلام سے بہت قریب تھے اور اس کی ایک مثال مخیریق ہیں۔ مخیریق ایک ربی تھے جن کا تعلق بنو نضیر سے تھا، انھوں نے جنگ احد میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور وصیت کی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میری ساری دولت محمد کو دے دی جائے۔ محمد نے ان کو سب سے اچھے یہود کا لقب دیا۔ [26][27] بعد میں جب یہود کی طرف سے میثاق کی خلاف ورزی کی جانے لگی اور غزوہ احزاب میں انھوں نے دشمنوں کا ساتھ دیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خبر لینا مناسب سمجھا۔ مسلمانوں کے دل بھی یہودیوں کے خلاف نفرت سے بھر گئے اور ان کو پانچواں کالم کہا جانے لگا۔[28] جب یہود شرانگیزیاں بڑھ گئیں تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور بنو قریظہ کے تمام مرد افراد کو قتل کر دیا گیا۔
دونوں مذاہب میں کئی انبیا مشترکہ طور پر مسلم ہیں، کچھ استثنا بھی ہے۔ دونوں مذاہب عبر۔ ایوب اور یوسف کو نبی مانتے ہیں۔ [29][30][31][32][33][34] البتہ یہودیوں میں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ ایوب سے متعلق تمام قصے دراصل افسانے ہیں اور ایوب کا کہیں کوئی وجود نہیں ملتا ہے۔ [35][36][37] راشی ایک یہودی مفسر اور یہودی کتبوں اور متن کے ماہر گذرے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک کتبہ جس کی تاریخ 160ء ہے اور وہ تلمود کے کتاب پیدائش میں بھی مذکور ہے، اس کے مطابق عبر ایک پیغمبر تھے۔
یہود بنیادی طور پر مسلمانوں کے زیر حکمرانی ان کے ملک میں رہتے آئے ہیں۔ تاریخ اسلام کے 1400 برسوں میں کئی ملکوں کی سرحدیں بدلی ہیں، ایسے میں یہود کا ایک ایسا قبیلہ بھی ہے جو مصر کے قاہرہ میں آباد ہے، یہ قبیلہ مختلف ادوار میں مختلف ملکوں میں رہتا آیا ہے۔
اندلس کی اسلامی حکومت میں یہود بہت آن بان سے رہتے تھے۔ ان کو تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت تھی اور ان میں کی ماہر ریاضیات، ماہر فلکیات، فلسفی، ماہر کیمیا اور ماہر لسانیات پیدا ہوئے ہیں۔ [38][39] اس عہد کو ہسپانیہ میں یہودیوں کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ [39]
یہود روایتی طور پر مسیحیوں کے ساتھ مسلم ممالک میں رہتے آئے ہیں۔ ان کو ذمی کہا جاتا تھا۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے معاملات اپنی روایت کے مطابق سلجھانے کی ( کچھ شرائط کے ساتھ) مکمل آزادی تھی۔ [40] ان کو جزیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ جزیہ ایک قسم کا ٹیکس ہوتا تھا جو آزاد غیر مسلم مرد پر نافذ ہوتا تھا۔ لیکن ان کو زکات کے معاف رکھا گیا تھا۔ ذمیوں کو ہتھیار پہننے اور عدالت میں گواہی دینے پر پابندی تھی کیونکہ بہت سے شرعی شرائط پر وہ پورے نہیں اترتے تھے۔ کیونکہ وہ بلاخاہ پر ایمان رکھتے تھے۔ [41] ایک عام غلط فہمی لباس سے متعلق پیدا ہو گئی تھی کہ ایک مسلمانی لباس اختیار کر لیا گیا تھا جس کی تعلیم نہ قرآن میں دی گئی ہے اور نہ ہی حدیث میں۔ لیکن خلافت عباسیہ کے دور میں بغداد کے عہد وسطی کے اوائل میں لباس سے متعلق سخت قوانین تھے۔۔[42] مسلمانوں کے عہد حکومت میں یہودیوں کو نہ کبھی قتل کیا گیا، نہ جلاوطنی کی گئی اور نہ مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ حتی کہ طرز زندگی، رہائش اور پیشہ کا مکمل اختیار ہوتھا جس میں بحیثیت یہود ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ [43] حالانکہ ان پر کچھ پابندیاں بھی تھیں جنہیں معاہدہ عمر میں تحریر کیا گیا تھا۔ معاہدہ عمر ان ہدایات کا مجموعہ ہے جن میں ایک اسلامی ملک میں یہود پر پابدنیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان میں کچھ پابندیاں بہت سخت ہیں۔ البتہ اگر اسی دور کے مغربی مسیحی ملکوں میں یہود کی حالت کو دیکھا جائے تو وہ مسلم ممالک میں بہت خیر و عافیت سے رہتے تھے۔ ان پر کوئی ظلم و ستم نہیں ہوتا تھا۔ ان سے دوستانہ تعلقات ہوتے تھے۔[44] اس عہد میں یہود کے تئیں مسلمانوں کی رواداری، سیاسی ترقی اور ثقافتی پرامنیت اس دور کو ہسپانیہ میں یہود کا عہد زریں بناتی ہے۔ [44] اس دور میں جب یہودیوں کی سماجی حالت سدھری تو ان کو معاشی اور اقتصادی طور پر بھی ترقی ملی اور انھوں کچھ طاقت حاصل کی۔ اپنی تجارتیں شروع کیں اور یہاں تک کہ حکومت میں ان کو کچھ عہدے بھی ملنے لگے۔ لیکن کبھی کبھار ان کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ان کی خلاف پر تشدد واقعات ہوتے تھے اور کبھی امتیازی سلوک بھی ہوتا تھا۔ [45] مثال کے طور پر 12ویں صدی میں اندلس میں دولت موحدین کے ایک حکمران نے یہودیوں کو قتل کیا تھا۔ [46][47] ایسی ہی ایک مثال مغرب کی ہے جہاں ملاح میں 15ویں صدی سے 19ویں صدی تک یہودیوں سے حق انتخاب رہائش چھین لیا گیا تھا اور ان کو محصور کر دیا گیا تھا۔ [48] کبھی ان کو جبرا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا جیسے 12 ویں صدی میں دولت موحدین کی حکمرانی میں اندلس اور ایران میں ہوا تھا مگر زیادہ تر تبدیلی مذہب رضامندی اور مصلحت پر مبنی ہوتے تھے۔ [46]
یہودیوں کے مطابق جو لوگ اپنی مرضی سے یہودیت چھوڑ کر اسلام اپناتے ہیں وہ تورات کا انکار کر کے ایک بہت ہی ناپسندیدہ کام کرتے ہیں۔[49] داود بن سلیمان بن ابی زمرہ اور یوم توف اسفیلی کے مطابق ایک یہود کا اپنی جان دے دینا اسلام اپنانے سے بہتر ہے۔ لیکن موسی بن میمون کا کہنا ہے کہ اپنی جان نہ دے بلکہ اگر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہے تو کرلے لیکن چھپ کر تورات پر عمل کرتا رہے۔ [50]
کسی بھی مذہب کا ماننے والا اسلام قبول کر سکتا ہے اور اسلام سب مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔
دور جدید میں جن نامور یہودیوں نے اسلام اپنایا ہے ان میں محمد اسد (پیدائشی نام: لیو پولڈ ویز)، عبد اللہ شلیفر (پیدائشی نام: مارک شلیفر)، یوسف درویش، لیلی مراد اور مریم جمیلہ (پیدائشی نام: مرگرٹ مارکس) بہت مشہور ہیں۔ سنہ 2000ء سے 2008ء کے درمیان میں 200 سے زائد یہودیوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ [51] تاریخی طور پر اسلامی ممالک میں یہود بحیثیت اہل کتاب رہتے آئے ہیں اور ان کو مذہب کی مکمل آزادی رہی ہے۔ لیکن کچھ حکمرانوں نے جبرا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کی ہے، کبھی سیاسی مصلحت سے تو کبھی مذہبی مصلحت سے۔ ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو یہودیت سے مسلمان ہو گئی اور اسی پر باقی رہی مگر یہودی تہذیب سے بھی تعلق برقرار رکھا۔ ان میں سے ایک آنوسی ہیں جو 1492ء میں اس وقت اسلام میں منتقل ہوئے اسکیا محمد ٹمبکٹو کے حکمران بنے اور یہ فرمان جاری کیا کہ یہود یا تو مسلمان بن جائیں یا وطن چھوڑ دیں۔ [52]
16ویں اور 17ویں صدی میں فارسی سلطنت میں جب صفوی سلطنت قائم تھی تب ہودیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ کھلم کھلا اعلان کریں کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ان کو “نو مسلم” کا خطاب دیا گیا۔ 1661ء میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا جس جس نے جبرا مذہب تبدیل کیا تھا وہ واپس یہودیت پر آ سکتے ہیں۔ اور اس طرح یہود پھر سے یہودی بن گئے۔ یمن میں بھی یہودیوں کو جبرا مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی اور پریشانی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ آیا اسلام قبول کرلو یا صحرا میں بھٹکنے کے لیے مجبور ہو جاؤ۔ ایسے ہی ایک پوگروم کو ختم کرنے کے لیے مشہد یہود کو بالاجماع مسلمان بننے کا حکم ہوا۔ انھوں نے تقریباً ایک صدی تک چوری چھپے یہودیت پر عمل کیا پھر کھلم کھلا یہودیت کا اعلان کر دیا۔ 21ویں صدی میں ان میں سے 10,000 اسرائیل میں رہتے ہیں، 4000 نیویارک میں اور 1000 کسی اور علاقے میں۔ [53] ( ملاحظہ ہو: واقعہ اللہ داد)۔ ترکی میں سباتائی زیوی کو 1668ء میں اسلام اپنانے پر مجبور کیا گیا۔ [54]"> اس کے زیادہ تر متبعین نے اس کا بائیکاٹ کیا لیکن کئی ہزار یہودی مسلمان بن گئے مگر خود کو یہودی مانتے رہے۔ [54]
یہودیت میں کسی باہری شخص کو قبول نہیں کیاجاتا ہے۔ بلکہ غیر یہودیوں کو کہا جاتا ہے وہ بس سات احکام نوح پر عمل کریں اسی لیے یہودیت میں منتقل ہونے کے واقعات خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ایک مشہور مسلمان جو یہودی ہو گیا تھا عبدیاہ تھا جس کو موسی بن میمون نے متاثر کیا تھا۔ ایک ایرانی فضائی میزبان، کش ایئر، جس نے ایک ایرانی طیارہ کش ایئر کو تہران اور کیش کے درمیان میں سمتبر میں ہائی جیک کر لیا تھا اور اس کو اسرائیل کی سرزمین پر اتارا تھا، سزا کے طور پر اس کو پانچ سال کی قید ہوئی تھی۔ اس نے بعد میں یہودی مذہب قبو کر لیا تھا۔ اور ایلات میں بس گیا تھا۔ [55]
مسلم ممالک میں سب سے زیادہ یہودی ایران میں رہتے ہیں۔ اس کے ازبکستان اور ترکی کا نمبر آتا ہے۔ ایرانی حکومت نے یہودیوں کو مذہبی اقلیت تسلیم کیا ہے اور زرتشتیت کی طرح یہودیت کے لیے بھی مجلس ایران میں کچھ نششتیں مقرر ہیں۔ 2000ء میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ 30,000–35,000 ایران میں بستے ہیں۔ دوسرے مصادر کے مطابق یہ تعداد 20,000–25,000 ہے۔ [56] وہ ایران سے باہر کہیں بھی ہجرت نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ایک وقت میں خاندان کے ایک ہی فرد کو ملک سے باہر جانے اور واپس لوٹ آنے کی اجازت ہے۔ ایک یہودی تاجر کو یہودی مہاجرین کی مدد کرنے کے پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔ [57] موجودہ دور میں عرب اسرائیل تنازع اسلام اور یہودیت کے تعلقات کا ایک اہم سنگ میل بنتا جا ریا ہے۔ آنے والے ایام میں یہ تنازع اسلام اور یہودیت کی تاریخ کا ایک اہم باب ثابت ہوگا۔ اس کی شروعات برطانیہ کے انتداب فلسطین کے اختتام سے ایک روز قبل 14 مئی 1948ء میں ریاست اسرائیل کے آغاز سے ہوتی ہے۔ [58] اس واقعہ کے فوراً بعد پانچ عرب ممالک -مصر، سوریا، اردن، لبنان اورعراق نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اور یہیں سے 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ [58] تقریباً ایک سال بعد کی مسلسل جنگ کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوتا ہے اور خط اخضر کھینچ دی جاتی ہے۔ اردن کے مغربی کنارہ اور مصر کی غزہ پٹی کو اسرائیل کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کو 11 مئی 1949 میں اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل ہو گئی۔ [59] اس جنگ کے دوران میں اقوام متحدہ کے اندازہ کے مطابق 711,000 عرب یا تو بھاگ گئے یا نکال دیے گئے۔ [60] اس کے بعد کی دہائی میں عرب اور مسلم ممالک سے یہودیوں کا اخراج شروع ہوا اور تقریباً 800,000–1,000,000 یا تو جبرا بھگادیے گئے یا خود چھوڑ کر چلے گئے۔ [61]
سلووین پروفیسر سالووج زیزیک کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مغربی مسیحی ثقافت کے برخلاف مشرق وسطی کی تہذیب کی وضاحت کے لیے اسلام اور یہودیت کی اصطلاح بہت مناسب ہے، ان کی دلیل ہے کہ مغربی ممالک سے یہودیوں کے تاریخی اخراج نے مغربی دنیا پر بہت ہلکا اثر ڈالا ہے۔ (حالانکہ یہودیوں کی شراکت اور اثر سے متعلق ایک دوسرا نظریہ بھی موجو دہے۔[62]) اس طرح تین توحید پرست مذاہب کا ایک نظریہ اسلام-یہودیت اور مسیحیت کا ابھر کر سامنے آتا ہے، ان تینوں کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ ان تینوں مذاہب کے مابین رسمی لین دین کی وجہ سے امریکی شہروں میں 1993ء کے اسرائیلی-فلسطینی اوسلو معاہدہ کے بعد یہودیت-مسیحیت بین المذاہبی ڈائیلاگ گروہ بہت عام ہو گئے۔ اردن اور قطر کی حکومتیں ان دنوں مسلموں اور یہودیوں کے درمیان میں آپسی گفتگو کو کانفرنسوں اور اداروں کے ذریعے فروغ دے رہی ہیں۔ [63]
9/11 کے سانحہ کے بعد بین المذاہبی گفتگو میں ایک طرح کی رکاوٹ آگئی تھی کیونکہ امریکی مسجدوں میں اسلامی واعظوں نے یہودی مخالف اور اسرائیل مخالف تقریریں کیں۔ ملک کی سب سے اہم مساجد میں سے ایک نیو یارک اسلامی کلچرل سینٹر ہے جسے کویت، سعودی عرب اور ملائیشیا کی مالی امداد سے بنایا گیا ہے، اس کے امام محمد الغامیہ 9/11 حادثہ کے دو دن بعد غائب ہو گئے۔
” | مصر مین ایک عربی ویبسائٹ نے ان کا انٹرویو لیا، جس میں انہوں نے کہا کہ صہیونی میڈیا نے عالمی تجارتی مرکز پر دہشت گردی حملہ کی صہیونی شمولیت کو چھپا دیا ہے۔ وہ اسامہ بن لادن کے امریکا پر لگائے گئے الزامات سے متفق ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ “تقسیم، بدعنوانی، نفرت، ہم جنس پرستی، شراب اور منشیات کو فروغ دینے میں سراسر یہودیوں کا ہاتھ ہے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا میں مسلم مریض ہسپتالوں میں جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ یہودی ڈاکٹروں مسلم بچوں کو زہر دے دیا تھا۔ “ان لوگوں نے انبیا کا قتل کیا ہے؛ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ لوگ ہمارا خون بہانے سے باز آئیں گے؟ ہرگز نہیں”۔ | “ |
| [حوالہ درکار]}}
یہ انٹرویو 4 اکتوبر کو اسلام کی سب سے بڑی اور عظیم مذہبی درسگاہ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی سے ملحق ایک ویب گاہ پر 4 اکتوبر کو شائع ہوا تھا۔ 9/11 کے فوراً بعد امام الغامیہ نے ایک مسجد میں ایک بین المذاہب خدمت کی صدارت کی۔ وہاں امام نے اپنی تقریر میں کہا “ہم ان تمام لوگوں کی پر زور مذمت کرتے ہیں جنھوں نے یہ غیر انسانی کام کیا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ “ بین المذاہب مرکز، نیو یورک کے صدر اور کلیسا کے راہب جیمز پارکز مورٹون، جو خود بھی اس جلسہ میں شریک تھے، نے امام کے اس تبصرہ کو حیرت انگیز بتایااور کہا “ان کا یہ تبصرہ بین المذاہب گفتگو کو مزید اہم بناتا ہے۔“[64][حوالہ درکار]
سنہ 2007ء کے بعد سے، ربیائی مارک شینیر اور رسل سمنز کی قیادت میں فاؤنڈیشن فار ایتھنک انڈرسٹینڈنگ نے یہودی مسلم تعلقات میں بہتری پرخاص توجہ دے رہی ہے۔ 2007ء میں انھوں ربیائی اور ائمہ کا ایک سیمینار منعقد کیا تھا، بعد میں برسلز میں 2010ء میں اور پیرس میں 2012ء میں مسلم اور یہودی رہنماؤں کا ایک اجتماع بھی ہوا۔ اور ایسے ہی واشنگٹن ڈی سی میں مسلم اور یہودی رہنماؤں کے تین مشن ہوئے۔ ہر نومبر کو یہ فاؤنڈیشن ویکینڈ آف ٹوینینگ کا انعقاد کرتی ہے جس میں مسلم اور یہودی، ائمہ اور ربیائی، مسجد اور کنیسہ، اسلامی اور یہودی تنظیموں کو ابھارا جاتا ہے اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تا کہ اسلام اور یہودیت کے مابین یکسانی کے مد نظر دونوں مذاہب مشترک پروگرام رکھیں تاکہ آپسی رنجشیں ختم ہوں۔ [65]
9/11 کے بعد کلیو لینڈ اور لاس اینجلیس میں مسلم ائمہ کے تبصرے اور تقریروں نے بھی طویل المدت اسلام اور یہود بین المذاہب گفتگو پر لگام لگائی ہے۔ کچھ یہودی رہنماؤں نے ان تبصروں کو موجودہ ماحول میں بین المذاہب گفتگو کو باطل کرنے کی ایک ٹھوس دلیل بناکر پیش کیا ہے۔[66]
اسلام اور یہودیت کے درمیان متعدد مشترک پہلو ہیں۔ اسلام جیسے جیسے ترقی کرتا گیا یہود سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ دونوں ہی مذاہب توحیدیت کے بہت سخت ہیں اور دونوں کا آغاز سامی قوم کے مشرق وسطی تہذیب میں ہوا ہے۔ مسیحیت کے برخلاف، جس کا آغاز قدیم یونان اور عبرانی زبان کے کے مابین لین دین سے ہوا ہے، بنیادی مذہبی نظریہ، ڈھانچہ، فقہ اور اعمال میں اسلام اور یہودیت میں بہت زیادہ یکسانی ہے۔ اسلام کی بہت ساری روایات یا تہذیبیں آیا تنک یا ما بعد بائیل یہودی تہذیب سے ماخوذ ہیں۔ ان روایات یا تہذیبوں کو مشترکہ طور پر اسرائیلیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [67]
قرآن میں بنی اسرائیل (اولاد یعقوب) کا تذکرہ بہت تفصیل سے مذکور ہے۔ اور قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بنو اسرائیل ابراہیم کی نسل سے ہیں۔ ابراہیم کے بیٹے اسحاق ہیں اور اسحاق کے بیٹے یعقوب ہیں اور یعقوب کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ اور قرآن کے مطابق اللہ نے بنو اسرائیل کو ایک خاص مقصد کے لیے منتخب کیا ہے:
اور ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی۔
بنی اسرائیل میں اللہ عز و جل نے بہت سارے انبیا مبعوث فرمائے اور ان کو ان نعمتوں سے نوازا جو کسی اور نہیں دی گئیں۔
” | اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اپنے اوپر (کیا گیا) اﷲ کا وہ انعام یاد کرو جب اس نے تم میں انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ (کچھ) عطا فرمایا جو (تمہارے زمانے میں) تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا۔ | “ |
اللہ نے ان کو بہت ساری اقوام اور ملکوں پر فوقیت دی اور ان پر بہت احسانات کیے۔
اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی
اللہ نے ان کو اپنے ایک خاص مقصد کے لیے منتخب کیا تھا۔ (الدخان:32)۔ [68][69]
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی جو ان کو سخت ترین عذاب کیا کرتا تھا۔
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
حالانکہ قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی اور جگہ جگہ اللہ کے احکام کو توڑا۔
پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ، "یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہو ئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ حطۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے"۔
” | مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے | “ |
ان تمام انعام وا کرام کے ذکر کرنے کے بعد اللہ عز و جل مسلمانوں کو یہودیوں سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایمان والوں کے بڑے دشمنوں میں یہود اور مشرکین ہیں۔
تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پا ؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اِس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرور نفس نہیں ہے
اسلام یہودیت میں مشترکہ طور پر مقدس صحیفوں کا تصور ہے۔ حالانکہ ان صحائف کے متن اور معنی و مطالب میں قدرے اختلاف ہے۔ عبرانی تورات اور عربی قرآن میں بہت سارے مشترک امور ونواہی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں مذاہب کئی بنیادی عقائد پر بھی ایمان رکھتے ہیں جیسے کہ یوم حساب۔ تورات طومار شکل میں موجود ہے جبکہ قرآن مخطوطہ کی شکل میں ہے۔
مسلمان یہود اور مسیحی کو اہل کتاب کہتے ہیں: یعنی وہ لوگ جن پر اللہ نے آسمانی کتاب نازل کی۔ قرآن میں چار آسمانی کتابوں کا تذکرہ ہے۔ تورات موسیٰ پر نازل کی۔
اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے (المائدہ:43)۔
[72] قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ تورات میں احکام بھی لکھے جاتے تھے:
تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں (المائدہ:45)۔
[72] دوسری آسمانی کتاب زبور ہے جسے اللہ نے داود پر نازل فرمائی:
اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤدؑ کو زبور دی (النساء:163)۔
[72] ایک اور جگہ مذکور ہے :
تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے، اور ہم نے ہی داؤدؑ کو زبور دی تھی (الاسراء: 55)۔
[72] تیسری آسمانی کتاب انجیل ہے جو عیسی ابن مریم پر نازل ہوئی:
پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو بھیجا توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اُس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی (المائدہ:46)۔
[72] اور چوتھی کتاب قرآن جو محمد بن عبد اللہ پر نازل ہوئی۔ قرآن اہل کتاب کو یکساں طور ایسے کلمے کی طرف دعوت دیتا ہے جو ان تینوں مذاہب میں مشترک ہیں۔ اور وہ ہیں غیر اللہ کی عبادت نہ کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا وغیرہ:
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں (آل عمران :64)۔
[72] مسلمانوں کو اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے اوران کی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔[73]
قرآنی آیات اور اسلامی مآخذ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تورات میں کئی بار تحریف ہو چکی ہے اور بعض جگہ آیات اور متن کو بدل دیا گیا ہے۔ بہت سارے یہودی گروہوں نے حشمونی دور میں بہت زیادہ خرافات کی ہیں ان میں قابل ذکر فریسی اور صدیقی ہیں۔ بعد کے جدید یہودی روایات کا مآخذ فریسی مکتب فکر ہے کیونکہ وہ دور ہیکل دوم سے ہی یہودی مذہبیات پر حاوی رہے ہیں۔ فریسیوں اور صدیقیوں کا فہرست مسلمہ کے معنی و مطالب پر کافی اختلاف رہا ہے۔ صدیقیوں نے بائبل کے لفظی معنی پر توجہ دی ہے اور اس کو سختی سے قائم رکھا ہے جبکہ فریسی شفوی تورات کو اپناتے ہیں اور مکتوب تورات کے محض مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ترجمے لفظی ترجمے سے بہت بعید ہیں اور مختلف ہیں۔ بعد کے واعظوں اور مذہبی رہنماؤں نے مشناہ اور تلموذ کی واعظانہ تشریح کی ہے۔ وہ دراصل ایک فریم ورک بنا رہے تھے اور یہ فریم ورک تلمود میں بآسانی سما رہے تھے۔ اور یہی فریم ورک حلیل، اسماعیل، الیشع، العزیر اور یوسف سے منسوب ہے۔ بابلی تلمود کے مطابق باباؤں نے بائبل میں 70 سے زیادہ مقامات پر ایک یا زیادہ الفاظ بدل دیے ہیں۔ ایسا الفاظ کے تلفظ کی وجہ سے ہوا ہے کہونکہ عبرانی زبان میں حروف علت نہیں ہیں جس سے ہو بہو تلفظ ادا کیا جا سکے۔ کبھی کبھی تلمود کے الفاظ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی بنا پر مذوذ نے یہ انکشاف کیا کہ قرآن کا یہ الزام کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے غلط نہیں بلکہ توارت کے اصلی حالت پر باقی رہنے کا انکار ہے۔ [74]
اسلام اور یہودیت میں مذہبی قوانین کا ایک منفرد نظام ہے جو شفوی روایات پر منحصر ہے اور جس کو قوانین مکتوبہ پر فوقیت حاصل ہے اور اس سے مقدس اور سیکولر قوانین میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ [75] اسلام میں ان قوانین کو شریعت کہا جاتا ہے اور یہودیت میں بلاخاہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلام اور یہودیت دونوں میں احکام شرعیہ کا مطالعہ کرنا عبادت ہے اور کار ثواب ہے۔ اسلام میں احکام شرعیہ کے مطالعہ کا فن فقہ کہا جاتا ہے اور جو فقہ کا عالم ہوتا اس کو فقیہ کہتے ہیں۔ [حوالہ درکار]
سب سے عام بنیادی عمل جو دونوں مذہب میں یکساں و مشترک ہے وہ ہے توحید الہی مسلمانوں کے لیے ایمان کی پانچ بنیادوں میں سے سب سے پہلی بنیاد ہی توحید وشہادت ہے۔ [76] مسلمان دن میں پانچ دفعہ نماز میں توحید کا اقرار کرتے ہیں اور یہود کم از کم دو مرتبہ شیماع یسرائیل میں، وہ دن میں تین دفعہ عبادت کرتے ہیں۔ دونوں مذاہب میں روزہ، احسان، کھنے پینے کے احکام اور دوسرے احکام بھی مشترک ہیں جو دونوں مذہب کی رسمی پاکیزگی اور فطرت پر دلالت کرتے ہیں۔ دونوں مذاہب میں کھانے پینے سے متعلق سخت احکامات ہیں، یہودیت میں کشروت جائز ہے اور اسلام میں حلال کی ترغیب دی گئی ہے۔ دونوں ہی مذاہب میں خنزیر حرام ہے۔ حلال کی پابندی بالکل کشروت کی طرح ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ تمام کشروت کھانے حلال ہیں لیکن تمام حلال کھانے کشروت نہیں مانے جاتے۔ مثال کے طور پر حلال کھانوں میں دودھ اور گوشت کو ملا کر کھانا ناجائز نہیں ہے اسی طرح پترا مچھلی بھی جائز ہے جبکہ یہ سب کشروت میں حرام ہیں۔ ایک استثنا شیعہ اسلام میں ہے کہ مچھلی یا کوئی بھی سمندی کھانا بغیر خول (کھال) کے حلال نہیں مانا جاتا ہے۔ دونوں مذاہب کی کتب میں ہم جنس پرستی اور بغیر شادی کے جماع حرام ہیں۔ [77] اسی طریقے سے دوران میں حیض عورت سے پرہیز لازم ہے اور جماح حرام ہے۔ دونوں مذاہب میں ختنہ مشرکہ طور پر ضروری ہے۔
دونوں مذاہب میں میسحیت کے عقیدہ تثلیث اور مسیح کو خدا ماننے کے عقیدے کو توحید کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہیبت پرستی اور قبر پرستی بھی دونوں مذاہب میں حرام ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے رسمی رنگ ہیں؛ یہودیت کا نیلا رنگ اور اسلام کا ہرا رنگ۔ دونوں فرشتہ پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے خدام ہیں، دونوں میں جن کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ یہودیت میں شیطان اور اسلام میں الشیطان کہا جاتا ہے۔ دونوں شیطان کو نکارتے ہیں او ر خدا کا دشمن مانتے ہیں۔ دونوں مذاہب میں فرشتوں کے مخصوص نام اور ان کے مخصوص کام کا تصور پایا جاتا ہے۔ دونوں مذاہب میں موروثی گناہ کا انکار ہے اور روایتی طور دونوں ہم جنس پرستی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ دونوں مذاہب کی روایات؛ یہودی متون اور اسلامی حدیث میں بھی یکسانی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پوتیفار کی بیوی کا نام زلیخا تھا۔ [78] اسلامی حدیث اور یہودی تلمود میں یہ یکسانی ہے کہ دونوں لکھے جانے سے قبل شفوی طور سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں۔ [79][80][81]
سب سے اہم یہودی مفکروں میں سے ایک سعيد بن يوسف الفيومي (892–942) ہیں جن پر اسلامی تعلیمات کا اچھا خاصا اثر ہوا ہے۔ ان کی ایک اہم تصنیف كتاب الامانات والاعتقادات ہے۔ اس میں انھوں نے ایسے مسائل سے بحث کی ہے جو متکلمین کو بہت پسند آئے ہیں جیسے مادہ کی تخلیق، اللہ کی وحدانیت، صفات الہیہ اور روح وغیرہ۔ انھوں نے بہت سے فلسفوں کی سخت تنقید بھی کی ہے۔ 12ویں عیسوی فلسفہ کی صدی تھی اور اس صدی میں ایک سے بڑھکر ایک مایہ ناز فلسفی پیدا ہوئے۔ ان میں مسلمانوں میں سب سے اہم امام غزالی (1058–1111) اور یہودیوں میں سب سے اہم يهوذا اللاوی (1140) ہیں۔ الغزالی کی طرح يهوذا اللاوی نے بھی اپنی فکر اور فلسفہ کو فلسفہ قاریہ کی بیڑیوں سے آزد اد رکھا۔ اسے سلسہ میں انھوں نے كتاب الحجة والدليل في نصرة الدين الذليل لکھی جس میں تمام فلسفیانہ تصورات کی نکیر کی ہے۔
موسى بن ميمون نے ارسطو کے فلسفے کو یہودیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں انھوں نے دلالة الحائرين لکھی جو صدیوں تک یہودیوں مفکرین کا مآخذ و مرجع بحث رہی۔ اس کتاب میں موسی بن میمون نے تخلیق، توحید، صفات الیہہ اور روح پر بحث کی ہے۔ اور ان موضوعات کو ارسطو کے نظریے کے مطابق اس طرح پیش کیا ہے کہ مذہبی تعلیمات سے نہیں ٹکراتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ مادہ اور شکل میں ارسطو کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے وتو وہیں مادہ کے دوام کی نکیر کرتا ہے۔ ایسے ہی وہ ارسطو کے اس نظریے کو قبول نہیں کرتا ہے کہ خدا کو صرف کائنات کا علم ہے اس کے ذرات کا نہیں۔ وہ مسلسل تبدیل ہوتے رہیں گے۔ موسی بن میمون کہتے ہیں “خدا متقبل میں ہونے والے واقعات سے باخبر ہے اور مستقبل کی کوئی چیز خدا کے علم سے باہر نہیں ہے۔اسی لیے خدا کو کوئی نئی بات نہیں بتائی جا سکتی کیونکہ سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ فلاں اور فلاں بندہ ابھی معدوم ہے مگر فلاں متعین وقت میں وہ پیدا ہوگا، ایک مدت تک وجود میں رہیگا اور پھر عدم کو روانہ ہو جائیگا۔ پھر جب وہ بندہ وجود میں آتا ہے تب بھی خدا کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہوتی ہے جو اس کو معلوم نہیں ہے۔وہ اس بندہ کو ایسے ہی جانتا ہے جیسے اس کی تخلیق سے پہلے جانتا تھا۔[82] ” اگر مستقبل میں واقع ہونے والے کسی حادثہ سے بچنا ہے تو ارسطو کے نظریے مذہب کی محتاج ہوتی ہیں، موسی بن میمون مکمل طور پر ارسطو کے نظریے وحدت روح سے اختلاف نہیں کرتے ہیں؛ اور یہیں پر وہ راسخ الاعتقاد مفکرین کی تنقیدوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ کئی ماہرین نے عربی فلسفہ کا ترجمہ کیا اور ان پر تنصرے کیے ہیں، یہ ایک سلسہ وار کام ہے جس میں عبرانی مفکرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ [حوالہ درکار] ان میں خاص طور قابل ذکر ابن طبون، موسی بن الیوشع اور جرسونيدس اہم نام ہیں۔ ان لوگوں نے ابن رشد کی کتابوں اور فسلفہ پر خصوصی توجہ دی ہے اور اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا ہے۔ موسی بن میمون نے بھی ابن رشد کے فلسفہ پر خوب تبصرہ کیا ہے۔ موسی بن میمون نے اپنے شاگرد جوزف بن جودہ کو ایک خط میں لکھا ہے:
” | تمام اسماعیلی بت پرست نہیں ہیں؛ ایک زمانہ ہوا بت پرستی ان کی زبان و دل سے محو ہو چکی ہے؛ وہ خدا کو صفت وحدانیت سے متصف کرتے ہیں، توحید میں کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ گرچہ وہ ہمارے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کا کوئی بیٹا ہے، یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہم بھی ان کے بارے میں جھوٹ بولیں اور ان کو بت پرست سمجھیں۔ یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ ان کا مقدس گھر خانہ کعبہ بتوں کا گھر ہے جس میں کچھ بت چھپا کر رکھے گئے ہیں جنکی عبادت ان کے پرکھے کیا کرتے تھے۔پھر یہ کیا ہے؟ جن کے دل اس کی طرف جھکے ہوئے ہیں صرف وہی جنت میں جائیں گے۔ اسماعلیوں کے عورتوں اور بچوں کے بھی دل اور زبان بت پرستی سے پاک ہیں۔ ان کی خطا اور بیوقوفی دوسری چیزوں میں ہیں جن کو زیر تحریر نہیں لایا جا سکتا کیونکہ اسرائیل میں بیوقوف اور مرتد قسم کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن یہ مسلم ہے کہ عقیدہ توحید میں مسلمان بالکل برحق ہیں اور خطا سے مبرا ہیں۔ [83] | “ |
سعيد بن يوسف الفيومي کا بائیبل پر تبصرہ معتزلہ سے متاثر ہے؛ اور اس کا مصنف خدا کی مثبت صفات کو نہیں مانتاہے سوائے یہ کہ وہ بائبل کی اس انداز میں تشریح کرتا ہے کہ خدا کو تجسیمیت سے پاک ثابت کرتا ہے۔ یہودی نقاد ابراہیم بن عزرا بائبل کے تخلیقی موضوعات اور دوسری مقدس متون کی فلسفیانہ تشریح کرتا ہے۔ موسی بن نجمان اور دیگر مفکرین اپنی تحریروں میں فلسفیانہ افکار کو قبول کرتے ہیں۔ اسی لیے پانچ صدیوں تک زیر بحث رہنے والا سلامتی تاثر قبالہ کے وجود کا سبب بنتا ہے جو یہودیت کی گہرائی، نوافلاطونيت اور باطنیت کے تاثر کے انکار کا نتیجہ ہے۔
اسلامی روایات کے مطابق اسلام کے ابتدائی ایام میں یہود کا ایک قبیلہ بنو قریظہ میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ جس کی وجہ سے 700 یہودی مارے گئے۔ اورکئی عورتوں کو باندی بنا لیا گیا۔ ان میں سے ایک صفیہ بنت حیی بن اخطب تھیں جن کے شوہر كنانة ابن الربيع تھے، وہ بھی جنگ میں مارے گئے تھے، بعد میں صفیہ سے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی کرلی۔ [84] تاریخ میں متعدد مرتبہ مسلمانوں کے ذریعہ یہودیوں پر حملہ ہوا جیسے قتل فاس 1033ء، غرناتا قتل عام 1066 اور صفد میں لوٹ مار 1834۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر یہودی ان سب کو بھولے نہیں تھے۔ 19ویں صدی میں تحریک صہیونیت کا آغاز ہوا جس کا مقصد فلسطین کی تاریخی سرزمین (زایون) میں ارض اسرائیل کا قیام کر کے یہودیوں کا قومی ملک بنانا تھا۔ اس سے فلسطینی یہود اور فلسطینی عرب کے ما بین کشیدگی کی شروعات ہوتی ہے جس کی تاریخ ابتدا 1947ء ہے۔ اس طرح ایک خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں کئی مسلم ممالک سے یہودیوں کا اخراج ہوتا ہے۔ 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کے اعلان کے فوراً بعد 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کا اعلان ہوتا ہے۔ جس میں اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی۔ اس جنگ کے بعد 12 مزید جنگیں عرب اور اسرائیل کے مابین لڑی گئیں۔ عرب اسرائیل تنازع نے اسلامی یہودی تعلقات کو بری طرح کمزور کیا ہے۔لیکن اب ایسہ نہی ہوگا کیوں کے سب ہی ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے اللہ کا یہ حکم ہے سب مل کر اسلام تریکے سے اصلاح کرلو اور انسانیت کو اہمیت ذیادا دو کیوں کے غریب کی حا اسمانو کو حلارہی ہے۔۔مہدی
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.