اندلس
From Wikipedia, the free encyclopedia
From Wikipedia, the free encyclopedia
الاندلس (انگریزی: Al-Andalus، عربی: الأندلس، کلمہ نویسی al-ʼAndalus; (ہسپانوی: Al-Ándalus) ; (پرتگالی: Al-Andalus); (اراغونی: Al-Andalus); (کاتالان: Al-Àndalus); بربر: Andalus یا Wandalus) یورپ میں موجود ایک سابقہ مسلم خطہ تھا جو ہسپانیہ، پرتگال اور جدید فرانس پر مشتمل تھا، جسے مسلم ہسپانیہ (Muslim Spain) یا اسلامی آئبیریا (Islamic Iberia) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ جزیرہ نما آئبیریا میں تھا۔
فتح اندلس کے بعد اندلس کو پانچ انتظامی اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جو تقریباً جدید دور کے اندلوسیا، گالیسیا اور پرتگال، قشتالہ اور لیون، آراغون اور پانچویں سپتمانیہ پر مشتمل تھی۔[1]
خلافت امویہ کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں یہ خلافت امویہ کا ایک صوبہ تھا۔ 756ء میں امارت قرطبہ کے قیام پر عبد الرحمٰن الداخل یہاں کا امیر بنا۔ 929ء میں عبد الرحمٰن الناصر نے خلافت سے علاحدہ ہو کر خلافت قرطبہ کے اعلان کے بعد خلیفہ بنا۔
برِاعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) جو ’کوہستانِ پیرینیز‘ (Pyrenees) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے اور آج کل ہسپانیہ (Spain) اور پرتگال(Portugal) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً 800 برس تک حکومت کی۔ اِسلامی تاریخ میں اس ملک کو ’اندلس‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اندلس جو کبھی اپنی وُسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ ہسپانیہ اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ (Narbonne)، بربنیان (Perpignan)، قرقشونہ (Carcassonne) اور تولوشہ (Toulouse) وغیرہ تک جا پہنچا تھا، دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض ’غرناطہ‘(Granada) تک محدُود ہو گئیں۔
تاریخِ اندلس جہاں ہمیں عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتی ہے وہاں قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں کے عظیم کارہائے نمایاں سے بھی نقاب اُلٹتی نظر آتی ہے اور اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیادوں میں دراصل قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں ہی کا ہاتھ ہے اور اِسلامی ہسپانیہ کے سائنس دان بغداد کے مسلمان سائنسدانوں سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
ہسپانیہ میں سائنسی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ذکر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اَحوال اُس کی فتح اور اَدوارِ حکومت کے حوالے سے بھی بیان کر دیے جائیں تاکہ قارئین کو اُس کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔
اَدوارِ حکومت
اِسلامی ہسپانیہ کی تاریخ درج ذیل بڑے اَدوار میں منقسم ہے:
ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی افریقہ کی گورنری تفوِیض ہوئی۔ اُس دور میں ہسپانیہ کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی اَبتر تھی۔ عیش کوش ’گاتھ‘ حکمرانوں نے غریب رِعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔ انھیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی سوچی اور وہاں سے فرار ہو کر موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کرکے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے ہسپانیہ کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔
ہسپانیہ پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لیے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام ’طریف‘ کی کمان میں جولائی 710ء میں 100 سواروں اور 400 پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں ’طریفہ‘ کہا جاتا ہے۔
آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد ’طریف‘ نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جا سکتی ہے۔
موسیٰ بن نصیر نے اگلے ہی سال 711ء بمطابق 92ھ معروف بربر جرنیل ’طارق بن زیاد‘ کو 7,000 فوج کے ساتھ ہسپانیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان میں واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے ہسپانیہ کے ساحل پر جبل الطارق (Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔
’طارق‘ کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران ’راڈرک‘ کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
أیها النّاسُ! أین المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر۔[2]
اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمھارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمھارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شریف اِدریسی نے اپنی کتاب ’’نُزھۃُ المشتاق‘‘ میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔ بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔
اِسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی ،مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پزیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔[3]
اِسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیاد اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا ہسپانیہ فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دار الحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبد العزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔
’موسیٰ بن نصیر‘ اور ’طارق بن زیاد‘ کی واپسی کے بعد 714ء سے 756ء تک 43 سالوں میں ملک سیاسی حوالے سے عدم اِستحکام کا شکار رہا۔ اُس دوران میں کل 22 گورنر اندلس میں مقرر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی اور تہذیبی اِرتقاء کے ضمن میں اُس دور میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔ اندلس کی تاریخ میں یہ دور کافی حد تک غیر واضح ہے۔ اُس دَور کو اِسلامی ہسپانیہ کی تاریخ میں عصرِ وُلاۃ (یعنی گورنروں کا دَور) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
40 ہجری سے 132 ہجری تک عالمِ اِسلام پر حکمرانی کے بعد جب اموی دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس نے غلبہ پانے کے بعد شاہی خاندان کے اَفراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو اموی خاندان کے چند اَفراد بمشکل جان بچا سکے۔ اُنہی بچ نکلنے والوں میں سے ’ہشام بن عبدالملک‘ کا 20 سالہ نوجوان پوتا ’عبدالرحمن اول‘ بھی تھا جس کی ماں ’قیوطہ‘ افریقہ کے بربری قبیلہ ’نفرہ‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ عبدالرحمن اول نے عباسیوں کے مظالم سے بچنے کے لیے افریقہ کا رُخ کیا جہاں اُس کے لیے پناہ کے مواقع ایشیا کی نسبت بہت زیادہ تھے۔ وہ افریقہ سے گزرتا ہوا 5 سال بعد اندلس کے ساحل تک جا پہنچا۔ جہاں اموی دور کی شاہی اَفواج موجود تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبدالرحمن اول نے اُن میں اِتنا اثر پیدا کر لیا کہ انھوں نے اُسے اپنا کمانڈر بنا لیا۔ یہ فوج شمال کی سمت چلی اور چند ہی سالوں میں تمام اندلس اُس کے زیرِ قبضہ آگیا۔ مقامی اُمراء اور عوام نے اُس کی اِطاعت قبول کر لی اور پورا ملک آزاد اُموی ریاست کی صورت اِختیار کر گیا۔
تاریخ اُسے ’عبدالرحمن الداخل‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اُس نے اندلس پر 756ء سے 788ء تک کل 32 سال حکومت کی۔ اس دوران میں اُس نے مقامی اُمراء کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے علاوہ فرانس کے بادشاہ ’شارلیمان‘ کا حملہ بھی بری طرح پسپا کیا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا ’ہشام‘ تختِ سلطنت پر بیٹھا۔ اُس کے عہد میں مسلمانوں نے جنوبی فرانس کے بہت سے شہروں کو فتح کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فقہ مالکی کو ریاست میں قانون کی بنیاد کے طور پر نافذ کیا گیا۔
822ء میں ’عبدالرحمن ثانی‘ تخت نشین ہوا۔ اُس کے 30 سالہ دورِ حکومت میں ملک اِنتظامی طور پر مضبوط ہوا۔ علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا، سائنسی علوم کی تروِیج عام ہونے لگی۔ صنعت و حرفت نے بھی بہت زیادہ ترقی کی اور تجارت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ اندلس کی بحری طاقت بڑھ جانے سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ یہ دَور تعمیرات اور دولت کی فرانوانی کا دَور تھا۔ (آگے چل کر ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔) دُوسری طرف یہی وہ دَور ہے جس میں یورپ میں اِسلام کے خلاف باقاعدہ طور پر مسیحی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس نے بعد ازاں صدیوں تک ہسپانیہ کے مسلمانوں کو جنگوں میں اُلجھائے رکھا اور بالآخر جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) سے نکال کر دَم لیا۔
اِسلامی ہسپانیہ کی تاریخ میں سب سے عظیم حکمران ’عبدالرحمٰن الناصر‘ تھا۔ اُس نے 21 برس کی عمر میں 912ء میں اپنے دادا ’عبد اللہ‘ کی وفات کے بعد سلطنت کا اِنتظام سنبھالا۔ یہ وہ دَور تھا جب اندلس میں مسلمان رُوبہ زوال تھے اور صلیبی تحریک خوب زور پکڑ چکی تھی۔ اُس نے ہر طرح کی داخلی بے امنی اور خارجی شورشوں کو کچل کر معاشرے کا امن بحال کیا اور ایک نئے دَور کی بنیاد رکھی۔ یہ اندلس کا پہلا حکمران تھا جس نے ’الناصر لدین اﷲ‘ کے لقب کے ساتھ اپنی خلافت کا اِعلان کیا۔ اپنے 912ء سے 961ء تک 49 سالہ دورِ حکومت میں اُس نے نہ صرف بہت سی مسیحی ریاستوں کو اپنا زیرِنگیں کر لیا بلکہ ملک کو عظیم اِسلامی تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بنا دیا۔ اُس کے دَور میں علوم و فنون کو عروج ملا جس سے اندلس اپنے دَور کی ایک عظیم ویلفیئر سٹیٹ بن کر اُبھرا۔
’عبدالرحمٰن الناصر‘ کے بعد ’حکم ثانی‘، ’ہشام‘ اور ’مظفر‘ تخت آرائے خلافت ہوئے مگر اُن کے بعد 1010ء میں سلطنت کا اِنتظام بکھرنا شروع ہوا اور پورا اندلس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ 1010ء سے 1031ء تک 21 سالوں میں کل 9 خلفاء تخت نشین ہوئے مگر کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ لاس کا۔ 1031ء میں اِنتشار اِس حد تک بڑھا کہ اُس کے نتیجے میں اندلس سے اموی خلافت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا، سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں اور ملوک نے حکومت شروع کر دی۔ تاریخ اُن سرداروں کو ’ملوکُ الطوائف‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
طائفے (واحد: طائفہ، عربی زبان سے: طائف، عربی میں جمع: طوائف، اردو میں جمع طائفہ جات، یعنی ایک جماعت، بینڈ یا دھڑا) جزیرہ نما آئبیریا (یعنی جدید پرتگال اور اہسپانیہ) کی آزاد مسلم ریاست تھیں، جو 1009ء اور 1031ء کے درمیان میں اموی خلافت کے زوال سے ابھرے تھے۔ ایسے کوچک ریاستیں اندلس کی تاریخ کی ایک بار بار خصوصیت تھیں۔ 11 ویں صدی عیسوی کے آخر میں المُرابطون کے ذریعہ مغلوب ہوئی۔
شمالی افریقہ کے بربری خاندان اور تحریکِ مرابطین کے زیرِ اِنتظام قائم حکومت کے تیسرے حکمران ’یوسف بن تاشفین‘ کا دورِحکومت (1091ء تا 1106ء) شمالی افریقہ کے بہترین اَدوار میں سے ایک ہے۔ اُس کے کارہائے گراں مایہ کے اِعتراف میں بغداد کی خلافت کی طرف سے اُسے ’امیر المؤمنین‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ جب اندلس میں طوائفُ الملوکی حد سے بڑھی اور مسیحی حکومتوں کی طرف سے مسلمان ریاستوں پر حملوں کا آغاز ہوا اور اِسلامی اندلس کی سرحدیں سُکڑنا شروع ہوئیں تو ملوکُ الطوائف کو اپنے اِنجام سے خطرہ لاحق ہوا۔ ایسے میں انھیں ہمسایہ مسلمان ریاست کا فرمانروا ’یوسف بن تاشفین‘ اپنی اُمیدوں کے آخری سہارے کی صورت میں دِکھائی دیا۔ اندلس کے سفیروں نے ’یوسف بن تاشفین‘ کو اندلسی مسلمانوں پر ہونے والے مسیحیوں کے مظالم کی لرزہ خیز داستان سنائی اور اُسے صلیبی حملوں کے خلاف اِمداد کے لیے بلایا، جس کے نتیجے میں وہ 1086ء میں 100 جہازوں کے بیڑے کے ساتھ 12 ہزار کی فوج لے کر افریقہ کی بندرگاہ ’سبتہ‘ سے اندلس روانہ ہوا۔ ملوکُ الطوائف بالخصوص معتمد اشبیلیہ (Seville) کے 8,000 اَفواج بھی اُس کے ساتھ آن ملیں۔ یوں 20,000 اَفواج کے ساتھ اُس نے ’سرقسطہ‘ (Zaragoza) کے مقام پر ’لیون‘ (Leon) کے حملہ آور باشادہ ’الفانسو ششم‘ کے 80,000 سپاہیوں کو تہِ تیغ کیا، جن میں سے بمشکل چند سو سپاہی جان بچا کر اپنے وطن واپس لوٹ سکے۔
معرکۂ زلاقہ کے نام سے معروف یہ لڑائی اِس اِعتبار سے ہسپانیہ کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے کہ مسیحیوں کی طرف سے مسلمانوں کو جو زبردست خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ ایک طوِیل عرصے کے لیے ٹل گیا۔ اگر یوسف بن تاشفین مسیحیوں کا پیچھا کرتا تو اُن کی طاقت کو مستقل طور پر ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کر سکتا تھا مگر اُس نے واپسی کا اِرادہ کیا اور اپنی 3,000 فوج اشبیلیہ (Seville) کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر باقی لشکر کے ساتھ عازمِ افریقہ ہوا۔
’یوسف بن تاشفین‘ تو ’الفانسو‘ کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد واپس افریقہ چلا گیا مگر اندلس کے ملوک اِس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ اُن کا اِتحاد کسی صورت نہ رہ سکا اور ملک میں پھر سے اَمن و امان کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ یوسف نے چند سال بعد اندلسی علما اور عوامُ الناس کے بھرپور اِصرار پر 1091ء میں اندلس کو اپنی افریقی ریاست کے ساتھ مدغم کر لیا، یہیں سے مرابطون کے دور کا آغاز ہوا۔
اُس دَور میں اندلس کا امن اور خوش حالی ایک بارپھر عود کر آئی تاہم یہ کوئی زیادہ طویل دَور نہ تھا۔ المُرابطون کا دورِ حکومت صرف 54 سال تک قائم رہنے کے بعد 1145ء میں ختم ہو گیا۔ صدیوں پر محیط اندلس کی تاریخ میں اِس مختصر دَور کو فلاحِ عامہ کے نکتۂ نظر سے اِنتہائی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
مغربِ اَقصیٰ (موجودہ مراکش) سے 1120ء میں ایک نئی اِصلاحی تحریک نے جنم لیا، جس کا بانی ’محمد بن تومرت‘ تھا۔ مہدیت کے دعوے پر مشتمل اُس کی تبلیغ مَن گھڑت عقائد و نظریات کے باوُجود بڑی پُراثر تھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ اُس کے مُرید ہونے لگے بلکہ جلد ہی وہ افریقہ کی ایک عظیم سیاسی قوت کی صورت میں اُبھرا۔ اُس کے مریدین مؤحّدون کہلاتے تھے۔ ’محمد بن تومرت‘ کے جانشین ’عبدالمومن علی‘ کے دَور میں اُس تحریک نے اپنی سیاسی قوت میں بے پناہ اِضافہ کیا، جس کے نتیجے میں 1145ء میں المُرابطون کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
جن دِنوں مؤحّدون نے المُرابطون کا خاتمہ کیا ہسپانیہ کے صلیبی بادشاہ ’الفانسوہفتم‘ نے ’قرطبہ‘ (Cordoba) اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) سمیت اندلس کے بہت سے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ اندلس میں موحدین کے دَور کا آغاز ایک سُکڑی ہوئی ریاست کے طور پر ہوا۔ اس کے باوُجود عبدالمومن کے جانشینوں نے نہ صرف صلیبی حملوں کا پُرزور مقابلہ کیا بلکہ ریاست کی تمدّنی ترقی کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ بہت سی مساجد، محلات، فوجی مدرسے، قلعے، پل اور سڑکیں اُسی دَور میں تعمیر ہوئیں۔ اُس دَور میں بندرگاہوں کی توسیع بھی عمل میں آئی اور جہاز رانی کے کارخانے قائم ہوئے۔ صنعت و حرفت کو خوب فروغ ملا اور تجارت نے بھی ترقی کی۔
1212ء میں مؤحّدون کے آخری فرمانروا ’ابو عبد اللہ محمد الناصر‘ نے ’الفانسونہم‘ کی زیرقیادت حملہ آور قشتالہ، لیون، نبرہ اور آراغون کی مشترکہ عساکر سے ’العقاب‘ کا معرکہ میں شکست کھائی۔ یہ جنگ مسلمانوں کے حق کے خلاف فیصلہ کن ثابت ہوئی اور آئندہ کہیں بھی وہ مسیحیوں کے خلاف جم کر نہ لڑ سکے اور اُن کی عظمت و شکوہ کا سکہ پامال ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ جس کے نتیجے میں اندلس ایک بار پھر طوائفُ الملوکی میں گھِرگیا جو 1232ء تک جاری رہی۔
المُرابطون کے خاتمے پر بہت سے طائفہ جات الموحدون کے بعد دوبارہ قائم ہوئے۔ الموحدون کے سقوط کے نتیجے میں طائفہ جات کی حتمی نشو و نما ہوئی۔ لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے آخر میں، سوائے مملکت ِغرناطہ کی، باقی تمام طائفہ جات شکست کھا کہ مغلوب ہو کر شمال کی مسیحی مملکتیں میں شامل کر لیا گیا۔
مؤحّدون کے بعد ملک میں چھانے والی طوائفُ الملوکی کے دوران میں اندلس کی حدُود تیزی سے سمٹنے لگیں اور بہت سی مسلم ریاستیں یکے بعد دِیگرے مسیحی مقبوضات میں شامل ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ ’خاندانِ بنو نصر‘ کے آغاز سے قبل اِسلامی ہسپانیہ محض 700 میل کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل رہ گیا، جس میں غرناطہ (Granada)، المریہ (Almeria)، مالقہ (Malaga)، قادِس (Cadiz)، بیضاء (Baza) اور جیان (Jaen) کے مشہور شہر شامل تھے۔
غرناطہ کا خاندانِ بنو نصر جس نے 1232ء سے 1492ء تک 260 سال حکومت کی، تاریخِ اندلس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اُس خاندان نے اِتنے طوِیل عرصے تک اپنے محدُود ریاستی وسائل کے باوُجود یورپ بھر کی اِجتماعی یلغار کو روکے رکھا۔ 1423ء میں صحیح معنوں میں ریاست کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر 2 جنوری 1492ء کے تاریخی دِن اپنے اِنجام کو جاپہنچا۔
مسیحی قابضین نے غرناطہ (Granada) کے مسلمان عوام کے ساتھ کیے گئے جان، مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کے وعدے کے برخلاف اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں تبدیلی مذہب یا جلاوطنی میں سے ایک پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں ہسپانیہ سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ ہو گیا۔
ہسپانیہ کی سرزمین اِسلام کی علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اُس کا مقام مردم خیزی میں کسی طرح بھی بغداد (Baghdad) اور دمشق (Damascus) کی دار العلوم سے کم نہیں۔ اندلس کی کوکھ سے جن عظیم سائنسدانوں نے جنم لیا یہ اُنہی کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ (Cordoba) جیسا عظیم شہر قرونِ وُسطیٰ میں رشکِ فلک بنا۔ اندلس کی تمدّنی زندگی کے پیچھے اُس کے جلیل القدر سائنسدانوں ہی کا ہاتھ تھا۔ قرونِ وُسطیٰ کی بہت سی نامور شخصیات اندلس ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ عظیم مفسرِ قرآن اِمام شمس الدین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ، مشہورِ عالم سیاح ابن بطوطہ اور ابن جبیر، موجدِ سرجری و ماہرِاَمراضِ چشم ابو القاسم الزہراوی، معروف فلسفی و طبیب ابن باجہ، خالق فلسفۂ وحدتُ الوُجود ابن عربی، عظیم فلسفی و طبیب ابن رشد، بطلی موسی نظریۂ کواکب کا دلائل کے ساتھ ردّ کرنے والے عظیم اِسلامی ماہرینِ فلکیات ابو اسحاق الزرقالی اور ابو اسحاق البطروجی، تاریخ و عمرانیات کے اِمام ابن خلدون، نامور طبیب یونس الحرانی، معروف جغرافیہ نگار و ماہرِ فلکیات شریف الادریسی، ہوائی جہاز کا موجد عباس ابن فرناس، نامور طبیب ابن الہیثم، ماہرِ فلکیات و الجبراء نصیر الدین طوسی اور دِیگر بے شمار علمی و ادبی شخصیات کا تعلق ہسپانیہ ہی کی عظیم سرزمین سے تھا۔
اِن مسلمان سائنسدانوں نے علم کو صرف اِسلام ہی کی دولت سمجھتے ہوئے محدُود کرنے کی بجائے اپنے دروازے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے کھلے رکھے اور علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ وِرثہ قرار دیا۔ چنانچہ ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں میں مسیحی اور یہودی طلبہ بھی بڑی تِعداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمان سائنسدانوں کے یہودی و مسیحی شاگرد بعد میں نامور سائنس دان ہوئے اور اپنی قوم میں سائنسی تعلیم کی تروِیج کا باعث بنے۔ یہیں سے ہسپانیہ کا علمی سرمایہ مغربی اور وسطی یورپ منتقل ہونا شروع ہوا۔
معروف مستشرق ’منٹگمری واٹ‘ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے :
Already when the fortunes of the Muslims were in the ascendant, their learning had attracted scholars of all faiths. Spanish Jews in particular were—including the great Maimonides (1135–1204) -- sat at the feet of Arabic-speaking teachers and wrote their books in Arabic.
(W. Montgomery Watt A History of Islamic Spain P.157)
ترجمہ :
جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی تو اُن کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ ہسپانیہ کے یہودی بطورِ خاص عرب فکر سے متاثر ہوئے اور (عظیم میمونائیڈز سمیت) اُن میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمّذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں۔
اسلامی ہسپانیہ کے آٹھ سو سالہ دَور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی اِرتقاء کے عمل سے گذرے۔ ہسپانیہ میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر تروِیج کا باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمٰن الناصر‘ کے دَور (912ء تا 961ء) میں ہوا، جو ہسپانیہ کی اُموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اِسلامی ہسپانیہ کے اِبتدائی 200 سالہ دَور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے اِنعقاد اور دُنیا کے تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا مگر اُس کام کی رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اُس دو سوسالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمٰن الناصر‘ کا دَور جہاں تمدّنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہاں سیاسی اِستحکام کی بدولت علوم و فنون کی تروِیج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ دَور تھا جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادئ اَفکار نصیب ہوئی اور انھوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علم ہیئت (astronomy)، علم ریاضی (mathematics)، علم طب (medical science)، علم نجوم (astrology)، علم کیمیا (chemistry)، علم نباتات (botany)، علم جغرافیہ (geography) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔
تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جاپہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے اٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصوّر بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادِر کیا گیا تھا۔ دُوسری طرف اِسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمٰن الناصر‘ کے جانشین ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (961ء تا 976ء) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دُنیا بھر میں شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ وہاں کتب فروشوں کی دُکانیں 20 ہزار تک جاپہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اِہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے زرِیعے اُن کی نقول بھی تیار کرواتے تھے۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں 170 کے قریب خواتین قرآن مجید کو خط کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔
قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، مالقہ (Malaga)، سرقسطہ (Zaragoza)، اشبیلیہ (Seville) اور جیان (Jaen) میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ صرف قرطبہ شہر میں حکم ثانی نے بالکل مفت تعلیم کے لیے 27اسکول قائم کر رکھے تھے۔ پرائیویٹ تعلیمی اِدارے اُن کے علاوہ تھے۔ نہ صرف تمام اَساتذہ بلکہ مستحق طلبہ کو بھی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے اور دورانِ تعلیم اُن کی کفالت کی مکمل ذِمہ داری حکومت پر تھی۔ اندلس تعلیمی میدان میں دورِ حاضر کی جدید تہذیب کی کسی بھی فلاحی ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہ تھا۔ لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔
اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (961ء تا 976ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ ہیئت (astronomy)، ریاضی (mathematics)، طب (medical sciences)، نجوم (astrology)، کیمیا (chemistry)، طبیعیات (physics)، فلسفہ (philosophy)، منطق (logic)، تاریخ (history) اور جغرافیہ (geography) سمیت تمام علوم عقلیہ پر مشتمل 4 لاکھ سے زیادہ (ایک رِوایت کے مطابق 6 لاکھ) کتب موجود تھیں۔ اُس لائبریری کی کیٹلاگ 44 بڑی جلدوں پر مشمل تھی۔ خلیفہ چونکہ خود بہت بڑا عالم تھا اور سائنس سے گہری دِلچسپی رکھتا تھا اِس لیے اُس نے اُن میں سے بیشتر کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اُن پر جابجا حواشی بھی چڑھا رکھے تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جاہل پادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلادیں، جن میں ’الحکم‘ کی عظیم الشان لائبریری بھی شامل تھی۔
بنو اُمیہ کے بعد اندلس پر چھانے والی ’طوائف الملوکی‘ اور بعد ازاں ’المُرابطون‘ کے دَور میں علمی اِرتقاء کا کام کسی حد تک زیرِ زمین چلا گیا مگر جونہی مؤحّدون کا دَور شروع ہوا پہلے کی سی تیزی پھر سے لوٹ آئی اور علمی و فکری میدانوں میں اِرتقاء کی رفتار روز اَفزوں ہو گئی۔ ملک بھر میں جا بجا سینکڑوں تعلیمی اِدارے قائم ہوئے۔ عہدِ مؤحّدون میں صرف قرطبہ (Cordoba) میں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے 800 سے زائد تعلیمی اِدارے قائم تھے، جہاں 10,000 سے زیادہ طلبہ مذہبی و سائنسی ہر دو قبیل کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
سقوط قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ (Granada) کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی۔ انھوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و ادب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوںاسکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی تروِیج میں مصروف تھے۔ شہر میں 70 بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں ہسپانیہ کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔
جیسا کہ ہم پہلے ذِکر کر چکے ہیں کہ ہسپانیہ کا علمی اِرتقاء بغداد اور دمشق کی نسبت کافی تاخیر سے شروع ہوا، جس کی وجہ ریاست کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمٰن الناصر‘ کی تخت نشینی کے بعد جہاں ملک میں اَعلیٰ تہذیب و ثقافت پروان چڑھی وہاں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ بھی اُس دَور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سائنسی علوم کی حقیقی بنیاد اُسی دَور میں پڑی۔ عبدالرحمٰن الناصر کا دَور کاملاً آزادئ اَفکار کا دَور تھا، جس کے نتیجے میں فقہائے مالکیہ کی گرفت خاصی کمزور پڑ گئی اور لوگ آزادانہ طور پر سائنس و فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سائنس کی بہت سی شاخوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’عبدالرحمٰن الناصر‘ اور اُس کے جانشین ’حکم ثانی‘ نے یونانی علوم کی وہ کتابیں جنہیں پہلے سے بغداد میں عربی میں ترجمہ کر لیا گیا تھا وہ اندلس منگوائیں اور انھیں سائنسی علوم کی بنیاد قرار دے کر مزید تحقیقات کے دَر وَا کیے۔
یونانی علما کا اندازِ فکر فلسفیانہ مُوشگافیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے اپنی تحقیقات میں تجربہ کو کسوٹی قرار دیا اور علم کے باب میں ایک نئے فکر ’’سائنسی طریقِ کار‘‘ کو فروغ دیا۔ سائنسی طریقِ کار کا حقیقی بانی بغداد کا مسلمان سائنس دان ’ابو البرکات البغدادی‘ (1065ء تا 1155ء) ہے جس نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور وخوض کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ مسلمانوں نے اِس فکر کو فروغ دیا کہ تجربہ ہی وہ کسوٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد زرِیعہ ہے۔
بغداد سے نشر ہونے والے اِس نئے فکر کو۔۔۔ جو اِسلام ہی کی دی گئی تعلیمات پر مشتمل تھا۔۔۔ جلد ہی تمام مسلمانانِ عالم نے دِل و جان سے قبول کر لیا۔ چنانچہ ہسپانیہ میں بھی تجربہ علومِ سائنس کے حصول کے لیے حتمی کسوٹی قرار پایا۔
یوں تو ہسپانیہ میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا جن میں سے بیشتر کا ذِکر ’’قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کے فروغ‘‘ کے تحت گذر چکا ہے۔ تاہم علم الطب (medical sciences)، علم الہیئت (astronomy) اور علمِ نباتات (botany) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔
اَوائل دَورِ اِسلام میں دُوسرے بہت سے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ علم الطب (Medical sciences) کی کتب کو بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اُس دَور میں طبی تحقیقات کا سارا دار و مدار مسیحیوں بالخصوص یونانیوں کی مترجمہ (translated) کتب پر تھا۔ بغداد کی طرح ہسپانیہ میں بھی پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمان اَطباء نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔
ہسپانیہ میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے زرِیعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔ علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لیے ہسپانیہ کے نوجوان حصولِ علم کے لیے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اسحاق بن عمران، اسحاق بن سلیمان اور ابن الجزار اُس دَور میں ہسپانیہ میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی ممالک سے ترکِ سکونت کر کے ہسپانیہ میں آئے تھے۔
ہسپانیہ میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ امراض، امراض نسواں، امراضِ اطفال، امراض چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے۔ ابوالعلا زہر صرف نبض اور قارورہ دیکھ کر مرض کی کامل تشخیص کر لیتا تھا، جبکہ ابن الاصم تشخیصِ اَمراض میں اِس قدر ماہر تھا کہ محض نبض دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ مریض کیا کھا کر آیا ہے۔
سرجری میں ابو القاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علم جراحت (surgery) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ ایسا ماہر سرجن تھا کہ ایک بار اُس نے ایک ایسے آدمی کا کامیاب آپریشن کیا جس کا پیٹ چاک ہوئے 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گذر چکا تھا۔ زہراوی نے کمال مہارت سے اُس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی انتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کی مدد سے اُس کا پیٹ سی دیا۔ نہ صرف اُس شخص کی زندگی بچ گئی بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہو گیا۔
ابو القاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں ابوبکر الرازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کا مالک تھا۔ اُس نے آپریشن کے لیے خاص مہارت کے ساتھ خود ایسے بہترین آلات تیار کر رکھے تھے، جن کی مدد سے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا جن میں 100 فیصد کامیابی کی توقع دورِ حاضر کے ماہر سرجن بھی نہیں کر پاتے۔ وہ آنتوں کے آپریشن کے لیے بلی کی آنتوں سے تیار کردہ دھاگہ اِستعمال کرتا۔ زخم کی سلائی یوں کرتا کہ باہر کی سمت اُس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ وہ آپریشن سے قبل بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصۂ بدن کے آپریشن کے دَوران میں پاؤں کو سر سے اُونچا رکھنے کی تاکید کرتا۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederich کی طرف غلط منسوب کیے جاتے ہیں۔ وہ تکلیف دِہ سرجری کی صورت میں مریض کو بے ہوشی کی دوا (anaesthesia) دینے سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ آنکھوں کے آپریشن کا بھی ماہر تھا۔
لَوزَتین (tonsils) کے آپریشن کا طریقہ اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ پیٹ، جگر، پیشاب کی نالی، ناک، کان، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔
زہراوی نے علم الطب پر ایک ضخیم کتاب ’’التصریف لمن عجز عن التالیف‘‘ بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علم العلاج اور علم الدواء کے ساتھ ساتھ جراحت (surgery) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ زہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے۔ اُس کے اِیجاد کردہ بعض آلاتِ جراحی اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ اُن کا اِستعمال آج تک جاری ہے۔
ابو القاسم الزہراوی کے علاوہ ابن زہر بن مروان کا شمار بھی اِسلامی ہسپانیہ کے ماہر سرجنوں میں ہوتا ہے۔
آنکھوں کے اَمراض میں احمد الحرانی اور عمر الحرانی اندلس کے ماہر اَطباء میں سے تھے۔ یہ دونوں معروف اندلسی طبیب یونس الحرانی کے بیٹے تھے جو حصولِ علم کے لیے بغداد میں 10 سال رہ چکے تھے۔ اندلس واپس آکر انھوں نے آنکھوں کے اَمراض کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور اِس فیلڈ میں خاصے مشّاق (expert) ہو گئے۔ ابو القاسم الزہراوی نے بھی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں اُن کی تحقیقات سے اِستفادہ کیا۔ علاوہ ازیں ابن رشد اور ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر بھی آنکھوں کے اَمراض کے ماہر (ophthalmologist) تھے۔
عورتوں کے اَمراض بالخصوص ایام حمل اور جنین کی پرورش کے بارے میں اندلس میں عریب بن سعد الکاتب کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کے اَمراض کا ماہر معالج ہونے کے ناطے اُس نے اِس موضوع پر ”خلق الجنین و تدبیر الحبالیٰ والمولود“ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اُس نے جنین کی نشو و نما، حاملہ عورتوں کی بیماریوں، اُن کے بارے میں حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اِس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اسکوریال (ہسپانیہ) میں محفوظ ہے۔ ابو القاسم الزہراوی نے بھی ایک ماہر سرجن ہوتے ہوئے اپنی کتاب ”التصریف لمن عجز عن التالیف“ میں خواتین کے امراضِ مخصوصہ اور اُن کے علاج کے ساتھ ساتھ جنین کی مختلف حالتوں، وضعِ حمل اور غیر طبعی وِلادت کی صورت میں آپریشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
اندلس کے اَطباء کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ اُن کے کارناموں کا اِحاطہ کرنے کے لیے الگ کتاب درکار ہو گی۔
عبدالرحمٰن الناصر کے دَور (912ء تا 961ء) سے قبل ہسپانیہ میں علم ہیئت کے مطالعہ و تحقیقات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اُس سے پہلے فقط اِسی قدر مطالعۂ اَفلاک کو مشروع اور رَوَا رکھا جاتا تھا جس سے امور شرعیہ میں مدد ملتی ہو۔ نمازوں کے اَوقاتِ اِبتداء و اِختتام اور روزے میں سحری و اِفطاری کے اَوقات پر ہونے والی تحقیقات سے علم المیقات (time keeping) کی بنیاد پڑی۔ سمتِ قبلہ کے تعین میں ستاروں کی پوزیشن کا فائدہ اُٹھانے کے لیے علم الہیئت کا سہارا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اِبتدائے رمضان اور عیدین کے ہلال کی رؤیت کے لیے بھی مطالعۂ اَفلاک ناگزیر تھا۔ چنانچہ اِن اُمورِ شرعیہ کی بہتر بجاآوری کے لیے ضروری حد تک علم الہیئت (astronomy) حاصل کیا جاتا تھا۔
عبدالرحمٰن الناصر کے عہد تک یہ حالت برقرار رہی اور فقہائے مالکیہ کے اَثر و رُسوخ کے باعث فلسفے کی طرح علم ہیئت (astronomy) اور علم نجوم (astrology) کو بھی ناجائز تصوّر کیا جاتا رہا۔ اُس دور کے اکثر سائنس دان اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کو صیغۂ راز میں رکھتے اور کسی صورت ظاہر نہ ہونے دیتے، کیونکہ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ و منطق یا ہیئت و نجوم کا ماہر ہے تو اُسے زِندیق مشہور کر دیا جاتا اور لوگ اُس سے ملنا جلنا ترک کر دیتے۔
عبدالرحمٰن الناصر نے اپنے دورِ خلافت میں باضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علم الطب (medical sciences) کی طرح علم الہیئت (astronomy) کے حصول کے لیے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دمشق کا رُخ کرنے لگے۔
اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا۔ اُس نے حصولِ علم کے لیے مشرقی اِسلامی ممالک کا سفر کیا اور حساب (mathematics)، نجوم (astrology)، ہیئت (astronomy) اور طب (medical science) کے علوم حاصل کیے۔ اُس کے علاوہ اُس دَور میں علم فلکیات و نجوم میں ’مسلمہ بن قاسم‘ اور ’ابو بکر بن ابی عیسیٰ‘ کے نام بھی قابلِ ذِکر ہیں۔
اِسلامی ہسپانیہ کے ماہرینِ ہیئت نے مشرقی علوم کو اپنے ملک میں محض متعارف ہی نہ کرایا بلکہ مشرقی تحقیقات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر اُن میں بہت کچھ اِضافہ جات بھی کیے۔ اندلسی سائنسدانوں نے بہت سے آلاتِ رصد اِیجاد کیے جن کی بدولت آج کی جدید ہیئت کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو سکیں۔ اندلس کی سب سے بڑی رصدگاہ اشبیلیہ (Seville) میں تھی، جہاں مشہورِ عالم مسلمان سائنسدانوں نے اپنی سماوِی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ ’ابو اسحاق ابراہیم الزرقالی‘ (Arzachel) نے صدیوں سے مسلّمہ ’بطلیموسی نظریۂ اَفلاک‘ ردّ کرتے ہوئے زمین کی بجائے سورج کو نظام شمسی کا مرکز قرار دیا اور یہ ثابت کیا کہ تمام سیارے بیضوِی مداروں (elliptic orbits) میں سورج کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تمام سیاروں کی بیضوِی مداروں میں سورج کے گرد گردِش ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جسے نکولس کوپرنیکس جیسا عالی دِماغ جس پر پورے عالمِ مغرب کو فخر ہے 1514ء میں نظام شمسی سے متعلق دیے جانے والے اپنے نظریے میں بھی پیش نہ کر سکا۔ ابو اسحاق الزرقالی ہی وہ عظیم سائنس دان ہے جس نے اندلس میں سب سے معیاری اسطرلاب بنایا اور اُس کا نام ’’الصحیفہ‘‘ رکھا۔ اُس کے بنائے ہوئے اُسطُرلاب کے زرِیعے اجرام سماوی کا مُشاہدہ اِس قدر درُست ہوتا تھا کہ بغداد کے رہنے والے اِس فن کے بانی مسلمان سائنس دان بھی اُس کی عمدگی پر حیران تھے۔ ہوائی جہاز کے موجد ’عباس ابن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک فلکیاتی کمرہ (planetarium) بنا رکھا تھا جس میں اُس نے سیارگانِ فلکی کی گردِش، بادلوں کی حرکات اور آسمانی بجلی کی مصنوعی گرج چمک کا اِنتظام بھی کر رکھا تھا۔
’ابو بکر بن ابی عیسیٰ‘ کا نامور شاگرد ’مسلمہ المجریطی‘ بڑا ماہر سائنس دان تھا۔ اُس نے سورج، چاند اور دِیگر سیاروں کی حرکات کو عددی اُصول پر منظم کرتے ہوئے ’الخوارزمی‘ سے بھی بہتر ’زیج‘ (astronomical table) ترتیب دی اور اُسے عربی تاریخوں میں ظاہر کیا۔ اُس کے علاوہ بھی اندلس کے بہت سے سائنسدانوں نے ازیاج (astronomical tables) بنائے، جن کی رُو سے مشاہدۂ اَفلاک میں خاصی مدد ملتی تھی۔
ابو اسحاق الزرقالی کے علاوہ اِسلامی ہسپانیہ کے دُوسرے بہت سے ماہرینِ فلکیات بھی اپنے دَور کا مسلّمہ نظریۂ بطلیموس ردّ کر چکے تھے۔ ابو اسحاق بطروجی نے بطلیموسی نظریۂ کواکب کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا۔ اُس سے قبل ابن باجہ نے بھی اپنے طور پر اِس نظریہ کا بطلان کر دیا تھا۔ ’بطروجی‘ کا شمار جدید علم ہیئت کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ ’جابر بن افلح‘ کا ذِکر بھی اُنہی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بطلیموس کے نظریہ کے ردّ میں ’’کتابُ الھیئۃ فی اصلاح المجسطی‘‘ لکھی۔
اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ طبی بنیادوں پر نباتات پر تحقیق علم الطب کے فروغ کے لیے ایک جزوِلاینفکّ تھی۔ چنانچہ ’عبدالرحمن اول‘ نے قرطبہ میں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کے نام سے ایک ایگریکلچرل ریسرچ فارم بنایا، جہاں اَطباء اور نباتیوں (botanists) کو پودوں کے خواص، اُن کی اَفزائش اور اَثرات پر تحقیق کے گوناگوں مواقع میسر تھے۔ عبدالرحمن اول نے علمِ نباتات (botany) کی سرپرستی میں خاص دِلچسپی لی اور اندلس میں میسر نہ آنے والے پودوں اور درختوں کے بیج اور قلمیں دُور دراز ممالک سے درآمد کروائیں۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف براعظم افریقہ بلکہ بیشتر ایشیائی ممالک کی طرف بھی سرکاری وفود بھیجے جو نایاب پودوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش اور پیداوار میں مددگار ثابت ہوئے۔
طبی جڑی بوٹیوں کی اَفزائش میں وادی آش (Guadix)، المریہ (Almeria) اور غرناطہ (Granada) کے قریب جبل شلیر (Mulhacen) اندلس بھر سے بڑھ کر تھے۔ خوشبودار بوٹیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ زعفران مسلمان ماہرینِ نباتات (botanists) ہی نے اندلس میں متعارف کرایا۔ طلیطلہ (Toledo)، بلنسیہ (Velencia)، بیاسہ (Beyasa) اور وادئ حجارہ (Hijara Valley) زعفران کی پیداوار میں مشہور تھے۔ ماہرینِ نباتات کی شبانہ روز محنت سے اندلس میں زعفران اِس کثرت سے پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ آس پاس کے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح بنفشہ کی پیداوار بھی خاصی تھی۔ اندلس کے نباتیوں (botanists) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ برس ہا برس کی تحقیقات سے نباتات میں موجود جنسی تفاوت کا درُست مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔
اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اُناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔ اِس کے علاوہ لیموں، امرود، سیب، انجیر، زیتون، بھی، بادام، کیلا، آڑو، چکوترا، خربوزہ، انار، گنا، گندم، جو، چنا، جوار، مکئی اور چاول کی کاشت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اِن میں سے اکثر اَجناس بیرونِ ممالک برآمد کر کے خطیر زرِمبادلہ بھی کمایا جاتا تھا۔
وادئ آش (Guadix) اور اشبیلیہ (Seville) میں اعلیٰ قسم کی ’روئی‘ پیدا ہوتی جو مسلمان ماہرینِ نباتات ہی نے ہسپانیہ میں متعارف کروائی۔ روئی کو عربی میں ’قُطن‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہسپانوی میں alagodon اور انگلش میں cotton کہلانے لگا۔ اندلسی مسلمانوں کی تحقیقات سے ’پٹ سن‘ کے ایک نہایت اعلیٰ ریشے نے بھی جنم لیا، جس سے اچھی نسل کے دھاگے اور عمدہ قسم کا کاغذ تیار کیا جاتا تھا۔
ملک کے جنوبی ساحل پر واقع اکثر مقامات پر گنا کی فصل نہایت شاندار ہوتی، جس سے اعلیٰ قسم کی شکر (sugar) تیار کی جاتی۔
ابو عبید البکری، ابو جعفر بن محمد الغافقی، ابن بصال، ابن حجاج، شریف الادریسی، ابن الرومیہ، ابن بکلارش، ابو الخیر اشبیلی، ابن العوام اور ابن البیطار اندلس کے اسلامی عہد کے نامور نباتی (botanists) تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی تحقیقات کے ذریعے اندلس کو پودوں، درختوں اور فصلوں سے لاد دیا بلکہ اُن کی حفاظت کا بھی بخوبی اِنتظام کیا، چنانچہ ابن العوام نے پھلوں اور اناج کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے بہت سے طریقے ’کتابُ الفلاحہ‘ میں ذِکر کیے ہیں۔ اُس نے کچھ ایسے طریقے بھی تحریر کیے ہیں جن سے گندم بیسیوں سال تک خراب ہونے سے بچی رہتی تھی۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے اُن ماہرین کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق بڑے بڑے گودام تیار کیے جاتے جن میں غلہ اور اناج سالہا سال تک محفوظ رہتا۔
اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ علمی حالت سب سے بڑھ کر قابلِ رحم تھی۔ لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گنتی کے چند پادریوں کے سوا کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اور وہ پادری چمڑے پر لکھی پرانی کتابوں کو کھرچ کر اُنہی کے اُوپر نئی تحریریں لکھنا شروع کر دیتے تھے جس سے اُن کا بچا کھچا علمی سرمایہ بھی ضائع ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔
مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہسپانیہ کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی ہسپانیہ یورپ بھر کے لیے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا ہسپانیہ کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ ہسپانیہ نے جہاں علوم و فنون، صنعت و حرفت اور تجارت میں خوب ترقی کی وہاں تہذیب و ثقافت میں بھی قرونِ وُسطیٰ میں ہر طرف اُسی کا طوطی بولتا تھا۔
اِسلامی ہسپانیہ کا کلچر عرب مسلمانوں ہی کا مرہونِ منّت تھا، جو ترکِ سکُونت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے۔ وہ اِسلامی تہذیب کی خوشنما روایات بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے، جس سے ہسپانیہ کی سرزمین تہذیبی کمال کے عروج کو پہنچی۔
اِسلامی ہسپانیہ کے دارُالحکومت قرطبہ (Cordoba) کی آبادکاری کچھ اِس حسین انداز سے تھی کہ اُس کی سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات نے اُسے چار چاند لگا دیے تھے۔ قرطبہ اپنی علمی و فنی سرگرمیوں اور صنعتی و تجارتی اہمیت کے باعث دُنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ اندلس کے مسلمانوں نے خلفائے عباسیہ کی شان و شوکت اور پُرتکلف مہذّب زندگی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اندلس تہذیب و ثقافت اور فیشن میں دُنیا بھر میں ایک معیار کی حیثیت اِختیار کر چکا تھا اور دُنیا اُس کی مثالیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ بڑے بڑے عالیشان محلات اور بنگلوں کے علاوہ بڑے شہروں میں میلوں تک پھلوں اور پھولوں کے باغات اُسے جنتِ ارضی کی صورت دے چکے تھے۔
مسلمانوں نے جہاں ہسپانیہ کو تعمیرات سے آراستہ کیا وہاں اُسے تہذیبی اِرتقاء سے بھی منوّر کیا۔ ہسپانیہ جہاں معاشرہ اَمن و امان کی ناقابلِ مثال صورت میں چین سے زندگی بسر کر رہا تھا، وہاں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ نے شہریوں کو آسودہ حال کر دیا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ سرمایہ نئی صنعتوں میں لگانے لگے تھے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ لباس اور بہترین اَشیائے خور و نوش پر بے دریغ رقم خرچ کرتے تھے۔ تہذیبی تکلّفات اُن کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ آرائش و زبیائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے باہر باغیچے بنانے اور اُن میں دُور دراز ممالک سے نایاب درخت منگوا کر لگانے کا رواج عام تھا۔ اکثر گھروں میں فوارے اور حوض بھی بنائے جاتے تھے۔
عبدالرحمن الداخل کے دورِ حکومت میں جب ہسپانیہ میں اِسلامی سلطنت کو اِستحکام نصیب ہوا تو اُس نے ملک کی تعمیر و تزئین کی طرف خاص توجہ دی۔ اُس نے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جابجا باغات، فوّاروں، پختہ گلیوں، سڑکوں اور دِیدہ زیب عمارات کا جال بچھا دیا۔ گلی کوچے پختہ ہوتے اور اُن میں روشنی کا بخوبی اِنتظام حکومت کے خرچ سے ہوتا۔ شہروں میں سیورِیج کا بھی بہت اعلیٰ اِنتظام تھا۔ بلنسیہ (Valencia) کے بڑے گندے نالے پر پکی چھت تھی اور وہ اِتنا چوڑا تھا کہ ایک چھکڑا بآسانی اُس کے اُوپر چل سکتا تھا۔ عبد الرحمن اوّل ہی نے دریائے وادئ کبیر (Guadalimor River) اور دریائے شنیل (Genil River) کے کنارے آباد اکثر شہروں کو متعدّد نہریں کاٹ کر پانی بہم پہنچایا۔ غرناطہ کے باہر ایک عظیمُ الشان محل بنایا اور اُس کے اَطراف میں وسیع و عریض باغ لگایا، جس کا نام ’رصّافہ‘ رکھا۔
عرب سے درخت منگوا کر اندلس کی سرزمین میں لگانے کا سلسلہ بھی عبد الرحمن اوّل ہی کے دَور سے جاری تھا۔ اُسی محل کے پائیں باغ میں اُس نے اپنے وطن دِمشق سے کھجور کا ایک درخت منگوا کر لگایا جو اُسے اُس کے وطن کی یاد دِلاتا تھا۔ ایک روز کھجور کے اُس درخت کو دیکھ کر اُسے اپنا وطن اور اپنی بے سروسامانی کی حالت یاد آ گئی جس پر اُس نے بڑے ہی پُرسوز اَشعار کہے۔ ’تاریخِ مقرّی‘ میں اُس کے وہ اَشعار محفوظ ہیں۔
حکیمُ الاُمت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالِ جبریل میں اُن اَشعار کا مفہوم اور اپنے اِحساسات ایک نظم کی صورت میں یوں پیش کیے ہیں :
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرُور ہے تو
اپنی وادی سے دُور ہوں میں
میرے لیے نخلِ طور ہے تو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بار وَر ہو
ساقی تیرا نمِ سحر ہو
عالم کا عجیب ہے نظارہ
دامانِ نگہ ہے پارہ پارہ
ہمت کو شناوری مبارک
پیدا نہیں بحر کا کنارہ
ہے سوزِ درُوں سے زندگانی
اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ
صبحِ غربت میں اور چمکا
ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اِسلامی ہسپانیہ کے دُوسرے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے بھی خطۂ عرب سے بہت سے نئے پھلدار درخت ہسپانیہ میں متعارف کروائے اور جا بجا اُن کے باغات لگوائے۔ اُن میں سے کچھ باغات کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔
عبد الرحمن دُوُم کے دورِ حکومت میں ملک تہذیب کے عروجِ کمال کو جا پہنچا تھا۔ مشرقی و مغربی تہذیب کے سنگم سے ایک نئے اِمتزاج نے جنم لیا۔ موسیقی سے عبد الرحمن دُوم کو خاص لگاؤ تھا۔ اُس کے عہد میں اندلس میں موسیقی کے بڑے باکمال اساتذہ پیدا ہوئے جنھوں نے مشرق و مغرب کے دُور دراز ممالک سے بھی صاحبانِ ذوق سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اِسلامی عہد کی صوفیانہ موسیقی اُس عہد میں اپنے کمال کو جا پہنچی اور بعد اَزاں اُس نے یورپ کی موسیقی پر بھی گہرے اَثرات مرتب کیے۔
ہسپانیہ کی ثقافتی ترقی کا تذکرہ ہو اور اُس میں ’اُستاد زریاب‘ کا ذِکر نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ خلافتِ بغداد کے نامور موسیقار ’اِسحاق موصلی‘ کا عظیم شاگرد ’زریاب‘ بغداد سے ہجرت کر کے ہسپانیہ میں جا آباد ہوا۔ اُس نے ہسپانیہ کی تہذیب و ثقافت میں کئی درخشاں اَبواب کا اِضافہ کیا۔ وہ بلامبالغہ ہسپانیہ کا ’تان سین‘ تھا۔ ایک رِوایت کے مطابق اُسے ہزار راگ یاد تھے۔ موسیقی و دِیگر فنونِ لطیفہ کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیت میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر فن مولا تھا۔ اُس کا ذوقِ لطیف بڑا عالی تھا اور وہ بے حد ذہین بھی تھا۔
موسیقی کے علاوہ اُس نے اِسلامی ہسپانیہ کی تہذیب کے اِرتقاء میں دُوسرے بہت سے پہلوؤں پر بھی خاص توجہ دی۔ نئے نئے فیشن نکالنے میں اُسے کمال مہارت حاصل تھی۔ اُس نے ملک میں ’فنِ آرائش‘ (decorative art) کو تروِیج دی۔ وہ شاہی مجالس کی تزئین و آرائش کا ماہر تھا۔ اُس نے اندلس کے لباس اور طعام میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں۔ نئے نئے فیشن اِیجاد کر کے جہاں اُس نے لوگوں کو بہترین اور دیدہ زیب لباس تیار کرنے کا ڈھنگ سکھایا اور ہسپانیہ کے طرزِ معاشرت میں اِنقلاب پیدا کیا، وہاں وہ ایک ماہر باورچی (cook) بھی تھا۔ ہسپانیہ کے بہت سے کھانے اُسی نے اِیجاد کیے، جن کی باقیات آج کے ہسپانیہ میں بھی موجود ہیں۔ اُس نے عام کھانے پکانے کے بھی نئے نئے طریقے نکالے جن سے کھانے زیادہ لذیذ تیار ہوتے تھے۔ اُس نے کھانے کے لیے شیشے کے برتنوں کو بھی رواج دیا اور چمچ اور چھری کانٹے سے کھانے کا طریقہ بھی نکالا۔
اُس کی بدولت لوگ مختلف موسموں میں مختلف فیشن اور رنگوں کا لباس پہننے لگے۔ سر کے بالوں کی مانگ بائیں طرف سے نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ اُس سے قبل ساری دُنیا کے لوگ ہمیشہ درمیان میں سے مانگ نکالتے تھے۔ یورپ بھر میں اُسے فیشن کا باوا آدم سمجھا جاتا تھا۔ الغرض اُس نے یورپ کے کلچر میں ایک حسین اِنقلاب بپا کر دیا جس کے اَثرات آج کے یورپ میں بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شومئ قسمت کہ آج کے سادہ لوح مسلمان اِن میں سے بہت سی اشیاء کو ’مغربی تہذیب‘ کا نام دے کر ناپسند کرتے ہیں، حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ یورپ کی موجودہ تہذیب میں بہت کچھ ہمارے ہی اَجداد کا تہذیبی وِرثہ ہے اور اگر آج ہم اُس میں سے کسی اچھی بات پر عمل کرتے ہیں تو وہ یورپ کی نقّالی ہرگز نہیں بلکہ ہماری اپنی ہی کھوئی ہوئی تہذیب کی بازگشت ہے۔
’’اگر دُنیا کو ایک انگوٹھی فرض کر لیا جائے تو قرطبہ اُس کا نگینہ ہے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو آج سے 12 صدیاں قبل ایک جرمن نن نے عبد الرحمن سُوم کے شہر قرطبہ (Cordoba) کے بارے میں کہے تھے۔ اِسلامی ہسپانیہ کا دارُالحکومت ’قرطبہ‘ خلافتِ عباسیہ کے دارُالخلافہ ’بغداد‘ (Baghdad) سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ بعض وُجوہ کی بنا پر اُسے بغداد پر فوقیت حاصل تھی۔
شہر کی آبادی 10,00,000 سے متجاوز تھی، جس میں 2,00,000 سے زائد رہائشی مکانات موجود تھے۔ سکے سے بنی پائپ لائنوں کی مدد سے اِتنے وسیع و عریض شہر کو پینے کے تازہ پانی کی فراہمی اُس دَور کا سب سے عظیم کارنامہ تھا۔ قرطبہ میں کل 80,400 دُکانیں تھیں، جن میں سے تقریباً 20,000 فقط کتب فروشی اور اُس سے متعلقہ کاروبار کے لیے وقف تھیں۔ قرطبہ یورپ کے دورِ جاہلیت (dark ages) کے دوران میں ایک عظیمُ الشان علمی مرکز کے طور پر اُبھرا۔ شہر میں 3,000 مساجد، 80 کالج، 50 ہسپتال، 700 حمام اور غلّے کو محفوظ رکھنے کے لیے 4,300 گودام تھے۔ میلوں طوِیل سڑکیں پختہ پتھروں سے بنی تھیں۔ رات کے وقت شہر میں روشنی کا بخوبی اِنتظام تھا۔ سرِشام ہرکارے گلیوں میں نصب ستونوں سے آویزاں لیمپوں میں تیل ڈال جاتے، غروبِ آفتاب پر انھیں جلا دیا جاتا اور ساری ساری رات اُن کی روشنی سے سڑکیں اور گلیاں منوّر رہتیں۔ یہ اُس دَور کا ایک اور ناقابلِ یقین عظیم کارنامہ تھا۔
اِسلامی ہسپانیہ کی تہذیب تو آج سے 12 صدیاں قبل ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھی جبکہ کوہِ پیرینیز (Pyrenees) کی دُوسری طرف یورپ بھر کے تمام مسیحی ملکوں کی علمی و تہذیبی حالت اور معیارِ زندگی اِس قدر ناگفتہ بہ تھا کہ پیرس اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی راتیں گھپ اندھیرے میں گزرتی تھیں، جس سے اکثر وہاں امن و امان کا مسئلہ درپیش رہتا۔ گلیاں کیچڑ اور سیوریج کے بیماریاں پھیلاتے پانی سے اَٹی رہتیں اور صدیوں بعد تک بھی اُن کی گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کا اِنتظام نہ ہو سکا۔
حرکت میں برکت اور کام میں عظمت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو محنت و مشقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ ہر نبی اپنی اُمت کے لیے آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت قیامت تک کی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو محنت میں عظمت کا درس دیا۔
کسی خاص فن میں کی گئی محنت جب ایک خاص مہارت تک پہنچتی ہے تو اُسے ’حرفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہیں سے صنعت و حرفت کو بنیاد ملتی ہے اور انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی ’محنت میں عظمت‘ کے عظیم تصوّر کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
إنّ اﷲ يحب إذا عمل أحدکم عملاً أَنْ يتقنہ۔
(مجمع الزوائد، 4 : 98)
بے شک اللہ اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو سر انجام دے تو اُسے مضبوطی سے کرے۔
اِسلام کی تعلیمات سے ملنے والے محنت کے سبق نے جاہل اور گنوار عرب قوم کو چند ہی برسوں میں اس قابل کر دیا کہ اُن کا پھریراتین براعظموں پر لہرانے لگا۔ مسلمان جہاں کہیں فتوحات کرتے وہاں کی آبادی کے دلوں میں اپنے طرزِ حکومت اور عدل و انصاف کے باعث ایک اچھا مقام بنالیتے۔ ہر ملک میں ’محنت میں عظمت‘ کا تصور لے کر پہنچنے والے مسلمانوں نے ہر خطے کو فلاحی ریاست کے قیام کے لیے دن رات محنت میں مشغول کر دیا۔ صدیوں کی فراغت زدہ قومیں کام کی عظمت سے شناسا ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنے دور کی مناسبت سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال حاصل کر لیا۔ طلبِ علم اور فنی مہارت کے حصول کی ترغیب اقوام عالم کو اسلام ہی کے آفاقی پیغام سے نصیب ہوئی۔ اسلام سے قبل بھی ’علم‘ یونانی سانچوں میں موجود تھا، جس کا ’عمل‘ سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام نے علم کو برائے علم نہیں رہنے دیا بلکہ علم برائے زندگی کی تعلیم سے مسلمان قوم کو دنیا کی سب سے متحرک قوم بنادیا اور جن خطوں پرانہیں سیاسی غلبہ حاصل ہوا وہاں کے عوام نے ان سے متاثر ہوکر محنت شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال پاگئیں۔ آج مسلمان تو اگرچہ اپنی اصل دینی تعلیمات سے رُوگرداں ہوکر پسماندہ ہو چکے ہیں مگر محنت کا وہ تصوّر جو انھوں نے ہسپانیہ کے راستے یورپ کو دیا تھا وہ پوری دنیا میں اپنے ثمرات مرتب کررہا ہے۔
سرِدست ہم ہسپانیہ کے اِسلامی دور کی ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں گے تاکہ قارئین پر اسلامی ہسپانیہ میں فروغ پانے والی صنعت و ٹیکنالوجی عیاں ہو سکے :
حصول و اِفشائے علم میں کاغذ کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ بغداد کی خلافت عباسیہ اور ہسپانیہ کی خلافتِ اُمویہ کے دور میں علم کی وسیع پیمانے پر ترویج اشاعت کتب ہی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ کاغذ کی ایجاد سے قبل جن اشیاء (چمڑے وغیرہ) پر کتابیں لکھی جاتی تھیں وہ اس قابل نہ تھیں کہ فقط اُن کے بل بوتے پر لاکھوں کتب پر مشتمل بڑی بڑی لائبریریاں وُجود میں آسکتیں۔
رُوئی سے بننے والا کاغذ مسلمانوں کی ایجاد ہے، اُس سے پہلے دُنیا میں ریشمی کیڑے کے خول سے کاغذ بنایا جاتا تھا، جو نہ صرف بہت زیادہ مہنگا ہوتا بلکہ صرف انہی ممالک میں دستیاب ہوتا جن کی آب و ہوا اس قدر موزوں ہو کہ ریشم کا کیڑا وافر مقدار میں پرورش پاسکے۔ چنانچہ قرونِ وُسطیٰ میں یورپی ممالک میں چمڑا ہی وہ واحد شے تھی جس پر کتب لکھی جاتیں۔ چمڑا اِس قدر مہنگا اور کم یاب تھا کہ اُس دَور کے پادریوں نے مذہبی رسائل لکھنے کے لیے قدیم یونانی کتب کے حروف چھیل کر اُن کا چمڑا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے یونانیوں کی بہت سے عقلی اور فلسفیانہ تصانیف تلف ہوگئیں۔
مسلمانوں نے جب 704ء میں چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو فتح کیا تو اُس وقت چین کے قیدی سپاہیوں کی مدد سے سمرقند میں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم کیے۔ یہیں سے انھیں کاغذ کی صنعت کو اپنانے اور فروغ دینے کا خیال آیا۔ کچھ کاغذ نمونے کے طور پر اسلامی سلطنت کے مرکزی شہروں دمشق اور بغداد بھیجے گئے اور فقط دو سال کے انتھک تجربات کے بعد 706ء میں یوسف بن عمر نامی مسلمان سائنس دان نے روئی سے بننے والا کاغذ ایجاد کر لیا۔ جسے ’’دِمشقی‘‘ کاغذ کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ کاغذ سمرقندی کاغذ کو مات کرگیا۔ یوں آٹھویں صدی عیسویں کے اندر اندر تمام مسلمان ممالک میں بقدرِ ضرورت کاغذ سازی کی صنعت فروغ پزیر ہوئی اور سستا اور معیاری کاغذ وافر مقدار میں بننے لگا۔ بغداد میں 794ء میں کاغذ سازی کا پہلا بڑا سرکاری کارخانہ فضل بن یحیٰ برمکی نے قائم کیا جسے ’صناعۃُ الورقہ‘ کا نام دیا گیا۔ روئی کے کاغذ کی آمد سے مصری قرطاس (papyrus) کا استعمال ختم ہونے لگا اور کچھ ہی عرصے میں تہامہ، دمشق اور طرابلس میں کاغذ سازی کی صنعت فروغ پزیر ہوئی۔ طرابلس کے بعد مراکش میں بھی کچھ فیکٹریاں کاغذ بنانے لگیں۔ یہیں سے یہ صنعت ہسپانیہ میں داخل ہوئی۔
معروف مستشرق منٹگمری واٹ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے :
Harun ar-Rashid's vizier, Yahya the Barmakid, built the first paper-mill in Baghdad about the year 800. The manufacture of paper then spread westwards through Syria and North Africa to Spain, and it came into common use. In the twelfth century pilgrims from France to Compostela took back pieces of paper as a great curiosity, though Roger II of Sicily had used paper for a document in 1090. From Spain and Sicily the use of paper spread into western Europe, but paper-mills were not established in Italy and Germany until the fourteenth century.[4] یورپ بھر میں ہسپانیہ پہلا ملک ہے جہاں کاغذ بنانے کا کام شروع ہوا۔ اسلامی ہسپانیہ میں کاغذ سازی کی صنعت مشرقی اسلامی سلطنت ہی سے پہنچی۔ 1085ء میں شاطبہ (Xatiua) میں کاغذ سازی کا کارخانہ قائم ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اسلامی ہسپانیہ کے ماہرین نے کاغذ سازی کو نئے انقلابات سے روشناس کیا۔ ہسپانیہ کا کاغذ مضبوط اور معیاری ہوتا۔ بالخصوص شاطبہ (Xatiua) میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا تھا جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ اپنے بہترین معیار کی بدولت اُسے آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد کیا جانے لگا۔ شاطبہ (Xatiua) کے علاوہ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، قسطلہ اور بلنسیہ (Valencia) میں بھی کاغذ سازی کے بڑے کارخانے موجود تھے۔
خوراک کے بعد لباس انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت سے کسی دور کے کسی بھی معاشرے نے انکار نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ دولت کی فراوانی اور اخلاقی بے راہ روی لباس پہنے ہوئے بھی بے لباسی کی کیفیت پیدا کر دے۔ اسلام نے جہاں لباس کے لیے ضروری ستر کی حدود متعین کی ہیں وہاں اُس کی زینت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جہاں باطنی حسن و زیبائش کے لیے لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ (الاعراف، 7 : 26) میں تقویٰ کا لباس اپنانے کا حکم دیا گیا وہاں جمیع بنی آدم کو اللہ کے حضور حاضری اور سجدہ ریزی سے قبل بہترین لباس زیبِ تن کرنے کا بھی حکم دیا۔
فرمانِ خداوندی ہے :
يا بَنِی آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔
(الاعراف، 7 : 31)
” | اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت ( پہن ) لیا کرو۔ | “ |
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزت نے لباس کی اہمیت اور زِینت کی طرف دِلائی، یہ اِسی توجہ کا ثمرہ تھا کہ مسلمانوں نے پارچہ بافی کی صنعت میں کمال حاصل کر لیا۔ ابتدا میں نومفتوحہ علاقوں (newly conquered) میں پہلے سے مروّجہ ٹیکسٹائل کی صنعت مسلمانوں میں متعارف ہوئی۔ جس کے کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں نے اِس فن میں بھی اپنا ایک تشخص قائم کر لیا اور ٹیکسٹائل کے باب میں بھی دنیا بھر کے اِمام (leader) قرار پائے۔
اسلامی ہسپانیہ میں ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے عروج پر تھی یہاں کے تیار شدہ ملبوسات (garments) آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد بھی کیے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ مرکزی اسلامی سلطنت کے دار الخلافہ بغداد میں بھی ہسپانیہ کے معیار کا کپڑا تیار نہ ہوتا تھا۔ ہسپانیہ کا ’دِیباج‘ اور ’طِراز‘ دُنیا بھر میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ اور اکثر مؤرخین ہسپانیہ کے شاہی ملبوسات کو بغداد کے شاہی ملبوسات پر فوقیت دیتے ہیں۔
ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ (Almeria) ’دِیباج‘ کی تیاری میں سب شہروں سے بڑھ کر تھا، جہاں پارچہ بافی کی 4,500 سے زائد مشینیں نصب تھیں۔ اُس دَور کے سیاحوں اور مؤرّخین نے المریہ کے دِیباج کی اعلیٰ بُنت کی بہت تعریف کی ہے۔
ٹیکسٹائل کے سلسلے میں بغداد کی مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح مسلم ہسپانیہ میں بھی روئی کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ کپاس کی وسیع پیمانے پر کاشت کا بخوبی انتظام کیا جاتا اور ماہرین نباتات (botanists) اعلیٰ قسم کی کپاس کی کاشت کے لیے نت نئے تجربات کرتے جن کے نتیجے میں ہسپانیہ کی ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی اپنے دور کے عروج کو جا پہنچی۔
Cotton was in India and ancient Egypt but it became an important textile only after the advent of Islam. Indeed, one of the results of the Muslim agricultural revolution was that cotton plantations spread throughout all Islamic lands, in the east as well as the west. Fine cotton was manufactured and exported to various countries, including China and the Far East.[5] ہسپانیہ میں ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کا سہرا بھی عرب مسلمانوں ہی کے سر ہے۔ مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں وہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کا آغاز کر دیا تھا۔ جبکہ فرانس اور جرمنی میں یہ صنعت بہت عرصہ بعد بالترتیب چھٹی اور آٹھویں صدی ہجری میں پہنچی۔
علم فلکیات (astronomy) کی طرح علم المیقات (time keeping) بھی مسلمانوں کا پسندیدہ علم رہا ہے۔ ان دونوں علوم میں مسلمانوں نے بیش بہا اضافے کیے اور یونانی دور کی بے شمار خطاؤں کو دُور کرکے بنی نوع انسان کے زائیدہ ان علوم کو حقیقی معنوں مین فطری بنیادوں پر اُستوار کیا۔ علم فلکیات اور علم المیقات دونوں میں وقت کی پیمائش نہایت اہم چیز ہے۔ سالوں، مہینوں اور دنوں کی پیمائش کے لیے تو قدرت کی طرف سے مہیا کردہ سورج اور چاند رہنمائی کرتے ہیں، جن سے بننے والی تقویمات انسان کو وقت شماری کے قابل بناتی ہیں لیکن دن کو گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم کرنا خالصتاً انسان کی شعوری کاوِش کا نتیجہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات ایسے آلات کا بنانا ہے جن کی مدد سے دن کے مختلف پہروں اور لمحوں کا شمار ممکن ہو سکے۔
وقت کی پیمائش کے لیے اسلام کی آمد سے قبل بھی کچھ قدیم پیمانے اور آلات مروّج تھے لیکن سادگی کی بنا پر اُن کی کارکردگی خالی از خطا نہ تھی۔
مسلمانوں نے میکانکی گھڑیاں ایجاد کیں اور اُن میں پنڈولم استعمال کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر کیا۔ جامع دمشق (شام) میں ایک کافی بڑی اور عجیب و غریب گھڑی آویزاں تھی جو دن کے پہروں اور گھنٹوں کا اعلان مختلف طریقوں سے کرتی تھی اور اُس کی کارکردگی بھی نہایت عمدہ تھی۔ وہ گھڑی اپنے دور کا نہایت حسین عجوبہ تھی۔ بلنسیہ (Velencia) کے نامور سیاح ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں اس گھڑی کی کارکردگی کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ [6]
اِسلامی ہسپانیہ میں ہاتھ پر باندھی جانے والی گھڑیاں بھی بنائی جاتی تھیں جنہیں ’’منتقلہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اُن گھڑیوں کی مدد سے منٹوں تک کے وقت کا صحیح تعین کیا جا سکتا تھا۔ عباس ابن فرناس نے بھی ایک نہایت عمدہ گھڑی بنائی تھی جس کی کارکردگی بے مثل تھی۔ یوں علم المیقات (timekeeping) کے شعبے میں بھی ہسپانیہ کے مسلمان ایشیا کی اِسلامی خلافت سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
پانی اور بجلی کے ذریعے حرکی توانائی کا حصول اور اُس کی مدد سے روز مرّہ زندگی کے کئی ایک چھوٹے بڑے کام سر انجام دینا اسلامی ہسپانیہ میں معروف تھا۔ ماہر انجینئرز کے علاوہ عام لوگ بھی نہ صرف حرکی توانائی کا استعمال سمجھتے تھے بلکہ عملاً اُس سے فائدہ بھی اُٹھاتے تھے۔
اناج کی پسائی و غیر ہ کے لیے پانی اور ہوا کے زور سے چلنے والی چکیاں پورے ملک میں عام تھیں۔ پون چکیاں (windmills) عموماً ایسے پہیوں پر بنائی جاتی تھیں کہ بوقت ضرورت اُن کا رُخ ہوا کی سمت گھما لیا جاتا تھا۔ پن چکیوں (water mills) کے لیے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے مخصوص جگہوں پر لا کر بلندی سے یکدم گرا دیا جاتا جس سے نیچے لگی چرخیاں گھومنے لگ جاتیں۔ پن بجلی کے لیے بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیم آج کل اسی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ’دریائے وادی کبیر‘ (Guadalimar River)اور ’دریائے شنیل‘ (Genil River) کے کنارے سینکڑوں پن چکیاں غلہ پیسنے کے لیے نصب تھیں۔ حرکی توانائی کا استعمال اس قدر عام ہو چکا تھا کہ پون چکیاں کشتیوں پر نصب ہونے لگ گئی تھیں۔ ایسی پون چکیاں بالعموم لوگوں کو کرایہ پر دینے کے لیے بنائی جاتی تھیں اور انھیں بآسانی دوسرے مقامات پر منتقل کیا جا سکتا تھا۔
اسلامی ہسپانیہ میں عربوں نے حرکی توانائی (kinetic energy) کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا گیارھویں صدی عیسوی تک وہ مغربی یورپ کے چند ممالک تک بھی پھیل گیا اور وسطی یورپ میں یہ طریقِ کار چودھویں صدی تک پہنچ سکا۔ چنانچہ آج بھی یورپ کے اکثر ممالک بالخصوص ہالینڈ اور بیلجیئم میں پون چکیاں (windmills) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اِسلامی ہسپانیہ کے دورِ عروج میں مسلمانوں نے کیمیائی ٹیکنالوجی کی طرف بھی خاص توجہ دی اور روزمرّہ زندگی میں کارآمد بہت سی اشیاء بنائیں۔
خطاطی مسلمانوں کا ہردِلعزیز فن تھا۔ بہترین خطاطی کے لیے معیاری روشنائی اور رنگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انھوں نے رنگوں کے معیار کو بہتر کیا اور خاص قسم کی روشنائیاں ایجاد کیں جو سالہا سال اپنا اثر نہ چھوڑتی تھیں۔ مصوری میں استعمال ہونے والے رنگوں کے لیے وہ ایک خاص قسم کی وارنش بھی بناتے جس سے وہ دیرپا ہوجاتے۔
شیشہ سازی کی تاریخ میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ مسلمانوں کی ہسپانیہ آمد سے قبل شیشہ کی صنعت وہاں موجود تھی اور قرطبہ (Cordoba) کے قریب شیشے کی ایک بڑی کان موجود تھی۔ اسلامی دور کے اوائل میں شیشے کے برتنوں کا رواج نہ تھا مگر ’زریاب‘ کی اندلس آمد کے بعد اُس کے اِیماء پر محلاتِ شاہی میں سونے چاندی کے برتنوں کی بجائے شیشے کے برتنوں کو رواج پڑا۔ یہیں سے شیشہ سازی کی صنعت نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام و خواص بھی شیشے کے برتنوں کا عام استعمال کرنے لگے۔
ہوائی جہاز کے موجد عباس ابن فرناس نے شیشہ بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ چکنی مٹی کو بھٹی میں پکاتا اور اس سے شیشہ بناتا۔ شیشہ سازی کا یہ نیا اُسلوب جلد ہی ہسپانیہ میں رواج پکڑ گیا۔ اُس نے اس نئے طریقے کی ترویج کے لیے اس پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ (Almeria) میں شیشہ سازی کے بڑے کارخانے قائم تھے۔ جہاں سے شیشے کی مصنوعات کی اندرونِ ملک سپلائی کے علاوہ برآمد بھی کی جاتی تھیں۔ اِس کے علاوہ مُرسیہ (Murcia)، مالقہ (Malaga)، غرناطہ (Granada)، قرطبہ (Cordoba)، لورقہ (Lorca) اور موجودہ پرتگال میں واقع شہر باجا (Beja) میں بھی شیشہ سازی کی صنعت فروغ پزیر تھی اور مقامی استعمال کے لیے وافر مقدار میں مصنوعات تیار کی جاتی تھیں۔
چمڑے کی مصنوعات کے سلسلے میں بھی ہسپانیہ کے مسلمان کافی آگے تھے۔ انھوں نے چمڑے کی تیاری میں استعمال ہونے والے ایسے کیمیکلز ایجاد کیے جو چمڑے کو دیرپا رکھتے۔ قرطبہ (Cordoba) اور باجا (Beja) چمڑے کی صنعت میں خاص مقام رکھتے تھے۔ قرطبہ تو لیدر انڈسٹری کی بدولت پورے یورپ میں مشہور تھا۔ یہی وجہ ہے فرانس میں ایک عرصے تک چمڑے کو cordovan اور چرم سازی کا کاروبار کرنے والوں کو cordonniers کہا جاتا رہا۔
سمور کی پوستین کے سلسلے میں سرقسطہ (Zaragoza) اہم مقام رکھتا تھا۔ خلیج بسکونیہ (Bay of Biscay) سے ’سمور‘ نامی جانور کا شکار کیا جاتا۔ جس کے بعد اُس کی کھال کو سرقسطہ لے جایا جاتا جہاں چرم سازی کا بخوبی انتظام تھا۔ ’سمور‘ کی کھال سے بننے والی پوستین کو بھی ’سمور ‘ ہی کہا جاتا تھا۔ یہ نہایت قیمتی ہوتی اور اس کی برآمد سے بھی زر مبادلہ کمایا جاتا۔ مرسیہ (Murcia) میں بعض قسم کے اسلحہ کے لیے بھی چمڑے کا استعمال کیا جاتا۔ یہاں کی شیلڈز بڑی مضبوط اور معیاری ہوتی۔
جہاد اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ ظلم اور جبر و بربریت کی ہر ناروا صورت کو صفحۂ ہستی سے ناپید کردینا مسلمانوں پر فرض ہے۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب بھی کسی مفلوک و مظلوم نے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا آنِ واحد میں وہ ظلم کا سر کچلنے کو پہنچ گئے۔ چنانچہ ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔
جہاد کے سلسلے میں سب سے اہم اور ضروری شے اسلحہ سازی میں خود کفالت تھی۔ مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح اندلس کی اسلامی حکومت بھی اسلحہ سازی میں مکمل طور پر خود کفیل تھی۔ ہسپانیہ کے بہت سے اضلاع میں لوہے کی کانیں موجود تھیں جن سے بھاری مقدار میں لوہا نکالا جاتا تھا۔ چنانچہ دیگر بہت سی ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُس سے تلواریں، تیر، نیزے، زرہیں اور خود (ہیلمٹ) وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔ طلیطلہ (Toledo) کی تلواریں اپنی مضبوطی اور کاٹ میں دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شمشیر سازی میں اشبیلیہ (Seville) کا بھی اچھا مقام تھا۔ اُن کے علاوہ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، مُرسیہ (Murcia)، المِریہ (Almeria) اور سرقسطہ (Zaragoza) بھی اسلحہ سازی میں مشہور تھے۔ ان شہروں میں عمدہ قسم کے ہتھیار تیار ہوتے اور انھیں حسبِ ضرورت ملک کے دُوسرے شہروں میں بھی بھیجا جاتا تھا۔
اپنے دور کے روایتی ہتھیاروں کے علاوہ اسلامی ہسپانیہ کے مسلمان بارود اور توپ کا استعمال بھی شروع کرچکے تھے۔ بارود کا استعمال انھوں نے ایشیا کی مرکزی اسلامی خلافت سے سیکھا تھا۔ مسلمانوں نے حجاج بن یوسف کے دور میں 692ء میں پہلی بار توپ اور بارود کا استعمال کیا۔ بعد میں اسلامی ہسپانیہ میں توپ کا استعمال عام ہونے لگا اور اسے متعدد جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ مد مقابل انگریزوں کی طرف سے اسلامی ہسپانیہ کے خلاف جنگ میں توپ کا سب سے پہلا استعمال 1346ء کی جنگ میں کیا گیا۔
اپنی تخلیق کے اوّل روز سے ہی انسان کے دل میں تجسس کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ تجسس ہی تھا جو سیدنا آدم علیہ السلام کو دانۂ گندم تک لے گیا۔ تجسس نے ہمیشہ بنی نوع انسان کو ترقی کے شاہراہ پر گامزن کیا۔ سمندر کے پار اور پہاڑ کی اوٹ میں کیا واقع ہے؟ یہ تجسس اِنسان کو صحرا نوَردی پر مجبور کرتا رہا اور ایک وقت آیا کہ انسان نے پورے کرۂ ارضی کا چپہ چپہ چھان مارا اور انچ انچ کے نقشے بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سطحِ زمین کا قیدی انسان جب پرندوں کو آزادانہ فضا کی بلندیوں میں اڑتے دیکھتا تو اُس کے دل میں بھی اُڑنے کی خواہش جنم لیتی۔ پرندوں کے لیے اپنی خالی خولی اور ہلکی پھلکی ہڈیوں کی نسبت فضائی اُڑان ممکن تھی جبکہ انسان کے اعصاب اُس کے بدن کے وزن کو اُڑانے کے لیے کافی نہ تھے۔ تاہم مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کے لوگوں نے اپنے بازوؤں کے ساتھ پر باندھ کر اُڑنے کی کوشش کی اور پہاڑی ڈھلانوں سے کود کر مختصر سی اڑان بھی کی مگر اُن میں سے اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل 17 ستمبر 1903ء میں اُس وقت ہوئی جب رائٹ برادران نے اپنے خود ساختہ ہوائی جہاز کی پہلی کامیاب پرواز کی جو صرف 12 منٹ پر مشتمل تھی۔ 1903ء میں کامیاب ہونے والا انسان ایک صدی گزرنے سے بھی بہت پہلے ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگا اور اُ س نے آواز سے تیز رفتار سفر کرنے والے جہاز ایجاد کرلئے۔ ایسا کرتے وقت صدیوں کا انسانی شعور اُس کی پشت پناہی کرتا ہے۔
دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز اسلامی ہسپانیہ کے مسلمان سائنس دان ’عباس ابن فرناس‘ نے نویں صدی عیسویں میں ایجاد کیا اور اُسے اُڑانے میں کامیاب ٹھہرا۔ اُس نے اپنے جہاز کے دائیں بائیں بڑے بڑے پر بھی لگائے تھے جو جہاز اور اُس کا بوجھ اُٹھائے دور تک چلے گئے، تاہم وہ جہاز کی لینڈنگ ٹھیک طرح سے نہ کرسکنے کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دراصل اُس نے اپنے جہاز کی دُم نہیں بنائی تھی اور وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ پرندے اپنی دُم کی مدد سے زمین پر واپس اُترتے ہیں۔
ہوائی اُڑان کی حد تک عباس بن فرناس کی یہ کوشش بنی نوع انسان کے اذہان پر ایک دستک تھی۔ بڑی بڑی ایجادات کے پس منظر میں انسان کی ایسی ہی ابتدائی کوششیں بنیاد بنتی ہیں۔ اسلامی ہسپانیہ کی تاریخ میں میسر اس ایک مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان سائنس دان سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ میں کس قدر جنونی انداز اختیار کرچکے تھے کہ اپنی جان کو بھی داؤ پر لگا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
مسلمان جس خطۂ ارضی میں بھی حکمران ہوئے وہاں کے تہذیب و تمدن کے ارتقا اور اُس میں اسلامی روایات کے فروغ کے علاوہ تعمیرات کی صورت میں بھی انھوں نے وہاں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ اِسلامی ہسپانیہ کے مسلمان حکمران بھی تعمیرات کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ اندلس میں انھوں نے بہت سی باقیات چھوڑیں۔ اُن کی تعمیرات میں عمارات، شاہراہیں اور دریاؤں پر بنائے گئے پل شامل ہیں، جو ہسپانیہ کے انجینئروں کی ماہرانہ کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سِول انجینئری کے ذیل میں اسلامی ہسپانیہ بہت آگے تھا۔ یہاں ہم تفصیل میں جائے بغیر چند اہم عمارات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین پر ہسپانیہ کے اسلامی دور کا یہ نقشہ بھی واضح ہو سکے :
قرطبہ کی عظیم جامع مسجد جس کا سنگِ بنیاد عبد الرحمن سوُم نے اپنی وفات سے دو برس پہلے 959ء میں رکھا تھا، بعد کے خلفاء نے اُسے مزید وسعت دی اور وہ تاریخِ اِسلام کی عظیمُ الشان مساجد میں سے ایک ٹھہری۔ وہ ایک مستطیل شکل کی مسجد ہے جس کی دیواریں بڑے قیمتی اور نفیس پتھروں سے بنی ہیں۔ اُس کے مینار 70 فٹ بلند بنائے گئے۔ مسجد میں 4,700 فانوس روشن ہوتے جن کے لیے سالانہ 24,000 پاؤنڈ زیتون کا تیل اِستعمال ہوتا تھا۔ مسجد کے ستونوں کی کل تعداد 1,093 ہے جو اعلیٰ معیار کے دِیدہ زیب ماربلز سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ستونوں کے اُوپری حصہ میں دُہری محرابیں بنا کر اُن کے حسن کو مزید اُجاگر کیا گیا ہے، جو تمام عالمِ اِسلام میں اپنی نوعیت کا انوکھا کام ہے۔ مسجد کی تعمیر میں اِسلامی شان و شوکت اور اِستقامت دِیدنی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں قرطبہ کے اندر ایسی حسین و جمیل اور مضبوط عمارت کا وُجود حیرت انگیز بات ہے، جبکہ اُس دوران میں دُنیا میں عام طور پر انجینئرز میں اِتنی قابلیت بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ مسجد کی تعمیر میں کاشی کاری کا کام اپنی نفاست اور دیدہ زیب رنگوں کے حسین اِمتزاج سے اِنتہائی خوبصورت شکل اِختیار کر گیا ہے، جسے دیکھ کر آج بھی اِنسان کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔
ایک انگریز مؤرخ نے اُس مسجد کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ :
Whatever the human eye has witnessed this is the most charming of them all, and its craftsmanship and splendour are not to be found in any of the ancient or modern monuments.
ترجمہ : ’’یہ اِنسانی آنکھ کے سامنے سے گزرنے والے تمام مناظر میں سے سب سے زیادہ دِلکش منظر ہے اور اس کی مہارت اور عظمت قدیم یا جدید عمارات میں کہیں نہیں ملتی۔‘‘
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدِ قرطبہ پر بالِ جبریل میں ایک طوِیل نظم لکھی، جو اندلس میں مسلمانوں کے عروج و زوال میں مخفی اَسرار سے پردہ سِرکاتی نظر آتی ہے اور دورِ حاضر کے مسلمان کو ایک عظیم اِنقلاب کا درس دیتی ہے۔ اُس طویل نظم میں مسجدِ قرطبہ کی تعریف میں کہے گئے چند اَشعار یوں ہیں :
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرے دَر و بام پر وادئ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اُس کی اَذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل
قرطبہ سے 400 میل مغرب کی طرف ’عبد الرحمن سوم‘ نے ایک محل ’قصرالزہراء‘ تعمیر کروایا، جو اُس کی ایک بیوی ’الزہراء‘ کے نام سے موسوم تھا۔ بعد اَزاں اُس محل کے اِردگرد ’مدینۃُ الزھراء‘ نامی شہر آباد ہو گیا۔ قصر الزہراء ایک ایسی عظیم الشان عمارت تھی جس کا مقابلہ عظیم تاریخی عمارات میں کسی کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اُس کے در و دیوار منقّش تھے اور اُن میں جگہ کی مناسبت سے تصاویر بھی کندہ کی گئی تھیں جو اندلس میں اِسلامی فنِ مصوّری کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’قصر الزہراء‘ کی تعمیر کے لیے بغداد اور قسطنطنیہ جیسے دُور دراز ممالک سے انجینئروں اور کاریگروں کو بلایا گیا تھا، جنھوں نے اپنی کمالِ صناعی سے عمارت کو وہ حسنِ دوام بخشا کہ وہ رشکِ خلائق ہو گئی۔ پانی کی بہم رسانی کے لیے بُعدِ مسافت پر واقع پہاڑوں سے نہر کاٹ کر لائی گئی تھی جس سے نہ صرف محل کے حوض اور فوّاروں کو پانی میسر آتا بلکہ مقامی آبادی کے پینے کے لیے بھی کافی ہوتا۔ ’قصر الزہراء‘ کو ’دارالروضہ‘ کا نام بھی دیا گیا جو اندلس میں اِسلام کی تہذیبی روایات کا امین تھا۔[7]
’قصر الزہراء‘ کے دروازے پر عبد الرحمن سوم کی محبوب بیوی ’زہراء‘ کی تصویر نقش کی گئی، جس کے نام پر اُس کا نام ’قصر الزہراء‘ پڑ گیا۔[8]
یہ عجوبۂ روزگار اِس قدر عظیم فن کا آئینہ دار تھا کہ ایک ترکی مؤرّخ ’ضیاء پاشا‘ بیان کرتا ہے :
This palace is such a wonder of the world that a concept of the design of this type could not occur to any human being from the dawn of creation to this day and human intellect has through the ages failed to produce a parallel or even approaching it in beauty of design.[9] ترجمہ : ’’یہ محل دُنیا کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ اُس کی ساخت کا تصوّر روزِ اوّل سے لے کر آج تک کسی اِنسان کے بس میں نہیں۔ اِنسانی شعور کئی اَدوار سے اُس جیسی یا جمالیاتی ساخت میں اُس کے قریب قریب بھی کوئی مثال پیدا کرنے سے قاصر رہا ہے‘‘۔
’دریائے وادئ کبیر‘ (Guadalimar River) کے کنارے تعمیر ہونے والے ’قصر الزہراء‘ کو صحیح معنوں میں ہسپانیہ کا تاج کہا جا سکتا ہے۔ اُس محل میں کل 400 کمرے تعمیر کیے گئے۔ تعمیر میں اِستعمال ہونے والا بہت سا تعمیراتی سامان جس میں سنہری ستون اور دیگر سامانِ آرائش شامل ہے، ’قسطنطنیہ‘ سے منگوایا گیا تھا۔ سنگ مرمر کا بڑا ذخیرہ ہمسایہ مسلمان افریقی ریاست ’مراکش‘ سے درآمد کیا گیا تھا۔ بعض تاریخی رِوایات کے مطابق اُس محل کی تعمیر 10,000 مزدوروں کی محنت سے صرف 4 سال کی مختصر مدّت میں تکمیل پزیر ہوئی۔ ’قصر الزہراء‘ صنعتِ تعمیر کا عظیم شاہکار تھا جس کا گنبد 4,316 سنہری ستونوں پر قائم تھا۔ محل میں صاف شفاف پانی کی چھوٹی چھوٹی نہریں ہر طرف رواں رہتیں جو اُس کے حسن کو اور بھی دوچند کیے دیتیں۔ اُس کی دیواروں پر نقاشی کے نمونوں میں سنگِ مرمر، سونے اور جواہرات کا عام اِستعمال کیا گیا تھا۔
آبِ روانِ ’کبیر‘ تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
’مسجدِ قرطبہ‘ کے علاوہ دُوسری اہم عمارت جو ہسپانیہ میں اِسلامی فنِ تعمیر کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر زندہ سلامت کھڑی ہے، وہ ’الحمراء‘ ہے، جو 2,200 مربع میٹر رقبے پر محیط ہے۔ اگرچہ اُس کی تعمیر ’مسجد قرطبہ‘ کی طرح مضبوط بنیادوں پر نہیں ہے مگر اُس کے باوُجود صدیاں گزرنے کے بعد بھی عمارت کا ابھی تک سلامت رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔
’الحمراء‘ دُنیا کی یادگار عمارات میں سے ایک ہے جسے صدیوں قبل نہایت نفاست کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ اپنی فصیل اور برجوں کی وجہ سے ایک قلعہ دِکھائی دیتا ہے۔ اُس کی تعمیر غرناطہ کی سرخ مٹی سے ایک پہاڑی کی ڈھلان پر کی گئی تھی اور اُس میں جا بجا حوض اور فوّارے نصب ہیں۔ پانی کے بہاؤ کے لیے قدرتی ڈھلان سے مدد لی گئی ہے جس کی وجہ سے اِضافی توانائی کی بہم رسانی ضروری نہیں رہی۔ محل کا ہر حصہ مرکزی حصے کی سی دِلکشی کا حامل ہے اور دیکھنے والا اُسی حصہ کو اُس کا مرکز سمجھنے لگتا ہے۔ اُس کے ہر حصے میں آیات، اَحادیث اور عربی اَشعار و عبارات کندہ ہیں، جو اِسلامی فنِ خطاطی (calligraphy) کے بہترین شہ پارے ہیں۔
’الحمراء‘ کے پہلو میں بعد کے اَدوار میں ایک مسیحی بادشاہ نے بھی محل بنوایا تھا جو پختہ پتھروں سے بنا ہے۔ اُس محل کے تضاد کے ساتھ الحمراء کا حسن اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ پورے محل میں پتھر کی تراشی ہوئی جالیاں اور مختلف انداز کی محرابیں اُس کے حسن کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں مصوّری اور سنگ تراشی کے بھی چند بہترین نمونے موجود ہیں، جن میں اُس دَور کے لوگوں کا طرزِ بود و باش منقّش کیا گیا ہے۔
اِسلامی ہسپانیہ کا طرزِ تعمیر مجموعی طور پر تمام دُنیائے اِسلام میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ مساجد کے مینار مربع شکل کے ہیں جو عالمِ اِسلام میں ایک انوکھا طرزِ تعمیر تھا۔ اُس دَور کی عمارتوں پر جابجا خطاطی کے بے مثل نمونے ثبت ہوتے تھے۔ عمارات عربی عبارتوں اور آیاتِ قرآنیہ کی دِیدہ زیب خطاطی سے مزین ہوتیں۔ اندلس کا فنِ خطاطی (calligraphy) اپنے کمال کی بنا پر یورپ کے بہت سے ملکوں میں فروغ پزیر ہوا، چنانچہ اکثر مسیحی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم علیھا السلام کی تصاوِیر اور مجسموں کی تزئین و آرائش کے لیے اُن کے علاوہ کلمۂ طیبہ کی نقاشی بھی کرواتے، اگرچہ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ یہ کیا الفاظ نقش کیے جا رہے ہیں۔
بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر اثر عربوں میں شروع ہونے والی علمی و ثقافتی تحریک نے عالمِ اِسلام میں علم و تحقیق اور تہذیب و ثقافت کو خوب فروغ دیا، جس کے نمایاں اثرات ہسپانیہ کی اِسلامی حکومت کے دَور میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
E. Rosenthal بیان کرتا ہے :
In Muslim days, Cordova was the centre of European civilisation and one of the greatest seats of learning in the world. After the expulsion of the Moors from Spain, however, Cordova sank to the level of a provincial town. Yet her wonderful mosque is a superb legacy of the days when Cordova was the capital of the Arab Empire in Spain. "Traces of Arabic Influence in Spain"[10] ترجمہ ’’اِسلامی دَورِ حکومت میں قرطبہ یورپی تہذیب کا مرکز اور دُنیا کا سب سے بڑا علم و دانش کا مقام تھا۔ تاہم مسلمانوں کے ہسپانیہ سے اِخراج کے بعد قرطبہ کی حیثیت صوبائی شہر کی سی رہ گئی۔ وہ عظیم الشان مسجدِ قرطبہ اُن عظیم دِنوں کی یاد دِلاتی ہے جب قرطبہ ہسپانیہ میں عرب سلطنت کا دارُالحکومت تھا‘‘۔
اِسی حقیقت کو Sir Thomas W. Arnold نے یوں بیان کیا ہے :
دسویں صدی عیسوی میں ہی قرطبہ یورپ کا مہذب ترین اور متمدّن شہر بن چکا تھا۔ یہ دُنیا کے قابلِ تحسین اور حیران کن عجائبات میں شامل تھا۔ یہ ریاست ہائے بلقان کا ’’وِینس‘‘ کہلاتا تھا۔ شمال سے جانے والے سیاحوں کے علم میں جب یہ بات آتی کہ اُس شہر میں 70 لائبریریاں اور 900 حمام ہیں تو وہ خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات کا اِظہار کرتے۔ لیون (Leon)، ناقار (Navarre) اور برشلونہ (Barcelona) کی ریاستوں کے حکمرانوں کو جب کبھی سرجن، ماہرِ تعمیرات (Architect)، ماہرِ ملبوسات (Dressmaker) یا کسی عظیم موسیقار (Singer) کی خدمات کی ضرورت ہوتی تو اُن کی نظریں قرطبہ کی طرف ہی اُٹھتی تھیں اور وہ انھیں یہیں سے منگواتے تھے۔[11] اس موضوع پر C. H. Haskins کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
The broad fact remains that the Arabs of Spain were the principal source of the new learning for Western Europe.[12] ترجمہ ’’یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہسپانیہ کے عرب ہی مغربی یورپ کے تمام جدید علوم و فنون کا سرچشمہ اور منبع تھے‘‘۔
اِسی طرح H. E. Barnes نے اِس تاریخی حقیقت کا اِعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے :
In many ways, the most advanced civilisation of the Middle Ages was not a Christian culture at all, but rather the civilisation of the people of the faith of Islam.[13] ترجمہ : ’’بہت سی جہتوں سے قرونِ وُسطیٰ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت ہرگز مسیحی ثقافت نہیں تھی بلکہ یہ ثقافت اِسلامی عقیدہ رکھنے والی اَقوام کی تھی‘‘۔
معروف مُستشرق منٹگمری واٹ لکھتا ہے :
"Yet it was the culture of the Arabs which became the matrix of the new Islamic civilisation, and all that was best in the older and higher culture was assimilated into the new culture."[14] G. R. Gibb نے بھی اِس اَمر کی تصریح کی ہے کہ دسویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک ہسپانیہ کی اِسلامی ثقافت یورپ کی سب سے بلند اور ترقی یافتہ ثقافت تھی۔
خلافت امویہ کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں بربر جرنیل طارق بن زیاد کی قیادت میں اموی افواج 30 اپریل، 711ء کو جبل الطارق کے مقام پر اتریں۔ 19 جولائی، 711 کو لذریق جنگ لکہ میں شکست فاش دی۔ بعد میں عرب النسل موسٰی بن نصیر نے بھی شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے مملکت مغربی گوتھ کا زیادہ تر حصہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد کوہ پائرینیس کو عبور کرنے کے بعد مغربی گوتھ کے علاقے سبتمانیا جو جنوبی فرانس میں واقع ہے پر قبضہ کر لیا۔ جزیرہ نما آئبیریا کا زیادہ تر حصہ خلافت امویہ کے تحت الاندلس کے نام سے بطور صوبہ آ گیا، جس کا دارالحکومت قرطبہ تھا۔
تیسری بربر بغاوت کے نتیجہ میں خلافت امویہ کا مغربی صوبوں الاندلس اور المغرب پر اقتداربہت کمزور ہو گیا اور وہ ان دائرہ اختیار سے باہر نکل گئے۔ 745ء کے قریب عقبہ بن نافع کے خاندان فہری کے عبد الرحمن بن حبیب فہری نے افریقیہ (افریقا نہیں) اور یوسف بن عبد الرحمن فہری نے اندلس پر اپنا اقتدار قائم کیا۔ فہریوں نے خلافت امویہ کے ناتا ختم کر کے خلافت عباسیہ سے قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عباسیوں کے مکمل اطاعت کے مطالبے پر فہریوں نے آزادی کا اعلان کر دیا بلکہ جلاوطن امویوں کو اپنے پاس پناہ دینے کی پیشکش بھی کی۔
756ء میں عبد الرحمٰن الداخل نے یوسف بن عبد الرحمن فہری کو معزول کر کے امارت قرطبہ کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے امیر ہونے کا اعلان کیا۔ اس نے اندلس کے زیادہ تر حصے پر فہریوں اور عباسیوں کے حامیوں پر قابو پانے کے بعد ایک نسبتا کمزور حکومت قائم کی۔[15] 912ء میں ان کے پوتے عبدالرحمن الثالث کے نہ صرف تیزی اندلس میں اموی حکومت کو تقویت بخشی بلکہ ایک خلافت قرطبہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.