سورج کا نظام سیارہ From Wikipedia, the free encyclopedia
نظامِ شمسی سورج اور ان تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت میں ہیں۔ اس میں 8 سیارے، ان کے 162 معلوم چاند، 3 شناخت شدہ بونے سیارے (بشمول پلوٹو)، ان کے 4 معلوم چاند اور کروڑوں دوسرے چھوٹے اجرام فلکی شامل ہیں۔ اس آخری زمرے میں سیارچے، کوئپر پٹی کے اجسام، دم دار سیارے، شہاب ثاقب اور بین السیاروی گرد شامل ہیں۔
عام مفہوم میں نظام شمسی کا اچھی طرح معلوم مرسوم / charted حصہ سورج، چار اندرونی سیاروں، سیارچوں، چار بیرونی سیاروں اور کوئپر پٹی پر مشتمل ہے۔ کوئپر پٹی سے پرے کے کافی اجسام بھی نظام شمسی کا ہی حصہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔
سورج سے فاصلے کے اعتبار سے سیاروں کی ترتیب یہ ہے: عطارد، زہرہ، ##زمین، ##مریخ، ###مشتری، #زحل، یورینس اور نیپچون۔ ان میں سے چھ سیاروں کے گرد ان کے اپنے چھوٹے سیارے گردش کرتے ہیں جنہیں زمین کے چاند کی مناسبت سے چاند ہی کہا جاتا ہے۔ چار بیرونی سیاروں کے گرد چھوٹے چٹانی اجسام، ذرات اور گردوغبار حلقوں کی شکل میں گردش کرتے ہیں۔ تین بونے سیاروں میں پلوٹو، کوئپر پٹی کا سب سے بڑا معلوم جسم؛ سیرس، سیارچوں کے پٹی کا سب سے بڑا جسم؛ اور ایرس، جو کوئپر پٹی سے پرے واقع ہے؛ شامل ہیں۔ پلوٹو کو 2006 میں سیارے کے درجہ سے معزول کر دیا گیا۔ دیکھیں۔ پلوٹو کا نظام شمسی سے اخراج
سورج کے گرد چکر لگانے والے اجسام کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: سیارے، بونے سیارے (Dwarf planets) اور چھوٹے شمسی اجسام (Small Solar System bodies)۔
سیارہ سورج کے گرد مدار میں گردش کرنے والے کسی ایسے جسم کو کہتے ہیں جو درج ذیل خصوصیات کا حامل ہے
تسلیم شدہ آٹھ سیارے یہ ہیں: عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون
24 اگست 2006 کو بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد (International Astronomical Union) نے پہلی بار سیارے کی تعریف کی اور پلوٹو کو سیاروں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ پلوٹو کو اب ایرس اور سیرس کے ساتھ بونے سیاروں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔[1]
بونے سیاروں کے مدار کے آس پاس عموما دوسرے چھوٹے اجسام پاے جاتے ہیں کیونکہ ان کی کشش ثقل اتنی مضبوط نہیں ہوتی کے وہ اپنے پڑوس میں صفائی (Clearing the neighbourhood) کر سکیں۔ کچھ دوسرے اجسام جو مستقبل میں بونے سیارے قرار دیے جا سکتے ہیں ان میں اورکس، سیڈنا اور کواوار شامل ہیں۔
پلوٹو 1930ء میں اپنی دریافت سے 2006ء تک نظام شمسی کا نواں سیارہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں پلوٹو سے ملتے جلتے بہت سے دوسرے اجسام بیرونی نظام شمسی میں دریافت کیے گئے، خصوصاً ارس، جو جسامت میں پلوٹو سے بڑا ہے۔
سورج کے گرد مدار میں باقی تمام اجسام چھوٹے شمسی اجسام (Small Solar System bodies) کے زمرے میں آتے ہیں۔[2]
قدرتی سیارچے یا چاند وہ اجسام ہیں جو سورج کی بجائے دوسرے سیاروں، بونے سیاروں یا SSSBs کے گرد گردش کر رہے ہوں۔
کسی بھی سیارے کا سورج سے فاصلہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا کیونکہ سیاروں کے مدار عموماً بیضوی ہوتے ہیں۔ کسی سیارے کے سورج سے کم سے کم فاصلے کو اس کا حضیض (perihelion) کہتے ہیں اور اس کے زیادہ سے زیادہ فاصلے کو اس کا اوج (aphelion) کہتے ہیں۔
ماہرین فلکیات عام طور پر اجرام فلکی کے باہمی فاصلوں کی پیمائش کے لیے فلکیاتی اکائیاں (Astronomical Unit یا AU) استعمال کرتے ہیں۔ ایک فلکیاتی اکائی( AU ) تقریباًً سورج سے زمین تک کے فاصلے کے برابر ہوتی ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ تقریباًً 149598000 کلومیٹر یا 93000000 میل ہے۔ پلوٹو سورج سے 38 فلکیاتی اکائیوں (AU) جبکہ مشتری تقریباًً 5.2 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے۔ ایک نوری سال، جو ستاروں کے مابین فاصلوں کی معروف ترین اکائی ہے، تقریباًً 63,240 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے برابر ہوتی ہے۔
غیر رسمی طور پر نظام شمسی کو الگ الگ مَناطِق (zones) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اندرونی نظام شمسی میں پہلے چار سیارے اور سیارچوں کی پٹی شامل ہے۔ بعض فلکیات دان بیرونی نظام شمسی میں سیارچوں سے پرے تمام سیاروں اور دوسرے اجسام کو شامل کرتے ہیں،[3] جبکہ بعض کے نزدیک بیرونی نظام شمسی نیپچون کے بعد شروع ہوتا ہے اور مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون ایک علاحدہ درمیانی مِنطقہ (zone) کا حصہ ہیں۔[4]
Distances of selected bodies of the نظام شمسی from the Sun. The left and right edges of each bar correspond to the perihelion and aphelion of the body, respectively. Long bars denote high orbital eccentricity. The radius of the Sun is 0.7 million km, and the radius of Jupiter (the largest planet) is 0.07 million km, both too small to resolve on this image.
نام [5] | نصف قطر (رداس) | کمیت | کثافت | زمین سے موازنہ بلحاظ کمیت |
(کلومیٹر) | (کلوگرام) | |||
سورج | 695000 | 1.99E+30 | 1.41 | 333000 |
عطارد | 2440 | 3.30E+23 | 5.43 | 0.055 |
زہرہ | 6052 | 4.87E+24 | 5.24 | 0.816 |
زمین | 6378 | 5.97E+24 | 5.52 | 1.000 |
مریخ | 3397 | 6.42E+23 | 3.93 | 0.108 |
مشتری | 71492 | 1.90E+27 | 1.33 | 318.258 |
زحل | 60268 | 5.68E+26 | 0.69 | 95.142 |
یورینس | 25559 | 8.68E+25 | 1.32 | 14.539 |
نیپچون | 24766 | 1.02E+26 | 1.64 | 17.085 |
پلوٹو | 1150 | 1.27E+22 | 2.06 | 0.002 |
ہماری زمین کا چاند | 1738 | 7.35E+22 | 3.34 | 0.012 |
آئیو (مشتری کا چاند) | 1821 | 8.93E+22 | 3.53 | 0.015 |
یوروپا (مشتری کا چاند) | 1565 | 4.80E+22 | 2.99 | 0.008 |
گانیمید (مشتری کا چاند) | 2634 | 1.48E+23 | 1.94 | 0.025 |
کالستو (مشتری کا چاند) | 2403 | 1.08E+23 | 1.85 | 0.018 |
اس جدول سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ایک بہت ہی بڑے تصوارتی سمندر میں چاند، سورج اور سب سیاروں کو پھینکا جائے تو صرف زحل تیرتا رہے گا باقی سب ڈوب جائیں گے۔
سورج، جو ایک main sequence G2 ستارہ ہے، نظام شمسی کا مرکزی جز ہے۔ سورج نظام شمسی کی معلوم کمیت میں سے 99.86 فیصد کا حامل ہے اور ثقلی طور پر دوسرے تمام اجسام پر حاوی ہے۔[6] مشتری اور زحل، جو سورج کے گرد گردش کرنے والے سب سے بڑے سیارے ہیں، باقی ماندہ کمیت کے 90 فیصد کے حامل ہیں۔ اورت بادل میں بھی، جو فی الحال ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے، مادے کی کافی مقدار موجود ہو سکتی ہے۔
سورج کے گرد گردش کرنے والے سبھی سیاروں کے مدار (پلوٹو سیارہ نہیں ہے) زمین کے مدار کے تقریباًً متوازی ہیں یا اس سے بہت کم زاویہ بناتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دم دار سیاروں اور کوئپر پٹی کے اجسام کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویے پر ہیں۔
سورج کے گرد گردش کے ساتھ ساتھ تمام سیارے اپنے محور پر بھی گردش کرتے ہیں۔ اگر سورج کے قطب شمالی کے عین اوپر سے معائنہ کیا جائے تو ماسوائے چند اجسام کے، جیسے ہیلی کا دمدار سیارہ، تمام سیارے اپنے محور کے گرد مخالف گھڑی وار سمت میں گردش کرتے ہیں۔
تمام اجسام سورج کے گرد کیپلر کے قانون کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ ہر جسم کا مدار بیضوی ہے اور اس بیضے کے ایک مرکز (focus) پر سورج واقع ہے۔
سورج کے قریب والے اجسام دور والے اجسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے گردش کرتے ہیں۔ سیاروں کے مدار بہت کم بیضوی، بلکہ تقریباًً دائروی ہیں لیکن بہت سے دمدار سیاروں، سیارچوں اور کوئپر پٹی کے اجسام کے مدار انتہائی بیضوی ہیں۔
سیاروں کے مدار ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہیں اور دو مداروں کے درمیانی فاصلے میں تغیر بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ فاصلے نقشوں میں دکھانا کافی مشکل ہے اس لیے عموماً نظام شمسی کے نقشوں میں سیاروں کو ایک دوسرے سے یکساں فاصلے پر دکھایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں، کچھ مثالوں کے سوا، کوئی سیارہ سورج سے جتنا دور ہے، اس کے مدار کا اپنے سے پہلے والے سیارے کے مدار سے فاصلہ اتنا ہی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر زہرہ کا مدار عطارد کے مدار سے 0.33 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے، جبکہ زحل مشتری سے 4.3 فلکیاتی اکائی (AU) دور ہے اور نیپچون یورینس سے 10.5 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے۔ سائنسدانوں نے ان فاصلوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کی کچھ کوششیں تو کی ہیں لیکن اب تک کوئی نظریہ متفقہ طور پر قبول نہیں کیا جا سکا ہے۔
نظام شمسی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نیبولائی نظریے کے مطابق وجود میں آیا۔ یہ نظریہ عمانویل کینٹ نے 1755ء میں پیش کیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق 4 ارب 60 کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑے مالیکیولی بادل کے ثقلی انہدام (gravitational collapse) کی وجہ سے نظام شمسی کی تشکیل ہوئی۔ یہ بادل شروع میں اپنی وسعت میں کئی نوری سال پر محیط تھا اور خیال ہے کہ اس کے انہدام سے کئی ستاروں نے جنم لیا ہو گا۔ قدیم شہابیوں میں ایسے عناصر کی معمولی مقدار/ذرات(traces) پائے گئے ہیں جو صرف بہت بڑے پھٹنے والے ستاروں (نجومِ منفجر (exploding stars)) میں تشکیل پاتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کی تشکیل ستاروں کے کسی ایسے جھرمٹ (خوشۂ انجم (star cluster)) میں ہوئی جو اپنے قریب کے کئی سپر نووا دھماکوں کی زد میں تھا۔ ان دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہروں (shock waves) نے اپنے آس پڑوس کے نیبیولا کے گیسی مادے پر دباؤ ڈال کر زیادہ گیسی کثافت کے خطے پیدا کر دیے جس سے سورج کی تشکیل کی ابتدا ہوئی۔ ان کثیف خطوں میں قوت ثقلی کو بہتر طور پر اندرونی گیسی دباؤ پر قابو پانے کا موقع ملا اور پھر یہ کشش ثقل پورے بادل کے انہدام (collapse) کا باعث بنی۔
اس گیسی بادل کا وہ حصہ جو بعد میں نظام شمسی بنا، اپنے قطر میں قریباً 7,000 سے 20,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) پر محیط تھا اور اس کی کمیت سورج کی موجودہ کمیت سے کچھ زیادہ تھی۔ اسے ماہرین فلکیات قبل الشمس نیبیولا بھی کہتے ہیں۔ جیسے جیسے نیبیولا سکڑتا گیا، محافظۂ زاویائی معیار حرکت یعنی conservation of زاویائی معیار حرکت کے باعث اس کی گردش کی رفتار بڑھتی گئی۔ جوں جوں مادہ اس بادل کے مرکز میں اکٹھا ہوتا گیا، ایٹموں کے آپس میں ٹکرانے کی تکرار (تعدد (frequency)) بھی بڑھتی گئی اور اس وجہ سے مرکز میں درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ مرکز، جہاں پر اب زیادہ تر مادہ اکٹھا ہو چکا تھا، گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا اور اس کا درجہ حرارت باقی ماندہ بادل کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو گیا۔ گردش، کشش ثقل، گیسی دباؤ اور مقناطیسی قوتوں کے زیر اثر سکڑتا ہوا نیبیولا آہستہ آہستہ ایک گردش کرتی ہوئی قبل السیاروی طشتری میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا جس کا قطر تقریباًً 200 فلکیاتی اکائیاں (AU) تھا اور جس کے مرکز میں ایک گرم اور کثیف (dense) جنم لیتا ہوا ستارہ تھا۔
تقریباًً 10 کروڑ سال بعد اس سکڑتے ہوئے نیبیولا کے مرکز میں ہائڈروجن کی کثافت اور اس کا دباؤ اتنا ہو گیا کہ یہاں پر مرکزی ائتلاف کا عمل شروع ہو گیا۔ مرکزی ائتلاف کی رفتار اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک آبسکونی توازن (hydrostatic equilibrium) حاصل نہیں ہو گیا۔ اس موقع پر مرکزی ائتلاف سے پیدا ہونے والی توانائی/دباؤ کی قوت کشش ثقل کے برابر ہو گئی اور مزید سکڑاؤ کا عمل رک گیا۔ اب سورج ایک مکمل ستارہ بن چکا تھا۔
بادل کے باقی ماندہ گردوغبار اور گیسوں سے سیاروں کی تشکیل ہوئی۔
سورج نظام شمسی کا مرکزی ستارہ اور اس کا سب سے اہم حصہ ہے۔ یہ کمیت میں زمین کی نسبت 332,946 گنا بڑا ہے۔ اس کی بھاری کمیت اسے اتنی اندرونی کثافت فراہم کرتی ہے جس سے اس کے مرکز میں مرکزی ائتلاف(nuclear fusion) کا عمل ہو سکے۔ مرکزی ائتلاف کے نتیجے میں بہت بڑی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس کا زیادہ تر حصہ برقناطیسی لہروں (electromagnetic radiations) اور روشنی کی شکل میں خلا میں بکھر جاتا ہے
ویسے تو ماہرین فلکیات سورج کو ایک درمیانی جسامت کا زرد بونا ستارہ شمار کرتے ہیں، لیکن یہ درجہ بندی کچھ گمراہ کن ہے، کیونکہ ہماری کہکشاں کے دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج نسبتاً بڑا اور چمکدار ہے۔ ستاروں کی درجہ بندی ہرٹزپرنگ-رسل نقشے(Hertzsprung-Russell diagram) کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس گراف میں ستاروں کی چمک کو ان کے سطحی درجہ حرارت کے مقابل درج (plot) کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر زیادہ گرم ستارے زیادہ چمکدار ہوتے ہیں۔ اس عمومی خصوصیت کے حامل ستاروں کو رئیسی متوالیہ (main sequance) ستارے کہتے ہیں اور سورج بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ لیکن سورج سے زیادہ گرم اور چمکدار ستارے بہت کمیاب ہیں جبکہ سورج سے مدھم اور ٹھنڈے ستارے عام ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کے اس وقت سورج اپنی زندگی کے عروج پر ہے اور ابھی اس میں جلانے کے لیے بہت ایندھن باقی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سورج کی چمک میں اضافہ ہو رہا ہے؛ ابتدا میں سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک کا صرف 75 فیصد تھی۔
سورج میں ہائڈروجن اور ہیلیم کے تناسب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابھی اپنی عمر کے درمیانی حصے میں ہے۔ وقت کے ساتھ سورج کی جسامت اور چمک میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس کا درجہ حرارت کم ہوتا جائے گا اور رنگت سرخی مائل ہوتی جائے گی۔ تقریباً 5 ارب سال میں سورج ایک سرخ جن (giant) بن جائے گا۔ اس وقت سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک سے کئی ہزار گنا زیادہ ہو گی
سورج اول آبادی (population I) کا ستارہ ہے؛ یہ کائناتی ارتقاء کے بہت بعد کے مراحل میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ساخت میں دوم آبادی (population II) کے ستاروں کی نسبت بھاری عناصر کی مقدار زیادہ ہے۔ ان بھاری عناصر کو فلکیات کی زبان میں دھاتیں کہتے ہیں گو کہ علم کیمیا میں دھات کی تعریف اس سے مختلف ہے۔ ہائڈروجن اور ہیلیم سے بھاری عناصر قدیم پھٹنے والے ستاروں کے مرکز میں بنے تھے؛ اس لیے کائنات میں ان عناصر کی موجودگی کے لیے ستاروں کی پہلی نسل (generation) کا مرنا ضروری تھا۔ قدیم ترین ستاروں میں دھاتوں کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے جبکہ نئے ستاروں میں ان کی مقدار زیادہ ہے۔ ماہرین فلکیات کے خیال میں سورج کی اونچی دھاتیت اس کے گرد سیاروں کی تشکیل کے لیے انتہائی اہم تھی کیونکہ سیارے دھاتوں کے ارتکام (accretion) سے ہی بنے ہیں۔
اندرونی نظام شمسی اس خطے کا روایتی نام ہے جس میں سورج، پہلے چار سیارے اور سیارچے آتے ہیں۔ یہ سیارے اور سیارچے سلیکیٹ اور دھاتوں سے ملکر بنے ہیں اور سورج سے نسبتاً قریب قریب ہیں؛ اس پورے خطے کا رداس مشتری اور زحل کے مابین فاصلے سے بھی کم ہے۔
نظام شمسی کے چار پہلے سیارے اپنی ساخت کی بنا پر باقی سیاروں سے مختلف ہیں۔ ان کی سطح عموماً چٹانوں اور اونچا نقطۂ انجماد رکھنے والی معدنیات، مثلاً سلیکیٹ وغیرہ سے بنی ہے۔ ان کی ٹھوس سطح کے نیچے انتہائی گرم اور نیم مائع مینٹل پایا جاتا ہے اور اس کا بھی غالب جز سلیکیٹ معدنیات ہی ہیں۔ ان کا مرکز لوہے اور نکل کا بنا ہوا ہے۔ چار میں سے تین سیاروں (زہرہ، زمین اور مریخ) میں کرہ ہوائی بھی موجود ہے۔ ان سب پر شہاب ثاقب ٹکرانے کی وجہ سے تصادمی گڑھے بھی پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی ٹھوس سطح کے نیچے مائع مینٹل زیر حرکت رہتا ہے، اس لیے ان کا سطحی قرش بھی وقتاً فوقتاً حرکت کرتا ہے۔ قرش کی اس حرکت کے باعث سطح پر آتش فشاں پہاڑ اور کھائیاں جنم لیتی ہیں۔
مکمل مضمون کے لیے دیکھیے سیارچوی پٹی
سیارچے عام طور پر چھوٹے اجرام فلکی ہوتے ہیں جو چٹانوں، دھاتوں اور اس طرح کی دوسرے ناقابل تبخیر و تصعید (non-volatile) مادوں سے بنے ہوتے ہیں۔ سیارچوی پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان، سورج سے 2.3 سے 3.3 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر واقع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اجسام نظام شمسی کی تخلیق کے وقت مشتری کی ثقلی مداخلت کے باعث اکٹھے ہو کر ایک سیارہ بننے سے رہ گئے تھے۔
سیارچے اپنی جسامت میں خوردبینی ذرات سے لے کر کئی سو کلومیٹر چوڑی دیوہیکل چٹانوں تک ہو سکتے ہیں۔ انتہائی بڑے سیارچوں، جیسے کہ سیرس، کے علاوہ تمام سیارچوں کو چھوٹے اجرام فلکی میں شمار کیا جاتا ہے۔ مستقبل میں مزید تحقیق کے بعد کچھ اور بڑے سیارچوں، مثلاً 4 ویسٹا اور 10 ہائجیا، کو بھی بونے سیارے قرار دیا جا سکتا ہے۔
سیارچوی پٹی میں ایسے ہزاروں اور ممکنہ طور پر لاکھوں، اجسام پائے جاتے ہیں جن کا قطر ایک کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ سیارچوں کی پٹی کی کل کمیت زمین کی کمیت کے ہزارویں حصے سے زیادہ ہو۔ پٹی میں سیارچے ایک دوسرے سے کافی دور دور ہیں اور خلائی جہاز عموماً اس خطے سے کسی تصادم کے بغیر آسانی سے گذر جاتے ہیں۔ چھوٹے سیارچے، جن کا قطر 10 میٹر سے لے کر 1 ملی میٹر تک ہو، شہاب ثاقب کہلاتے ہیں۔
نظام شمسی کے وسطی حصے میں دیو ہیکل گیسی سیارے، ان کے بڑے بڑے چاند اور کم مدت کے دمدار سیارے پائے جاتے ہیں۔ اس حصے کا کوئی روایتی نام نہیں ہے؛ بعض اوقات اسے "بیرونی نظام شمسی" کہا جاتا ہے لیکن عصر حاضر میں یہ نام زیادہ تر نیپچون سے پرے کے حصے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
سورج کے گرد گردش کرنے والے تمام مادے میں سے 99 فیصد چار بیرونی سیاروں یا گیسی جنات، میں موجود ہے۔ مشتری کی فضاء زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے۔ یورینس اور نیپچون کی فضاء میں مختلف برفانی مادوں، جیسے کہ پانی، امونیا اور میتھین، کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ ان برفانی مادوں کے باعث کچھ ماہرین فلکیات ان دو سیاروں کو ایک الگ ہی زمرے میں رکھتے ہیں جسے وہ "یورانی سیارے" یا "برفانی جنات" کہتے ہیں۔ ان چاروں سیاروں کے گرد حلقے ہیں لیکن صرف زحل کے حلقے زمین سے صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
مکمل مضمون کے لیے دیکھیے دم دار سیارے
دم دار سیارے چھوٹے اجرام فلکی ہوتے ہیں جن کا قطر عموماً چند کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ مختلف قسم کے منجمد مادوں سے بنے ہوتے ہیں۔ ان کے مدار انتہائی بیضوی ہوتے ہیں؛ عموماً ان کا حضیض (perihelion) اندرونی سیاروں کے مداروں کے اندر ہوتا ہے اور ان کا
edabہوتا ہے۔ جب کوئی دم دار سیارہ اندرونی نظام شمسی کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو سورج کی حدت کے باعث اس کی سطح پر تصعید اور آئن سازی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بخارات اور ذرات دم دار سیارے سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور گرد اور بخارات پر مشتمل ایک لمبی سی دم بناتے ہیں جو برہنہ آنکھ سے بھی دکھائی دیتی ہے۔
کم دورانیہ/عرصہ مدت والے دم دار سیارے ہر دو سو سال یا اس سے بھی کم عرصے میں نمودار ہوتے ہیں جبکہ لمبے دورانیے والے سیارے ہزاروں سال میں ایک بار دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کم دورانیے والے سیارے، جیسے ہیلی کا دم دار سیارہ، کوئپر بیلٹ سے آتے ہیں، جبکہ لمبے دورانیے والے سیارے، جیسے ہیل-باپ، اورٹ بادل سے آتے ہیں۔ دم دار سیاررں کے گروہ، جیسے کہ Kreutz Sungrazers، ایک سیارے کے ٹوٹنے سے بنتے ہیں۔ کچھ انتہائی لمبے دورانیے کے سیاروں کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نظام شمسی کے باہر سے آتے ہیں، لیکن ان کے مداروں کا درست تعین مشکل ہے اس لیے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ بعض پرانے دم دار سیارے بارہا سورج کے قریب سے گزرنے کے باعث اپنے منجمد مادے کھو چکے ہیں اور صرف ان کا چٹانی مرکز باقی بچا ہے۔ انھیں اکثر سیارچوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
نیپچون سے پرے کا خطہ، جسے اکثر بیرونی نظام شمسی یا خطہ ماورا النیپچون بھی کہا جاتا ہے، زیادہ تر unexplored ہے۔ بظاہر یہ خطہ صرف برف اور چٹانی مادوں سے بنے چھوٹے اجسام پر مشتمل دکھائی دیتا ہے۔ اس خطے میں اب تک دریافت شدہ اجسام میں سب سے بڑا جسم قطر میں زمین سے پانچ گنا چھوٹا اور کمیت میں ہمارے چاند سے بھی بہت کم ہے۔
کوئپر پٹی، جو اس خطے کے شروع میں واقع ہے، سیارچوی پٹی کی طرح گردوغبار اور ملبے کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے، لیکن سیارچوی پٹی کے برعکس یہ زیادہ تر برف پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ سورج سے 30 سے 50 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہ کم مدت کے دمدار سیاروں، جیسے ہیلی کا دمدار سیارہ، کا منبع خیال کیا جاتا ہے۔ اس پٹی کے بیشتر اجسام نظام شمسی کے چھوٹے اجسام کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ان میں سے بعض بڑے اجسام، جیسے کواوار ،وارونا اور سیڈنا، کو مستقبل میں بونے سیارے بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق کوئپر پٹی میں 50 کلومیٹر سے زیادہ قطر والے ایک لاکھ سے زیادہ اجسام موجود ہیں، لیکن ان کے خیال میں اس پٹی کی مجموعی کمیت زمین کی کمیت کے دسویں یا ایک سویں حصے کے برابر ہے۔ اس پٹی کے اکثر اجسام کے ایک سے زیادہ چاند ہیں اور اکثر کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویے پر ہیں
کوئپر پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ روایتی پٹی اور گمگی پٹی (resonant belt)۔ گمگی پٹی کے اجسام نیپچون سے ایک گمگی رشتہ (resonance relationship) میں جڑے ہوئے ہیں؛ یعنی سورج کے گرد ان کی گردش کا وقت دوران نپچون کی کشش ثقل کے زیر اثر ہے۔ نیپچون کے اپنے مدار میں ہر تین چکر پورا کرنے پر یہ اجسام سورج کے گرد اپنے دو چکر پورے کرتے ہیں یا پھر اس کے ہر دو چکروں کے مقابلے میں ایک۔ گمگی پٹی نیپچون کے مدار کے اندر ہی سے شروع ہوتی ہے۔ روایتی پٹی کے اجسام کا نیپچون کی گردش دوران سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ پٹی تقریباًً 39.4 سے 47.7 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک پھیلی ہوئی ہے۔ روایتی پٹی کے اجسام کو کیوبیوانوز (cubewanos) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عجیب سا نام دراصل اس پٹی کے سب سے پہلے دریافت ہونے والے جسم کیو بی ون (QB1) کے نام پر رکھا گیا ہے جو 1992ء میں دریافت ہوا تھا۔
منتشر طشتری کوئپر پٹی سے overlap کرتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ منتشر طشتری کے اجسام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کے یہ دراصل کوئپر پٹی سے ہی آئے ہیں اور نیپچون کی ابتدائی زندگی میں جب اس کا مدار سورج سے دور جا رہا تھا تو اس کی کشش ثقل کے زیر اثر یہ اجسام بے ترتیب مداروں میں چلے گئے۔ زیادہ تر منتشر طشتری کے اجسام کا حضیض (perihelion) کوئپر پٹی کے اندر واقع ہے، جبکہ ان کے اوج (aphelion) کا سورج سے فاصلہ 150 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک ہے۔ ان کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویہ بناتے ہیں اور اکثر کے مدار زمین کے مدار کے عموداً (90 درجے کے زاویہ پر) واقع ہیں۔ بعض فلکیات دان منتشر طشتری کو کوئپر پٹی کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور اسے "کوئپر پٹی کے منتشر اجسام" کا نام دیتے ہیں۔
وہ نقطہ جہاں پر نظام شمسی ختم ہوتا ہے اور بین النجمی خلا (interstellar space) شروع ہوتی ہے کچھ ٹھیک طرح سے متعین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ حد دو مختلف قوتیں طے کرتی ہیں: باد شمسی اور سورج کی کشش ثقل۔ باد شمسی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پلوٹو کے مدار کے چار گنا فاصلے پر ختم ہو جاتی ہے لیکن سورج کی کشش ثقل اس سے ہزار گنا فاصلے پر بھی اثر رکھتی ہے۔
کرہ شمسی (heliosphere) کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ باد شمسی اپنی پوری رفتار سے تقریباً 95 فلکیاتی اکائیوں (AU) یا پلوٹو کے مدار سے تین گنا فاصلے تک، جاتی ہے۔ یہاں اس کا تصادم مخالف سمت سے آنے والی بین النجمی واسطے کی ہواؤں سے ہوتا ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں بادشمسی کی رفتار میں کمی آتی ہے، اس کے کثافت بڑھ جاتی ہے اور یہ مزید بے سکون (turbulent) ہو جاتی ہے۔ اس مقام تک کرہ شمسی ایک درست کرے کی شکل کا ہے لیکن اس سے آگے یہ ایک بیضے کی شکل کا ہو جاتا ہے جسے شمسی نیام (heliosheath) کہتے ہیں۔ شمسی نیام کی شکل اور طرز عمل دونوں ایک دمدار سیارے کی دم کی طرح ہیں؛ یہ اس مقام سے کہکشاں میں سورج کی حرکت کی سمت میں تقریباً 40 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک جاتی ہے لیکن اس سے مخالف سمت میں اس سے کئی گنا زیادہ فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے۔ سکون شمسی، جو کرہ شمسی کی بیرونی حد ہے، وہ نقطہ ہے جہاں باد شمسی مکمل طور پر رک جاتی ہے اور بین النجمی خلا کا آغاز ہوتا ہے۔[7]
آج تک کوئی خلائی جہاز سکون شمسی سے آگے نہیں گیا اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ اس سے آگے خلا میں کیا حالات ہیں۔ یہ بھی بخوبی معلوم نہیں کہ کرہ شمسی نظام شمسی کو نقصان دہ کائناتی اشعاع (cosmic rays) سے کس حد تک بچاتا ہے۔ کرہ شمسی سے باہر کے حالات معلوم کرنے کے لیے ایک خصوصی مہم زیر غور ہے۔[8]
نظریاتی (hypothetical) اورت بادل کھربوں برفانی اجسام کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو نظام شمسی کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ یہ سورج سے 50,000 سے 100,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے اور خیال کیا جاتا ہے لمبے وقت دوران کے دمدار سیارے یہیں سے آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے زیادہ تر اجسام دمدار سیارے ہیں جو اندرونی نظام شمسی سے بیرونی سیاروں کی کشش ثقل کے باعث خارج ہو گئے تھے۔ اورت بادل کے اجسام بہت آہستہ رفتار سے حرکت کرتے ہیں اور ان کی حرکت میں کبھی کبھار ہونے والے واقعات جیسے کہ دوسرے اجسام سے تصادم، کسی گزرتے ہوئے ستارے کی کشش ثقل یا کہکشاں کے مدوجذر، آسانی سے خلل پیدا کر سکتے ہیں۔[9][10]
نظام شمسی کا ایک بڑا حصہ اب بھی نا معلوم ہے۔ سورج کی کشش ثقل کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ 2 نوری سال یا 125,000 فلکیاتی اکائیوں (AU)، کے فاصلے تک دوسرے ستاروں کی کشش ثقل پر حاوی ہے۔ اس کے مقابلے میں اورت بادل ممکنہ طور پر صرف 50,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہو سکتا ہے۔[12] سیڈنا جیسے اجسام کی دریافت کے باوجود کوئپر پٹی اور اورت بادل کے درمیان کا خطہ، جس کا رداس ہزاروں فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے، زیادہ تر غیر مرسوم (uncharted) ہے۔ سورج اور عطارد کے درمیانی خطے پر بھی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔[13]
نظام شمسی کے غیر مرسوم حصوں میں نئے اجسام کی دریافت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
نظام شمسی جس کہکشاں میں واقع ہے اس کا نام جادہ شیر (Milky Way) ہے۔ یہ ایک barred spiral کہکشاں ہے۔ اس کا قطر ایک لاکھ نوری سالوں پر محیط ہے اور اس میں 2 کھرب ستارے موجود ہیں۔[14] ہمارا سورج اس کہکشاں کے بیرونی بازؤں میں سے ایک اورائن بازو یا مقامی spur میں موجود ہے۔[15] سورج سے ہماری کہکشاں کا مرکز تقریباً 25,000 سے 28,000 نوری سال کی دوری پر ہے اور یہ کہکشاں کے مرکز کے گرد تقریباً 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے گردش کر رہا ہے۔ اس رفتار سے اسے ایک چکر پورا کرنے میں اندازہً 22.5 سے 25 کروڑ سال لگتے ہیں۔ اس چکر کو نظام شمسی کا کہکشانی سال (galactic year) بھی کہتے ہیں۔[16]
ماہرین کے خیال میں سورج کے اس محل وقوع کا زمین پر زندگی کے ارتقا میں بہت اہم کردار ہے۔ سورج کا مدار تقریباً دائروی ہے اور یہ اسی رفتار سے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے جس رفتار سے کہکشاں کے بازو گردش کرتے ہیں۔ رفتار کی اس یکسانی کے باعث سورج ان بازؤں میں سے کبھی کبھار ہی گزرتا ہے۔ چونکہ ان بازؤں میں خطرناک سپر نووا کی کافی کثرت پائی جاتی ہے، سورج کا ان میں سے نہ گذرنا زمین کو ان خطرناک اثرات سے نسبتاً محفوظ رکھتا ہے اور زندگی کو ارتقا کا موقع فراہم کرتا ہے۔[17] سورج ستاروں کی گنجان آبادی والے مرکزی خطے سے بھی کافی فاصلے پر ہے۔ اگر سورج مرکز کے قریب واقع ہوتا تو دوسرے ستاروں کے قریب ہونے کے باعث ان کی کشش ثقل اورت بادل کے اجسام کو مسلسل ان کے مداروں سے ہٹا کر اندرونی نظام شمسی کی جانب بھیجتی رہتی۔ ان میں سے بہت سے اجسام زمین سے ٹکرا کر زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے تھے۔ کہکشاں کے مرکز سے آنے والی برقناطیسی لہریں پیچیدہ جانداروں کے ارتقا میں خلل انداز بھی ہو سکتی تھیں۔[17]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.