یہودی تاریخ
From Wikipedia, the free encyclopedia
یہودی تاریخ یہودیوں اور یہودیت کی تاریخ ہے۔ اگرچہ یہودیت بطور مذہب یونانی تاریخی حوالوں کے مطابق سب سے پہلے ھلنستی دور (31 ق م – 323 ق م) میں ظاہر ہوا اور اسرائیل کا قدیم ترین ذکر، قطبہ مرنپتاح 1203–1213 ق م پر لکھا ملتا ہے، مذہبی ادب بنی اسرائیلیوں کی کہانی 1500 سال ق م پرانی بتلاتا ہے۔ یہودی جلاوطن برادری اسوری فتح کے ساتھ ہی شروع ہوئی اور بابلی فتح پر شدت اختیار کی۔ یہودی رومی سلطنت میں بھی جابجا پھیلے ہوئے تھے، جس میں بازنطینی حکمرانی دور میں وسطی اور مشرقی بحیرہ روم میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 638ء میں بازنطینی سلطنت نے بلادِ شام اور مشرقی بحیرہ رومی علاقوں کا قبضہ کھو دیا، عرب اسلامی سلطنت کے تحت خلیفہ عمرؓ نے بیت المقدس، عراق، شام، فلسطین اور مصر فتح کیا۔ ہسپانیہ میں یہودی ثقافت کا سنہری دور مسلم سنہری دور اور یورپ کے قرون وسطیٰ کے تاریک دور ساتھ وقوع پزیر ہوا جب جزیرہ نما آئبیریا کے زیادہ تر علاقوں میں مسلم حکمرانی تھی۔ اس دور میں یہودیوں کو عام طور پر معاشرہ میں تسلیم کیا جاتا تھا چنانچہ یہودی مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی نے ترقی کی۔
اس صفحہ میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
کلاسیکی عثمانی مدت کے دوران میں 1300ء -1600ء سلطنت کی تمام اقلیتی برادریاں بشمول یہود کسی حد تک خوش حالی و آزادی کا لطف اٹھاتے رہے۔17ویں صدی میں مغربی یورپ میں اچھی خاصی یہودآبادیاں تھیں۔ یورپی نشا ۃ ثانیہ اور روشن خیالی کی مدت کے دوران خود یہودی برادریوں میں بھی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ 18ویں صدی عیسوی میں یہودیوں نے تحدیدی قوانین سے آزادی اور وسیع تر یورپی معاشرہ میں انضمام کے لیے مہم شروع کی۔ 1870ء اور 1880ء کی دہائیوں کے دوران یورپی یہود نے زیادہ فعال طور پر ہجرت کرنے اور یہود کو فلسطین اور ارض مقدسہ کے علاقوں میں دوبارہ آبادکاری کے بارہ آزادانہ گفتگو اور بحثیں شروع کی۔ صیہونی تحریک باضابطہ طور پر 1897ء میں قائم کی گئی۔ دریں اثنا، یورپ اور امریکا کے یہود نے سائنس، ثقافت اور معیشت کے شعبوں میں میں مہارت حاصل کی جن میں عام طور پر سائنس دان البرٹ آئنسٹائن اور فلسفی لڈوگ وٹگنسٹائن کو سب سے زیادہ مشہور سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کے بعد سے یہود نے بڑی تعداد میں نوبل انعام جیتنا شروع کیے۔[1]
1934ء میں ایڈولف ہٹلر اور نازیوں کے جرمنی میں اقتدار میں آنے پر یہودیوں کی صورت حال زیادہ کشیدہ ہو گئی۔ اقتصادی بحران، سام مخالف نسلی قوانین اور قریب تر ہوتی آئندہ کی جنگ کے خوف نے بہت سے یہودیوں کو یورپ سے فلسطین، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور سوویت یونین فرار ہونے پر مجبور کیا۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی 1941ء تک ہٹلر نے پولستان اور فرانس سمیت تقریباً تمام یورپ جہاں اس وقت لاکھوں یہودی رہ رہے تھے پر قبضہ کر لیا۔ 1941ء میں سوویت یونین پر حملہ کے بعد یہودیوں کا حتمی علاج یعنی یہودی لوگوں کا وسیع پیمانہ پر بے مثال و منظم قتلِ عام شروع ہوا جس کا مقصد یہودی نسل کی فنا و تعدیم تھا اور جس کے نتیجہ یورپ بشمول شمالی افریقہ (نازی نواز وکی - شمالی افریقہ اور اطالوی لیبیا) میں یہود پر ظلم و ستم اور عقوبت وقوع پزیر ہوا۔ اس نسل کشی جس میں تقریباً ساٹھ لاکھ یہود باضابطہ طریقہ سے ہلاک کیے گئے مرگ انبوہ یعنی ہولوکاسٹ یا (عبرانی اصطلاح) شواح کے طور پر جانا جاتا ہے صرف پولستان کے حراستی کیمپوں میں تیس لاکھ یہود گیس کی کوٹھڑیوں کے ذریعہ قتل ہوئے جبکہ صرف آشوٹز حراستی کیمپ ہی میں دس لاکھ قتل کیے گئے۔
1945ء میں فلسطینی یہودی مزاحمتی تنظیمیں متحد ہوئیں اور یہودی مزاحمتی تحریک ہگانا کی باقاعدہ بنیاد ڈالی، تحریک نے برطانوی تسلط سے لاتعلقی کا برملا اظہار شروع کر دیا حتی کہ برطانوی حکومت کے فلسطینی علاقوں میں لامحدود یہودی آبادکاری سے انکار پر ہگانا دہشت گرد طریقہ مزاحمت اپنایا اور ساتھ ہی ساتھ بحری جہازوں میں غیر قانونی تارکین وطن یہود کو فلسطین میں آباد کرنے لگے۔ ڈیوڈ بن گوریان نے 14 مئی 1948ء کو ارض مقدسہ میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا جو اسرائیلی ریاست کے طور پر جانا گیا۔ اس کے بعد فوری طور پر تمام ہمسایہ عرب ریاستوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ 1949ء میں جنگ ختم ہوئی تو اسرائیل کی ریاست کی تعمیر شروع ہوئی، ریاست نے بڑے پیمانہ پر دنیا بھر سے سینکڑوں ہزاروں یہودی مہاجرین کی لہروں کو جذب کیا۔ آج اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس کی آبادی 80 لاکھ افراد سے زائد ہے، جن میں 60 لاکھ یہودی ہیں۔ سب سے بڑا یہودی طبقہ اسرائیل اور امریکہ میں ہے جبکہ اہم برادریاں فرانس، ارجنٹائن، روس، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی میں ہیں۔ اعداد و شمار اور جمعیت شماری کے لیے یہودی آبادی صفحہ ملاحظہ کریں۔