جرمن فوجی، مصور، سیاسی مصنف، ریاست کار، سیاست دان From Wikipedia, the free encyclopedia
ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لیے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی کی طرف سے ايك عام سپاہی کی حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لیے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی کی وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ یقینا ہٹلر[30] خوبیوں اور خامیوں کا عجیب پیکر تھا
اڈولف ہٹلر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(جرمنی میں: Adolf Hitler) | |||||||
جرمنی کے فہرر | |||||||
مدت منصب 2 اگست 1934 – 30 اپریل 1945 | |||||||
| |||||||
نائب |
| ||||||
(1933–1945)جرمن چانسلر | |||||||
مدت منصب 30 جنوری 1933 – 30 اپریل 1945 | |||||||
صدر | پال وون ہنڈنبرگ (تک 1934) | ||||||
نائب |
| ||||||
| |||||||
پرشیا کے ریچسٹاٹہالٹر | |||||||
مدت منصب 30 جنورد 1933 – 30 اپریل 1945 | |||||||
وزیر اعظم |
| ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 اپریل 1889ء [1][2][3][4][5][6][7] براناؤ ام این [8][9] | ||||||
وفات | 30 اپریل 1945ء (56 سال)[1][10][2][3][4][5][11] برلن [9] | ||||||
وجہ وفات | شوٹ [12] | ||||||
طرز وفات | خود کشی [12] | ||||||
شہریت | آسٹریا (12 نومبر 1918–30 اپریل 1925) جمہوریہ وایمار (25 فروری 1932–30 جنوری 1933)[13] نازی جرمنی (30 جنوری 1933–30 اپریل 1945) | ||||||
آنکھوں کا رنگ | نیلا | ||||||
بالوں کا رنگ | خاکی | ||||||
قد | 174 سنٹی میٹر [14]، 175 سنٹی میٹر [15] | ||||||
وزن | 72 کلو گرام | ||||||
جماعت | نازی جماعت (24 فروری 1920–) | ||||||
عارضہ | پارکنسن کی بیماری [16] آتشک | ||||||
زوجہ | ایوا براؤن (29 اپریل 1945–30 اپریل 1945)[17] | ||||||
ساتھی | ایوا براؤن (1945–29 اپریل 1945)[17] | ||||||
تعداد اولاد | 0 | ||||||
والد | الوئس ہٹلر | ||||||
والدہ | کلارا ہٹلر | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | فوجی ، مصور ، سیاسی مصنف ، سیاست دان [18][19]، عسکری قائد [20]، مصنف [21] | ||||||
مادری زبان | جرمن | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | آسٹریائی جرمن ، جرمن [22][23][24] | ||||||
شعبۂ عمل | نازیت [25]، عسکری آمریت [25]، سیاست [25]، فوجی افسر [26]، مصور [26]، سیاست دان [26] | ||||||
کارہائے نمایاں | مائن کیمف | ||||||
مؤثر | رچرڈ واگنر [27] | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | جرمن سلطنت | ||||||
شاخ | جرمن آرمی، ریچشیر | ||||||
یونٹ | سولہویں | ||||||
کمانڈر | ویرماخٹ | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | پہلی جنگ عظیم | ||||||
اعزازات | |||||||
نامزدگیاں | |||||||
دستخط | |||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
1933ء کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے صدر نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور ہٹلر ملك کے سب سے اعلیٰ عہدے چانسلر تک پہنچ گيا۔ چانسلر بننے كے بعد ہٹلر نے جو سب سے پہلا كام كيا وہ نازی پارٹی كا فروغ تھا۔ اس مقصد كے ليے اس نے اپنے مخالفين كو دبانے کا ہر حربہ آزمايا۔
لاکھوں مرد ، خواتین اور بچے کے قتل کا ذمہ دار، ہٹلر ایک قوم پرست اور نسل پرست نظریاتی تھا اور اس میں امتیازی سلوک اور خاتمے کی پالیسی تھی جس نے مختلف نسلی، سیاسی اور معاشرتی گروہوں کو متاثر کیا۔
1939ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی۔
دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں 30 اپریل 1945ء کو ہٹلر نے برلن میں اپنی زیرزمین پناہ گاہ میں اپنی نئی نویلی دلہن ایوان براؤن کے ساتھ خودکشی کرلی۔
اس کے دور حکومت میں نازی جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا جبکہ اس پر 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودی بھی شامل تھے۔ یہودی ہٹلر کے ہاتھوں اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یادکرتے ہیں۔
ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔ اس طرح لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، رومینیوں،غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔[31][32]
خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ یہودیوں اور روم انیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو منتقل کر دیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں انھیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کر دیا۔[33] ان کا تحریک نازیت میں اہم قردار تھا۔
ہٹلر کے والد الوئس ہٹلر (1837ء–1903ء)، ماریہ اینا شکلگربر کے بیٹے تھے۔ بیپٹسمل رجسٹر میں والد کا نام درج نا ہونے پر ان کے والد کی جگہ والدہ کا نام شکلگربر ہی لگا دیا گیا تھا۔ 1842 میں ان کی والدہ کی شادی جوہان جارج ہیڈلر نامی شخص سے ہوئی۔ 1847ء میں ان کی والدہ اور 1856ء میں ہیڑلر کے انتقال کے بعد، ہیڈلر کے بھائی جوہان نیپومک ہیڈلر نے ان کی پرورش کی۔ 1876ء میں بیپٹسمل رجسٹر میں قانونی طور پر الوئس ہٹلر کے والد کا نام جوہان جارج ہیڈلر رجسٹر کیا گیا (ریکارڈ میں جارج ہٹلر موجود ہے)۔ وہاں سے الوئس نے اپنے خاندانی نام کی جگہ ہٹلر لگانا شروع کیا۔
نازی اہلکار ہانس فرانک کے مطابق الوئس کی والدہ ایک یہودی خاندان کے ہاں گراز میں گھرداری کا کام کرتی تھی اور اس خاندان کے 19 سالہ لیوپولڈ فرانکنبرگر الوئس کے والد ہیں۔ مگر کیونکہ اس دور میں گراز کے ریکارڈ میں کیس لیوپولڈ نامی شخص کا نام نہ ملنے پر تاریخدان اس دعویٰ کو رد کرتے ہیں۔
اڈولف ہٹلر کی پیدائش 20 اپریل 1889ء میں آسٹریا-مجارستان کے شہر برائناؤ ایم ان کے ایک ہوٹل گاستھوف زم پومر نامی ہوٹل میں ہوئی جو سالزبرگر وورسٹاڈ 15 پر واقع ہے۔ یہ شہر باواریا، جرمنی کا پڑوسی شہر ہے۔ اس کی والدہ کلارا ہٹلر الوئس ہٹلر کی تیسری بیوی تھی۔ ہٹلر کا چھ بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر تھا۔ ان بڑے بہن بھائیوں میں گستاو، ایدا اور اوٹو کا کم عمری ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہٹلر کی چھوٹی بہن پاؤلا ہٹلر ہھی جوانی کی عمر کو پہنچ سکی۔ جب ہٹلر تین سال کے ہوئے تو ان کا کنبہ پساؤ، جرمنی منتقل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہان کا تلفظ آسٹرین جرمن کی جگہ لوئر باوارین تھا۔ 1894ء میں ان کا کنبہ لیوڈنگ (لنز کے قریب) منتقل ہو گیا اور جون 1895ء میں ان کی والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہیفلڈ (لیمبیک کے نزدیک) ایک زمین کے قطعے پر مکھیوں کی افزائش کرنے لگے۔ ہٹلر نے فشلہیم کے قریب ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد کی فرانسیسی جرمن جنگ 1870–71 پر مبنی تصویری کتاب نے ان کی توجہ جنگ و جدل کی جانب لگانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہیفلڈ میں اسکول کے سخت قوانین کی پاسداری نا کرنے پر ہٹلر کا اپنے والد سے شدید تناضع رہنے لگا۔ ان کے والد کا ہیفلڈ میں کھیتی کا کام نا چلا اور 1897ء میں یہ کنبہ لیمبیک کوچ کر گیا۔ آٹھ سالہ ہٹلر نے موسیقی کی تعلیم میں دلچسپی لی اور چرچ میں کوائر گائے، یہاں تک کے انھوں نے پادری بننے کا بھی سوچا۔ 189 میں یہ کنبہ مستقل طور پر لیوڈنگ واپس آگیا۔ 1900ء میں ان کے چھوٹے بھائی ایڈمنڈ کی خسرہ سے موت نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اب ہٹلر ایک خوداعتماد اور غیور طالب علم سے ایک خاموش اور اداس شخصیت بن گئے تھے جن کی بات بات پر اپنے والد اور اساتذہ سے نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔
اس دوران میں الوئس نے کسٹم بیورو میں ایک کامیاب ذریعہ معاش تلاش کر لیا تھا اور اپنے بیٹے کو اپنے نقش قدم پر چلانا چاھتا تھا۔
ہٹلر اس دوران میں کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں جس میں ان کے والد انھیں کسٹم آفس گھمانے لے گئے مگر وہاں ہونے والے اختلاف نے باپ بیٹے کے درمیان میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خلاء پیدا کر دیا۔ اپنے بیٹے کے مصور بننے کی خواہش کے خلاف ستمبر 1900ء میں ہٹلر کو ریئلشول، لنز بھیج دیا گیا۔ اپنی کتاب مین کیمپ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلہ سے بغاوت کرتے ہوئے انھوں نے جان بوجھ کر تعلیم پریہ سوچ کر توجہ نہیں دی کہ شاید ان کی بری کارکردگی دیکھ کر ان کو اپنا خواب پورا کرنے کا موقع مل جائے۔
دیگر آسٹرین جرمن نزاد افراد کی طرح کم سنی میں ہی ان میں جرمن قوم پرستی کے جذبات موجود تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملتے وقت جرمن خیرمقدم “ہیل“ اور آسٹرین امپیریل ترانہ کی جگہ “دشلیندلید“ گاتے تھے۔
3 جنوری 1903ء میں والد کے انتقال کے بعد ہٹلر کی تعلیمی کارکردگی میں مزید خرابی کے بعد ان کی والدہ نے انھیں اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد ستمبر 1904ء میں ہٹلر نے ریئلشول، اسٹیر میں داخلہ لے لیا۔ 1905ء میں تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد کسی مزید تعلیمی یا معاشی سفر کا منصوبہ بنائے بغیر ہٹلر نے اسکول چھوڑ دیا۔
1905ء کے بعد ہٹلر نے ویانا میں بوہیمین طرز زندگی اختیار کی، جس میں ان کی مالی معاونت ان کی والدہ نے یتیموں کے امدادی فنڈ سے کی۔ وہ کبھی کبھار مزدوری کر لیتے تھے مگر بالاخر انھوں نے مصوری کو اپنا ذریعہ معاش چنا اور آبرنگ بیچنا شروع کیا۔ اکیڈمی برائے فائن آرٹس ویانا نے 1907ء اور 1908ء میں دو بار رد کیا اور ڈائریکٹر نے انھیں ماہر تعمیرات بننے کا مشورہ دیا، جس میں ان کی تعلیمی قابلیت ناکافی تھی۔ 21 دسمبر 1907ء میں ان کی والدہ 47 سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ اکیڈمیں سے دوسری بار رد ہونے کے بعد ہٹلر کی تمام جمع پونجی ختم ہو گئی اور1909ء میں وہ بے آسرا لوگوں کی رہائش میں رہنے لگا اور اس کے بعد 1910ء میں مکان برائے غریب محنتکش افراد میلدیمانسٹرابے میں بس گیا۔ اس دور میں ویانا مزہبی تعصب اور نسل پرستی کا مرکز تھا۔ عوام میں مشرقی سے ہجرت کرنے والی آبادیوں کے ہاتھوں قبضہ ہونے کا خوف عام تھا اور عوام مقبول میئر کارل لیوگر یہود دشمن جذبات کو ذاتی سیاست چمکانے کے لیے ہوا دیتے رہے۔ ہٹلر کے ریائشی ضلع ماریاہلف میں بھی جارج شونیرر کے پین جرمنک یہود شمن جذبات عام تھے۔ اس دور کے اخبارات بھی اسی قسم کا مواد شائع کرتے تھے جن میں ایک ڈیوشس وولکسبلاٹ اکثر ہٹلر کی نظر سے گزرتا تھا اور اس میں مشرقی یہودی آبادیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کے روندے جانے کے اندیشے کا کھلے عام اظہار کیا جاتا تھا۔ ان سب کے باعث نے مارٹن لوتھر کے نظریہ کی ستائش کرنی شروع کردی۔
ہٹلر کے ذہن میں یہود دشمن سوچ کی ابتدا کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ اپنی کتاب مائن کیمف میں اس شوچ کو ویانا میں اپنانے کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ ان کے قریبی دوست آگسٹ کوبیزیک کے بقول ہٹلر لنز چھوڑنے سے قبل ہی اس قسم کے جذبات کے حامل تھے۔ اس کے برعکس کئی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کے ہٹلر کے ویانا کے ہاسٹل اور دیگر جگہوں پر کئی یہودی دوست تھے۔ تاریخدان رچرڈ ایونس لکھتے ہیں کے ”تاریخدان اب عام طور پر متفق ہیں کے ان کا انگشت نما، قاتلانہ یہود دشمن رویہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا نتیجہ تھی“۔
اپنے والد کی جائداد کا آخری حصہ انھیں 1913ء میں ملا اور وہ میونخ چلے گئے۔ تاریخدانوں کے مطابق یہ قدم انھوں نے آسٹرین فوج میں بھرتی نہ ہونے کے لیے اٹھایا تھا۔
ہٹلر نے اس پارٹی کی قیادت سنبھالی تو اس کی بنیاد 27 نکات پر رکھی جن میں سے کچھ یہ ہیں ۔
ہٹلر اس بات سے واقف تھا کہ اسٹاک مارکیٹ محنت کو سرمائیہ کاری سے جدا کرتی ہے۔ پبلک لمیٹڈ کمپنی سرمائیہ داروں کو گم نامیت عطا کرتی ہے اور اسے محنت سے الگ کرنا پڑے گا۔ شیئر ہولڈر کو اپنی کمپنی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
جنرل ایروِن رومیل، "صحرا کی لومڑی" پوری جرمن آرمی میں اپنی بہترین تکنیکی مہارت کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے کئی سالوں تک شمالی افریقہ میں کئی مہمات کی قیادت کی ۔
لیکن آخر جرمن فوج لیبیا کے نچلے حصے میں کیا حاصل کرنا چاہتی تھی؟
جواب سادہ ہے: جنرل رومل سوئیز کینال پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور ساتھ ہی وہ مشرق وسطیٰ کے صحراوں میں تیل کے اُن قیمتی ذخیروں تک رسائی چاہتا تھا جہاں سے ابھی تک تیل نکالا نہیں گیا تھا۔
شمالی افریقہ سے بحر اوقیانوس کے برفانی پانیوں تک، جنوبی پیسیفک کے جنگلوں سے رومانیہ کے آسمانوں تک، دوسری عالمی جنگ برپا ہونے کی وجہ صرف ایک قدرتی وسیلہ تھی - دوسری جنگ عظیم پٹرولیم کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی گئی تھی۔ 1939ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر لشکر کشی دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی۔ اسی دوران ہٹلر جرمنوں کے قائد کے نام سے مشہور ہوگیا اور پھر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کے باوجود، ہٹلر نے فتح کے ذریعے قومی عظمت کی واپسی کے خواب دکھانے شروع کیے ۔ ہٹلر کی تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ جرمنی یورپ پر سبقت حاصل کرے گا اور وہ تمام وسائل حاصل کر لے گا جو گا جو جرمن قوم کو اس قابل بنا کر مغرب پر حکمرانی کے قابل بنا دیں گے ۔ ایڈولف ہٹلر ایک عظیم جرمن سلطنت کا خواہاں تھا اور اس کے خیال اس کے لیے تیل کے ذخائروں پر کنٹرول انتہائی ضروری تھا جبکہ دوسری طرف جنگ عظیم دوم کی بیشتر جنگیں اسی بالادستی کو حاصل کرنے کی خاطر ہوئی تھیں۔ جرمنی کی فوجوں نے 1940ء میں فرانس پر قبضہ جما لیا۔ اب جرمنی کا واحد مدمقابل برطانیہ تھا جو ایک طاقتور بحریہ کا مالک تھا اور دنیا بھر کے خطے خاص طور جنوبی ایشیا اس کے زیر اثر تھا جبکہ دوسری طرف جرمنوں کے پاس نہ اتنی مضبوط بحریہ تھی نہ ہی کوئی فضائی اڈوں کا جال تھا۔ ہٹلر کا مقابلہ کرنے کے لیے برطانیہ ایک اچھی مستحکم پوزیشن میں تھا، جرمنی کی طرح برطانیہ کے پاس بھی تیل کے ذخائر نہیں تھے۔ برطانیہ کو دوسرے ممالک، خاص طور پر امریکا سے تیل فراہم ہوتا تھا۔ تیل کے ٹینکرز ہٹلر کی آبدوزوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے تھے۔ جرمن آبدوزوں نے برطانوی بحریہ کو کافی نقصان پہنچایا۔ تاہم بعد ازاں برطانوی بحریہ بڑی حد تک جرمن آبدوزوں کے حملوں کو روکنے میں کامیاب ہو گئی۔ تیل کے بغیر جدید میکانی جنگ ناممکن تھی ۔ تیل نے ہر اہم جنگی طاقت کو جنگی مہمات کے لیے ایندھن فراہم کیا اور تیل کی ترسیل اور پٹرولیم کے وسائل کے کنٹرول کا حصول جنگ عظیم دوم کے دوران میں ہونے والی ساری بڑی لڑایئوں کی اہم ترین وجہ رہا ۔ اسٹالین گراڈ کی لڑائی اور پرل ہاربر پر حملہ بھی اسی تیل کے حصول کی خاطر تھا۔
زمین پر سب سے طاقتور صنعتی ملک میں سے ایک ہونے کے باوجود، جرمنی میں کوئی تیل کا قدرتی ذخیرہ نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ، برطانیہ اور فرانس کی طرح جرمنی کی کوئی کالونی نہیں تھی جہاں سے اسے بیرون ملک مقیم تیل حاصل ہو سکے۔
دراصل، 1930ء کی دہائی میں تیل پر صرف چند ممالک کا غلبہ تھا۔ عالمی تیل کی پیداوار کا نصف متحدہ امریکا میں پیدا ہوتا تھا۔ باقی تیل سوویت یونین، وینزویلا، ایران، انڈونیشیا اور رومانیہ سے حاصل ہوتا تھا۔ چونکہ جرمنی کی اپنی تیل کی پیداوار نہایت کم تھی اس لیے اس کی صنعتی معیشت کو ایندھن اور اس کی بڑھتی ہوئی جنگ کی مشین کو مضبوط کرنے کے لیے جرمنی کو تیل کے وافر ذخائر کی اشد ضرورت تھی۔
ہٹلر کے پاس دو راستے تھے۔ جرمنی میں کوئلہ وافر مقدار میں موجود تھا جس سے مصنوعی تیل بنایا جا سکتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک کو فتح کر لیا جائے جیسا کہ امریکا نے عراق اور لیبیا کو فتح کر کے کیا۔ ہٹلر ایک عظیم جرمن سلطنت بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے پٹرولیم پر کنٹرول انتہائی ضروری تھا۔ جنگ عظیم دوم کی بیشتر جنگیں اسی کنٹرول کو حاصل کرنے کی خاطر ہوئی تھیں۔
ہٹلر نے مئی 1940ء میں فرانس پر قبضہ کر لیا۔ اب اس کا واحد حریف برطانیہ تھا جو ایک طاقتور بحریہ اور دنیا بھر میں پھیلی کالونیوں کا مالک تھا۔جرمنی کے پاس نہ اتنی مضبوط بحریہ تھی نہ کوئی کالونی۔ ہٹلر کا مقابلہ کرنے کے لیے برطانیہ ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، تاہم برطانیہ کی ساحل سے دور اندرونی یورپی خطوں پر مداخلت کی صلاحیت محدود تھی۔
جرمنی کی طرح برطانیہ کے پاس بھی تیل کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا ۔ برطانیہ کو دوسرے ممالک، خاص طور پر امریکا اور وینزویلا سے تیل فراہم ہوتا تھا۔ تیل کے ٹینکرز جرمن آبدوزوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے تھے۔ جرمن آبدوزوں نے 1941ء اور 1942ء میں برطانوی بحریہ اور برطانوی مرچنٹ جہازوں کو کافی بڑا نقصان پہنچایا۔ تاہم بعد میں برطانوی بحریہ بڑی حد تک جرمن آبدوزوں کے حملوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
جون 1941ء کو، ایک وسیع جرمن فوج نے سوویت یونین پر حملہ کیا ۔ فوج کا ایک حصہ لینن گراڈ کی طرف بڑھا، دوسرا سوویت دار الحکومت ماسکو کی طرف ۔ تیسرا حصہ یوکرین سے گذر کر کوہ قفقاز (Caucasus) میں واقع تیل کے ذخیروں کی جانب بڑھا اور باکو کی تیل ریفائنریوں اور ذخائر پر قبضہ کر لیا۔ اب ہٹلر کے پاس تیل کی کمی نہ رہی تھی۔ لیکن روسیوں نے اسٹالن گراڈ پر جوابی حملہ کیا اور جرمن فوجوں کو بتدریج پسپائی اختیار کرنی پڑی اور جلد ہی روسی تیل کے ذخائر جرمنوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
اس وقت برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ، آپریشن اوورلارڈ کے لیے تیاری کر رہے تھے – یعنی فرانس کو جرمن تسلط سے آزاد کرانا۔ لیکن فرانس میں فوجیں اتارنے سے پہلے اتحادیوں نے جرمن صنعتوں، شہروں اور فوجی تنصیبات پر ایک بڑے پیمانے پر فضائی بمباری کا آغاز کیا۔
ہزاروں سے زائد برطانوی اور امریکی بمباروں نے 1942ء سے 1944ء کے درمیان میں جرمنی پر لاکھوں بم گرائے۔ اگرچہ بیشتر بم نشانے پر نہیں لگے تاہم جرمنی کو کافی نقصان پہنچا۔ اس ساری بمباری کے باوجود 1942ء کے مقابلے میں 1944ء میں جرمنی نے زیادہ ہوائی جہاز اور ٹینک بنائے۔
1943ء اور 1944ء میں برطانوی اور امریکی بمباروں نے رومانیہ میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ رومانیہ ہٹلر کا اتحادی تھا اور جرمنی کو تیل کی سپلائی کا اصل مرکز تھا کیونکہ روسی تیل کا قبضہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
1944ء تک جرمنی میں تیل کی شدید قلت ہو چکی تھی۔ جرمن فضائیہ کا بیشتر حصہ گراونڈ کر دیا گیا۔ فوجی دستوں کی نقل و حمل میں مشکلات آنے لگیں۔ جب نورمنڈی میں اتحادیوں نے فوجیں اتاریں تو جرمن فوج تیل کی کمی کی وجہ سے فوراً کمک پہنچانے میں ناکام رہی۔ 1944ء کی گرمیوں میں اتحادیوں نے جرمنوں کو فرانس کے ایک بڑے حصے سے نکال باہر کیا۔ ہٹلر نے دسمبر 1944ء میں بیلجیئم کی بندرگاہ Antwerp پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاکہ فرانس میں موجود اتحادی فوجوں کو تیل نہ پہنچ پائے۔ اگر اس کی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو جنگ کا نقشہ پلٹ جاتا۔ لیکن ہٹلر کے ٹینک برف میں پھنس گئے اور یہ منصوبہ ناکام رہا۔
1945ء میں جب فرانس میں اتحادیوں کی سپلائی بحال ہوئی تو مغرب سے اتحادیوں اور مشرق سے روسیوں نے جرمنی کی طرف پیشقدمی کری اور برلن کا محاصرہ کر لیا۔ 8 مئی 1945ء کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔
اور یہ تیل کی قلت تھی جس نے بالآخر جرمنی اور جاپان کو شکست سے دوچار کیا۔[36]
ہٹلر جرمنی کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ تاریخ انسانی کی یہ شخصیت جمہوری طریقہ سے منتخب ہوکر ڈکٹیٹر کے درجہ پر فائز ہوا،نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا لیڈر ایڈولف ہٹلر 1930ءکے انتخابات میں منتخب ہوکر جرمنی کا وزیر اعظم(چانسلر۔ جرمنی میں آج بھی وزیر اعظم کے درجہ کے عہدہ کو چانسلر کہا جاتا ہے) بنا اس وقت جرمنی کے صدر پال وان ہڈنبرگ تھے،1934 میں صدر پال وان ہڈنبرگ کے انتقال کے بعد ہٹلر نے انابلنگ ایکٹ آف1933ء کے تحت چانسلر کے عہدہ کو صدارت کے ساتھ ضم کر دیا، ہٹلر کا یہ اقدام سراسر قانونی تھا، ہٹلر ایک سیاسی پارٹی نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا نمائیدہ تھا، اسی پارٹی کو انگریزی میں NAZI پارٹی کہا جاتا ہے،تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہٹلر کے تعلق سے کچھ دلچسپ اور حیرت انگریز باتیں پتہ چلتی ہیں۔ اس کی شخصیت کو ہمیشہ منفی نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ ایک بہت قابل اور دلیر انسان تھا۔ لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی تھیں جسے مورخین نے زیادہ نمایاں کیا۔
مورخین کے مطابق ہٹلر ایک نہایت ذہین شاطر عیار ظالم اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا، اس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے، جب وہ لاکھوں کے مجمع کے سامنے تقریر کے لیے کھڑا ہوتا تھا تو گویا پورے مجمع پر جادو کردیتا تھا، الفاظ ہٹلر کے لیے کھلونا تھے اور انداز بیان اتنا دلچسپ کا مجمع محصور ہوکر رہ جاتا تھا۔ ہٹلر کی مقبولیت کی بنیاد اس کی پارٹی کے نظریات تھے اور آئندہ چل کر انھیں نظریات کی بنا پر نہ صرف جرمنی کے دو ٹکرے ہوئے بلکہ تاریخ انسانی کی بدترین شخصیتوں میں ہٹلر کا شمار ہوا، آج بھی جس طرح مسلمانوں میں یزید کا نام ایک لعنت سمجھا جاتا ہے مغربی اقوام کے لیے ہٹلر کا نام اسی طرح لعنت تسلیم کیا جاتاہے، 1945ء میں ہٹلر کے خاتمہ کے بعد شاید کسی ماں نے اپنے بچہ کا نام ہٹلر نہیں رکھا ہو۔
ہٹلر کے ناجی نظریات جن کے سامنے پوری جرمنی کی قوم آمنا صدقنا زندہ باد کے نعرہ لگاتی تھی ان نظریات کا کفارہ یہ قوم اب تک ادا کر رہی ہے اور آج کی جرمنی کی نسل اپنے اجداد کی غلطی پر آج تک شرمندہ اور اقوام عالم کے سامنے طلب گار معافی بنی ہوئی ہے۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ ہٹلر نے جرمی اور پولینڈ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اسی نسل کشی کو یہودی مرگ انبوہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ہٹلر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ایک بہت اچھا پینٹر تھا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.