ہندوستان کا دارالحکومت From Wikipedia, the free encyclopedia
دہلی (جسے مقامی سطح پر دِلّی اور سرکاری سطح پر دہلی قومی دار الحکومتی علاقہ کہتے ہیں) بھارت کی دار الحکومتی عملداری ہے۔[12] یہ تین اطراف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے، جبکہ اس کے مشرق میں اتر پردیش واقع ہے۔ یہ بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہے۔ 2.5 کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہر ممبئی کے بعد بھارت کا دوسرا، اور دنیا کا تیسرا [13] سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔[14][15] دہلی ممبئی کے بعد، بھارت میں دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلین امریکی ڈالر ہے اور یہ 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔[16]
دہلی | |
---|---|
(ہندی: दिल्ली - دِلّی) | |
(گرمکھی: ਦਿੱਲੀ - دِلّی) | |
تاریخ تاسیس | 500ء کی دہائی ق م |
نقشہ | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | بھارت (15 اگست 1947–)[1] برطانوی ہند (28 جون 1858–14 اگست 1947) مغلیہ سلطنت (5 نومبر 1556–20 ستمبر 1857) سلطنت سور (17 مئی 1540–1556) مغلیہ سلطنت (21 اپریل 1526–17 مئی 1540) سلطنت دہلی (12 جون 1206–21 اپریل 1526) سلطنت غوریہ (1192–12 جون 1206) چوہان خاندان (شکامبھری) (1180–1192) تومر خاندان (9ویں صدی–1180) [2][3] |
دار الحکومت برائے | |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 28°40′00″N 77°13′00″E [4] |
رقبہ | 1397.3 مربع کلومیٹر [5] |
بلندی | 221 میٹر [6][7] |
آبادی | |
کل آبادی | 26495000 (2016)[8] |
• مرد | 8987326 (2011)[9] |
• عورتیں | 7800615 (2011)[9] |
مزید معلومات | |
جڑواں شہر | |
اوقات | متناسق عالمی وقت+05:30 [11] |
گاڑی نمبر پلیٹ | DL-xx |
رمزِ ڈاک | 110000–110999 |
قابل ذکر | |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1273294 |
درستی - ترمیم |
دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔[17] تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دار الحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں 1639ء میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649ء سے 1857ء تک مغلیہ سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے۔ غدر (جنگ آزادی 1857ء) سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران میں کلکتہ کو دار الحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911ء میں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔
1947ء میں آزادئ ہند کے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں بھارتی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔ 1991ء میں بھارت کے آئین کی 69 ویں ترمیم کے مطابق دہلی کو خصوصی درجہ قومی دارالحکومت علاقہ عطا کیا گیا ہے۔ قومی دار الحکومتی علاقہ میں قریبی شہر فریدآباد، گرگاؤں، نوئیڈا، غازی آباد، فرید آباد عظمی، گریٹر نوئیڈا، بہادرگڑھ، سونی پت، پانی پت، کرنال، روہتک، بھیوانی، ریواڑی، باغپت، میرٹھ، مظفر نگر، الوار، بھرت پور بھی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔
دہلی نام کی اشتقاقیات کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک قدیم بادشاہ "ڈھللو" سے موسوم ہے، جس نے 50 ق م میں شہر کو اپنا نام دیا۔[18][19][20] ایک اور روایت کے مطابق شہر کا نام ہندی / پراکرت لفظ ڈھیلی سے ماخوذ ہے، کیونکہ تومر خاندان دہلی کے لوہے کے ستون کی بنیاد کو کمزور کہتے تھے جسے منتقل کیا جانا ضروری تھا۔[20] اور اسی سے اس کا نام ڈھیلیوال پڑا۔[21] بھویشیے پران کے مطابق اندر پرستھ کے بادشاہ پرتھوی راج چوہان نے اپنی بادشاہت کی چار ذاتوں کی سہولت کے لیے ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جو موجودہ دور میں پرانا قلعہ علاقہ میں تھا۔ اس قلعہ لیے ایک دروازے کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں قلعے کا نام دہالی رکھا۔[22] بعض مورخین اس نام ہندوستانی زبان کے لفظ دلی سے ماخوذ سمجھتے ہیں جو دہلیز کہ بگڑی ہوَئی شکل ہے، کیونکہ یہ شہر سندھ و گنگ کا میدان کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔[23][24] ایک اور مفروضے کے مطابق اس شہر کا ابتدائی نام ڈھلكا تھا۔[25]
دہلی کا قدیم ذکر مہا بھارت نامت مہا پران میں ملتا ہے جہاں اس کا ذکر قدیم اندر پرستھ کے طور پر کیا گیا ہے۔ اندرپرستھ مہا بھارت کے دور میں پانڈو کا دار الحکومت تھا۔[26] آثار قدیمہ کے جو پہلے ثبوت ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار قبل مسیح سے پہلے بھی دہلی اور اس کے آس پاس انسانی رہائش گاہیں تھیں۔ موریہ کال (300 ق م) سے یہاں ایک شہر نے ترقی پانا شروع کی۔ پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر چند بردائی کی ہندی تحریر پرتھوی راسو میں تومر بادشاہ انگپال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس نے ہی 'لال کوٹ' تعمیر کروایا تھا اور مہرولی کے لوہے کے ستون کو دہلی لایا۔ دہلی میں تومر کا دور حکومت سال 900-1200سال تک سمجھا جاتا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کو دہلی کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔
1206ء سے دہلی سلطنت دہلی کا دار الحکومت بنا۔ ترک اور پشتون نسل کی ان حکومتوں میں خاندان غلاماں (1206ء تا 1290ء)، خلجی خاندان (1290ء تا 1320ء)، تغلق خاندان (1320ء تا 1413ء)، سید خاندان (1414ء تا 1451ء) اور لودھی خاندان (1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنت مغلیہ سلطنت میں ضم ہو گئی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ آج کی جدید دہلی بننے سے پہلے، دہلی سات بار اجڑی اور مختلف مقامات پر بسی، جن کی کچھ باقیات جدید دہلی میں اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
دہلی کے اس وقت کے حکمرانوں نے اس شکل میں کئی بار تبدیلی کی۔ مغل شہنشاہ ہمایوں نے سرہند کے قریب جنگ میں افغانوں کو شکست دی اور بغیر کسی مزاہمت کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں کی وفات کے بعد ہے مو وكرمادتیا کی قیادت میں افغانوں نے مغل فوج کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے دار الحکومت کو دہلی سے آگرہ منقل کر دیا۔ اکبر کے پوتے شاہ جہاں نے سترہویں صدی کے وسط میں اسے ساتویں بار بسایا جسے شاہجہان آباد کے نام سے پکارا گیا۔ شاہجہان آباد کو عام بول چال کی زبان میں پرانا شہر یا پرانی دلی کہا جاتا ہئے۔ زمانہ قدیم سے پرانی دہلی پر کئی بادشاہوں اور شہنشاہوں نے حکومت کی اور اس کے نام میں بھی تبدیلی کیے جاتے رہے۔ پرانی دہلی 1638ء کے بعد سے مغل شہنشاہوں کا دار الحکومت رہا۔ دہلی کا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھا جس کی وفات جلا وطنی میں رنگون میں ہوئی۔
جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد دہلی پر برطانوی راج قائم ہو گیا۔ 1947ء میں انگریزوں سے آزادی کے بعد دہلی بھارت کا دار الحکومت بنا۔ دہلی میں کئی بادشاہوں کی سلطنت کے عروج اور زوال کے ثبوت آج بھی موجود ہیں۔
دلی بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ سے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہ اتر پردیش سے منسلک ہے۔ برطانوی دور اقتدار میں دلی صوبہ پنجاب کا حصہ تھا اور اب بھی تاریخی اور ثقافتی طور پر دلی خطۂ پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔ جمنا کے سیلابی میدان اوردلی کی نا ہموار چوٹیاں یہ دلی کے دو نمایاں جغرافیائی پہلو یہں۔ دریائے جمنا پنجاب اور اتر پردیش کے درمیان میں تاریخی سرحد ہیں اور اس کے سیلا بی میدان زراعت کے لیے زرخیز مٹی فراہم کراتے ہیں لیکن ڈھلان سطح سیلاب کی باز گشتی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔دریائے جمنا ہندوں کا مقدس دریا ہے جو دلی سے گذرنے والا واحد بڑا دریا بھی ہے۔ ہندن ندی غازی آباد کو دلی کے مشرقی حصے سے الگ کرتی ہے۔ دلی کا پہاڑی سلسلہ جنوب میں اراولی پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے مغربی،شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے کا محاصرہ کرتا ہے۔ اس کی بلندی 318 فٹ ہے یہ اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔
ستمبر 2012ء کے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع، 27 تحصیلوں، 59 مردم شماری ٹاؤن، 300 دیہاتوں [27] اور تین قانونی ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔
دہلی قومی دار الحکومت علاقہ کا اپنا قانون ساز اسمبلی، لیفٹیننٹ گورنر، وزراء کی کونسل اور وزیر اعلیٰ ہے۔ قانون ساز اسمبلی 2023ء میں ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد براہ راست وفاقی انتظام لاگو کر دیا گیا تھا، تاہم اسے 2021 ء میں بحال کر دیا گیا۔ لوک سبھا (بھارتی پارلیمانی ایوان زیریں) میں دہلی سے 70 اسمبلی حلقوں ہیں۔[28][29]
1990ء کی دہائی تک انڈین نیشنل کانگریس دہلی میں تمام حکومتیں بناتی تھی حتیٰ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی طاقت میں آئی۔[30] 1998ء میں کانگریس ایک بار پھر کامیاب ہوئی۔ 2013ء میں اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کانگریس کی حمایت کے ساتھ حکومت کی تشکیل دی۔[31] تاہم یہ حکومت قلییل مدتی ثابت ہوئی اور صرف 49 کے بعد ہی ٹوٹ گئی۔[32] دہلی فروری 2015ء تک براہ راست صدر کے زیرِ اقتدار رہا۔[33] 10 فروری، 2015ء کو عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی،اور دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67 جیتیں اور دوبارہ برسراقدارآئی۔[34]
تاریخی طور پر دہلی شمالی ہند کا ایک اہم کاروباری مرکز بھی رہا ہے۔ پرانی دہلی نے اب بھی اپنی گلیوں میں پھیلے بازاروں میں ان تجارتی صلاحیتوں کی تاریخ کو چھپا کر رکھا ہے۔[35] پرانے شہر کے بازاروں میں ہر ایک قسم کا سامان دستیاب ہے۔ تیل میں ڈوبے چٹپٹے آم، نیبو، وغیرہ کے اچارو سے لے کر مہنگے ہیرے جواہرات، زیور سے دلہن کے لباس، تیار کپڑے، مصالحے، مٹھائیاں اور ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔ چاندنی چوک یہاں کا تین صدیوں سے بھی قدیم بازار ہے۔ یہ دہلی کے زیور، زری ساڑیوں اور مصالحے کے لیے مشہور ہے۔[36] دہلی کی مشہور دستکاریوں میں زرودزی (سونے کی تار کام، جسے زری بھی کہا جاتا ہے) اور میناکاری (جس پیتل کے برتنوں وغیرہ پر نقش کے درمیان میں روغن بھرا جاتا ہے) ہیں۔
دہلی شمالی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ 2008ء کے مطابق دہلی کی خام ملکی پیداوار 167 بلین امریکی ڈالر تھی۔[37] دہلی کی افرادی قوت کی آبادی کا 32،82 فیصد ہے۔ جس میں 1991ء اور 2001ء کے درمیان میں 52،52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔[38] دہلی میں بے روزگاری کی شرح 1999ء-2000ء میں 12.57 فی صد سے کم ہو کر 4.63 فیصد ہو گئی ہے۔[38] کلیدی خدماتی صنعتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ہوٹل، بینکاری، ذرائع ابلاغ اور سیاحت شامل ہیں۔[39] تعمیرات، بجلی، صحت، کمیونٹی کی خدمات اور جائداد کی خرید و فروخت بھی شہر کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ دہلی بھارت کی سب سے بڑی اور سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی خوردہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔[40]
دہلی اسٹاک ایکسچینج نئی دہلی، بھارت میں واقع ہے۔ یہ ایکسچینج دہلی اسٹاک اور شیئر بروکرز ایسوسی ایشن لمیٹڈ اور دہلی اسٹاک اور شیئر ایکسچینج لمیٹڈ کا اخلاط ہے۔[41] یہ بھارت کی پانچویں اکسچینج ہے۔ ایکسچینج بھارت کی اہم سٹاک ایکسچینجز میں سے ایک ہے۔ دہلی اسٹاک ایکسچینج شمالی بھارت میں ٹرمینلز کے ساتھ 50 شہروں سے منسلک ہے۔
دہلی کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ دہلی کی اہم ٹریفک کی ضرورت کا 60 فیصد حصہ بسیں مکمل کرتی ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے سرکاری بس سروس دہلی میں موجود ہے۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن دنیا کی سب سے بڑی ماحول دوست بس سروس ہے۔[42] آٹو رکشہ دہلی میں ٹریفک کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایندھن کے طور پر سی این جی کا استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جس کا کرایہ 7.50 سے 15 روپے فی کلومیٹر تک ہے۔ دہلی کی کل گاڑیوں کی تعداد کا 30٪ ذاتی گاڑیاں ہیں۔[43] دہلی بھارت کے پانچ اہم شہروں سے قومی شاہراہوں سے منسلک ہے۔ یہ شاہراہیں : قومی شاہراہ نمبر: 1، 2، 8، 10 اور 24 ہیں۔ 2008ء کے مطابق دہلی میں 55 لاکھ گاڑیاں میونسپل کارپوریشن کی حدود کے اندر ہیں۔ اس وجہ دہلی دنیا کا سب سے زیادہ گاڑیوں والا شہر ہے۔ 1998ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی کے تمام عوامی گاڑیوں کو ڈیزل کی جگہ پر سی این جی کا استعمال لازمی طور سے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں تمام عوامی گاڑیاں سی این جی پر ہی چلنے والی ہیں۔
اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ دہلی کے جنوب مغربی کنارے پر واقع ہے اور یہاں سے بین ریاستی اور بین الاقوامی سفر کی سہولیات موجود ہیں۔ سال 2012–13 میں ہوائی اڈے پر 35 ملین مسافر درج کیے گئے تھے، جو اسے جنوبی ایشیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک بناتے ہیں۔[44][45] ٹرمینل 3 96.8 ارب بھارتی روپوں (امریکی ڈالر 1.4 ارب) سے 2007 اور 2010 کے درمیان میں تعمیر کیا گیا جہاں اضافی سالانہ 37 ملین مسافروں کے لیے گنجائش موجود ہے۔[46] صفدر جنگ ہوائی اڈا دہلی کا ایک اور ہوائی اڈا ہے، جو عام ہوا بازی مشقوں اور کچھ وی آئی پی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دہلی دیگر تمام اہم شہروں اور بڑے شہروں سے کئی ہائی ویز اور ایکسپریس ویز سے منسلک ہے۔ دہلی سے گزرنے والی قومی شاہراہیں مندرجہ ذیل ہیں:
دہلی بھارتی ریلوے کے نیٹ ورک میں ایک اہم جنکشن ہے اور شمالی ریلوے کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دہلی کے پانچ اہم ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:
دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کی طرف سے دہلی میٹرو ریل ایک بڑے پیمانے پر ریپڈ ٹرانزٹ (فوری ٹرانزٹ) نظام ہے جو دہلی کے کئی علاقوں میں سروس فراہم کرتی ہے۔ اس کا آغاز 24 دسمبر 2002ء کو ہوا۔ اس ٹرانسپورٹ نظام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹے) رکھی گئی ہے اور یہ ہر اسٹیشن پر تقریباً 20 سیکنڈ رکتی ہے۔ تمام ٹرینوں کی تعمیر جنوبی کوریا کی کمپنی روٹیم (ROTEM) نے کی ہے۔ دہلی کی نقل و حمل سہولیات میں میٹرو ریل ایک اہم جزو ہے۔ ابتدائی مرحلے کی منصوبہ بندی چھ لائنوں پر چلنے کی ہے جو دہلی کے زیادہ تر حصوں کو آپس میں جوڑے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ 2006ء میں مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے راستے کی کل لمبائی تقریباً 65.11 کلومیٹر ہے جس میں 13 کلومیٹر زیر زمین اور 52 کلومیٹر مرتفع ہے۔
دہلی کی آبادی میں اضافہ | |||
---|---|---|---|
مردم شماری | آبادی | %± | |
1901 | 405,819 | ||
1911 | 413,851 | 2.0% | |
1921 | 488,452 | 18.0% | |
1931 | 636,246 | 30.3% | |
1941 | 917,939 | 44.3% | |
1951 | 1,744,072 | 90.0% | |
1961 | 2,658,612 | 52.4% | |
1971 | 4,065,698 | 52.9% | |
1981 | 6,220,406 | 53.0% | |
1991 | 9,420,644 | 51.4% | |
2001 | 13,782,976 | 46.3% | |
2011 | 16,753,235 | 21.6% | |
source:[47] † Huge population rise in 1951 due to large scale migration after تقسیم ہند in 1947. |
بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق دہلی کی آبادی 16،753،235 تھی۔[47] اس کی کثافت آبادی 11،297فی مربع کلومیٹر، جنسی تناسب 866 خواتین فی 1000 مرد اور شرح خواندگی 86،34 فیصد تھی۔
ہندو مت دہلی کی آبادی کا 81،68 فیصد، اسلام (12.86٪)، سکھ مت (3.4٪)، جین مت (0.99٪)، مسیحیت (0.87٪) اور دیگر (0.12٪) ہے۔ دیگر اقلیتی مذاہب میں بدھ مت، زرتشتیت، بہائی اور یہودیت شامل ہیں۔[48]
دہلی کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد [49] بنیادی سہولتوں کی ناکافی فراہمی کے ساتھ کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔[50] ان کچی آبادیوں کی اکثریت کو ناکافی بنیادی سہولیات مہیا ہیں۔ ڈی یو ایس آئی بی کی رپورٹ کے مطابق صرف 16 فیصدلوگ بیت الخلاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ تقریباً 22 فیصد افراد قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔[51]
دہلی شہر میں بنی یادگاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی ثقافت مشرقی تاریخی زمین سے متاثر ہے۔ بھارتی آثار قدیمہ سروے محکمہ نے دہلی شہر میں تقریباً 1200 ثقافتی ورثہ مقامات کی نشان دہی کی ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر سے کہیں زیادہ ہے۔[52] ان میں سے 175 مقامات کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔[53] پرانا شہر وہ مقام ہے جہاں مغلوں اور ترکوں حکمرانوں نے کئی تعمیرات کیں٫ مثلاً جامع مسجد (بھارت کی سب سے بڑی مسجد)، لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ دہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔[54] دیگر یادگاروں میں انڈیا گیٹ، جنتر منتر (اٹھارویں صدی کی رصدگاہ)، پرانا قلعہ (سولہویں صدی کا قلعہ)۔ برلا مندر، اکشر دھام مندر اور کمل مندر تعمیرات کی شاندار مثالیں ہیں۔ راج گھاٹ میں قومی رہنما مہاتما گاندھی اور قریب ہی دوسرے بڑے افراد کی سمادھياں ہیں۔ نئی دہلی میں بہت سے سرکاری دفتر، سرکاری رہائش گاہیں اور برطانوی دور کی باقیات اور عمارتیں ہیں۔ کچھ انتہائی اہم عمارتوں میں صدارتی محل، مرکزی سیکرٹریٹ، راج پتھ، پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں۔
یہاں بہت سے قومی تہوار جیسے یوم جمہوریہ، یوم آزادی اور گاندھی یوم پیدائش رسمی طور پر جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم لال قلعہ سے یہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ بہت سے دلی والے اس دن کو پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں۔ اس دن پتنگوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[55] یوم جمہوریہ کی پریڈ ایک بڑا جلوس ہوتی ہے، جس میں بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی جھلک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔[56]
یہاں کے مذہبی تہواروں میں دیوالی، ہولی، دسہرا، درگا پوجا، مہاویر جینتی، کرسمس، مہا شواراتری، عید الفطر، بدھ جینتی لوهڑی پونگل اور اوڑم جیسے تہوار شامل ہیں۔ قطب فیسٹیول میں موسیقاروں اور رقاصوں کا کل ہند سنگم ہوتا ہے، جو کچھ راتوں کو جگمگا دیتا ہے۔ دیگر کئی تہوار بھی یہاں سالانہ منائے جاتے ہیں جیسے آم فیسٹیول، پتنگ بازی فیسٹیول، موسم بہار پنچمی۔ ایشیا کی سب سے بڑی آٹو نمائش، آٹو ایکسپو دہلی میں منعقد ہوتی ہے۔ پرگتی میدان میں سالانہ کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے جس میں دنیا کے 23 ممالک حصہ لیتے ہیں۔ دہلی کو اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صلاحیت کی وجہ سے کبھی کبھی دنیا کا کتاب دار الحکومت بھی کہا جاتا ہے۔[57]
پنجابی اور مغلائی خان جیسے کباب اور بریانی دہلی کے کئی حصوں میں مشہور ہیں۔[58][59] دہلی کی انتہائی مخلوط آبادی کی وجہ سے بھارت کے مختلف حصوں کے پکوانوں کی جھلک دہلی میں ملتی ہے، جیسے راجستھانی، مہاراشٹرین، بنگالی، حیدرآبادی اور جنوبی بھارتی کھانے کی اشیاء جیسے اڈلی، سانبھر، دوسا وغیرہ کثرت میں مل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی خاصیت والی چیزیں جیسے چاٹ وغیرہ بھی خوب ملتی ہے، جسے لوگ چٹخارے لگا لگا کر کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں براعظم کھانا جیسے اطالوی اور چینی کھانا بھی عام دستیاب ہے۔ مغلیہ سلطنت کے دار الحکومت رہنے کی وجہ سے دلی کے لوگوں کو مغلائی پکوانوں نے بہت متاثر کیا ہے۔[60] شہر کے خصوصی پکوانوں میں بٹر چکن، آلو چاٹ، چاٹ، دہی بڑے، کچوری، گول گپے، سموسہ، چھولے بھٹورے، چھولے کلچہ، جلیبی اور لسی شامل ہیں۔[60][61]:40–50, 189–196
دہلی کی تیز زندگی کی وجہ سے فاسٹ فوڈ نے شہر میں کافی ترقی کی ہے۔[61]:41 مقامی باشندوں میں ڈھابے پر کھانے کا رجحان بہت مقبول ہے۔ ہائی پروفائل ریستورانوں نے حالیہ برسوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔[62] گلی پراٹھے والی چاندنی چوک میں ایک سڑک ہے جو خاص طور 1870ء کی دہائی سے کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ تقریباً ایک روایت بن گئی ہے کہ ہر وزیر اعظم ایک بار گلی پراٹھے والی کا دورہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سڑک شمال بھارتی پکوانوں کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں بھات کے دیگر علاقوں کے پکوان بھی دستیاب ہیں۔[61]:40–50[63]
دہلی کے رہائشیوں کو دلی والے یا واحد دلی والا / دلی والی کہا جاتا ہے۔[64]
ابھی دلی دور ہے یا فارسی میں ہنوز دہلی دور است [65][66]
دلی دل والوں کا شہر یا دلی دل والوں کی [67]
آس پاس برسے، دلی پانی ترسے [66]
دہلی صرف بھارت کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ یہ سیاحت کا اہم مرکز بھی ہے۔ دار الحکومت ہونے کی وجہ سے حکومت ہند کے کئی دفاتر، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، مرکزی سیکرٹریٹ وغیرہ ا جدید معماری کے نمونے ہیں۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ سیاحتی مقامات میں مقبرہ ہمایوں، لال قلعہ، لودھی باغ، پرانا قلعہ، مزار صفدر جنگ، جنتر منتر، قطب مینار، باب ہند اور دہلی کا آہنی ستوں کی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔ تقریباً تمام مذاہب کے مشہور مذہبی مقامات یہاں موجود ہیں مثلا لکشمی نارائن مندر، چھترپور مندر، گردوارہ بنگلہ صاحب، معبد کنول اور جامع مسجد دہلی۔ بھارت کے وزرائے اعظم کی سمادھياں یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی عجائب گھر اور کئی مشہور بازار بھی ہیں۔ تفریحی مقامات میں مغل باغات، گارڈن آف فائیو سنسن، تال کٹورا گارڈن، لودھی گارڈن، چڑیا گھر، وغیرہ شامل ہیں۔
دہلی شہر کے دروازے آٹھویں صدی سے بیسویں صدی تک مختلف شاہی خاندانوں کے حکمرانوں نے تعمیر کروائے۔ کیونکہ شہر کئی بار اجڑا اور پھر بسایا گیا اس لیے کئی دروازے اور کھڑکیاں (چھوٹے دروازوں کو کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے اب کوئی باقی نہیں) اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں۔
دہلی قومی دار الحکومت علاقہ میں تقریباً 500،000 یونیورسٹی کے طالب علموں 165 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دہلی میں نو بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔
بھارت کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے دہلی سیاسی رپورٹنگ کی خاص توجہ کا مرکز ہے، جن میں پارلیمانی اجلاس کے باقاعدہ ٹیلی ویژن کی نشریات بھی شامل ہیں۔ بہت سے قومی میڈیا ادارے، بھارت کا سرکاری پریس ٹرسٹ، بھارت کا میڈیا ٹرسٹ اور دوردرشن سمیت کئی کے صدر دفاتر شہر میں واقع ہیں۔[68]
مطبوعہ صحافت دہلی کے مقبول ذرائع ابلاغ میں سے ہے۔ شہر کی اخبارات میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
ریڈیو دہلی میں ایک کم مقبول ہے، تاہم 2006ء [71] میں کئی نئے اسٹیشنوں کے افتتاح کے بعد سے ایف ایم ریڈیو نے مقبولیت حاصل کر لی ہے۔[72]
سرکاری اور نجی ریڈیو سٹیشنوں کی ایک بڑی تعداد نے دہلی سے نشریات کرتی ہیں۔[73][74]
دہلی کئی اہم بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ جن میں ایشیائی کھیل 1951ء، ایشیائی کھیل 1982ء اور 2010ء دولت مشترکہ کھیل قابل ذکر ہیں۔ دہلی میں متعدد کھیلوں کے میدان موجود ہیں جن میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:
دلی کی آب و ہوا نمی والی اور منطقۂ حارہ سے ملتی جلتی ہیں۔ دہلی کی آب و ہوا میں موسم گرما اور موسم سرما کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ موسم گرما طویل، انتہائی گرم اور اپریل سے وسط اکتوبر تک چلتا ہے۔ اس کے درمیان میں مون سون کا برساتی موسم بھی آتا ہے۔ گرمی کافی مہلک بھی ہو سکتی ہے، جس نے ماضی میں کئی جانیں بھی لی ہیں۔ مارچ کے شروع سے ہی آب و ہوا میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ ہوا شمال مغرب سے تبدیل ہو کر جنوب مغربی سمت میں چلنے لگتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ راجستھان کی گرم لہر اور دھول بھی لے کر چلتی ہیں۔ یہ گرمی کا بنیادی حصہ ہیں جنہیں لو کہتے ہیں۔ اپریل سے جون کے مہینے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔ جون کے آخر تک نمی میں اضافہ ہوتا ہے جو ہلکی مونسون بارش لاتی ہیں۔ اس کے بعد جولائی سے یہاں مون سون کی ہوائیں چلتی ہیں، جو اچھی بارش لاتی ہیں۔ اکتوبر نومبر میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، اس میں ہلکی سردی کافی لطف اندوز ہوتی ہے۔ نومبر سے سرد موسم کا آغاز ہوتا ہے جو فروری کے شروع تک چلتا ہے۔ موسم سرما میں گھنی دھند بھی ہوتی ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت میں انتہائی فرق آتا ہے جو -0.6 ° س (30.9 ° ف) سے لے کر 48 ° س (118 ° ف) تک جاتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 13 ° س سے لے کر 32 ° س (56 ° ف سے لے کر 9 0 ° ف) تک ہوتا ہے۔[75] اوسط سالانہ بارش تقریباً 714 مم (28.1 انچ) ہوتی ہے، جس سے زیادہ مون سون میں جولائی اگست میں ہوتی ہے۔ دہلی میں مون سون کی آمد کی اوسط تاریخ 29 جون ہوتی ہے۔[76]
آب ہوا معلومات برائے دہلی (صفدرجنگ) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 30.0 (86) |
34.1 (93.4) |
40.6 (105.1) |
45.6 (114.1) |
47.2 (117) |
46.7 (116.1) |
45.0 (113) |
42.0 (107.6) |
40.6 (105.1) |
39.4 (102.9) |
36.1 (97) |
29.3 (84.7) |
47.2 (117) |
اوسط بلند °س (°ف) | 21.0 (69.8) |
23.5 (74.3) |
29.2 (84.6) |
36.0 (96.8) |
39.2 (102.6) |
38.8 (101.8) |
34.7 (94.5) |
33.6 (92.5) |
34.2 (93.6) |
33.0 (91.4) |
28.3 (82.9) |
22.9 (73.2) |
31.2 (88.2) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 14.3 (57.7) |
16.8 (62.2) |
22.3 (72.1) |
28.8 (83.8) |
32.5 (90.5) |
33.4 (92.1) |
30.8 (87.4) |
30.0 (86) |
29.5 (85.1) |
26.3 (79.3) |
20.8 (69.4) |
15.7 (60.3) |
25.1 (77.2) |
اوسط کم °س (°ف) | 7.6 (45.7) |
10.1 (50.2) |
15.3 (59.5) |
21.6 (70.9) |
25.9 (78.6) |
27.8 (82) |
26.8 (80.2) |
26.3 (79.3) |
24.7 (76.5) |
19.6 (67.3) |
13.2 (55.8) |
8.5 (47.3) |
19.0 (66.2) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −0.6 (30.9) |
1.6 (34.9) |
4.4 (39.9) |
10.7 (51.3) |
15.2 (59.4) |
18.9 (66) |
20.3 (68.5) |
20.7 (69.3) |
17.3 (63.1) |
9.4 (48.9) |
3.9 (39) |
1.1 (34) |
−0.6 (30.9) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 19 (0.75) |
20 (0.79) |
15 (0.59) |
21 (0.83) |
25 (0.98) |
70 (2.76) |
237 (9.33) |
235 (9.25) |
113 (4.45) |
17 (0.67) |
9 (0.35) |
9 (0.35) |
790 (31.1) |
اوسط عمل ترسیب ایام (≥ 1.0 mm) | 1.7 | 2.5 | 2.5 | 2.0 | 2.8 | 5.5 | 13.0 | 12.1 | 5.7 | 1.7 | 0.6 | 1.6 | 51.7 |
اوسط اضافی رطوبت (%) | 63 | 55 | 47 | 34 | 33 | 46 | 70 | 73 | 62 | 52 | 55 | 62 | 54.3 |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 214.6 | 216.1 | 239.1 | 261.0 | 263.1 | 196.5 | 165.9 | 177.0 | 219.0 | 269.3 | 247.2 | 215.8 | 2,684.6 |
ماخذ#1: NOAA[77] | |||||||||||||
ماخذ #2: بھارتی محکمہ موسمیات[78] |
عالمی ادارہ صحت دہلی کے مطابق 2014ء میں دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا۔[79] 2016ء میں عالمی ادارہ صحت نے شہری ہوا کے معیار کی ڈیٹا بیس میں دہلی کی گیارہ درجے میں کمی ہے۔[80] ایک اندازے کے مطابق، ہوائی آلودگی ہر سال دہلی میں تقریباً 10،500 لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔[81][82][83]
2013–14 کے دوران میں نقصان دہ ذراتِ مادہ دہلی میں 44 فیصد بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ ملحقہ ریاستوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج، تعمیراتی کام اور فصل کا جلایا جانا ہے۔[81][84][85][86] نقصان دہ ہوائی ذرات پی ایم 2,5 جسے صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھا جاتا ہے کی دہلی میں 153 مائیکروگرام کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔[87] بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں اور خواتین میں پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں (خاص طور پر دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر) میں اضافہ ہوا ہے۔[88][89] موسم سرما میں ہر سال گہری اسموگ کی وجہ سے گاڑیوں اور ریل ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔[90] بھارتی ماہرین موسمیات کے مطابق موسم سرما کے دوران میں دہلی میں 1998 کے بعد خاص طور پر اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔[91]
جنات کا شہر دہلی پر لکھی گئی ولیم ڈیلرمپل کی کتاب ہے، جو بھارت کے دار الحکومت دہلی کی تاریخی اہمیت کا احاطہ کرتی ہے۔ دہلی عظیم ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے، جو اتنے زیادہ ہندوستانی حکمرانوں کا دار الحکومت رہا کہ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اور ہندوستان کے عظیم ماضی کی ترجمانی کرتی ہے۔
سرکاری
عمومی معلومات
دستاویزی فلمیں
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.