ہندوستانی تحریک آزادی کے رہنما، سیاست دان، فعالیت پسند، وکیل، مصنف From Wikipedia, the free encyclopedia
موہن داس کرم چند گاندھی (گجراتی: મોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી؛ ہندی: मोहनदास करमचंद गांधी؛ انگریزی: Mohandas Karamchand Gandhi؛ 2 اکتوبر، 1869ء تا 30 جنوری 1948ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انھوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔[32][33] بھارت میں وہبابائے قوم(راشٹر پتا) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری، 1948ء کو ایک ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔[34]
اس میں قواعد، انشا، ہجے اور املائی غلطیوں کو درست کرنے کی خاصی گنجائش ہے۔ |
مہاتما [1] | |
---|---|
موہن داس گاندھی | |
(گجراتی میں: મોહનદાસ ગાંધી) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (گجراتی میں: મોહનદાસ ગાંધી) |
پیدائش | 2 اکتوبر 1869ء [2][3][4][5][6][1][7] پور بندر [8][9] |
وفات | 30 جنوری 1948ء (79 سال)[2][3][4][5][6][1][7] گاندھی سمرتی [10][11] |
وجہ وفات | شوٹ [12][13] |
مدفن | راج گھاٹ |
قاتل | نتھو رام گوڈسے [1] |
طرز وفات | قتل [14] |
مقام نظر بندی | یردودا مرکزی جیل (مارچ 1922–5 فروری 1924)[15][1] آغا خان محل (اگست 1942–6 مئی 1944)[1] یردودا مرکزی جیل (4 جنوری 1932–8 مئی 1933) یردودا مرکزی جیل (4 اگست 1933–23 اگست 1933) |
رہائش | لندن (1888–جون 1891)[16] بھارت (جون 1891–1893)[16] جنوبی افریقا (1893–1915)[16] |
شہریت | برطانوی ہند (1869–1947)[1] ڈومنین بھارت (1947–1948)[9] بھارت (1947–) |
نسل | گجراتی لوگ [16] |
آنکھوں کا رنگ | گہرا بھورا |
قد | 164 سنٹی میٹر |
استعمال ہاتھ | بایاں |
مذہب | ہندومت [1] |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس [16] |
رکن | انر ٹیمپل ، سبزی خور تنظیم |
زوجہ | کستوربا گاندھی (مئی 1883–22 فروری 1944)[17][1] |
اولاد | ہری لال گاندھی [17]، مانی لال گاندھی ، رام داس گاندھی ، دیوداس گاندھی |
والد | کرم چند گاندھی [1][18] |
والدہ | پتلی بائی کرمچند گاندھی [1][18] |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
مادر علمی | الفریڈ ہائی اسکول، راجکوٹ (–1877) انر ٹیمپل یونیورسٹی کالج لندن (1888–)[1] |
تخصص تعلیم | قانون |
استاذ | راچند بائی |
تلمیذ خاص | ونوبا بھاوے |
پیشہ | سیاست دان [19][20][21][22]، بیرسٹر [19][16]، سیاسی مصنف [23]، صحافی [16]، فلسفی [24][16]، آپ بیتی نگار [1]، مضمون نگار [1]، مدیر (اخبار) [1]، حامی شہری حقوق [1]، یاداشت نگار [1]، انسان دوست [1]، جنگ مخالف کارکن [1]، انقلابی ، مصنف [25]، مفسرِ قانون ، حریت پسند |
مادری زبان | گجراتی [1] |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی [1]، انگریزی [1]، گجراتی [26][1]، اڑیہ [27]، مراٹھی |
شعبۂ عمل | فلسفہ ، اُصول قانون ، امن پسندی |
کارہائے نمایاں | ستیاگرا [1] |
مؤثر | ہنری ڈیوڈ تھورو ، ٹالسٹائی ، گوتم بدھ ، جی کے جیسٹرٹون ، جان رسکن ، ویاس ، نرماد ، راچند بائی |
تحریک | عدم تشدد [1]، سبزی خوری [1] |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | نمک مارچ [1] |
اعزازات | |
نامزدگیاں | |
نوبل امن انعام (1948)[29][30] نوبل امن انعام (1947)[30] نوبل امن انعام (1939)[30] نوبل امن انعام (1938)[30] نوبل امن انعام (1937)[31][30] | |
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
جنوبی افریقا میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپسی کے بعد، انھوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انھوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو 1930ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1942ء میں انھوں نے بھارت چھوڑو شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی افریقا اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔
عدم تشدد کے پیشوا طور پر، گاندھی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے کی وکالت کرتے تھے۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ لباس کے طور پر روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جو وہ خود سے چرخے پر بُنتے تھے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لیے لمبے اُپواس (روزے) رکھا کرتے تھے۔
موہن داس کرم چند گاندھی [35] گجرات، ہندوستان کے مغربی ساحلی شہر پوربندر (جو اُس وقت بمبئی پریزیڈنسی، برطانوی ہندوستان کا حصّہ تھا) میں 2 اکتوبر، 1869ء [36] میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی (1822ء-1885ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔[37] ان کی ماں کا نام پُتلی بائی تھا، جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔[38] وہ کرم
چند کی چوتھی بیوی تھی۔
ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان یعنی وزیر اعظم تھے۔[39] ان کے دادا کا نام اُتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔ پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی، ان کی پہلی تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔[40] عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس علاقے کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ، سبزی خواری کی زندگی، روح کی پاکیزگی کے لیے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان میں رواداری شامل تھیں۔
مئی، 1883ء میں جب وہ 13 سال کے تھے تب ان کی شادی 14 سال کی کستوربائی ماکھنجی کپاڈیا سے کر دی گئی جن کا پہلا نام چھوٹا کرکے کستوربا کر دیا گیا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی ایک منظم کم سنی کی شادی تھی [41] جو اس وقت اس علاقے میں عام تھی۔ اس علاقے میں وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت تک رہنا پڑتا تھا۔[42][43] 1885ء میں جب گاندھی جی 15 سال کے تھے تب ان کی پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاھی بھی چل بسے۔[44] موہن داس اور کستوربا کے چار اولاد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے - ہری لال 1888ء میں، منی لال 1892ء میں، رام داس، 1897ء میں اور دیوداس 1900ء میں پیدا ہوئے۔[44][45] پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے۔[46] انھوں نے اپنا میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا [47] اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی رہے کیونکہ ان کا خاندان انھیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔
4 ستمبر 1888ء کو اپنی شادی کی انیسویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل، گاندھی جی قانون کی پڑھائی کرنے اور بیرسٹر بننے کے لیے لندن، برطانیہ کے یونیورسٹی کالج آف لندن گئے۔ شاہی دار الحکومت لندن میں ان کے اوقات، اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت کیے وعدے، ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت، شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیز کرتے گذرا۔ حالانکہ گاندھی جی نے انگریزی رسم و رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر- رقص کی کلاس میں جانا- پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر سکے۔ اور انھوں نے بھوکا رہنا پسند کیا جب تک انھیں لندن میں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں ملے۔ سالٹ سے متاثر ہو کر، انھوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لیے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انھوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام 1875ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کے لیے اور بودھ مت اور ہندو مت کے ادب کے مطالعہ کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ انھوں نے گاندھی کو ان کے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لیے متاثر کیا۔ جس گاندھی جی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی نہیں تھی، وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندواور مسیحی دونوں مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے لگے۔
10 جون 1810ء میں ان کو انگلستان اورویلز بار بلایا گیا۔ اور 12 جون 1892ء کو لندن سے، ہندوستان لوٹ آئے۔ جہاں انھیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انھیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں ایک ہائی اسکول کے استاد کے طور پر جزوقتی کام کے ساتھ ساتھ انھوں نے دعوں کے لیے مقدمے لکھنے کے لیے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن ایک انگریز افسر کی حمایت کی وجہ سے انھیں یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا۔ اپنی آپ بیتی (My Experiments with the Truth) میں، نے اس واقعہ کا بیان انھوں نے اپنے بڑے بھائی کی طرف سے پیروی کی ناکام کوشش کے طور پر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انھوں نے 1893ء میں ایک بھارتی فرم دادا عبد اللہ اینڈ کمپنی کی ایک سالہ قرار پر نیٹال، جنوبی افریقا جو اس وقت سلطنت برطانیہ کا حصہ ہوتا تھا، جانا قبول کیا تھا۔
1893ء میں گاندھی جب جنوبی افریقا پہنچے تو ان کی عمر 24 سال تھی۔[48] وہ پریٹوریا میں مقیم مسلم ہندوستانی تاجروں کے لیے ایک قانونی نمائندے کے طور پر کام کرنے گئے۔ جہاں وہ 21 برس مقیم رہے۔[49] جنوبی افریقا میں گاندھی جی کو ہندوستانیوں اور کالے رنگ کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انھیں پہلے درجے کے کوچ کی درست ٹکٹ رکھنے کے باوجود تیسرے درجہ کے ڈبے میں سفرکرنے پر مجبور کرنے اورگاندھی جی کے انکار کرنے پرانھیں پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہراتارا جا چکا تھا۔[50] پائے دان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لیے اسے ڈرائیور سے پٹائی بھی جھیلنی پڑی تھی۔[51] انھوں نے جنوبی افریقا کے قیام کے دوران میں پیش آئیں دیگر دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔[52] اسی طرح کا ایک اور واقعہ میں ڈربن کی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لیے حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا۔[53] یہ سارے واقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لیے متاثر کیا۔ جنوبی افریقا میں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی، نسل پرستی اور تعصب کو دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دیے۔[54]
گاندھی جی نے حکومتِ جنوبی افریقا کے ذریعے پیش کردہ بل کی، جس میں ہندوستانیوں کے ووٹ دینے کے حق کو چھینا گیا تھا کی مخالفت کی۔ حالاں کہ بل کو منظوری سے روکنے میں وہ ناکام رہے، تاہم اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقا کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انھوں نے 1894ء میں نیٹال میں انڈین کانگریس قائم کرنے میں مدد کی اور اس کی تنظیم کے ذریعے انھوں نے جنوبی افریقا کی ہندوستانی برادری کو ایک متحدہ سیاسی طاقت میں تبدیل کر دیا۔[50][55] جنوری 1897ء میں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آباد کاروں کے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ گئے۔ تاہم انھوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خلاف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا وہ ان کے اصولوں میں سے ایک تھی کہ ذاتی مسئلہ کے ازالے کے لیے عدالت میں نہیں جائيں گے۔
1906ء میں ٹرانسوال حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کیا جس میں کالونی میں ہندوستانی آبادی کو رجسٹریشن کے لیے مجبور کیا۔[56] اس سال جوہانسبرگ میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاج 11 ستمبر کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں گاندھی نے پہلی بار ستیاگرہ (حق کی بارگاہ) یا عدم تشدد پر مبنی احتجاج کا طریقہ اختیار کیا اور اپنے ساتھی ہندوستانوں کو تشدد اپنانے کی مخالفت اور اس طریقے سے نئے قانون پر عمل نہ کرنے اور سزا بردشت کرنے کہا۔[57] کمیونٹی نے اس منصوبے کو اپنایا جو سات سال کی جدوجہد ہے جس میں گاندھی سمیت ہزاروں بھارتی جیل میں ڈال دیے گئے، کوڑے برسائے گئے، حتّٰی کہ گولیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ انھوں نے رجسٹریشن سے انکار کیا، اپنے رجسٹریشن کارڈ جلائے یا دوسری قسم کی غیر تشدد مزاحمت میں شامل ہوئے۔ جبکہ حکومت ہندوستانی مظاہرین کو دبانے میں کامیاب رہی اور پرامن بھارتی مظاہرین پر سرکار کی ذیادتی کے خلاف عوام کو سخت دباؤ کا سامنا کرتے بالآخر مجبورًا جنوبی افریقا کے جنرل جان کرسٹین اسمٹس نے جنوبی افریقا کی حکومت کی طرف سے گاندھی کے ساتھ بات کرکے معاہدہ کیا۔ گاندھی کے نظریات اور ستیاگرہ کا تصور اس جدوجہد کے دوران میں واضح ہوا۔
گاندھی کے جنوبی افریقا کے ابتدائی سال بعض معاملوں میں متنازع ہیں۔ 7 مارچ 1908ء کو انڈین اوپنین میں گاندھی نے جنوبی افریقا کے جیل میں گزارے وقت کے بارے لکھا: "کافر اصولی طور پر بے ادب ہیں-وہ سب سے زیادہ مجرم ہیں۔ وہ شرپسند، بہت ہی گندے ہیں اور تقریبًا جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔" 1903ء میں ہجرت کے موضوع پر گاندھی نے تبصرہ کیا :"ہم پاکیزگی نسل میں زیادہ سے زیادہ یقین کے طور پر ہم سوچتے ہیں وہ کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ جنوبی افریقا میں سفید فام نسل غالب ہونی چاہیے۔" جنوبی افریقا قیام کے دوران میں گاندھی بھارتیوں کی درجہ بندی سیاہ فام کے ساتھ کرنے پر با رہا احتجاج کیا۔ جسے وہ "بلاشبہ لامتناہی درجہ کافر سے بہتر" بتایا۔ اسی قسم کے تبصرے گاندھی پر نسل پرستی کے الزام کے لیے ذمہ دار بنے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظ کافر ان دنوں میں مختلف معنی میں لیا جا تا تھا۔ [حوالہ درکار]
تاہم تاریخ کے دو پروفیسر سریندر بھانا اور غلام واحد، جو جنوبی افریقا میں مہارت رکھتے ہیں، نے اپنی عبارت، دی میکنگ آف پالٹیکل ریفارمر: گاندھی ان ساؤتھ افریقا، 1893ء تا 1914ء (نئ دہلی: منوہر: 2005) میں اس تنازع کی پڑتال کی۔ انھوں نے باب 1- "گاندھی، افریقی اور بھارتی نوآبادیات نیٹال میں" میں "سفید فام راج" کے ماتحت افریقی اور ہندوستانی برادریوں کے درمیان میں تعلقات اور وہ پالیسیاں جو ان فرقوں کے درمیان میں تنازع کی وجہ بنی کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں "نوجوان گاندھی 1890 کے دہے میں ان اختلاف پسندوں کے تصورات سے بہت متاثر تھے"۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ، "ایسا لگتا ہے کہ، جیل میں گاندھی کے تجربات نے ان کو اس حال کے لیے زیادہ حساس بنا دیا تھا۔۔۔ بعد میں گاندھی نرم پڑے، وہ افریقیوں کے خلاف تعصب کے ان کے اظہاریے میں کمی آئی اور وہ زیادہ تر مشترکہ امداد پر توجہ دینے لگے۔
جوہانسبرگ جیل میں ان کے منفی خیالات عام افریقا نہیں بلکہ سخت گیر افریقی قیدیوں کے لیے مخصوص تھے۔ تاہم بہت بعد کے زمانے میں جب جوہانسبرگ میں گاندھی کی ایک مورتی کی نقاب کشائی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا، تو اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے گاندھی کی "نسل پرستی پر مبنی" بیانات کو وجہ بنا کر روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔[58]
برطانوی سامراج نے جب جنوبی افریقا میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ہندوستانیوں کی بھرتی کا تیقن ان الفاظ میں دلایا:[59]
اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ باور کرانے کی کوشش ہے، کہ جنوبی افریقا کی ملکہ کے دوسری رعایا کے دوش بدوش، ہندوستانی بھی، اپنی بادشاہت کی میدان جنگ میں خدمت بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ہندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ہے۔
—
1906ء میں زولو جنوبی افریقا میں نئی طے کی جانے والی چنگی کے عائد کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا تھا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولوؤں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ گاندھی جی نے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لیے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا اپنی شہریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لیے بھارتیوں کو جنگی کوششوں میں تعاون کرنا چاہیے۔ تاہم انگریزوں نے اپنی فوج میں ہندوستانیوں کو عہدے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود انھوں گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ہندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لیے اسٹریچر پر لانے اور علاج کا کام کر سکتے ہیں۔ اس ٹکڑی کی باگ ڈور گاندھی نے تھامی۔ 21 جولائی 1906ء کو گاندھی نے انڈین اوپنین (Indian Opinion) میں لکھا کہ "نیٹال حکومت کے کہنے پر مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے 23 ہندوستانی باشندوں کے ایک دستے کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ہے۔گاندھی انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعے جنوبی افریقا میں ہندوستانی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ہونے کے لیے درخواست کی اور کہا : "اگر حکومت صرف یہی محسوس کرتی ہے کہ ریزرو فورس بیکار ہو رہے ہیں تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لیے ہندوستانی کو ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے"۔[60]
گاندھی کی رائے میں 1906ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ہندوستانیوں کی حالت مقامی شہریوں سے نیچے لانے جیسا تھا۔ اس لیے انھوں نے ستیہ گرہ کی طرز پر "کافروں" کی مثال دیتے ہوئے ہندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے الفاظ میں، "یہاں تک کہ نصف برادری اور کافر ہم سے کم جدید ہیں، انھوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ہے۔ بس وہی اصول ان پر بھی عائد ہوتا ہے لیکن وہ برابر نہیں دکھاتے ہیں۔[61][62][63][64]
1927ء میں گاندھی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: "بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا، جیسا کہ زولو' بغاوت ' نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسان کا شکار تھا، ایسا صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی انگریز جن سے گفتگو کا موقع ملا، کی رائے بھی ایسی ہی تھی"۔[65][65][66][67]
1915ء میں گاندھی جنوبی افریقا سے واپس بھارت میں رہنے کے لیے آئے۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے کنونشن میں شرکت کی تھی، لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل، سیاست اور عوام سے تعارف گوپال کرشن گوگھلے کے توسط سے ہوا جو اس وقت کے کانگریس پارٹی کے قابل احترام قائد تھے۔[68]
اپریل 1918ء میں، پہلی عالمی جنگ کے اواخر کے دوران میں وائسرائے نے دہلی میں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی کو مدعو کیا۔[69] اس امید سے کہ شاید وہ سلطنت کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کے معاملے میں مدد کی جائے۔ گاندھی جنگ کی کوششوں کے لیے فعال طور پر ہندوستانیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔[70] 1906ء کی زولو جنگ اور 1914ء کی عالمی جنگ کے ہو بہ ہو جن میں انھوں نے ایمبولینس کور کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کی تھی، اس وقت گاندھی جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوششیں کی تھیں۔ 1 جون 1918ء کے ایک کتابچہ"بھرتی کے لیے اپیل" میں گاندھی نے لکھا "اس طرح کے حالات میں ہمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے جو ہتھیار اٹھانے اور انھیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔۔۔ اور اگر ہم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے۔ حالانہ کے انھوں نے وائسرائے کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ وہ "ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن"۔[71] "[72]
گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی 1918ء میں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی، کھیڑا میں اپنے گذر بسرکے لیے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے نیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا معاملہ تھا۔</ref>[73] زمیندار (زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو برائے نام محنتانہ دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تلافی کے لیے انگریزوں نے چنگی لگا دی، جن کا بوجھ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ یہ صورت حال پریشان کن تھی۔ کھیڑا، گجرات میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا۔ انھوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انھوں نے اپنا کام گاؤں کی صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں جیسے چھواچھوت، شراب خوری کو ختم کرنے کے لیے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی۔[74][75]
لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انھیں بے امنی پھیلانے کے لیے پولیس نے گرفتار کیا اور انھیں صوبے کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور جیل، پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاندھی نے زمیں دارز کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کی قیادت کی جنھوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول، قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہی، گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما (عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا۔ کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے لیے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر کے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔
گاندھی نے عدم تعاون، عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کو برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں "ہتھیار" کے طور پر اپنایا۔ پنجاب کی جلیانوالہ باغ قتل عام (جسے امرتسر قتل عام سے بھی جانا جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا، جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے اقدامات اور ہندوستان کی جوابی تشدد پر تنقید کی۔ انھوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لیے تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی، جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ، تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں، کے بعد منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اس کے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا، جو جلد ہی سوراج یا مکمل ذاتی، روحانی، سیاسی آزادی میں بدل گئی۔[76]
دسمبر 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا ذمہ سونپا۔ ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نئے آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ سے منظم کیا گیا۔ پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد ہر کسی کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے، منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لیے کئی درجاتی ذیلی تناظیم قائم کیے گئے۔ گاندھی اپنی عدم تشدد لائحہ عمل میں سودیشی پالیسی (غیر ملکی مال کے بائیکاٹ کی، خاص طور پر برطانوی اشیاء ) کو شامل کر اسے توسیع دی۔ اس سے منسلک انھوں نے ہر ہندوستانی کو انگریزی ٹکسٹائل کی بجائے کھادی (گھروں میں بنے کپڑے) کے استعمال کی وکالت کی۔[77] گاندھی ہندوستان کے مردوں اور عورتوں، امیر ہو یا غریب کو آزادی کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لیے وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔ گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائی جو ایک چھوٹے سے ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا سکتا تھا۔ انھوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط، جذبہ، خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیالات کو دور کرنے اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لیے کیا جو وقت سوچ کہ، اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لیے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ، گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کے بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ، حکومت کی ملازمت سے استعفی دے دیں اور برطانیہ کے القاب اور اعزازات چھوڑنے کے لیے کہا۔[78][79]
عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا، ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا۔ پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھی، چوری چورا اترپردیش کی ایک بستی میں فروری 1922ء کے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں اچانک ختم ہو گیا۔ اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے اور سارے کیے کرائے پر پانی نہ پھر جائے۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 10 مارچ 1922ء کو گاندھی کو گرفتار کیا گیا، بغاوت کے لیے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے 18 مارچ 1922ء اس سزا کی شروعات کی۔ انھیں ایک پتھری کے آپریشن کے لیے 1924ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح وہ صرف 2 سال تک ہی جیل میں رہے۔[80]
گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر، انڈین نیشنل کانگریس، دو دھڑوں میں بٹ گئی، ایک چتّا رنجن داس اور موتی لال نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام کی مخالف تھے۔ اس کے علاوہ، ہندو اور مسلمان اتحاد، جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط تھا، ٹوٹ گیا تھا۔ گاندھی 1924ء کے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔[81]
گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور 1920ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے علاوہ وہ چھواچھوت، شراب، جہالت اور غربت کے خلاف تحریک چھیڑتے بھی رہے۔ وہ 1928ء میں منظر عام پر لوٹے۔ ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت میں ایک نیا قانون اصلاحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکلا۔ دسمبر 1928ء میں گاندھی جی نے کلکتہ میں منعقد کانگریس کے ایک اجلاس میں ایک تجویز پیش کی جس میں ہندوستانی سلطنت کو اقتدار فراہم کرنے کے لیے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل ملک کی آزادی کے لیے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ گاندھی جی نے نہ صرف نوجوان طبقے سبھاش چندر بوس اور جواہر لال نہرو جیسے مردوں سے فوری آزادی کا مطالبہ کے خیالات کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا۔ انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 31 دسمبر 1929ء کو لاہور میں بھارت کا جھنڈا لہرایا گیا۔ 26 جنوری 1930ء کا دن لاہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس نے منایا۔ یہ دن تقریباً تمام ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ 1930ء میں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چلایا جسے 12 مارچ سے 6 اپریل تک نمک تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں 400 کلومیٹر (248 میل) تک کا سفر احمد آباد سے دازڈی، گجرات تک کیا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے۔ سمندر کے طرف کے اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی پکڑ کو کمزور کرنے والی یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھی جس میں انگریزوں نے 80،000 سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا۔
لارڈ ایڈورڈ اروین (Lord Edward Irwin) کی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ اروین گاندھی کی صلح (Gandhi – Irwin Pact) مارچ 1931ء میں دستخط کیے تھے۔ شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے اپنی رضامندی دے دی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں منعقد ہونے والے گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یہ کانفرنس گاندھی جی اور قومیت وادیوں کے لیے سخت مایوس کن رہا، اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے ہندوستانی رجواڑے اور ہندوستانی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا۔ اس کے علاوہ، لارڈ اروین کے جانشیں لارڈ ولنگٹن (Lord Willingdon)، نے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی ایک نئی مہم شروع کردی۔ گاندھی پھر سے گرفتار کر لیے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن، یہ مشین کامیاب نہیں ہوا۔[82]
1932ء میں دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر (BR Ambedkar)کے انتخابی مہم کے ذریعے حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا۔ اس فیصلے کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر 1932ء میں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی کامیابی کہ باعث عوامی احتجاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹ کھلاڑی سے سیاسی لیڈر بنے پلوانکر بالو کی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ اس واقعہ نے اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی۔
گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اولاد سمجھتے تھے۔ 8 مئی 1933ء کو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لیے اور خود پاکیزگی کے لیے 21 دن تک کا روزہ رکھا۔ یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آئی تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے۔ بی آر امبیڈکر (BR Ambedkar) نے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی ان کے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے۔ امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق کو ہلکا لے رہے ہیں۔ حالانکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔
1934ء کی گرمیوں میں ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوششیں کی گئیں۔
جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارٹی کے اس قدم سے متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ ان کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک کمیونسٹوں، ماوعوادیوں، کاروباری مئوز، طلبہ، مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور مختلف آواز جو ان کے درمیان موجود تھی۔ اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے کہے جانے کا موقع حاصل ہوگا۔ گاندھی راج کے لیے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر قبول کر لیا ہو۔ [83]
گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے لاہور اجلاس کے ساتھ ہی 1936ء میں فعّال سیاست میں لوٹ آئے۔ حالانکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر۔ اس نے کانگریس کو سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا۔
1938ء میں صدر کے عہدے کے لیے منتخب سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی جی کے اختلافات تھے۔ بوس کے ساتھ اختلافات میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی تھی۔ بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے لاگو کیے گئے تمام اصولوں کو نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفی دے دیا۔
نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملہ سے دوسری عالمی جنگ 1939ء میں پھوٹ پڑی۔ ابتدا میں گاندھی نے برطانوی کوشش کی "غیر متشدد اخلاقی حمایت" کی پیشکش کی، لیکن کانگریس کے دوسرے رہنما عوام کے منتخب نمائندے کی مشاورت کے بغیر ہندوستان کو جنگ میں یک طرفہ شامل کیے جانے سے ناراض تھے۔ سب نے کانگریس کے عہدوں سے استعفی دے دیا۔ طویل بحث کے بعد، گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ ہندوستان ایک ظاہری طور جمہوری آزادی کے لیے لڑنے جا رہا ہے وہ جنگ کی پارٹی نہیں بنے گی، جبکہ خود ہندوستان کو آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنگ بڑھنے کے ساتھ، گاندھی نے آزادی کے لیے ان کی مانگ کو تیز کر دیا۔ ایک قرارداد تیار کر کے برطانوی حکومت سے ہندوستان چھوڑو کی مانگ کی گئی۔ یہ گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف سے، ہندوستان سے برطانوی اخراج کو یقینی بنانے کے مقصد سے کی گئی سب سے زیادہ بغاوت تھی۔ [84]
دونوں برطانوی حامی اور مخالف، کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر ہندوستانی سیاسی گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی۔ بعض نے محسوس کیا کہ نازی جرمنی کے خلاف جدوجہد میں برطانیہ کی حمایت نہیں کرنا غیر اخلاقی تھا۔ دیگر نے محسوس کیا کہ ہندوستان کا جنگ میں حصہ لینے کا گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راست حزب اختلاف کی کارروائی کی جانی چاہیے تھی، جبکہ برطانیہ جو ابھی تک نازیوں کے خلاف لڑ رہا تھا ہندوستان کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا۔ ہندوستان چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور بے اندازہ تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔ ہزاروں مجاہد آزادی پولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب تک کہ ہندوستان کو فوری طور پر آزادی نہیں دی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت تحریک کو تشدد کی انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جائے گا، [85][86] انھوں نے کہا کہ "حکم دیا اراجکتا" ان کے گرد کے "اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر۔" ہے۔ انھوں نے تمام کانگریس اور ہندوستانیوں پر عدم تشدد کے ذریعہ نظم و نسق بنائے رکھنے اور آزادی کے لیے کرو یا مرو پر زور دیا۔[87]
برطانوی حکومت نے 9 اگست 1942ء میں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر لیا گیا۔ گاندھی کو پونے میں آغا خان محل میں دو سال کے لیے مقید کیا گیا۔ یہاں گاندھی کو ذاتی زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے 50 سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کا دل کا دورہ سے اور 6 دن بعد ان کی بیوی کستوربا 18 ماہ قید کی سزا کے بعد 22 فروری 1944ء کو وفات پا گئیں۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سخت ملیریا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں جنگ کے اختتام سے پہلے 6 مئی 1944ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔، برطانوی راج جیل میں ان کی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ ہندوستان چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی، اس تحریک کی شدّت نے 1943ء کے آخر تک ہندوستان کے لیے آزادی کا پیغام لائی۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعلان کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریباً 100،000 سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔[88][89]
جب انڈین نیشنل کانگریس اور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے، 1943ء میں مسلم لیگ ملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کی قرارداد منظور کیا، مانا جاتا ہے کہ گاندھی ملک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے۔[90] اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ کی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کی جائے۔ اس کے بعد تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضلاع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔[91][92] پر محمد علی جناح براہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔ 16 اگست 1946ء کو گاندھی مشتعل تھے اور فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔ انھوں نے بھارتی ہندو، مسلمان اور مسیحی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں "اچھوت" کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔[93]
14 اور 15 اگست، 1947ء کو برطانوی ہندوستانی سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا، جو قتل عام اور 12.5 لاکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی۔ ممتاز نارویجن تاریخ داں جینس اروپ سیپ کے مطابق گاندھی کی تعلیمات، اس کے پیروکاروں کی کوشش اور ان کی اپنی موجودگی تقسیم کے دوران میں نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔[94]
اسٹینلے والپرٹ تقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیالات کا خلاصہ ان الفاظوں میں کیا ہے:
” | برطانوی ہند کو باٹنے کا منصوبہ گاندھی کو کبھی منظور نہیں تھا۔ تاہم انہیں احساس ہو چکا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو اصول سے زیادہ اقتدار میں دلچسپی ہے، اور وہ اپنے اس بھرم سے گھرے رہے کہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد جس کی قیادت انہوں نے کی وہ ایک بے تشدد تھی۔ | “ |
— Stanley Wolpert: Gandhi's Passion, The Life and Legacy of Mahatma Gandhi، Oxford University Press |
1883ء میں کستوربا گاندھی سے شادی ہوئی، اولاد میں 4 بیٹے یہ ہیں،
30 جنوری 1948ء کو ایک عبادتی خطبے کے لیے چبوترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک ہندو قوم پرست اور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو مہاسبھا سے وابستہ تھا جو گاندھی کو پاکستان کو ادایئگی کے لیے مجبور کرنے اور کمزور کرنے کے لیے ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گوڈسے اور اس کا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو عدالتی کارروائی کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئی دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام لکھا ہوا ہے۔ عموماً یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حالانکہ یہ متنازع ہے۔ جواہر لعل نہرو نے ریڈیو سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
” | دوستوں اور ساتھیوں روشنی ہماری زندگی سے نکل گئی ہے، اور ہر جگہ تاریکی ہے، اور میں واقعی نہیں جانتا کہ آپ کو کیا بتاؤں اور کس طرح بتاؤں۔ کہ ہمارے محبوب قائد، باپو جیسا کہ ہم ان کو کہتے تھے، باباۓ قوم، اب نہیں رہے۔ شاید میں کہتا ہوں کہ میں غلط ہوں، پھر بھی، ہم انہیں پھر نہیں دیکھ سکیں گے جیسا کہ ہم نے ان کو کئی سالوں سے دیکھا ہے، ہم مشورہ کے لیے اس کے پاس نہ جا سکیں گے نا ان سے سکون حاصل کر پائيں گے، اور یہ کہ ایک سخت دھچکا ہے، نہ صرف میرے لیے، لیکن اس ملک کے لاکھوں لاکھ لوگوں کے لیے۔ | “ |
گاندھی کے جسد خاکی کی راکھ کلشوں میں ڈال کر پورے بھارت میں یادگار کی طور پر بھیجی گیا۔ زیادہ تر کا الہ آباد کی سنگم پر 12 فروری 1948ء میں بہا دئے گئے، لیکن کچھ چھپا کر دور لے جایا گیا 1997 ء میں تشار گاندھی ایک کلش کا مواد، ایک بینک کے والٹ میں پایا اور عدالتوں کے ذریعے حاصل کر الہ آباد میں سنگم میں بہا دئے۔ مہاتما کے راکھ کا کچھ حصہ یوگنڈا کے قریب دریائے نیل کے منبع پر منتشر کیے گئے۔ 30 جنوری 2008ء ایک کلش کا مواد اس کے خاندان کی طرف سے گرگوام چوپاٹی میں ڈوب گیا جو دبئی کے ایک تاجر ممبئی کے ایک میوزیم کو بھیج دیا تھا۔ ایک اور کلش آغا خان کی ایک محل میں پونے ہے (جہاں انھیں 1942ء سے 1944ء تک قید کر رکھا گیا تھا) اور دوسرا سیلف ریالایئز فیلوشپ جھیل (Self-Realization Fellowship Lake shrine) لاس اینجلس میں ہے۔ خاندان کو علم ہے کہ ان راکھ کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ان علامات کو توڑ کر ہٹانا نہیں چاہتے۔
گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائی (حق) کی تلاش کے لیے نذر کر دیا۔ انھوں نے اسے اپنی غلطیوں اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری کو "سچائی کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" (The Story of My Experiments with Truth) کا عنوان دیا۔[95]
گاندھی نے کہا کہ انھوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے لڑی۔ گاندھی اپنے عقائد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، "خدا حق ہے"۔ انھوں نے اس بیان کو بعد میں "حق خدا ہے" سے تبدیل کر دیا۔ اس طرح، گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) "خدا" ہے۔[96]
اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر، انھوں نے بڑے پیمانے پر اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو، بدھ، جین، یہودی اور مسیحی مذاہب میں اس کا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی سوانح عمری "حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے ہیں۔ ذیل اقتباس ان کے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔[97][98][99]
” | جب میں مایوس ہوتا، ممں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ جیت ہوئی ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست لگے، لیکن آخر میں وہ ہارے- اس کے بارے میں سوچنا، ہمیشہ۔ | “ |
” | "آنکھ کے لیے ایک آنکھ پورے دنیا کو اندھا بنا دیتا ہے۔" | “ |
” | "بہت سی وجوہات ہیں جن کے لۓ میں مرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن کوئی وجہ نہیں جن کے لۓ میں قتل کرنے کے لیے تیار ہوں۔" | “ |
نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشت خوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاقے کے ہندو اور جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبزی خور رہے۔[100][101] اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پکے سبزی خور بن چکے تھے۔ انھوں نے اپنے قیام لندن میں اس پر کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ "دی وجیٹیرین"(The Vegeterian) میں شائع ہوئے۔ انھوں نے اس پر ایک کتاب "سبزی خوری کے اخلاقی اصول" بھی تصنیف کی۔
اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزی خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انھوں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔
گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، ""میں نے صرف پھل کھا کر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی سب سے سستے پھلوں سے … مونگپھلی، کیلے، کھجور، نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا"۔[102][103]
حالانکہ طبیبوں کی صلاح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے۔[104]
گاندھی نے برت کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ کانگریس نے برتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے تشہیر دی جس سے وسیع پیمانے پر ہمدردی حاصل ہوتی تھی۔ بدلے میں حکومت نے اپنے راج کو تحفظ دینے کے لیے ایسی خبروں کو کم سے کم جگہ دی۔ گاندھی نے 1932 میں دلتوں کے لیے الگ سے سیاسی نمائندگی دیے جانے کے خلاف برت رکھا کیونکہ وہ دلتوں کو الگ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ حکومت نے لندن پریس کو گاندھی کی فاقہ زدہ تصاویر دکھانے سے روک دیا کیونکہ اس طرح عوام میں ہمدردی پیدا ہوتی۔ گاندھی کی 1943ء کی بھوک ہڑتال کا سبب (Quit India) نامی نوآبادیاتی نظام کی مخالف مہم تھی۔ حکومت نے ماہرینِ غذائیات سے مدد لی اور تصاویر پر پابندی لگا دی۔ تاہم 1948ء میں ان کے آخری برت جو بھارت کی آزادی کے بعد رکھا گیا، کو برطانوی پریس نے پوری توجہ دی اور پورے صفحات کی تصاویر شائع کیں۔[105]
آلٹر کا خیال ہے کہ گاندھی کی مستقل بھوک ہڑتالوں اور برہمچاریہ کے پیچھے اپنی ذات پر ضبط سے زیادہ گہری وجوہات تھیں۔ ان کے اپنے خیالات روایتی ہندو آیورویدک اور مغربی خیالات پر مشتمل تھے۔ گاندھی کے نزدیک جدت پسندی اور روایات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی تھیں جتنا کہ صحت اور عدم تشدد۔[106]
گاندھی کی تعلیمی پالیسیوں کی جھلک نئی تعلیم سے ملتی ہے جس کا مطلب “تعلیم سب کے لیے” تھا۔ اس کے پیچھے وہ مذہبی اصول کارفرما تھا کہ کام اور علم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ نظام برطانوی نظام تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی بچوں کے لیے نظامِ تعلیم مشکل ہو جاتا تھا اور جسمانی کام سے نفرت پیدا ہوتی تھی اور ایک نیا طبقہ اشرافیہ پیدا ہو جاتا تھا اور انڈسٹریلائزیشن اور شہروں کو رخ کرنے کا رحجان پیدا ہوتا تھا۔[107]
نئی تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی اصول پر "نئی تعلیم" کے نام سے ایک نئے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔[108][109]
گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں:
جب گاندھی کی عمر 16 سال تھی ان کے والد سخت بیمار پڑ گئے تھے گاندھی ایک فرماں بردار اولاد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت ان کے چاچا خود ذمہ دری لے کر انھیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گئے۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انھیں ان کے والد کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو اس کے لیے معاف نہیں کر پائے۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے نتیجہ میں گاندھی نے 36 سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حالانکہ وہ شادی شدہ ہی رہے۔[110]
یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب تر کر لینے اور خود آشنائی سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ انکا خود کو نفسیاتی ضروریات سے روک لینے کا فیصلہ ہوس کی بجائے محبت کو سیکھنا تھا۔ گاندھی کے مطبق برہم آچاری " اپنے سوچ، الفاظ اور عمل پر قابو" ہے۔
زندگی کے اخیٖر مراحل تک یہ بات عام ہو گئی تھی کے گاندھی رات کو مختلف جوان عورتوں کے ساتھ سوتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا وہ ایسا جسمانی گرمی کو محسوس کرنے کے کیے کرتے ہیں اور اسے "فطرتی علاج" کہا۔ گاندھی نے اپنے نفس پر قابو کو پرکھنے کے لیے اپنے اخری دنوں میں کئی تجربات کیے۔ برلہ کے نام اپریل 1945ء کا ایک خط میں انھوں نے 'کئی عورتوں اور لڑکیوں کا ان کے ساتھ برہنہ ہونے' کا ذکر کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے ان تجربات میں کئی عورت شامل تھیں۔ انھوں نے برہم آچاری پر عمل پیراں ہونے پر پانچ اداریے لکھے۔[111][112]
اپنے اس تجربے کے لیے وہ پہلے اپنے عورت کارکنوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دور دور سوئے پھر ایک ساتھ سوئے اور آخر میں برہنہ سوئے۔ اور یہ تجربہ کئی عورتوں کے ساتھ کیا جیسے 16 سالہ آبھا (جو ان کے بھتیجے کے بیٹے کنو گاندھی کی بیوی تھی)، بھتیجے جئے سکھ لال کی 19 سالہ بیٹی منو گاندھی (جس کا ذکر گاندھی نے اس کے والد سے خود خط میں کیا کہ میں اس کے سونے کی عادتوں کو درست کرنے ساتھ سوتے ہیں)، گاندھی خود کو ان کی ماں مانتے تھے اور انھیں اپنی بیساکھی بتاتے تھے۔[113][114][115]
گاندھی سرلا دیوی کو اپنی روحانی بیوی بتاتے تھے جو خود شادی شدہ اور با اولاد تھیں۔ گاندھی نے خلاصہ کیا کہ وہ دونوں اتنے قریب ہو گئے تھے کہ جسمانی تعلقات بنا بیٹھتے۔
ان تجربات کی وجہ سے گاندھی کی فضیحت بھی ہوئی۔ ان کے اسٹونوگرافر آر پی پرسو رام گاندھی کو منو کے ساتھ برہنہ سوتے دیکھ کر استعفی دے دیا۔ گاندھی نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ سوتے کبھی نفسیاتی خواہش نہیں ہوئی۔ انھوں نے پرسو رام سے کہا کہ مجھے افسوس ہے تاہم اگر تم جانا چاہو توجا سکتے ہو۔ گاندھی کے ساتھی نرمل کمار بوس اور دتتاتیریا بالکرشنا کیلکر نے بھی کچھ اس قسم کے واقعات بتائے تاہم انھوں نے اسے ان کے ساتھ گاندھی کی ممتا بتایا۔
گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوش حال چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھا جو خود مختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔[116] سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو صنعتوں اور زراعت کی صورت حال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی تھی۔[117] گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو نے ہندوستان کو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے علاوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا۔[118] مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔[119]
رڈولف کے خیال میں جنوبی افریقا سے انگریزوں کو نکالنے میں ناکامی کے بعد گاندھی کو حوصلہ ملا۔ انھوں نے روایتی بنگالی طریقے سے خود تکلیف سہہ کر ستیہ گرہ یا اہنسا کو پورے ہندوستان میں پھیلا دیا۔ گاندھی کے مطابق آزادی کے چار معنی ہیں: ہندوستان کی قومی آزادی، انفرادی سیاسی آزادی، غربت سے اجتماعی چھٹکارا اور خود پر حکومت کرنا۔[120][121]
گاندھی کے مطابق ہر انسان کی مرضی کے بغیر اس سے متعلق کوئی کام نہ کیا جائے۔
جنوبی افریقا سے لوٹ کر جب گاندھی کو انسانی حقوق سے متعلق شمولیت کی درخواست کی گئی تو انھوں نے کہا کہ زیادہ اہمیت انسانی فرائض کو متعین کرنے کی ہونی چاہیے۔
آزاد ہندوستان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انگریز آقاؤں کی جگہ دیسی آقا لے لیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان آزاد ہونے کے بعد بھی انگلستان ہی رہتا جو سوراج نہیں۔ گاندھی کے خیال میں جمہوریت زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔[122][123]
گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میں گجراتی زبان میں چھپی۔ کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ادارت کے فرائض سر انجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقا میں بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ گاندھی نے تقریباً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط لکھے۔[124]
گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام (The Story of My Experiments with Truth) ہے۔[125] گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقا میں ستیہ گرہ‘، اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے سبزی خوری، غذائیات اور صحت، مذہب، سماجی بدلاؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموماً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔[126]
گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے (The Collected Works of Mahatma Gandhi) کے نام سے 1960ء کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد 50.000 ہے اور 100 جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔[127][128]
گاندھی نے بین الاقوامی سطح پر بہت سارے لیڈران اور سیاسی تحاریک پر اثر ڈالا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شہری حقوق کی تحریک میں مارٹن لوتھر کنگ، جیمز لاسن اور جیمز بیول نے گاندھی کی تحاریر سے عدم تشدد کا فلسفہ نکالا۔ مارٹن لوتھر کنگ کے مطابق “مسیح نے ہمیں مقاصد عطا کیے اور گاندھی نے ان کے حصول کے طریقے بتائے”۔ مارٹن کنگ نے گاندھی کو بعض اوقات ‘ننھا بھورا ولی‘ بھی کہا ہے۔ اس کے علاوہ نیلسن منڈیلا، خان عبد الغفار خان، سٹیو بیکو اور آنگ سان سوچی بھی گاندھی سے متائثر ہیں۔[129][130][131]
گاندھی کی زندگی سے متائثر ہونے والے افراد نے گاندھی کو اپنا محسن کہا ہے اور ان کی تعلیمات کو آگے پھیلانے میں زندگیاں صرف کی ہیں۔ یورپ کے مشہور لیڈران نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ یورپی ماہرِ طبیعیات البرٹ آئن سٹائن نے 1931ء میں گاندھی کو خطوط لکھے اور گاندھی کو ‘آنے والی نسلوں کا رہنما‘ قرار دیا۔ آئن سٹائن کے مطابق:
” | مہاتما گاندھی کی کامیابیاں دنیا کی سیاسی تاریخ میں بہت منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے غلام ملک کی آزادی کے لیے انتہائی اچھوتے طریقے متعارف کرائے جن کے اثرات پوری مہذب دنیا میں طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور ان کی مدد سے ظالم طاقتوں کو شکست دی جا سکے گی۔ گاندھی آنے والی نسلوں کے لیے رہنما شخصیت رہیں گے۔
آنے والی نسلوں کو شاید یقین نہ آئے کہ ایسا انسان کبھی ہمارے درمیان میں گوشت پوست کی شکل میں بھی رہتا تھا۔ |
“ |
لنزا ڈیل واستو 1936ء میں گاندھی کے ساتھ رہنے کی نیت سے آیا اور پھر جب یورپ واپس گیا تو گاندھی کے فلسفے کی ترویج میں لگ گیا۔ میڈیلین سلیڈ ایک برطانوی امیر البحر کی بیٹھی تھی اور اس نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر وقت گاندھی کی خدمت میں ہندوستان میں گزارا۔
برطانوی مویسقار جان لینن نے گاندھی کے بارے بات کرتے ہوئے ان کے عدم تشدد کے فلسفے پر بات کی۔ سابقہ امریکی نائب صدر الگور نے بھی 2007ء میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے پر بات کی۔
امریکی صدر براک اوبامہ نے 2010ء میں انڈین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کا حوالہ دیا:[132]
” | اگر گاندھی اور ان کے فلسفے کو امریکا اور دنیا بھر میں نہ پھیلایا جاتا تو میں آج امریکی صدر کی حیثیت سے آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا۔ | “ |
ٹائمز میگزین نے 14ویں دلائی لامہ، لیچ ویلیسا، مارٹن لوتھر کنگ، سیزر شاویز، آنگ سان سوچی، ڈاکٹر ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیلا کو گاندھی کی روحانی اولاد قرار دیا۔ ہیوسٹن، ٹیکساس میں انڈین آبادی کے ایک علاقے کو سرکاری طور پر ‘گاندھی‘ کا نام دیا گیا۔[133]
2007 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گاندھی کے یومِ پیدائش 2 اکتوبر کو بین الاقوامی عدم تشدد کا دن قرار دیا۔[134] یونسکو نے 1948 میں 30 جنوری کو ‘عدم تشدد اور امن کے اسکول ڈے‘ کی تجویز پیش کی تھی۔ جنوبی نصف کرے میں یہ دن 30 مارچ کو منایا جاتا ہے۔[135]
ٹائم میگزین نے 1930ء میں گاندھی کو سال کا بہترین مرد قرار دیا تھا۔[136] 1999ء میں صدی کے بہترین انسان کے لیے گاندھی کو آئن سٹائن کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا۔ انڈیا کی حکومت ہر سال گاندھی کا امن انعام بہترین سماجی کارکنوں، دنیا بھر کے رہنماؤں اور شہریوں وک دیتی ہے۔ نیلسن منڈیلا یہ انعام پانے والے غیر ہندوستانیوں میں نمایاں نام ہیں۔ 2011 میں ٹائم میگزین نے گاندھی کو دنیا بھر کے 25 بہترین سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا ہے۔[137]
1937ء سے 1948ء کے دوران میں گاندھی کو امن کے نوبل انعام کے لیے پانچ بار نامزد کیا گیا تھا لیکن انھیں یہ ایوارڈ نہ مل سکا۔[138] نوبل کمیٹی نے بعد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انھوں نے گاندھی کو یہ انعام نہیں دیا۔ 1948 میں فیصلے سے قبل گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سال کمیٹی نے اعلان کیا کہ اس سال یہ انعام نہیں دیا جائے گا کہ کوئی بھی مناسب امیدوار زندہ نہیں۔ جب 1989ء میں 14ویں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ مہاتما گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘۔[139]
انڈین لوگوں کی اکثریت گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ مانتی ہے۔[32][33] تاہم یہ خطاب سرکاری نہیں اور انڈین حکومت اسے نہیں مانتی اور نہ یہ خطاب حکومت کی طرف سے کبھی عطا کیا گیا۔ تاہم اس خطاب کی ابتدا شاید 1944ء میں سبھاش چندر بھوس سے ہوئی جنھوں نے اپنے ریڈیو خطاب میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ 28 اپریل 1947ء میں سروجنی نائیڈو نے ایک کانفرنس کے دوران میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ بعد میں یہ درخواست بھی دی گئی کہ گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کا خطاب دیا جائے لیکن انڈین آئین میں تعلیمی اور فوجی اعزازات کے علاوہ اور کوئی اعزاز نہیں دیا جا سکتا۔[140][141]
5 گھنٹے اور 9 منٹ طویل ڈاکومنٹری فلم کا نام (Mahatma: Life of Gandhi, 1869–1948) کو 1968 میں بنایا گیا [142] جس میں گاندھی کے اقتباسات اور بلیک اینڈ وائٹ فٹیج، تصاویر اور تاریخی حوالہ جات شامل کیے گئے۔[143] 1982ء میں رچرڈ اٹنبرو کیف لم میں بین کنگسلے نے گاندھی کا کردار ادا کیا اور اس فلم کو بہترین فلم کا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ 1996ء میں (The Making of the Mahatma) میں گاندھی کی زندگی کے جنوبی افریقا میں گزارے گئے وقت کو دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک غیر معروف بیرسٹر ایک مشہور سیاسی رہنما بنا۔ ‘لگے رہو منا بھائی‘ جو بالی وڈ میں 2006ء میں بنائی گئی، میں گاندھی کو مرکزی کردار کے طور پر دکھایا گیا۔ جانو بروا کی فلم ‘میں نے گاندھی کو نہیں مارا‘ میں بھی گاندھی کو دکھایا گیا ہے۔[144]
گاندھی کی مخالفت میں بھی فلمیں اور ڈرامے بنے ہیں۔ 1995ء میں مراٹھی ڈراما گاندھی ورودھ گاندھی بنایا گیا جس میں گاندھی اور ان کے بیٹے ہری لعل کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی۔ 2007 میں (Gandhi, My Father) بھی اسی موضوع پر بنائی گئی تھی۔ 1989ء میں مراٹھی ڈراما ‘مے نتھو رام گوڈسے بولتے‘ اور 1997ء میں ہندی ڈراما ‘گاندھی امبیدکر‘ میں بھی گاندھی اور ان کے اصولوں پر تنقید کی گئی ہے۔[145][146]
گاندھی کی زندگی پر بہت ساری سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ڈی جی ٹنڈولکر کی 8 جلدوں پر مشتمل کتاب (Mahatma. Life of Mohandas Karamchand Gandhi) اور پیارے لعل اور سوشیلا نیئر کی کتاب‘مہاتما گاندھی‘ 10 جلدوں میں ہے۔2010 میں جوزف لیلی ویلڈ نے (Great Soul: Mahatma Gandhi and His Struggle With India) میں گاندھی کی جنسی زندگی کے بارے متنازع متن شامل کیا ہے۔ 2014 میں بنائی گئی فلم (Welcome Back Gandhi) میں دکھایا گیا ہے کہ اگر گاندھی آج واپس آ جاتے تو جدید انڈیا کو دیکھ کر انھیں کیسا محسوس ہوتا۔[147][148][149]
تیز معاشی ترقی اور اربنائزیشن کی وجہ سے موجودہ انڈیا نے گاندھی کے معاشی نظریے کو رد کر دیا ہے لیکن ان کے سیاسی نظریات سے ہم آہنگ رہا ہے۔[150][151]
گاندھی کا یومِ پیدائش 2 اکتوبر ہے اور اس روز انڈیا میں قومی تعطیل ہوتی ہے جو ‘گاندھی جینتی‘ کہلاتی ہے۔[152] گاندھی کی شبیہہ انڈین ریزرو بینک کے چھاپے گئے تمام کرنسی نوٹوں ماسوائے ایک روپے کے، پر ثبت ہوتی ہے۔ گاندھی کو 30 جنوری کو قتل کیا گیا اور اس دن کو انڈیا میں “یومِ شہدا‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔[153]
انڈیا میں تین مندر گاندھی سے منسوب ہیں۔ ایک مندر اوڑیسہ میں سنبل پور کے مقام پر اور دوسرا کرناٹکا میں چک مگلور کے مقام پر ہے۔[154][154][155][156]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.