پاکستانی نوبل انعام یافتہ، فعالیت پسند From Wikipedia, the free encyclopedia
ملالہ یوسف زئی (ولادت: 12 جنوری، 1997ء) پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔
ملالہ یوسفزئی | |
---|---|
(پشتو میں: ملاله یوسفزۍ)،(اردو میں: ملالہ یوسفزئی) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 جولائی 1997ء (27 سال)[1][2][3][4][5] مینگورہ |
رہائش | برمنگھم |
شہریت | پاکستان [6] |
دیگر نام | گل مکئی |
مذہب | اسلام |
شریک حیات | عصر ملک [7] |
والد | ضیاء الدین یوسفزئی |
والدہ | تورپکئی یوسفزئی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ایڈجباسٹن ہائی اسکول (2013–2017)[6] لیڈی مارگریٹ ہال (2017–2020)[8] |
تخصص تعلیم | فلوسفی، پولیٹکس اینڈ اکنامکس |
پیشہ | بلاگ نویس ، کارکن انسانی حقوق [6]، یاداشت نگار ، مصنفہ [9]، حقوق نسوان کی کارکن |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [10]، اردو ، پشتو |
تحریک | بچوں کے حقوق ، حقوق نسواں |
اعزازات | |
100 خواتین (بی بی سی) (2021)[11] نوبل امن انعام (2014)[12] فلاڈلفیا لبرٹی میڈل (2014) ٹائم 100 (اپریل 2013) بچوں کا عالمی امن انعام (2013)[13] سیمون دی بووار انعام (2013)[14] سخاروف انعام (2013)[15] کینیڈا کی اعزازی شہریت (2013)[16] سال کا انسانیت پسند (2013)[17] کیٹالونیا بین الاقوامی انعام (2013)[18] انڈیکس اعزاز (2013) شعبۂ انسانی حقوق کا اقوام متحدہ انعام (2013) یورپی حقوق انسانی انعام (2013) آنا پولیتکوفسکایا اعزاز (2013) سال کا بہترین سیکولر (2013) ستارہ شجاعت (اکتوبر 2012) ملالہ قومی امن انعام (2011) فور فریڈم اعزاز - خوف سے نجات | |
نامزدگیاں | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
علاقے میں اسکولوں کا ایک سلسلہ ملالہ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ 2009ء کی ابتدا میں گیارہ یا بارہ سالہ ملالہ نے "گل مکئی" کے قلمی نام سے بی بی سی کے لیے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اگلی گرمیوں میں جب پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔ اس کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لیے جنوبی افریقا کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔ 9 اکتوبر، 2012ء کو ملالہ اسکول جانے کے لیے بس پر سوار ہوئی۔ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کر تین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور اس کی حالت نازک تھی۔ تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگہم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔ 12 اکتوبر کو پاکستانی 50 مذہبی علما نے ملالہ کے قتل کی کوشش کے خلاف فتویٰ دیا۔ تاہم کئی پاکستانی ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ سی آئی اے نے کرایا تھا اور اس بارے سازشی نظریات پائے جاتے ہیں۔
اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ملالہ کی حمایت میں اچانک اضافہ ہوا۔ ڈوئچے ویلے نے جنوری 2013ء میں ملالہ کے بارے لکھا کہ وہ دنیا کی مشہور ترین کم عمر بچی بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمائندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام "میں ملالہ ہوں" جاری کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو 2015ء کے اواخر تک اسکول بھیجا جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار تعلیم کے حق کا بل منظور ہوا۔ 29 اپریل 2013ء کو ملالہ کو ٹائم میگزین کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 با اثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔ ملالہ پاکستان کے پہلے یوتھ پیس پرائز کی وصول کنندہ ہے۔
12 جولائی 2013ء کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی دی جائے۔ ستمبر 2013ء میں ملالہ نے برمنگہم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ملالہ کو 2013ء کا سخاروو انعام بھی ملا۔ 16 اکتوبر 2013ء کو حکومتِ کینیڈا نے اعلان کیا کہ کینیڈا کی پارلیمان ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینے کے بارے بحث کر رہی ہے۔ فروری 2014ء کو سوئیڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔ 15 مئی 2014ء کو ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج، ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی۔
10 اکتوبر 2014ء کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014ء کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کو 1979ء میں طبیعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔
ملالہ 12 جولائی، 1997ء کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں پیدا ہوئی۔ ملالہ کا تعلق سنی مسلم خاندان سے ہے جو پشتون نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا نام ملالہ رکھا گیا جو ملال سے نکلا ہے اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔ یوسفزئی اس کے قبیلے کو ظاہر کرتا ہے۔ ملالہ اپنے شہر مینگورہ میں اپنے دو چھوٹے بھائیوں، والدین ضیاء الدین اور تور پکئی اور دو پالتو مرغیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ سوات مشہور سیاحتی علاقہ ہے اور ایک بار ملکہ الزبتھ دوم نے یہاں کی سیر کی تھی اور اسے مشرق کا سوئٹزرلینڈ قرار دیا تھا۔
ملالہ کو پشتو، انگریزی اور اردو پر عبور حاصل ہے اور اس نے زیادہ تر تعلیم اپنے والد سے پائی ہے۔ ضیاء الدین یوسفزئی جو ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کا ایک سلسلہ یعنی چین آف اسکولز بھی چلاتے ہیں۔ ملالہ نے ایک بار ڈاکٹر بننے کی خواہش ظاہر کی تھی تاہم پھر اپنے والد کی رہنمائی میں سیاست دان بننے کو ترجیح دی ہے۔ ملالہ کے والد نے اپنی بیٹی کو خصوصی توجہ دی ہے اور جب دیگر بچے سو جاتے تھے تو ملالہ کو رات گئے تک جانے کی اجازت ہوتی تھی اور وہ لوگ سیاست پر بات کرتے تھے۔
ملالہ نے ستمبر 2008ء سے تعلیمی حقوق کے بارے بات کرنا شروع کی تھی جب اس کے والد اسے پہلی بار پشاور پریس کلب سے خطاب کرنے لے گئے تھے۔ ملالہ نے اپنی تقریر میں یہ بات کہی کہ "طالبان کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ میرے تعلیم کے حق کی راہ میں رکاوٹ بنیں"۔
2008ء کے اواخر میں بی بی سی اردو کے عامر احمد خان اور رفقا نے وادئ سوات میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بارے کام کرنے کا سوچا۔ انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ وادئ سوات سے کوئی لڑکی اپنی شناخت چھپا کر واقعات کے بارے لکھنا شروع کر دے۔ پشاور میں ان کا نمائندہ عبد الحئی کاکڑ مقامی اسکول ٹیچر ضیاء الدین یوسفزئی سے رابطے میں تھا۔ تاہم بچیوں کے والدین نے ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس سے ان کے خاندان کو سخت خطرات لاحق ہو جاتے۔ آخرکار ضیاء الدین نے اپنی گیارہ سالہ بیٹی کا نام پیش کیا۔ اس وقت تک طالبان ملا فضل اللہ کی قیادت میں وادئ سوات پر قبضہ شروع کر چکے تھے اور ٹیلی ویژن، موسیقی اور لڑکیوں کے اسکول زبردستی بند کرائے جا رہے تھے اور خواتین کو خریداری کے لیے نکلنے سے روکا جا رہا تھا۔ پولیس اہلکاروں کی سر بریدہ لاشیں چوکوں پر لٹکی ملتی تھیں۔ پہلے پہل ایک لڑکی عائشہ نے ڈائری لکھنے کی ہامی بھری لیکن پھر اس کے والدین نے طالبان سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر اسے روک دیا۔ اس طرح اس سے چار سال چھوٹی اور ساتویں جماعت کی بچی ملالہ نے اس کام کا ذمہ لیا۔ بی بی سی کے ایڈیٹروں نے اسے فوراً منظور کر لیا۔
کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادئ سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتا بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انھیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔
ملالہ یوسف زئی، 3 جنوری، 2009ء بی بی بلاگ اینٹری
بی بی سی اردو کے ایک سابقہ مدیر نے کہا کہ "ہم سوات میں سیاست اور دہشت گردی کے بارے لکھ تو رہے ہیں لیکن ہمیں عام افراد کی رائے کا علم نہیں جو طالبان کے خوف میں جی رہے ہیں۔" چونکہ یہ لوگ ملالہ کی حفاظت کے لیے پریشان تھے، اس لیے انھوں نے قلمی نام پر زور دیا۔ ملالہ کے بلاگ کو "گل مکئی" کا نام دیا گیا اور یہ نام بھی پشتو روایات سے لیا گیا تھا۔
3 جنوری، 2009ء کو ملالہ نے پہلی انٹری بھیجی۔ طریقہ یہ تھا کہ ملالہ ہاتھ سے لکھ کر رپورٹر کو دیتی جو سکین کر کے اسے آگے ای میل کر دیتا۔ بلاگ سے ملالہ کی سوچ کا پتہ چلتا ہے جو سوات کی پہلی جنگ، لڑکیوں کا کم اسکول آنا اور پھر اسکول کے بند ہونے کے بارے لکھی گئی تھیں۔
مینگورہ میں طالبان نے اعلان کر دیا تھا کہ 15 جنوری، 2009ء کے بعد سے کوئی لڑکی اسکول نہیں جائے گی۔ اس وقت تک طالبان لڑکیوں کے 100 سے زیادہ اسکول تباہ کر چکے تھے۔ اس تاریخ سے ایک رات قبل توپوں کی آواز سے ملالہ کئی بار جاگی۔ اگلے دن ملالہ نے اخبار میں اپنے بلاگ کی پہلی تحریر کے اقتباسات پڑھے۔
پابندی کے بعد طالبان نے لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پانچ روز بعد ملالہ نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ "میں اب بھی اپنے امتحانات کی تیاری کر رہی ہوں جو تعطیلات کے بعد ہیں، اگر طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی تو۔ ہمیں امتحان کے سلسلے میں متعلقہ ابواب کا بتا دیا گیا ہے لیکن میرا دل پڑھنے کو نہیں چاہتا۔ ایسا لگتا ہے کہ درجنوں اسکولوں کی تباہی اور سینکڑوں کی بندش کے بعد فوج کو کارروائی کا خیال آیا ہے۔ اگر وہ پہلے کارروائی کرلیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔“
ملالہ یوسفزئی 24 جنوری، 2009ء بی بی سی بلاگ انٹری
فروری 2009ء میں لڑکیوں کے اسکول بند رہے۔ اظہارِ یکجہتی کے لیے لڑکوں کے اسکول بھی 9 فروری تک بند رکھے گئے۔ 7 فروری کو جب ملالہ اور اس کے بھائی واپس مینگورہ لوٹے تو سڑکیں خالی تھیں اور ہر طرف عجیب سی خاموشی چھائی تھی۔ جب بہن بھائی اپنی ماں کے لیے تحفہ خریدنے بازار گئے تو بازار بند تھے۔ حالانکہ یہ بازار عام حالات میں رات گئے تک کھلے رہتے تھے۔ ان کے گھر کو بھی لوٹ لیا گیا تھا اور ان کا ٹی وی بھی چوری ہو چکا تھا۔
لڑکوں کے اسکول کھلنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم ان اداروں میں جاری رکھنے کی اجازت دی جہاں مخلوط تعلیم ہوتی تھی۔ تاہم لڑکیوں کے اسکول بند رہے۔ ملالہ کے مطابق 700 میں سے محض 70 اسکول آئے۔
15 فروری کو مینگورہ کی سڑکوں سے فائرنگ کی آوازیں آئیں تاہم ملالہ کو اس کے والد نے تسلی دی کہ یہ فائرنگ امن کی بحالی کے لیے ہو رہی ہے۔ اخبار میں خبر تھی کہ حکومت اور دہشت گرد امن معاہدے پر دستخط کرنے لگے ہیں۔ طالبان نے امن معاہدے کا ذکر اپنے ایف ایم ریڈیو پر کیا اور فائرنگ شدت اختیار کر گئی۔ 18 فروری کو "کیپٹل ٹاک" پر ملالہ نے طالبان کے خلاف بات کی۔ تین دن بعد مولانا فضل اللہ نے اپنے ایف ایم ریڈیو چینل پر اعلان کیا کہ 17 مارچ کو ہونے والے امتحانات تک طالبات اسکول جا سکتی ہیں لیکن انھیں برقعے اوڑھنے ہوں گے۔
25 فروری کو ملالہ نے لکھا کہ "ہم پہلے کی طرح جماعت میں خوب کھیلے اور بڑا مزہ آیا"۔ یکم مارچ کو 27 میں سے 19 طالبات حاضر تھیں۔ تاہم طالبان بھی علاقے میں کافی متحرک دکھائی دے رہے تھے۔ گولہ باری جاری تھی اور عام لوگوں کی مدد کو آنے والی امدادی اشیاء لوٹ لی گئی تھیں۔ دو دن بعد ملالہ نے لکھا کہ فوج اور طالبان کے درمیان میں جھڑپیں جاری ہیں اور گولہ باری کی آواز سنائی دے دیتی ہے۔ "لوگ ڈرے ہوئے ہیں کہ شاید امن زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ امن معاہدہ عارضی طور پر لڑائی میں وقفہ ہے۔"
9 مارچ کو ملالہ نے اپنے سائنس کے پرچے کا لکھا جو کافی اچھا ہوا تھا۔ اس نے مزید لکھا کہ طالبان اب پہلے کی طرح گاڑیوں کی تلاشی نہیں لیتے۔ 12 مارچ، 2009ء کو بلاگ ختم ہو گیا۔
بی بی سی کی ڈائری ختم ہونے کے بعد ملالہ اور اس کے والد سے نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر ایڈمز بی ایلیک نے ایک ڈاکومنٹری فلمانے کے سلسلے میں رابطہ کیا۔ مئی میں پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ کے دوران میں علاقے کا انتظام سنبھال لیا۔ مینگورہ کو خالی کرا دیا گیا اور ملالہ کا خاندان الگ الگ ہو گیا۔ والد نے پشاور کا رخ کیا تاکہ احتجاج کر سکیں جبکہ ملالہ دیہات میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئی۔ ڈاکومنٹری میں ملالہ نے کہا کہ "مجھے بہت بوریت ہو رہی ہے۔ کوئی کتاب بھی نہیں ہے پڑھنے کو۔"
اسی ماہ طالبان کے خلاف بولنے پر طالبان کے ریڈیو پر ملالہ کے والد کو موت کی دھمکی دی گئی۔ ملالہ اپنے والد کے کاموں سے بہت متائثر ہوئی۔ اسی سال موسمِ گرما میں ملالہ نے ڈاکٹر کی بجائے سیاست دان بننے کا سوچا۔
"اب میرا نیا خواب ہے کہ میں اپنے ملک کو بچانے کے لیے سیاست دان بنوں۔ ہمارے ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ میں انھیں ختم کرنا چاہتی ہوں۔"
ملالہ یوسفزئی کلاس ڈسمسڈ (ڈاکومنٹری)
جولائی کے اوائل میں مہاجر کیمپ پوری طرح بھر گئے تھے۔ وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ وادئ سوات اب محفوظ ہے اور لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں۔ پاکستانی فوج نے طالبان کو شہروں سے دور دیہاتوں کو دھکیل دیا ہے۔ ملالہ کا خاندان جمع ہو کر 24 جولائی، 2009ء کو واپس لوٹ آیا۔ راستے میں وہ اور دیگر کارکن امریکی صدر اوبامہ کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک سے ملے۔ ملالہ نے ہالبروک سے درخواست کی کہ "محترم سفیر، اگر آپ تعلیم کے حوالے سے ہماری مدد کر سکیں تو براہ کرم ضرور کریں۔" جب وہ واپس لوٹے تو پتہ چلا کہ ان کا گھر محفوظ ہے لیکن اسکول کو معمولی نقصان پہنچا تھا۔
"مجھے یقین ہے کہ سوشلزم ہی واحد حل ہے اور میں اپنے تمام ساتھیوں سے کہتی ہوں کہ اسے کامیابی سے ہمکنار کرائیں۔ اس طرح ہم عدم برداشت اور عدم تحفظ سے نجات پا سکتے ہیں۔" ملالہ یوسفزئی کا پیغام 32 ویں پاکستانی اجتماع برائے آئی ایم ٹی
ڈاکومنٹری کے بعد ملالہ کے انٹرویو پشتو زبان کے ٹی وی چینل اے وی ٹی خیبر، اردو روزنامہ آج اور کینیڈا کے ٹورنٹو سٹار میں شائع ہوئے۔ کیپٹل ٹاک میں دوسری بار ملالہ 19 اگست، 2009ء میں آئی۔ بی بی سی کے بلاگ کے حوالے سے ملالہ کی اصل شناخت دسمبر 2009ء تک واضح ہو چکی تھی۔ بعد میں ملالہ ٹیلی ویژن پر خواتین کی تعلیم کے حق میں بیان دینے لگی۔
اکتوبر 2011ء میں جنوبی افریقہ سے انسانی حقوق کے کارکن آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ملالہ کو بچوں کے بین الاقوامی امن اعزاز کے لیے نامزد کیا۔ یہ اعزاز ہالینڈ کی ایک تنطیم دیتی ہے۔ ملالہ اس اعزاز کے لیے نامزد ہونے والی پہلی پاکستانی ہے۔ تاہم یہ اعزاز ملالہ کو نہ مل سکا۔
دو ماہ بعد پاکستان کے پہلے امن انعام برائے نواجوانان پانے کا اعزاز ملالہ کو حاصل ہوا اور اس کی شہرت مزید بڑھ گئی۔ یہ اعزاز اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے 19 دسمبر، 2011ء کو دیا۔
جوں جوں ملالہ کی شہرت بڑھتی گئی، اس کی زندگی کو لاحق خطرات بھی زیادہ ہوتے گئے۔ اخباروں میں ملالہ کو قتل کی دھمکیاں چھاپ کر اس کی دہلیز سے گھر کے اندر پھینک دیے جاتے تھے۔ فیس بک پر بھی ملالہ کو دھمکیاں دی جانے لگیں اور اس کے نام سے فرضی کھاتے بننے لگ گئے۔ جب سب تدبیریں ناکام رہیں تو طالبان نے اعلان کیا کہ وہ راست اقدام پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 2012ء کی گرمیوں میں ایک اجلاس میں طالبان رہنماؤں نے بیک زبان ملالہ کے قتل کا فیصلہ کیا۔
"جب بھی میں اس منظر کے بارے سوچتی ہوں تو مجھے یہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اگر وہ مجھے قتل کرنے آئے بھی تو میں انھیں بتاؤں گی کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔ تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے۔" ملالہ، طالبان کا سامنا کرنے کے بارے بات کرتے ہوئے
9 اکتوبر، 2012ء کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ "تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا۔" جب ملالہ نے اپنا تعارف کرایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔ ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔ دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انھوں نے حملے کے بارے رپورٹرز کو بتایا۔
حملے کے بعد ملالہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور کے فوجی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں کو اس کے دماغ کے بائیں حصے کی سوجن روکنے کے لیے فوری آپریشن کرنا پڑا۔ یہ حصہ گولی لگنے کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔ تین گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے قریب سے گولی نکالی۔ حملے کے اگلے روز ڈاکٹروں نے اس کی کھوپڑی کی ہڈی کا کچھ حصہ ہٹا دیا تاکہ دماغ کی سوجن کے لیے کچھ جگہ پیدا ہو سکے۔
11 اکتوبر، 2012ء کو پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے پینل نے فیصلہ کیا کہ ملالہ کو راولپنڈی کے فوجی ادارہ برائے امراض قلب منتقل کیا جائے۔ ایک ڈاکٹر ممتاز خان کے مطابق ملالہ کے بچنے کے امکانات 75 فیصد تھے۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ جونہی ملالہ کی طبعیت بہتر ہوگی، اسے جرمنی منتقل کر دیا جائے گا تاکہ بہترین طبی سہولیات میسر آ سکیں اور حکومتی اخراجات پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس کے ساتھ جائے گی۔ 13 اکتوبر کو ڈاکٹروں نے ملالہ کو سکون آور ادویات کی مقدار کم کر دی اور ملالہ اپنے ہاتھ پیر ہلانے کے قابل ہو گئی۔
دنیا بھر سے ملالہ کے علاج کی پیشکشیں آنے لگیں۔ 15 اکتبور کو ملالہ کو ڈاکٹروں اور اس کے خاندان کی اجازت سے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ اس کا جہاز دبئی ایندھن کے لیے رکا اور پھر اسے برمنگہم کے کوئین الزبتھ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال کی ایک امتیازی خوبی جنگوں میں زخمی ہونے والے فوجیوں کا علاج بھی ہے۔
17 اکتوبر، 2012ء کو ملالہ ہوش میں آ گئی اور اس کا علاج کارگر ثابت ہونے لگا۔ ڈاکٹروں کے مطابق دماغی چوٹ سے ملالہ کے محفوظ رہنے کے امکانات کافی روشن ہو گئے تھے۔ 20 اور 21 اکتوبر کو بتائی گئی تفصیلات سے واضح ہوا کہ ملالہ کی حالت مستحکم ہے لیکن اسے عفونت یعنی انفیکشن کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ 8 نومبر کو بستر پر بیٹھی حالت میں اس کی تصویر شائع ہوئی۔
3 جنوری، 2013ء کو ملالہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔ بحالی کے لیے ملالہ کو اس کے خاندان کے ساتھ ویسٹ مڈلینڈز کے ایک گھر میں رکھا گیا۔ 2 فروری کو 5 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ملالہ کی کھوپڑی کی ہڈی اور اس کی سماعت بحال کر دی گئی۔
مارچ 2013ء سے ملالہ برمنگہم میں لڑکیوں کے اسکول ایجبسٹن ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم ہے۔
ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور دیگر میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔ پاکستانی حکام نے ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی شناخت اور گرفتاری میں مدد دینے پر 1 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ ملالہ کے والد نے بیان دیا کہ "چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے"۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کو مہذب قوم پر حملے سے تشبیہ دی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، امریکی صدر براک اوبامہ، سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن، برطانوی سیکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی۔
امریکی گلوکارہ میڈونا نے ملالہ کے نام اپنا ایک گانا منسوب کیا اور انجیلنا جولی نے نے ملالہ پر حملے کے بارے ایک مضمون لکھا اور ملالہ فنڈ کے لیے 2 لاکھ ڈالر بھی دیے۔ سابقہ امریکی خاتون اول لارا بش نے ملالہ کو مرگِ انبوہ کی ڈائری لکھنے والی این فرینک سے تشبیہ دی۔ انڈین ہدایت کار امجد خان نے ملالہ کی زندگی پر مبنی فلم بنانے کا اعلان کیا۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملالہ کفر اور بے شرمی کی علامت ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ملالہ زندہ بچ جاتی ہے تو اس پر حملے جاری رکھے جائیں گے۔ حملے کے اگلے دن طالبان نے دہرایا کہ ملالہ کے والد نے اس کی برین واشنگ کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ملالہ نے ہماری تنبیہ کے باوجود ہمارے خلاف گندی زبان کا استعمال جاری رکھا جس کی وجہ سے ہمیں اس کے خلاف انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ طالبان نے اپنے اقدام کو قرآن سے درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے بچوں کا قتل بھی جائز ہے۔
12 اکتوبر، 2012ء کو پچاس علما نے متفقہ فتویٰ میں طالبان کے اس اقدام کو غیر اسلامی قرار دیا۔ سنی اتحاد کونسل کے رہنما نے عوامی سطح پر طالبان کے موقف کو جھٹلایا۔
اگرچہ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت کی گئی لیکن سازشی نظریات کے حامی کچھ انتہا پسند سیاست دانوں اور رہنماؤں نے اسے بھی ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ سی آئی اے کی کارروائی تھی تاکہ ڈرون حملوں کو جاری رکھا جا سکے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اور اس کی دیگر حامی جماعتوں نے ملالہ کو امریکی جاسوس قرار دیا۔
15 اکتوبر، 2012ء کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے ہسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا "میں ملالہ ہوں"۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔
حملے کے اگلے روز وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ملالہ پر حملہ آور کی شناخت ہو گئی ہے۔ پولیس کے مطابق 23 سالہ عطا اللہ خان جو کیمسٹری کا گریجوائٹ ہے، نے حملہ کیا تھا۔ اکتوبر 2014ء کو حملہ آور گرفتار کر لیا گیا۔
"روایات آسمان سے نہیں اترتیں اور نہ انھیں خدا بھیجتا ہے۔ ہم ہی ثقافت بناتے ہیں اور ہمیں ہی اسے بدلنے کا حق ہے اور ہمیں ایسی روایات بدلنا ہوں گی۔" ملالہ لندن میں گرلز سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے
"ان میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں جس سے پاکستانی عوام میں بے چینی پھیلتی ہے۔ اگر ہم تعلیم پر کوششیں مرکوز کر دیں تو اس سے بہت بڑا اثر ہوگا۔" ملالہ براک اوبامہ سے ملاقات کے دوران میں ڈرون حملوں پر رائے دیتے ہوئے
ملالہ نے جولائی 2013ء میں اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ملکہ برطانیہ سے بکنگہم پیلس میں ملاقات بھی کی۔ ستمبر میں اس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے خطاب کیا اور امریکی صدر اور ان کے خاندن سے ملاقات کی اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم سٹیفن ہارپر اس قرارداد پر سب سے پہلے دستخط کرنے والے فرد بنے جس میں ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
سابق برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے اقوام متحدہ سے ملالہ کے خطاب کے انتظامات کیے۔ اس کے علاوہ گورڈن براؤن نے میکنزی کی مشیر شیزا شاہد سے درخواست کی کہ وہ ملالہ فنڈ کی سربراہی کریں۔ اس فنڈ کو انجیلینا جولی کی حمایت حاصل ہے اور گوگل کے نائب صدر میگن سمتھ بھی فنڈ کے بورڈ میں شامل ہیں۔
12 جولائی، 2013ء کو ملالہ کی سولہویں سالگرہ تھی جب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس واقعے کو ملالہ ڈے یعنی یومِ ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔
10 اکتوبر، 2014ء کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حقِ تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر فرد ہے۔ اس اعزاز میں ان کے شریک انڈیا سے کیلاش ستیارتھی ہیں جو بچوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہے۔
ملالہ کے اعزاز کے بارے پاکستان میں قدرے مختلف ردِ عمل سامنے آیا۔ مثال کے طور پر ڈان کی کالم نگار ہما یوسف نے ملالہ پر تین اعتراضات اٹھائے کہ پہلے تو یہ کہ ملالہ پاکستان کے سب سے منفی پہلو یعنی عسکریت پسندی کو سامنے لائی ہے، دوسرا یہ کہ ملالہ کی تعلیم کی مہم مغرب کا ایجنڈا ہے، تیسرا یہ کہ اس سے معصوم شہری پس پردہ چلے جاتے ہیں جو امریکی ڈرون حملوں سے متائثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملالہ کو سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔
ایک کتاب بھی ملالہ کے نام سے انگریزی میں شائع کی گئی، جس کا نام میں ملالہ ہوں رکھا گیا۔
سال | اعزاز/انعام | کیفیت | ملک |
---|---|---|---|
2011ء | بچوں کا عالمی امن انعام | نامزد امیدوار | [19] |
2011ء | قومی نوجوانان امن انعام | ملا | پاکستان[20] |
اکتوبر 2012ء | ستارہ جرات | پاکستان کا تیسرا بڑا شہری اعزاز برائے بہادری | پاکستان[21] |
نومبر 2012ء | فارن پالیسی | دنیا کے سو بہترین مفکرین کی فہرست میں شامل کیا | ریاستہائے متحدہ[22] |
نومبر 2012ء | مدر ٹریسا یادگاری انعام برائے سماجی انصاف | بھارت[23][lower-alpha 1] | |
دسمبر 2012ء | ٹائم میگزین | سال (2012) کی شخصیت، کے لیے نام پیش کیا | ریاستہائے متحدہ[25] |
2013ء | بچوں کا عالمی امن انعام | ملا | |
2013ء | نوبل انعام امن | نامزد امیدوار | سویڈن |
2014ء | نوبل انعام امن | دنیا کا سب سے بڑا امن انعام | سویڈن[26] |
2014ء | تمغا آزادی (لبرٹی میڈل) | ہر سال ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو آزادی کی نعمت کی حفاظت کے لیے بے حد کوشش کرتا ہے۔ | ریاستہائے متحدہ[27] |
ملالہ کا نکاح نومبر 2021ء میں عصر ملک کے ساتھ ہوا، 9 نومبر کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ملالہ یوسف زئی نے عصر ملک کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کا اعلان کیا اور نکاح کی تصاویر بھی شیئر کیں۔
ویکی اقتباس میں ملالہ یوسفزئی سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
ویکی ذخائر پر ملالہ یوسفزئی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.