انس بن مالک صحابی رسول تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے : انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام انصاری۔ آپ قبیلہ انصار میں خزرج کی ایک شاخ بنی نجار میں سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان ہے۔آپ کی کنیت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ابو حمزہ رکھی اور آپ کا مشہور لقب ”خادم النبی”ہے اور اس لقب پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے حد فخر تھا۔ دس برس کی عمر میں یہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دس برس تک سفر و وطن ، جنگ و صلح ہر جگہ ہر حال میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت کرتے رہے اور ہر دم خدمت اقدس میں حاضر باش رہتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے تبرکات میں سے ان کے پاس چھوٹی سی لاٹھی تھی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ اس کو بوقت دفن میرے کفن میں رکھ دیں۔چنانچہ یہ لاٹھی آپ کے کفن میں رکھ دی گئی ۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے لیے خاص طور پر مال اور اولاد میں ترقی اور برکت کی دعائیں فرمائی تھیں، چنانچہ ان کے مال اور اولاد میں بے حد برکت و ترقی ہوئی ۔ مختلف بیویوں اور باندیوں سے آپ کے 80 لڑکے اور 2 لڑکیاں پید اہوئیں اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس دن آپ کے بیٹوں اور پوتوں وغیرہ کی تعداد ایک سو بیس( 120) تھی ۔ بہت زیادہ حدیثیں آپ سے مروی ہیں ۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے حنا کا خضاب سر اور داڑھی میں لگاتے تھے اور خوشبو بھی بکثرت استعمال کرتے ۔ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسینہ ملا ہوا ہے ۔ ان کی والدہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پسینہ کو جمع کر کے خوشبو میں ملایا کرتی تھیں ۔
حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے آپ مدینہ سے بصرہ چلے گئے۔ آپ نے 93ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔آپ کی عمر شریف ایک سو تین برس کی تھی۔بصرہ میں وفات پانے والے صحابیوں میں سے سب سے آخر میں آ پ کا وصال ہوا۔ آپ کے بعد شہر بصرہ میں کوئی صحابی باقی نہیں رہا۔ بصرہ سے دو کوس کے فاصلہ پر آپ کی قبر شریف بنی جو زیارت گاہ خلائق ہے۔ آپ بہت ہی حق گو، حق پسند ، عبادت گزار صحابی ہیں اور آپ کی چند کرامتیں بھی منقول ہیں۔ [2][3][4]
نام و نسب
انس نام ، ابوحمزہ کنیت ، خادم رسول اللہ لقب ، قبیلہ نجار سے ہیں، جو انصار مدینہ کا معزز تر ین خاندان تھا ، نسب نامہ یہ ہے، انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام بن جنب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار، والدہ ماجدہ کا نام ام سلیم سہلہ بنت لمحان انصاریہ ہے جن کا سلسلۂ نسب تین واسطوں سے انس بن مالک کے آبائی سلسلہ میں مل جاتا ہے اور رشتہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہوتی تھیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہجرت نبویﷺ سے دس سال پیشتر شہر یثرب میں پیدا ہوئے 8 ، 9 سال کا سن تھا کہ ان کی ماں نے اسلام قبول کر لیا، ان کے والد بیوی سے ناراض ہوکر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا،ماں نے دوسرا نکاح ابو طلحہ سے کر لیا جن کا شمار قبیلۂ خزرج کے متمول اشخاص میں تھا اور اپنے ساتھ حضرت انسؓ کو ابو طلحہ کے گھر لے گئیں،حضرت انسؓ بن مالک نے انہی کے گھر میں پرورش پائی۔
قبل اسلام عربوں کی جہالت کا یہ نقشہ تھا کہ باپ (ابوطلحہ) کی صحبت میں جب بادہ وجام کا دور چلتا تو بیٹا(انسؓ) ساقی گری کرتا، وہ پہلے دوسروں کو پلاتے اور بعد میں خود پیتے تھے اور اس دس سالہ بچے کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔[5] حضرت انسؓ کا نام ان کے چچا انسؓ بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا؛لیکن کنیت نہ تھی وہ آنحضرتﷺ نے تجویز فرمائی،انسؓ ایک خاص قسم کی سبزی جس کا نام حمزہ تھا چنا کرتے تھے،آنحضرتﷺ نے اسی مناسبت سے ان کی کنیت ابو حمزہ پسند فرمائی۔ [6][7]،[3][4][6][8]،،[9] [3][10]
اسلام
حضرت انسؓ کا سن 8،9 سال کا تھا کہ مدینہ میں اسلام کی صدا بلند ہوئی ، بنو نجار نے قبول اسلام میں جو پیش دستی کی تھی اس کا اثر یہ تھا کہ اس قبیلہ کے اکثر افراد آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے قبل توحید ورسالت کے علمبردار ہو چکے تھے، حضرت انسؓ بن مالک کی والدہ (ام سُلیمؓ) نے بھی عقبہ ثانیہ سے پیشتر دین اسلام اختیار کر لیا تھا اور جیسا کہ ابھی اوپر گذر چکا ہے کہ ان کے والد بت پرست تھے وہ بیوی کے اسلام پر برہم ہو کر شام چلے گئے تھے ،ادھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ابو طلحہ سے اس شرط پر نکاح کر لیا کہ وہ بھی مذہب اسلام قبول کریں؛ چنانچہ وہ مسلمان ہو چکے تھے اور عقبہ ثانیہ میں آنحضرتﷺ کے دست حق پر ست پر مکہ مکرمہ جاکر بیعت کی تھی،اس طرح حضرت انسؓ بن مالک کا پورا گھر نور ایمان سے منور تھا ،ان کی جنتی ماں (ام سلیمؓ) شمع اسلام کی پروانہ تھیں اوران کے محترم باپ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ دین حنیف کے ایک پرجوش فدائی تھے بیٹے نے انھیں والدین کی آغوش محبت میں تربیت پائی اور مسلمان ہوا۔ [3][8][11]
خدمت رسول ﷺ
10 سال کی عمر ہو گئی کہ وہ یوم مسعود آیا جس کے انتظار میں اہل یثرب نے مہینوں راتیں کاٹی تھیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یثرب تشریف لائے اور شہر یثرب کو مدینۃ النبی ہونے کا شرف عطا فرمایا، حضرت انسؓ بن مالک گو اس وقت صغیر السن تھے؛ لیکن پر جوش تھے جس ساعت سعید میں مدینہ طیبہ کا افق آفتاب نبوت کی نورانی شعاعوں سے منور ہو رہا تھا، حضرت انسؓ بن مالک اور بہت سے کم سن لڑکے جاء رسول اللہ ﷺ کا مژدہ جاں بخش اہل یثرب کو سنا رہے تھے اور نہایت جوش میں خوشی خوشی شہر کا گشت لگا رہے تھے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کان میں آتی مڑ کر دیکھتے [12] کہ شاید کاروان قدس منزل مقصود پر خیمہ زن ہوا ہے۔لیکن گرد کارواں کے سوا کچھ نظر نہ آتا، اتنے میں گرد ہٹی اورنہایت ہی شوکت وشان سے کوکب نبوت نمودار ہوا ، حضرت انسؓ بن مالک کی عقیدت مند نگاہ رخ انور پر پڑی اور تصدیق قلبی اور اقرار لسانی نے صحابیت کا ممتاز شرف بارگاہ نبوت سے حاصل کیا۔
آنحضرتﷺ نے مدینہ میں اقامت فرمائی تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضرت انسؓ بن مالک کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ انسؓ بن مالک کو اپنی غلامی میں لے لیجئے، آنحضرتﷺ نے منظور فرمایا اور حضرت انسؓ خادمان خاص کے زمرہ میں داخل ہو گئے۔
حضرت انسؓ بن مالک نے آنحضرتﷺ کی وفات تک اپنے فرض کو نہایت خوبی سے انجام دیا ،وہ کم وبیش دس برس حامل نبوتﷺ کی خدمت کرتے رہے اور ہمیشہ اس شرف پر ان کو ناز رہا، معمول تھا کہ فجر کی نماز سے پیشتر در اقدس پر حاضر ہو جاتے اور دوپہر کو اپنے گھر واپس آتے ،دوسرے وقت پھر حاضر ہوتے اور عصر تک رہتے، نماز عصر پڑھ کر اپنے گھر کا رخ کرتے تھے ،محلہ میں ایک مسجد تھی وہاں لوگ ان کا انتظار کرتے جب یہ پہنچتے اس وقت وہاں نماز ہوتی تھی۔ [13]
ان اوقات کے ماسوا بھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کے لیے حاضر رہتے تھے، ایک مرتبہ حضرت انسؓ بن مالک آپ کے کاموں سے فارغ ہوکر گھر روانہ ہوئے ،دوپہر کا وقت تھا لڑکے کھیل رہے تھے حضرت انسؓ بن مالک بھی کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے لگے، اتنے میں آنحضرتﷺ ادھر تشریف لائے لڑکوں نے دور سے دیکھ کر حضرت انسؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ آ رہے ہیں،آنحضرتﷺ نے حضرت انسؓ کا ہاتھ پکڑ کر کسی کام کے لیے بھیج دیا اور خود ایک دیوار کے سایہ تشریف فرما رہے ،حضرت انسؓ کو دیر ہو گئی تھی گھر گئے تو ام سلیمؓ نے پوچھا آج دیر کہا ں لگائی، انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے ایک کام سے گیا تھا وہ بہانہ سمجھیں اور پوچھا کام کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ ایک پوشیدہ بات تھی، حضرت ام سلیمؓ نے کہا اس کو کسی سے نہ کہنا چنانچہ حضرت انسؓ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ ایک مرتبہ حضرت ثابتؓ سے جوان کے تلامذہ خاص تھے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اس راز سے آگاہ کرتا تو وہ تم تھے؛ لیکن میں بیان نہیں کروں گا۔[14]
حضرت انسؓ ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے تھے سفر وحضر اور خلوت وجلوت کی ان کے لیے کوئی تخصیص نہ تھی اور نزول حجاب سے پہلے وہ آنحضرتﷺ کے گھر میں آزادی کے ساتھ آتے جاتے تھے۔ ایک دن نماز فجر سے قبل آنحضرتﷺ نے فرمایا:آج روزہ کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھلا دو، حضرت انسؓ بن مالک جلدی سے اٹھے اور کچھ خرمے اور پانی لے کر حاضر ہوئے، آنحضرتﷺ نے سحری کھائی اور پھر نماز فجر کے لیے تیار ہوئے۔ داخلہ خیبر کے وقت جبکہ نبوت کا جاہ وجلال فاتح کی شان و شوکت رکھتا تھا، حضرت انسؓ کے قدم آنحضرتﷺ کے قدم کو چھو گئے،جس سے ازار مبارک کھسک گیا اور آنحضرتﷺ کے زانوئے مقدس کی سفیدی لوگوں کو نظر آگئی، حضور نے کچھ خیال نہ فرمایا اور انسؓ بن مالک کی اس خطا سے درگزر کی۔
حضرت انسؓ،آنحضرتﷺ کے تمام کام نہایت مستعدی اور تندہی سے بجا لاتے اور اپنی فرماں برداری سے حضور ﷺکو خوش رکھتے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس آنحضرتﷺ کی خدمت کی؛لیکن اس مدت میں آپ کبھی خفا نہ ہوئے اورنہ کبھی کسی کام کی نسبت یہ فرمایا کہ اب تک کیوں نہ ہوا، آنحضرتﷺ کو ان سے خاص محبت ہو گئی تھی ان کو بیٹا اور کبھی کبھی پیار میں "انیس" کہہ کر مخاطب فرماتے تھے اکثر ان کے گھر تشریف لیجاتے، چھوہارے نوش فرماتے،کھانا موجود ہوتا تو کھانا تناول فرماتے ،دوپہر کا وقت ہوتا تو آرام کرتے ،نماز پڑہتے اورحضرت انسؓ بن مالک کے لیے دعا فرماتے ۔ پہلے گذرچکا ہے،حضرت انسؓ کی ماں حضرت ام سلیمؓ آنحضرت ﷺ کی رشتہ میں خالہ ہوتی تھیں وہ آنحضرتﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں اور آنحضرتﷺ کو بھی ان کا حد درجہ خیال تھا،غزوہ ٔخیبر میں صفیہؓ اسیر ہوکر آئیں اور آنحضرتﷺ نے نکاح کا خیال ظاہر فرمایا تو حضرت ام سلیمؓ کے پاس بھیج دیا،ام سلیمؓ نے شادی کا سامان کیا اور حضرت صفیہؓ کو دلہن بنا کر شب کو آنحضرتﷺ کے خیمہ اطہر میں پہنچایا۔[15] اسی طرح جب آنحضرتﷺ نے حضرت زینبؓ سے عقد کیا،تو ام سلیمؓ نے ایک لگن میں مالیدہ بنا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، آپﷺ نے صحابہؓ کو طلب فرمایا اور ایک مختصر سا جلسہ دعوت ترتیب دیا۔ غرض ان مختلف خصوصیتوں نے حضرت انسؓ بن مالک کو خاندان نبوت کا ایک ممبر بنادیا تھا،آنحضرتﷺ کبھی کبھی خوش طبعی میں ان سے مزاح فرماتے تھے ،ابوحمزہ ان کی کنیت اسی مزاح کا نتیجہ تھی،ایک مرتبہ مزاح میں ارشاد فرمایا :یاذالا ذنین ،یعنی اے دکان والے ،[16] [6][17][18][19][20]
عام حالات
بارگاہ اقدس میں حضرت انسؓ بن مالک کو جو قرب واختصاص تھا وہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ سفر و حضر اور خلوت وجلوت میں وہ کس استقلال سے آنحضرتﷺ کے شریک صحبت رہتے تھے، یہی جوش محبت تھا جس نے میدان جنگ میں بھی آقا سے علاحدہ نہ ہونے دیا، غزوہ بدر میں ان کی عمر کچھ نہ تھی 12 برس کا سن تھا، لیکن مجاہدین اسلام کے پہلو بہ پہلو میدان جنگ میں موجود تھے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں خدمت گزاری کا فرض بجا رہے تھے، ان کی اس کمسنی سے لوگوں کو شرکت بدر میں اشتباہ ہوتا تھا ؛ چنانچہ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ غزوہ بدر میں موجود تھے، حضرت انسؓ بن مالک نے فرمایا میں بدر سے کہاں غائب ہو سکتا تھا؟
واقعۂ بدر سے ایک سال بعد غزوۂ احد واقع ہوا، اس میں بھی حضرت انسؓ بہت کم عمر تھے، ذیقعدہ 6ھ میں حدیبیہ اور بیعت الرضوان پیش آئی، اس وقت انسؓ بن مالک کا عنفوان شباب تھا، یعنی 16 برس کا سن تھا اب وہ میدان جنگ میں نبرد آزمائی کے قابل ہو گئے تھے، 7ھ میں آنحضرتﷺ نے عمرۃ القضا کیا، اس میں حضرت انسؓ تمام جان نثاروں کی طرح آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے، اسی سنہ میں خیبر پر فوج کشی ہوئی اس غزوہ میں انسؓ بن مالک ، ابو طلحہؓ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اور آنحضرت ﷺ سے اس قدر قریب تھے کہ ان کا قدم آنحضرتﷺ کے قدم سے مس کر رہا تھا، 8ھ میں مکہ اور طائف میں معرکوں کا بازار گرم ہوا اور 10ھ میں آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع یعنی آخری حج کیا، ان سب واقعات میں حضرت انسؓ بن مالک نے شرکت کی اور سعادت دنیوی اور اُخروی سے بہرہ اندوز ہوئے۔
آنحضرت ﷺ کے غزوات کی تعداد اگرچہ 26،27 تک پہنچتی ہے۔لیکن جن مقابلوں میں جنگ وقتال کی نوبت آئی ہے وہ صرف 9 ہیں، بدر، احد، خندق ، قریظہ ، مصطلق، خیبر ، فتح مکہ، حنین، طائف، حضرت انسؓ ان سب میں موجود تھے ، موسیٰ بن انسؓ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کے پدر بزرگوار آنحضرتﷺ کے کتنے معرکوں میں شریک تھے ،انھوں نے کہا آٹھ میں، غالباً انھوں نے بدر کو شامل نہیں کیا، جس کا سبب یہ ہے کہ بدر میں حضرت انسؓ بن مالک اس عمر تک نہیں پہنچے تھے جو جہاد کی شرکت کے لیے ضرور قرار دی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے،انھوں نے حضرت انسؓ کو بحرین میں صدقات کا افسر بنانا چاہا، پہلے حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا،انھوں نے کہا کہ انسؓ بہت ہوشیار شخص ہیں آپ نے جو خدمت ان کے لیے تجویز کی ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں ؛چنانچہ حضرت انسؓ کو بارگاہ خلافت میں طلب کیا اور بحرین کا عامل بنا کر بھیجا۔ عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں انسؓ بن مالک کو تعلیم فقہ کے لیے ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ کیا، اس جماعت میں تقریباً دس اشخاص تھے،حضرت انسؓ نے مستقل طور سے بصرہ میں سکونت اختیار کی اور زندگی کا بقیہ حصہ یہیں بسر کیا۔ ان مشاغل کے ماسوا اس عہد کی تمام لڑائیوں میں حضرت انسؓ بن مالک نے خصوصیت سے حصہ لیا ہے، فتوح عجم میں واقعہ تستر خاص اہمیت رکھتا ہے،حضرت انسؓ بن مالک اس معرکہ میں پیدل فوج کے افسر اعلی تھے،شہر فتح ہونے کے بعد سپہ سالار عساکر عجم جس کا نام ہر مزان تھا اور ایران کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا مع اپنے اہل و عیال کے قید ہوکر اسلامی سپہ سالار اعظم ابو موسیٰ اشعریؓ کے رو برو حاضر کیا گیا، حضرت ابو موسیٰ نے ہر مزان کو حضرت انسؓ کے ہمراہ بارگاہ خلافت میں روانہ کیا اور 300 سپاہیوں کا ایک دستہ ہر مزان کی حفاظت کے لیے حضرت انسؓ بن مالک کی ماتحتی میں دیا، حضرت انسؓ بن مالک مدینہ منورہ پہنچے اور اپنے مقدس وطن کی زیارت سے محبت کی آنکھیں روشن کیں۔
کچھ دنوں مدینہ منورہ میں ٹھہر کر بصرہ واپس ہوئے ،ذوالحجہ 23ھ میں حضرت عمرؓ نے شہادت حاصل کی اورحضرت عثمان ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے ان کی خلافت کا ابتدائی زمانہ نہایت پر امن تھا، لیکن کچھ دنوں کے بعد حالات نے نہایت خوفناک صورت اختیار کرلی اور فتنوں کا دروازہ دفعۃً کھل گیا ،آفاق عالم سے مفسدین اٹھ کھڑے ہوئے جابجا باغیانہ تحریکیں نشو و نما پانے لگیں،ملک کے ہر ہر گوشہ میں فتنہ و فساد کی آگ مشتعل ہوئی اور شورہ پشتوں کے سیلاب نے دارالخلافت مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ لیکن اس وقت اسلامی مملکت کے مختلف حصوں میں بہت سی ایسی شخصیتیں موجود تھیں جو ظلم کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، چنانچہ جب امام مظلوم کی صدائے حق دارالخلافۃ کے ایک مقدس گوشہ سے بلند ہوئی تو سب سے پہلے ان حاملان صداقت نے اسے سنا اور حمایت حق پر کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
سلطنت اسلامیہ کے ہر حصہ میں ان بزرگوں کا وجود تھا، بصرہ بھی جو عراق عرب کا صدر مقام تھا، ان بزرگوں سے خالی نہ تھا؛چنانچہ جب بصرہ میں ان ہولناک واقعات کی خبر پہنچی،تو حضرت انسؓ بن مالک، حضرت عمران بن حصینؓ اور دوسرے بزرگوار نصرت دین اور تائید اسلام کے لیے مستعد ہو گئے اور اپنی پرجوش تقریروں سے تمام شہر میں آگ لگادی ؛لیکن یہ امداد پہنچنے بھی نہ پائی تھی کہ خلیفہ اسلام شہید ہو چکا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مسند خلافت کو اپنے جلوس سے زینت بخشی ،خلافت کو چھ ماہ بھی نہ گذے تھے کہ ایک عظیم الشان فتنہ نے بصرہ سے سرا ٹھایا، جس کی لپیٹ میں صحابہ بھی آگئے، بصرہ حضرت انسؓ کا مستقل قرار گاہ اور وہاں ان کا خاص اثر تھا، لیکن انھوں نے اس فتنہ سے اپنا دامن بالکل محفوظ رکھا وہ دوسرے صحابہ کرام کی طرح گوشہ نشین رہے اور اس وقت تک نہ نکلے جب تک آتش فساد سرد نہ ہو گئی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد وہ عرصہ تک زندہ رہے اور انقلاب زمانہ کے عجیب وغریب مناظر دیکھتے رہے،لیکن انھوں نے گوشہ خلوت کو مقدم جانا اور شہرت کی گوناگوں دلفریبیوں پر اپنے نفس کو مائل نہ کیا۔ باایں ہمہ وہ عمال حکومت کے دست ستم سے محفوظ نہ رہ سکے، عبدالملک بن مروان کے زمانہ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی جو سلطنت امویہ کے مشرقی ممالک کا گورنر تھا اور ظلم وجور میں اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا،جب بصرہ آیا تو حضرت انسؓ بن مالک کو بلا کر نہایت سخت تنبیہ کی اور لوگوں میں ذلیل کرنے کی خاطر گردن پر مہر لگوادی۔ حجاج کا خیال تھا کہ حضرت انسؓ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں؛ چنانچہ ان کو دیکھ کر کہا: انسؓ بن مالک یہ چال بازی !کبھی مختار کا ساتھ دیتے ہو اور کبھی ابن اشعث کا ،میں نے تمھارے لیے بڑی سخت سزا تجویز کی ہے، حضرت انسؓ نے نہایت تحمل سے کام لے کر پوچھا! خدا امیر کو صحت دے کس کے لیے سزا تجویز ہوئی ہے،حجاج نے کہا تمھارے لیے، انسؓ بن مالک خاموش ہو کر اپنے مکان واپس تشریف لائے اور خلیفہ عبدالملک کے پاس ایک خط میں جس میں حجاج کی شکایت لکھی تھی روانہ کیا ،عبدلملک نے خط پڑھا تو غصہ سے بیتاب ہو گیا اور حجاج کو ایک تہدید آمیز خط لکھا کہ حضرت انسؓ سے فوراً ان کے مکان پر جاکر معافی مانگو ورنہ تمھارے ساتھ بہت سخت برتاؤ کیا جائے گا، حجاج بن یوسف مع درباریوں کے خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور معافی مانگی اور درخواست کی کہ خوشنودی کا ایک خط خلیفہ کے پاس بھیج دیں ؛چنانچہ حضرت انسؓ بن مالک نے اس کی عرضداشت منظور کی اور دمشق ایک خط روانہ کیا۔ [21] [22][23]
وفات
عمر مبارک اس وقت سو سے متجاوز ہو چکی تھی۔93ھ میں پیمانہ عمر لبریز ہو گیا ، چند مہینوں تک بیمار رہے ، شاگردوں اور عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا اور دور دور سے لوگ عیادت کو آتے تھے، جب وفات کا وقت قریب ہوا تو ثابت بنانی سے کہا جو تلامذہ خاص میں تھے ،فرمایا کہ میری زبان کے نیچے آنحضرتﷺ کا موئے مبارک رکھ دو، ثابت بنانی نے تعمیل حکم کی اسی حالت میں روح مطہر نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وفات کے وقت انسؓ بن مالک عمر کے 103 مرحلے طے کر چکے تھے ، بصرہ میں سوائے ان کے اور کوئی صحابی زندہ نہ تھا اور عموماً عالم اسلامی (بجز ابوالطفیل) صحابہ کرام کے وجود سے خالی ہو چکا تھا، نماز جنازہ میں اہل و عیال تلامذہ اور احباب خاص کی معتد بہ تعداد موجود تھی، فطن بن مدرک کلابی نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے گھر کے قریب موضع طف میں دفن کیے گئے۔ حضرت انسؓ کی وفات سے لوگوں کو سخت صدمہ ہوا اور واقعی رنج والم کا مقام تھا، تربیت یافتگان نبوت ایک ایک کرکے اٹھ گئے تھے ،صرف دو شخص باقی تھے جن کی آنکھیں شمع نبوت کے دیدار سے روشن ہوئی تھیں، اب ان میں سے بھی ایک نے دنیائے فانی سے قطع تعلق کر لیا۔
حضرت انسؓ کا انتقال ہوا تو مورق بولے افسوس! آج نصف عالم جاتا رہا، لوگوں نے کہا یہ کیونکر؟ کہا میرے پاس ایک بدعتی آیا کرتا تھا وہ جب حدیث کی مخالفت کرتا میں اسے انسؓ بن مالک کے پاس حاضر کرتا تھا؟ حضرت انسؓ حدیث سنا کر اس کی تشفی کرتے تھے ،اب کون صحابی ہے جس کے پاس جاؤں گا۔ [24]،[3][4][6][25][24] [4][6][17][26]،[27] [3].[3] ،[6][18][28]
آل و اولاد اور خانگی حالات
حضرت انسؓ کثرت اولاد میں تمام انصار پر فوقیت رکھتے تھے اور یہ آنحضرتﷺ کی دعا کا اثر تھا، ایک مرتبہ آپ ان کے مکان پر تشریف لے گئے،ام سلیمؓ نے عرض کی انسؓ کے لیے دعا فرمائیے؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے دیر تک دعا کی اور اخیر میں یہ فقرہ زبان مبارک سے ارشاد فرمایا: اللھم اکثر مالہ وولدہ وادخلہ الجنۃ، حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دو باتیں پوری ہوئیں اور تیسری کا منتظر ہوں، مال کی یہ حالت تھی کہ انصار میں کوئی شخص ان کے برابر متمول نہ تھا، اولاد کی اتنی زیادتی تھی کہ خاص حضرت انسؓ کے 80 لڑکے اور دولڑکیاں (لڑکیوں کے نام حفصہ اور ام عمرو تھا)تولد ہوئیں اورپوتوں کی تعداد اس پر متزاد تھی، مختصر یہ کہ وفات کے وقت بیٹوں اور پوتوں کا ایک پورا کنبہ چھوڑ اتھا جن کا شمار 100 سے اوپر تھا، حضرت انسؓ کے مشہور بیٹوں اور بیٹیوں کے نام یہ ہیں عبد اللہ، عبید اللہ، زید یحییٰ، خالد، موسی، نضر، ابوبکر، براء، علا، عمر، رملہ ،امیمہ، ام حرام، [29] حضرت انسؓ کو اپنی اولاد سے بہت محبت تھی وہ اکثر اپنے مکان پر رہتے تھے، ازدیاد الفت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اپنے لڑکوں کو خود تعلیم دیتے تھے، لڑکیوں کو بھی حلقہ درس میں بیٹھنے کی اجازت تھی، ان کے کئی لڑکے فن حدیث میں شیخ اور امام کا منصب رکھتے تھے اور طبقہ تابعین میں خاص عظمت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے جو حضرت انسؓ کی تعلیم کا اثر تھا۔ تعلیم کے ما سوا حضرت انسؓ بہت بڑے تیر انداز تھے،اپنے لڑکوں کو تیر اندازی کی بھی مشق کراتے تھے،پہلے لڑکے نشانہ لگاتے،جس میں بسا اوقات غلطی ہوجاتی،تو خود انسؓ بن مالک ایسا تیر جوڑ کر مارتے کہ نشانہ خالی نہ جاتا تھا، لڑکوں کو تیر اندازی کی مشق کرانا انصار میں ایام جاہلیت سے رائج تھا، مورخ طبری نے تاریخ کبیر میں اس کی تصریح کی ہے۔ تعلیم کے ما سوا حضرت انسؓ بہت بڑے تیر انداز تھے، اپنے لڑکوں کو تیر اندازی کی بھی مشق کراتے تھے،پہلے لڑکے نشانہ لگاتے، جس میں بسا اوقات غلطی ہو جاتی،تو خود حضرت انسؓ ایسا تیر جوڑ کر مارتے کہ نشانہ خالی نہ جاتا تھا، لڑکوں کو تیر اندازی کی مشق کرانا انصار میں ایام جاہلیت سے رائج تھا، مورخ طبری نے تاریخ کبیر میں اس کی تصریح کی ہے۔ [24] [27]
عام حالات ، حلیہ اور لباس
حضرت انسؓ کا مفصل حلیہ معلوم نہیں،اس قدر معلوم ہے کہ خوبصورت اور موزوں اندام تھے، مہندی کا خضاب لگاتے تھے ہاتھوں میں خلوق ایک قسم کی خوشبو تھی ملتے تھے جس کی زردی سے چمک پیدا ہوتی تھی، انگوٹھی پہنتے تھے، صاحب اسد الغابہ نے روایت کی ہے کہ انگوٹھی کے نگینہ پر شیر کی صورت کندہ تھی،ایام پیری میں دانت ہلنے لگے تو سونے کے تاروں سے کسوائے تھے ،بچپن میں ان کے گیسو تھے ،آنحضرتﷺ ان کے سرپر ہاتھ پھیرتے تھے تو ان بالوں کو بھی ہاتھ سے مس فرمایا تھا، ایک دفعہ حضرت انسؓ بن مالک نے گیسو کٹوانا چاہا تو ام سلیمؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے ان بالوں کو چھوا ہے ان کو نہ کٹاؤ،حضرت انسؓ کے مزاج میں نفاست اور پاکیزگی تھی اور چونکہ دنیا نے بھی ساتھ دیا تھا، اس لیے زندگی امیرانہ بسر کرتے تھے ، کپڑے قیمتی پہنتے تھے، خز کا لباس اس زمانہ میں اکثر امرا پہنا کرتے تھے، حضرت انسؓ بھی خز کے کپڑے زیب تن کرتے اور اسی کا عمامہ باندھتے تھے،خوشبو دار چیزوں کو پسند کرتے ، مزاج میں تکلف تھا، ایک باغ نہایت اہتمام سے لگایا تھا جو سال میں دو مرتبہ پھلتا تھا اس میں ایک پھول تھا جو مشک کی طرح مہکتا تھا۔
حضرت انسؓ بن مالک نے بصرہ سے دو فرسخ باہر مقام طف میں ایک مکان بنوایا تھا اور وہیں اقامت پزیر تھے، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شہر کے اندر رہنے سے باہر بود وباس رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے، کھانا اچھا کھاتے تھے،دسترخوان پر اکثر چپاتی اور شوربہ ہوتا تھا، کبھی کبھی ترکاری بھی ڈالی جاتی تھی ،لو کی کی فصل میں اکثر لوکی پڑتی تھی جو ان کو محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بہت مرغوب تھی،طبیعت فیاض اور سیر چشم واقع ہوئی تھی،کھانے کے وقت شاگرد موجود ہوتے تو ان کو بھی شریک کرلیتے تھے۔ صبح کو ناشتا کرتے اور 3 یا 5 یا اس سے زیادہ چھوہارے نوش فرماتے ،پانی پیتے تو تین مرتبہ میں ختم کرتے۔ گفتگو بہت صاف کرتے اور ہر فقرہ کو تین مرتبہ بولتے،کسی کے مکان پر تشریف لیجاتے تو تین مرتبہ اندر جانے کی اجازت طلب کرتے تھے۔[30]
باایں ہمہ علوم مرتبت طبیعت میں انکسار و تواضع تھی ،لوگوں سے نہایت بے تکلفانہ ملتے تھے، شاگردوں سے بھی چنداں تکلف نہ تھا،اکثر فرماتے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ہم لوگ بیٹھے ہوتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے، لیکن ہم میں سے کوئی تعظیم کے لیے نہ اٹھتا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہم کو کون محبوب ہو سکتا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ آنحضرتﷺ ان تکلفات کو ناپسند فرماتے تھے۔ تحمل اور برد باری بھی ان میں انتہا درجہ کی تھی،وہ جس رتبہ کے شخص تھے،اسلام میں ان کا جو اعزاز تھا،آنحضرتﷺ نے ان کے جو مناقب بیان فرمائے تھے،حامل نبوت کی بارگاہ میں ان کو جو تقرب حاصل تھا ،ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ ہر شخص ان کو محبت اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن حکومت امویہ کے چند حکام وعمال ایسے متکبر اور بانخوت تھے کہ اپنے جبروت اور سطوت کے سامنے کسی کی عظمت و بزرگی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، حجاج بن یوسف ان تمام متمردوں کا سرگروہ تھا، اس نے حضرت انسؓ بن مالک کو ان الفاظ میں مخاطب کیا تھا اور حضرت انسؓ بن مالک نے جس حلم سے کام لیا تھا اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اگر حضرت انسؓ کی بجائے کسی دوسرے شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا تو بصرہ میں ایک قیامت بر پا ہوجاتی ۔
اس تحمل کے ساتھ عظمت وجلال کا یہ عالم تھا کہ ان کے صرف ایک خط پر خلیفہ عبد الملک اموی نے حجاج بن یوسف ثقفی جیسے بااختیار امیر کو جو محض سلطنت کا رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، ایسا عتاب آمیز خط لکھا کہ خواص تو کجا ایک عام آدمی بھی اپنے لیے وہ الفاظ سننا گوارانہ کرے گا اور جس کا یہ انجام ہوا کہ حجاج کو حضرت انسؓ سے معذرت کرنی پڑی۔ شجاعت وبسالت کا کافی حصہ پایا تھا، بچپن میں اس قدر تیز دوڑتے تھے کہ ایک مرتبہ مرالظہر ان میں خرگوش کو دوڑ کر پکڑ لیا تھا؛حالانکہ ان کے تمام ہم عمر ناکام واپس آئے تھے،بڑے ہوئے تو فنون سپہ گری میں کمال حاصل کیا، وہ بہت بڑے شہسوار تھے،تیر اندازی میں ان کو خاص ملکہ تھا اور گھوڑ دوڑ میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ صحابہ میں ارباب روایت تو سینکڑوں ہیں؛لیکن ان میں ایک مخصوص جماعت ان لوگوں کی ہے جو روایات میں صاحب اصول تھے،حضرت انسؓ بھی انہی لوگوں میں تھے؛ چنانچہ ان کے روایات کے استقصا سے حسب ذیل اصول مستنبط ہوتے ہیں۔ 1۔روایات کے بیان کرنے میں نہایت احتیاط کی، مسند احمد بن حنبل میں ہے "كان أنس بن مالك : إذا حدث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم حديثا ففرغ منه قال أو كما قال رسول الله صلى الله عليه و سلم"[31] یعنی حضرت انسؓ حدیث بیان کرتے وقت گھبراجاتے تھے اور اخیر میں کہتے تھے کہ اس طرح یا جیسا آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا ۔
۔جن حدیثوں کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی تھی ان کو نہیں بیان کیا۔ 3۔جو حدیث صحابہ سے سنی تھی اور وہ جو آنحضرتﷺ سے بلا واسطہ سنی تھی اس میں امتیاز قائم کیا۔ حضرت انسؓ بن مالک نے علم حدیث کی کیا خدمت کی، کیونکر تعلیم حاصل کی؟ شاگردوں تک کس طرح اس فن شریف کو پہنچایا اور ان کی مجموعی روایات کی تعداد کیا ہے؟ اس کا جواب آئندہ سطور میں ملے گا۔ کسی علم کی سب سے بڑی خدمت اس کی اشاعت اور تعلیم ہوتی ہے،حضرت انسؓ اس باب میں اکثر صحابہ میں پیش پیش ہیں انھوں نے اس متعدی اور اہتمام سے نشر حدیث کی خدمت ادا کی ہے جس سے زیادہ مشکل ہے اور انھوں نے تمام عمر اس دائرہ تعلیم حدیث سے باہر قدم نہ نکالا، جس زمانہ میں تمام صحابہ میدان جنگ میں مصروف جہاد تھے، رسول اللہ ﷺ کا خاص خادم جامع بصرہ میں دنیا سے الگ قال رسول اللہ کا نغمہ خلائق کو سنا رہا تھا، توسیع علم کا حال شاگردوں کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے،حضرت انسؓ کے حلقۂ درس میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے طلبہ شامل تھے، جس طرح ظاہری اور صلبی اولاد کی کثرت کے لحاظ سے وہ خوش قسمت تھے اسی طرح معنوی اولاد کی بہتات میں ان کا پلہ بہت بھاری تھا۔ [32] [33]
روایات کی تعداد
حضرت انسؓ مکثرین صحابہ میں سے ہیں، یعنی ان کی روایات کا شمار ہزاروں تک ہے صحیح بخاری میں ان سے 80 حدیثیں منقول ہیں، صحیح مسلم میں 70 اور متفق علیہ روایات کی تعداد 128 ہے۔ حضرت انسؓ نے ابتداً، خود حامل وحی سے اکتساب کیا، آپ کے بعد جن صحابۂ کرام کے دامن فیض سے وابستہ رہے ان کے نام نامی یہ ہیں، حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت فاطمہ زہراؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ ،حضرت ابوذرؓ، حضرت ابو طلحہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ ، عبداللہ ابن رواحہؓ ، حضرت ثابت بن قیسؓ بن شماس، حضرت مالک بن صعصہؓ، حضرت ام سلیمؓ، (والدہ حضرت انسؓ) حضرت ام حرامؓ (خالہ حضرت انسؓ) حضرت ام الفضل ؓ (زوجہ حضرت عباس ؓ )
حضرت انسؓ کے دائرہ تلمذ میں اگرچہ ایک جہاں داخل تھا، لیکن وہ بزرگ جو امام فن ہوکر نکلے اور آسمان حدیث کے مہرو ماہ ثابت ہوئے ان کے نام نامی درج ذیل ہیں: حسن بصری ، سلیمان تیمی، ابو قلابہ، اسحق بن ابی طلحہ، ابوبکر بن عبد اللہ مزنی، قتادہ ،ثابت نبانی، حمید الطویل، ثمامہ بن عبد اللہ( حضرت انسؓ کے پوتے ہیں) جعد، ابو عثمان،محمد بن سیرین انصاری، انس بن سیرین ازہری، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے، سعید بن جبیر اور سلمہ بن وردان رحمہم اللہ تعالی [34][35] .[36]
فقہ
علم حدیث کی طرح علم فقہ میں بھی حضرت انسؓ کو کمال حاصل تھا، فقہائے صحابہؓ کے تین طبقے ہیں، حضرت انسؓ کا شمار دوسرے طبقہ میں ہے جن کے اجتہادات وفتاویٰ اگر ترتیب دیے جائیں تو ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت انسؓ بن مالک کو ایک جماعت کے ساتھ فقہ سکھانے کے لیے بصرہ روانہ کیا تھا،اس سے زیادہ ان کی فقہ دانی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ صحابہؓ کے زمانہ میں تعلیم کا طریقہ عموماً حلقہ درس تک محدود تھا، حضرت انسؓ بھی باقاعدہ تعلیم دیتے تھے، اثنائے درس میں کوئی شخص سوال کرتا اس کو جواب سے سرفراز فرماتے تھے، اس قسم کے سوال وجواب کا ایک مجموعہ ہے جس کا استقصاطوالت سے خالی نہیں، یہاں چند مسائل درج کیے جاتے ہیں جن سے حضرت انسؓ کے طرز اجتہاد ،جودت فہم،دقت نظر اور اصابت رائے کا اندازہ ہوگا۔
باب الاشربہ:یہ مسئلہ کہ نبیذ مخصوص برتنوں میں پینا مکروہ ہے صحابہؓ میں عموماً متفق علیہ تھا، حضرت انسؓ بن مالک نے اس کو جس قدر وضاحت اور صفائی سے بیان کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے اس میں انھوں نے ان وجوہ واسباب کی طرف اشارہ کیا ہے جن کے سبب سے ان برتنوں میں نبیذ پینے کی مخالفت آئی ہے۔ قتادہ نے دریافت کیا کہ:کیا گھڑے میں نبیذ بناسکتے ہیں؟ حضرت انسؓ نے کہا اگرچہ آنحضرتﷺ نے اس کے متعلق کوئی رائے ظاہر نہیں فرمائی؛ تاہم میں مکروہ سمجھتا ہوں، یہ استدلال اس بنا پر ہے جس چیز کی حلت و حرمت میں اشتباہ ہو،اس میں حرمت کا پہلو غالب ہوگا۔
ایک مرتبہ مختار بن فلفل نے پوچھا کن ظروف میں نبیذ نہ پینا چاہیے؟ فرمایا مرفتہ میں ،کیونکہ ہر مسکر چیز حرام ہے، مختار بن فلفل نے کہا شیشہ یا رانگے برتنوں میں پی سکتے ہیں؟ فرمایا ہاں، پھر پوچھا لوگ تو مکروہ سمجھتے ہیں، فرمایا جس چیز میں شک ہو اسے چھوڑدو، پھر استفسار کیا کہ نشہ لانے والی چیز تو حرام ہے ؛لیکن ایک دو گھونٹ پینے میں کیا حرج ہے؟ حضرت انسؓ بن مالک نے کہا جس کا زیادہ حصہ موجب سکر ہو اس کا قلیل حصہ بھی حرام ہے، دیکھو! انگور، خرمے گیہوں ،جو وغیرہ سے شراب تیار ہوتی ہے، ان میں سے جس چیز میں نشہ پیدا ہوجائے وہ شراب ہو جاتی ہے۔ حضرت انسؓ نے اس مسئلہ کو اگرچہ نہایت خوبی سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس کی مزید تشریح کی ضرورت ہے،شارع علیہ السلام نے کتاب الاشربہ کے متعلق جو احکام ارشاد فرمائے ہیں اورجو اس باب کے قواعد واصول کہے جا سکتے ہیں یہ ہیں: (1)كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَام۔ (صحیحین عن عائشہؓ) (2)كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ ۔ (صحیح مسلم عن ابن عمرؓ) (3)مَااَسْكَرَ كَثِيْرُه فَقَلِيْلَهُ حَرَامٌ۔ [37]
ان میں سے پہلے کا مفہوم یہ ہے جس پینے والی چیز میں نشہ آجائے حرام ہے،دوسرے میں یہ بیان ہے کہ ہر نشہ آور چیز شراب ہوتی ہے اور ہر قسم کی شراب حرام ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر منشی(نشہ آور) چیز حرام ہے،تیسرے کلیہ کا یہ منشا ہے کہ جو زیادہ پینے کی صورت میں نشہ پیدا کرے اس کا خفیف حصہ بھی پینا حرام ہے، حضرت انسؓ بن مالک نے انہی باتوں کا اپنے جواب میں ذکر کیا ہے یہ اور بات ہے کہ سوالات کی بے ترتیبی سے جواب غیر مرتب ہو گیا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ چند مخصوص برتنوں میں نبیذ پینے کی ممانعت کیوں آئی ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ عرب میں شراب رکھنے یا بنانے کے لیے وہ نفیس اور خوبصورت شیشہ کے برتن جو آج یورپ نے ایجاد کیے ہیں، موجود نہ تھے، وہاں عام طور پر کدو کی تبنی صراحی وسبو کا کام دیتی تھی یا اسی نوع کے چند برتن تھے جو قدرتی پھلوں کو خشک اور صاف کرکے بادہ نوشی کے لیے مخصوص کرلئے جاتے تھے ،ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں شراب رکھنے سے اس کا اثر برتن میں پہنچتا ہوگا اور دھونے کے بعد بھی زائل نہ ہوتا ہوگا، یہی راز ہے کہ اوائل اسلام میں جب شراب حرام ہوئی تو ان برتنوں کا استعمال بھی ناجائز کر دیا گیا اور گو بعد میں اس قسم کے برتنوں کا جن میں شراب نہ رکھی گئی ہو استعمال جائز قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن پہلی صدی ہجری کا پر جوش مسلمان یہ گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ ان برتنوں کے استعمال سے شراب نوشی کی یاد کو عہد اسلام میں از سر نو تازہ کرے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ آنحضرتﷺ جوتے پہن کر نماز پڑہتے تھے؟ فرمایا ہاں! جوتہ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ پاک ہو اور نجاست آلود نہ ہو، اگر کوئی شخص نیا جوتہ پہن کر نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ یحییٰ بن یزید ہنائی نے دریافت کیا کہ نماز میں قصر کب کرنا چاہیے؟ فرمایا کہ جب میں کوفہ جاتا تھا،قصر کرتا تھا اور آنحضرتﷺ نے 3 میل یا 3 فرسخ کا راستہ طے کرکے قصر کیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ 3 میل سفر کرنے سے قصر واجب ہوجاتا ہے ؛بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ مکہ معظمہ کے ارادہ سے تشریف لے گئے تھے راستہ میں جس مقام پر سب سے پہلے نزول اجلال ہوا وہ ذوالحلیفہ تھا جو صحیح روایت کی بنا پر مدینہ سے 3 میل کے فاصل پر واقعہ ہے اور چونکہ حد ود سفر میں داخل تھا،اس لیے آنحضرتﷺ نے قصر نماز پڑھی۔
مختار بن فلفل نے پوچھا کہ مریض کس طرح نماز پڑھے، حضرت انسؓ بن مالک نے کہا بیٹھ کر پڑھے، عبد الرحمن بن دردانؓ معہ دیگر اہلیان (مدینہ)حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت انسؓ بن مالک نے پوچھا نماز عصر پڑھ چکے ہو، کہا جی ہاں، پھر لوگوں نے استفسار کیا کہ آنحضرتﷺ عصر کی نماز کسی وقت پڑہتے تھے؟ فرمایا آفتاب خوب روشن اوربلند رہتا تھا؟ حضرت انسؓ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی جنازہ مرد کا تھا، اس لیے میت کے سرہانے کھڑے ہوئے اس کے بعد دوسرا جنازہ عورت کا لایا گیا،حضرت انسؓ نے کمر کی سیدھ پر کھڑے ہوکر اس کی نماز پڑھائی،علاء بن زیادہ عدوی بھی نماز میں شریک تھے ،اس اختلاف قیام کا سبب پوچھا ،حضرت انسؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ ایسا ہی کرتے تھے ،علاء مجمع کی جانب مخاطب ہوئے اور کہا کہ اس کو یاد رکھنا۔
ایک شخص نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے رکوع کرنے کے بعد قنوت پڑھا ہے؟ فرمایا ہاں اور خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھا ہے،(لیکن یہ حضرت انسؓ کا ذاتی اجتہاد ہے ورنہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اور عموما ًصحابۂ کرامؓ وتر میں رکوع کرنے کے قبل قنوت پڑھا کرتے تھے، امام شافعیؒ اس مسئلہ میں حضرت انسؓ کے پیرو ہیں اور انھوں نے اس کے ثبوت میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضرت علیؓ بھی رکوع کے بعد قنوت پڑہتے تھے؛لیکن یہ حدیث قطع نظر اس کے کہ منقطع ہے، یعنی امام شافعیؒ نے حکایۃ بیان کی ہے اور اپنی سند ہثیم تک چھوڑدی ہے سند بھی ضعیف ہے،اس کے راویوں میں ہثیم اور عطا، کا نام بھی شامل ہے اوران دونوں کی ائمہ فن حدیث نے تضعیف کی ہے۔ اس کے علاوہ ابن منذر نے الاشراف میں لکھا ہے کہ حضرت انسؓ اور فلاں فلاں صحابہؓ سے مجھ کو جو روایتیں پہنچی ہیں سب میں رکوع سے قبل قنوت پڑہنے کا تذکرہ ہے اور یہی صحیح بھی ہے؛کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے جو روایات آئی ہے،اس میں اس کی صاف تصریح ہے،عاصم نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ قنوت قبل رکوع پڑھنا چاہیے یا بعد رکوع؟ انھوں نے کہا قبل رکوع،عاصم نے کہا لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ آنحضرتﷺ بعد رکوع پڑہتے تھے ،حضرت انسؓ نے کہا وہ ایک وقتی واقعہ تھا، چند قبائل نے مرتد ہوکر بہت سے صحابہؓ کو قتل کر دیا تھا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھ کر ان کے لیے بددعا کی تھی۔[38] تم نے دیکھا کہ ان مسائل میں حضرت انسؓ کس قدر صائب الرائے ہیں، ان کے اجتہادی مسائل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اکثر صحابہؓ کے اجتہاد کے موافق ہیں اور اس لیے بالکل صحیح ہیں۔ [35] ،[39] .[25]
اخلاق
حضرت انسؓ کے گلدستہ اخلاق میں چار پھول ایسے نازک ،لطیف اور بشگفتہ ہیں جن پر گلدستہ کی خوبصورتی کا تمام تر انحصار ہے،حب رسول، اتباعِ سنت، امر بالمعروف ، حق گوئی، یہ انسؓ بن مالک کے خاص اوصاف ہیں، حب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نقشہ تم اوپر دیکھ چکے ہو ، جس زمانہ میں وہ دس برس کے نابالغ اور نا سمجھ بچے تھے ، جوش محبت کا یہ عالم تھا کہ صبح اٹھ کر کاشانۂ نبوت کی زیارت سے آنکھوں کو مشرف کرتے تھے ،صبح کاذب کی تاریکی میں ام سلیم ؓ کا کمسن بچہ بستر راحت سے اٹھتا تھا
اور آنحضرتﷺ کا سامان وضو مہیا کرنے کے لیے مسجد نبوی کا راستہ لیتا تھا، ایام شباب میں ان کی محبت کی کوئی حد نہ تھی، وہ شمع نبوت پر پروانہ وار شیفتہ تھے، آنحضرتﷺ کی ایک نگاہ کرم حضرت انسؓ کے لیے باعث صد طمانیت و تسلی تھی اور آقائے نامدار کی ایک آواز ان کے قالب عقیدت میں نئی روح پھونکنے کا سبب بن جاتی تھی، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اگرچہ ظاہری آنکھیں دیدار محبوب کو ترس گئی تھیں، لیکن محبت کی معنوی آنکھوں پر باب فیض اب تک بند نہ ہوا تھا ؛چنانچہ کشتہ عشق نبوت اکثر خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا اور صبح کو واقعات شبینہ کی یاد تازہ کرکے گریہ وزاری کا ایک طوفان بپا کرتا تھا ، عاشق صادق کے تڑپانے اور تلملانے کے لیے محبوب کی ایک ایک چیز نشتر کا کام کرتی ہے ،حضرت انسؓ بن مالک کا بعینہ یہی حال تھا،وہ محبوب دو عالم کا ذکر کرتے تھے اور فرط محبت سے بے قرار ہوجاتے تھے ۔
ایک دن آنحضرتﷺ کا حلیہ مبارک بیان کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک خال و خط زبان مدیح میں نبات محبت گھول رہا تھا، الفاظ جو ادا ہو رہے تھے اسی عالم میں شوق زیارت کا زبردست جذبہ ظہور پزیر ہوا،حرماں نصیبی اور برگشتہ بختی نے وہ ایام سعید یاد دلائے جب ہادی برحق عالم مادی کے گلی کوچے میں پھرا کرتا اور حضرت انسؓ اس کے شرف غلامی پر ناز کیا کرتے تھے ،دفعۃً حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا اور زبان سے بے اختیارانہ یہ جملہ نکلا کہ قیامت میں رسول اللہ ﷺ کا سامنا ہوگا تو عرض کروں گا کہ حضور ﷺ کا ادنیٰ غلام انسؓ حاضر ہے۔ انسؓ بن مالک کی ہر مجلس آنحضرتﷺ کے ذکر خیر سے لبریز ہوتی تھی ،وہ عہد نبوت کے واقعات اپنے تلامذہ کے گوش گزار کیا کرتے تھے، اثنائے ذکر میں دل میں ایک ٹیس اٹھتی جس سے انسؓ بن مالک بے چین ہوجاتے تھے ؛لیکن یہ وہ درد تھا، جس کا علاج طبیبوں کے اختیار سے باہر تھا ،ناچار ہوکر گھر تشریف لیجاتے اور حضور ﷺ کے تبرکات نکال لاتے ،ان ظاہری یادگاروں کو دیکھ کر دل کو تسکین دیتے اور جمعیت خاطر کا سامان بہم پہنچاتے ۔
حضرت انسؓ بن مالک کا جوش محبت اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ اس سے تمام مجلس متاثر تھی، ان کے تلامذہ کو رسول اللہ ﷺ سے جو خاص محبت پیدا ہو گئی تھی،وہ حضرت انسؓ ہی کے ولولۂ محبت کا کرشمہ تھا،ثابت حضرت انسؓ کے شاگرد رشید تھے وہ بالکل اپنے استاد کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، ہمیشہ عہدِ نبوت ﷺ کی نسبت سوال کرتے ،ایک روز حضرت انسؓ سے پوچھا، آپ نے کبھی آنحضرتﷺ کا دست مبارک چھوا تھا؟ حضرت انس ؓ نے کہا ہاں، ثابت کے دل میں سوز محبت نے بے قراری پیدا کردی ،حضرت انسؓ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے میں چوموں گا۔ حب رسولﷺ کے بعد اتباع سنت کا درجہ ہے،محب صادق کی یہ شناخت ہے جو چیز اس کے محبوب کو مرغوب خاطر ہو خود بھی اس کو پسند کرے، حضرت انسؓ کو آنحضرتﷺ کی ذات ستودہ صفات سے جو عشق تھا اس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ وہ آپﷺ کے اقوال وافعال کی پورے طور سے تقلید کریں؛چنانچہ حضرت انسؓ کی زندگیٔ مظہر کے متعدد واقعات اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اسلام کا سب سے بڑا رکن کلمۂ توحید کے بعد نماز ہے،آنحضرتﷺ جس خضوع و خشوع اور جس آداب کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، صحابہؓ کوشش کرتے تھے کہ خود بھی اسی طریقہ پر کار بند ہوں۔ چنانچہ متعدد صحابہؓ آنحضرتﷺ کی نماز سے ملتی جلتی نماز پڑہتے تھے؛لیکن حضرت انسؓ بن مالک نے آپ کے طرز وطریقہ سے جو مشابہت اختیار کی تھی وہ ایک چراغ ہدایت تھا، جو نبوت کے قلب مبارک سے حضرت انسؓ کے قلب مصفاء میں روشن ہوا تھا، حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت انسؓ کو نماز پڑہتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میں نے ابن ام سلیمؓ (انسؓ) سے بڑھ کر کسی کو آنحضرتﷺ کے مشابہ نماز پڑہتے ہوئے نہیں دیکھا۔
نماز کے ماسوا آنحضرتﷺ کا ہر قول اور ہر فعل صحابہؓ کی نگاہ میں تھا، حضرت انسؓ نے دس سال آنحضرتﷺ کی خدمت انجام دی تھی اور ہمیشہ ہی ساتھ رہے تھے، ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی عمل ایسا نہ تھا جو حضرت انسؓ سے مخفی رہ سکتا،آنحضرتﷺ جو کچھ ارشاد فرماتے یا اپنے طریق عمل سے کسی امر کو ثابت کرتے تو حضرت انسؓ اس کو اپنے حافظہ کے سپرد کر دیتے تھے،جب اس قسم کی کوئی صورت پیش آتی تو قوت حافظہ سے اپنی امانت طلب کرتے اور اس پر اس کو منطبق کرتے تھے،خلیفہ دمشق نے حضرت انسؓ کو شام میں طلب کیا تھا، وہاں سے واپسی کے وقت عین التمرمیں قیام کرنا چاہا، شاگردوں اورجان نثاروں کو آمد آمد کی خبر پہلے سے معلوم ہو چکی تھی اور وہ لوگ عین التمر میں موجود تھے، آبادی سے باہر ایک میدان پڑتا ہے ، انسؓ بن مالک کا اونٹ اسی طرف سے آرہا تھا، نماز کا وقت تھا اور انسؓ بن مالک چوپایہ کے پیٹھ پر خالق دوجہاں کی حمد وستائش کر رہے تھے،لیکن اونٹ قبلہ رخ نہ تھا،تلامذہ نے تو استعجاب کے لہجہ میں پوچھا کہ آپ کس طرح نماز پڑھ رہے ہیں،حضرت انسؓ نے فرمایا اگر میں نے آنحضرتﷺ کو اس طرح نماز پڑہتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی نہ پڑھتا۔
ابراہیم بن ربیعہؓ حضرت انسؓ بن مالک کے حضور میں آئے، نماز کا وقت تھا،حضرت انسؓ ایک کپڑا باندھے اور اسی کو اوڑھے یاد الہی میں مصروف تھے اور ایک چادر پاس رکھی ہوئی تھی ،نماز سے فارغ ہوئے تو ابراہیم نے پوچھا آپ ایک کپڑے میں نماز پڑہتے ہیں؟ انسؓ بن مالک نے فرمایا ہاں میں نے اس طرح آنحضرتﷺ کو نماز پڑہتے دیکھا تھا،آنحضرتﷺ نے اپنی حیات اقدس میں سب سے اخیر نماز جو حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے پڑھی تھی ایک کپڑے میں ادا فرمائی تھی ۔[40]
آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کا ہر نقش حضرت انسؓ کے لیے چراغ ہدایت تھا وہ اسی کی روشنی میں شاہراہ عمل پر قدم رکھتے تھے،فرائض سے اتر کر واجبات وسنن تک میں بھی آپ کا اسوہ پیش نظر رہتا تھا، قربانی ہر صاحب استطاعت پر ضروری ہے،حضرت انسؓ رئیس اعظم تھے جس قدر جانور چاہتے ذبح کرسکتے تھے، لیکن خیر القرون میں متابعت رسولﷺ کا درجہ، نام ونمود سے بالاتر تھا، وہاں قربانی شہرت کے لیے نہیں ؛بلکہ ثواب کے لیے ہوتی تھی،آنحضرتﷺ نے دوجانور قربانی کیے تھے اس لیے حضرت انسؓ بھی دو ہی کرتے تھے۔
انسؓ بن مالک کے بچپن میں آنحضرتﷺ کا گذر لڑکوں کی طرف ہوا تھا توآپ ﷺ نے ان سے السلام علیکم فرمایا تھا، اس لیے انسؓ بن مالک ضعف پیری میں بھی بچوں سے سلام میں سبقت کرتے تھے۔ اظہار حق گوئی اور حق پسندی حضرت انسؓ کے نمایاں اوصاف ہیں، خلافت شیخین کے بعد ایسے نوجوان جو اسلامی تعلیم سے بیگانہ تھے حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر مقرر ہوئے اس لیے بیشتر اوقات ان سے ایسے افعال سرزد ہو جاتے تھے جو قرآن و حدیث کے بالکل خلاف تھے، اصحاب رسول ﷺ نے جنھوں نے اپنی جان بیچ کر اسلام کا سودا کیا تھا اس طرز کو گوارا نہ کرسکتے تھے اوران کے جوش ایمانی میں ایک ہیجان پیدا ہوتا تھا اور وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر اظہا حق پر آمادہ ہو جاتے تھے ،حضرت انسؓ آنحضرتﷺ کے بعد زمانہ دراز تک بقید حیات رہے،بڑے بڑے جبار اور قہار امرا سے ان کو سابقہ پڑا جو بالاعلان احکام شریعت کی خلاف ورزی کرتے تھے،حضرت انسؓ سنت نبویﷺ کو پامال دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے تھے اور مجمع عام میں ایسے امرا کو تنبیہ کرتے تھے۔
عبیداللہ بن زیادہ یزید کی طرف سے عراق کا گورنر تھا، حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک کو طشت میں رکھوا کر اپنے سامنے منگایا ، اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اس کو آنکھ پر مار کر آپ کے حسن کی نسبت نا ملائم الفاظ استعمال کیے ،حضرت انسؓ سے نہ دیکھا گیا سے بیتاب ہوکر فرمایا یہ چہرہ آنحضرتﷺ کے چہرے سے مشابہ ہے۔ مشہور جفاکار حجاج بن یوسف ثقفی اپنے بیٹے کو بصرہ کا قاضی بنانا چاہتا تھا، حدیث شریف میں قضایا امارت کی خواہش کرنے کی ممانعت آئی ہے،حضرت انسؓ کو خبر ہوئی تو فرمایا آنحضرتﷺ نے اس کو منع کیا ہے۔ حکم بن ایوب حکومت امویہ کا ایک امیر تھا، اس کی سفاکی انسانوں سے متجاوز کرکے حیوانوں تک پہنچی تھی، ایک دفعہ حضرت انسؓ اس کے مکان پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک مرغی کے پاؤں باندھ کر لوگ نشانہ لگا رہے ہیں جب تیر لگتا تو بے اختیا پھڑ پھڑاتی یہ دیکھ کر حضرت انسؓ برہم ہوئے اور لوگوں کو اس حرکت پر تنبیہ کی۔ [41]
حضرت عمرؓ بن عبد العزیز ایام شہزادگی میں دولت امیہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر تھے اور چونکہ خاندان شاہی میں پرورش پائی تھی اس لیے رموز ملت میں دخل نہ تھا،لیکن رواج زمانہ کے موافق نماز خود پڑھاتے تھے اور اس میں بعض غلطیاں ہوجاتی تھیں، حضرت انسؓ ان کو ہمیشہ ٹوکتے تھے باربار ٹوکنے پر انھوں نے حضرت انسؓ سے کہا کہ آپ میری کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ حضرت انسؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس طرح نماز پڑہتے دیکھا ہے اگر آپ اسی طرح پڑھائیں تو میری عین خوشی ہے ورنہ آپ کے ساتھ نماز نہ پڑھوں گا، عمر بن عبدالعزیزؓ کی طبیعت صلاحیت پزیر واقع ہوئی تھی ان جملوں نے خاص اثر کیا اور اسرار دین سیکھنے کی طرف توجہ صرف کی، انسؓ بن مالک سے زیادہ اس کام کے لیے اور کون موزوں ہو سکتا تھا؛ چنانچہ کچھ دنوں ان کی صحبت و تعلم کے اثر سے ایسی معتدل نماز پڑھانے لگے کہ ان کے قعدہ وقیام کی موزونیت دیکھ کر حضرت انسؓ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اس لڑکے سے زیادہ کسی شخص کی نماز آنحضرتﷺ کی نماز سے مشابہ نہیں ہے۔
وہ کسی موقع پر بھی تعلیم دین وتبلیغ سنت سے غافل نہ رہتے تھے،ایک مرتبہ خلیفہ عبد الملک اموی نے حضرت انسؓ اور بعض انصار کو جن کی تعداد 40 کے قریب تھی دمشق بلایا وہاں سے واپسی کے وقت فج الناقۃ پہنچ کر عصر کا وقت آیا،چونکہ سفر ابھی ختم نہ ہوا تھا، اس لیے حضرت انسؓ نے دو رکعت نماز پڑھائی اور اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے باقی تمام آدمیوں نے دو اور بڑھا کر چار رکعتیں پوری کیں حضرت انسؓ کو معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے اور فرمایا کہ جب خدا نے اس کی اجازت دی ہے تو لوگ اس رعایت سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ ایک زمانہ میں لوگ دین میں بال کی کھال نکالیں گے اور تعمیق سے کام لیں گے لیکن حقیقت میں وہ بالکل کور ے رہیں گے۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ نماز ظہر پڑھ کر انسؓ بن مالک کی ملاقات کو آئے انھوں نے کنیز سے وضو کے لیے پانی مانگا ، لوگوں نے کہا کس وقت کی نماز کی تیاری ہے؟ فرمایا عصر کی، حاضرین میں سے ایک شخص بولا کہ ہم تو ابھی ظہر پڑھ کر آ رہے ہیں، امرا کی سہل انگاری اور عوام کی غفلت دینی دیکھ کر حضرت انسؓ بن مالک کو سخت غصہ آیا اوران سے خطاب کرکے فرمایا وہ منافق کی نماز ہوتی ہے کہ آدمی بیکار بیٹھا رہتا ہے نماز کے لیے نہیں اٹھتا ،جب آفتاب غروب ہونے کے قریب آتا ہے تو جلدی سے اُٹھ کر مرغ کی طرح چار چونچیں مار لیتا ہے جس میں یاد الہی کا بہت تھوڑا حصہ ہوتا ہے۔ (امربالمعروف)
حق گوئی کے بعدمگر اس سے متصل امر بالمعروف کا رتبہ ہے، قرآن مجید میں جہاں پیرو ان دین حنیف کی مدح سرائی کی گئی ہے؟امر بالمعروف کو امت اسلامیہ کے خیر الامم ہونے پر سب سے پہلے بطور استشہاد پیش کیا ہے، حضرت انسؓ بن مالک میں یہ وصف خاص طور پر پایا جاتا تھا۔ عبید اللہ بن زیاد کی مجلس میں ایک مرتبہ حوض کوثر کا ذکر آیا، اس نے اس کے وجود کی نسبت شک ظاہر کیا، حضرت انسؓ کو اس کی خبر ہوئی تو لوگوں سے فرمایا کہ اسے میں جاکر سمجھاؤں گا اور عبیداللہ کے ایوان امارت میں جاکر فرمایا، تمھارے ہاں حوض کوثر کا ذکر ہوا تھا، اس نے کہا جی ہاں کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کچھ فرمایا ہے، حضرت انسؓ بن مالک نے حوض کوثر کے متعلق حدیث پڑھی اور مکان واپس تشریف لائے۔
ایک انصاری سردار کے متعلق مصعب بن زبیر کو کچھ اطلاع ملی (غالباً سازش کی خبر) اس نے انصار کو اس جرم میں ماخوذ کرنا چاہا، لوگوں نے حضرت انسؓ بن مالک کو خبر کی ،وہ سیدھے دارالامارت پہنچے،امیر تخت پر بیٹھا تھا، حضرت انسؓ بن مالک نے اس کے سامنے جاکر یہ حدیث سنائی کہ آنحضرت ﷺ نے انصار کے امرا کو یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ساتھ خاص رعایت کی جائے، ان کے اچھوں سے سلوک کا برتاؤ اور بروں سے درگزر کا برتاؤ کرنا چاہیے، اس حدیث کا مصعب پر اس قدر اثر ہوا کہ تخت سے اتر گیا اور فرش پر اپنا رخسار رکھ کر کہا آنحضرت ﷺ کا فرمان سرآنکھوں پر ! میں ان کو چھوڑ تا ہوں۔ [42]
حوالہ جات
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.