From Wikipedia, the free encyclopedia
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، المعروف ڈاکٹر این اے بلوچ (انگریزی: Nabi Bakhsh Khan Baloch)، (پیدائش: 16 دسمبر،1917ء - وفات: 6 اپریل، 2011ء) پاکستان میں پیدا ہونے والے مؤرخ، ماہرِ لسانیات، محقق، ماہرِ لوک ادب، ماہرِلطیفیات، ماہرِ تعلیم، بانی وائس چانسلر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی، پروفیسر ایمریطس، مشیر قومی ہجرہ کونسل اور بانی چیئرمین سندھی زبان کابااختیار ادارہ (Sindhi Language Authority) تھے۔
نبی بخش بلوچ | |
---|---|
(سندھی میں: ڊاڪٽر نبي بخش خان بلوچ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 16 دسمبر 1917ء [1] سانگھڑ ، سندھ ، برطانوی ہند |
وفات | 6 اپریل 2011ء (94 سال)[1] قاسم آباد، حیدر آباد ، پاکستان |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | پاکستان |
رکن | پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس ، قائد اعظم اکیڈمی ، لوک ورثہ ، اقبال اکادمی پاکستان ، اردو سائنس بورڈ ، ادارہ فروغ قومی زبان ، سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جامعہ کولمبیا |
تعلیمی اسناد | فاضل القانون ، ایم اے ، پی ایچ ڈی |
استاذ | عبد العزیز میمن |
پیشہ | فرہنگ نویس ، مورخ ، ماہر لوک ادب ، ماہرِ لسانیات ، وائس چانسلر ، ماہر تعلیم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، سندھی ، انگریزی ، عربی ، فارسی |
شعبۂ عمل | لوک داستان ، لسانيات ، پاکستان میں تعلیم ، سندھ کی تاریخ ، لغت نویسی |
ملازمت | جامعہ سندھ ، وزارت اطلاعات و نشریات پاکستان ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، سندھی زبان کا با اختیار ادارہ |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ گوٹھ جعفر خان لغاری، ضلع سانگھڑ، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں 16 دسمبر 1917ء[2] کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام علی محمد خان تھا، لیکن نبی بخش کی ولادت کے محض چھ ماہ بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ والد نے آخر وقت میں وصیت کی کہ میرے بچے کو پڑھانا،[3] جسے آپ کے چچا ولی محمد خان نے پورا کیا۔ اس زمانے میں گوٹھ جعفر خان لغاری میں کوئی باقاعدہ اسکول نہیں تھا اس لیے چچا نے انھیں گاؤں کے ہندو استاد سومل کے پاس ابتدائی تعلیم کے لیے بھیجا جہاں نبی بخش نے ابتدائی حروفِ تہجی اور اعداد سیکھے۔ اس کے بعد 1924ء میں گوٹھ پلیو خان لغاری کے پرائمری اسکول میں داخل ہوئے۔ مارچ 1929ء میں بلوچ صاحب مزید تعلیم کے لیے نوشہرو فیروز کے مدرسہ و ہائی اسکول میں داخل ہوئے[4] اس کے بعد نبی بخش نے ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا، لیکن مالی مشکلات کی بنا پر یہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکے چنانچہ نبی بخش جوناگڑھ پہنچے جہاں بہاء الدین کالج میں داخلہ لیا، یہاں نبی بخش کو کسی قسم کی مالی مشکلات کا سامنا نہیں ہوا۔[5] بہاء الدین کالج جوناگڑھ میں بلوچ صاحب کا قیام 1937ء سے 1941ء تک رہا[6]، جہاں سے نبی بخش نے بی اے آنرز میں پہلی پوزیشن حاصل کی جس کی بنا پر ان کو ایک سو روپے ماہوار مہابت فیلو شپ وظیفہ (بنام نواب مہابت خان والئی ریاست جوناگڑھ) ملا۔[7]
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ 1941ء سے 1945ء تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہے جہاں سے انھوں نے ایل ایل بی اوربعدازاں ایم اے (عربی) فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ صدر شعبۂ عربی پروفیسر علامہ عبدالعزیز میمن کی رہنمائی اور مسلسل محنت کے نتیجہ میں انھوں نے اُموی دور کے آخر کے ایک باغی قائد منصور بن جمہور کے سندھ پر تسلط پر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ لکھا جو حیدرآباد دکن کے معروف علمی و تحقیقی رسالے Islamic Culture میں شائع ہوا جس کے لیے شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد الرشید نے معاونت کی۔
1945ء میں برطانوی حکومت نے مرکزی سطح پربرِ صغیر میں ڈاکٹریٹ کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کیا۔ بلوچ صاحب نے آل انڈیا سطح پر اس مقابلے میں کامیابی حاصل کی اور16 اگست،1946ء کو بمبئی سے امریکا روانہ ہوئے جہاں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں A Programme of Teacher Education for the New State of Pakistan کے نام سے تحقیقی مقالے کا آغاز کیا اور 1949ء میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کر کے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے واپس پاکستان پہنچے۔[8]
پیر الٰہی بخش اور ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کے اصرار پر بلوچ صاحب علی گڑھ چھوڑ کر سندھ مسلم کالج کراچی میں لکچرار ہو گئے۔[9]
1950ء میں وزارت اطلاعات و نشریات پاکستان میں افسربکار خاص (Officer on Spacial Duty) کی حیثیت سے اور بعد ازاں اسی وزارت میں بیرونی نشریات کے شعبے میں قدرت اللہ شہاب کے ماتحت خدمات انجام دیں۔ 1951ء میں بلوچ صاحب کو ان کی اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت کی بنیاد پر دمشق میں پاکستانی سفارتخانے میں پریس اتاشی مقرر کیا گیا۔
ستمبر 1951ء میں علامہ آئی آئی قاضی کی ترغیب پر بلوچ صاحب نے سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں بحیثیت پروفیسر خدمات کا آغاز کیا۔[10] دسمبر 1973ء میں نبی بخش بلوچ کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور اسی سال آپ کو (National Merit Professor) کا درجہ بھی عطا کیا گیا۔[11] نبی بخش بلوچ نے دسمبر 1973ء سے جنوری 1976ء تک سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ نبی بخش بلوچ نے دسمبر 1973ء سے جنوری 1976ء تک سندھ یونیورسٹی میں سندھی شعبہ کا آغاز بھی بلوچ صاحب نے کیا اور سندھ یونیورسٹی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی کے بانی بھی نبی بخش بلوچ ہی ہیں۔
جنوری 1976ء میں نبی بخش بلوچ کو وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان میں افسرِ بکارِ خاص (OSD) مقرر کیا گیا جس کا عہدہ وفاقی سیکریٹری کے برابر دیا گیا۔ اسی زمانے میں اس ادارے کے علاوہ بلوچ صاحب ٍFederal Pay Commission کے رکن بھی رہے۔[12]
نبی بخش بلوچ نے جولائی 1979ء تا 1982ء اسلام آباد میں قائم قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آپ نے ادارے میں پہنچتے ہی علمی و تحقیقی منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے نبی بخش نے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مجلے کا انگریزی زبان میں اجرا کیا۔ یہ مجلہ Journal of Historic and Culture کے نام سے شروع ہوا جس میں نبی بخش بلوچ نے بھی تحقیقی مقالات لکھے اور دیگر محققین سے لکھوائے۔ نبی بخش بلوچ سے پہلے یہ ادارہ چھوٹی بڑی دس بارہ کتابیں ہی شائع کرسکا تھا۔ نبی بخش بلوچ نے محض چار سال کے عرصے میں 34 نئی کتابیں لکھوائیں جن میں سے 25 کتب شائع کرائیں۔ ان کتب میں سے پانچ سندھ سے متعلق ہیں جن میں مولانا عبد اللہ لغاری کی روایت کردہ مولانا عبیداللہ سندھی کی کابل کی ڈائری جسے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے مرتب کیا، شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو جلدوں پر مشتمل سندھ سے بمبئی کی علیٰحدگی کی تاریخی دستاویزات بھی شائع کیں۔ اس ادارے میں قیام کے دوران میں نبی بخش بلوچ نے بڑے پیمانے پرتاریخ کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا۔ دیگر تحقیقی منصوبے جن پر کام کا آغاز کیا وہ یہ ہیں:
نبی بخش بلوچ نے مسلمانانِ پاک و ہند کی مستند، متعصبانہ آراء سے پاک اور صحیح تاریخ دنیا کے سامنے لانے کے ایک عظیم منصوبہ ترتیب دیا جس کی پہلی جلد فتح نامہ سندھ پر نبی بخش بلوچ نے خود شب و روز محنت کرکے اس کا مستند فارسی متن مع انگریزی مقدمہ تحریرکیا اور اس پر انگریزی میں مفید حواشی بھی تحریر کی۔ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ دمشق سے کرایا اور وہیں سے کتاب 1983ء میں شائع کرائی۔ تاریخِ مسلمانانِ پاک و ہند کے اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہی تھا کہ 1983ء میں نبی بخش بلوچ کو اس ادارے سے جدا کر دیا گیا اور یہ عظیم منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا اور یہ کام ادھورا رہ گیا۔[13]
نومبر 1980ء میں نبی بخش بلوچ کو اسلام آباد میں نئی قائم شدہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ یہ عہدہ نبی بخش بلوچ نے اے کے بروہی کی ایماء پر قبول کیا جو اس یونیورسٹی کے پہلے ریکٹر مقرر کیے گئے تھے۔ بلوچ صاحب نے 3 جنوری، 1981ء کو شاہ فیصل مسجد کمپلیکس کے ایک کمرے میں 81-1980ء کے تعلیمی سال کا آغاز اے کے بروہی صاحب سے کرایا۔ اس کے بعد شب و روز محنت کرکے اکتوبر 1981ء تک تمام ذیلی ادارے قائم کردیے جن میں بورڈ آف اسٹڈیز، سلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، فنانس کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔[14]اس کے علاوہ تعلیمی شعبے اور ان کے لیے اساتذہ کا انتخاب کیا۔ طلبہ کے لیے ہاسٹل اور یونیورسٹی کے عملے کے لیے رہائش کا انتظام کیا۔ شعبۂ قانون کے لیے علاحدہ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا، اس ادارے میں ججوں اور اعلیٰ پولیس افسروں کی تربیت کا آغاز کیا۔ اگست 1982ء میں بلوچ صاحب وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹا دیے گئے۔
نبی بخش بلوچ نے اے کے بروہی کے ایما پرقومی ہجرہ کونسل میں مشیر کا عہدہ قبول کیا۔ اس علمی منصوبے کے بارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ فرماتے ہیں،[15]
” | گزشتہ 1400 برسوں کے دوران مسلمانوں نے علم کے ہر شعبے میں خدمات انجام دیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کتب میں سے بہت سی فنا ہو چکی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو کتب بچ گئی ہیں ان میں سے 100 کتب کا عمدہ انتخاب کیا جائے، پھران کتب کے معیاری انگریزی تراجم شائع کیے جائیں اور 100 کتب کی یہ اسلامی لائبریری دنیا کے آگے پیش کی جائے جس سے دنیا کو اندازہ ہو کہ مسلمانوں نے کن کن شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ابتداء میں منصوبے میں جان ڈالنے کے لیے 100 عظیم کتب کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ ایک نازک اور مشکل مرحلہ تھا جس کے لیے دنیا بھر کے محققین اور عالموں سے مشورے کیے۔ ان کتب کے انتخاب کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم مقیم پیرس نے ہماری بڑی مدد کی۔ اس منصوبے کے تحت چار کتب میں نے شائع کرائیں اور نو کتب پر کام مکمل کرایا تھا، اس کے ساتھ ہے چار مزید کتب شروع ہونے والی تھیں کی اس ادارے سے ہٹا دیا گیا۔ | “ |
ان 100 عظیم کتب کے تعارف کے لیے نبی بخش بلوچ نے انگریزی میں ایک کتاب Books of Islamic Civilization (اسلامی تہذیب کی عظیم کتابیں) کے نام سے لکھی جسے قومی ہجرہ کونسل نے1989ء میں شائع کیا۔ بلوچ صاحب نے ان 100 عظیم کتب کے مخطوطات کے حصول کے لیے جن کتب خانوں سے معاونت حاصل کی ان میں سلیمانیہ کتب خانہ استنبول، ظاہری کتب خانہ دمشق اور شاہی کتب خانہ رباط شامل ہیں۔ ان 100 عظیم کتب میں عالمِ اسلام کے جن محققین، حکماء، سائنس دان، ریاضی دان اور علما کی بہترین کتب کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں شاہ ولی اللہ، الخوارزمی، ابو ریحان البیرونی، ابن سینا، یعقوب ابن اسحاق الکندی، ابن نفیس، ابن رشد، المقدسی، اصطخری، الفارابی، عمر خیام، محمد ابن زکریا الرازی شامل تھے۔ 1989ء نبی بخش بلوچ نے سبکدوشی حاصل کی۔
15 فروری، 1991ء میں بلوچ صاحب کو سندھی زبان کابااختیار ادارہ کا اولین چیئرمین مقرر کیا گیا۔[16] سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اس ادارے کے قیام کے وقت تین مقاصد قرار دیے تھے جویہ ہیں،
سندھی زبان کابااختیار ادارہ کی سربراہی کے دوران میں نبی بخش بلوچ نے اشاعتی پر وگرام پر بھرپور توجہ دی اورمحض 27 ماہ میں 25 علمی و تحقیقی کتب شائع کیں۔ ان کے علاوہ ادارہ چھوڑتے وقت 9 کتب زیرِ اشاعت تھیں۔ اشاعتی پروگرام کے تحت بلوچ صاحب نے نہ صرف نئی کتب لکھوائیں بلکہ بعض قدیم و نایاب کتب کے جدید ایڈیشن بھی شائع کرائے جس میں سندھی زبان و قواعد، سندھی رسم الخط، سندھی زبان میں سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ کی کتب شامل ہیں۔ نبی بخش بلوچ نے اس ادارے میں 6 مارچ، 1994ء تک خدمات انجام دیں۔[16]
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ بیک وقت پانچ زبانوں سندھی،اردو،انگریزی، عربی اور فارسی میں علمی و تحقیقی خدمات انجام دیں اور تقریباً 150 کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔
انگریزی نام | اردو نام | سال اشاعت/ناشر |
---|---|---|
Advent of Islam in Indonesia | انڈونیشیا میں اسلام کی آمد | 1980ء / قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، ا سلام آباد |
Great Books of Islamic Civilization | اسلامی تہذیب کی عظیم کتابیں | 1989ء / قومی ہجرہ کونسل |
Al-Beruni's Geodical Experiment at Nandana Fort | البیرونی اور اس کے نندانہ قلعہ میں جغرافیہ کے تجربات | 1983ء |
Reflection on Evolution (Allama I.I. Kazi's Thought) | 1992ء | |
Votes for Women, Religion and Secular Dichotomy (Allama I.I. Kazi's Thought) | خواتین کے ووٹ: دینی و لادینی نکتۂ نظر (علامہ آئی آئی قاضی کے نظریات) | 1999ء / علامہ آئی آئی قاضی میموریل سوسائٹی، سندھ یونیورسٹی |
SINDH: Studies Cultural, Pakistan Study Centre | سندھ: ثقافتی مطالعہ | 2004ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی جامشورو |
SINDH: Studies Historical, Pakistan Study Centre | سندھ: تاریخی مطالعہ | 2004ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی |
Musical Instruments of Sindh | سندھ کے آلاتِ موسیقی | 1967ء / مہران آرٹس کونسل، حیدرآباد |
Development of Music in Sindh | سندھ میں موسیقی کا ارتقا | 1973ء / سندھ یونیورسٹی پریس |
Muslim Luminaries | مسلم مشاہیر | 1989ء / قومی ہجرہ کونسل |
Lands of Pakistan: Perspectives, historical and cultural | پاکستانی سرزمین: تاریخٰ و ثقافتی تناظر میں | 1999ء / المشرقی فاؤنڈیشن |
World of Work: Predicament of a Scholor | 2007ء / انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی | |
ڈاکٹر مختارالدین احمد (سابق صدرشعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
” | ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اسلام آباد، حکومت پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ وہاں کی دو جامعات (سندھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی) کے وائس چانسلر ہوئے۔ ہجرہ کونسل، سندھی ادبی بورڈ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈکلچرل ریسرچ اور دوسرے علمی اداروں کے بڑے کامیاب سربراہ رہے۔ ان کی زندگی ترقیوں اور کامرانیوں سے معمور ہے۔ پاکستان میں کون صاحبِ علم و صاحبِ ذوق ایسا ہے جو ان کے علمی کارناموں سے واقف نہیں۔ ان کے کارنامے نہ سہی ان کے کارناموں کی خوشبو سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی یہاں (ہندوستان) بھی پہنچی۔[17] | “ |
ڈاکٹر عبد القادر جونیجو (سابق صدر شعبۂ سندھی سندھ یونیورسٹی و چیئرمین سندھی ادبی بورڈ)
” | ڈاکٹر بلوچ صاحب کی زندگی اور جدوجہد کی داستان قابلِ تقلید ہے۔ افسر، پروفیسر، ماہرِ تعلیم و منتظم، وائس چانسلر اور وزیر کے عہدوں پر رہے۔ ہر کام ہمت، محنت، سلیقہ اور تیز رفتاری سے کیا۔ وقت کا صحیح استعمال کیا۔ ایسےقلم کا شہسوار کہ ان کا ہر پل تحقیق، تدوین، محنت اور مشقت کے لیے وقف ہے۔[18] | “ |
ڈاکٹر غلام علی الانا (ماہرِ لسانیات، محقق)
” | اہلِ سندھ کو چاہیے کہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب سے زیادہ سے زیادہ اتفادہ کریں۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کو کرسیوں اور عہدوں کی پروا کبھی نہیں رہی۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اسلام آباد میں، لاہور میں، پشاور میں، بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ بیرونِ پاکستان میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ | “ |
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز اور صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ 2005ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے آپ کی گرانقدر ادبی خدمات کے صلے میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ کمال فن ادب انعام سے نوازا۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ 6 اپریل 2011ء کو حیدرآباد، پاکستان میں حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث93 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔[19][20][2]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.