علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 656ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والوں کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، تایا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچھ دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔[9]
| ||||
---|---|---|---|---|
(عربی میں: علي بن الحسين) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 6 جنوری 659ء مدینہ منورہ [1] | |||
وفات | 21 اکتوبر 713ء (54 سال) مدینہ منورہ | |||
وجہ وفات | زہر | |||
مدفن | جنت البقیع | |||
قاتل | ولید بن عبدالملک | |||
رہائش | مدینہ منورہ | |||
شہریت | سلطنت امویہ | |||
زوجہ | فاطمہ بنت حسن | |||
اولاد | محمد باقر [2]، زید بن علی رضی اللہ عنہ ، حسین الاصغر ، عبد اللہ بن علی بن حسین | |||
والد | حسین ابن علی [1] | |||
والدہ | شہربانو | |||
بہن/بھائی | ||||
عملی زندگی | ||||
استاد | حسین ابن علی | |||
نمایاں شاگرد | محمد باقر | |||
پیشہ | امام ، شاعر [3]، الٰہیات دان | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی [4] | |||
کارہائے نمایاں | صحیفہ سجادیہ ، رسالہ حقوق ، دمشق میں زین العابدین کا خطبہ | |||
عسکری خدمات | ||||
لڑائیاں اور جنگیں | سانحۂ کربلا | |||
درستی - ترمیم |
علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (38-95ھ) جو امام سجاد اور زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، اہل تشیع کے چوتھے اماماسماعیلی شیعیت کے تیسرے امام اور امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہیوں نے آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ اور شام لے گیا۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیت کے مقام و منزلت سے زیادہ آگاہ ہوئے۔
واقعہ حرہ، تحریک توابین اور قیام مختار آپ کے دور امامت میں رو نما ہوئے۔ امام سجادؑ کی دعاؤوں اور مناجات کو صحیفہ سجادیہ میں جمع کیا گیا ہے۔ خدا اور خلق خدا کی نسبت انسان کی ذمہ داریوں سے متعلق کتاب، رسالۃ الحقوق بھی آپ سے منسوب ہے۔
شیعہ احادیث کے مطابق امام سجادؑ کو ولید بن عبد الملک کے حکم سے مسموم کر کے شہید کیا گیا۔ آپ امام حسن مجتبیؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔
نسب، لقب، کنیت
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، معروف بہ امام سجاد اور امام زین العابدین، شیعیان آل رسول(ص) کے چوتھے امام اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔
اختلافی مسائل میں سے ایک آپ کی والدہ شہربانو کا نام اور نسب ہے۔ آپ کی والدہ کے لیے متعدد نام نقل ہوئے ہیں اور شہر بانو، شہر بانویہ، شاہ زنان اور جہان شاہ ان ہی ناموں میں شامل ہیں۔
بعض محققین یزدگر کی بیٹی شہر بانو کو امام سجاد کی والدہ تسلیم نہیں کرتے ہیں اور دلائل و قرائن کی بنا پر ایسی روایات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی والدہ ان اوصاف کی مالک نہیں تھیں۔[10]
امام سجاد(ع) اپنے زمانے میں علي الخیر، علي الاصغر اور علي العابدکے نام سے مشہور تھے۔ [11]
کنیت و لقب
امام علی بن الحسین(ع) کی کنیات "ابو الحسن"، "ابو الحسین"، "ابو محمّد" اور "ابو عبد اللہ" ہیں۔ [12]
آپ کے القاب میں زین العابدین، سید الساجدین، سجاد، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی اور علی اکبر شامل ہیں۔[13]
زین العابدین : ابن عباس کی رسول خدا سے منقول روایت کے مطابق قیامت کے دن منادی ندا دے گا: زین العابدین کہاں ہے۔۔۔۔۔تو گویا میں صفوف کے درمیان میں علی بن الحسین کے چلتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔[14] دیگر روایت کے مطابق ایک شب آپ محراب عبادت میں عبادت الہی میں مصروف تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں ظاہر ہو کر آپکو عبادت الہی سے منحرف کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کی خدا کی جانب توجہ میں کوئی فرق نہیں پڑا تو غیب سے منادی نے تین مرتبہ ندا دی: انت زین العابدین۔۔۔۔۔۔۔[15]
"ذوالثَّفنات" آپ کے دیگر القاب میں سے ہے جو امام سجاد(ع) کو دیا گیا ہے (کیونکہ عبادت اور نماز و سجود کی کثرت کی وجہ سے آپ کے اعضائے سجدہ (مساجد) پر اونٹ کے گھٹنوں کی طرح گھٹے پڑ گئے تھے)۔[16]
انگشتریوں کے نقش
امام سجاد علیہ السلام کی انگشتریوں کے لیے تین نقش منقول ہیں:
آپ(ع) امام حسین(ع) کی وہ انگشتری پہن لیا کرتے تھے جس پر "إِنَ اللَّهَ بالِغُ أَمْرِہ" (یعنی خداوند متعال اپنا امر و فرمان انجام تک پہنچا دیتا ہے) کا نقش تھا۔[17] آپ(ع) کی دوسری انگشتریوں کے نقش "وَما تَوْفِیقِی إِلَّا بِاللَّہ"، [18] اور"خَزِی وَشَقِی قَاتِلُ الْحُسَینِ بْنِ عَلِی"۔[19]۔[20]
ولادت اور شہادت
"وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ مِنْكَ وَمُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا بِخَيْرِهِ وَشَرّهِ وَأَنّكَ مَسْئُولٌ عَمّا وُلّيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَالدّلَالَةِ عَلَى رَبّهِ وَالْمَعُونَةِ لَهُ عَلَى طَاعَتِهِ فِيكَ وَفِي نَفْسِهِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَمُعَاقَبٌ"۔
(ترجمہ: اور تم پر تمھاری اولاد کہ حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ وہ تم سے ہے اور اس دنیا کی نیکی اور بدی میں میں تم سے پیوستہ ہے۔ اور تم ـ خدا کے حکم کے مطابق، اس پر اپنی ولایت کے پیش نظر، اس کی عمدہ پرورش کرنے، نیک آداب سکھانے اور خدائے عزوجل کی طرف راہنمائی کرنے اور خدا کی فرماں برداری میں اس کی مدد کرنے میں اپنے حوالے سے بھی اور اس کے حوالے سے بھی، جوابدہ ہو؛ اور اس ذمہ داری کے عوض جزا اور سزا پاؤگے۔
رسالۂ حقوق امام سجاد(ع) شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، جلد 2 صفحہ 621 کے بعد۔
ولادت
مشہور قول کے مطابق امام سجاد(ع) سنہ 38 ہجری[21] میں پیدا ہوئے نیز33ہجری قمری 36 ہجری قمری [22] اور37 ہجری قمری [23] بھی منقول ہیں۔
ولادت کا مہینہ جمادی الثانی [24] میں جمعہ[25] یا جمعرات [26] کا دن اور تاریخ 15 [27] ذکر کی جاتی ہے جبکہ 9 شعبان[28] اور 5 شعبان[29] بھی نقل ہوئی ہے۔
ائمہ طاہرین میں سے حضرت علی ع کے ساتھ 2 سال، [30]، حضرت امام حسن کے ساتھ 10 سال، [31] یا 12سال[32]، حضرت امام حسین ع کے ساتھ 10 سال[33] اور 11سال [34] کے ساتھ رہنے کی مدت منقول ہے۔اپنے والد کی شہادت کے بعد34 [35] یا35 سال[36] زندہ رہے۔ِآپ کا مقام ولادت اتفاقی طور پر مدینہ مذکور ہے۔
نام ونسب
زین العابدین کے لقب سے معروف کی نسبت خاندان نبوت کی طرف ہے، یہ علی بن ابی طالب کے بیٹے سیدنا حسین کے بیٹے ہیں، علی بن حسین ان کا نام ہے، قرشی اور ہاشمی ہیں، ابو الحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن، ابو محمد اور ابو عبد اللہ بھی کہا جاتا ہے۔[37] سیدنا امام حسین پنے والدِ ماجدعلی سے اظہارِ عقیدت کے لیے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے زین العابدین کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابو محمد، ابو الحسن، ابو القاسم اور ابوبکر ہے، جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد، زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے۔[38]
ولادت با سعادت
علی ابن حسین کی ولادت علامہ ذہبی نے [39]میں یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [40] میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [41] یعقوب بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔
والدہ کا نام
علی بن حسین کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے، جو اس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں، سیدنا عمر فاروق کے زمانہٴ خلافت میں ایران فتح ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھی۔، [42] ابن سعد نے اس کا نام ” غزالہ“ نقل کیا ہے [43] بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبد الملک کی پھوپی تھی۔[44] آپ کی والدہ کا نام شہر بانو تھا جو ایران کے بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھیں جو نوشیروان عادل کا پوتا تھا۔
علی اوسط کا نام
ان کو علی اوسط کہا جاتا ہے، ان کے دوسرے بھائی جوان سے عمر میں بڑے تھے، ان کو علی اکبر کہا جاتا تھا، جو معرکہٴ کربلا میں اپنے والد حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔[45]علی اوسط یعنی علی بن حسین المعروف زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے والد حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہٴ کربلا میں شریک تھے۔[46]
کربلا میں بچ جانے کی وجہ
اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، جب حضرت امام حسین علیہ السلام اللہ شہید کر دیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو، شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان اللہ! کیا تم ایسے جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمروبن سعد بن ابی وقاص آیا او ر کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی اوسط سے کوئی تعرض نہ کرے، اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا اور ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا۔[47]
زین العابدین اورحضرات خلفائے راشدین
ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس روضہ میں حاصل ہے ایسا ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی تھا۔[48] محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمر کا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿لِلْفُقَرَاء الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُون﴾َ ․ (الحشر:8) اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ․(الحشر:9) اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللہ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․(الحشر:10)، پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ، اللہ تمھارا گھر قریب نہ کرے، تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے ہو جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔[49] جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے لگا مجھے ابوبکر وعمر کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انھیں”صدیق“ کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کر دے! مجھ سے بہتر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمہاجرین وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، اللہ اس کی بات کو سچا نہ کرے، جاؤ! ابوبکر وعمر سے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری گردن پر ہے۔[50]یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! حضرت عثمان کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔[51]
تحصیل علم اور علمی مقام
زین العابدین نے کبار صحابہٴ کرام وتابعین عظام سے کسب فیض کیا، آپ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ، اپنے والد حضرت حسین، اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس اور ابو رافع، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ، مروان بن حکم، ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبید اللہ بن ابی رافع وغیرہ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔[52] ابن عساکرمیں ہے کہ نافع بن جبیر نے علی بن حسین سے کہا: آپ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے جواباً فرمایا: میں ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے۔[53] ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم کے لیے ) بیٹھا کرتے تھے، ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو چھوڑ بنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔[54] ابو نعیم نے حلیہ میں عبد الرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان میں سے ہوتے ہوئے زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے، نافع بن جبیر نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لیے آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔[55] ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسین او رسلیمان بن یاسر کو منبر اور روضہ شریف کے درمیان میں چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے دیکھا، جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو عبد اللہ بن ابی سلمہ قرآن پاک کی کوئی سورت تلاوت کرتے، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔[56] علی بن حسین سے بہت سارے تابعین عظام نے فیض حاصل کیا ہے، آپ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں ان کے چار بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین، زید بن علی بن حسین، عبد اللہ بن علی بن حسین، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبید اللہ بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔[57] آپ سفید رنگ کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب لٹکا دیتے تھے۔[58]
دلائل امامت
عاشورا سنہ 61ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی امام سجاد(ع) کی امامت کا آغاز ہوتا ہے اور آپ کا دوران میں امامت سنہ 94 یا 95 ہجری میں آپ کی شہادت تک جاری رہتا ہے۔
کتب حدیث میں شیعہ محدثین کی منقولہ نصوص کے مطابق امام سجاد(ع) اپنے والد امام حسین علیہ السلام کے جانشین ہیں۔[59] علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 آئمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[60]
نیز شیعہ نصوص کے مطابق رسول اللہ(ص) کی تلوار اور زرہ وغیرہ کو ائمہ کے پاس ہونا چاہیے اور یہ اشیاء ہمارے شیعہ ائمہ کے پاس تھیں حتی کہ اہل سنت کے کتابوں میں اس امر پر صراحت کی گئی ہے رسول خدا(ص) کی یہ اشیا امام سجاد(ع) کے پاس تھیں۔ [61]
علاوہ ازیں امام سجاد(ع) ملت تشیع نے امام کے طور پر قبول کیا اور آپ کی امامت آپ کی امامت کے آغاز سے آج تک مقبول عام ہے جو خود اس حقیقی جانشینی کا بیِّن ثبوت ہے۔
معاصر سلاطین
- یزید بن معاویہ (61- 64ہجری)
- عبد اللہ بن زبیر (61-73ہجری)
- معاویہ بن یزید (چند ماہ از سال 64ہجری)۔
- مروان بن حَکَم (نہ ماہ از سال 65ہجری)۔
- عبد الملک بن مروان (65- 86ہجری)۔
- ولید بن عبد الملک (86- 96ہجری)۔[62]
علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ
علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں، [63] اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجاد(ع) سے احادیث نقل کی ہیں۔[64]
ذہبی رقمطراز ہے: امام سجاد(ع) نے پیغمبر(ص) امام علی بن ابی طالب سے مرسل روایات نقل کی ہیں جب آپ نے (چچا) حسن بن علی(ع) (والد) حسین بن علی(ع)، عبد اللہ بن عباس، صفیہ|صفیّہ، عائشہ اور ابو رافع سے بھی حدیث نقل کی ہے اور دوسری طرف سے امام محمد باقر(ع)، زید بن علی، ابو حمزہ ثمالی، یحیی بن سعید، ابن شہاب زہری، زید بن اسلم اور ابو الزناد نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[65]
فضائل و مناقب
عبادت
مالک بن انس سے مروی ہے کہ علی بن الحسین دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز بجا لاتے تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے چنانچہ آپ کو زین العابدین کہا جاتا ہے۔[66]
ابن عبد ربّہ لکھتا ہے: علی بن الحسین جب نماز کے لیے تیاری کرتے تو ایک لرزہ آپ کے وجود پر طاری ہوجاتا تھا۔ آپ سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا: "وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ میں اب کس ذات کے سامنے جاکر کھڑا ہونے والا ہوں! کس کے ساتھ راز و نیاز کرنے جارہا ہوں!؟"۔[67]
مالک بن انس سے مروی ہے: علی بن الحسین نے احرام باندھا اور لبیّكَ اللهمّ لبَيكَ پڑھ لیا تو آپ پر غشی طاری ہوئی اور گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آ گرے۔[68]
غربا و مساکین کی سرپرستی
ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن الحسین(ع) راتوں کو کھانے پینے کی چیزوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ طور پر غربا اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جو صدقہ اندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے"۔[69]
محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جاتے ہیں، علی ابن الحسین(ع) کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔ [70]
راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے بدن پر دیکھیے گئے۔[71] ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ فرماتے: "صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے"۔ [72]
ایک سال آپ(ع) نے حج کا ارادہ کیا تو آپ کی بہن سکینہ بنت الحسین(ع) نے ایک ہزار درہم کا سفر خرچ تیار کیا اور جب آپ حرہ کے مقام پر پہنچے تو وہ سفر خرچ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور امام(ع) نے وہ محتاجوں کے درمیان میں بانٹ دیا۔ [73]
آپ کا ایک چچا زاد بھائی ضرورتمند تھا اور آپ راتوں کو شناخت کرائے بغیر آپ کو چند دینار پہنچا دیتے تھے اور وہ شخص کہتا تھا: "علی ابن الحسین" قرابت کا حق ادا نہیں کرتے خدا انھیں اپنے اس عمل کا بدلہ دے۔ امام(ع) اس کی باتیں سن کر صبر و بردباری سے کام لیتے تھے اور اس کی ضرورت پوری کرتے وقت اپنی شناخت نہیں کراتے تھے۔ جب امام(ع) کا انتقال ہوا تو وہ احسان اس مرد سے منقطع ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ وہ نیک انسان امام علی بن الحسین(ع) ہی تھے؛ چنانچہ آپ کے مزار پر حاضر ہوا اور زار و قطار رویا۔[74]
ابونعیم رقمطراز ہے: امام سجاد(ع) نے دو بار اپنا پورا مال محتاجوں کے درمیان میں بانٹ دیا اور فرمایا: خداوند متعال مؤمن گنہگار شخص کو دوست رکھتا ہے جو توبہ کرے۔[75] ابو نعیم ہی لکھتے ہیں: بعض لوگ آپ کو بخیل سمجھتے تھے لیکن جب دنیا سے رحلت کرگئے تو سمجھ گئے کہ ایک سو خاندانوں کی کفالت کرتے رہے تھے۔[76] جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو آپ فرماتے تھے: آفرین ہے اس شخص پر جو میرا سفر خرچ آخرت میں منتقل کررہا ہے"۔ [77]
غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک
امام سجاد(ع) کے تمام تر اقدامات دینی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔
امام سجاد(ع) نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے [خالص] اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجاد(ع) ـ جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا تھا۔ غلاموں کا طبقہ امام(ع) کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امام(ع) کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ آپ انھیں خرید لیں۔ امام(ع) ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہ سب امام سجاد(ع) کے موالی تھے۔[78]
زہد و تقوی
علی بن حسین بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہا وعابدین میں سے تھے اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں ” سید العابدین“ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا، ان کی اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ” زین العابدین“ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا۔[79] امام مالک نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی بن حسین کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“ کہا جاتا تھا۔[80]امام زہری علی بن حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے۔[81]ابو نعیم نے ” حلیہ “میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق تھے۔[82] ابن عیینہ نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے۔ امام مالک نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں؛ حالانکہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے۔[83] زین العابدین جب نماز کے لیے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ جاتا اور وضو واقامت کے درمیان میں ان کے بدن پر ایک کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی تھی، کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: تمھیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی اللہ تعالیٰ سے )۔[84] کسی نے سعید بن مسیب سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پ رہی ز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پ رہی ز گار نہیں پایا۔[85]طاؤس کہتے ہیں میں نے علی بن حسین کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ فرما رہے تھے :”عَبِیْدُکَ بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ بِفِنَائِکَ“طاوس کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے میری مشکل کو آسان فرما دیا۔[86] ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول اللہ کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔[87] ابوجعفر کہتے ہیں کہ میرے والد ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ میں نے آپ کی طرح کسی کو اللہ کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک اللہ کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو چاہیں عذاب دیں گے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے۔[88] آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔۔[89] نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھا۔[90] علامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔[91]
انفاق فی سبیل اللہ
زین العابدین بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے، حجاج بن ارطاة نے جعفر صادق سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا تھا۔[92] ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، [93] شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔[94] محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا، [95]جریر بن عبد الحمید نے عمروبن ثابت سے نقل کیا ہے کہ جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔[96]علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ میں ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔[97]
شادی اور اولاد
آپ کی پہلی شادی 57ھ میں آپ کے تایا حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ نے دوسری شادی حمیداں یا جیدا نامی خاتون سے کی جن کا تعلق وادئ سندھ (موجودہ پاکستان)سے تھا[98]۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے حضرت امام محمد باقر اور حضرت زید شہید مشہور ہیں۔
اولاد
(ترجمہ: زوجہ کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ خداوند عز و جل نے اس کو تمھارے لیے سکون اور انسیت کا سبب قرار دیا ہے پس جان لو کہ یہ نعمت تم پر اللہ کی جانب سے ہے پس اس کا اکرام کرو اور اس کے ساتھ رواداری سے پیش آؤ، گو کہ تمھارا حق اس پر واجب تر ہے مگر یہ اس کہ حق ہے کہ تم اس کے ساتھ مہربان رہو)"۔
شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 2، ص 621، ح 3214۔
تاریخی منابع میں منقول ہے کہ امام سجاد(ع) کی پندرہ اولادیں ہیں جن میں سے گیارہ( 11) بیٹے اور چار (4) بیٹیاں ہیں۔ [99] شیخ مفید کے مطابق امام سجاد(ع) کے فرزندوں کے نام کچھ یوں ہیں:[100]
- امام محمد باقر(ع)، جن کی والدہ ام عبد اللہ بنت امام حسن مجتبی(ع) ہیں۔
- عبداللہ
- حسن
- حسین اکبر، ان تینوں کی والدہ ام ولد تھیں۔
- زید
- عمر، ان دونوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
- حسین الاصغر
- عبدالرحمن
- سلیمان، ان تینوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
- علی، جو امام سجاد(ع) کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔
- خدیجہ ان کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
- محمد الاصغر ان کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
- فاطمہ
- علّیہ
- ام کلثوم، ان تینوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
جلالت شان
زین العابدین اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے تھے، لوگ ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ ہشام بن عبد الملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے گئے، بیت اللہ شریف کے طواف کے دوران میں حجر اسود کا استیلام کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اژدھام کی وجہ سے نہیں کر پائے۔ اتنے میں حضرت علی بن حسین تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان میں (پیشانی پر) سجدے کا نشان تھا، طواف شروع کیا او رجب حجر اسود کے قریب پہنچے تو لوگ ان کی ہیبت اور جلالت شان کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا، ہشام کو یہ بات اچھی نہیں لگی، اہل شام میں سے کسی نے کہا یہ کون ہے جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟ ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں، کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟ مشہور شاعر فرزدق قریب ہی کھڑا تھا، اس نے کہا میں انھیں جانتا ہوں۔ اس پر اس شامی نے کہا اے ابو فراس! یہ کون ہیں؟ اس وقت فرزدق نے زین العابدین کی تعریف میں بہت سارے اشعار کہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔ هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ البَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ … وَالبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ هَذَا ابْنُ فَاطِمَةٍ إِنْ كُنْتَ جَاهِلَهُ … بِجَدِّهِ أَنْبِيَاءُ اللهِ قَدْ خُتِمُوا ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے کو بطحاء، بیت اللہ، حل اور حرم بھی جانتے ہیں، یہ حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں، اگرچہ تم تجاہل سے کام لے رہے ہو، انھیں کے دادا ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ انبیا کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔ ہشام بن عبد الملک کو غصہ آیا اس نے فرزدق کو قید کرنے کا حکم دیا، ان کو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ” عسفان“ نامی جگہ میں مقید کر دیا گیا، حضرت علی بن حسین کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس 12 ہزار دینار بھیجے او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی بھجوادیتے، فرزدق نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند!میں نے جو کہا اللہ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کہا ہے او رمیں اس پر کچھ کمانا نہیں چاہتا، حضرت زین العابدین نے یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ تمھارے اوپر جو میرا حق ہے، اس کا واسطہ ہے کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک اللہ تیرے دل کے حال او رنیت کو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے قبول کر لیا۔[101]
اقوال وخطبات
زین العابدین کے چندبیش بہا اقوال:
- جسم اگر بیمار نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے جسم میں جو مست ومگن ہو۔[102]
- دوستوں کا نہ ہونا پردیسی ( اجنبیت) ہے۔[103]
- جو اللہ کے دیے ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی ہو گا۔[81]
- جو باتیں معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں، علم تو وہ ہے جو معروف ہو اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔[104]
- لوگوں میں سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے والی نہ سمجھے۔[104]
- کوئی کسی کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو، قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس کے علم میں نہیں [105]
- جن دو شخصوں کا ملاپ اللہ کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی بھی اسی پر ہو۔[105]
- اے بیٹے!مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے پسند نہ کرو جس کا نقصان تمھارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے والے فائدے سے۔[106]
- اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتے ہیں۔[107]
آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ 'اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔ جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پر ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے۔۔۔'۔
دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:
۔۔۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔۔۔۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔۔۔۔ ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔۔۔[108][109][110][111]
یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تو یزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں۔ اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین نے فرمایا کہ 'پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا'۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔[108] اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔
امام سجاد اور واقعۂ کربلا
کربلا
امام سجاد(ع) واقعۂ کربلا میں اپنے والد امام حسین(ع) اور اولاد و اصحاب کی شہادت کے دن، شدید بیماری میں مبتلا تھے اور بیماری کی شدت اس قدر تھی کہ جب بھی یزیدی سپاہی آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے، ان ہی میں سے بعض کہہ دیتے تھے کہ "اس نوجوان کے لیے یہی بیماری کافی ہے جس میں وہ مبتلا ہے"۔[112]
اسیری کے ایام
عاشورا سنہ 61 کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کرکے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجاد(ع) نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کیے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف [113] کراتے ہوئے یزید کے کارندوں کے جرائم کو آشکار کر دیا اور اہل کوفہ پر ملامت کی۔[114]
امام سجاد(ع) نے کوفیوں سے خطاب کرنے کے بعد ابن زیاد کی مجلس میں بھی موقع پا کر چند مختصر جملوں کے ذریعے اس مجلس کے حاضرین کو متاثر کیا۔ اس مجلس میں ابن زیاد نے امام سجاد(ع) کے قتل کا حکم جاری کیا[115] لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے درمیان میں آ کر ابن زياد کے خواب سچا نہيں ہونے دیا۔
اس کے بعد جب یزیدی لشکر اہل بیت(ع) کو "خارجی اسیروں" کے عنوان سے شام لے گیا تو بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
جب اسیران آل رسول(ص) کو پہلی بار مجلس یزید میں لے جایا گیا تو امام سجاد(ع) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امام(ع) نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہ(ص) ہمیں اس حال میں دیکھیں!؟[116] یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔[117]
اسیری کے بعد
امام سجاد(ع) واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران میں آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی ہر کوشش کی۔
پانی پیتے وقت والد کو یاد کرتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسوں بہاتے تھے۔ ایک روایت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول کہ امام سجاد(ع) نے (تقریباً) چالیس سال تک اپنے والد کے لیے گریہ کیا جبکہ دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کا خادم کھانا اور پانی لا کر عرض کرتا کہ آئیں اور کھانا کھائیں تو آپ(ع) فرمایا کرتے: "فرزند رسول اللہ بھوکے مارے گئے! فرزند رسول اللہ(ص) پیاسے مارے گئے!" اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں گھل مل جاتے تھے؛ آپ مسلسل اسی حالت میں تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔[118]
معاصر تحریکیں
امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں اور کربلا کے واقعے کے بعد مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:
واقعۂ حَرَہ
کربلا کا واقعہ رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مدینہ کے عوام نے اموی حکومت اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرکے حرہ کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی قیادت جنگ احد میں جام شہادت نوش کرنے والے حنظلہ غسیل الملائکہ کے بیٹے عبد اللہ بن حنظلہ کر رہے تھے اور اس قیام کا نصب العین اموی سلطنت اور یزید بن معاویہ اور اس کی غیر دینی اور غیر اسلامی روش کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد، تھا۔ امام سجاد(ع) اور دوسرے ہاشمیوں کی رائے اس قیام سے سازگار نہ تھی چنانچہ امام(ع) اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکل گئے۔ امام زین العابدین(ع) کی نظر میں یہ قیام نہ صرف ایک شیعہ قیام نہ تھا بلکہ درحقیقت آل زبیر کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا اور آل زبیر کی قیادت اس وقت عبد اللہ بن زبیر کررہا تھا اور عبد اللہ بن زبیر وہ شخص تھا جس نے جنگ جمل کے اسباب فراہم کیے تھے۔ یہ قیام یزید کے بھجوائے گئے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے کچل ڈالا جس نے اپنے مظالم کی بنا پر مسرف کا لقب کما لیا۔ [119]
توابین کا قیام
توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ بزرگ کر رہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیت(ع) کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسین(ع) کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسین(ع) اور توابین کے درمیان میں کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔ [120]
مختار کا قیام
مختار بن ابی عبید ثقفی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجاد(ع) کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب "مختار" نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیت(ع) کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امام(ع) نے خیر مقدم نہیں کیا۔[121]
اصحاب
ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجاد(ع) کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی۔[122]
شیخ طوسی، نے امام سجاد(ع) کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔ [123]
امام سجاد(ع) شیعیان اہل بیت(ع) کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔ [124]
مشہور ہونے والے اصحاب
- جابر بن عبداللہ انصاري
- عامر بن واثلہ كنانى
- سعيد بن مسيّب
- سعيد بن جهان كنانى
- سعید بن جبیر
- محمد بن جبير
- ابوخالد کابلی
- قاسم بن عوف
- اسماعیل بن عبد اللہ بن جعفر
- ابراہيم بن محمد بن حنفیہ
- حسن بن محمد بن حنفیہ
- حبيب بن ابى ثابت
- ابو حمزہ ثمالى
- فرات بن احنف
- جابر بن محمد بن ابوبکر
- ايوب بن حسن
- على بن رافع
- ابو محمد قرشى
- ضحاك بن مزاحم
- طاووس بن کیسان
- حميد بن موسى
- ابان بن تغلب
- سدير بن حكيم
- قيس بن رمانہ
- ہمام بن غالب (مشهور بہ فرزدق شاعر)
- عبداللہ برقى
- يحيى بن ام طويل
بشیر بن جذلم، عمرو بن دینار، حکم بن عُتیبہ، زید بن اسلم، یحییٰ بن سعید، ابو زناد، علی بن جدعان، مسلم بطین، عاصم بن عبیداللہ، عاصم بن عمر، عمر بن قتادہ، قعقاع بن حکیم، ابو الاسود بن عروہ، ہشام بن عروہ، ابو زبیر مکّی، ابو حازم اعرج، عبداللہ بن مسلم، محمد بن فرات تمیمی، منهال بن عمرو، بھی اصحاب امام سجاد میں سے ہیں۔
تقیہ
اموی – علوی تعلق کی کیفیت کے پس منظر کے پیش نظر امام سجاد(ع) کو اموی حکمرانوں کی شدید بدگمانی کا سامنا تھا اور امام(ع) کا کوئی معمولی سا کام بھی خطرناک نتائج پر ختم ہو سکتا تھا اور فطری سی بات تھی کہ اس قیمت پر کسی قسم کے اقدامات کرنا مناسب نہ تھا۔ اہم ترین دینی اور سیاسی اصول جس کے سائے میں امام سجاد(ع) زندگی بسر کر رہے تھے وہ تھا: "تقیّہ"۔
امام سجاد(ع) نہایت دشوار حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ کے پاس تقیہ کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اصولی طور پر یہی تقیہ ہی ہے جس نے اُس زمانے میں شیعیان آل رسول(ص) کو تحفظ دیا۔
روایت ہے کہ ایک شخص نے امام سجاد(ع) کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: زندگی کس طرح گذر رہی ہے؟ امام(ع) نے جواب دیا:
"زندگی اس طرح سے گزار رہے ہیں کہ اپنی قوم کے درمیان میں ویسے ہی ہیں جیسے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کے درمیان میں تھے، ہمارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے ہیں ہماری عورتوں کو زندہ رکھ لیتے ہیں؛ لوگ ہمارے بزرگ اور ہمارے سید و سردار پر سبّ اور دشنام طرازی کرکے ہمارے دشمنوں کی قربت حاصل کرتے ہیں؛ اگر قریش دوسرے عربوں کے سامنے فخر کرتے ہیں کہ رسول اللہ قریش میں سے تھے اور اگر عرب فخر عجم پر تفاخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ عرب تھے اور اگر قریش اس حوالے سے اپنے لیے فوقیت اور برتری کے قائل ہیں تو ہم اہل بیت کو قریش پر برتر ہونا چاہیے اور ہمیں ان کے سامنے اس فضیلت پر فخر کرنا چاہیے کیونکہ محمد(ص) ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ مگر انھوں نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہمارے لیے کسی بھی حق کے قائل نہيں ہیں۔ اگر تم نہيں جانتے کہ زندگی کس طرح گذر رہی ہے تو جان لو کہ زندگی اس طرح گذر رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا"۔ راوی کہتا ہے کہ امام(ع) اس طرح سے بات کر رہے تھے کہ صرف قریب بیٹھے ہوئے افراد سن سکیں۔[125]
آثار اور کاوشیں
حدیث امام سجاد(ع) کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔
بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لیے، پیاسے شخص کے لیے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ [126]
صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجاد(ع) کی کاوشوں میں سے ہیں۔ [127]
صحیفہ سجادیہ، امام سجاد(ع) کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔
رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔[128]
وصال
خانوادہ نبوت کے اس چشم و چراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے، ،99,95, 94,93,92 اور100 ہجری کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔[129]
شہادت
آپ کی شہادت اموی حاکم ولید بن عبد الملک کے زہر دینے سے ہوئی۔[130]۔ آپ کی شہادت کا سال 95 ہجری قمری [131] بعض نے 94 ہجری قمری[132] 92ہجری قمری[133] 93ہجری قمری[134] اور شہادت کی مشہور تاریخ18[135] محرم[136] بروز ہفتہ [137] لکھی گئی ہے بعض نے 14ربیع الاول[138] بدھ[139] بھی ذکر کی ہے۔
شہادت کے وقت عمر مبارک مشہور57 سال ہے[140]اور 59 سال[141] چار مہینے اور کچھ دن [142] بھی مذکور ہے۔
آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی حیات اور ادوار امامت کا ادراک کیا ہے اور معاویہ کی طرف سے عراق اور دوسرے علاقوں کے شیعیان آل رسول(ص) کو تنگ کرنے اور ان پر دباؤ بڑھانے کی سازشوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔
اہل سنت کی تاریخی روایات کے راوی محمد بن عمر الواقدی، نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے: "علی بن الحسین (زین العابدین(ع) نے 58 سال کی عمر میں وفات پائی" اور اس کے بعد رقمطراز ہے: "اس لحاظ سے امام سجاد(ع) 23 یا 24 سال کی عمر میں کربلا کے مقام پر اپنے والد امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر تھے۔[143]
نیز زہری نے بھی کہا ہے کہ علی بن الحسین(ع) 23 سال کے سن کے ساتھ کربلا میں اپنے والد کے ہمراہ تھے۔[144]
امام سجاد(ع) سنہ 94 (یا 95) ہجری میں اس زہر کے ذریعے جان بحق نوش کرگئے جو ولید بن عبدالملک کے حکم پر انہيں کھلایا گیا تھا۔[145] آپ(ع) جنت البقیع میں چچا امام حسن مجتبی(ع) کے پہلو میں دفن کر دیے گئے۔[146]
جس طرح آپ کی جائے پیدائش مدینہ کے متعلق کسی نے اختلاف نہیں کیا اسی طرح مقام دفن مدینہ ہونے کے متعلق کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
مآخذ
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.