تیسرے خلیفہ راشد، داماد محمد From Wikipedia, the free encyclopedia
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء)[8] اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔[9]
سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔[10]
ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔[10][11]
عثمان بن عفان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(انگریزی میں: Uthman ibn Affan) | |||||||
مناصب | |||||||
خلیفہ (3 ) | |||||||
برسر عہدہ 5 نومبر 644 – 17 جون 656 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 574ء [1] مکہ | ||||||
وفات | 17 جون 656ء (81–82 سال)[2][3][4] مدینہ منورہ | ||||||
وجہ وفات | ضرب بدن | ||||||
مدفن | جنت البقیع ، مدینہ منورہ | ||||||
قاتل | عبداللہ بن سبا | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | حجاز (576–632) خلافت راشدہ (8 جون 632–17 جون 656) | ||||||
زوجہ | ام عمرو بنت جندب فاطمہ بنت ولید بن مغیرہ رقیہ بنت محمد (–624)[5][6] ام کلثوم بنت محمد (624–)[7][6] فاختہ بنت غزوان ام البنین بنت عینیہ بن حصن بن حذیفہ رملہ بنت شیبہ نائلہ بنت الفرافصہ (641–17 جون 656) | ||||||
اولاد | ابان بن عثمان ، عمرو بن عثمان بن عفان ، عبداللہ بن عثمان بن عفان ، سعید بن عثمان بن عفان ، مریم بنت عثمان | ||||||
والد | عفان بن ابی العاص | ||||||
والدہ | اروی بنت کریز [6] | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خیبر ، غزوہ خندق | ||||||
درستی - ترمیم |
عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان | |
اختيار خليفہ ثالث | |
عثمان بن عفان |
آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔[12] سنہ 35ھ ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[13] خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔[10][10][14][15] ،[16] .[17]
عثمان غنی کا نسب حسب ذیل ہے: «عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن كلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ (اسی کا لقب قریش تھا) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان»، عثمان غنی کا نسب عبد مناف بن قصی کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔
والدہ: «اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیہب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن كلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان»، ان کی والدہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور ان کی نانی کا نام بیضاء ام حکیم بنت عبدالمطلب تھا۔[18][19][20][21] ، اسی طرح حضرت عثمان ؓ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبد مناف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے، حضرت عثمان ؓ کی نانی بیضا ام الحکیم حضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں اس لیے وہ ماں کی طرف سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے قریشی رشتہ دار ہیں، [22] آپ کو ذوالنورین (دونوں نوروں والا) اس لیے کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا خاندان ایام جاہلیت میں غیر معمولی وقعت و اقتدار رکھتا تھا، آپ کے جد اعلیٰ امیہ بن عبد شمس قریش کے رئیسوں میں تھے، خلفائے بنو امیہ اسی امیہ بن عبد شمس کی طرف سے منسوب ہوکر‘‘امویین’’ کے نام سے مشہور ہیں، عقاب یعنی قریش کا قومی علم اسی خاندان کے قبضہ میں تھا، جنگ فجار میں اسی خاندان کا نامور سردار حرب بن امیہ سپہ سالار اعظم کی حیثیت رکھتا تھا، عقبہ بن معیط نے جو اپنے زور اثر اور قوت کے لحاظ سے اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اموی تھا، اسی طرح ابوسفیان بن حرب جنھوں نے قبول اسلام سے پہلے غزوہ بدر کے بعد تمام غزوات میں رئیس قریش کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا اسی اموی خاندان کے ایک رکن تھے ؛غرض حضرت عثمان بن عفان ؓ کا خاندان شرافت، ریاست اور غزوات کے لحاظ سے عرب میں نہایت ممتاز تھا اور بنو ہاشم کے سوا دوسرا خاندان اس کا ہمسر نہ تھا۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے 47 برس قبل پیدا ہوئے، بچپن اور سن رشد کے حالات پردہ خفا میں ہیں ؛لیکن قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا،عہد شباب کا آغاز ہوا تو اس تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے اور اپنی صداقت، دیانت اور راست بازی کے باعث غیر معمولی فروغ حاصل کیا۔.[23] [8][24][25][26][27]
حضرت عثمان بن عفان ؓ کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدا بلند ہوئی، گو ملکی رسم و رواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان ؓ کے لیے یہ آواز نامانوس تھی، تاہم وہ اپنی فطری عفت، پارسائی، دیانتداری اور راستبازی کے باعث اس داعئی حق کو لبیک کہنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو انھوں نے دین مبین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اپنے حلقہ احباب میں تلقین وہدایت کا کام شروع کیا، ایام جاہلیت میں ان سے اور حضرت عثمان ؓ سے ارتباط تھا اور اکثر نہایت مخلصانہ صحبت رہتی تھی، ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے، ابھی دونوں بزرگ جانے کا خیال ہی کر رہے تھے کہ خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر فرمایا، ‘‘عثمان !خدا کی جنت قبول کر، میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوا ہوں، حضرت عثمان ؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر بھری تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور دست مبارک میں ہاتھ دیکر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ [28] اس موقع پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کا تعلق اموی خاندان سے تھا جو بنو ہاشم کا حریف تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کو اس لیے خوف وحسد کی نگاہ سے دیکھتا تھا کہ اس طریقہ سے عرب کی سیادت کی باگ بنو امیہ کے ہاتھ سے نکل کر بنو ہاشم کے دست اقتدار میں چلی جائے گی، یہی وجہ تھی کہ عقبہ بن ابی معیط اور ابوسفیان وغیرہ اس تحریک کے دبانے میں نہایت سرگرمی سے پیش پیش تھے ؛لیکن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا آئنہ دل خاندانی تعصب کے گردو غبار سے پاک تھا، اس لیے اس قسم کی کوئی پیش بینی ان کی صفائے باطن کو مکدر نہ کر سکی، انھوں نے نہایت آزادی کے ساتھ اپنے خاندان کے خلاف اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا جبکہ صرف پینتیس یا چھتیس زن و مرد اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔[29][30] .[31][32][33]
قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان بن عفان۔ ؓ کو وہ شرف حاصل ہوا جو ان کی کتاب منقبت کا سب سے درخشاں باب ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فرزندی میں قبول فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منجھلی صاحبزادی رقیہ ؓ کا نکاح پہلے ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر اسلام کے بعد عتبہ کے باپ ابو لہب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی عداوت ہو گئی تھی کہ اس نے اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال کر طلاق دلوادی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی ممدوحہ کا دوسرا نکاح حضرت عثمان بن عفان ؓ سے کر دیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اس شادی کے متعلق بعض لغو اور بے ہودہ روایتیں کتابوں میں ہیں، مگر وہ تمام تر جھوٹی ہیں اور محدثین نے موضوعات میں ان کا شمار کیا ہے۔ [34][35][36]
مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کے غیظ وغضب کی آگ روز بروز زیادہ مشتعل ہوتی جاتی تھی، حضرت عثمان بن عفان ؓ بھی اپنی وجاہت اور خاندانی عزت کے باوجود عام بلا کشانِ اسلام کی طرح جفا کاروں کے ظلم و ستم کا نشانہ تھے، ان کو خود ان کے چچا نے باندھ کر مارا، اعزہ و اقارب نے سرد مہری شروع کی اور رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفا کاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ سے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ بنت محمد ؓ کو ساتھ لے کر ملک حبش کی طرف روانہ ہو گئے؛چنانچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق وصداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلاوطن ہوا۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا کچھ حال معلوم نہ ہو سکا اس لیے پریشان خاطر تھے، ایک روز ایک عورت نے خبردی کہ اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا اتنا معلوم ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان عثمان اول من ھاجر باھلہ من ھذہ الامۃ، [37] یعنی اس میری امت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر ہجرت کی۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس ملک میں چند سال رہے، اس کے بعد جب بعض اور صحابہ ؓ قریش کے اسلام کی غلط خبر پاکر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی آگئے، یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے، اس بنا پر بعض صحابہ پھر ملک حبش کی طرف لوٹ گئے، مگر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر نہ گئے۔[38][39] [40][41]
اسی اثنا میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی ہجرت کا ایماء فرمایا، تو حضرت عثمان بن عفان ؓ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اور حضرت اوس بن ثابت ؓ کے مہمان ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور حضرت اوس بن ثابت ؓ میں برادری قائم کر دی۔ [42] اس مواخات سے دونوں خاندانوں میں جس قدر محبت اور یگانگت پیدا ہو گئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شہادت پر حضرت حسان بن ثابت ؓ تمام عمر سوگوار رہے اور ان کا نہایت پردرد مرثیہ لکھا۔
مدینہ آنے کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی تمام شہر میں صرف بئر رومہ ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا لیکن اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے اس کو ذریعہ معاش بنا رکھا تھا، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس عام مصیبت کو دفع کرنے کے لیے اس کنوئیں کو خرید کر وقف کر دینا چاہا، سعی بلیغ کے بعد یہودی صرف نصف حق فروخت کرنے پر راضی ہوا، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم میں نصف کنواں خرید لیا اور شرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی باری ہوگی اور دوسرے دن اس یہودی کے لیے یہ کنواں مخصوص رہے گا۔ جس روز حضرت عثمان بن عفان ؓ کی باری ہوتی تھی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر کر رکھ لیتے تھے کہ دودن تک کے لیے کافی ہوتا تھا، یہودی نے دیکھا کہ اب اس سے کچھ نفع نہیں ہو سکتا تو وہ بقیہ نصف بھی فروخت کرنے پر راضی ہو گیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے آٹھ ہزار درہم میں اس کو خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، اس طرح اسلام میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیض کرم کا یہ پہلا ترشح تھا، جس نے توحید کے تشنہ لبوں کو سیراب کیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء [43] ».[44][45] .[46][47]
ہجرت مدینہ کے بعد بھی مشرکین نے مسلمانوں کو سکون و اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیا اور اب تحقیر و تذلیل کی بجائے اسلام کی روز افزوں ترقی سے خائف وہراساں ہوکر تیر و تفنگ اور تیغ و سناں کی قوت سے اس کی بیخ کنی پر آمادہ ہوئے چنانچہ 4ھ سے فتح مکہ تک خونریز جنگوں کا سلسلہ قائم رہا، حضرت عثمان بن عفان ؓ اگرچہ فطرتاً سپاہیانہ کاموں کے لیے پیدا نہیں ہوئے تھے، تاہم وہ اپنے محبوب ہادی طریقت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جانثاری و فداکاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ [48][48][49]
کفر و اسلام کی سب سے پہلی جنگی آویزش جو بدر کی صورت میں ظاہر ہوئی حضرت عثمان ؓ اس میں ایک اتفاقی حادثہ کے باعث شریک ہونے سے مجبور رہے، آپ کی اہلیہ محترمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نور نظر رقیہ بنت محمد ؓ بیمار ہو گئی تھیں، اس لیے حضور پورنور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں تیمارداری کے لیے چھوڑ دیا اور فرمایا تم کو شرکت کا اجر و مال غنیمت کا حصہ دونوں ملے گا، [50]اور خود تین سو سترہ قدسیوں کے ساتھ بدر کی طرف تشریف لے گئے۔ حضرت رقیہ بنت محمد ؓ کا یہ مرض درحقیقت پیام موت تھا، غمگسار شوہر کی جانفشانی وتندہی سب کچھ کرسکتی تھی ؛لیکن قضائے الہی کو کیونکر رد کرتی، مرض روز بروز بڑھتا گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری ہی میں چند روز بعد وفات پا گئیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ حضرت عثمان ؓ اور حضرت اسامہ بن زید اس ملکہ جنت کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے کہ نعرہ تکبیر کی صدا آئی، دیکھا تو حضرت زید بن حارثہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقہ پر سوار فتح بدر کا مژدہ لے کر آ رہے ہیں، محبوب بیوی اور وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر کی وفات کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا، اس حادثہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ ہمیشہ افسردہ خاطر رہتے تھے، کچھ اسلام کی پہلی امتحان گاہ (غزوہ بدر) سے محرومی کا بھی افسوس تھا۔ حضرت عمرؓ نے ہمدردی کے طور پر کہا کہ جو ہونا تھا ہو گیا، اب اس قدر رنج وغم سے کیا فائدہ؟ حضرت عثمان ؓ نے کہا افسوس! میں جس قدر اپنی محرومی قسمت پر ماتم کروں کم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن میری قرابت کے سوا تمام قرابت داریاں منقطع ہو جائیں گی ، افسوس کہ میرا رشتہ خاندان رسالت سے ٹوٹ گیا۔ [51] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلدہی فرمائی اور چونکہ ان کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کی تیمارداری کے لیے چھوڑ دیا تھا جس کے باعث وہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی مجاہد قرار دیا اور بدر کے مال غنیمت میں سے ایک مجاہد کے برابر حصہ ان کو عنایت فرمایا اور بشارت دی کہ وہ اجر وثواب میں بھی کسی سے کم نہیں رہیں گے، اس سے بڑ ھ کر یہ کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم بنت محمد ؓ سے ان کا نکاح کر دیا اور خاندانِ رسالت سے دوبارہ ان کا تعلق قائم ہو گیا۔ غزوہ بدر کے بعد اور جس قدر معرکے پیش آئے سب میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پامردی، استقلال اور مردانہ شجاعت کے ساتھ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور ہر موقع پر اپنی اصابت رائے اور جوش و ثبات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو ثابت ہوئے۔
شوال 3ھ میں جب غزوۂ احد پیش آیا تو پہلے غازیان دین کے غنیم کو شکست دے کر میدان سے بھگا دیا؛لیکن وہ مسلمان تیر انداز جو عقب کی حفاظت کر رہے تھے، اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے لگے، کفار نے اس جنگی غلطی سے فائدہ اٹھایا اور پیچھے سے اچانک حملہ کر دیا، مسلمان اس سے غافل تھے اس لیے اس ناگہانی حملہ کو روک نہ سکے اور بے ترتیبی سے منتشر ہو گئے، اسی اثنا میں مشہور ہو گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پائی، اس افواہ نے جان نثاروں کے حواس اور بھی گم کردئے، سوائے چند آدمیوں کے جو جہاں تھا وہیں متحیر ہوکر رہ گیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ بھی انھی لوگوں میں تھے۔ جنگ احدمیں صحابہ ؓ کا منتشر ہو جانا اگرچہ ایک اتفاقی سانحہ تھا جو مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کے باعث پیش آیا تاہم لوگوں کو اس کا سخت ملال تھا، خصوصاً عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نہایت پشیمان تھے؛لیکن یہ اتفاقی غلطی تھی، اس لیے خدائے پاک نے وحی کے ذریعہ سے عفو عام کی بشارت دے دی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِo اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْoوَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْo اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ [52] جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے،در حقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان لوگوں کو لغزش میں مبتلا کر دیا تھا اور یقین رکھو کہ اللہ نے ان کو معاف کر دیا ہے،یقیناً اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔[53]
غزوہ احد کے بعد 4ھ میں غزوہ ذات الرقاع پیش آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہم میں تشریف لے گئے تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں قائم مقامی کا شرف حاصل ہوا، [54] پھر بنو نضیر کی جلا وطنی عمل میں آئی، اس کے بعد 5ھ میں غزوہ ٔخندق کا معرکہ پیش آیا، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام مہمات میں شریک تھے، 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت کعبہ کا قصد فرمایا،مقام حدیبیہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ مشرکین آمادہ پر خاش ہیں ؛چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا، اس لیے مصالحت کے خیال سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا۔ [55]
یہ مکہ پہنچے تو کفار قریش نے ان کو روک لیا اورسخت نگرانی قائم کردی کہ وہ واپس نہ جانے پائیں جب کئی دن گزرگئے اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کا کچھ حال نہیں معلوم ہوا تو مسلمانوں کو سخت تردد ہوا، اسی حالت میں افواہ پھیل گئی کہ وہ شہید کر دیے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر حضرت عثمان ؓ کے خون کے انتقام کے لیے صحابہ ؓ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے، ایک درخت کے نیچے بیعت لی اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کی طرف سے خود اپنے دست مبارک پر دوسرا ہاتھ رکھ کر بیعت لی، یہ حضرت عثمان ؓ کے تاج فخر کا وہ طرۂ شرف ہے جوان کے علاوہ اورکسی کے حصہ میں نہ آیا۔ ایک دفعہ ایک خارجی نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا، کیا یہ سچ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بیعت رضوان نہیں کی، آپ نے جواب دیا کہ ہاں عثمان ؓ اس وقت موجود نہ تھے مگر اس ہاتھ نے ان کی طرف سے قائم مقامی کی جس سے بہتر کوئی دوسرا ہاتھ نہیں، [56]لیکن درحقیقت یہ بیعت تو حضرت عثمان بن عفان ؓ کے خون کے انتقام کے لیے منعقد ہوئی تھی، اس سے بڑھ کر شرف اور کیا ہو سکتا ہے، آخر میں مشرکین قریش نے مسلمانوں کے جوش سے خائف ہوکر مصالحت کرلی اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال بغیر عمرہ کیے اپنے فدائیوں کے ساتھ مدینہ واپس چلے آئے۔ 7ھ میں معرکۂ خیبر پیش آیا، پھر 8ھ میں مکہ فتح ہوا، اسی سال ہوازن کی جنگ ہوئی جو غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام معرکوں میں شریک رہے۔[57] ،[58][59]
9ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، اس کا تدارک ضروری تھا؛لیکن یہ زمانہ نہایت عسرت اور تنگی کا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت تشویش ہوئی اور صحابہ کرام ؓ کو جنگی سامان کے لیے زرومال سے اعانت کی ترغیب دلائی، اکثر لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، حضرت عثمان بن عفان ؓ ایک متمول تاجر تھے، اس زمانہ میں ان کا تجارتی قافلہ ملک شام سے نفع کثیر کے ساتھ واپس آیا تھا، اس لیے انھوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات تنہا اپنے ذمہ لے لیے، ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوہ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے، اس بنا پر گویا حضرت عثمان بن عفان ؓ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کے لیے سامان مہیا کیا اور اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کے لیے ایک ایک تسمہ تک ان کے روپے سے خریدا گیا تھا، اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامان رسد کے لیے ایک ہزار دینار پیش کیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے:ماضر عثمان ما عمل بعد ھذاالیوم (آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا)۔ [60] 10ھ میں سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہے، حضرت عثمان بن عفان ؓ بھی ہمرکاب تھے، حج سے واپس آنے کے بعد ماہ ربیع الاول 11ھ کی ابتدا میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بارہویں ربیع الاول دوشنبہ کے دن رہگزین عالم جاوداں ہوئے۔ [61][62]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت ہوئی، خلافت صدیقی میں حضرت عثمان ؓ مجلس شوریٰ کے ایک معتمد رکن تھے، سوا دو برس کی خلافت کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بھی رحلت فرمائی اور حضرت ابوبکر ؓ کی وصیت اور عام مسلمانوں کی پسندیدگی سے حضرت فاروق اعظم ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے، حضرت عمر ؓ کے استخلاف کا وصیت نامہ حضرت عثمان بن عفان ؓ ہی کے ہاتھ سے لکھا گیا تھا، اس سلسلہ میں یہ بات لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ وصیت نامہ کے دوران میں کتابت میں کسی خلیفہ کا نام لکھانے سے قبل حضرت ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی، حضرت عثمان ؓ نے اپنی عقل وفراست سے سمجھ کر اپنی طرف سے حضرت عمرؓ بن خطاب کا نام لکھ دیا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ہوش آیا تو پوچھا کہ پڑھو کیا لکھا؟ انھوں نے سنانا شروع کیا اور جب حضرت عمر ؓ کا نام لیا تو حضرت ابوبکر صدیق بے اختیار اللہ اکبر پکار اُٹھے اور عثمان بن عفان ؓ کی اس فہم و فراست کی بہت تعریف و توصیف کی۔ [63] تقریباً ًدس برس خلافت کے بعد 23ھ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بھی سفر آخرت اختیار کیا، مرض الموت میں لوگوں کے اصرار سے عہد خلافت کے لیے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا کہ ان میں سے کسی کو منتخب کر لیا جائے، علی ؓ، عثمان ؓ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ، عبد الرحمن بن عوف ؓ اور تاکید کی کہ تین دن کے اندر انتخاب کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ [64] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تجہیز و تکفین کے بعد انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا اور دو دن تک اس پر بحث ہوتی رہی ؛لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا، آخر تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں میں دائر ہے؛ لیکن اس کو تین شخصوں تک محدود کر دینا چاہیے اور جو اپنے خیال میں جس کو مستحق سمجھتا ہوا اس کا نام لے، حضرت زبیر بن عوام ؓ نے حضرت علی مرتضی ؓ کی نسبت رائے دی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا نام لیا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا میں اپنے حق سے باز آتا ہوں، اس لیے اب یہ معاملہ صرف دو آدمیوں میں منحصر ہے اور ان دونوں میں سے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، اس کے بعد علاحدہ علاحدہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ دونوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دیدیں، اس پر ان دونوں کی رضا مندی لینے کے بعد عبد الرحمن بن عوف ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ مسجد میں جمع ہوئے، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے ایک مختصر ؛لیکن مؤثر تقریر کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس کے بعد علی بن ابی طالب ؓ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا بیعت کرنا تھا کہ تمام حاضرین بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے، غرض چوتھی محرم24ھ دوشنبہ کے دن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اتفاق عام کے ساتھ مسند نشین خلافت ہوئے اور دنیائے اسلام کے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ [65][66][67] .[68]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں شام، مصر اور ایران کو فتح کر کے ممالک محروسہ میں شامل کر لیا تھا ، نیز ملکی نظم ونسق اور طریقہ حکمرانی کا ایک مستقل دستور العمل بنادیا تھا، اس لیے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے لیے میدان صاف تھا، انھوں نے صدیق اکبر ؓ کی نرمی وملاطفت اورفاروق اعظم ؓ کی سیاست کو اپنا شعار بنایا اور ایک سال تک قدیم طریق نظم ونسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا، البتہ خلیفہ سابق کی وصیت کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص کو مغیرہ بن شعبہ کی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا، [69]، یہ پہلی تقرری تھی جو حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔ 24ھ میں بعض چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آئے، یعنی آذربیجان اور آرمینیہ پر فوج کشی ہوئی کیونکہ وہاں کے باشندوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی وفات سے فائدہ اٹھا کر خراج دینا بند کر دیا تھا، اسی طرح رومیوں کی چھیڑ چھاڑ کی خبر سن کر حضرت عثمان ؓ نے کوفہ سے سلمان بن ربیعہ کو چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ امیر معاویہ ؓ کی مدد کے لیے شام روانہ کیا۔ عہد فاروقی میں مصر کے والی عمرو بن العاص تھے اور تھوڑا سا علاقہ جو صعید کے نام سے مشہور ہے عبد اللہ بن ابی سرح کے متعلق تھا، مصر کے خراج کی جو رقم دربار خلافت کو بھیجی جاتی تھی، حضرت عمر ؓ ہی کے زمانہ سے اس کی کمی کے متعلق شکایت چلی آتی تھی اس لیے حضرت عثمان ؓ نے مصری خراج کا اضافہ کا مطالبہ کیا، عمروبن العاص نے کہلا بھیجا کہ اونٹنی اس سے زیادہ دودھ نہیں دے سکتی، اس پر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ان کو معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو پورے مصر کا گورنر بنادیا، مصریوں پر عمرو بن العاص کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی، اس لیے ان کی برطرفی سے ان کے دلوں میں مصر پر دوبارہ قبضہ کا خیال پیدا ہوا، 25 ھ میں ان کی شہ پاکر اسکندریہ کے لوگوں نے بغاوت کردی، حضرت عثمان ؓ نے مصر والوں کے مشورہ سے اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے عمرو بن العاصؓ ہی کو متعین کیا، انھوں نے حسن تدبیر سے اس بغاوت کو فرو کیا، اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے چاہا کہ فوج کا صیغہ عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس رہے اور مال و خراج کے صیغے عبد اللہ بن ابی سرح کے سپرد رہیں، مگر عمر وبن العاص ؓ نے اسے منظور نہ کیا، یعقوبی نے لکھا ہے کہ عمرو بن العاص ؓ نے باغیوں کے اہل و عیال کو لونڈی غلام بناڈالا تھا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس پر ناراضی ظاہر فرمائی اور جو لوگ لونڈی غلام بنائے گئے تھے، ان کو آزاد کرا دیا، [70] اس کے بعد دو برس تک عمر وبن العاص مصر کے مال و خراج کے افسر رہے، اسی سال عبد اللہ بن ابی سرح ؓ نے دربار خلافت کے حکم سے طرابلس(ٹریپولی) کی مہم کا انتظام کیا، نیز امیر معاویہ ؓ ایشیائے کوچک میں شامی سرحدوں کے قریب کے دو رومی قلعے فتح کرلئے۔ 26ھ میں سب سے اہم واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی معزولی ہے، اس کا سبب یہ ہوا کہ انھوں نے بیت المال سے ایک لمبی رقم قرض لی تھی، حضرت عبد اللہ ابن مسعود مہتمم بیت المال نے تقاضا کیا تو سعد نے ناداری کا عذر کیا اور یہ قضیہ دربار خلافت تک پہنچا، بیت المال میں اس قسم کا تصرف دیانت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عثمان ؓ نے حضرت سعد بن وقاص پر نہایت برہم ہوئے اور ان کو معزول کرکے ولید بن عقبہ ؓ کو والی کوفہ مقرر کیا، عبد اللہ بن مسعود ؓ پر بھی خفگی ظاہر کی ؛لیکن چونکہ ان کی غلطی صرف بے احتیاطی تھی، اس لیے ان کو ان کے عہدہ سے نہیں ہٹایا۔ 27ھ میں مصر کی دو عملی میں اختلاف شروع ہوا اور عبد اللہ بن ابی سرح اور عمرو بن العاص نے جو فوجی اور مالی صیغوں کے افسر تھے دربار خلافت میں ایک دوسرے کی شکایت کی، حضرت عثمان ؓ نے تحقیقات کرکے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کر دیا اور عبد اللہ بن ابی سرح کو مصر کے تمام صیغوں کا تنہا مالک بنا دیا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس فیصلہ سے نہایت کبیدہ ہوئے اور مدینہ چلے گئے، عمرو بن العاص ؓ کے زمانہ میں مصر کا اخراج 20 لاکھ تھا، عبد اللہ ابن ابی سرح نے کوشش کرکے چالیس لاکھ کر دیا، حضرت عثمان ؓ نے فخریہ عمرو بن العاص ؓ سے کہا دیکھو! آخر اونٹنی نے دودھ دیا انھوں نے جواب دیا کہ ہاں دودھ تو دیا ؛لیکن بچے بھوکے رہ گئے۔ [71][72][73][74]
مہم طرابلس کا اہتمام تو 25ھ ہی میں ہوا تھا ؛لیکن باقاعدہ فوج کشی 27ھ میں ہوئی، عبد اللہ بن ابی ؓ سرح گورنر مصر افسر عام تھے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دارالخلافت سے بھی ایک لشکر جرار کمک کے لیے روانہ کیا جن میں حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ اسلامی فوجیں مدت تک طرابلس کے میدان میں معرکہ آراء رہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی شجاعت، جاں بازی اور ثبات واستقلال کے آگے اہل طرابلس کے پاؤں اکھڑ گئے، عبد اللہ بن ابی سرح ؓ نے فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکر تمام ممالک میں پھیلا دیے، طرابلس کے امرا نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے تو عبد اللہ بن ابی سرح کے پاس آکر پچیس لاکھ دینار پر مصالحت کرلی۔ [75][76]
افریقیہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اور مراکش کہا جاتا ہے، یہ ممالک 26ھ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمت و شجاعت اور حسن تدبیر سے فتح ہوئے، اس سلسلہ میں بڑے بڑے معرکے پیش آئے اور بالآخر کامیابی اسلامی فوج کو حاصل ہوئی اور یہ علاقے بھی ممالک محروسہ میں شامل ہوئے۔[77]
افریقیہ کی فتح کے بعد اسپین کا دروازہ کھلا؛چنانچہ 27ھ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور عبداللہ بن نافع بن عبد قیس اور عبد اللہ بن نافع بن حصین دو صاحبوں کو اس مہم کے لیے نامزد کیا، جنھوں نے کچھ فتوحات حاصل کیں؛لیکن پھر مستقل مہم روک دی گئی اور عبد اللہ بن ابی سرح ؓ مصر واپس بھیجے گئے اور عبد اللہ بن نافع بن عبد قیس افریقیہ کے حاکم مقرر کیے گئے۔[78]
حضرت عثمان بن عفان ؓ نے عبد اللہ بن ابی سرح سے وعدہ کیا کہ افریقیہ کی فتح کے صلہ میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان کو انعام دیا جائے گا، اس لیے عبد اللہ نے اس وعدہ کے مطابق اپنا حصہ لے لیا ؛لیکن عام مسلمانوں نے حضرت عثمان ؓ کی اس فیاضی پر ناپسندید گی کا اظہار کیا، حضرت عثمان ؓ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے عبد اللہ بن ابی سرح سے اس رقم کو واپس کرادیا اورفرمایا کہ میں نے بے شک وعدہ کیا تھا؛لیکن مسلمان اس کو تسلیم نہیں کرتے، [79]اس لیے مجبوری ہے۔ ایک اور روایت ہے کہ افریقیہ کا خمس مدینہ بھیجا گیا تھا جو مروان بن حکم کے ہاتھ پانچ لاکھ دینار میں بیچا گیا تھا، ابن اثیر نے ان دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ عبد اللہ ابن ابی سرح کو افریقہ کے پہلے غزوہ شاید طرابلس کے مالِ غنیمت کا خمس دیا گیا تھا اور مروان کے ہاتھ پورے افریقہ کی غنیمت کا خمس بیچا گیا تھا۔
قبرص جس کو اب سائپرس کہتے ہیں بحر روم میں شام کے قریب ایک نہایت زرخیز جزیرہ ہے اور یورپ اور روم کی طرف سے مصر و شام کی فتح کا دروازہ ہے اور مصر و شام کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہو سکتی تھی اور نہ رومیوں کا خطرہ اس وقت تک دور ہو سکتا تھا جب تک یہ بحری ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو، اس لیے امیر معاویہ ؓ نے عہد فاروقی ہی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی، مگر حضرت عمر ؓ بحری جنگ کے خلاف تھے اس لیے انکار کر دیا، اس کے بعد 28ھ میں امیر معاویہ ؓ نے پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ سے اصرار کے ساتھ قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اطمینان دلایا کہ بحری جنگ کو جس قدر خوفناک سمجھا جاتا ہے، اس قدر خوفناک نہیں ہے، حضرت عثمان ؓ نے لکھا کہ اگر تمھارا بیان صحیح ہے تو حملہ میں مضائقہ نہیں؛لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اپنی خوشی سے شرکت کرے، اس اجازت کے بعد عبد اللہ بن قیس حارثی کی زیر قیادت اسلامی بحری بیڑا قبرص پر حملہ کے لیے روانہ ہوا اور صحیح وسلامت قبرص پہنچ کر لنگر انداز ہوا، عبد اللہ بن قیس امیر البحر ناگہانی طور پر شہید ہوئے؛لیکن سفیان بن عوف ازدی نے علم سنبھال کر اہل قبرص کو مغلوب کیا اورشرائط ذیل پر مصالحت ہوئی۔ (1)اہل قبرص سات ہزار (7000) دینار سالانہ خراج ادا کریں گے۔ (2)مسلمان قبرص کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ (3)بحری جنگوں میں اہل قبرص مسلمانوں کے دشمنوں کی نقل وحرکت کی ان کو اطلاع دیا کریں گے۔ [80] اہل قبرص کچھ دنوں تک اس معاہدہ پر قائم رہے؛لیکن 33ھ میں انھوں نے اس کے خلاف رومی جہازوں کو مدد دی، اس لیے امیر معاویہ ؓ نے دوبارہ قبرص پر فوج کشی کی اور اس کو فتح کرکے ممالک محروسہ میں شامل کر لیا[81] اور منادی کرادی کہ آئندہ سے یہاں کے باشندے رومیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں۔[82]
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ عہد فاروقی سے بصرہ کی ولایت پر مامور تھے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے زمانہ میں چھ برس تک ان کو اس منصب پر برقرار رکھا لیکن یہاں ایک بڑی جماعت ہمیشہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی مخالفت پر آمادہ رہتی تھی؛چنانچہ حضرت عمر ؓ کے عہد میں بارہا ان کی شکایتیں پہنچیں، مگر فاروقی رعب وداب نے مخالفین کو ہمیشہ دبائے رکھا، حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں ان کو آزادی کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے خلاف سازش پھیلانے کا موقع مل گیا، اسی اثناء میں کردوں نے بغاوت کردی،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے مسجد میں جہاد کا وعظ کیا اور راہ میں پیادہ پا چلنے کے فضائل بیان کیے، اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مجاہدین جن کے پاس گھوڑے موجود تھے وہ بھی پیادہ پا چلنے پر تیار ہو گئے؛لیکن چند آدمیوں نے کہا کہ ہم کو جلدی نہ کرنا چاہیے، دیکھیں ہمارا والی کس شان سے چلتا ہے؟چنانچہ صبح کے وقت دارالامارۃ کے قریب مجاہدین کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسیٰ اس شان سے نکلے کہ ایک ترکی نسل کے گھوڑے پر سوار تھے اور چالیس خچروں پر ان کا اسباب وسامان تھا، لوگوں نے بڑھ کر باگ پکڑلی اور کہا ‘‘قول و فعل کا یہ اختلاف کیسا؟ دوسروں کو جس چیز کی ترغیب دیتے ہو اس پر خود کیوں عمل نہیں کرتے؟‘‘حضرت ابوموسیٰ ؓ اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے اور اسی وقت ایک جماعت شکایت لے کر مدینہ پہنچی اور ان کی معزولی کا مطالبہ کیا، حضرت عثمان ؓ نے 29ھ میں ان کو معزول کر دیا اور عبد اللہ بن عامر کو اس منصب پر مامور کیا، [83][84]
30ھ میں عبد اللہ بن عامر ؓ بصرہ کے نئے والی اور سعید بن عاص ؓ نے دو مختلف راستوں سے خراسان اور طبرستان کا رخ کیا سعید بن عاص کے ساتھ امام حسن ؓ، امام حسین ؓ، عبد اللہ بن عباس ؓ، عبد اللہ بن عمر ؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ اور عبداللہ بن زبیر ؓ جیسے اکابر شریک تھے، ان لوگوں نے پیش قدمی کرکے عبد اللہ بن عامر ؓ کے پہنچنے سے پہلے جاجان، خراسان اور طبرستان کو فتح کر لیا، [85]اسی اثنا میں ولید بن عقبہ والی کوفہ کے خلاف ایک سازش ہوئی اور ان پر شراب خوری کا الزام لگایا گیا، یہ الزام ایسا تھا کہ حضرت عثمان ؓ کو انھیں معزول کرنا پڑا اوران کی جگہ سعید بن عاص ؓ کوفہ کے والی مقرر ہوئے۔ عبد اللہ بن عامر ؓ نے اپنی مہم کو جاری رکھا اور ہرات، کابل اور سجستان کو فتح کرکے نیشا پور کارخ کیا، بست، اشندورخ، خواف، اسبرائن، ارغیان وغیرہ فتح کرتے ہوئے خاص شہر نیشاپور کا رخ کیا، اہل نیشا پور نے چند مہینوں تک مدافعت کی ؛لیکن پھر مجبور ہوکر سات لاکھ درہم سالانہ پر مصالحت کرلی۔ عبد اللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہنے نیشا پور کے بعد عبد اللہ بن خازم کو سرخس کی طرف روانہ کیا اور خود ماوراء النہر کی طرف بڑھے، سرخس کے باشندوں نے اطاعت قبول کرلی، اہل ماوراء النہر نے بھی مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور بہت سے گھوڑے، ریشمی کپڑے اور مختلف قسم کے تحائف لے کر حاضر ہوئے، عبد اللہ بن عامرؓ نے صلح کرلی اورقیس بن الہثیم کو اپنا قائم مقام بنا کر خود اسباب وسامان کے ساتھ دار الخلافہ کا رخ کیا۔ [86][87]
31ھ میں قیصر روم نے ایک اعظیم الشان جنگی بیڑا جس میں تقریباً پانچ سو جہاز تھے سواحل شام پر حملہ کے لیے بھیجا ، مورخین کا بیان ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایسی عظیم الشان قوت کا مظاہرہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا، امیر البحر عبد اللہ بن ابی سرح نے مدافعت کے لیے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اور سطح سمند پر دونوں آپس میں مل گئے، دوسری صبح کو مسلمانوں نے اپنے کل جہاز ایک دوسرے سے باندھ دیے اور فریقین میں نہایت خونریز جنگ ہوئی، بے شمار رومی مارے گئے، مسلمان بھی بہت سے شہید ہوئے ؛لیکن ان کے استقلال و شجاعت نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے اور ان کی بہت تھوڑی تعداد زندہ بچی، خود قسطنطین اس معرکہ میں زخمی ہوا اور اسلامی بیڑا مظفر و منصور اپنی بندر گاہ میں واپس آیا۔ [88]
قبرص، طرابلس اور طبرستان کے علاوہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اور بھی فتوحات ہوئیں،31ھ میں خبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں شامل کر لیا۔ [89] 32 ھ میں امیر معاویہ ؓ تنگنائے قسطنطنیہ تک بڑھتے چلے گئے، 32ھ میں عبد اللہ بن عامرؓ نے مرورود، طالقان، فاریاب اور جوزجان کو فتح کیا، 33ھ میں امیر معاویہ ؓ نے ارض روم میں حصن المرأۃ پر حملہ کیا، اسی سال اہل خراسان نے بغاوت کی عبد اللہ بن عامرؓ والی بصرہ نے احنف بن قیس کو بھیج کر اسے فرو کرایا، اسی طرح 34ھ میں اہل طرابلس نے نقض امن کیا، عبد اللہ بن ابی سرح نے ایک لشکر جرار کے ساتھ چڑھائی کرکے انھیں قابو میں کیا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؓ کے دوازدہ سالہ خلافت میں ابتدائی چھ سال کامل امن وامان سے گذرے، فتوحات کی وسعت، مال غنیمت کی فراوانی، وظائف کی زیادتی، زراعت کی ترقی اور حکومت کے عمدہ نظم ونسق نے تمام ملک میں تمول، فارغ البالی اور عیش وتنعم کو عام کر دیا، یہاں تک کہ بعض متقشف صحابہ ؓ ایام نبوت کی سادگی اور بے تکلفی کو یاد کرکے اس زمانہ کی ثروت اور سامان تعیش کو دیکھ کر حددرجہ غمگین تھے کہ اب مسلمانوں کے اس دنیاوی رشک وحسد کا وقت آگیا جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی؛چنانچہ حضرت ابوذر غفاری ؓ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح الاسلام کاخطاب دیاتھا، علانیہ اس کے خلاف وعظ کہتے تھے اور فرماتے تھے کہ ضرورت سے زیادہ جمع کرنا ایک مسلمان کے لیے ناجائز ہے، شام کا ملک جس کے حاکم امیر معاویہ ؓ تھے اور جو صدیوں تک رومی تعیش و تکلفات کا گہوارہ رہ چکا تھا وہاں کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ برائیاں پیدا ہو رہی تھیں، حضرت ابوذر غفاری ؓ بر ملاان امرا اور دولت مندوں کے خلاف وعظ کہتے تھے جس سے نظام حکومت میں خلل پڑتا تھا، اس لیے امیر معاویہ ؓ کی استدعا پرحضرت عثمان ؓ نے ان کو مدینہ بلوالیا، مگر اب مدینہ بھی وہ اگلا مدینہ نہ رہا تھا، بیرونی لوگوں کے بڑے بڑے محل تیار ہو چکے تھے، اس لیے حضرت ابوذر ؓ نے یہاں سے بھی دل برداشتہ ہوکر ربذہ نام کے ایک گاؤں میں اقامت اختیار کیا۔ حضرت عثمان ؓ کے آخری زمانہ میں جو فتنہ وفساد برپا ہوا اس کی حقیقت یہی ہے کہ دولتمندی اور تمول کی کثرت نے مسلمانوں میں بھی اس کے وہ لوازم پیدا کر دیے جو ہر قوم میں ایسی حالت میں پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر ان کے ضعف اور انحطاط کاسبب بن جاتے ہیں، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ "لااخاف علیکم الفقربل اخاف علیکم الدنیا"، مجھے تمھارے فقر وفاقہ سے کوئی خوف نہیں ہے؛بلکہ تمھاری دولت دنیاوی ہی کے خطرات سے ڈرتا ہوں، تمول اور دولت کی کثرت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کل قوم کے فوائد کے مقابلہ میں ہرجماعت اور ہر فرد اپنے جماعتی اور شخصی فوائد کو ترجیح دینے لگتا ہے، جس سے بغض وعناد پیدا ہو جاتا ہے، قومی وحدت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور انحطاط کا دور شروع ہو جاتا ہے؛لیکن اس کے علاوہ اس فتنہ وفساد کی پیدائش کے بعض اور اسباب بھی تھے۔ (1)سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی وہ نسل جو فیض نبوت سے براہ راست مستفیض ہوئی تھی ختم ہو چکی تھی جو لوگ موجود تھے وہ اپنی کبرسنی کے سبب سے گوشہ نشین ہو رہے تھے اور ان کی اولاد ان کی جگہ لے رہی تھی، یہ نوجوان زہد و اتقاء عدل وانصاف حق پسندی و راستبازی میں اپنے بزرگوں سے کمتر تھے، اس بنا پر رعایا کے لیے ویسے فرشتہ رحمت ثابت نہ ہوئے جیسے ان کے اسلاف تھے۔ (2)حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مشورہ اور مسلمانوں کی پسندیدگی سے امامت و خلافت کے لیے قریش کا خاندان مخصوص ہو گیا تھا اور بڑے بڑے عہدے بھی زیادہ تر انھی کو ملتے تھے،نوجوان قریشی اس کو اپنا حق سمجھ کر دوسرے عرب قبیلوں کو اپنا محکموم سمجھنے لگے، عام عرب قبائل کا دعویٰ تھا کہ ملک کی فتوحات میں ہماری تلواروں کی بھی کمائی ہے، اس لیے وظائف، منصب اورعہدوں میں قریش اورہم میں مساوات چاہیے۔ (3)اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک اسلام کے زیرنگیں تھا جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں، ان محکوم قوموں کے دلوں میں قدرتاً مسلمانوں کے خلاف انتقام کا جذبہ موجود تھا؛لیکن ان کی قوت کے مقابلہ میں بے بس تھے، اس لیے انھوں نے سازشوں کا جال بچھایا جن میں سب سے آگے مجوسی اور یہودی تھے۔ (4)حضرت عثمان بن عفان ؓ فطرتاً نیک، ذی مروت اور نرم خو تھے، عموما ًلوگوں سے سختی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے، اکثر جرائم کو برد باری اور حلم سے ٹال دیا کرتے تھے، اس سے شریروں کے حوصلے بڑھ گئے۔ (5)حضرت عثمان بن عفان ؓ اموی تھے، اس لیے فطرتا ًان کے جذبات اپنے اہل خاندان کے ساتھ خیر خواہانہ تھے اور آپ ان کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے اور اپنے ذاتی مال سے ان کی امداد فرمایا کرتے تھے، شریرلوگوں نے اس کو یوں ملک میں پھیلایا کہ حضرت عثمان بن عفان سرکاری بیت المال سے ان کے ساتھ دادو دہش کرتے ہیں۔ (6)ہر امام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کارکن اور عمال اس کے مطیع اور فرماں بردار ہوں، اسلام کی دوسری نسل میں جواب پہلی نسل کی جگہ لے رہی تھی، امام وقت کی اطاعت کا وہ مذہبی جذبہ نہ تھا جو اول الذکر میں موجود تھا، ایسی حالت میں حضرت عثمان ؓ نظام خلافت کے قیام واستحکام کے لیے بنی امیہ میں سے زیادہ افراد لینے پر مجبور ہوئے۔ (7)مختلف محکوم قوموں کے شورش پسند اشخاص اس لیے انقلاب کے خواہاں تھے کہ شاید اس سے ان کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو۔ (8)غیر قوموں کے جو لوگ مسلمان ہو گئے تھے یا مسلمانوں نے غیر قوموں کی عورتوں سے جو شادیاں کرلی تھیں یا وہ باندیاں بنی تھیں ان کی اولاد یں بہت کچھ فتنہ کا باعث بنیں۔ ان مختلف الخیال جماعتوں کے اغراض ومقاصد پر نظر ڈالنے سے یہ بالکل نمایاں ہو جاتا ہے کہ اس فتنہ و انقلاب کے حقیقی اسباب یہی تھے جو اوپر مذکور ہوئے، مثلاً (1)بنوہاشم بنوامیہ کے عروج وترقی کو پسند نہیں کرتے تھے اور خلافت کے مناسب اور عہدوں کا سب سے زیادہ اپنے کو مستحق جانتے تھے۔ (2)عام عرب قبائل مناصب اور عہدوں اور جاگیروں کے استحقاق میں اپنے کو قریشیوں سے کم نہیں سمجھتے تھے، اس لیے وہ قریشی افسروں کے غرور تمکنت کو توڑنا اور اپنا جائز استحقاق اور مساوات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ (3)مجوسی چاہتے تھے کہ ایسا انقلاب پیدا کیا جائے جس میں ان کی مدد سے حکومت ایسے عام خاندان میں منتقل ہو جس سے وہ بہتر سے بہتر حقوق اور مراعات حاصل کرسکیں اور عام عربوں کے مقابلہ میں ان کا استحقاق کم نہ سمجھا جائے۔ (4)یہودی چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں ایسا افتراق پیدا کر دیا جائے کہ ان کی قوت پاش پاش ہو جائے۔ یہ اغراض مختلف تھیں اور ہرجماعت اپنی غرض کے لیے کوشش میں مصروف تھی، اس لیے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں، عمال کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور خود امیر المومنین کو بدنام کرنے کی کوشش شروع ہوئی، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ان فتنوں کو دبانا چاہا ؛لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی جس کا بجھانا آسان نہ تھا، فتنہ پردازوں کا دائرہ عمل روز بروز وسیع ہوتا گیا، یہاں تک کہ تمام ملک میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہو گئی تھی جس کا مقصد فتنہ وفساد تھا، کوفہ کی انقلاب پسند جماعتوں میں اشتر نخعی، ابن ذی الحبکہ، جندب، صعصہ، ابن الکوار، کمیل اورعمیر بن ضابی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، [90]ان لوگوں کا خیال تھا کہ امارت وریاست قریش کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، عام مسلمانوں نے ممالک فتح کیے ہیں، اس لیے وہ سب اس کے مستحق ہیں، سعید بن عاص والی کوفہ سے اس جماعت کوخاص طور پر عداوت تھی، ان کو بدنام کرنے کے لیے روز ایک نئی تدبیر اختراع کی جاتی تھی اورقریش کے خلاف ملک کو تیار کرنے کے لیے طرح طرح کے وسائل کام میں لائے جاتے تھے، اشراف کوفہ نے ان مفسدہ پردازویوں سے تنگ آکر امیرالمومنین سے التجا کی کہ خدا کے لیے جلد ان فتنہ جُو اشخاص سے کوفہ کو نجات دلائے، حضرت عثمان ؓ نے تقریباً دس آدمیوں کو جوا اس جماعت کے سرگروہ تھے، شام کی طرف جلاوطن کر دیا۔ [91] اسی طرح بصرہ میں بھی ایک فتنہ پرداز جماعت پیدا ہو گئی تھی، حضرت عثمان ؓ نے یہاں سے بھی کچھ آدمیوں کو ملک بدرکرادیا؛لیکن فتنہ کی آگ اس حد تک بھڑک چکی تھی کہ یہ معمولی چھینٹے اس کو بجھانہ سکے ؛بلکہ یہ انتقال مکانی اور بھی ان خیالات کی اشاعت کا سبب بن گئے اور پہلے جو آگ ایک جگہ سلگ رہی تھی وہ سارے ملک میں پھیل گئی۔ مصر سازش کا سب سے بڑا مرکز تھا، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے؛چنانچہ ایک یہودی النسل نو مسلم عبد اللہ بن سبانے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک مرکز پر متحد کر دیا اور اس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے اس نے مذہب میں عجیب وغریب عقائد اختراع کیے اور خفیہ طور پر ہر ملک میں اس کی اشاعت کی موجودہ شیعی فرقہ دراصل انہی عقائد پر قائم ہوا، مفسدین کی جماعت تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی اور ان میں سے ہر ایک کا مطمح نظر مختلف تھا اور آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں بھی ہر ایک کی نظر الگ الگ شخصیتوں پر تھی، اہل مصر حضرت علی ؓ کے عقیدت کیش تھے، اہل بصرہ حضرت طلحہ ؓ کے طرف دار تھے، اہل کوفہ حضرت زبیر ؓ کو پسند کرتے تھے، اہل عراق کی جماعت تمام قریش سے عداوت رکھتی تھی اور ایک جماعت سرے سے عربوں ہی کے خلاف تھی ؛لیکن امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کی معزولی اوربنوامیہ کی بیخ کنی پر سب باہم متفق تھے، عبد اللہ بن سبا کی حکمت عملی سے ان اختلافات سے قطع نظر کرکے سب کو ایک مقصد یعنی حضرت عثمان ؓ کی مخالفت پر متحد کر دیا اور تمام ملک میں اپنے داعی اور سفیر پھیلا دیے تاکہ ہر جگہ فتنہ کی آگ بھڑکا کر بے امنی پیدا کردی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے داعیوں کو حسب ذیل طریقوں پر عمل کی ہدایت کی : (1)بظاہر متقی وپرہیز گار بننا اورلوگوں کو وعظ وپند سے اپنا معتقد بنانا۔ (2)عمال کو دق کرنا اورہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔ (3)ہرجگہ امیر المومنین کی کنبہ پروری اور ناانصافی کی داستان مشتہر کرنا۔ ان طریقوں پر نہایت مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا، ولید بن عقبہ والی کوفہ پر شراب خوری کا الزام قائم کیا گیا اورحد بھی جاری کی گئی جو درحقیقت ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھا، اسی طرح حضرت ابوموسی اشعری ؓ والی بصرہ کی معزولی بھی جس کا ذکر آئندہ آئے گا انھی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔ 31 ھ میں جبکہ قیصر روم نے پانچ سوجنگی جہازوں کے عظیم الشان بیڑے کے ساتھ اسلامی سواحل پر حملہ کیا اورمسلمان بڑے خوف وہراس میں مبتلا ہو گئے اس وقت بھی یہ انقلاب پسند اپنی فتنہ انگیزی سے باز نہیں آئے اور محمد بن ابی حذیفہ ؓ اور محمد بن ابی بکر ؓ جو مفسدین کے دام تزویر میں پھنس چکے تھے، اسلامی بیڑے کے امیر البحر عبد اللہ بن ابی سرح ؓ کو ہرطرح دق کیا، نماز میں بے موقع تکبیریں بلند کرکے برہمی پیدا کرتے، عبد اللہ بن سعد کی علانیہ مذمت کرتے اور مجاہدین سے کہتے کہ تم رومیوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے جاتے ہو، حالانکہ اسلام کو خود مدینہ میں مجاہدین کی ضرورت ہے، لوگ تعجب سے کہتے کہ مدینہ میں کیا ضرورت ہے؟تو وہ حضرت عثمان ؓ کا نام لیتے اور کہتے کہ اس ظالم کو معزول کرنا اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے، اس نے سنت شیخین کو چھوڑدیا، کبارصحابہ کو معزول کرکے اپنے اعزہ واقارب کو سیاہ وسپید کا مالک بنادیاہے۔ غرض ہرطرح کی فریب کاریوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی، اسلامی بیڑا رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوا تو محمد بن ابی حذیقہ ؓ، محمد بن ابی بکؓر نے ایک کشتی پر سوار ہو کر بیڑے کا تعاقب کیا اور جہا ں جہاز لنگر انداز ہوتے وہ اپنی کشتی کو قریب لے کر کے اپنے خیالات کی اشاعت کرتے، مجاہدین رومی بیڑے کو شکست دے کر مظفر و منصور واپس آئے تو چند نے محمد بن ابی بکر ؓ اور محمد بن ابی حذیفہ کو جہاد سے پہلو تہی کرنے پر ملامت کی، انھوں نے کہا کہ ہم اس جہاد میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں جس میں انتظام عثمان بن عفان کے ایماء سے ہوا ہو؟اور جس کا امیر عبد اللہ بن سعد ہو، اس کے بعد حسب معمول حضرت عثمان ؓ کے معائب اور برائیوں کی طویل داستان شروع کردی [92]عبد اللہ بن سعد نے جب دیکھا کہ دونوں کسی طرح اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور ان کے مسموم خیالات آہستہ آہستہ اپنا اثر کر رہے ہیں تو نہایت سختی سے ان کو منع کیا اور کہاکہ خدا کی قسم اگرا میر المومنین کا خیال نہ ہوتا تو تمھیں اس مفسدہ پردازی کا مزہ چکھا دیتا۔ مدینہ منورہ بھی مفسدین سے خالی نہ تھا، کبار صحابہ حضرت عثمان کے ساتھ تھے اس لیے علانیہ اس جماعت کا کوئی اثر نہ ہوا، البتہ اخیر عہد یعنی 35ھ میں جس سال حضرت عثمان بن عفان ؓ شہید ہوئے مفسدین مدینہ اس قدر بے باک ہو گئے کہ بیرونی مفسدوں کی مددسے ان کو خود امیر المومنین پر بھی دست ستم دراز کرنے کی جرأت ہو گئی؛چنانچہ ایک دفعہ جمعہ کے روز حضرت عثمان ؓ منبر پر خطبہ دے رہے تھے، ابھی حمدوثنا ہی شروع کی تھی کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا‘‘عثمان! کتاب اللہ کو اپنا طرز عمل بنا’’لیکن صبر وتحمل کے اس پیکرنے نرمی سے کہا بیٹھ جاؤ دوسری مرتبہ کھڑے ہو کر پھر اس نے اسی جملہ کا اعادہ کیا، حضرت عثمان ؓ نے ہر بار نرمی سے بیٹھنے کو فرمایا ؛لیکن اس کی سازش پہلے سے ہو چکی تھی، ہر طرف سے مفسدین نے نرغہ کر لیا اور اس قدر سنگریزے اور پتھروں کی بارش کی کہ نائب رسول زخموں سے چور چور ہوکر منبر سے فرش خاک پر گر پڑا، مگر صبر وتحمل کا یہ عالم تھا کہ اس بے ادبی پر بھی جذبہ غیظ و غضب کو ہیجان نہ ہوا۔ [93] غرض مختلف عناصر نے مل کر افترا پردازیوں اور کذب بیانیوں سے اس طرح حضرت عثمان ؓ کو بدنام کرنے کی کوشش کی اورآپ کی مخالفت کا صورا اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ اتنی طویل مدت کے بعد اس زمانہ میں بھی بہت سے تعلیم یافتہ حضرات جو واقعات کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے، ان غلط بیانیوں اور فریب کاریوں سے متاثر نظر آتے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر تمام اعتراضات کو قلمبند کرکے اصل واقعات کوبے نقاب کر دیا جائے۔ اس وقت تک حضرت عثمان ؓ پر جس قدر اعتراضات کیے گئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے: (1)کبارصحابہ مثلاً حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ، مغیرہ بن شعبہ ؓ، عمرو بن عاص ؓ، عمار بن یاسر ؓ عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبد الرحمن بن ارقم کو معزول کرکے خاص اپنے کنبہ کے نا اہل اور ناتجربہ کار افراد کو مامور کیا۔ (2)بیت المال میں بے جاتصرف کیا اور مسرفانہ طریقہ پر اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ سخاوت کا اظہار کیا، مثلاً حکم بن العاص ؓ کو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں جلاوطن کر دیا تھا مدینہ آنے کی اجازت دی اور بیت المال سے ایک لاکھ درہم عطا کیے اور اس کے لڑکے حارث کو اجازت دی کہ بازار میں جو فروخت ہو اس کی قیمت سے اپنے لیے عشر وصول کرے، مروان کو افریقہ کے مال غنیمت کا خمس دیا گیا، اسی طرح عبد اللہ ابن خالد ؓ کو تین لاکھ درہم کا گرا نقدر عطیہ مرحمت کیا اور خود اپنی صاحبزادیوں کو بیت المال کے قیمتی جواہرات عنایت فرمائے، حالانکہ فاروق اعظم ؓ نہایت شدت کے ساتھ اس قسم کے تصرفات سے احتراز کیا تھا، اس کے علاوہ اپنے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کرایا اور مصارف کا تمام بار بیت المال پر ڈالا بیت المال کے مہتمم عبد اللہ بن ارقم ؓ اور معیقیب نے اس اسراف پر اعتراض کیا تو ان کو معزول کرکے زید بن ثابت ؓ کو یہ عہدہ تفویض کر دیا، ایک دفعہ بیت المال میں وظائف تقسیم ہونے کے بعد ایک لاکھ درہم پس انداز ہوئے، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے بے وجہ زید بن ثابت کو یہ گراں قدر رقم لینے کی اجازت دے دی۔ (3)عبد اللہ بن مسعود ؓ اور ابی ؓ کے روزینے بند کردئے۔ (4)مدینہ کے اطراف میں بقیع کو سرکاری چراگاہ قراردیا اور عوام کو اس سے مستفید ہونے سے روک دیا۔ (5)مدینہ کے بازار میں بعض اشیاء کی خرید وفروخت اپنے لیے مخصوص کرلی اورحکم دیا کہ کھجور کی گٹھلیاں امیر المومنین کے ایجنٹ کے سوا کوئی دوسرا نہیں خرید سکتا۔ (6)اپنے حاشیہ نشینوں اور قرابت داروں کو اطراف ملک میں نہایت وسیع قطعات زمین مرحمت فرمائے حالانکہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا تھا۔ (7)بعض کبار صحابہ کی تذلیل کی گئی اور ان کو جلاوطن کیا گیا، مثلاً ابوذر غفاری ؓ، عمار بن یاسر ؓ، جندب بن جنادہ ؓ، عبد اللہ بن مسعود ؓ، اورعبادہ بن ثابت ؓ کے ساتھ نہایت نامنصفانہ سلوک ہوا۔ (8)زیدبن ثابت ؓ کے تیار کردہ مصحف کے سوا تمام مصاحف کو جلادیا۔ (9)حدود کے اجرا میں تغافل سے کام لیا۔ (10)فرائض وغیرہ میں تمام امت کے خلاف روایات شاذہ پر عمل کیا گیا، حالانکہ شیخین جب تک روایات کی اچھی طرح توثیق نہیں کرلیتے تھے ان کو قبول نہیں کرتے تھے۔ (11)مذہب میں بعض نئی بدعتیں پیدا کیں جن کو اکثر صحابہ نے ناپسند کیا، مثلاً حج کے موقع پر منی میں دورکعت نماز کی بجائے چاررکعت نماز اداکی، حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شیخین نے کبھی دورکعت سے زیادہ نہیں پڑھی۔ (12)مصری وفد کے ساتھ بد عہدی کی گئی جس کا نتیجہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عثمان ؓ کے فردقرارداد جرم کو رنگ آمیزی کرکے نہایت بدنما اور مکروہ بنایاگیا ہے ؛لیکن اس میں سے ایک الزام بھی تحقیق کی کسوٹی پر صحیح نہیں اترتا، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس میں صداقت کا کتنا شائبہ ہے اوراس کو رنگ آمیزی سے کتنا بدنما بنادیا گیا ہے، سب سے پہلا الزام جو بجائے خود متعدد الزامات کا مجموعہ ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1)کبارصحابہ ؓ کو ذمہ داری کے عہدوں سے معزول کر دیا۔ (2)نااہل اورناتجربہ کارافراد کو رعایا کی قسمت کا مالک بنادیا۔ (3)اپنے خاندان کو فوقیت دی۔ امراول کی نسبت تحقیقی فیصلہ سے قطع نظر کرکے پہلے دیکھنا چاہیے کہ اگر یہ الزام ہے تو اسلام کے سب سے عادل اور مدبر خلیفہ فاروق اعظم ؓ پر جن کا عدل وانصاف اورتدبر دنیائے اسلام کے لیے قیامت تک مایہ ناز رہے گا، یہی الزام عائد ہوتا ہے یا نہیں؟ جنھوں نے حضرت خالد سیف اللہ ؓ، مغیرہ بن شعبہ ؓ، اورسعدوقاص فاتح ایران کو معزول کر دیا تھا یا حضرت علی ؓ اس اعتراض کے مورد ہوتے ہیں یا نہیں؟ جنھوں نے عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی تمام عمال عثمانی کو یک قلم موقوف کر دیا جن کی قوت بازونے طرابلس، آرمینیہ اورقبرس کو زیرنگیں کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے واقعات کسی خاص وقتی سبب کی بنا پر ایک شخص کے لیے موجب مدح اوردوسرے کے لیے موجب ذم بنادئے جاتے ہیں اور اس پر ایسی ملمع سازی کی جاتی ہے کہ کسی کو تحقیق وتنقید کا خیال تک نہیں آتا۔ حضرت عثمان ؓ نے کبار صحابہ میں سے جن لوگوں کو معزول کیا تھا ان میں سے عمر وبن العاص ؓ سعد بن ابی وقاص اورابو موسیٰ اشعری ؓ کی معزولی کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے، اس سے معلوم ہوگا کہ عمروبن العاص ؓ والی مصر نے اسکندریہ کی بغاوت فروکرنے میں ذمیوں کے ساتھ نامنصفانہ سلوک کیا تھا اور ان کو لونڈی غلام بنا لیا تھا، نیز نئی نہروں کے جاری ہونے کے باوجود وہ مصر کے مالیات میں کچھ اضافہ نہ کرسکے اورآخر عبد اللہ بن ابی سرح کی تقرری کے بعد اس سے کہیں زیادہ ہو گیا۔ اسی طرح سعد بن ابی وقاص ؓ والی کوفہ نے بیت المال سے ایک بیش قرار رقم قرض لی اورپھر اس کے ادا کرنے میں تساہل کرتے رہے، یہاں تک کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ مہتمم بیت المال سے سخت کلامی کی نوبت پہنچی، [94]ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ والی ٔ بصرہ رعایا کو خوش نہ رکھتے تھے اور تمام اہل بصرہ ان کے مخالف ہو گئے تھے؛ چنانچہ ان کے وفد نے درالخلافہ جاکر ان کی معزولی کا مطالبہ کیا، کیا یہ تمام وجوہ ان حضرات کو معزول کردینے کے لیے کافی نہ تھے؟ مغیرہ بن شعبہ پر رشوت ستانی کا الزام قائم کیا گیا، اگرچہ یہ سراسر بہتان تھا ؛لیکن حضرت عثمان ؓ نے ان کو اس لیے معزول کردیاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ سعدبن ابی وقاص ؓ کی تقرری کی وصیت کی تھی، [95]عمار بن یاسر ؓ کو حضرت عثمان ؓ نے معزول نہیں کیا تھا ؛بلکہ وہ عہد فاروقی ہی میں معزول ہو چکے تھے، البتہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معزولی بے وجہ تھی؛لیکن لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کو ان کی طرف سے اس قدر بدگمان کر دیا تھا کہ ان کو معزول کردینا ناگزیر ہو گیا، رہا بیت المال کے مہتمم عبد اللہ بن ارقم ؓ اور معیقیب کی سبکدوشی تو اس کے متعلق خود حضرت عثمان ؓ کا بیان موجود ہے جو انہو ں نے ان دونوں بزرگوں کی معزولی کے سلسلہ میں ایک جلسۂ عام میں دیا تھا۔ الا ان عبد اللہ بن ارقم لم یزل علی حرائتکم زمن ابی بکر وعمر الی الیوم وانہ کبروضعف وقد ولینا علمہ زیدبن ثابت "صاحبو!عبد اللہ بن ارقم ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ سے اس وقت تک آپ کی تقسیم وظائف کی خدمت انجام دیتے رہے ؛لیکن اب بوڑھے اور ضعیف ہو گئے ہیں اس لیے اس خدمت کو زید بن ثابت کے سپرد کر دیا ہے۔" ظاہر ہے کہ مال کی نگرانی کا کام جس قدر اہم اور مشکل ہے اس لحاظ سے اگرحضرت عثمان ؓ نے ان دونون کو جو ضعف اور پیری کے باعث اپنی خدمات کو باحسن وجوہ انجام نہیں دے سکتے تھے سبکدوش کر دیا اور اس عہدہ پر زید بن ثابت ؓ کو جو پڑھنے لکھنے اور حساب وکتاب میں خاص طورسے ممتاز تھے، مامور کیا تو کون سی خطاکی؟ امر دوم کی نسبت غورکرنا چاہیے کہ نااہل اور ناتجربہ کار افراد کی تقرری کا الزام کہاں تک درست ہے؟ اس میں شک نہیں کہ حضرت ولید بن عقبہ ؓ، سعید بن العاص ؓ، عبد اللہ بن ابی سرح ؓ اور عبد اللہ بن عامر اگرچہ صحابہ کرام اور فاروقی عمال کی طرح زہد واتقاء کے مالک نہ تھے، تاہم ان کے انتظامی کارنامے عظیم الشان فتوحات کسی طرح ان کو نااہل اور ناتجربہ کار نہیں ثابت کرتے، ولید بن عقبہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جزیرہ کے عامل رہ چکے تھے، [96] سعید بن العاص نے طبرستان اور آرمینیہ فتح کیا، [97] عبد اللہ بن ابی سرح نے طرابلس اورقبرس کو زیر نگیں کیا، [98]کیا ان کی یہ فتوحات ان کی ناتجربہ کاری کا ثبوت ہیں۔ عبد اللہ بن عامر والی بصرہ البتہ ایک کمسن نوجوان تھے ؛لیکن فطری لیاقت کوعمر کی کمی زیادتی سے کوئی تعلق نہیں، فتوحات کے سلسلہ میں اوپر گزرچکا ہے کہ اسی نوجوان نے کابل، ہرات، سبحستان اورنیشاپور کو اسلام کے زیرنگیں کیا تھا، غرض نااہل اورناتجربہ کار عمال کے تقرر کا الزام سراسرخلاف واقعہ ہے۔ البتہ امر سوم یعنی اپنے خاندان کے لوگوں کو ذمہ داری کے عہدوں پر مامور کرنے کا الزام ایک حد تک قابل غو رہے، اس میں شک نہیں کہ شیخین ؓ اس بارے میں نہایت محتاط تھے اورہر ایک شک وشبہ کے موقع سے بچتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ خلافت کے معاملات میں اپنے اعزہ واقارب کے لیے ہمیشہ کوتاہ دست رہے؛لیکن حضرت عثمان ؓ ایک سادہ طبع اورنیک نفس بزرگ تھے، مزاج میں اتنی پیش بینی نہ تھی، نیز اپنے اختیارات سے اپنے قرابت مندوں کو فائدہ پہنچانا صلۂ رحم جانتے تھے، ایک دفعہ جب لوگوں نے اس طرزِ عمل کی علانیہ شکایتیں کیں تو حضرت عثمان ؓ نے صحابہ ؓ کو جمع کیا اورخدا کا واسطہ دے کرپوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو تمام عرب پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور کیا قریش میں بنو ہاشم کا سب سے زیادہ خیال نہیں رکھتے تھے؟ لوگ خاموش رہے تو ارشاد فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی کنجی ہوتی تو تمام بنی امیہ کو اس میں بھردیتا، ([99]بہر کیف یہ امام وقت کی ایک اجتہادی رائے تھی، ممکن ہے کہ عام لوگ اس سے متفق نہ ہوں ؛لیکن اس سے حضرت عثمان ؓ کے فضل وکمال کا دامن داغدار نہیں ہو سکتا۔ دوسرا الزام بیت المال میں مسرفانہ تصرف کا ہے ؛لیکن ثبوت میں جن واقعات کو پیش کیا گیا ہے وہ یا تو سرتا پا غلط ہیں یا رنگ آمیزی کرکے ان کی صورت بدل دی گئی ہے، ہم تفصیل کے ساتھ ہر ایک واقعہ کو اس کی اصلی صورت میں دکھاتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ مفسدین نے کس طرح واقعات کی صورت کو مسخ کرکے حضرت عثمان ؓ کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی، اس سلسلہ میں سب سے اول ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ذاتی طور پر حضرت عثمان ؓ کی مالی حالت کیسی تھی؟ تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ اپنی ذاتی دولت سے اس قسم کی فیاضی اور جودو کرم پر قادر تھے یا نہیں؟ یہ مسلمہ تاریخی واقعہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں کہ حضرت عثمان صحابہ کرام میں سب سے زیادہ دولت مند اور متمول تھے، ان کی دولت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ہزارہا روپے بیررومہ کی خریداری پر صرف کیے، ایک بیش قرار رقم سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع کی اور لاکھوں روپے سے ‘‘جیش عسرت’’ کو آراستہ کیا، اب سوال یہ ہے کہ راہ خدا میں جس کے جو دوسخا کا یہ حال ہو وہ اپنی دولت سے ذوالقربی کے ساتھ کچھ صلہ رحم نہیں کرسکتا تھا؟ اس کے متعلق ایک موقع پر خودحضرت عثمان ؓ نے یہ تقریر فرمائی تھی جس سے اس الزام کی حقیقت پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے: قالو انی احب اھل بیتی واعطیہم فاما جی فانہ لم یمل معہم علی جوربل احمل الحقوق علیہم واھااعطاؤ ہم فانی مااعطیہم من مالی ولا استحل اھوال المسلمین لنفسی ولالاحدمن الناس ولاکنت اعطی العطیۃ الکبیرۃ الرغیبۃ من صلب مالی فی ازمان رسول اللہ وابی بکر وعمرؓ وانا یومشذ شحیح حریض افحین اتیت علی اسنان اھل بیتی وفنی عمری و ودعت الذی لی فی اھلی قال الملحدون ماقالواوانی واللہ ماحملت علی مصرمن الامصار فضلا فیجوز ذالک لمن قالہ ولقد رددتہ علیہم وماقدم علی الاالاخماس ولا یحل لی منھا شے فولی المسلمون وصنعھا فی اھلھا دونی ولایتلفت من مال اللہ بقلس مما فوقہ وما ابتلغ منہ مااکل الامن مالی۔ [100] ‘‘لوگ کہتے ہیں کہ مدینہ میں اپنے خاندان والوں سے محبت رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ فیاضی کرتا ہوں ؛لیکن میری محبت نے مجھے ظلم کی طرف مائل نہیں کیا ہے؛ بلکہ میں صرف ان کے واجبی حقوق اداکرتا ہوں اسی طرح فیاضی بھی اپنے ہی مال تک محدود ہے، مسلمانوں کا مال نہ میں اپنے لیے حلال سمجھتا ہوں اورنہ کسی دوسرے کے لیے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر وعمر ؓ کے عہد میں بھی اپنے مال سے گراں قدر عطیے دیا کرتا تھا، حالانکہ میں اس زمانہ میں بخیل وحریص تھا اور اب جبکہ میں اپنی خاندانی عمر کو پہنچ چکا ہوں، زندگی ختم ہو چکی ہے اور اپنا تمام سرمایہ اپنے اہل و عیال کے سپرد کر دیا ہے تو ملحد ین ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں، خدا کی قسم ! میں نے کسی شہر پر خراج کا کوئی بار ایسا نہیں ڈالا ہے کہ اس قسم کا الزام دینا جائز ہو اور جو کچھ وصول ہوا، میرے پاس صرف خمس آتا ہے اور اس میں سے بھی میرے لیے کچھ لینا جائز نہیں، مسلمانوں نے اس کو میرے مشورہ کے بغیر مستحقین میں صرف کیا، خدا کے مال میں ایک پیسہ کا تصرف نہیں کیا جاتا میں اس سے کچھ نہیں لیتا ہوں، یہاں تک کہ کھاتا بھی ہوں تو اپنے ہی مال سے۔’’ مذکورہ بالاتصریحات کے بعد اب ہم کو ان واقعات کی طرف رجوع کرنا چاہیے جن کی بنا پر ذوالنورین ؓ کی تابش ضیا کو غبار آلود کہاجاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کو جلاوطن کر دیا تھا ؛لیکن اخیر عہدمیں حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے مدینہ آنے کی اجازت دیدی تھی چونکہ شیخین کو ذاتی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری کا علم نہیں تھا اس لیے انھوں نے مدینہ آنے کی اجازت نہیں دی، جب حضرت عثمان ؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لی تو اپنے ذاتی علم کی بنا پرا ن کو مدینہ بلالیا[101]اوران کے لڑکے مروان سے اپنی ایک صاحبزادی کا نکاح کر دیا، اورصلہ رحم کے طور پر جیب خاص سے حکم کو ایک لاکھ درہم عطا فرمائے، نیز مروان کو جہیز میں ایک لاکھ درہم کا عطیہ مرحمت کیا، یہ ہے اصل واقعہ جس کو مفسدین نے رنگ آمیزی کرکے کچھ سے کچھ کر دیا، طرابلس کے مال غنیمت سے مروان کو خمس دلانے کا واقعہ سراسر بہتان ہے، اس کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ مروان نے اس کو خرید لیا تھا۔ چنانچہ مورخ ابن خلدون لکھتا ہے: وارسل ابن زبیر بالفتح والخمس فاشتراہ مروان بن حکم مخمس مائۃ الف دینار وبعض الناس یقول اعطاہ ایاہ ولایصح وانما اعطیٰ ابن ابی سرح خمس الخمس من الغزوۃ الاولیٰ [102] "ابن زبیر نے فتح کا مژدہ اور پانچواں حصہ دار الخلافہ روانہ کیا جس کو پانچ لاکھ دینار پر مروان نے خرید لیا اور بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مروان کودے دیا گیا صحیح نہیں ہے ؛بلکہ پہلے معرکہ کے مال غنیمت کے خمس کا خمس ابن ابی سرح کو دیدیا تھا۔" اب یہ اعتراض رہ جاتا ہے کہ کسی غزوہ کے مال غنیمت کا کوئی حصہ ابن ابی سرح کو دینے کا کیا واقعہ تھا ؛لیکن واقعہ یہ ہے کہ طرابلس کی جنگ کے قبل حضرت عثمان ؓ نے ابن ابی سرح سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم اس معرکہ میں کامیاب ہوئے تو مال غنیمت کے پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ تم کو دیا جائے گا؛چنانچہ فتح کے بعد حسب وعدہ ان کو دیدیا، اس سے عام مسلمانوں کوشکایت پیدا ہوئی اور انھوں نے حضرت عثمان ؓ سے اس کا اظہار کیا تو انھوں نے اس کو واپس لے لیا، طبری کے یہ الفاظ ہیں: فان رضیتم فقد جازوان سخطتم فھوروقالوا انانسخطہ قال فھورد وکتب الی عبد اللہ برذالک [103] "حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس پرراضی ہو تو ان کا ہو چکا اورتمہاری مرضی کے خلاف ہے تو واپس ہے، لوگوں نے کہا ہم راضی نہیں ہیں، فرمایا واپس ہے اورعبداللہ کو واپس کرنے کاحکم نامہ لکھ دیا۔" عبد اللہ بن خالد کو تین لاکھ کا عطیہ مرحمت فرمایا گیا؛لیکن اس کی نسبت خود حضرت عثمان نے مصری معترضین سے فرمایا تھا کہ میں نے بیت المال سے یہ رقم بطور قرض لی ہے، حارث بن حکم کو مدینہ کے بازار سے عشر وصول کرنے کا اخیتار دینا بالکل بے بنیاد ہے، اسی طرح اپنی صاحبزادیوں کو ہیرے جواہرات دینے کا جو قصہ صرف ابن اسحاق نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے اور چونکہ درمیانی راوی مجہول ہے، اس لیے قابل استناد نہیں۔ بیت المال کے صرف سے اپنے لیے محل تعمیر کرنے کا قصہ محض کذاب صریح ہے جو فیاض طبع اپنے ابر کرم سے دوسروں کو سیراب کرتا ہو اورجو اپنا مقررہ وظیفہ بیت المال سے لینا پسند نہ کرتا ہو وہ اپنے لیے عام مسلمانوں کا شرمندہ احسان ہونا کسی طرح گوارا کرتا۔ زید بن ثابت ؓ مہتمم بیت المال کو ایک لاکھ درہم دینے کی روایت بالکل بے بنیاد ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بیت المال میں اخراجات کے بعد ایک معقول رقم پس انداز ہوئی، حضرت عثمان ؓ نے زید بن ثابت ؓ کو حکم دیا کہ اس کو کسی رفاہ عام کے کام پر صرف کر دیں؛چنانچہ انھوں نے اس کو مسجد کی توسیع اورتعمیر میں صرف کر دیا، انشاء اللہ اس کا تفصیلی بیان تعمیرات کے سلسلہ میں آئے گا۔ (3)حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اورحضرت ابی ؓ کے وظائف کا بند کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں، امام وقت کو سیاسی وجوہ کی بنا پر اس قسم کے اختیارات حاصل ہیں، حضرت عثمان ؓ کو ان دونوں بزرگوں کی طرف سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی، اس لیے انھوں نے کچھ دنوں کے لیے وظیفہ روک دیا تھا؛چنانچہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے وفات پائی تو غایت انصاف سے کام لے کر جس قدر وظیفہ بیت المال کے ذمہ باقی تھا جس کی مقدار تخمینا ًبیس پچیس ہزار تھی ان کے ورثاء کے حوالہ کر دیا۔ [104] (4)چوتھا اعتراض بالکل بے معنی ہے، فوجی گھوڑوں اورزکوٰۃ کے اونٹوں کے لیے چراگاہیں بنوانا خلیفہ وقت کا منصبی فرض ہے، خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام بقیع کو چراگاہ قراردیا تھا، حضرت عمرؓ نے تمام ملک میں وسیع چراگاہیں تیارکرائی تھیں، عہد عثمانی میں قدرتاً گھوڑوں اوراونٹوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا، یہاں تک کہ صرف ایک چراگاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے، [105] اس لیے سرکاری چراگاہوں کا وسیع پیمانہ پر انتظام کرنا ضروری تھا اورچونکہ یہ تمام چراگاہیں سرکاری خرچ سے تیار ہوئی تھیں، اس لیے عوام کو اس سے مستفید ہونے کا کوئی حق نہ تھا، البتہ اگر الزام کی یہ صورت ہوکہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے ذاتی گھوڑوں اوراونٹوں کے لیے مقام بقیع کی چراگاہ کو مخصوص کر لیا تھا تو اس کے متعلق انھوں نے خود جن الفاظ میں اپنی برأت ظاہر کی ہے وہ اس بحث کے لیے کافی ہے۔ قالوا حمیت حمی وانی واللہ ماحمیت حمی قبلی واللہ ماحمواشیا لاحد الاما غلبہ علیہ اھل المدینۃ ثم لم یمنعوامن رعیۃ احدا وافتروا المصدقات المسلمین یجمعونھا لئلا یکون بین من یلیھا وبین احد الامن ساقہ ھما ومالی من بغیر غیروااحلتین ومالی ثاغیۃ ولا راعیۃ وانی قدولیت وانی اکثرالعرب بعیر اوشاء فمالی الیوم شاۃ ولا بغیر غیر بعیرین الحجی [106] ‘‘لوگ کہتے ہیں کہ تونے مخصوص چراگاہیں بنائی ہیں حالانکہ خدا کی قسم میں نے اسی کو مخصوص چراگاہ قراردیا ہے جو مجھ سے پہلے مخصوص ہو چکی تھی اورخدا کی قسم ان لوگوں سے وہی مخصوص چراگاہیں تیار کرائیں جن پر تمام اہل مدینہ غالب آئے، اس کے بعد چرانے سے کسی کو نہیں روکا اوراس کو مسلمانوں کے صدقہ پر محدودو کر دیا، اس لیے ان کو چراگاہ بنایا تاکہ والی صدقہ اورکسی کے درمیان میں نزاع نہ واقع ہو، پھر کسی کو نہ منع کیا نہ اس کو ہٹایا، بجز اس کے جس نے بطور ثبوت کے کوئی درہم دیا میرے پاس اس وقت دو اونٹوں کے سوا اورکوئی مویشی نہیں ہے حالانکہ جس وقت میں نے خلافت کا بارگراں اپنے سرلیا ہے تو میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اورآج ایک اونٹ اور ایک بکری تک نہیں ہے صرف حج کے لیے دو اونٹ رہ گئے ہیں۔’’ (5)بازار میں بعض اشیاء کی خریدو فروخت کو اپنے لیے مخصوص کرلینے کا قصہ بالکل غلط ہے، اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک جفا کار بادشاہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، البتہ کھجور کی گھٹلیوں کو زکوٰۃ کے اونٹوں کی خوراک کے لیے خرید نے کا انتظام کیا گیا ہوگا؛لیکن اس سے کوئی الزام عائد نہیں ہو سکتا۔ (6)اپنے حاشیہ نشینوں اوراہل قرابت کو اطراف ملک میں وسیع قطعات زمین مرحمت فرمانے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی صحیح کیفیت یہ ہے: عہد عثمانی میں بہت سے اہل یمن گھر اور جائداد چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کی راحت اور سہولت کے خیال سے نزول کی اراضی کا ان کی یمن کی جائداد سے تبادلہ کر لیا تھا، مثلاً حضرت طلحہ ؓ کو ایک قطعہ زمین دیا تو اس کے معاوضہ میں کندہ میں ان کی مملوکہ جائداد پر قبضہ کر لیا، انتظامی حیثیت سے اس قسم کا رد وبدل ناگزیر تھا۔ عراق میں بہت سی زمین غیر آباد پڑی ہوئی تھی جن لوگوں نے اس کو قابل زراعت بنایاحضرت عثمان نے من احبی ارضا میتۃ فھی لہ پر عمل کرکے ان کو اس کا مالک قرار دیا اورملک کو آباد اور قوم کو مرفہ الحال کرنے کے لیے اس قسم کی ترغیب وتحریص نہ صرف جائز ؛بلکہ ضروری ہے۔ (7)اگر حضرت عثمان ؓ نے اخلاقی یا سیاسی مصالح کی بناپر کسی صحابی کی تادیب کی تو اس سے اس کی تذلیل نہیں ہوئی، حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب ؓ پر کوڑا اٹھایا، عیاض بن غنم کا کرتا اترواکر بکریاں چرانے کودیں اور سعدوقاص ؓ کو درے مارے تو کسی نے اس کو تذلیل پر محمول نہیں کیا۔ حضرت ابوذر ؓ کو حضرت عثمان ؓ نے جلاوطن نہیں کیا تھا ؛بلکہ وہ خود تارک دنیا ہو گئے تھے؛چنانچہ جب حضرت عثمان ؓ نے تحقیقات کے لیے ان کو طلب کیا اور وہ دربار خلافت میں حاضر ہوئے تو حضرت عثمان ؓ نے پہلے فرمایا کہ آُ پ میرے پاس رہئے، آپ کے اخراجات کا میں کفیل ہوں ؛لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تمھاری دنیا کی مجھ کو ضرورت نہیں۔ [107] اسی طرح عبادہ بن صامت ؓ کے ساتھ بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا ؛بلکہ ان کی جلاوطنی کی روایت کے برخلاف ایک مستند روایت موجود ہے کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے آخری عہد تک شام میں تقسیم غنیمت کے عہد ہ پر مامور تھے، البتہ عمار بن یاسر ؓ، جندب بن جنادہ ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ کچھ سختیاں ہوئیں ؛لیکن اس کی ان سے تذلیل نہیں ہوئی۔ ایک مصحف کے سوا تمام مصاحف کے جلادینے کا الزام صرف ان لوگوں کے نزدیک قابل وقعت قرارپاسکتا ہے، جن کے دل بصیرت سے اورآنکھیں بصارت سے محروم ہیں، حضرت عثمان ؓ نے خود کوئی صحیفہ ترتیب دے کر پیش نہیں کیا ؛بلکہ فتنہ کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی حضرت ابوبکر ؓ نے جو مصحف تیار کرایا تھا اسی کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے مختلف امصارودیارمیں بھجوادیں اوراسی کی تسلیم پر تمام امت کو متفق کر دیا، یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس کے باراحسان سے امت محمدیہ کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی۔ (9)اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نہایت رحم دل اوررقیق القلب تھے ؛لیکن شرعی حدود کے اجرا میں انھوں نے کبھی تساہل سے کام نہیں لیا، جن واقعات کی بنا پر ان کو اجرائے حدود میں تغافل شعار بتایا جاتا ہے، ان کی تفصیل یہ ہے: (1)عبیداللہ بن عمر ؓ سے ہر مزان کا قصاص نہیں لیا گیا۔ (2)ولید بن عقبہ پر شراب خوری کی حد جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ ہرمزان کا واقعہ یہ ہے کہ جب فاروق اعظم ؓ کو ابولولو مجوسی نے شہید کیا توعبید اللہ بن عمر ؓ غضب ناک ہوکر قاتل کی لڑکی اورہرمزان کو جو ایک نومسلم ایرانی تھا قتل کر دیا ؛کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب سازش میں شریک تھے؛چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے جب عنان خلافت ہاتھ میں لی تو سب سے پہلے یہی مقدمہ پیش ہوا، آپ ؓنے صحابہ ؓ سے اس کے متعلق رائے طلب کی، حضرت علی ؓ نے عبید اللہ بن عمر کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کردینے کا مشورہ دیا، بعض مہاجرین نے کہا عمر ؓ کل قتل ہوئے اوران کا لڑکا آج ماراجائے گا؟عمروبن العاص نے کہا، امیر المومنین اگر آپ عبیداللہ کو معاف کر دیں گے تو امید ہے کہ خدا ٓپ سے باز پرس نہ کرے گا، غرض اکثر صحابہ ؓ عبید اللہ کے قتل کردینے کے خلاف تھے، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا چونکہ ہرمزان کا کوئی وارث نہیں ہے، اس لیے بحیثیت امیر المومنین میں اس کا والی ہوں اور قتل کی بجائے دیت پر راضی ہوں، اس کے بعد خود اپنے ذاتی مال سے دیت کی رقم دے دی، [108] حضرت عثمان ؓ نے جس عمدگی کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہے اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا؛ کیونکہ قبیلہ عدی کبھی ہرمزان کے قصاص میں عبید اللہ بن عمر ؓ کے قتل کو پسندید گی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اوردرحقیقت اسی وقت فتنہ وفساد کی آگ مشتعل ہوجاتی۔ ولید بن عقبہ والی کوفہ نے بادہ نوشی کی تو حضرت عثمان بن عفان ؓ نے فوراً معزول کر دیا ؛لیکن حد کے اجرا میں اس وجہ سے تاخیر ہوئی کہ گواہوں پر کامل اطمینان نہیں تھا، جب کافی ثبوت بہم پہنچ گیا تو پھر حد کے اجرا میں پس وپیش نہیں کیا گیا۔ [109] (10)یہ خیال کہ حضرت عثمان ؓ نے موثق روایات کو چھوڑ کر روایات شاذہ پر عمل کیا قطعی غلط ہے البتہ اجتہادی مسائل میں اختلاف آراء ہوااوریہ حضرت عثمان ؓ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ؛بلکہ تمام صحابہ ؓ میں اس قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ (11)مذہب میں اختراع بدعات کا الزام نہایت لغو اورسراسر کذب ہے، اتباع سنت حضرت عثمان بن عفان ؓ کا مقصد حیات تھا، منی میں دو کی بجائے چار رکعت نماز اداکرنا بھی دراصل ایک نص شرعی پر مبنی تھا؛چنانچہ جب صحابہ نے اس کو بدعت پر محمول کرکے اس پر ناپسندید گی کا اظہار کیا تو خود حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ایک مجمع میں چار رکعت نماز پڑھنے کی حسب ذیل وجہ بیان کی: یایھا الناس انی تاھلت بمکۃ منذ قدمت وانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من تاھل فی بلد فلیصل صلوٰۃ المقیر [110] ‘‘صاحبو!جب میں مکہ پہنچا تویہاں اقامت کی نیت کرلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو کسی شہر میں اقامت کی نیت کرے اس کو مقیم کی طرح نماز پڑھنی چاہیے۔ (12)بارھواں الزام ‘‘مصر ی وفد’’کے ساتھ بدعہدی کا ہے، اس پر تفصیلی بحث حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے موقع پر آئے گی۔
غرض یہ حقیقت ہے ان تمام الزامات کی جن کی بنیاد پر سازش، فتنہ پردازی اور انقلاب کی عمارت قائم کی گئی تھی اور اس حد تک مکمل ہو چکی تھی کہ اس کا انہدام تقریباً ناممکن ہو گیا تھا، تاہم حضرت عثمان بن عفان رضی عنہ نے شورش رفع کرنے کے لیے اصلاح اور شکایتوں کے ازالہ کی ایک آخری کوشش کی اور تمام عمال کو دار الخلافہ میں طلب کرکے اس کے متعلق ایک مجلس شوریٰ منعقد کی جس میں حضرت امیر معاویہ ؓ، عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ، سعید بن العاص ؓ اور عمرو بن العاص ؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ایک مختصر تقریر کے بعد موجودہ شورش کو رفع کرنے کے متعلق ہر ایک سے رائے طلب کی، عبد اللہ بن عامرؓ نے کہا امیر المومنین! میراخیال ہے کہ اس وقت کسی ملک پر فوج کشی کردی جائے، لوگ جہاد میں مشغول ہوجائیں گے تو فتنہ وفساد کی آگ خود بخود سرد ہوجائے گی۔ سعید بن العاص ؓ نے کہا، موجودہ شورش صرف ایک جماعت کی وجہ سے ہے، اس کے سرگروہ اگر قتل کر دیے جائیں تو مفسدین کا شیرازہ بکھر جائے گا اور ملک میں کامل امن وامان پیدا ہو جائے گا۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے کہا، ہر ایک عامل اپنے صوبہ میں امن وامان قائم رکھنے کا ذمہ لے میں ملک شام کا ضامن ہوں۔ عبد اللہ بن سعد ؓ نے کہا شورش پسند گروہ حریص وطمع ہے اس لیے مال وزر سے اس کا منہ بند کیا جا سکتا ہے۔ عمرو بن العاص ؓ نے کہا امیر المومنین! آپ کی بے اعتدالیوں نے لوگوں کو احتجاج حق پر آمادہ کیا ہے، اس کے تدارک کی صرف دوہی صورتیں ہیں، یاعدل وانصاف سے کام لیجئے یا خلافت سے کنارہ کشی اختیار کیجئے، اگر یہ دونوں ناپسند ہوں تو پھر جو چاہے کیجئے، حضرت عثمان ؓ نے تعجب سے عمرو بن العاص ؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا، افسوس!کیا تم میری نسبت ایسی رائے رکھتے ہو؟ عمرو بن العاص ؓ خاموش رہے؛لیکن جب مجمع منتشر ہو گیا اور تنہا حضرت عثمان رہ گئے تو کہا امیر المومنین !آپ مجھے بہت زیادہ محبوب ہیں، مجمع عام میں میں نے جو رائے دی وہ صرف نمائشی تھی تاکہ مفسدین مجھے ہم خیال سمجھ کر اپنا راز دار بنائیں اور اس طرح آپ کو ان کے خیروشر سے مطلع کرتا رہوں، اگرچہ یہ عذر معقول اور دل نشین نہ تھا تاہم حضرت عثمان بن عفان ؓ خاموش ہو گئے۔ [111] مجلس شوریٰ کے ارکان نے اگرچہ اپنے اپنے خیال کے مطابق مفید آرائیں دیں ؛لیکن ان میں سے کسی رائے سے بھی اصل مرض کا ازالہ نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے اصلاح ملک کا کوئی مکمل دستور العمل تیار نہ ہو سکا اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نے تمام عمال کو واپس کر دیا[112] اور خود ایک مکمل اسکیم سوچنے میں مصروف ہو گئے۔
پہلے گزرچکا ہے کہ مفسدین کوفہ حضرت سعید بن العاص ؓ سے خاص بغض وعناد رکھتے تھے؛چنانچہ جب وہ مجلس شوریٰ میں شریک ہو گئے تو انھوں نے باہم عہد کیا کہ اب وہ ان کے کوفہ آنے میں بزور مزاحم ہوں گے؛چنانچہ جب سعید بن العاص مدینہ سے کوفہ گئے تو مفسدین نے شہر سے باہر نکل کر مقام جرعہ میں مزاحمت کی اورسعید بن العاص ؓ کو مدینہ جانے پر مجبور کر دیا۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ان لوگوں کی خواہش کے مطابق سعید بن العاص ؓ کو معزول کرکے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا تقرر کیا اور باغیوں کے پاس لکھ بھیجا کہ میں نے تمھاری خواہش کے مطابق تقرر کر دیا اور آخر وقت تک تمھاری اصلاح میں جدوجہد کروں گا اورکسی وقت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔ [113]
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر اصلاح ملک کی فکر میں تھے کہ کوئی مناسب تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے مشورہ دیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کی تحقیق کے لیے وفود روانہ کیے جائیں، حضرت عثمان بن عفان ؓ کو یہ رائے پسند آئی ؛چنانچہ 35ھ میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کوفہ، اسامہ بن زیدؓ بصرہ، عمار بن یاسر ؓصر، عبد اللہ بن عمر ؓ شام اور بعض دوسرے صحابہ ؓ دیگر صوبہ جات کی طرف تفتیش حال کے لیے روانہ کیے[114]نیز تمام ملک میں گشتی اعلان جاری کر دیا کہ میں عموماً حج کے موقع پرتمام عمال کو جمع کرتا ہوں اور جس عامل کے خلاف کوئی شکایت پیش کی جاتی ہے، فوراً تحقیقات کرکے تدارک کرتا ہوں ؛لیکن باوجود اس کے معلوم ہوا ہے کہ بعض عمال بے وجہ لوگوں کو مارتے ہیں، گالی دیتے ہیں اور دوسرے طریقہ سے ظلم و تعدی کرتے ہیں، اس لیے یہ اعلان عام ہے جس کو مجھ سے یا میرے کسی عامل سے کوئی شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے میں کامل تدارک کرکے ظالم سے مظلوم کا حق دلاؤں گا۔ [115]
ادھر دربارخلافت میں یہ اصلاحات کی تجویزیں پیش ہو رہی تھیں، دوسری طرف ملک میں ایک عظیم الشان انقلاب کی سازش مکمل ہو چکی تھی، چنانہ بصرہ ، کوفہ اور مصر کے فتنہ پردازوں نے آپس میں طے کرکے اپنے اپنے شہر سے حاجیوں کی وضع میں مدینہ کا رخ کیا[116] تاکہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے بزور اپنے مطالبات تسلیم کرائیں۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر شہر سے دو تین میل کے فاصلہ پر قیام کیا اور چند آدمی جو اس جماعت کے سرگروہ تھے باری باری حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت علی ؓ کے پاس گئے کہ وہ اپنی وساطت سے معاملہ کا تصفیہ کرا دیں؛لیکن سب نے اس جھگڑے میں پڑنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عثمان ؓ کو فتنہ وفساد کا دبانا اور لوگوں کی صحیح شکایات کا رفع کرنا، بہرحال منظور تھا اس لیے انھوں نے مفسدین کے اجتماع کی خبر سنی تو حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو بلاکر کہا کہ آپ اس جماعت کو راضی کرکے واپس کر دیجئے، میں جائز مطالبات کے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں؛چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی وساطت سے مفسدین واپس گئے، [117] اس کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ نے جمعہ کے روز مسجد میں خطبہ دیا اور تفصیل کے ساتھ اصلاحی اسکیم اور اپنے آئندہ طرز عمل کی توضیح کی، لوگ خوش ہوئے کہ اب منازعات کا خاتمہ ہو گیا اور جدید اصلاحات کے اجرا سے ایک طرف تو بنو امیہ کا زور ٹوٹ جائے گا، دوسری طرف باغِ اسلام میں جس کو مسلسل پانچ سال کے فتنہ وفساد اورسازش فتنہ پردازی کی بادخزاں نے بے رونق کر دیا ہے پھر تازہ بہار آجائے گی؛لیکن یہ غنچہ سرورا بھی اچھی طرح کھلا بھی نہ تھاکہ مرجھا گیا اورایک دن دفعۃً مدینہ کی گلیوں میں تکبیر کے نعروں اورگھوڑوں کی ٹاپوں سے شور قیامت برپا ہو گیا، کبارصحابہ گھبراکر گھروں سے نکل آئے، دیکھا کہ مفسدین کی جماعت پھر واپس آگئی ہے اور ‘‘انتقام !انتقام’’ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ حضرت علی ؓ نے بڑھ کر واپس آنے کا سبب دریافت کیا، مصریوں نے کہا کہ راہ میں دربارخلاف کا ایک قاصد ملاکہ جو نہایت تیزی وعجلت کے ساتھ مصر جارہا تھا، اس کی مشتبہ حالت سے بدگمانی ہوئی اورخیال ہوا کہ ضرور ہم لوگوں کے متعلق والی مصر کے پاس احکام جا رہے ہیں، تلاشی لی گئی تو درحقیقت ایک ایسا فرمان برآمد ہوا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ ہم لوگوں کی گردن ماردی جائے، اس لیے اب ہم اس بدعہدی اورفریب کاری کا انتقام لینے آئے ہیں۔
حضرت عثمان ؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حیرت کے ساتھ اپنی لاعلمی ظاہر کی، اورقسم کھا کر کہا کہ مجھے مطلقاً اس خط کی اطلاع نہیں ہے، حضرت عثمان ؓ کے حلفیہ انکار پر لوگوں نے قیاس کیا کہ یہ یقیناً مروان بن حکم کی شرارت ہے، مصریوں نے کہا بہر حال کچھ بھی ہو جو خلیفہ اس قدر غافل ہوکہ اس کی لا علمی میں ایسے اہم امور پیش آجائیں اور اسے خبر نہ ہو وہ کسی طرح خلافت کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا اور حضرت عثمان ؓ سے مسند خلافت سے کنارہ کش ہو جانے کا مطالبہ کیا، آپ نے فرمایا جب تک مجھ میں رمق جان باقی ہے میں اس خلافت کو جو خدا نے مجھے پہنایا ہے خود اپنے ہاتھوں سے نہیں اتاروں گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق میں اپنی زندگی کے آخر لمحہ تک صبر کروں گا۔ [118]
حضرت عثمان بن عفان ؓ کے انکار پر مفسدین نے کاشانۂ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کر لیا جو چالیس دن تک مسلسل قائم رہا، اس عرصہ میں اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا، ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر حضرت عثمان ؓ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر مفسدین کے قلوب نورایمان سے خالی ہو چکے تھے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم محترم کا بھی پاس ولحاظ نہ کیا اور بے ادبی کے ساتھ مزاحمت کرکے ان کواپس کر دیا، ہمسایہ گھروں سے کبھی کبھی رسد اور پانی کی امداد پہنچ جاتی تھی، مفسدین کی خیرہ سری سے صحابہ کرام ؓ کی بے احترامی اتنی بڑھ گئی تھی کہ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ، ابوہریرہ ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ اور زید بن ثابت ؓ جیسے اکابر صحابہ تک کی کسی نے نہ سنی اور ان کی توہین کی، حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے بلانے پر ان کے گھر کے اندر جانا چاہا تو لوگوں نے ان کو روک دیا، آپ نے مجبور ہوکر اپنا سیاہ عمامہ اتار کر قاصد کو دے دیا اور کہا جو حالت ہے اس کو دیکھ لو اورجاکر کہہ دو[119] بہت سے صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، حضرت عائشہؓ نے سفر حج کا ارادہ کر لیا، اکابر صحابہ نے ان پر آشوب حالات میں گوشہ نشینی مناسب سمجھی، ذمہ دار صحابہ میں اس وقت تین بزرگ حضرت علی ؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ، حضرت زبیر ؓ موجود تھے جو نہ تو بے تعلق رہ سکتے تھے اور نہ ان حالات پر ان کو قابو تھا، تینوں صاحبوں نے کچھ کوششیں بھی کیں مگر اس ہنگامہ میں کوئی کسی کی نہیں سنتا تھا اس لیے یہ تینوں اصحاب بھی عملاً علاحدہ رہے، مگر اپنے اپنے جگر گوشوں کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت امام حسن ؓ دروازہ پر پہرہ دے رہے تھے، حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو حضرت عثمان ؓ کے گھر میں جو جان نثار موجود تھے ان کی افسری پر متعین کیا۔
کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو متعدد دفعہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھانے کی کوشش کی، ان کے سامنے مؤثر تقریریں کیں، حضرت ابی بن کعب ؓ نے تقریر کی، مگر ان لوگوں پر کسی چیز کا اثر نہ ہوا، حضرت عثمان ؓ نے چھت کے اوپر سے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا کیا تمھیں معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو یہ مسجد تنگ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون اس زمین کو خرید کر وقف کرے گا؟ اس کے صلہ میں اس کو اس سے بہتر جگہ جنت میں ملے گی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی، توکیا اسی مسجد میں تم مجھے نماز پڑھنے نہیں دیتے، تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں، بتاؤ کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اس میں رومہ کے سوا میٹھے پانی کا کنواں نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو کون خریدکر عام مسلمانوں پر وقف کرتا ہے؟ اور اس سے بہتر اس کو جنت میں ملے گا تو میں نے ہی اس کی تعمیل کی، تو کیا اسی کے پانی پینے سے مجھے محروم کر رہے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ عسرت کے لشکر کو میں ہی نے سازوسامان سے آراستہ کیاتھا؟ سب نے جواب دیا خداوندا ! یہ سب باتیں سچ ہیں[120] مگر سنگدلوں پر اس کا اثر بھی نہ ہوا، پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا، تم کو قسم دیتا ہوں، تم میں کسی کو یاد ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو پاؤں سے ٹھوکر مارکر فرمایا، اے حرا ٹھہر جا کہ تیری پیٹھ پر اس وقت ایک نبی اور ایک صدیق اور ایک شہید ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، لوگوں نے کہا یاد ہے، پھر فرمایا خدا کا واسطہ دیتا ہوں، بتاؤ کہ حدیبیہ میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں سفیر بناکر بھیجا تھا تو کیا خود اپنے ایک دست مبارک کو میرا ہاتھ قرار نہیں دیا؟اور میری طرف سے خود ہی بیعت نہیں کی؟ سب نے کہا سچ ہے۔ [121] آخر میں باغی یہ دیکھ کر کہ حج کا موسم چند روز میں ختم ہو جاتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی لوگ مدینہ کا رخ کریں گے اور موقع نکل جائے گا، آپ کے قتل کے مشورے کرنے لگے جس کو خود حضرت عثمان ؓ نے اپنے کانوں سے سنا اور مجمع کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا، لوگو! آخر کس جرم پر تم میرے خون کے پیاسے ہو؟ اسلام کی شریعت میں کسی کے قتل کی صرف تین ہی صورتیں ہیں یا تو اس نے بد کاری کی ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے یا اس نے بالارادہ کسی کو قتل کیا ہو تو وہ قصاص میں مارا جائے گا یا وہ مرتد ہو گیا ہو تو وہ قتل کیا جائے گا، میں نے نہ تو جاہلیت میں اور نہ اسلام میں بدکاری کی، نہ کسی کو قتل کیا اور نہ اسلام کے بعد مرتد ہوا، اب بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں، [122]لیکن باغیوں پر ان میں سے کوئی تقریر کارگر نہ ہوئی۔
بعض جان نثاروں نے مختلف مشورے دیے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے آکر عرض کیا ‘‘امیر المومنین ! تین باتیں ہیں، ان میں سے ایک قبول کیجئے، آپ کے طرفداروں اور جان نثاروں کی ایک طاقتور جماعت یہاں موجود ہے اس کو لے کر نکلیے اور ان باغیوں کا مقابلہ کر کے ان کو نکال دیجئے آپ حق پر ہیں وہ باطل پر، لوگ حق کا ساتھ دیں گے، اگر یہ منظور نہیں تو پھر صدر دروازہ چھوڑ کر دوسری طرف سے دیوار توڑکر اس محاصرہ سے نکلئے اور سواریوں پر بیٹھ کر مکہ معظمہ چلے جائیے وہ حرم ہے وہاں یہ لوگ لڑنہ سکیں گے یا پھر یہ کہ شام چلے جائیے وہاں کے لوگ وفادار ہیں اور امیر معاویہ ؓ موجود ہیں، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں وہ پہلا خلیفہ بننا نہیں چاہتا جوا مت محمدیہ کی خونریزی کرے، اگر مکہ معظمہ چلا جاؤں تو بھی اس کی امید نہیں کہ یہ لوگ حرم الہی کی توہین نہ کریں گے اور جنگ سے باز آجائیں گے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق وہ شخص نہیں بننا چاہتا جو مکہ جاکر اس کی بے حرمتی کا باعث ہوگا اور شام بھی نہیں جا سکتا کہ اپنے ہجرت کے گھر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار کو نہیں چھوڑ سکتا۔ [123] حضرت عثمان ؓ کا گھر بہت بڑا اور سیع تھا، دروازہ اور گھر میں صحابہ اور عام مسلمانوں کی خاصی جمعیت موجود تھی جس کی تعداد ساتھ سو تھی [124] اور جس کے سردار حضرت زبیر بن عوام ؓ کے بہادر صاحبزادہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ تھے، (ایضاً)وہ حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ امیر المومنین! اس وقت گھر کے اندر ہماری خاصی تعداد ہے، اجازت ہو تو میں ان باغیوں سے لڑوں، فرمایا اگر ایک شخص کا بھی ارادہ ہو تو میں اس کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ میرے لیے اپنا خون نہ بہائے۔ [125] گھر میں اس وقت بیس غلام تھے ان کو بھی بلا کر آزاد کر دیا، [126] حضرت زید بن ثابت نے آکر عرض کیا کہ امیرالمومنین!انصار دروازہ پر کھڑے اجازت کے منتظر ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے کارنامے دکھائیں، فرمایا اگر لڑائی مقصود ہے تو اجازت نہ دوں گا، [127] اس وقت میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو میری مدافعت میں تلوار نہ اٹھائے، [128] حضرت ابوہریرہ ؓ نے اجازت مانگی تو فرمایا، اے ابو ہریرہ ؓ ! کیا تمھیں پسند آئے گا کہ تم تمام دنیا کو اور ساتھ ہی مجھ کو بھی قتل کردو، عرض کیا نہیں، فرمایا کہ اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا سب قتل ہو گئے، (یہ سورۂ مائدہ ع 5 کی آیت 6 کی طرف اشارہ ہے) ابوہریرہ ؓ یہ سن کر لوٹ آئے۔ [129]
حضرت عثمان بن عفان ؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہو چکی ہے۔[130]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ ان کو اس سانحہ سے خبردارکیا تھا اور صبر واستقامت کی تاکید فرمائی تھی، حضرت عثمان بن عفان ؓ اس وصیت پر پوری طرح قائم تھے اور ہر لمحہ ہونے والے واقعہ کے منتظر تھے، جس دن شہادت ہونے والی تھی، آپ روزہ سے تھے جمعہ کا دن تھا خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ فاروق تشریف فرما ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ عثمان جلدی کرو، تمھارے افطار کے ہم منتظر ہیں، بیدار ہوئے تو حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا، اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت آگیا، باغی مجھے قتل کر ڈالیں گے، انھوں نے کہا امیر المومنین! ایسا نہیں ہو سکتا! فرمایا میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ‘‘ عثمانؓ آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا، [131] میں یہ دونوں خواب مذکور ہیں اور مسند احمد ابن حنبل میں صرف پہلے خواب کا ذکر ہے)پھر پائجامہ جس کو کبھی نہیں پہنا تھا، منگوا کر پہنا، [132] اپنے بیس غلاموں کو بلا کر آزاد کیا اور قرآن کھول کر تلاوت میں مصروف ہو گئے۔
باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا، امام حسن ؓ جو دروازہ پر متعین تھے مدافعت میں زخمی ہوئے، چار باغی دیوار پھاند کر چھت پر چڑھ گئے، آگے آگے حضرت ابوبکر ؓ کے چھوٹے بیٹے محمد بن ابی بکر تھے، جو حضرت علی ؓ کی آغوشںِ تربیت میں پلے تھے، یہ کسی بڑے عہدے کے طلب گار تھے جس کے نہ ملنے سے حضرت عثمان ؓ کے دشمن بن گئے تھے، انھوں نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان ؓ کی ریش مبارک پکڑلی اور زور سے کھینچی، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا، بھتیجے! اگر تمھارے باپ زندہ ہوتے تو ان کو یہ پسند نہ آتا، یہ سن کر محمد بن ابی بکر شرما کر پیچھے ہٹ گئے اور ایک دوسرے شخص کنانہ بن بشر نے آگے بڑھ کر پیشانی مبارک پر لوہے کی لاٹ اس زور سے ماری کہ پہلو کے بل گر پڑے، اس وقت بھی زبان سے ‘‘بسم اللہ توکلت علی اللہ’’ نکلا سودان ابن حمران مراوی نے دوسری جانب ضرب لگائی جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا، ایک اور سنگدل عمر وبن الحمق سینہ پر چڑھ بیٹھا اور جسم کے مختلف حصوں پر پے درپے نیزوں کے نو زخم لگائے، کسی شقی نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، وفادار بیوی حضرت نائلہ بنت فرافصہ رضی اللہ عنہا نے جو پاس ہی بیٹھی تھیں ہاتھ پر روکا، تین انگلیاں کٹ کر الگ ہو گئیں، وار نے ذوالنورین ؓ کی شمع حیات بجھا دی، اس بے کسی کی موت پر عالمِ امکان نے ماتم کیا، کائنات ارضی و سماوی نے خون ناحق پر آنسو بہائے، کارکنانِ قضا و قدر نے کہا جو خون آشام تلوار آج بے نیام ہوئی ہے وہ قیامت تک بے نیام رہے گی اور فتنہ وفساد کا جو درازہ کھلا ہے وہ حشر تک کھلا رہے گا۔ [133] شہادت کے وقت حضرت عثمان بن عفان ؓ تلاوت فرما رہے تھے، قرآن مجید سامنے کھلا تھا، اس خون ناحق نے جس آیت کو خون ناب کیا وہ یہ ہے: "فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللہُo وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ" "خدا تم کو کافی ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔" جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت کا واقعہ پیش آیا، دو دن تک لاش بے گوروکفن پڑی رہی، حرم رسول میں قیامت برپا تھی، باغیوں کی حکومت تھی، ان کے خوف سے کسی کو علانیہ دفن کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، سنیچر کا دن گذر کر رات کو چند آدمیوں نے ہتھیلی پر جان رکھ کر تجہیز وتکفین کی ہمت کی اور غسل دیے بغیر اسی طرح خون آلود پیراہن میں شہید مظلوم کا جنازہ اٹھایا اور کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک کے فرماں روا کے جنازہ کی نماز پڑھی، مسند ابن جنبل میں ہے کہ حضرت زبیرؓ بن عوام نے اور ابن سعد میں ہے کہ حضرت جبیر بن معطم ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع کے پیچھے حش کو کب میں اس حلیم و برد باری کے مجسمہ اوربیکسی ومظلومی کے پیکر کو سپرد خاک کیا [134] بعد کو یہ دیوار توڑکر جنت البقیع میں داخل کر لیا گیا، آج بھی جنت البقیع کے سب سے آخر میں مزار مبارک موجود ہے۔[135] [136]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور عام مسلمانوں میں سے کوئی اس سانحہ عظمیٰ کے سننے کے لیے تیار نہ تھا اور کسی کو یہ وہم وگمان بھی نہ تھا کہ باغی اس حد تک جرأت کریں گے کہ امام وقت کے قتل کے مرتکب ہوں گے اور حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کریں گے، اس لیے جس نے اس کو سنا انگشت بدنداں رہ گیا، جو لوگ حضرت عثمان ؓ کی طرز حکومت کے کسی قدر شاکی تھے انھوں نے بھی اس بیکسی اور مظلومی کی موت پر آنسو بہائے، تمام لوگوں میں سناٹا چھاگیا، خود باغی بھی جن کی پیاس اس خون سے بجھ چکی تھی، اب مآل کارکو سوچ کر اپنی حرکت پر نادم تھے؛لیکن دشمنوں نے اسلام کے لیے سازش کا جو جال بچھایا تھا اس میں وہ کامیاب ہو چکے تھے، متحد اسلام سنی، شیعہ، خارجی اور عثمانی مختلف حصوں میں بٹ گیا اور ایسا تفرقہ پڑا جو قیامت تک کے لیے قائم رہ گیا۔ حضرت علی ؓ مسجد سے نکل کر حضرت عثمان ؓ کے گھر کی طرف آ رہے تھے کہ راہ میں شہادت کی اطلاع ملی، یہ خبر سنتے ہی دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا، خداوندا! میں عثمان کے خون سے بری ہوں، حضرت عمر ؓ کے بہنوئی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ نے کہا لوگو! اگر کوہ احد تمھاری اس بداعمالی کے سبب پھٹ کر تم پر گرپڑے تو بھی بجا ہے، حضرت حذیفہ ؓ نے جو صحابہ میں فتنہ وفساد کی پیشین گوئی کے سب سے بڑے حافظ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم اسرار تھے، فرمایا، آہ! عثمان کے قتل سے اسلام میں وہ رخنہ پڑ گیا جواب قیامت تک بند نہ ہوگا، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے کہا اگر تمام خلقت عثمان کے قتل میں شریک ہوتی تو قوم لوط کی طرح آسمان سے اس پر پتھر برستے، ثمامہ بن عدی ؓ صحابی کو جو صنعائے یمن کے والی تھے، اس کی خبر پہنچی تو وہ رو پڑے اور فرمایا کہ افسوس ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی جاتی رہی ، حضرت ابوحمید ساعدہ ؓ نے قسم کھائی کہ جب تک جیوں گا، ہنسی کا منہ نہ دیکھوں گا، عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا، آہ! آج عرب کی قوت کا خاتمہ ہو گیا، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا، عثمان بن عفان ؓ مظلوم مارے گئے، خدا کی قسم !ان کا نامۂ اعمال دھلے کپڑے کی طرح پاک ہو گیا، حضرت زید بن ثابت ؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار جاری تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ جب اس سانحہ کا ذکر آجاتا تو دھاڑیں مارمار کر روتے۔ [137]
اس میں شک نہیں ہے کہ فاروق اعظم نے اپنے جن تدبیر اور غیر معمولی سیاسی قوت عمل سے روم و ایران کے دفتر الٹ دیے اور ان کی دولت ومملکت فرزندان توحید کا ورثہ بن گئی، دولت کیا نی صفحہ ہستی سے معدوم ہو گئی اور تمام ایران مسخر ہو گیا، شام، مصر، الجزائر نے بھی سپر ڈال دی؛لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ فاتح قوم کا ایک ہی سیلاب مفتوح اقوام کے احساس خودی کو فنا کر دے؟ اور کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ ایک ہی شکست نے کسی قسم کی حریت و آزادی کے جذبہ کو معدوم کر دیا ہو؟ اور اس کے قوائے عملی بے کار ہو گئے ہوں؟ سکندر نے تمام دنیا کو مسخر کر لیا؛لیکن اس کے جانشینوں نے کتنے دنوں تک حکومت قائم رکھی؟چنگیز و تیمور نے بھی عالم کو تہ وبالا کر دیا؛لیکن ان کی فتوحات کیوں نقش برآب ثابت ہوئیں۔ درحقیقت یہ ایک تاریخی نکتہ ہے کہ جب اولوالعزم فاتح کا جانشین ویساہی اولوالعزم اور عالی حوصلہ نہیں ہوتا تو اس کی فتوحات اس تماشا گاہ عالم میں صرف ایک وقتی نمائش ہوتی ہیں، اس بنا پر جانشین فاروق ؓ کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ممالک مفتوحہ میں حکومت وسلطنت کی بنیاد مستحکم کی اورمفتوح اقوام کے جذبہ خودسری کو رفتہ رفتہ اپنے حسن تدبیر اور حسن عمل سے اس طرح ختم کر دیا کہ مسلمانوں کی باہمی کشمکش کے موقعوں میں بھی انھیں سرتابی کی ہمت نہ ہوئی۔ تم نے فتوحات کے سلسلہ میں پڑھا ہوگا کہ حضرت عثمان ؓ کو نہایت کثرت کے ساتھ بغاوتیں فرو کرنا پڑیں، مصر میں بغاوت ہوئی، اہل آرمینیہ اور آذر بائیجان نے خراج دینا بند کر دیا، اہل خراسان نے سرکشی اختیار کی، یہ تمام بغاوتیں درحقیقت اسی جذبہ کا نتیجہ تھیں جو مفتوح ہونے کے بعد بھی اقوام کے جذبہ آزادی کو برانگیختہ کرتا رہتا ہے؛لیکن حضرت عثمان ؓ نے تمام بغاوتوں کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ فرو کیا اور آہستہ آہستہ تشدد وتلطف کی مجموعی حکمت عملی سے مفتوحہ ممالک کی عام رعایا کو اطاعت اور انقیاد پر مجبور کر دیا۔
عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں ممالک محروسہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع ہوا، افریقہ میں طرابلس، برقہ اور مراکش (افریقہ) مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی، ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا، دوسری سمت آرمینیہ اور آذربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی، اسی طرح ایشیائے کو چک کا ایک وسیع خطہ ملک شام میں شامل کر لیا گیا۔ بحری فتوحات کا آغاز خاص حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت سے ہوا، حضرت عمر ؓ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کیا،عثمان بن عفان ؓ کی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پروا ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کرکے جزیرۂ قبرص (سائپرس) پر اسلامی پھریرا بلند کیا اور بحری جنگ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے، ایسی فاش شکست دی کہ پھر رومیوں کو اس جرأت کے ساتھ بحری حملہ کی ہمت نہ ہوئی۔
اسلامی حکومت کی ابتدا شوریٰ سے ہوئی، فاروق اعظم نے اس کو زیادہ مکمل اور منظم کر دیا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے بھی اس نظام کو اپنے ابتدائی عہد میں قائم رکھا؛لیکن آخر میں بنوامیہ کے استیلا نے اس میں برہمی پیدا کردی، مروان بن حکم نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے اعتماد نیکی اور سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خلافت کے کاروبار میں پورا رسوخ پیدا کر لیا تھا، تاہم جب کبھی آپ کو کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی تو آپ فوراً اس کے تدارک کی سعی کرتے، نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے؛چنانچہ ولید بن عقبہ کی بادہ نوشی کی طرف توجہ دلائی گئی تو تحقیق کے بعد انھوں نے فورا ًاس کو معزول کر دیا اور شرعی حد جاری کی، اسی طرح جب حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے ملک میں عام تحقیقات کے لیے وفود بھیجنے کا مشورہ دیا تو فورا ًاس کو تسلیم کر لیا۔ جمہوری حکومت کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اور حکام کے طریق عمل پر نکتہ چینی کرنے کا حق حاصل ہو، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اخیر عہد میں اگر چہ مجلس شوریٰ کا باقاعدہ نظام درہم برہم ہو گیا تھا تاہم یہ حقوق بجنسہٖ باقی تھے؛چنانچہ ایک دفعہ مجمع عام میں ایک شخص نے عمال کو اپنے ہی خاندان سے منتخب کرنے پر بلند آہنگی سے اعتراض کیا، اسی طرح حضرت عثمان بن عفان ؓ نے عبد اللہ بن ابی سرح ؓ کو طرابلس کے مال غنیمت سے خمس کا پانچواں حصہ دے دیا توبہت سے آدمیوں نے اس پر اعتراض کیا اورحضرت عثمان بن عفان ؓ کو اسے واپس کرانا پڑا۔
ملکی،انتظامی معاملات میں حکام وقت دوسرے غیر ذمہ دار اشخاص کے مقابلہ میں نسبتاً بہتر اور صائب رائے قائم کرسکتے ہیں؛چنانچہ آج تمام مہذب حکومتوں میں عمال و حکام کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی ہے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تیرہ سوبرس پہلے اس ضرورت کو محسوس کرکے عمال کی ایک مجلس شوریٰ ترتیب دی تھی، اس مجلس کے ارکان سے عموماً تحریری رائیں طلب کی جاتی تھیں، کوفہ میں پہلے پہلے جب فتنہ و فساد کی ابتدا ہوئی تو اس کی بیخ کنی کے متعلق تحریر ہی کے ذریعہ سے رائیں طلب کی گئی تھیں کبھی کبھی دار الخلافہ میں باقاعدہ جلسے بھی ہوتے تھے چنانچہ 34ھ میں اصلاحات ملک پر غور کرنے کے لیے جو جلسہ ہوا تھا، اس میں تمام اہل الرائے اور اکثر عمال شریک تھے۔ [138]
نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلے کام صوبہ جات اور اضلاع کی مناسب تقسیم ہے، حضرت عمرؓ نے ملک شام کو تین صوبوں میں تقسیم کیا تھا، یعنی دمشق، اردن اور فلسطین علاحدہ صوبے قرار پائے تھے، حضرت عثمان ؓ نے سب کو ایک والی کے ماتحت کرکے ایک صوبہ بنادیا، جو نہایت سود مند ثابت ہوا کیونکہ جب والی خوش تدبیر اور ذی ہوش ہو تو ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے سے اس کا ایک ہی مرکز سے وابستہ رہنا زیادہ مفید ہوتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری عہد میں جب تمام ملک سازش اور فتنہ پردازی کا جولان گاہ بنا تھا اس وقت وہ تمام اضلاع جو شام سے ملحق کردئے گئے تھے اس سے پاک و صاف رہے، دوسرے صوبہ جات بعینہٖ باقی رکھے گئے البتہ جدید مفتوحہ ممالک یعنی طرابلس، قبرص، آرمینیہ اور طبرستان علاحدہ علاحدہ صوبے قرار پائے۔
حضرت عثمان ؓ نے افسر فوج کا ایک جدید عہدہ ایجاد کیا اس سے پہلے والی یعنی حاکم صوبہ انتظام ملک کے ساتھ فوج کی افسری بھی کرتا تھا؛ چنانچہ یعلی بن منبہ صنعا کے عامل ہوئے تو عبد اللہ بن ربیعہ فوج کی افسری پر مامور ہوئے، اسی طرح عمرو بن العاص ؓ معزولی سے پہلے والی مصر تھے اور مصری فوج کی باگ عبد اللہ بن ابی سرح کے ہاتھ میں تھی۔ [139] .[140]
خلیفہ وقت کا سب سے اہم فرض حکام اور عمال کی نگرانی ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، بات بات پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور ذاتی حیثیت سے تحمل، بردباری، تساہل اور چشم پوشی آپ کا شیوہ تھا؛لیکن ملکی معاملات میں انھوں نے تشدد احتساب اورنکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا، سعد بن ابی وقاص ؓ نے بیت المال سے ایک بیش قرار رقم لی جس کو ادا نہ کرسکے، حضرت عثمان ؓ نے سختی سے باز پرس کی اورمعزول کر دیا، ولید بن عقبہ نے بادہ نوشی کی، معزول کرکے علانیہ حد جاری کی، حضرت ابوموسی اشعری ؓ نے امیرانہ زندگی اختیار کی تو انھیں بھی ذمہ داری کے عہدہ سے سبکدوش کر دیا، اسی طرح عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی مصر وہاں کے اخراج میں اضافہ نہ کرسکے تو ان کو علاحدہ کر دیا۔ نگرانی کا یہ عام طریقہ تھا کہ دریافتِ حال کے لیے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کیے جاتے تھے جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے، یہ تینوں بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے؛چنانچہ 35ھ میں ملک کی عام حالت دریافت کرنے کے لیے جو روانہ کیے گئے تھے ان میں یہی حضرات تھے۔ [141] ملک کی حالت سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے آپ کا یہ معمول تھا کہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف لاتے تو خطبہ شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور نہایت غور سے سنتے، [142]تمام ملک میں اعلان عام تھا جس کسی کو کسی والی سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے، اس موقع پر تمام عمال لازمی طور پر طلب کیے جاتے تھے اس لیے سب کے سامنے شکایتوں کی تحقیقات کرکے تدارک فرماتے۔ [143][144] .[145] [146]
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ملکی نظم ونسق کا جودستورالعمل مرتب کیا تھا حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس کو بعینہ باقی رکھا اورمختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہو چکے تھے، ان کو منضبط کرکے ترقی دی، یہ اسی نظم ونسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا، حضرت عمر ؓ کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا ؛لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ [147]
جدیدی فتوحات کے باعث جب ملکی محاصل میں غیر معمولی ترقی ہوئی تو بیت المال کے مصارف میں بھی اضافہ ہوا؛چنانچہ اہل وظائف کے وظیفوں میں ایک ایک سو درہم کا اضافہ ہوا، حضرت عمر بن خطاب ؓ رمضان میں امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دو دو درہم اور عوام کو ایک ایک درہم روزانہ بیت المال سے دلاتے تھے، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس کے علاوہ لوگوں کا کھانا بھی مقرر کر دیا۔[148][149]
حکومت کا دائرہ جس قدر وسیع ہوتا گیا، اسی قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا تمام صوبہ جات میں مختلف دفاتر کے لیے عمارتیں تیار ہوئیں، رفاہِ عام کے لیے سڑک پل اور مسجدیں تعمیر کی گئیں، مسافروں کے لیے مہمان خانے بنائے گئے، پہلے کوفہ میں کوئی مہمان خانہ نہ تھا اس سے مسافروں کو سخت تکلیف ہوتی تھی، حضرت عثمان ؓ کو معلوم ہوا تو انھوں نے عقیل اور ابن ہبار کے مکانات خرید کر ایک نہایت عظیم الشان مہمان خانہ بنوادیا۔ ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے ضرورت تھی کہ دار الخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنادیا جائے؛چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے مدینہ کے راستہ میں موقع، موقع سے کوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار کرادیے؛چنانچہ نجد کی راہ میں مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر ایک نہایت نفیس سرائے تعمیر کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ ایک مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا جو بیرالسائب کے نام سے مشہور ہے۔ [150][151] .[152][153] .[151]
خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ منورہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا جس سے شہر کی آبادی کو سخت نقصان پہنچتا تھا، مسجد نبوی کو اس سے صدمہ پہنچنے کا احتمال تھا اس لیے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بندھوایا اور نہر کھود کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا، اس بند کا نام بند مہزور ہے، رفاہ عام کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ [154]
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورین کا ہاتھ سب سے زیادہ نمایاں ہے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کے لیے حضرت عثمان بن عفان ؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کیا تھا، پھر اپنے عہد میں بڑے اہتمام سے اس کی وسیع اور شاندار عمارت تعمیر کرائی، سب سے اول 24ھ میں اس کا ارادہ کیا ؛لیکن مسجد کے گردوپیش جن لوگوں کے مکانات تھے وہ کافی معاوضہ دینے پر بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کے شرف سے دست کش ہونے کے لیے راضی نہ ہوتے حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کو راضی کرنے کے لیے مختلف تدبیریں کیں ؛لیکن وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئے، یہاں تک کہ پانچ سال اس میں گذر گئے، بالآخر 29ھ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی مؤثر تقریر کی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی، اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دیے اور آپ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا، نگرانی کے لیے تمام عمال طلب کیے اور خود شب وروز مصروف کار رہتے تھے، غرض دس مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد اینٹ، چونا اور پتھر کی ایک نہایت خوش نما اور مستحکم عمارت تیار ہو گئی، وسعت میں بھی کافی اضافہ ہو گیا، یعنی طول میں بچاس گز کا اضافہ ہوا، البتہ عرض میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا۔ [155][156] .[157][158][159][160][161][162][163]
حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے عہد میں جس اصول پر فوجی نظام قائم کیا تھا حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس کو ترقی دی، فوجی خدمات کے صلہ میں جن لوگوں کے وظائف مقرر کیے گئے تھے، حضرت عثمان ؓ نے اس میں سو سو درہم کا اضافہ کیا اور فوجی صیغہ کو انتظامی صیغوں سے الگ کرکے تمام صدر مقامات میں علاحدہ مستقل افسروں کے ماتحت کر دیا، اس عہد کے مکمل فوجی نظام کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ امیر معاویہ ؓ کو حدود شام میں رومیوں کے مقابلہ کے لیے فوجی کمک کی ضرورت ہوئی تو ایران اور آرمینیہ کی فوجیں نہایت عجلت کے سات بروقت پہنچ گئیں، اسی طرح جب عبد اللہ بن ابی سرح ؓ کو طرابلس میں بغاوت فرد کرنے کے لیے فوجی طاقت کی ضرورت پیش آئی تو شام وعراق کی کمک نے عین وقت پر مساعدت کی، افریقہ کی فتح میں جب مصری فوج ناکام ثابت ہوئی تو مدینہ سے کمک روانہ کی گئی جس کے افسر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ تھے، انھوں نے معرکہ کو کامیابی کے ساتھ ختم کیا۔ عہد فاروقی میں جو مقامات فوجی مرکز قرار پائے تھے، عہد عثمانی میں ان کے علاوہ طرابلس، قبرص، طبرستان اور آرمینیہ میں بھی فوجی مرکز قائم کیے گئے اور اضلاع میں چھاؤنیاں قائم کی گئیں جہاں تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔ تمام ملک میں گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش و پرداخت کے لیے نہایت وسیع چراگاہیں بنوائی گئیں، خود دار الخلافہ کے اطراف ونواح میں متعدد چراگاہیں تھیں، سب سے بڑی چراگاہ مقام ربذہ میں تھی، جو مدینہ سے چار منزل کے فاصلہ پر واقع ہے، یہ چراگاہ دس میل لمبی اوراسی قدر چوڑی تھی، دوسری چراگاہ مقام نقیع میں تھی جو مدینہ سے بیس میل دور ہے، اسی طرح ایک چراگاہ مقام ضربہ میں تھی جو وسعت میں ہرطرف سے چھ چھ میل تھی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ میں جب گھوڑوں اور اونٹوں کی کثرت ہوئی تو ان چراگاہوں کو پہلے سے زیادہ وسیع کیا گیا اورہر چراگاہ کے قریب چشمے تیار کرائے گئے؛چنانچہ مقام ضربہ میں بنی صبیہ سے پانی کا ایک چشمہ خرید کر چراگاہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا، علاوہ اس کے حضرت عثمان بن عفان ؓ نے خود اپنے اہتمام سے ایک دوسرا چشمہ تیار کرایا اور منتظمین چراگاہ کے لیے مکانات تعمیر کرائے، عہد عثمانی میں اونٹوں اور گھوڑوں کی جو کثرت تھی، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراگاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔
اسلام میں بحری جنگ اوربحری فوجی انتظامات کی ابتدا خاص حضرت عثمان بن عفان ؓ کے عہد خلافت سے ہوئی، اس سے پہلے یہ ایک خطرناک کام سمجھا جاتا تھا مگر افسوس ہے کہ تاریخوں سے اس کے تفصیلی انتظامات کا پتہ نہیں چلتا، صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے توجہ دلانے پر بارگاہ خلافت سے ایک جنگی بیڑا تیار کرنے کا حکم ہوا اور عبد اللہ بن قیس حارثی اس کے امیر البحر ہوئے ؛ لیکن اس قدر یقینی ہے کہ اسی زمانہ میں مسلمانوں کی بحری قوت اتنی بڑھ گئی تھی کہ آسانی کے ساتھ قبرص زیر نگیں ہو گیا اور رومیوں کے عظیم الشان جنگی بیڑے کو جس میں پانچ سو جہاز تھے اسلامی بیڑے نے ایسی شکست دی کہ پھر اس نے اسلامی سواحل کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہ کی۔
نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت وتبلیغ ہے، اس لیے حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا تھا؛چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہو کر آتے تھے ان کے سامنے خود اسلام کے محاسن بیان کرکے ان کو دین متین کی طرف دعوت دیتے تھے، ایک دفعہ بہت سی رومی لونڈیاں گرفتار ہوکر آئیں، حضرت عثمان ؓ نے خود ان کے پاس جاکر تبلیغ اسلام کا فرض انجام دیا؛چنانچہ دو عورتوں نے متاثر ہوکر کلمہ توحید کا اقرار کیا اور دل سے مسلمان ہوئیں۔ [164] غیر قوموں میں اشاعت اسلام کے بعد سب سے بڑی خدمت خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم و تلقین ہے، حضرت عثمان ؓ خود بالمُشافہ مسائل فقہ بیان کرتے تھے اور عملاً اس کی تعلیم دیتے تھے، ایک دفعہ وضو کرکے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح وضو کرتے دیکھا تھا۔[165]جس مسئلہ میں شبہ ہوتا اس کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہ کرسکتے تو دوسرے صحابہ ؓ سے استفسار فرماتے اور عوام کو بھی ان کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ سفر حج کے دوران میں ایک شخص نے پرندہ کا گوشت پیش کیا جو شکار کیا گیا تھا، جب آپ کھانے کے لیے بیٹھے تو شبہ ہوا کہ حالت احرام میں اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت علی ؓ بھی ہم سفر تھے ان سے استصواب کیا انھوں نے عدم جواز کا فتویٰ دیا اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اسی وقت کھانے سے ہاتھ روک دیا۔ [166] مذہبی انتظامات کی طرف پوری توجہ تھی، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کاحال گزرچکا ہے، مدینہ کی آبادی اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ جمعہ کے روز ایک اذان کافی نہیں ہوتی تھی، اس لیے ایک اور مؤذن کا تقرر کیا جو مقام زوراء میں اذان دے کر لوگوں کو نماز کے وقت سے مطلع کرتا تھا، نماز میں صفوں کو برابر اور سیدھی رکھنے کے انتظام پر متعدد اشخاص متعین تھے جو خطبہ ختم ہونے کے ساتھ ہی مستعدی کے ساتھ صفیں برابر کرتے تھے۔ [167] مذہبی خدمات کے سلسلہ میں حضرت عثمان ؓ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کی مہم میں شام، مصر، عراق وغیرہ مختلف ملکوں کی فوجیں مجمتع تھیں، جن میں زیادہ تر نومسلم اورعجمی النسل تھے، جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ بھی شریک جہاد تھے، انھوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت کا یہ حال ہے کہ اہل شام کی قرأت، اہل عراق سے بالکل جداگانہ ہے، اسی طرح اہل بصرہ کی قرأت اہل کوفہ سے مختلف ہے اور ہر ایک اپنے ملک کی قرأت صحیح اور دوسری کو غلط سمجھتا ہے، حضرت حذیفہ ؓ کو اس اختلاف سے اس قدر خلجان ہوا کہ جہاد سے واپس ہوئے تو سیدھے بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اور مفصل واقعات عرض کرکے کہا ‘‘ امیر المومنین!اگر جلد اس کی اصلاح کی فکر نہ ہوئی تو مسلمان عیسائیوں اور رومیوں کی طرح خدا کی کتاب میں شدید اختلاف پیدا کر لیں گے’’ حضرت حذیفہ ؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان بن عفان ؓ کو بھی خیال ہوا اور انھوں نے ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے عہد صدیقی کا مرتب ومدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید بن ثابت ؓ، عبد اللہ بن زبیر اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہم سے اس کی نقلیں کرا کے تمام ملک میں اس کی اشاعت کی اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطور خود مختلف املاؤں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا۔ [168] ظاہر ہے کہ ان اختلاف کو رفع کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تو آج قرآن کا بھی وہی حال ہوتا جو توریت وانجیل اور دیگر صحف آسمانی کا ہوا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں سے تھے جو اسلام سے پہلے ہی نوشت و خواند جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد اس ملکہ میں اور زیادہ ترقی ہوئی۔
ذو النورين کا مطلب ہے دو نور والا۔ آپ کو اس لیے ذو النورين کہا جاتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ منقول ہے کہ آج تک کسی انسان کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ اس کے عقد میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔[169] آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں جنت کی بشارت دی تھی۔[170] آپ کی شادی پہلے محمد بن عبد اللہ کی بیٹی رقیہ سے ہوئی اور رقیہ کی وفات کے بعد پھر آپ کا نکاح محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔ اسی نسبت سے آپ کو ذو النورین کہتے ہیں۔
عثمان غنی کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں، اسی لیے آپ کو ذو النورین کہا جاتا ہے۔ آپ سابقین اَوَّلین اور اَوَّل مہاجرین عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اور ان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جمعِ قرآن کی عزت عطا فرمائی۔[171]
ان 10 صحابہ کا ذکر عبدالرحمن بن عوف کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں۔[172]
آپ کی تحریر و کتابت کی مہارت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کتابت وحی پر مامور کیا تھا اور جب کبھی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ کو بلاکر لکھوایا کرتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ شب کے وقت وحی نازل ہوئی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے اسی وقت تعمیل ارشاد کی۔ [173]
اسلوب تحریر کا اندازہ ان فرامین و خطوط سے ہو سکتا ہے جواب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، افسوس ہے کہ الفاظ کی فصاحت اور کلام کی بلاغت کا لطف ترجمہ میں قائم نہیں رہ سکتا، بیعت خلافت کے بعد تمام ملک میں جو مختلف فرامین بھیجے ہیں ان میں سے ایک کے چند فقرے یہ ہیں: "إنما بلغتم ما بلغتم بالاقتداء والاتباع فلا تلفتنكم الدنيا عن أمركم فإن أمر هذہ الأمة صائر إلى الابتداع بعد اجتماع ثلاث فيكم تكامل النعم وبلوغ أولادكم من السبايا وقراءة الأعراب والأعاجم القرآن فإن رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم قال الكفر في العجمة فإذا استعجم عليهم أمر تكلفوا وابتدعوا" "اتباع اوراطاعت ہی سے تم کو یہ درجہ حاصل ہوا ہے، پس دنیا طلبی تم کو تمھارے مقصد سے برگشتہ نہ کرنے پائے، امت میں تین اسباب کے مجتمع ہو جانے کے بعد بدعات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، دولت کی بہتات، لونڈیوں سے اولادوں کی کثرت، اعراب اور اعاجم کا قرآن پڑھنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر عجمیت میں ہے کیونکہ وہ جب کوئی بات نہیں سمجھ سکتے تو(خواہ مخواہ) تکلیف کرکے نئی نئی باتیں گھڑ لیتے ہیں۔" ایک فرمان میں عمال کو تحریر فرماتے ہیں: "وليوشكن أئمتكم أن يصيروا جباة ولا يكونوا رعاة فإذا عادوا كذلك انقطع الحياء والأمانة والوفاء ألا وإن أعدل السيرة أن تنظروا في أمور المسلمين فيما عليهم فتعطوهم ما لهم وتأخذوهم بما عليهم" "قریب ہے کہ تمھارے ائمہ نگہبان ہونے کی بجائے صرف تحصیلدار ہو کر رہ جائیں، جب ایسی حالت ہو جائے گی تو حیا، امانت اور وفاداری ناپید ہو جائے گی، ہاں ! بہتر طریقہ یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے نفع نقصان کا خیال رکھو، ان کا حق ان کو دلواؤ جوان سے لینا چاہے وہ اس سے وصول کرے"[174][175]
برجستہ تقریر و خطابت کا ملکہ نہ تھا؛چنانچہ مسند نشینی کے بعد پہلے پہل جب منبر پر تشریف لائے تو زبان نے یاری نہ کی اور صرف یہ کہہ کر اترآئے کہ ابوبکر صدیق ؓ و عمر ؓ پہلے سے اس کے لیے تیار ہوکر آتے تھے، میں بھی آئندہ تیار ہوکر آؤں گا؛لیکن تم کو تقریر کرنے والے امام سے زیادہ کام کرنے والے امام کی ضرورت ہے، آپ کی تقریر مختصر ؛لیکن فصیح و موثر ہوتی تھی، ایک خطبہ کے چند ابتدائی فقرے یہ ہیں: "أيها الناس إن بعض الطمع فقر وإن بعض اليأس غنى وإنكم تجمعون ما لا تأكلون وتأملون ما لا تدركون وأنتم مؤجلون في دار غرور" "لوگو!بعض حرص وطمع احتیاجِ محض ہے اوربعض ناامیدی تونگری وبے نیازی کے مترادف ہے، تم ایسی چیزیں جمع کرتے ہو جس سے متمتع نہیں ہو سکتے اور ایسی امیدیں باندھتے ہو جو پوری نہیں ہو سکتی ہیں، تم لوگ اس دھوکا کے گھر میں ایک وقت مقررہ تک کے لیے چھوڑے گئے ہو"
حضرت عثمان بن عفان ؓ روایت کرتے ہیں کہ قرآن کا پڑھنا یا پڑھانا سب سے افضل ہے، [176]غالباً اسی لیے ان کو قرآن شریف سے خاص شغف تھا، دوسرے اکابر صحابہ ؓ کی طرح وہ بھی قرآن مجید کے حافظ تھے اور چونکہ کاتب وحی رہ چکے تھے، اس لیے ہر آیت کے شان نزول اوراس کے حقیقی مفہوم سے واقف تھے، کہتے ہیں کہ عہد نبوت میں انھوں نے بھی ایک مصحف جمع کیا تھا۔[177] آیات قرآنی سے استدلال، استنباط احکام اور تفریع مسائل میں خاص ملکہ رکھتے تھے، قرآن پاک کو نومسلم قوموں کی تحریف سے بچانا ان کا بڑا کارنامہ ہے، یہ واقعہ بھی ان کی فضیلت کا ایک باب ہے کہ اس وقت بھی جب وہ دشمنوں کے نرغہ میں تھے اور قاتل تیغ بکف ان کے سامنے تھے اور وہ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے۔ [178]
سلسلہ احادیث میں دوسرے صحابہ کی نسبت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مرفوع احادیث بہت کم مروی ہیں، آپ کی کل روایتوں کی تعداد 146 ہے، جن میں تین متفق علیہ ہیں، یعنی بخاری ومسلم دونوں میں موجود ہیں اور آٹھ صرف بخاری اور پانچ صرف مسلم میں ہیں، اس طرح صحیحین میں آپ کی کل 16 حدیثیں ہیں۔ ان کی روایات کی قلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایات حدیث میں حددرجہ محتاط تھے، فرماتے تھے کہ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے میں یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ شاید دیگر صحابہ کے مقابلہ میں میرا حافظہ زیادہ قوی نہ ہو؛لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف وہ منسوب کرے گا جو میں نے نہیں کہا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ [179] اس لیے وہ حدیث کی روایت میں سخت احتیاط کرتے تھے، عبد الرحمن بن حاطب کا بیان ہے کہ میں نے کسی صحابی کو حضرت عثمان ؓ سے زیادہ پوری بات کرنے والا نہیں دیکھا ؛لیکن وہ حدیث بیان کرتے ڈرتے تھے۔ [180]
حضرت عثمان ؓ اگرچہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر بن خطاب و حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی طرح اکابر مجتہدین میں داخل نہیں، تاہم وہ شرعی اور مذہبی مسائل میں مجتہد کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسرے مجتہد صحابہ ؓ کی طرح ان کے اجتہاد ات اور فیصلے بھی کتب آثار میں مذکور ہیں، لوگ ان کے قول وعمل سے استفادہ کرتے تھے[181]خصوصاً حج کے ارکان اور مسائل کے علم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا، اس علم میں ان کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا درجہ تھا، شیخین کے عہد خلافت میں بھی حضرت عثمان ؓ سے فتوے پوچھے جاتے تھے اور پیچیدہ مسائل میں ان کی رائے دریافت کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ مکہ میں گئے اور اپنی چادر ایک شخص پر جو خانہ کعبہ میں کھڑا ہوا تھا ڈال دی، اتفاق سے اس پر ایک کبوتر بیٹھ گیا، انھوں نے اس خیال سے کہ چادر کو اپنی بیٹ سے گندہ نہ کر دے اس کو اڑا دیا، کبوتر اڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھا، وہاں اس کو ایک سانپ نے کاٹ لیا اور وہ اسی وقت مر گیا، حضرت عثمان ؓ کے سامنے یہ مسئلہ آیا تو انھوں نے کفارہ کا فتویٰ دیا، کیونکہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیر محفوظ مقام میں پہنچانے کا باعث ہوئے تھے۔ [182] بیعت خلافت کے بعد حضرت عثمان ؓ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا حضرت عبیداللہ بن عمر ؓ مدعا علیہ تھے، اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی درحقیقت ایک اجتہادپر مبنی ہے یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے ؛چونکہ ہر مزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لیے حضرت عثمان ؓ نے بحیثیت ولی کے قصاص کی بجائے دیت لینا قبول کیا اور وہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کر بیت المال میں داخل کردی۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے بعض اجتہاد سے بعض معاملات میں سہولت پیداکر دی، مثلاً دیت میں اونٹ دینے کا رواج تھا، حضرت عثمان ؓ نے اس کی قیمت بھی دینی جائز قراردی۔ [183] ان کے بعض اجتہادی مسائل سے دوسری مجتہدین صحابہ ؓ کو اختلاف بھی تھا؛لیکن حضرت عثمان بن عفان ؓ چونکہ اپنی رائے کو صحیح سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے اجتہاد سے رجوع نہیں کیا، مثلاً آپ لوگوں کو حج تمتع یعنی حج اور عمرہ کے لیے علاحدہ علاحدہ نیت کرنے سے اس بنا پر روکتے تھے کہ اس کے جواز کی علت اب باقی نہیں رہی، یعنی کفار کا خوف؛لیکن حضرت علی ؓ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔[184]اسی لیے حضرت عثمان ؓ کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص حج کے موقع پر اقامت کی نیت کرلے تو اس کو منی میں بھی پوری چار رکعت نماز ادا کرنی چاہیے، حضرت علی ؓ منیٰ میں قصر کرنا ضروری سمجھتے تھے، حضرت عثمان ؓ حالت احرام میں ناجائز قرار دیتے ہیں، [185]کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے اس کی ممانعت سنی تھی؛لیکن حضرت علی اور دوسرے صحابہ ؓ اس کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، حضرت عثمان ؓ اس زن مطلقہ کو جس کو طلاق بائن دی گئی ہو، حالت عدت میں وارث قرار دیتے تھے۔[186]کیونکہ ان کے خیال میں جب تک عدت پوری نہ ہو جائے اس وقت تک ایک رشتہ قائم ہے، حضرت علی ؓ کو اس سے اختلاف تھا، حضرت عثمان ؓ کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص حالت عدت میں کسی عورت سے نکاح کرلے تو مستوجب سزا ہے کہ قرآن نے اس کی ممانعت کی ہے؛چنانچہ ایک شخص ان کے عہد میں اس کا مرتکب ہوا تو انھوں نے اس کو جِلا وطن کر دیا[187] حضرت علی بن ابی طالب ؓ اس کو کسی حد شرعی کا مستوجب نہیں سمجھتے تھے؛ غرض اسی طرح بعض اور مسائل میں بھی حضرت عثمان ؓ اور دوسرے صحابہ کرام ؓ کے درمیان میں اختلاف تھا؛لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اختلاف کسی نفسانیت پر مبنی تھا، ان بزرگوں کی رواداری اور صفائی قلب کا یہ حال تھا کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منی میں دو رکعت نماز کی بجائے پوری چار رکعت نماز ادا کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا اگرچہ میرے خیال میں قصر ضروری ہے ؛لیکن میں عملاً امیر المومنین کی مخالفت نہیں کروں گا؛چنانچہ خود بھی دو کی بجائے پوری رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفان ؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ بعض مسائل میں دوسرے صحابہ کو اختلاف ہے تو فرمایا کہ‘‘ہر شخص کو اختیار ہے جو حق نظر آئے اس پر عمل کرے، میں کسی کو اپنی رائے ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔’’ بعض نا واقفوں نے حضرت عثمان ؓ کے کسی مسئلہ پر اعتراض کیا تو فرمایا ہم لوگ خدا کی قسم سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ہم بیمار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری عیادت فرماتے، ہمارے جنازوں کے پیچھے چلتے ہم کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے، کم وبیش جو کچھ ہوتا اس سے ہماری غمخواری فرماتے، اب ایسے لوگ ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانا چاہتے ہیں جنھوں نے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بھی نہ دیکھی ہو۔ [188][189]
حضرت عثمان بن عفان ؓ کو چونکہ تجارتی کاروبار سے ہمیشہ سابقہ پڑتا تھا اس لیے ان کو علم حساب سے ضرور دلچسپی رہی ہوگی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ فرائض یعنی علم تقسیم ترکہ سے جس میں حساب کو بڑا دخل ہے ، مناسبت تھی؛چنانچہ اس فن کی تدوین اور ترتیب میں حضرت زید بن ثابت ؓ کے ساتھ ان کا ہاتھ بھی شامل ہے، قرآن شریف میں ذوی الفروض اور بعض عصبات کا ذکر ہے، حضرت عثمان بن عفان ؓ اور زید بن ثابت ؓ نے اپنی مجتہدانہ قوت سے اسی کو بنیاد قرار دے کر موجودہ علم الفرائض کی عمارت قائم کی۔ یہ دونوں اپنے زمانہ میں اس فن کے امام سمجھے جاتے تھے، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں وارثت کے جھگڑوں کا فیصلہ بھی کرتے تھے اور اس سے متعلق تمام مشکل عقدوں کو حل فرماتے تھے، بعض صحابہ کو یہاں تک خوف تھا کہ ان دونوں کی وفات سے فرائض کا علم ہی جاتا رہے گا۔ [190]
حضرت عثمان بن عفان ؓ فطرتاً عفیف، پارسا، دیانت دار اور راست باز تھے حیا اور رحمدلی ان کی خاص شان تھی، ایام جاہلیت میں جبکہ عرب کا ہربچہ مست شراب تھا، اس وقت بھی عثمان بن عفان ذوالنورین ؓ کی زبان بادۂ گلگوں کے ذائقہ سے ناآشنا تھی۔[191] اورجب کذب و افتراء فسق وفجور عالمگیر تھا، آپ کا دامن ان دھبوں سے آلودہ نہیں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے ان اوصاف کو اور بھی چمکا دیا تھا۔
خوف خدا تمام محاسن کا سر چشمہ ہے جو دل خدا کی ہیبت وجلال سے لرزاں نہیں، اس سے کسی نیکی کی امید نہیں ہو سکتی، حضرت عثمان بن عفان ؓ اکثر خوف خداوندی سے آبدیدہ رہتے، موت، قبر اور عاقبت کاخیال ہمیشہ دامن گیر رہتا، سامنے سے جنازہ گزرتا تو کھڑے ہوجاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے، مقبروں سے گزرتے تو اس قدروتے کہ ڈاڑھی تر ہو جاتی، لوگ کہتے کہ دوزخ وجنت کے تذکروں سے توآ پ پر اس قدر رقت طاری نہیں ہوتی، آخر مقبروں میں کیا خاص بات ہے کہ انھیں دیکھ کر آپ بے قرار ہوجاتے ہیں؟ فرماتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے، اگر یہ معاملہ آسانی سے طئے ہو گیا تو پھر تمام منزلیں آسان ہیں اور اگر اس میں دشواری پیش آئی تو تمام مرحلے دشوار ہوں گے۔
حضرت عثمان ؓ تقریباً تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور آپ پر فدویت وجانثاری کا حق ادا کیا، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ اتنی محبت وشیفتگی تھی کہ اپنے محبوب آقا کی فقیرانہ اور زاہدانہ زندگی دیکھ کر بے قرار رہتے تھے اور جب موقع ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف پیش کرتے، ایک دفعہ چاردن تک آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر وفاقہ سے بسرکیا، حضرت عثمان ؓ کو معلوم ہوا تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور اسی وقت بہت سا سامان خور و نوش اور تین سو درہم لاکر بطور نذرانہ پیش کیے۔ [192]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام اس قدر ملحوظ تھا جس ہاتھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، پھر اس کو نجاست یا محل نجاست سے مس نہ ہونے دیا، [193]اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات ؓ کا خاص طور سے پاس وخیال تھا؛چنانچہ اپنے عہد خلافت میں جب اصحاب وظائف کے رمضان کے روزینے مقرر کیے تو ازواج مطہرات ؓ کا روزینہ سب سے دونا مقرر کیا۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے اس محبت و ارادت کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اپنے ہر قول وفعل یہاں تک کہ حرکات و سکنات اوراتفاقی باتوں میں بھی محبوب آقا کی اتباع کو پیش نظر رکھتے تھے، ایک دفعہ وضو کرتے ہوئے متبسم ہوئے، لوگوں نے بے موقع تبسم کی وجہ پوچھی فرمایا: میں نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (روحی فداہ)کو اسی طرح وضو کرکے ہنستے ہوئے دیکھا تھا، [194]ایک دفعہ سامنے سے جنازہ گذرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے[195]ایک دفعہ عصر کے وقت سب کے سامنے وضو کرکے دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو فرمایا کرتے تھے، [196] ایک بار مسجد کے دوسرے دروازہ پر بیٹھ کر بکری کا پٹھا منگوایا اورکھایا اوربغیر تازہ وضو کیے ہوئے نماز کو کھڑے ہو گئے، پھر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا، [197]حج کے موقع پر آپ اورایک صحابی طواف کر رہے تھے، طواف میں انھوں نے رکن یماق کا بھی بوسہ لیا، حضرت عثمان ؓ نے ایسا نہیں کیا تو انھوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کا استلام کرانا چاہا، حضرت عثمان ؓ نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف نہیں کیا؟انھوں نے کہا، ہاں!کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے تم نے دیکھا؟ کہا نہیں!فرمایا، پھر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء مناسب نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا بے شک [198]
شرم وحیاء حضرت عثمان بن عفان ؓ کا امتیازی وصف تھا، اس لیے مؤرخین نے ان کے اخلاق و عادات کے بیان میں حیاء کا مستقل عنوان قائم کیا، آپ میں اس درجہ شرم وحیاء تھی کہ خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اس حیا کا پاس ولحاظ رکھتے تھے، ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ کا مجمع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرماتھے، زانوئے مبارک کا کچھ حصہ کھلا ہوا تھا، اسی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو سنبھل کر بیٹھ گئے اور زانوئے مبارک پر کپڑا برابر کر لیا، لوگوں نے حضرت عثمان کے لیے اس اہتمام کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ عثمان بن عفان ؓ کی حیاء سے فرشتے بھی شرماتے ہیں، [199]اسی قسم کا ایک اور واقعہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیان فرماتی ہیں، [200] حضرت ذوالنورین ؓ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ تنہائی اور بند کمرے میں بھی وہ برہنہ نہیں ہوتے تھے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اگرچہ اپنی خلقی ناتوانی اور ضعف پیری کے باعث اور کسی قدر اس سبب سے کہ انھوں نے ناز ونعمت میں پرورش پائی تھی، ہلکی غذا اور نرم پوشاک استعمال کرنے پر مجبور تھے اور فاروق اعظم ؓ کی طرح موٹا چھوٹا کپڑا اور روکھا پھیکا نہیں کھا سکتے تھے؛لیکن اس سے یہ قیاس نہیں کرنا چاہیے کہ آپ عیش و تنعم کے گرویدہ تھے ؛بلکہ انھوں نے باوجود غیر معمولی دولت وثروت کے کبھی امیرانہ زندگی اختیار نہیں فرمائی اور نہ کبھی صرف زیب وزینت کی چیزیں استعمال کیں، ‘‘قز’’ ایک خوش وضع رومی کپڑا تھا جو عرب کا مطبوع عام لباس تھا، امرا تو امرا متوسط درجہ کے لوگ بھی اس کو پہننے لگے تھے؛لیکن حضرت عثمان بن عفان ؓ نے کبھی اس کو استعمال نہ فرمایا اور نہ اپنی بیویوں کو استعمال کرنے دیا۔
تواضع اور سادگی کا یہ حال تھا کہ گھر میں بیسیوں لونڈی اورغلام موجود تھے؛لیکن اپنا کام آپ ہی کرلیتے تھے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے، رات کو تہجد کے لیے اٹھتے اورکوئی بیدار نہ ہوتا توخود ہی وضو کا سامان کرلیتے اور کسی کو جگا کر اس کی نیند خراب نہ فرماتے، اگر کوئی درشت کلامی کرتا توآپ نرمی سے جواب دیتے، ایک دفعہ عمرو بن العاص نے اثنائے گفتگو میں حضرت عثمان بن عفان ؓ کے والد کی شرافت پر طعنہ زنی کی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نرمی سے جواب دیا کہ عہد اسلام میں زمانہ جاہلیت کا کیا تذکرہ ہے، [201] اسی طرح ایک دفعہ جمعہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی، عثمان توبہ کر اور اپنی بے اعتدالیوں سے باز آ، حضرت عثمان ؓ نے اسی وقت قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھایا اور کہا: اللہم انی اول تائب تاب الیک [202] "یعنی اے خدا میں پہلا توبہ کرنے والا ہوں جس نے تیری درسگاہ میں رجوع کیا۔"
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے مال میں ہمیشہ ایثار سے کام لیا؛چنانچہ اپنے زمانہ خلافت میں ذاتی مصارف کے لیے بیت المال سے ایک حبہ نہیں لیا، [203]اور اس طرح گویا اپنا مقررہ وظیفہ عام مسلمانوں کے لیے چھوڑ دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سالانہ وظیفہ پانچ ہزار درہم تھا، اس حساب سے حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اپنے دوازدہ سالہ مدت خلافت میں ساٹھ ہزار درہم کی گراں قدر رقم مسلمانوں کے لیے چھوڑی، جو درحقیقت ایثار نفس کا نمونہ ہے۔
حضرت عثمان ؓ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے، اس کے ساتھ خدا نے فیاضی طبع بھی بنا دیا تھا؛ چنانچہ انھوں نے اپنی فیاضی، اپنے مال ودولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا جب اس امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔ مدینہ منورہ میں تمام کنوئیں کھاری تھے، صرف بیررومہ جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شیریں تھا، حضرت عثمان ؓ نے رفاہِ عام کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خریدکر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، اسی طرح جب مسلمانوں کی کثر ت ہوئی اور مسجد نبوی میں جگہ کی تنگی کے باعث نمازیوں کو تکلیف ہونے لگی تو حضرت عثمانی ؓ نے ایک گراں قدر رقم صرف کرکے اس کی توسیع کرائی۔ آپ کی فیاضی کا سب سے زیادہ نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر ہزاروں روپے کے صرف سے مجاہدین کو آراستہ کیا، یہ فیاضی ایسے وقت میں ظاہر ہوئی جبکہ عام طور پر مسلمانوں کی عسرت اورتنگی نے پریشان کررکھا تھا اور دوسری طرف قیصر روم کی جنگی تیاریوں سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش دامن گیر تھی۔ مذکورہ بالا فیاضیوں کے علاوہ روزانہ جو دوکرم اورصدقات وخیرات کا سلسلہ جاری رہتا تھا، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، [204] بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے تھے، مسلمانوں کی عسرت و تنگ حالی سے ان کو دلی صدمہ ہوتا تھا، ایک دفعہ ایک جہاد میں ناداری اور مفلسی کے باعث مسلمانوں کے چہرے اداس تھے اور اہل نفاق ہشاش ہر طرف اکڑتے پھرتے تھے، اسی وقت چودہ اونٹوں پر سامان خور و نوش بارکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرادیں۔ [205]
اعزہ اور احباب کے ساتھ مسلوک ہوتے تھے اور ان کی پرورش فرماتے تھے، آپ کے چچا حکم بن العاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کو جلاوطن کر دیا تھا، حضرت عثمان ؓ نے بارگاہ نبوت میں کوشش کرکے ان کی خطامعاف کرائی اور اپنے عہد میں مدینہ بلوایا اور جیب خاص سے ان کی اولاد کو ایک لاکھ درہم عطا فرمائے، [206] عبد اللہ بن عامر، عبد اللہ بن ابی سرح، عثمان بن ابن العاص ؓ، امیر معاویہؓ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور ان کے عہد خلافت میں ممتاز عہدوں پر متعین رہے۔ احباب کے ساتھ بھی یہی سلوک تھا، ان کی ضرورت پر بڑی بڑی رقمیں قرض دیتے تھے اور بسا اوقات واپس نہیں لیتے تھے، ایک دفعہ حضرت طلحہ ؓ نے ایک بڑی رقم قرض لی، کچھ دنوں بعد واپس دینے آئے تو لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ تمھاری مروت کاصلہ ہے۔ [207]
صبر وتحمل کا پیکر تھے، مصائب وآلام کو نہایت صبر وسکون کے ساتھ برداشت کرتے تھے، شہادت کے موقع پر چالیس دن تک جس بردباری ضبط اور تحمل کا اظہار آپ کی ذات سے ہوا وہ اپنی آپ نظیر ہے، سینکڑوں وفا شعار غلام اور ہزاروں معاون و انصار سرفروشی کے لیے تیار تھے مگر اس ایوب وقت نے خونریزی کی اجازت نہ دی اور اپنے اخلاقِ کریمانہ کا آخری منظر دکھا کر ہمیشہ کے لیے دنیا سے روپوش ہو گیا۔
دن کے وقت مہمات خلافت میں مصروف رہتے اور رات کا اکثر حصہ عبادت وریاضت میں بسر فرماتے تھے، کبھی کبھی رات بھر جاگتے اورایک ہی رکعت میں پورا قرآن ختم کردیتے تھے۔ [208] دوسرے تیسرے دن عموماً روزہ رکھتے تھے، کبھی کبھی مہینوں روزے سے رہتے، اورشب کے وقت صرف اس قدر کھالیتے تھے کہ سدرمق کے لیے کافی ہو۔ ہرسال حج کے لیے تشریف لے جاتے تھے، خود امیر الحج کے فرائض انجام دیتے تھے، خصوصاً ایام خلافت میں کوئی سال حج سے خالی نہیں گذرا البتہ جس سال شہید ہوئے اس سال محصور ہونے کے باعث نہ جاسکے۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت اوس بن ثابت ؓ کے مہمان ہوئے اور غالباً عرصہ تک انھی کے مکان میں مقیم رہے، اس کے بعد اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی کے قریب ایک محل تعمیر کرایا، جو عظمت وشان میں مدینہ کی تمام عمارتوں سے ممتاز تھا، یہ جگہ اب بھی سیدنا عثمان کے نام سے مشہور ہے اور کچھ حصہ مغربی حاجیوں کا زاویہ ہے اور یہاں ایک کتب خانہ، کتب خانہ سیدنا عثمان ؓ کے نام سے قائم ہے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر گلی کی دوسری طرف ایک مکان کے دروازے پر مشہد سید نا عثمان ؓ کا کتبہ لگاہوا ہے۔
معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا، عرب میں کوئی ان سے بڑا دولتمند تاجر نہ تھا، اس غیر معمولی دولت وثروت کے باعث ان کو غنی کا خطاب دیا گیا تھا۔
فتح خیبر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جو اس معرکہ میں شریک تھے، جاگیریں عطا کی تھیں، حضرت عثمان ؓ کے حصہ میں ایک قطعۂ زمین آیا تھا، اس کے علاوہ انھوں نے مختلف مقامات میں جائدادیں خریدی تھیں، مدینہ سے قریب مقام بقیع میں بھی ایک نہایت وسیع قطعہ خریدا تھا جس کو انھوں نے قبرستان کے لیے وقف فرمادیا تھا۔ [209]
جہاں تک معلوم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ خود زراعت نہیں فرماتے تھے، البتہ اپنی زمین کو بٹائی پر دیتے تھے کہ پیداوار میں سے دوثلث کاشت کار کو ملتا تھا اور صرف ایک ثلث آپ کا حق ہوتا تھا۔
ضعف اور پیری کے باعث غذا عموماً نرم، ہلکی اور زود ہضم تناول فرماتے تھے، دسترخوان پر عموماً اعزہ واحباب کا مجمع رہتا تھا۔
مزاج میں نفاست اور طہارت تھی، جب سے مسلمان ہوئے روزانہ غسل کیا کرتے تھے، [210] ہمیشہ اچھے کپڑے پہنتے تھے اور عطر لگاتے تھے۔
ابن سعد نے آپ کے لباس کا خاص عنوان باندھا ہے، گوآپ اچھے کپڑے استعمال فرماتے تھے ؛لیکن اس میں تکلفات کو دخل نہیں ہوتا تھا، ایسے کپڑوں سے نہایت پرہیز کرتے تھے، جس سے مزاج میں غرور، تکبر اورخود بینی کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے، نفط ایک خاص قسم کا رومی کپڑا تھا جو امرائے عرب میں عموماً نہایت مطبوع تھا ؛لیکن انھوں نے اس کو کبھی استعمال نہیں کیا اور نہ اپنی بیویوں کو پہننے دیا، تمام عمر پائجامہ نہیں پہنا، صرف شہادت کے وقت ستر کے خیال سے پہن لیا تھا، عموماً تہ بند باندھا کرتے، ایک تابعی روایت کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز منبر پر ان کو دیکھا تو جوموٹا تہ بندوہ پہنے تھے اس کی قیمت پانچ درہم (ایک روپیہ) سے زیادہ نہ تھی۔ [211]
صورۃ خوش رو اورخوب صورت تھے، [212] رنگ گندم گوں، قد معتدل، ناک بلند اورخم دار رخسار پر گوشت اور ان پر چیچک کے ہلکے ہلکے داغ، داڑھی گھنی اور طویل، سرکے بال گھنے اور بڑے بڑے، یہاں تک کے زلف کانوں تک پہنچتی تھی، بعض روایات کے مطابق بالوں میں خضاب فرماتے تھے، دانت پیوستہ اور چمکدار تھے جن کو سونے کے تار سے باندھ کر مضبوط کیا گیا تھا۔ [213]
مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں ، پہلی بیوی آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ تھیں، حبشہ کی ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ تھیں، واپس آکر مدینہ منورہ کی ہجرت میں شریک ہوئیں، ایک سال زندہ رہیں، 2ھ میں غزوۂ بدر کے موقع پر وفات پائی، ان سے عبد اللہ نامی ایک فرزند تولد ہوا تھا جس نے پچپن ہی میں وفات پائی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے 3ھ میں نکاح ہوا، انھوں نے بھی نکاح کے چھ سات برس بعد 9ھ میں وفات پائی، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اس کے بعد حسب ذیل نکاح کیے:
ان کے بطن سے بھی ایک فرزند تولد ہوا، عبد اللہ نام تھا ؛لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گیا۔
ان کے بطن سے عمرو، خالد، ابان، عمر اور مریم پیدا ہوئے۔
یہ حضرت عثمان کے بیٹے ولید اور سعید کی ماں ہیں۔
ان سے عبد الملک پیدا ہوئے، انھوں نے بچپن ہی میں وفات پائی۔
عائشہ، ام ابان اورام عمر و؛ان کے بطن سے تولد ہوئیں۔
شہادت کے وقت موجود تھیں، ان کے بطن سے مریم بنت عثمان ؓ پیدا ہوئیں۔ صاحبزادوں میں سے نامور حضرت ابان ہوئے، انھوں نے بنوامیہ کے عہد میں خاصا اعزاز حاصل کیا۔رضی اللہ تعالی عنہم[214][215]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.