From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلام جمہوریہ اسلامی پاکستان کا سرکاری مذہب ہے۔ یہاں کی آبادی تقریبا 24 کروڑ 62 لاکھ ہے۔۔[1] ملک کی 95 سے 97 فیصد آبادی مسلمان ہے جب کہ 3 سے 5 فیصد آبادی اقلیت پر مشتمل ہے، جن میں مسیحی، ہندو اور دیگر مذاہب کے شہری شامل ہيں[2][3]
تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں میں سے اکثریت سنیوں کی ہے اور اہل تشیع اس کے بعد آتے ہيں[2][3]۔۔[4][5][6] ایرانی محقق ولی نصر کے مطابق ایران شیعوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں اول نمبر پر ہے جب کہ پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جہاں شیعوں کی تعداد سب سے زيادہ ہے جو 26اعشاریہ 5 ملین سے بڑھ کر اب 50 ملین ہو چکی ہے [7]
بین الاقومی مرکز تحقیق، سنگا پور کے مطابق پاکستان میں سنی مسلمان 60 فیصد (جس میں بریلوی اور دیوبندی دونوں آتے ہیں)، اہل تشیع 20 فیصد، وہابی 4 فیصد باقی 1 فیصد دیگر۔[8]
پاکستان میں اسلام کا تذکرہ ہمیشہ قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ آتا ہے۔ کیوں کہ بر صغیر میں اسلام کی پہلی باقاعدہ آمد تو محمد بن قاسم کے حوالے سے مشہور ہے مگر دیگر تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان یہاں اس سے بھی پہلے پہنچ چکے تھے ۔
تاریخی لحاظ سے موجودہ پاکستان جس میں سندھ، بلوچستان، پنجاب و کشمیر کا علاقہ شامل ہے، اسلام سے اس وقت متعارف ہوا جب امیر معاویہ نے سندھ کے علاقوں کی طرف جہاد کے لیے لشکر بھیجا۔ بعد میں محمد بن قاسم نے کشمیر تک اسلامی فتوحات کا پرچم لہرایا ۔
قدیم زمانے میں بلوچستان بھی سندھ سے ملحق ہوا کرتا تھا۔ اس کا ایک قدیم حصہ کرمان کے نام سے مشہور تھا جو آج کل ایران کا حصہ ہے۔ اسے سنہ 11ھجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سہل بن عدی نے بالائی بلوچستان یعنی پنجگور تک فتح کیا۔ جب کہ پاکستانی حصے کا قدیم نام سیستان تھا جسے زیریں بلوچستان بھی کہا جاتا تھا اسے بعد میں حضرت عثمان کے زمانے میں (سنہ 18 ھجری / 652 عیسوی )حضرت مشاج بن مسعود نے فتح کیا۔ پھر عبد الرحمن بن تمرہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین عثمان غنی کی طرف سے گورنر مامور ہوئے اس علاقے میں۔ جس کے لیے زہری قوم کے لوگوں نے سب سے پہلے ان کا ساتھ دیا۔ عبد الرحمان بن تمرہ کے عملداری میں کرمان ( ایرانی بلوچستان )، سیستان (پاکستانی بلوچستان ) اور سجستان ( افغانستان ) شامل تھے۔ کہا جاتا ہے پورے ہندوستان میں کہیں کسی صحابی کا مدفن نہيں ہے سوائے بلوچستان کے علاقے زہری کے جہاں گورنر بلوچستان عبد الرحمٰن بن تمرہ دفن ہیں۔ ان کے بعد حارث بن مرہ نے قلات کے علاقے کو بھی فتح کر کے مملکت اسلامیہ میں شامل کیا ۔[9] اس زمانے میں اس علاقے کا نام توران بھی لیا جاتا ہے
گیارہویں صدی کے دور میں یہاں ناصر الدین سبکتگین کی حکومت رہی۔ جو غزنوی دور حکومت کی شروعات تھی۔ 1219ء میں خیوہ ( خوارزم ) کے سلطان محمد خان کی حکومت رہی۔ جنوبی مکران 1223ء میں منگولوں کے ہاتھوں تاراج ہوا۔ 1595ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے حکومت کی - 1747 میں افغانستان کے احمد شاہ درانی نے فتح کیا۔ خانان قلات کے پہلے سردار ناصر خان اول نے 1758 ء میں اسے افغانوں سے حاصل کیا۔[10]
سنہ 50 ہجری میں حضرت امیر معاویہ مکران و بلوچستان کے عامل عبد اللہ بن سوار کو سندھیوں کی تادیب کے لیے بھیجا۔ سندھیوں کے ساتھ اس معرکے میں عبد اللہ بن سوار شہید ہو گئے۔ ان کے بعد حلب بن ابی صغرہ نے سندھ پر یلغار کی اور سندھ کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد سنہ 92 ہجری میں ولید بن عبد الملک کے دور خلافت میں حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے سپہ سالار محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ کے راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے فوج روانہ کی۔ یہ سندھ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑي آمد تھی۔ جس کی وجہ سے سندھ کو آج تک باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔ محمد بن قاسم سے پہلے تین حملوں میں اسلامی فوج کو کامیابی نہيں ملی۔ مگر پھر بالآخر محمد بن قاسم کی فتح کے بعد کشمیر تا وادی سندھ اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا ۔ سندھ اور ملتان تک علاقے کو فتح کر لینے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے کردار سے اہل سندھ کے دلوں کو جیت لیا۔ اس کے بعد اموی خلفاء کی زیادہ تر توجہ اس علاقے کی طرف کم ہی رہی۔ تا آنکہ اموی خلافت بھی گذر گئی اور عباسی خلافت بھی گذر گئی۔ ان دونوں خلافتوں کے دور میں اسلامی حکومت کی طرف سے عامل یا گورنر مقرر کیے جاتے رہے تھے۔ جو مقامی حکمرانوں کی عمل داری میں خلافت اسلامیہ کی نمائندگی بھی کرتے تھے ۔ تا آنکہ سنہ 265 ہجری میں خلافت عباسیہ کے بتدریج زوال پزیر ی کے بعد صوبہ سندھ بھی بے تعلق اور آزاد ہو گیا۔ یہاں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔ ایک کا دار الحکومت ملتان اور دوسری کا دار الحکومت منصورہ تھا۔ سلطنت منصورہ میں ملک سندھ کا جنوبی حصہ شامل تھا اور ملتان کی حکومت شمالی حصہ پر قائم تھی۔ علاوہ توران، قصدار، کیکانان، مکران، مشکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی عرب سرداروں نے قائم کر لی تھیں، جو ان بڑی ریاستوں کی ماتحتی اور خراج گزاری تسلیم کر چلی تھی ں۔ اس طرح سندھ کی ریاست خلیفہ بغداد کی حکومت سے آزاد تھی مگر مسلمانوں میں خطبہ اب بھی خلیفہ بغداد کا پڑھا جاتا تھا ۔[11]
خلفاء بنو امیہ نے اپنے دور میں یہاں عزیز الحباری نام کے گورنر کو مقرر فرمایا جس کی وجہ سے یہ دور حباری دور حکومت کہلاتا تھا۔ ان کے دور میں سندھ کا دار الحکومت منصورہ رہا تھا۔ بنو امیہ کے زوال کے بعد جب عباسیوں نے نشانات اموی کو مٹا ڈالنے کی شروعات کی تھی تو 1120 عیسوی میں سندھ میں بھی حباری حکومت کو محمود غزنوی کے ذریعے ختم کروا کر نیا گورنر "الحفیف" کو بنایا جس کا آبائی شہر سمرّہ تھا اسی نسبت سے اس کے دور اقتدار کو سومرو دور حکومت کہا جاتا تھا اس کو "سردار خفیف سومرو" بھی کہا جاتا تھا ۔ سقوط بغداد کے بعد سومرو حکمران "دودو۔ اول" نے یہاں اپنی خود مختار ریاست بحیرہ عرب سے پنجاب تک قائم کی۔ اس کے بعد ہی سومرو خاندان مکمل طور پر سندھ کی مقامی علمی اور ثقافتی تہذيب میں ڈھل چکا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں قرآن کا پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا ۔
1339 عیسوی میں سندھی مسلم حکمران جامو نار نے تخت دہلی کی ماتحتی سے انکار کر کے اپنی حکومت"سلطان سندھ" کی بنیاد رکھی۔ سمہ حکمران جام نظام الدین دوم المعروف جام نندو نے اپنا دار الحکومت دیبل کی بجائے ٹھٹھہ اور مکلی میں آباد کیا۔ سمہ دور حکومت میں سندھ کی عوام اور ثقافت کے لیے تاریخ ساز کام کیے گئے ۔
سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ میں چودھویں صدی سے لے کر 1739ء تک یہاں مغل حکمرانوں کی حکومت قائم رہی۔ تاہم 1739ء کی جنگ کرنال میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے اس پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے اس شہر کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ ٹھٹہ اسلامی فنِ تعمیر کی تاریخی وراثت سے مالامال ہے، جو سولہویں اورسترھویں صدی میں بنائے گئے۔
تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا .
1802 میں یہاں میر غلام علی تالپر کی حکمرانی تھی۔ برطانویں نے اپنی نوآبادیاں بنانے کے لیے جب سندھ کا انتخاب کیا تو ان کی تجارتی کوٹھیاں جو آنے والے دور کے لیے جنگی رسدگاہ تھیں، اس کے لیے ٹھٹھہ کا انتخاب کیا ۔ 1843 میں انگریزوں اور سندھیوں کے درمیان " میانی " کے مقام پر معرکہ آرائی ہوئی جس میں ایک طرف سندھی قبائل تھے جن کی قیادت تالپر قبیلے کے سردار میر ناصر خان تالپر کر رہے تھے اور دوسری طرف نو آبادیات کے حامی انگریز فوج نیپئر کی قیادت میں۔ 50 ہزار سندھی فوجوں کے نقصان کے بعد اس جنگ کا نتیجہ انگریزوں کے حق میں نکلا۔ مگر اس جنگ کے بعد انگریزوں کو بر صغیر سے باہر نکالنے کی ایک اور چھوٹی سی کوشش "ہوش محمد شیدی" نے بھی کی "دبّو" کے مقام پر 5 ہزار جنگجوؤں کے ساتھ، یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس دوران اسماعیلی فرقے کے "آغا خان۔ اول" نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس تعاون کے بدلے میں انگریزوں نے آغا خانیوں کو سندھ میں مراعات و انعامات سے نوازا جو قیام پاکستان تک جاری رہا ۔
انگریزں کے قبضے کے بعد 1853 میں سندھ کو بمبمئی کے ماتحت کیا گیا اور بعد میں 1935 میں علاحدہ صوبہ بنا دیا گیا ۔ برطانوی قبضے کے دوران مسلمانان سندھ کی جدو جہد آزادی تحریک پاکستان کے ساتھ جاری رہی جس کے لیے سندھ میں مشہور نام پیر صبغت اللہ راشدی کا ہے جو سندھ میں آزادی کی تحریک "حرّ تحریک آزادی" کے پیشوا تھے۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدو جہد کا آغاز ایک ایسے دور میں کیا جب بر صغیر کے مسلمان علمی اور قانونی لحاظ سے انگریزوں سے پنجہ آزمائی کرنے کی پوزيشن میں تھے۔ جس کے نتیجے میں حرّوں کی یہ جنگ ناکام ثابت ہوئی اور پھر ان کو گرفتار کر کے 20 مارج 1943 کو حیدرآباد میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ ان کے بعد بھی سندھ پر مذہبی لحاظ سے حرّوں کا ہی غلبہ رہا جو آج تک ہے ۔
23 مارچ 1940 میں لاہور میں قرارداد پاکستان میں سندھ کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے سر حاجی عبد اللہ ہارون نے قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی۔ جس کے بعد صحیح معنوں میں سندھ میں بھی قیام پاکستان کے لیے شعور اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ 1947 میں سندھ ایک قانون ساز عمل رائے دہی کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنا ۔
محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں مسلمان مجاہدین جب سندھ کے راجا داہر کو شکست دیتے ہوئے مزید آگے بڑھے ان فوجوں نے پنجاب میں بھی ہندو حکمرانوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس مہم کے دوران اسلامی فوج جنوبی پنجاب اور ملتان میں بھی فتح یاب ہو چکی تھی۔ جو آنے والے وقت میں اسماعیلی فرقے کے مسلمانوں کا گڑھ بنا ۔ جیسا کہ اوپر سندھ کے متعلق مذکور ہو چکا ہے کہ سنہ 265 ہجری میں خلافت عباسیہ کے بتدریج زوال پزیر ی کے بعد صوبہ سندھ بھی بے تعلق اور آزاد ہو گیا۔ یہاں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔ ایک کا دار الحکومت ملتان اور دوسری کا دار الحکومت منصورہ تھا۔ سلطنت منصورہ میں ملک سندھ کا جنوبی حصہ شامل تھا اور ملتان کی حکومت شمالی حصہ پر قائم تھی ۔ 265 ہجری میں خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد ایک صدی کے بعد سندھ سے مسلمان حکومت کی عمل داری ختم ہو چکی تھی۔ جب کہ ملتان کی ریاست اس وقت تک قائم تھی جب کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا ۔
محمود غزنوی نے پنجاب اور ملتان سے لے کر خراسان کے مغربی سرے تک اور خلیج فارس سے لے کر دریائے جیحون تک اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ محمود غزنوی نے سترہ حملے ہندوستان پر کیے۔ اس کے بعد اس کی حکومت کو زوال آیا اور افغانستان و پنجاب پر خاندان غوری قابض ہوا۔ اس کے بعد باقاعدہ پہلا مسلمان بادشاہ جو ہندوستان پر حاکم ہوا وہ قطب الدین تھا جو شہاب الدین غوری کا غلام تھا۔ خاندان غلاماں کے بعد خلجی خاندان نے حکومت کی۔ پھر تغلق پھر خضر خاں کا خاندان اور پھر لودھی اور ان کے بعد مغل افغانستان سے آئے۔ مغلوں کے بعد ایک طویل عرصے تک پنجاب کا علاقہ مرہٹوں اور سکھوں کے زیر اثر رہا۔ تاآنکہ جنگ آزادی کے بعد پنجاب مکمل طور پر برطانوی سامراج تلے آ گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کا ایک حصہ پاکستان کو اور دوسرا بھارت کو ملا ۔
اس علاقے میں اسلام کی آمد سے پہلے ہندو مت، زرتشتی مذہب، بدھ مت اور مظاہر پرستی /شمن پرستی کے ماننے والوں کا دور دورہ تھا۔ جو ترک اور عرب حکمرانوں کی آمد کے ساتھ ہی مفتوح ہو گئے۔ فی زمانہ صوبہ خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام باشندگان مسلمان ہیں جن میں سُنّی سب سے زیادہ ہیں۔ اسلام سب سے پہلے برصغیر میں اس وقت آیا جب محمد بن قاسم نے سندھ سے برصغیر میں اسلام کی بنیاد رکھی،لیکن سندھ سے صرف بنیاد رکھی گئی باقی اسلام ہندوستان میں پھیلا تو اس وقت جب باب خیبر سے افغان ترک اور عرب برصغیر میں داخل ہوئے۔ یوں سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات) ہی وہ خطہ ہے جس کے ذریعے افغان ،فارسیبان،ترک اور عرب ہندوستان میں داخل ہوئے اور یوں پورے برصغیر میں اسلام پھیلتا گیا۔
بدھ مت اور شمن پرستی اُس وقت تک بڑے مذاہب رہے جب تک مسلمانوں اور ترکوں نے 10 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں قبضہ کر لیا۔ رفتہ رفتہ پشتون اور دوسرے قبیلے اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ اِس دوران انھوں نے اپنے کچھ روایات برقرار رکھے جیسا کہ پشتونوں کی روایت پشتونولی یا ضابطۂ وقار و عزت ۔ صوبہ خیبر پختونخوا عظیم اِسلامی مملکت یعنی "غزنوی مملکت" اور "غوری مملکت " کا حصہ بھی رہا۔ اس زمانے میں باقی ماندہ مسلمان ممالک سے مسلمان تاجر، اساتذہ، سائنس دان، فوجی، شاعر، طبیب اور صوفی وغیرہ یہاں جوق در جوق آتے رہے۔ اس علاقے کے اسلامی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ایک نمایاں نام مشہور شاعر و مجاہد خوش حال خان خٹک کا ہے۔ مُغل حکمران اورنگزیب کے دَور میں، پشتون قوم پرست شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے کئی پشتون قبائل کو حکمرانوں کے خلاف بیدار کیا، جس کی وجہ سے اِس خطے کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی ۔
اٹھارہویں صدی میں درانی حکومت کے مستحکم ہونے کے بعد انگریزوں نے اس اسلامی خطے پر اپنا تصرف برقرار رکھنے کے لیے اپنی کافی وسائل پھونک ڈالے ۔ 1893ء میں اس خطہ کو جو پختونوں اور افغانوں کے حوالے سے مشہور تھا دو حصوں میں ڈیورنڈ لائن کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ایک حصہ برطانوی ہندوستان میں آیا اور باقی ماندہ افغانستان میں آیا جہاں انگریزوں نے بالواسطہ طور پر جزوی حکومت کی ۔
پاکستانی حصے میں جس کا نام 1901میں "سرحد " رکھا گیا، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانون ساز انجمن کا افتتاح کیا۔ پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس علاقے میں حق خود ارادی کا اختیار ملا اور آزاد اُمیدوار اور مقامی جاگیردار صاحبزادہ عبد القیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے ۔
برطانیہ سے آزادی کے بعد، 1947ء کے اِستصوابِ رائے میں صوبہ خیبر پختونخوا نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے تک پختونستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں تک تنازعات کا مؤجب بنا۔ حملے کے سبب پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جو زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخوا میں قیام پزیر ہوئے (2007ء کے شمار کے مطابق قریباً تیس لاکھ ابھی بھی رہتے ہیں). افغانستان پر سوویت کے قبضے کے دوران، 1980ء کی دہائی میں صوبہ خیبر پختونخوا مسلمان مجاہدین کا بہت بڑا مرکز تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے ۔
کشمیر میں اسلام چودھویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور ان کے ایک ہزار مریدوں کے ساتھ پہنچا۔ بودھ راجا رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یوں راجا رنچن سلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔ بعد ازاں ایک ایرانی سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ اسی دور میں شمس الدین عراقی اور ان کے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا۔ انھوں نے چک خاندان کی مدد سے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیاآزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی 99 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ بلتستان میں اکثریت شیعہ جبکہ گلگت میں اکثریت اسماعیلیوں کی ہے۔ آزاد کشمیر میں اکثریت سنی مسلم ہے۔
ماخوذ از اصل موضوعکشمیر(حصہ:اسلام)
1930 میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے خطبۂ الہ آباد سے خطاب کرتے ہوئے قومی شاعر علامہ اقبال نے ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کا تصور پیش کیا جو پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحدی علاقوں پر مشتمل ہوگی ۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.