چوتھی صدی ہجری میں مسلمان جغرافیہ دانوں محمودکاشغری، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے، ان میں ایک ترک قبیلہ قرلق،فارسی (خلج)، عربی (خلخ) تھا۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی۔ مگر جلد ہی افغانستان پر ترک چھاگئے۔ کتاب الاغانی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ افغانستان میں دریائے ہلمند کے چڑھاؤ کے رخ پر ایک مرحلے کے فاصلے سے دریا کے اسی کنارے پر جس پر درتل تھا، شہر درغش آباد تھا اور درتل کے مغرب میں ایک مرحلے کے فاصلے پر بغنین اس علاقہ میں تھا۔ جہاں قبائل پشلنگ کے ترک آباد تھے۔ ان میں قبیلہ خلج بھی رہتا تھا۔ ان خلجی ترکوں نے بعد میں مغرب کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ لیکن ابن حوقل نے چوتھی (دسویں) صدی میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی بہت قناعت سے زمینداری کرکے علاقہ میں بسر کرتے تھے اور وضح قطع ترکوں کی رکھتے تھے۔[2]
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
خلجی سلطنت | |||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1290–1320 | |||||||||||
دار الحکومت | دہلی | ||||||||||
عمومی زبانیں | فارسی زبان (official)[1] | ||||||||||
مذہب | اہل سنت | ||||||||||
حکومت | سلطان | ||||||||||
سلطان | |||||||||||
• 1290–1296 | جلال الدین خلجی | ||||||||||
• 1296–1316 | علا الدین خلجی | ||||||||||
• 1316 | شہاب الدین خلجی | ||||||||||
• 1316–1320 | قطب الدین مبارک شاہ | ||||||||||
تاریخ | |||||||||||
• | 1290 | ||||||||||
• | 1320 | ||||||||||
| |||||||||||
موجودہ حصہ | بھارت پاکستان نیپال |
خلجی افغانستان میں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے اور غالباً انھوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ اسلام چو تھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیوں کہ یہ خوارزم شاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے تھے۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے سلطان سنجر کا مقابلہ کرنا چاہا تو عین لڑائی کے وقت یہ ترکوں اور خلجیوں نے علاؤ الدین جہاں کا ساتھ چھور کر یہ سلطان سنجر کے ساتھ جاملے۔ جس کی وجہ سے علاؤ الدین جہاں سوز کو شکست ہوئی اور وہ قید ہو گیا۔ اس طرح یہ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا۔[3]خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لیے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لیے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے۔ خلجیوں نے خوارزم شاہیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کے خلاف مزحمت کی تھی۔ 366ھ میں خلجیوں کے ایک گروہ جو سلطان محمد خلجی کے لشکری تھے اپنے سردار ملک خان محمد خلجی کی سرکردگی میں سندھ پر قابض ہو گئے، ناصرالدین قباچہ نے ان کے خلاف اقدام کیا اور انھیں نکال باہر کیا اور ان کا سردار ماراگیا۔[4]
خلجی خاندان غلاماں کے لشکر میں بھی شامل رہے۔ بلکہ ترکوں کے لشکریوں کا غالب عنصر خلجی ہی تھے اور ان کی سرکردگی میں ہند میں وسیع فتوحات حاصل کیں۔ ان میں بختیار خلجی بہت مشہور ہوا، جس نے صرف دوسو آدمیوں کی مدد سے بنگال فتح کیا۔ اس طرح دوسرے خلجی سرداروں میں علی مردان خلجی، غرزالدین، محمد شیراں، میران شاہ اور ملک جلال الدین بن خلج خان کے نام ملتے ہیں۔ آخر الذکر برصغیر میں خلجی سلطنت کا بانی تھا۔[5]
931ء میں خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہو گئے۔ خود اس پر دہلی کے امرا اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ پہلاحکمران تھا جس نے جنوبی ہند کو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا۔ [6]
1641ء میں مالوہ کی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا۔ اس نے اپنے برادر نسبتی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود تخت پربیٹھ گیا۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گذرا۔ اس خاندان کا آخر حکمران باز بہادر تھا۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے 1651ء میں تخت سے محروم کر دیا۔[7]
دور حکومت: 1290ء تا 1320ء
ہندوستان کا ایک ترک النسل حکمران خاندان جس نے افغانی رسم و رواج اور فارسی زبان اپنا لیا ہوا تھا۔ مملوک سلاطینِ دہلی کے بعد 1290ء سے 1320ء تک خلجی بادشاہ ہندوستان پر حکمران رہے۔ خلجی خاندان کی بنیاد جلال الدین خلجی نے رکھی۔ اور اس کے بعد انکا بھتیجا علاؤ الدین خلجی تخت نشین ہوا۔ جس کے قبضہ میں بعد ازاں پورا ہندوستان آیا۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور بالآخر تغلقوں کے ہاتھوں خاندان خلجی کا خاتمہ ہوا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ خلجی ترک تھے۔ لیکن خلجی دراصل ایک افغان قبیلے غلجئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی غلجئی نام ہندوستان میں خلجی کی صورت اختیار کر گیا۔
سلاطین خلجی
لقب | نام | دور حکومت | |
---|---|---|---|
جلال الدین فیروز خلجی |
ملک فیروز ابن ملک یغراش خلجی |
1290–1296 | |
علاؤ الدین خلجی |
علی گرشاسپ خلجی |
1296–1316 | |
شہاب الدین خلجی |
عمر خان خلجی |
1316 | |
قطب الدین مبارک شاہ |
مبارک خان خلجی |
1316–1320 | |
تغلق خاندان نے خلجی خاندان کو ہٹا دیاـ |
فن تعمیر
اسلام کی امد نے ہندوستانی تہذیب میں ایک نئے طبقہ کو روشناس کرایا تھا، جب فوجی تصادم ختم ہوا تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے جگہ پائی، علاؤ الدین کے تخت نشین ہونے کے بعد تعمیرات کا کام جوش و خروش سے شروع ہوا، اس نے مسجد قوت الاسلام کی توسیع کرائی، مزید مساجد تعمیر کرائیں اور ایک نیا شہر آباد کیا۔جلال الدین نے کوشک لعل بنایا۔ علائی دروازہ علاؤ الدین کی تعمیر کرائی گئی شاندار عمارت ہے۔ یہ مسجد قوت الاسلام کا جنوبی دروازہ ہے۔
امیر خسرو کہتے ہیں کہ علائی دروازہ کی تعمیر کے بعد علاؤ الدین نے مسجد کی توسیع کرائی، نو دروازے رکھے ،خارالحکومت کے باہر متھرا کے مقام پر مسجد اور شیخ فرید کے الگ بھگ تعمیر کرائی، ایک دریا پر پل باندھا۔
حوالہ جات
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.