ہند بنت عتبہ
صحابیہ رسولﷺ / From Wikipedia, the free encyclopedia
ہند بنت عتبہ ابن ربیعہ (وفات: 14 محرم الحرم 14ھ/ 9 مارچ 635ء) ام المومنین رملہ بنت ابوسفیان کی والدہ۔ ان کے دو بھائی ابو حذیفہ ابن عتبہ اور ولید بن عتبہ تھے۔ ان کے باپ عتبہ بن ربیعہ کو حضرت حمزہ نے غزوۂ بدر میں قتل کیا تھا۔ جس کے انتقام کی خاطر انھوں نے وحشی بن حرب کے ہاتھوں حمزہ کو شہید کرایا اور اس کے بعد اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کی نعش کی بے حرمتی کی۔غزوۂ احد میں حمزہ بن عبدالمطلب کا جگر کھانے کی وجہ سے ہند بنت عتبہ "ہند جگر خور" مشہور ہو گئیں۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے مکہ میں موجود اپنے دشمنوں کو "طلقاء" (آزاد کردہ غلام) کا نام دیا اور انھیں معاف کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں آزاد کر دیا ۔[3][4][5] حضرت حمزہ کے جسم کی بے حرمتی کرنے کے بعد ان کے اعضا جسمانی سے بالیاں، ہار، کنگن اور پازیب بنالی اور انھیں حمزہ بن عبد المطلب کے کلیجے کے ہمراہ مکہ لے گئیں۔[6]
ہند بنت عتبہ صحابیہ ہند بنت عتبہ | |
---|---|
ہند بنت عتبہ بن ربيعہ | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 584ء ![]() جزیرہ نما عرب ![]() |
وفات | سنہ 635ء (50–51 سال)[1] ![]() خلافت راشدہ ![]() |
مدفن | مکہ مکرمہ، خلافت راشدہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب |
شہریت | ![]() ![]() |
شوہر | ابو سفيان بن حرب اموی قرشی حفص بن مغيرہ مخزومی قرشی فاکہ بن مغيرہ مخزومی قرشی |
اولاد | معاويہ بن ابی سفيان مريم ام حكم ابان بن حفص جویریہ بنت ابوسفیان عتبہ بن ابی سفيان |
والد | عتبہ بن ربیعہ ![]() |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | باپ: عتبہ بن ربيعہ ماں: صفيہ بنت اميہ سلميہ |
عملی زندگی | |
تاریخ قبول اسلام | فتح مکہ (11 جنوری 630ء) |
پیشہ | شاعر [2] ![]() |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد ، جنگ یرموک ![]() |
درستی - ترمیم ![]() |
فتح مکہ کے دن ابوسفیان کے اسلام کے بعد آپ اسلام لائیں،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کا نکاح قائم رکھا،بڑی عاقلہ فہیمہ تھیں،کبھی زنا کے قریب نہ گئیں،جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت کے وقت فرمایا کہ زنا نہ کرنا تو آپ بولیں کیا کوئی شریف عورت بھی زنا کرسکتی ہے۔ عمرؓ کی خلافت میں عین ابوقحافہ کے وفات کے دن فوت ہوئیں ام المومنین عائشہ نے آپ سے روایات لیں۔(مرقات)عہدِ فاروقی میں غزوہ قادسیہ و یرموک میں بڑی مجاہدانہ شان سے شریک رہیں بڑی خدمت اسلام کی۔[7] اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلی و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی،محمد بن سائب کلبی،سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسما الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں