محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی کا عہد خلافت From Wikipedia, the free encyclopedia
خلافت راشدہ (عربی: ٱلْخِلَافَةُ ٱلرَّاشِدَةُ) اسلامی پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے بعد آنے والی پہلی خلافت تھی۔ 632 عیسوی میں حضرت محمدﷺ کے وصال فرمانے کے بعد چار لگاتار خلفاء نے حکومت تھی۔ 7ویں صدی کے دوران، یہ خلافت مغربی ایشیا اور شمال مشرقی افریقا میں سب سے طاقتور اقتصادی، ثقافتی، اور فوجی قوت تھی۔[2]
خلافت راشدہ الخلافة الراشدة | |||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
632–661 | |||||||||||||||||
دار الحکومت | مدینہ منورہ (632–656) کوفہ (656–661) | ||||||||||||||||
عمومی زبانیں | کلاسیکی عربی (دفتری)، آرامی زبان/سریانی زبان، آرمینیائی زبان، بلوچی زبان، بربر زبانیں، قبطی زبان، جارجیائی زبان، یونانی زبان، میانہ فارسی، کردی زبان، عامیانہ لاطینی، پراکرت، سامی زبانیں، ایرانی زبانیں | ||||||||||||||||
مذہب | اسلام | ||||||||||||||||
حکومت | خلافت | ||||||||||||||||
خلافت | |||||||||||||||||
• 632–634 | ابوبکر صدیق (پہلے) | ||||||||||||||||
• 634–644 | عمر بن خطاب | ||||||||||||||||
• 644–656 | عثمان بن عفان | ||||||||||||||||
• 656–661 | علی بن ابی طالب | ||||||||||||||||
• 661 | حسن ابن علی (آخری) | ||||||||||||||||
تاریخ | |||||||||||||||||
• | 8 جون 632 | ||||||||||||||||
• | 28 جولائی 661 | ||||||||||||||||
رقبہ | |||||||||||||||||
655[1] | 6,400,000 کلومیٹر2 (2,500,000 مربع میل) | ||||||||||||||||
آبادی | |||||||||||||||||
• | 21,400,000 | ||||||||||||||||
کرنسی | دینار، درہم | ||||||||||||||||
| |||||||||||||||||
خلافت جون 632 میں حضرت محمدﷺ کے وصال کے بعد شروع ہوئی اور ان کے وصال کے بعد ان کی قیادت کی جانشینی پر بحث ہوئی۔ بنو تیم قبیلے سے تعلق رکھنے والے حضرت محمدﷺ کے قریبی صحابی حضرت ابوبکرؓ کو مدینہ میں پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا اور انہوں نے جزیرہ نما عرب کی فتح کا آغاز کیا۔ ان کا مختصر دورِ حکومت اگست 634 میں ختم ہوا جب ان کی وفات ہوئی اور ان کے بعد قبیلہ بنو عدی سے ان کے مقرر کردہ جانشین حضرت عمرؓ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی۔ حضرت عمرؓ کے دور میں، خلافت میں غیر معمولی شرح سے توسیع ہوئی، جس نے بازنطینی سلطنت کے دو تہائی سے زیادہ اور تقریباً پوری ساسانی سلطنت پر حکومت کی۔ حضرت عمرؓ کو نومبر 644 میں شہید کر دیا گیا اور قبیلہ بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے حضرت عثمانؓ کو ان کا جانشین بنایا گیا، جسے حضرت عمرؓ کی طرف سے ترتیب دی گئی چھ افراد کی کمیٹی نے منتخب کیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے ماتحت، خلافت نے 651 میں فارس پر اپنی فتح کا اختتام کیا اور بازنطینی علاقوں میں مہمات جاری رکھی۔ ان کے دور حکومت میں باغیوں نے جنم لیا اور انہیں جون 656 میں شہید کر دیا گیا۔
10ھ میں رسُول اللہ کی رحلت کے بعد صحابہ کرام کے زیرِ بحث رسول اللہ ﷺ کی جانشینی کا ہی مسئلہ تھا کہ کون رسول اللّٰہ ﷺ کے بعد اُمّتِ مسلمہ کے معمولات کو سنبھال سکے، جبکہ اہلِ بیت ؓ، رسول اللّٰہ ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے۔ عمر بن خطاب اور ابو عبیدہ بن جراح نے ابوبکر صدیق سے وفا کا عہد کیا اور تمام انصار اور قریش نے بھی اُن کی تائید کی۔ یوں ابو بکر صدیق کو خَـلِـيْـفَـةُ رَسُـوْلِ اللهِ کا لقب ملا اور آپ نے ترویجِ اسلام کی غرض سے باقاعدہ عسکری مُہمّات کا بھی آغاز کیا۔ آپ کے ذمے، قبل از تمام یہ تھا کہ وہ اُن عرب قبائل کی بغاوتوں کو کچل ڈالیں، جنھوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کرکے اسلام قبول کرنے کے باوجود اللّہ کے اہم ترین احکامات امیر المومنین کی اتباع سے انکار کر دیا تھا۔ بحیثیتِ خلیفہ، ابو بکر صدیق نہ تو بادشاہ تھے اور نہ آپ یا دیگر خُلفائے راشدین نے کبھی بادشاہت کا دعویٰ کیا۔ اُن کا انتخاب اور قیادت، سراسر لیاقت و استعداد پر مبنی تھے۔[3][4][5][6]
بالخُصوص، سُنّی علماء کے مُطابق، چاروں خُلفائے راشدین، رسول اللّٰہ ﷺ کے قریب ترین صحابہ کرام میں سے ایک تھے، قبل از تمام اسلام قبول کرنے والے تھے[7] اور عَشْرَہ مُبَشَّرَہ میں بھی شامل تھے۔
مگر شیعہ علما علی بن ابی طالب کے علاوہ کسی شخص کو خلافت و امامت کا اہل نہیں سمجھتے۔ اور ابو بکر کے انتخاب غیر اسلامی اور غلط سمجھتے ہیں۔ اور تینوں خلفا کے دور کو اسلام کا سیاہ دور ہی جانتے ہیں۔
رسول اللّٰہ کی رحلت کے بعد تمام انصارِ مدینہ، بنی ساعدہ کے سقیفہ میں اکٹھے ہوئے[8]، تاکہ اُمّتِ مُسلمہ کے لیے ایک امیرِ نو کا انتخاب کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس انتخاب سے مہاجرینِ مکہ کو مکمل طور پر مُستثنیٰ رکھا جانا تھا، لیکن اس موضوع پر بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں۔[9]
بہرحال، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عُمر فارُوق، دونوں صحابہ کرام عرب قبائل کی مُمکِنہ بغاوتوں سے خائف تھے، لہٰذا آپ دونوں فی الفور اس اجتماع میں پہنچے اور حضرت ابو بکر نے وہاں ایک خُطبہ دیتے ہوئے اہلِ محفل کو مُتنبہ کیا کہ رسول اللّٰہ کے قبیلے قُریش سے باہر کسی کا انتخاب کیا گیا تو یہ سخت اختلاف کا باعث ہوگا۔
اس دور کی پہلی خصوصیت جمہوریت تھی۔ حضرت ابو بکر سے حضرت علی تک کی خلافت کے لیے نامزدگی میں جمہوری روح کار فرما تھی۔ ان میں کوئی خلیفہ ایسا نہ تھا جس کو امیر مقرر کرنے میں مسلمانوں کی عام رائے اور مرضی شامل نہ ہو۔ یا جسے مسلمانوں پر زبردستی مسلط کر دیا گیا ہو۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں مسلمانوں کا حضرت ابو بکر کو نامزد کرنا، حضرت عمر فاروق کے لیے حضرت ابو بکر کی تمام صحابہ کرام سے رائے لینا اور مسلمانوں کا ان کے لیے متفق ہونا۔ حضرت عمر فاروق کی چھ صحابہ کرام کی کمیٹی میں حضرت عثمان کی خلافت کے لیے متفق ہونا اور حضرت علی سے مسلمانوں کا خلافت کا بار اٹھانے پر اصرار۔ یہ تمام طریقے اسلامی سلطنت میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے جمہوریت کی انتہائی عمدہ اور واضح مثالیں ہیں۔ پھر ان کے عہد میں ہر موقع پر اس نظام میں جمہوریت کی روح کار فرما رہی۔
خلافت راشدہ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کا نظام ایک شورائی نظام تھا۔ مجلس شوریٰ کی بنیاد پر عام مسلمانوں سے رائے لی جاتی اور مشوروں پر عمل کیا جاتا۔ ہر مسلمان کو مشورہ اور رائے کا حق حاصل تھا اور حکومت پر نکتہ چینی کا حق بھی رکھتا تھا۔ صدیوں کے حکام اور والی بھی لوگوں سے مشورے کے بعد مقرر ہوتے اور لوگوں کی شکایات پر ان کی تبدیلی بھی کر دی جاتی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ میں عوام سے مشورے اور رائے کو کتنی اہمیت حاصل تھی۔
خلافت راشدہ میں تمام عوام کو بنیادی حقوق حاصل تھے۔ ان کی شخصی و سیاسی آزادی کی حفاظت کی جاتی تھی۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے حقوق یکساں تھے اور ان حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری تھی۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر سکتا تھا اور نہ کسی پر زیادتی کی اجازت دی جاتی تھی۔ غیر مسلموں کو مذہبی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی۔ غرض سلطنت اسلامیہ میں اس عہد میں کوئی ایک فرد بھی اپنے حقوق سے محروم نہ تھا۔
خلافت راشدہ میں عدل و انصاف فراہم کرنا ایک بڑی خصوصیت تھی۔ اس عدل کے لیے سب برابر تھے۔ نہ کوئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب۔ نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ کوئی رعایا۔ نہ کوئی گورا تھا اور نہ کوئی کالا اور نہ رنگ و نسل اور طبقہ کا امتیاز قائم تھا۔ سب برابر کا درجہ رکھتے تھے۔ مجرم مجرم ہی تھا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو۔
خلافت راشدہ میں فتوحات کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور سلطنت وسیع ہوئی۔ نظام حکومت کی طرف بھی توجہ دی گئی اور ایک مکمل نظام جمہوریت کے مطابق قائم ہوا۔ اندرونی فتنوں کو بھی دبایا گیا اور بیرونی خطرات کا مقابلہ بھی ہوا لیکن ان تمام کاموں میں ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ان کا مقصد عوام کی فلاح، ان کی خوش حالی و آسودہ حالی، ان کو امن و سکون اور اسلامی ریاست و اسلام کا تحفظ تھا۔ یہ ایک مکمل فلاحی ریاست تھی۔ جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض اور ان کی ادائیگی کے طریقۂ کار مقرر تھے۔ اس ریاست کا مقصد آئینی فلاح اور اسلامی تصور فراہم کرنا تھا جو اس کی بڑی خصوصیت تھی۔
اس عہد میں نظام حکومت کی توسیع کے ساتھ ہر صوبے میں حکام اور عمال کا تقرر ہوتا تھا جس کو خلیفہ خود مقرر کر کے بھیجتے لیکن ان کی طرف سے غفلت نہیں برتی جاتی تھی۔ ان کے لیے تاکیدی احکامات ہوتے اور ان کی نگرانی ہوتی۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت کے لیے حج کے موقع پر تمام عماد کو جمع کرنے کی تاکید ہوتی اور اعلان کیا جاتا جس کسی کو اپنے صوبے کے والی یا حاکم سے شکایت ہو کھلم کھلا پیش کرے۔ شکایات درج ہونے کے بعد ان کی تحقیق ہوتی اور درست ثابت ہونے پر ذمہ دار افراد کو سزا دی جاتی۔ حکام اور عمال کے خلاف اس طرح سختی سے باز پرس ہوتی جو اس کے بعد کے دور حکومت میں نظر نہیں آتی۔ ایک کامیاب حکومت کی یہ بڑی خوبی ہے کہ اس کے عوام حکومت کے مقرر کردہ عمال سے مطمئن رہیں۔
ان تمام خصوصیات کے علاوہ سب سے بڑی خصوصیت خلفائے راشدین کا بلند کردار ہے۔ کیونکہ حکومت کی کامیابی کا تمام تر دار و مدار خلیفہ کی ذات پر تھا۔ اگر سربراہ حکومت خوبیوں کا مالک نہ ہو، اس کا کردار بلند نہ ہو تو باوجود کوشش کے حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خلفائے راشدین کے کردار کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ایسا پاک و صاف اور بلند کردار کسی اور حکمران میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
ایسا کردار جو ہر لمحہ امت کی بھلائی میں کوشاں رہے۔ عوام کی تکلیف پر خود تکلیف میں مبتلا ہو جائے۔ ذمہ داری کا احساس اتنا کہ بھوک پیاس نیند آرام سب کچھ بھول کر عوام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ سادگی و انکسار اتنی کہ ان کی مثال خلافت راشدہ کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتی۔ شرم و حیا جو وہ سخا کے پیکر، خدا ترسی اور ایثار و خلوص، عزم و حوصلہ اور بے لوث خدمت کے جذبے جیسی خصوصیات اور کردار کے مالک خلفائے راشدہ تھے جن کا ہر لمحہ اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے گذرا۔ خلافت راشدہ کے یہ خلفا اپنے بلند کردار کی وجہ سے دنیا کی دوسری تمام حکومتوں کے سربراہوں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں جن کے کردار کی خوبیوں کی مثال کہیں اور تلاش کرنا ممکن نہیں۔
خلافت راشدہ تو ایک دینی حکومت تھی جس کی بنیاد قرآن و سنت تھی۔ دنیاوی غرض اور لالچ سے پاک حکومت دین کو پھیلانے اور دینی علوم کو مسلمانوں تک پہنچانے کا کام کرتی رہی اس حکومت کے تمام فرائض دین کا جزو تھے۔ لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم اور صحیح اسلامی تصور بہم پہنچانا اس حکومت کی ذمہ داری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست اور 23 سال کی جدوجہد سے قائم ہونے والا دین 'دینِ اسلام' ہی اس حکومت کی بنیاد تھی۔
خلافت راشدہ کا دور ایک اہم دور تھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ تھا۔ اس دور کی تمام خصوصیات میں اس دور کو چلانے والی وہ مقدس ہستیاں تھیں جن کا نصب العین اسلامی ریاست کو سیاسی اور اجتماعی نظام دین کے اصولوں کے مطابق فراہم کرنا تھا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.