سلطنت خداداد میسور کے عظیم ترین سلطان جنھوں نے 1782ء سے 1799ء تک حکومت کی۔ From Wikipedia, the free encyclopedia
ٹیپو سلطان (پیدائش: سلطان فتح علی صاحب ٹیپو: 20 نومبر، 1750ء - وفات:4 مئی، 1799ء) شیرِ میسور [7]سلطان حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند، جنہیں میسور کا شیر بھی کہا جاتا ہے [8] ,[9][10] [11] ریاست میسور کے حکمران تھے۔ ہندوستان کے اصلاح و حریت پسندحکمران، بین المذاہب ہم آہنگی کی زندۂ جاوید مثال، طغرق (فوجی راکٹ) کے موجد تھے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران متعدد انتظامی اختراعات متعارف کروائیں، جن میں ایک نیا سکوں کا نظام اور کیلنڈر اور ایک نیا زمینی محصول کا نظام شامل تھا، جس کی وجہ سے میسور کی ریشم کی صنعت نے ترقی کا آغاز کیا۔ انھوں نے میسوری راکٹ اور فوجی دستہ فتح المجاہدین کو قائم کیا ۔[12] انھوں نے اینگلو میسور جنگوں کے دوران برطانوی افواج اور ان کے اتحادیوں کی پیش قدمی کے خلاف راکٹوں کو استعمال کیا۔ [13]
ٹیپو سلطان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 نومبر 1750ء [1] دیوانہالی [2] | ||||||
وفات | 4 مئی 1799ء (49 سال)[3][4][5] سرنگاپٹنا [6] | ||||||
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا | ||||||
مدفن | سرنگاپٹنا | ||||||
رہائش | کرناٹک | ||||||
شہریت | سلطنت خداداد میسور | ||||||
والد | سلطان حیدر علی | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت خداداد میسور | |||||||
برسر عہدہ 10 دسمبر 1782 – 4 مئی 1799 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، مصنف ، حاکم ، حریت پسند | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی ، کنڑ زبان ، ملیالم ، تیلگو | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
عہدہ | جرنیل | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | اینگلو میسور جنگیں | ||||||
درستی - ترمیم |
ٹیپو سلطان اور ان کے والد نے اپنی فوج جو فرانسیسی تربیت یافتہ تھے کو انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں فرانسیسیوں کے ساتھ اتحاد میں استعمال کیا۔ 1782ء میں حیدر علی کی کینسر سے موت کے بعد ٹیپو سلطان نے میسور کے حکمران کے طور پر ان کی جگہ لی۔ انھوں نے دوسری اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کے خلاف اہم فتوحات حاصل کیں اور منگلور کے 1784ء کے معاہدے پر بات چیت کی جس کے ساتھ، دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ ہوا۔[14]
ٹیپو سلطان برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک ناقابل تسخیر دشمن رہے ، جس نے 1789ء میں برطانوی اتحادی ٹراوانکور پر اپنے حملے کے ساتھ تنازعات کو جنم دیا اور تیسری اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کو سرینگا پٹم کے معاہدے پر مجبور کیا جس سے انگریزوں کو پہلے فتح کیے گئے متعدد علاقوں کو کھونا پڑا۔ انھوں نے سلطنت عثمانیہ ، افغانستان اور فرانس سمیت غیر ملکی ریاستوں میں سفیر بھیجے تاکہ برطانیہ کی مخالفت کو اکٹھا کیا جاسکے۔ [15] چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کی ایک مشترکہ قوت، جس کی حمایت مراٹھوں اور نظام حیدرآباد نے کی تھی جس میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی۔ اوروہ 4 مئی 1799ء کو اپنے سرنگا پٹم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔[16]
ٹیپو سلطان 20 نومبر، 1750ء (بمطابق جمعہ 20 ذوالحجہ، 1163ھ ) کو دیوانہالی تغلق خاندان میں پیدا ہوئے۔[17]موجودہ دور میں یہ بنگلور دیہی ضلع کا مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر (21 میل) شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر ہے۔ اسے اپنے دادا فتح محمد نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سیاسی امور میں اسے نوعمری میں ہی شامل کیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا۔ اسے اپنے والد حیدر علی جو جنوبی ہند کے سب سے طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔[18][19][20]
ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔
ٹیپو سلطان کا قول تھا:[21]
” | شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ | “ |
آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔
ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہو چکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔[22]
ٹیپو سلطان کی مادری زبان اردو تھی اور وہ فارسی بھی بولتے ہیں۔[23]
ٹیپو سلطان کو اپنے والد کی ملازمت میں فرانسیسی افسران کی طرف سے فوجی حکمت عملی کی تربیت دی گئی تھی۔ 1766ء میں 15 سال کی عمر میں ، پہلی میسور جنگ میں انگریزوں کے خلاف اپنے والد کے ساتھ تھے۔ اور 1767ء میں 16 سال کی عمر میں میں کرناٹک پر حملے میں گھڑ سواروں کی ایک فوج کی کمان کی۔ انھوں نے 1775–1779 کی پہلی اینگلو مرہٹہ جنگ میں بھی شامل تھے۔ [24]
الیگزینڈر بیٹسن، جنھوں نے چوتھی میسور جنگ پر ٹیپو سلطان کے ساتھ جنگ کی ابتدا اور طرز عمل کے بارے میں ایک جلد شائع کی جس میں اس نے ٹیپو سلطان کو اس طرح بیان کیا کہ: "ٹیپو کا قد تقریباً پانچ فٹ آٹھ انچ تھا۔ اس کی گردن چھوٹی تھی، چوکور کندھے تھے۔ اس کے اعضاء چھوٹے تھے، خاص طور پر اس کے پاؤں اور ہاتھ چھوٹے تھے۔ اس کی بڑی بھری ہوئی آنکھیں تھیں، چھوٹی محراب والی بھنویں تھیں۔ ان کا رنگ صاف ستھرا تھا اور ان کے چہرے کا عمومی اظہار وقار سے خالی نہیں تھا۔ [25]
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی۔ وہ مذہبی تعصب سے پاک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا۔ حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے تھے۔ با وضو رہنا اور تلاوتِ قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے تھے۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔[26]ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔[27]
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔[28]
ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کی بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔[29]
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔ پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ [30] اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جا سکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتیٰ کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔ سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کو 22 فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے 1796ء میں امرا البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت 30؍امیر البحر تھے۔[31] بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہازسازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کر دیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔[32]
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویداد پر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہو سکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاؤں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کر رکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹم (دار الحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔[33]
ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ 1794ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔[34]
ٹیپو سلطان نے اپنے دور حکومت میں زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں اور کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔[35] زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کر دیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہو گیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔[36] اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعد ٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہو سکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوش حال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہو گیا۔[37]
ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریز جب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے:[38]
” | ’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اور فوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘ | “ |
اینگلو میسور جنگیں ہندوستان میں اٹھارویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جنگوں کا ایک سلسلہ تھا۔ چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور ختم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔
پہلی اینگلو میسور جنگ (First Anglo-Mysore War) (1767–1769) سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی پہلی جنگ تھی۔ یہ جنگ جزوی طور پر نظام حیدر آباد آصف جاہ ثانی کی کمپنی کی توجہ ریاست حیدرآباد کے شمالی علاقوں سے ہٹانے کی ایک سازش تھی۔
دوسری اینگلو میسور جنگ (Second Anglo-Mysore War) امریکی انقلابی جنگ کے دوران سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی دوسری جنگ تھی۔ اس وقت مملکت فرانس میسور کی اہم اتحادی تھی۔[39][40]
1779ء میں ، انگریزوں نے فرانس کے زیر کنٹرول ماہی کی بندرگاہ پر قبضہ کر لیا ، جسے ٹیپو نے اپنی حفاظت میں رکھا تھا اور اس کے دفاع کے لیے کچھ فوجی فراہم کیے تھے۔ اس مہم کے دوران ، ٹیپو سلطان کو حیدر علی نے ستمبر 1780ء میں 10,000 افراد اور بندوقوں کے ساتھ کرنل ولیم بیلی کو روکنے کے لیے بھیجا تھا جو سر ہیکٹر منرو میں شامل ہونے کے لیے جا رہے تھے۔ پولیلور کی لڑائی میں ، ٹیپو نے بیلی کو فیصلہ کن طور پر شکست دی۔ اس جنگ میں انگریزوں کو بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ منرو بیلی کے ساتھ شامل ہونے کے لیے ایک علاحدہ فوج کے ساتھ جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا ، لیکن شکست کی خبر سن کر اسے کانچی پورم میں پانی کے ٹینک میں اپنے توپ خانے کو چھوڑ کر مدراس پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔[41]
تیسری اینگلو میسور جنگ (Third Anglo-Mysore War) سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے اتحادیوں مراٹھا سلطنت[42] اور نظام حیدر آباد مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی تیسری جنگ تھی۔تیسری اینگلو میسور جنگ نے ٹیپو کو اپنا نصف علاقہ کھونے پر مجبور کردیا ۔ اس کے نتیجے میں ، اس کی آمدنی کم ہو گئی۔ [43]
1789ء میں ٹیپو سلطان نے تراونکور کے دھرم راجا کی جانب سے کوچین میں ڈچ زیر قبضہ دو قلعوں کے قبضے پر اعتراض کیا۔ دسمبر 1789ء میں اس نے کوئمبتور میں فوج جمع کی اور 28 دسمبر کو تراونکور کی طرز پر حملہ کیا ، یہ جانتے ہوئے کہ تراونکور (منگلور کے معاہدے کے مطابق) برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا اتحادی تھا۔ تراونکور فوج کی سخت مزاحمت کی وجہ سے ، ٹیپو لائنوں کو توڑنے میں ناکام رہا اور تروانکور کے مہاراجا نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مدد کی اپیل کی۔ اس کے جواب میں ، لارڈ کارنوالس نے کمپنی اور برطانوی فوجی دستوں کو متحرک کیا اور ٹیپو کی مخالفت کرنے کے لیے مراٹھوں اور حیدرآباد کے نظام کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ 1790ء میں کمپنی کی افواج نے پیش قدمی کی اور کوئمبٹور ضلع کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا۔ ٹیپو نے جوابی حملہ کیا ، زیادہ تر علاقے کو دوبارہ حاصل کر لیا ، حالانکہ انگریزوں نے کوئمبتور پر ہی قبضہ برقرار رکھا۔ اس کے بعد وہ کرناٹک میں اترا ، آخر کار پونڈیچری پہنچ گیا ، جہاں اس نے فرانسیسیوں کو تنازع میں کھینچنے کی ناکام کوشش کی۔[44]
1791ء میں اس کے مخالفین نے تمام محاذوں پر پیش قدمی کی ، کورنوالس کی قیادت میں مرکزی برطانوی فوج نے بنگلور پر قبضہ کر لیا اور سرنگاپٹم کو دھمکی دی۔ ٹیپو نے انگریزوں کو رسد اور مواصلات کو ہراساں کیا اور انگریزوں کو مقامی وسائل سے محروم کرنے کی "جلتی ہوئی زمین" کی پالیسی شروع کی۔ اس آخری کوشش میں وہ کامیاب رہا ، کیونکہ انتظامات کی کمی نے کورنوالس کو سرنگاپٹم کے محاصرے کی کوشش کرنے کی بجائے بنگلور واپس جانے پر مجبور کیا۔ انخلا کے بعد ، ٹیپو نے کوئمبٹور میں فوجیں بھیجی ، جسے انھوں نے طویل محاصرے کے بعد دوبارہ حاصل کر لیا۔[45]
1792ء کی مہم ٹیپو کے لیے ایک ناکامی تھی۔ ٹیپو کوسرنگاپٹم سے پہلے بنگلور اور بمبئی سے افواج کے سنگم کو روکنے میں ناکام رہا تھا۔ دو ہفتوں کے محاصرے کے بعد ، ٹیپو نے ہتھیار ڈالنے کی شرائط کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا۔ آنے والے معاہدے میں ، وہ اپنے آدھے علاقوں کو اتحادیوں کے حوالے کرنے پر مجبور اپنے دو بیٹوں کو یرغمال بنا کر رہا تھا جب تک کہ اس نے اپنے خلاف مہم کے لیے انگریزوں کو جنگی معاوضے کے طور پر طے شدہ پورے تین کروڑ تیس لاکھ روپے ادا نہیں کیے۔ انھوں نے یہ رقم دو قسطوں میں ادا کی اور مدراس سے اپنے بیٹوں کو واپس لے آئے۔ [46]
میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔
4 مئی 1799ء میں ، برطانوی فوجیوں نے سرنگاپٹم قلعے پر آخری حملہ کیا۔ قلعے کی ایک دیوار کے قریب ایک برطانوی توپ خانے کوکھڑا کیا گیا تھا۔ 4 مئی کی صبح ، برطانوی فوجیں کھائی میں چھپ گئیں اور دن کے طلوع ہونے تک انتظار کرنے لگیں ، جب سورج طلوع ہوا تو اچانک قلعے پر حملہ کیا گیا۔ ٹیپو کی فوج حملے کے لیے بہتر طور پر تیار نہیں تھی ، کیوں کہ اس سے دوپہر کے کھانے اور آرام کی توقع کی جارہی تھی۔
سہ پہر ایک بجے کے قریب برطانوی فوجیں جو کھائی میں چھپی ہوئیں تھین باہر آگئیں اور توپ خانے کی حفاظت کے تحت کاویری کی کھائی کو پار کرتے ہوئے سرنگاپٹم قلعے کے سامنے کھائی کو عبورکیا۔ ٹیپو کے محل سے کچھ دیر تک مزاحمت جاری رہی لیکن قلعے میں گولہ بارود ختم ہونے کے ساتھ ہی مزاحمت ٹھنڈی ہو گئی۔ سہ پہر ساڑھے ایک بجے کے قریب انگریزوں نے فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ اس بار ٹیپو سلطان مارا گیا۔ اس کے جسم پر گولیاں چل رہی تھیں۔ ٹیپو کی لاش قلعے کے پانی کے دروازے سے لاشوں کے ڈھیر سے ملی۔ اس کے بیشتر جنگجو قلعے کا دفاع کرتے ہوئے مارے گئے۔ قلعے میں زندہ پائے جانے والوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا۔سرنگاپٹم شہر فاتح فوج نے لوٹ لیا۔
شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔[47]
ٹیپو سلطان 4 مئی، 1799ء میں سرنگا پٹم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اور دوران قرآن كى آیت پڑھتے ہوئے، ان کی شہادت ہوئی۔[48][49][50] ٹیپو سلطان کو ہولی (ڈیڈی) گیٹ وے پر قتل کیا گیا تھا ، جوسرنگا پٹم قلعہ کے شمال مشرقی زاویہ سے 300 گز (270 میٹر) دور واقع تھا۔ [51]انھیں اگلی دوپہر گماز میں اپنے والد کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔ جب انگریزوں نے شہر کی دیواریں توڑ دیں تو فرانسیسی فوجی مشیروں نے ٹیپو سلطان کو خفیہ راستوں سے فرار ہونے اور باقی جنگیں دوسرے قلعوں سے لڑنے کو کہا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔[52] ٹیپو سلطان گرتے گرتے بھی دشمن کے دو سپاہیوں کی گردنیں اتار گئے۔ وہ شہید ہو چکا تھے لیکن ان کے ہاتھ میں تلوار موجود تھی، دشمن کا کوئی بھی سپاہی اس تلوار کی موجودگی میں ان کے قریب جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔[53]
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے 60,000 سے زیادہ سپاہی تھے، تقریباً 4000 یورپی اور باقی ہندوستانی؛ جبکہ ٹیپو سلطان کی افواج کی تعداد صرف 30,000 تھی۔ انگریزوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ٹیپو سلطان کے وزیروں کی طرف سے دھوکا اور انگریزوں کے لیے آسان راستہ بنانے کے لیے دیواروں کو کمزور کرنا۔[54][55] ٹیپو سلطان کی موت نے برطانوی جنرل ہیرس کو "اب ہندوستان ہمارا ہے" کہنے پر مجبور کیا۔ [56]
ٹیپو سلطان کا مقبرہ گنبد میں واقع ہے، جس میں ٹیپو سلطان، ان کے والد حیدر علی اور ان کی والدہ فخر النساء کی قبریں موجود ہیں۔ اسے ٹیپو سلطان نے اپنے والدین کی قبروں کے لیے بنایا تھا۔ انگریزوں نے ٹیپو کو 1799ء میں سری رنگا پٹنہ کے محاصرے میں ان کی موت کے بعد یہاں دفن کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ [57] [58]
ٹیپو سلطان کو دنیا کے پہلے جنگی راکٹ کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے والد نے میسور کے راکٹوں کے استعمال کو وسعت دی تھی ، جس نے راکٹوں میں اہم اختراعات کیں اور ان کے استعمال کی فوجی لاجسٹکس تیار کیں۔ انھوں نے راکٹ لانچر چلانے کے لیے اپنی فوج میں خصوصی فوجیوں کو تعینات کیا۔ یہ افراد ہتھیاروں کو چلانے میں مہارت رکھتے تھے اور انھیں سلنڈر کے قطر اور ہدف کے فاصلے سے حساب کرنے والے زاویے سے اپنے راکٹ لانچ کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ راکٹوں پر دو طرف تیز بلیڈ نصب تھے اور جب اسے فائر کیا گیا تو ایک بڑی فوج کے خلاف کافی نقصان ہوا۔ حیدر کی موت کے بعد ٹیپو نے راکٹوں کے استعمال کو بہت بڑھا دیا اور ایک وقت میں 200 راکٹ فائر تعینات کیے۔ کی لڑائی کے دوران ٹیپو کے ذریعہ تعینات کردہ راکٹ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جدید تھے ، جس کی بنیادی وجہ پروپیلنٹ کو پکڑنے کے لیے لوہے کی ٹیوبوں کا استعمال تھا۔ اس سے میزائلوں (5 کلومیٹر تک کی رینج) کے لیے زیادہ زور اور طویل رینج کو ممکن بنایا گیا۔ [59]
برطانوی روایات میں تیسری اور چوتھی جنگ کے دوران راکٹوں کے استعمال کی وضاحت کی گئی ہے۔ 54 میں سرنگا پٹم میں ہونے والی جنگ کے دوران ، برطانوی گولوں نے راکٹوں پر مشتمل ایک میگزین کو نشانہ بنایا ، جس کی وجہ سے یہ پھٹ گیا اور سیاہ دھوئیں کا ایک بلند بادل پھیل گیا جس میں جنگ سے پھٹنے والی سفید روشنی کے چشمے اٹھے۔ چوتھی جنگ میں ٹیپو کی شکست کے بعد انگریزوں نے میسور کے متعدد راکٹوں پر قبضہ کر لیا۔ [60]
پورے ہندوستان میں سلطنت خدا داد کے حکمران حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہی کو اولیت حاصل رہی کی اس پورے ملک میں بحری طاقت کا استعمال اور اہمیت کو سمجھا،اس وجہ سے سلطان ٹیپو نے قدرتی بندرگاہوں میں نہ صرف توسیع کرائی بلکہ ساحلوں پر حفاظتی انتظامات کیے سلطان نے اپنی زندگی میں اور نگرانی میں بیس بڑے اور بتیس چھوٹے جہاز تیار کروائے، بڑے بڑے جہازوں پر 72 توپیں نصب کی جا سکتی تھی کے علاؤہ 66 جہاز اور تھے جو غیر مسلح جہاز تھے،اس کے علاؤہ تھے۔[61]
جہاز | لمبائی | تعداد | |
---|---|---|---|
پہلا جہاز | 110 فٹ | 3 | |
دوسرا جہاز | 104 فٹ | 1 | |
تیسرا جہاز | 105 فٹ | 2 |
اپنی مستقل جنگی مصروفیات کی وجہ سے ، حیدرعلی اور ٹیپو سلطان کو ایک نظم و ضبط والی فوج کی ضرورت تھی۔ اس طرح ، راجپوتوں ، مسلمانوں اور بیدروں کو مقامی ملیشیا کی جگہ کل وقتی خدمت کے لیے داخل کیا گیا تھا ۔ [63]
مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی تاج پوشی کے فوراً بعد ، ٹیپو سلطان نے مغل شہنشاہ سے سرمایہ کاری کی کوشش کی۔ انھوں نے شاہ عالم ثانی کے وفادار لوگوں سے "نصیب الدولہ" کا حاصل کیا۔ ٹیپو سلطان ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے نجات دلانے اور فرانس کی بین الاقوامی طاقت کو یقینی بنانے کی جستجو میں بیرونی ممالک کے ساتھ اپنی سفارت کاری کا ماہر تھا۔ اپنے والد کی طرح انھوں نے بیرونی ممالک کی طرف سے جنگیں لڑیں جو شاہ عالم دوم کے بہترین مفاد میں نہیں تھیں۔ غلام قادر کے 10 اگست 1788ء کو شاہ عالم ثانی کو اندھا کرنے کے بعد ٹیپو سلطان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ 1799ء میں سرنگا پٹم کے سقوط کے بعد نابینا شہنشاہ نے ٹیپو پر پچھتاوا کیا لیکن نظام حیدرآباد پر اپنا اعتماد برقرار رکھا، جس نے اب انگریزوں کے ساتھ صلح کر لی تھی۔[64]
مراٹھوں کی طرف سے کافی خطرات کا سامنا کرنے کے بعد ، ٹیپو سلطان نے افغان درانی سلطنت کے حکمران زمان شاہ درانی کے ساتھ خط کتابت شروع کردی ، تاکہ وہ انگریزوں اور مراٹھوں کو شکست دے سکیں۔ ابتدائی طور پر زمان شاہ نے ٹیپو کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ، لیکن افغانستان کی مغربی سرحد پر فارس کے حملے نے اس کی افواج کا رخ موڑ دیا ، لہذا ٹیپو کو کوئی مدد فراہم نہیں کی جاسکی۔
1787ء میں ٹیپو سلطان نے عثمانی دار الحکومت قسطنطنیہ میں ایک سفارتی اہلکار عثمانی سلطان عبد الحمید اول کے پاس بھیجا اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف فوری مدد کی درخواست کی۔ ٹیپو سلطان نے عثمانی سلطان سے درخواست کی کہ وہ اسے فوجی اور فوجی ماہرین بھیجیں۔ مزید برآں ، ٹیپو سلطان نے عثمانیوں سے مکہ ، مدینہ ، نجف اور کربلا میں اسلامی مزارات کی دیکھ بھال میں تعاون کرنے کی اجازت بھی طلب کی۔
تاہم ، عثمانی خود بحران میں تھے اور روسی سلطنت کے ساتھ ایک نیا تنازع شروع ہو گیا تھا ، جس کے لیے عثمانی ترکی کو روسیوں سے دور رہنے کے لیے برطانوی اتحاد کی ضرورت تھی۔ لہذا وہ ہندوستان میں انگریزوں سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ بحر ہند میں عثمانی بیڑے کو منظم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ، ٹیپو سلطان کے سفیر صرف اپنے عثمانی بھائیوں سے تحائف لے کر وطن واپس آئے۔ اس کے باوجود ، ٹیپو سلطان کی سلطنت عثمانیہ اور خاص طور پر اس کے نئے سلطان سلیم سوم کے ساتھ خط کتابت سال 1799ء میں اپنی آخری جنگ تک جاری رہی۔ [65]
اپنے والد کی طرح ٹیپو سلطان نے فارس میں زند خاندان کے حکمران محمد علی خان کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے۔ ٹیپو سلطان نے سلطنت عمان کے حکمران حماد بن سعید کے ساتھ بھی خط کتابت کی۔ [66]
ٹیپو سلطان اور میسور کا ریشم سے لگاؤ 1780ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے اپنے دربار میں چین میں زیر اقتدار چنگ خاندان کے سفیر سے ریشم کا کپڑا وصول کیا۔ ٹیپو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اس سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اس نے اپنی سلطنت میں اس کی پیداوار کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے چین کی طرف واپسی کا سفر بھیجا ، جو بارہ سال بعد واپس آیا۔ [67]
ٹیپو سلطان کے ساتھ الحاق کی کوششوں میں ، نپولین نے 1798ء میں عثمانی مصر پر قبضہ کر لیا۔ حیدر علی اور ٹیپو دونوں نے فرانسیسیوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی ، جو واحد یورپی طاقت تھی جو اب بھی برصغیر میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو چیلنج کرنے کے لیے کافی مضبوط تھی۔ 1782ء میں ، لوئس سولہویں نے پیشوا مدھو راؤ نارائن کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس معاہدے نے بسی کو اپنی فوجوں کو آئیل ڈی فرانس (اب ماریشس) میں منتقل کرنے کے قابل بنایا۔ اسی سال ، فرانس کے ایڈمرل ڈی سفرن نے حیدر علی کو لوئس سولہویں کی ایک تصویر پیش کی اور اتحاد کا مطالبہ کیا۔ [68]
حیدر علی نے انتقال سے قبل وصیت کی تھی کہ میر صادق، میر غلام علی لنگڑا اور پورنیا کے بارے میں اطمینان نہیں ہے، میرے بعد تم ان کو قتل کر دینا۔ لیکن ٹیپو سلطان نے حیدر علی کی وصیت پر عمل آوری نہ کرنے کا خمیازہ اپنی جان دے کر چکایا۔[69]
میر صادق متحدہ ہندوستان میں میسور کے ٹیپو سلطان کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز تھا۔ سلطان حیدر علی نے ایک مرتبہ اسے معزول کر دیا اگرچہ پھر بحال بھی کر دیا لیکن میر صادق نے یہ بات دل میں رکھی اور اپنی توہین کے انتقام پر تلا ہوا تھا ۔ میر صادق کے اثر ورسوخ کا یہ عالم تھا کہ وہ سلطان تک کوئی خبر ہی نہ پہنچنے دیتا اسی وجہ سے تیسری اور چوتھی انگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان نے شکست کھائی ۔ ٹیپو کو ایک مرتبہ میر صادق کی بدعنوانی کا علم ہوا، چھاپے کے دوران اس کے گھر سے دس لاکھ روپے اور ایک لاکھ اشرفیاں محمد شاہی برآمد ہوئیں۔ جس کے بعد وہ کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ فیصلہ کن موڑ پر سپاہیوں سے کہا کہ وہ جا کر اپنی تنخواہیں وصول کر لیں۔ اس سے ٹیپو سلطان کا دفاع کمزور ہوا۔ جس وقت گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور سلطان ڈیوڑھی کے دروازے سے باہر نکلا تو اس نے دروازے کو اندر سے بند کرا دیا۔
پنڈت پورنیا نے فرانسیسیوں اور سلطان ٹیپو کے مابین ہونے والے فوجی معاہدہ کی نقل میسور کی رانی لکشمی امانی کو پہنچائی تھی۔ جس نے بعد میں اس کی اطلاع انگریز افسر جنرل ہیرس کو پہنچائی۔ اس کی پالیسی کی وجہ سے کمپنی نے اس کو میسور کا دیوان منتخب کیا۔ پورنیا کی غداری آخر وقت تک بے نقاب نہیں ہوئی۔ جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا تو علانیہ نمک حرامی کرتا ہے یعنی شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلاکر انگریزی فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت فرا ہم کرتا ہے۔
میر غلام علی قلعہ جات اور افواج کا ناظم اعلیٰ تھا۔ جسے سفیر بناکر سلطان نے ترکی کے دربار اور دیگر مقامات پر بھیجا گیا۔ جب وطن واپس لوٹا تو اس کے خلاف خرد برد کی شکایت ہوئی، جو تحائف سلطان ترکی نے ٹیپو سلطان کے لیے بھیجے تھے اس نے چھپا لیا ہے، خانہ تلاشی کی گئی تو سامان برآمد ہو گیا۔ جس پر غلام علی کو نظر بند کر دیا گیا۔ معافی کے بعد سلطان نے رہا کرکے وزیر بحر بنا دیا۔
راجا خاں ، سلطان کے ذاتی عملہ میں شامل تھا لیکن سکّوں کی کھنک دیکھ کر ایمان بیچنے میں دیر نہ کی۔ آخری ایام تک اس کے اوپر شک کی انگلی تک نہیں اٹھی۔ اس نے ہی شہادت سے پہلے سلطان کو خود سپردگی کا مشورہ دیا تھا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ان کے گلے سے موتیوں کا قیمتی ہار بھی اس نے ہی چرایا تھا۔ میسور کی سلطنت میں بخشی کا عہدہ دیا گیا۔
ٹیپو سلطان کی کئی بیویاں تھیں۔ میں سے ایک سندھ صاحبہ اپنی خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے کافی مشہور تھیں اور جن کے پوتے صاحب سندھ سلطان تھے جو شہزادہ سید الشریف احمد حلیم الزمان خان سلطان صاحب کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ ٹیپو کے خاندان کو انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا تھا۔ کئی دیگر اولادیں اب بھی کولکاتا میں رہتی ہیں ۔ [70][71]
ان کے بیٹے یہ تھے:
میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔[73]
” | جناب عالی!
آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں اور میری فوج اور علاقے کے ہر محبِ وطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔ اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان۔[74] |
“ |
شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی۔ 1929ء میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ انھوں نے فرمایا:[75]
” | ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کہ اس مقصد کی راہ میں شہید ہو گیا۔ | “ |
علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں سلطان ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے۔[76]
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول | ||
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول |
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز | ||
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول |
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں | ||
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول |
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئل نے | ||
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول |
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے | ||
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول |
سیماب اکبرآبادی نے مندرجہ ذیل نظم کے ذریعے خراج عقیدت پیش کی ہے۔[77]
اے شہید مرد میدان وفا تجھ پر سلام | ||
تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام |
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا | ||
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا |
اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا | ||
آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھو دیا |
بت پرستوں پر کیا ثابت یہ تو نے جنگ میں | ||
مسلم ہندی قیامت ہے حجازی رنگ میں |
عین بیداری ہے یہ خواب گراں تیرے لیے | ||
ہے شہادت اک حیات جاوداں تیرے لیے |
تو بدستور اب بھی زندہ ہے حجاب کور میں | ||
جذب ہو کر رہ گیا ہستی پر شور میں |
ٹیپو سلطان کے تجزیے اکثر پرجوش اور منقسم رہے ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کی حکومتوں نے اکثر ٹیپو سلطان کی یاد اور ان کی حکومت کی یادگاروں اور آثار کا جشن منایا ہے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی بڑی حد تک تنقید کرتی رہی ہے۔ ہندوستان میں اسکول وں اور کالجوں کی درسی کتابوں میں سرکاری طور پر انھیں 18 ویں صدی کے بہت سے دوسرے حکمرانوں کے ساتھ "مجاہد آزادی" کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے یورپی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔[78] ہندوستان کے آئین کی اصل کاپی میں ٹیپو سلطان کی ایک پینٹنگ موجود ہے۔[79] 14 ویں بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے ریاستی سیکریٹریٹ ودھان سودھا کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے موقع پر کرناٹک اسمبلی سے اپنے خطاب میں ٹیپو سلطان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "ٹیپو سلطان انگریزوں سے لڑتے ہوئے بہادری سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ وہ جنگ میں میسور راکٹوں کی ترقی اور استعمال میں بھی پیش پیش تھے۔ اس ٹیکنالوجی کو بعد میں یورپیوں نے اپنایا۔[80]
ٹیپو سلطان کو پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر بھی سراہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ٹیپو سلطان کو ایک مجاہد آزادی کے طور پر سراہتے ہیں۔[81]
ٹیپو سلطان نے نیڈومکوٹا (1789ء) کی جنگ کے دوران ٹراونکور کے نائروں کے ساتھ ایک جنگ میں اپنی تلوار کھو دی تھی ، جس میں ٹراونکور فوج اور برطانوی فوج کے شدید مشترکہ حملے کی وجہ سے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔[82] راجا کیسواداس کی قیادت میں نائر فوج نے الووا کے قریب ٹیپو کی فوج کو ایک بار پھر شکست دی۔ مہاراجا دھرم راجا نے مشہور تلوار آرکوٹ کے نواب کو دی جس سے آرکوٹ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اس تلوار کو جنگی ٹرافی کے طور پر لیا اور لندن بھیج دیا۔ یہ تلوار لندن کے نمبر 1 مانچسٹر اسکوائر کے والیس کلیکشن میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔
ٹیپو کو عام طور پر میسور کا شیر کہا جاتا تھا اور اس نے اس جانور کو اپنی حکومت کی علامت (ببری / بابری طور پر اپنایا تھا۔[83] کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان ایک فرانسیسی دوست کے ساتھ جنگل میں شکار کر تھا۔[84] وہ وہاں ایک شیر کے ساتھ آمنے سامنے آئے۔ شیر نے سب سے پہلے فرانسیسی فوجی پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ ٹیپو کی بندوق کام نہیں کر رہی تھی اور شیر کے چھلانگ لگانے کے بعد اس کا خنجر زمین پر گر گیا۔ وہ خنجر کے پاس پہنچا، اسے اٹھایا اور اس سے شیر کو مار ڈالا۔ اس سے انھیں "میسور کا شیر" کا نام ملا۔ یہاں تک کہ اس نے فرانسیسی انجینئروں کو اپنے محل کے لیے ایک مکینیکل شیر بھی بنایا۔ [85]آلہ ، جسے ٹیپو ٹائیگر کے نام سے جانا جاتا ہے ، وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم ، لندن میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔[86] نے نہ صرف اپنے محل اور علاقے کے ارد گرد شیروں کی باقیات رکھی تھیں ، بلکہ اپنے بینرز اور کچھ ہتھیاروں پر شیر کی علامت بھی رکھی تھی۔ شیر کی ڈرائنگ کے اندر تحریریں ہوتی تھیں، جو ٹیپو کے عقیدے یعنی اسلام کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔[87] الیگزینڈر بیٹسن نے بتایا کہ "اس کے محل میں مختلف قسم کی عجیب و غریب تلواریں، خنجر اور پستول پائے گئے۔ ان میں سے کچھ عمدہ کاریگری کے تھے، سونے یا چاندی سے نصب تھے اور شیروں کے سروں اور پٹیوں کے ساتھ خوبصورتی سے ڈھکے ہوئے تھے اور ان پر فارسی اور عربی کی آیات درج تھیں۔[88]
ٹیپو نے اپنی آخری جنگ میں سرنگا پٹم میں جو آخری تلوار استعمال کی تھی اور جو انگوٹھی اس نے پہنی تھی اسے برطانوی افواج نے جنگی ٹرافی کے طور پر لے لیا تھا۔ اپریل 2004ء تک انھیں برٹش میوزیم لندن میں میجر جنرل آگسٹس ڈبلیو ایچ میرک اور نینسی ڈوویگر کی جانب سے تحفے کے طور پر رکھا گیا تھا۔[89] اپریل میں لندن میں ایک نیلامی میں وجے مالیا نے ٹیپو سلطان کی تلوار اور کچھ دیگر تاریخی نوادرات خریدے اور انھیں ہندوستان واپس لے آئے۔[90]
اکتوبر 2013ء میں ٹیپو سلطان کی ملکیت والی ایک اور تلوار منظر عام پر آئی جسے ان کی بابری (ٹائیگر پٹی کی شکل) سے سجایا گیا تھا اور سوتھیبی نے اسے نیلام کر دیا تھا۔[91] ایک ٹیلی فون بولی دہندگان نے £ 122،98 خریدا تھا۔[92]
2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت بر سر اقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد نواب حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کاالزام عائد کیا جانے لگا۔ نومبر، 2015ء میں کرناٹک کی بر سر اقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پُرتشدد چھڑپیں ہوئی۔ یہ دعوٰی کیا گیا کہ اس میں مقامی قائد ڈی ایس کُٹپا کی موت ہو گئی۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک بیس فٹ اونچی دیوار سے گرکر فوت ہو گئے۔ چھڑپوں میں ایک مسلم شخص ہلاک ہو گیا۔[93]
ٹیپو سلطان کے سیکولر کردار اور تحریک آزادی میں کردار کے اعتراف میں ہر سال نومبر میں کرناٹک میں وہاں کا محکمہ ثقافت ٹیپو سلطان جینتی مناتا تھا۔ تاہم 2019ء بی ایس یدی یورپا کی بی جے پی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان تقاریب کے بند کرنے کا اعلان اسی سال جولائی کے مہینے میں کر دیا گیا۔ باوجود اس کے عوامی سطح پر ہر سال 10 نومبر کو ٹیپو سلطان جینتی اور 4 مئی کو ٹیپو سلطان کا یوم شہادت بڑی عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ [94]
اردو کے ممتاز ادیب، صحافی اور دانش وَر سیّد سبطِ حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی، گورنر جنرل (1798۔ 1805ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یومِ تاسیس 24 مئی (یا 4 مئی) 1800ء تصوّر کیا جائے۔ کیوں کہ وہ دن سلطان ٹیپو کے دارُالحکومت سرنگاپٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔[95]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.