From Wikipedia, the free encyclopedia
منصفِ اعظم افتخار محمد چودھری (ولادت: 12 دسمبر 1948ء) 2005ء سے 2013ء تک پاکستان کی عدالت عظمٰی کے منصف اعظم رہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے منصف اعظم ہیں ۔[2] 9 مارچ 2007ء کو صدر پاکستان اور فوجی ڈکٹیٹر اور فوج کے سربراہ (رئیس عسکریہ جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انھیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔ اس معطلی کے لیے "غیر فعال" کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ قواعد کی رو سے وہ تب بھی منصف اعظم رہے، جس کا اعتراف حکومتی وکلا نے کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت اعظمٰی کے منصف اعظم کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر معطل کیا گیا تھا۔ افتخار چودھری حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں اور دوسری بے قاعدگیوں پر ازخود اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں مشہور ہیں۔[3] اس سلسلے میں سب سے مشہور پاکستان سٹیل ملز کا مقدمہ ہے۔ معطلی کے خلاف عزت مآب افتخار چودھری نے عدالت اعظمٰی میں مقدمہ دائر کیا۔ 20 جولائی 2007ء کو عدالت نے تارٰیخ ساز فیصلے میں افتخار محمد چوہدری کو عہدے پر بحال کر دیا اور صدارتی ریفرنس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے نتیجہ میں افتخار چودھری اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہو گئے۔
افتخار محمد چوہدری | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
اٹھارویں منصف اعظم پاکستان | |||||||
مدت منصب 22 مارچ 2009ء – 11 دسمبر 2013ء | |||||||
نامزد کنندہ | پرویز مشرف | ||||||
| |||||||
مدت منصب 30جون 2005ء – 3 نومبر 2007ء ( پرویز مشرف کے حکم سے 22 مارچ 2009ء تک معطل رہے) | |||||||
| |||||||
جسٹس عدالت عالیہ پاکستان | |||||||
مدت منصب 4 فروی 2000ء – 27 جون 2005ء | |||||||
نامزد کنندہ | رفیق تارڑ | ||||||
منصف اعظم عدالت عالیہ بلوچستان | |||||||
مدت منصب 22 اپریل 1999ء – 3 فروری 2000ء | |||||||
نامزد کنندہ | رفیق تارڑ | ||||||
| |||||||
ایڈیشنل قاضی عدالت عالیہ بلوچستان | |||||||
مدت منصب 6 نومبر 1990ء – 22 اپریل 1999ء | |||||||
نامزد کنندہ | غلام اسحق خان | ||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 12 دسمبر 1948ء (76 سال)[1] کوئٹہ | ||||||
شہریت | پاکستان | ||||||
مذہب | اسلام | ||||||
تعداد اولاد | 5 | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | سندھ مسلم لاء کالج جامعہ سندھ | ||||||
پیشہ | منصف | ||||||
قومی اعزازات | تمغۂ آزادی | ||||||
درستی - ترمیم |
افتخار محمد چودھری | |||
|
3 نومبر 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا اور جناب افتخار چودھری سمیت متعدد منصفین کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے خلاف وکلا اور دیگر سیاسی جماعتوں نے جدوجہد کا آغاز کیا۔ تاہم 2008 انتخابات کے بعد بھی حکومت منصفین کو بجال کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ بالآخر مارچ 2009ء میں سیاسی صورت حال کے پلٹا کھانے کے بعد وزیر اعظم گیلانی نے بجالی کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں 21 مارچ 2009ء نصف شب افتخار چودھری نے تیسیری مرتبہ منصفِ اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ مدت ملازمت مکمل ہونے پر 11 دسمبر 2013ء کو سبکدوش ہو گئے۔ آخری مقدمہ لاپتہ افراد بارے سماعت کیا۔
رشوت خوری اور بزدلی سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ بہت بہادر اور ایماندار آدمی ہیں فاضل الفنیات اور فاضل القانون کی اسناد کے حامل افتخار چودھری مُحاماہ میں 1974ء میں شامل ہوئے۔ پھر 1976ء میں لاہور عدالت عالیہ کے وکیل اور 1985ء میں عدالت عظمٰی کے وکیل بنے۔ 1989ء میں انھیں بلوچستان کے لیے وکیل جامِع متعین کیا گیا جہاں سے بعد میں ترقی کر کے بلوچستان کے قاضی تکمیلی بن گئے۔ اس عہدے پر 6 نومبر، 1990ء سے 21 اپریل، 1999ء تک متعین رہے۔ عدالت عالیہ کے قاضی ہونے کے علاوہ افتخار چودھری نے قاضی مخزن، خصوصی عدالت برائے تیز رفتار سماعت کے قاضی، چوکی عدالت مرافعہ کے جج اور کمپنی جج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ عدالت عالیہ انجمن مُحاماہ، کوئٹہ کے صدر بھی رہے جبکہ دو مرتبہ انجمن مُحاماہ کے منتخب رکن بھی رہے۔ بعد ازاں 1992ء میں بلوچستان مقتدرہ مجلس بلدیاتی انتخابات کے امیر مجلس کے طور پر متعین کیے گئے اور 1998ء میں ایک دفعہ پھر اس عہدے پر دوسری مدت کے لیے متعین ہوئے۔ کچھ عرصہ بلوچستان کے لیے امیر مجلس برائے صوبائی تخت مراجعہ کے عہدے پر بھی کام کیا۔ دو مرتبہ پاکستان انجمن ہلال احمر، بلوچستان کے امیر مجلس منتخب ہوئے۔ اس وقت امیر مجلس پاکستان مجلس وکلاء کی پنچایت نامداری (Enrollment Committee of Pakistan Bar Council) اور امیر مجلس سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کے عہدوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انھیں 22 اپریل، 1999ء کو بلوچستان عدالت عالیہ کا منصف اعظم نامزد کیا گیا۔ اپنی خدمات اور تجربے کی بنیاد پر 4 فروری، 2000ء کو انھیں عدالت عظمٰی میں ترقی دے دی گئی۔
انھیں 30 جون، 2005ء کو جنرل پرویز مشرف نے منصف اعظم پاکستان نامزد کیا۔ رخصت ہونے والے منصف اعظم ناظم حسین صدیقی کے بعد منصف افتخار محمد چودھری عدالت اعظمٰی کے اعلی ترین قاضی ہیں۔
14 جولائی، 2005ء کو سرحد اسمبلی نے چھ دینی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پیش کردہ متنازع حسبہ بل کو منظور کر لیا۔ یہ بل حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عوام کو اسلامی اقدار پر چلنے پر مجبور کر سکے۔ صدر پرویز مشرف نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرینس داخل کیا جسے جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
20 فروری، 2007ء کو عدالت عظمٰی میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے حسبہ بل کی تین شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔[4]
31 مارچ 2006ء کو حکومت نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ پاکستان سٹیل ملز کے 75 فیصد (ایک ارب 68 کروڑ) حصص 21 ارب 68 کروڑ پاکستانی روپے میں فروخت کر کے اس کی نجکاری کر دی[5]۔[6] تاہم خریداروں کی شناخت کے بارے میں کافی اختلافات اور ابہام پیدا ہو گئے۔ نجکاری کمیشن نے نجکاری سے پہلے اور بعد بولی دینے والوں کے اور خریداروں کے جو نام ظاہر کیے تھے ان میں اختلاف پایا گیا تھا۔[5] علاوہ ازیں ادارہ کی مزدور یونینز بھی نجکاری کے عمل سے خائف تھیں۔ نتیجۃ اس فروخت کو پیپلز مزدور یونین اور پاکستان وطن پارٹی کے بیریسٹر ظفراللہ خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ 24 مئی، 2006ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے نو رکنی بنچ نے حکم امتناعی جاری کر کے نئی انتظامیہ کو ملز کا کنٹرول سنبھالنے سے روک دیا۔ بعد ازاں، 15 جون، 2006ء اسی بنچ نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ پاکستان کے حق میں ایک بہت فیصلہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے تھے:
9 مارچ، 2007ء، جمعہ کے دن، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت معطل کر کے ان خلاف کے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کر دیا۔ اس سے پہلے چیف جسٹس کو صدر نے بلا کر ان سے استعفی طلب کیا جس پر انھوں نے انکار کر دیا۔۔[7] ان کی اصلی مدت 2013ء میں ختم ہونا تھی [8] ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی چیف جسٹس کو "معطل" کیا گیا ہو۔ بار کونسلوں نے اس کے خلاف ھڑتال کا اعلان کیا۔ مشہور وکلا اور ججوں سمیت اکثر اہل علم کے خیال میں یہ اقدام فوجی آمر کی طرف سے کھلم کھلا ڈھٹائی پر مبنی اور آئین کی سراسر خلاف ورزی تھا۔[9] 9 مارچ کو پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو جنرل ہیڈ کوارٹرز بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ رائٹرز کی تصویر کے مطابق اس موقع پر 63 سالہ حاضر سروس "آرمی چیف" پرویز مشرف، جنرل کی وردی میں ملبوس تھے۔ اطلاعات کے مطابق مشرف اس ملاقات میں چیف جٹسس سے کسی قسم کی مفاہمت (سودا بازی) کی کوشش میں تھے۔[10] اس دوران چیف جسٹس پر استعفٰی دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا مگر چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔[11] اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس کو یہاں چار گھنٹے کے لیے مقید کر لیا گیا اور بعد میں انھیں پولیس نے سپریم کورٹ جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد انھیں عملی طور پر اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اگرچہ مشرف کی اس کارروائی کی وزیر اعظم شوکت عزیز نے حمایت کی ہے، مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس واقعہ پر یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا کہ "یہ تنازع فوج اور عدلیہ کے درمیان ہے۔ "[12]
مبصرین کے مطابق جو واقعات پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس کے خلاف کاروائ کا باعث بنے وہ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کی وجہ سے تھا:
ان فیصلوں سے وزیر اعظم شوکت عزیز اور وزیراعلٰی پنجاب چودھری پرویز الہی سخت برھم ہوئے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کی عدالت میں پولیس افسران کی فرائض سے غفلت پر سرزنش سے بھی انتظامیہ ناخوش تھی۔ چیف جسٹس کی طرف سے اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کے مطالبے کی وجہ سے بھی انتظامیہ ان سے کڑھتی تھی۔[13]
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا ٹرائیل خفیہ ہوگا۔ مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے تاکہ عوام کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔[14] ایک رپورٹ جو پاکستان کے اخبار دی نیوز میں اور بی بی سی میں شائع ہوئی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ججوں میں سے ایک کے خلاف مالی بد عنوانی، دوسرے کے خلاف زمین کی ھیرا پھیری کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلے ہی زیرِ التوا ہے۔ اور تیسرے کی بیٹی کا میڈیکل کالج میں داخلہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی سیٹ پر ہوا ہے۔[15]
13 مارچ 2007ء کو چیف جسٹس جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوئے اور تحریری جواب داخل کرایا۔[16] انھوں نے نکتہ اٹھایا کہ کونسل اس کیس کی سماعت کرنے کی اہل نہیں۔ اس سے پہلے بہت ابتر حالات میں چیف جسٹس کو سپریم کورٹ لایا گیا، جہاں وکلا اور مظاہرین کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔[17]
جمعہ کے دن (16 مارچ 2007ء) ملک کے بڑے شہروں میں چیف جسٹس کو "غیر فعال" بنائے جانے کے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پولیس نے متعدد سیاسی رہنماوں کو گرفتار کر لیا۔[18] جوڈیشل کونسل نے اپنی سماعت 21 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔[19] اطلاعات کے مطابق حکومت بوکھلاٹ میں چیف جسٹس افتخار سے کسی مفاہمت کی تلاش میں ہے۔[20]
کونسل نے سماعت 3 اپریل 2007ء تک ملتوی کر دی۔
کونسل نے سماعت 13 اپریل 2007ء تک ملتوی کر دی۔ وکلا نے ریفرنس کے خلاف مظاہرہ کیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔[21]
13 اپریل کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے وکیلوں نے کونسل کے تین جج صاحبان کی عدالت میں شمولیت کے خلاف دلائل دیے، جس کے بعد سماعت 18 اپریل 2007ء تک ملتوی ہو گئی۔ اس موقع پر مختلف شہروں میں افتخار چودھری کے حق میں مظاہرے ہوئے۔
جوڈیشل کونسل نے اپنے خلاف اعتراضات مسترد کر دیے اور سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ کے باہر چیف جسٹس کے حق میں مطاہرے ہوئے۔
کونسل متعدد بار مختصر سماعت کے بعد سماعت دو چار دن کے لیے ملتوی کرتی رہی۔
اصطلاح | term |
---|---|
قضائی مجلس عظمٰی |
Supreme Judicial Council |
چیف جسٹس افتخار چودھری کے وکلا نے قضائی مجلس عظمٰی کی تشکیل کو آئینی نکات اُٹھاتے ہوئے عدالت عظمٰی میں اعتراض کر دیا۔ عدالت عظمٰی کے مَحکمہ نے 19 اپریل کو یہ مقدمہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔[22]
اس مَحکمہ نے 7 مئی کو حکم دیا کہ قضائی مجلس عظمٰی صدارت ریفرنس سے متعلق اپنی سماعت معطل کر دے۔ اس کے علاوہ صدارتی ریفرنس اور اس سے متعلق متعلقہ درخواستوں کی سماعت کے لیے نیا عدالت عظمٰی کا مکمل (full) مَحکمہ تشکیل دینے کی ہدایت کی۔[23]
عدالتِ اعظمٰی کے پورے مَحکمہ، جس کی سربراہی منصف خلیل الرحمٰن رمدے کر رہے ہیں، کے سامنے دونوں اطراف کے وکیل دلائل دے رہے ہیں۔ حکومتی وکلا کا زور اس بات پر رہا کہ عدالت کو یہ مقدمہ سننے کا حق ہی نہیں۔ یہ کام قضائی مجلس عظمٰی کا ہے۔ وکیل قیوم نے ملائیشیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں منصفِ اعظم کو فارغ کیا گیا تھا اور جن منصف نے اس برطرفی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، انھیں بھی ملائشیا کے صدر نے برطرف کر دیا تھا۔ منصف اعظم افتخار چودھری کے وکیل چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ مقدمہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی عدالتِ اعظمٰی نے ایسے مقدمات سنے ہیں جن کے بارے آئین میں یہ تحریر تھا کہ ان پر کسی عدالت میں اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز نے افتخار چودھری کی طرف سے حلفیہ بیان بھی داخل کرایا جن میں 9 مارچ 2007ء کو ہونے والے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔[24] حلفیہ بیان کا متن (ویکی سورس) 7 جون 2007ء کو دو خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اور صدر کے عملہ کے سربراہ نے عدالت میں 9 مارچ 2007ء کے واقعات کے متعلق جوابی حلفیہ بیانات داخل کروائے۔[25]
عدالتِ اعظمٰی کے مَحکمہ نے عملی طور پر درخواست کو قابلِ سماعت سمجھتے ہوئے، وکلا کو ریفرنس کے متعلق دلائل دینے کی ہدایت کی[26]
حکومتی وکلا کی طرف سے عدالتِ اعظمی کے منصفین سے متعلق قابلِ اعتراض مواد عدالت میں داخل کرایا گیا، جس پر عدالتِ اعظمٰی کے مَحکمہ نے 2 جولائی 2007ء کو حکومت کی سرزنش کی اور ایک لاکھ (100000) روپے کا جرمانہ کیا۔[27][28][29]
16 جولائی 2007ء کو صدر کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے عدالت کو مطلع کیا کہ حکومت منصفِ اعظم کے خلاف "غیر موزوں عدالتی رویہ" کے الزامات واپس لینا چاہتی ہے۔ حکومت کا الزام تھا کہ دو مواقع پر منصفِ اعظم نے زبانی فیصلہ کچھ دیا اور تحریری کچھ اور۔ تاہم یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کِن مقدموں کی بابت تھا اور "زبانی فیصلہ" کس کے گوش گزار کیا گیا تھا۔[30]
17 جولائی کو عدالت نے وفاقی اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے، جس میں یہ کہ 9 مارچ کو رات کے اندھیرے میں قضائی مجلس عظمٰی کا اجلاس کس نے بلایا تھا؟ مخدوم علی خان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔[31][32]
حکومت کے وکیل قیوم نے امریکا میں منصفین کی برطرفی کی مثالیں دیں۔ عدالت نے انھیں ملکی حالات کے موافق مثالیں دینے کو کہا۔ صدر کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے 1921ء میں ایسے برطانوی منصفِ اعظم کی مثال دی جس کو اپنے استعفٰی کا اخبار میں پڑھ کر معلوم ہوا۔ انھوں نے عدالت کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ منصفین نے خود عبوری منصفِ اعظم کو عملی طور پر قبول کر کے جناب افتخار چودھری کی "معطلی" کو "قبول" کیا۔
اپنے اختتامی دلائل میں افتخار چودھری کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت واضح فیصلہ دے اور کوئی درمیانی راہ نکالنے کی جستجو نہ کرے۔ انھوں نے ریفرنس کو تمام برائی کی جڑ قرار دیا اور کہا کہ اگر عدالت نے ریفرنس برقرار رکھا تو وہ صدر اور وزیر اعظم کو عدالت میں گواہ کے طور پر طلب کریں گے۔ انھوں نے بھی منصفین کے عبوری منصف ِ اعظم کو عملی طور پر قبول کرنے کا ذکر کیا تو جناب خلیل الرحمن رمدے نے انھیں ڈانٹا اور کہا کہ منصفین کوئی یونین نہیں ہیں۔ اگر منصفین کام کرنا چھوڑ دیتے تو یہ مقدمہ بھی نہ سنا جا سکتا!
جمعہ 20 جولائی کو 41 دن کی سماعت کے بعد منصف خلیل الرّحمن رمدے نے شام چار بجے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جناب افتخار چودھری کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا اور یہ بحالی 9 مارچ 2007ء سے سمجھی جائے گی (جس دن انھیں "معطل" کیا گیا تھا)۔ متفقہ فیصلہ میں عدالت نے صدر کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ 10 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے دیا گیا۔[33]
وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ اور کہا کہ یہ فتح یا شکست کے دعوے کرنے کا وقت نہیں ہے۔[34] صدارتی ترجمان نے بھی عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کا بیان دیا۔
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 29 مارچ 2007ء کو ہائیکورٹ انجمن وکلا، راولپنڈی، سے خطاب کیا، جس میں انھوں نے عدلیہ کی آزاد حثیت پر زور دیا۔[35] جسٹس افتخار اس "غیر فعالی" کے دور میں مختلف شہروں میں انجمنِ وکلا سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سلسلہ کا یہ پہلا خطاب تھا۔
15 اپریل2007ء کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے حیدرآباد میں وکلا سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سندھ ہائی کورٹ کے 15 جج صاحبان نے بھی شرکت کی۔[36]۔
21 اپریل 2007ء کو چیف جسٹس افتخار نے پشاور میں ہائی کورٹ کی وکلا تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق انسانی حقوق کی حفاظت کو نافذ کرنا سپریم کورٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ اس سلسلہ میں انھیں تقریباً 150 عرضیاں عام لوگوں کی طرف سے مدد کے لیے موصول ہوتی تھیں جن کے حقوق پامال کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے بہت سے ایسے معاملات میں کارروائی شروع کی تھی۔[37]
5 مئی کو چیف جسٹس افتخار چودھری قافلے کی شکل میں اسلام آباد سے بذریعہ شیر شاہ سوری سڑک (G.T. road) لاہور روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ مختلف قصبوں اور شہروں میں رکتا 27 گھنٹے میں لاہور پہنچا (6 مئی 2007ء)، جہاں لاہور ہائی کورٹ کے باہر چیف جسٹس کا ققید المثال استقبال ہوا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ "آمریت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ریاست کے دوام کے لیے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی قائم ہو، قانون کا احترام ہو اور انسانی حقوق کی ضمانت ہو۔ " سامعین میں وکلا کی بڑی تعداد کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے 17 جج بھی شامل تھے۔[38]
بعض حلقوں کی طرف سے چیف جسٹس کی ان سرگرمیوں کو "سیاسی جلسہ جلوس" کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔[39] اخبارات کے مطابق، پرویز مشرف کی حکومت نے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ "جوابی" جلوس نکال کر حکومت کی حمایت میں مظاہرہ کریں۔ اس کے علاوہ نامعلوم گروہ کی طرف سے پاکستان کی بڑی اخباروں میں چیف جسٹس کے خلاف بڑی رقوم خرچ کر اشتہار چھاپے جا رہے ہیں۔
12 مئی 2007ء کو چیف جسٹس افتخار چودھری کراچی ہوائی اڈے پر اترے، جہاں انھیں سندھ ہائی کورٹ کی وکلا تنظیم سے خطاب کرنا تھا، مگر شہر میں ہنگاموں کی وجہ سے وہ ہوائی اڈے سے باہر نہ جا سکے۔ شام کو وہ خطاب ترک کر کے واپس اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔[40]پرویز مشرف کی حکومتی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اس موقع پر شہر میں پر تشدد حالات پیدا کیے اور قتل و غارت گری کا بازارگرم رکہا تاکہ چیف جسٹس کا خطاب ممکن نہ رہے۔[41][42]کراچی میں دہشت گردی پر تفصیلی مضمون
26 مئی کو اسلام آباد میں عدالت اعظمیٰ کی عمارت میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے منصفِ اعظم افتخار چودھری نے حکومت کی مختلف شاخوں میں طاقت کی تقسیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے آمریت سے پیدا ہونے والی برائیوں کو اُجاگر کیا۔[43]
2 جون 2007ء کو منصفِ اعظم نے ایبٹ آباد میں خطاب کیا۔[44]
16 جون 2007ء کو افتخار چودھری نے فیصل آباد میں خطاب کیا۔[45]
14 جولائی 2007ء کو لاہور میں منصف اعظم کا ہوائی اڈے سے تحصیل عدالت تک کے راستے میں عوام نے پرتپاک استقبال کیا۔ یہ شاید منصف اعظم افتخار چودھری کا آخری عوامی دورہ ہو۔[46]
3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور آئین معطل کر دیا گیا ہے۔ اسی دِن جناب افتخار چودھری کی سربراہی میں سات رکنی محکمہ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا اور فوج اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ آمر کے غیر قانونی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔[54] تاہم حکومت کے کارندوں نے خبر دی ہے کہ منصفِ اعظم کی خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔ فوج اور پولیس کی بڑی تعداد نے عدالت اعظمی کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔ مبصرین نے اس فوجی اقدام کو عدلیہ کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔[55] واضح رہے کہ عدالت اعظمی کا ایک گیارہ رکنی محکمہ منصف جناب جاوید اقبال کی سربراہی میں پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب پر چند دنوں میں فیصلہ سنانے والا تھا اور اس بات کا قوّی امکان تھا کہ فیصلہ فوجی آمر کے خلاف ہو گا۔[56]
منصف اعظم جناب افتخار چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ حکومتی اقدامات غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں اور ان کی جدوجہہد جاری رہے گی۔[57] انھوں نے وکلا پر زور دیا کہ آئین اور قانون کی بالادستی بجال کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔[58]
اس وقت کی حکومت کے مطابق جناب افتخار چودھری اپنے عہدے سے 3 نومبر کو "برطرف" ہو چکے تھے، تاہم انھوں نے اس "برطرفی" کو مسترد کر دیا اور 14 نومبر کو انسپکٹر جنرل پولیس، اسلام آباد، کو حکم جاری کیا کہ حکومت کے کارندوں کی جانب سے ان کی ممکنہ کوئٹہ منتقلی کو روکا جائے۔[59]
نظربندی کے دوران 30 جنوری 2008ء کو افتخار چودھری نے یورپی پارلیمنٹ کے نام کھلا خط [60][61] جاری کیا، جس میں پرویز مشرف کی صدارت کو قانونی تقاضوں کے لحاظ سے مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے انتہا پسند فوجی جرنیل کہا، جس نے اپنے لیے عدلیہ کے 60 منصفین کو ٹھکانے لگایا، جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کچھ دن پہلے پرویز مشرف نے یورپی دورے کے دوران منصف اعظم پر الزامات کا اعادہ کیا تھا۔ افتخار چودھری نے کہا کہ قانونی طور پر وہ اب بھی منصف اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔
2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 24 مارچ 2008ء کو عدلیہ کے زیر حراست ججوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔،[62] [63] لیکن انھوں نے افتخار محمد چوہدری کو اپنے عہدے پر بحال نہیں کیا۔ اس پر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، جو اس وقت حکومت میں اتحادی تھیں، کے سربراہان آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان عدلیہ کی بحالی کے متعلق یکے بعد دیگرے تین معاہدے ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس کو بحال نہیں کیا گیا۔ چنانچہ دونوں جماعتوں کا اتحاد ٹوٹ گیا اور عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا از سر نو احیاء ہوا۔ اس دوران اکتوبر 2008ء میں چیف جسٹس نے گرفتاری کے بعد عدالت اعظمی کی عمارت میں پہلی مرتبہ قدم رکھا۔[64]
عدلیہ کی عدم بحالی پر وکلا تنظیموں نے 12 تا 16 مارچ 2009ء کو عدلیہ کی بحالی کے لیے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد تک ایک "لانگ مارچ" کرنے کا اعلان کیا جس کی سربراہی وکلا رہنماء اور نواز شریف کر رہے تھے۔ حکومت پاکستان نے ججوں کی بحالی سے انکار کرتے ہوئے چار میں سے تین صوبوں میں دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا جس کے تحت "لانگ مارچ" کے لیے جمع ہونا ممنوع قرار پایا۔ اسی طرح مختلف شاہراہوں کو بند کر دیا گیا تاکہ وکلا وفاقی دار الحکومت تک نہ پہنچ پائیں۔ نیز بعض وکیل رہنماء، سیاسی تنظیموں کے کچھ کارکن اور سول سوسائٹی کے بعض افراد کو زیر حراست لے لیا گیا۔ ان کوششوں کے باوجود لانگ مارچ کے شرکاء 15 اور 16 مارچ کی درمیانی رات تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چند گھنٹے بعد، 16 مارچ کی صبح، وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ افتخار محمد چودھری 21 مارچ سے منصف اعظم کے عہدے پر بحال ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ دوسرے منصفین بھی بحال ہوں گے[65]،۔[66] اس پر لانگ مارچ ختم کر دیا گیا۔
21 مارچ 2009ء کو نصف شب افتخار چودھری تیسری مرتبہ منصف اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے۔[67]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.